تحریک آزادی کشمیرکے سرخیل سید علی گیلانی  ۔ یونیکوڈ ٹیکسٹ

تحریک آزادی کشمیرکے سرخیل سید علی گیلانی ۔ یونیکوڈ ٹیکسٹ

تحریک آزادی کشمیرکے سرخیل سید علی گیلانی

تحریر و تحقیق:
راجہ ابرار احمد

کتاب کا عنوان: تحریک آزادی کشمیرکے سرخیل
سید علی گیلانی
تحریر و تحقیق: راجہ ابرار احمد
ریسرچ اسسٹنٹ: محمد موسیٰ سومرو
معاونین : ادارہ اختلاف نیوز میڈیا گروپ اینڈ پبلیکیشنز ،انسٹیٹوٹ آف کنفلیکٹ ریزولوشن اینڈ سوشل ڈویلمنٹ ،مائی ورچوئل یونیورسٹی ،سراجہ امتیاز احمد راجہ عمران خان اعجاز احمد شائق شمازیہ اقبال راجہ
تعداد اشاعت: 1000
سال اشاعت؛ 2021
پبلشر: اختلاف نیوز میڈیا
گروپ اینڈ پبلیکیشنز

فہرست عنوانات

مصنف کا تعارف
کتاب کاتعارف
تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل۔سید علی گیلانی
پیش لفظ
دیباچہ
سید علی شاہ گیلانی پروفائل
سید علی گیلانی کی زندگی کا یادگاراور بیش قیمت انٹرویو
آزادی کشمیر کے لئےسب سے زیادہ قربانیاں دینے والے کشمیر کے بزرگ مزاحمتی رہنما سے بات چیت : راجہ ابرار احمد خان
سید علی گیلانی کے تاریخی خظوط
کیا سید علی گیلانی سے جڑے چند سوالات
علی شاہ گیلانی کےسیاسی و تحریکی جانشین
حریت کانفرنس؛ ماضی، حال اور مستقبل کیا؟
سید علی گیلانی کے بعد۔تحریک ِ آزادی کشمیر اور ہماری ذمہ داری
کشمیر کی آزادی کی تحریک کو سید علی گیلانی
کی سوچ کے مطابق کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟

مصنف کا تعارف
میرا نام ابرار احمد ہے میرا تعلق نارمہ راجپوت قبیلے سے ہے میں10 مارچ انیس سوبیاسی کو آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے ایک گاؤں کھوئی رٹہ میں پیدا ہوا میرا لڑکپن بھی وہیں گزرا اور اسکولنگ بھی وہیں ہوئی۔جبکہ ماسٹرز میں نے قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے کیا۔ کشمیر کے حوالے سے میری بہت سی یادیں قابل ذکر ہیں۔ ایک کشمیری نوجوان ہوتے ہوئے میں جب بھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و زیادتی کی خبریں سنتا تھا تو میرا خون کھولے لگتا تھا۔کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے میری سوچ ایک آزادی پسند مجاہد کی تو تھیں۔اس لئے لڑکپن اور نوجوانی میں تو بزور قوت بازو کشمیر کو آزاد کرانے کی سوچ کا حامل تو رہا ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سوچ میں میچورٹی آتی گئی۔ اوربالآخر قانون، قواعد اور ضوابط کے تحت زندگی گزارنے کی سوچ حاوی ہوتی گئی۔ اور نہ صرف کشمیر بلکہ دنیا بھر کے متنازعہ علاقوںمظلوم و محکوم افراد کی پریکٹیکل مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس دنیا بھر کے متنازعہ علاقوں کے تنازعات حل کرنے کےلئے کام کا آغاز کیا ۔ اس حوالے سوشل میڈیا پر کئی پلیٹ فارم بنائے۔ مگر جو سب سے اہم پیش رفت رہی وہ تنازعات کے حل کےلئے تحقیق کے ذریعےٹھوس اور قابل عمل تجاویز پیش کرنے والا ایک مستند تحقیق ادارے کا قیام تھا۔ یہ ادارہ میں نے گذشتہ سال بنایا تھا۔ اور یہ پورے زور و شور سے تحقیقی سرگرمیوں میں مصرف عمل ہے۔ اور انٹریشنل کمیونٹی، عالمی مصالحتی اداروں اور پالیسی میکرز کی توجہ کےلئے تحقیقی رپورٹس، نیوزلیٹرز اور خطوط لکھ کر عالمی تنازعات بالخصوص کشمیر کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتا رہا ہے۔
اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی بہت سی یادیں وابستہ ہیں اپنے اسکول کے دور میں میں ایک اچھا مقرر تھا اور تقریر کے بہت سے مقابلوں میں حصہ لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی بہت بہت سے سرٹیفکیٹ وٹرافیاں اب بھی میرے پاس موجود ہیں لکھنے لکھانے سے مجھے بچپن سے دلچسپی تھی اور میں مختلف عنوانات پر مضمون لکھتا رہا ہوں میں نے نہ صرف مختلف اخبارات رسائل و جرائد کےلئے بہت سارے مضامین لکھے بلکہ بہت سے مقابلوں کے لیے بھی میں نے مضامین لکھے ہیں۔ لکھنے لکھانے کا شوق مجھے تحریر و تحقیق کی طرف لے کر آیا جب جب میں نے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز / ایم بی اے کیا تو میری بچپن کی لکھنے لکھانے کی صلاحیت ایک ریسرچر کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکی تھی گریجویشن اور ماسٹرز میں تھیسس لکھنے کو میں ترجیح دیتا تھا ریسرچ کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی بھی ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران ہوئی، لیکن اس صلاحیت کو اجاگر کرنے میں جو تجربہ مجھے حاصل ہوا وہ پڑھانے کے دوران ہوا میں ایم بی اے کرنے کے بعد بھی مختلف انسٹیٹیوٹ میں پڑھاتا رہا اور یورپ آنے کے بعد بھی مجھے بہت سے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا موقع ملا اسی دوران میں نے ریسرچ سیکھی۔ میرا میرا مطمع نظر کوالیٹیٹو ریسرچ تھی۔ کوالیٹیٹو ریسرچ میں بہت سے ایسے سماجی مسائل تھے جن پر میں نے ریسرچ کرنے کا ارادہ کیا ریسرچ کے حوالے سے میں نے جن سماجی مسائل پر کام کرنے کا ارادہ کیا اور ان کی جب فہرست بنائی گئی تو وہ کم و بیش 200 سے زائد عنوانات پر مشتمل تھی اور میرا ارادہ ہے کہ ان 200 عنوانات پر الگ الگ ریسرچ کر کے الگ الگ کتاب لکھوں انشاء اللہ تعالی ۔اللہ نے چاہا تو میں اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنائوں گا اور 200 سے زائد کتابیں تحریر کروں گا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس وقت میں پانچ کتابیں لکھ چکا ہوں تین کتب ریسرچ اسٹڈیز ہیں۔جبکہ دوکتب ٹیکسٹ بکس ہیں ایک کتاب بیسک جرنلزم کورس پر مشتمل ہے جبکہ دوسری کتاب کمیونٹی ڈویلپمنٹ کوراس پر مشتمل ہے اور یہ دونوں کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔جبکہ میری موجودہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ اسلاموفوبیا پر مشتمل ہے اور یہ کتاب اپنے موضوع پر واحد کتاب ہے اور پہلی کتاب ہے اردو زبان میں اسلاموفوبیا اور ففتھ جنریشن وار پر یہ پہلی تحقیق کی کتاب ہے جو کہ میں نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے تحریر کی ہے اس کتاب کو لکھنے میں مجھے بہت سی مختلف زبانوں کی کتابیں پڑھ کر ان ے بعض حصوں کا ترجمہ کرنا پڑا۔ بہت سی لائبریریوں میں وقت گزارنا پڑا اور تحقیق کے مختلف معیار اورٹولز کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ کتاب تحریر کی جو کہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتاب کاتعارف
تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل
سید علی گیلانی

یہ کتاب سید علی گیلانی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ان کے ناقابل تسخیر ارادوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں ان کی زندگی کا مکمل جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ کتاب سید علی گیلانی کے حوالے سے  اردو زبان کی پہلی کتاب ہے جو ان کی وفات کے بعد پہلی مرتبہ شائع کی جا رہی ہے۔

اس کتاب میں سید علی گیلانی کا وہ بیش قیمت اور نایاب انٹرویو بھی شامل ہے جو راقم نے بذریعہ ٹیلی فون سنہ 2020 میں لیا تھا۔ اور اسے اپنے میگزین اختلاف انٹرنیشنل کے پہلے شمارے میں ماہ اکتوبر 2020 میں شائع کیا تھا۔ اس انٹرویو کو اختلاف نیوز کی ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔یہ کتاب دنیا بھر میں پھیلے کشمیریوں کو سید علی گیلانی کی سوچ، نظریات اور تفکرات سے بھی بخوبی آگاہ کرے گی۔
یہ کتاب انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ فار کنفلکٹ ریزولیوشن اینڈ سوشل ڈیویلپمنٹ کے پلیٹ فارم سے راجہ ابرار احمد صاحب کی چھٹی کتاب ہے۔تحقیقی کاوش ہے۔امید ہے قارئین کی توقعات پر پورا اترے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیش لفظ

ماہ ستمبر کا آغاز ہوتے ہی ایک 92 سالہ کشمیر ی حریت پسند مجاہد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ نریندر مودی، اُس کی فوج اور بھارتی حکومت ایک 92 سالہ بوڑھے کشمیری سے اتنی خوفزدہ تھی کہ اُسے کئی سال تک قید و بند رکھنے کے باوجود جب وہ فوت ہوتا ہے تو اُس کی میت کو گھر والوں سے چھین لیا جاتا ہے۔ چند گھنٹوں کے اندر راتوں رات فوج کی نگرانی میں میت کو دفنا دیا جاتا ہے، چند ایک قریبی عزیزوں کے علاوہ کسی کو جنازہ میں میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی، پورے علاقہ میں کرفیو لگا دیا جاتا ہے کہ کسی کو خبر ہو بھی تو جنازہ میں شرکت نہ کر سکے، میت کو دفنانے کے بعد بھی مرحوم کی قبر کے نگرانی کے لیے بھارتی فوجی وہیں تعینات رہتی ہے۔
جی ہاں جناب یہ حریت پسند بزرگ سید علی شاہ گیلانی عرف سید علی گیلانی تھے۔جومقبوضہ کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ اور ’’آزادی آزادی‘‘ کے نعرے لانے اور لگوانے والے واحد رہنما تھے۔  
جناب علی گیلانی سے میری ملاقات لڑکپن کی ہے۔ جب کشمیر کی آزادی کے لئے میرا خون آگ کی طرح کھولتا تھا۔ اور میں دن رات یہی سپنے دیکھا کرتا تھا کہ کسی طرح جا کر کشمیر کے عین دل کے مقام پر پاکستان اور بھارت کی سرحدی لکیر کو اپنے خون سے مٹا دوں۔اور ایک مرتبہ میں اپنے چند لڑکے بالے دوستوں کو لیکر نعرے لگاتا ہوا کشمیر کی آزادی کےلئے نکل کھڑا ہوا۔ مگر ہمیں راستے میں اپنے استاد مل گئے۔ اور واپس لے آئے۔
کشمیر کاز کےلئے کام کرنے والے بہت کم ایسے رہنما ہیں جنہوں نے اپنی تعلیم، اپنا روزگار، اپنا کیریئر، اپنا مستقبل، اپنی جوانی اور اپنا خاندان تک کشمیر کی آزادی پر قربان کر دیا ہو۔ یقیناً جناب سید علی گیلانی ہی وہ واحد کشمیری رہنما ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ کشمیر اور کشمیری عوام کی آزادی کےلئے وقف کر دیا۔ میں نے جب2020 میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کےپلیٹ فارم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ان کا ویڈیو پیغام سنا ، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔‘ ان کی باتیں اور ارادے سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ ذاتی طور پر ان سے مل کر ان کی زندگی کی زندگی کی جدوجہد کو قرطاس ابیض پر منتقل کروں گا۔مگر بوجوہ مجھے بھارتی ویزہ ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ دوسرا یہ کہ 12 برس سے انہیں بھارتی فوج نے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔اس لئے میں ان کا آن لائن انٹرویو کرنے کا پروگرام بنایا۔ مگر وہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
قارئین کرام!کئی سالوں سے میرا خواب تھا کی جناب سید علی گیلانی سے بات کروں اور ان کی جدوجہد کی کہانی انہی کی زبانی سنوں اور اپنی صحافتی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ان کی سوچ، ان کے خیالات، تفکرات، اور نظریات کو اپنے قارئین تک پہنچاؤں۔ اسی حوالے سے گذشتہ برس 2020 میں مجھے ان کا ٹیلی فونک انٹرویو کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جو ماہنامہ اختلاف نیوز کے پہلے شمارے میں شائع ہوا۔ اور سوشل میڈیا اور اختلاف نیوز کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ 
انٹرویو کے بعد اگلا مرحلہ تھا ان کی زندگی بھر کی جدوجہد ، کشمیر میں تحریک آزادی میں ان کا کردار اور ان کی علمی و فکری جدوجہد کو دنیا بھر کے سامنے لانا۔ اس حوالے سے میںنے چند ماہ پہلے ہی کام کا آغاز کر دیا تھا۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سید علی گیلانی جلد ہی ہمیں داگ مفارقت دے جائیں گے۔مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اللہ نے ان کی جتنی زندگی لکھی تھی۔ انہوں نے اسے بھرپور انداز میں گذارااور ہر کشمیری چاہے وہ مقبوضہ کشمیر میں ہو یا آزاد کشمیر میں یا یورپ میں مقیم کوئی جلا وطن کشمیری ہو، کے دل میں گھر کر گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر کا بچہ بچہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کےلئے پرعزم نظر آتا ہے۔ اور ان کی مغفرت کے لئے دعاگو ہے۔
یہ کتاب یقیناً سید علی گیلانی کی زندگی کے بہت سے پوشیدہ پہلوؤں کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی۔ اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد، سول سوسائٹی اور سیاسی رہنماؤں کو ا سید علی گیلانی کی زندگی کے اُس نظریہ اور جدوجہد سے ن کے خیالات سے بہرہ مند کرے گی۔ جو کشمیر کے گھر گھر میں پھیل چکا ہے اور جس کا بھارت کے پاس اب کوئی توڑ نہیں۔
 سید علی گیلانی مرحوم اسلام پسند تھے، اسلام کے داعی تھے اور اسی ناطے سے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان سے نہ صرف بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ بھارت، اُس کی ظالم فوج اور اُن کی حکومت کے سامنے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ پاکستان سے اپنی اسی محبت کے وجہ سے اُن کے جسد خاکی کو پاکستان کے سبزہلالی پرچم میں لپیٹا گیا۔ مودی، بھارتی فوج اور بھارتی حکومت اس عمل سے بہت پریشان ہیں کہ گیلانی مرحوم کی فیملی نے میت کو پاکستانی پرچم میں کیوں لپیٹا اور آزادی کے نعرہ کیوں لگائے۔ اسی لیے کسی کو جنازہ میں شرکت کی بھی اجازت نہ دی اور زبردستی فوری دفنا بھی دیا لیکن مرحوم گیلانی، جو نہ صرف کشمیریوں بلکہ پاکستان کے بھی ہیرو تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، نے جو نظریہ اور جو سوچ کشمیریوں کو دی اُس کی وجہ سے اب پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کا وادی میں لہرانا اور آزادی آزادی کے نعرے کا لگنا ایک معمول بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پورے کشمیر کو ایک قید خانہ میں تبدیل کر دیا لیکن گیلانی مرحوم کے نعروں کی گونج ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ اور ’’آزادی آزادی‘‘ کے نعروں کا خوف ہی تو مودی، اُس کی فوج اور بھارت کو کھائے جا رہا ہے جس کا سہرا مرحوم گیلانی صاحب کے سر جاتا ہے۔مرحوم سے بھارت اُن کی زندگی کے دوران بھی خوف زدہ رہا اور اب اُن کے موت کے بعد اُن کے قبر سے بھی خوفزدہ ہے۔
یہ بوڑھا کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ناختم ہونے والے مظالم کے خلاف، بھارتی تسلط سے کشمیریوں کی آزادی اور پاکستان کے حق میں سب سے توانا، متاثر کن، طاقت ور آواز قابل احترام سید علی گیلانی تھے جو گزشتہ ہفتہ اپنے گھر میں کئی سال سے جاری نظربندی کے دوران انتقال فرما گئے۔ ﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت اور اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے،آمین۔
اس کتاب کی تکمیل میں کئی دوستوں نے میری معاونت کی ۔ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ ان میں جناب محمد موسیٰ سومرو  المعروف ابن انسانؔ سر فہرست ہیں۔ میں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ان کے ساتھ ساتھ میں ادارہ اختلاف نیوز میڈیا گروپ اینڈ پبلیکیشنز ،انسٹیٹوٹ آف کنفلیکٹ ریزولوشن اینڈ سوشل ڈویلمنٹ ،راجہ امتیاز احمد راجہ عمران خان، اعجاز احمد شائق، شمازیہ اقبال راجہ کے تعاون کا بھی مشکور ہوں۔
آخر میں میری دعا ہے کہ مرحوم سید علی گیلانی کی زندگی بھر کی جدوجہد اپنے مثبت انجام کو پہنچے اور کشمیر آزادی کا سورج دیکھے اور کشمیری بھارت کے ظلم و جبر سے آزادی حاصل کر سکیں۔ آمین۔

مورخہ: 17 ستمبر 2021
راجہ ابرار خان

دیباچہ

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک بھارت کے زیر قبضہ ریاست جموں وکشمیر میں نظربندی کے دوران سیدعلی گیلانی انتقال کرگئے،کشمیر کے الحاقِ پاکستان کے لیے انھوں نے حقیقی معنوں میں پر صعوبت زندگی گزاری،وہ مقبوضہ کشمیر میں بیٹھ کر اور عشروں سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مظالم برداشت کرتے ہوئے دراصل پاکستان، نظریہ پاکستان اور الحاقِ پاکستان کی جنگ لڑ تے رہے۔

وہ دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کی ایک علامت تھے، انھوں نے اپنی زندگی میں جہاں بے پناہ مصائب دیکھے، وہیں ان کی کشمیر کی آزادی کے ساتھ غیر متزلزل محبت کے باعث انھیں دنیا بھر میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے لیے ایک استعارہ بنایا۔آپ کی جدوجہد دنیا بھر کے آزادی پسندوں کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہے۔
سید علی گیلانی کی اس طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے باعث انھیں کشمیر کا نیلسن منڈیلا اور عمر مختار بھی کہا جاتا ہے، آپ نے ہندوستا ن کے طول و عرض میں علمی و سیاسی حلقوں،ادبی انجمنوں، بار کونسلوں، پریس کلبوں اور بالخصوص یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے سامنے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنا جاندار موقف دل نشین انداز میں پیش کیا۔
سیدگیلانی جرات و استقامت کا ایسا ہمالیہ تھے کہ ظلم و جبر کی تیز آندھیاں جس سے ٹکرا کر واپس ہوتی رہیں لیکن وہ ثابت قدم رہے، بھارت ان کے لیے پھانسی کے پھندے لاتا رہا،زنجیریں اور ہتھکڑیا ں آگے بڑھاتا رہا،مقتل سجاتا رہا لیکن وہ ظلم کا ہر وار مسکر ا سہتے رہے ۔سید علی گیلانی1962سے تادم مرگ جدوجہد آزادی کے جرم میں ربع صدی کا عرصہ جیل میں گزار چکے تھے۔
گیلانی صاحب زندگی کا بیشترحصہ جیلوں میں گزارنے اور ہنگامہ خیز سیاسی و تحریکی مصروفیا ت کے باوجود تیس سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔جن میں روداد قفس، صدائے درد، مقتل سے واپسی، دیدوشنید،فکر اقبال پر شاہکا ر کتاب، روح دین کا شناسا، پیام آخریں اور خود نوشت سوانح عمری ولر کنارے بھی شامل ہیں۔
14 اگست 2020 کو ایوان صدر میں تقریب کے دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازا، حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ نے سید علی گیلانی کے لیے نشان پاکستان وصول کیا، سید علی گیلانی کو پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز آزادی کے لیے بے مثال جدوجہد کے باعث دیا گیا۔
وہ طویل عرصے تک کشمیراسمبلی کے رکن رہے اور اس دوران انھوں نے بھارتی قبضے کو چیلنج کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔کشمیر اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اسمبلی میں بجٹ پر بحث ہو یا امن عامہ کی صورت حال پر، پانی اور بجلی کا مسئلہ زیر بحث ہو یا صنعت اور دستکار ی کا، قانون سازی کا معاملہ ہو یا نظم و نسق کی بات، گیلانی صاحب ہر معاملے میں مسئلہ کشمیر کا ذکر چھیڑتے اور بھارت کے لتے لیتے رہتے۔
سیدعلی گیلانی ہمیشہ اس موقف کا اعادہ کرتے رہے کہ بھارت مکروفریب کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور اول روز سے بھارت مسئلہ کشمیرکے حوالے سے تضادات اور دوعملی کی پالیسی پر چل رہا ہے ۔
سید علی شاہ گیلانی لاریب مقبوضہ کشمیر کے جملہ ساکنان کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سید علی گیلانی کے بعد کشمیر کی تحریکِ حریت ایک قدآور رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔ گزشتہ کئی برس سے گھر پر نظربند ہونے کے باعث وہ سیاسی طور پر غیر فعال تھے لیکن ان کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا بآسانی پر نہیں ہو سکے گا۔
اسمبلی کاایوان ہو یا زندان کی کال کوٹھڑی، اسلام آباد کا شہر ہو یا سوپورکا قصبہ،جواہر لال نہرویونیورسٹی (دہلی)ہو یا مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ)یا سری نگر کا اقبال پارک، سید علی گیلانی ہر جگہ درس حریت دیتے اور قوم کو طوفانوں سے ٹکرانے کے گر سکھاتے رہے۔
سید علی گیلانی نے آزادی کی چومکھی جنگ مختلف محاذوں پر جاری رکھنے والوں ایک پوری کھیپ تیار کر دی ہے جو آج ہر محاذ پر بھارت کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔سید علی گیلانی جس مقصد کے لیے جیے، اسی مقصد کے لیے سزا کاٹتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، مگر آخری دم تک انھوں نے کشمیر پر بھارتی تسلط کو تسلیم نہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی شاہ گیلانی کی زندگی پر ایک نظر
پورا نام: سید علی شاہ گیلانی
ولدیت: سید پیر شاہ گیلانی
جائے پیدائش: زوری منز ، تحصیل بانڈی پورہ ، ضلع بارہ مولا۔
تاریخ پیدائش: 27-9-1929 (ستائیس ستمبر ، انیس سو انتیس)
سید علی گیلانی کی تعلیم
ابتدائی تعلیم: پرائمری سکول ، بوٹینگو ، سوپور۔
ثانوی تعلیم: گورنمنٹ ہائی سکول ، سوپور۔
مشرقی تعلیم:I) ادیب العلیم ، اورینٹل کالج ، دہلی دروازہ لاہور ، پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ
II) ادیب فاضل ، جامعہ کشمیر یونیورسٹی ، سری نگر۔
III) منشی فاضل ، جموں و کشمیر یونیورسٹی ، سری نگر۔
سید علی گیلانی کی سرکاری ملازمت بطور استاد
اپنے کیریئر کا آغاز 1949 میں بطور گورنمنٹ ٹیچر کیا ۔ بحیثیت استاد تقرری اور مستعفی ہونے سے پہلے بارہ سال تک کشمیر کے مختلف اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔
پرائمری سکول ، پتھر مسجد ، سرینگر۔
ہائی سکول ، رینواڑی ، سرینگر۔
مڈل سکول ، کنی کدل ، سرینگر۔
مڈل سکول ، بومائی ، سوپور۔
انٹرمیڈیٹ کالج ، سوپور۔
مڈل سکول ، ڈنگر پورہ ، سوپور۔
1950 میں زونی منز سے دورو ، زین گیر ، تحصیل سوپور تک ہجرت کی۔
1953 میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن بنے۔
1959 میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
۔۔۔۔۔۔
سید علی گیلانی کی جیل اور قید کی زندگی
28 اگست 1962 سے 22 اکتوبر 1994 تک قید کی تفصیلات:
سید علی گیلانی کو مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سمیت بہت سی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ان کی قید و بند کا مکمل ریکارڈ پیش کیا جا رہا ہے۔ 1962 28 اگست۔13 ماہ ۔1965 مئی 07۔22 ما ہ ۔05 جولائی 1975۔04 ماہ۔1975 دسمبر 07۔04 ماہ۔1980 اگست۔04 ماہ.1984 مارچ 06۔10 ماہ۔
1985 جنوری 28۔20 ماہ۔1990 اپریل 10 نانی الہ آباد اور تہار دہلی۔24 ماہ۔22 اکتوبر 199312 ماہ۔1995۔03 ماہ۔1999 جودھ پور راجستان07 ماہ۔
2002 جون 09 رانچی جہار کھنڈ۔10 ماہ۔2009 سے 30 مارچ (70 دن گھر میں نظربند)۔ 2009 جون 06 سب جیل چشمہ شاہی سرینگر۔ 2009 جولائی 03 سب جیل
چشمہ شاہی سرینگر۔ 2009 جولائی 09 سب جیل چشمہ شاہی سرینگر۔27 دن۔ 3 دن۔ 6 دن۔ U/S 107/151۔پی/ایس ۔ہائی کورٹ نے رہائی کا حکم دیا۔تعمیل نہیں کی گئی۔ U/S 121 RPC اور 18 ULA۔پی/ایس صدر۔سیشن جج سری نگر نے رہائی کا حکم دیا۔تعمیل نہیں کی گئی۔ U/S 13ULA۔پی/ایس صفاکدل۔CJM کی طرف سے رہائی کا حکم دیا گیا۔تعمیل نہیں کی گئی۔ 2009 جولائی 15 سب جیل چشمہ شاہی سرینگر U/S 13 ULA۔ پی/ایس راج باغ۔2009 جولائی 15 سب جیل چشمہ شاہی۔9 ستمبر تک پی ایس اے۔ہائی کورٹ نے جموں وکشمیر حکومت کو احکامات جاری کیے گرفتاری ختم کرنے کے لیے10/09 ستمبر کو گرفتار کیا گیا اور اس کے اپنے گھر میں بند کر دیا گیا۔14 اکتوبر تک14،15 اکتوبر دہلی کے دورے کے لیے رہا کیا گیا۔16 اکتوبر کو دوبارہ گھر سے گرفتار۔28 مئی 2010 کو 31 مئی 2010 کو رہاکیا گیا P/S Humhama & C J Sgr/SKIMS۔ 18 جون 2010 کو گرفتار CIK کو PSA کے تحت چشمشائی منتقل کیا گیا۔ پیرول پر رہائی کی پیشکش مسترد کر دی گئی پھر غیر مشروط طور پر اگست 1،2010 کو رہا کیا گیا۔8 ستمبر 2010 کو گرفتار کیا گیا اگلے دن رہا لیکن پھر۔عید الفطر سے ایک دن پہلے 10،2010 کو ان کی اپنی رہائش گاہ حیدر پورہ میں گرفتار کیا گیا۔27،11 جنوری علاج کے لیے دہلی بھیجا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کی فیملی
سید علی گیلانی ؒ کو اللہ نے دو بیٹے نعیم گیلانی اور نسیم گیلانی عطا فرمائے۔ نعیم اور اس کی اہلیہ دونوں میڈیکل ڈاکٹر ہیں جو راولپنڈی میں مقیم تھے اور اپنا کلینک چلا رہے تھے، مگر 2010ء میں واپس کشمیر چلے گئے اور اپنے پیشے میں کام کرنے کے ساتھ اپنے والد کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ گیلانی صاحب کے دوسرے بیٹے نسیم زرعی انجینئر ہیں جو زرعی یونیورسٹی سری نگر میں ملازمت کرتے ہیں۔ گیلانی صاحب کی ایک بیٹی فرحت گیلانی جدہ میں ٹیچر ہیں جب کہ ان کے میاں بھی وہاں پر بطور انجینئر ملازمت کر رہے ہیں۔ مشہور کشمیری رہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی بھی گیلانی صاحب کے کزن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید علی گیلانی کی صحافتی خدمات
سید علی گیلانی جماعت اسلامی کے جریدے طلوع کے ساتھ وابستہ رہے۔ اور اس کے پولیٹیکل بیورو کے انچارج بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے سینکڑوں رپورٹس، مضامین اور کالمز تحریر کئے۔اسی طرح وہ جماعت کے ایک اور جریدے اذان کے ایڈیٹر بھی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید علی گیلانی کی ادبی خدمات
سید علی گیلانی نے بہت سا علمی و ادبی کام کیا ہے۔ان کی تحریریں انتہائی عمدہ اور اعلیٰ پائے کی ہیں۔
ذیل میں ان کی مطبوعات کی فہرست دی جا رہی ہے۔
ونوبا بھاؤ سے ملاقات
اولاد ابراہیم
ایک پہلو یہ بھی کشمیرکی تصویر کا
قصہ درد
روداد قفس
مقدمہ الحاق
ملت مظلوم
تو باقی نہیں
میرا بیان اور ہے
کارگل
تلخ حقائق
اعلان جنگ بندی
ہجرت اور شہادت
کرالکود ست جودھپور تک
قربانی
کار جہاں بے ثبات
کونو انصار اللہ
رہروانی عشق
شہادت گئے الفت
امید بہار
واعتصمو بحبل الجمیع
اقبال اپنے پیغام کی روشنی میں
عصر حاضر میں رسول رحمت ﷺ
صدائے درد
پس چہ باید کرد۔11 ستمبر کے بعد
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
پیام آخرین
مقتل سے واپسی
نوائے حریت کشمیر
اے لیٹر ٹو وی پی سنگھ۔ ایکس پرائم منسٹر آف انڈیا۔
اے لیٹر ٹو چندرا شیکھر۔ ایکس منسٹر آف انڈیا
قول فیصل
دید و شنید
عید پیغامات
سفر محمود میں ذکر مظلوم
روح دن کا شناسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید علی گیلانی کےاعزازات
پاکستان کے 73یوم آزادی کے موقع پر بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ یہ اعزاز اسلام آباد میں حریت رہنماؤں نے وصول کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید علی گیلانی کی سیاسی و سماجی خدمات
سید علی شاہ گیلانی(29 ستمبر 1929ء – 1 ستمبر 2021ء)[3]، جموں و کشمیر کے سیاسی رہنما تھے، کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔ وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے ہیں جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت “تحریک حریت” بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم “رابطہ عالم اسلامی” کے بھی رکن تھے۔ حریت رہنما یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے “رابطہ عالم اسلامی” فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام “روداد قفس” ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔
وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گذشتہ زائد ایک دہائی سے اپنے گھر میں نظربند ہیں۔گیلانی کشمیر میں پندرہ سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں حلقہ انتخاب سوپور سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی میں مختلف مناصب پر کام کیا اور علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کےلئے بہت کام کیا۔ انہوں نے ملی ٹرسٹ کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی تھی۔ جس کے پلیٹ فارم سے وہ کشمیرکے غریب، مجبور اور مستحق لوگوں کی مدد کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید علی گیلانی کی بیماری
بزرگ رہنما گیلانی مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا ہے۔ ان کا گال بلیڈر اور ایک گردہ نکالا جاچکا ہے جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا ہے۔
11مارچ 2016ء کی دوپہر جب یہ خبر گرم ہوئی کہ مقبوضہ کشمیرکا یہ بوڑھا شیر نڈھال ہوکر بے ہوش ہوگیا ہے تو پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے دل سے یہی دعا نکلی: یاالٰہی، انھیں صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا فرما۔ بتایا گیا تھا کہ انھیں دل کے حملے نے دبوچ لیا ہے۔ فوری طور پر مالویہ نگر میں واقع ان کی رہائشگاہ سے انھیں دہلی کے ایک معروف شفاخانے، میکس اسپتال، میں داخل کرایا گیا۔ آئی سی یو میں ڈاکٹر ویوک کمار نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ دل کا دورہ تو نہیں پڑا لیکن سینے کا درد شدید تھا۔
دوسری صبح انھیں آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔ ان کے صاحبزادے، جناب سید نسیم گیلانی، نے میڈیا کے توسط سے منتظر چاہنے والوں کو اپنے والدِ بزرگوار کی خیریت کی خبر سنائی تو ہمیں بھی قرار آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ جناب سید علی شاہ گیلانی اب صحت یاب ہوچکے ہیں۔ تیمارداری کرنے والوں میں بھارت میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر جناب عبدالباسط بھی شامل تھے۔ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف بھی گیلانی صاحب کے لیے دعائے صحت کرتے سنائی دیے۔ تقریباً ڈیڑھ ہفتے بعد عبدالباسط نے علی گیلانی صاحب کے گھر جاکر انھیں 23مارچ 2016ء کو دہلی کے پاکستان ہائی کمیشن میں منعقد ہونے والے ’’یومِ پاکستان‘‘ کی تقریب کے لیے دعوت نامہ بھی پیش کیا۔ 23مارچ کو گیلانی صاحب نے بڑی محبت سے اس دعوت میں شرکت بھی فرمائی۔
مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی بھارت کے خلاف حریت و مزاحمت کی سب سے نمایاں، سب سے توانا اور سب سے نویکلی آواز ہیں۔ چھیاسی سال کے ہوچکے ہیں لیکن شعلہ حیات پوری طرح روشن ہے۔ خدا نے انھیں غیر معمولی استعداد، بے پناہ صبر اور اعلیٰ درجے کی تنظیمی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ اس عمر میں جب کہ عمومی طور پر انسانوں کا ذہن کام کرتا ہے نہ بدن کے دیگر اجزائے ترکیبی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں، سید علی شاہ گیلانی کی سرگرمیاں دیکھ کر آدمی ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ وہ ضعیف ہی نہیں، کئی امراض نے انھیں اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے لیکن وہ دشمنانِ کشمیر کے سامنے پوری طرح سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ ان کی بیماریوں کی کہانی سنیئے تو اور بھی حیرت ہوتی ہے۔
تقریباً بیس برس قبل دل کے امراض کو قابو میں رکھنے کے لیے ان کے سینے میں ’’پیس میکر‘‘ لگا دیا گیا تھا۔ ابھی اس مرض پر قابو پایا گیا تھا کہ گردے کی تکلیفوں نے اُنہیں گرفت میں لے لیا۔ بہت علاج کروائے گئے مگر افاقہ نہ ہوا۔ تنگ آکر 2003ء میں ممبئی کے ٹاٹا میموریل اسپتال میں ان کا بایاں گردہ ہی نکال دیا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر یہ اقدام نہ کیا جاتا تو زہر سارے بدن کو مسموم کردیتا۔ اگلے برس ان کا Gall Bladder نکال دیا گیا۔ یہ نہایت نازک آپریشن تھا لیکن خدا نے دہلی کے گنگا رام اسپتال کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی شفا بخشی کہ گیلانی صاحب کا یہ آپریشن بھی کامیاب ہوا۔ ابھی دو تین سال ہی صحت میں گزرے تھے کہ دوسرے گردے میں بھی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
بایاں گردہ پہلے ہی نکالا جاچکا تھا، اب دایاں بھی متاثر ہوا تو گویا جان کے لالے ہی پڑ گئے۔ اللہ کی طرف سے بار بار آزمائشیں آرہی تھیں لیکن علی شاہ گیلانی کی ہمت ملاحظہ کیجیے کہ گھبرائے نہ دل چھوٹا کیا۔ حتیٰ کہ ان کے دائیں گردے کا نصف حصہ بھی کاٹ دیا گیا۔ یہ 2007ء کی بات ہے۔ اگلے ہی برس ان کے سینے میں دوسرا ’’پیس میکر‘‘ نصب کرنا پڑا۔ یہ نازک مہم دہلی کے ایسکارٹ ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرینِ امراضِ قلب کے ہاتھوں کامیابی سے انجام دی گئی۔ دو سال بعد ان کی آنکھوں کا آپریشن ہوا۔ دہلی کے اپالوہاسپٹل کے ماہرینِ امراضِ چشم نے گیلانی صاحب کی بھرپور اعانت کی۔ بھارتی ڈاکٹروں نے ہندو بن کر نہیں، انسان بن کر ان کی یہ خدمت انجام دی۔
لاہور کے اورینٹل کالج کے فارغ التحصیل اور بھارت کی جیلوں میں برسہا برس قیدِ تنہائی اور تشدد کا عذاب سہنے والے سید علی شاہ گیلانی لاریب مقبوضہ کشمیر کے جملہ ساکنان کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دو جلدوں پر مشتمل ان کی خود نوشت سوانح حیات (رُودادِقفس) کا مطالعہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بیٹھ کر اور عشروں سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مظالم برداشت کرتے ہوئے دراصل پاکستان، نظریہ پاکستان اور الحاقِ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
’’رُودادِ قفس‘‘ پڑھتے ہوئے تو کئی جگہ پر آنکھیں فرطِ جذبات سے چھلک پڑتی ہیں۔ مذہبی اعتبار سے مقبوضہ کشمیر میں ہمت و عزیمت کا یہ کوہِ گراں سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کا عاشقِ صادق ہے لیکن سیاسی اعتبار سے وہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ کشمیر کے الحاقِ پاکستان کے لیے گیلانی صاحب نے واقعی معنوں میں پُرصعوبت زندگی گزاری ہے۔
اپنے مطمع نظر سے دستکش ہوئے نہ ہندو کے کسی بھی غچے کا شکار بن سکے ہیں۔ وہ تو جنرل صدر پرویز مشرف کے پھینکے گئے جال (مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولا) میں بھی نہ پھنسے کہ جانتے تھے کہ یہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بجائے، اسے مزید گدلا اور گنجلک کردے گا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ، امرجیت سنگھ دُولت، کی یادوں اور یادداشتوں پر مشتمل کتاب (Kashmir: The Vajpayee Years) میں بڑی ہزیمت اور جھنجھلاہٹ سے یہ بات لکھی گئی ہے کہ لاتعداد چالوں اور متنوع ہتھکنڈوں کے باوجود علی شاہ گیلانی کو ’’را‘‘ سمیت کوئی بھی بھارتی انٹیلی جنس ادارہ اپنی راہ پر لانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امرجیت سنگھ دُولت، جو کئی برس مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف خفیہ کھلواڑ کرتا رہا ہے، نے اپنی کتاب میں اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم علی شاہ گیلانی کو خرید سکے نہ ان کی قیمت لگانے کی ہمیں براہ راست جرأت ہی ہوسکی۔
مسلمانانِ مقبوضہ کشمیر کی امیدوں کے مرکز، جناب سید علی شاہ گیلانی، اگر چاہتے تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ انھیں بار بار کشمیر کی وزارتِ اعلیٰ کے سنگھاسن پر بٹھاتی اور ان کے صدقے واری بھی جاتی لیکن اس مردِ درویش نے کٹھ پتلی اقتدار کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہ دیکھا۔ انھوں نے کلام اقبالؒ کا گہری نگاہ سے مطالعہ کر رکھا ہے۔
گیلانی صاحب نے عملی زندگی میں اقبالؒ کا شاہین، خودی کا پیکر اور اقبال کا مردِمومن بن کر دکھا دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں حالاتِ حاضرہ سے اتنے باخبر اور حساس کہ بسترِ علالت پر بھی برطانوی وزیرخارجہ، فلپ ہیمنڈ، کے بیان کی مذمت کرنا نہ بھولے۔ یہ برطانوی وزیرخارجہ مارچ 2016 میں پاکستان کے دو روزہ دورے پر تھے۔ اسلام آباد میں انھوں نے بیان دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو پیشگی شرط رکھے بغیر بھارت سے مکالمہ کرے۔ جس روز یہ بیان پاکستان و بھارت کے میڈیا میں بازگشت بن کر سنائی دے رہا تھا، اسی روز گیلانی صاحب کے سینے میں درد کا طوفان اٹھا تھا اور انھیں فوری طور پر دہلی کے میکس ہاسپٹل لے جانا پڑا تھا لیکن درد والم کی اس کیفیت میں بھی سید علی شاہ گیلانی کشمیر کے بارے میں فلپ ہیمنڈ کے اس دل آزار اور غیر حقیقی بیان کی مذمت کیے بغیر نہ رہ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفات
ان کا انتقال یکم ستمبر 2021ء کو سری نگر میں اپنی حیدر پورہ رہائش گاہ پر ہوا۔ بھارت نے ان کی وفات کے دن سرینگر میں کرفیو نافذ کر دیا اور لوگوں کو ان کی میت کے قریب آنے نہ دیا اور ان کو تیس منٹ میں دفن کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون جانتا تھا کہ کشمیر کی ولر جھیل کے شمال مغرب میں وٹ لب اور بابا شوکری دین کے مزار کے قریب زوری ہنس نامی گائوں میں نہر زینہ گیر کی کھدائی پر مامور مزدور سید پیر شاہ کے گھر 29ستمبر 1929 پیدا ہوانے والا بچہ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کاسپہ سالاربن جائے گا جسے سید بادشاہ، بابائے کشمیر، بانی جدوجہد آزادی کشمیر جیسے القابات سے یاد کیا جائے گا۔اس بچے نے جب لڑکپن میں قدم رکھا تو موت کو انتہائی قریب سے اس وقت دیکھ لیا تھا جب نہر میں گر کر ڈوبنے کے قریب تھا مگر ایک راہ گیر کی نظر پڑی تو اس نے اس لڑکے کو ڈوبنے سے بچا لیاکیونکہ قدرت نے اس سے لاکھوں نوجوانوں کی رہنمائی کا کام لینا تھا۔ پرائمری تعلیم گائوں سے چند کلومیٹر دور بوٹنگو نامی بستی میں حاصل کی۔ قابلیت و زہانت کی وجہ سے  اپنے ہم عصروں میں مقبول ہوگئے۔ جب میٹرک کیا تو تحریک آزادی زور پکڑ چکی تھی۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال سے انھیں خصوصی عشق تھا اس لیے مطالعہ اقبال کے لیے لاہور کا سفر کیا ۔پھر یہ ہوا کہ تاحیات ان کے کلام میں اقبا ل کا عکس موجود رہا۔

کشمیری صحافی صغیر قمر لکھتے ہیں ایک روزجب وہ سوپور ہائی سکول جا رہے تھے۔ راستے میں بھارتی فوج کے ایک دستے نے انہیں روک لیا اور پوچھا۔ ’’کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو‘‘ سید گیلانی نے پوری جرأت سے کہا ’’ میں یہاں کا باشندہ ہوں تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے‘‘۔قابض فوجیوں نے نوجوان علی گیلانی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ غلامی کی اولین تعزیر تھی جو نقش برسنگ ان کے قلب و دماغ پر نقش ہو گئی۔ اس روز پہلی بار انہیں یہ احساس ہوا کہ شیخ عبداللہ نے جن ’’نجات دہندوں‘‘ کو کشمیر آنے کی دعوت دی ہے ‘وہ ان کے ابنائے وطن سے آزادی چھین چکے ہیں اور اب ایمان و ضمیر کے درپے ہیں۔ 1949 میں پہلی بار انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے لٹریچر سے شناسائی حاصل کی۔ فکر اقبال کے بعد سید مودودی ؒ نے انہیں اسلام کی خاطر جینے اور مرنے کا درس دیا اور وہ آزادی اور اسلام کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے یکسو ہوتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کی ملاقات مولانا سعد الدین سے ہوئی اور وہ ایک نئے انقلاب سے شناسا ہوگئے۔ کتاب کے بعد فیضان نظر کے قتیل ہوئے۔ مولانا سعد الدین نے جواں سال علی گیلانی کو اس قافلہ عشاق میں شامل کر لیا جس نے انسانی خدائی کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا تھا۔ تب سید علی گیلانی بیس برس کے تھے۔جوانی میں کیا ہوا عزم آج بھی ان کے سینے میں پارے کی طرح بے تاب ہے۔اسی زمانے میں جناب گیلانی نے محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی۔ اپنے دل کی روشنی اپنے طلبہ کو منتقل کرنے لگے بہت سے لوگوں کے لیے ان کی تعلیم و تبلیغ نا پسندیدہ ٹھہری ‘رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگیں‘ مگر یہ وہ نشہ نہ تھا جسے ترشی اتار دیتی۔ اس وقت کے حکمران بخشی غلام محمد تک آپ کی شہرت پہنچی۔ اس نے آپ کو ملاقات کے لیے پیغام بھیجا۔ وہ آپ سے راہ و رسم بڑھانا چاہتا تھا۔ آپ نے قاصد کو غیر مبہم الفاظ میں جواب دیا۔ ’’بخشی صاحب جس شخص کو خریدنا چاہتے ہیں ‘ اس نے تو پہلے ہی جنت کے بدلے میں اپنی جان و مال کا اللہ تعالیٰ سے سودا کر لیا ہے۔ اب میرے پاس وہ جنس میری نہیں رہی جسے بخشی صاحب خریدنا چاہتے ہیں۔ اس جواب کے بعد آپ اہل اقتدار کے ہاں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے۔ 28 اگست 1962ء کو بھارت نوازحکمرا نوں نے آپ پر پہلا وار کیا اور گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ ان پر بھارت کے خلاف بغاوت پھیلانے اور کشمیر کو متنازع خطہ کہنے کا ’’الزام‘‘تھا۔ جب آپ کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو ہی ’’الزامات ‘‘ پڑھ کر انہیں سنائے گئے۔ آپ نے فرمایا ’’یہ الزامات نہیں بلکہ سچ ہے، میں بھارت کو کشمیر پر ایک قابض ملک سمجھتا ہوں ، میں اس قبضے کا باغی ہوں ،آج میری عمر تنتیس سال ہے ،میری جتنی بھی زندگی باقی ہے میں بھارت کے خلاف اس وقت تک جدوجہد جاری رکھوں گا جب تک میں زندہ ہوں۔۔۔۔ جناب جج! میرا آپ سے وعدہ ہے۔ ‘‘حکومت وقت عدالت اور جیل کی مشقت کے ذر یعے آپ کو خریدنا چاہتی تھی۔ یہ کوشش میں ناکام ہونے کے بعد زندان و سلاسل کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ سید علی شاہ گیلانی کی جدوجہد شروع ہوئی تو جیلوں اور تعذیب خانوں کے دروازے بھی کھلتے چلے گئے ‘ عذاب گاہیں اور مصائب سید علی شاہ گیلانی سے اور سید علی گیلانی ان سے خوب واقف رہے۔ جیل میں آپ کو حکیم غلام نبی فاضل دیو بند کی ہمراہی کا موقع مل گیا۔ انہوں نے اس مرد خدا کی موجودگی کو اپنے حق میں نعمت غیر مرقبہ سمجھا۔ ان سے عربی کی تعلیم شروع کی۔ تیرہ ماہ میں آپ نے ندوٓ العلماء میں رائج عربی کا پورا کورس مکمل کر لیا۔ ایک نظر بند کی طالب علمی کے دور کی تشنگی دور ہونے کا یہ بہترین موقع تھا۔ نظر بندی کے دوران جیل حکام سے ان بن بھی جاری رہی۔ سخت گیر حاکموں نے جبر کے تمام حربے آزمائے ‘مگر انہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔
ایک قائد کی تربیت کے لیے جیل سے اچھی جگہ کیا ہو سکتی ہے۔ اسی دوران آپ کو ایک زبردست حادثہ پیش آیا۔ آپ کے عزیز ترین اور شفیق والد دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اس سانحے کی خبر سن کر آپ کے دل کی کیا حالت ہوئی ‘اس کا اظہار انہوں نے ’’والد مرحوم کی یاد میں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں کیا ہے جو اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا عکس لیے ہوئے ہے۔ بعد میں آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے والد اکثر و بیشتر آپ کی یاد میں آنسو بہاتے رہتے تھے۔ کھڑکی میں بیٹھ کر سڑک پر نگاہیں جمائے رکھتے اور کسی کوسیاہ قراقلی پہنے آتا دیکھتے تو سید علی گیلانی کی آمد کا گمان ہو جاتا اور بے چین ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ آخر یہی گھاو دل میں لیے اس دنیا سے چلے گئے اور دوسری جانب بھی یہی زخم چھوڑ گئے۔ سید گیلانی نے ایک بار والد مرحوم کے بارے میں کہا۔’’میری زندگی پر سب سے زیادہ اثر والد محترم نے ڈالا ہے۔ علم کے لیے ان کی تڑپ ‘ محنت کشی اور دیانت و امانت ان کی زندگی کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ زندگی کے کسی موڑ پر ان کی یہ خوبیاں میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتیں۔‘‘آزادی کی تمثیل سمجھے جانے والے سید گیلانی کو پڑھنے لکھنے کا بھی انتہائی شوق تھاان کی تحریروں میں بھی آپ کو آزادی پسند انسان کی جھلک نظر آتی ہے۔
ْْْْْْْْْْْْْْْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیرکا نیلسن منڈیلا
سید علی شاہ گیلانی اسلامی تحریک اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے معروف رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بھارتی قبضے کے خلاف مؤثر اور زبردستی آواز بلند کی۔ اس نے اپنی زندگی کے 9 سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا ہے اور اس طرح وہ چند عوامی رہنماؤں میں سے ایک بن گیا ہے جو جیل میں زندگی کی اتنی طویل مدت کو تیز کرتے ہیں۔وہ ان چند افراد میں سے ہیں جنہوں نے کشمیر میں اسلامی تحریک کو تقویت بخشی اور ایک بار پھر ان چند افراد میں سے ہیں جو اسلامی افواج کی کافی تعریف کر رہے ہیں۔ پچھلے 30 سالوں کے دوران اس نے انسانیت کے ساتھ ظلم و ستم برداشت کیا اور زبردست مشکلات کا سامنا کیا۔سید گیلانی نے 1950 میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ریاست کے مفرور مطلق العنان حکمران کے ساتھ ایک قابل اعتراض الحاق کا اہتمام۔28 اگست 1962 کو 30 سال کی عمر میں سید گیلانی کو پہلی بار گرفتار کیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسے 13 ماہ تک جیل میں رہنا پڑا۔ اس قید کے دوران اس کے والد کا انتقال ہو گیا لیکن اسے اس کے اعتکاف میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔17 مارچ 1965 کو ، مسٹر گیلانی ، اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ ، پاکستان کے ساتھ خفیہ رابطے رکھنے کے الزام میں گرفتار اور جیل میں بند تھے۔ وہ ایک سال دس ماہ بعد رہا ہوا۔1967 اور 1977 کے درمیان وہ کئی بار باری باری جیل میں رہا اور رہا ہوا۔اکتوبر 1983 کے مہینے میں جب بھارت اور ویسٹ انڈیز کے مابین ریاستی دارالحکومت سرینگر میں ایک کرکٹ میچ کھیلا جانا تھا ، مسٹر گیلانی نے اس درخواست کے خلاف میچ کے انعقاد کی شدید مخالفت کی کہ کشمیر ، متنازعہ علاقہ اور بھارت کا جائز حصہ نہیں ، میچ کے لیے مناسب مقام نہیں ہو سکتا۔ حکومت ہند کے کہنے پر اسے جیل بھیج دیا گیا اور عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یہ دیکھ کر کہ لوگوں کا ہجوم کارروائی کے دوران کمرہ عدالت کے اندر اور باہر رہے گا ، حکومت نے ان کیمرہ ٹرائل کا اہتمام کیا۔ایک بار پھر 1983 سے 1986 تک انہیں کئی بار سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔1972 میں مسٹر گیلانی کو جماعت اسلامی ، جموں و کشمیر کے ٹکٹ پر ریاستی قانون ساز اسمبلی میں واپس لایا گیا۔کچھ عرصے تک یعنی 1987 سے 1989 تک ، وہ گیارہ جماعتوں کے اتحاد سے فعال طور پر وابستہ رہے ، یعنی مسلم متحدہ محاذ ، جس کے ظہور نے ریاست کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ 1983 میں کافی عرصہ تک قید سے رہائی کے بعد اس نے مسلمان نوجوانوں کو بھارت کی طرف سے کشمیر پر مسلسل قبضے کے خلاف جہاد (مقدس جنگ) کی طرف راغب کرنے کی مہم شروع کی۔ اس کے تقریبا all تمام لیکچرز اور تقریریں جہاد کے حق میں طاقتور بیان بازی سے بھری ہوئی تھیں۔ 7 ستمبر 1986 کو قید کے دوران انہیں دل کی تکلیف ہوئی اور انہیں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا۔ بیماری کے دوران ان کی موت کی افواہ ان کے پیروکاروں اور خیر خواہوں کو ریلیوں اور جلوسوں میں سڑکوں پر لے آئی۔ حکومت کی جانب سے ریڈیو پر نشر ہونے والے تضاد پر وادی بھر میں پریشان پیروکاروں اور مداحوں نے سکون کا سانس لیا۔مارچ 1987 سے 1989 تک سید گیلانی نے قانون ساز اسمبلی میں مسلم متحدہ محاذ کی مؤثر قیادت کی اور مسئلہ کشمیر کو بھارتی حکومت اور اس کے مقامی حامیوں کی سراسیمگی اور پریشانی کو اجاگر کرتے رہے۔ جب 189 میں ریاست میں ہندوستان کی مسلسل موجودگی کے خلاف مسلح مزاحمت شروع ہوئی تو اس نے فرنٹ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مذکورہ مزاحمت کی حمایت میں عوام میں شامل ہونے کے لیے مقننہ میں اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ آزادی کے حامی تمام جماعتیں ایک نئے اتحاد میں شامل ہیں تحریر حریت کے نام سے معروف وکیل کے ساتھ۔ میاں عبدالقیوم بطور چیئرمین۔ بھارتی حکومت نے اس کمبائن کے تمام اجزاء پر پابندی کے ساتھ جواب دیا اور ان حلقوں کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ مسٹر گیلانی ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں بھارت کی مختلف جیلوں میں بھیجنے سے پہلے گرفتار کیا گیا اور انہیں تشدد مرکز میں منتقل کیا گیا۔1991 کے آخر تک ، سید گیلانی ، دیگر جیل قائدین کے ساتھ ، بھارتی دارالحکومت نئی دہلی لایا گیا ، جہاں انہیں مشروط رہائی کی پیشکش کی گئی جسے انہوں نے سختی سے مسترد کردیا۔خلاصہ یہ ہے کہ سید علی شاہ گیلانی ایک مخلص ، قابل اور بہادر لیڈر ہیں جو اپنے خلوص نیت ، ثابت قدمی اور ثابت قدمی سے کشمیری نوجوانوں کو مسلسل متاثر کرتے رہے ہیں۔ جناب محمد اشرف صحرائی ، میاں عبدالقیوم اور پروفیسر اشرف صحرائی کچھ اہم رہنما ہیں جو ان کی ناقابل شکست لڑائی کے جذبے سے متاثر ہوئے ہیں جس نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کے شعلوں کو دلوں میں جلا دیا ہے۔ ریاست کے لاکھوں آزادی پسند لوگ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرنے کے بعد بھی دشمنوں
کےلئے خوف کی علامت

ٹیپو سلطان ایک عہد ساز حکمران اور عزم و استقلال کے پیکر تھے۔ ان کی تلوار کی گرج چمک سے تختِ بر طانیہ پر بھی ہمیشہ لرزہ طاری رہا۔ وہ اپنوں کی غداری سے دشمن کے محاصرے میں آگئے مگر مردانہ وار لڑتے ہوئے دادِ شجاعت دی اور بالآخر جامِ شہادت نوش کیا۔ سلطان ٹیپو کے دشمنوں میں سے بھی کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ سلطان شہید ہو چکے ہیں۔ ان کی شہاد ت کے بعد بھی ان کا رعب و دبدبہ قائم رہا۔ فرنگی فوج ان کے جسدِ خاکی کو چھونے کی ہمت نہیں کر سکی۔ سلطان کی دونوں آنکھیں کھلی تھیں اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی ہو ئی تھی۔ جنرل ولزلی نے ان کے جسم کو ہلکا سا چھوا اور سمٹ کر دور کھڑا ہو گیا۔ جب سلطان کی شہادت کی خبر جنرل ہارس کو دی گئی تو اس پر بھی کافی دیر تک ڈر و خوف کی کیفیت چھائی رہی۔ سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے نعرہ لگایا "آج ہندوستان ہمارا ہے"۔ سلطان کے حوالے سے مورخین کا کہنا ہے کہ ان جیسا بہادر، نڈر و جری حکمران برصغیر کی تاریخ نے نہیں دیکھا۔ بلاشبہ یہ ٹیپو سلطان کے لہو کی برکت ہی ہے کہ ان کے بعد برطانوی و بعدازاں برہمنی سامراج کی جارحیت کے خلاف جہاد کا سلسلہ آب و تاب سے جاری و ساری رہااور سلطان کے متوالوں و جاں نثاروں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا، جو اسلام کی سربلندی کیلئے سلطان ٹیپو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جھکے نہیں، بکے نہیں بلکہ وقت کے طاغوت کے سامنے علمِ جہاد اٹھائے رکھا۔ ٹیپو سلطان کی المناک شہادت کے اثرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فرنگیوں کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع ملا اور انہوں نے مسلمانانِ برصغیر کے خلاف ہندو بنیے کے ساتھ ساز باز کر کے سازشوں کا بازار گرم رکھا۔ اس ملی بھگت کی بدترین مثال کشمیر کا سودا ہے۔ آج 2021ء میں مقبوضہ کشمیر کے ٹیپو سلطان، 92سالہ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو دیکھ کر بھی نریندر مودی اور اس کی فوج پر ہیبت کا عالم چھایا رہا، وہ ان کے مردہ جسم کی قوت سے بھی ڈرتے رہے۔ اسی لئے فوجی سنگینوں کے سائے میں رات کے اندھیرے میں انہیں مقامی قبرستان میں دفنا دیا گیا، حالانکہ ان کی وصیت تھی کہ انہیں شہدا کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔

سید علی گیلانی کشمیر کی تحریک آزادی کا درخشاں ستار ہ تھے جنہوں نے کشمیر اور پاکستان کے اٹوٹ رشتے کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا اور 92 برس کی عمر میں بھا رتی قبضے سے کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب سجائے وہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ پاکستان سے اپنی نسبت جوڑنے والے سید علی گیلانی پاکستانی پرچم میں مدفون ہوئے۔ بلاشبہ حریت رہنما شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے کیونکہ بھارت کی فاشسٹ حکومت نے انہیں مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے جبری طور پر نظر بند کر رکھا تھا اور جان بوجھ کر انہیں علاج و معالجے کی سہولتوں سے محروم رکھا گیا تھا۔ بھارتی حکومت اس مردِ حر سے اس قدر خوفزدہ رہتی تھی کہ انہیں کینسر کے علاج کیلئے بیرونِ ملک جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ جدوجہدِ آزادیٔ کشمیرکے سرخیل سید علی گیلانی کی وفات سے آزادیٔ جموں و کشمیر کا تاریخ ساز عہد تمام ہوا اور وہ مردِ آہن “ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” کا نعرہ لگاتے لگاتے دنیا سے رخصت ہو گیا۔
سید علی گیلانی کی رحلت نہ صرف کشمیری بلکہ پاکستانی عوام کیلئے بھی ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کے انتقال سے اگرچہ ایک نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہو گیا ہے لیکن تحریک آزادیٔ کشمیر کو اس سانحہ ارتحال سے ایک نئی روح ملے گی۔ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضے کے خلاف اٹھنے والی سب سے دبنگ آوازاور حق خود ارادیت کے عظیم علمبردار تھے۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی سڑکیں سیل کر دیں، موبائیل اور انٹرنیٹ پر فوری پابندی لگا دی گئی اور پورے علاقے میں کر فیو نافذ کر دیاگیا۔ لوگوں کی نقل وحرکت روکنے کے لیے جابجا بندشیں عائد کی گئیں جو حقوق انسانی کی سنگین اور بدترین خلاف ورزی ہے۔ بزدل بھارتی فوج نے ان کی میت کو زبردستی قبضے میں لے لیا اورجنازے کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسلامی شعائر کی تضحیک کی۔ ان کے جنازے پر فوجی پہرہ لگا کر ان سے محبت کرنے والوں کو ان کی تدفین اور آخری رسومات کی ادائیگی میں شرکت کو ہی ناممکن بنا دیاکیونکہ بھارتی حکومت کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر نمازِ جنازہ کا اعلان ہوا تو سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں فرزندانِ تو حید اس شمعِ آزادی کے آخری سفر میں شرکت کرنے کے لیے امڈآئیں گے۔ کشمیر کے شیر کو رات کے اندھرے میں دفنا کر مودی سرکار سمجھتی ہے کہ شاید تحریک آزادی دم توڑ گئی ہے، ہر گز نہیں! اس میں مزید شدت آگئی ہے اور سب پر عیاں ہو گیا ہے کہ بھارت کے نزدیک مقبوضہ وادی کے باسیوں کے کیا حقوق ہیں، ان شاء اللہ اب کشمیر کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کی وہ طاقتور آواز تھی جسے غداری کے مقدمات، جیل کی سلاخیں اور قید و بند کی صعو بتیں بھی خاموش نہ کروا سکیں۔ ان پر ہر ظلم ڈھایا گیا، ان کو چپ کرانے کیلئے ہر حربہ آزمایا گیا مگر وہ آخری سانس تک اپنے نظریے پر استقامت سے ڈٹے رہے۔ یہ نظریہ ان کے مرنے کے بعد بھی زندۂ جاوید ہے۔ یقینا انسان فانی ہے، اس نے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہوتا ہے لیکن اس کے نظریات قائم رہتے ہیں جو اس کے بعد اس کے متوالوں، جاں نثاروں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں اور اسی ڈاکٹرائن پر جدو جہد کا سفر جاری رہتا ہے۔
ٹیپو سلطان سے فرنگی فوج لرزتی تھی تو اس نحیف دکھائی دینے والی شخصیت سے بھارتی فوج کانپتی تھی۔ ٹیپو سلطان کی زندگی کا مقصد تھا انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی اور سید علی گیلانی آخری دم تک مقبوضہ کشمیر کو برہمن کے پنجۂ استبداد سے نجات دلانے کیلئے لڑتے رہے۔ ان کا ایک ہی مشن تھا “مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور اس کا پاکستان سے الحاق”۔ اَن گنت مقدمات، زندان کی اذیتیں بھی ان کو اس نظریے سے نہ ہٹا سکیں بلکہ غاصب بھارت کے ظلم و ستم کے سامنے وہ عزم و ہمت کا کوہِ ایستادہ ثابت ہوئے، وہ آزادی کی بے پایاں تحریک کا استعارہ اور کشمیریوں کے اتحاد کی علامت تھے، جن سے بھارتی حکمران اور ان کے کٹھ پتلی لیڈران اتنے خوفزدہ تھے کہ انہیں قیدوبند میں رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے؛ چنانچہ سیدعلی گیلانی نے زندگی کے 20 سے زیادہ سال بھارتی قیدوبند کی صعوبتوں میں گزارے۔ ایک بار سعودی عرب جانے کیلئے نیا پاسپورٹ بنونے کی ضرورت پڑی وہ اس لئے نہ بن سکا کہ شہریت کے خانے میں انہیں بھارتی شہری لکھنا گورار نہیں تھا۔ وہ صرف اور صرف کشمیری تھے اور تمام عمر کشمیر کیلئے جیئے۔ دو سال قبل، 5 اگست 2019ء کو جب بھارت کی فاشسٹ مودی سرکار نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا یکطرفہ اقدام کیا تو سید علی گیلانی نے اپنی نظربندی کے دوران ہی عالمی برادری بشمول نمائندگانِ عالمی اداروں، عالمی قیادتوں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی قیادت کو بھی اپنے کھلے مراسلے کے ذریعے جھنجوڑا اور کہا کہ وہ اپنی زندگی میں ہی کشمیر کی آزادی کے خواب کی تعبیردیکھنا چاہتے ہیں۔ قدرت نے انہیں اس کی مہلت نہ دی۔ بزرگ لیڈر نے رودادِ قفس، نوائے حریت، دید و شنید، بھارت کے استعماری حربے، صدائے درد سمیت متعدد تصانیف و تحریروں کے ذریعے بھارتی سفا کیت و بربریت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ مرحوم کی آخری رسومات پر قدغن لگا کر بھارت نے یہ ثابت کیا کہ وہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے اس عظیم لیڈر سے بعد از وفات بھی خوفزدہ ہے۔ بھارتی بوکھلاہٹ مرحوم کی صلاحیت اور کردار کی تصدیق کیلئے کافی ہے، مگر بھارت پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ کشمیر ی قائدین کے جنازے روکنے، کرفیو نافذ کرنے اور جبر کے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود جدو جہدِ آزادی میں مزید شدت آئے گی۔
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
…………………….

سید علی گیلانی کی زندگی کا یادگاراور بیش قیمت انٹرویو

آزادی کشمیر کے لئےسب سے زیادہ قربانیاں دینے والے کشمیر کے بزرگ مزاحمتی رہنما سے بات چیت
راجہ ابرار احمد خان
چیف ایڈیٹر: اختلاف نیوز
میڈیا گروپ اینڈ پبلیکیشنز

کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہندوستان کی تقسیم کے فوراً بعد ہو گیا تھا۔ اس جدو جہد میں کشمیر کے لاتعداد بیٹوں، بیٹیوں، ماؤں اور بچوں نے اپنی زندگی قربان کر دی۔ اسی طرح کشمیر کے ایسے بھی رہنما اور سیاستدان دیکھنے میں آئے جنہوں نے اپنی سیاست ، شہرت اور دولت کے لئے کشمیر کے نام کو استعمال کیا۔ اور مفادات کے حصول کے بعد وہی الفاظ بولنے لگے جو کہ انہیں بھارتی حکومت مہیا کرتی تھی۔ مگر کشمیر کے ایسے سپوت بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ میں موجود ہیں۔ جنہوں نے اپنی ساری عمر کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت اور ان کی آزادی کےلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ انہیںاپنی سوچ اور فکر کے کو بدلنے کے لئے بہت سے لالچ دیئے گئے، بڑے بڑے عہدوں کی پیش کش کی گئی مگر وہ اپنے نظریئے پر قائم رہے۔ اور بھارت کی حکومتوں کو شکست کھانا پڑی۔ نتیجتاً انہوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ایسے کشمیری سپوتوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا رکھا۔ یقیناً یہی کشمیر کے وہ عظیم رہنما ہیں۔ جن کے لئے کشمیر کا بچہ بچہ دعا گو ہے۔جی ہاں میں بات کر رہا ہوں۔ کشمیر کے بزرگ، معزز اور معتبر نظریاتی رہنما محترم جناب علی گیلانی صاحب کی ! جن کی ساری زندگی کشمیری عوام سے محبت سے لبریز رہی ہے۔ انہوں نے نہ تو کشمیر کے عوام کے مفادات پر کوئی سودے بازی کی اور نہ ہی کئی بار مواقع ملنے پر کشمیر کو چھوڑ کر یورپ یا کسی دوسرے ملک جانے کی کوشش کی۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کشمیر کا بچہ بچہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اور ان کی زندگی بھر کی جدو جہد کو سلام پیش کرتا ہے۔انہوں نے ’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ کا نعرہ لگایا”
جناب علی گیلانی سے میری ملاقات لڑکپن کی ہے۔ جب کشمیر کی آزادی کے لئے میرا خون آگ کی طرح کھولتا تھا۔ اور میں دن رات یہی سپنے دیکھا کرتا تھا کہ کسی طرح جا کر کشمیر کے عین دل کے مقام پر پاکستان اور بھارت کی سرحدی لکیر کو اپنے خون سے مٹا دوں۔اور ایک مرتبہ میں اپنے چند لڑکے بالے دوستوں کو لیکر نعرے لگاتا ہوا کشمیر کی آزادی کےلئے نکل کھڑا ہوا۔ مگر ہمیں راستے میں اپنے استاد مل گئے۔ اور واپس لے آئے۔
کشمیر کاز کےلئے کام کرنے والے بہت کم ایسے رہنما ہیں جنہوں نے اپنی تعلیم، اپنا روزگار، اپنا کیریئر، اپنا مستقبل، اپنی جوانی اور اپنا خاندان تک کشمیر کی آزادی پر قربان کر دیا ہو۔ یقیناً جناب سید علی گیلانی ہی وہ واحد کشمیری رہنما ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ کشمیر اور کشمیری عوام کی آزادی کےلئے وقف کر دیا۔
میں نے جب حال ہی میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کےپلیٹ فارم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ان کا ویڈیو پیغام سنا ، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔‘ ان کی باتیں اور ارادے سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ ذاتی طور پر ان سے مل کر ان کی زندگی کی زندگی کی جدوجہد کو قرطاس ابیض پر منتقل کروں گا۔مگر بوجوہ مجھے بھارتی ویزہ ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ دوسرا یہ کہ 12 برس سے انہیں بھارتی فوج نے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔اس لئے میں ان کا آن لائن انٹرویو کرنے کا پروگرام بنایا۔ مگر وہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
قارئین کرام!کئی سالوں سے میرا خواب تھا کی جناب سید علی گیلانی سے بات کروں اور ان کی جدوجہد کی کہانی انہی کی زبانی سنوں اور اپنی صحافتی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ان کی سوچ، ان کے خیالات، تفکرات، اور نظریات کو اپنے قارئین تک پہنچاؤں مگر ان سے رابطہ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ کبھی وہ کسی انکوائری کے حوالے سے جیل میں ہوتے تو کبھی اپنے ہی گھر میں نظر بند۔ ان کا جو فون نمبر مجھے ملا وہ بھی اکثر بند ہی رہتا۔ اور جب کھلتا تو اتنا مصروف ہوتا کہ بات نہ ہوپاتی۔ بہرحال اللہ کا کرم ہوا اور ایک دن ان سے رابطہ ہوا۔ اور میں نے اپنی درخواست ان کی خدمت میں پیش کی۔ انہوں نے رات کا وقت دیا۔اور میں نے ان کے دیئے گئے وقت پر ان کو کال کی۔ جو کہ بار بار کٹ جاتی تھی۔ مگر کم و بیش دو گھنٹے کی بات چیت کو انٹر ویو کی صورت میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے یہ انٹر ویو جناب سید علی گیلانی کی زندگی اور جدو جہد کے حوالے سے عام آدمی کی معلومات میں بہت اضافہ کرے گا۔
اختلاف نیوز:۔
اپنے بارے میں کچھ بتایئے!
میرے آباواجداد کا تعلق عراق سے تھا۔ جو مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں ڈُورو گاوں میں آباد ہوئے تھے۔ میں 29 ستمبر 1929کو ضلع بارہمولہ میں جھیل وُلر کے کنارے آباد زوری منز گاؤں کے ایک متمول سید گھرانے میں پیدا ہوا۔میرے والد صاحب میری تعلیم کے حوالے سے کافی سنجیدہ تھے۔ ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور بھیج دیا۔جہاں سے گریجویشن کے بعد میں کشمیر واپس آگیا اور کشمیر کے عوام کی بہتری اور تعمیرو ترقی کے لئے کام کرنے کے منصوبے بنانے لگا۔میرے دو بیٹے ہیں ڈاکٹر نعیم اور ڈاکٹر نسیم۔
اختلاف نیوز:۔
کیا آپ نے دوران تعلیم غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا؟
جی بالکل ہمارے زمانے میں غیر نصابی سرگرمیاں بھی کم وبیش تعلیمی ہو ہوا کرتی تھیں۔ لائبریری جانا اور وہاں موجود کتابوں کو پڑھنا ۔ مجھے لاہور میںدوران تعلیم بہت سی تاریخی اور اسلامی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔جب کہ وہاں پرمیری مذہب سے دلچسپی مجھے جماعت اسلامی کے قریب لے آئی۔ اور وہاں مجھے جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری پڑھنے کا موقع ملا۔ اور میرے اندر کا شاہین بیدار ہو گیا۔اور میرے اندر لکھنے کی تخلیقی صلاحیتیں بھی بیدار ہو گئیں۔
اختلاف نیوز:۔
لکھنے کے حوالے سے کیا تخلیق کیا آپ نے؟
جی الحمدللہ، میں نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابیں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ اور کافی مقالات بھی لکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات اور مسائل پر سینکڑوں کتابچے اور بڑی تعداد میں مضامین تحریر کر چکا ہوں۔جبکہ قید کے دوران دو جلدوں پر مشتمل ڈائری روداد قفس بھی لکھنے کا موقع ملا۔
اختلاف نیوز:۔
اپنی سیاسی جدو جہد کے حوالےسے کچھ بتایئے!
جی بالکل!میں نےاپنی سیاسی زندگی کا باضابطہ آغاز 1950 میں کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت سے عملی طور پر جڑنے کے ساتھ کیا تھا۔کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت کے دوران مجھے اکثر بھارتی اداروں کی طرف سے ہراساں کیا جاتا رہا۔ مگر مجھے پہلی بار 1964 میں قید کیا گیا۔میں بتا رہا تھا کہ تعلیم مکمل کرکے جب میں واپس اپنے علاقے میں پہنچا تو مجھے وہاں پر جماعت اسلامی ہی واحد جماعت نظر آئی۔ جس کے پلیٹ فارم سے لوگوں کی خدمت کی جا سکتی تھی۔ کشمیر واپسی پرمیں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔چونکہ مجھے شعر و سخن سے دلچسپی تھی۔ اور لاہور میں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے رہنے کی وجہ سے خطابت میں مہارت میرے بہت کام آئی۔ اور جماعت کا کوئی ایسا جلسہ نہیں ہوتا تھا۔ جس میں مجھے نہ بلایا جاتا ہو۔ اور الحمد للہ ، اللہ نے عزت دی اور بہت جلد جماعت کا ایک اہم رہنما سمجھا جانے لگا۔میں نے 1977 ،1972 اور1987 میں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ مقامی اسمبلی میں میں مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتا رہا، تاہم 87 رُکنی ایوان میں جماعت کو چند سیٹیں ہی ملتی تھیں لہذا مجھے کھل کر کشمیر کا مقدمہ لڑنے کا موقع نہیں ملا۔ 1987 میں مسئلہ کشمیر کے حل کی حامی کئی تنظیموں کے اتحاد مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو چیلنج کیا۔جو کہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تاہم انتخابات میں بھارتی حکومت کی سپورٹ سے ہونے والی ‘بدترین دھاندلیوں اور کانگریس کی حمایت سے فاروق عبداللہ اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں اور میرے چند ساتھی اور محاذ کے اُمیدواروں نے الیکشن جیت لیا۔
چند سال بعد جب کشمیر میں ہمہ گیر مسلح شورش برپا ہوئی اور محاذ کے ایک رُکن اسمبلی عبدالرزاق بچرو پُراسرار حالات میں مارے گئے تو گیلانی سمیت چاروں ارکان، اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہو گئے۔انہی دنوں کشمیر میں حالات گمبھیر ہونا شروع ہو گئے تھے۔اور مسلح جدوجہد شروع ہوگئی۔ اور بھارتی حکومت نے کشمیریوں پر مظالم کی حد کردی۔
میں نے 2003 میں جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کی اور پھر ‘تحریکِ حریت جموں و کشمیر’ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔اورمارچ 2018 میںمیرے کہنے پر ہی محمد اشرف خان صحرائی کو ‘تحریکِ حریت جموں و کشمیر’ کا امیر مقرر کیا گیا۔ میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کا چیئرمین بھی رہ چکا ہوں۔یہ بھی بتت چلوں کہ حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں قائم کیا گیا تھا۔مذکورہ اتحاد کے قیام کے 10 برس بعدبعض امور پر اختلافات کی بنا پر یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
اختلاف نیوز:۔
آپ نے جماعت اسلامی سے کب اور کیوں استعفی دیا تھا؟
میں نے کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے جماعت اسلامی کی بدلتی ہوئی سوچ اور اپروچ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے 2003 میں اس سے علیحدگی اختیار کی اور پھر ‘تحریکِ حریت جموں و کشمیر’ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔
یہاں میرے ساتھ جماعت اسلامی کے ساتھیوں نے زیادتی کی۔ جب جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی تو انہوں نے جو کورٹ میں اپنی طرف سے جواب پیش کیا ہے اس میں لکھا گیا ہے ہم نے گیلانی اور صحرائی کو اس وجہ سے تنظیم سے نکالا کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں جبکہ جماعت کا اس کے برعکس موقف ہے۔ میں اگر چاہتا تومیں جماعت اسلامی پر قابض ہو سکتا تھا۔لیکن میں نے ایسا نہ کیا ۔ میں خود ہی جماعت سے علٰیحدہ ہوگیا۔ کیونکہ میں اس کارواں کو بکھیرنا نہیں چاہتا تھا۔
اختلاف نیوز:۔
آپ اس دور میں کشمیریوں کی مسلح جدو جہد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جی کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت کرتا ہوں۔ اور یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آپ جب ایک غبارے کو دباتے ہیں تو وہ ایک حد تک دبایا جا سکتا ہے اس کے بعد وہ پھٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کشمیری عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بھارتی حکومت کے خلاف اٹھ لکھڑے ہوئے تھے۔آج بھی بھارت کا بدترین ظلم و ستم کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کمزور کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور وہ بھارتی غلامی سے آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے حوالے سے پرعزم ہیں۔
اختلاف نیوز:۔
90 کی دہائی میں بھارتی حکومت نے ظلم و زیادتیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ آپ اس حوالے سے رزاق بچرو کی شہادت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ضلع کولگام سے 1987کے الیکشن میں مسلم متحدہ محاذ کے دو اُمیدوار کامیاب قرار پائے تھے۔ یہ وہی الیکشن تھا جس میں کشمیری عوام نے انتہائی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کامیاب اُمیدواروں میں کولگام کے بچرو نامی گاؤں کے رہنے والے معروف جماعت اسلامی لیڈر مرحوم عبد الرزاق میر، عرف رزاق بچرو بھی شامل تھے۔ حلقہ انتخاب کولگام میں1996تک جماعت اسلامی سے وابستہ عبد الرزاق بچرو کا طوطی بولتا تھا اور اُنہیں کولگام کا’’ کنگ‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ وہ سیاسی و سماجی شعبوں میں اس قدر سرگرم تھے کہ جب ’’نامعلوم‘‘ بندوق برداروں نے اُنہیں دن دھاڑے، سب کی آنکھوں کے سامنے ،اپنے آبائی گاؤں ،بچرو سے اغوا کرکے کولگام کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے بعد مضافاتی لارو علاقے میں گولیوں کا نشانہ بنایا، تو اپنے تو اپنے، غیر بھی خون کے آنسو روئے۔ جموں اور اُدھمپور سے سینکڑوں کشمیری مائیگرنٹ پنڈت،جن میں خواتین بھی شامل تھیں، سینہ کوبی کرتی ہوئی بچرو پہنچیں تاکہ وہ اُس شخص کا ماتم کرسکیں جس نے اپنی ساری زندگی، بلا لحاظ مذہب و ملت ، رنگ و نسل، ذات پات، اُن کا ہر صورت میں خیال رکھا تھا۔ اُن سینکڑوںبیواؤں اور یتیموں کو روتے بلکتے دیکھا گیا جن کا کہنا تھا کہ بچرو کے قاتلوں نے اُن کے سروں سے سایہ چھین لیاہے۔ عبد الرزاق بچرو نے 1972 اور 1987میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد ریاستی قانون سازیہ میںکولگام کی نمائندگی کی۔اُن کی ہلاکت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پوری وادی ،خاص کر کولگام ضلع میں انسانی خون کی ارزانی تھی اور چاروں طرف موت کا خوف طاری تھا۔بچرو کی ہلاکت، جسے جنوبی کشمیر کے بیشتر مبصرین سیاسی قتل قرار دے رہے ہیں، کے ساتھ ہی کولگام ضلع کئی دور رس عوامل کی آماجگاہ رہا، جن میں قتل وغارتگری کے علاوہ الیکشن سیاست کی طرف لوگوں کا گرتا رجحان قابل ذکر ہیں۔
اختلاف نیوز:۔
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ سخٹ گیر اور بے لچک مؤقف رکھنے والے کشمیری لیڈرہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جب میں نے حریت سے ناطہ توڑ کر حریت کانفرنس کی کمان سنبھالی تو مجھے اور میرے نظریات کو ’ہارڈ لائن‘ یعنی سخت گیرکہا جانے لگا اور میر واعظ کی سربراہی والا دھڑا ’ماڈریٹ‘ یعنی اعتدال پسند قرار دیا جانے لگا۔
اختلاف نیوز:۔
حریت کانفرنس کے بارے میں کچھ بتایئے کہ یہ کیا تھی اور اس کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی آپ نے؟
کشمیر میں تحریک آزادی کےلئے مختلف النوع جماعتیں کام کر رہی تھیں۔ جن کے در پردہ دو نظریات تھے۔ ایک پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک سے آزادی اور دوسرا نظریہ ہندوستان کے قبضے سے نکل کر پاکستان کے ساتھ الحاق کا تھا۔ہم نے پاکستان کے الحاق کو اپنا بنیادی مقصد رکھا۔اور حزب المجاہدین کو سپورٹ کیا اور بھارت اور پاکستان سے مکمل آزادی کی خواہاں جماعتیں ہمارے خلاف ہو گئیں اور ایک نظریاتی جنگ چھڑ گئی۔ سینکڑوں عسکریت پسند تصادموں میں مارے گئے۔ اسی پس منظر میںہم نے کُل جماعتی حریت کانفرنس قائم کی یہ آپس کی لڑائی یا نظریاتی جنگ تھم گئی۔ حریت میں دونوں مکاتب فکر کی جماعتیں تھیں۔ حریت کانفرنس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کو بنیادی مطالبہ بنایا اور کشمیریوں، پاکستان اور انڈیا کے درمیان بیک وقت مذاکرات کو متبادل کے طور پیش کیا لیکن 1996 میں سخت ترین فوجی محاصرے میں ہوئے انتخابات کے بعد جب فاروق عبداللہ نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو نئی دلی نے علیحدگی پسندوں کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ان کوششوں کی وجہ سے حریت میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کے مؤقف واضح طور متصادم ہوئے۔اور 2002 میں عبدالغنی لون کے قتل کے بعد جب کشمیر میں انتخابات ہوئے تو بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ حریت کی اُس وقت کی قیادت نے الیکشن بائیکاٹ میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔جس کی وجہ سے میں اپنے حمایتیوں سمیت حریت سے الگ ہوگیا اور حریت کانفرنس کی کمان سنبھال لی۔کہا جاتا ہے کہ اس میں کچھ ایجنسیوں کا کردار بھی تھا۔
اختلاف نیوز:۔
آپ نے اپنی ہی قائم کردہ حریت کانفرنس سے بھی استعفیٰ دے دیا! اس پر کچھ روشنی ڈالئے؟
جی بالکل ایسا ہی ہے،جب مجھے میری ہی جماعت کے اندر، میرے ہی منتخب کردہ افراد نے نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور میری مشاورت اور میری اجازت کے بغیر کچھ ایسےفیصلے سامنے آئے کہ جو کشمیر کی آزادی اور کشمیری قوم کے مفادات کے ساتھ براہ راست متصادم تھے۔تو میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ میں اس جماعت سے استعفیٰ دے دوں۔ مگر میں نے اپنی آخری سانس تک کشمیر کی آزادی کےلئے جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کرتا ہوں۔
میں نے 29 جون 2020 کوکُل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا۔اگر آپ نے اس وقت میرا آڈیو پیغام سنا ہو تو اس میں میں نے کہا تھا کہ میں اتحاد کے اندر پائی جانے والی موجودہ حالت کے پیش نظر اسے خیر باد کہنے کو مناسب سمجھتا ہوں۔ اس سلسلے میں حریت کانفرنس کو ایک مفصل خط بھی ارسال کیا تھا جس میں میں نے کہا تھا “حریت کانفرنس کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس فورم سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ اس فورم کے ساتھیوں کی کارکردگی کے لیے جوابدہی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد میں شامل اُن کے ساتھی اپنے لیے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔
مجھے پتا چلا تھا کہ میری ہی جماعت میں شامل بعض افراد کی یہ رائے تھی کہ مجھے میری پیرانہ سالی اور بگڑتی صحت کے پیشِ نظر اتحاد کی ایسی سرگرمیوں سے الگ رکھا جائے جنہیں نبھانے میں مجھے مشکل پیش آسکتی ہے گو کہ مجھے چند سال پہلے حریت کانفرنس (گیلانی) کا تا حیات چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ بڑھاپے اور جسمانی کمزوری سے متعلقہ اعتراضات کا جواب بھی میں نے اپنے خط میں واضح طور پر دے دیا تھا۔ میں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ “جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض، روح کے مضمحل ہونے کے مترادف نہیں ہے، نہ قلب و ذہن کی قوت موقوف ہوئی ہے اور نہ ہی میرے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے۔ اس دارِ فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔
اختلاف نیوز:۔
آپ نے مشرف فارمولے سے اختلاف کیا تھا، یہ فارمولہ کیا تھا اور آپ کی مخالفت کی وجوہات کیا تھیں؟
سن 2003 میں اُس وقت کے پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے کشمیری قیادت کو مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا گرین سگنل دیا تو میں نے اس کی بھر پور اور برملا طور پر مخالفت کی تھی۔
جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ (1)۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی سرحدوں (واضح رہے یہ سرحدیں نہیں بلکہ کنٹرول لائن ہے) کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور دونوں جانب سے لوگوں کو آزادانہ آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ (2)۔ ریاست کو خود حکومتی یا خودمختاری (آزادی نہیں) کا درجہ جموں و کشمیر بشمول پاکستانی مقبوضہ کشمیر (انگریزی زبان میں تحریر کردہ فارمولہ میں PAKISTAN OCCMPIED KASHMIR درج ہے) کو تجارت، سیاحت اور پانی جیسے معاملات میں اندرونی انتظام کی اجازت دی جائے تاکہ تعاون کی بنیاد پر علاقے کی سماجی اور اقتصادی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ ترقی ہو سکے۔ (3) علاقے سے مرحلہ وار فوج واپس بلائی جائے۔ (4) کشمیر کیلئے اس روڈ میپ پر عمل درآمد کی نگرانی کیلئے مشترکہ نظام بنایا جائے جو پاکستان، بھارت اور کشمیری نمائندوں پر مشتمل ہو۔
آپ کو یاد ہوگا کہ میںنے فوری طور پرکشمیر پر ‘مشرف فارمولا’ کو کشمیری عوام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف قرار دیا۔ اس کے فوراً بعد حریت کانفرنس نام نہاد سخت گیر اور اعتدال پسند دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور اسلام آباد نے میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کی تائید و حمایت کا اعلان کیا تو مقامی سیاسی حلقوں میں اس رائے کو تقویت ملی کہ اتحاد کو دو لخت کرنے میں پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے۔ صدر مشرف نے نومبر 2004 میں ایک انٹرویو میں اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ حریت کانفرنس کی تقسیم میں اُن کا یا پاکستانی حکومت کا ہاتھ تھا۔
اختلاف نیوز:۔
آپ نے مشرف فارمولے کے جواب میں اپنا چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا۔بہت کم لوگ اس فارمولے یا اس میں شامل چار نکات کے بارے میں جانتے ہیں کیا آپ اختلاف نیوز کے قارئین کو اپنے فارمولے کے برے میں بتانا پسند کریں گے؟
جی میں نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا۔ میں نے عالمی اداروں اور سربراہان مملکت کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں انہیں کشمیر میں شورش کو ختم کرنے اور خطے میں پائیدار امن کی ضمانت کیلئے چار نکات پر مشتمل مطالبات کی فہرست پیش کی تھی۔
یہ مکتوب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس جیسے ممالک کے سربراہان، سارک ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم آسیان اور اسلامی ممالک کی تنظیم کے علاوہ پاکستان، ایران ، سعودی عرب اور ترکی کے سربران مملکت کو ارسال کیا گیا تھا۔میں نے عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر سے متعلق فوجی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کریں۔ امن فارمولا کے نکات یہ ہیں۔ (1) جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اسکے باشندوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا جائے۔ (2) آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلا، عوام کش فوجی قوانین کا خاتمہ۔ (3) تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، نظربندی کے کلچر کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر سے جڑے سبھی سیاسی مکاتبِ فکر خاص طور پر حق خودارادیت کے حامی سیاسی رہنمائوں کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی دی جائے۔ (4) اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے نمائندوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس قدر سنگین شورش کے دوران حریت رہنمائوںنے فہرست مطالبات جاری کی ہو۔
آپ کاکہنا ہے کہ مشرف کاچار نکاتی فارمولا مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت کو مجروح کر دے گا ، تو کیا اس سے بہت پہلے جولائی 1972ء کے معائدہ شملہ میں پاکستان اور بھارت نے کشمیرکے دوطرفہ تنازع ہونے پر اتفاق نہیں کر لیاتھا؟
معائدہ شملہ نے کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ بنایا جس کا ہمیں بہت نقصان ہوا ۔ سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول میں تبدیل کیا گیا۔ اسی پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ اب کشمیر سے اقوام متحدہ کےObservers نکالے جائیں لیکن اس سب کے باوجود مسئلہ کشمیر اب بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ پاکستان اور بھارت از خود سیکیورٹی کونسل کی توثیق کے بغیر اس مسئلے سے ہاتھ نہیں کھینچ سکتے۔اس کے لیے کشمیریوں سے بھی پوچھنا پڑے گا۔ جب پاکستان اور بھارت یہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ گئے تو ان دونوں ممالک نے بعض امور میں اقوام متحدہ کے سامنے اپنے اختیارات سرنڈر کیے تھے۔1955 ء میں جب کشمیر کی اسمبلی میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد پاس کی گئی تو پاکستان سیکیورٹی کونسل میں گیا۔ سیکیورٹی کونسل نے 1947کی قرارداد نمبر 91کی بنیاد پر اس الحاق کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ رائے شماری کانعم البدل نہیں ہے۔سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کا قانون اُن انٹرنیشنل معاہدوں پر حاوی نہیں ہوسکتا جن پر انہوں نے دستخط کر رکھے ہوں۔ پاکستان کی حکومت نے 1956,1 962اور1973ء کے آئین میں شامل آرٹیکل 257 میں لکھا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ رائے شماری ہی سے ہوگا ۔ اس کے علاوہ پاک چین کا جو سرحدی سمجھوتا ہوا تھا،اس کے آرٹیکل 6میں درج ہے کہ اگر کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو گیا تو یہی بارڈر تسلیم کیا جائے گا ،اگر کشمیریوں نے کوئی اور فیصلہ کیا تو پھر کشمیری حکومت کے ساتھ بات کی جائے گی ۔ اُس وقت وزارت خار جہ میں سمجھدار لوگ تھے کہ انہوں نے اس کو متنازع رکھا۔ 1971ء کے سانحے کے بعد ہم کمزور پڑ گئے تھے۔اسی شملہ معائدے کے بعد1975ء میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ’’دہلی اکارڈ ‘‘ہوا۔ اس کے ساتھ آزادکشمیر میں ایکٹ 1974ء بھی آیا جس میں آزادکشمیر حکومت کی اتھارٹی کو بہت کم کر دیا گیا تھا۔ یہ سب شملہ معائدے کے فالو اَپ میں ہوا۔ ہم نے اسی سال مئی میں تیرھویں ترمیم میںایکٹ 74کے ُان نقائص کونکالا، اب چٹھیاں لکھی جارہی ہیں کہ اس پر دوبارہ غور کرنا پڑے گا حالانکہ دوسری طرف یہ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم نے ایکٹ 74ء ترمیم کر کے آزادکشمیر حکومت کو بااختیار بنا دیا ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے؟
اختلاف نیوز:۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کےکیا حالات ہیں اور خطےکے امن اور تعمیر وترقی پر مسئلہ کشمیر کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور اس کا فوجی محاصرے کرنے کے بعدعلاقے اپنی ریاستی دہشت گردی تیز کر دی ۔ جس سےصورتحال روز بگڑتی جارہی ہے جموں کشمیر کے عوام پر جاری مصائب میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کے اثرات سے بھارت اور پاکستان کے عوام براہ راست اور چین سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے درمیان سارک پروگرام کے تحت جاری اقتصادی ترقی کی سر گرمیاں اور منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں مقبوضہ علاقے میں 23 ہزار 9 سو 30 سے زائد خواتین بیوہ اور 1لاکھ 7ہزار 8 سو 30 سے زائد بچے یتیم ہوئے ہیں، کے ایم ایس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں کو تذلیل کا نشانہ بنانے کیلئے خواتین کی آبروریزی کو جنگی آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس نے گزشتہ بتیس برسوں میں کم از کم 11ہزار 2سو 45 خواتین کو آبروریزی کا نشانہ بنایا ہے۔ کشمیری گزشتہ 7 دہائیوں سے روز ناقابل بیان مظالم برداشت کر رہے ہیں اور وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کا متواتر نشانہ بن رہے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں لوگ جنس اور عمر سے قطع نظر انتہائی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔بھارت میں 2014 میں میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں مسلم مخالف نفرت انتہا تک پہنچ گئی ہے۔
اختلاف نیوز:۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے آپ آزاد کشمیر کی قیادت سے کیا امید رکھتے ہیں؟
کشمیر کی ریاست جبری تقسیم کا شکار ہے ۔ ایسی حکومت جو اپنے قیام کے وقت مہاراجہ کشمیر کی جانشین حکومت کہلائی اور جس کے اغراض و مقاصد میں باقی ماندہ ریاست کو آذاد کرا کر اپنے وجود کو مکمل کرنا شامل تھا ۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آذاد کردہ خطہ پر قائم اس حکومت کو ابھی تک بین الاقوامی پہچان سے دور رکھا گیا ہے ۔
بھارتی حکومت کے5اگست کے اقدام کا جائزہ لیا جاے تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس موجودہ آذاد حکومت کی وہ حیثیت بحال ہو جاتی ہے جو13اگست کو تھی یعنی ایک آزاد ریاست اب اگر پاکستان کی حکومت 1949 کے معاہدہ کراچی کو منسوخ کرتے ہوے موجودہ آذاد کشمیر حکومت کو وہ اختیار و طاقت بحال کر ے اور اسے پورے ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کر لے تو یہ کشمیریوں کی عملی مدد کی ایک بہترین مثال ہو گی ۔
ریاست جموں کشمیر پر جو جنگ بندی 1948 میں ہوئ یکم جنوری 199 کو سیز فائر ہوا اور بھارت پاکستان اور اقوام متحدہ کے فوجی افسران نے زمین اور نقشہ پر جو منحوس خونی لکیر کھینچی گئ میرا اور ان کا خاندان اس کی زد میں آیا۔ جبری تقسیم سے پڑنے والے اثرات سب ہی منقسم ان خاندانوں کی کہانی ہے جو اس تقسیم کی زد میں آئے۔ Family Reunification کی خواہش ریاست جموں کشمیر کی سیاسی و جغرافیائی وحدت کی بحالی کی جدوجہد میں بدل گئی ۔
اختلاف نیوز:۔
اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے نوجوانوں نے آپکی حمایت میں کئی نعرے بھی اختراع کیے، یہ نعرے کیا تھے؟
کشمیری حریت پسند نوجوانوں کی محبت میرے لئے ایک تا حیات اثاثہ ہے۔انہوں نے مختلف مواقع پر میری حمایت میں کئی نعرے بھی ایجاد کیے مثلاً ’کون کرے گا ترجمانی ، سید علی شاہ گیلانی‘ اور ’نہ جُھکنے والا، گیلانی، نہ رُکنے والا گیلانی۔‘ اس وقت یہی یاد ہیں۔
اختلاف:۔
قوم پرست جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی مخالفت اور بعض نے حمایت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔آپ اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟
ریاست جموں و کشمیر ایک قدرتی وحدت ہے۔ اسے کسی قیمت پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے، خواہ یہ لداخ کو جموں کشمیر سے الگ کرنے کی بات ہو یا گلگت بلتستان کو تنازعۂ کشمیر سے الگ کرنے کی بات ہو۔میری رائے میں ریاست کے حصے بخرے کرنے کے ہر عمل کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی چاہے ایسا بھارت کی طرف سے ہو یا پاکستان کی طرف سے۔اس عمل سے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو زک پہنچے گا بلکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کمزور پڑ جائے گا۔
اختلاف نیوز:۔
13 جولائی کے حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟
۱۳ جولائی جموں کشمیر کی تاریخ میں واحد ایسا دن ہے جسے ریاست جموں کشمیر کے تمام ریجن اور سیاسی و سماجی تنظیمیں بلا تخصیص اپنا قومی دن تصور کرتے ہیں ۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ کشمیریوں کے اس قومی دن پر بھارت کی حکومت نے پابندی لگا دی اور سرکاری کلینڈر سے اس تاریخ کو خارج کر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال کا یوم شہداے کشمیر ہم کشمیری عوام یوم تجدید عہد کے طور منایں گے ۔
13 جولائی 1931کو 22 نہتے کشمیریوں کو سرینگر میں گولیاں مارکر شہید کیا گیا۔ یہ ہماری قومی آذادی کی تحریک کا پہلا پڑاؤ تھا۔ شہداء کو جسمانی طور پر ہم سے جدا کرنے والے ان کی سوچ ،فلسفہ اور جدوجہد کے تسلسل کو ختم نہیں کرسکے اور نہ ہی انشاللہ کر سکیں گے۔ بر صغیر ہندوستان تقسیم ہو گیا ، نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے والے جابر حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نہ اپنے اقتدار کو بچا سکا نہ ریاست کی وحدت اور سالمیت کو ۔ہماراپیرا وطن جموں کشمیر بھارت پاکستان اور چین کے درمیان جبری تقسیم کا شکار ہو گیا ۔ مگر کشمیری عوام کے دلوں میں آذادی کا دیا بجھا نہیں۔ شہدا کشمیر کے حقیقی وارث کشمیریوں نے اپنا سفر آذادی جاری رکھا ۔ پھر دوسرا پڑاؤ آیا آج سے چھتیس سال قبل شہید مقبول بٹ کو پھانسی دینے والے یہی سوچ رہے تھے کہ مقبول کو تختہ دار پر چڑھاکر وہ بڑی کامیابی حاصل کرچکے ہیں لیکن ان کی شہادت نے قومی آزادی کی جدوجہد کو نئی شکتی اور طاقت دی ۔ اور طاقت ور حکومتوں پر واضح کیا کہ لاشیں گرانے اور فرزندان حریت کو زندان خانوں میں بند کرنے سے آزادی کی تحریکوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جدوجہد در جدوجہد کا درس کشمیری قوم کے لئے ایک انقلابی میراث سے کم نہیں۔تیسرے پڑاو میں 30 مارچ1990 کو شہید اشفاق مجید وانی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ایک ایسی مثال پیش کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی پھر شہدا کے ناموں کی ایک طویل قطار ہے جن کو شمار کرنا بھی مشکل ہے ۔، تیسرا پڑاو انشاللہ آخری پڑائو ہے ۔۔۔ ہماری حتمی منزل کا۔ اب ہم اپنی حتمی منزل ایک آزاد خود مختار متحدہ جمہوریہ ریاست جموں کشمیر پر پہنچنے کے قریب ہیں اور یہ منزل پانے کے لئے میں وطن کے جانثار کی حیثیت سے تجدید عہد کرتا ہوں کہ عمر کے اس آخری حصہ میں بھی اپنی آخری سانس تک اپنے اس مشن کے لئیے جو کچھ بھی بن سکا کرنے سے دریغ نہیں کرونگا ۔ اللہ تعالی آپ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔
اختلاف نیوز:۔
گاؤکدل کا سانحہ کیا تھا اور اس دن ظلم و بربریت کے واقعے پر کچھ روشنی ڈالیئے؟
21 جنوری1990 کشمیر کے لئے جلیانوالہ باغ قتل عام کا دوسرا منظر تھا وہ دن کشمیریوں کے لئے ایک قیامت کا دن تھا۔ گاؤکدل قتل عام کو31 سال گزر گئے ہیں لیکن اس واقعہ کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ واقعہ کل پیش آیاہے۔ شہداے گاو کدل -19 جنوری کی رات جب جگموہن نے گورنر ی کا چارج سنبھالا، سرینگر کے وسط میں گاوٗکدل علاقہ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ مقامی آبادی کے خلاف آپریشن 50 افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس روز وادی میں سخت سردی تھی لوگوں کے مزاج میں تلخی اور ناراضگی کی گرمی بڑہی ہوئ تھی۔ اس روز موسم صاف تھا مگر کرفیو کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے اس دوران شہر کے پادشاہی باغ سے لوگوں نے ایک جلوس نکالا یہ جلوس جواہر نگر اور راجباغ سے ہوتے ہوئے گاؤ کدل پہنچ گیا دن کے دو بجے اس پرُامن جلو س پر سی آر پی ایف نے فائیرینگ کر کے گاؤکدل کو مقتل میں تبدیل کر دیا۔ جنوری 1990سے آج تک حقائق سے انکار کے بجائے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔ اور قابل قبول اور قابل عمل یہ ہے کہ جموں کشمیر کے پانچوں خطوں لداخ ، گلگت بلتستان، جموں ، وادی اور آزاد کشمیر سے چین ، بھارت اور پاکستان اپنی فوجیں نکال کر کشمیر کشمیریوں کے حوالہ کر دیں ۔
اختلاف نیوز:۔
آر پار کشمیریوں کے ملنے کے حوالے سے کچھ تجاویز آئی ہیں ۔ کہا گیا کہ کنٹرول لائن پر کوئی ایسا مشترکہ پارک بنایا جائے جہاں آر پار کے کشمیری آسانی سے مل لیا کریں، آپ اس تجویز کو کیسے دیکھتے ہیں؟
کشمیریوںکےلیے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف میں آنا جانا مکمل طور پر کھلا ہونا چاہیے۔آرپار آمدورفت کی ڈاکیومینٹیشن میں وقت بہت صرف ہوتا ہے۔ بسا اوقات اس عمل میں ویزے سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے تو کہا گیا کہ ایک پارک بن جائے ۔بھئی اس پارک میں جانے کے لیے بھی توکسی سے اجازت لینی پڑے گی۔ سمجھنا چاہیے کہ یہ موقف اپنانے سے کشمیریوں کے حق میں کمی آتی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کسی بھی کشمیری کے آر پار جانے پرکوئی قدغن نہیں ہے۔
اختلاف نیوز:۔
آپ نے ایک لمبا عرصہ قید و بند میں گذارا ہے۔ اور ابھی بھی آپ گھر میں نظر بند ہیں، کیا آپ کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو بھی بھارتی حکومت نے پریشان یا ہراساں کیا؟
جی ابرار صاحب، بھارتی حکومت جو چاہے کر سکتی ہے۔ ان سے کچھ بعید نہیں۔ حکومتی ایجنسیوں اور اہلکاروں نے میرے بچوں، اہل خانہ اور دیگر رشتے داروں حتیٰ کہ میرے داماد تک کو گرفتار کرکے ان کوتفتیش کے نام پر ہراساں کیا اور ان کو دہشت گرد اور مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر الحمدللہ فتح حق کی ہوئی۔ اور وہ کچھ ثابت نہ کر سکے اور میرے داماد اور دیگر عزیز و اقارب کو رہا کرنا پڑا۔
اختلاف نیوز:۔
آپ کشمیری عوام بالخصوص یورپ میں رہنے والے کشمیریوں کےلئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
قومیں اسی وقت آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہوسکتی ہیں جب واضع نصب العین کے ساتھ متحد ہو کر جدوجہد کریں ۔ ایک ہی جستجو ہو ۔ کشمیر کے مسئلے کے التوا کی اور بہت ساری وجوہات کے ساتھ بڑی وجہ کشمیری عوام کا خود نہ جاگنا ہے ۔ آج تک کسی ایسی قوم کو آزادی نصیب نہیں ہوئی جو تقسیم ہو ۔ پاکستان کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ ساری قوم متحد تھی ۔ آخرکار دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خودمختار ملک وجود میں آیا ۔ کشمیری قوم کو متحد ہونا ہوگا ۔ اور سب کو کشمیر کی آزادی کے لئے کام کرنا ہوگا ۔ اللّہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان میں دوسرے انسان سے مختلف خصوصیات اور مہارت دی ہوتی ہے ۔ ہمیں تمام شعبوں میں ترقی کے ساتھ آگئے بڑھنا ہوگا ۔ اور جس کے پاس وسائل ہیں انہیں استعمال کر کے کشمیر کے لئے آگئے بڑھنا ہوگا ۔ اور جو میدان عمل میں کشمیر کاز کے لئے اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی ۔ آر پار کی کشمیری قیادت اور عوام کے درمیان روابط کا بڑھنا بھی بہت ضروری ہے ۔ دونوں طرف کے کشمیریوں کو اپنے رشتے مزید مضبوط کرنے ہونگے۔یورپ میں بسنے والے کشمیری آزاد فضاؤں میں ہیں انہیں ایک پلیٹ فارم تلے جمع ہو کر ایک ہی آواز کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا ۔ میں نےاپنی زندگی میںجہاں تک ممکن تھا کوشش کی ۔ سب کو متحد رکھا ۔ اور مجھے امید ہے نوجوان نسل تقسیم نہیں ہوگی اور سب متحد ہوکر کشمیر کی آزادی کے لئے کام کریں گے۔ میں جب یورپ میںبسنے والےکشمیریوںکی جدوجہد کو دیکھتا ہوں تو ایک اطمینان سا ہوتا ہے کہ کشمیری دنیا کے جس بھی حصہ میں ہوں اپنے مقصد کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں ۔ اور دکھ اس بات ہے کہ جب انہیں مختلف گروہوں اور الگ الگ پلیٹ فارم پر اور پھر الگ الگ جماعتوں کے ساتھ منسلک ہوکر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جو بہت خطرناک پہلوہے۔بیرون ملک کشمیریوں کو ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر تکمیل پاکستان کے لئے کام کرنا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کے تاریخی خظوط
سید علی گیلانی کا بھارتی وزیر اعظم وی پی سنگھ کے نام تاریخی خظ

دسمبر 1989 کی بات ہے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح شورش اپنے عروج پر تھی اور کشمیریوں کا آزادی کے مطالبے کو لے کر سڑکوں پر نکلنا روز کا معمول بن چکا تھا۔

مسلسل ہڑتال کے باعث معمول کی زندگی معطل تھی۔ تعلیمی، معاشی اور سیاسی غرض ہر طرح کی سرگرمیاں ٹھپ تھیں۔بھارتی حکومت صورتحال پر قابو پانے کے ہر طرح کے حربوں کو آزما رہی تھی۔ اس کے احکامات پر پورے کشمیر میں کرفیو نافذ تھا، سکیورٹی فورسز احتجاج کرنے والوں پر براہ راست فائرنگ کر رہے تھے اور علیحدگی پسند رہنماؤں اور کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا۔اس سنگین صورتحال کے درمیان سینیئر آزادی پسند رہنما سید علی گیلانی نے 21 دسمبر کو بھارت کے وزیر اعظم وشواناتھ پرتاپ سنگھ معروف بہ وی پی سنگھ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو مسئلہ کشمیر کی تاریخ کا سبق پڑھاتے ہوئے ان سے کشمیری عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا موقع فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔اس کتاب میں مذکورہ نایاب خط کے متن کو من و عن پیش کیا جا رہا ہے:
آداب تسلیمات! اللہ کرے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں۔
میں یہ خط وادی کشمیر کے ایک گائوں ڈورو سوپور ضلع بارہمولہ سے آپ کے نام ایسے ماحول اور حالات میں لکھ رہا ہوں کہ 14 دسمبر 1989 سے ہمارے قصبہ سوپور اور بارہمولہ میں کرفیو کا نفاذ ہے۔ 15 دسمبر کو سری نگر، اسلام آباد (اننت ناگ) اور شوپیاں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور آج 18 دسمبر کو چوتھے روز بھی کرفیو جاری ہے۔
فوج اور نیم فوجی دستوں کا گشت، فلیگ مارچ اور لوگوں کو طرح طرح سے خوف و دہشت کا شکار بنائے جانے کا عمل جاری ہے۔ گھر گھر تلاشیاں لی جا رہی ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ جان و مال اور عزت و آبرو پر دن دھاڑے ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ آپ کی تازہ دم حکومت اپنی فوج اور نیم فوجی دستوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کر کے پوری وادی کشمیر کو ایک وسیع جیل خانے اور فوجی کیمپ میں تبدیل کر رہی ہے۔
ریڈیو پر مسلسل اعلانات ہو رہے ہیں کہ کشمیر میں پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ’قوم دشمنوں‘ اور ’علیحدگی پسندوں‘ کو کچلا جائے گا اور دہلی سرکار اس بارے میں کشمیر سرکار کو بھرپور مدد اور تعاون فراہم کرے گی۔ ان حالات میں، میں نے کشمیر کے ایک محکوم و مظلوم شہری کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھا ہے کہ میں آپ کو چند بنیادی حقائق سے آگاہی بخشنے کی ذمہ داری انجام دوں۔
مسئلہ کشمیر کا پس منظر
ریاست جموں و کشمیر برصغیر پاک و ہند کے انتہائی شمال میں اور جنوبی وسط ایشا کے قلب میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں پانچ ممالک کے ساتھ ملتی ہیں یعنی پاکستان، افغانستان، روس، چین اور بھارت۔ ریاست کی 700 میل لمبی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔ ریاست کا مجموعی رقبہ 8447 مربع میل ہے۔ اس میں دو میدانی علاقے ہیں۔ ایک وادی کشمیر جو 84 میل لمبی اور 25 میل چوڑی ہے اور دوسرا میدانی علاقہ جموں کا ہے۔
1961 کی مردم شماری کی رو سے اس کی آبادی 40 لاکھ 21 ہزار افراد تھی اور آبادی میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً 80 فیصدی تھا۔ گلگت کے علاقہ کی 100 فیصدی آبادی مسلمان ہے۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں کا تناسب 90 فیصدی ہے اور جموں میں بھی اس کو عددی اکثریت حاصل ہے۔ اس طرح یہ علاقہ خالص مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔
تاریخی حیثیت سے ریاست جموں و کشمیر گزشتہ 700 سال سے مسلمانوں کے زیر نگین ہے۔ اس علاقہ میں اسلام کی شعائیں عین اُس زمانے میں پہنچیں جب براعظم ہند میں دین کا فروغ شروع ہو چکا تھا۔ اور پھر اس کا سارا ارتقا اسلام کے زیر سایہ ہوا۔ 1310 سے 1552 تک یہاں مقامی مسلمان حکمرانوں کی سلطنت قائم رہی۔
1515 سے 1715 تک یہاں مغلوں کا اقتدار رہا اور پھر 1819 تک افغان گورنر کو حکمرانی کے اختیارات حاصل تھے۔ 1819 میں جبکہ پورے برصغیر میں مسلمانوں کا زوال شروع ہو چکا تھا اور وہ اپنی آزادی اور اقتدار دوسروں کے ہاتھوں کھو رہے تھے سکھوں نے کشمیر پر فوج کشی کی اور اس پر اپنا راج قائم کر لیا۔ یہ دور 1846 تک چلا اور اس میں اقلیتی حکمرانوں نے جبر و تشدد اور قوت و استبداد کے ذریعے مسلمان اکثریت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور ظلم و بربریت کی تاریخ میں ایک شرمناک باب کا اضافہ کیا جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
دریں اثنا انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا اقتدار مستحکم کر لیا اور سکھوں کو شکست دینے کے بعد صوبہ جموں کے ایک جاگیردار گلاب سنگھ کے ہاتھ پہ پوری ریاست 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض فروخت کر دی۔ گویا ایک کشمیری کی قیمت سات روپے مقرر ہوئی۔ یہ تاریخی سانحہ 16 مارچ 1846 کو واقع ہوا ہے اور اسے معاہدہ امرتسر کہتے ہیں۔ یہ ہے وہ دن جب سے کشمیر پر ڈوگرہ راج شروع ہوا اور جس کی جانشین اب ہندوستان کی حکومت اور اُس کے کشمیری ایجنٹ ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر پر ڈوگرہ خاندان کی حکمرانی قائم ہو جانے کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا انتہائی انوکھا، عجیب و غریب اور انسانی جانوں کی خرید و فروخت کا شرمناک سانحہ ہے۔ ڈوگرہ خاندانوں نے اپنے 100 سالہ دور اقتدار میں یہاں کی اکثریت پر وہ مظالم ڈھائے جن کی یاد تازہ کرتے ہوئے حساس انسانوں کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اکثریتی آبادی کو ایک مٹھی بھر اقلیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ تمام کلیدی مناصب ایک چھوٹی سی اقلیت کے ہاتھوں میں دیے گئے۔ پھر ڈوگرہ فوج اور پولیس اُن کی زیادتیوں کی پشتبان بن کر ان کو سہارا دیتی رہی۔
ریاست کی اکثریت محنت مشقت کرتی تھی اور قلیل اقلیت داد عیش دے رہی تھی۔ زمینیں اور جاگیریں ان لوگوں کے قبضے میں تھیں اور مسلمانوں غریب کاشت کاری کر کے بھی نان شبینہ کے محتاج رکھے جاتے تھے۔ کھڑکیوں، گھر کے چولہوں پر ٹیکس لگائے جاتے تھے۔ بیوی پر، گھر کے مویشیوں پر، ہر پیشہ پر حتیٰ کہ مکان پر چمنیاں لگانے پر ٹیکس عائد کر دیا جاتا تھا اور پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان بے بسوں سے جبری محنت یعنی بیگار بھی لی جاتی تھی۔
ایک پوری قوم کو 75 لاکھ نانک شاہی میں خرید کر پھر اُس پر پوری ایک صدی تک بے پناہ مظالم ڈھائے جانے کے بعد 1947 میں آخر اس خاندان کے مہاراجہ آنجہانی ہری سنگھ کو کیسے یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی محکوم اور زر خرید ریاست کے عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرے اور پھر اس کی بنیاد پر بھارت کو اپنی عریاں اور ننگی جارحیت کے لیے میدان فراہم کرے۔ عدل و انصاف کے معیار کو اگر سامنے رکھا جائے تو سارے جموں و کشمیر کی حدود میں خود ڈوگرہ خاندان کی حکمرانی ایک ظالمانہ اور باطل نوعیت کی تھی اور اس کا ہر اقدام ظالمانہ، غیر منصفانہ اور باطل قرار دیا جائے گا۔ اس لیے 26 اکتوبر 1947 کو جو الحاق اس بھاگتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجہ نے کیا ہے اُس کی کوئی ذمہ داری ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت پر عائد نہیں کی جا سکتی اور نہ ان کو اس باطل معاہدہ کی پابندی کا ذمہ دار گردانا جا سکتا ہے۔
الحاق عارضی اور مشروط
مہاراجہ ہری سنگھ نے جو الحاق کیا تھا وہ بھی عارضی اور مشروط تھا۔ ہندوستان انگریزوں کی غلام سے آزاد ہوا اور تقسیم کی بنیاد دو قومی نظریہ بنی۔ پورے متحدہ ہندوستان میں جو علاقے ہندو اکثریت کے تھے وہ بھارت میں شامل کر دیے گئے اور جو علاقے مسلم اکثریت کے تھے وہ پاکستان میں شامل کر دیے گئے۔
600 کے قریب ریاستوں کے سربراہوں کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ جغرافیائی سرحدوں اور اپنی آبادی کے مذہبی اور تہذیبی رشتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے دو میں سے کسی ایک مملکت کے ساتھ اپنا سیاسی رشتہ قائم کریں۔ چنانچہ اُس وقت کے وائسرائے ہند کے الفاظ ہیں:
’یہ ریاستیں آزاد ہیں کہ دونوں مملکتوں میں سے جس کے ساتھ چاہے الحاق کر سکتی ہیں۔ لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ جس سے چاہے الحاق کے لیے آزاد ہیں تو میں اس بات کا اضافہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ جغرافیائی مجبوریاں ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اس مملکت کی حکومت سے جو آپ کی ہمسایہ ہے دور نہیں جا سکتے۔ اور اسی طرح آپ اس رعایا کی مرضی کے خلاف بھی نہیں جا سکتے جس کی فلاح و بہبود کے آپ ذمہ دار ہیں۔‘
(لارڈ ماؤنٹ بیٹن، 25 جولائی 1947، چیمبر آف پرنس میں تقریر)
وائسرائے ہند کی اس رہنمائی کی رو سے ریاست جموں و کشمیر 85 فیصد مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے اور 700 میل لمبی سرحد کے پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے کی مناسبت سے ازخود پاکستان کا حصہ بن رہی تھی۔ انگریزوں نے اگر کانگریس کے ساتھ مل کر وہ اور گھناونی سازش کے ذریعہ ضلع گرداس پور بھارت کے حوالے نہ کر لیا ہوتا تو بھارت کو ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہونے کے لیے کوئی زمینی راستہ نہیں تھا۔ بلکہ اُس کو پاکستان کی سرزمین سے گزر کر ہی ریاست میں داخل ہونے کا راستہ مل جاتا۔ آنجہانی ہری سنگھ کے لیے آخر کیسے جواز بنتا تھا کہ وہ اُس بھارت کے ساتھ ریاست کی قسمت وابستہ کرتے جس کے ساتھ ریاست کی سرحدیں کہیں بھی نہیں ملتی تھیں اور جس کی آبادی 85 فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
اکتوبر 1947 میں ریاست کی حدود میں قبائلیوں کی آمد کو بہت بڑا بہانہ بنایا جاتا ہے اور دنیا کے انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ فریب دیا جا رہا ہے کہ قبائلیوں کی وجہ سے آنجہانی ہری سنگھ نے بھارت کی حکومت سے امداد طلب کر لی اور مشروط الحاق کے لیے مجبوری پیدا کر دی۔ سرحدی قبائل واقعی ریاست میں داخل ہو گئے لیکن اُس کی بنیاد یہ تھی کہ آنجہانی مہاراجہ نے اپنی روایتی مسلم دشمنی کی وجہ سے تقسیم ہند کے آثار رونما ہوتے ہی جولائی 1947 کو اپنی فوج اور پولیس کے مسلمان سپاہیوں کو غیر مسلح کر دیا تھا۔ اور اُن سب کو تمام اسلحہ اور ہتھیار اپنے اپنے قریبی پولیس تھانوں پر جمع کرنے کی واضح اور کڑی ہدایات دے دی گئی تھیں۔
اُس کے بعد ریاست کے سرحدی علاقوں خاص طور پر پونچھ، راجوری اور جموں صوبے کے دوسرے سرحدی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی مدد سے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ اس قتل عام کی اطلاعات سرحد کے پار قریبی علاقوں تک پہنچ گئیں اور وہاں کے مسلمان قبائل اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے وادی کشمیر میں داخل ہو گئے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ 1931 میں جبکہ سینٹرل جیل سری نگر کے احاطہ میں مسلمانوں پر بے تحاشہ گولیاں چلا کر 22 بے گناہ مسلمانوں کو شہادت کا جام پلایا گیا تو نزدیکی سرحد کے پار مسلمانوں میں زبردست اضطراب اور بے چینی پیدا ہو گئی اور وہ اپنے مظلوم کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے کشمیر میں داخل ہونے کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے۔ چنانچہ انگریزوں نے اس موقعہ پر 30 ہزار مسلمانوں کو گرفتار کر لیا۔ تاکہ وہ کشمیر میں داخل نہ ہو سکیں۔ 1947 میں قبائلیوں کی آمد اسی دینی ہمدردی کے جذبات کا اظہار تھا مگر شعبدہ بازوں نے ایک طرف اُن کے ساتھ اپنے غنڈے لا کر غلط کارروائیاں کر وائیں اور دوسری طرف مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے لیے اس کو سیاسی چال کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔
آنجہانی مہاراجہ ہری سنگھ نے سری نگر سے بھاگ کر جموں میں اپنے محل میں رہتے ہوئے گرد و پیش کی پوری آبادی میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے سیکرٹری آف سٹیٹ کو دستاویز الحاق پر دستخط کر دیے۔ اور ان کی حکومت نے 27 اکتوبر 1947 کو اپنی فوجیں سرزمین جموں و کشمیر میں اتار کر انسانی، اخلاقی اور جمہوری قدروں کی پامالی کا آغاز کر دیا۔
اس الحاق کی نوعیت کی نوعیت کے بارے میں 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے گورنر جنرل نے مہاراجہ کے نام اپنے خط میں لکھا:
’اپنی اس پالیسی کے مطابق ہر اُس ریاست کے بارے میں جس کے الحاق کا مسئلہ متنازعہ نہ ہو جائے۔ اُس کے الحاق کے سوال کا فیصلہ اُس ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق ہو جانا چاہیے۔ میری حکومت چاہتی ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و امان بحال ہو ریاست کے الحاق کا فیصلہ عوام کی طرف رجوع کے ذریعہ کیا جائے۔‘
(لیٹر فرام گورنر جنرل آف انڈیا ٹو مہاراجہ آف کشمیر، 27 اکتوبر 1947)
انہی دنوں آنجہانی پنڈت نہرو نے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان مرحوم کے نام اپنے تار میں لکھا ہے:
’ہماری یہ یقین دہانی کہ جیسے ہی امن و امان قائم ہوگا ہم کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں گے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیں گے۔ یہ صرف آپ کی حکومت کے ساتھ ایک عہد نہیں ہے بلکہ کشمیر کے عوام اور پوری دنیا کے ساتھ ایک وعدہ ہے۔‘
(ٹیلی گرام 225، ٹو پاکستانی پرائم منسٹر، 31 اکتوبر 1947)
سلامتی کونسل کے سامنے ہندوستان کے نمائندے نے جنوری 1947 میں کہا:
’اپنے ہمسائیوں اور پوری دنیا کے ساتھ کشمیر کے متعلق کا مسئلہ اور پھر یہ سوال کہ وہ ہندوستان سے اپنا الحاق کرے یا آزاد رہے، ہم نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان امور کا انحصار کشمیری عوام کے بے قید فیصلہ پر ہے جو امن بحال ہوتے ہی وہ کر لیں گے۔‘
(227 میٹنگ آف دی سکیورٹی کونسل، 15 جنوری 1948)
بھارتی حکومت اور اُس کے لیڈروں نے خود بھی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ مہاراجہ کا الحاق وقتی اور عارضی ہے اور الحاق کا آخری فیصلہ عوام ہی کریں گے۔ آنجہانی پنڈت نہرو کے الفاظ ہیں:
’خواہ کچھ بھی ہو شروع سے ہی ہندوستان نے اس اصول کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ ریاست کے بارے میں آخری فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہوگا اور اس عہد سے کسی صورت میں بھی فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر ہندوستان نے 1947 میں کشمیر کے الحاق کو صرف عارضی طور پر منظور کیا تھا۔ اصل فیصلہ عوام کی مرضی کے اظہار پر ہونا ہے۔‘
(دی ٹائمز آف انڈیا، بمبئی 7 جولائی 1952)
اقوام متحدہ کی قراردادیں
یہی بات ہے کہ جس کا اقرار سکیورٹی کونسل نے کیا اور اس کی قراردادوں کو حکومت ہندوستان نے منظور کیا۔
21 اپریل 1948 کی قرارداد میں کہا گیا ہے:
’ہندوستان اور پاکستان دونوں چاہتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔‘
13 اگست 1948 کی قرارداد ہے:
’ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اُس کے عوام کی رائے سے ہوگا۔‘
5 جنوری 1949 کی قرارداد کے الفاظ ہیں:
’دونوں حکومتیں تسلیم کرتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ جمہوری طریقہ سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے طے ہونا چاہیے۔‘
اول۔ ووٹروں پر نہ تو ناجائز دبائو ڈالا جائے گا۔ نہ دھونس دھمکی یا رشوت سے کام لیا جائے گا۔
دوم۔ ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب و ملت اظہار رائے کی پوری آزادی ہوگی اور کسی جائز سیاسی سرگرمی پر کوئی پابندی نہ ہوگی۔
سوم۔ کسی شخص کو اظہار رائے پر نشانہ انتقام نہ بنایا جائے گا۔
23 دسمبر 1952 کی قرارداد میں کہا گیا ہے:
’سکیورٹی کونسل اس قرارداد کی پھر یاد دہانی کراتی ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں نے کشمیر میں آزادانہ غیر جانبدارانہ رائے شماری کا فیصلہ کیا تھا۔’
16 نومبر 1957 کی قرارداد کے الفاظ یہ ہیں:
’دونوں حکومتیں (ہند و پاک) اب بھی 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادوں کو تسلیم کرتی ہیں جن میں ریاست جموں و کشمیر کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔‘
یہ ہیں وہ ناقابل تردید تاریخی حقائق اور شواہد جن سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق عارضی اور مشروط ہے اور بھارت کے نیتائوں نے پوری دنیا کے ساتھ اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ رائے شماری کا وعدہ کیا ہے۔ اگر اس وقت ریاست کے عوام اس وعدہ کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو وہ کون سا ایسا جرم کر رہے ہیں جن کی سزا آپ کی حکومت ان کو گولیوں، برچھیوں، سنگینوں، گرفتاریوں اور قید و بند کی صعوبتوں سے دے رہی ہے۔
بھارت کی پالیسی کا نمایاں تضاد
بھارت نے حیدرآباد، جوناگڑھ اور منادور میں اسی بنیاد پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ہے اگرچہ ان ریاستوں کے سربراہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر چونکہ ان ریاستوں کی آبادی کی اکثریت ہندوئوں پر مشتمل ہے اس لیے ان کو بھارت کے ساتھ ملایا جانا چاہیے۔ کیونکہ کسی ریاست کے سربراہ کا اقدام اگر ریاست کی آبادی کے اکثریتی طبقہ کی خواہشات، اُن کے مذہبی رجحانات اور تہذیبی و تمدنی تقاضوں کے خلاف ہوگا تو اُس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
یہی موقف ریاست جموں و کشمیر میں اپنایا جانا عدل و انصاف اور دیانت و امانت کا تقاضا تھا۔ مگر بھارت نے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں ان بنیادی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر مہاراجہ کی دستاویز الحاق کو تسلیم کر کے ریاست پر فوج کشی کا بے بنیاد جواز پیدا کر دیا اور گزستہ 42 سال سے وہ مسلسل اس ننگی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کر رہا ہے۔
کشمیر پر بھارتی قبضہ کی واحد دلیل
بھارت کے پاس ریاست جموں و کشمیر پر اپنا فوجی اور آمرانہ تسلط جاری رکھنے کے لیے جو آخری دلیل ہے وہ یہ کہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ چونکہ میرا قبضہ ہے، میرے پاس فوجی اور مادی قوت اور طاقت ہے۔ جو لوگ میرے قبضہ کو غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور انسانی آزادی کے خلاف بتاتے ہیں۔ وہ قوت، طاقت، فوج، اسلحہ اور مادی ساز و سامان کے لحاظ سے کمزور ہیں۔ اس لیے اُن کی دلیل تسلیم نہیں کی جائے گی۔
اسی آخری دلیل کے سہارے بھارت اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں دندناتا پھر رہا ہے۔ وہ ظلم و جبر اور بربریت و سفاکیت کی تمام حدود کو پھلانگ چکا ہے۔ گزشتہ 42 سالہ دور اقتدار میں بھارت نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں چھین لیں، ہزاروں بار گولیوں اور سنگینوں سے کشمیر کے حریت پسندوں کو شہید کر دیا، بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد کر لیں، عزتیں اور عصمتیں لوٹیں، نوجوانوں کی اٹھتی جوانیاں مسل دیں، ہزاروں بچوں کو یتیم بنا لیا، دوشیزائوں کے سہاگ لوٹے، آگ و خون کے کھیل کھیلے، تعذیب خانوں میں جوانوں کو نشانہ عذاب بنایا، جیل خانے، حوالات، انٹروگیشن سنٹر کبھی بھی خالی نہیں رہے۔ سینکڑوں لوگ ہمیشہ ان کی زینت بنے رہے اور بھارت اپنے زرخریدا ایجنٹوں کے ذریعے جذبہ حریت کو پامال کرتے ہوئے اپنا سامراجی تسلط استوار اور مستحکم بناتا رہا۔
آخر دنیا کی تاریخ کیا بھارت کی اس دلیل کو ریاست پر اپنا ناجائز قبضہ ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے قبول کرتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا کی تاریخ کو کھنگالنا پڑے گا اور اس کے لیے ایک طویل دفتر کی ضرورت ہے۔
بھارت کا تسلط ناقابل قبول
ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت نے بھارتی حکومت کے استبداد کے خلاف، ہر طرح سے اپنی آواز بلند کی ہے۔ گزشتہ 42 سال سے یہ جدوجہد جاری ہے۔ مگر گزشتہ دو سال سے اس جدوجہد نے ایک ٹھوس اور مرئی شکل اختیار کر لی ہے۔
چنانچہ مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ ریاست کے عوام کی بھاری اکثریت اپنے معاشی اور اقتصادی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کر رہی ہے اور ہڑتال اور احتجاج کی کال پر 100 فیصدی ساتھ دیا جا رہا ہے۔
26 جنوری، 15 اگست کے دن یوم سیاہ کے طور پر منائے جا رہے ہیں۔ 27 اکتوبر کو بھارت کی جارح فوجوں کی آمد کے تناظر میں خاموش اور بھرپور احتجاج کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی فوجوں اور ریاست کی ایجنٹ حکومت کی زیادتیوں، گولیوں، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کے خلاف زبردست اور ہمہ گیر احتجاج کر کے مظلوم اور نہتی قوم اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔
اس وقت بھی ریاست کے مختلف جیلوں میں ہزاروں نوجوان اور حریت پسند قید و بند کی صعوبتوں کو گزشتہ دو سال سے مسلسل جھیلتے اور برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہیرا نگر، کٹھوعہ، جموں سنٹرل جیل، ادھم پور، سری نگر سنٹرل جیل، کوٹھی باغ سب جیل اور دوسرے درجنوں انٹروگیشن سنٹروں میں اس وقت بھی ہزاروں لوگ جدوجہد آزادی کے خاکے میں اپنی بیش بہا قربانیوں اور ایثار سے رنگ بھر رہے ہیں۔
آخر بھارت کی حکومت کب تک ظلم و بربریت کے ان ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے جذبہ حریت اور جوش آزادی کو ٹھنڈا کرتی رہے گی؟
تاریخ نے ظلم اور بربریت سے قوموں کی آزادی کو دبانے اور سلب کرنے کے واقعات کے نتیجہ خیز ہونے کی کوئی شہادت پیش نہیں کی ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو برطانیہ کے زیر اثر بھارت اور اب دوسرے درجنوں ممالک میں اس وقت کمیونزم کے جبر و استبداد اور پارٹی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عوامی احتجاج کی صدائیں بلند نہ ہوتیں اور لاکھوں لوگ سڑکوں اور گلی کوچوں میں نکل کر اپنا گرم گرم خون نہ بہاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو برلن کی 29 میل لمبی دیوار ٹوٹ پھوٹ کر مشرقی اور مغربی برلن کے باسیوں کو ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے کے مواقع فراہم نہ کرتی۔
اگر ایسا ہوتا تو 27 دسمبر 1979 میں افغانستان میں روسی جارحیت کو دوام مل چکا تھا اور فروری 1979 میں روسی فوجوں کی شکست خوردہ مراجعت تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو کر نہ رہ جاتی۔ اور آج بھی افغان مجاہدین روس کی زرخرید اور ذہنی غلامی میں مبتلا نجیب سرکار کے خلاف خاک و خون میں تڑپ کر جذبہ آزادی کو خراج پیش نہ کرتے۔
آخر بھارت کی سرکار کب تک تاریخ کے ان زندہ و جاوید حقائق کو جھٹلاتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں اپنا فوجی تسلط برقرار رکھے گی؟
بھارت کے صدر آر وینکٹا رمن نے 20 دسمبر 1989 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں کہا:
’ریاست کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور ملک کے اتحاد، سالمیت اور یکجہتی کی قیمت پر علیحدگی پسندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ریاست کے لوگوں کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا تاکہ جلد از جلد اُن کا دیرپا حل تلاش کیا جا سکے۔‘
(بحوالہ قومی آواز، سری نگر، 21 دسمبر 1989)
جناب صدر جمہوریہ ہند نے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی صورتحال انتہائی نازک ہے مگر اُن کا یہ فرمانا کہ ’ملک کے اتحاد، سالمیت اور یکجہتی کی قیمت پر علیحدگی پسندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا‘ واقعات اور تاریخی حقائق کے بالکل خلاف ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں کوئی علیحدگی پسند نہیں ہے بلکہ یہاں کے لوگ ریاست کی 42 سالہ متنازعہ حیثیت کو اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کے بھارت کے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ’اٹوٹ انگ‘ کی رٹ بھارت کی فوجی قوت اور مادی طاقت کے نشے کی صورت حال کا افسوسناک اور رنجیدہ نتیجہ ہے ورنہ ریاست جموں و کشمیر کبھی بھی بھارت کا جائز اور تسلیم شدہ حصہ نہیں رہا ہے کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ چاہنے والوں پر علیحدگی پسند کا الزام عائد کیا جائے۔
ریاست جموں و کشمیر کے لوگ اگر آزادانہ استصواب کے ذریعہ بھارت سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ اپنی تقدیر وابستہ کریں گے یا ایک آزاد اسلامی جمہوریہ کی حیثیت سے اپنا مستقبل تعمیر کرنے کی راہ اختیار کریں گے تو اس طرح بھارت کی سالمیت اور یکجہتی کسی بھی حال میں مجروح نہیں ہوگی کیونکہ ریاست جموں و کشمیر، مہاراشٹر، کیرالہ، راجستھان یا کسی دوسری ریاست کی طرح بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے بلکہ 1947 سے یہ ریاست ایک متنازعہ خطہ کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر اور خود ریاست کی جغرافیہ کے نقشے پر موجود ہے۔ اس لیے مستقبل تصفیہ کی صورت میں کسی بھی ملک کی سالمیت مجروح ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
ریاست کے عوام کو درپیش مسائل میں اولین اور بنیادی حیثیت صرف اور صرف اسی مسئلے کو حاصل ہے کہ بھارت بین الاقوامی سطح پر کیے ہوئے استصواب کے وعدہ کو پورا کرنے کا جلد از جلد اہتمام کرے۔ تاشقند معاہدہ اور شملہ معاہدہ ریاست کے عوام نے رد کر دیے ہیں۔ کیونکہ ان دونوں معاہدوں کی تشکیل اور ترتیب میں ریاست کے عوام کی کسی طرح کی شرکت نہیں رہی ہے۔ اور آپ کو یہ حقیقت بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ریاست کا مسئلہ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے۔
میں بغیر کسی لاگ لپٹ کے ریاست کے عوام کی بھاری اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کی حکومت نے بھی گزشتہ 42 سالہ کوششوں کو دہرانا شروع کر دیا اور چھوٹے چھوٹے اقتصادی اور معاشی مسائل حل کرنے تک ہی آپ کی حکومت محدود رہی تو ریاست جموں و کشمیر کے حالات اور زیادہ نازک صورت اختیار کریں گے اور یہاں کا ایک ایک فرد اپنی جان کی قیمت پر اپنے مستقبل کو آپ کی حکومت کے فوجی اور جابرانہ تسلط سے آزاد کرنے کی راہ اختیار کرے گا اور خون خرابہ کی ساری ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔
آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ ریاست جموں و کشمیر کے ہند اور سکھ بھائی ہمارے اپنے بھائی اور ہمارے اجتماعی وجود کے حصے ہیں۔ بھارت کی حدود میں آئے دن کے مسلم کش فسادات کا بدلہ نہ آج تک یہاں لینے کی کوئی کوشش ہوئی اور نہ آئندہ اس قسم کی کسی مذموم غیر اسلامی اور غیر انسانی کوشش کی اجازت دی جائے گی۔ ہماری جدوجہد بھارت کے جابرانہ فوجی تسلط کے خلاف ہے اور اس طرح ہماری جنگ مظلوم اور ظالم کی جنگ ہے، غاصب اور مغضوب کی جنگ ہے۔ اس میں فرقہ وارانہ میل ملاپ اور یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اُس میں براہ راست یا بالواسطہ بھارت کی ریشہ دوانیوں اور میکاولی سیاست کاروں کا ہی عمل دخل ہوگا۔ اور ریاست کے عوام کی اکثریت آج ہی اُس سے اعلان برات کرتی ہے۔
جناب وزیر اعظم ہند،
آپ سے رخصت ہوتے ہوئے 14 دسمبر 1989 کو سوپور اور بارہمولہ میں اور 15 دسمبر 1989 کو سری نگر، اسلام آباد (اننت ناگ) اور شوپیاں میں کرفیو نافذ کرنے کی صورت حال کے بارے میں مختصراً غرض کروں گا کہ بغیر کسی معقول جواز اور وجہ کے کرفیو کا نفاذ ہوا ہے اور کرفیو کے دوران تمام مقامات پر فوج، پولیس، سی آر پی ایف اور دوسرے نیم فوجی دستوں نے گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے حرمتی کی، بچوں اور بوڑھوں کو زد و کوب کیا، گھروں کا اثاثہ اور مال و اسباب لوٹ لیا گیا، کھڑکیاں، دروازے، مکانوں کی سیڑھیاں توڑ پھوڑ کر جلا ڈالی گئیں، بے گناہ راہ چلتوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ غلام حسن گنائی المعروف راجہ کرہامہ گاندربل اور سوپور کے ایک نوجوان محمد یوسف کو بھی آپ کی بے رحم فوج کے آدمیوں نے گولی کا نشانہ بنایا۔
22 دسمبر 1989 کو سوپور قصبہ میں پھر گولی چلائی گئی، ایک اور نوجوان کا خون بھارت سرکار کے سر چڑھ گیا ہے۔ پھر ایک بار کرفیو کا نفاذ کر کے بربریت کی روش کو طول دیا جا رہا ہے۔ یہ نوجوان اعجاز احمد اس وقت صدر ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس طرح آپ کی حکومت کے اس دعویٰ کے باوجود کہ آپ جلد بازی میں کوئی اقدام نہیں کریں گے، بلکہ حالات کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد ہی کسی مثبت حل کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ آپ کی فوج اور ریاستی پولیس لوگوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔
بلاوجہ کرفیو کا نفاذ اور پھر پوری وادی کو فوجی کی تحویل میں دینے کا عمل بھارت کے 42 سالہ متشددانہ اور ظالمانہ اقدامات کا ایک حصہ ہے اور کشمیر کے غیور اور حریت پسند عوام نے جس حوصلہ، ہمت، صبر اور برداشت سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا ہے اُس کو دیکھ کر آپ کی حکومت کو اپنے کند ہتھیاروں کے استعمال سے باز آ کر جمہوری اور انسانی قدروں کا احترام کرتے ہوئے آزادانہ ماحول میں یہاں کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا موقع فراہم کر کے پوری دنیا میں بھارت کے وقار میں اضافہ کرنے کا اقدام کرنا چاہیے۔
آپ کا خیر اندیش
سید علی گیلانی
21 دسمبر 1989
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کی حریت کانفرنس سے علیحدگی
کے حوالےسے لکھا گیا ان کا خط

کل جماعتی حریت کانفرنس کے اراکین کے نام اپنے تفصیلی مکتوب میں علیحدگی اختیار کرنے کی وجوہات کا مکمل نقشہ کھینچتے ہوئے سید علی گیلانی کہتے ہیں: 'جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر (پاکستان زیر انتظام کشمیر) شاخ کی حیثیت محض ایک نمائندہ فورم کی ہے۔ وہ کوئی بھی انفرادی یا اجتماعی فیصلہ لینے کی مجاز نہیں ہے۔ پچھلے کافی عرصہ سے بالعموم اور گذشتہ دو سال سے بالخصوص اس فورم کے حوالے سے بہت ساری شکایات موصول ہورہی ہیں۔

‘اپنے خاندانوں سے اسمبلیوں اور وزارتوں تک رسائی حاصل کر کے وہاں کے حکومتی ڈھانچہ میں عملا شمولیت، اندرون خانہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی، آپسی سر پھٹول، مالی بے ضابطگیوں اور اس جیسے دوسرے بے شمار معاملات عوامی حلقوں میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔
‘حال ہی میں تحقیقات کی بنیاد پر ملوث افراد میں سے چند ایک کی برطرفی عمل میں لائی گئی اور باقی حضرات کی تحقیقات بھی جاری تھی لیکن تحقیقات کے اس عمل کو وہاں مقیم آپ کے نمائندوں نے اپنی توہین سمجھ کر الگ سے اجلاس بلانے شروع کیے جس کے بعد وہاں کے تنظیمی ڈھانچے کو تا حکم ثانی تحلیل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
انہوں نے مزید لکھا: ‘فورم میں شفافیت اور احتساب کے اس عمل سے بچنے کے لیے آپ کے نمائندوں نے کنوینئر سے عدم تعاون کا سلسلہ شروع کر کے ایک پروپیگنڈا مہم کا باضابطہ آغاز کیا جس میں میرے بیانات اور قوم کے نام پیغامات کو شکوک و شبہات کی بھول بھلیوں میں گم کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔
‘حتیٰ کہ میرے آخری سفر کے حوالے سے میری وصیت پر تحقیقاتی کمیشن بٹھا کر اُن کے عزائم کھل کر سامنے آگئے یہی نہیں بلکہ انہوں نے تمام تر اخلاقی، آئینی اور تنظیمی ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر خود ساختہ شوریٰ منعقد کر کے اس غیر آئینی فیصلے کی تصدیق کی اور اس اجلاس کو میری ہدایات کی طرف منسوب کر کے آپ لوگ بھی اس گھناؤنی سازش اور کھلے جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ میں نے ایسی کوئی ہدایات جاری ہی نہیں کی تھیں۔
وہ اپنے مکتوب میں کہتے ہیں کہ سال گذشتہ مابعد 5 اگست جب میں نے جیلوں سے باہر قائدین کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو کوئی بھی نہ مل سکا لیکن آج جب احتساب کی تلوار ان کے سروں پر لٹکنے لگی تو وہ نام نہاد شوریٰ اجلاس منعقد کرنے کے لیے جمع ہوگئے۔
وہ لکھتے ہیں: ‘گذشتہ برس جب قابض بھارت نے مقبوضہ ریاست کو اپنے وفاق میں ضم کیا اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کا خود ساختہ اعلان کیا تاکہ فلسطین کی خوں آشام داستان کو یہاں دہرایا جاسکے، چنانچہ اس قبیح سازش کو عملانے کے لیے پوری قوم کو یرغمال بنا کر تقریباً سبھی چھوٹے بڑے قائدین، کارکنوں، وکلا، طلبا کے ہمراہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو بیرون ریاست جیلوں میں پہنچادیا گیا۔
‘لیکن جو قیادت جیلوں سے باہر تھی ان سے توقع تھی کہ وہ حکومتی قدغنوں اور سرکاری عذاب و عتاب کے باوجود اس ننگی جارحیت کے خلاف نبرد آزما ہو کر عوام کی حوصلہ افزائی کر کے اس محکوم قوم کی رہنمائی کی منصبی ذمہ داری سنبھالتے۔
‘میں نے قدغنوں اور زیر حراست ہونے کے باوجود آپ حضرات کو تلاش کیا مگر کوئی بھی کوشش بارآور ثابت نہ ہوئی۔ آج جب آپ کے سروں پر احتساب کی تلوار لٹکنے لگی، بے ضابطگیوں کا پردہ سرکنے لگا تو وبائی مارا ماری اور سرکار کی بندشوں کے باوجود آپ حضرات نام نہاد شوریٰ اجلاس منعقد کرنے کے لیے جمع ہوئے۔
مکتوب میں گیلانی نے کہا ہے کہ اس فورم کی کارکردگی اور بے ضابطگیوں کو اکثر ‘تحریک کے وسیع تر مفادکے لبادے میں نظر انداز کیا گیا لیکن آج آپ تمام حدود وقیود کو پامال کر کے نظم شکنی ہی نہیں بلکہ قیادت سے کھلی اور اعلاناً بغاوت کے مرتکب ہو ئے ہیں۔
‘موجودہ صورتحال کے پیش نظر، تمام حالات پر غور و فکر کے بعد میں کل جماعتی حریت کانفرنس جموں وکشمیر سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
گیلانی مکتوب میں مزید کہتے ہیں: ‘تاہم میں اس دیار فانی سے رحلت تک بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسب استطاعت ادا کرتا رہوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

علی گیلانی کے خطوط
سید علی گیلانی کا پاکستانی وزیراعظم کو خط

جموں و کشمیر میں نظر بند حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے نام خط لکھا ہے جو سوشل میڈیا پر گشت کر رہا ہے۔

5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کو منسوخ کرنے سے قبل سے ہی سید علی گیلانی سرینگر میں اپنی رہائش گاہ میں نظر بند کردیے گئے ہیں۔سید علی گیلانی نے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے۔ پاکستان دوطرفہ معاہدوں شملہ، تاشقند اور لاہور معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے۔ انہوں نے پاکستان کو کہا ہے کہ ایل او سی پر معاہدے کے تحت باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے، پاکستانی حکومت ان تمام فیصلوں کو اقوام متحدہ بھی لے کر جائے۔سید علی گیلانی کا پاکستانی وزیراعظم کو خطسید علی گیلانی کا پاکستانی وزیراعظم کو خطسید علی گیلانی نے خط میں عمران خان سے کہا ہےکہ ہوسکتا ہے یہ آپ کے ساتھ میرا آخری رابطہ ہو، علالت اور زائد عمری شاید دوبارہ آپ کو خط لکھنے کی اجازت نہ دے۔’سید علی گیلانی نے اپنے خط میں کہا ہےکہ ‘وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال میں آپ سے رابطہ قومی اور ذاتی ذمہ داری ہے۔ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے پر آپ کی اقوام متحدہ میں تقریر قابل تعریف ہے’۔انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ‘بھارت کی جانب سے غیر قانونی فیصلوں کے بعد کشمیر کی عوام مسلسل اپنے گھر میں بند ہے’۔خط میں کہا گیا ہےکہ ‘ بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کشمیر کی سیاسی حیثیت ختم کرکے ہماری زمین زبردستی چھیننا چاہتا ہے، پاکستان کی طرف سے کچھ مضبوط اور اہم فیصلوں کی ضرورت ہے۔’خیال رہے کہ 31 اکتوبر کو مرکزی حکومت نے دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے تقریباً تین ماہ بعد ریاست کو سرکاری طور پر دو مرکزی علاقے ‘جموں و کشمیر اور ‘لداخمیں تقسیم کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی نے آخری خط
کس کے نام لکھا اور کیا لکھا؟

تحریک آزادی کشمیر کے قائد نے اپنی زندگی کا آخری خط افغانستان کے طالبان کے نام لکھا جس میں انھوں نے افغان مجاہدین اور افغان عوام کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کی اور کہا:
”واقعہ یہ ہے کہ افغانستان میں ملی یہ فتح پورے عالم اسلام کے لئے ایک نوید جانفزا ہے۔ جس طرح افغانستان مقامی مفاد پرست عناصر اور بیرونی طاقتوں کی ملی بھگت کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ایک اڈہ بن گیا تھا وہ یقیناً پورے عالم اسلام کے لئے ایک زبردست تشویش کا موجب تھا لہذا سازشوں اور ریشتہ دوانیوں کے اس مرکز کا قلع قمع ہونا ہم سب کے لئے باعث اطمینان ہے اور ہم سب کو اس فتح کے جشن میں شریک ہوکر اسلام اور مسلم دشمنوں کے سامنے اپنی دینی حمیت اور اخوت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بقدر استطاعت تعاون کرنا چاہیے۔“
”افغانستان میں ملی یہ فتح جہاں ایک طرف دنیا بھر میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے مصروف جدوجہد اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ مخالف حالات سے مایوس اور بددل ہونے کے بجائے انھیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے صبر و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے، وہیں دوسری طرف اس میں بھارت اور اسرائیل جیسی غاصب قوتوں کے لئے بھی ایک تنبیہ ہے کہ طاقت کے نشہ میں بدمست ہوکر وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کے ظلم و جبر نے مظلوموں کو ہمیشہ کے لئے دبا دیا ہے۔
لوگوں سے زبردستی قومی ترانے گوا کر ان کے جذبہ حریت کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ جلد یا بدیر ان کو بھی اسی ہزیمت کے ساتھ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر مقبوضہ علاقوں سے نکل بھاگنا ہوگا جیسے آج امریکہ اور اس کے افغان حواری بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ باطل چاہے جتنا بھی وقتی طور پر اچھل کود لے لیکن انجام کار اسے شکست سے دوچار ہوکر رہنا ہے کیونکہ غلبہ صرف حق کے لئے ہے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیّد علی گیلانی کا خط
ہم وطنوں اور پاکستانیوں کے نام!
فروری 2020

گیلانی صاحب نے حسب ذیل کھلے خط میں جس دل سوزی سے، جموں و کشمیر کے مظلوموں اور پاکستان کے شہریوں اور مقتدر حلقوں کو مخاطب کیا ہے، اسے ہم اس عزم اور یقین کے ساتھ پیش کررہے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی یہ تاریخی جدوجہد اب ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور ان شاء اللہ کامیابی سے سرفراز ہوگی۔ البتہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مختصراً یہ ہے:
۱-      بھارت سرکار کی طرف سے بدترین مخالفت اور ظلم و استبداد کے علی الرغم سرفروشانہ جدوجہد کا تسلسل اور اس میں زیادہ سے زیادہ عوامی شرکت۔
۲-     پاکستانی قوم اور حکومت کی پوری یکسوئی اور استقلال کے ساتھ اس جدوجہد کی مکمل تائید، عالمی دباؤ کے حصول کی بھرپور کوشش، اور بھارت کے ہرہتھکنڈے، منفی ابلاغی پروپیگنڈے اور جارحانہ اقدام سے نبٹنے کے لیے مکمل تیاری۔ اور اس میں عوامی شمولیت کا احساس بیدار کرنا۔
۳-     بارباراور ہرمحاذ پراس امر کو واضح کرنا کہ مسئلہ کشمیر محض دو ملکوں کے درمیان کوئی زمینی تنازع نہیں ہے، بلکہ تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کا اصل اور جوہری ایشو جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقِ خودارادیت کا حصول ہے، جسے اقوام متحدہ کی ایک درجن سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ انسانی حقوق کی پامالی اور ایک گونہ کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) بھی بڑااہم پہلو ہے، لیکن اس میں اوّلین حیثیت حقِ خودارادیت کو حاصل ہے۔ حقِ خود ارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک مظلوم اور محکوم قوم کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر یہ جدوجہد بھارتی عسکریت کی وجہ سے جوابی عسکریت کی شکل اختیار کرتی ہے، تب بھی اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا اوراس کی حیثیت جنگ ِ آزادی کی ہوگی۔
۴-    یہ مسئلہ سیاسی جدوجہد اور عالمی اداروں کے کردار کے ذریعے طے ہونا چاہیے اور صرف وہی حل مسئلے کا یقینی حل ہوگا، جسے جموں و کشمیر کےعوام اپنی آزاد مرضی سے قبول کریں۔ عالمی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ مسئلے کے حل اور علاقے کے امن کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں، اور جس طرح دنیا کے دوسرے علاقوں میں محکوم اقوام کے لیے حقِ خودارادیت کو یقینی بنایا گیا ہے، اسی طرح جموں و کشمیر کے عوام کو یہ حق فراہم کیا جائے۔ یہ مسئلہ کسی ملک یا ادارہ کی ثالثی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ کا مسئلہ ہے، جس سے بھارت صرف جبر کی قوت کے سہارے راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ سیّد علی گیلانی پاکستان اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو اسی طرف متوجہ کر رہےہیں۔ 

اےلوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمھیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائےگی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال ۸:۴۵-۴۶)
عزیز ہم وطنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
تمام تعریفیں اللہ ربّ العزت کے لیے، جس نے ہمیں غاصب بھارت کے ریاست جموں و کشمیر پر قائم ناجائز قبضے کے خلاف خندہ پیشانی سے مزاحمت کرنے کی ہمت عطا کی، اور اس مکار قابض کے تمام تر ظلم وجور اور مکروفریب کے باوجود حق پر قائم وثابت قدم رہنے کی طاقت بخشی۔ اسی کی طرف رجوع لازم ہے، جس کی نصرت فتح کی نوید ہے اور جس کی رضا ہماری منتہاے نظر ہے۔
عزیز ہم وطنو!
جن حالات سے ریاست جموں و کشمیر گزر رہی ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہیں اور تاریخ کے جس موڑ پرآج ہماری قوم کھڑی ہے، ایسے میں آپ سے مخاطب ہوکر آپ کے سامنے لائحہ عمل پیش کرنا میرافرضِ منصبی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے ہرطرح کی قدغنیں نافذ کررکھی ہیں، لیکن خداے بزرگ و برتر اپنی غیبی تائید سے ہم محکوموں کی نصرت کرتا ہے۔
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک روز ہم بھی غلامی سے نجات پائیں گے اور بھارت بالآخر ہماری مزاحمت کےآگے گھٹنے ٹیک دے گا اور اس کے آخری فوجی کے انخلا تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی،ان شاء اللہ!
۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ہماری تحریک ِآزادی کٹھن مراحل سے گزری ہے۔ ہم نے ہر وہ راستہ اختیار کیاہے، جس سے ہم اپنے مبنی بر صداقت مطالبے کو منوا کر حقِ خود ارادیت کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ چاہے وہ جمہوری راستہ ہو یا کوئی اور طریقہ، ہم نے اپنی مزاحمت میں کوئی لچک نہیں آنے دی۔ تحریک ِ آزادی نے، ۱۹۸۷ء میں یہ ثابت کیا کہ بھارت کا جمہوری نقاب ایک ڈھکوسلا ہے اور اس نقاب کے پس پردہ ایک خونخوار درندہ ہے۔ ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ہمارے غیور جوانوں نے میدانِ کارزارکا راستہ اختیار کیا اور تاریخ اسلام میں مزاحمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ بھارتی استعمار آج تک ششدرہے۔ عوامی تحاریک ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۶ء ، ۲۰۱۹ء کے ذریعے ریاست کے طول وعرض میں عوام نے اپنے مطالبۂ آزادی کو دُہرا کر لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی۔ عوامی جذبے کی شدت سے حواس باختہ ہوکر بھارت نے اپنے آخری حربے کے طور پر ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کا خودساختہ غیرقانونی اعلان کیا۔
ایسے حالات میں، جب کہ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح کشمیر اور کشمیریوں کےخلاف نفرت اور انتقام کی مہم جاری رکھی اور مقامی اخبارات بھی زمینی صورتِ حال پر پردہ پوشی کے مرتکب ہوئے۔ ان کے برعکس بین الاقوامی صحافتی ادارو ں نے کماحقہٗ موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کرکے ہندستانی مظالم اورسفاکیت کی داستان دُنیا تک پہنچانے کی منصبی ذمہ داری نبھائی۔
عزیزانِ ملّت!
پچھلے ۷۰برسوں کےدوران بھارتی حکومتوں کی فریب کارانہ سیاست اور بھارتی فوجی جبرومظالم سے یہاں کے عوام کو اپنے پیدایشی حقِ خود ارادیت کے مطالبے سے دستبردار کرنے میں ناکام ہوکر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ایک نسل پرست فسطائی بھارتی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کاغیراخلاقی، غیرانسانی اور غیرجمہوری فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی متنازعہ ریاست کی جغرافیائی وحدت کو توڑ کراسےدوحصوں میں تقسیم کردیا،حالانکہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت کی حیثیت محض ایک قابض اور جابر کی ہے، جس کا واضح ثبوت اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے اس فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے بھارتی حکومت پورے خطے میں غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو کانفاذ عمل میں لائی۔ ۱۸ہزارسے زائد لوگوں کو حراست میں لےکر پولیس تھانوں اور جیلوں میں نظربند کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کمسن بچوں، نوجوانوں اوربزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گھروں میں گھس کر پردہ دار خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ احتجاج کرنے کی صورت میں خواتین اور لڑکیوں کی عصمت پامال کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دی گئیں۔ لوگوں کی زمینوں اور گھروں کو ضبط کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ صوبہ جموں اور لداخ کی مسلم آبادی پہلے سے ہی بھارتی فوج کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ہرطرح کی مواصلات اور انٹرنیٹ سروس کومعطل کیا گیا۔ پیلٹ گن کا بے تحاشا استعمال کرکے بچوں اور نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ان تمام مظالم اور جبر و زیادتیوں کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام نے بھارتی استعمار کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی ہے، اور دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد اور مطالبۂ آزادی سے کسی بھی صورت میں دست بردار نہیں ہوسکتے۔
عزیز ہم وطنو!
میں نے آپ کو بارہا اس حقیقت سے باخبر کیا ہے کہ بھارت صرف جموں و کشمیر پر قابض ہونے پر ہی نہیں رُکا، بلکہ وہ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ ہمارا عقیدہ، ہماری شناخت اورہماری تہذیب چھیننے کے درپے ہے۔ ۵؍اگست کا فیصلہ اسی فسطائی حقیقت کا ایک عملی اقدام ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت سے غیرمسلم آبادی کو لاکر یہاں جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے گی۔ لاکھوں کنال کی عوامی اراضی ، جس پر بھارتی فوج پہلے ہی قبضہ جمائے ہوئے ہے ، اس کے علاوہ مزید اراضی کو ہڑپ کر لیا جائے گا۔ ان غیرریاستی باشندوں کو بھارتی افواج کی پشت پناہی حاصل ہوگی، جو یہاں کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کے لیے بھارت کے ہراول دستے کا کام انجام دیں گے۔
نام نہاد تعمیر و ترقی ، تعلیمی اور طبی اداروں کے قیام کےعلاوہ تجارت کے نام پر مزید اراضی بھارتی اداروں کے حوالے کی جائے گی۔ ہمارےقدرتی وسائل بھی ہم سے چھین لیے جائیں گے۔ میوہ جات، باغات، سدابہار جنگلات اور آبی وسائل تک سے محروم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارے مسلم اکثریتی کردار کو ہرسطح پر نشانہ بنا کر ہم سے بحیثیت مسلمان زندہ رہنے کاحق چھینا جائے گا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری مساجد اور ہماری خانقاہوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو تاریخی بابری مسجد کے ساتھ عملاً کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے دینی مدارس بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ بابری مسجد کو شہیدکرکے اسے مندر میں تبدیل کرنے کے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قائداعظم محمدعلی جناح، حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان، جنھوں نے تحریک ِ پاکستان کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، نہ صرف بصیرت افروز تھے بلکہ اپنے خدشات میں قائم بالحق تھے۔
عزیز ہم وطنو!
مَیں یہاں ان ہندنواز سیاست دانوں کاذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو بھارتی فوجی قبضے کو ریاست میںدوام بخشنے کے لیے پچھلے ۷۰برسوں سے بھارت کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیںاور نام نہاد انتخابات کے ذریعے یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے نمایندے ہیں۔ حالانکہ مَیں باربار یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ بھارتی میکاولی سیاست میں ایسے لوگوں کی وقعت فقط قابلِ استعمال آلہ کاروں کی سی ہے۔ وہ آج تک اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بھارت کے دست ِ راست ہیں اور اس مکروفریب میں وہ بین الاقوامی سطح پر تحریک آزادی اور عوامی جذبات کے خلاف اپنی آوازیں بلند کرکے بھارتی قبضے کو سند ِ جواز بخشتے رہے ہیں۔
لیکن وقت اور تاریخ نے اس نہتی قوم کو یہ دن دکھایا کہ جس میکاولی اور فریب کارانہ سیاست کی چاپلوسی کرتے ہوئے، جس دلّی دربار کی خوش نودی کے لیے یہ ہندنواز ٹولہ اپنے ہی محکوم و مجبور عوام کو تختۂ مشق بناتارہا، اسی دلی دربار نے خود انھیں ایسا نشانۂ عبرت بنا کے چھوڑا ہے کہ وہ منہ چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک باغیرت اور ذی حس انسان کی طرح اپنی فاش غلطیوں اور قومی دغا بازیوں سے توبہ کرکے حق و صداقت کا علَم تھامنا ہی راہِ نجات ہے۔ ذلّت اور رُسوائی سے حاصل شدہ مال و متاع کے بجاے حق و انصاف کے حصول کا خاردار راستہ ہی سرخروئی، عزت اور وقار کی زندگی عطا کرسکتاہے۔
مَیں ایک بار پھر ان ہندنواز سیاست دانوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ تاریخ نے انھیں ایک اور موقع فراہم کیا ہے، جو شاید آخری ہو کہ عوامی جدوجہد ِ آزادی میں شامل ہوکر قومی جذبۂ حُریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
غیور ہم وطنو!
اس نازک مرحلے پرمَیں اپنی قوم کے مستقبل اور اپنی آنے والی نسلوں کے حوالے سے متفکر ہوں۔ میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ بھارتی عزائم کی ہرسطح پرمزاحمت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری آج کی مزاحمت، کل کی آزادی کی نوید ہوگی۔ یہاںکاہرباشندہ اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرکے تحریک ِ آزادی میں اپنا کردار ادا کرے اور کسی بھی طرح کی غفلت، لاپروائی اور غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتے:
٭ آپ کو کسی بھی صورت میں کسی بھی قیمت پر، کسی بھی غیرریاستی باشندے کو اپنی جایداد، بشمول اراضی، املاک، مکانات و دکانات وغیرہ فروخت نہیںکرنی ہے۔ غیرریاستی باشندوں کو کرایہ دار کی حیثیت سے بھی قبول کرنے سے اجتناب برتنا ہے۔
٭ تاجروں کو اس بات پر متفق ہوجانا ہے کہ وہ تجارت کے نام پرکسی بھی غیرریاستی باشندے یا حکومت سے کوئی بھی ایسا معاہدہ نہیں کریں گے کہ جس کے عوض انھیں اپنی املاک کو فروخت کرنا پڑے۔
٭ یادرکھیے، تعلیم، تجارت، طبی ادارہ جات اور ترقی کے نام پر عوام کو ورغلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیےعوام کسی نعرے کے دامِ فریب میں نہ آئیں اور ایسی کسی پالیسی کے نام پر غیرریاستی اداروں اور افراد کو اپنی املاک فروخت نہ کریں۔
٭ اپنی مساجد، خانقاہوں اور دینی مدارس کی حفاظت کے لیے چاک وچوبند رہیں۔
٭ بھارت ہم سے ہماری زبان مختلف طریقوں سے چھیننے کی کوشش کرے گا، لیکن نئی نسل اپنی زبان پہچانے اور اس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔
٭ اُردو جو کہ ہمارے لیے اسلامی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر بھی ڈاکا ڈالنے کی کوشش ہوگی۔ آپ کو اس کی بھی حفاظت کرنا ہے، تاکہ ہماری اسلامی،علمی اور تہذیبی شناخت برقرار رہے۔
٭ لداخ، جموں، پیرپنچال، وادیِ چناب کے مسلمانان نے ہمیشہ قلیل وسائل کےباوجود قابض قوتوں کےخلاف سینہ سپر ہوکر جذبۂ آزادی کو اپنے خون سے سینچا ہے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر مَیں انھیں ان کی استقامت و جرأت پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ وادیِ کشمیر کے عوام کو چاہیے کہ تحریک ِ مزاحمت کے ہرمرحلے پر ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں، انھیں خراجِ تحسین پیش کریں اورانھیں اپنی ہرسعی میں شاملِ حال کریں۔
٭ تعلیمی اداروں کے ذریعے سے تاریخ کو ہندوانےاور مسخ کرنے کا قبیح کام کیا جائے گا۔ اس لیے اپنی ملّی تاریخ کو اپنی نسل تک پہنچانے کا انتظام آپ کو خود کرنا ہے۔ گھروں میں ایسی روایات کو جاری کرنا ہے کہ ہماری نئی نسل ریاست جموں و کشمیر کی اصل تاریخ سے باخبر رہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس کوشش کے مدمقابل حقیقی تاریخ کو مرتب اور منضبط کرنا آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
٭ نام نہاد انتخابات کی حقیقت آپ پرعیاں ہوچکی ہے۔ اس لیے آپ کو کسی بھی قسم کے بھارتی انتخابی ڈرامے بشمول پنچایت، میونسپل، اسمبلی اور ہندستانی پارلیمان میں کسی بھی سطح یا طریقے سے شامل نہیں ہونا ہے۔ ایسی کوئی بھی حرکت قومی غداری کے مترادف ہے۔
٭ تحریک ِ آزادی میں متاثرہ افراد خاص طور پر جوانوں، قیدیوں، بیواؤں، زخمیوں، جسمانی طور پر معذور افراد کی امداد آپ پر لازم ہے۔ میدانِ کارزار میں مصروف جوانوں کو ہردم اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیے اور یہ بھی اَزبر کرلیجیے کہ ہم شہدا کے امین ہیں اور اس امانت کی آپ کو حفاظت کرنی ہے۔
٭ جموں و کشمیر پولیس جو کہ ۱۸۷۳ء سےہی ریاستی عوام پر ظلم و جبر ،قتل اوردرندگی کے پہاڑ ڈھانے کی مرتکب ہے ،جن کے ہاتھ کشمیریوں کے قتل عام، عصمت دری، آتش و آہن اور جوانوں کی بینائی چھیننے میں ملوث ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ روزِ اوّل سے ہی جموں و کشمیر کی پولیس نے ریاست پر ہرناجائز قابض کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج، جب کہ بھارت نے حد ِ فصیل کھینچ دی ہے ، ہمارے اور ہماری آزادی کے درمیان بھارتی فوج اورجموں و کشمیر پولیس کی بندوقیں حائل ہیں۔ مَیں جموں و کشمیر پولیس کو تاریخ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر خبردارکرتا ہوں: اس سے پہلے کہ عوامی جذبۂ حُریت انھیں پر ِکاہ کی مانند بہا لے جائے، انھیں چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا حساب کریں اور طے کریں، آیا کہ وہ مظلومانِ کشمیر کے ہمراہ کھڑے ہوں گے یا بھارتی قاتلوں اورسفاکوں پر مشتمل فورسز کے شانہ بشانہ ان کے خلاف نبردآزما ہوں گے۔
عزیز ہم وطنو!
اس صبرآزما اور کٹھن مرحلے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جس جرأت، بالغ نظری اور حقیقت پسندی سے کام لے کر پوری دنیا میں ہماری جدوجہد ِ آزادی اور ہم پرروا رکھے گئے بھارتی مظالم کو پیش کیا ہے، وہ قابلِ ستایش ہے۔ ایسی توقع ایک مخلص دوست اور شفیق محسن سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ پاکستان ہی کی اَن تھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ۵۲سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر زیربحث آیا۔ ہم حکومت ِ پاکستان اور پاکستانی عوام کی مدد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ بھارتی استعمار اور اس کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرکے بھارت کو ایک غاصب اور قابض کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بارہا ایسا ہواہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست کے منفی اثرات، مسئلہ کشمیر کو جھیلنا پڑے ہیں۔ اس لیے میں پاکستانی سیاست دانوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ یک زبان کھڑے رہیں۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اور ان کے بعد ہرپاکستانی حکومت نے اس کی تائید کی۔ اب وقت آچکا ہے یہ ثابت کرنے کا کہ یہ محض ایک نعرہ نہیں، اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام تر وسائل بشمول جرأت اور حوصلے کو بروے کار لاکر بھارت کی حالیہ جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا دفاع کرے۔
اس دوران دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیریوں نے جس طرح اپنی تحریک ِ آزادی کے حق میں اور بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری جہاں بھی ہیں وہ تحریک ِ آزادی کے سفیر ہیں۔
غیور ہم وطنو!
آج ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہم بھارت کی غلامی کو کبھی بھی سند ِ جواز نہیں بخشیں گے۔ ہم اتحاد واتفاق، نظم و ضبط، صبرواستقلال ، یکسوئی و یک جہتی اور باہمی ربط و اخوت کے زریں اصولوں پر عمل کرکے اپنی جہد مسلسل کو آزادی کی سحر تک جاری رکھیں گے۔
پیرانہ سالی اور صحت کی ناسازی شاید ہی مجھے آپ سے آیندہ گفتگو کی مہلت دے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِواسعہ سے یہ اُمید ہے کہ وہ میری لغزشوں، کوتاہیوں سے درگزرفرمائے اور مغفرت سے نوازے۔ بہرحال زندگی اور موت کے فیصلے قاضیِ حیات کے دست ِ قدرت میں ہیں۔
میری دیرینہ خواہش رہی ہے کہ میرا مدفن مزارِ بقیع میں ہوتا کہ روزِقیامت مَیں ان عظیم ہستیوں کی معیت میں اپنے ربّ سے ملوں، جن کے نقش ہاے قدم ملّت اسلامیہ کے لیے روشنی کے مینار ہیں اور جن کی پیروی کرتے ہوئے مَیں نے ملّت اسلامیہ کا دفاع اور اقامت دین کی جدوجہد حسب ِ استطاعت کی ہے۔ لیکن پچھلے ۷۰برسوں سے عموماً اور گذشتہ ۳۰،۳۵ برس کے دوران خصوصاً جس طرح اور جس بڑی تعداد میں کشمیر کے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم و جبر کے خاتمے اور آزادی اور اسلام کے غلبے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، اس میں کشمیر کی اس سرزمین اور خاص طور پر اس کے ان حصوں کو جہاں پہ پاک نفوس دفن ہیں، ایک خاص تقدس اور احترام بخشا ہے، اس لیے انھی کے پہلو میں جگہ پانا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔
یاد رکھیں کہ ربِّ کائنات کی رحمت سے نااُمید ہونا مسلمان پر حرام ہے۔ پُراُمید رہیں کہ ظلم کی تاریک رات چاہے کتنی ہی طویل ہو، بالآخر اختتام کو پہنچے گی۔ تاریخ فرعون و قارون اورہامان و چنگیز کا انجام دیکھ چکی ہے دوام فقط حق کو ہے۔
علی گیلانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کا خدشہ؛کرتارپور کے بعد شاردہ مندر
کو ہندوؤں کے لئے کھولنے کی تجویز کی مخالفت

گذشتہ دنوں خبر آئی کہ ’’پاکستانی پنجاب میں گوردوارہ کرتار پور کے درشن کی خاطر، سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت، جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے ’شاردا پیٹھ مندر‘ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لیے بغیر، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف، خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والوں کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی کریڈٹ لینے کے لیے ماحول خاصا گرم ہوا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ: ’’کرتار پور اور شاردا کو زائرین کے لیے کھولنے کی تجویز تو بھارت نے کئی عشرے قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی ٹالتا رہا تھا‘‘۔

کرتار پور سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے بھارت اصرار کررہا تھا کہ گوردوارہ کرتار پور جانے کے لیے سبھی بھارتی شہریوں کو راہداری ملنی چاہیے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس شرط کو منظور کرلیا ہے۔ ان سے نہیں پوچھا کہ آخر کیرالا میں گورو دہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے بے شمار مندروں میں غیرہندوؤں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟
پھر بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ: ’’جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے پنڈتوں، بلکہ سبھی بھارتی شہریوں کے لیے راہداری کھلنی چاہیے‘‘۔
چند برس قبل ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(RSS) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی، ’شاردا پیٹھ مند ر‘ کی مٹی کی پوجا کی گئی۔ اس موقعے پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ تقریریں بھی ہوئیں۔ مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ بھارت سے ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کرسکیں۔ (ویسے تو اس کنزویٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے کہ آثارِ قدیمہ کی ایک یادگار کی اس نے غیرقانونی طور پر کھدائی کر کے مٹی کیوں نکالی)۔ مظفر آباد سے ۱۵۰کلومیٹر اور سری نگر سے ۱۳۰کلومیٹر دُور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات کو، کشمیر کی مبینہ طور پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گواہ قرار دیا جارہا ہے، جو نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ہے۔ چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب ’گزیٹئر آف کشمیر‘ ترتیب دیا، تو اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے ۴۰۰گز کی دُوری پر ایک مندر کے کھنڈرات ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنھوں نے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی سے واقعات تک قلم بند کیے ہیں، انھوں نے کہیں بھی ’شاردا مندر کی یاترا ‘کا ذکر نہیں کیا ہے۔
بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَز سرِ نو لکھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، لیکن پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن پر اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط سوار ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ: ’۱۹۴۷ءسے قبل امر ناتھ کی طرز پر اس علاقے میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی‘۔ اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزیٹئر میں اس کا ضرور ذکر ہوتا۔
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کے آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ اور وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے رہتے تھے۔ اس خطے میں اسلام کی عوامی پذیرائی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ ۲۳۲قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوازم قبول کیا، تو اس نے بدھ مت پر ایک قیامت توڑ دی۔ بدھ اسٹوپوں اور دانش گاہوں کو تاراج کرکے شیو مندر بنائے گئے۔ ۶۳ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں آج بھی رائج ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح اور بھکشو ہیون سانگ جب یہاں سیر کے لیے آیا تو اس کے مطابق: ’سرینگر سے وادی نیلم کے علاقے میں سو بدھ عبادت گاہیںاور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے‘۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کے لیے آٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطے میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا کرایا۔ جہاں اس نے بدھ بھکشو وں کے ساتھ مکالمہ کرکے ان کو ہرایا، وہاں اس نے ’شاردا‘ یعنی ’علم کی دیوی‘ کے نام پر چند مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریاے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔
اگرچہ اس علاقے کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں بظاہر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کر رہے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو دراصل ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنانے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے تو کشمیر کو سیاسی مسئلےکے بجاے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اس مسئلے کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔
ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷ سال کی مسلم تاریخ کو ایک ’تاریک دور‘ کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ ’قدیمی شاردا‘ میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ: ’’اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی‘‘۔
امرناتھ علاقے میں ۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ’ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میںکرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ضابطے کا پابند بنانے کی جب کوشش کی، تو بزعم خود ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح آج امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میںلاکھوںیاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لیے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی یہاں پر یاتریوں کے لیے ایک ٹریک بنانے کا حکم دے ڈالا، مگر دوسری جانب یہی عدالت دیگر مقدمات میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔
سابق گورنر ایس کے سنہا تو ہر تقریب میں اعلان کرتے تھے کہ: ’’مَیں اس علاقے میں ہندوئوں کے لیے مخصوص ‘شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘‘۔ اسی لیے انھوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سپرد کیا تھا۔ اس فیصلے نے ۲۰۰۸ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ ’امرناتھ مندر بورڈ‘ کے خلاف، وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ ۱۸۶۰ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا، مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے آرہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالاںکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوئوں کے اس مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔ جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سربراہ ارون کمار نے یہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوںسے ان کا روزگار بھی چھین لیا۔ جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے، انھی سے’جزیہ‘ وصول کرنا شروع کردیا۔ اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۵ء میں جب حرکت الانصار نامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے ۱۲دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔
بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا کہ: ’’اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے اگرچہ بیشتردریائوں اورندیوں کے منبعے یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہی اتراکھنڈ صوبے میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر اس وقت ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبعے گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کے برعکس سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ موازنہ کریں، تو وہاں ہر روز امرناتھ یاترا کے نام پر اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔
نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ: ’’امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی۔اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔۲۰۱۸ء میں تقریباًساڑھے چھے لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آیندہ برسوں میں یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ: ’’یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف ۳ہزاریاتریوں کو ٹھیرانے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہلگام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، ۲۰ہزار سے ۵۰ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ: ’’ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجاے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرے‘‘۔ آزادکشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانش وروں اور زعما سے بھی گزارش ہے کہ جو’ شاردا پیٹھ‘ کو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کر رہے ہیں: ’’کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیںاور حریص طاقتیںان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کر کسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں‘‘۔ روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ شرارت کی نیت سے اگر بے ضمیری شامل ہوجائے تو یہ زہر ہلاہل بن جاتی ہے!
………………….

کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کی دشمن تنظیم
آر ایس ایس۔ اور سید علی گیلانی کی تنبیہ

سید علی گیلانی عرصہ دراز سے آر ایس ایس نامی دہشت گرد تنظیم اور اس کے حواریوں کی مسلمان دشمن کارروائیوں پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ کئی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں، یعنی جرمنی کی ’کرسچن ڈیموکریٹ‘ یا برطانیہ کی ’ٹوری پارٹی‘ سے تشبیہہ دے کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو نسل پرستوں کی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس)کے پاس ہے، جو بلاشبہہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے۔ جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ’ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ: ’ہنگامی صورت حا ل میں ہماری تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفے میں ۲۰لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جب کہ فوج کو ’لام بندی‘ (اپنے سپاہیوں کی تیاری) میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں‘‘۔ دراصل وہ یہ بتا رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔ 

معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں اپنی ۵۰۰صفحات پر مشتمل جامع، تحقیقی اور گہری تصنیف A Menace to India The RSS:میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹ ورڈبکس نے مارچ ۲۰۱۹ء میں شائع کیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کے لیڈر روز مرہ کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقت ور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس ہی کا نمایندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیاتھا، یعنی آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ ’کنواروں‘ پر مشتمل ہے۔
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبے میں کئی ’شاکھائیں‘ ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ ’شاکھائیں‘ دفاعی اور جارحانہ مشقوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کا اہتمام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار ’راشٹریہ سہکرواہ‘ یعنی سیکرٹری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چھے تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں: کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے، اس کا غیرشادی شدہ یا گھریلو مصروفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیراعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔
اے جی نورانی کے بقول: ’’اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر استوار ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجاے، آر ایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں جَن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی‘‘۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا‘‘۔
نورانی صاحب کے بقول: ’’آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰۰سے زائد شعبہ جات الگ الگ میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (بالفاظ دیگر غنڈا گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانش وروں کے لیے وچار منچ، غرض یہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصے سے آر ایس ایس نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انھیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے اسکولوں اور کالجوں ہی سے طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس وقت کُل شاخوں کی تعداد کم وبیش۸۷۷ ۸۴, ہے۔ گذشتہ برس ۲۰سے ۳۵سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔ بھارت کے ۸۸ فی صد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔
’’بھارت سے باہر کے ممالک میں ان کی ۳۹ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ’ہندو سوئم سیوک سنگھ‘ (HSS)کے نام سے کام رہی ہیں۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ پھر امریکا میں اس کی شاخوں کی تعداد۱۴۶ ہے اور برطانیہ میں ۸۴شاخیں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقا تک پھیلا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندا خودعرب ممالک ہی سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے ۲۰ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، حالاں کہ ان ممالک میں آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہی کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں‘‘۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر سے گفتگو کے دوران مَیں نے پوچھا کہ: ’مسلمان، جو بھارت کے صدیوں سے رہنے والے شہری ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے‘؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘۔ میں نے پوچھا کہ: ’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘ توان کا کہنا تھاکہ: ’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐاسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوںنے کہا کہ: ’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘۔
’گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگ پور چلا گیا جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے انھیں قائل کرنا تھا۔ اس وفد کے ایک رکن نے بتایا: ’’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘ جواب میں سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ: ’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہیں کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ یہ بات کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘۔ ’اسلام ہی حق‘ ہے، کے بجاے ’اسلام بھی حق‘ ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ تاہم، آرایس ایس اُس وفد کواس بات پر قائل نہیں کرسکی کہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے واقفیت رکھتے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔

کشمیر :منزل صرف آزادی
سید علی گیلانی ۔ ا پریل 2019

 یہاں ہم ایک مؤثر، اہلِ علم اور صائب الراے حضرات کے اجتماع میں بیٹھے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ان میں سارے ہی لوگ جموں وکشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کے حامی ہوں۔ اسی طرح یہاں پر جو بینر لگا ہوا ہے کہ: 'Azadi: The Only Way' ، ضروری نہیں کہ آپ حاضرین میں سب لوگ اس سے اتفاق کرتے ہوں۔ تاہم ایک چیز ہم سب میں ضرور مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم سب انسان ہیں۔ اگر ہم اپنی اس پہلی حیثیت، اپنے مقام اور مرتبے کو تسلیم کر لیں کہ ہم سب انسان ہیں تو: ہمیں انسان کا احترام کرنا چاہیے، ہمیں انسان کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ ہماری بات سے اتفاق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔خیالات اور جذبات میں اختلاف ہو سکتا ہے ،   رنگ اور نسل ، زبان اور وطن کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اس فطری اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت اپنے اندر پیدا کرنا ہی انسان کی بڑی خوبی ہے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ ( اسرا۱۷:۷۰) یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
میں نے آپ کے سامنے قرآن پاک کی جو آیت تلاوت کی ہے، اس میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے۔ انسان کو پید ا کرنے والے خالق و مالک نے اعلان کیا ہے کہ میں نے انسان کو عزت اور احترام بخشا ہے اور قدر ومنزلت عطا کی ہے۔ اور اگر ہم انسان کی عزت نہ کریں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسے پیدا کرنے والے کا بھی احترام نہیں کرتے۔ حالاں کہ شرفِ انسانی اور احترامِ آدمیت کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے۔
جموں و کشمیر کے حوالے سے اس اجتماع میں عنوان رکھا گیا ہے: Azadi: the Only Way ،یعنی ’’ایک ہی راستہ ہے: آزادی‘‘۔ یہاں ہونے والی تقاریر میں میرے لیے دو نکتے اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ: What do you mean by Azadi?، ’آزادی سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟‘ دوسرا Justice یا انصاف۔کیا آپ ایک آزاد ملک ہونے کے بعد انسانی معاشرے کی ایک بڑی بنیادی ضرورت انصاف کو ، maintain [برقرار]رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا آپ لوگوں کو انصاف دے سکتے ہیںـ ـ؟
آج دہلی میں بیٹھ کر یا دلی والوں کی مجلس میں جب ہم یہ بات کریں کہ آزادی کیا ہے؟ تو ان کے لیے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ’آزادی کیا ہے؟‘ اس لیے کہ آپ کے آباواجداد بھی ایک سو سال سے زیادہ عرصے تک انگریزوں کے براہِ راست غلام تھے۔ انگریزوں کے اقتدار و بالا دستی کے خلاف انھوں نے تاریخی جدوجہد شروع کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ہمیں آزادی چاہیے‘‘۔ وہ یہاں پر مسلط برطانوی سامراجی حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔
بالکل اسی طرح گذشتہ [۷۲ ] برسوں سے جموں وکشمیر کے لوگوں کی غالب اکثریت، کشمیر میں بھارت کے فوجی طاقت کے بل پر قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیدھی سی بات ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو سمجھ میں نہ آ سکتی ہو۔
یہ آزادی کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ آزادی جموں وکشمیر کے ہر فرد کے لیے ہے۔ چاہے وہ کٹھوعہ میں رہتا ہو ، یا آدم پور میں ، چاہے لیہہ میں رہتا ہو یا کرگل میں، چاہے وادیِ کشمیر میں رہتا ہو یا کشتوار میں، جہاں کہیں بھی رہ رہا ہے، چاہے وہ مسلمان ہے یا ہندو اور سکھ ہے یا عیسائی ، یا بودھ یہ سب بھارت کے غیرمنصفانہ اور جابرانہ فوجی تسلط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے میں آپ کو چند مثالیں دوں گا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں جموں میں ڈوگرہ فوجی تسلط کے دوران ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام تسلیم شدہ تعداد ہے، حالاں کہ وہاں پر موجود افراد کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ ان کی لڑکیوں کو اغوا کیاگیا، مردوں کو ذبح کیا گیا اور ان کے بچوں کو پائوں تلے روند ڈالا گیا تھا۔ یہ سارے ظلم وستم ہم نے سہے ہیں۔ یہ ۶ نومبر ۱۹۴۷ء کی بات ہے، جب جموں میں اس سانحے کا آغاز ہوا تھا۔ ہم اسی وقت سے اس فوجی تسلط میں پس رہے ہیں، ہم پٹ رہے ہیں، ہماری عزتیں لوٹی جا رہی ہیں، ہماری عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں، ہمارے نوجوانوں کو گولیوں کا نشا نہ بنایا جا رہا ہے اور ہمارے مکانات بغیر کسی جواز کے جلائے جار ہے ہیں، اور گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ یہ ساری صورت حال ہم کو مجبور کر رہی ہے کہ ہم بھارت کے فوجی تسلط سے جلد از جلد آزادی حاصل کریں۔
گذشتہ [۷۲ ] برسوں کے دوران ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں ، وہ آپ سب کو بھی جاننا چاہیے۔ ہم اس مجلس کے ذریعے بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ عوام سے مخاطب ہیں۔ ہم ان تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ آپ کا اور ہمارا ایک انسانی رشتہ ہے۔ اس وقت جب کہ آپ کے بھائیوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے تو بحیثیت انسان آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ اگر آپ آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو آپ اس انسانی رشتے کو کمزور بنا رہے ہیں۔
آج جموں وکشمیر کے ایک چھوٹے سے خطے میں آٹھ لاکھ مسلح بھارتی فوج کا مسلط ہونا بجاے خود ایک بہت بڑا جرم اور زیادتی ہے ۔ ان آٹھ لاکھ فوجیوں نے ہمارے خطے کی لاکھوں کنال زمین پر جبری قبضہ جما رکھا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک چھوٹی سی قوم کی اتنی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مرد و زن کیسے اپنے مستقبل کو شان دار قرار دے سکتے ہیں؟ وہ کیسے اپنی زندگیوں میں امن اور چین حاصل کر سکتے ہیں؟
جب ایک مقامی آدمی کو مغربی بنگال یا مہاراشٹر ،بنگال، پنجاب، آسام یا اترپردیش سے آئے ہوئے سپاہی، جموں وکشمیر کے پشت ہا پشت سے آباد باشندے کو، چاہے وہ ہندو ہے یا سکھ، مسلمان ہے یا عیسائی یا بودھ اس سے وادی کے ہرگلی کوچے میں بلکہ اس کے اپنے ہی گھر میں گھس کر تحکمانہ لہجے میں پوچھ رہا ہے کہ ’مجھے شناختی کارڈ دکھائو‘ _ یہ ایسی زیادتی ہے جس کو جموں و کشمیر کاکوئی شہری برداشت نہیں کر سکتا۔
۲۷ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جب بھارتی فوجیں جموں و کشمیر میں آ گئیں، تو اس وقت بھی بھارتی وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو نے کہا تھاکہ: ’’ہماری فوجیں یہاں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ ہم انھیں واپس بلا لیں گے اور آپ کو اپنا حق راے دہی دیا جائے گا‘‘۔ ان کا یہ وعدہ تاریخ میں لکھا جاچکا ہے۔ پھر جنوری ۱۹۴۸ء میں خود ہندستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور وہاں عالمی برادری کے ساتھ بھارت نے ۲۵دسمبر۱۹۴۸ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ:
ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزاد اور غیر جانب دارانہ راے شماری کے جمہوری طریقے سے طے پائے گا۔
اس قرار داد کو ہندستان نے تسلیم کیا ، اس پر دستخط کیے ہیں، اور عالمی برادری اس کی گواہ ہے۔ اس طرح کی منظور ہونے والی ۱۸ قرار دادوں پر بھارت نے دستخط کیے ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہم سے جو وعدے کیے ہیں انھیں وہ پورا کرے۔
ہم نے جمہوری طریقہ بھی اختیار کیا ۔ ووٹ کے ذریعے اسمبلی میں جا کر ہم نے آواز اٹھانا چاہی، لیکن ہندستان نے طاقت کے نشے میں ایسی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرا، جو پُر امن طریقے سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اٹھی تھی۔ جب تمام پُرامن راستے مسدود کردیے گئے تو عسکریت نے خود اپنا راستہ بنایا۔ جس کو ’ٹیررازم‘ کا نام دے کر، بھارت اعلیٰ تربیت یافتہ فوجیوں اور جدید ترین اسلحے سے لیس ریاستی ٹیررازم، کو استعمال کر کے اس جدوجہد کو دبا دینے کی ہرممکن کوشش کررہا ہے۔
آنجہانی گاندھی جی نے اپنی کتاب : تلاش حق میں کہا ہے کہ: ’’جس سسٹم میں انسانی، اخلاقی اور مذہبی قدروں کا احترام نہ ہو تو وہ سسٹم شیطانی کاروبار ہے‘‘۔ آج شیطان کا یہی کا روبار جموں و کشمیر میں چل رہا ہے ۔ بھارت ہو یا کوئی اور ملک، جہاں بھی ان اعلیٰ اخلاقی اور انسانی قدروں کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں کے لوگ شیطانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ ہندستان سے آزادی حاصل کرنا ہمارا پیدایشی اور بنیادی حق ہے۔ آپ ۸ لاکھ کے بجاے سار ے ہندستان کی فوج کشمیر میں جمع کر دیں، لیکن آپ کبھی جذبۂ آزادی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے !
جموں وکشمیر کی غالب اکثریت کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کریں، آواز اٹھائیں ۔ بھارت کے ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ جو اپنے آپ کو انسان کہتے ہیں، انسانی سماج کا حصہ سمجھتے ہیں، ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، قلم اٹھائیں اور اس ظلم کے خلاف ان کا جو فرض بنتا ہے اس کو انجام دینے کا حق ادا کریں۔
ہمیں گذشتہ [آٹھ] عشروں سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے جس الحاق کو بھارت بنیاد بناکر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے، وہ بھی عارضی اور مشروط الحاق تھا۔ باوجود اس کے کہ خود اس الحاق کے بارے میں بھی سوالیہ نشان موجود ہے کہ وہ ہو ابھی تھا یا نہیں ہوا تھا۔ آنجہانی ہری سنگھ نے اس پر دستخط کیے بھی تھے یا نہیں، جیسا کہ الیسٹر لیمب نے کتاب Birth of a Tragedy: Kashmir 1947 [راکسفرڈ بکس،۱۹۹۴ء] میں ثابت کیا ہے۔ بہرحال، ان چیزوں سے قطع نظر وہ معاہدہ بھی عارضی اور مشروط تھا کہ لوگوں سے پوچھا جائے گا اور مستقبل کے بارے میں ان کی راے لی جائے گی۔
۱۹۵۳ء میں، جب کہ شیخ محمد عبداللہ کو معزول کیا گیا تو بقول پنڈت پریم ناتھ بزاز [م:۶جولائی ۱۹۸۴ء] ۱۰ہزار لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا ۔ ۴۷ء سے ۱۹۵۳ء تک شیخ محمدعبداللہ کے دورِ اقتدار میں جس طرح سے لوگوں کو دبا یا جا رہا تھا، میں خود اس کا عینی شاہد ہوں۔ گذشتہ برس ہا برس سے جاری ہماری جدوجہد کے اس مرحلے میں بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج کی جانب سے جو بدترین مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان کی ایک ہلکی سی جھلک بھی انسان کو ہلاکر رکھ دیتی ہے، بشرطیکہ وہ انسان ہو۔
پورے بھارت میں بتایا جاتا ہے کہ کشمیری بچے اور نوجوان، قابض فوجیوں پر کنکر پھینکتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتے کہ آج تک اس سنگ باری سے کوئی بھارتی فوجی یا پولیس والا قتل نہیں ہوا۔ دوسری جانب ہمارے ہزاروں لوگ گولیوں سے بھون دیے گئے ہیں۔ ان مقتولین میں معصوم بچے اور گھریلو خواتین اسکول کی طالبات اور نوعمر لڑکے بھی شامل ہیں۔
یہ ہماری جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے اور عوامی سطح پر یہ پُر امن ہے۔ اس جدوجہد میں ہم بندوق کا سہارا نہیں لے رہے ہیں۔ ہماری تحریک خالصتاً مقامی اور Indigenous تحریک ہے، اور اسی کے ذریعے پوری عالمی برادری میں یہ احساس بیدار ہو رہا ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنا پیدایشی حق حاصل کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دے رہے ہیں۔ تاہم، بدترین ریاستی تشدد، ظلم اور قتل و غارت کے جواب میں اگر کچھ نوجوان کسی درجے میں جوابی کارروائی کرتے ہیں، تو وہ تشدد کا اسی طرح ایک فطری ردعمل ہے، جس طرح تحریک آزادیِ ہند کے دوران ہوا تھا۔ تب کانگریس کی قیادت بہ شمول گاندھی جی نے یہی کہا تھا کہ: ’’مجموعی طور پر سیاسی جدوجہد میں ایسے واقعات کو روکنا ممکن نہیں، جب کہ ریاست ظلم کا ہرہتھکنڈا برت رہی ہے‘‘۔آج ہم بھی بھارتی نیتائوں سے یہی کہتے ہیں۔
ہم جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے لیے حصولِ آزادی کا یہ حق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کے دھونس اور دبائو کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ آزادانہ استصواب راے کے ذریعے اکثریت جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ ہمیں قبول ہو گا۔ ہم یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اکثریت اپنے مستقبل کا جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں قبول ہوگا۔ آزادی کا ہمارا مطلب وہی ہے، جو ہندستان کا انگریزوں سے آزادی کے مطالبے کا مطلب تھا۔ ہم بھارتی قبضے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ End to Forcible Occupation یہ ہمارا نعرہ ہے۔ اسی طرح ہمارا نعرہ ہے کہ’ گوانڈیا گو‘۔ انڈیا کا اس سر زمین پر کوئی آئینی، اخلاقی اور قانونی حق نہیں ہے۔ بندوق کی نوک پر آخر وہ کتنے عرصے تک ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔
۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء سے جموں و کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کا عمل چل رہا ہے اور ۱۵۰بار مذاکرات کے دور مکمل ہو چکے ہیں، لیکن ان مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کون نادان ہو گا جو ۱۵۰ بار مذاکرات کی ناکامی کے بعد پھرایسے بے معنی اور وقت گزاری کے عمل کا حصہ بنے؟ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہندستان ایک سانس میں کہہ رہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسرے ہی سانس میں کہہ رہا ہے کہ جموں وکشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسی غیرمنطقی ہٹ دھرمی کے سبب اب تک کے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ آیندہ بھی کسی مذاکراتی عمل میں اس وقت تک شرکت بے معنی ہے، جب تک کہ بھارت، جموں وکشمیر کی اس متنازع حیثیت کو تسلیم نہ کر لے کہ جوامرواقعہ بھی ہے اور جسے خود بھارتی قیادت نے پوری دنیا کے سامنے تسلیم بھی کیا تھا۔
ہم نے ۳۱ ؍اگست ۲۰۱۰ء کو ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا تھا، جو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں، لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔ اس میں پہلا نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کی جو بین الاقوامی متنازع حیثیت ہے، اس کو آپ تسلیم کریں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں، افواج کا انخلا شروع کریں ۔ اس کے بعد کالے قوانین کے نفاذ کو ختم کریں۔ تمام گرفتار لوگوں کو رہا کریں اور ہمارے پُرامن لوگوں کے جو قاتل ہیں، ان کے خلاف آپ مقدمات چلائیں اور سزا دیں۔
یہ پانچ نکاتی فار مولا دراصل مذاکرات کے لیے ماحول بنانے کے لیے ہے، جس پر بات چیت ہو سکتی ہے ۔ ہم بات چیت کے منکر نہیں ہیں، مگر یہ بات چیت صرف بنیادی اور مرکزی ایشو پر ہونی چاہیے۔ یہ بات چیت دو فریقوں میں نہیں بلکہ تین فریقوں کے درمیان ہونی چاہیے۔ اس میں ہندستان ،پاکستان اور جموں وکشمیر کے آزادی پسند شریک ہوں۔ پھر اُس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے۔ ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک جو بے مثال جدوجہد کی گئی ہے اور جو قربانیاں دی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھا جائے اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے، ان مذاکرات کے بعد استصواب راے میں جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا، اسے ہم سب قبول کریں۔
بھارت میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ: ’’اگر جموں وکشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو جائے گا اور چوںکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تو وہاں اقلیتوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا‘‘۔ یہ پروپیگنڈا بے جواز بھی ہے اور بے معنی بھی۔ چوںکہ جموں وکشمیر ،مسلم اکثریتی خطہ ہے، وہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کے بارے میں ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ان کے جان ومال ، عزت وعصمت، ان کے مذہب و عقیدے اور ان کی عبادت گاہوں، سب کا تحفظ ہو گا۔ اس حوالے سے کسی کو کسی بھی قسم کی فکر مندی یا پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندستان جودنیا بھر کے سامنے جمہوریت کا دعویٰ کر رہا ہے، کیا وہ خود اس اصول کو اپنا رہا ہے؟ کیا اس پر عمل کر رہا ہےـ؟ اگرایسا ہوتا تو جموں وکشمیر گذشتہ [۷۲]برسوں سے بھارتی جبر کا شکار نہ ہوتا۔ لیکن بہر حال ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نظام ہے، جس میں انصاف اپنا وجود اور عمل دکھائے گا، ان شا اللہ !
اس عرصے میں ۶ لاکھ قربانیاں لے کر، ہماری عزتیں اور عصمتیں لوٹ کر ، جنگلات کا صفایا کر کے، ہمارے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بعد بھی آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ ہم نے جو پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے، جب تک اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا ہم کسی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دہلی کی اس باشعور مجلس کے ذریعے میں اعلان کرتا ہوںکہ آپ کے جو صلاح کار ہمارے مظلوم بھائیوں سے ملنا چاہ رہے ہیں ، اُن کے سامنے ہمارے لوگ یہ مطالبہ دہرائیں گے کہ جب تک آپ اصل حقائق کو تسلیم نہیں کریں گے، آپ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ طلبہ،تاجروں ، دیگر آزادی پسند لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس زمینی صورتِ حال کو تسلیم کیے بغیر کوئی بات چیت نہیں کریں گے، کہ یہ محض وقت گزارنے کا بہانا ہے، اور مسئلہ حل کرنے کے لیے آپ کی نیت صاف نہیں ہے۔
کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارا مطالبہ کیا ہے؟ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ہم خون دے کر اور جانیں دے کر باربار بتا رہے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی اور صرف آزادی چاہتے ہیں۔ عزتیں اور عصمتیں لٹا کر، بچیوں کو اُجڑتے دیکھتے اور جوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سٹرتے ہوئے بھی ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کے جبری قبضے کے خلاف ہیں اور ہم اس سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ کہتے ہیں کہ:’’ ہم آپ کے پاس جائیں گے اور پوچھیں گے کہ ’’بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ بہر حال یہ فریب کاری ہے۔ آپ بات کی تہہ تک پہنچ کر دیکھیں اور اس خودفریبی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
میں آپ کو برملا یہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں کہ نہ ہمارے عوام تھکے ہیں، اور نہ ہماری قیادت مایوس ہوئی ہے۔ ہم جدوجہد آزادی میں بھرپور طریقے سے ہم قدم ہیں ۔ اس وقت تک برسرِکار ہیں، جب تک کہ ہم بھارت کے فوجی قبضے سے آزادی حاصل نہ کرلیں۔ بھارتی قبضے سے ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان جیسے دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک ایک رستے ہوئے ناسور سے آزاد ہوجائیں گے۔ کیوں کہ مسئلہ کشمیر ایک ایسا لاوا ہے، جس کو حکمرانوں کی اناپرستی، ہٹ دھرمی اور عدم توجہی کی وجہ سے اگر اسی طرح دبانے کی کوشش کی گئی تو اس میں اتنا خطرہ موجود ہے کہ یہ پورے برصغیر ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانی کے خرمن کو جلاکر راکھ کرسکتا ہے۔اس لیے انسانیت کی بقا کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے امن کی ضمانت کے لیے، اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور یہ جتنا جلد ہوگا، اتنا ہی بہتر ہوگا۔
آخر میں، مَیں انتظامیہ اور آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوم یک جہتی کشمیر
اور سید علی گیلانی کا خطاب

۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اسی نسبت سے میں آپ حضرات کی خدمت میں معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ ۵ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کے لیے پاکستانی حکومت، فوج اور عوام کا دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 

جموں وکشمیر کے مظلوم عوام پچھلے ۷۰ سا ل سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے برسرِ جدوجہد ہیں۔ اس جدوجہد میں پاکستان روزِ اول سے سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی سطح پر مدد کرتا آ رہا ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور جموں وکشمیر کے محسن اور غم خوار مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جنھوں نے ۱۹۹۰ء میں یوم یک جہتی کشمیر کا آغاز کرکے پاکستان کو تحریک آزادی کے حوالے سے زیادہ فعال اور سرگرم رول ادا کرنے کی ترغیب دی۔
کشمیر ی قوم اپنی آزادی کے لیے دنیا کی ایک بڑی ملٹری طاقت سے نبرد آزما ہے۔ اس جدوجہد میں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ہمارے حقِ خود ارادیت کو خود بھی تسلیم کرتا ہے اور عالمی برادری کے سامنے اس کی وکالت بھی کرتا ہے۔ ہم اس مدد او ر سپورٹ کے لیے پاکستان کے ممنون ہیں، البتہ اس ملک کی طر ف سے کشمیر کے حوالے سے زیادہ Avtive اور اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں او ر سفارتی چینلوں کو زیادہ متحرک کر ے اور انھیں کشمیر یوں کی جدوجہد اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کا ٹاسک سونپ دے۔
میں پاکستان کے حکمرانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی کشمیر پالیسی میں تسلسل اور استحکام پیدا کریں اور اس میں کسی بھی مرحلے پر معذرت خواہانہ رویے کو اختیار نہ کیا جائے۔ کشمیریوں کی جدوجہد مبنی بر حق ہے جس کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ پاکستان مسئلۂ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے اور اس قبضے کا حتمی حل پاکستان کی شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس ملک کو جرأت اور حوصلے کے ساتھ اپنے موقف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس میں کسی قسم کی کمزوریوں اور لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
میں ایک بار پھر موحوم قاضی حسین احمد کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ آج یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی تنظیموں جلسوں اور جلسوں کا اہتمام کرتی ہیں ، البتہ اس دن کے آغاز کا سار کریڈٹ مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی ذات کو جاتا ہے جنھوں نے پہلی بار کشمیریوں کے تیئس عملی اور ردیدنی وابستگی ظاہر کرنے کا پیغام دیا۔ مرحوم قاضی صاحب خود بھی کشمیریوں کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار ہونے کے متمنی تھے۔ مرحوم اپنی ہر تقریر میں کشمیر کا تذکرہ کرتے تھے اور انھوں نے کشمیری مہاجرین کے تئیں جس ہمدردی اور شفقت کا مظاہرہ کیا وہ آب وزر سے لکھنے کے قابل ہے۔ کشمیر ی قوم مسئلہ کشمیر سے ان کی والہانہ وابستگی اور گراں قدر خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ ۵ فروری کو روایتی طور پر منانے سے آگے بڑھ کر اس دن کو زیادہ سے زیادہ جلسے اور جلسوں کا انعقاد کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کریں۔ اور جموں وکشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو جتنا ممکن ہوسکے اُجاگر کیا جائے۔
میں پاکستان کی حکومت ، پاکستان کی سیاسی قیادت اور پاکستان کے عوام کی دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ جموں وکشمیر کے مظلوم ، محکوم اور غلام قوم کی حمایت دل و جان سے کرتے ہیں اور ایک بہت بڑا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہماری دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ دعائیں ہیں کہ پاکستان سلامت رہے، محفوظ رہے اور ہر حیثیت سے انسانی قدروں کا احترام کرے اور پاکستان میں جتنے بھی لوگ بس رہے ہیں چاہے مسلمان ہوں، ہندو ہوں ، سکھ ہوں، عیسائی ہوں، احمدی ہوں، جو بھی لوگ پاکستان میں سکونت پذیر ہیں ان کو جان مال، عزت وآبرو، مذہب وعقیدہ اور عبادت گاہوں کی پر حیثیت سے حفاظت ہونی چاہیے۔ یہ ہم دل کی عمیق گہرائیوں سے چاہتے ہیں تا کہ پاکستان عالمی سطح پر ایک ایسا ملک سمجھا جائے کہ وہ انسانی قدروں اور اخلاق قدروں کا سب سے زیادہ پاسداری کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
اللہ سے عاجزانہ التماس ہے کہ پاکستان جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کی حفاظت اور ان پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان کو عالمی سطح پر عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے، اور پاکستان کے عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم بھارت کے جبری فوجی قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شا اللہ ، ان شا اللہ ،ان شا اللہ ! اللہ ہماری مدد اور حفاظت کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی سے جڑے چند سوالات

گذشتہ دنوں سید علی گیلانی کے ایک قریبی دوست ابو احمد کی ایک تحریر نظروں سے گذری جس میں انہوں نے سید علی گیلانی کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ چشم کشا انکشافات کئے تھے کہ سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنی زنگی کے قیمتی سال جدوجہد میں گذار دیئے مگر جب ضرورت پڑی تو جمات اسلامی نے ان سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کر دیا۔ 
جوں ہی سید علی شاہ گیلانی کے انتقال کی خبر سنی تو آنکھوں کے سامنے بہت سے واقعات فلم کی طرح گردش کرنے لگے، مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا تو نانی اماں اکثر جماعت کے اجتماعات میں ساتھ لے جاتی، وہاں اور مقررین کے علاوہ شعلہ بیان مقرر سید علی شاہ گیلانی بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نےمیرے دل میں بچپن سے ہی گیلانی صاحب کی عقیدت پیدا کر دی تھی۔
1987 الیکشن میں جب دھاندلی کی گئی اور کارکنان میں مایوسی پیدا ہوگئی تو میری نانی اماں نے محلہ کے کچھ لوگوں سے کہا ہم خواتین کو جلوس کی صورت میں گیلانی صاحب کے گھر مبارکباد کے لئے جانا چاہئے، مجھے اچھے سے یاد ہے وہ نعرہ لگا رہے تھے، “سب پر بھاری گیلانی، سو کے بدلے گیلانی”، بچپن کے یہ واقعات ابھی تک ذہن پر نقش ہیں، جب شعور کی آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو گیلانی صاحب کے تقریروں کا پرستار پایا۔ جب وہ بارہمولہ آتے تو میں قبل از وقت ہی پہلی صف میں بیٹھ جایا کرتا، ان کی تقریر کی فصاحت اور بلاغت کا کوئی مقابلہ نہیں۔
میں نے تقریر میں ایسی روانی کسی کے ہاں نہیں دیکھی اور سب سے اہم بات وہ جب تقریر کرتے تو جہاں شعلہ بیانی ہوتی وہاں استدلال بھی ہوتا۔ وہ اپنا توازن کبھی بھی نہ کھوتے، وہ مقابل کا نام بھی ادب و احترام سے لیتے، مجھے یاد ہے جب وہ شیح عبداللہ کا نام لیتے تو مرحوم شیخ عبداللہ کہتے، جب اندرا گاندھی کا نام لیتے تو شریمتی اندرا جی کہتے، وہ قرآن پاک کے عالم تھے،وہ اپنی تقریر میں قرآن پاک جس انداز سے پڑھتے تو محسوس ہوتا تھا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے، قرآن پاک سے آپ کو عشق تھا، وہ اپنی تقریر میں قرآن پاک کی اتنی زیادہ آیات پڑھتے میں حیران ہو جاتا کہ اس عمر میں بھی ان کو اتنا قرآن یاد ہے، مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا بیشتر حصہ ان کو حفظ تھا ، میں دور دراز مقامات پر بھی ان کی تقریریں سننے کے لئے جاتا،وہ کشمیری اور اردو زبان میں تقریر کرتے، اگر کسی جگہ انٹرنیشنل میڈیا ہوتا تو وہ انگریزی میں بھی اپنی بات کہتے، لیکن ان کی اردو زبان کی تقریر سب سے اچھی ہوتی۔
وہ اردو اور فارسی کے استاد تھے لیکن اردو میں ان جیسی تقریر میں نے آج تک کسی سے نہیں سنی، ایک زمانے میں ان کی تقریروں کی cd’s میں خریدلیتا اور دوستوں میں تقسیم کرتا اور خود ایک ایک تقریر کئی بار سنتا ،ان کی اقتدا میں کئی بار نماز پڑھی۔نماز میں ان پر رقت طاری ہوتی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اللہ سے کلام کر رہے ہیں، لمبی قرأت، لمبے سجود، لمبے رکوع ، ان نمازوں کی حالت ہی الگ تھی، شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو مجھ پر رقت طاری نہ ہوئی ہو۔
انہوں نے مزاحمتی ادب میں بھی اپنا حصہ ادا کیا، ان کی کئی کتابیں ان کی جیل ڈائری ہیں، ساتھ ہی ان کی خودنوشت ولر کنارے (تین جلد) نا صرف مزاحمتی ادب میں اہم کتاب مانی جاتی ہے بلکہ کشمیر کے واقعات، سیاست، معاشرت بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔
اقبالیات کے وہ امام تھے۔ انہوں نے اقبال کی شاعری کی تفہیم کے سلسلے میں کئی کتابیں لکھیں، وہ جب اقبال کا شعر پڑھتے تو اقبال کی شاعری کی عصری معنویت کا پتا چلتا ، وہ چونکہ انقلابی تھے لہذا انہیں سید مودودی، علامہ اقبال، قائد اعظم، سید قطب سے محبت تھی۔
مجھے یاد ہے جب ولر کنارے شائع ہونے والی تھی تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کی شائع کردہ کتابیں بہت ہی خوبصورت چھپی ہیں، اگر مجھے پہلے سے پتہ ہوتا تو ولر کنارے بھی آپ کے ہاں سے شائع کرتے۔ لیکن اب وہ اشاعت کے لئے چلی گئی ہے، میں نے انہیں کہا کہ آپ کے ناشر افضل بھائی انتہائی قابل انسان ہیں وہ کتاب کو خوبصورتی سے شائع کریں گے، اور واقعی ایسا ہوا، گیلانی صاحب نفاست پسند تھے، وہ جو کپڑے پہنتے صاف شفاف پہنتے، کراکلی ٹوپی اور اچکن میں وہ بہت ہی خوبصورت لگتے، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو ایک بار تنقیداً کہا گیا کہ آپ مہنگے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کا جواب ان کے اندر حس مزاح کا بھی پتا دیتا ہے، جواب تھا “سستاروئے بار بار، مہنگا روئے ایک بار”، لمبا قد، اور گہری آنکھوں نے ان کی پر وجیہ شخصیت میں چار چاند لگائے تھے، ہر پہلو میں وقار تھا۔
کھانے پینے کے معاملے میں بھی وہ نفاست پسند تھے، مطالعہ کا شوق و ذوق بہت تھا، اخبارات و رسائل کے علاوہ وہ مستقل کتابیں پڑھتے، میں جب بھی ان سے ملا کسی نہ کسی کتاب کو سرہانے پایا، گیلانی صاحب کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے عیش کئے ، حتٰی کہ کشمیر کے ہند نواز سیاستدانوں نے بھی ہندوستان کو ان کے نام سے خوب بلیک میل کیا ، لیکن خود سادگی کی زندگی گزاری۔ ان پر ایک بھی کرپشن کا الزام کسی نے عائد نہ کیا ۔
ان کی سرینگر رہائش پر کئی  بار ان کے پاس حاضری دی کبھی اکیلے، کبھی دوستوں کے ہمراہ ، کبھی ہندوستان سے آئے ہوئے مہمانوں کے سنگ ، ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے، آپ تھے ہی با اخلاق، حلیم اور ڈاون ٹو ارتھ۔ ان کے ساتھ ملاقات میں کبھی محسوس نہ ہوا کہ ہٹو بچو والی پوزیشن ہے انکی، وہ ایسا ماحول پیدا کرتے مجھ جیسا لا علم بھی بات کرنے سے نہیں ہچکچاتا، وہ سننے کے عادی تھے۔ ایک بار ہم چند احباب ان سے ملاقات کے لئے گئے، ہم میں کچھ ڈاکٹر تھے کچھ انجینئر اور کچھ دیگر سرکاری پیشوں سے وابستہ۔ اکثر سرکاری ملازم ۔ وہاں ایک بزرگ نے جب ہم سب کا تعارف کرایا تو گیلانی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا یہ تو سب کے سب “سرکاری” ہیں، اس وقت ہم جوان تھے سب کو گیلانی صاحب کی بات بری لگی لیکن کچھ عرصہ بعد جب بحیثیت سرکاری ملازم وہ سب کچھ کرنا پڑا جو سرکار چاہتی ہے، گیلانی صاحب کے اس طنزیہ جملے کا احساس جیسے شدید ہو گیا ۔ آج یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش نوکری کے بجائے کوئی اور کام کیا ہوتا ۔
مجھے ایک ملاقات یاد ہے، ان دنوں پی ڈی پی، بی جے پی سرکار تھی ان کے جلسوں پر پابندی لگائی گئی تھی، کہا جاتا تھا کہ گیلانی صاحب نے درپردہ پی ڈی پی کی مدد کی ہے۔ گیلانی صاحب انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے میں نے ازراہِ مذاق کہا کہ سرکار نے آپ کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ دی حالانکہ….. اس کے بعد میں چپ رہا، گیلانی صاحب نے بات کا موضوع بدل ڈالا اور کہا کیا میری کتاب ولر کنارے تیسری جلد کا مطالعہ کیا۔ میں نے کہا کہ قبلہ آپ نے اس میں بہت سی شخصیات کے چہروں سے “پردہ” ہٹانا مناسب نہیں سمجھا ہے، کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا کچھ تو آنکھوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ میں نے کہا لیکن لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہے،لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کس کس نے کیا کیا، جس طرح آپ نے دوسری تنظیموں اور افراد کا پوسٹ مارٹم کیا ایسا ہی “اپنوں” کا بھی ہونا چاہئے تھا، 1996 کا اجتماعی سرنڈر .کیاانہوں نے عملاً تحریک سے منہ نہیں موڑا۔ ان کا جواب تھا اگر میں لکھتا تو کیا ہوتا۔ میرا جواب تھا کہ جماعت کی موجودہ قیادت نہیں آتی۔ ان کا جواب تھا “گوبرا ای چھو آل ہوند سوری پھل ایتھوی” بیٹا یہ سب کے سب ایک جیسے ہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گیلانی صاحب کو تحریکی حلقہ نے سب سے زیادہ ساتھ دیا لیکن تنظیم نے سب سے زیادہ دھوکہ دیا ، اخیر وقت اپنے اجتماعات میں نہ بلایا، ان کے سب ساتھیوں بشمول اشرف صحرائی کی رکنیت معطل کردی، ابھی جب جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی تو انہوں نے جو کورٹ میں اپنی طرف سے جواب پیش کیا ہے اس میں لکھا گیا ہے ہم نے گیلانی اور صحرائی کو اس وجہ سے تنظیم سے نکالا کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں جبکہ جماعت کا اس کے برعکس موقف ہے، گیلانی صاحب کا قد اس قدر اونچا تھا کہ وہ جماعت اسلامی پر قابض ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ۔ وہ خود ہی اس کارواں سے علٰیحدہ ہوگئے۔ وہ اس کارواں کو بکھیرنا نہیں چاہتے تھے، سچ تو یہ ہے کہ جماعت نے انہیں الگ تھلگ کیا۔ انہوں نے اگرچہ تحریک حریت کو قائم کیا لیکن چونکہ وہ بھروسہ صرف ایک خاص حلقہ پر کرتے لہذا تحریک حریت اپنا وہ مقام نہ بنا سکی جو وہ بنا سکتی تھی، وہ مسرت عالم جیسے سرفروش کو بھی اپنا نہ سکی، 2017 میں جب NIA نے کشمیر میں کارروائی شروع کی ان ہی دنوں میں ایک بار ان کے گھر گیا، وہاں لوگ بالکل نہ تھے، خوف کا ماحول تھا ۔
شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان کو گھیرا گیا تھا۔ میں نے اس پر گیلانی صاحب سے کہا کہ آپ لوگوں کو احتجاج کرنا چاہئے، نعیم اور شبیر شاہ کی بہت ساری غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن اگر آپ نے اس وقت لوگوں کو موبالائز نہ کیا تو ایجنسیوں کا سلسلہ نہ رکے گا، جس کا مجھے ڈر تھا آخر وہی ہوا۔
گیلانی صاحب کو اللہ نے انتہا درجہ کی ACCOMMODATION عطا کی تھی انہوں نے 17 سالہ میر واعظ کو حریت چیرمین تسلیم کیا البتہ وہ اپنے موقف میں کبھی کمپرومائز نہیں کرتے ۔
جنرل پرویز مشرف نے جب چار پوائنٹ فارمولا پیش کیا تو حریت کی ساری قیادت نے تسلیم کیا لیکن گیلانی صاحب اس وقت بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے،بلکہ پاکستان کے صدر کے ہندوستانی دورے پر اپنے موقف کا برملا اظہار کیا، پاکستان سے ان کو بہت محبت تھی لیکن ان کا ماننا تھا کہ لوگ اگر آزادی ہی پر متفق ہیں تو وہ اس کی تائید کریں گے،20 سال سے زائد عرصہ جیل میں گزارا، 2008 میں گھر میں ہی نظر بند تھے، آپ تصور کیجئے پیرانہ سالی ایک طرف اور دوسری طرف مختلف امراض میں مبتلا اور پھر نظر بندی کے ایام، کس طرح کی ابتلا تھی یہ، لیکن ان کے موقف میں کبھی بھی تبدیلی نہ آئی، بہرحال ‘نہ جھکنے والا نہ بکنے والا “کا خاتمہ خیر پر ہوا، ان کے انتقال کے ساتھ ہی کشمیر میں انٹرنیٹ حتٰی کہ فون بھی بند کئے گئے، سڑکوں پر ناکے لگادئے گئے ۔
جنازہ بھی پولس کی نگرانی میں ادا کیا گیا اور صرف چند افراد ہی کو جنازہ ادا کرنے کی اجازت ملی۔ حسن البنا شہید کے جنازہ کی یاد تازہ ہوئی، گیلانی صاحب کے انتقال سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ تحریک کشمیر یتیم ہوگئی لیکن اللہ رب العزت مالک ہے وہ انشاء اللہ نعم البدل عطا کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا سید علی گیلانی کو بھارتی
انٹیلی جنس اداروں نے قتل کیا؟

پارلیمانی کمیٹی برائے امور کشمیر کے چیئرمین شہریار خان آفریدی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے ہائی کمشنر مشیل جیریا کو خطوط لکھ کران سے مطالبہ کیا ہے کہ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی زیر حراست قتل، لاش کی بے حرمتی اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات کا اندراج کی غیر جانبدارانہ لیکن فوری تحقیقات کی جائے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے گروپ کو خط پہنچانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو سید علی گیلانی کے حراستی قتل کی فوری تحقیقات کا حکم دینا چاہیے جو کہ کشمیری رہنماؤں کیے زیر حراست قتل کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔اس موقع پر کمیٹی کے رکن سینیٹر سرفراز بگٹی کے علاوہ حریت کانفرنس کے رہنما فیض نقشبندی اور فاروق رحمانی بھی موجود تھے۔
شہریار خان آفریدی نے کہا کہ حریت رہنماؤں کو جموں و کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی پیشہ وارانہ حکومت کی طرف سے کووڈ 19 وبا کی آڑ میں قتل کیا جا رہا ہے، اگر اقوام متحدہ اشرف خان سہرائی کے حراستی قتل کی تحقیقات کرتی تو گیلانی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اب ہمیں خدشہ ہے کہ اے پی ایچ سی کے نئے سربراہ مسرت عالم بھٹ، سید شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر قاسم فکٹو اور دیگر سمیت دیگر قید کشمیری رہنماؤں کو بھی اسی طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔شہریار آفریدی نے کہا کہ بھارتی حکومت نے تمام جدوجہد آزادی کے حامی کشمیری رہنماؤں کو مارنے کا ایک منصوبہ بنایا ہے اور علی گیلانی کا قتل دوسری ہائی پرافائل قتل ہے۔انہوں نے کہا کہ علی گیلانی کے دیرینہ ساتھی اور جانشین تحریک حریت چیئرمین محمد اشرف خان صحرائی کو بھی رواں سال کے شروع میں حراست میں قتل کیا گیا تھا، انہیں جان بوجھ کر بھارت کی جیل میں رکھا گیا تھا جہاں کووڈ 19 پھیلا ہوا تھا جبکہ بھارت میں لاکھوں لوگ مر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ‘یہ نقصان کشمیریوں کی آواز کو دبانے اور ان کی طویل جدوجہد آزادی کے لئے بڑا جھٹکا ثابت ہوسکتا ہے، یہاں اس معاملے کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا جس میں علی گیلانی کی موت کے بعد قابض بھارتی حکومت نے پوری وادی کشمیر میں انٹرنیٹ بند کر دیا تھا اور جب ان کی موت کی بات پھیلی تھی تو سکیورٹی کو بڑھا دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر پولیس نے سید علی گیلانی کی لاش ان کے اہل خانہ سے ان کے مرنے کے چند گھنٹوں بعد زبردستی چھین لی اور سوگوار خاندان کو جنازے کے حق سے محروم کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ ظلم کافی نہیں تھا تو جموں و کشمیر میں بھارتی غیر قانونی قابض حکومت نے سید علی گیلانی کے اہل خانہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے کالے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے انسداد دہشت گردی کا قانون ہے لیکن بھارتی حکومت نے اس کالے قانون کو کشمیری رہنماؤں کے خلاف غلط استعمال کرتی رہی ہے اور ابھی حال ہی میں علی گیلانی کا خاندان اس قانون کا نیا شکار ہے۔شہریار آفریدی نے کہا کہ اس پس منظر میں ہمیں خدشہ ہے کہ کشمیریوں کی آوازیں مزید دب جائیں گی اور جیلوں میں بند کشمیری رہنماؤں کو اسی طرح قتل کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے تیزی سے غائب ہونے والے رہنماؤں کی عدم موجودگی میں کشمیری عوام اظہار رائے کی آزادی کے اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کیسے کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کی حریت کانفرنس سے
علیحدگی کی کہانی اور درون خانہ وجوہات

سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس کے اپنے دھڑے کی سربراہی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرکے گویا کہ کشمیر کی سیاست کے تالاب میں تادیر جاری رہنے والا ارتعاش پیدا کر دیا۔ ان کے خط میں اس فیصلے کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں اور سوشل میڈیا اور اخبارات میں اس فیصلے کے مضمرات واثرات پر تجزیوں اور بحث کا نہ تھمنے والا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کسی کو اس میں تقسیم کشمیر کی بو نظر آرہی ہے، کسی کو اس فیصلے کے پیچھے سید علی گیلانی کی کوئی اور ناراضگی جھلکتی دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ آوازیں تو یہ بھی اُٹھ رہی تھیں کہ سید علی گیلانی انتہائی علیل اور نجانے کس ذہنی کیفیت میں ہیں اور ان کے گرد چند افراد ا یک گروہ سید علی گیلانی کے نام پر فیصلے کر رہا ہے ان کا حریت کانفرنس سے الگ ہونے کے اعلان پر مبنی خط بھی ایسی ہی واردات ہے۔ سید علی گیلانی کے ایک عزیز نے بتایا کہ وہ بستر علالت پر ضرور ہیں مگر ان کی ذہنی حالت صحت مند لوگوں سے زیادہ بہتر ہے اسلئے ان کو بے خبری میں رکھ کر فیصلے کرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سید علی گیلانی نے مختصر آڈیو پیغام جاری کرکے اس خط اور اس کے مندرجات کو مکمل اوون کر کے پھیلائی جانے والی خبروں اور تاثر کی نفی کی۔ سید علی گیلانی کشمیر کی مزاحمت کے سب سے مقبول اور سب سے سربرآوردہ قائد ہیں۔ نائن الیون کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں یوں لگ رہا تھا کہ کشمیر میں عسکریت کا دور اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ کشمیر میں عسکریت کی جگہ پیس پروسیس اور ہیلنگ ٹچ جیسی اصطلاحات کا چرچا تھا اور صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ مہم اب کے کامیاب ہوگی اور کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی قابل عمل سمجھوتہ ہوجائے گا جس میں کشمیر پر اقتدار اعلیٰ بھارت کا ہوگا مگر اس کے نیچے کشمیریوں کو نقل وحرکت کی آزادی ہوگی اور وہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف اور پاکستان اور بھارت کے درمیان آسانی سے آمد ورفت جاری رکھ سکیں گے۔ اس منصوبے کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور پاکستان میں جنرل مشرف بھی اس فارمولے کو قبول کرتے جا رہے تھے۔ اس منصوبے کو کشمیر کے اندر بھارت نواز کیمپ کی حمایت تو حاصل ہی تھی مگر حریت کانفرنس کے کیمپ سے بھی حمایت دلانے کی مہم جاری تھی۔ سید علی گیلانی نے جب یہ دیکھا کہ اس منصوبے میں کشمیر پر حتمی اقتدار اعلیٰ بھارت کا ہی رہنا ہے اور پاکستان کو اس صورتحال کو بادل نخواستہ سہی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہی ہے تو انہوں نے اس عالمی سکیم کیخلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا مشکل فیصلہ کیا۔ انہوں نے خود کو پیس پروسیس سے الگ کر دیا اور یوں حریت کانفرنس دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ سید علی گیلانی نے کشمیری عوام سے رجوع کر لیا اور انہوں نے اپنے مؤقف کی حمایت میں وادی کے طول وعرض میں عوام سے رابطہ شروع کیا۔ انہوں نے بچی کچھی عسکریت کی کھل کر حمایت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام ان کے گرد جمع ہوتے چلے گئے۔ وہ کسی جنازے کے جلوس میں ہوں یا کسی گھر میں تعزیت کررہے ہوں نوجوان پروانوں کی طرح ان کے گرد جمع ہوتے چلے جاتے۔ سید علی گیلانی نے کشمیری نوجوانوں کے جذبات کی زیادہ شدت سے ترجمانی شروع کی اور یوں وہ کشمیر کی فضا میں آگ لگا دینے والے لیڈر کی حیثیت سے اُبھرے۔ رواں عشرے میں کشمیر میں جو نیا انقلاب اُبھرا اس میں سیدعلی گیلانی مرکزی حیثیت کے حامل تھے اور اس انقلاب میں حریت کانفرنس کے دونوں دھڑے بے اثر ہو کر رہ گئے تھے اور ان کی جگہ تین بااثر سیاسی شخصیات سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک پر مشتمل مشترکہ مزاحمتی فورم نے سیاسی مزاحمت کی کمان سنبھال لی۔ یہ حریت کانفرنس کی جگہ ایک نئے فورم کا ہی اُبھار تھا اور اس میں جماعتوں کی بجائے تین شخصیات کی اہمیت تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم نے برہان وانی کی شہادت کے بعد کے حالات پر اپنا کنٹرول قائم کیا۔ پانچ اگست کے بعد بھارت نے کشمیر کی ساری قیادت کو جیلوں میں ڈال کر بے اثر کر دیا۔ سید علی گیلانی دس سال سے نظربندی کا شکار ہیں۔ محمد یاسین ملک کو جن مقدمات میں پھنسایا گیا ہے انہیں دوسرا مقبول بٹ اور افضل گورو بنانا نہایت آسان ہے۔ میرواعظ ایک بڑا دینی اور سماجی نیٹ ورک رکھتے ہیں۔ جامع مسجد ان کا مرکز ہے اور جامع مسجد کو خاردار تاروں میں محصور کرکے اور تالہ بندی کر کے بھارت نے میرواعظ کیخلاف آخری انتہا تک جانے کا اشارہ دیا۔ یہ کشمیر میں اُبھرنے والی یکسر نئی صورتحال ہے جہاں کوئی اصول، قاعدہ ضابطہ نہیں بلکہ طاقت ہی آخری زبان ہے۔ حریت کانفرنس تیزی سے کشمیر کے حالات میں غیرمتعلق ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں سید علی گیلانی کا اس ٹریڈ مارک سے الگ ہونا اچنبھے کا باعث نہیں۔ حریت کانفرنس سے الگ ہونے کا مطلب تحریک آزادی سے الگ ہونا نہیں۔ سید علی گیلانی تحریک کا معتبر حوالہ ہیں اور رہیں گے۔ انہوں نے ایک نازک دور میں مزاحمتی تحریک کی قیادت کرکے شاندار کردار ادا کیا بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے اپنا نقش قدم چھوڑا ہے۔ وہ کشمیریوں کے مقبول جذبات کے ترجمان ہیں اور رہیں گے۔ سیاسی اتحادوں کا بننا ٹوٹنا اس راہ میں معمول کی سرگرمی ہوتی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں کے اتحاد 'کل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین سید علی گیلانی نے اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔

اکانوے سالہ گیلانی، جو بہت عرصے سے علیل اور خانہ نظربند ہیں، کے اچانک فیصلے نے بھارت، پاکستان اور دونوں ممالک کے زیر انتظام کشمیر میں لاکھوں لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
سخت گیر موقف رکھنے والے گیلانی کا حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بیشتر علیحدگی پسند رہنما و کارکن تھانہ یا خانہ نظربند ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس (گیلانی دھڑے) کے شعبہ نشر و اشاعت کی طرف سے جاری ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے: ‘سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس کے فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کیا ہے’۔
اس میں مزید کہا گیا ہے: ‘گیلانی نے اپنے فیصلے کے حوالے سے حریت ممبران کے نام ایک تفصیلی خط روانہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس فورم سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
دھڑے نے سید علی گیلانی کا ایک آڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس میں انہیں متذکرہ بیان کا متن پڑھتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ‘حریت کانفرنس کے دو دھڑے ہیں۔ ایک دھڑا جو حریت کانفرنس (گ) کہلاتا ہے اس کی باگ ڈور سید علی گیلانی کے ہاتھوں میں تھی جبکہ دوسرا دھڑا جو حریت کانفرنس (ع) کہلاتا ہے کی قیادت میرواعظ مولوی عمر فاروق کر رہے ہیں۔
چونکہ حریت کانفرنس (گ) کے بیشتر لیڈر تھانہ نظربند ہیں، اس وجہ سے ان میں سے کسی سے بھی تاثرات لینے کے لیے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔
حریت کانفرنس (میرواعظ دھڑے) کے ایک لیڈر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ‘ہم بھی گیلانی صاحب کا بیان دیکھ کر چونک گئے۔ دراصل وہ کافی عرصے سے علیل چلے آرہے ہیں۔ میں پانچ اگست 2019 کے بعد ایک مرتبہ ان سے ملنا گیا لیکن وہ بات کرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں تھے۔
کچھ تنظیموں نے 2003 میں متحدہ کل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر کے حریت کانفرنس (گ) بنائی اور گیلانی اس کے چیئرمین مقرر کیے گئے تھے۔
بعد ازاں گیلانی نے 7 اگست 2004 کو جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ساتھ ایک تحریری مفاہمت کے بعد تحریک حریت جموں و کشمیر بنائی اور وہ اس کے بھی چیئرمین مقرر ہوئے تھے۔
جہاں گیلانی نے 19 مارچ 2018 کو اپنی جگہ اپنے دست راست محمد اشرف صحرائی کو تحریک حریت جموں وکشمیر کا عبوری چیئرمین مقرر کیا وہیں اب حریت کانفرنس (گ) سے علیحدگی اختیار کر کے تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہوگئے ہیں۔ تاہم وہ تحریک حریت جموں و کشمیر کے رکن بنے
رہیں گے۔
ایک کشمیری ریسرچ اسکالر نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سید علی گیلانی کی علیحدگی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کل جماعتی حریت کانفرنس منتشر تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘متعدد جماعتوں کا یہ اتحاد اگست 2019 سے خاموش تھا۔ یہاں تک بیانات بھی جاری نہیں کئے جاتے تھے۔ میرا ماننا ہے کہ گیلانی صاحب کے فیصلے کے کشمیر کی موجودہ مخدوش صورتحال پر مزید منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کا بھارتی حکومت کے خلاف
مزاحمت کے لئے پانچ نکاتی لائحہ عمل کا اعلان

آل پارٹیز حریت کانفرنس کے جواں عزم بزرگ چیئرمین سید علی گیلانی نے بھارتی حکومت کے خلاف مزاحمت کے لئے پانچ نکاتی لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے۔ سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر کے باشندوں ‘ جموں و کشمیر میں تعینات پولیس اہلکاروں اور پاکستانی عوام سے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت بدلے جانے کے بعد بھارت کی جابرانہ مہم کے خلاف مزاحمت میں ساتھ دیں۔ کشمیری عوام کو لکھے گئے کھلے خط میں جناب سید علی گیلانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات کی مذمت کی۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین نے جموں و کشمیر کے عوام سے کہا ہے کہ وہ جرأت کے ساتھ بھارتی سفاکیت کو بے نقاب کرنے کے لئے مزاحمت جاری رکھیں۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقے میں پرامن احتجاجی مظاہروں کی اپیل کی۔ جناب سید علی گیلانی نے ساتھ ہی منظم اور چوکس رہنے کی ہدایت کی تاکہ بھارتی فوج کو کشمیریوں کو قتل کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ اس صورت میں کسی تصادم کی تمام ذمہ داری بھارتی حکام پر ہو گی۔ سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر کے ان سرکاری افسران اور پولیس اہلکاروں سے کہا کہ وہ اس بات کو محسوس کریں کہ ان کی کارروائیوں پر بھارتی حکومت خود اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ انہیں بھارتی حکومت کی اس سوچ اور اپنی تحقیر پر ضرور واضح ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ حالیہ دنوں جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں سے بھارتی حکام نے اسلحہ واپس لے لیا اور تمام اختیارات نیم فوجی اور فوجی حکام کو تفویض کر دیے گئے۔ سید علی گیلانی نے دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیری باشندوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے سفیر کا کردار ادا کریں‘ وہ کشمیر کے متعلق اپنے علم اور مشاہدے کی بنیاد پر بیرونی دنیا کو بھارت کے مظالم سے آگاہ کریں۔ اپنے خط کے چوتھے نکتے میں حریت رہنما سید علی گیلانی نے پاکستان‘ اس کے رہنمائوں اور مسلم امہ کے درد دل رکھنے والے لیڈروں سے کہا ہے کہ وہ بھارتی فوج کے نرغے میں آئے کشمیریوں کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اور مسلم امہ نے بروقت درست فیصلہ نہ کیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ جناب سید علی گیلانی کے خط کا پانچواں نکتہ جموں و لداخ کے لوگوں سے متعلق ہے جس میں انہوں نے ان سے اپنی شناخت کی حفاظت کرنے کا کہا ہے۔ سید علی گیلانی کے خط کے مندرجات کے مطابق انہوں نے لداخ کے بدھ افراد جموں و کشمیر کی ڈوگرہ برادری اور پیر پنجال و کارگل کے مسلمانوں سے کہا ہے کہ بھارتی حکومت صرف ان کی زمین ہتھیانا چاہتی ہے‘ وہ کشمیر کی مشترکہ شناخت چھیننا چاہتی ہے اور بھائی چارہ ختم کرنا چاہتی ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی کے خط میں ایک بات واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے کہ انہوں نے براہ راست مغربی ممالک سے کوئی اپیل نہیں کی‘ صرف کشمیری باشندوں سے ساری دنیا میں کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کوکہا ہے۔ سید علی گیلانی نے خط میں دنیا بھر کے کشمیری باشندوں کو ایک ہونے کا پیغام دیاہے۔ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لئے اس کے ٹکڑے اور حصے کرنے کی جو تجاویز مختلف اوقات میں سامنے آتی رہی ہیں کشمیری قیادت ان سے واقف اور ان کے پیچھے پوشیدہ اغراض سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ کشمیر صدیوں سے ایک منفرد اکائی ہے جس کے باشندوں نے طویل غلامی کے بعد 1947ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا مگر بھارتی قیادت اور انگریز نے شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر اہل کشمیر کو بھارت کا غلام بنا دیا۔ آج وہ سارے کرداراور ان کے جانشین اس فیصلے پر پچھتا رہے ہیں لیکن یہ پچھتاوا ستر ہزار کشمیریوں کی جان لے چکا ہے۔ بہتر برس گزرنے کے باوجود کشمیری عوام بھارت کے ساتھ الحاق قبول کرنے کو آمادہ نہیں۔ سوا کروڑ انسانوں پر ان کی مرضی کے بغیر حکومت نہیں کی جا سکتی صرف جبر اور ظلم مسلط کیا جا سکتا ہے جو بھارتی فوج کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بائیس روز سے کرفیو نافذ ہے۔ بھارتی فوج کسی بھی نوجوان کو مشکوک قرار دے کر گرفتار کرتی ہے اور ریاست سے باہر کسی علاقے میں منتقل کر دیتی ہے۔ پہلے سے ترتیب دی گئی خفیہ فہرستوں کی بنیاد پر سرگرم کشمیری باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم ناقابل بیان ہو چکے ہیں۔ کشمیر کی آئینی حیثیت بدل کر اسے خوشحالی کے خواب دکھانے والے نریندر مودی دنیا کے مختلف سربراہوں سے مل رہے ہیں۔ بھارتی کی کوشش ہے کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر عالمی برادری کے ردعمل کو سست کر دے۔ اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر کشمیریوں کا بڑے پیمانے پر قتل اورنسل کشی کی جا رہی ہے۔ اب تک نریندر مودی اپنی حکمت عملی میں اس اعتبار سے کامیاب ہیں کہ امہ کے بعض اہم سمجھے جانے والے ممالک کشمیر پر بھارت کی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس کے سربراہ نریندر مودی سے بات کر چکے ہیں مگر ان کی بات صرف ایک مشورے جیسی ہے۔سکیورٹی کونسل اور اس کے مستقل ارکان اتنے بے بس نہیں جس قدر کشمیریوں کی مصیبت پر وہ خود کو ظاہر کر رہے ہیں۔سیدعلی گیلانی کا خط اہل کشمیر کو منظم ہونے کا پیغام ہے۔ اب بھی عالمی برادری نے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو اپنے معاشی مفادات کے ترازو میں تولا تو کشمیریوں کی مسلح تحریک مزاحمت جائز اور برحق ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مسئلہ کشمیر اور سیّد علی گیلانی کا انتباہ!

جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس ضمن میں جو جدوجہد ہورہی ہے، وہ صرف جموں و کشمیر کے عوام اور ان کے مستقبل کی نہیں، خود پاکستان کی بقا اور ترقی کی جنگ ہے۔ کشمیری بہنیں، بھائی، بچّے اور نوجوان اس جدوجہد میں اپنی جان، مال، مستقبل اور آبرو تک کی قربانی محض ایک خطۂ زمین کے لیے نہیں دے رہے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ جدوجہد دینی، نظریاتی، تاریخی، معاشی اور تہذیبی بنیادیں رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اہلِ کشمیر بالکل واضح ذہن اور بڑی صاف سمت اپنے سامنے رکھتے ہیں۔اسی طرح اس معاملے میں پاکستانی قوم کا موقف پہلے روز سے بڑا واضح اور نہایت مضبوط دلائل پر استوار ہے۔ تاہم، افسوس ناک صورتِ حال دیکھنے میں آتی رہی ہے کہ بعض اوقات، بعض حکومتوں یا بعض مقتدر افراد نے کمزوری دکھائی، مگر قوم نے ایسی کسی عاقبت نااندیشی کو قبول نہیں کیا۔
اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ، اور خود پاکستان میں ایک نوعیت کی سرگرمیوں سے مسئلہ کشمیر پر جو اشارے مل رہے ہیں، وہ سخت تشویش ناک ہیں۔ ان پر بجاطور پر ہرسنجیدہ اور دُور اندیش پاکستانی پریشان ہے۔ بعض عرب ممالک، بھارت اور امریکا مل جل کر، پاکستان پر دبائو ڈال کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر، بھارت سے تجارتی و ثقافتی راہ و رسم کے دروازے کھولے جائیں۔ اسی ضمن میں ’قومی سلامتی‘ کے نام پر اشاروں، کنایوں میں تاریخ کو دفن کرکے یا تاریخ کو بھلا کر آگے بڑھنے کا غیرمنطقی اسلوبِ بیان اور قومی موقف سے ٹکراتا طرزِتکلّم بھی ہمارے ہاں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ طرزِعمل خطرناک صورتِ حال کی نشان دہی کرتا ہے، جس پر حکومت ِ پاکستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ کو دوٹوک الفاظ میں اپنے تاریخی موقف کا اعادہ کرنا چاہیے اور ایسی کسی بھی مہم جوئی سے لاتعلقی کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔ اور وہ اعلان یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ، جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کی متفقہ قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت کے تحت حل کیا جاناہے۔ کسی قسم کی ثالثی کی باتیں بھی پوری جدوجہد کو گہرے اندھے کنویں میں دھکیل دیں گی۔ بات چیت، رائے شماری کے انعقاد کے انتظامات کی تفصیلات پر ہونی چاہیے۔
یہ کہنا کہ ’’بھارت اور چین ، سرحدی تنازعات کے باوجود اتنے سو بلین ڈالر کی تجارت کرتے ہیں‘‘، ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ اس مثال کا کوئی موازنہ، مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تعلقات سے نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف ملکوں کے سرحدی تنازعات اور کشمیر کے سوا کروڑ لوگوں کے مستقبل کے فیصلے کو ایک ترازو میں رکھنانہایت سنگ دلی اور تاریخ کے ساتھ سنگین کھیل کھیلنا ہے۔
یاد رکھیے، جس نے تاریخ سے کھیل کھیلنے کی کوشش کی، وہ عبرت کا نشان بنا ہے۔ وزارت، حکومت اور ملازمت چند برسوں کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح شخصی کروفر کی حیثیت محض پرچھائیں کے برابر ہے مگر غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کے فیصلوں کی سزا قوم مدتوں بھگتتی ہے، اور تاریخ سے بے وفائی کے مرتکب لوگوں کو تاریخ کبھی کسی اچھے نام سے یاد نہیں کرتی۔
ہونا یہ چاہیے کہ کشمیر کے مظلوم عوام کی ہمہ جہت سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کی جائے، ان سے ہرسطح پر تعاون کیا جائے۔ اس ضمن میں محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بہت بروقت انتباہ کیا ہے۔
ہم پاکستان کے سیاسی، دینی، صحافتی، حکومتی حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قومی اداروں کو مجبور کریں کہ وہ کسی بھی مہم جوئی اور پس پردہ نامہ و پیام (بیک ڈور ڈپلومیسی)سے پرہیز کریں۔ جو معاملہ ہو، وہ کھلاہو اور اس میں کشمیر کے عوام کا اعتماد شامل ہو، اور عالمی مسلّمہ اصولوں کے مطابق ہو۔
اسی طرح پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی کی تشکیل نو کی جائے۔ اس کے غیرسنجیدہ چیئرمین کو تبدیل کیا جائے۔ ذمہ دار، فرض شناس اور کسی مردِ معقول کو کمیٹی کا سربراہ بنایا اور کمیٹی کو متحرک کیا جائے۔ عالمی سطح پر ایک مہم چلائی جائے، جس میں خاص طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے مظالم اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے بھارتی جرائم کو بے نقاب کیا جائے۔
اس حوالے سے حکومت ِ پاکستان، پارلیمنٹ اور پاکستان کی مسلح افواج کو تاریخی موقف پر جم کر کھڑے ہونا چاہیے۔
 یہاں پر سیّد علی گیلانی صاحب کا موقف اور انتباہ پوری تائید کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

حوصلہ بلند رکھیں، فتح حق کی ہوگی: سیّد علی گیلانی
’’اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ایک بار پھر مجھے آپ لوگوں سے مخاطب ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔
ہم سب کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ آج ہم بحیثیت ایک قوم کے، ایک انتہائی مخدوش اور صبر آزما صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف بھارت ظلم و جَور کے نت نئے ہتھکنڈے اپنا کر ہماری قوم کا قافیۂ حیات تنگ کرنے اور ہمیںا پنی ہی سرزمین سے بے دخل کرنے پر تُلا ہوا ہے، اور دوسری طرف عالمی برادری کے ضمیر پر کشمیر کے تعلق سے چھائی مردنی مزید گہری ہوتی جارہی ہے، اور بھارت کو کشمیر میں کچھ بھی کرگزرنے کی گویا چھوٹ سی مل گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی سیاست میں رُونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں سے اس بات کا بھی صاف عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے جس کے بارے میں کشمیری عوام کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اس تعلق سے ہماری حمایت اور ہم نوائی کا دم بھرنے والے ہمارے کچھ ہمدردوں کا کردار بھی شکوک و شبہات سے گھرا ہوا ہے:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال سے کسی قوم کو سابقہ پیش آئے تو اس کے افراد میں کسی قدر بددلی یا مایوسی پیدا ہو جانا اگرچہ ایک فطری چیز ہے لیکن میں آپ کو یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم الحمدللہ ،مسلمان ہیں اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بے انتہا قدرت اور رحمت پر ایمان اور یقین ہو، ان کے لیے مایوسی کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔
دوسری چیز جس کی طرف مَیں آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہماری جدوجہد حق اور انصاف پر مبنی ہے۔ ہم کسی سے نہ تو کوئی بھیک مانگ رہے ہیں، نہ کسی سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں، بلکہ ہم صرف اپنے ان غصب شدہ حقوق کی بازیابی چاہتے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ ان کا ہم سے وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
تیسری چیز جس کو نظرانداز کرنے یا بھولنے کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے، یہ ہے کہ اپنے حقوق کی بازیابی کی اس مبنی برحق و انصاف جدوجہد میں ہم نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے لاکھوں نوجوانوں، بزرگوں، اور بچوں نے اپنا خون بہاکر اور ہماری ہزاروں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتیں لٹا کر، اس تحریک کی آبیاری کی ہے۔ یہ سبھی قربانیاں ہمارے لیے ایک مقدس قومی امانت ہیں اورہم سب اس کے امین اور اس کی حفاظت کے لیے ذمہ دار اور عہد کے پابند ہیں۔ اسی طرح ہمارے شہداکی بیوائیں، یتیم اور ہمارے محبوسین اور ان کے اہلِ خانہ بھی ہم سب کے لیے ایک اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ہرطرح سے ان کا خیال رکھنا اور ان کی دل جوئی کرتے رہنا، ہمارا ایک قومی فریضہ ہے۔
اُتار اور چڑھائو کے مراحل ہر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی جدوجہد ختم نہیں ہوتی بلکہ اکثر ان کٹھن مراحل سے گزر کر ہی تحریکیں مزید سنورتی اور نکھرتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ جدوجہد کا دورانیہ جب زیادہ طویل ہوجائے، تو کچھ ایسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن پر اگر بروقت توجہ نہ دی جائے، تو وہ جدوجہد کا حلیہ اور سمت دونوں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ طالع آزما اور مفاد پرست عناصر کے ایک گروہ کا ظہورہوتا ہے، جو بدقسمتی سے ہماری صفوں میں بھی نہ صرف پیدا ہوچکا ہے بلکہ انتہائی سرگرم بھی ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے، جو کسی بھی وقت اپنے حقیر مفادات کے لیے کسی بھی قسم کی سازباز کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔
جیساکہ مَیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کشمیر کے حوالے سے درپردہ کچھ سرگرمیوں کے عندیے مل رہے ہیں۔ کشمیری عوام اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں۔ انھیں الگ تھلگ رکھ کر کیا کچھ حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے، یہ سب سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم اس بات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا مقصد کشمیری عوام کے لیے حقِ خود ارادیت کا حصول ہے اور اس سے ہٹ کر کچھ اور کشمیری عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قیامِ امن کی خواہش رکھنے والوں کو اس زمینی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس خطے میں بدامنی کی وجہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نہیں بلکہ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور تسلط ہے۔ اور جب تک اس وجہ کو دُور نہیں کیا جاتا، تب تک قیامِ امن کی کوئی بھی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی۔
پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ہم سب سے بڑھ کر حامی ہیں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر کشمیری ہی ہوتا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات کی بحالی کے نام پر اگر مسئلۂ کشمیر کو سردخانے کی نذر کرنے کی بات ہو تو یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات کو استوار کرنا ایک اچھی سوچ ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے والی وجہ باقی نہ رہے۔ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکّی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟
ہرقوم اورملک کی طرح کشمیری عوام کو بھی اپنے مفادات کے بارے میں سوچنے اور ان کا تحفظ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے، اور ہمارا مفاد اس کے سوا کسی اور چیز میں نہیں ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جاری اپنی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اور یہ کام ہم سب کشمیریوں کو مل جل کر کرنا ہوگا۔
یہ تحریک جتنی مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں رہنے والوں کی ہے، اتنی ہی آزادکشمیر، گلگت بلتستان، جموں، لداخ، کشتواڑ، ڈوڈہ، غرض کشمیر کے ہرحصے میں رہنے والوں کی ہے، اور اس میں سب کا یکساں تعاون بھی ضروری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جس طرح بھارتی مظالم کے سب سے زیادہ شکار مقبوضہ وادی کے لوگ رہے، اسی طرح اس تحریک میں سب سے زیادہ حصہ بھی مقبوضہ وادی کے لوگوں کا ہی رہا ہے۔ لیکن اس صورتِ حال کا تبدیل ہونا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کے ہرحصے کے لوگ اس میں یکساں طورپر شامل ہوں اور بقدرِ استطاعت اپنا تعاون کرکے اس کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔
یاد رکھیں! جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ حوصلوں اور ہمتوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لہٰذا، اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ حق اور باطل کی لڑائی میں فتح آخرکار حق کی ہی ہوتی ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!‘‘ [۲۲مارچ ۲۰۲۱ء، سری نگر]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فکرِ اقبالؒ سے سیّد علی گیلانی کا سچا عشق

شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال نے مسلمانوں کو ظاقتور بن کر اپنا حق لینا کا سبق دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ضعیف مجاہدوحریت پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی، جن کی ہمتیں ہمہ وقت جواں رہتی ہیں، نے حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کے پیغام کو کشمیر کے ہر مرد و عورت، بوڑھے اور نوجوان تک پہنچانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
شاعرِ مشرق نے اپنے کلام میں متعدد بار جس محبت، دردمندی اور خلوص سے کشمیریوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اُن پر ڈھائے جانے والے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جس شدت سے احتجاج کیا ہے، اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی حضرت علامہ اقبال کو اپنی یادوں میں بسائے رکھیں۔
اس کا عملی مظاہرہ جناب سید علی گیلانی نے اپنی پوری زندگی میں کیا۔ علی گیلانی صاحب کی نجی گفتگوؤں، خطوط اور تقاریر میں جا بجا فکرِ اقبال کی چھاپ نظر آتی ہے۔ وہ کلامِ اقبال کو برمحل بروئے کار لاتے ہیں اور سُننے والوں کے دل گرما دیتے ہیںماضی میں حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کا یومِ پیدائش آیا تو گیلانی صاحب نے اپنے دولت خانے پر’’اقبال…داعیِ حق، محب انسانیت‘‘ کے موضوع پر ایک دلکشا مجلس کا اہتمام کیا تھا۔
اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس (گیلانی گروپ) کے بانی و مجاہد کا خطبہ یادگار بھی تھااور اقبال کی محبت سے سرشار بھی۔ علی گیلانی صاحب نے کہا تھا:’’کشمیری نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن و سنّت کے اتباع کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو بھی خصوصیت کے ساتھ پڑھیں اور خود کو فکرِ اقبال کے ساتھ منسلک کیے رکھیں۔ لاریب شاعرِ مشرق ملّتِ اسلامیہ کے داعی اور عظیم محسن ہیں۔‘‘ گیلانی صاحب نے مزید ارشاد فرمایا:’’علامہ اقبال علیہ رحمہ کے افکار کا صرف ہم پر ہی نہیں بلکہ ساری ملّت پر احسانات ہیں۔
عظیم احسانات۔ آج کے دَور میں باطل نے بہت سے بُت تراشے ہیں۔ المیہ مگر یہ ہے کہ کافر بُت تراشتا ہے اور ہم میں سے کئی اس کی پرستش کرتے ہیں۔ موجودہ دَور میں لادینیت سب سے بڑا بُت ہے جسے ایک نظرئیے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
اقبال نے اپنی مومنانہ فراست اور دانش سے لادینیت کے اس بُت کو پاش پاش کرنے کا درس دیا ہے اور یہ بھی صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ لادینیت انسانوں کو کس کس صورت میں گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے۔‘‘ اپنی گفتگو میں حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کے بارے میں شائستگی سے ایسی گفتگو وہی شخص کر سکتا ہے جس نے نبّاضِ فطرت، اقبالِ لاہوری کی شخصیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو اپنی رُوح کے اندر جذب کر رکھا ہو۔
حضرت علامہ محمد اقبال علیہ رحمہ سے ہماری محبت اور عقیدت قومی بھی ہے اور فطری بھی۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد کے خوبصورت چائنہ سینٹر میں کتاب میلہ برپا تھا۔ کہا گیا ہے کہ اِس میں سوا سو کے قریب بُک اسٹال لگے اور سوا کروڑ روپے کی کتابیں فروخت ہُوئیں۔ ہم بھی کشاں کشاں وہاں پہنچے۔ اِس نمائش میں بھی ہمیں وہی بُک اسٹال دلکش لگے جہاں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے متعلق کتابیں رکھی گئی تھیں۔ نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن، اقبال اکیڈمی، مجلسِ ترقی ادب کی طرف سے سجائی گئی کتابیں ہماری رُوحانی مسرت کا مُوجب بنیں۔
غنیمت ہے کہ یہ ادارے بانیانِ پاکستان کا نام بھی لیتے ہیں اور اُن کے پیغام اور افکار و فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں مقدور بھر حصہ بھی ڈال رہے ہیں۔ ہم نے وہاں سے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی ’’فکرِ اقبال‘‘،ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی ’’اقبال اورقرآن‘‘ اور خالد نظیر صوفی کی ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ بڑی چاہت اور محبت سے خریدیں۔ ’’اقبال درونِ خانہ‘‘ (چوتھا ایڈیشن) مختصر سی کتاب ہے مگر اِس کے مندرجات نے مجھے ایک نئے علامہ اقبال سے رُوشناس کروایا ہے۔
حیرت انگیز اور منفرد اقبال۔خیال تھا کہ اِس کتاب کے خیال افروز کچھ واقعات اپنے محترم قارئین سے بھی شیئر کروں گا لیکن ہُوا یہ ہے کہ اِنہی ایام میں جناب سید علی گیلانی کی خود نوشت سوانح حیات (جو دو جِلدوں پر مشتمل ہے) میرے زیر مطالعہ ہے۔ گیلانی صاحب قبلہ نے اِس خود نوشت میں جس تواتر اور کثرت سے کلامِ اقبال اور فکرِ اقبال کو اپنی باتوں، خطوط اور گفتگوؤں میں سمویا ہے، اِس نے تو مجھے ششدر کررکھا ہے۔
مولانا عبدالستار خان نیازی علیہ رحمہ (جنہوں نے تحریکِ ختمِ نبوت اور پھر تحریکِ نظامِ مصطفیٰ میں شاندار اور تاریخی کردار ادا کیا تھا) اور سابق امیرِ جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد صاحب علیہ رحمہ (آہ، کیا شاندار اور پُر عظیمت تھا وہ ’’آدمی‘‘) جس آسانی اور تسلسل کے ساتھ اپنی تقریروں اور گفتگوؤں میں کلامِ اقبال کو بروئے کار لا کر مجالس گرما دیتے تھے، یہ لمحات میرے لیے بڑے ہی یادگار اور ایمان افروز ہیں۔
اب کون ہے ہماری مجالس میں ایسا صاحبِ مطالعہ شخص جو کلامِ اقبال کا حافظ بھی ہو اور عاشقِ صادق بھی اور جسے کلامِ اقبال پڑھنے کا سلیقہ بھی آتا ہو؟ ہم کسقدر تہی دست ہو گئے ہیں۔ ہماری مجالس سے اب پروفیسر مرزا منور ایسا شارحِ کلامِ اقبال بھی اُٹھ کر جا چکا ہے۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ حتیٰ کہ اقبال کے نام پر قائم ہونے والے ادارے بھی عشاقِ اقبال اورحفاظِ کلامِ اقبال سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ ادارے نہیںبلکہ اقبال کی زبان میں، بجھی آگ کا ڈھیر ہیں۔ ایسے میں جناب سید علی گیلانی صاحب دامت برکاتہ کیوں نہ یاد آئیں جو دریائے نیلم کے پار، عین خون کی بہتی ندیوں میں بیٹھ کر کلامِ اقبال پڑھ کر سر دُھن رہے ہیں اور کلامِ اقبال کشمیریوں کو سُنا کر جذبہ حریت کی آنچ تیز کررہے ہیں۔
دو جِلدوں اور تقریباًپانچ صد صفحات پر مشتمل ’’رودادِ قفس‘‘ سید علی گیلانی صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد نے اِس کے مقدمے میں بجا لکھا ہے:’’علامہ محمد اقبال اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کی چھاپ اُن ( علی گیلانی) کے فکر پر صاف دکھائی دیتی ہے۔‘‘
دونوں جِلدوں میں جس کثرت کے ساتھ گیلانی صاحب نے اشعارِ اقبال سے اپنی رُوداد اور افکار کو سجایا اور سنوارا ہے، صاف عیاں ہوتا ہے کہ کلامِ اقبال ہمہ وقت اُن کے نوکِ زباں رہتا ہے۔ تقریر کرتے ہُوئے اور نثر لکھتے ہُوئے انھیں کلیاتِ اقبال کی ورق گردانی نہیں کرنا پڑتی۔ رُودادِ قفس کی دونوں جِلدوں میں انھوں نے بِلا تکان جس شوق اور ذوق سے اشعارِ اقبال کو برمحل استعمال کیا ہے، اگر مَیں اِس کالم میں صفحات اور ابواب کے حوالوں کے ساتھ ان سب اشعار کو یہاں نقل کرنا چاہوں بھی تو نہیں کر سکتا۔
کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے لاتعداد و متنوع بھارتی مظالم اور بھارتی استبداد تلے پسِ دیوارِ زنداں اُن پر کیا گزری، اِن سب کا ذکر کرتے ہُوئے جناب سید علی گیلانی کو بے اختیار حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کے اشعار یاد آ جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ گیلانی صاحب نے اپنی اِس خود نوشت سوانح حیات کے ذریعے کشمیریوں میں فکرِ اقبال اور کلامِ اقبال کی نہائت احسن طریقے سے ترویج و تبلیغ کی ہے تو ایسا کہنا شائد مبالغہ نہیں ہوگا۔
یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کلامِ اقبال سے بے پناہ عشق نے علی گیلانی صاحب کو بھارتی قید خانے میں قوت وہمت بھی عطا کیے رکھی اور سہارا بھی۔بھارتی قید خانے میں جس صبر اور استقامت کی ضرورت تھی، گیلانی صاحب نے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے بھی صبر کا درس حاصل کیے رکھا اور صحابہ کرام کی مبارک زندگیاں بھی اُن کے لیے مشعلِ راہ بنی رہیں۔ طاغوتی قوتوں کے مظالم کے مقابلے میں مجاہد صفت مردِ مومن کی عزیمت کیا ہوتی ہے، اِس کی کئی مثالیں ہمیں گیلانی صاحب کی اِس خود نوشت میں ملتی ہیں ۔
علامہ اقبال کے ساتھ ساتھ علی گیلانی صاحب نے اپنی ’’رودادِ قفس‘‘ میں کئی جگہ فیض احمد فیضؔ کو بھی محبت سے یاد کیا ہے ، اُن کے لیے دعائیں بھی کی ہیں اورزندان میں اپنا حالِ دل بیان کرنے کے لیے اُن کے اشعار بھی لکھے ہیں ۔ مثا ل کے طور پر جِلد دوم (صفحہ130)پر یوں لکھا: ’’جناب فیض احمد فیضؔ کی اللہ مغفرت فرمائے۔ اُن کی ذہنی اور فکری لغزشیں اپنی بے پایاں رحمت کے سہارے معاف فرما دے۔اعلیٰ مقصد کے حصول کی راہ میں، قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور اس دوران انسانی فطرت پر گزرنے والی کیفیات کو انھوں نے جس بے مثال ادبی پیرائے میں بیان کیا ہے، نظریاتی اختلاف کے باوجود اُن کے کمالِ فن اور قدرتِ کلام کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ایسے ہی کسی موقع پر انھوں نے فرمایا ہے:’’جنہیں خبر تھی کہ شرطِ نواگری کیا ہے/وہ خوش نوا گلہ قیدو بند کیا کرتے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی اورپاکستان

اپنی پوری زندگی، اپنی صحت، آرام، فیملی اور تمام صلاحیتیں اور توانائیاں کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کے لیے وقف کر دینے والے سب سے مقبول رہنما اور کشمیری کے بوڑھے شیر سید علی گیلانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ہے تو یقینا بات ہی ایسی ہے۔ وہاں کی صورت حال غیر معمولی ہے۔

بھارتی درندوں نے کشمیریوں پر ہر قسم کے ظلم ڈھا کر دیکھ لیا کہ وہ اب آزادی کے علاوہ کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا اب مودی اور اس کے کارندوں نے اپنے آئین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو روندتے ہوئے کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کا خوفناک منصوبہ بنایا ہے اور اسی سلسلے میں انھوں نے کلسٹر بم گرانا شروع کر دیے ہیں۔ بھارتی درندے چاہتے ہیں کہ لاکھوں کشمیریوں کا قتل عام کیا جائے اور وہاں ہندوؤں کی اکثریت ہو جائے۔
پوری دنیا کا مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کے باشندوں (چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوں) کا فرض ہے کہ اپنے کشمیری بھائیوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے انھیں جواب دیں کہ “ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم آپ کو genocide کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ “
٭ اس سلسلے میں فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر تمام سیاسی قائدین متحد ہو کر کشمیریوں کے قتل عام کے خلاف زور دار قرار داد پاس کرکے اہم ملکوں کے سربراہوں کو بھیجیں۔
٭ وزیراعظم عمران خان صاحب خود امریکا، برطانیہ، چین، روس، ترکی، جرمنی، فرانس، سعودی عرب، یو اے ای اور ملائیشیا کے حکمرانوں کو فون کرکے حالات کی سنگینی سے آگاہ کریں اور ان پر زور دیں کہ وہ بھارت کو اس بربریت سے روکیں۔
٭ امریکا اور برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر وہاں بااثر پاکستانیوں کی میٹنگ بلائیں اور انھیں تیار کریں کہ وہ ان ملکوں کے اہم حکام سے مل کر انھیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ کریں تاکہ وہ بھارت کو اس شیطانی منصوبے سے روکیں۔
٭ کشمیر کا مقدمہ بہتر پیش کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد پر مشتمل وفود فوری طور پر اہم ملکوں میں بھیجے جائیں تاکہ وہاں کے حکمرانوں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے اور بے گناہ کشمیریوں کے تحفظ کے لیے انھیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر قائل کیا جاسکے۔
اگر ہم کشمیری مسلمانوں کی SOS کال پر خاموش رہے تو سید علی گیلانی کے بقول ہم رب ذوالجلال کو کوئی جواب نہیں دے سکیں گے اور ہم شرمندگی کے مارے آقائے دو جہاں ﷺ کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔
سید علی گیلانی کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تھا، نہ پاسپورٹ۔ انہوں نے کبھی یہاں سکونت اختیار نہیں کی، مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرنے کے بارے میں بھی نہیں سوچا، اپنے علاقے اور اپنی زمین سے جڑے رہے۔ کئی سال مقدمے بھگتتے، جیلیں کاٹتے اور نظر بندیوں کا سامنا کرتے گزار دیے۔ جنوبی ایشیا میں شاید ہی کسی دوسرے سیاست دان نے اتنا طویل عرصہ قید و بند میں گزارا ہو۔ آزادی سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور مولانا حسرت موہانی ان لوگوں میں ممتاز تھے جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ جیلوں میں گزار دیا، لیکن آزادی کے مطالبے سے منہ نہیں موڑا۔ غلامی کی زندگی کو توہینِ زندگی قرار دیتے رہے، اور اس سامراج سے ٹکر لی جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ پسپا ہو سکتا ہے، اپنے غلاموں کو آزاد کر سکتا ہے، اُس کے پنجے توڑے اور دانت کھٹے کیے جا سکتے ہیں، لیکن اُس سے ٹکرانے والے، بغاوت کا اعلان کرنے والے اور آزادی کا نعرہ لگانے والے اپنے جذبوں سے سرشار تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی زنجیریں ٹوٹیں گی، ان کا وطن آزاد ہوگا، اور وہ اپنے اوپر خود حکومت کریں گے۔ برسوں کی جدوجہد کے بعد آزادی کے خواب کو تعبیر ملی، اور برصغیر آزاد ہوگیا، پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو ممالک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے، اور دنیا بھرکے حریت پسندوں کو بیدارکر گئے، ان کو آزادی کا شعور اور آدرش عطا کر گئے۔ غلام ہندوستان کی نوابی ریاستوں کو ان دو مملکتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا، لیکن آزاد ہندوستان کے نئے حکمران ریاست جموں و کشمیر کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوگئے۔ انہوں نے سورج کو اس سرزمین پر طلوع ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
یہ حقیقت بھلا بیٹھے کہ سورج کو قید نہیں کیا جا سکتا، روشنی کو مٹھی میں بند کرکے نہیں رکھا جا سکتا، ان کی نظر سے ان کی اپنی جدوجہد، اپنا تجربہ اوجھل ہوگیا۔ انہوں نے تاریخ سے آنکھیں بند کرلیں، اوراپنے سامراجی عزائم کی پرورش میں مصروف ہوگئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور اُن کے گرو گاندھی جی نے اپنے آپ کو بھلا دیا، اپنے ماضی کو بھلا دیا، اور کشمیرکو غلام بنائے رکھنے کے شوق میں مبتلا ہو گئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پوری دنیا کو گواہ بناکر عہد کیاکہ جونہی حالات معمول پر آئیں گے اہلِ کشمیر کو انتخاب کا حق دے دیا جائے گا۔ عالمی نگرانی میں استصوابِ رائے کا اہتمام ہوگا، اور وہ پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکیں گے، اپنا مقدر اس کے ساتھ وابستہ کرلیں گے، لیکن پھر اپنی زبان آپ ہی کاٹ ڈالی، اپنی بات سے پھر گئے، اور حیلے بہانے شروع کر دیے۔ وہ سمجھے تھے کہ جوں جوں وقت گزرے گا ان کا قبضہ پکا ہوتا جائے گا۔ کشمیریوں کا جذبۂ آزادی سرد پڑ جائے گا۔ نریندر مودی ان سے بھی کہیں آگے بڑھ گئے انہوں نے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرکے اسے نئی دہلی کی تحویل میں دے دیا، لیکن ان کے دانت کھٹے ہی نہیں ہوئے ٹوٹ بھی رہے ہیں، کوئی ایک بھی کشمیری ان کی آواز میں آواز ملانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ آزادی کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی ہے کشمیریوں کے تیور اور بھی تیکھے ہو چکے ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کے باشندے اس صورتِ حال کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ 74 سال سے اُن کی جدوجہد جاری ہے، سید علی گیلانی عہدِ حاضر میں اِس کا سب سے بڑا استعارہ تھے۔ پون صدی پہلے ایک مدرس کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز کرنے والے نوجوان نے کاروانِ آزادی کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑ لیا، اور مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے بالآخر اس کا سرخیل بن گیا۔ سید علی گیلانی اور آزادیٔ کشمیر لازم و ملزوم ہو گئے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور ممکن نہ رہا۔ سید علی گیلانی نے انتخابی سیاست بھی کی، جہاد کرنے والوں کی پیٹھ بھی تھپکی، جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، متحدہ محاذ بنائے، حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی، جماعتی وابستگیوں سے آزاد ہوئے، لیکن تحریک حریت سے نہ کٹے۔ گرفتاریاں، بیماریاں، صعوبتیں، مشقتیں ان کے حوصلوں کو شکست نہ دے سکیں۔ آزادی ان کیلئے پاکستان سے جڑ جانے کا نام تھاکہ پاکستان کا نام اسلام سے جڑا ہوا تھا۔ اسلامی اقدارکے فروغ واستحکام ہی کیلئے اس کے حصول کی تحریک چلائی گئی تھی، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ پاکستان کسی علاقے، نسل، صوبے یا جغرافیائی ٹکڑے کا نام نہیں تھا، پاکستان ایک خواب، ایک آدرش تھا۔ اسلامیانِ برصغیر کی منزل تھا کہ اسے اللہ کا کلمہ بلند کرنا، اور دنیا بھر میں ممتاز ہو جانا تھا۔ سید علی گیلانی 14اگست 1947ء کے ساتھ کھڑے رہے، اس کے ساتھ جڑے رہے، پوری شدت سے وہ نعرہ لگاتے رہے، جو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے لگایا تھا، اور جو برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے لگایا تھا، جس کی پاداش میں وہ آگ اور خون کے کئی دریائوں سے گزرے تھے، اور بالآخر اسے حاصل کرکے دکھایا تھا۔
آج پاکستان کیسا ہے، اس پرکس کی حکومت ہے، وہاں کون کون سے قبضہ گروپ مسلط رہے یا مسلط ہوسکتے ہیں، وہ اپنی منزل سے کتنا دور ہے، راہ سے بھٹک گیا ہے یا سیدھے راستے پر چل رہا ہے۔ اُس کے رہنے والے اپنے بزرگوں کے خوابوں سے کتنا جڑے ہوئے ہیں اور کتنا کٹے۔ سید علی گیلانی کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی، انہیں تو بس یہ یاد تھاکہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، اس کے آئین نے اپنا ناتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے یہ ریاست کلمہ گو ہے، اس کی زبان پر کلمے کا ورد جاری رہتا ہے، لغزشوں، کوتاہیوں اور خامیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ خطاکار، گناہگار کو پارسا بنایا جاسکتا ہے، سیدھا راستہ دکھایا جاسکتا ہے، سو پاکستان سے کشمیر کو جوڑنا ہے، اور اس کے اندر برپا کشمکش میں اپنا حصہ ڈال کر ہوائوں کا رخ بدل دینا ہے۔ سیکولرازم، نیشنلزم اور کمیونزم سے آزاد پاکستان ہی کو جنوبی ایشیا کیا پوری دنیا کی طاقت دینا ہے، مثال بننا ہے، اور وہ کچھ کر دکھانا ہے، جو صدیوں سے نہیں ہو سکا، جس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والے ایک نہیں، ایک ہزار نہیں، بے شمار ہیں، اور قطار اندر قطار ہیں۔ سید علی گیلانی ان عناصر سے برسرپیکار رہنے کیلئے ان کے دانت کھٹے کرنے کیلئے اپنا ناتہ پاکستان سے جوڑے ہوئے تھے، جوڑے رکھنا چاہتے تھے۔ اجتماعی جدوجہد کی ثمرآوری پر یقین رکھتے تھے، سو جب سری نگر میں بیٹھ کر وہ “ہم سب پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” کا ورد کرتے تھے، تو لاکھوں سامعین ان کے ہم آواز ہو جاتے تھے۔ ان کے اس نعرے سے فضائیں آج بھی گونج رہی ہیں۔ اس نعرے نے سید علی گیلانی کو آج کا سب سے بڑا پاکستانی بنا دیا ہے۔
کسی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، پلاٹ، بینک بیلنس یا زرعی زمین کے بغیران کی پاکستانیت اپنے آپ کومنوا چکی ہے۔ وہ 92 سال گزار کر رخصت ہوئے ہیں تو بھارتی سامراج ان کی میت سے خوفزدہ ہوگیا ہے۔ ان کا جسدِ خاکی چھین کر، انہیں چند افراد کی موجودگی میں سپردِ خاک کرکے، ان کے جنازے پر پابندی لگا کر وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے اپنی طاقت منوالی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اُس کا خوف، اُس کے زرد چہرے سے عیاں ہے۔ سید علی گیلانی نے مرکر بھی اسے ڈرا رکھا ہے، اُس کی ٹانگیں لرزرہی ہیں، اُس کا جسم کپکپا رہا ہے، بالآخر اُس کا انجام وہی ہونا ہے، جو ہر قابض کا، اورہر سامراج کا ہوتا چلا آیا ہے، جو برصغیر میں برطانیہ کا، اور افغانستان میں امریکہ کا ہواہے۔ سید علی گیلانی کا جہاد جاری ہے۔ قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم، اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔
ہم پاکستانی ہیں … پاکستان ہمارا ہے”۔ اس پُرجوش ہجوم کے سامنے جب اس عظیم قائد نے یہ عظیم نعرہ بلند کیا تھا تو سب سے پہلے اس نے دو فقروں میں اپنے اور اس نعرے کا جواب دینے والے لاکھوں لوگوں کے دلوں کو ایک شرک سے بھی پاک کیا تھا۔ سیّد علی گیلانی ؒنے اپنے محبوب پاکستان” کے بارے میں فرمایا۔”ہم پاکستان کے حکمرانوں سے بھی، سیاسی قیادت سے بھی اور وہاں کی عوام سے بھی یہ مطالبہ کریں گے کہ پاکستان اسلام کیلئے حاصل کیا گیا ہے اور اس کو اسلام کیلئے ہی استعمال کیا جانا چاہئے۔” (سیّد علی گیلانی ؒکے اس فقرے کے بعد کشمیریوں کے پُرجوش ہجوم میں ایک غلغلہ بلند ہوتا ہے)۔ اس کے بعد کشمیر کی وادیوں میں آزادی کا ضیغم گونجتا ہے۔”وہاں سوشلزم نہیں چلے گا (لوگ نہیں کہتے ہیں تو سیّد کہتا ہے، دونوں ہاتھ بلند کر کے کہو) لوگ پکارتے ہیں “نہیں چلے گا، نہیں چلے گا”۔ سیّدپھر نعرہ زن ہوتا ہے، سیکولر ازم نہیں چلے گا، نیشنل ازم نہیں چلے گا، امریکہ کا آرڈر نہیں چلے گا، صوبائیت اور قومیت نہیں چلے گی، وہاں صرف اور صرف اسلام چلے گا۔” لوگوں نے سیّد کے نعروں کا بھر پور جواب دیا تو اللہ کی ذات پر توکل رکھنے والے اس مردِ درویش نے ہجوم سے کہا، سب بولو “انشاء اللہ” یہ نعرہ تین دفعہ لگوایا۔
یہ ایک نعرہ نہیں سیدالانبیاء ؐ کی سُنت اور اللہ کی ذات پر کامل ایمان کا اعلان تھا۔ اس کے بعد سیّد علی گیلانی ؒنے پاکستان سے اپنے رشتے کی غرض و غایت واضح کی، فرمایا “اور اسلام کی نسبت سے، اسلام کے تعلق سے، اسلام کی محبت سے، ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔”پاکستان سے محبت کا اس قدر پُرجوش نعرہ صرف وہی شخص بلند کر سکتا ہے جس کا دل اللہ کی حاکمیت اور فرمانروائی کے علاوہ قومیت، رنگ، نسل، زبان، علاقہ، سوشلزم، سیکولر ازم، امریکی ورلڈ آرڈر کی جمہوریت اور علاقائی عصبیت کے شرک سے پاک ہو۔ سیّد علی گیلانی ؒنے اس مملکتِ خدادادِ پاکستان کی بنیادیں استوار ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔ کون تھا جو اس وقت یہ جرأت بھی کر سکتا کہ ہم ایک ایسا ملک حاصل کرنے جا رہے ہیں جس میں معاشی ترقی ہو گی، فکری آزادی ہو گی، جمہوری اقدار ہوں گی۔
پاکستان کے آرکائیوز ایسی ہزاروں تقریروں، قراردادوں اور روئیدادوں سے بھرے ہوئے ہیں جو 23 مارچ 1940ء کی قرار داد لاہور سے لے کر 14 اگست 1947ء کی صبح آزادی تک قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے مسلم لیگی لیڈر نے کی تھیں۔ ہر کسی کے ہونٹوں پر صرف اور صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ ہم مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن چاہتے ہیں، جہاں ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کا دین نافذ کرنے میں آزاد و خودمختار ہوں۔ اگر ان مسلم لیگی رہنمائوں میں سے کوئی ایک بھی معاشی مجبوری یا فکری آزادی کا تذکرہ بھی کرتا، تو لوگ اُسے سٹیج سے اُتار دیتے۔ مسلم لیگ کے لیڈر تو اس قدر جذباتی نعرہ بازی کرتے تھے کہ پورے پنجاب میں مسلم لیگ کو “مسلم لیک” کہتے تھے۔”لیک” پنجابی میں “لکیر” کو کہتے ہیں۔ وہ فضاء میں اُنگلی سے ایک لیک یعنی لکیر کھینچتے اور کہتے “یہ مسلم لیگ ایک لکیر ہے، جو اس طرف ہے وہ مسلمان ہے اور جو دوسری طرف ہے وہ کافر۔”
ہم بہتر سال تک یہ سبق بھولے رہے، لیکن کشمیری حریت پسندوں نے یہ سبق یاد بھی رکھا اور ایک لاکھ شہداء کی قربانی سے اس “سرو زبُستانِ اسلام” کی آبیاری کی۔ دُنیا بھر میں آزادی کی تحریکیں اپنے خطے کیلئے چلتی ہیں لیکن کشمیر اس دھرتی کا نام ہے جس نے ایک ایسے خواب کی تکمیل کیلئے سو سال تحریک چلائی جس کا نام “پاکستان” تھا۔ وہ خطہ ان سے الگ تھا مگر وہ اس کے ساتھ اس لئے شامل ہونا چاہتے تھے کیونکہ وہ اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ وہاں اسلام نافذ ہو گا۔ سیّد علی گیلانی ؒکا کمال یہ تھا اس نے زندگی بھر کشمیریوں کا یہ خواب ٹوٹنے نہیں دیا۔ یہ بہت مشکل ذمہ داری تھی۔ وہ پاکستان جس میں بسنے والوں کے خواب خود ٹوٹ چکے ہوں۔ جو نسلی تعصب اور صوبائی منافرت کے طوفان میں اس قدر گھر جائیں کہ ان کی آدھی آبادی کے خواب خلیج بنگال کے گہرے پانیوں کے سپرد ہو جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آبادی جس بنگالی قومیت کا نعرہ لے کر اُٹھی تھی اسی کی نفی کرتے ہوئے انہیں “بنگلہ دیشی” کہہ کر نفرت سے الگ کر دیا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ جس ملک میں انگریز بہادر کی کھینچی ہوئی لکیروں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور یادش بخیر سرحد میں صوبائی عصبیت کے خاردار پودے دھرتی کا سینہ برباد کر چکے ہوں، جہاں سیکولر ازم اور لبرل ازم کا بیج اس پرویز مشرف کی آمریت میں بویا جائے جس نے خود اور جس کی زیر سایہ سپاہ نے “نظریۂ پاکستان” کے تحفظ کی قسم اُٹھائی ہو۔
جس ملک کی سیاسی اشرافیہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر کی اس قدر غلام ہو کہ وہ ایسے ہر قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے جو اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہو۔ ایسے ملک کیلئے محبت کے جذبے کو قائم رکھنا، اس کیلئے نوجوانوں کو شہادتوں کے نذرانے دینے کیلئے آمادہ کرنا اور اپنے شہیدوں کو پاکستان کے پرچم میں دفن کرنے کی روایت کو برقرار رکھنا، یہ حوصلہ، یہ عزم اور یہ استقلال صرف سیّد علی گیلانی ؒکا خاصہ تھا، جو مرتے دَم تک قائم رہا۔ وہ کبھی پاکستان سے مایوس نہیں ہوئے اور نہ کبھی کشمیریوں کی لازوال جدوجہد سے دلبرداشتہ۔ عظیم قائدین کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ اگر ان کی نظروں میں منزل کا تعین ہو تو پھر وہ راستے کی کٹھنائیوں اور لوگوں کے طعنوں سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا راستہ کھوٹا نہیں کرتے۔ جبکہ سیّد علی گیلانی ؒکی منزل تو انبیاء کا مشن تھا، اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات کا نفاذ۔ ایسا تو انسانی تاریخمیں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ دُنیا بھر کی تمام اقوام نے اس فیصلے کو بے دلی سے ہی سہی، قبول کرلیا تھا کہ ڈھائی ارب انسانوں کی دُنیا میں پانچ کروڑ مسلمانوں کو تقریباً دس لاکھ تیس ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ اس لئے دیا جائے کہ وہاں صرف اور صرف مسلمان آباد ہوں گے اور پھر جہاں مسلمان آزاد و خودمختار ہوں، وہاں اللہ ان پر ایک اہم ذمہ داری عائد کرتا ہے، “اگر ہم زمین میں ان کے پائوں جما دیں تو یہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں ” (الحج: 41)۔
اللہ نے ہمارے پائوں پاکستان کی زمین پر جما دیئے، لیکن ہم نے اللہ کے کسی ایک حکم کو بھی اس زمین پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کی۔ پھر ہم سے ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود ہمارے حالات بدلے نہ خیالات۔ مگر ہماری منافقتوں کے باوجود کشمیری اس سرزمین کی محبت میں جان دیتے رہے۔ سیَد علی گیلانی ؒ نعرہ زن رہے مگر زندگی کے آخری ایام میں اس بیمار قائد کی نظروں کے سامنے میرے اللہ نے یقین کا ایک اور دروازہ کھول دیا تھا، ایمان کی پختگی کا ایک اور راستہ وا کر دیا تھا۔ تاریخ نے بہت بڑی گواہی دی کہ روس کے خلاف افغانوں نے جنگ پاکستان کی مدد سے جیتی تھی، لیکن امریکہ کے خلاف فتح مبین میں وہی پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی تھا۔ اللہ نے اس جنگ کو تھوڑے سے بھروسے اور تھوڑے سے شرک سے بھی پاک کر دیا۔ پاک ہے وہ ذات توکل کو ہر شرک سے پاک کر دیتا ہے۔ سید علی گیلانی ؒکا پاکستان وہ کعبہ ہے جس میں نسل، رنگ، صوبائیت، سیکولر، لبرل ازم کے لا تعداد بُت سجے ہوئے ہیں۔ یہ بُت اس کعبہ کے مکین خود صاف کر لیں تو بہتر ہے ورنہ اللہ کی طرف سے بدترین عذاب ان کی راہ دیکھ رہا ہے جبکہ ذلّت و رسوائی کا ایک عذاب تو ہم پر پہلے سے مسلّط ہے۔
اللہ نے دُنیا میں ذلّت و رُسوائی کا ایک کلیہ بتایا ہے، “تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے سے انکار کرتے ہو، تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے ان کی سزا اور کیا ہے کہ دُنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں ” (البقرہ: 95)۔ اللہ کھلی نافرمانی والوں کو ڈھیل دیتا ہے اور روزِ حشر ان سے معاملہ کرے گا لیکن وہ قومیں جو اسے اپنا الٰہ یعنی حاکم مانیں مگر اس حاکم کی نہ مانیں تو انہیں دُنیا میں ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔ کیا ہم ذلیل و خوار نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کی وفات اور میڈیا کا کردار

سید علی گیلانی کی رحلت پر بین الاقوامی میڈیا نے جزوی طور پر انہیں " علیحدگی پسند" اور" سخت گیر " رہنما کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا۔ سوال یہ ہے کیا صحافتی اخلاقیات کے تحت یہ ایک درست حرکت ہے؟ کیا ان اصطلاحات کا استعمال بین الاقوامی میڈیا کے معیار ِ صحافت پر سوال نہیں اٹھا رہا۔

سید علی گیلانی Seperatist یعنی علحدگی پسند کیسے ہو گئے؟ وہ تو آزادی پسند تھے۔ انہیں مگر حریت پسند نہیں لکھا جا رہا علیحدگی پسند لکھا جا رہا ہے۔ کیا کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے کہ سید علی گیلانی اس سے علحدہ ہونا چاہتے تھے؟ علحدگی کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ابھی تو کشمیر نے شمولیت کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ ہو چکا ہوتا اور اس کے بعد علی گیلانی آواز بلند کرتے تو انہیں علحدگی پسند کہا جا سکتا تھا۔ علی گیلانی تو اقوام متحدہ کے دیے گئے حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کرتے رہے۔ علحدگی کا سوال تو وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں کوئی بندھن قائم ہو چکا ہو۔ جہاں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ ابھی ہونا ہو وہاں علحدگی پسند کی اصطلاح کیسے استعمال کی جا رہی ہے؟
بھارت کی کسی اور ریاست یا صوبے کا کوئی رہنما ہو جو بھارت سے الگ ہونا چاہے تو اس کے لیے علحدگی پسند کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کہ وہ ایک طے شدہ اور معینہ بھارتی حدود سے الگ ہونا چاہتا ہو گا۔ لیکن اقوام متحدہ کے ضوابط اور بین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ کشمیر نے اپنے مستقبل کا فیصلہ ابھی کرنا ہے۔ سلامتی کونسل اپنی 30مارچ 1951 اور پھر نومبر 1956 کی قراردادوں میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ مقامی سطح پر کیا گیا کوئی بندوبست حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ جو مسئلہ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہو اور جس میں حق خود ارادیت جیسے آفاقی اصول کی بات ہو اور جس کے بارے میں سلامتی کونسل طے کر چکی ہو کہ اسے یکطرفہ طور پر سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکتا اور جس معاملے کا اقوام متحدہ میں عنوان ہی بھارت پاکستان تنازعہ کا ہو اس مسئلے کو بھارتی آئین میں ترمیم کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مسئلہ اقوام متحدہ کے طے شدہ طریق کار کے مطابق ہی حل ہونا ہے۔
سید علی گیلانی غلامی کے خلاف مزاحمت کا استعارہ تھے۔ وہ آزادی کے دیے کی لو تھے۔ ایک لمحے کو بھی وہ یہ راستہ چھوڑنے پر مائل ہو جاتے تو بھارت اقتدار کا سارا جاہ و جلال پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ وہ مگر اور ہی دنیا کے آدمی تھے۔ مبالغہ نہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت روئے زمین پر کوئی ایسا انسان موجود نہیں جو اس میدان میں سید علی گیلانی کا ہم پلہ ہو۔ آزادی کے خواب کو سینچنے کے لیے زندگی کے تیس سال قید میں گزار دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہ کوہ کنی ہے جس کے تصور ہی سے زہرہ آب ہو جاتا ہے۔ انسان کی آزادی اور حق خود ارادیت کے تصور کو اس بوڑھے نے اپنے عزم سے امر کر دیا تھا۔ حریت پسندی اگر انسانی شکل میں ظہور کرے تو اس کا نام علی گیلانی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حریت پسند کی اصطلاح استعمال نہیں ہو گی تو پھر کس کے لیے ہو گی؟
مشرقی تیمور میں مسئلہ پیدا ہو تو وہاں فورا حق خود ارادیت کے لیے اقوام متحدہ پہنچ جاتی ہے لیکن کشمیر کا مسئلہ ہو تو بین الاقوامی اخبارات و جرائد یہ بھی نہیں لکھتے کہ ساری زندگی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنے والے حریت پسند سید علی گیلانی انتقال کر گئے۔ بلکہ یہ لکھتے ہیں کہ علیحدگی پسند سید علی گیلانی کا انتقال ہو گا۔ سوال وہی ہے: کیا صحافتی اخلاقیات میں یہ ایک مستحسن عمل ہے؟
یہی معاملہ ” سخت گیر ُ” کی اصطلاح کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا صحافتی پیمانہ ہے جس پر علی گیلانی سخت گیر ٹھہرے۔ زندگی کے تین عشرے جیلوں اور نظر بندی کی صورت حراست میں گزارنے والے اس شخص کا موقف کیا تھا؟ یہی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ یہی کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کے تحت سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل کرنا سب پر لازم ہے اور اس موقف کی تصدیق خود اقوام متحدہ کی Collective Measures Committee کر چکی ہے۔
علی گیلانی کا مطالبہ کیا تھا؟ یہی کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور بھارت غاصبانہ قبضہ ختم کرے۔ سید علی گیلانی کا نعرہ کیا تھا؟ یہی کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔ خود کے لیے پاکستانی کی شناخت کا تعین کرنا علی گیلانی کا وہ حق تھا جو انہیں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ نے دے رکھا تھا۔
علی گیلانی بھارتی وزرائے اعظم کو بار بار وہ وعدے یاد دلاتے رہے جو نہرو نے پاکستان سے کیے تھے، کشمیریوں سے کیے تھے اور خود اقوام متحدہ سے کیے تھے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے ہو گا۔ لیاقت علی خان کو لکھے گئے خط میں نہرو نے وعدہ کیا تھا: بہت جلد بھارت کشمیر سے فوج نکال لے گا اور کشمیر کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے اور وعدہ صرف حکومت پاکستان سے نہیں، یہ وعدہ کشمیریوں سے بھی ہے اور ساری دنیا سے بھی۔ سید علی گیلانی اسی وعدے کی تکمیل کا مطالبہ کرتے رہے۔ کیا کسی کو اس کا وعدہ یاد دلاتے رہنا ایک” سخت گیر” رویہ ہے۔ ایک آدمی یہ مطالبہ ہتھیلی پر رکھ کر زندگی کے تیس سال قید میں گزار دیتا ہے کہ اس کی قوم کو وہ حق دیا جائے جو اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل لاء نے اسے دے رکھا ہے۔ اس آدمی کو یہ بین الاقوامی میڈیا “سخت گیر” لکھ رہا ہے۔
اصطلاحات کا یہ کھیل بڑا ذو معنی ہے۔ نیلسن منڈیلا کے لیے تو یہ میڈیا انقلابی رہنما کی اصطلاح استعمال کرتا ہے(اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت بڑے انقلابی تھے) لیکن علی گیلانی جیسے عظیم انسان کے لیے ” سخت گیر” اور ” علحدگی پسند” کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ عزیمت، جرات اور کردار اگر معیار ہے تو اس وقت علی گیلانی کا کوئی ہم سر نہیں۔ قریب 70 سال جس شخص نے پہاڑوں جیسی استقامت سے جدو جہد میں گزار دیے اور کامل تیس سال جو قید میں پڑا رہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے سوا کوئی حل قبول نہیں، یہ کردار کے اس ہمالہ کو ” سخت گیر” کہ رہے ہیں۔
حق خود ارادیت کے لیے جنرل اسمبلی کی قراردادوں (قرارداد نمبر 3314 اور قرارداد نمبر 37/43)کے تحت مسلمان اگر مزاحمت پر اتر آئے تو دہشت گرد کہلائے اور ذلت قبول نہ کرے اور سیاسی جدو جہد کرے تو سخت گیر ٹھہرے۔ اسے آزادی پسند نہیں لکھاجاتا بلکہ علیحدگی پسند لکھا جاتا ہے۔ کیا صحافت ہے، کیا معیار ہے اور کیا معروضیت ہے۔ آفرین ہے صاحب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرنے کے بعد بھی دشمنوں
کےلئے خوف کی علامت

ٹیپو سلطان ایک عہد ساز حکمران اور عزم و استقلال کے پیکر تھے۔ ان کی تلوار کی گرج چمک سے تختِ بر طانیہ پر بھی ہمیشہ لرزہ طاری رہا۔ وہ اپنوں کی غداری سے دشمن کے محاصرے میں آگئے مگر مردانہ وار لڑتے ہوئے دادِ شجاعت دی اور بالآخر جامِ شہادت نوش کیا۔ سلطان ٹیپو کے دشمنوں میں سے بھی کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ سلطان شہید ہو چکے ہیں۔ ان کی شہاد ت کے بعد بھی ان کا رعب و دبدبہ قائم رہا۔ فرنگی فوج ان کے جسدِ خاکی کو چھونے کی ہمت نہیں کر سکی۔ سلطان کی دونوں آنکھیں کھلی تھیں اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی ہو ئی تھی۔ جنرل ولزلی نے ان کے جسم کو ہلکا سا چھوا اور سمٹ کر دور کھڑا ہو گیا۔ جب سلطان کی شہادت کی خبر جنرل ہارس کو دی گئی تو اس پر بھی کافی دیر تک ڈر و خوف کی کیفیت چھائی رہی۔ سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے نعرہ لگایا "آج ہندوستان ہمارا ہے"۔ سلطان کے حوالے سے مورخین کا کہنا ہے کہ ان جیسا بہادر، نڈر و جری حکمران برصغیر کی تاریخ نے نہیں دیکھا۔ بلاشبہ یہ ٹیپو سلطان کے لہو کی برکت ہی ہے کہ ان کے بعد برطانوی و بعدازاں برہمنی سامراج کی جارحیت کے خلاف جہاد کا سلسلہ آب و تاب سے جاری و ساری رہااور سلطان کے متوالوں و جاں نثاروں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا، جو اسلام کی سربلندی کیلئے سلطان ٹیپو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جھکے نہیں، بکے نہیں بلکہ وقت کے طاغوت کے سامنے علمِ جہاد اٹھائے رکھا۔ ٹیپو سلطان کی المناک شہادت کے اثرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فرنگیوں کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع ملا اور انہوں نے مسلمانانِ برصغیر کے خلاف ہندو بنیے کے ساتھ ساز باز کر کے سازشوں کا بازار گرم رکھا۔ اس ملی بھگت کی بدترین مثال کشمیر کا سودا ہے۔ آج 2021ء میں مقبوضہ کشمیر کے ٹیپو سلطان، 92سالہ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو دیکھ کر بھی نریندر مودی اور اس کی فوج پر ہیبت کا عالم چھایا رہا، وہ ان کے مردہ جسم کی قوت سے بھی ڈرتے رہے۔ اسی لئے فوجی سنگینوں کے سائے میں رات کے اندھیرے میں انہیں مقامی قبرستان میں دفنا دیا گیا، حالانکہ ان کی وصیت تھی کہ انہیں شہدا کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔

سید علی گیلانی کشمیر کی تحریک آزادی کا درخشاں ستار ہ تھے جنہوں نے کشمیر اور پاکستان کے اٹوٹ رشتے کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا اور 92 برس کی عمر میں بھا رتی قبضے سے کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب سجائے وہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ پاکستان سے اپنی نسبت جوڑنے والے سید علی گیلانی پاکستانی پرچم میں مدفون ہوئے۔ بلاشبہ حریت رہنما شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے کیونکہ بھارت کی فاشسٹ حکومت نے انہیں مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے جبری طور پر نظر بند کر رکھا تھا اور جان بوجھ کر انہیں علاج و معالجے کی سہولتوں سے محروم رکھا گیا تھا۔ بھارتی حکومت اس مردِ حر سے اس قدر خوفزدہ رہتی تھی کہ انہیں کینسر کے علاج کیلئے بیرونِ ملک جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ جدوجہدِ آزادیٔ کشمیرکے سرخیل سید علی گیلانی کی وفات سے آزادیٔ جموں و کشمیر کا تاریخ ساز عہد تمام ہوا اور وہ مردِ آہن “ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے” کا نعرہ لگاتے لگاتے دنیا سے رخصت ہو گیا۔
سید علی گیلانی کی رحلت نہ صرف کشمیری بلکہ پاکستانی عوام کیلئے بھی ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کے انتقال سے اگرچہ ایک نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہو گیا ہے لیکن تحریک آزادیٔ کشمیر کو اس سانحہ ارتحال سے ایک نئی روح ملے گی۔ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضے کے خلاف اٹھنے والی سب سے دبنگ آوازاور حق خود ارادیت کے عظیم علمبردار تھے۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی سڑکیں سیل کر دیں، موبائیل اور انٹرنیٹ پر فوری پابندی لگا دی گئی اور پورے علاقے میں کر فیو نافذ کر دیاگیا۔ لوگوں کی نقل وحرکت روکنے کے لیے جابجا بندشیں عائد کی گئیں جو حقوق انسانی کی سنگین اور بدترین خلاف ورزی ہے۔ بزدل بھارتی فوج نے ان کی میت کو زبردستی قبضے میں لے لیا اورجنازے کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسلامی شعائر کی تضحیک کی۔ ان کے جنازے پر فوجی پہرہ لگا کر ان سے محبت کرنے والوں کو ان کی تدفین اور آخری رسومات کی ادائیگی میں شرکت کو ہی ناممکن بنا دیاکیونکہ بھارتی حکومت کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر نمازِ جنازہ کا اعلان ہوا تو سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں فرزندانِ تو حید اس شمعِ آزادی کے آخری سفر میں شرکت کرنے کے لیے امڈآئیں گے۔ کشمیر کے شیر کو رات کے اندھرے میں دفنا کر مودی سرکار سمجھتی ہے کہ شاید تحریک آزادی دم توڑ گئی ہے، ہر گز نہیں! اس میں مزید شدت آگئی ہے اور سب پر عیاں ہو گیا ہے کہ بھارت کے نزدیک مقبوضہ وادی کے باسیوں کے کیا حقوق ہیں، ان شاء اللہ اب کشمیر کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کی وہ طاقتور آواز تھی جسے غداری کے مقدمات، جیل کی سلاخیں اور قید و بند کی صعو بتیں بھی خاموش نہ کروا سکیں۔ ان پر ہر ظلم ڈھایا گیا، ان کو چپ کرانے کیلئے ہر حربہ آزمایا گیا مگر وہ آخری سانس تک اپنے نظریے پر استقامت سے ڈٹے رہے۔ یہ نظریہ ان کے مرنے کے بعد بھی زندۂ جاوید ہے۔ یقینا انسان فانی ہے، اس نے ایک نہ ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہوتا ہے لیکن اس کے نظریات قائم رہتے ہیں جو اس کے بعد اس کے متوالوں، جاں نثاروں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں اور اسی ڈاکٹرائن پر جدو جہد کا سفر جاری رہتا ہے۔
ٹیپو سلطان سے فرنگی فوج لرزتی تھی تو اس نحیف دکھائی دینے والی شخصیت سے بھارتی فوج کانپتی تھی۔ ٹیپو سلطان کی زندگی کا مقصد تھا انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی اور سید علی گیلانی آخری دم تک مقبوضہ کشمیر کو برہمن کے پنجۂ استبداد سے نجات دلانے کیلئے لڑتے رہے۔ ان کا ایک ہی مشن تھا “مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور اس کا پاکستان سے الحاق”۔ اَن گنت مقدمات، زندان کی اذیتیں بھی ان کو اس نظریے سے نہ ہٹا سکیں بلکہ غاصب بھارت کے ظلم و ستم کے سامنے وہ عزم و ہمت کا کوہِ ایستادہ ثابت ہوئے، وہ آزادی کی بے پایاں تحریک کا استعارہ اور کشمیریوں کے اتحاد کی علامت تھے، جن سے بھارتی حکمران اور ان کے کٹھ پتلی لیڈران اتنے خوفزدہ تھے کہ انہیں قیدوبند میں رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے؛ چنانچہ سیدعلی گیلانی نے زندگی کے 20 سے زیادہ سال بھارتی قیدوبند کی صعوبتوں میں گزارے۔ ایک بار سعودی عرب جانے کیلئے نیا پاسپورٹ بنونے کی ضرورت پڑی وہ اس لئے نہ بن سکا کہ شہریت کے خانے میں انہیں بھارتی شہری لکھنا گورار نہیں تھا۔ وہ صرف اور صرف کشمیری تھے اور تمام عمر کشمیر کیلئے جیئے۔ دو سال قبل، 5 اگست 2019ء کو جب بھارت کی فاشسٹ مودی سرکار نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا یکطرفہ اقدام کیا تو سید علی گیلانی نے اپنی نظربندی کے دوران ہی عالمی برادری بشمول نمائندگانِ عالمی اداروں، عالمی قیادتوں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی قیادت کو بھی اپنے کھلے مراسلے کے ذریعے جھنجوڑا اور کہا کہ وہ اپنی زندگی میں ہی کشمیر کی آزادی کے خواب کی تعبیردیکھنا چاہتے ہیں۔ قدرت نے انہیں اس کی مہلت نہ دی۔ بزرگ لیڈر نے رودادِ قفس، نوائے حریت، دید و شنید، بھارت کے استعماری حربے، صدائے درد سمیت متعدد تصانیف و تحریروں کے ذریعے بھارتی سفا کیت و بربریت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ مرحوم کی آخری رسومات پر قدغن لگا کر بھارت نے یہ ثابت کیا کہ وہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے اس عظیم لیڈر سے بعد از وفات بھی خوفزدہ ہے۔ بھارتی بوکھلاہٹ مرحوم کی صلاحیت اور کردار کی تصدیق کیلئے کافی ہے، مگر بھارت پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ کشمیر ی قائدین کے جنازے روکنے، کرفیو نافذ کرنے اور جبر کے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود جدو جہدِ آزادی میں مزید شدت آئے گی۔
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
…………………….

قفس اور روداد قفس

سید علی گیلانی کی خودنوشت کا نام"روداد قفس" ہے۔ اگر کوئی اور ان کی سوانح عمری لکھتا تو نام روداد عزیمت" رکھتا اور یہ دونوں ہی درست نام ہیں۔ ان کی تمام عمر قفس میں گزری اور انہوں نے سارے سفر اور سہولت کو ایک طرف رکھ کر عزیمت کے خارزار راستے کا چنائو کیا۔ بطور قائد بھی وہ عظیم تھے اور بطور فرد بھی اللہ کے ولی۔ موت ان کے قریب ترین پہنچ گئی تھی لیکن انہوں نے عزیمت اور استقامت کا راستہ نہیں چھوڑا۔ حالانکہ پوری گنجائش موجود تھی کہ وہ آخری چند دن سکون اور آرام سے گزار لیتے۔ جہاد کشمیر کا نام ان کے ساتھ کہ ان کا نام جہاد کشمیر کے ساتھ جڑ گیا تھا۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کو انہوں نے جوانی میں مرشد مان لیا تھا اور آخری سانس تک وہ اسی راہِ راشد پر چلتے رہے۔ کشمیری عوام اور بالخصوص جوانوں میں جوان کی مقبولیت تھی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آ سکی۔ اقبال نے فرمایا تھا، جوانوں کو پیروں کا استاد کر لیکن، کشمیری نوجوانوں نے ہمیشہ اسی پیر مرد کو اپنا استاد، اپنا رہبر مانا۔

1953ء سے جماعت اسلامی کے ساتھ تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں کشمیر بزور شمشیر کی پالیسی نافذ ہوئی تو جماعت اسلامی نے خود کو ان سے الگ کر لیا لیکن علی گیلانی نے خود کو جماعت سے اور جماعت کو خود سے الگ ہونے نہیں دیا۔ جماعت اسلامی(ہند، مقبوضہ کشمیر) کی سوچ یہ تھی کہ جہاد کا یہ راستہ کشمیری مسلمانوں کو بالخصوص اور بھارتی مسلمانوں کو بالعموم نقصان پہنچائے گا اور جنونی ہندوئوں کے غول ان کا جینا حرام کر دیں گے۔ علی گیلانی کا موقف تھا، نتیجہ جو بھی نکلے، کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔ یعنی علی گیلانی اور جماعت اسلامی (ہند، کشمیر) کے درمیان سیاسی حکمت عملی کا فرق تھا، نظریے کا نہیں اور یہ فرق ہندوستان اور کشمیر کے مسلمانوں میں ہر جگہ نظر آئے گا۔ بھارتی مسلمانوں کا ایک دھڑا افغانستان میں طالبان کی فتح پر مسرور ہے اور اپنی خوشی چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہا تو ایک اتنا ہی بڑا دھڑا طالبان کی فتح سے خائف ہے اور اپنا خوف ظاہر بھی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، طالبان کی فتح سے مشتعل ہندو اپنا غصہ بھارتی مسلمانوں پر اتاریں گے اور جو مسلمان اپنی خوشی ظاہر کرے گا، وہ ان جنونیوں کا غصہ اور بڑھائے گا۔ علی گیلانی 2019ء کے اواخر سے قدرے خاموش تھے۔
2019ء میں کیا ہوا تھا، بتانے کی ضرورت نہیں۔ حیرت کی بلکہ صدمے کی بات ہے کہ جن لوگوں نے 2019ء میں کشمیر کی حوالگی کا کارنامہ سرانجام دیا، علی گیلانی کی وفات پر وہ بھی اپنے سوگ کا بڑھ چڑھ کر اظہار کر رہے ہیں، پرچم سرنگوں کئے، علامتی جنازوں میں شرکت کی، تعزیتی پیغامات جاری کئے۔ اسے اللہ کی شان کہیے۔ ان کے غائبانہ سرکاری جنازے میں باقی سب سرکاریں تو آئیں، ایک سرکار نہیں آئی۔ کیوں؟ سرکار ہی جانے!ایک قدسی صفت روح اپنے مولا کی طرف پرواز کر گئی، اقبال ہوتے تو کیا تعزیتی الفاظ لکھتے؟ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی سے آگے بڑھ کر ہی کچھ کہتے کہ علی گیلانی چنگاری نہیں تھے، شعلہ بھی نہیں تھے، وہ تو الائو تھے، الائو۔
…………….

سید علی گیلانی کے ساتھی
علی شاہ گیلانی کےسیاسی و تحریکی جانشین۔مسرت عالم

مقبوضہ کشمیر کے مقبول مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی کی موت کے بعد محبوس رہنما مسرت عالم کو آل پارٹیز حُریت کانفرنس کے گیلانی دھڑے یا حُریت (گ) کا سربرا مقرر کیا گیا۔50 برس کے مسرت عالم بٹ اپنے 30 برس کے عسکری اور سیاسی سفر کا دو تہائی حصہ جیلوں میں کاٹ چکے ہیں۔ وہ کمسِنی میں ہی ایک مسلح کمانڈر کے طور متعارف ہوچکے تھے۔
سنہ 1990 میں لائین آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کر کے وہ پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں مسلح تربیت کے بعد انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر لوٹے تو چند ماہ بعد ہی گرفتار ہوئے تاہم گیارہ ماہ کی قید کے بعد جب رہا ہوئے تو دوبارہ عسکری صفوں میں شامل ہوگئے۔ دو سال بعد پھر سے گرفتار کیے گئے اور پانچ سال تک قید میں رہے۔
سنہ 1997 میں جب وہ دوبارہ رہا ہوئے تو اس بار انھوں نے طے کرلیا تھا کہ وہ غیرمسلح مزاحمتی سیاست کرینگے۔ انہوں نے ‘مُسلم لیگ’ کے نام سے اپنی جماعت قائم کی اور اس کے چیئرمین بن گئے۔مسلم لیگ کے قیام کے صرف ایک سال بعد کشمیر میں ہندو ادارہ امرناتھ شرائن بورڑ کو 800 کنال سرکاری زمین غیرقانونی طور الاٹ کی گئی تو مسرت نے نوجوانوں کو متحرک کرکے ہندمخالف احتجاجی تحریک چلائی جو کئی ماہ تک جاری رہی اور غلام نبی آزاد کی حکومت کے خاتمہ پر منتج ہوئی۔
ان چند برسوں کے دوران مسرت عالم کشمیر میں ہندمخالف سیاسی مزاحمت کا چہرہ بن گئے۔ مسرت عالم کو آخری مرتبہ اپریل سنہ 2015 میں گرفتار کیا گیا اور تب سے وہ بدستور قید میں ہیں۔
کبھی اُن پر یہ الزام عائد تھا کہ انھوں نے حریت کانفرنس کے اعتدال پسند لیڈروں اور حکومت ہند کے درمیان خفیہ مذاکرات کے دوران لوگوں کو مشتعل کیا اور حریت کو تقسیم کردیا اور کبھی یہ الزام عائد ہوا کہ انھوں نے الگ الگ نظریات کے علیحدگی پسند رہنماؤں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کر کے حریت کو متحد کیا۔تاہم ہر بار ان پر الزام تھا کہ انھوں نے انڈیا کے قومی مفاد کے خلاف کام کیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مسرت عالم کے خلاف 44 مقدمے درج ہوئے جن میں سے 36 سخت ترین پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت ہیں۔ان میں سے اکثر مقدمات سے انھیں عدالت نے بری کیا، تاہم پی ایس اے کا قانون پولیس کو اختیار دیتا ہے کہ عدالتی طور بری ہونے کے بعد بھی اُسی ملزم کو دوبارہ حراست میں لے سکتی ہے۔
مسرت عالم سرینگر میں لال چوک کے قریب زین دار محلے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی بیوی اور معذور بہن آج بھی دو کمروں کے اُسی مکان میں رہتے ہیں جس میں خود مسرت نے پرورش پائی ہے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم عیسائی مشنری ادارہ ٹینڈیل بِسکو میں حاصل کی اور بعد میں سرکاری کالج سے گریجویشن کی ڈگری لی۔ گزشتہ ہفتے انتقال کرنے والے حریت رہنما سید علی گیلانی نوجوانوں میں بے حد مقبول تھے، لیکن علیحدگی پسند کارکنوں میں سے مسرت عالم گیلانی کے بہت زیادہ قریب تھے۔
مسرت نے سنہ 2000 کے وسط میں اُس وقت کے پاکستانی حکمران پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے کی شدید مخالفت کی اور مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی حمایت کرنے والوں کو ‘منحرف’ بھی قرار دیا۔وہ گیلانی کی طرح ہی مسئلہِ کشمیر پر کسی بھی طرح کی لچک کے خلاف ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ مسرت کو اُن کے سخت گیر موٴقف کی وجہ سے ہی گیلانی کا جانشین مقرر کیا گیا ہے۔
کشمیر کے سبھی سیاسی حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ سید علی گیلانی کی موت نے کشمیر کی مزاحمتی سیاست میں ایک بڑا خلا پیدا کیا ہے۔ تاہم عوامی حلقے اور مبصرین اس بات پر الگ الگ نکتہ نگاہ رکھتے ہیں کہ آیا مسرت عالم بٹ واقعی ‘گیلانی ثانی’ ثابت ہوں گے۔مبصرین کے ایک طبقے کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت نے ایک طویل عمل کے ذریعہ کشمیر کے سیاسی منظرنامے سے پاکستان نواز حریت کانفرنس کو ہٹا دیا ہے۔ نئی دلی ایک یونیورسٹی میں تحقیق کر رہے ایک کشمیری سکالر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا: ‘سنہ 2014 میں جب نریندر مودی نے بھارت کی حکومت سنبھالی تو نئی دلی نے حریت کانفرنس کی بساط لپیٹنے کی شروعات کی۔ پہلے ہی جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور پھر سنہ 2019 میں خودمختاری کا خاتمہ کر کے ہندنواز سیاست کا نیم علحیدگی پسندانہ موقف بھی ختم کردیا گیا۔ اب نہ گیلانی صاحب ہیں نہ صحرائی صاحب اور نہ مزاحمتی سیاست کے لیے میدان ہی ہے۔ ایسے میں مجھے نہیں لگتا کہ مسرت عالم سید علی شاہ گیلانی کی کمی کو پورا کریں گے۔’

تاہم قانون کے پروفیسرڈاکٹر شیخ شوکت حُسین کہتے ہیں کہ ‘مسرت عالم کو گیلانی گروپ کا سربراہ وقت کی ضرورت کے پیش نظر بنایا گیا ہے، کیونکہ گیلانی غیرلچک دار موٴقف رکھتے تھے اور مسرت عالم بھی وہی شبیہہ رکھتے ہیں۔’
ڈاکٹر شوکت اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتے کہ مودی حکومت کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے علیحدگی پسند سیاست اب کشمیر کے حالات سے متعلق نہیں رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر وہ لوگ ریلیونٹ نہیں ہیں تو جیل میں کیوں ہیں۔ اُن کا جیل میں ہونا ہی اس بات کی علامت ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے ایسے کردار ہیں جن کا جیل سے باہر ہونا سیاست کو متاثر کرسکتا ہے۔’
ان دونوں نکتہ ہائے نظر کے باوجود بعض حلقے کہتے ہیں کہ مسرت کو حریت کا چئیرمین منتخب کرنے کا مطلب ہے کہ اب اُن کی رہائی کے سبھی امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔ کشمیر یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا کہنا ہے: ‘حریت کا چئیرمین بننا ایک بات ہے، اور زمین پر مزاحمتی سیاست کرنا دوسری بات۔ خود مسرت بھی قید میں ہیں اور حریت کے درجنوں دوسرے رہنما اور کارکن بھی۔ کشمیر میں جو کارکن گرفتار نہیں ہوئے وہ خاموش ہوگئے ہیں، وہ انتظار کر رہے ہیں اور اُمید کررہے ہیں کہ نئی دلی میں کوئی نئی حکومت بن جائے تو کشمیر میں مزاحمتی سیاست کو سپیس (ایک موقع) مل جائے۔ لیکن یہ سب بہت دُور کی بات ہے۔’
بعض حلقے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا جیل سے ایک جونئیر کارکن کا انتخاب کرنا حریت کی زمینی ساکھ کے خاتمے کا عندیہ ہوسکتا ہے؟ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ کم و بیش سبھی سینیئر حریت رہنما جیلوں میں ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ گیلانی حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ تھے اور نئے رہنما کا انتخاب اُن ہی لوگوں میں سے کرنا تھا جو گیلانی گروپ میں شامل تھے۔
چونکہ دیگر بزرگ کشمیری رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ ، سید آغا حسن بڈگامی اور مولانا عباس انصاری میر واعظ عمرفاروق کی سربراہی والی حریت کانفرنس کے ساتھ وابستہ ہیں لہذا ان کا انتخاب تکنیکی طور پر ناممکن تھا۔ لیکن عمر میں مسرت سے بڑے اور سینیئر علیحدگی پسند رہنما شبیر احمد شاہ گرفتاری سے قبل باقاعدہ طور پر گیلانی گروپ میں شامل ہوچکے تھے۔شبیر احمد شاہ کا مزاحمتی سفر کم و بیش ساٹھ برسوں پر محیط ہے اور انھیں مسلسل قید و بند کے لیے عالمی ادارہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ‘ضمیر کے قیدی’ کے خطاب سے بھی نوازا ہے۔ اس کے باوجود شبیر شاہ کو مسرت کا نائب مقرر کیا گیا ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں پروفیسر شیخ شوکت حُسین کہتے ہیں: ‘گیلانی غیرلچکدار موقّف کے لئے نوجوانوں میں مقبول تھے اور مسرت نے اس ورثے کو اپنا سیاسی تعارف بنایا ہے۔’
پروفیسر کے مطابق، ‘شبیر شاہ ایک نہایت سینیئر لیڈر ہیں لیکن وہ ایک زمانے میں مذاکراتی سیاست کی وکالت کرتے رہے ہیں اور نئی دلی کے ساتھ بھی سفارتی مذاکرات میں شامل رہے ہیں۔ ظاہر ہے معاملہ گیلانی کے جانشین کا تھا تو اس میں مسرت واحد دستیاب چوائیس تھے۔’
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار ہارون قریشی کا کہنا ہے کہ جیل میں قید کسی رہنما کو تحریک کی کمان سونپنے کا مطلب ہے کہ مزاحمتی سیاست کا دائرہ تنگ کر دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘لیڈر کا کام ہوتا ہے اپنی بصیرت لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا۔ مسرت صاحب جواں سال اور شعلہ بیان لیڈر ہیں لیکن وہ عرصے سے قید ہیں، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ موجودہ حالات کو آج کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہ سب ایسے وقت ہوا ہے جب حریت پر پابندی عائد ہونے کی افواہیں گرم ہیں۔’
ہارون قریشی مزید کہتے ہیں کہ ‘ایسے میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ محض ایک اعلان سے گیلانی صاحب کی موت سے پیدا ہونے والا خلاٴ پورا ہو جائے گا۔’
ہارون کہتے ہیں کہ موجودہ حالات ماضی سے بہت مختلف ہیں۔ ‘اب تو ہندنوازوں کو بھی قدغنوں کا سامنا ہے۔ کل ہی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے صرف اتنا کہا کہ گیلانی صاحب کے جنازے میں عوامی شرکت کی اجازت نہ دینا غیرجمہوری ہے اور آج انھیں گھر پر نظر بند کردیا گیا۔ ایسے میں علیحدگی پسند سیاست اور وہ بھی گیلانی برانڈ کی سیاست کیسے ممکن ہے؟’
تاہم بعض دیگر مبصرین کہتے ہیں کہ کابل میں انتقالِ اقتدار اور بھارت کی بڑھتی مشکلوں کے پس منظر میں اگر مستقبل قریب میں بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر مجبور ہوگیا تو کشمیر میں مزاحمتی سیاست دوبارہ اُبھر سکتی ہے اور غالباً مُسرت عالم کا انتخاب اُسی وقت کی پیشگی تیاری ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک آزادی کشمیر کے ضمن میں نوے کی دہائی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس زمانے میں پاکستان میں عوامی سطح پر بھی بیداری پیدا ہوئی اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ لوگوں میں۔ یہ جو تحریک آزادی کشمیر کے پس منظر میں نامور صحافی اور اینکر ناصر بیگ چغتائی کا ناول سلگتے چنار، ہے، اس کی بنیاد بھی ان ہی دنوں میں پڑی۔

صحافیوں کے کئی گروپ اُن دنوں ملک کے مختلف حصوں سے اکٹھے ہوئے اور انھوں نے لائن آف کنٹرول کے دورے کر کے بھارتی جارحیت کے مناظر اپنے آنکھوں سے دیکھے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے جن سیکڑوں کشمیری خاندانوں کو لوٹ مار کر کے اور تشدد کا نشانہ بنا کر آزاد کشمیر کے علاقوں میں دھکیل دیا، ان سے ملاقاتیں کیں۔
یہ ملاقاتیں ایسی تھیں جن کی تفصیلات سننے والوں کے دلوں پر دستک دیتیں اور لوگ آنسو بہائے بغیر رہ نہ پاتے۔ اہل صحافت کی ذمے داریاں ایسی ہوتی اور ان کے علم میں انسانی المیوں کی ایسی کہانیاں ہوتی ہیں کہ وہ بڑے بڑے المیوں سے دل کڑا کر کے گزر جاتے ہیں لیکن آزاد کشمیر کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ان مہاجرین کی حالت زار، بیمار عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ معذور کر دیے گئے نوجوانوں کی کیفیت کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا بڑے ہی دل گردے کا کام تھا۔
اس پر مستزاد نوجوان خواتین اور بچیوں کی آبرو ریزی کے واقعات، یہ تفصیلات ایسی تھیں جنھیں لکھنے کے لیے شیر کاجگر چاہیے۔ یہی دورے تھے جن کے دوران میں قطرہ قطرہ کر کے جمع ہونے والی معلومات ہمارے ناصر بیگ چغتائی جیسے صاحب دل کو متاثر کرتی رہیں، ان کی یہ اسی رقت قلبی کا نتیجہ تھا کہ تحریک آزادی کے موضوع پر پہلا ادبی شاہ کار وجود میں آیا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب پاکستانی اہل صحافت کے تحریک آزادی کے بزرگ قائد سید علی گیلانی سے براہ راست رابطے استوار ہوئے۔
ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ کسی کی قربانیوں اور خدمات کے درست اندازے یا اسے سمجھنے کے لیے ان کا موازنہ کسی دوسرے شخصیت سے کر دیا جاتا ہے۔ ان دنوں یہ زبان زد عام تھا کہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ صحافیوں کے اس گروپ جس میں برادر محترم ناصر بیگ چغتائی، جناب عطا الرحمٰن، برادر ارشاد محمود، جناب صغیر قمر اور بہت سے دوسرے احباب شامل تھے، سید علی گیلانی صاحب سے ٹیلی فونک ملاقات کا اہتمام کرایا گیا تھا، اس موقع پر کسی صاحبِ نے گیلانی صاحب کا تعارف کراتے ہوئے جوش خطابت میں انھیں نیلسن منڈیلا قرار دیا تو موقع ملنے پر میں نے عرض کیا کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کے ایک اوالعزم قائد ہیں جن کی خدمات قربانیوں سے اور قربانیاں خدمت سے بڑھ کر ہیں۔
جدید تحاریک آزادی میں قیادت کا جو معیار نیلسن منڈیلا نے قائم کر دیا، تاریخ میں وہ منفرد رہے گا۔ تحریک آزادی کشمیر اگرچہ ایک پرانی تحریک ہے جس کی جڑیں صدیوں میں پیوست ہیں لیکن اس عہد میں زور پکڑنے والی اس تحریک کے حالات، آزادی کے پروانوں کو درپیش آزمائشیں اور قیادت کی طرف ذرا سا بھی ہچکچائے بغیر پیش کی جانے والی قربانیوں کی داستان بھی ایسی منفرد ہے جس کی کوئی مثال ماضی میں ملتی ہے اور نہ اس زمانے کی کوئی اور تحریک اس تحریک کے مثل ہے۔
جہاں تک معاملہ سید علی گیلانی صاحب کا ہے، جرات مندی، قربانی اور آزمائشوں کا سامنا کرنے کے ضمن میں وہ بذات خود ایک معیار ہیں، اس لیے ان کے مقام و مرتبے کے تعین کے لیے کسی دوسری مثال کی ضرورت نہیں۔ یہ کسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا درست طریقہ بھی نہیں، یہ اس کے ساتھ بھی زیادتی ہے جس کا یہ ذکر ہے اور اس کے ساتھ بھی زیادتی ہے جس کی مثال دی جا رہی ہے لہذا یہ تسلیم کر کے کہ سید علی گیلانی جرات و بہادری اور عزیمت و قربانی کا خود ایک معیار ہیں، بات کی جائے۔
یہ گزارشات جب میں نے پیش کیں تو اس سے پہلے کہ سید علی گیلانی بات شروع کرتے، سید صاحب اور حاضرین سے معذرت کر کے مقبوضہ کشمیر سے (ٹیلی فونک رابطے پر ہی)ایک صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ میں اس انداز فکر کی تائید کرتا ہوں۔ گیلانی صاحب کی گفتگو شروع ہوئی تو اس سے پہلے کی جانے والی تمام باتیں پس منظر میں چلی گئیں اور آئی گئی ہو گئیں لیکن اس کے باوجود ذہن میں یہ اڑچن رہی کہ چلتی ہوئی رسموں پر آنکھ بند کر کے چلنے اور گھسی پٹی باتوں کو دہرائے چلے جانے کے عادی زمانے میں منفرد سوچ رکھنے والا یہ شخص کون ہے تو شاید برادرم ارشاد محمود نے بتایا کہ یہ اشرف صحرائی تھے۔
وہ زمانہ سید علی گیلانی کا تھا، یہ زمانہ بھی علی گیلانی کا ہے لیکن یہ بھی شاید انسانی کمزوری ہی ہے کہ اگر علی گیلانی جیسے ہمالیہ پہاڑ درمیان میں موجود ہوں تو اشرف صحرائی جیسی محبت کی ٹھنڈی میٹھی ندیوں اور حکمت و دانائی آبشاروں کی طرف توجہ جاتی ہی نہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ سید علی گیلانی اگر مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں قربانیوں اور استقامت کا ہمالیہ پہاڑ ہیں تو اشرف صحرائی گہرے پانیوں والا ایک ایسا سمندر تھے جس کے دامن میں صحراؤں جیسی وسعت اور دل میں سمندروں جیسی گہرائی ہوتی ہے۔
آزادی کی تحریکوں کی قیادتوں کے ضمن میں دیکھا گیا ہے کہ ان کے قائدین اپنے بچوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے ہر کوشش کر گزرتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی پنجرے میں لڑی جانے والی ایسی جنگ ہے جس میں ایسی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ ایسے مشکل ماحول میں بھی آزمائش میں کمی کی کوئی نہ کوئی راہ ضرور ہوتی ہے لیکن اشرف صحرائی ایک ایسے صاحب کردار قائد تھے جنھوں نے آزادی کی اس منفرد جنگ میں اپنے چھوٹے لخت جگر جنید تک کو قربان کیا اور اف تک نہ کی۔ ایسے لوگ ہی انسانیت کی آبرو اور قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، ہمارے عہد میں انسانیت کے ماتھے کا یہ جھومر اس ادا کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا ہے کہ دنیا اسے تادیر یاد رکھے اور اس کی عظمت کی مثالیں پیش کیا کرے گی۔
۶ مئی ۲۰۲۱ء کو یہ خبر کشمیری عوام پر قیامت بن کے ٹوٹی کہ زیر حراست مزاحمتی تحریک کے مخلص ترین قائد جناب محمد اشرف خان صحرائی جموں کے ہسپتال میں انتقال کر گئے: اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ اس طرح سے کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک اور قائد کی جدوجہد کا باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
مرحوم صحرائی صاحب کو ۲۰۲۰ء میں اپنے بیٹے شہید جنید صحرائی کی شہادت کے ٹھیک دو ماہ بعد جموں وکشمیر میں نافذ کالے قانون ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پس زندان ڈال دیا گیا تھا۔ واضح رہے یہ ایک ایسا بے رحم قانون ہے جس میں دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے کسی بھی شخص کوپابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔ صحرائی صاحب مرحوم کے اہلِ خانہ نے اسے قتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کو انتظامیہ کی جانب سے کوئی طبی امداد نہیں دی گئی، جب کہ وہ کئی امراض میں پہلے ہی مبتلا تھے۔ میڈیا کو دیئے گئے بیانات میں ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ’’میرے والد نے اپنی وفات سے چند دن قبل مجھے فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے لیے یہاں کسی دوائی وغیرہ کا انتظام نہیں ہے۔ میں چند دنوں سے شدید بیمار ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت مجھے یہاں مارنے کے لیے ہی لائی ہے، اس لیے آپ میری رہائی کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اُنھیں ترک کر دیں۔ مجھے یہ ایسے رہاکرنے والے نہیں ہیں۔آپ اپنے معمول کے کام کاج میں مصروف ہو جائیں ‘‘۔
محترم صحرائی صاحب کے انتقال پر کئی ہند نواز سیاسی لیڈروں نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے حکومت پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا :
اشرف صحرائی کی اچانک موت کے بارے میںجان کر بہت صدمہ ہوا۔ انھی کی طرح ان گنت سیاسی قیدیوںاور جموں وکشمیرکے دیگر نظر بندوں کو بھی اپنے نظریا ت اور افکار کے لیے مکمل طور جیل میں ڈالنے کا عمل جاری ہے۔ آج کے ہندستا ن میںاختلاف رائے کی وجہ سے ایک شخص اپنی زندگی کی قیمت ادا کرتا ہے۔
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا:
انھیں قید میں کیوں مرنا پڑا نہ کہ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں میں۔کیا ہم اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ علیل بزرگ شخص ریاست کے لیے خطرہ ہے؟ صحرائی صاحب ایک سیاسی رہنما تھے، دہشت گرد نہیں ۔
آل پارٹیزحریت کانفرنس نے اظہار تعزیت کرتے ہو ئے کہا کہ:’’ جموں وکشمیر کے لوگوں نے ایک مخلص، قابل اور ایمان دار لیڈرکوکھو دیا ہے ‘‘
محترم اشرف صحرائی کے فرزند راشد خان صحرائی نے دی وائر نیو ز پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:’’ان کے طبی معائنے اور علاج کے لیے تین درخواستیں دائر کی تھیں،جس میں ان کی مزید دیکھ بھال کے لیے جموں یا سرینگرکی جیلوں میں منتقل کر نے کی درخواست بھی تھی کہ اہل خانہ کو ان سے ملنے دیا جائے‘‘۔ راشد صحرائی نے کہا کہ ’’درخواستوں پر نظر ثانی کے لیے جج مسلسل دیر کرتا رہا‘‘۔
اس عظیم اور بے با ک قائد کی زندگی عزیمت اور قربانیوں کی لازوال داستانوں سے پُرہے۔ مرحوم قائد کی پیدایش شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی خوب صورت ترین وادیٔ لولاب میں ۱۹۴۴ء کو ہوئی۔وہی لولاب جہاں عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت اور محدث علامہ انور شاہ کشمیریؒ [۱۸۷۵ء-۱۹۳۳ء]نے آنکھ کھولی تھی۔ جس وادی کے متعلق شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک مشہور نظم بھی ’اے وادیٔ لولاب‘ عنوان کے تحت لکھی ہے۔ موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گائوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے گریجوشن کی۔ آپ بچپن سے ہی دینی مزاج کے حامل تھے اور دینی کتابوں کے مطالعے سے بھی خاصا شغف رکھتے تھے۔ قرآن کریم کا گہرا مطالعہ تھا۔ ایک فیس بُک ساتھی نے مطالعہ قرآن کے حوالے سے ایک پوسٹ میں مرحوم کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ :’’قرآن کا گہرا مطالعہ تھا اور تفاسیر پر بھی نظر تھی۔ جب درسِ قرآن پیش کرتے تھے تو بالکل بھی روایتی انداز کا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اُن کا پہلا درس ’اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر‘ کے تربیتی پروگرام میں سُنا۔اس وقت میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ درس آج تک میرے ذہن میں مستحضر ہے۔کیا ہی دل چسپ اندازِ بیان تھا۔ قرآنی آیات کی توضیح و تشریح ایسے کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ قرآن آج ہی نازل ہو ا ہے ۔وہ اپنے دروسِ قرآن میں زمانے کے تطابق کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ایسے درس پیش کرتے جیسے موتیوں سے ہمارے دامن بھررہے ہوں‘‘۔
اشرف صاحب کا گھرانہ ابتدا سے ہی تحریک اسلامی سے وابستہ تھا۔مرحوم کے گھر سے دوبڑے بھائی جماعت اسلامی جموں وکشمیرکے بنیادی ارکان میں سے تھے، جن کی وساطت سے محترم صحرائی صاحب کو بھی جماعت اسلامی سے آشنائی ہوئی۔ جماعت کے دفتر واقع کپواڑہ میں ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ اسی دوران میں ان کی ملاقات اُس دور میں فعال ترین کارکن سید علی گیلانی صاحب سے ہوئی۔ گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ: میری قربت صحرائی صاحب سے قدرتی طور پر کچھ زیادہ ہی ہونے لگی۔ جب کبھی بھی ہمارا کپواڑہ آنا جانا ہوتا تھا تو میں محترم موصوف کے گھر جایا کرتا تھا۔ ابھی صحرائی صاحب دسویں جماعت میں ہی تھے کہ اُن کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ’یہ ہاز چھی حوالہ‘ یعنی اب یہ (صحرائی صاحب) آپ کے حوالے ہیں ۔ اور اس کے بعد تحریک اسلامی کے یہ دونوں سرفروش تا عمر حالات کے سرد و گرم کا مقابلہ جاں فشانی سے کرتے رہے۔
صحرائی صاحب تحریک اسلامی کے مخلص ترین اور بے باک قائد تسلیم کیے جاتے تھے۔ موصوف نے اپنی ساری زندگی کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کردیا ۔ جموں وکشمیر کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ کو وجود بخشنے میں صحرائی صاحب کا خاصا بنیادی کردار تھا۔ کشمیر کے ایک رسالے کو اپنے ایک انٹرویو میں اسلامی جمعیت طلبہ کے وجود میں آنے کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ’’انھی دنوں زالورہ، بارہمولہ میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے مولانا شیخ سلیمان مرحوم (شیخ محمد سلیمان مرحوم نے ضلعی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک جماعت کے اپنے فرائض بڑے اخلاص اور محنت سے انجام دیے، خاص کر ارکان وذمہ داران کی تربیت کے حوالے سے انھوں نے کافی کام کیا) کے گھر پر جولائی ۱۹۷۷ءمیں مجلس شوریٰ کا اجلاس چار دن تک جاری رہا، جہاں میں [صحرائی صاحب] بھی شامل تھااور گیلانی صاحب بھی۔ جماعت کو سیاسی طور پر وادی میں جو نقصان اٹھانا پڑا اس پر زبردست بحث و مبا حثہ ہوا، یہاں تک کہ امیر جماعت کو بھی تبدیل کرنے پر بات ہوئی۔ شوریٰ میں محترم سیدعلی گیلانی صاحب سے کہا گیا کہ آپ امیر جماعت کی حیثیت سے کام کریں، لیکن جونہی انھوں نے یہ بات سُنی، انھوںنے اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور انتہائی غصے کی حالت میں کہا کہ: ’’کیا میں امیر جماعت بننے کے لائق ہوں؟‘‘
’’ اس شوریٰ میں یوتھ فیڈریشن کا رول بھی زیر بحث آیا اور اس پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی کہ جماعت کو نوجوانوں کے لیے ایک تنظیم قائم کرنی چاہیے۔ اس کے لیے وہاں موجود کسی نے میرا نام پیش کیا اور بتایا کہ محمد اشرف صحرائی نوجوانوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتے رہتے ہیں۔ میں اجلاس کی کارروائی لکھ رہا تھا۔ جب یہ فیصلہ ہوا کہ صحرائی صاحب نوجوانوں کو منظم کریں گے۔ اس کے بعد اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ اس تنظیم کا کیا نام رکھا جائے؟ وہاں پر موجودا رکانِ شوریٰ نے مختلف نام تجویز کیے۔میں نے اپنی رائے یہ پیش کی کہ جب سید مودودیؒ نے پاکستان میں ۱۹۴۸ء میں طلبہ تنظیم قائم کی تو انھوں نے اس کانام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ رکھا تھا کیوں نہ ہم بھی اسی مناسبت سے اس کا نام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ ہی رکھیں ۔شوریٰ میں امیر جماعت سمیت تمام لوگ اس نام پر متفق ہوئے اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے لیے جماعت نے مجھے [تنظیمی ذمہ داریوں سے] فارغ کیا۔ اس کے بعد میں نے ۱۹۷۷ء میں جمعیت کے لیے کام کا آغاز کیا۔ اس وقت میری عمر تقریباً ۳۲ یا ۳۳سال تھی اور ساتھ ہی اس کے لیے ایک دفتر کا بھی انتظام کیا‘‘۔(یہ انٹرویو ۲۰۱۴ء میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے )۔
بہرکیف، اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے پہلے ناظم اعلیٰ محترم مرحوم صحرائی صاحب مقرر ہوئے ۔اس کے بعد موصوف نے جموں وکشمیر میں طلبہ میں دعوت کا کام شروع کر دیا۔ انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ مختصر فولڈر اور لٹریچر کو یہاں کے تعلیمی اداروں تک پہنچایا۔ عوامی اجتماعات بھی منعقد کرائے جن میں سے ۱۵؍اور۱۶ جولائی ۱۹۷۸ء کو جمعیت کا دو روزہ اجتماع انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اس اجتماع میں محترم شیخ تجمل الاسلام نے جو کہ اُس وقت معتمد عام (سیکرٹری جنرل) تھے، مذکورہ اجتماع میں ڈائس انچارچ کے فرائض انجام دیے ۔یہ دو روزہ اجتماع سرینگر کی گول مارکیٹ میں منعقد ہوا۔ اس طرح سے محترم صحرائی صاحب نے اپنی جوانی کے دنوں کو بھی تحریکی کام کے لیے وقف کر دیا۔ وہ پہلی بار ۱۹۶۵ء میں گرفتار ہوئے ، تب آپ کی عمر محض ۲۱ سال تھی۔
موئے مقدس کی گمشدگی کے متعلق کشمیر میں زوردار احتجاجی تحریک برپا تھی۔ احتجاجیوں کا مطالبہ تھا کہ موئے مقدس کو بازیاب کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید کردیا۔ اس ظلم کے خلاف ردعمل میں محترم صحرائی صاحب نے بارہمولہ پٹن کی ایک مسجد میں جمعہ کے موقع پر ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے حکومتِ وقت کو للکارا اور اُن کی جمہوریت کے کھوکھلے دعوئوں کا پول کھول کے رکھ دیا۔ اس بیان کے اگلے دن ۲۱سال کی عمر میں انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں قیدِ تنہائی کے ایام موصوف نے وہاں ملنے والی ایک کتاب زرِ گُل پڑھنے میں گزارے۔ وہ اتنی بار پڑھی کہ ذہن میں محفوظ ہو گئی ۔
تقریر کے ساتھ ساتھ موصوف تحریر کے جوہر بھی دکھاتے رہے جس کی ایک کڑی کے طور پر ۱۹۶۹ء میں طلوع کے نام سے جماعت کی مدد سے ایک رسالہ شائع کیا ۔اس میں بڑی ہی بے باکی سے کفر اور سامراجی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے رہے اور ساتھ ہی جمہوریت کے حقیقی معنوں سے بھی عوام الناس کو آشنا کرتے رہے۔ لیکن اس کا انجام اس رسالے پر حکومت کی طرف سے پابندی کی صورت میں ہوا۔
صحرائی صاحب کی زندگی میں نشیب و فرازآتے رہے لیکن راہ عزیمت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ تحریک اسلامی کے ہمراہ مقصد کی لگن اور اسلام کی اقامت کے لیے جدوجہد کے لیے مرمٹنے کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے صحرائی صاحب کو جماعت میں سب سے پہلے بانڈی پورہ، کپواڑہ اور بارہمولہ (اُس دور میں یہ تینوں اضلاع ایک ضلع تھا اور آج الگ الگ ہیں) کے امیر ضلع کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کے بعد مرکز جماعت میں شعبہ سیاسیات کا سربراہ اور پھر نائب امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی ذمہ داریاں سپرد کی گئیں۔ ان فرائض کو انجام دینے میں کسی سُستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ غرض صحرائی صاحب اپنی ذات میں ایک تحریک تھے، صحرائی ایک نظریہ اور فکر کا نام ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی مزاحمتی تحریک کے نام وقف کر دیا تھا۔
ایک مرحلے پر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو محسوس ہوا کہ مزاحمتی تحریک کے لیے جماعت اسلامی سے الگ نظم، عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے صحرائی صاحب اور سیّد علی گیلانی صاحب کا رول انتہائی اہم تھا۔۲۰۰۴ء میں تحریک حُریت کا وجود عمل میں لایا گیا ۔جہاں سے گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب نے مزاحمتی تحریک کو رواں دواں کیا۔ اس مزاحمتی جدوجہد کے دوران محترم صحرائی صاحب نے مسئلہ کشمیر کے متعلق وہی موقف اختیار کیا، جو عام کشمیریوں کا ہے۔
صحرائی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اہلِ کشمیر کے حق خود ارادیت پر زور دیتے تھے۔ حکومت کو بھی بار بار کہتے آ رہے تھے کہ فوجی طاقت کے ذریعے آپ کشمیریوں کے نہ دل جیت پائیں گے اور نہ کشمیر کو۔ لہٰذا بھارت کو چاہیے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے حل کرنے میں پہل کرے تا کہ دونوں اطراف سے انسانی جانوں کازیاں نہ ہو اور عوام پُر امن زندگی گُزار سکیں۔لیکن ہم سب یہ دیکھ چُکے ہیں کہ بھارتی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے کو طول دینے کے نتائج کتنی خطرناک شکل میں سامنے آرہے ہیں ۔ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد بندوق کی طرف راغب ہورہی ہے اور گھروں کے گھر اُجڑ رہے ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور بزرگ والدین اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو کھو رہے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں ویران اور قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔
۲۰۱۸ء میں محترم صحرائی صاحب کے فرزند جنید صحرائی نے بھی کشمیری عوام کی مظلومیت کے حق میں بندوق اُٹھائی۔ جنید کے بندوق اُٹھانے کے بعد ایک مقامی صحافی نے محترم اشرف صاحب سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ اپنے بیٹے کو بندوق چھوڑ کے گھر آنے کی اپیل نہیں کر سکتے؟‘‘ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کیوں اپیل کروں گا، کیامیں بے ضمیر ہوں؟ کیا شیخ محمد عبداللہ ہوں؟ میں بخشی ہوں؟ میں قاسم ہوں؟میں غلام رسول کار بھی تو نہیں ہوں۔ میں خدا کا وہ بندہ ہوں جس کی رگ رگ میں آزادی کی تڑپ موجود ہے‘‘۔ اس سے موصوف کی اپنے مقصدکے ساتھ کمٹ منٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے مجاہد صحرائی نے میڈیا کے ایک نمایندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے والد صاحب نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی کہ آپ سودی کاروبار یا سود کھانے سے وابستہ نہیں ہوں گے او ر آپ کو سرکاری نوکری نہیں کرنی۔ اس لیے کہ آگر آپ سرکارکے ملازم ہوں گے تو مجھے آپ کے بدلے ہر جگہ سر جھکانا پڑے گا‘‘ ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنید صحرائی ۱۹ مئی ۲۰۱۹ء کے دن سرینگر میں ایک خونیں معرکے میں جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے کے بعد جنید صحرائی کی میت بھی دیگر عسکریت پسندوں کی لاشوں کی طرح اُن کے لواحقین کو نہیں دی گئی، بلکہ جنیدشہید کو اپنے گھر سے دور پہلگام میںدفنا دیا گیا۔ تعزیت پر آنے والوں کی ایک بھیڑ میں فون پر کسی عزیز کے ساتھ محترم صحرائی صاحب مرحوم اپنے بیٹے کی شہادت کو علامہ شبلی نعمانیؒ کے ان اشعار کے ساتھ بیان کر رہے تھے کہ :
عجم کی مدح کی ،عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے یوں چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمؐ
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
یہ الفاظ ۱۹مارچ ۲۰۱۸ء کو تحریک ِ حُریت کے مقرر ہونے والے چیئرمین محمد اشرف صحرائی جیسے عظیم انسان کی زبان سے ہی نکل سکتے ہیں ۔ابھی لوگ محترم صحرائی صاحب کے بیٹے کی تعزیت کے لیے آرہے تھے کہ انتظامیہ نے امن و امان کا مسئلہ بتاتے ہوئے ۷۸ سالہ بزرگ جو کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے کو جموں کی ایک جیل میں ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پابند سلاسل کر دیا۔
صحرائی صاحب پہلے سے ہی کافی علیل تھے۔ اس کے باوجود اُنھیں جموں کی جیل میں رکھا گیا۔ ایک نیوز پورٹل کے ساتھ موصوف کے فرزند نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمیں ہر ہفتے دومرتبہ فون کیا کرتے تھے لیکن گذشتہ دس دنوں سے کوئی فون نہیں آیا۔ آخری مرتبہ جب بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ صحت ٹھیک نہیں ہے ۔دراصل یہ مجھے یہاں مارنے کے لیے لائے ہیں‘‘۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق محترم صحرائی صاحب کی صحت اچانک بگڑ گئی، جس کے سبب اُنھیں جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں علاج کے لیے لایا ہی گیا تھا کہ جہاں وہ اپنے اہل خانہ سے دُور، داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انتظامیہ نے انھیں سرینگر کے مزار شہداء میں دفنانے کی اجازت نہ دی۔جس کی وجہ سے اُن کو اپنے آبائی گائوں ٹکی پورہ لولاب، کپواڑہ میں اپنے مختصر اہلِ خانہ کی موجودگی میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ابھی صحرائی صاحب کی جدائی کے غم میں ہی اہل خانہ نڈھال تھے کہ مرحوم کے دوبیٹوں کو ’غیر قانونی سرگرمیاںکے ایکٹ‘( UAPA)قانون کے تحت یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا کہ ’’انھوں نے صحرائی صاحب کے جنازے کے دوران غیر قانونی اور ملک دشمن نعرہ بازی کی ہے‘‘۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق: ’’۵ مئی ۲۰۲۱ء کو محمد اشرف صحرائی کے دونوں بیٹوں، مجاہدصحرائی اور راشد صحرائی کو اپنے گھر واقعہ برزلہ، سرینگر سے گرفتار کر کے کپواڑہ منتقل کر کے داخل زنداںکیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں جنازے میں موجود۲۰؍ افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔غرض یہ کہ صحرائی صاحب کی وفات کے بعد بھی اُن کے گھر سے قربانیوں اور عزیمت کی لازوال داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔نہیں معلوم کہ نہ جھکنے اور نہ بکنے والے اس مرد مجاہد کے اہل خانہ کو ابھی آزمایشوں کے کن کن مراحل سے گُزرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی مرحوم صحرائی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما ئے اور اُن کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!
…………..

کشمیرمیں ظلم اور بین الاقوامی ادارے

کورونا کی تباہ کاریاں دُنیا بھر میں موت کے سائے پھیلا رہی ہیں، لیکن بھارت کی نسل پرست فسطائی حکومت، جموں و کشمیر میں خون کی بارش اور ظلم و زیادتی کی جملہ کارروائیوں میں، پہلے سے بڑھ کر مصروف ہے۔ یہاں پر چار مختصر مضامین میں حالات کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ

رمضان المبارک بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مظلوم عوام کے لیے تشدد، بے حُرمتی، ظلم، گھروں کی آتش زدگی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ۲۵شہادتوں اور ۲۴۹زخمیوں کا دُکھ دے کر گیا ہے۔ تاہم، یہاں پر دو مثالیں پیش ہیں:
۶مئی ۲۰۲۰ء (۱۲رمضان) کو حزب المجاہدین کےچیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ، اپنے ہی گاؤں میں بڑے خون ریز معرکے میں شہید کردیے گئے۔ موضع بیگ پورہ اونتی پورہ، ضلع پلوامہ (مقبوضہ جموں و کشمیر) میں پیدا ہونے والے ریاض شہید کی زندگی اپنے اندر عمل اور عزیمت کے پہاڑ سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے ڈگری کالج پلوامہ سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے، ایک نجی اسکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ان کا ارادہ ریاضی میں ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کا تھا کہ بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ۲۰۱۰ء میں گرفتارکرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اور پھر رہائی کے ۲۰ روز بعد ۲۰۱۲ء میں حزب کا حصہ بن کر جدوجہد کے لیے اسکول اور گھر چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں نکل گئے۔
وہ بُرہان مظفروانی کے قریبی ساتھی تھے۔ بُرہانی وانی کی شہادت کے چند ہی روز بعد ۱۳؍اگست ۲۰۱۶ء کو جب حزب کے چیف آپریشنل کمانڈر منصور الاسلام شہید ہوگئے تو یہ ذمہ داری ریاض نائیکو کے سپرد کی گئی، جنھوں نے خاص طور پر جنوبی وادیِ کشمیر میں جاں بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو مؤثر بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
ریاض شہید کے والد صاحب نے ایک بار بی بی سی کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بیٹے نے جس راستے کا انتخاب کیاہے، وہ درست راستہ ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخرہے۔ ہم ہروقت اس کی شہادت کی خبرسننے کے لیے ذہنی طورپر تیارہیں‘‘۔
ریاض ایک سنجیدہ معلّم اور متوازن طبیعت کے حامل نوجوان تھے۔ وہ نمایاں ہونے کے بجاے پیچھے رہ کر اور خاموشی سے مصروفِ کار رہنے پر کاربند تھے۔ تاہم، دو سال قبل ’الجزیرہ‘ کے نمایندے نے بڑی کوشش کرکے ان سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس سے گفتگو میں یہ الفاظ کہے تھے: ’’غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں نشیب وفراز آتےرہتے ہیں ، لیکن پورے خلوص کے ساتھ اگر نگاہیں منزل پر لگی رہیں اورقدم اُس سمت بڑھ رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے اور ہماری منزل دُور نہیں ہے، ان شاء اللہ‘‘۔
اپنی اس جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، لیکن کامیابی سے گھیراتوڑ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ان کے والدگرامی کو بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ تب اسی سال ستمبر میں ریاض نائیکو نے اتنے جبر اور بہت سارے ناکوں کے باوجود ایک پولیس افسر اور گیارہ اہل کاروں اور رشتے داروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جس پر قابض بھارتیوں نے ان کے والدصاحب کو رہا کردیا۔ ساتھ ہی ریاض شہید نے ان لوگوں کو رہا کر دیا اور رہائی کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ مجاہدین نے کوئی بُرا سلوک نہیں کیا‘‘۔ اس دوران ریاض شہیدنے کئی ویڈیو اور آڈیو پیغام سوشل میڈیا پرنشر کیے، جن میں جموں و کشمیر پولیس اہل کاروں کو آزادی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی باربار اپیل کی۔
یہ جدوجہد چونکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے اس دوران جہاں دشمن کے مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ریاض شہید کا تعاقب کرتی رہیں وہاں بھارتیوں کا ایک دام ہم رنگ بھی برابر متحرک رہا۔ یاد رہے ۱۹۹۲ء میں بھارت نے مجاہدین کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے’الاخوان‘ کے نام سے اپنے آلہ کاروں اور قاتلوں کا گروہ تیار کیا تھا، جنھوں نے ایک جانب مجاہدین کے بہت سے قیمتی افراد کو شہید کیا، تو دوسری جانب مجاہدین کی جدوجہد کوبدنام کرنے کے لیےکبھی صحافیوں کو اغوا کیا اور کبھی یورپی سیاحوں کو اُٹھا لیا اور پھر انھیں قتل کرکے مجاہدین کو بدنام کیا۔ اس امرکی سیّدعلی گیلانی اورمجاہدقیادت نے باربار مذمت کی اور بتایا کہ اخوان المسلمون کے نہایت محترم نام کو بدنام کرنے اور حُریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور یہ ایک بھارتی سازش ہے، جس سے حُریت پسندوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ افسوس کہ گذشتہ تین برسوں سے بالکل یہی کام’داعش‘ کےنام ، پرچم اور نشان کو استعمال کرکے کیا جارہا ہے، حالانکہ جموں و کشمیر میں برسرِ زمین کہیں داعش موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنی وضع کردہ تصاویر میں، خاص طور پر داعشی نشان دکھا کر،مجاہدین آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہیں، جن سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
ریاض نائیکو گذشتہ آٹھ برسوں میں دوسری بار اپنی والدہ سے ملنےخفیہ طور پر اپنے گھر آئے، تو داعش کے رُوپ میں مخبروں نےبھارتی ایجنسیوں کو خبر دے دی۔ اس موقعے پر یہ چار مجاہد: ریاض احمد، جنیدصحرائی ، ڈاکٹرسیف اللہ اور محمد عادل بھٹ موضع بیگ پورہ (پلوامہ) میں موجود تھے۔ ریاض نےفیصلہ کیا کہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ اس طرح کیا جائے گا کہ دومجاہد جنیدصحرائی اورسیف اللہ اس گھیرے کو توڑ کر نکل جائیں ، جب کہ محمد عادل بھٹ ان کے ہمراہ مقابلہ کرکے غاصب فوجیوں کو مصروف رکھیں۔ جنید اور سیف اپنے کمانڈر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،لیکن ریاض نے سختی سے حکم دےکر انھیں نکل جانے کو کہا۔
ریاض نے گھرکےنچلے کمرے اورعادل نے مکان کے اُوپروالےکمرے سے مقابلہ شروع کیا۔ اسی دوران قصبے کے سیکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے نکل آئے اور جارح فوجیوں کے خلاف احتجاج اور پتھراؤ کرنے لگے۔ جواب میں پیلٹ گن فائرنگ، آنسوگیس اورفائرنگ کے نتیجے میں احتجاجی دباؤ کم ہوا۔ اسی دوران میں چاروں طرف سے گھیرکر بے تحاشا فائرنگ کرکے ریاض اور عادل شہید کردیے گئے۔ بھارتی فوجیوں نے ان دونوں کی میتیں قبضے میں لے لیں۔ انھیں لواحقین کے سپرد نہیں کیا اور ضلع گاندربل میں سونہ مرگ کے مقام پردفن کردیا۔
پھر ۱۹مئی کو جنید صحرائی اور طارق احمد کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں گھیرے میں لیتے ہوئے اس طرح شہید کردیا کہ اس کارروائی کے دوران ۱۵ گھروں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے تباہی مچادی۔ یاد رہے جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ(ایم بی اے) ۲۹سالہ نوجوان تھے، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں عسکریت کا راستہ منتخب کیا۔ وہ تحریک حُریت کے نہایت محترم رہنما اشرف صحرائی کے ہیں۔ یادرہے کہ صحرائی صاحب، محترم سیّد علی گیلانی کے دست ِ راست اور کئی عشروں سے رفیق کار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر: پیلٹ گن پرعدالتی پابندی سے انکار

۱۱مارچ ۲۰۲۰ء میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوںاور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ہائی کورٹ نے پیلٹ گن (Pellet Gun) پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک اپیل کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر پابندی لگانے کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’بے قابو بھیڑ کو طاقت سے قابو کرنا نا گزیر ہوتا ہے ‘‘۔

جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں وادیِ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے فورسزاہل کاروں کی طرف سے پیلٹ گن استعمال کرنے کے خلاف یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی، جب وادی میںمعروف عسکری کمانڈر برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا، جس کے سبب بہت سے زخمیوں کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’کس جگہ، کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے، یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر ہے ،جو اس جگہ تعینات ہے جہاں ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے‘‘ ۔
’پیلٹ گن‘ کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف استعمال میں اُ س وقت لائی جانے لگی جب ۱۱ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو، راجوری کدل، سرینگرمیں آنسوگیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا۔ تب وہ کوچنگ کلاس میں جا رہا تھا۔اس سے قبل ۱۳ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔
ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا استعما ل کرنا شروع کیا تھا۔ پھر زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوںکی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پیلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان چھرّوں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرّے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرّے دُور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن جب یہ ۵۰۰میٹر کی دُوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں، جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
۲۰۱۰ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان پیلٹ بندوق کی چھرّہ فائرنگ سے جزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور پر اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’’حکومت ہند، اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے، لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن Pump Action Shotgun)) ہے‘‘ ۔ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ:’ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے‘‘۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بارہا حکومت ہند سے کہا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔
وادیِ کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین ،بزرگ اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں، تاہم متاثرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی حبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی۔اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوکر محتاج ہو گئی ہے۔ یوں درجنوں نوجوان بینائی سے محرومی کے سبب زندگی محتاجی کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثر ہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک اُمید تھی وہ بھی چلی گئی اور ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو، کوئی نوجوان زندگی بھر کے لیے محتاج نہ ہو، مگر عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے‘‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں۔ اس نے کہا کہ’’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے،وہ محتاج ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثر ہ نے گذشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا اور یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا، جس کی خود اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق: ’’پیلٹ متاثرین میں سے ۸۵ فی صد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں۲۵ء۷۹ فی صد معاشرے میں احساس تنہائی کا شکار،۱۵ء۷۹ فی صد پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر،۲۱ء۹ فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹروں نے ۳۸۰پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران نوٹ کیا: ’’۲۰۱۶ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔
پیلٹ گن متاثرین میں سے ۹۳ فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے شمار متاثرین اپنے آپ کو ذہنی امراض کا شکار نہیں سمجھتے ۔تاہم، بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میںناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور انتظامیہ کو من مانی کے لیے مزید کھلی اجازت مل گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر کا لاک ڈاؤن اور کورونا لاک ڈاؤن؟

چند دن قبل ایک معروف ٹی وی اینکر رویش کمار پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ’’  Covid 19 لاک ڈاؤن اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اصل میں کچھ لوگ غیر حقیقت پسندانہ طور پر ان دونوں لاک ڈاؤنز کوبرابر کی چیز قرار دے رہے ہیں‘‘۔ رویش نے کہا کہ ’’کشمیر کا  لاک ڈاؤن کچھ اور ہی تھا، بے مثل تھا، یعنی کہ جبر اور ظلم کی بے مثال صورت‘‘۔ یہ سن کر جی چاہا کہ کیوں نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کا نقشہ کھینچوں اور کیوں نہ یہ پہلو بھی بیان ہو کہ کشمیریوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اور وہ بڑے بھیانک اَدوار کو برداشت کرکے نہ صرف زندہ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئے۔

یوں تو کشمیر میں ۹۰ کے عشرے سےہی ظلم و جبر کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کشمیر نے کچھ ایسے اَدوار اور واقعات بھی دیکھے جن سے یوں لگا کہ شاید اس دور سے باہر آنا ناممکن ہے۔ چاہے وہ Catch and Kill آپریشن ہو، یا حکومت کی پشت پناہی میں اخوانی دہشت گردوں کا ظلم و قہر۔ چاہے ایک منصوبے کے تحت خواتین کی عصمت دری ہو یا ۱۰ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اس طرح غائب کرنا کہ ان مظلوموں کا نام و نشان بھی نہ ملے۔
کئی برسوں تک بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو نظربند رکھنا، یا تفتیشی سنٹروں میں لوگوں کو ناقابلِ بیان اور شرم ناک اذیتیں دینا، یہ سب کشمیریوں نے دیکھا، بھگتا اور مسلسل برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود لوگ پُرعزم اور زندہ رہے ہیں۔ جس علاقے میں ہزاروں جواں بیٹوں کی میّتوں کو ان کے باپ کندھا دیں، اس علاقے کے لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ یہ سوچ ہی اذیت ناک حدتک انسان کو مضطرب کر دیتی ہے، لیکن کشمیریوں نے یہ اندوہناک مناظر بھی انگیز کیے۔
گذشتہ برسوں میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن سے نہ صرف ظلم کی ساری حدود پار ہوگئیں بلکہ کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ۲۰۱۶ء سے ہی حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے، جن میں حریت قائدین کو فرضی مقدمات میں پھنسانا وغیرہ وغیرہ، لیکن جولائی ۲۰۱۹ء کے آخری ہفتہ سے ہی وادیِ کشمیر میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ ہر کشمیری کہنے لگا: ’’کچھ انہونی ہونے والی ہے‘‘۔ اگست کی پہلی تاریخ سے ان اقدامات میں اور شدت آئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بہت کچھ خراب ہونے والا ہے، خوف و دہشت کا ماحول چاروں طرف چھا گیا، ۱۰ لاکھ فوجیوں کے باوجود یہاں اضافی طور پر پیراملٹری فورسز منگوائی گئی۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈلائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب بند تھا، حتیٰ کہ کیبل نیٹ ورک بھی بند۔ جماعت اسلامی پر تو بہت پہلے ہی پابندی لگادی گئی تھی۔ جے کے ایل ایف پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے اکثر کارکن گرفتار تھے۔ حریت کی چھوٹی اور بڑی قیادت کو نظر بند کیا گیا تھا۔ ۵؍اگست کو مختلف ذرائع سے معلوم ہونے لگا کہ کشمیر میں ۱۸ ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی۔ تین سابق وزراےاعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی نظر بند کیے گئے۔ وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینوں پہلے بی جے پی کی حکومت میں ساتھی اور حلیف تھیں۔ شاہ فیصل جو کبھی ’نوجوان قیادت‘ کی حیثیت سے کُل ہند میں اُبھارے جارہے تھے، وہ بھی نظر بند کر دیے گئے ۔ انھوں نے کچھ مہینے قبل بھارتی سول سروس سے استعفا دیا تھا اور کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنے انداز سے میدان میں اتر چکے تھے۔
ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس کسی فرد کی ۵۰ یا اس سے زیادہ افراد پر گرفت تھی وہ گرفتار کرلیا گیا ۔ایسا لاک ڈاؤن کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ دکانیں، کاروباری ادارے آٹھ ماہ تک بند رہے۔ میرے ماموں حج پر تھے، ہمیں یا انھیں ہماری کوئی اطلاع نہ تھی۔ میرے انتہائی قریبی دوست اپنی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور کافی بیمار بھی، کے ساتھ سری نگر میں تھے، ان کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ ان کے نوزائیدہ بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے انھیں خود میرے گھر آنا پڑا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ لوگوں کو کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۷۱ دن تک فون بند تھے۔ آج کے دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے ایسی زندگی کا؟ اب بھی انٹرنیٹ محض 2G سپیڈ پر چل رہا ہے۔
اخبارات کے مالکان کو یہ حکم دیا گیا کہ ’’خبر وہی چھپے جو حکومت کے خلاف نہ ہو‘‘۔ کئی دنوں تک تو اخبارات کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ پھر اخبارات میں اداریہ لکھنا اور شائع کرنا بھی بند کیا گیا۔ انھیں سخت ہدایت دی گئی کہ کوئی ایسا مضمون نہ چھپے، جس میں موجودہ حالات کا تذکرہ ہو۔ بی بی سی نے جب مقامی احتجاج کی رپورٹ کی، تو کشمیر کے گورنر نے کھلے عام انھیں دھمکی دی۔ ایسے حالات میں کشمیریوں نے نہایت ہی دانش مندانہ رویہ دکھایا۔ وہ کسی بڑے احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندستان اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرے گا۔ ہزاروں جانیں لے گا اور دنیا کو ذرائع ابلاغ پر اس شدید پابندی کے باعث کوئی خبر بھی نہ ہوگی۔
اگرچہ ہر کوئی دُکھی اور مجروح ہے، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ ہمیں جینا ہوگا، ہماری جدوجہد طویل ہوگی۔ ان مشکل حالات میں کشمیر کے لوگوں نے اگرچہ دکانیں بند رکھیں، لیکن سڑکوں پر نہیں آئے۔ انھوں نے معاشرے کے کمزور افراد کا خاص خیال رکھا۔ معمولات اگرچہ متاثر رہے لیکن زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسکول بند رہے، لیکن یہ قوم جانتی ہے کہ ترقی اور عروج کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم یافتہ افراد نے مفت ٹیوشن سنٹر کھولے، جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں طویل جدوجہد کرنی ہے، اور تازہ دم ہونے کے لیے کبھی پلٹنا بھی پڑتا ہے، غرض کشمیریوں نے جینا سیکھا۔
‌ آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن گرفتاریاں نہیں ہیں، ظلم و جبر نہیں ہے، انٹرنیٹ چل رہا ہے، لوگ فون کے ذریعے اپنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، حکومتی امداد ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن کشمیریوں کے لیے سخت ہولناک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتا۔ کشمیری تو سخت جاں آزمایش میں بھی جینا سیکھ چکا ہے۔کہاں وہ لاک ڈاؤن اور کہاں یہ والا کورونا لاک ڈاؤن!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیرمیںمسلمان آبادی کو کم کرنے کی بھارتی سازشیں
سید علی گیلانی نے اپنی زندگی میں ہی بے نقاب کردی تھیں

بی جے پی اور آر ایس ایس کے حامی مقبوضہ وادی میں مسلم آبادی کا توازن بدلنے کے لیے ریٹائرڈ سکھ اور گورکھا فوجیوں کو مقبوضہ وادی میں زمینیں الاٹ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔

مودی سرکار نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A یکطرفہ طور پر منسوخ کرکے مقبوضہ جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم تو کر دی ہے لیکن کشمیری مسلمانوں کی طویل تحریک آزادی ایسے اقدامات کرنے اور اسرائیلیوں کی مدد لینے سے ختم نہیں ہو جائے گی۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ہمیشہ ہندوستان سے علیحدہ آزاد اور خودمختار ریاست رہا ہے۔ آج وہاں جو حالات ہیں وہ وہاں رونما ہونے والے تاریخی واقعات کے تسلسل کا نتیجہ ہیں۔شمس الدین شاہ میر نے پہلی مسلم سلطنت 1339 ء میں سلطان شاہ میر نے قائم کی تھی، شاہ میر خاندان کا دور 1561ء تک جاری رہا۔ اسی دور میں اسلام کی روشنی کشمیر میں پھیلی ۔اسی دور میں نور الدین نورانی نے کشمیریو ں کو اسلام کے پیغام سے فیضیاب کیا ، ان کا مزار چرار شریف میں ہے۔ اسی دور میں وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارتی قافلے یہاں آتے تھے، جنہوں نے اپنے ثقافت سے کشمیری سماج کو متاثر کیا۔صوفی بزرگ شاہ حمدان علی جب کشمیر میں آکر آباد ہوئے تو یہاںکا سماج اسلامی سانچے میں ڈھل گیا۔ جموں و کشمیر پر 1586ء سے 1751ء تک مغلوں کا راج رہا اور پھر افغان درّانیوں نے 1747ء میں اپنی حکومت قائم کر لی جو 1819ء تک قائم رہی ۔1819ء سے 1846ء تک یہ راجہ رنجیت سنگھ کی سکھ سلطنت کے زیر تسلط رہا، تقریباً پانچ سو سال بعد کشمیر پہلی بار غیر مسلم سلطنت کا حصہ بنا تھا۔ راجہ رنجیت سنگھ نے ہی جموں کے ڈوگرہ گلاب سنگھ کو کشمیر کاخودمختار حاکم مقرر کیا تھا۔ اسی کے دور میں لداخ، مانسروور جھیل اور گلگت کو ریاست کشمیر کا حصہ بنایا گیا تھا۔ تاہم 1841ء میں چینی اور تبتی سپاہیوں نے تویو کے معرکے جنرل زورآور سنگھ اور اس کے چار ہزار سپاہیوں کا صفایا کر دیا تھا ۔ 1842ء میں چینی شہنشاہ، دلائی لامہ گرو اور گلاب سنگھ کے درمیان چوشل معاہدہ ہوا جس میں یہ طے کیا گیا کہ لداخ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں قدیم زمانے میں طے ہونے والی سرحدوں میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا اورپرانی روایات کے مطابق لداخ کے راستے سے سالانہ تجارت کے اجازت دے گا۔ راجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد جب سکھ سلطنت زوال پذیر ہوئی تو گلاب سنگھ نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے تعلقات استوار کر لیے اور 1845-46ء کی اینگلو برٹش جنگوں سے خود کو دور رکھا تھا۔ تب ہی کمسن سکھ راجہ کے ساتھ ہونے والے لاہور معاہدے کے تحت گلاب سنگھ کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے مذاکرات کی آزادی ملی اور1846ء کے امرتسر معاہدے کے تحت گلاب سنگھ نے 75 لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض جموں و کشمیر لداخ اور گلگت بلتستان کا علاقہ خرید لیا جو سکھ سلطنت کا حصہ تھے۔یہ اتنی ہی رقم تھی جو برطانوی فوجی مہم پر خرچ ہوئی تھی۔ ڈوگرہ راج جموں و کشمیر پر 1947ء تک قائم رہا۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ یہ ریاست خود مختار تھی۔ جموں و کشمیر میںڈوگرہ راج سے آزادی کی تحریک کا آغاز 1925ء میں اس وقت ہوا تھا جب ہندو راجہ ہری سنگھ 77 فیصد مسلم آبادی کا راجہ بنا تھا۔1932ء میں نوجوان رہنما شیخ محمد عبد اللہ کشمیر کے سیاسی افق پر ابھرے ۔ 1931ء سے لے کر آج تک کشمیری مسلمان ہر طرح ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ان کی تحریک آزادی ابھی تک جاری ہے۔ 1947ء کے فسادات کے اثرات جب جموں و کشمیر پہنچے تو جموں میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور زیادہ تر مسلمانوں کو پاکستان کی جانب پر دھکیل دیا گیا۔ راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے ملنے کا فیصلہ کرکے بھارتی فوج کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں آمد کا راستہ تو کھول دیا لیکن نہرو نے اسے ریاست اور اقتدار سے محروم کر دیا اور نہ ہی شیخ محمد عبداللہ سے کیے گئے وعدے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو خود مختاری ہی دی۔ پاکستانی فوج اور قبائلیوں نے آزاد کشمیر کوبھارتی شکنجے سے بچا لیا جبکہ گلگت بلتستان کے اسکائوٹس نے راجہ ہری سنگھ کا اقتدار ختم کرکے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ کشمیر کی جنگ کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ کا رخ کیا لیکن وہاں سے استصواب رائے کرانے اورفوج کی تعداد کم سے کم سطح تک لانے کے حق میں قرار داد منظور ہو گئی جس پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ستمبر 1948ء میں پاکستان نے اسکردو پر قبضہ کر لیا جبکہ بھارتی فوج نہرو کے احکامات کے مطابق دراس، کارگل اور زوجیلا پاس سے آگے جانے سے گریز کیا ۔ معروف صحافی کلدیپ نائر نے اپنے ایک انٹرویو میں اس آپریشن کے انچارج جنرل کلونت سنگھ کے حوالے سے بتایا کہ جب انہیں مزید پیش قدمی کے احکامات نہیں ملے تو انہوں نے کسی سے پوچھا کہ ہم یہاں کیوں رک گئے ہیں ؟تو اس نے نہرو کے حوالے سے اس لائن کے بارے میں بتایا کہ وہاں تک کشمیری بولنے والے کشمیریوں کی آبادی ہے اس سے آگے کشمیری بولنے والے پنجابیوں کی آبادی ہے تو ہم اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتے۔شیخ محمد عبداللہ نے نہرو کو بتایا تھا کہ اس کا اثر و رسوخ کشمیری بولنے والوں سے آگے نہیں ہے۔ لہٰذا نہرو ایسے علاقے میں گئے جہاں شیخ عبداللہ کی کوئی حمایت نہیں تھی۔ کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ اگر بھارتی فوج اس پر قبضہ کر لے گی تو وہ بھارت میں شامل ہو جائیں گے۔ بھارت میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن سابق بھارتی جنرل بھی یہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کا مطلب اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ جموں و کشمیر اورلداخ کی تاریخ بتاتی ہے کہ معاملات اس طرح طے نہیں ہو سکتے جس طرح بھارتی انتہا پسند حکمراں کرنا چاہتے ہیں۔ لداخ میں چین کی سرحد بالآخر ہزاروں برس کے تاریخی تناظر میں ہی طے ہوگی اور بھارتی فوج کو جنرل زورآور سنگھ کی فوج جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جموں میں مسلم آبادی کا تناسب کم ہو چکا ہے لیکن مقبوضہ وادی میں تحریک آزادی کو کچلا نہیں جا سکا ہے۔ شاید کشمیری یہ لڑائی جمہوری اور قانونی طریقے سے لڑنا چاہتے ہیں لیکن بھارت ہر طرح سے ان کی آواز دبانا چاہتا ہے۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات ہوئے ہیں جس میں لوگوں کی ووٹنگ میں حصہ لینے پر کہا جا رہا ہے کہ فوجی آپریشن اور آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد کشمیریوں نے بھارتی جمہوریت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اسے کشمیریوں کی کشمیری اداروں پر کنٹرول حاصل کرنے کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہونے والے ڈسٹرکٹ کونسل کے انتخابات میں کشمیر کی چھ مقامی جماعتوں کے اتحاد نے 96 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ بی جے پی کو 70 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ نئی سیاسی جماعت اپنی پارٹی کو 10 نشستوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ 7 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ چھ جماعتی اتحاد میں نیشنل کانفرنس کو مقبوضہ کشمیر میں سب سے زیادہ 56 نشستیں ملی ہیں جبکہ بی جے پی کو 70 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ مقبوضہ وادی میں مقامی جماعتوں کی کامیابی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے آرٹیکل 370 اور 35A کی تنسیخ کے فیصلے، غیر قانونی حراستوں، انٹیلی جنس اداروں کی دھمکیوں اور دبائو کو مسترد کرکے اپنے امیدواروں کو جتوایا ہے جبکہ جموں میں بی جے پی کو جموں میں بڑی کامیابی ملی ہے۔ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جموں اور کشمیر بھی علیحدگی کی طرف جا رہے ہیں۔ ان دنوں بھارتی سامراج کشمیری مسلمانوں کا معاشی قتل عام کرنے کی کوشش میں ماحولیاتی تباہی پر اتر آیا ہے۔ ایک طرف دنیا میں بدلتے موسموں اور سکڑتے جنگلات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں سیب کے درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ صرف ضلع بڈگام میں ہی جنگلات میں تجاوزات کے نام پر دس ہزار سے زیادہ سیب کے درخت کاٹے گئے ہیں۔ جنگلات میں سیکڑوں برس سے آباد گجر اور بکروال مسلم کمیونٹیز کے عارضی ہٹس بھی مسمار کیے جا رہے ہیں۔ اب ان غریب لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ جنگلات کی جن زمینوں پر باغات لگانے پر کبھی ڈوگرہ راجہ یا کشمیر کی حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا وہ اچانک غیر قانونی قبضہ کیسے بن گیاہے؟ ان غریب مسلمانوں کو اصل صدمہ پھل دار درختوں کی بے دردی سے کٹائی سے ہواہے جن کی انہوں نے اپنے بچوں کی طرح برسوں نگہداشت کی تھی۔ مقبوضہ وادی میں پھل دار درختوں کی کٹائی کا سلسلہ تو آرٹیکل 370کے ختم ہوتے ہی شروع کر دیا گیا تھا جبکہ بھارتی خفیہ فورس کے اہلکار پھلوں کے تاجروں کو قتل دھکمیاں دیتے رہے ہیں۔ اب غریب دیہاتیوں کو محکمہ جنگلات کی طرف سے نوٹس بھیجے جا رہے ہیں کہ وہ 15 دن میں اپنی ملکیت کا کوئی دستاویزی ثبوت پیش کریں ورنہ سب صاف کر دیا جائے گا۔ اس زیادتی کے پیچھے بھارتی ہائی کورٹ ہے جہاں شکیل احمد نامی وکیل نے SAVE (Save Animal Value Environment) کے نام سے کیس دائر کیا تھا جس میں ڈیری فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی بات کی گئی تھی۔ لیکن بھارتی ہائی کورٹ نے جنگلات کی زمین پر تجاوزات کا از خود نوٹس لے لیا جس کے جواب میں محکمہ جنگلات نے بتایا کہ اس کی 43,750 ایکڑ زمین پر 64 ہزار افراد نے تجاوزات بنا لی ہیں۔حالانکہ جنگلات میں رہنے اور کام کرنے والوں کے حقوق کے تحفظ کرنے کے لیے (Recognition of Forest Rights) Act, 2006 موجود ہے جو جنگلات کی زمین پر لوگوں کے باغات اوررہائش کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن مودی سرکار نے تجاوزات کے نام پر کشمیری مسلمانوں کے باغات کاٹنے کا سلسلہ پوری وادی میں شروع کر دیا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جنگلات میں آباد غریب مسلمان شہری علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اگر بھارتی حکومت نے انسداد تجاوزات کے نام پر مہم چلائی تو جنگلات میں آباد 10 لاکھ مسلمان خاندان معاشی طور پر برباد ہو جائیں گے۔ بھارت میں کہیں نہ کہیں یہ سوچ موجود ہے کہ جموں اور کشمیر کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے وادی کو محصور کر دیا جائے ، پٹھان کوٹ کا علاقہ مشرقی پنجاب سے نکال کر جموں میں شامل کر دیا جائے۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے حامی مقبوضہ وادی میں مسلم آبادی کا توازن بدلنے کے لیے ریٹائرڈ سکھ اور گورکھا فوجیوں کو مقبوضہ وادی میں زمینیں الاٹ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں یعنی اونچی ذات کے ہندو اپنی خواہشات دوسرے مذہب کے لوگوں کو لڑوا کر پوری کرنا چاہتے ہیں جن کا کشمیری مسلمانوں سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہندوئوں کے بجائے بھارتی مسلمانوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمینیں خرید کر آباد ہونا شروع کر دیا تو کیا بھارتی حکومت انہیں مذہب کی بنیاد پرمقبوضہ جموں و کشمیرجانے سے روک سکے گی ؟
بھارتی غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں مہلک ”پیلٹ گنوں“ کے بے دریغ استعمال سے اب تک درجنوں افراد شہید جبکہ سینکڑوں نوجوان اپنی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج نے مقبوضہ علاقہ میں تحریک آزادی کو دبانے کے لئے نہتے نوجوانوں پر مہلک ”پیلٹ گنوں“ کا بے دریغ استعمال کیا ہے، پیلٹ گنوں کے استعمال سے اب تک 11ہزار4 سوکشمیری نوجوان زخمی ہوئے ہیں جن میں سے سینکڑوں نوجوان اپنی بینائی سے محروم ہوئے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں دو ہزار سے زائد نوجوانوں کی آنکھیں پیلٹ گنوں سے مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ بھارتی غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں جولائی 2016 میں نوجوان مجاہد کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد27 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ ان میں سے سینکڑوں کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں نظر بند کیا گیا۔
بھارت مقبوضہ علاقہ میں نوجوانوں کا قتل عام کررہا ہے اور مطالبہ آزادی کی پاداش میں لوگوں کی بینائی چھینی جارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 اگست 2019 کے ظالمانہ اقدام سے قبل مقبوضہ کشمیر میں بڑی تعداد میں نوجوانوںکو پیلٹ گن سے شہید کیا گیا اور عالمی برادری نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارتی غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں مہلک پیلٹ گنوں کا استعمال ایک جنگی جرم ہے۔
28 اگست 2020 کو بھارتی فورسز نے سری نگر میں پرامن مذہبی جلوس پر پیلٹ گنوں سے فائرنگ کی جس سے 40 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے متعدد کی بینائی متاثر ہوئی۔ بھارت نے کشمیریوں کے خلاف پیلٹ فائر کرنے والی شاٹ گن کا استعمال 2010 میں شروع کیا لیکن یہ معاملہ 2016 میں بین الاقوامی سطح پر اس وقت نمایاں ہوا جب برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں ہزاروں کشمیری نوجوان زخمی ہوئے جن میں سے سینکڑوں اپنی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔
اس دوران بھارتی قابض فوج نے70 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اگست 2019 میں جب بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخ کیا تو اس کے خلاف کشمیریوں نے احتجاجی مظاہرے کئے جن میں ایک بار پھر پیلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا۔ کشمیر میں ماضی قریب کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ علاقہ میں شاٹ گنوں کا استعمال ترک نہیں کیا بلکہ کشمیریوں سے نمٹنے کے لیے بھارت پالیسی سازوںکا پسندیدہ ہتھیار پیلٹ گن ہی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی قانون کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ شہریوں کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے ان پر شاٹ گن کا استعمال کرے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے حال ہی میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں پیلٹ فائر کرنے والی شاٹ گن کا استعمال بند کرے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کشمیر میں شاٹ گنوں کے استعمال سے مظاہرین کو شدید زخمی کیا ہے۔
کشمیر میں شاٹ گنوں کے چھروں اب تک سے ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں جن سے لوگوں کی بینائی بھی متاثر ہوئی۔ بھارتی وزارت داخلہ نے فروری 2018 میں پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ کشمیر میں 2015 اور 2017 کے درمیان مہلک ”پیلٹ گنوں“ کے چھروں سے 17 افراد شہید ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سال جون میں بھارت سے کہا تھا کہ وہ کشمیری بچوں پر پیلٹ گن کا استعمال بند کرے۔
بھارتی فوج نے کشمیریوں کو دبانے کے لیے پیلٹ گن کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے کہا کہ بچوں کے خلاف پیلٹ گنوں کا استعمال بند کیا جائے، اس سنگین صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ تنازعات والے علاقوں بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں بچوں کی حفاظت کے لیے فوری کارروائی کرے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں بچوں کو جان بوجھ کر پیلٹ گنوں سے نشانہ بنا رہی ہے۔ کشمیری عوام اور بھارت میں رہنے والی اقلیتوں نے 70 سال سے زائد عرصہ سے بھارت کا ظلم برداشت کیا ہے اور عالمی برادری اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو حل اور مقبوضہ علاقہ میں ریاستی دہشت گردی بند کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے ۔
بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اورجغرافیائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ ’جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر۲۰۲۰‘ کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔
ماضی میں ۳۵-اے کے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بنکوں، بھارتی یونی ورسٹیوں کے اہل کاروںکے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذالعمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں مشتہر کردہ اور غیر مشتہر شدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغامات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے کہ ’’ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘‘۔
وزیراعظم پاکستان نے اس قانون کو’’ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے اسے ’’چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘، اور ’’بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے‘‘۔آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم فاروق حیدرنے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔
اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اتر رہی ہے تو جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر سامنے کھڑا نظر آیا۔
اس خطرےکو جموں میں پوری طرح محسوس کرتے ہوئے جموں کے علاقے کے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ ’کورونا وائرس‘ کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول کو اُبھرتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے فوراً ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ’’گریڈ ایک سے ۱۷ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی‘‘۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔
اس دوران بھارت میں آباد کشمیری پنڈت اور معروف اداکار انوپم کھیر نے کشمیری زبان میں کشمیری مسلمانوں کو ایک زہر آلود پیغام دیا ہے۔ یادرہے انوپم کھیر مسلمان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہائی قریب ہے۔ اس نے کشمیری زبان کے تین الفاظ ’’رلو(ہم سے مل جاؤ)، گلیو (مرجاؤ)، ژلیو(بھاگ جاؤ)‘‘ پر مشتمل پیغام میں کشمیری مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’تمھیں بھارت میں گھل مل جانا چاہیے، بصورتِ دیگر تمھارے سامنے مرنے یا بھاگ جانے ہی کے دوراستے ہیں‘‘۔ انوپم کھیر کی یہ سوچ ایک فرد کے خیالات کی نہیں، بلکہ ایک پورے نسل پرست فسطائی نظام اور نفرت انگیز ذہنیت کی عکاس ہے، اور بھارتی حکومت کے تمام اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ اس سوچ میں وہی ہٹلر، مسولینی اور راتگو ملادیچ جھلکتے اور جھانکتے نظر آرہے ہیں، جن کی جانب حکومت ِ پاکستان ۵؍ اگست کے بعد سے دنیا کی توجہ مبذول کراتی آئی ہے۔
بھارت کے نئے قانونِ کشمیر پر بھارت کا اصل اور طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین اسٹائل پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اور مسلم شناخت کو آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے ذریعے بدلنا تھا۔ بھارت ۷۱برس تک اس راستے پر کبھی کچھوے، تو کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نریندر مودی نے اس سمت میں خرگوش کی چال سے پیش قدمی کرنا شروع کی ہے۔
بھارت جس طرح کشمیر میں اپنا ایجنڈا یک طرفہ طور پر نافذکرنا چاہتا ہے، یہ دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ امریکا اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ٹھوس بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اب بھارت نے کورونا کا فائدہ اُٹھا کر اس جانب عملی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ یہ کشمیری مسلمان آبادی کو اپنے علاقے میں اقلیت میں بدلنے کی جانب اُٹھایا جانے والا ایک ٹھوس قدم ہے۔ اس کے بعد بھارت کے بڑے کاروباری گروپ کشمیریوں سے اونے پونے داموں زمینوں کی خریداری کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کردیں گے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی مدتوں سے نشان دہی کی جاتی رہی۔ بھارت کی اس منظم کوشش کو حالات کی قید میں پھنسے صرف کشمیری ناکام نہیں بنا سکتے۔ اس کام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس سلسلے میں بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔
……………….

سید علی گیلانی کا خدشہ؛کرتارپور کے بعد شاردہ مندر
کو ہندوؤں کے لئے کھولنے کی تجویز کی مخالفت

گذشتہ دنوں خبر آئی کہ ’’پاکستانی پنجاب میں گوردوارہ کرتار پور کے درشن کی خاطر، سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت، جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے ’شاردا پیٹھ مندر‘ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔ اس کے مضمرات کا جائزہ لیے بغیر، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف، خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والوں کی باچھیں کھل گئیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد میں بھی کریڈٹ لینے کے لیے ماحول خاصا گرم ہوا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ذرائع کے حوالے سے بیان داغا کہ: ’’کرتار پور اور شاردا کو زائرین کے لیے کھولنے کی تجویز تو بھارت نے کئی عشرے قبل پیش کی تھی، مگر اسلام آباد ہی ٹالتا رہا تھا‘‘۔

کرتار پور سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے بھارت اصرار کررہا تھا کہ گوردوارہ کرتار پور جانے کے لیے سبھی بھارتی شہریوں کو راہداری ملنی چاہیے۔ آخری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس شرط کو منظور کرلیا ہے۔ ان سے نہیں پوچھا کہ آخر کیرالا میں گورو دہار، اڑیسہ میں جگن ناتھ، اتر پردیش میں کاشی وشواناتھ جیسے بے شمار مندروں میں غیرہندوؤں کا داخلہ کیوں ممنوع ہے؟
پھر بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ: ’’جب شاردا پر بات چیت کا عمل شروع ہوجائے گا، تو نہ صرف جموں و کشمیر کے پنڈتوں، بلکہ سبھی بھارتی شہریوں کے لیے راہداری کھلنی چاہیے‘‘۔
چند برس قبل ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ(RSS) کی ایک شاخ کی طرف سے دہلی اور جموں میں ایک تقریب میں آزاد کشمیر کے کسی فارسٹ کنزویٹر رئیس احمدکی طرف سے بذریعہ ڈاک ارسال کی گئی، ’شاردا پیٹھ مند ر‘ کی مٹی کی پوجا کی گئی۔ اس موقعے پر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ تقریریں بھی ہوئیں۔ مقررین نے لائن آف کنٹرول کو کھولنے کا مطالبہ کیا، تاکہ بھارت سے ہندو زائرین جوق در جوق اس مندر کی زیارت کرسکیں۔ (ویسے تو اس کنزویٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے کہ آثارِ قدیمہ کی ایک یادگار کی اس نے غیرقانونی طور پر کھدائی کر کے مٹی کیوں نکالی)۔ مظفر آباد سے ۱۵۰کلومیٹر اور سری نگر سے ۱۳۰کلومیٹر دُور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات کو، کشمیر کی مبینہ طور پر پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا گواہ قرار دیا جارہا ہے، جو نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ہے۔ چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب ’گزیٹئر آف کشمیر‘ ترتیب دیا، تو اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعہ سے ۴۰۰گز کی دُوری پر ایک مندر کے کھنڈرات ملے۔ بیٹس اور والٹر لارنس ، جنھوں نے کشمیر کے قریہ قریہ گھو م کر معمولی سے واقعات تک قلم بند کیے ہیں، انھوں نے کہیں بھی ’شاردا مندر کی یاترا ‘کا ذکر نہیں کیا ہے۔
بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی آج کل تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَز سرِ نو لکھنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندو ں کا خاصہ ہے، لیکن پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں ، جن پر اپنے آپ کو اعتدال پسند اور روشن خیال کہلوانے کا خبط سوار ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ: ’۱۹۴۷ءسے قبل امر ناتھ کی طرز پر اس علاقے میں بھی ہندو یاترا ہوتی تھی‘۔ اگر ایسا ہوتا تو لارنس اور بیٹس کے گزیٹئر میں اس کا ضرور ذکر ہوتا۔
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کے آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بدھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ اور وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے رہتے تھے۔ اس خطے میں اسلام کی عوامی پذیرائی کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ قبل مسیح میں سریندرا پہلا بدھ بادشاہ تھا۔ ۲۳۲قبل مسیح اشوکا کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوازم قبول کیا، تو اس نے بدھ مت پر ایک قیامت توڑ دی۔ بدھ اسٹوپوں اور دانش گاہوں کو تاراج کرکے شیو مندر بنائے گئے۔ ۶۳ء میں دوبارہ بدھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجہ کنشک کے عہد میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بدھ کونسل منعقد ہوئی اور بدھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جو چین اور کوریا میں آج بھی رائج ہے۔ ساتویں صدی میں چینی سیاح اور بھکشو ہیون سانگ جب یہاں سیر کے لیے آیا تو اس کے مطابق: ’سرینگر سے وادی نیلم کے علاقے میں سو بدھ عبادت گاہیںاور پانچ ہزار بھکشو موجود تھے‘۔ بد ھ مت کو چیلنج دینے کے لیے آٹھویں صدی میں کیرالا کے ایک ہندو برہمن آدی شنکر نے بیڑا اٹھایا۔ پورے خطے میں گھوم پھر کر اس نے ہندو ازم کا احیا کرایا۔ جہاں اس نے بدھ بھکشو وں کے ساتھ مکالمہ کرکے ان کو ہرایا، وہاں اس نے ’شاردا‘ یعنی ’علم کی دیوی‘ کے نام پر چند مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریاے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔
اگرچہ اس علاقے کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا موقع فراہم کرنے میں بظاہر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر جو لوگ اس کی وکالت کر رہے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ سال بہ سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ اس یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو دراصل ہندوئوں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی ابھار نا ہے، تاکہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مزید مستحکم بنانے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے تو کشمیر کو سیاسی مسئلےکے بجاے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ’’اس مسئلے کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقے میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔
ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷ سال کی مسلم تاریخ کو ایک ’تاریک دور‘ کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو فارسی سے دوبارہ ’قدیمی شاردا‘ میں تبدیل کرنے کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ: ’’اگر کشمیری کا اسکرپٹ واپس شاردا میں لانا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا اسکرپٹ بھی تبدیل کرو۔ کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی‘‘۔
امرناتھ علاقے میں ۱۹۹۶ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے ۲۰۰ سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ ’ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میںکرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ضابطے کا پابند بنانے کی جب کوشش کی، تو بزعم خود ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب ۲۰۰۵ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافے کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کی طرح آج امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میںلاکھوںیاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لیے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی یہاں پر یاتریوں کے لیے ایک ٹریک بنانے کا حکم دے ڈالا، مگر دوسری جانب یہی عدالت دیگر مقدمات میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔
سابق گورنر ایس کے سنہا تو ہر تقریب میں اعلان کرتے تھے کہ: ’’مَیں اس علاقے میں ہندوئوں کے لیے مخصوص ‘شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘‘۔ اسی لیے انھوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سپرد کیا تھا۔ اس فیصلے نے ۲۰۰۸ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ ’امرناتھ مندر بورڈ‘ کے خلاف، وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ ۱۸۶۰ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا، مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے آرہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالاںکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوئوں کے اس مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔ جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور ’امرناتھ شرائن بورڈ‘ کے سربراہ ارون کمار نے یہاں چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوںسے ان کا روزگار بھی چھین لیا۔ جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے، انھی سے’جزیہ‘ وصول کرنا شروع کردیا۔ اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۵ء میں جب حرکت الانصار نامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے ۱۲دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔
بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔۲۰۰۵ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا کہ: ’’اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجاے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے اگرچہ بیشتردریائوں اورندیوں کے منبعے یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ہی اتراکھنڈ صوبے میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے وہاں پر اس وقت ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف ۲۵۰ سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبعے گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کے برعکس سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ موازنہ کریں، تو وہاں ہر روز امرناتھ یاترا کے نام پر اوسطاً۲۰ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔
نتیش سین گپتا کمیٹی نے ۱۹۹۶ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ: ’’امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی۔اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔۲۰۱۸ء میں تقریباًساڑھے چھے لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آیندہ برسوں میں یہ تعداد ۱۰لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ: ’’یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف ۳ہزاریاتریوں کو ٹھیرانے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہلگام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، ۲۰ہزار سے ۵۰ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ: ’’ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیش تر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہیے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطۂ نگاہ کے بجاے سائنسی نقطۂ نگاہ سے غور کرے‘‘۔ آزادکشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانش وروں اور زعما سے بھی گزارش ہے کہ جو’ شاردا پیٹھ‘ کو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کر رہے ہیں: ’’کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیںاور حریص طاقتیںان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کر کسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں‘‘۔ روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اس کے ساتھ شرارت کی نیت سے اگر بے ضمیری شامل ہوجائے تو یہ زہر ہلاہل بن جاتی ہے!
………………….

کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کی دشمن تنظیم
آر ایس ایس۔ اور سید علی گیلانی کی تنبیہ

سید علی گیلانی عرصہ دراز سے آر ایس ایس نامی دہشت گرد تنظیم اور اس کے حواریوں کی مسلمان دشمن کارروائیوں پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ کئی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں، یعنی جرمنی کی ’کرسچن ڈیموکریٹ‘ یا برطانیہ کی ’ٹوری پارٹی‘ سے تشبیہہ دے کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو نسل پرستوں کی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس)کے پاس ہے، جو بلاشبہہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے۔ جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ’ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ: ’ہنگامی صورت حا ل میں ہماری تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفے میں ۲۰لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جب کہ فوج کو ’لام بندی‘ (اپنے سپاہیوں کی تیاری) میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں‘‘۔ دراصل وہ یہ بتا رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔ 

معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں اپنی ۵۰۰صفحات پر مشتمل جامع، تحقیقی اور گہری تصنیف A Menace to India The RSS:میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹ ورڈبکس نے مارچ ۲۰۱۹ء میں شائع کیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کے لیڈر روز مرہ کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقت ور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس ہی کا نمایندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیاتھا، یعنی آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ ’کنواروں‘ پر مشتمل ہے۔
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبے میں کئی ’شاکھائیں‘ ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ ’شاکھائیں‘ دفاعی اور جارحانہ مشقوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کا اہتمام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار ’راشٹریہ سہکرواہ‘ یعنی سیکرٹری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چھے تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں: کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے، اس کا غیرشادی شدہ یا گھریلو مصروفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیراعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔
اے جی نورانی کے بقول: ’’اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر استوار ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجاے، آر ایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں جَن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی‘‘۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا‘‘۔
نورانی صاحب کے بقول: ’’آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰۰سے زائد شعبہ جات الگ الگ میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (بالفاظ دیگر غنڈا گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانش وروں کے لیے وچار منچ، غرض یہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصے سے آر ایس ایس نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انھیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے اسکولوں اور کالجوں ہی سے طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس وقت کُل شاخوں کی تعداد کم وبیش۸۷۷ ۸۴, ہے۔ گذشتہ برس ۲۰سے ۳۵سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔ بھارت کے ۸۸ فی صد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔
’’بھارت سے باہر کے ممالک میں ان کی ۳۹ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ’ہندو سوئم سیوک سنگھ‘ (HSS)کے نام سے کام رہی ہیں۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ پھر امریکا میں اس کی شاخوں کی تعداد۱۴۶ ہے اور برطانیہ میں ۸۴شاخیں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقا تک پھیلا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندا خودعرب ممالک ہی سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے ۲۰ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، حالاں کہ ان ممالک میں آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہی کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں‘‘۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر سے گفتگو کے دوران مَیں نے پوچھا کہ: ’مسلمان، جو بھارت کے صدیوں سے رہنے والے شہری ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے‘؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘۔ میں نے پوچھا کہ: ’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘ توان کا کہنا تھاکہ: ’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐاسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوںنے کہا کہ: ’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘۔
’گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگ پور چلا گیا جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے انھیں قائل کرنا تھا۔ اس وفد کے ایک رکن نے بتایا: ’’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘ جواب میں سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ: ’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہیں کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ یہ بات کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘۔ ’اسلام ہی حق‘ ہے، کے بجاے ’اسلام بھی حق‘ ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ تاہم، آرایس ایس اُس وفد کواس بات پر قائل نہیں کرسکی کہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے واقفیت رکھتے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔

کشمیر کی آزادی کی تحریک کو سید علی گیلانی
کی سوچ کے مطابق کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟

دنیا میں آزادی کی جتنی بھی تحریکیں چل رہی ہیں ان کا تقابلی جائزے لیا جائے تو کشمیریوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں لیکن ان کی تحریک طویل سفر اور لازوال مالی و جانی قربانیوں کے بعد خاتمے کی طرف گامزن ہے۔

انیس سو 80 کی دہائی میں فلسطین سمیت دنیا کے بہت سے خطوں میں آزادی کی تحریکیں عروج پر رہیں اور کئی ملک اور قومیں آزاد بھی ہوئے جبکہ 27 سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ کی ممبر شپ بھی حاصل کرلی لیکن جن تحریکوں کے ساتھ مسلم کا نام آیا وسط ایشیا کے علاوہ وہ سب آج بھی منجدھار میں پھنسی ہیں۔
بھارت میں کئی تحریکوں نے سر اٹھایا۔ ان میں سکھوں کی خالصتان تحریک نے جرنیل سنگھ بھندراں والا کی قیادت میں خاصی قوت حاصل کی۔ اندرا گاندھی کے دور حکومت میں آپریشن بلیو اسٹار کے ذریعے یکم تا 10 جون 1984 سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کرتے ہوئے عمارت زمین بوس اور جرنیل سنگھ بھنڈراں والہ سمیت کئی سو افراد کو ہلاک کیا گیا۔ سن 1981 سے اب تک سکھوں کی آزادی کی تحریک میں کل 21 ہزار 687 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ایک ہزار 764 فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ لگ بھگ 20 ہزار افراد کی قربانی سے سکھ تحریک دنیا بھر میں پھیل چکی۔ اس عشرے کے دوران بھارت میں دیگر جن آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا ان میں مختلف ریاستوں میں ماؤ نواز تحریک زیادہ مقبول ہے۔ نکسلائیٹ تحریک کا آغاز نکسل پارٹی نے کیا تھا جو اب بھارت کی 20 ریاستوں آندھرا پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، ہریانہ ، جھارکھنڈ ، کرناٹک ،کیرالا ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڈیسہ ، راجستھان، تامل ناڈو، تلنگانہ ، اتراکھنڈ اور مغربی بنگال تک پھیل چکی۔ بھارتی فورسز کو سب سے زیادہ نقصان نکسل جنگجوؤں نے پہنچایا۔ ان کے پاس جدید اسلحہ راکٹ لانچرز انٹی گن میزائل اور جدید ذرائع کمیونیکیشن بھی موجود ہے۔ اتنے وسیع رقبے پر پھیلی نکسل تحریک میں اب تک مرنے والوں میں 3 ہزار 857 عام شہری، 2 ہزار 615 فورسز اہلکار، 4ہزار 114 علیحدگی پسند اور 252 دیگر افراد شامل ہیں۔ تحریک سے متعلقہ 4 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ انہوں نے ڈھائی ہزار فوجی ہلاک کیے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک میں مجموعی طور پر لگ بھگ 7 لاکھ انسانوں کی جانیں قربان ہوئیں اور 4 اکتوبر 1947 تا 6 نومبر 1947 صرف 4 ہفتوں کے دوران پونے دو لاکھ افراد کو سرکاری سرپرستی میں جموں شہر سے بسوں میں بھر بھر کر جنگلوں اور ندی نالوں میں لے جا کر مارا گیا۔ جب خون آلود بسوں کو ندی نالوں میں دھویا جاتا تو جموں شہر کے قریب سے گزرنے والی نہر خون سے سرخ اور گوشت کے لوتھڑے پانی میں بہتے نظر آتے۔جبکہ 80 کی دہائی سے اب تک سب سے زیادہ مالی و جانی نقصان بھی کشمیریوں ہی کا ہوا اور 95 ہزار 790 افراد شہید ہوئے جن میں 904 بچے بھی شامل ہیں۔اس دوران 22 ہزار 9 سو 10 خواتین بیوہ اور ایک لاکھ 7 ہزار 8 سو 80 بچے یتیم ہوئے۔ اسی عرصے میں بھارتی فورسز نے 11 ہزار 175 خواتین کا ریپ کیا۔ ایک لاکھ 43 ہزار 48 افراد کو گرفتار کیا گیا اور 7 ہزار 99 افراد دورانِ حراست شہید کیے گئے۔ ایک لاکھ 8 ہزار 596 رہائشی مکانوں اور دیگر تعمیرات کو نذر آتش کیا گیا۔
جولائی 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج نے 20 ہزار 873 عام شہریوں کو زخمی کیا۔ پیلیٹ گنوں کے بے دریغ استعمال سے 8 ہزار 355 زخمی اور ان کے چہرے داغ دار ہوئے جبکہ 73 افراد بینائی سے مکمل اور 207 ایک آنکھ سے محروم ہو گئے۔ کل 974 نوجوانوں کی دونوں آنکھیں زخمی اور 80 فی صد بینائی متاثر ہوئی۔ اسی دوران 18 ہزار 990 افراد گرفتار ہوئے۔ پانچ سو سے زائد مزارِ اور مساجد کو شہید اور ایک لاکھ 94 ہزار 451 املاک کو تباہ کیا گیا۔ مسلسل لاک ڈاؤن، کرفیو، ہڑتالوں اور مسلحہ جھڑپوں سے کشمیر کی معیشت کو ایک ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچا، 14 ہزار سے زائد افراد پر ٹارچر سیلوں میں تشدد کیا جا رہا ہے، دو نامور اور معروف رہنماوں مقبول بٹ، اور افضل گرو کو پھانسی دی گئی۔ 10 ہزار افراد لاپتی کر دیے گئے جبکہ انتظامیہ 4 ہزار کا اعتراف کرتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں اجتماعی گم نام قبریں نشان دہی کرتی ہیں کہ یہ قبریں انہی معصوموں کی ہو سکتی ہیں۔
اتنے زیادہ جانی و مالی نقصان کے باوجود قابض بھارت پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا۔ قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روزانہ کا معمول ہے۔ کشمیری قربانیاں تو دے رہے ہیں لیکن اپنی تحریک کو آزادی کی تحریک تسلیم کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اب بھی دنیا میں ایک قوم کی آزادی کا نہیں جنوبی ایشیا میں دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔
قومی آزادی کی تحریک اور دو ملکوں کے درمیان تنازعے میں بہت زیادہ فرق ہے جس وجہ سے تحریک توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ اس میں قصور دونوں جانب کی کشمیری قیادت کا ہی ہے۔ سن 1947 میں دونوں جانب کی کشمیری قیادت یہ سمجھی کہ ان کے مقاصد پورے اور منزل مل گئی۔ بھارت پر بھروسہ شیخ عبداللہ کی بے وقوفی اور کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ قبل از وقت تھا۔ اس غلطی کا بعد میں آنے والی قیادتوں نے یا تو ازالہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی یا وہ ویژن سے عاری تھیں۔
کے ایچ خورشید نے جب آزاد کشمیر تسیلم کرنے کا نظریہ دیا تو ایک بڑے گروپ نے ذاتی مفادات کے لیے پاکستان کے ذمہ داروں اور کشمیری عوام کو گمراہ کیا جس سے تحریک آزادی کشمیر کو نقصان ہوا سو ہوا، پاکستان کو بھی بہت بڑا نقصان ہوا۔ اگر اس وقت کے ایچ خورشید کے خلاف سازش اور ایک مثبت سوچ کو منفی پروپیگنڈے کے نذر نہ کیا جاتا تو آج پورا کشمیر آزاد ہو کر پاکستان میں شامل ہو چکا ہوتا۔
مقبوضہ کشمیر میں شیخ خاندان کی چالیں عیاں ہونے کے بعد وہاں کے نوجوانوں نے بھارتی فوجیوں کے سامنے سینے کھول دیے لیکن حریت کانفرنس کی سمت پھر بھی درست نہیں تھی کہ ان قربانیوں کے ساتھ بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کر سکے۔ سیاست اور سفارت کاری اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے تھی جس کے لیے آزاد کشمیر کی حکومت ہی واحد پلیٹ فارم ہے۔ عمران خان نے کہا وہ کشمیریوں کے سفیر ہیں، بلاشبہ اچھی سفارت کاری کی لیکن سرحدی تنازعہ کے تناظر میں وزیر اعظم پاکستان اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا، مجاہدین کو اسلحہ نہیں دے سکتا جو بھارت کی 10 لاکھ فوج کو جموں و کشمیر میں ناکام کرنے کے لیے ضروری ہے۔
آزاد کشمیر کی حکومت کشمیریوں کی نمائندہ حکومت ہوتی تو وہ دنیا کے ساتھ امن دوستی ترقی اور برابری کے معاہدے کرتی پھر بھارت خلاف لابی سے اسلحہ لے کر مجاہدین تک پہنچاتی۔ اس پر دہشت گردی کا الزام آتا تو دنیا کو کہا جاتا ہمارے لوگوں کو آزاد کرو جنہیں بھارت نے قید کیا ہوا ہے۔ اس پر یو این او سمیت دنیا بھر میں سفارت کاری کرتی۔ کشمیر کا سفیر کہتا ہم 4 ہزار سال قبل مسیح کی ایک قوم ہیں ہماری زمین پر کیا گیا زبردستی کا قبضہ چھوڑو۔ لیکن پاکستان یہ نہیں کر سکتا نہ یہ کہہ سکتا ہے۔
بھارت دنیا کو کنفیوز کرتا ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے بڑے حصہ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کے لیے بھارت نے کچھ کشمیری خریدے ہوئے ہیں جو یورپ اور جنیوا میں بیٹھ کر بھارتی پروپیگنڈے کی تائید کر رہے ہیں۔ چند ایک آزاد کشمیر میں بھی ہیں۔ اس منفی پروپیگنڈے کے باعث دنیا سمجھتی ہے دونوں ممالک قابض ہیں اور ان کی آپس کی لڑائی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اس لڑائی سے ظاہری طور پر پیچھے ہٹے اور کشمیریوں کو آگے لائے جس اس کے لیے ضروری ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ اسلام آباد سمیت دنیا بھر میں سفارت خانے کھولے جائیں اور دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کے ساتھ رابطے پیدا کیے جائی۔
پاکستان کی حمایت اور سرپرستی کے بغیر کشمیری ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے اور نہ کشمیری پاکستان کے بغیر زندہ رہنا چاتے ہیں لیکن حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ بھارت کشمیر کھا جائے گا ۔ وہ کشمیر کے پانیوں کے رخ موڑنے کی کوشش میں ہے۔ جب وہ ریلوے کے لیے 35 کلو میٹر سرنگ نکال سکتا ہے تو پانی بھارت لے جانے کے لیے 50 کلو میٹر سرنگ نکالنا کون سا مسئلہ ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا بہت آسان ہے مقبوضہ کشمیر کے بغیر پاکستان چلانا بہت مشکل ہو جائے گا کیوں کہ سمندر کے پانی کو صاف کر کے پائپ لائن کے ذریعے اسلام آباد تک لے جانا دشوار گزار مرحلہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی پاکستان کے ذمہ داروں کو درست فیصلہ کرنے اور بروقت سوچنے کہ قوت عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حریت کانفرنس؛
ماضی، حال اور مستقبل کیا؟

سالہا سال کی الگ الگ سیاست اور کشمیر میں بڑھتی ہوئی عسکری کارروائیوں کے بعد جب نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنماؤں نے طے کیا کہ وہ سب مل کر ایک پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کریں گے تو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے مسلمانوں میں امید پیدا ہوئی کہ شاید ان کو ایسی قیادت میسر آ گئی ہے جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد کے ساتھ حق خود ارادیت کی منزل پا لے گی۔ 

اس تناظر میں 1993 میں تشکیل پانے والی آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) اتنی مقبول ہوئی کہ ایک وقت میں اسے ہی آزادی پسند کشمیری عوام کا حقیقی نمائندہ پلیٹ فارم خیال کیا جاتا تھا جو دنیا بھر میں کشمیریوں کا موقف پیش کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔
حتیٰ کہ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) نے بھی اسے مبصر کا درجہ دیا اور تنظیم کے رہنماؤں نے پاکستان سمیت کئی ملکوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ تاہم گذشتہ کچھ برسوں سے یوں لگ رہا ہے کہ حریت کانفرنس منظر نامے سے غائب ہی ہو گئی ہے۔
گذشتہ سال 5 اگست کو انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی علیحدہ آئینی حثییت ختم کر کے عملاً اسے انڈیا میں ہی ضم کر دیا پھر بھی حریت کانفرنس کی طرف سے کوئی خاص سیاسی مزاحمت کیوں سامنے نہیں آ رہی؟ کیا انڈیا نے حریت کانفرنس کو بے اثر کر دیا ہے یا سیاسی لاوا جلد پھٹ پڑے گا؟
حریت کانفرنس کب اور کیسے تشکیل پائی؟
حریت کانفرنس کے بانی رہنماؤں کی اکثریت نے 1987 میں ہونے والے کشمیر کے ریاستی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ تاہم ان کے بقول جس طریقے سے انتخابات میں انہیں وسیع پیمانے پر دھاندلی کر کے ہروایا گیا اس نے انہیں انڈیا کے انتخابی عمل سے مکمل طور پر بدظن کر دیا۔ جس کے بعد انہوں نے آئندہ انتخابی سیاست کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور اس دوران کشمیر میں عسکریت پسندی کو فروغ ملا۔ ان سیاسی رہنماؤں کو انڈیا بھر کی جیلوں میں قید کر دیا گیا۔
1990 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور یہاں انڈیا سے آزادی کی مسلح جدوجہد شروع ہو گئی. دوسری طرف سید علی گیلانی، شبیر شاہ، عبدالغنی لون سمیت تمام اہم کشمیری رہنما بدستور انڈیا کی قید میں تھے اور اطلاعات کے مطابق انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا تھا۔
یہ کشمیریوں کے لیے ایسا دور تھا کہ نئی دہلی میں مقیم کشمیری صحافی افتخار گیلانی کے مطابق جس طرح ہر محلے کی اپنی کرکٹ ٹیم ہوتی ہے اس طرح ڈیڑھ سو کے قریب عسکری تنظیمیں وجود میں آ گئیں اور ان میں سے چند میں ایسے شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے جو کشمیریوں سے ہی اسلحے کے زور پر لوٹ مار اور بھتہ لینے میں ملوث تھے۔
انڈیا کے زیر انتظام پورے کشمیر میں بدانتظامی اور انتشار پھیل گیا اور انڈیا کی حکومت کو محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ سیاسی رہنماوں کو قید رکھنے کے مثبت کے بجائے منفی نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف انڈیا میں مقیم غیر ملکی سفارتکاروں نے بھی دہلی سرکار پر زور دیا کہ سیاسی قیادت کو راستہ دیا جائے تاکہ انتشار ختم ہو سکے اور حکومت اور عالمی برادری کو کشمیریوں سے بات کرنے کے لیے نمائندے مل سکیں۔
ان حالات میں انڈیا کی حکومت 1992 میں مجبور ہوئی کہ تمام کشمیری رہنماوں کو نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں اکھٹا رکھے اور ان کو آپس میں رابطے کی اجازت دے تاکہ صورتحال کو کچھ سنبھالا جا سکے۔ ساتھ قید کے انہی دنوں میں کشمیر کے سیاسی رہنماوں نے ایک پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا ۔پھر دسمبر 1992 میں کشمیر کی جامع مسجد کے امام میر واعظ فاروق کے قتل کے بعد ان کے انیس سالہ صاحبزادے عمر فاروق میر واعظ کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنی رہائش گاہ پرآزادی پسند کشمیری رہنماوں کو اکھٹا کیا تاکہ مشترکہ جدوجہد کا آغاز ہو سکی۔ اس کے چند ماہ بعد 1993 میں حریت کانفرنس وجود میں آگئی جس کے پہلے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق ہی بنے۔
دو درجن کے قریب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد کے دیگر اہم رہنماوں میں سید علی گیلانی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا، پروفیسرعبد الغنی بٹ ( مسلم کانفرنس) اور عبدالغنی لون (پیپلز کانفرنس) اور شبیر شاہ، اور عباس انصاری شامل تھے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک جو پاکستان اور انڈیا دونوں سے آزادی کے حق میں تھے وہ اس تنظیم کا باقاعدہ حصہ نہ بنے مگر سیاسی طور پر اس کے اتحادی بن گئے تاہم بعد میں وہ اس کا حصہ بھی بنے۔ اس طرح ایک ایسا پلیٹ فارم وجود میں آ گیا جسے نہ صرف کشمیری عوام کی حمایت حاصل تھی بلکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہمدردیاں حاصل تھیں۔ پاکستان کی ہی کوششوں سے اسے او آئی سی میں مبصر کا درجہ دیا گیا۔
حریت کانفرنس کا سیاسی اور سفارتی کردار
حریت کانفرنس کے قیام نے نہ صرف کشمیریوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا تاکہ اپنی آواز اور امنگیں دنیا تک پہنچا سکیں بلکہ ریاست کے اندر بھی بدامنی کا خاتمہ کیا اور ایسے جعل ساز جو تحریک آزادی میں شامل ہو کر لوٹ مار کرتے تھے ان کا راستہ رک گیا۔
افتخار گیلانی کے مطابق انٖڈیا کی حکومت اور وہاں موجود غیر ملکی سفارت کاروں نے بھی حریت کانفرنس کے قیام کے بعد کسی قدر سکھ کا سانس لیا کیونکہ اب ان کو معلوم تھا کہ کشمیر میں کوئی مسئلہ ہو تو کس سے بات چیت یا مذاکرات کرنے ہیں۔ ‘جب سید علی گیلانی صاحب کو چھوڑا گیا تھا تو کشمیر کے علاقے سوپور میں انارکی کنٹرول میں آ گئی تھی۔ حریت کانفرنس ایک پوسٹ آفس تھی وہ کشمیریوں کے جذبات کی ترجمان تھی اس کے آنے سے سب سے بڑا فائدہ ہوا کہ بھتہ لینے والی مسلح تنظیمیں بند ہو گئیں۔
پاکستان میں کئی دہائیوں سے کشمیر کے معاملات کی کوریج کرنے والے صحافی سردار عاشق حسین کے مطابق حریت کانفرنس کا بس ایک نکاتی ایجنڈا تھا کہ انڈیا سے آزادی کیسے حاصل کرنی ہے۔ ابتدا میں حریت کانفرنس کو عوام میں اتنی مقبولیت حاصل نہ ہوئی تاہم بعد میں ان کی پکار پر کشمیر میں ہڑتالیں کامیاب ہو جاتی تھیں اور احتجاج میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے۔ سفارتی محاذ پر بھی حریت کانفرنس کامیاب تھی اور حریت کانفرنس کو او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاس میں بلایا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی یوم پاکستان اور یوم آزادی کی تقریبات میں حریت رہنماوں کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔
سردار عاشق کے مطابق حریت کانفرنس کے رہنماوں میرواعظ عمر فاروق، عبدالغنی بٹ اور یاسین ملک نے ماضی میں پاکستان کے دورے بھی کیے ہیں اور یاسین ملک نے تو شادی بھی راولپنڈی سے ہی کر رکھی ہے ان کی اہلیہ مشال ملک پاکستان میں مقیم ہیں اور کشمیروں کے لیے آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ نوے کی دہائی سے پاکستانی رہنما انڈیا کے دورے کے دوران حریت رہنماوں سے ملاقاتیں کرتے آئے ہیں جس پر انڈیا نے بعض اوقات پاکستان سے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔
سنہ 2008 میں انڈیا اور جموں و کشمیر کی ریاستی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جو کہ 1990 کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے اس میں حریت رہنما سید علی گیلانی نے اہم کردار ادا کیا اور ان کی مقبولیت عروج پر پہنچ گئی۔
حریت کانفرنس میں تقسیم
حریت کانفرنس چونکہ مختلف الخیال تنظیموں کا مجموعہ ہے اس لیے اس میں آپس کے اختلافات پیدا ہونا عین فطری تھا۔ تاہم معمولی اختلافات 2003 میں اس وقت شدت اختیار کر گئے جبکہ کشمیری آزادی پسند رہنماوں کا مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق نہ ہو سکا۔ پاکستان کے اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلے کے لیے جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا اسے حریت کے سخت موقف رکھنے والے سید علی گیلانی نے مسترد کر دیا اور انڈیا سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے مطالبے پر ڈٹ گئے۔
تاہم میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کا دوسرا دھڑا مشرف کے موقف پر قائل ہو گیا اور انڈیا کے اس وقت کے وزیراعظم واجپائی اور دیگر حکام سے مذاکرات بھی کئے ۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کو بھی میر واعظ دھڑے کی حمایت حاصل تھی تاہم یہ مذاکرات بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے اور جنرل مشرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کرنے کے فیصلے کے بعد ملکی سطح پر شدید غیر مقبول ہو گئے اور بالآخر انہیں 2008 میں استعفی دینا پڑا اور ان کا فارمولہ ان کے ساتھ ہی تاریخ کا حصہ بن گیا۔
حریت کانفرنس کی تقسیم برسوں قائم رہی حتی کہ 2016 میں حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کا واقعہ ہو گیا اور کشمیر ایک بار پھر مظاہروں اور احتجاج کا مرکز بن گیا۔ اس وقت میرواعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک نے مل کر ایک نیا اتحاد تشکیل دیا جسے جوائنٹ ریزسٹنٹ لیڈرشپ یا جے آر ایل کا نام دیا گیا۔ تاہم بعد میں اس کی تمام قیادت پابندیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے یہ فورم بھی اس وقت غیر موثر ہو چکا ہے۔ اس سال جون میں سید علی گیلانی نے بھی اختلافات کے بعد حریت کانفرنس سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
انڈیا کے حریت کانفرنس کے خلاف اقدامات
گو کہ ابتدا میں انڈیا نے حریت کانفرنس کی تشکیل سے کچھ سکھ کا سانس لیا اور عسکریت پسندوں کے مقابلے میں اس فورم کو کچھ حکومتی رعایتیں بھی ملیں تاہم اس کا آزادی پسند ایجنڈا اور پاکستان کی حمایت کو انڈیا کو قبول نہ تی اور وہ آہستہ آہستہ اس کے رہنماوں کو مقدمات اور دیگر پابندیوں کا شکار کرتا چلا گیا۔
ابتدا میں بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے پر حریت رہنماوں پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں پھر انکی سفری دستاویزات ضبط یا کینسل کی گئیں اور اس کے بعد ایک ایک کر کے قیادت کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ اس وقت سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فارق نظر بند ہیں۔ یاسین ملک 1990 کے پرانے مقدمے میں جیل میں ہیں انکی جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور ان کے خلاف دھشت گردی کے مقدمات میں کاروائی کی جا رہی۔ شبیر شاہ کے خلاف بھی دھشت گردی کے مقدمات بنا کر انہیں جیل میں ڈالا گیا ہے جبکہ حریت کانفرنس کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت بھی جیلوں میں ڈال دی گئی ہے۔ ایسے میں حریت کانفرنس صرف پاکستان سے ہی بیان جاری کر پا رہی ہےکیونکہ انڈیا نے فور جی انٹرنیٹ پر پابندی کے ذریعے نہ صرف ان کے رابطے کے ذرائع منقطع کر رکھے ہیں بلکہ کسی اخبار کو ان کے بیان شائع کرنے کی اجازت نہیں ہے اور خلاف ورزی کرنے والے اخبارات اور صحافیوں کے خلاف انسداد دھشت گردی کے قوانین کے تحت کاروائی کی جاتی ہے۔
حریت کانفرنس کا مستقبل کیا ہوگا
عملا بے اثر کر دینے کے بعد کیا انڈیا حریت کانفرنس کے کردار کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس سوال پر انڈیا میں موجود صحافی افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ صورتحال پھر نوے کی دہائی کی طرف جا چکی ہے جب کہ پانچ اگست کے اقدام اور کشمیر میں لاک ڈاون اور انٹرنیٹ کی پابندیوں اور گرفتاریوں کے بعد ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا نتیجہ انارکی ہوگا۔ ایسا زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ایسے میں انڈیا پھر مجبور ہو گا کہ سیاسی قیادت سے بات کرے انہیں جیلوں سے رہا کرے اور انہیں عوام کی نمائندگی کا حق دے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں۔
سابق حریت رہنما سید علی گیلانی کے پاکستان میں ترجمان سید عبداللہ گیلانی کہتے ہیں کہ پانچ اگست 2019 کے بعد بھی 92 سالہ علی گیلانی شدید علیل ہو کر بھی چپ نہیں بیٹھے، انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو دو خطوط لکھے جن میں سے ایک کا وزیراعظم نے جواب بھی دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حریت کانفرنس ایک جماعت نہیں ایک جذبہ ہے جسے انڈیا نہیں دبا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر کی جدوجہدِ آزادی میں
پاکستان کا کردارسید علی گیلانی کی نظر میں

جنگِ ستمبر1965ء کی بنیاد اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب انڈیا کی قیادت نے انتہائی مکاری سے طاقت کے بل بوتے پر برطانوی جنگی طیاروں کے ذریعے  سری نگر میں اپنی فوجیں اُتار دی تھیں اور کشمیری مسلمانوں کا نہایت بے دردی سے قتلِ عام شروع کر دیا تھا۔

کشمیری مسلمانوں پر گزشتہ ایک صدی سے ہندو ڈوگرہ مہاراجے ظلم ڈھاتے چلے آ رہے تھے۔ اِن مظالم کے خلاف پورے برِصغیر میں بڑے بڑے مظاہرے ہوتے رہے اور1931ء میں علامہ اقبال کی صدارت میں کشمیر کمیٹی قائم ہوئی جس کی اپیل پر ہزاروں کی تعداد میں رضاکار ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوئے جو ڈوگرہ حکومت کی اسلام دشمنی کے خلاف گرفتاریاں پیش کرتے تھے۔ ریاست کی جیلوں میں جگہ نہ رہی تو مہاراجہ کی درخواست پر برطانوی حکومت رضاکاروں کو پنجاب میں گرفتار کرنے لگی۔ یہ عجیب حُسنِ اتفاق تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں پہلا کشمیر ڈے14اگست1931ء کو منایا گیا اور اِسی تاریخ کو پاکستان وجود میں آیا جو ایک دوسرے کے مابین بہت گہرے تاریخی جغرافیائی اور دینی رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔
تقسیمِ ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر رقبے کے اعتبار سے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تھی جس کا رقبہ84 ہزار471 مربع میل ہے۔ اس کی بین الاقوامی سرحدیں تبت، چین، افغانستان اور ایک مختصر علاقے سے قطع نظر روس سے ملتی ہیں۔ یوں اس ریاست کی فوجی اعتبار سے بڑی اہمیت ہے۔1941ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی مجموعی آبادی چالیس لاکھ تھی جس میں 77 فی صد مسلمان تھے۔ اس ریاست کے سلسلہ ہائے کوہ سے نکلنے والے دریا سندھ، جہلم اورچناب پاکستان کے میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے اس پورے علاقے کو ایک جغرافیائی وحدت میں پرو دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست کی سڑکوں اور ریلوے مواصلات کا سلسلہ پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اس کی اشیائے برآمدات و درآمدات یہیں سے گزرکر جاتی تھیں۔ ان حقائق کی بنیاد پر ریاست کے مہاراجہ نے پاکستان سے معاہدۂ قائمہ (Standstill Agreement)پر دستخط کئے جس کا ظاہری مقصد پاکستان کے ساتھ موجودہ تعلقات کا تسلسل قائم رکھنا تھا، مگر درحقیقت یہ معاہدہ ایک مکروہ سازش کا حصہ تھا۔ سازش یہ تھی کہ بھارت کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام قائم کرنے کی مہلت مل جائے اور اس عرصے میں کشمیری مسلمانوں کو ٹھکانے لگایا جا سکے۔ 15اگست 1947ء کو بھارت کی طرف سے مہاراجہ کو پیغام پہنچایا گیا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کی مہم تیزتر کر دے۔
اِس پیغام کے ملتے ہی سفاک ڈوگرا حکومت نے خونریزی کا بازار گرم کر دیا۔ روزنامہ دی سٹیٹس مین کلکتہ کے ایڈیٹر آئن سٹیفنز نے لکھا: گیارہ ہفتوں میں جموں و کشمیر سے پانچ لاکھ مسلم آبادی کا صفایا کر دیا گیا۔ دو لاکھ تو ایسے نیست و نابود ہوئے کہ اُن کا سراغ تک نہیں ملا۔ باقی ماندہ مسلمانوں نے انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں مغربی پنجاب میں بھاگ کر جان بچائی۔ کشمیری مسلمانوں کے قتلِ عام اور وحشیانہ ظلم و ستم کی ہولناک خبروں نے قبائلیوں میں شدید اشتعال پیدا کر دیا اور وہ مہاراجہ کے خلاف جہاد کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ پاکستان پر یہ مشکل آن پڑی تھی کہ اگر قبائلیوں کو ایک ایسے کام سے روکا جائے جسے وہ اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں، تو اس سے پورے قبائلی علاقے میں آگ لگ سکتی تھی۔ اس وقت پاکستانی فوج لاکھوں مہاجرین کے تحفظ اور دیکھ بھال کی عظیم ذمے داریاں سنبھالے ہوئے تھی۔ قبائلی لشکر22اکتوبر 1947ء کو دریائے جہلم عبور کر کے ریاست کی حدود میں داخل ہوا۔ وہ ریاستی فوجوں کو پسپا کرتے ہوئے مختلف راستوں سے سری نگر کی طرف پیش قدمی کرتا رہا۔ مہاراجہ حالات سے خوف زدہ ہو کر جموں فرار ہو چکا تھا۔ لشکر کا ایک حصہ سری نگر سے صرف تیس میل کے فاصلے پر واقع بارہ مولا تک پہنچ گیا اور اپنے دوسرے حصے کی آمد کا انتظار کرنے لگا جسے انڈین کانگریس کا ففتھ کالم خیرخواہی کے لبادے میں دوردراز علاقے میں لے گیا تھا۔ قبائلی عمائدین کی آمد سے پہلے ہی ڈوگرا فوج اور آر ایس ایس کے درندے بارہ مولا کوتاخت و تاراج کر کے فرار ہو گئے تھے اور پروپیگنڈا یہ کر رہے تھے کہ قبائلیوں نے مالِ غنیمت لوٹنا شروع کر دیا اور وحشت میں گرجا گھر کے علاوہ ہسپتال کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ مالِ غنیمت لوٹنے کی بات سراسر جھوٹ پر مبنی تھی۔ قبائلی مجاہدین تو سختیاں برداشت کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کو پہنچے تھے۔
بھارتی کابینہ کو کشمیر میں قبائلی یلغار کی اطلاع ملی تو وہ مہاراجہ کی طرف سے پہلے سے آئی ہوئی درخواست پر فوری طور پر اسلحہ بارود بھیجنے کے لئے مضطرب تھی، مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پہلے ریاست کا الحاق حاصل کرنے پر زور دیا، چنانچہ بھارتی حکومت نے دستاویزِ الحاق پر مہاراجہ جموں و کشمیر کے دستخط حاصل کرنے کا ڈرامہ رچایا جس کا الیسٹر لیمب(Alastair Lamb) نے اپنی تصنیف ‘نامکمل تقسیم’ (Incomplete Partition)میں پول کھول دیا ہے۔ انڈین حکومت نے ایک دنیا کو فریب دیا کہ وی۔پی مینن26اکتوبر کو جموں گیا جہاں مہاراجہ سری نگر سے آ چکا تھا اور اس نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر کے وی۔پی مینن کے حوالے کر دی تھی۔ نام نہاد دستخط شدہ دستاویز حاصل کرنے کے بعد 27اکتوبر کی صبح سری نگر ایئرپورٹ پر بھارتی فوجیں اُتاری گئیں۔ مسٹر لیمب نے ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا ہے کہ26اکتوبر کو وی۔پی مینن جموں گیا ہی نہیں تھا، اس لئے اس روز الحاق کی دستاویز پر دستخط کی پوری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس معروف مصنف نے بھارتی قیادت اور ماؤنٹ بیٹن کی چالاکی اور کذب بیانی پوری طرح بے نقاب کر دی ہے اور پاکستان کی نیک نیتی اور امن پسندی کی گواہی دی ہے۔
وی۔پی مینن نے1965ء میں شائع ہونے والی اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ وہ کشمیر کے وزیراعظم مہرچند مہاجن کے ہمراہ 26اکتوبر کو جموں گیا تھا اور اسی روز مہاراجہ نے دستاویزِ الحاق پر دستخط کئے تھے، جبکہ وزیراعظم مہاجن نے اپنی شائع شدہ یادداشتوں میں وی۔پی مینن کے ساتھ جموں جانے کی تردید کی ہے۔ اِس تردید کے بعد مہاراجہ کے دستاویزِ الحاق پر دستخط ثبت کرنے کا پورا معاملہ جھوٹ کا پلندہ قرار پاتا ہے۔ مسٹر لیمب نے اس کے علاوہ ایک اور ناقابلِ تردید شہادت فراہم کی ہے۔ وہ یہ کہ دہلی میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر الیگزینڈر سائمن نے 26اکتوبر کو پیش آنے والے واقعات سرکاری ڈائری میں قلم بند کئے جو اگلے روز ڈی۔او کی شکل میں دولتِ مشترکہ کے افسر تعلقاتِ عامہ آرچبالڈ کارٹر کو بھیجے گئے۔ یہ اہم دستاویز برٹش آرکائیوز میں آج بھی محفوظ ہے۔ سائمن نے ریکارڈ کیا ہے کہ اس نے ضروری ملاقات کرنے کے لئے26اکتوبر کو مسٹر وی۔پی مینن کو فون کیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ آج ملاقات نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ جموں جانے کے لئے پالم ایئرپورٹ پر آ چکا ہے۔سائمن وہاں پہنچا جہاں وی۔پی مینن واپس دہلی جانے کے لئے تیار بیٹھا تھا کیونکہ ہوائی جہاز رات سے پہلے جموں ایئرپورٹ پر اُتر نہیں سکتا تھا۔ وہ دونوں اپنی اپنی کاروں میں دہلی چلے آئے۔ حیرت ہے کہ وی۔پی مینن کی جھوٹی کہانی کی پوری دنیا میں ایک حقیقت کے طور پر تشہیر کی گئی کہ وہ جموں گیا اور مہاراجہ نے دستاویزِ الحاق پر دستخط ثبت کئے، جبکہ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ایک باضابطہ دستاویزِ الحاق سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے آرکائیوز میں محفوظ ہے نہ سلامتی کونسل کی فائلوں میں نہ انڈین آفس لائبریری میں۔ وی۔پی مینن کی شائع شدہ کہانی اس حوالے سے بھی حقیقت کے منافی تھی کہ26اکتوبر کی شب تک مہاراجہ جموں پہنچا ہی نہیں تھا، اس لئے دستاویزِ الحاق پر دستخط حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
کشمیر پر بھارتی حملے کی خبر ملی تو، قائداعظم نے بھارت سے کشمیر کے الحاق کو فراڈ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے قائم مقام کمانڈر اِن چیف جنرل گریسی کو فوری طور پر کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم دیا۔ اس نے حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے دہلی میں فیلڈ مارشل آکنلک سے رابطہ قائم کیا۔ وہ اگلے ہی روز قائداعظم سے ملنے لاہور آئے اور اُن سے اپنے احکام واپس لینے کے لئے کہا، کیونکہ برطانوی کابینہ کے فیصلے کی رو سے دو مملکتوں کے مابین تصادم کی صورت میں ہمیں پاکستانی فوج سے تمام انگریز افسر واپس بلانا پڑیں گے۔ قائداعظم نے بادلِ نخواستہ اپنے احکام واپس لے لئے۔ انگریز بھارتی فوجوں کو سری نگر ایئرپورٹ پر اُتارنے کی سازش میں شامل تھے، کیونکہ اس پورے آپریشن میں برطانوی ایئرکرافٹ اور پائلٹس استعمال ہوئے تھے۔ فیلڈ مارشل آکنلک نے جان بوجھ کر قائداعظم کو برطانوی کابینہ کے پورے فیصلے کے بارے میں اندھیرے میں رکھا جو یہ تھا کہ اگر ایک مملکت سے انگریز افسر واپس بلائے جائیں گے، تو دوسری مملکت سے بھی اُنہیں واپس بلا لیا جائے گا۔ اگر قائداعظم کابینہ کے اِس فیصلے سے واقف ہوتے، تو وہ فیلڈ مارشل آکنلک کی گیڈر بھبکیوں کو ہرگز خاطر میں نہ لاتے۔ بروقت فوجیں نہ بھیجنے سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ملاقات کے دوران آکنلک نے دونوں ملکوں کے گورنر جنرلوں اور وزرائے اعظم کی لاہور میں کانفرنس بلانے کی تجویز دی جو قائداعظم نے قبول کر لی، مگر بھارتی قیادت کی مکاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پنڈت نہرو نے بیماری کا بہانہ بنا کر لاہور آنے سے معذرت کر لی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن چار دن کی تاخیر سے قائداعظم سے ملنے آئے۔
قائداعظم نے بھارت کے وائسرائے کو مسئلۂ کشمیر کے پُرامن حل کے لئے ٹھوس تجاویز پیش کیں، اس کے ہمراہ سری نگر جانے کا عندیہ دیا اور کہا کہ میں قبائلیوں سے سری نگر خالی کرنے کی اپیل کروں گا اور آپ بھارتی فوجوں کو واپس آنے کا حکم دیں گے۔ ماؤنٹ بیٹن نے عیاری سے کام لیتے ہوئے کہا کہ آپ تو بااختیار گورنر جنرل ہیں جبکہ میں انڈین کابینہ کے مشورے کا پابند ہوں۔ اس نے یقین دلایا کہ ہم ریاست جموں و کشمیر میں استصوابِ رائے کے پابند ہیں۔ اس پر قائداعظم نے فرمایا کہ ریاست پر قابض ہو جانے کے بعد رائے شماری کے اعلانات اور وعدے بے معنی ہو کے رہ جائیں گے، اِس لئے جلد سے جلد کشمیر سے بھارتی فوجوں کا انخلا بہت ضروری ہے اور ہمیں یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
بھارت اور پاکستان کے مابین مسئلۂ کشمیر پر مذاکرات کے دوران کشمیر کے شمال میں واقع گلگت میں ایک انقلاب رونما ہو چکا تھا جس کی پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اعلانِ آزادی ہند کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے اس علاقے کو ریاست جموں و کشمیر کی تحویل میں دے دیا تھا۔ مہاراجہ کی بھارت سے الحاق کی خبر اس علاقے میں پہنچی، تو وہاں کے عوام نے مہاراجہ کا جُوا اُتار پھینکنے کا فیصلہ کر لیا۔31اکتوبر کو گلگت اسکاؤٹس نے ہندو گورنر گرفتار کر لیا اور عوام کی پُرجوش حمایت سے پاکستانی پرچم لہرا دیا اور حکومتِ پاکستان سے علاقے کا نظم و نسق سنبھالنے کی درخواست کی۔14 نومبر کو پاکستان کا نمائندہ طیارے کے ذریعے گلگت پہنچا اور یہ علاقہ پاکستان میں شامل ہو گیا۔ بعدازاں ہنزہ اور نگر کے حکمرانوں نے بھی پاکستان سے الحاق کر لیا۔
لاہور میں 8دسمبر کو دونوں مملکتوں کے وزرائے اعظم کی دوسری مرتبہ ملاقات ہوئی، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، بلکہ پنڈت نہرو کشمیر میں رائے شماری کے لئے اقوامِ متحدہ سے مشترکہ درخواست سے بھی منحرف ہو گئے اور یکم جنوری کو سلامتی کونسل چلے گئے۔ انہوں نے اپنی گھناؤنی حرکتوں پر پردہ ڈالنے اور عالمی رائے عامہ کو فریب دینے کے لئے یہ رَٹ شروع کر دی کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق عارضی ہے اور کشمیری عوام اپنی قسمت کا فیصلہ آزادانہ استصوابِ رائے سے کریں گے۔ ایک طرف سلامتی کونسل میں اس تنازع پر بحث جاری تھی اور دوسری طرف بھارتی وزیر دفاع پارلیمنٹ میں اعلان کر رہے تھے کہ ہم تین ماہ کے اندر اندر کشمیر پر حملہ آوروں کا صفایا کر دیں گے، چنانچہ بھارتی فوجیں آزاد کشمیر پرچڑھ دوڑیں۔ آزادکشمیر کے فوجی دستوں اور قبائلی مجاہدین نے تابڑتوڑ حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا، مگر وہ بہت بڑی اور منظم فوج کی پاکستان کی طرف پیش قدمی نہیں روک سکتے تھے۔ اِس نازک صورتِ حال پر قابو پانے کے لئے پاکستان کے کمانڈر اِن چیف جنرل گریسی نے حکومتِ پاکستان کو سفارش کی کہ بھارتی فوج کو اوڑی، پونچھ اور نوشہرہ کے خط سے آگے بڑھنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ اِس سفارش پر حکومتِ پاکستان نے محدود پیمانے پر اپنی فوجیں ریاست کے اندر بھیج دیں، مگر فضائیہ استعمال نہیں کی گئی، حالانکہ بھارت فضائی طاقت سے حملہ آور ہو رہا تھا۔ ہماری بہادر فوج نے جانوں پر کھیل کر بھارتی حملہ پسپا کر دیا اور اُنہیں زبردست نقصان پہنچایا۔
وریں اثنا بھارتی حکومت سلامتی کونسل کی مصالحتی کوششوں کو ناکام بنانے میں لگی رہی۔ سلامتی کونسل نے آغاز ہی میں محسوس کر لیا تھا کہ یہ محض حملہ آوروں کے انخلا کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کا تعلق بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات کے استحکام سے ہے جس میں کشمیر کا تنازع سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ ایک سال کی بحث و تمحیص کے بعد سلامتی کونسل نے 5 جنوری 1949ء کو ایک قرارداد منظور کی جس میں فوری جنگ بندی کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام استصوابِ رائے کے طریقِ کار کا اعلان کیا گیا تھا۔ دونوں حکومتوں نے یہ قرارداد منظور کی اور پنڈت نہرو نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ ہم جموں و کشمیر کی ریاست میں استصوابِ رائے کے پابند ہیں، مگر درپردہ ریاست کو بھارت میں ضم کرنے کے اقدامات کرتے رہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے نامزد ڈاکٹر گراہم نے1951ء اور1958ء کے درمیان رائے شماری کے حوالے سے چھ رپورٹیں پیش کیں جسے بھارت مسترد اور پاکستان منظور کرتا رہا۔
1950ء میں بھارت نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد پر جمع کر دیں جس نے پاکستانی قیادت کو امریکہ سے فوجی تعاون حاصل کرنے کا شدید احساس دلایا، چنانچہ 1954ء میں ‘باہمی فوجی امداد’ کے نام سے معاہدے پر دستخط ہوئے جو دس برسوں پر محیط تھا۔ پانچ سال بعد امریکہ اور پاکستان کے مابین فوجی تعاون کا ایک اور معاہدہ طے پایا۔ اس کی ایک اہم شق یہ تھی کہ پاکستان پر حملے کی صورت میں امریکہ پاکستان کی مدد کو پہنچے گا۔ اس معاہدے پر پنڈت نہرو بہت تلملائے اور کشمیر میں استصوابِ رائے کی کمٹمنٹ سے مکر گئے۔ پھر1962ء کے اواخر میں بھارت اور چین کے درمیان فوجی تصادم کا ایک حیرت انگیز وقوعے نے خِطے میں طاقت کا توازن بگاڑ کے رکھ دیا اور تنازع کشمیر کی گمبھیرتا میں بے پناہ اضافہ کر دیا صدر ایوب خاں کے پرنسپل سیکرٹری جناب قدرت اللہ شہاب نے اپنی معرکة الآرا تصنیف ‘شہاب نامہ’ میں اس حوالے سے ایک تاریخی اہمیت کا واقعہ قلم بند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اکتوبر1962ء کی ایک رات ڈھائی بجے میرے ملازم نے مجھے جگایا کہ ایک چینی شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا ہے۔ صدر ایوب کو اس خبر میں بڑی دلچسپی ہو گی اور اُن تک یہ خبر پہنچانے میں آپ سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ میں فوراً لباس تبدیل کر کے ایوانِ صدر پہنچا اور مجھے صدر ایوب کی خواب گاہ تک رسائی مل گئی۔میں نے چینی شخص کی گفتگو کا لبِ لباب پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان یہ لمحے اپنے فائدے میں استعمال کر سکتا ہے او راس کی فوجیں مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو سکتی ہیں۔ صدر ایوب نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا تم سویلین لوگ جنگی پیش قدمی کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہو۔ اُنہوں نے مجھے آرام کرنے کا مشورہ دیا اور کشمیریوں کو بھارت کی غلامی سے نجات دلوانے کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔
چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں بھارت ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا۔ بھارتی فوجی شدید بدحواسی میں محاذِ جنگ پر اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ نکلے اور بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کی طرف سے دی جانے والی دھمکیاں گیڈر بھبکیاں ثابت ہوئیں۔ نومبر کے اواخر میں چینی فوج نے بھارتی فوج کا بھرکس نکالنے کے بعد خود ہی سیزفائر کا اعلان کر دیا۔ اس دوران پاکستان کے عوام و خواص کے اندر یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا کہ صدر ایوب مقبوضہ کشمیر میں فوجی اقدام کریں، لیکن امریکہ اُنہیں اس عمل سے باز رکھتا اور اس امر کا یقین دلاتا رہا کہ وہ مسئلۂ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے فعال کردار اَدا کرے گا۔ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ہیری مین اور برطانیہ کے سیکرٹری اُمورِ دولتِ مشترکہ ڈنکن سینڈز کی کوششوں سے بھارتی وزیراعظم اور پاکستانی صدر نے ایک مشترکہ اعلان میں کشمیر اور متعلقہ مسائل میں دونوں کے مابین اختلافات رفع کرنے کے لئے ازسرِنو کوشش پر اتفاق کیا۔ دسمبر1962ء سے لے کر مئی1963ء تک وزیر خارجہ پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیر خارجہ مسٹر سورن سنگھ کے درمیان مذاکرات کے چھ دور چلے ، مگر بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی کے باعث کوئی مفاہمت نہ ہو سکی۔ دوسری طرف پنڈت نہرو نے چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کو اپنی شاندار کامیابی میں تبدیل کرنے کے لئے طرح طرح کی چال بازیوں سے کام لیا اور دہائی مچائی کہ چین کی فوجی طاقت آزاد دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر امریکہ اور برطانیہ نے بھارت میں جدید ترین اسلحے کے انبار لگا دیئے اور اپنے خزانوں کے منہ کھول د یئے۔
اس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں صدر ایوب نے امریکی صدر کینیڈی کو شدید حالتِ اضطراب میں خط لکھا کہ بھارت کو اس وسیع پیمانے پر فوجی امداد مہیا کرنے سے خِطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ مسئلۂِ کشمیر پر مذاکراتی عمل میں بار بار ناکامی اور بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادتوں میں گہری تشویش پیدا کر دی، جبکہ مقبوضہ کشمیر کے اندر غاصب بھارتی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے رجحانات زور پکڑتے گئے۔ بھارتی قیادت کی، حیلہ بازیوں اور پُرتشدد کارروائیوں سے وہ تمام طبقے بددلی اور مایوسی کا شکار ہوتے گئے جو اہلِ کشمیر کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو جائز تسلیم کرنے اور اسے ایک منصفانہ اور قابلِ عمل حل خیال کرتے تھے۔ پے درپے واقعات اُنہیں بڑی شدت سے یہ احساس دلا رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا مذہب، اُن کی تہذیب و ثقافت اور اُن کی آزادی مہیب خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔
1963- 64ء کے موسمِ سرما میں سری نگر کی درگاہ حضرت بل کے اندر سے موئے مبارک چوری ہونے کا اندوہناک واقعہ پیش آیا اور پوری ریاست میں پُرجوش احتجاج شروع ہو گیا۔ آگے چل کر اِس میں سیاسی مطالبات بھی شامل ہوتے گئے۔ شیخ عبداللہ جو گیارہ سال سے جیل میں تھے، اُن کی رہائی کے لئے جلوس نکلنے لگے۔ شدید عوامی دباؤ کے تحت شیخ صاحب رہا کر دیئے گئے۔ اُن کی اور اُن کے قریبی دوست مرزا اَفضل کی رہائی پر اُنہیں جون1964ء کے وسط میں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ شیخ صاحب نے آغاز ہی میں یہ تاثر دیا کہ وہ صدر ایوب خاں اور پنڈت نہرو کومسئلۂ کشمیر کے حوالے سے مذاکرات کی میز پر بٹھانے آئے ہیں۔ پاکستان میں اُن کا پُرجوش استقبال ہوا، مگر اُنہوں نے ایئرپورٹ پر اُترتے ہی سیکولر بھارت کی تعریف کے پل باندھنے شروع کر دیئے۔ پاکستانی عوام کو اُن کی باتوں سے بڑی تکلیف پہنچی اور جب اُنہوں نے صدر ایوب سے ملاقات کے دوران بھارت، پاکستان اور کشمیر پر مشتمل کنفیڈریشن بنانے کی تجویز پیش کی، تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ شیخ صاحب کا ابھی دورۂ پاکستان جاری تھا کہ پنڈت نہرو کا اچانک انتقال ہو گیا اور اُن کے ساتھ ہی کنفیڈریشن کا فتنہ بھی دفن ہو گیا۔ شیخ عبداللہ مختلف ملکوں کا دورہ کرتے ہوئے حج پر چلے گئے جہاں اُنہوں نے ببانگِ دہل اعلان کیا کہ نہرو مر چکا ہے، مگر اس کے جاں نشین اُن تمام ہتھکنڈوں سے واقف ہیں جو کشمیریوں کو غلام بنانے کے لئے استعمال کئے جاتے رہے ہیں جن کا ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ وہ وہاں سے الجزائر گئے، جہاں اُن کی چینی وزیراعظم چواین لائی سے ملاقات ہوئی۔ واپسی پر وہ نئے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے حکم پر گرفتار کر لئے گئے۔ اُن کی گرفتاری پر پوری ریاست کے اندر ایک بھونچال سا آ گیا اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کا مطالبہ شدت پکڑتا گیا جسے پاکستان کی مکمل سفارتی اور اخلاقی حمایت حاصل تھی، چنانچہ بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت عوامی ردِعمل کو ایک نیا رخ دینے کے لئے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اس مقصد کے لئے ‘رن آف کچھ’ کا انتخاب کیا گیا جس پر دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تنازع چلا آ رہا تھا۔ 1965ء کے اوائل میں بھارت نے شور مچانا شروع کیا کہ رن آف کچھ کی آڑ میں پاکستان اس کے تیل کے زیرِزمین علاقوں پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سرحدی جھڑپیں شروع کر دیں جن کا سلسلہ مہینوں پر پھیلتا چلا گیا۔ پاکستان کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنا پڑا۔ میجر جنرل ٹکا خان کی قیادت میں ہماری فوج نے بھارت کو اچھا سبق سکھایا اور برطانیہ کی ثالثی سے جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا جس میں درج تھا کہ دونوں طرف کی فوجیں سات روز کے اندر اپنی پرانی پوزیشنوں میں چلی جائیں گی۔ اس معاہدے کے خلاف بھارت میں شدید ردِعمل پیدا ہوا جس پر قابو پانے کے لئے وزیراعظم شاستری نے اعلان کیا کہ ہم ‘رن آف کچھ’ کا انتقام لینے کے لئے اپنی پسند کے وقت اور مقام کا تعین کریں گے۔
پاکستان نے معاہدے پر دیانت داری سے عمل کرتے ہوئے اپنی فوجیں سرحدوں سے ہٹا لیں اور کھدے ہوئے مورچے بھی پُر کر دیئے۔ اس کے برعکس بھارت انتقام لینے کے بہانے تلاش کرتا اور لام بندی میں مصروف رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور موئے مبارک کی پُراسرار چوری کے باعث خط فائر بندی کے دونوں طرف جذبات میں شدید ہیجان برپا تھا۔ پاکستانی قیادت حالات سے نمٹنے کے لئے ایک نئے لائحہ عمل کی تلاش میں تھی کیونکہ تنازع کشمیر کو پُرامن طریقے پر حل کرنے کا ہر طریقہ آزمایا جا چکا تھا۔ بین الاقوامی مصالحت اور ثالثی کی تجاویز بھی بے اثر ثابت ہوئی تھیں۔ باہمی مذاکرات کے متعدد ادوار بھی بے ثمر اور بے نتیجہ رہے تھے۔ جان کیگن کے بقول چین کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد بھارتی فوج نئی توانائی کے ساتھ اِس طرح اُبھری جس طرح ققنس آگ میں خاکستر ہو کر نئی آب و تاب سے جنم لیتا ہے۔ بھارتی حکمران غیر جانب داری کے نام نہاد لبادے کو خیرباد کہہ کر ہر جگہ سے اسلحہ حاصل کر رہے تھے اور بھارتی افواج کی تعداد ساڑھے سات لاکھ ہو چکی تھی جس میں تیزی سے اضافہ کیا جا رہا تھا۔ ان حالات میں پاکستان ایک ایسے منصوبے کی تشکیل میں ہمہ تن مصروف تھا جس کے ذریعے عالمی طاقتوں کو احساس دلایا جا سکے کہ علاقائی امن شدید خطرے میں ہے اور بھارت کو مسئلۂ کشمیر کے منصفانہ حل پر آمادہ کیا جا سکے، چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ تیار ہوا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمود احمد نے اپنی تصنیف History of Indo Pak War – 1965میں بڑی تحقیق کے بعد اس آپریشن کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ اُن کے مطابق اس آپریشن کا ابتدائی خاکہ میجر جنرل اختر حسین ملک نے تیار کیا تھا جو بارہویں ڈویژن کی کمان دسمبر1962ء سے سنبھالے ہوئے تھے۔15 مئی 1965ء کو فیلڈمارشل ایوب خاں اور کمانڈر اِن چیف جنرل موسیٰ بارہویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر مری میں آئے اور تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد آپریشن کی منظوری دی۔ بعدازاں جی ایچ کیو میں جنرل موسیٰ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم ہوئی جس میں ڈی ایم او بریگیڈئیر گل حسن اور ڈی ایم آئی بریگیڈیئر ارشاد شامل تھے۔ اس کے علاوہ ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں اسپیشل گروپ قائم کیا گیا جس نے سفارش کی کہ پہلے مقبوضہ کشمیر میں پائی جانے والی سیاسی صورتِ حال کا درست جائزہ لیا جائے اور اِس آپریشن میں وہ لوگ شامل کئے جائیں جو مقبوضہ کشمیر کے مقامات اور احوال سے پوری طرح باخبر ہوں۔ اس گروپ نے بھارت کی طرف سے حملے کے امکان کی بھی نشان دہی کی تھی اور مشورہ دیا کہ اِس آپریشن میں کاؤنٹر اٹیک کی پوری صلاحیت ہونی چاہئے۔
میجر جنرل (ر) شوکت رضا کی تحقیق کے مطابق اگست 1965ء کے اواخر میں وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو فیلڈمارشل ایوب خاں کا یہ پیغام لے کر جی ایچ کیو آئے کہ چھمب کی جانب سے حملہ کیا جائے۔ اس کا مقصد اکھنور پر قبضہ کرنا تھا تاکہ بھارتی فوج وہ علاقے واپس کرنے پر مجبور ہو جائے جس پر اُس نے بارہویں ڈویژن کے زیرِ نگرانی بعض اسٹریٹیجک اہمیت کے دروں اور علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور مظفرآباد کے ہاتھ سے چلے جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ آپریشن کے سلسلے میں جو احکام دیئے گئے اُن میں پوری طرح واضح کر دیا گیا تھا کہ اسے ہر قیمت پر سرزمینِ کشمیر تک محدود رکھنا ہے۔ آپریشن کے دوران محسوس ہوا کہ بارہویں ڈویژن کے لئے اتنے بڑے محاذ پر مؤثر کارکردگی برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اس لئے ساتویں ڈویژن کو یہ ذمے داری سونپی گئی جس کے کمانڈر میجر جنرل محمد یحییٰ خاں تھے اور اُن کا ہیڈکوارٹر کھاریاں میں تھا جو محاذِ جنگ کے قریب تھا۔ کمان کی تبدیلی سے بعض منفی اثرات مرتب ہوئے اور اکھنور کا ہدف حاصل نہ کیا جا سکا۔ اس دوران بھارت نے 6ستمبر کی صبح لاہور پر حملہ کر دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان سترہ روز خوں آشام جنگ جاری رہی۔ پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی اور اِس نازک ترین مرحلے میں افواجِ پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے جان پر کھیل کر اپنے سے آٹھ گنا طاقت ور دشمن کو زخم چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ عوام نے اپنی فوج کے شانہ بہ شانہ رہ کر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان میں بسنے والی قوم ایک عظیم قوم ہے۔ عوام اور فوج پاکستان کے دفاع میں پوری طرح سینہ سپر تھے اور باہمی اعتماد کے رشتے ہر طرف جلوہ گر تھے۔ پاکستان اس کٹھن مرحلے سے اِس لئے صحیح و سالم گزر گیا کہ اس نے محکوم کشمیری عوام کو بھارت کی غلامی سے نجات دلانے کی مخلصانہ کوشش کی تھی اور آج بھی وہ اسی صراطِ مستقیم پر گامزن ہے۔
کشمیر اور پاکستان کے رشتے لازوال اور تاریخ کے اندر پیوست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی پوری وادی میں پاکستان کا ہلالی پرچم لہرا رہا ہے اور اس کا قومی ترانہ ہر سُو گونج رہاہے۔ وہ جو راہِ وفا میں شہید ہوتے ہیں، ان کی میتیں پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنائی جا رہی ہے۔ بہادر کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں اور بھارت کے لئے اُنہیں غلام رکھنا روز بروز محال ہوتا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی صبح طلوع ہونے والی ہے۔ کشمیریوں کی آزادی میں کشمیریوں کے علاوہ پاکستان کے عظیم شہیدوں کا بھی خون شامل ہے جو1965ء میں بہا تھا اور آج بھی لائن آف کنٹرول کا دفاع کرتے ہوئے بہہ رہا ہے۔ ہم اُن کی عظمت کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں عوام اور فوج نے قوتِ ایمانی، سرفروشی، ایثار کیشی، جرأت و مردانگی کے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، اُن کی مثال دنیا کی عسکری تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اِس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ ملکی سلامتی کا تحفظ وہی فوج کر سکتی ہے جسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہو اور اس کا ملک سیاسی اور معاشی اعتبار سے مستحکم ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

2020 میں کشمیریوں کو ہراساں کرنے کے لئے بنائے
گئے کالے قانون کے تحت سینکڑوںمقدمات درج

 بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںوکشمیر میں سال 2020کے دوران غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے حوالے سے کالے قانون ’’یو اے پی اے‘‘ کے تحت 287 مقدمات درج کئے گئے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ برس یو اے (پی) کے تحت رجسٹرڈ 36فیصد مقدمات کے حساب سے مقبوضہ جموںوکشمیر سرفہرست ہے ۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مذکورہ کالے قانون کے تحت 2020کے دوران رجسٹرڈ 796 مقدمات میںسے 287 مقبوضہ علاقے کے مختلف تھانوں میں درج کیے گئے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بعد منی پور ہے جہاں 196 کیسز درج ہوئے۔اعداد و شمار کے مطابق جھارکھنڈ میں یو اے پی اے کے 86 ، آسام میں 76 ، اتر پردیش میں 72 ، بہار میں 30 ، پنجاب میں 19 ، کیرالہ میں 18 ، میگھالیہ میں 10 ، دہلی میں 6 ، مدھیہ پردیش میں 4 مقدمات درج ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر۔ کی تحریک آزادی کے مراحل اور مستقبل

کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ہم چار مراحل میں تقسیم کرسکتے ہیں۔پہلا قیام پاکستان کے فوراً بعد پختون قبائلیوں اور کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کا دورانیہ۔دوسرا 1950سے لے کر 1980تک سیاسی جدوجہد کا دورانیہ جب سید علی گیلانی اور سید صلاح الدین جیسے لوگ بھی پرامن جدوجہد اور انتخابی عمل کے ذریعے اپنی منزل کے حصول کی کوشش کررہے تھے ۔

تیسرا مرحلہ اسی کی دہائی سے لے کر نائن الیون تک جہادی تنظیموں کے ذریعے مسلح جدوجہد کا دورانیہ اور چوتھا نائن الیون کے بعد مظلومانہ عوامی جدوجہد کا دورانیہ ۔نائن الیون کے بعد بننے والی فضا سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان نےکشمیری جہادی تنظیموں کو کچلنے اور امریکہ و یورپ کو استعمال کرکے پاکستان کو ان کی سرپرستی سے گریز پر مجبور کیا۔
اس کے بعد اگر کسی جہادی تنظیم نے کوئی کارروائی کی تو اس کو انڈیا نے اس طرح پیش کیا کہ قربانی کے باوجود وہ کارروائی کشمیر کاز کے لئے وسیع تناظر میں فائدے کی بجائے نقصان کا موجب بن گئی۔ چنانچہ اس کے بعد کشمیریوں کے پاس مظلومانہ عوامی جدوجہد اور پاکستان کے پاس سفارت کاری کے ہی آپشن باقی رہ گئے۔
جنگی لحاظ سے کشمیر کو آزاد کرانے کا پاکستان کو ایک موقع ( 62کی چین انڈیا جنگ )۔ ہاتھ آیا تھا لیکن اس وقت امریکہ کے ساتھ دوستی اور محبت میں جنرل ایوب خان نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا۔
سفارتی حوالوں سے بہترین موقع ایٹمی دھماکوں کے بعد ہاتھ آیا تھا جب بی جے پی جیسی انتہاپسند جماعت کی طرف سے جنونی مودی کی بجائےواجپائی جیسے شاعر انڈیا کے وزیراعظم تھے اور لاہور آکر انہوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے اور کشمیر پر گفتگو کرنے پر آمادگی ظاہر کی لیکن بدقسمتی سے پرویز مشرف کے کارگل ایڈونچر کی وجہ سے وہ سلسلہ ختم ہوگیا ۔
سفارتی حوالوں سے دوسرا نادر موقع نائن الیون کے بعد ہاتھ آیا تھا کیونکہ اس وقت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی تھی اور جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ کشمیر کاز کو بچانے کے لئے انہوں نے امریکہ کا ساتھ دیا لیکن کیمپ ڈیوڈ میں صدربش کا مہمان خصوصی بننے کے باوجود وہ کشمیر کے معاملے پر امریکہ کو استعمال کرکے ہندوستان سے کشمیریوں کو کوئی رعایت نہ دلواسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید علی گیلانی کے بعد
تحریک ِ آزادی کشمیر اور ہماری ذمہ داری

ایک طرف دنیا بھر میں ’کورونا وائرس‘کی تباہ کاریوں نے ہرانسان کو دہلاکر رکھ دیا ہے، لیکن دوسری جانب بھارت کی سفاک حکومت اور فوج جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی لانے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس موقعے کو غنیمت جان کر، جموں و کشمیر کی سماجی و سیاسی اور قومی صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے پے درپے بڑےجارحانہ اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ اس پس منظر میں دنیا بھر کے منصف مزاج لوگوں کو کشمیر کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنی چاہیے، اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے ہرممکن کوشش و کاوش کرنی چاہیے۔

پچھلے کئی سال سے میں تحریک آزادی کشمیر کو ہرپہلو سے دیکھ رہاہوں۔ اس کی تاریخ، اور حق خود ارادیت (self determination)کی تحریک کے اُتارچڑھاؤ پر مسلسل غور کرتا آیا ہوں اور کئی برس سے اس موضوع پر لکھ بھی رہا ہوں۔ میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ ۲۰۱۶ءکے بعد اس تحریک کا جو دور شروع ہوا ہے اور خصوصی طور پر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جو صورتِ حال رونماہوئی ہے، اس سے یہ تحریک بڑی حدتک اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ البتہ یہ فیصلہ کن دور کتنا طویل یا مختصر ہوگا،فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ آثاروشواہد یہ بتا رہے ہیں کہ ان شا ء اللہ یہ فیصلہ کن دور ہے اور اس کےلیے ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر اور مؤثر اور مربوط انداز سے طرزِفکر اور طرزِعمل اختیار کرنا ہوگا۔
اجتماعی زندگی کی جدوجہد میں ہم بہ حیثیت قوم کچھ معاملاتِ زندگی کو مؤخر کرسکتے ہیں، کچھ چیزوں کو حکمت یا مصلحت کی بنیاد پر نظرانداز بھی کرسکتے ہیں،لیکن مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے کشمیر کونہ نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ ثانوی حیثیت دے سکتے ہیں۔ اسے ہرحال میں مرکزی حیثیت حاصل رہنی چاہیے۔ اس معاملے پر جتنا پاکستانی قوم کو بیدار کریں گے، جتنا سیاسی جماعتوں پر اور پھر حکومت پر یاددہانی کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، اتنا ہی اس مقصد کے لیے مفید ہوگا۔ نیز پاکستانی حکومت، عوام اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اُٹھانے اور بھارت پر عالمی دباؤ ڈلوانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ یہ مقصد محض بیانات اور ٹویٹر پیغامات سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلے میں بنیادی اور مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی فکر کریں گے، تو ان شاء اللہ اس کے مثبت اثرات رُونماہوں گے۔
تحریکِ کشمیر کا موجودہ مرحلہ
تحریک ِ کشمیر کا موجودہ اُبھار ایک مؤثر اور فیصلہ کن مرحلے کی بنیاد ہے۔ اس کی دونوں سطحیں بہت ٹھوس اور مثبت ہیں: یعنی اس میں مقدار (quantitative) کے اعتبار سے بھی مثبت تبدیلی ہے اور معیار (qualitative) کے لحاظ سے بھی جوہری فرق واقع ہوا ہے۔ معیاری تبدیلی کی نسبت سے مقبوضہ کشمیر کے اندر قابض بھارتی فوجوں اور دہلی کے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کا جذبہ جس درجے میں بیدار ہے اور موت کا خوف جس سطح پر ختم ہوا ہے، یہ چیز اس تحریک آزادی کی بڑی نمایاں اور نہایت قابلِ قدر خوبی ہے۔ پھر اسی دوران میں وہاں بھارت نواز مسلم لیڈرشپ جس انداز سے بے نقاب ہوئی ہے، اس نے بھارتی فریم ورک میں کشمیرکے وجود کے بے معنی استدلال کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ بلاشبہہ یہ آکاس بیل پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بنیاد فریب خوردہ لوگوں کی نظروں میں غیر مؤثر ہوئی ہے۔ اپنی جگہ یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے کہ بھارت کے مختلف حلقوں، دانش وروں، میڈیا اور سیاسی گروہوں کی طرف سے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر اظہار خیال ہورہا ہے،جو اس سے پہلے نہیں نظر آتا تھا۔ الحمدللہ، یہ ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ یہ پہلو اپنے اندر بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔
پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کے سیاسی مقام، جغرافیائی کردار اور مختلف ممالک کے تجارتی مفادات کے باوجود، بین الاقوامی محاذ پر تنقید و احتساب کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اگرچہ بظاہر وہ کمزور اور غیرمؤثر ہیں، لیکن بہرحال بلند ہونے لگی ہیں۔ یہ پہلو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک فیصلہ کن دور کی طرف بڑھ رہے ہیں یا اس دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان امکانات کو کس طرح مؤثر انداز سے، مثبت رُخ کی جانب موڑ سکیں؟
کشمیری قیادت کا فرض
سب سے اہم میدان خود مقبوضہ کشمیر کے اندر ہے۔اس وقت تک محترم سیّد علی گیلانی صاحب نے بڑی بصیرت، بڑی ہمت، بڑی قوت اور کمال درجے کی ثابت قدمی کے ساتھ اس تحریک کو درست رُخ پر فعال اور متحرک رکھا ہے۔ لیکن اِن دنوں اُن کی صحت زیادہ ہی مخدوش ہے۔ ان کے لیے خلوصِ دل سے دُعاے صحت کی جائے۔ خرابی صحت اور تمام پابندیوں کے باوجود محترم گیلانی صاحب کو جو معمولی سےمعمولی مواقع ملتے ہیں، ان کو قوم کی رہنمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اب اس بات کی اشدضرورت ہے کہ گیلانی صاحب کی معاون قیادت اس طرح اُبھرے کہ وہ تحریکی سوچ اور صحیح فکر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ وہ قیادت گیلانی صاحب کی طرح ایمان کی پختگی ، تاریخ کے گہرے شعور، بے پناہ جرأت اور حکمت و تدبر کی حامل ہو۔ جذباتی ردعمل سے بچ کر چلنے والی دُوراندیش قیادت ہو۔ ان حالات میں وہاں پر نچلی سطح تک ایسی تحریک کو منظم اور مؤثر ہونا چاہیے، جو عوامی ہو، جمہوری ہو، مربوط ہو اور منزل و مقصد کا صحیح فہم رکھتی ہو۔ اُن کی آواز میں آواز ملانے کے لیے، دنیابھر میں اُن کے حلیف اور ہم آواز حلقوں کو پوری تندہی سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے کہ عالمی منظرنامے پر اُن کی تائید و تحسین اُنھیں قوت فراہم کرسکے۔
اس وقت بھارت یہ کوشش کر رہا ہے کہ مختلف سیاسی محاذوں پر مقامی طور پر ایسی قیادت کو اُبھارے کہ جو بظاہر آزادی کی حامی ہو یا خودمختاری کے گمراہ کن نعروں کو بلندکرے، حالانکہ بھارت کے حالیہ اقدام کا ہدف کشمیر پر اپنے جبری قبضے (occupation) کو مستقل انضمام (annexation) میں بدلنا، کشمیر کی شناخت (identity)کو ختم کرنا اور آبادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے، جو سامراجیت کی بدترین مثال ہے۔ ’خودمختاری‘ کی بات ایک فریب اور دوسری دفاعی لائن ہے، جس کی حقیقت کو سمجھنا اور دُنیا کو سمجھانا ضروری ہے۔ بڑی ہوش مندی سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اصطلاح بنیادی طور پر بھارتی مقاصد کو پورا کرنے کی ایک چال ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ انھیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی ہے، تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ نقب لگائی جائے۔
انسانی حقوق کی پامالی اور حق راے دہی کا مطالبہ
مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کا پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو بہت اہم مقام حاصل رہنا چاہیے کہ یہ بات لوگوں اور اداروں کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے۔ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کررہا ہے اور وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی رُو سے انسان کشی (Genocides)اور جنگی جرائم (War Crimes) کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس پہلو کو ساری دنیا میں اور خصوصیت سے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور یورپین ہیومن رائٹس کمیشن پر اُٹھانا ازبس ضروری ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات اوربھی زیادہ ضروری ہے کہ اصل ایشو بھارتی غاصبانہ قبضہ ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کا طے شدہ ہدف صرف اور صرف حق خود ارادیت دلانے کے لیے استصواب راے (Plebiscite) ہے۔ یہی ایشو مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو لوگ بھول جائیں، بھارت کے وعدوں کو بھی لوگ بھول جائیں، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس کسی نام نہاد ثالثی (Arbitration) سے بٹوارا کرکے معاملے کو رفت گزشت کر دیا جائے۔لیکن نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حق خود ارادیت کے مرکزی ایشو ہی کو ہرسطح پر اُٹھایا جائے اور ہرسطح پر اس کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ نیز ثالثی کے جال (Trap)سے بچنا ازبس ضروری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت پردباؤ ڈلوانا اورمسئلے کے حل کے عمل کومتحرک اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔کشمیر کے مستقبل کا مستقل فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارت اور پاکستان کی قیادت کے عہدواقرار کے مطابق ہی انجام دے سکتے ہیں۔
ہم پوری وضاحت اور نہایت واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ تھا، عالمی مسئلہ ہے اور جب تک حل نہ ہوجائے عالمی مسئلہ رہے گا۔ اسے بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اسے طے کیا جائے گا۔ یہ کبھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں تھا۔ اس کے بنیادی فریق بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام ہیں اور اقوامِ متحدہ/ عالمی برادری بھی اس میں برابر کی شریک اور حل کروانے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس نکتے کو ہمارے عالمی اقدام (Diplomatic Offences) کا حصہ ہوناچاہیے۔ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کی روشنی میں جہاں ازبس ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ کو مؤثر بنانا چاہیے جس کے لیے عالمی برادری کی سہولت کاری (Facilitation)، مداخلت (Intervention) اور دباؤ (Pressure) ضروری ہوگا،وہیں دوسری جانب ثالثی کے فریب میں پھنسنا مہلک ہوگا، جس سے ہرصورت میں بچنا لازمی ہے۔ حل ایک ہی ہے وہ یہ کہ کشمیر کے عوام کی راے دہی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔
بلاشبہہ ہماری خارجی سیاست میں بھارت کے فسطائی نظام اور بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں سے جو بدسلوکی اور امتیازی رویہ (discrimination ) روز افزوں ہے، اسے ایکسپوز کرنا بھی چاہیے اور اس کے لیے الگ سے حکمت عملی اور نظامِ کار بناناضروری ہے۔ لیکن کشمیر کے مسئلے کی خصوصی نوعیت کی بناپر اس مسئلے کو اس کے اپنی حرکیات (dynamics ) کی وجہ سے الگ اور مرکزی مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں اور وہاں کی اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی ضروری ہے لیکن اسے مسئلہ کشمیر سے گڈمڈ کرنے سے احتراز برتنا لازم ہوگا۔
حق خود ارادیت اور مزاحمت
یہ معاملہ بھی پوری منطقی ترتیب کے ساتھ مدِنظر رہنا چاہیے کہ جہاں ناجائز قبضہ (occupation) ہوگا، وہاں مزاحمت (resistance) ہوگی۔ غاصبوں سے آزادی حاصل کرنے کا حق (right to liberation) ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے اقوام متحدہ کا چارٹر بھی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۰ ممبر ممالک میں سے ۱۵۰سے زیادہ ملک اسی حق خود ارادیت کی بناپر آزاد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ حق اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا ہے کہ: حق خودارادیت جمہوری طریقے سےنہ ملے اور اس حق کو قوت سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے توآپ کو اپنے تحفظ کے لیے مزاحمت کا بنیادی حق حاصل ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کے استعمال کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن نائن الیون کے بعد بھارت نے کشمیری حُریت پسندوں کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ تو تازہ ترین واقعہ ہے کہ طاقت ور ملکوں کی دھونس، دھاندلی اور ظلم و جبر کو مسترد کرنے والے افغان طالبان کل تک ’دہشت گرد‘ قرار دیے جاتے تھے، لیکن آج ان سے گفتگو اور معاہدہ کرکے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے۔
’کشمیر کمیٹی‘ کی ذمہ داری
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ’کشمیرکمیٹی‘ گذشتہ ۱۵،۲۰ سال سے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے آٹھ مہینےمیں اس کمیٹی کا کوئی سربراہ نہ تھا، اور جب سربراہ مقرر ہوا تو ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابرہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کشمیرکمیٹی کا سربراہ کابینہ کی نشستوں میں شریک تو ہوا، لیکن خود کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کا کہیں کوئی وجود تک نہ تھا۔ اب پھر یہ نشست خالی ہوگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعتی مصالح سے بالاتر ہوکر ’کشمیر کمیٹی‘ کو حقیقی معنی میں قومی کمیٹی بنایا جائے اور ایک لائق اور متحرک شخص کو اس کا سربراہ مقررکیا جائے، جو پوری یکسوئی کےساتھ کشمیر کے کاز کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش کرے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ سفارتی تجربہ رکھنے والے کسی شخص کو کشمیر کے سلسلہ میں اسپیشل ایڈوائزر بنانے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ ’کشمیر کمیٹی‘ اور اس کے سربراہ کو بالکل اس جذبے سے اپنا فرض منصبی ادا کرنا اور کمیٹی کو چلانا چاہیے کہ جس طرح غزوئہ اُحدمیں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد پہاڑ کی ایک پوزیشن پر تیرانداز ٹیم کو کھڑا کرکے فرمایا تھا کہ: ’کچھ بھی ہو آپ نے یہ پوزیشن نہیں چھوڑنی‘۔ مگر اُن کے پوزیشن چھوڑ دینے پر ریاست مدینہ کو شدید نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
آزادکشمیر حکومت کا ہدف
اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کشمیرکاز کے فروغ کے لیے جموں و کشمیر اور عالمی سطح پر ایک نیا اور مؤثر کردار ادا کرے۔ اس کے لیے اسے پہل قدمی(initiative) کرکے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔ وہاں اس وقت صدر اوروزیراعظم دونوں دردِ دل رکھنے والے سمجھ دار رہنما ہیں۔ ان سے بات کرکے آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر کمیٹی بنائی جائے، جس میں سابقہ وزراے خارجہ اور خاص طورپرلائق سابق سفارت کاروں سے معاونت لی جائے اور ان کے اشتراک سے ایک ٹیم بنائی جائے۔
یورپ، مشرق بعید، امریکا اور عرب دنیا میں جو لوگ موجود ہیں، انھیں کردار ادا کرنے کی دعوت دی جائے۔ بھارت کے معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کی مہم پر بھی غور ہونا چاہیے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک میں اس چیز کا کلیدی کردار تھا۔ فلسطین کی آزادی کی موجودہ تحریک اس سلسلے میں مؤثر اقدام کر رہی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹوں، جنرل اسمبلی کی قراردادوں وغیرہ کی بنیاد پر یہ کوشش کی جائے کہ قانونی طور پر بھی کشمیر کا مقدمہ عالمی اداروں اور عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جائے۔
سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر ا نٹر نیشنل کانفرنس کی اپنی افادیت ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ مختلف ملکوں کے پارلیمنٹیرینز سے براہِ راست ملاقات ہو اور پارلیمنٹس میں کشمیر پر قرارداد لانے کی کوشش ہو ۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز سےرابطے ہوں، ان سے قراردادیں منظور کرانے کی کوشش ہو۔
آزاد کشمیر میں اتفاق راے اور پاکستانی سیاست
یہاں پر ایک بار رُک کر یہ بات بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں ،اپنی پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی کو ختم کرکے ایک قومی حکومت بنائیں ؟ یا الگ الگ وجود رکھنے اور اپوزیشن کے باوجود ایک چھت تلے بیٹھ کر یہ طے کریں کہ ہم صرف اور صرف کشمیر کی آزادی، اور کشمیر میں بہترین حکومت سازی اور ڈسپلن کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور پاکستانی سیاست کو آزادکشمیر کی سیاست میں نہیں لائیں گے۔ یاد رہے کہ ۱۹۷۲ء تک پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا یہی موقف تھا۔ لیکن پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو کشمیر کی سیاست میں دھکیلنے کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کی تھی۔ تاہم،۴۸برس کے اس تجربے سے اندازہ ہوا ہے کہ پاکستانی سیاست کے آزاد کشمیر میں عمل دخل نے جدوجہد کو بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔اس لیے اتفاق راے سے تمام پاکستانی سیاسی پارٹیاں ۱۹۷۲ء سے پہلے کی پوزیشن اختیار کرلیں۔یہاں پر مَیں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ۱۹۷۴ء سے آزادکشمیر میں جماعت اسلامی بھی قائم ہے، لیکن جماعت اسلامی پاکستان نے کسی درجے میں اس کی پالیسیوں اور معاملات میں کبھی کوئی دخل اندازی نہیں کی، نام اگرچہ ایک ہے لیکن ہرسطح پر اور ہردرجے میں وہ الگ تنظیم ہے اور پاکستان کی جماعت کی شاخ نہیں ہے۔
آزاد کشمیر پیراملٹری فورس کی ضرورت
ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ آزادکشمیر فوج تو نہ بنائے لیکن پیراملٹری فورس کے بارے میں ضرور اقدام کرے، تاکہ جب ڈی ملٹرائزیشن کی بات کی جائے گی اور پاکستان کی طرف سے فوج کو نکالا جائے گا تو فطری طورپر آزادکشمیر کی اپنی سیکورٹی فورس ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پولیس کے ساتھ ساتھ نیشنل ڈیفنس فورس کی طرح سے ایک پیراملٹری فورس موجود ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اقوام متحدہ کمیشن کی دستاویزات میں اس کا ذکر آیا ہے ۔
کشمیر ریسرچ گروپ کا قیام
اگرچہ پہلے سے متعدد ادارے موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ایک ’کشمیر ریسرچ گروپ‘ قائم کیا جائے، جو حکومت پاکستان کی کشمیر کمیٹی اور آل پارٹیز کشمیر کانفرنس کو مسئلہ کشمیر پر باخبراور تازہ دم رکھنے کے لیے مسلسل کام کرے۔ وہ کشمیر پر مثبت منفی تحریروں اور بیانات کو جمع کرے، تجزیہ کرے اور درست موقف کو پیش کرے۔ ساتھ ہی مذکورہ بالا اداروں کو متوجہ کرے۔ اس وقت خود بھارت میں بہت سی کتب اور مقالات شائع ہورہے ہیں، جن میں مسئلہ کشمیر کی حقیقی صورتِ حال کو جاننے اور اسے حل کرنے کا احساس نمایاں ہے۔ ا ن کتب میں زور دیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ایسی انسانیت کشی کیوں کر رہی ہے؟ ان چیزوں کو نمایاں طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
مسئلہ کشمیر سے آگہی کے لیے اقدامات
اس بات کی ضرور ت ہے کہ بہت ہی دوٹوک طور پر مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور تحریک پر تحقیق ہو، سوشل میڈیا پربھی ہر بڑی زبان میں معاملے کی نزاکت کو مؤثر دلائل سے بیان کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ کشمیر پر دستاویزی فلمیں بنوائی جائیں۔ محض تقریری اور سماجی کانفرنسیں نہیں بلکہ عملی اور اقدامی کانفرنسیں منعقد کی جائیں، جن میں اہداف طے ہوں اور حکمت عملی کا تعین ہو۔ پھر معاملہ فہمی (لابنگ) کا محاذ ہے۔اہم سیاسی اور میڈیا کے فورم تک پہنچ کر انھیں ہم آواز (involve) بنانا ہے، انھیں اُبھارنا اور متحرک (motivate) کرنا ہے، انھیں سہولت فراہم (facilitate) کرنی ہے۔ تحقیق اور تحقیق کے نتیجے میں مختلف سطح پر ان چیزوں کی تیاری ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پروجیکشن کرنا اور پہنچا ناایک بڑا ہی اہم کام ہے۔ یہ کام پاکستان اور دُنیابھر میں پھیلے کشمیری بھائیوں کے کرنے کا ہے۔یہ کام مقبوضہ کشمیر کے اندر سے کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے لیے بیرونِ کشمیر سے منصوبہ بندی اور باقاعدگی (systematically) سے کام کیا جانا چاہیے۔
بھارت نواز قیادت کا مستقبل
بھارتی حکومت کا ساتھ دینے والے کشمیری مسلمانوں نے بہت کھل کر اعتراف کیا ہے کہ ’’بھارت نے ہمیں دھوکا دیا ہے اور ہم اُس پر اعتماد کرنے کی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کو پھر جھانسہ دینے کے لیے بھارتی پالیسی ساز ادارے رابطے قائم کر رہے ہیں، تاکہ انھیں اگلی مرتبہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں۔ اس ضمن میں اگر بھارتی عناصر کامیاب ہوجاتے ہیں، تو یہ بہت نقصان دہ عمل ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارتی جارحیت کے مدمقابل قوتوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں ، انھیں تحفظ دیں، ساتھ چلائیں، ممکن حد تک اتفاق راے کے نکات پر اپنا ساتھی بنائیں اور اگر یہ ساتھ نہیں چلتے تو کم از کم یہ دوبارہ بھارتی سیاسی حکمت عملی کا حصہ نہ بنیں۔ یہ حکمتِ کار بھی ایک مفید عمل ہوگا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھارت بڑی مکاری سے کوشش کر رہا ہے کہ ایک نئی ’بھارت نواز کشمیری قیادت‘ اُبھارے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ کئی افراد میدان میں لاچکا ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس یہ کوشش کی جائے کہ جو شخص ایسی کوشش کرے اسے بے نقاب کیا جائے۔ اس کے تعلقات اور پس منظر کو نمایاں کیا جائے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان نئے لوگوں سے بھی رابطہ کاری اور مکالمے کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔
دینی و سیاسی قیادت کی ذمہ داری
کشمیر میں املاک کی خریدوفروخت پر محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا ایک فتویٰ ترجمان القرآن (اپریل ۲۰۲۰ء) میں شائع کیا گیا ہے،اسی طرح مسلم اور عرب دنیا کے علما سے فتوے حاصل کیے جائیں ۔مراد یہ ہے کہ بھارت، کشمیر کے مسلمانوں کی زمینوںکو حاصل کرنےاور اس طرح ان کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے جو کام کررہا ہے اور جس طرح وہ اپنے غاصبانہ قبضے کو ایک قبول عام شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کا مقابلہ سیاسی اور دینی قیادتوں کو مل کر کرنا ہے۔ اس کے لیے سیاسی میدان میں اوردینی دائرے میںبھی راےعامہ بنانا نہایت اہم کام ہے۔
حکومت پاکستان کو محض تنقید کا نشانہ بنانے کے بجاے، حکومت کو آمادہ ، تیار اور مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فعال، مربوط اور مؤثر کام کرے۔ ان کاموں میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے۔ توجہ دلانے کے لیے ملاقاتوں اور مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے اور کشمیر کے مسئلے پر پارٹی سیاست کی محدود اور گروہی سطح سے بلندہوکر کام کرنا چاہیے۔
’عالمی کشمیر ریلیف فنڈ‘ کا قیام
مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک ’عالمی کشمیر ریلیف فنڈ‘ کا قیام بھی نہایت ضروری ہے۔ خاص طور پر کورونا کی وجہ سے اور اس سے قبل دس مہینوں کے ’جبری کشمیری لاک ڈاؤن‘ میں مکمل کاروبار کی بندش کی وجہ سےکشمیر کے تاجروں اور عام شہریوں کا بے پناہ معاشی نقصان ہوا ہے، بلکہ معاشی تباہی ہوئی ہے۔ وہ چاروں طرف سے ۹لاکھ فوجیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں، علاج معالجے کی صورتِ حال حددرجہ ابتر ہے۔ ا ن کی سماجی بحالی اور زندگی و صحت کے لیے عالمی سطح پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک میں موجود اہلِ خیر کو اس خدمت کے لیے متوجہ کیا جائے۔ وسائل جمع کرکے ان تک پہنچائے جائیں۔ یہ کام بھی فوری توجہ چاہتا ہے۔
مجھے توقع ہے کہ جس مرحلے میں یہ تحریک داخل ہوئی ہے اس سے ان شاء اللہ قدم آگے بڑھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اسس کامیابی کو دیکھ سکیں۔
……………….

Leave a Reply

Your email address will not be published.