اسلامو فوبیا اور ففتھ جنریشن وار۔ یونیکوڈ ٹیکسٹ

اسلامو فوبیا اور ففتھ جنریشن وار۔ یونیکوڈ ٹیکسٹ

ا

سلامو فوبیا اور
ففتھ جنریشن وار

تحریر و تحقیق:
راجہ ابرار احمد

انتساب

یہ کتاب میں اسلام کی بالادستی کے لئے کوشاں ہر شخص کے نام کرتا ہوں

کتاب کا عنوان: اسلامو فوبیا اور ففتھ
جنریشن وار
تحریر و تحقیق: راجہ ابرار احمد
ریسرچ اسسٹنٹ: محمد موسیٰ سومرو
تعداد اشاعت: 1000
سال اشاعت؛ 2021
پبلشر: اختلاف نیوز میڈیا
گروپ آف پبلیکیشنز

تعارف
اسلامو فوبیا اور ففتھ جنریشن وار
عالمی امن داؤ پر

یہ کتاب دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کے حوالے سے جان بوجھ کر پیدا کئے جانے والے منفی تاثر، اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر پیدا کئے جانے والے خوف کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے!اس کتاب میںامریکہ، یورپ، اسرائیل اور اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اسٹیک ہولڈر مانتے ہوئے اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے عناصر اور ان کی تنطیموں پر تفصیلی مضامین شامل ہیں۔کتاب میں داعش، القاعدہ، طالبان، مجاہدین، کشمیر، افغانستان، فلسطین، شام، لبنان، روہنگیا اور دیگر عنوانات پر سیر حاصل تحقیقی مضامین شامل ہیں۔آخر میں اسلامو فوبیا کے خاتمے کےلئے موثر اور قابل غور تجاویز پیش کی گئی ہیں۔یہ کتاب انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ فار کنفلکٹ ریزولیوشن اینڈ سوشل ڈیویلپمنٹ کی پہلی اور راجہ ابرار احمد صاحب کی پانچویںتحقیقی کاوش ہے۔امید ہے قارئین کی توقعات پر پورا اترے گی۔



پیش لفظ

دیباچہ

پیش لفظ

میرا نام ابرار احمد ہے میرا تعلق نارمہ راجپوت قبیلے سے ہے میں10 مارچ انیس سوبیاسی کو آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے ایک گاؤں کھوئی رٹہ میں پیدا ہوا میرا لڑکپن بھی وہیں گزرا اور اسکولنگ بھی وہیں ہوئی۔جبکہ ماسٹرز میں نے قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے کیا۔ کشمیر کے حوالے سے میری بہت سی یادیں قابل ذکر ہیں۔ ایک کشمیری نوجوان ہوتے ہوئے میں جب بھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و زیادتی کی خبریں سنتا تھا تو میرا خون کھولے لگتا تھا۔کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے میری سوچ ایک آزادی پسند مجاہد کی تو تھیں۔اس لئے لڑکپن اور نوجوانی میں تو بزور قوت بازو کشمیر کو آزاد کرانے کی سوچ کا حامل تو رہا ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سوچ میں میچورٹی آتی گئی۔ اوربالآخر قانون، قواعد اور ضوابط کے تحت زندگی گزارنے کی سوچ حاوی ہوتی گئی۔ اور نہ صرف کشمیر بلکہ دنیا بھر کے متنازعہ علاقوںمظلوم و محکوم افراد کی پریکٹیکل مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس دنیا بھر کے متنازعہ علاقوں کے تنازعات حل کرنے کےلئے کام کا آغاز کیا ۔ اس حوالے سوشل میڈیا پر کئی پلیٹ فارم بنائے۔ مگر جو سب سے اہم پیش رفت رہی وہ تنازعات کے حل کےلئے تحقیق کے ذریعےٹھوس اور قابل عمل تجاویز پیش کرنے والا ایک مستند تحقیق ادارے کا قیام تھا۔ یہ ادارہ میں نے گذشتہ سال بنایا تھا۔ اور یہ پورے زور و شور سے تحقیقی سرگرمیوں میں مصرف عمل ہے۔ اور انٹریشنل کمیونٹی، عالمی مصالحتی اداروں اور پالیسی میکرز کی توجہ کےلئے تحقیقی رپورٹس، نیوزلیٹرز اور خطوط لکھ کر عالمی تنازعات بالخصوص کشمیر کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتا رہا ہے۔

اپنی غری نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی بہت سی یادیں وابستہ ہیں اپنے اسکول کے دور میں میں ایک اچھا مقرر تھا اور تقریر کے بہت سے مقابلوں میں حصہ لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی بہت بہت سے سرٹیفکیٹ وٹرافیاں اب بھی میرے پاس موجود ہیں لکھنے لکھانے سے مجھے بچپن سے دلچسپی تھی اور میں مختلف عنوانات پر مضمون لکھتا رہا ہوں میں نے نہ صرف مختلف اخبارات رسائل و جرائد کےلئے بہت سارے مضامین لکھے بلکہ بہت سے مقابلوں کے لیے بھی میں نے مضامین لکھے ہیں۔ لکھنے لکھانے کا شوق مجھے تحریر و تحقیق کی طرف لے کر آیا جب جب میں نے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز / ایم بی اے کیا تو میری بچپن کی لکھنے لکھانے کی صلاحیت ایک ریسرچر کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکی تھی گریجویشن اور ماسٹرز میں تھیسس لکھنے کو میں ترجیح دیتا تھا ریسرچ کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی بھی ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران ہوئی، لیکن اس صلاحیت کو اجاگر کرنے میں جو تجربہ مجھے حاصل ہوا وہ پڑھانے کے دوران ہوا میں ایم بی اے کرنے کے بعد بھی مختلف انسٹیٹیوٹ میں پڑھاتا رہا اور یورپ آنے کے بعد بھی مجھے بہت سے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا موقع ملا اسی دوران میں نے ریسرچ سیکھی۔ میرا میرا مطمع نظر کوالیٹیٹو ریسرچ تھی۔ کوالیٹیٹو ریسرچ میں بہت سے ایسے سماجی مسائل تھے جن پر میں نے ریسرچ کرنے کا ارادہ کیا ریسرچ کے حوالے سے میں نے جن سماجی مسائل پر کام کرنے کا ارادہ کیا اور ان کی جب فہرست بنائی گئی تو وہ کم و بیش 200 سے زائد عنوانات پر مشتمل تھی اور میرا ارادہ ہے کہ ان 200 عنوانات پر الگ الگ ریسرچ کر کے الگ الگ کتاب لکھوں انشاء اللہ تعالی ۔اللہ نے چاہا تو میں اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنائوں گا اور 200 سے زائد کتابیں تحریر کروں گا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس وقت میں پانچ کتابیں لکھ چکا ہوں تین کتب ریسرچ اسٹڈیز ہیں۔جبکہ دوکتب ٹیکسٹ بکس ہیں ایک کتاب بیسک جرنلزم کورس پر مشتمل ہے جبکہ دوسری کتاب کمیونٹی ڈویلپمنٹ کوراس پر مشتمل ہے اور یہ دونوں کتابیں انگریزی زبان میں ہیں۔جبکہ میری موجودہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ اسلاموفوبیا پر مشتمل ہے اور یہ کتاب اپنے موضوع پر واحد کتاب ہے اور پہلی کتاب ہے اردو زبان میں اسلاموفوبیا اور ففتھ جنریشن وار پر یہ پہلی تحقیق کی کتاب ہے جو کہ میں نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے تحریر کی ہے اس کتاب کو لکھنے میں مجھے بہت سی مختلف زبانوں کی کتابیں پڑھ کر ان ے بعض حصوں کا ترجمہ کرنا پڑا۔ بہت سی لائبریریوں میں وقت گزارنا پڑا اور تحقیق کے مختلف معیار اورٹولز کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ کتاب تحریر کی جو کہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
اس کتاب میں میری معاونت معروف ریسرچر اور صحافی جناب محمد موسیٰ سومرو المعروف ابن انسانؔ نے کی ہے۔اس کے علاوہ بہت سےدوستوں نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر میری مدد کی ہے۔ میں ان تمام دوستوں کا شکر گذار ہوں۔ آپ سے التماس ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے سے ضرور نوازیں۔ کیونکہ یہ اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ اس لئے کسی جگہ انگریزی زبان سے ترجمہ کرتے ہوئے کوئی غلطی یا ریفرینس میں غلطی نظر آئے تو ضرور مطلع فرمایئے گا۔ شکریہ۔

مورخہ:۔ 23 مئی 2021
راجہ ابرار احمد سوشل ریسرچر
چیف ایڈیٹر: روزنامہ اختلاف نیوز
اختلاف نیوز میڈیا گروپ آف پبلیکیشنز

دیباچہ

ابرار احمد کی کتاب اسلامو فوبیا اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ جواسلامو فوبیا کوسمجھنے، اس کی جڑوں تک پہنچنے اور اسلام دشمنی کے ایجنڈے کو بے نقاب کرکے اس کا حل پیش کرتی ہے! اس کتاب میں انہوں نے اسلامو فوبیا کو جس خوبصورتی اور مدلل انداز میں آشکار کیا ہے۔ وہ نہ صرف قابل تعریف ہے۔بلکہ تاریخ کا حصہ ہے۔

ابرار احمد کی کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے


حصہ اول:اسلامو فوبیا


حصہ دوم: ففتھ جنریشن وار


پہلے حصے میں اسلامو فوبیا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں ففتھ جنریشن وار کو موضوع تحقیق بنایا گیا ہے۔ میں اس کتاب کے ریباچے میں اس موضوع پر کی گئی ان کی تحقیق کا نچوڑ نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اسلامو فوبیا کیا ہے
اسلامو فوبیا کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لئے آ پ کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔بس چند واقعات یاد کریں آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ اسلامو فوبیا کیا ہے؟آج سےکم و بیش دو سال قبل 15مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر ایک گورے نسل پرست جنونی نے اکیاون مسلمان نمازیوں کو شہید کیا تھا۔یہ قاتل اسقدر سفاک تھا کہ اپنے اس خونی کھیل کو انٹرنیٹ کے ذریعے براہ راست دنیا بھر میں دکھا رہا تھا۔ اس واقعہ کے چند لمحوں بعدمغرب پرست عالمی میڈیااپنے مخصوص ایجنڈے کے ساتھ سامنے آیا اور پھر اس سفاک قاتل کا چہرہ نظر آیااور نہ ہی اس کے متعصب نظریات پر مفصل تبصرہ کیا گیا۔ میڈیا اس سفاکی کے مقابل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا انسانی چہرہ لے کر برآمد ہوا اور آج تک اسی ایک چہرے کو پورے مغرب کا چہرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ جس دن جیسنڈاآرڈن ان شہید مسلمانوں کے خاندان کوگلے لگا رہی تھی اسی دن پوری مسلمان دنیا میں امریکہ اور اس کے حواریوں کے ہاتھ لاتعداد مسلمان مارے جا رہے تھے۔ عراق، شام اور افغانستان میں اس دن کی اموات کسی دوسرے دن سے کسی طور کم نہ تھیں۔ میڈیا کے کسی چینل پر اس سفاک قاتل برینٹن ٹیرنٹ کے اندر پائی جانے والی شدت پسندی اور دہشت گردی کاکبھی کسی نے ویسا سراغ نہ لگایا جیسا مسلمان دہشتگردوں کا لگایا جاتا ہے۔ میڈیا نے ایسا پہلی دفعہ نہیں کیا، بلکہ مغرب کے قاتلوں کی سفاکیت کو چھپا کر ان کا خوبصورت چہرہ جنگِ عظیم دوم کے زمانے سے ہی ہیروز کے طورپر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد سے اب تک گالی صرف ہٹلر کو دی جاتی ہے اور اسے ہی کئی کروڑ لوگوں کا قاتل بتایا جاتا ہے، لیکن دوسری جانب لڑنے والوں، برطانوی وزیراعظم چرچل اور امریکہ صدور ٹرومین اور روزویلٹ کو انسانیت کا محسن قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جنگ میں ان کی افواج نے بھی ہٹلر کی افواج سے کم لوگوں کو قتل نہیں کیا تھا۔ مغرب کے اس خوبصورت چہرے کے پیچھے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے اسے میڈیا، جیسنڈا آرڈن جیسی چھوٹی چھوٹی خوش کن مثالوں کے پیچھے چھپاتارہا ہے۔ایسے چند لوگوں کا انسان دوست چہرہ دکھایا جاتا ہے، لیکن انسانیت، خصوصا مسلمانوں کے خلاف ان کے جرائم کا ذکر تک نہیں کیاجاتا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا تذکرہ کرنے والے کبھی جارج بش اور ٹونی بلیئر کو بدترین خونی اور سفاک کرداروں کے طور پر پیش نہیں کرتے، جنہوں نے ایک جھوٹ کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیااور ’’صرف‘‘ انیس لاکھ لوگ قتل کر دیئے۔ میڈیا بتاتا ہے کہ انہوں نے یہ سب جمہوریت اور انسانی حقوق کی بالادستی کو قائم کرنے کے لیئے کیا۔ عراق میں ایک الیکشن کروانے کی اتنی بڑی قیمت ہے جو عراقی عوام نے ادا کی ہے۔ انسانی جانوں کی صورت اتنی بڑی قیمت تو سکندر، فرعون، نمرود اور چنگیز کی بادشاہت قائم کرنے کے لیئے بھی ادا نہیں کی گئی ہوگی۔ صرف ایک ملک میں جمہوریت نافذ کر نے کے لیئے 19 لاکھ لوگ قتل کر دیئے گئے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور سفاکیت کا عالم یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے کرونا کے دوران بھی معاشی بدحالی اور انسانی امداد کے نام پر دنیا بھر کے ممالک میں جن این جی اوز کو مدد فراہم کی ہے ان میں اکثر ایسی تھیں جن کے ہاتھ مسلمانوںکے خون سے رنگے ہوئے تھے اور جن کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانا تھا۔جنوبی ایشیا میں امریکہ کے تازہ تازہ حلیف اور دوست ’’بھارت ‘‘کیلئے جن پانچ تنظیموں کو امریکہ کی جانب سے آٹھ لاکھ تئیس ہزار ڈالر امداد دی گئی وہ پانچوں نسل پرست متعصب اور قاتل ہندو تنظیمیں ہیں۔ امریکہ کی ایک سرکاری ایجنسی سمال بزنس ایڈمنسٹریشن (SBA) ہے جو چھوٹے کاروبار کے لیئے مدد اور قرضے فراہم کرتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں 27مارچ 2020ء کو کانگریس نے ایک ایکٹ پاس کیا جسے ’’کرونا وائرس، ایڈ۔ رلیف اینڈ اکنامک سیکورٹی ایکٹ‘‘ (CARE Act)کہا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت دوہزار دو سو ارب ڈالر مختص کیئے گئے۔ اس ایکٹ کے تحت دو اہم پروگرام (EIDLA) اور (DAL) بھی شروع کیئے گئے۔ امریکی ایجنسی (SBA )نے بھارت سے منسلک جن تنظیموں کو امداد فراہم کی ان میں پہلے نمبر پر ’’وشو اہندو پریشد‘‘ امریکہ ہے۔ امریکہ میں اس تنظیم کے 23دفاتر ہیں اور یہ بھارت کی راشٹریہ سیوک سنگھ کی ذیلی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کو 21,430 ڈالر امداد دی گئی۔دوسری تنظیم جس کو 71,462 ڈالر ملے وہ ’’اکال و دیالہ فاؤنڈیشن‘‘ ہے۔ اس تنظیم کو نہ صرف امریکہ اور مغرب کی پریس بلکہ خود بھارت کی ایجنسیوں کی رپورٹوں نے بھی اقلیت دشمن خصوصاً مسلمان دشمن قرار دیا ہے۔اس تنظیم کے تحت بھارت میں ہزاروں ’’ایکال‘‘ سکول چلتے ہیں جن میں شدت پسند سوچ پروان چڑھائی جاتی اور مسلمانوں سے نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تیسری تنظیم جسے 51,872 ڈالر، امریکی سرکاری خزانے سے دیئے گئے وہ’’ انفٹی فاؤنڈیشن ‘‘(Infity)ہے۔ اس تنظیم کا بانی راجیو ملہوترا ہے جو ایک مقبول ہندو جنگجو ہے، جس کے ٹوئٹر پر 2لاکھ فالوز اور فیس بک پر اسے پسند کرنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ ہے۔اس نے امریکہ میں کمپیوٹرکی مشہور سیلیکان وادی میں نوکری، چالیس سال کی عمر میں ہی چھوڑ دی اور ھندوتوا کے تصور کی ترویج کے لیئے خود کو وقف کر لیا۔ اسے روسی ناول نگار، آیان رینڈ (Ayn Rand) کا ہم پلہ سمجھا جاتا ہے جو نسل پرستی کے لیئے ہر قتل، جرم اور غیر اخلاقی حرکت کو جائز سمجھتی تھی۔ اس شخص پر متعصب خیالات کے الزام کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی تھیسز میں ’’چوری ‘‘ (Plagiarism) کرنے کا بھی الزام تھا ،لیکن اسکے باوجود اسے مشہور عام سیکولر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں آنریری پروفیسر رکھا گیا۔ چوتھی تنظیم جسے 150,621ڈالر ملے وہ ’’سیوا انٹرنیشنل‘‘ ہے ۔یہ بھی راشٹریہ سیوک سنگھ کی ایک ذیلی تنظیم ہے اور آر ایس ایس کے نوے فیصد رفاحی ادارے اسی تنظیم کی سربراہی میں قائم ہیں۔ اس تنظیم کے بورڈ کا چیئرمین رمیش بھوٹاڈا ہے جو امریکہ میں راشٹریہ سیوک سنگھ کا سربراہ ہے۔ ان چاروں تنظیموں سے کہیں زیادہ جس تنظیم نے امداد حاصل کی وہ ’’ہندو امریکن فاؤنڈیشن‘‘ ہے۔ اسے 388,664ڈالرملے۔ یہ وہ تنظیم ہے جو خود کو ایک وکالتی گروہ (Advocacy Group) کہتی ہے اور پورے تعصب کے ساتھ راشٹریہ سیوک سنگھ، ویشوا ہندو اور بجرنگ دل جیسی متعصب تنظیموں کی ہر سطح پر وکالت کرتی ہے۔ امریکہ کی اکثر ریاستوں میں ’’شہریت ایکٹ‘‘ کے خلاف فضا تھی۔اس تنظیم نے بھارت کے اس نسل پرستانہ اقدام کا پورے امریکہ میں دفاع کیا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ امریکہ کے صدر رمیش بھوٹاڈا اسی تنظیم کے بورڈ آف گورنر میں ہے۔ 2018 ء میں ٹیکس کے کاغذات کے مطابق رمیش بھوٹاڈا نے 48ہزار ڈالر سیوا انٹرنیشنل، 30ہزار ڈالر ہندو امریکن فاؤنڈیشن اور تیس ہزار ڈالر ہندو سوامی سیوک سنگھ (یہ راشٹریہ سیوک سنگھ کا امریکی نام ہے) کو دیئے۔ یہ سب کچھ پہلی دفعہ نہیں ہورہا۔ ساؤتھ ایشین سٹیزن ویب نے 2014ء میں ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق 2001 سے 2012ء تک ایکال ودیالہ کو تین کروڑڈالر، سیوا انٹرنیشنل کو چار لاکھ ڈالر اور انفنٹی فاؤنڈیشن کو دو لاکھ ڈالر ملے تھے۔ امریکہ نے بھارت کی ہر اس تنظیم کو سرمایہ فراہم کیا جو شدت پسند ہندو تھی اور جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر دوسری اقلیتوںکے بھی خلا ف تھی۔ اس حکومتی امریکی سرمائے کی وجہ سے ان تمام تنظیموں کو صرف مالی مدد فراہم ہوئی بلکہ عالمی سطح پر ان کے جرائم کو ایک اخلاقی جواز بھی فراہم ہوا ۔ یہ وہ بیس سال تھے جب پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھااور امریکہ بھارت کے ہندو شدت پسندوں اور دہشتگردوں کو سرمایہ پہنچا رہا تھا۔وہ متعصب ہندو جو پاکستان کے خاتمے کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کے خون سے رنگین ہاتھوں کو امریکی امداد اور میڈیا کی لانڈری نے نہ صرف دھویا ہے بلکہ انہیں خوبصورت بنا کر پیش بھی کیا ہے۔
ففتھ جنریشن وار نوے کے عشرے میں امریکی عسکری اداروں کی طرف سے سامنے آئی۔ اس کی تقسیم یوں ہے کہ فرسٹ جنریشن وار قدیم لڑائیاں تھیں جن میں دشمن پر غلبے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ جس قبیلے ، ریاست یا بادشاہت کی فوج عددی اعتبار سے بڑی ہوگی وہی کامیاب ہو گی۔سیکنڈ جنریشن وار کا تصور یہ تھا کہ جس کے پاس دشمن سے بہتر اسلحہ ، تیز رفتاری اور بہتر فوجی تربیت ہوگی وہی کامیاب ہوگا۔یہ دور منجنیق اور آتشیں تیروں سے شروع ہوا ، برق رفتار منگول گھڑ سواروں سے ہوتا بارودی بندوقوں کا مرحلہ پار کر کے انیسویں صدی کے اواخر تک بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں اور مشین گن کے متعارف ہونے پر ختم ہوا۔تھرڈ جنریشن وار میں حربی جدت کاری کے ساتھ ساتھ دشمن کو حیران کر دینے والی اچانک حکمتِ عملی اور جنگی چالوں پر زور رہا۔اس کا ابتدائی مظاہرہ پہلی عالمی جنگ میں ہوا اور دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کی بلٹز کریگ پنسر حکمتِ عملی سے نارمنڈی کے ساحلوں پر اتحادیوں کی پانسہ پلٹ لینڈنگ اور جاپان کے خلاف ایٹم بموں کے بھونچکا کر دینے والے استعمال اور پھر انیس سو چھپن کی جنگِ سویز ، انیس سو سڑسٹھ اور تہتر کی عرب اسرائیل جنگوں میں دشمن کو ششدر و مفلوج کر دینے کی حکمتِ عملی تک عروج پر پہنچ گیا۔فورتھ جنریشن وار فیصلہ کن بے پناہ طاقت کا سرعت سے استعمال کر کے دشمن کو مفلوج و مغلوب کر دینے والی حکمتِ عملی کا مظاہرہ تھا۔کویت پر پوری قوت کے ساتھ اچانک عراقی قبضہ ، عراق کو کویت سے صرف بہتر گھنٹے میں کھدیڑنے کی امریکی اتحادیوں کی فیصلہ کن حکمتِ عملی اور پھر عراقی فوج کا دورانِ پسپائی کچلا جانا ، نائن الیون کے بعد افغانستان پر ڈیزی کٹر بمباری اور کابل پر سرعت کے ساتھ شمالی اتحاد کی امریکی حمائیت یافتہ ملیشیا کا قبضہ ، دو ہزار تین میں عراق پر مسلسل بے پناہ بمباری کے بعد امریکی بری فوج کی بغداد تک تیز رفتار پیش قدمی۔یہ سب فورتھ جنریشن وار کے نمونے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ہی ففتھ جنریشن وار بھی شروع ہو گئی۔نوے کی دہائی میں عراق کی مسلسل اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے اسے اندر سے کھوکھلا کرنا ، عراق کے کیمیاوی و حیاتیاتی اسلحے اور وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کے ذخیرے اور صلاحیت کے بارے میں انتہائی مبالغہ آمیز پروپیگنڈے کے ذریعے اسے بین الاقوامی اچھوت میں تبدیل کرنا۔اس کے بعد عراق کو مکمل طور پر فتح کرنا بچوں کا کھیل ثابت ہوا۔نائن الیون میں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کی تباہی کے ذریعے سب سے بڑی سپر پاور کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ نے اعلان کیا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی ففتھ جنریشن وار کا عامل فریق بن چکے ہیں۔اس واقعے نے جہاں امریکا کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے سحر کو توڑا وہیں القاعدہ کے ہاتھ پرکشش پروپیگنڈے کا قیمتی ہتھیار بھی آگیا۔اس کشش کے سبب القاعدہ ایشیا سے افریقہ تک مقامی جنگجوؤں کے لیے ایک موثر فرنچائز ہو گئی۔اور القاعدہ کی کوکھ سے جنم لینے والی داعش نے پروپیگنڈے اور سرپرائز کے عنصر کو ساتھ ملا کر ففتھ جنریشن وار کے آرٹ کو مزید سیقل کر دیا۔ہم ففتھ جنریشن وار میں غیر علانیہ کم خرچ بالا نشیں پراکسی جنگوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو روایتی کمر توڑ مہنگی جنگوں کے مقابلے میں برس ہا برس جاری رکھی جا سکتی ہیں۔ پراکسی جنگوں کا مقصد تیز رفتار کامل فتح حاصل کرنے سے زیادہ دشمن کو مسلسل مصروف رکھنا اور چرکوں پر چرکے لگاتے رہنا ہے تاکہ دشمن جھنجھلاہٹ اور خوف کے عالم میں حواس باختہ ہو کر ایسی حرکتیں شروع کر دے کہ جن کے بارے میں مزید پروپیگنڈہ کر کے علاقائی و عالمی سطح پر مزید تنہا اور بدنام کر کے الگ تھلگ اور کمزور کیا جا سکے۔ففتھ جنریشن وار کا ایک حصہ ذہنی خلفشار ، احساس عدم تحفظ یا احساسِ کمتری پیدا کرنا بھی ہے۔کامیابی کی صورت میں دشمن کو زیر کرنا اور آسان ہو جاتا ہے۔یہ جنگ سائبر اسپیس سے لے کر انتخابی عمل میں غیر مرئی مداخلت اور جعلی خبروں و تصاویر کے ذریعے نفاق اور کنفیوژن پیدا کرنے تک ہر محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ جیسے امریکی صدارتی انتخابات میں جعلی خبروں کا پھیلاؤ اور اس تناظر میں روسی مداخلت کے شبہات امریکی نظام ِ انتخاب پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ایک برطانوی مشاورتی کمپنی کیمبرج اینیلٹیکا جو حال ہی میں ختم ہو گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز سے حاصل کروڑوں صارفین کے بلا اجازت حاصل کیے گئے ڈیٹا کو متعدد ممالک کے شہریوں کو ایک خاص طرح کی رائے مرتب کرنے اور ووٹروں کو ایک خاص رجحان کی طرف جھکانے کے لیے سائنسی چابک دستی سے استعمال کیا۔کہا جاتا ہے کہ کیمبرج اینیلٹیکا نے اوباما کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں امریکی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے، گزشتہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو جتوانے اور برطانیہ میں بریگزٹ کے حامی کیمپ کو کامیاب کروانے کے علاوہ دنیا بھر میں تقریباً دو سو انتخابی مہمات پر پچھلے آٹھ برس میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔کیمبرج اینلٹیکا کی خدمات سے میکسیکو کی سابق حکمران پارٹی پی آر آئی ، کینیا کی حکمران جماعت کے علاوہ بھارت میں بی جے پی اور کانگریس نے بھی استفادہ حاصل کیا اور ووٹروں کی رائے کو ایک خاص رخ دینے کی کوشش کی۔مجھے نہیں معلوم کہ اس مذکورہ عمل کو ففتھ جنریشن وار کے تشریحی دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات کو ایک خاص سمت میں لے جانے کے عمل کو ففتھ جنریشن وار کی کیٹگری میں رکھا جانا چاہیے کہ نہیں۔اگر ففتھ جنریشن وار کے اجزائے ترکیبی کو پوری طرح سمجھے بغیر اس کے کمبل میں ہر محروم یا مخالف طبقے کے غصے یا ناپسندیدہ مطالبات کو لپیٹنے کی کوشش کی جائے تو خطرہ یہ ہے کہ جو عناصر واقعی ففتھ جنریشن وار کے اصل جنگجو ہیں وہ اس کنفیوژن کا فائدہ اٹھا کر ریاست ، ریاستی اداروں اور شہریوں کے لیے مزید خطرات اور عدم تحفظ کا موجب بن سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔

اسلامو فوبیا کیا ہے؟

اسلاموفوبیا (اسلام ہراسی) لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ’’فوبیا‘‘ (یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے۔ اس سے غیر مسلم ’ اسلامی تہذیب سے ڈرنا‘ اور ’ نسلیت مسلم گروہ سے ڈرنا ‘ مطلب لیتے ہیں۔ اکثر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہے اس کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔اسلامو فوبیا یعنی اسلام سے دشمنی جس کی انگریزی (Islamophobia) ہے یا اسلام کا خوف۔ یہ نسبتا ایک جدید لفظ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ جس کا مفہوم بے جا طرفداری، نسلی امتیاز اور لڑائی کی آگ بھڑکانا طئے کیا گیا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اس کی شناخت یہ بھی کرائی ہے کہ یہ لفظ مسلمان یا پھر ان کی شدت پسندیکے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال 1976 سے آغاز ہوا لیکن بیسویں صدی کی اسی اور نوے کے ابتدائی دہائیوں میں اس کا استعمال بہت ہی کم رہا۔ 11 ستمبر 2011 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ڈرامائی حملوں کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔

انگریزی زبان میں مستعمل یہ لفظ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اسلام سے خوف و دہشت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس لفظ کی ایجاد کی 1987ء سے ہوتی ہے۔ جبکہ 1997 ء میں اس اصطلاح کی تعریف کرنے کی کوشش کی گئی جب برطانوی رائٹر رونیمیڈ ٹروسٹ نے ” Islamophobia: A Challenge for Us کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں اس لفظ کی تعریف بیان کی کہ اسلامو فوبیا یعنی اسلام سے بے پناہ خوف اور نتیجتا ایک ایسا ڈر جو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے اور فرانسیسی مصنفین کے نزدیک اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے مالیہ ایمیلی نے “ثقافت اور وحشیت” کے عنوان پر مقالہ میں کیا جس کو 1994 ء میں فرانس کے ایک اخبار لیمنڈا نے شائع کیا۔ جس میں اس نے اسلامو فوبیا کی صنف رواں کے تعلق سے بیان کیا۔ اور 1998 ء میں صہیب بن الشیخ نے اپنی کتابMarianne et le Prophète (ص:171)میں اس لفظ کو ایک باب کے عنوان کے طور پر لیا۔ عالمی پیمانہ پر اس لفظ کا استعمال خوب ہوا خصوصا 11 ستمر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ڈرامائی حملوں کے بعد روایت پسند اسلامی جماعتوں کی طرف سے رد عمل کے طور پر اس لفظ کو خوب فروغ دیا گیا۔ کچھ اسلامی جماعتیں خصوصا جہادی اور سلف کی طرف دعوت کا کام انجام دینے والی جماعتیں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھوکنے اور لوگوں کو یہ تاثر دلانے کے لیے کہ اسلام کے کیمپ میں رہ کر کی جانے والی کوششوں سے خوف و دہشت کا کوئی واسطہ نہیں اس لفظ کی عمومی اصطلاح کو بدلنے لگیں اور آخر کار ان جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ گویا ان کے نزدیک ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سے اسلامو فوبیا سے لڑنے کا عالمی دن منانے کا مطالبہ کردیا، انہوں نے کہا کہ انڈیا میں حکومتی سرپرستی میں اسلامو فوبیا کو فروغ دیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں سالانہ اجلاس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ عالمی وبا ہمارے لیے بہترین موقع تھی کہ انسانیت کو قریب لایا جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ آپس کی نفرتوں میں اضافہ ہوا اور اسلامو فوبیا کو عروج ملا۔ دنیا بھر میں ہمارے مزارات تباہ کیے گئے ، نبی کریم ﷺ کی توہین کی گئی، قرآن پاک کو جلایا گیا، حال ہی میں چارلی ہیبڈو نے توہین آمیز خاکے جاری کیے، یہ سب کچھ آزادی اظہار رائے کے نام پر کیا جارہا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اسلامو فوبیا سے لڑنے کے عالمی دن کا اعلان کرے۔
وزیر اعظم عمران خان نے انڈیا میں اسلامو فوبیا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ایک ملک ایسا ہے جہاں حکومتی سرپرستی میں اسلاموفوبیا کو فروغ دیا جارہا ہے، یہ ملک انڈیا ہے جہاں آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی چل رہی ہے، آر ایس ایس کی بنیاد رکھنے والے افراد نازیوں سے متاثر تھے، آر ایس ایس مسلمانوں اور عیسائیوں کی دشمن ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا صرف ہندوؤں کا ہے۔1992 میں آر ایس ایس نے بابری مسجد کو شہید کیا، 2002 میں گجرات میں 2 ہزار مسلمانوں کو مودی کی سربراہی میں شہید کیا گیا، آسام میں 2 ملین مسلمانوں کو شہریت کے متنازعہ قانون کی وجہ سے خطرات لا حق ہیں، مسلمانوں پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا گیا ، انہیں طبی امداد دینے سے منع کیا گیا اور ان کے ساتھ تجارت کا بائیکاٹ کیا گیا۔انہوں نے اقوام متحدہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں جاری ہندو توا پالیسیوں کا نشانہ 30 کروڑ لوگ ہیں جن میں مسلمان ، عیسائی اور دوسری اقلیتیں شامل ہیں۔
اسی طرح وزارت خارجہ نے بتایا کہ پاکستان پہلی بار “اسلامک فوبیا سے لڑنے کے بین الاقوامی دن” کے منانے کے لئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک میں شامل ہوا۔ایک بیان میں ، وزارت نے کہا کہ اس دن کے نامزد کرنے کے لئے او آئی سی کی متفقہ مدد ، دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے جذبات کی عکاس ہے۔”آج ، او آئی سی کے ممبروں کو پہلی بار مشاہدہ کرنے کے لئے شامل ہوتا ہے۔’ اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے بین الاقوامی دن۔ ’اس موقعے پر ، او آئی سی گروپ نے 17 مارچ 2021 کو نیویارک میں ایک اعلی سطحی تقریب منعقد کی ۔گذشتہ نومبر میں او آئی سی کونسل برائے وزرائے خارجہ نے اپنے 47 ویں اجلاس میں ، نیجیر ، نیجیر میں منعقدہ ، متفقہ طور پر پاکستان اور ترکی کی طرف سے 15 مارچ کو “عالمی یوم آزادی کے خلاف جنگ” کے طور پر منانے کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی۔اسلامی گروپ اب عالمی سطح پر اس دن کو منانے کے لئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔وزارت نے کہا ، “وزیر اعظم عمران خان بڑھتے ہوئے منظم اسلامو فوبیا کے سنگین نتائج کے بارے میں شعور بیدار کرنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں نمایاں بین الاقوامی آواز بنے ہوئے ہیں ،” وزارت نے مزید کہا کہ اسلامو فوبیا کی لعنت ، عوام پسندی ، نفرت انگیز تقریروں اور اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ علم اور غلط معلومات کا فقدان ، پوری دنیا میں مسلم اقلیتوں کو ناقابل تصور مصائب کا باعث بن رہا ہے۔پاکستان نے ثقافتوں اور تہذیبوں کے مابین پل بنانے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کی رہنمائی کے لئے اپنی حمایت کی توثیق کی۔”اس دن کو منانے کے ذریعہ ، ہم اسلام اور اسلامی اصولوں کے بارے میں بہتر فہم پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بین الاقوامی یکجہتی اور تعاون کا پیغام بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم پرامن بقائے باہمی کے اقدار کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہیں اور بین المذاہب اور ثقافتی ہم آہنگی ، پاکستانی وزارت خارجہ نے مزید کہا۔او آئی سی نے گذشتہ سال نائجر میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان دنوں اسلامو فوبیا کا پھیلاؤ خاص طور پر تشویش ناک ہے ، کیونکہ یہ زین فوبیا کی خصوصیت والی نسل پرستی کی ایک نئی شکل” کے طور پر سامنے آیا ہے ، منفی پروفائلنگ ، اور مسلمانوں کی دقیانوسی ٹائپنگ۔عالمی مسلم ادارہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ، “آف لائن اور آن لائن دونوں طرح سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافے کے علاوہ تعلیم ، ملازمت ، رہائش اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بھی امتیازی سلوک کی دستاویزات ہیں۔”یوروپ اور دیگر مقامات پر ہونے والے مطالعے سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اسلامو فوبیا میڈیا میں سب سے زیادہ دکھائی دیتا ہے اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور گروہوں کا تبادلہ خیال جو انتخابی فوائد کے ل Islam اسلام کے عام خوف کا استحصال کرنے اور استوار کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔یوروپی ممالک اور امریکہ میں ، امیگریشن مخالف اور مہاجرین کے خلاف بیان بازی نے ایک مسلم مخالف اقدام کو قبول کیا ہے اور وہ اکثر دائیں بازو کی جماعتوں کے ذریعہ مہمات کا مرکزی موضوع بن جاتے ہیں۔او آئی سی کے مطابق ، “یہ بات قابل غور ہے کہ اسلامو فوبیا کچھ غیر مغربی ممالک میں بھی عروج پر ہے جہاں مسلم برادریوں اور اقلیتوں کو بھی کشمیر سمیت امتیازی سلوک ، نفرت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”او آئی سی نے مزید بتایا کہ جاری کورونویرس وبائی مرض کے دوران ، کچھ ممالک میں منفی بیانیے اور نفرت انگیز تقریروں میں تخفیف آمیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، جس میں نااہلی کی مہم اور “جعلی خبروں” کے ایک حصے کے طور پر ، COVID-19 کو پھیلانے کے لئے مسلم اقلیتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر سوشل میڈیا میں۔
انہوں نے اسلام کی بات کی، جس کے وہ پیروکار ہیں، مگر انہوں نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے چارلس برونسن کی فلم ‘ڈیٹھ وِش‘، مونٹی پائتھون اور دوسری عالمی جنگ میں جاپانی کامی کازی پائلٹوں کے حوالے بھی دیے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے، مشرق اور مغرب کے درمیان تعلق کو بظاہر بغیر کسی پریشانی یا مشکل کے دنیا کے سامنے واضح کیا۔ پاکستان کے روایتی لباس شلوار قمیض پر نیلے رنگ کا کوٹ پہنے خان نے دنیا کو یہ سمجھانے کی کامیاب کوشش کی کہ اسلاموفوبیا یا مذہب اسلام سے خوف کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اور یہ کہ مسلمان آخر کیوں پیغمبر اسلام کی ذات پر حملوں کے بارے میں اتنے زیادہ حساس ہیں۔اور آخر میں عمران خان کا خطاب اپنی معراج پر پہنچا، ایک سیاستدان کی طرف سے مسلم اکثریتی بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھارتی کریک ڈاؤن پر سیاسی حملہ۔ تاہم یہاں تک پہنچنے سے قبل انہوں نے ایک ایسا مدعا بھی پیش کیا جو مسلمانوں کے لیے تو عام فہم ہے مگر ایک بین الاقوامی فورم پر یہ کسی حد تک غیر معمولی ہے، اور یہ تھا مذہب اسلام کا بھرپور دفاع، جو خاص طور پر مغربی معاشروں کی سوچ کو مدنظر رکھ کر پیش کیا گیا: ”یہ بات سمجھنا اہم ہے۔ رسول (محمد) ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ جب ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، جب ان کی تضحیک کی جاتی ہے تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ عمران خان کا مزید کہنا تھا،ہم انسان اس بات کو سمجھتے ہیں: دل کا درد ہماری طبعی تکلیف سے کہیں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘‘
پیغمبر اسلام کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم کے یہ الفاظ انسانی جذبات کی ترجمانی تھے۔ اسی طرح انہوں نے دہشت گردی، شدت پسندی اور خودکش حملوں کو عام طور پر اسلام یا مسلمانوں سے نتھی کرنے کے خلاف بھی اپنا استدلال پیش کیا۔عمران خان کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان نے کامی کازی پائلٹوں کو بطور خودکش بمبار کے استعمال کیا: کسی نے مذہب کو الزام نہیں دیا۔‘‘ مگر نائن الیون کے حملوں کے بعد مسلم دنیا، خاص طور پر پاکستان اور بعض دیگر ممالک نے دیکھا کہ ان کو ان ہائی جیکرز کے اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جنہوں نے ورلڈ ٹریڈ سينٹر اور پینٹاگون کو نشانہ بنایا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مسلم رہنما نائن الیون حملوں کے بعد دنیا کو یہ بات باور کرانے میں ناکام رہے کہ ”کوئی بھی مذہب شدت پسندی کی تبلیغ نہیں کرتا۔‘‘
خان کا کہنا تھا کہ خودکش حملوں اور اسلام کو مساوی ٹھہرایا گیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم رہنما نائن الیون حملوں کے بعد دنیا کو یہ بات باور کرانے میں ناکام رہے کہ کوئی بھی مذہب شدت پسندی کی تبلیغ نہیں کرتا۔‘‘ ان کے بقول اس کی بجائے مسلم رہنماؤں نے مغربی لباس زیب تن کرنا شروع کر دیا اور یہاں تک ایسے رہنما جو انگریزی نہیں بول سکتے، انہوں نے بھی انگریزی بولنا شروع کر دی کیونکہ وہ اعتدال پسند لگنا چاہتے تھے۔‘‘اس بات سے بچنے کے لیے کہ ان پر شدت پسندی کا لیبل لگے، وہ اعتدال پسند دکھنے کی کوشش کرنے میں لگ گئے، حالانکہ انہیں اس بات پر مستحکم موقف اختیار کرنا چاہیے تھا کہ ‘ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جسے شدت پسند اسلام کہا جائے۔‘عمران خان کے مطابق وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ نیو یارک میں موجود ایک شخص یا کسی یورپی ملک کا کوئی فرد جس کے ذہن میں ‘اسلام اور شدت پسندی ایک جیسی چیز ہوں، وہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی صورت میں کسی مسلمان کے ردعمل پر پریشان کیوں ہو جاتا ہے۔عمران خان نے اپنی بات کی وضاحت کے لیے ایک ایسے موضوع کی بھی مثال دی جس پر بات کرنا یورپی ممالک میں ایک حساس معاملہ ہے اور وہ ہے ہولوکاسٹ یا یہودیوں کا قتل عام۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہولوکاسٹ کے معاملے کو بالکل درست حساسیت کے ساتھ موضوع گفتگو بنایا جاتا ہے کیونکہ یہ معاملہ یہودی کمیونٹی کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پیغمبر کی شان میں گستاخی کو آزادی اظہار کے زمرے میں ڈال کر ہمیں تکلیف نہ دیں۔‘‘عمران خان نے اپنے خطاب میں بھلے یہ جانتے بوجھتے کیا ہو یا نہیں، اہم پيغام يہ تھا کہ تکلیف اور غلط فہمیاں دنیا بھر میں ایک جیسی ہی چیزیں ہیں مگر انسان اپنے اپنے لحاظ سے ان کی توجیحات رکھتے ہیں۔
پاکستان کی سفارتی کاوشیں رنگ لے آئیں۔او آئی سی ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے گی ۔اسلامی تعاون تنظیم ’’او آئی سی‘‘ نے اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ یہ دن ہر سال 15 مارچ کو منانے کی قرارداد پاکستان نے پیش کی۔ اس امر کا اعلان جنرل سیکرٹری او آئی سی ڈاکٹر یوسف بن العثیمین نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر کیا۔تفصیلات کے مطابق پاکستان کی سفارتی کاوشیں رنگ لے آئیں ، اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) اسلام و فوبیا کے بڑھتے رجحان کے خلاف خصوصی مہم چلانے پر تیار ہوگیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحان روکنے کےلیے وزیر اعظم نےآواز اٹھائی۔ پاکستان نے اسلاموفوبیا پر 15مارچ کو عالمی دن منانےکی قرارداد پیش کی۔ قراردار وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 15مارچ کو عالمی سطح پرمنانے کےلیےاو آئی سی کاوشیں کر رہی ہے۔ او آئی سی کی جانب سے15مارچ کی حمایت مسلمانوں کی ترجمانی ہے۔انھوں نے کہا کہ او آئی سی گروپ کے زیر اہتمام 17مارچ کو نیویارک میں اجلاس ہو گا۔ اسلامو فوبیا کے رجحان سےمنفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے بین المذاہب ہم آہنگی کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 15مارچ کا دن منانے سے غلط فہمیوں کے ازالے میں مدد ملے گی، ہم بین المذاہب اور ثفافتی ہم آہنگی کے لیے پر عزم ہیں۔درایں اثناء ترجمان دفتر خارجہ پاکستان زاہد حفیظ چودھری نے “اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن” منانے کی پھر بھرپور حمایت کی۔ایک بیان میں ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ دن عالمی سطح پر منانے کیلئے او آئی سی کی کاوشوں کیساتھ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سب سے پہلے اسلاموفوبیا کے خلاف بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے آواز اٹھائی۔ او آئی سی کے 47 ویں وزارتی اجلاس میں پاکستان کی اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔پاکستانی قرارداد پر 15 مارچ کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا منانے کی منظوری دی گئی۔ او آئی سی کی جدوجہد اربوں مسلمانوں کے جذبات کی عکاس ہے۔ پاکستان آج کا دن اسلاموفوبیا کیخلاف منانے کیلئے او آئی سی کیساتھ کھڑا ہے۔او آئی سی گروپ اسلاموفوبیا کے خلاف 17مارچ کو نیویارک میں خصوصی تقریب کا انعقاد کرے گا۔ زاہد حفیظ چودھری نے کہا اسلاموفوبیا کے باعث دنیا بھر میں مسلم اقلیتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ اسلاموفوبیا کے باعث پرامن اور بردبار دنیا کا مستقبل خطرے میں ہے۔پاکستان ہمیشہ عالمی سطح پر ثقافتوں اور تہذیبوں میں بہتر تعلق کیلئے کوشاں رہا۔ انہوں نے کہا یہ دن منانے کا مقصد اسلام اور اسلامی اقدار کی بہتر تفہیم پیدا کرنا ہے۔ ہم عالمی برادری کو ہم آہنگی اور تعاون کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم پرامن بقائے باہمی، بین المذاہب اور ثقافتی ہم آہنگی کیلئے پرعزم ہیں۔
۔۔۔۔۔

یورپ میں اسلاموفوبیا عروج پر

حالیہ واقعات نے دنیا کے مسلمانوں میں اب یہ احساس تازہ کر دیا ہے کہ اسلاموفوبیا میں یوں اضافہ ہو چکا ہے کہ یہ ایک متعصب و نسل پرست اقلیت کا ہی مسلہ نہیں بلکہ سماج میں اب ایک عام اور قابل قبول حقیقت ہے۔برطانیہ میں جون کے پہلے ہفتے سے پہلے ہونے والے تین دہشت گرد حملوں میں ملوث افراد سب مسلمان نکلے۔ البتہ شاید مسلمان ہونے سے زیادہ یہ تمام افراد کِھسکے ہوئے نوجوان تھے جن کو اپنے غصے اور مایوسی کے لیے ایک ہدف چاہیے تھا اور جنھوں نے جہادی اسلام کا حوالہ لے کر لوگوں کو مذہب کے نام میں قتل کیا۔

اب بالآخر بیشتر مسلمانوں اور مذہبی رہنماؤں نے ان جہادیوں کے بارے میں واضح موقف لینا شروع کر دیا ہے، لیکن شاید دیر بہت ہوگئی ۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ سالوں تک یہ سوچتے آئے ہیں کہ شاید جہادی کچھ صحیح کام کر رہے تھے کیونکہ مغرب اور خاص طور پر امریکہ نے دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی ہے، افغانستان اور عراق پر حملہ کیا، مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ان کے ملک تباہ کیے۔لیکن مذہب لکے نام پر ہونے والے اس شدت پسندی کے بارے میں واضح موقف نہ لے کر ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا ہے کیونکہ قاتلوں کی ہم نے صحیح طریقے سے مذمت نہیں کی۔تو کچھ مسلمانوں نے خود ہی ابہام رکھا، اور کچھ مغرب کے سیاستدانوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور اس غیر ذمہ داری کے نتیجے میں اسلاموفوبیا مغربی ممالک میں اب کُھل کر سامنے آیا ہے۔گیارہ ستمبر کے حملوں کو 15 سال ہو گئے ہیں لیکن صحیح معنوں میں مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا اب عروج پر ہے۔ پچھلے دو سال کے سیاسی واقعات نے اس سب میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو پچھلے سال سے اسلام مخالف باتیں اور اقدامات کر رہے ہیں لیکن برطانیہ کی سیاست میں یہ صورتحال بتدریج کئی سالوں سے بگاڑی جا رہی ہے۔
ان میں دو سیاسی مراحل اہم ہیں، جو دونوں سنہ 2016 میں طے پائے: لندن کے مئیر کا الیکشن اور یورپ سے نکلنے کے سوال پر برطانیہ کا ریفرنڈم۔لندن کے مئیر کے الیکشن میں مسلمان (لیبر پارٹی کے) امیدوار کے خلاف جس طرح سے برطانوی وزیر اعظم تک نے ‘اسلامو فوبیا کا استعمال کیا ہے، اس کی شاید ہی کوئی اور مثال ملے۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایوان میں صادق خان کا شدت پسند عناصر سے تعلق جوڑا، کہا کہ ‘لیبر پارٹی کے امیدوار شدت پسندوں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر بیٹھ چکے ہیں اور مجھے ان کے بارے میں بہت خدشات ہیں۔یہ الفاظ کسی انتہائی دائیں بازو یا انتہا پسند تحریک کے رہنما کے نہیں، ملک کے وزیر اعظم کے تھے۔
اور ان ہی کی پارٹی کے امیدوار زیک گولڈسمتھ نے اسی اسلامو فوبیا کو اپنی انتخابی تحریک کا محور بنایا۔ بار بار مسلمان امیدوار کا تعلق اسلامی شدت پسندوں سے جوڑ کر ووٹروں کو ڈرایا۔ اور ہندو اور سکھ ووٹروں کو خاص طور پر ڈراتے رہے کہ مسلمان کا مئیر ہونا ان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔پھر آیا ریفرنڈم کا مرحلہ۔ اس میں مسلمان مخالف جذبات فرنگی (امیگرنٹ) مخالف جذبات کے ساتھ گھل مل گئے اور ‘باہر والوں ‘ یا امیگرنٹ افراد کو کوسنا یا ان کو بُرا بھل ا کہنا ایک طرح سے قابلِ قبول ہو گیا ‘مین سٹریم ‘ سیاست میں۔اس میں بھی سیاستدانوں اور حکمراں جماعت کے اہلکاروں کا ایک بڑا اور بُرا کردار تھا۔ جیسے یورپ میں اسی طرح برطانیہ میں انتہا پسند جماعتیں، جن کو کم ہی منتخب کیا جاتاہے، سالوں سے ایسی باتیں کرتی رہی ہیں۔ لیکن برطانیہ میں ریفرنڈم کے موقع پر اس بیانیے کو ‘مین سٹریم ‘ کردیا گیا ۔
اور یہ ایسا جِن ہے جو بوتل سے نکلنے کے بعد آپ واپس قابو نہیں کر سکتے۔
ریفرنڈم کے بعد ‘باہر والوں ‘ کے خلاف جذبات قاتلانہ حد تک ابھرے۔ یورپی تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا اور ایک پولِش شہری کو قتل کیا گیا، پولِش ثقافتی مرکز پر حملہ کیا گیا اور ساتھ مسلمانوں اور دیسیوں کے ساتھ ‘ہیٹ کرائمز میں اضافہ ہوا۔
منافرت پر مبنی جرائم کی معلومات جمع کرنے والی تنظیم ‘ٹیل ماما ‘ کے مطابق ریفرنڈم کے بعد منفافرت پر مبنی واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق برسوں کے بعد پھر ‘پاکی ‘ کو بطور تضحیک استعمال کیا گیا اور حجاب پہنے والی خواتین کو بھی مختلف واقعات میں نشانہ بنایا گیا۔گیارہ ستمبر کے بعد کے عرصے میں یہ سوچ تو بڑھتی جا رہی تھی کہ مسلمان مغربی معاشروں کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور ان کی سوچ اور مذہب مغربی ماشرے کے اقدار سے متضاد ہے۔ لیکن اس کو مین سٹریم میں لانے سے حالات اور بہت بگڑ گئے ہیں۔ لندن میں فِنزبری پارک مسجد کے قریب حملے میں عینی شاہدوں نے بتایا کے حملہ آور نے مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کیا اور گاڑی لوگوں پر چڑھا دی۔اس سے پہلے ویسٹ منسٹر، مانچسٹر ارینا اور لندن برج کے قریب ہونے والے حملوں کے بعد لوگوں نے کھلے عام مسلانوں کو قصوروار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ پولیس کے مطابق مانچسٹر حملے کے بعد مسلمانوں کے خلاف منافرت پر مبنی حملوں میں پانچ گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔سنہ 2011 میں (یعنی چھ سال پہلے) برطانیہ میں حکمراں جماعت کنزروویٹیو پارٹی کی چئرمین اور کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون بیرنِس سعیدہ وارثی نے یہ کہہ کر تہلکہ مچا دیا تھا کہ ‘برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب سماج میں کافی حد تک قابلِ قبول بن چکا ہے اور یہ رویہ ‘ڈنر ٹیبل ٹیسٹ پاس کر چکا ہے۔سعیدہ وارثی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مسلمانوں کو صرف یا تو اتہا پسند و قدامت پسند یا پھر ‘انتہائی ماڈرن ‘ اور مذہب سے دور رہنے والوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور ان دونوں انتہاوں کے درمیان کی سوچ رکھنے والے برطانوی مسلمانوں کو مسلحت کے طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
سنہ 2014 میں سعیدہ وارثی کابینہ سے مستعفی ہوگئی تھیں اور اس سال انھوں نے ‘مسلم بریٹن، دا اینیمی وِد اِن؟ ‘ ( برطانوی مسلمان، اندر کے دشمن؟) کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنا تجربہ ظاہر کیا اور برطانوی اور مسلمان پونے پر تبصرہ کیا ہے۔میئر صادق خان بھی اپنے آپ کو مسلمان سے زیادہ لندن کا شہری اور ٹوٹنگ کے رہائشی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن ان چند سیاستدانوں کی کوششیں ناکافی ہیں جب تک مساجد مسلمانوں کو الگ تھلگ رہنے کو کہتی رہیں گی ۔آج کے دور میں تقریباً روز ہی کسی ایسے واقعے کی خبر سامنے آتی ہے جس میں کسی مسلمان کو تشدد اور منافرت کا نشانہ بنایا گیا ہو یا پھر کسی مسلمان نے عام شہریوں کو منافرت اور تشدد کا نشانہ بنایا ہو۔لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان پُر تشدد مسلمان افراد کا مسلمان قوم سے تعلق کم، اور جنونی مجرموں کی قوم سے تعلق زیادہ ہے۔ یعنی ایسے کام کرنے والے مسلمانوں کادسورے مسلمانوں سے رابطہ کم اور ایسے قاتلانے واقعات میں ملوث مجرموں سے زیادہ گہرا رابطہ ہے۔ (چاہے ان کا کسی نسل یا مذہب سے تعلق ہو)
تو اب اس بات کو واضح کرنے کی بڑی ذمہ داری نہ صرف سیاستدانوں پر ہے بلکہ تمام شہریوں پر بھی۔ اسلامو فوبیا کی جگہ ایکسٹریمسٹ فوبیا یا منافرت فوبیا کا وجود اب زیادہ بہتر ہوگا ۔ اور اس میں مختلف معاشروں کے مسلمانوں کی سوچ میں کچھ تبدیلی بھی شاید ضروری ہو۔
انقرہ: ترکی کے صدررجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ دنیا میں اسلام دشمنی کینسر کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔میڈیا کے مطابق پہلے عالمی میڈیا و اسلامو فوبیا سمپوزیم سے خطاب کے دوران ترک صدرنے کہا کہ نائن الیون کے بعد سے امریکا کی شروع کردہ مسلمانوں کے خلاف حکمت عملی نے دنیا کے کئی معاشروں میں پہلے سے ہی موجود اسلام دشمنی کے وائرس کومزید شہہ دی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودی نسل کشی پرشدید ردعمل کا مظاہرہ کرنے والے اب مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ترک صدرنے مزید کہا کہ دنیا میں اسلام دشمنی کینسرکی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ حقیقت سے منہ پھیرنے والوں نے اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اپنے مستقبل سے دشمنی مول لے رکھی ہے۔ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو اسلام و فوبیا کا نام دے کر اس میں نرمی لانے کی کوشش کی ہے توہم اس عمل کے اسلام دشمنی ہونے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دنیا بھر کے ساڑھے سات ارب انسانوں کو دین اسلام نہیں بلکہ اسلام دشمنی ایک عالمی خطرہ ہونے سے آگاہی کرائی جانی چاہیے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے سیاسی تحفظات پر مبنی اپنے دوہرے معیار کو ترک کرے بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں، اور ان حقوق کو پامال کرنے والوں کو خوش کرنے کے بجائے ان کے اقدامات پر انہیں جوابدہ بنائے۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے 46 ویں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے اعلی سطحی طبقے میں ایک ویڈیو بیان میں کونسل کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی جانب مبذول کرائی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ‘ایک انسانی حقوق کے مکمل بحران کا شکار ہے’۔وزیر نے اپنے ریمارکس میں بڑھتی ہوئے اسلامو فوبیا، آزادی اظہار رائے یا سیکولرازم کے بہانے سے ریاستی سرپرستی میں نفرت پھیلانے اور مظلوموں کے قتل عام پر بھی زور دیا۔انسانی حقوق کے معیار کے رکھوالوں کی مبینہ منافقت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ‘انسانی حقوق کی اقدار اور اصولوں سے زیادہ سیاسی، اسٹریٹجک اور تجارتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں’۔وزیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہاں تک کہ چند طاقتور اور ‘دوستانہ’ ریاستوں کے احتساب کا عوامی سطح پر مطالبہ بھی واضح طور پر غائب تھا۔مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ‘دنیا کے سب سے بڑے حراستی کیمپوں میں تقریباً 8 لاکھ کشمیری قید ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سخت قوانین کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی فورسز نے سزائے موت، تشدد اور عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے منظم انداز میں شدت پیدا کر دی ہے۔فاقی وزیر نے کہا کہ قابض افواج پرامن مظاہرین اور مذہبی اجتماعات پر پیلٹ گنز سمیت گولہ بارود کا آزادانہ استعمال کر رہی ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ بڑی تعداد میں سیاسی رہنما، کارکنوں اور صحافیوں کو بھارتی حکومت نے بغیر کسی جرم کے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارتی فوجی مقامی میڈیا کی آواز دبانے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف انتقامی حملے کیے جا رہے ہیں’۔ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بھارتی فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے جرائم اور مقامی آبادی کے خلاف طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال پر مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘1991 میں کنان اور پوش پورہ دیہات میں کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری سمیت مقبوضہ علاقے میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اب تک کسی بھی بھارتی فوجی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی’۔مقبوضہ علاقے کی آبادی کے تناسب کو بدلنے اور مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ‘غیر معمولی’ پیمانے پر کیا جارہا ہے اور 30 لاکھ سے زائد غیر کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر کشمیری شہریت، مستقل آبادکاری کی اجازت، جائیدادوں اور زمینوں کی خریداری کی اجازت دی جا چکی ہے اور وہ مقبوضہ علاقے میں مقامی ملازمتیں حاصل کررہے ہیں۔انہوں نے کونسل کو یاد دلایا کہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے دو کشمیر رپورٹس جون 2018 اور جولائی 2019 میں جاری کی گئی جس کی 50 سے زائد ریاستوں نے تائید کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے رپورٹس میں جو سفارش کی گئی ہے کونسل کو جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کے قیام پر غور کرنا چاہیے۔انہوں نے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بیچلٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر رپورٹنگ کے عمل کو جاری رکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘مطمئن ہونا یا غیر عمل ہونا کوئی آپشن نہیں، ایسا کرنے سے زیادتی کرنے والے کو ہی حوصلہ ملے گا، ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دوہرانے کی بجائے ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا’۔
مغرب نے اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا اور مسلم ممالک کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔انہوں نے کہا کہ اسلام کا دشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مسلمان لیڈر شپ نے اس امر کی کبھی وضاحت نہیں کی۔عمران خان نے کہا کہ نائن الیون سے پہلے سب سے زیادہ خود کش حملے بھارت میں تامل نے کیے تھے اور وہ بندو تھے لیکن کسی نے انہیں دہشت گرد نہیں کہا۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیڈر شپ کو عالمی فورم پر مغربی ممالک کے رہنماؤں کو سمجھنا چاہیے تھا کہ آزادی اظہار اور پیغمبر کی ناموس میں کیا فرق ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب اسلام کو دہشت گردی کے نتھی کردیا گیا تو سوچ کے اعتبار سے مسلمانوں کی تقریق برقرار نہیں رہی اور مغرب میں تمام مسلمانوں ایک ہی نظر سے دیکھے جانے لگے۔انہوں نے کہا کہ مغرب میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف کوئی ایک لفظ ادا نہیں کیا جاتا۔عمران خان نے کہا کہ ’جرمنی میں یہودی کے خلاف ہولوکاسٹ کا ظالم ہوا اور اب آزادی اظہار کے نام پر کوئی اس پر بات نہیں کرسکتا‘۔انہوں نے کہا کہ چار یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ پر بات کرنے پر جیل کی سزا ہوجاتی ہے وہاں آزادی اظہار نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں اسلام کا اسکالر نہیں لیکن ایک طالبعلم ہوں، میرا ایمان ہے کہ جو مدینہ کی ریاست تھی اور جو قوم اس ریاست کے اصولوں پر چلے گا اس قوم کو عروج ملے گا اور اگر وہ قوم مسلمان نہ بھی تو اسے عروج ملے گا۔

اسلاموفوبیااور یورپ کا
سب سے بڑی مسلمان آبادی
والے ملک فرانس کا کردار

دن جمعہ کا تھا اور تاریخ 16 اکتوبر تھی شام کے5 بج رہے تھے جب چیچینا سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ عبداللہ نے پیرس کے شمال مغرب کے علاقے کفلان سینٹے ہو نو رائن میں ایک استاد کا سر چاقو سے قلم کر دیا۔یہ تاریخ اور جغرافیہ پڑھانے والا استاد تھا جس نے اپنی کلاس میں آزادی اظہاررائے پر بات کرتے ہوئے مبینہ طور پر چارلی ایبڈومیگزین میں شائع شدہ خاکے دکھائے تھے جس پر مسلمان طالب علموں کے والدین نے احتجاج بھی کیا تھا لیکن ان کی نہیں سنی گئی۔ حملہ کے بعد نوجوان نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور اس قاتلانہ حملے کو اسلامی دہشت گردی قرار دیا۔ چارلی ایبڈو میگزین نے اس واقعہ پر ٹوئٹ کیا کہ ملک میں عدم برداشت ایک نئی سطح پر پہنچ چکی ہے اورایسا لگتا ہے کہ یہ ملک میں دہشت مسلط کئے بنا نہیں رکے گی۔ فرانس کے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہم لواحقین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور باہمی اتحاد سے ہی ہم اسلامی دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے واقعہ میں نیس شہر کے گرجا گھر میں چاقو بردار نے حملہ کر کے تین افراد کو ہلاک کر دیا۔ ان میں سے ایک خاتون کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔میئر نے واقعہ کو دہشت گردی کا نتیجہ قرار دے دیا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے گستاخانہ خاکوں پر فرانس کے اندر یہ پہلا رد عمل نہیں ہے۔ سات جنوری2015 میں جب چارلی ایبڈو میگزین میں یہ گستاخانہ خاکے شائع کئے گئے تو اس کے دفتر پر حملہ ہو گیا تھا۔ دو بھائیوں کی جانب سے فائرنگ میں بارہ افراد ہلاک ہو ئے تھے جن میں خاکے بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا۔ اگلے دن پیرس کے ہنگاموں میں پانچ مزید افراد مارے گئے تھے۔ 2011 میں میگزین کی پہلی گستاخانہ اشاعت پر اس کا دفتر بم سے اڑ دیا گیا تھا۔ 2012 میں میگزین کےسرورق پر یہ اشاعت پہلی دفعہ ہوئی اوردنیا بھر میں مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا تو فرانس کوبیس ممالک میں اپنے سفارت خانے اور اسکول عارضی طور پر بند کرنے پڑے تھے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی طرف سے فرانس اور اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا۔ مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام ملکوں میں احتجاج ہوا کئی مقامات پر یہ احتجاج تشدد کی شکل اختیار کر گیا۔ میگزین کے دفتر پرفائرنگ کے بعدفرانس میں مسلمانوں کے خلاف 54سے زیادہ حملے ہوئے جن میں فائرنگ، گرینیڈز کے مساجد اور اسلامک سنٹرز پرحملے اوردھمکیاں شامل تھیں۔میگزین کی اس جسارت اور پھر فرانسیسی حکام اور عوام کے جانب سے اس کے دفاع نے شدت پسندتنظیموں اورگروہوں کے لیے عالمی سطح پر دہشت گردی کے نئے ہدف طے کیے۔

دولت اسلامیہ نامی تنظیم نے اپریل 2015 میں سویڈن میں ایک ٹرک کے ذریعے چار افراد کو کچل کر مار ڈالا۔ دسمبر 2017 میں جرمنی کے شہر برلن میں ایک ترک کے ذریعے 12 افراد کی جان لی گئی جبکہ متعدد زخمی ہو ئے۔جولائی 2016 میں فرانس کے جنوبی شہرنیس میں ٹرک ڈرائیور نے84 افراد کو کچل ڈالا اور سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔جون 2016 میں ترکی کے اتا ترک ایئر پورٹ پر3 خود کش حملہ آوروں نے دھماکے میں42 افراد کی جان لی جن میں 13 غیر ملکی بھی شامل تھے۔ مارچ 2016 میں برسلز کا ہوائی اڈہ اور ایک میٹرو اسٹیشن حملوں کا نشانہ بنا جس میں 34 افراد جان سے گئے اور ایک سو پچاس افراد زخمی ہوئے۔ فرانس میں 2015 میں دو بڑے حملے ہوئے جن میں تقریباً160افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ اور القائدہ نےقبول کی۔ چارلی ایبڈو میگزین نے حال ہی میں یہ خاکے دوبارہ شائع کر دیئے۔یہ ناپاک حرکت ایسے موقع پر کی گئی جب دفتر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے چودہ سہولت کاروں پر مقدمہ کا آغاز ہونے جارہا تھا۔ان پر اسلحہ فراہم کرنےاور حملہ آوروں کی معاونت کا الزام تھا۔ میگزین کے اداریہ میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ہمیں ان خاکوں کی اشاعت کے لیے مسلسل کہا گیااور قانون بھی اس کی اجازت دیتا ہے لیکن ایسا کرنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے تھی۔ایسی وجہ جس کے کوئی معنی ہوں اورجس سے بحث میں کوئی اضافہ ہو سکے۔ حالیہ اشاعت کے بعد بھی دنیا بھر میں مسلم ممالک کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان نے اوآئی سی کا اجلاس بلانے نے کا عندیہ دیا ہے۔ترکی نے اس واقعہ کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے میگزین کے خلاف قانونی چارہ جو ئی کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔لیبیا،بنگلہ دیش،فلسطین،پاکستان،بھارت، ترکی کے علاوہ مختلف ممالک میں سفارت خانوں کی بندش اور فرانسیسی مصنوعات کی خریداری روک دی گئی ہے۔ دوسری جانب فرانسیسی صدر میکرون کے اسلام مخالف بیانات نے معاملہ میں شدت پیدا کر دی ہے۔کیونکہ استاد کے قتل کے بعد مساجد، اسلامک مراکز کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور شدت پسند تنظیموں پر بھی توجہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔حکومت کے مطابق اب صرف قانون کے نفاذکی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔فرانسیسی صدر نے اپنے بیانات سے جہاں شدت پسندی کو فروغ دیا وہیں سرکاری عمارتوں پر ان خاکوں کو بھی آویزاں کیا جس سے مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پیدا ہوا۔صدر میکرون کے سخت اقدامات پر فرانس کے کچھ حلقے شدید تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق حالیہ سخت اقدامات کا مقصد آنے والے انتخابات میں دائیں بازو کے ووٹرز کا دل جیتنا ہے جو ملکی سا لمیت اور تارکین وطن کے بارے میں حساس رہے ہیں۔یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فرانس کی سیاست ہمیشہ مذہبی رحجانات کے گرد گھومتی ہے۔فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے سیکولر اقدار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم کبھی ان خاکوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ شدت پسند رویہ بذات خود دہشت گردی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان حکومتی سطح پر اس انتہا پسندی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جو درحقیقت اسلامو فوبیا کی آڑ میں عالمی دہشت گردی کا فروغ ہے۔ جس میں بالآخر ہر مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لیے عد م برداشت کی انتہا پر پہنچ جایئں گےاور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
12 جنوری 2015 میں دنیا کے چالیس ممالک کے سربراہان نے تقریبا 37 لاکھ لوگوں کے ساتھ چارلی ہیبڈو میں مارے جانے والے افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک ریلی نکالی ۔ جنوری 7 کو فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو پر ایک حملے میں 17 افراد قتل ہوگئے تھے۔ اس مارچ میں شامل لوگوں نے ” میں چارلی ہیبڈو ” کے نعرے لگائے تھے۔ فرانس کی وزارت داخلہ کے مطابق یہ مظاہرے دوسری جنگ عظیم میں نازیوں سے آزادی کے لیے ہونے والے مظاہروں سے کہیں بڑے تھے اور ان کو فرانس کی جدید تاریخ میں سب سے بڑے مظاہرے قرار دیا گیا۔
چارلی ہیبڈو ایک فرانسیسی طنزیہ میگزین ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس حکومت کے خلاف کھڑا ہونے م کسی بھی مقدس چیز کے ساتھ مقابل آنے اور یا کسی بھی سپریمیسٹ گروپ سے سوال کرنے کا اختیار ہے۔ چارلی ہیبڈو نے کئی مرتبہ ایسے خاکے شائع کیے جن میں اسلام کا مذاق اڑایا گیا۔ 2015 میں اس میگزین نے پیغمر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارکہ پر کئی گستاخانہ خاکے شائع کیے ۔ باالفاظ دیگر اس میگزین کے غیر ذمہ دار ایڈیٹرز نے مسلمانوں کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا۔چارلی ہیبڈو پرہونے والے حملے کو دیگر حملوں سے مختلف خیال کیا گیا اور اس کو آزادئ اظہار رائے پر حملہ تصور کیا گیا۔ اس حملے کے بعد ایسا لگا کہ دنیا میں آزائ اظہار رائے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے اور میں بھی ذاتی طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آزادئ اظہار رائے پر قدغن نہیں لگنی چاہئیے۔ اور اس اصول کی پیروی کرتے ہوئے پھر ہرکسی کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی اس چیز کا مذاق اڑا سکے جو دوسروں کے لیے مقدس ہو۔ تاہم فرانس میں ایسا ہر گز نہیں ہے۔
مثال کے طور پر فرانس میں دہشت گردی کی حمایت کرنا جرم ہے یا ہولو کاسٹ کی نفی کرنے پر پابندی ہے۔ تاہم چارلی ہیبڈو پر حملے کے بعدایک بہت بڑے احتجاجی مارچ کے بعد میں نے یہ سوچا کہ شاید چیزیں تبدیل ہوگئی ہوں تاہم میں غلط تھا اس ریلی کے چند روز بعد فرانسیسی حکمرانوں نے دہشت گردوں کی تعریف اور ان کی حمایت پر لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔یہ وہ وقت تھا جب فرانسیسی حکمرانوں کو سوچنا چاہیے تھا کہ لوگ انتہا پسندی کی طرف کیوں مائل ہورہے ہیں اور مغربی ممالک خاص طور پر فرانس جہاں مسلمانوں کی آبادی 5 ملین سے زیادہ ہے، اسے اس بات پر خاص طور پر غور کرنا چاہیے تھا۔ تاہم بدقسمتی سے فرانسیسی حکومت نے سیکولرزم کے انتہا پسندی والے طریقے کو اپنا لیا۔ چاری ہیبڈوپرحملےکےبعد فرانس میں چیزیں تیزی سے تبدیل ہوئیں حتی کہ اس قدر تیز تبدیلیاں 9/11 کے بعد امریکہ میں بھی نہیں آئیں۔فرانسیسی صدر نے محض اسلام مخالف اقدامات پر بس نہیں کی بلکہ اسلام مخالف بیان بازی کا عمل جاری رکھا جس سے فرانس میں اسلاموفوبیا میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔ آج فرانسیسی میڈیا اور نام نہاد سیکولرفرانسیسی حکومت کا یہ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے کہ وہ اسلام مخالف بیانات داغیں۔ فرانسیسی مسلمان ایک عرصے سے میکرون سے مطالبہ کررہےہیں کہ وہ ان کو بدنام کرنا بند کریں تاہم اسلام کے خلاف یہ ممعول کی نفرانگیز تقاریرحکومتی سطح پر جائز قرار پائیں اورجاری و ساری رہیں۔اس نفرت انگیز مہم کو مزید آگے بڑھاتےہوئےگزشتہ روز میکرون نےکہاکہ اسلام ایسا مذہب ہےجسےآج پوری دنیا میں بحران کا سامنا ہے اورایسا صرف فرانس میں نہیں ہے۔ میکرون نے مزید کہاکہ وہ فرانس میں اسلام کو بیرونی اثر ورسوخ سے نکالنا چاہتا ہے۔ میکرون نے اس موقع پر علیحدگی پسند اسلام کے لیے قانون لاگو کرنے کا بھی اعلان کیا۔ میکرون کے دل میں اسلام کے لیے کوئی تحمل باقی نہیں تاہم دوسری طرف وہ مسلمانوں کو کہتا ہےکہ وہ دیگر مذاہب کا احترام کریں۔ اگریہی عمل جاری رہا تو اس کا نتیجہ اسلامی اقدار کی بے توقیری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پرتشدد میں اضافےکی صورت میں نکلے گا۔پھراس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں رہے گی کہ ایک سچے فرانسیسی ہونے کا ثبوت دینےکےیےفرانس کے سکولوں میں مسلمان طلبا کو زبردستی سور کا گوشت کھانے اور انہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےگستاخانہ کارٹون بنانے پرمجبورکیا جائے گا۔چارلی ہیبڈو والے واقعے کے بعدآزادئ اظہاررائے اورآزائ مذہب پرفرانس میں دوہرا معیارواضح دیکھا جا سکتا ہے۔ اس واقعےکےبعد سےاسلام کوشدت پسند مذہب کہلوا کر مسلمانوں پرحملےاوران پرجملے کسنے میں آئے روز اضافہ ہوا۔ چارلی ہیبڈونےدرحقیقت شدت پسندوں کےلیے راہ ہموارکی ہے۔ القاعدہ کی یمنی شاخ نے چارلی ہیبڈوپرحملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور دعوی کیا تھا کہ اس حملےکیوجہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ذات کے گستاخانہ خاکے شائع کرناہے۔تمام مسلمان ممالک بشمول فرانسیسی کمیونٹی نے ان حملوں کی مذمت کی تھی۔ اوریہ بات بھی سامنے کی ہے جب سے مسلمان دہشت گرد تنظیمیں خاص طورپرداعش نے سر اٹھانا شروع کیا ہے مسلمان ممالک نے اس کے ساتھ جنگ میں اہم کردارادا کیا ہے۔تاہم ان کی کاشوں کو کسی زمرے میں نہیں گنا گیا اور اسلاموفوبیا کو جان بوجھ کر ہوا دی گئی ۔ صرف2019 میں فرانس میں اسلاموفوبیا کے ایک ہزارسے زائدواقعات ہوئے ہیں ۔
گزشتہ برس نیوزی لینڈ کے علاقے کرس چرچ میں ایک آسٹریلوی نژاد شہری برینٹن ٹرینٹ نےایک مسجد پرحملہ کرکے50 مسلمانوں کی شہید کردیا تھا۔تاہم اس مرتبہ متاثرین کے ساتھ اظہاریکجہتی کے لیے نہ تو کوئی ریلی نکالی گئی اور نہ ہی دنیا کے نام نہاد رہنماؤں نےاس کی مزمت کی۔ مسلمان ممالک کے علاوہ صرف جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اسے دہشتگردی قرار دیا اورکہا کہ جو لوگ شہید ہوئے ان کے پیچھے نسلی تعصب اور منافرت تھی۔ مغربی دنیا کی مددکے بغیر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈن نے افسردہ خاندانوں کی تکلیف بٹانےکےلیےہر ممکن کوشش کی۔
جسینڈا آرڈن نے دنیا میں دہشت گردی کےخلاف فیصلہ کن موقف اختیار کیا جب کہ دنیا کے دیگر رہنما ووٹوں کےحصول کے لیے سفیدفام سپریمیسی کا راگ گا رہے تھے۔ ان کے اپنے الفاظ میں ان کا کردار ایک قوم کے دکھ کی آواز بننا تھا۔ وہ نیوزی لینڈ کا اصل چہرہ بن کر سامنے آئیں اوردنیا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی مذمت کی ۔ اس حملے کے بعدانہوں نے متاثرین کے گھروں کا دورہ کیا اور سر پرسکارف پہن کر ان کے لیے عزت کا اظہارکیا اورنیوزی لینڈ میں مساجد کا تحفظ یقینی بنانے کی یقین دہانی کروائی ۔جسینڈاآرڈن نے نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اگلے دن کا آغاز السلام علیکم سے کیا جو کہ مسلمانوں کے امن کا پیغام ہے اوراس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اس دہشت گرد کا نام کبھی زبان پرنہیں لائیں گی۔ وہ ایک دہشتگرد ہے ، وہ ایک مجرم ہے ، وہ ایک انتہا پسند ہے ۔ میں اسے جب بھی پکاروں کی بغیرنام کے پکاروں گی۔ اسی دن پارلیمنٹ میں قرآن کریم کی تلاوت کی گئی اور آرڈن کی سربراہی میں سیاہ لباس پہنا اورخاموشی سے تلاوت کلام پاک سنی۔ پورےنیوزی لینڈ میں اس حملے میں شہید ہونے والوں کے لیےدعا کی گئی اور لوگوں نےمسجد میں جا کر شہدا کی یاد میں وہاں پھول رکھے۔ یہ فرق ہے جسینڈا آرڈن اورایمونیل میکرون میں۔مغربی ممالک جیسا کہ ایمانوئیل میکرون یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے تحمل مزاجی سے سوچان ان کے سیاسی کیریر کو داؤ پر لگا دے گا مگردرحقیقت یہ عمل ان کے کیریر کو مضبوط بناتا ہے جیسا کہ جسینڈا آرڈن کےکیس میں دیکھا گیا ہے۔ ایک طویل عرصے تک آرڈن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہےتھا وہ ایک غیرمقبول رہنما ہیں تاہم اس واقعے کے بعد وہ ایک مقبول رہنما بن کر ابھری ہیں۔ اپنےملک کو متحدکرکے انہوں نے دنیا کے دیگررہنماؤں کے لیے مثال قائم کی ہے جو کہ انتہا پسند سیاستدانوں کے خوف کی وجہ سے عوامیت پسند فیصلے کرتےہیں جو ملک کو تقسیم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
محبتوں کا شہر پیرس آج کل خوف کی گرفت میں دکھائی دیتا ہے۔ جا بجا مشین گنوں سے لیس فوجی نظر آتے ہیں جن میں سے بہت سے مذہبی عمارتوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کو وہ لوگ بھی نظر آتے ہیں جو مسجدوں اور یہودی عبادت گاہوں کے دروازوں پر ہمدردی اور یکجہتی کے احساسات پر مبنی پیغام چپکاتے نظر آتے ہیں۔خدشہ یہ ہے کہ چارلی ایبڈو پر حملوں کے بعد فرانس میں شروع ہونے والی بحث کہیں سماجی تقسیم کی شکل اختیار نہ کر جائے۔تاہم کچھ لوگوں کے نزدیک اصل جنگ شہر میں محبت کی فضا کو واپس لانے کی ہے۔دریائے سین کے کنارے سے پیرس کا دلفریب اور پرشکوہ منظرتمام دنیا میں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ عام طور پر اس شہر میں تاریخ دان، فنون رومانس اور اسرار کی ایک مسحورکن خوشبو پھیلی ہوتی ہے جو دل کو موہ لیتی ہے۔تاہم اس شہر کی ہوا میں آج کل ایک مخصوص خطرہ اور بے چینی محسوس ہوتی ہے، جس کی سب سے واضح شکل بھاری اسلحے سے لیس وہ فوجی ہیں جو چار سو پھیلے ہوئے ہیں۔ماہ رخ کے مطابق چارلی ایبڈو کی جانب سے حملے کے بعد توہین آمیز کارٹون کی اشاعت ان تمام مسلمانوں کی تذلیل تھی جنہوں نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھاماہ رخ کے مطابق چارلی ایبڈو کی جانب سے حملے کے بعد توہین آمیز کارٹون کی اشاعت ان تمام مسلمانوں کی تذلیل تھی جنہوں نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔اور اس صورتِ حال میں ٹھیک سے پتہ نہیں چلتا کہ آزادیوں میں مداخلت سے ناواقف اور ہر طرح کی روک ٹوک سے بے نیاز طرزِ زندگی کے لیے مشہور، فرانس، کہاں گم ہے۔فرانس کے طنزیہ رسالے چارلی ایبڈو، پولیس افسروں اور کوشر سپر مارکیٹ پر حملہ کے بعد حکومت نے دس ہزار فوجیوں کو عوامی مقامات، حساس عمارتوں اور عبادت گاہوں کی حفاظت پر لگایا ہے۔ سات سے 9 جنوری تک ہونے والی اس دہشت گردی میں 17 لوگ ہلاک ہوئے جن میں صحافی، پولیس اہلکار، سرکاری خدمت گار اور کوشر مارکیٹ کے چار یہودی گاہک بھی شامل تھے۔فرانس میں 50 لاکھ سے زائد مسلمان اورتقریباً چھ لاکھ یہودی آباد ہیں جو یورپ میں ان مذہبی اقلیتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تین ہفتے پہلے ہونے والے حملے نے ملک کو اس مشکل سوال سے دوچار کر دیا ہے کہ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کا کیا مقام اور مرتبہ ہے۔یوں لگتا ہے کہ خوف کے ایک جال نے ہر نقطۂ نظر کے حامل فرانسیسی کو اپنی گھیرے میں لے لیا ہے۔ ہائی سکیورٹی الرٹ کے ساتھ ساتھ ملک کے یہودی شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اسرائیل میں نقل مکانی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ فرانسیسی مسلمان بھی پریشان ہیں کہ اسلام مخالف جذبات میں اضافے کے سبب انھیں ان حملوں کے منفی اثرات بھگتنا پڑیں گے۔
اہک نوجوان مسلم وکیل کا کہنا ہے کہ اسے یہ ناانصافی محسوس ہوئی کہ حملوں کے بعد ریاست کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہودیوں اور انکی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈ بھیجے گئے۔اہک نوجوان مسلم وکیل کا کہنا ہے کہ اسے یہ ناانصافی محسوس ہوئی کہ حملوں کے بعد ریاست کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہودیوں اور انکی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈ بھیجے گئے۔پیرس حملوں کے بعد کم از کم 50 ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں فائرنگ، اسلامی عمارتوں پر دستی بم سے حملے کے ساتھ ساتھ دھمکیوں اور تذلیل جیسے واقعات شامل تھے۔17 جنوری کو مراکش کے ایک شہری پر اس کے ہمسائے نے چاقو کے وار کیے۔ 17 بار جاقو کے وار کرنے سے قبل حملہ آور چلایا ’میں تمھارا خدا ہوں، میں تمھارا اسلام ہوں۔‘ماہ رخ آصف ایک حجاب پوش پاکستانی لڑکی ہے جو محسوس کرتی ہیں کہ ’ پیرس حملہ کے بعد اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا ہے‘۔اس سے پہلے فرانس میں پلنے بڑھنے والی ماہ رخ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی تھی گو تعصبات موجود تھے۔’جب میں نےدو برس پہلے حجاب پہننا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ لوگ مجھے مختلف نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے نے تو مجھ سے بات تک کرنا ترک کردی‘۔ماہ رخ فرانس کے ان کئی مسلمانوں میں سے ایک ہے جنہوں نے چارلی ایبڈو پر حملہ کی مذمت کی۔ لیکن انھیں محسوس ہوا کہ جب رسالے نے حملے کے ایک ہفتہ بعد دوبارہ پیغمبرِ اسلام کے کارٹون شائع کیے تو یہ ان تمام مسلمانوں کی تذلیل تھی جنھوں نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔فرانسیسی مسلمان بھی پریشان ہیں کہ اسلام مخالف جذبات میں اضافے کے سبب انھیں ان حملوں کے منفی اثرات بھگتنا پڑیں گے۔’کئی مسلم ممالک نے حملوں کی مذمت کی، اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ دکھایا کہ وہ انسانیت کے ساتھ ہیں لیکن جب چارلی ایبڈو نے دوبارہ کارٹون شائع کیے تو یہ بالکل ایسے تھا جیسے اسے ان مسلم ممالک کی جانب سے دکھائے گئے احترام کی کوئی قدر نہ ہو۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا، فرانس کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں، اس کی وجہ سے تقسیم میں اضافہ ہوا۔‘جسٹین بوشے وزارتِ انصاف میں کام کرتی ہیں اور حملوں سے کچھ ہفتے قبل انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ انہیں بھں پریشانی لاحق ہے کہ خوف کی فضا نے پھیلنا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں لوگوں کو کیفے میں نماز پڑھنے سے منع کر دیا گیا۔ والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے ڈر رہے ہیں۔‘
اہک نوجوان مسلم وکیل کا کہنا ہے کہ اسے یہ ناانصافی محسوس ہوئی کہ حملوں کے بعد ریاست کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہودیوں اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈ بھیجے گئے۔ اس دوران ’مسجدوں پر حملے ہو رہے تھے لیکن حکومت کو کوئی فکر نہیں تھی۔ ایک ہفتے کے بعد دفتر داخلہ نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کے اقدامات بھی کرے گا۔‘فرانس میں 50 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جو یورپ میں ان مذہبی اقلیتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔میں نے ایک سائناگوگ کا دورہ بھی کیا جو پیرس کے وسط میں واقع ایک غیر اہم سی عمارت تھی۔واحد نشانی جس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ ایک عبادت گاہ ہے۔ وہاں چھ رائفل بردار فوجی تھے جو اس کی حفاظت پر مامور تھے۔ ایک فرانسیسی یہودی نے مجھے بتایا کہ ’یقیناً ہم خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں گلیوں میں گھورا جاتا ہے اور میٹرو میں ہم پر توہین آمیز فقرے داغے جاتے ہیں۔‘تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ حملوں نے اس مسئلے کو محض نمایاں کیا ہے ورنہ مسلم انتہا پسند کافی عرصے سے ہمارے لیے ایک خطرہ ہیں۔‘نو جنوری کو کوشر سپر مارکیٹ میں چار یہودی گاہکوں کو ہلاک کیا گیا۔ سنہ2012 میں فرانس کے شہر طولوژ کے ایک سکول میں تین یہودی بچوں اور ایک راہب کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ درحقیقت، یہودی جو فرانس کی کل آبادی کا ایک فیصد ہیں، نسلی امتیاز پر مبنی آدھے حملے صرف انھی کے خلاف کیے جاتے ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ فرانس میں یہودیت مخالف جذبات میں اضافے کے خوف سے پیرس حملوں کے بعد ’کئی یہودی ملک چھوڑ گئے ہیں اور کئی ایسا سوچ رہے ہیں۔‘بظاہر یہی لگتا ہے کہ فرانسیسی یہودیوں میں اسرائیل ہجرت کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ برس دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ فرانس کے یہودیوں نے ملک سے ہجرت کی۔ حالیہ حملوں کے بعد اس رجحان میں اضافہ کی توقع ہے۔دہشت گردوں کا مقصد یہ ہے کہ دہشت پھیائی جائے اور لگتا ہے کہ کم از کم اس حوالے سے دہشت گردوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔اور یہی وہ خوف ہے جو ذیادہ تر فرانسیسیوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ کیا وہ اس پر قابو پا سکیں گے یا یہ محبتوں کے اس شہر پر ہمیشہ کے لیے غالب آ جائے گا؟
ا: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ توہین آمیز خاکوں کے ذریعے اسلام پر حملے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ لیڈرکی خاصیت ہے کہ وہ لوگوں کو متحد رکھتا ہے،جیسے نیلسن منڈیلانےلوگوں کوتقسیم کرنےکی بجائےمتحدکیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر میکرون کو انتہا پسندوں کوموقع نہیں دینا چاہئے تھا، انہیں دنیا کو تقسیم کرنے کے بجائے معاملات کو حل کرنا چاہئے تھا، لیکن انہوں نے نے مزید پولرائزیشن اور احساس محرومی پیدا کرنے کی کوشش کی۔عمران خان نے کہا کہ صدر میکرون انتہا پسندوں کا راستہ روک کر مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا، لیکن بدقسمتی سےانہوں نے دہشت گردوں کی بجائے اسلام پر حملہ کرکے اسلامو فوبیا کی حوصلہ افزائی کی، فرانس کے صدر نے توہین آمیز کارٹون کی نمائش سے اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹارگٹ کیا اور جان بوجھ کر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی، اس قسم کی چیزیں بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کا باعث بنتی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ توہین آمیز خاکوں کے ذریعے اسلام پر حملے لاعلمی کا نتیجہ ہیں، صدر میکرون نے دین کو سمجھے بغیر یورپ اور پوری دنیا کے لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کو تکلیف دی ہے، لاعلمی پر مبنی عوامی بیانات مزید نفرت ، اسلامو فوبیا اور انتہا پسندی کی جگہ پیدا کریں گے۔
۔۔۔۔۔

دنیا کے سب سے بڑے
بنیاد پرست اور دہشت گرد
تو یہودی ہیں

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ’’اندوہ کے بعد کامیابی‘‘ کے فلسفے پرگذشتہ چار سال سے کام شروع کر رکھا ہے اوربہار عرب اس کا ایک شاخ سانہ ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی، سماجی اقتصادی اور عسکری صورت حال کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر بہت کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔آگے بڑھنے سے پہلے ہم اگر سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کے خاص نمبر ’’اسلام اور مغرب‘‘ مورخہ 16 اپریل 1991 میں مولانا مودودی صاحب کا ایک اہم مضمون بہ عنوان ’’یہودیوں کا چوتھا منصوبہ‘‘ کے چند اقتباس پڑھ لیں، توان خدشات کی تفہیم ممکن ہے، جو اب بھی ذہنوں میں اٹھتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اب درحقیقت جس چیز سے دنیائے اسلام کوخطرہ درپیش ہے، وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے، جس کے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب ہیں اور جس کی خاطر وہ 90 سال سے باقاعدہ ایک اسکیم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔اس منصوبے کے اہم ترین اجزا دو ہیں: ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ اور قبۂ صخرہ کو گرا کر ہیکلِ سلیمانی پھر سے تعمیر کی جائے کیوں کہ اس کی تعمیر ان دونوں مقاماتِ مقدّسہ کو ڈھائے بعیر ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس پورے علاقہ پر قبضہ کیا جائے، جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔ منصوبے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میراث کے تصور کے تحت پورے ملک (فلسطین) پر قبضہ کیا جائے۔ میراث کا ملک کیا ہے؟ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے سامنے یہ الفاظ لکھے ہیں ’’اے اسرائیل ! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے۔ اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، اردن، شام، لبنان کا سارا علاقہ، عراق کا ایک بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی علاقہ اور (جگر تھام کر سُنیے) مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے‘‘۔ مولانا مزید لکھتے ہیں ’’مسجد اقصیٰ اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اور خود بیت المقدس کا علاقہ بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلّط سے آزاد کرانے کا ہے۔ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد نہ صرف مسجد اقصیٰ بل کہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت کو یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقامات کو مستقل طور پر محفوظ کرنے کے لیے مجتمع کیا جائے‘‘۔مگر مسلم اُمہ کی تازہ ترین صورت حال کی ایک جھلک یہ ہے۔ حال ہی میں امریکا اور مغرب کے میڈیا میں مسڑ ڈیوڈ ڈی کریک پیٹرک کا ایک تجزیاتی مقالہ شائع ہوا ہے، جس کے مطابق ’’حَمّاس اسرائیل سے زیادہ خطرناک اور بدتر تنظیم ہے۔ مصر، متحدہ عرب امارات ، اردن ، کویت وغیرہ سب حماس کو کچلنے کے مشن میں اسرائیل کے حامی ہو چکے ہیں‘‘۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے حالیہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے سعودی عرب کی حمایت سے مصر نے جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں۔ مغرب اور امریکی میڈیا میں سعودی عرب کو ایک عرب ملک تو لکھا جارہا ہے لیکن اس کی تکرار اتنی زیادہ ہے کہ اب بچے بچے کی سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ کون ملک ہے۔مغربی میڈیا یہ بھی لکھتا ہے کہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایک عرب ملک شام میں جن جہادی تنظیموں کو حربی اور مالی امداد دینے کے بعد امریکا سے مطالبہ کررہا تھا کہ فضائی حملے سے شام کے حکم رانوںکو پاش پاش کردیاجائے تاکہ جہادی تنظیموں کو غلبہ حاصل ہو، اب محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے اس ملک کو اس امر کی یقین دہانی کرادی تھی، جس کے عوض اس عرب ملک نے مصر میں الاخوان المسلمون کی منتخب حکومت کو فوج کے ذریعے معزول کرایا اورجنرل السیسی کی مالی اور سیاسی حمایت بھی کی۔ گو کہ یہ امریکا کا ایجنڈا تھا اور اسی کے نتیجے میں بہار عرب، خزاںمیں بدلی تھی‘‘۔اب صورت حال یہ بھی ہے کہ ایک طرف امریکا اور اسرائیل عربوں کو استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب یہودی اپنے کارپوریٹ میڈیا سے ان کے لیے استعمال ہونے والوں کوسامنے لاکر انہیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلم حکم رانوں کی مسلم اْمّہ کے مسائل سے بے حمیّتی، بے حسّی اور لاتعلقی کو غیر محسوس طریقے سے دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ مثلاً ’’ یہ حکم ران اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اُسی کفر کی قوتوں کے درپردہ حامی ہیں، جن کو یہ بہ ظاہر بُرا بھلا کہتے ہیں‘‘۔اگست 2014 کے وسط میں سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے ایک فتویٰ دیا، جو میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا ۔ اس کی رو سے مفتیٔ اعظم نے جن تین تنظیموں کو دہشت گرد اور اسلام دشمن قرار دیا، اُن کے نام داعش، القاعدہ اور النصر فرنٹ ہیں۔ داعش مخفَّف ہے ’’دولت اسلامیۂ عراق وشام‘‘ کا۔ عالمی پریس اس کو Islamic State of Iraq and Syria (ISIS) کہتا ہے۔ دراصل یہ خلافتِ اسلامیہ کااعلان ہے۔ اس فتوے کو عالم اسلام میں سراہا گیا لیکن درپردہ ان تنظیموں کی امداد کے عمل پر تشویش بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔اب ان تنظیموں کی اسرائیل سمیت بہت سے دیگر مسلم ممالک کی درپردہ حمایت نے عام مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ یہ پریشانی ایک اشتعال کی صورت میں سامنے آرہی ہے اور انتقام کے جذبات پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں ان مشتعل جذبات کو مزید ابھار کر ان تنظیموں کے منتظمین عوام کو مشتعل کر کے آج بھی اپنی جانب مائل کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر اسرائیل چار خونی چاند کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنے کسی خفیہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیتا ہے تو اب وہ مسلمان، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں، کس طرح ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں گے؟خبرِ وحشت اثر کچھ یوں بھی ہے کہ یہودی لابی ایک منظم سازش کے تحت حرمین الشریفین کے گرد 31 اڈے قائم کرچکی ہے۔ دوسری خطرناک سازش یہ ہے کہ انہیں بحیرۂ احمر (Red Sea) پر قبضہ کرنا ہے، اس لیے کہ بحیرۂ احمر کے مشرقی کنارے پر اسلام کے دونوں مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بادشاہ ابرہہ نے بحیرۂ احمر ہی عبور کرکے بیت اللہ کو منہدم کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی، جسے ہمیشہ کے لیے ذلت و عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔حدیث شریف میں ہے کہ قیامت سے پہلے حبشہ سے جو کافر بیت اللہ پر حملہ آور ہوں گے، وہ بھی بحیرۂ احمر سے گزر کر آئیں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی بحریہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ہم ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرۂ احمر ہمارے زیرِ نگیں آجائے گا، تب اس کا نام بحرِ یہود یا بحر ِاسرائیل رکھ دیا جائے گا۔‘‘ یہودیوں کے یہ تمام منصوبے اور سازشیں اسی منظم سازش کا حصہ ہیں جو وہ مکہ اور مدینہ کے خلاف کر رہے ہیں۔ وہ قبلۂ اول کے بعد اب قبلۂ آخر کے خلاف خطرناک سازشوں میں مصروف ہیں۔اس پس منظر میں اگر ہم پاکستان کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھیں تو وہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے اورعسکری مضبوطی کی متقاضی ہے۔ یہ دونوں اہداف اُس وقت تک حاصل کرنا ممکن نہیں جب تک ملک کے سیاسی رہ نما ؤں اور فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا نہیں ہو جاتی۔ نائین الیون سے لے کر نواز شریف کی تیسری وزارتِ عطمیٰ تک کے عرصے کا اگر غیرجانب دار ی سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں سیاسی سطح پر انتشار میں اضافہ قابل تشویش ہے۔ملک میں معاشی اور سماجی سطح پر ابتری کی داستان اس کے علاوہ ہے۔ غیر جانب دار تجزیہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ اس مجموعی صورت حال کی وجوہات میں بیرونی عوامل سے زیادہ ملک کے اندر کرپشن اور میرٹ کی خلاف ورزی سب سے زیادہ اہم ہے ۔ گروہ بندیوں، ذاتی مفاد اور ہر سطح پر لوٹ کھسوٹ نے اس مجموعی صورت حال کو گود لے رکھا ہے اور اس ’’گود بھرائی‘‘ کی رسم کو ہمارے حکم رانوں نے مکمل تحفظ دیا ہوا ہے۔
دیوار گریہ۔یہ مقام دنیا کے قدیم شہر یروشلم یا یروشلیم (بیت المقدس) میں واقع یہودیوں کی ایک اہم یادگار ہے، جس کے سامنے رونا گڑگڑانا اہل یہود کا ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔ اُن کے مطابق یہ مقام جو دراصل ایک دیوار ہے، تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کا بچ جانے والا حصہ ہے۔ یہ یہودیوں کے لیے انتہائی اہم زیارت ہے۔ دو ہزار سال قبل بھی یہودی اس دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر رویا گڑگڑایا کرتے تھے، اسی لیے اس کا نام دیوار گریہ پڑ گیا، جب کہ مسلمان اس کو ’’دیوارِ براق‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس دیوار کے قریب ہی یہودیوں کا ایک اور مقدس ترین عبادت گاہ ہے۔ اسے بنیادی پتھر بھی کہا جاتا ہے۔متعدد یہودی ربیوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے اوپر کوئی یہودی پائوں نہیں رکھ سکتا، جو ایسا کرتا ہے وہ عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہ پتھر دیوارِ گریہ کے بالکل مخالف سمت میں واقع الکاس آب شار کے نزدیک ہے۔ یہودی روایات کے مطابق دیوارِ گریہ کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام نے کی اور موجودہ دیوارِ گریہ اْسی دیوار کی بنیادوں پر قائم ہے، جس کی تاریخ ہیکلِ سلیمانی سے جاملتی ہے لیکن مسلمان اس دیوار کو مسجد اقصٰی کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ دراصل مسلمان اس دیوار کو یوں مقدس سمجھتے ہیں کہ اس دیوار کو واقعۂ معراج سے نسبت ہے، معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا براق اسی مقام پرآ کر رْکا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نہ صرف تمام شکست خوردہ عیسائیوں کو عام معافی دے دی گئی تھی بل کہ یہودیوں کو بھی برابری کے حقوق دیے گئے تھے، قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا اور ہیکل سلیمانی کی مغربی دیوار سمیت تمام علاقوں کو مقدس قرار دیا گیا تھا۔ مغربی دیوار کو مضبوط کیا گیا اور تمام انتظامات یہودیوں کو سونپ دے گئے۔ یہودی آج تک اس دیوار کو ہاتھ لگا کر گڑگڑاتے ہیں اور روتے پیٹتے ہیں، توبہ اور معافی طلب کرتے ہیں۔ مغربی دیوار کا تازہ ترین سروے یہ بتاتا ہے کہ دیوار مضبوط اور توانا ہے، اس کی دیکھ بھال اب یہودی خود کرتے ہیں۔ اب یہ ہی دیوار ان کا قبلہ ہے لیکن وہ ہیکل سلیمانی کی مکمل و مستحکم تعمیر کے خواہاںہیں۔آج کل اس دیوار پر دُعاؤں اور حاجات کے پوسٹر چسپاں کرنے کے کا نیا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ یہودیوں نے فیس بْک کے ذریعے آن لائن دعائیہ پیغامات کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق یہودیوں کا دیوار گریہ کے لیے دعائیں وصول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کاغذ پر اپنی حاجات اور دعائیں لکھ کر دیوار پر چسپاں کر دیاجاتا ہے۔ فیس بک پر یہودیوں نے ایک مخصوص صفحہ تخلیق کیا ہے، جس میں یہودی صارفین کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل کے اندر ہوں یا باہر، اپنی دعا فیس بک پر درج کرائیں۔یہودی رضاکار اس صفحے سے خود ان حاجات کے پرنٹ حاصل کر کے دیوار پر چسپاں کریں گے۔ یہ کام ایک یہودی تنظیم ’’یوتھ فار جیروسیلم‘‘ کے زیر اہتمام کیا جا رہا ہے۔ تنظیم پوری دنیا بالخصوص اسرائیل سے یہودی نوجوانوں کو بیت المقدس کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔ فیس بک کے ذریعے دیوار گریہ تک یہودیوں کے پیغامات کی رسائی بھی اسی تنظیم کے منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔ فیس بک پر صہیونی تنظیم کی ترغیب پر بڑے پیمانے پر یہودیوں نے اپنی دعائیہ حاجات تحریر کی ہیں۔ اس صفحے کے پس منظر میں دیوار کی تصویریں مختلف زاویوں سے دکھائی گئی ہیں۔ بعض یہودیوں کا خیال ہے کہ دیوار پر چسپاں کی گئی وہی دعا قبول ہوگی جو ہاتھ سے لکھی ہو گی جب کہ بعض روشن خیال صہیونی کمپیوٹر پرنٹ کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔
صہیونیت ایک ایسی تحریک کا نام ہے جس کا مقصد یہودی قوم کی تعمیر نو ہے۔ صہیون یا زائن (Zion) بیت المقدس (یروشلم) کا ایک حصہ ہے۔ انجیل میں اسے حضرت داؤد کا شہر کہا گیا ہے، جس کو یہودی حیات نو اور اسرائیلی حکومت کا نشان سمجھتے ہیں۔ صدیوں پہلے جب رومن سلطنت نے یہودیوں کی بادشاہت کا خاتمہ کیا اور یہودیوں کو جلاوطن کردیا تو وہ اس وقت سے فلسطین واپس لوٹنے اور اپنی ریاست کو پھر سے قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ صدیوں سے انہوں نے یہ خواب اپنے دل میں چھپا رکھا ہے ۔ اس عرصہ میں وہ جہاں بھی گئے اور جہاں بھی رہے، انہوں نے ہر جگہ اپنے مذہب اور اپنی الگ پہچان کو برقرار رکھا۔یورپ میں جب صنعتی انقلاب شروع ہوا تو وہ اپنے خول سے باہر نکلے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں وہ ایک حکمت عملی کے تحت اپنے آپ کو بہت حد تک دوسری اقوام کے قریب لانے میں کام یاب ہوئے لیکن یہودیوں نے اپنے وطن کا خواب ترک نہ کیا۔ معاشی سطح پر مضبوط ہونے کے بعد جب وہ یہ کہنے لگے کہ چوںکہ وہ ایک الگ قوم ہیں اس لیے ان کے واسطے ایک علیحدہ وطن ضروری ہے، تو اُس پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا مگر مشرقی یورپ کے یہودی اپنی پرانی ضد پر قائم رہے، وہ کہتے تھے کہ ان کا وطن فلسطین ہی ہو گا اور یوں دنیا میں ایک نئے فساد کا آغاز ہوگیا ۔شروع میں صہیونیت کی تحریک سیاسی نہیں تھی بل کہ محض تہذیبی تھی لیکن جب تھیوڈور ہرزلی نے پہلی مرتبہ باقاعدہ تجویز پیش کی کہ اقوام عالم کی یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک یہودی ریاست کا قیام ضروری ہے تو اُس کے بعد صہیونیت کے اہداف بدل گئے۔ چناں چہ 1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بیل میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور یوں اس کی شاخیں اُن ملکوں میں قائم کی گئیں، جہاں یہودی کافی تعداد میں پہلے سے موجود تھے۔ ان سرگرمیوں میں امریکا کے یہودیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس تحریک میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب انگلستان کے یہودیوں نے 1905 کی کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی کہ لازمی نہیں کہ یہودیوں کا وطن فلسطین ہی ہو، یہ کہیں اور بھی ہوسکتا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے اس کے لیے یوگنڈا (مشرقی افریقہ) کا علاقہ پیش کیا گیا لیکن اکثریت نے یہ تجویز رد کردی۔ یوں اکثریت کے رہ نما ویزمان کی سرکردگی میں یہ تحریک منظم رہی۔ ویزمان نے خلافت عثمانیہ (ترکی کے سلطان) سے فلسطین میں یہودیوں کے لیے کچھ حقوق حاصل کر لیے تو اس کے بعد اُن کے حوصلے بڑھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی، اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا حلیف تھا۔اس وقت بالفور برطانیہ کا وزیر خارجہ تھا اور وہ برطانوی سیاست میں با اثر بھی تھا چناں چہ اس نے ایک اعلان نامہ جاری کیا، جس میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ یہودیوں کی بھرپور مدد کی جائے گی کہ وہ اپنا وطن فلسطین میں قائم کرسکیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جب جرمنی کے ساتھ ترکی کو بھی شکست ہوئی تو مشرق کا بڑا علاقہ فرانس اور انگلستان نے آپس میں بانٹ لیا۔ فلسطین پر انگریز قابض ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں یہودیوں نے فلسطین میں رہائشیں اختیار کرنا شروع کر دی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد صہیونیت کی تحریک نے مزید زور پکڑا اور برطانیہ کی مدد سے اسرائیل کی ریاست قائم ہوگئی۔
اس کے بعد اس تحریک نے اسرائیل سے بہ ظاہر اپنے آپ کو الگ کرلیا لیکن در پردہ اس تحریک کا تمام دنیا کے یہودیوں سے تعلق قائم رہا،جو اب تک ہے۔ اب بھی یہ تنظیم ساری دنیا کے یہودیوں کی تہذیبی و تعلیمی سرگرمیوں کو منظم کرنے اور دوسرے ملکوں سے یہودیوں کو اسرائیل بھیجنے کا انتظام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اسرائیل کے حق میں امریکا اور یورپی ملکوں میں اپنے نظریات کے پرچار کو منظم اور مالی امداد بھی جمع کرتی ہے۔ اس کا ایک بڑا مقصد اسرائیلی ریاست کو اتنا وسیع کرنا ہے، جس میں ساری دنیا کے یہودی آکر بس سکیں۔ اس توسیع پسندی کے نتیجہ میں اب تک فلسطین کے لاکھوں عرب بے وطن ہوچکے ہیں اور آج فلسطین اہم ترین عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے۔مشرقی یورپ میں صہیونیت کے فروغ نے خاص طور پراس قضیے میںاہم کردار ادا کیا تھا، جسے یہودیوں کی سیاسی اصطلاح میں ’’مسئلۂ یہود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح روس میں یہودیوں کے خلاف ایکشن نے بھی صہیونی تحریک کے برپا ہونے میں ا ہم کردار ادا کیا۔ امریکا اور یورپ میں یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور دوسری طرف یہوودیوں میں ’’تحریک تنویر‘‘ (عقائد میں ایسی لچک پیدا کرنا جو یورپ کے لیے قابل قبول ہو، یا ایمانیات کو سماجی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہ دینا) کی نا کامی نے بھی صہیونیت کے فروغ کو مہمیز دی۔اس نسل پر ستانہ تحریک کو پروان چڑھانے کے لیے اس اصول کو مدنظر رکھا گیا کہ فلسطین کے اصل باسیوں کے حقوق چھین کر یہودیوں کو دیے جا سکتے ہیں۔ ایک بار صہیونی تحریک کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد مذہبی یہودی اور سیکولر یہودی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جب تک کوئی بھی یہودی صہیونی تحریک کا رکن ہے، وہ ان ہی مقاصد کی تکمیل میں اپنی صلاحیتیں کھپائے گا، جس کے لیے صہیونی تحریک برپا کی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔

اسلام دنیا کا سب سے بڑا
اور مقبول مذہب

امریکی محققین کا کہنا ہے کہ سنہ 2050 تک یورپ کے کچھ ممالک میں مسلم آبادی میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا ۔ دنیا کی آبادی آئندہ 40 سالوں میں 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی تعداد میں 73 فیصد تک کا اضافہ ہوگا جس کے سبب2050 سے 2070 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر کی گزشتہ سال جاری کردہ تحقیق کا تجزیہ کرنے پر سامنے آیا ہے کہ 2050 تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا اور پوری دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔اس وقت دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہوگی اور بھارت میں ہندوؤں ہی کی اکثریت رہے گی۔اگلی چار دہائیوں میں عیسائی مذہب سب سے بڑا مذہبی گروہ بنا رہے گا لیکن کسی بھی مذہب کے مقابلہ اسلام سب سے تیز رفتار سے آگے بڑھے گا۔یورپ میں مسلمانوں کی مجموری آبادی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے تاہم اس میں مشرقی یورپ اور مغربی یورپ کی تفریق واضح ہے۔ جرمنی میں اس وقت مسلمان کل آبادی کا 6.1 فیصد ہیں اور اگر موجودہ صورتحال کی طرح جرمنی ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو سنہ 2050 میں مسلمان آبادی کا لگ بھگ 19.7 فیصد حصہ ہوں گے۔ دوسری جانب پولینڈ میں یہ شرح محض 0.1 فیصد سے بڑھ کر 0.2 فیصد ہوجائے گی ۔

پیوریسرچ سنٹر کی جانب سے جاری کردہ اعدا د و شمار کے مطابق سال 2016 میں مسلمان یورپ کی آبادی کا کل 4.9 فیصد تھے اور ان کی تعداد تیس ملکوں میں 25.8 ملین کے قریب تھی۔ سنہ 2010 میں یورپ میں موجود مسلمانوں کی تعداد19.5 فیصد تھی یعنی کہ چھ سال میں یورپ کی مسلمان آبادی میں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمانوں کا اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ یورپی تجزیہ نگاروں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔سنہ 2014 سے لگ بھگ ہر سال کم از کم پانچ لاکھ مسلمان عراق‘ شام اور افغانستان سے یورپ پہنچ کر پناہ گزین ہورہے ہیں جس کے سبب مسلمان آبادی کی شرح میں یہ تیز ترین اضافہ دیکھا گیا۔واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے اور اس کے بعد مسلمان آتے ہیں اور تیسری سب سے بڑی آبادی ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو2050 سے 2070 تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔
اندازہ ہے کہ اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں 73 فیصد کا اضافہ ہو گا، جب کہ عیسائیوں کی آبادی 35 فیصد بڑھے گی اور ہندوؤں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہو گا۔اس وقت مسلمانوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی اوسطاً ہر خاتون 3.1 بچوں کو جنم دے رہی ہے، عیسائیوں میں ہر خاتون اوسطاً 2.7 بچے کو جنم دے رہی ہے اور ہندوؤں میں بچے پیدا کرنے کی اوسط شرح 2.4 ہے۔سنہ 2010 میں پوری دنیا کی 27 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر کی تھی، وہیں 34 فیصد مسلمان آبادی 15 سال سے کم کی تھی اور ہندوؤں میں یہ آبادی 30 فیصد تھی۔ اسے ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کے مقابلے زیادہ تیز رفتار سے بڑھے گی اور ہندوؤں اور عیسائیوں اسی رفتار سے بڑھیں گی جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی یہودیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔ بچے پیدا کرنے کی شرح کے علاوہ آباديوں میں اس الٹ پھیر کی وجہ تبدیلیِ مذہب کو بھی بتایا جا رہا ہے۔آنے والے عشروں میں عیسائی مذہب کو سب سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے اور کہا گیا ہے کہ چار کروڑ افراد عیسائی مذہب اپنا لیں گے وہیں دس کروڑ 60 لاکھ لوگ اس مذہب کو چھوڑ دیں گے۔
٭ 62 فیصد مسلمان ایشیا اور بحر الکاہل کے خطے میں آباد ہیں، مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی انڈونیشیا، بھارت ،پاکستان،بنگلہ دیش ، ایران اور ترکی میں ہے ٭رپورٹ کے مطابق 2050 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 10 فی صد سے بھی تجاوز کرجائے گا،دنیا بھر میں مسلمان عیسائی آبادی کے مقابلے میں زیادہ ہو جائیں گے جولین رابن سن امریکا میں دنیا بھر کے مذاہب کی مقبولیت اور ان میں توسیع وترویج کی رفتار کے حوالے سے ہونے والی تازہ ترین ریسرچ رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاہے کہ 2070 ءتک اسلام دنیا کا سب سے بڑا اور مقبول مذہب بن جائے گا۔ریسرچ رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ یورپ اور امریکا میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ریسرچ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیاہے کہ 2100 میں تاریخ میں پہلی مرتبہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے بڑھ جائے گی۔ یہ ریسرچ رپورٹ امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم پیو ریسرچ سینٹر نے تیار کی ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر نے انکشاف کیاہے کہ 53 سال کے اندر دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد برابر ہوجائے گی۔جبکہ 2100 میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے کم وبیش ایک فیصد تجاوز کرجائے گی۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ شمالی امریکا اور یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ مسلم آبادی کی امیگریشن میں اضافہ ہے ۔واشنگٹن ڈی سی میں قائم پیو ریسرچ سینٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسلام دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت حاصل کررہاہے ۔رپورٹ کے مطابق 2010 میں دنیا بھر میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد کم وبیش 1.6 بلین یعنی ایک ارب 60 کروڑ تھی جو کہ دنیا کی مجموعی آبادی کے 23 فیصد کے مساوی تھی جبکہ 2010 میں دنیا بھر میں عیسائیوں کی تعداد 2.2 بلین یعنی 2 ارب20 کروڑ تھی جو کہ دنیا کی مجموعی آبادی کے 23 فیصد کے مساوی تھی۔ ریسرچ رپورٹ میں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے اسباب کاذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیاگیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کاایک بڑا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، ریسرچ رپورٹ کے مطابق مسلمان خواتین کے بچوں کاتناسب اوسطاً 3.1 بچہ فی خاتون ہے جبکہ دیگر تمام مذہبی گروپوں کے بچوں کا مجموعی تناسب 2.3 فی خاتون ہے ۔ ریسرچ رپورٹ کے مطابق 2010 میں مسلمانوں میں شادی کی عمر اوسطاً23 سال تھی جو کہ دیگر غیر مسلم گروپوں کے مقابلے میں 7 سال کم ہے۔رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاہے کہ 2050 میں مسلمانوں کی آبادی میں 2010 کے مقابلے میں 73 فیصد اضافہ ہوچکاہوگا جبکہ اس دوران عیسائیوں کی تعداد میں صرف 35 فیصد اضافہ متوقع ہے،اسی طرح اس عرصے میں ہندوؤں کی تعداد میں 34 فیصد ،یہودیوں کی تعداد میں 16 فیصد ،مقامی مذاہب ماننے والوں کی تعداد میں 11 فیصد ،لامذہبوں کی تعداد میں 9 فیصد اور دیگر مذاہب کی آبادی میں 6 فیصداوربدھسٹوں کی آبادی میںمنفی0.3 فیصد اضافہ متوقع ہے۔پیو کی ریسرچ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اگرچہ اس سے عالمی آبادی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن مسلم آبادی کی نقل مکانی کی وجہ سے بعض علاقوں جن میں شمالی امریکا اور یورپ کے ممالک شامل ہیںمسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے۔ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ 62 فیصد مسلمان ایشیا اور بحر الکاہل کے خطے میں آباد ہیں جبکہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی انڈونیشیا، بھارت ،پاکستان،بنگلہ دیش ، ایران اور ترکی میں ہے۔ 2050 تک بھارت میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی انڈونیشیا میں مسلمانوں کی آبادی سے تجاوز کرجائے گی جبکہ اس وقت انڈونیشیا مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ رپورٹ میںیہ بھی بتایاگیاہے کہ گزشتہ سال امریکا میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد امریکا کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد کے مساوی تھی ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امریکا میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد 3.3 ملین یعنی 33 لاکھ تھی۔جبکہ پیشگوئی کے مطابق 2050 میں امریکا میں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب 2.1 فیصد تک ہوجانے کاا مکان ہے۔جبکہ 2050 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 10 فی صد سے بھی تجاوز کرجائے گا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ اور اگلی نصف صدی میں دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں سے تجاوز کرجانے کے حوالے یہ رپورٹ خوش آئند ہے اور اس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں ، ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا اگلی نصف صدی کے اندر مسلمان دنیا بھر کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائےں گے ،یا تعداد کے اعتبار سے زیادہ اورتیل سمیت دنیا کے قیمتی ترین معدنی وسائل،اور دنیا کی ذہین ترین اورمحنتی وجفا کش افرادی قوت کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کی غلامی ان کا مقدر بنی رہے گی ، یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر مسلمان کی روح کو جھنجھوڑ دینے کیلئے کافی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلم حکمراں اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار ہیں یا اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد اور اعانت کرنے کے بجائے غیر مسلموں بلکہ مسلمانوں کے ازلی دشمنوں کا ساتھ دیتے رہنے کو ہی ترجیح دیں گے؟یہ ایسا سوال ہے جس کے منفی یا مثبت جواب میں ہی مسلمانوں کامستقبل پنہاں ہے۔
مسلمان، ساری دنیا میں پھیلے ہیں اور ان کی آبادی میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر ان کے متعلق کچھ اہم اور دلچسپ باتیں بھی قابل غور ہیں۔ مثلا دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کونسی زبان بولتی ہے؟عربی زبان سے کتنے مسلمان واقف ہیں؟ مسلمانوں میں شرح خواندگی کیا ہے؟ دہشت گردی سے متاثر ممالک میںکونسے مسلم ممالک سرفہرست ہیں؟ان کے علاوہ بھی کئی سوال ہیں جن کے جواب دلچسپ ہیں۔محققین کے مطابق دنیا میں ہرچوتھا شخص مسلمان ہے۔مسلمانوں کے مقابلے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کا تناسب کچھ یوں ہے کہ ہر ایک ہندو کے مقابلے میں2 مسلمان اور ہر یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان۔ پیو ریسرچ سنٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت ایشیا پیسیفک خطے میں رہتی ہے۔ 2017 میں شائع ہوئی اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایشیاء پیسیفیک میں مسلمانوں کی تعداد986,420,000 ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی تعداد 317,070,000ہے جب کہ افریقہ کے صحاراخطے میں مسلمانوں کی تعداد248,420,000ہے۔ رپورٹ کے مطابق نارتھ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد 3,480,000ہے، لاطینی امریکہ میں840,000ہے اور یوروپ میں 43,470,000ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی پیوریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ 40 سالوں میںمسلمانوں کی تعداد میں 73 فیصد تک کا اضافہ ہوگا جس کے سبب2050 سے 2070 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔اس رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ 2050 تک یورپ کے کچھ ممالک میں مسلم آبادی میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا۔ یورپ میں مسلمانوں کی آبادی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مسلمان کل آبادی کا 6.1 فیصد ہیں مگرجرمنی کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو 2050 میں مسلمان آبادی کا لگ بھگ 19.7 فیصد حصہ ہوں گے۔ دوسری جانب پولینڈ میں یہ شرح محض 0.1 فیصد سے بڑھ کر 0.2 فیصد ہو گی۔پیوریسرچ سنٹر کی جانب سے جاری کردہ اعدا د و شمار کے مطابق سال 2016 میں مسلمان، یورپ کی آبادی کا کل 4.9 فیصد تھے ۔ 2014 سے لگ بھگ ہر سال کم از کم پانچ لاکھ مسلمان عراق‘ شام اور افغانستان سے یورپ پہنچ رہے ہیں جس کے سبب مسلمان آبادی میں تیز ی سے اضافہ ہوا ہے۔ اندازہ یہ بھی ہے کہ آنے والی کچھ دہائیوں میں ایک کروڑ 12 لاکھ لوگ مذہب اسلام کو اپنائیں گے وہیں تقریباً 92 لاکھ افرادمذہب اسلام کو خیرآباد کہہ دیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت اسلام، سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے، اورمسلمانوں میں شرحِ پیدائش بھی دیگر مذاہب کے مقابلے زیادہ ہے۔ ’پیوریسرچ سینٹر‘ کے مطابق امریکہ میں رہائش پذیر مسلمانوں کی تعداد2017 میں3.45 ملین تھی۔امریکہ کی مجموعی آبادی میں مسلمان 1.1فیصدہیں۔اندازہ ہے کہ2050تک امریکی مسلمانوں کی آبادی موجودہ تعداد کی تقریباً دگنی ہوجائے گی۔ مسلمانوں کی زبان مسلمانوں کی کوئی ایک مخصوص زبان نہیں ہے،وہ مختلف زبانیں بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور دنیا کی کئی الگ الگ تہذیبوں سے آتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر مسلمان، عربی زبان میں قرآن پڑھ سکتے ہیں مگر سمجھ نہیں سکتے۔دنیا بھر میں 21فیصد مسلمانوں کی ہی زبان عربی ہے، جب کہ 11فیصد مسلمان، فارسی بولتے ہیں،16فیصد مسلمان ملائی زبانیں بولتے ہیں۔بنگلہ بولنے والے مسلمان بھی بڑی تعداد میں ہیں جن کی آبادی 22کروڑ سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہے، اسی طرح اردو بولنے والے مسلمان بھی بھارت اور پاکستان میں ہیں جن کی آبادی کروڑوں میں ہے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ بربر، افریقی، پنجابی، سندھی، کشمیری، ایغور، ملیالم، پشتو، ازبک، بلوچ ، ترکی وغیرہ زبانیں بولتا ہے۔ سب سے قابل رحم ممالک ایک امریکی تحقیقاتی ادارے نے دنیا بھر کے سب سے پسماندہ اور قابل رحم نوے ممالک کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں مسلم دنیا کے بہت سے ممالک کے نام بھی شامل ہیں۔اس تحقیق میں معیشت، بے روزگاری،قرض،افراط زر اور اقتصادی شرح نمو سے متعلق اعدادوشمار کی بنیاد پر ان ممالک کی درجہ بندی کی ہے۔اس فہرست میں دنیا کا سب سے قابل رحم ملک وینزویلا ہے جو ایک امریکا مخالف ملک ہے۔اس کے بعد ایران کا دوسرا نمبر ہے۔یہ بھی امریکاکا سخت مخالف ہے۔مصر ان ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے اور مسلم ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔اس فہرست میںفلسطین،ترکی اور اردن بالترتیب بارھویں،تیرھویں اور بائیسویں نمبر پر ہیں۔پاکستان،انڈونیشیا اور تیونس کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب جیسا خوش حال ملک بھی اس فہرست میں چالیسویں نمبر پر ہے، جہاں حالیہ ایام میں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھی ہے اور معیشت میں گراوٹ آئی ہے۔الجزائر اور مراکش بالترتیب چھیالیسویں اور اٹھاونویں نمبر پر ہیں جو شمالی افریقہ کے عرب ملک ہیں۔ اس فہرست میں سب سے زیادہ مسلم ممالک شامل ہیں۔ سب سے ناخواندہ ممالک اقوام متحدہ کے ادارہ یو این ڈی پی کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں سب سے کم شرح خواندگی مسلم ملکوں میں ہے۔ مسلم ممالک میں اوسط شرح خواندگی تقریباً 40 فیصد ہے اور کوئی ایک بھی مسلم ملک، ایسا نہیں جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہو۔ مسلم ممالک میں ایسے خواندہ افراد جو پرائمری پاس ہیں ان کی شرح 50 فیصدہے،جب کہ عیسائی ممالک کے 40 فیصد خواندہ افراد نے یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کی ہے۔جب کہ پوری عیسائی دنیا میں شرح خواندگی، تقریباً 90 فیصد ہے اور 15عیسائی ممالک ایسے بھی ہیں، جہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ مسلم ممالک میں ہر دس لاکھ مسلمانوں میں سے 230 سائنسدان ہیں جبکہ امریکہ میں ہر دس لاکھ افراد میں چار ہزار سائنسدان ہیں اور جاپان میں ہر دس لاکھ افراد میں سے پانچ ہزار سائنسدان ہیں۔ ہر دس لاکھ عربوں میں صرف پچاس تکنیک کار موجود ہیں،جب کہ عیسائی ممالک میں یہ تناسب ہر دس لاکھ افراد میں ایک ہزار تکنیک کاروں کا ہے۔ مسلم دنیا تحقیق اور تعلیم پرکتنی توجہ دیتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ اپنی مجموعی پیداوار کا صرف ایک فیصد تعلیم پرخرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی مجموعی پیداوار کا پانچ فیصدتعلیم پرصرف کرتی ہے۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن یعنی او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 57ہے مگر ایک سچائی یہ ہے کہ ان مسلم ممالک میں یونیورسٹیوں کی کل تعدادمحض500ہے یعنی30 لاکھ مسلمانوں کے لئے صرف ایک یونیورسٹی ہے۔ اس کے برعکس صرف امریکہ میں 5758یونیورسٹیاں موجود ہیں اور ہندوستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد 8407 ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ کارکردگی کے اعتبار سے درجہ بندی میںدنیاکی ٹاپ500 یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی جگہ نہ پاسکی ہے۔ دولت مندعرب ممالک تعلیمی ادارے قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور اگر کچھ ادارے قائم بھی ہوتے ہیں تو ان میں سائنس اور تکنالوجی کی تعلیم نہیں ہوتی۔ دہشت گردی کے شکار ممالک دنیا بھر میںدہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہیں، 2014میںدہشت گردی کی مجموعی ہلاکتوں میں 78فی صد ہلاکتیں، پانچ ممالک عراق، افغانستان، نائیجیریا، پاکستان اور شام میں ہوئیں۔ دہشت گردی کے شکار دس سرفہرست ملکوں میں مسلمان ممالک ہی سب سے اوپرہیں۔ مسلمان کتنی عمر میں کرتے ہیں شادی؟ مغربی ملکوں میں تاخیر سے شادی کرنے کا رجحان ہے مگر بیشتر مسلم ملکوں میں جلد شادیاں ہوجاتی ہیں۔شاید اس کا ایک بڑاسبب مذہبی اور سماجی ہو یعنی مغربی ملکوں میںبغیر شادی کے ساتھ رہنے کا رجحان ہے جب کہ اسلام میں اس کی اجازت نہیں اور نکاح کے بغیر جنسی تعلق کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی ملک ترکی میں شادی کی اوسط عمر 26.2 سال ہے۔ ایران میں شادی کی اوسط عمر25.2،ہے ، مصر میں 24.8، بنگلا دیش میں 22.2 اور انڈونیشیامیں شادی کی اوسط عمر 21.9 سال ہے۔واضح ہوکہ بھارت میں یہ عمر 22.8 سال ہے۔ دوسری طرف بڑے ممالک میں سب سے زیادہ عمر میں شادی کا رجحان جرمنی میں ہے، جہاں شادی کی اوسط عمر 33.1 سال ہے۔اسی طرح برازیل میں 30.8 کی عمر میں شادی ہوتی ہے اور جاپان میں 30.5 سال کی عمر میں اوسطاً شادی ہوتی ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں27.9 سال کی عمر میں شادی ہوتی ہے۔زیادہ عمر میں شادی کے معاملے میں ٹاپ دس ممالک میں صرف مسلم اکثریتی ملک ترکی شامل ہے۔ اعدادوشمار سے مزید پتہ چلتا ہے کہ ہر ملک میں مردوں اور عورتوں کی شادی کی عمر بھی مختلف ہے، جس میں مرد کی شادی عورت کے مقابلے میں زیادہ دیر سے ہوتی ہے۔
ایک تھنک ٹینک کی 2009 کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اسلامک شرعی کونسل کے تحت اس طرح کے کم سے کم 85 ادارے کام کر رہے ہیںاور گزشتہ تین سے پانچ برسوںمیں یہاں آنے والے کیسوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔برطانیہ میں یہ شرعی کونسلیں 1982 سے کام کر رہی ہیں جو صرف سول معاملات ہی کا حل نکالتی ہیں تاہم انہیںبرطانوی قانون کے مطابق نہ تو کسی طرح کے قانونی اختیارات حاصل ہیں اور نہ ہی یہ کسی طرح کی جرمانہ لگا سکتی ہیں۔28 سالہ برطانوی شہری عمر شیخ کا کہنا ہے کہ کاروبار میں جب ان کے اپنے برطانوی مسلم پارٹنر کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا تو انہوں نے برطانوی عدالت کے بجائے شرعی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے نہ صرف میرے اسلامک اصول پورے ہوتے تھے بلکہ برطانوی عدالتوں کے مقابلے یہاں فیصلہ بھی جلدی اور سستا ہوا۔ شرعی عدالت میں انہیں انصاف مفت جب کہ برطانوی عدالتی نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں پانڈ کا خرچا ہوتا۔مسائل کے شرعی حل کی جانب لوگوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے برطانوی وکلا ء کی کئی کمپنیوں نے اسے فائدے کا کاروبار سمجھ کر لوگوں کو شرعی مسائل پر مشورے دینے شروع کر دیئے ہیں۔شرعی کونسلوںکی طرف جانے والوں میںاکثرپچاس برس سے کم عمر کے لوگ ہیں جو برطانوی مسلمان تو ہیں لیکن اپنی اسلامی شناخت کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اُردوکے مطابق اس رحجان کودیکھتے ہوئے برطانیہ میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے تاہم وہیں کئی گروپوں کی طرف سے اس کی مخالفت بھی کی جارہی ہے اوراس سسٹم کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔5کروڑ 10 لاکھ آبادی کے ساتھ انگلستان یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یورپی یونین میں انگلستان کی آبادی چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ہے اور دنیا بھر میں 25ویں نمبر پر آتی ہے۔ فی مربع کلومیٹر آبادی کی گنجانیت 395 افراد ہے جو یورپی یونین میں مالٹا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔برطانیہ میں28 لاکھ مسلمان رہتے ہیںاور ان برطانوی مسلمانوں کا شرعی احکام پر عمل پیرہونا کوئی چھوٹی خوشخبری نہیںیاد رہے کہ برطانیہ میں انجام شدہ حالیہ تحقیقات کے مطابق اس ملک میں دن بدن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ مذہبی ریسرچ سنٹر ’’ فیس مٹرز ‘‘نے اپنی انجام شدہ تحقیق میں اعلان کیا برطانیہ میںہر سال5 ہزارافرادکی تعداد سے مسلمانوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ 9/11کے واقعہ کے بعد مغرب میںاسلام اور مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپگنڈہ کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد دین اسلام کو اجڑ قرار دیا جانا تھا مگر رپورٹیں شاہدہیں کہ دن بہ دن یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ فقط اسلام کے فطری بنیادی اصولوں وعقائد کی بنا پر ہے جو انسانوں کو اس دین سے قریب کررہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایک لاکھ کے قریب افراد اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئے ہیں۔ ان میں سفید فام خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ’’فیتھ میئرز آرگنائزیشن ‘‘کی رپورٹ کے مطابق 2001 تک 60 ہزار برطانوی باشندوں نے اسلام قبول کیا تھا جب کہ اب یہ تعداد 90 ہزار سے ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس برطانیہ میں 5200 افراد نے اسلام قبول کیا۔ 122 نومسلموں سے کئے گئے سروے کے مطابق گزشتہ سال مسلمان ہونے والوں میں سے 56 فیصد سفید فام برطانوی باشندے ہیں اور ان میں 62 فیصد سفید فام خواتین بھی شامل ہیںاورمسلمان ہونے والوں کی اوسط عمر 27 سال ہے۔رپورٹ کے مطابق نومسلم افراد کی بڑی تعداد نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں مسلمان بننے کے فورا بعد اپنے خاندانوں کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کا روّیہ بتدریج درست ہوتا گیا۔ نومسلموں کی ایک بڑی تعداد خود کو برٹش اور مسلمان تصور کرتی ہے اور اسے برطانوی معاشرے اور کلچر میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ یہ نومسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل ان کی زندگی بے مقصد تھی۔برطانیہ ان’’ کمیونٹیز‘‘ کا وطن ہے جو مسلم دنیا کے تقریبا ہر ملک سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر کمیونٹی کی اپنی تاریخ، ثقافت اور روایات ہیں۔ سب سے بڑی ’’کمیونٹیز ‘‘جنوبی ایشیا سے آئی ہیں لیکن ان کے علاوہ عرب اور افریقی کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا، بلقان اور ترکی کے مسلمان بھی یہاں آباد ہیں۔ ایسے بھی کئی مسلمان ہیں جو دوسرے مذاہب سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔یہ کمیونٹیز پورے جزائر برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور برطانیہ کی معاشی ثقافتی اور سیاسی زندگی کے ہر شعبے میں ان کی نمائندگی موجود ہے۔ چھوٹے کاروباروں سے ریسٹورینٹس، لاء اور اکائونٹنسی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی، نیشنل ہیلتھ سروس سے تدریس، ٹرانسپورٹ اور پبلک سروسز، سیاست اور میڈیا سے کھیل تک مسلمان برطانیہ کے کثیر النسل اور کثیر العقائد معاشرے میں ایک بیش بہا کردار ادا کر رہے ہیں۔مسلمان برطانیہ میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ انٹرنٹ سے لی گئیں معلومات کے مطابق برطانوی مسلمانوں کی تعداداب بڑھ کر2.8 ملین کے قریب ہو چکی ہے۔برطانیہ کی بے شمار مسلمان کمیونٹیز گویا نسلی پسِ منظر کا ایک خزانہ ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق 11.2 فی صد مسلمان ‘سفید فام’ 6.9 فی صد سیاہ فام ،سیاہ فام برطانوی، 74 فی صد ایشیائی، ایشیائی برطانوی اور 7.5 ‘دیگر’ ہیں۔تقریبا 50 فی صد مسلمان برطانیہ ہی کی پیدائش ہیں اور 50 فی صد کی عمر 25 سال سے کم ہے۔مسلمانوں کی گنجان آبادی اگرچہ بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے لیکن اب یہ کمیونٹیز برطانیہ بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔برطانوی مسلمانوں کے روایتی کھانوں اور ان کے ملبوسات نے برطانوی ثقافت پر گہرا اثر پڑا ہے۔لوگوں کے خریداری اور کھانے پینے کے انداز بدل گئے ہیں اور وہ انوکھے نئے ذائقوں اور اجزاء سے متعارف ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں پہلا کری ہاؤس 1809 میں لندن میں کھلا اور آج وہ کھانے جنہیں ’انڈین‘کہا جاتا ہے قوم کے پسندیدہ کھانے بن چکے ہیں۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ ان کھانوں میں سے جو برطانیہ کے ‘انڈین’ ریسٹورینٹس میں پیش کئے جاتے ہیں ،درحقیقت زیادہ تر بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمانوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں۔ ترکی، لبنان اور مراکش کے روایتی کھانوں کی مقبولیت میں بھی اب اضافہ ہو رہا ہے۔مسلمانوں کے ملبوسات نے عالمی فیشن کو بھی متاثر کیا ہے۔ملبوساتی مارکیٹ میں مسلمانوں کی ملبوسات کی اپنی شاپس نے ایک خاصی بڑی جگہ بنا لی ہے۔ کثیر مسلمان آبادی والے بڑے شہروں جیسے بریڈ فورڈ، لیسٹر اور برمنگھم میں تو واقع یہی دیکھنے میں آتا ہے۔برطانیہ کے مسلمان منظم انداز میں زندگی گزار رہے ہیں او روہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی نمائیدگی کیلئے مصروف تگ ودو ہیں ،تمام گروپوں میں مسلمان سب سے کم عمر ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق 34 فی صد مسلمان 16سال سے کم عمر ہیں۔ نوجوانوں اور طلبہ کی کئی تنظیمیں ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وجود میں آچکی ہیں۔گزشتہ عشرے میں مسلمان برطانیہ میں عام سیاسی دھارے میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوتے رہے ہیں۔ مسلمان کونسلروں میئروں اور اراکین پارلیمنٹ کی تعداد روز افزوں ہے۔اور اس طرح یورپ بھر میں برطانیہ میں سب سے زیادہ مسلمان اراکین پارلیمنٹ ہیں۔برطانیہ میں کئی مسلمان فلاحی ادارے ہیں جو بنیادی طور پر مسلمان اکثریت والے ممالک اور ان خطوں کو جن کا برطانوی مسلمانوں سے تعلق ہو ہنگامی انسانی امداد اور ترقیاتی تعاون فراہم کرتے ہیں۔سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مشہور تنظیم ’’اسلامک ریلیف ‘‘ہے جو 1984 میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’’این جی او‘‘ کے طور پر وجود میں آئی۔ اسلامک ریلیف ’’ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی‘‘کی ممبر ہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والی بین ا لاقوامی انسانی اپیلوں میں رابطے کا کام کرتی ہے۔ یہ 2004 کے ایشیائی سونامی اور2005 کے پاکستانی زلزلے جیسی تباہیوں سے نمٹنے میں بڑی موثر ثابت ہوئی ہے۔برطانیہ عالمی اسلامی سرمایہ کاری کے مرکز کی حیثیت اختیار کرنے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ برطانوی بنک اب اسلامی بنکاری میں تقلید کر رہے ہیں اور لندن میں اب کسی بھی مغربی سرمایہ کاری مرکز کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں بنک اسلامی اصولوں پر مبنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے والی برطانوی فرمیں بھی اب اسلامی کاروباری خدمات کی فراہمی میں قیادت کر رہی ہیں جن میں انگلش کمرشل لا کو ایک منتخبہ قانون کی حیثیت دی گئی ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کی تاریخ 1,000سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔جنوب مشرقی آئرلینڈ میں نویں صدی کے ایک بروچ سے جس پر بسم اللہ کندہ کیا ہوا تھا اور آٹھویں صدی میں شاہ اؤفا کے دور کے سکوں کی دریافت سے جن پر کلمہ شہادت کی مہر تھی، تاریخ کے اس کم جانے پہچانے دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔البتہ برطانیہ میں مسلمانوں کا پہلا بڑا گروپ اٹھارویں صدی کی ابتدا سے پہلے تک نہیں آیا، یہ گروپ بھارت سے آیا تھا۔ اگلے 200سال میں تجارت اور کاروبار کی بدولت برطانیہ اور مسلم ممالک میں روابط بڑھے ،خاص طور پر جب برطانوی تجارتی جہازوں نے غیر ملکی عملے کو بھرتی کرنا شروع کیا۔ 1842ء تک تقریباً 3,000 مسلمان جنہیں’’لشکری ‘‘کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر سال برطانیہ آنے جانے لگے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے شادی کر لی اور کارڈف، لور پول، گلاسگو اور لندن جیسے شہروں میں بس گئے اسلامی عقیدے کی بڑھتی ہوئی کشش کچھ ایسی تھی کہ کئی ممتاز برطانوی مسلمان ہو گئے۔ ان میں ہیڈلی کے پانچویں بیرن اور ایک مشہورسِوِل انجینئر لارڈ ہیڈلی ،جنہوں نے کشمیر کے پہاڑی علاقے میں بارہ مولا اور سرینگر کے درمیان سڑک کی تعمیر کی تھی،ایک وکیل اور شاعرولیم کوئیلیم ،جنہوں نے برطانیہ کی پہلی مسجد بنائی اور ایک ناول نگار اور قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے محمد مارما ڈیوک پکتھال شامل تھے۔ برطانیہ کی پہلی باقاعدہ تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح ووکنگ، سرے میں 1889 میں ہوا۔مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی برطانیہ میں 1950 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ تارکینِ وطن زیادہ تر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد محنت کشوں کی کمی پوری کرنے کے لیے آئے تھے۔ وہ زیادہ تر لندن میں اندرونِ شہر علاقوں، مڈلینڈز کے صنعتی شہروں اور لنکاشائر، یا رکشائر اور اسٹریتھ کلائیڈ کے ان شہروں میں آباد ہوئے جو پارچہ بافی کے مرکز تھے۔آج برطانیہ میں رہنے والے مسلمان وسیع اور گونا گوں قومیتی اور ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں۔ ان کی آبادی میں ایک خاصی تعداد اسلام قبول کرنے والے برطانویوں اور یورپی افراد کی ہے۔ مسلمان کمیونٹیز پورے برطانیہ میں پھیلی ہوئی ہیں البتہ لندن مانچسٹر، برمنگھم اور بریڈ فورڈ میں ان کی آبادی گنجان ہے۔بہر حال مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداداور اس پر مستزاد یہ کہ برطانوی مسلمانوں کا اپنے تصفیہ طلب مسائل کاتصفیہ اور ان کا حل شرعی عدالتوں میں تلاش کرنا مسلم دنیا کو دعوت فکر فراہم کرتا ہے اور اس نیک رحجان کے نتیجے میں دنیائے اسلام پر کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے محتاج وضاحت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان حوالوں سے مسلمان ممالک اپنی ذمہ داری سے کبھی عہدہ برآںہوں گے؟
بیلجیم میں ایک 92 سالہ جیورجٹ لیپول نے اپنے مسلمان ہمسائے کے اچھے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔ جیورجٹ کے مطابق مجھے اپنے مسلمان ہمسائے میں جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کا اخلاق تھا۔ میرا اسلام قبول کرنا در اصل اللہ کی طرف سے میری دعاوں کا جواب ہے۔جیورجٹ اور ان کے ہمسائے محمد پچھلے 40 سالوں سے پڑوسی ہیں۔ دو سال قبل جیورجٹ اپنے نرسنگ ہوم میں تھیں جب انہوں نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وہ اپنے پڑوسی محمد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ رہنے لگیں۔محمد کی اہلیہ جیورجٹ کو شروع دن سے جانتی تھیں۔جبکہ محمد کی دونوں بیٹیاں تو بچپن سے ہی ان کو دیکھتے آرہی تھیں۔ محمد کا کہنا تھا کہ ان کو بھی جیورجٹ کی شکل میں ایک نئی والدہ مل گئی تھیں۔جیورجٹ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ ایک ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ کس طرح روز مرہ کے معمولات کو سر انجام دیتے ہیں، وہ کس طرح ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، خاندان ان کے لئے کتنا اہم ہےجس کا مغربی معاشرے میں شدید فقدان ہے۔انہوں نے کہا کہ میں ایک سال پہلے مسلمان ہوگئی تھی اور جب سے میں مسلمان ہوئی ہوں میری بیٹی نے اب تک مجھ سے بات نہیں کی ہے۔
مشہور ولاگر و بائیک ٹریولر روزی گیرئیل کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے،ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک عالم دین انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کر رہے ہیں۔جب کہ روز نے یہ ویڈیو اپنے یوٹیوب چینل پر شئیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اسلام کی طرف لوٹ آئی ہوں۔عالم دین روزی کو اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے میں تفصیل سے بتایا جب کہ مختصر تعارف کے بعد روزی کو کلمہ طیبہ پڑھایا جاتا ہے۔اس موقع پر موجود لوگوں نے روزی کو اسلام قبول کرنے پر مبارکباد بھی دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آپ لوگوں کی موجودگی میں بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو سکتے ہیں جب کہ خود سے سرگوشی کرتے ہوئے کلمہ پڑھ کر بھی ہو سکتے ہیں۔یہ دراصل آپ کی نیت پر منحصر ہے،کیونکہ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور آپ سچے دل سے اس راستے پر چل رہے ہیں۔اس سچائی کو شئیر کرنا بہت ضروری تھا کہ اسلام امن ،محبت اور یکجہتی کا نام ہے۔ غیر مسلم یہاں تک کہ مسمانوں کی جانب سے اسلام کے بارے میں غلط باتیں پھیلائی جاتی ہیں۔بہت سالوں سے گہری روحانی راہ پر گامزن ہوں ، اور ایک مسلمان ملک میں ، خاص طور پر پاکستان کے سفر کے بعد اتنے سال گزارنے کے بعد ، میں نے بہت کچھ سیکھا۔میں نے اپنے اور خدا کے بارے میں جانا۔
اللہ جیسے چاہیے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔۔ ضلع بدین کےعلاقے گولارچی میں نومسلم خاندانوں اور ہندوبرادری کے درمیان مذہبی رواداری مثال بن گئی۔گولارچی کے نواح میں واقع ایک کسان گھرانا اپنے خاندان کے تمام افراد کے ہمراہ حال ہی میں دائرہ اسلام میں داخل ہوا ہے۔بھیل برادری کے اس خاندان کے سیکڑوں افراد کئی دہائیوں سے مسلمان تھے جن کی دعوت پر اس گھرانے نے بھی
اسلام قبول کرلیا۔ اس گھرانے کی ایک رکن بھاگی نے بتایا کہ ‘ہم نے اپنی خوشی سے رضا سے اپنے بچوں کے ساتھ نبی ﷺ پر کلمہ پڑھا ہے پتہ نہیں اس میں کسی کو کیا اعتراض ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہندو تھے تب بھی آزاد تھے اب مسلمان ہیں تب بھی آزاد ہیں کوئی زور زبردستی نہیں مرضی سے مسلمان ہوئے ہیں۔ محمد اسلم اس گھرانےکا سربراہ ہے جو کسان ہے اور قبول اسلام کے بعد جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ نماز کے لیے جاتا ہے تو تمام لوگ اس کا گرمجوشی سے استقبال کرتے ہیں۔اسلم کا کہنا ہے کہ دیگر باتوں کےعلاوہ اسے اسلام میں مساوات اور برابری بہت اچھی لگی، اسلام میں یہ ہے کہ برابری ہے مل کر کھاتے ہیں پیتے ہیں رہتے ہیں یہ ہمارے لیے بڑی بات ہے۔
اوائل جنوری میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کرنے والی کینیڈین بائیکر گرل اور سیاح روزی جبرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنا نام تبدیل نہیں کریں گی نا ہی مستقل حجاب اختیار کریں گی البتہ آئندہ ایک برس کے دوران حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اپنی موٹر سائیکل پر دنیا بھر کی سیاحت کے لیے نکلنے والی روزی نے منگل کو انسٹاگرام پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ انہیں اپنے فیصلے پر آنے والے ردعمل کا اندازہ نہیں تھا، اس اقدام پر انہیں بھرپور پزیرائی ملی۔ نیک خواہشات ظاہر کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ وہ اپنی زندگی کے نئے مرحلے پر ملنے والی محبتوں اور تعاون پر شکرگزار ہیں۔
کینیڈین بائیکر گرل اپنی سفرو سیاحت کے متعلق سوشل میڈیا پر تفصیلات شیئر کرتی رہتی ہیں ۔اسلام قبول کرنے سے متعلق اپنی سابقہ گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے روزی نے کہا کہ وہ اپنے خیالات اور اللہ سے تعلق کی بنا پر تکنیکی اعتبار سے خود کو پہلے بھی مسلمان ہی سمجھتی تھیں۔ لیکن فیصلے کے بعد یہ سب کچھ ان کے لیے بالکل نیا رہا۔انہوں نے لکھا کہ وہ ماضی کے خوف اور تکلیف سے چھٹکارا پا کر نئی زندگی گزارنے کے لیے خود کو بالکل آزاد پاتی ہیں۔ اپنے قلب و ذہن کو سب سے پرامن، شعوری اور سیدھے راستے کے لیے یکسو کر چکی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’اسلام قبول کرنے سے متعلق عام اعلان نہ تو فالوورز حاصل کرنے کے لیے تھا نا ہی وہ ایسا کر کے دوسروں کو متوجہ کرنا چاہتی تھیں۔ بلکہ دوسروں کی توجہ پا کر میں خود کو مشکل میں محسوس کرتی ہوں۔ میرا اعلان میری جانب سے گواہی تھا تاکہ پوری دنیا کے سامنے خود کو جوابدہ محسوس کر سکوں۔‘ روزی جبرائیل کے مطابق اپنی نیت اور محبت کے ساتھ اب وہ خود کو بہترین صورت میں ڈھالنے پر تیار ہیں۔سوشل میڈیا صارفین کے ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے صارفین کی جانب سے پوچھے جانے والے مختلف سوالوں کے مختصر جواب بھی دیے۔روزی کا کہنا تھا کہ وہ اپنا نام تبدیل نہیں کریں گی، نا ہی کسی فرقے کا انتخاب کریں گی۔ شادی کی دعوت دینے والے ایک صارف کا نام لیے بغیر اپنے جواب میں روزی نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی۔ اہل خانہ کی جانب سے اپنے فیصلے کو قبول کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے روزی نے لکھا کہ وہ آئندہ ایک برس کے دوران حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔موٹر سائیکل پر دنیا گھونے کی خواہاں روزی اب تک متعدد ملکوں کی سیر کر چکی ہیں ۔ مستقل حجاب اختیار کرنے کے متعلق سوال کے جواب میں روزی کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گی کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی سیاحت اور بائیگنگ کو جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔ صارفین کی جانب سے موصول ہونے والے ردعمل کو مجموعی طور پر مثبت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ توقع کے مطابق کچھ ردعمل منفی بھی رہا، جس میں سے زیادہ تر خوف، نظرانداز کرنے اور عدم برداشت پر مبنی تھا۔ روزی کے مطابق ’بطور انسان ہم جس بات کو سمجھ نہیں سکتے اس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ وہ چاہیں گی کہ پوری انسانیت کے لیے ایسی مثال بن سکیں، جو اسلام کے بہتر طور پر سمجھنے کا ذریعہ بنے، فاصلے ختم کرے اور باہم مربوط، پرامن زندگی گزار سکیں۔‘انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے امن، قبولیت اور باہمی اعتماد کے متعلق دل نرم ہوں گے اور ذہن کھلیں گے۔
قرآنی آیات کی معجزانہ تاثیر دیکھئے کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون سورہ یٰسین کی آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔ ام امینہ بدریہ کی ایمان افروز داستان قبول اسلام انہی کی زبانی سنیے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے والد کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا۔وہ پیدائشی لحاظ سے مسلمان تھے لیکن عملی طور پر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جبکہ میری والدہ بدھ مت تھیں اور والد صاحب سے شادی کے وقت مسلمان ہوئی تھیں۔ وہ دونوں بعدمیں آسٹریلیا آ کر آباد ہو گئے تھے۔ میرا پیدائشی نام ( ٹے نی تھیا ) Tanidthea تھا۔ میں نے یونیورسٹی آف نیوانگلینڈ، آرمیڈیل سے ایم اے اکنامکس کیا اور بزنس مارکیٹنگ اور ہیومن ریسورسز کے مضامین پڑھے۔ پھر میں بطور ٹیوٹر پڑھانے لگی۔ اسی اثناءمیں شادی ہو گئی شادی اسلامی قانون کے مطابق ہوئی۔ میرے شوہر کمپیوٹر گرافکس ڈیزائنر تھے۔ وہ شادی کے وقت مسلمان ہوئے تھے لیکن نام کے مسلمان تھے۔ اسلام پر ہرگز عامل نہیں تھے۔ میرے والد بھی نام کے مسلمان تھے اور انہیں دین کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا نہ انہوں نے ہمیں کچھ بتایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم بھی دین سے مکمل طور پر عاری تھے۔ میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں ملحد تھی۔ میں جب اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار چکی تو ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ دنیا سے میرا دل اچاٹ ہو گیا اور میں پریشانی کی حالت میں تھی۔ اس پر میں نے سوچا کہ مجھے نماز پڑھنی چاہیے جیسا کہ میں نے ایک دفعہ اپنے والد صاحب کو کہیں پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنے شوہر کو اس کے بارے میں بتایا تو اس نے اس بات کا بہت برا مانا۔ اس نے کہا ( نعوذ باللہ ) کوئی اللہ واللہ نہیں ہے اور نہ نماز وغیرہ کچھ ہے۔ دریں اثنا میرے والدین وفات پا گئے تھے۔ تقریبا سات سال پہلے آسٹریلیا کی نیوساؤتھ ویلز سٹیٹ کے شہر آرمیڈیل کی ایک چھوٹی سی مسجد میں گئی جو کہ غیر ملکی مسلم طلبہ کیلئے تعمیر کی گئی تھی۔ وہاں سے میں نے انگلش ترجمے والا قرآن مجید پڑھنے کیلئے مستعار لیا۔ یہ قرآن مجید خادم الحرمین شریفین الملک فہد بن عبدالعزیز آل سعود ( سعودی عرب ) کی جانب سے شائع شدہ تھا۔ میں اسے گھر لے جا کر محض اس کی ورق گردانی ( Flip ) کر رہی تھی کہ سورہ یٰسین کی ان آیات کا ترجمہ میرے سامنے آیا جن میں چاند اور سورج کی حرکت کے بارے میں سائنسی انداز میں بیان کیا گیا ہے: ” اور سورج اپنی معین راہ پر گردش کر رہا ہے یہ اللہ عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ اُن سے گزرتا ہوا پھر کھجور کی سوکھی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ سورج کی یہ مجال کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ “ یہ ترجمہ پڑھنا تھا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ میں نے سوچا کہ نبی ﷺ اُمی تھے۔ یعنی پڑھے لکھے نہ تھے لیکن اتنے بہترین سائنسی انداز میں جو آپ ﷺ نے بیان کیا ہے تو ضرور ان پر اللہ کی طرف سے وحی ہو سکتی ہے۔بس اس لمحے میرے دل کی دنیا بدل گئی اور میں نے اللہ کی کتاب قرآن عظیم الشان کا مطالعہ اور اس میں غور و فکر شروع کر دیا۔ میں جب بھی اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتی ہوں پہلے اپنے سابقہ عمل پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتی ہوں اور پھر ان پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں قبول اسلام کے بعد مسجد میں جاتی رہی۔ شروع شروع میں، میں پردہ نہیں کرتی تھی پھر جب نمازیوں نے مجھے بتایا کہ یہ گناہ ہے تو اسی دن سے میں نے اپنے گھر جا کر اسکارف لیا اور پہننا شروع کر دیا، نیز اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرنے لگی۔ میں نے خاصی کوشش کی کہ میں اپنے شوہر کو اسلام کے بارے میں قائل کر سکوں لیکن وہ نہ مانا، حالانکہ میری اس سے بیٹی بھی پیدا ہو چکی تھی۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ یا اسلام قبول کر لو یا مجھے چھوڑ دو۔ تب اس نے مجھے طلاق دے دی اور مجھ سے اور میری بیٹی سے دستبردار ہو گیا۔ دریں اثنا میں انٹرنیٹ پر اپنے ایک پاکستانی بھائی عبدالصمد سے چیٹنگ کرنے لگی اور ان سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی جو وہ مجھے وقتاً فوقتاً بہم پہنچاتے رہے۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ میں آسٹریلیا سے اسلام کیلئے ہجرت کر لوں۔ میں نے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اسلام لانے سے پہلے میری بیٹی کا نام ( توان وارٹ ) تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے امینہ رکھ دیا۔ میں نے اپنا نام غزوہ بدر کی نسبت سے بدریہ رکھا تھا بیٹی کے حوالے سے میں ام امینہ کہلاتی ہوں۔ میں نے اپنی بیٹی کو آسٹریلیا کے کسی سکول میں بھجوانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہاں تعلیم میں موسیقی اور ان کے پرچم کے آگے ادب و احترام کیلئے مختلف افعال کی ادائیگی شامل تھی جو کہ مجھے پسند نہیں تھی، لہٰذا میں نے اپنی بیٹی کو اپنے گھر ہی میں اسلام کی ابتدائی تعلیم و تربیت دی ہے۔ آسٹریلیا میں اکثریت عیسائی مذہب پر یقین رکھتی ہے لیکن الحمد للہ اب لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور خاص طور پر خواتین بڑی تیزی سے اسلام کی طرف آ رہی ہیں۔ چند خواتین نے مسلمانوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں۔ اکثر خواتین اپنے تحفظ اور احترام کیلئے اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہے جو کہ صرف اسلام عطا کرتا ہے۔ آسٹریلیا کے مسلمانوں میں اکثریت عمل سے دور ہے لیکن وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن اور سنت پر مکمل عمل کر رہے ہیں لیکن مجھے بعض اوقات ایسے معلم علماءکے رویوں سے بہت دکھ ہوتا ہے جو اللہ کی خاطر حق بات نہیں کہتے بلکہ ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے آسٹریلیا کے اہل اقتدار کو خوش کیا جائے۔ مثلا پچھلے دنوں ایک عالم دین سے انٹرویو کیا گیا تو اس نے یہ کہا کہ عراق میں جو مسلمان مر رہے ہیں وہ شہید نہیں ہیں۔ آج ہم جہاد کے نام سے بھی ڈر رہے ہیں جبکہ عراق کے لوگ کوئی جارحانہ لڑائی ( Offensive )نہیں لڑ رہے بلکہ اپنی بقا کی جگہ (Defensive) لڑ رہے ہیں اور یہ ان کا حق ہے کیونکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ میں ہر چیز کیلئے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کرتی رہتی ہوں کہ اے اللہ تو میری رہنمائی فرما اگر انسان اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ سیدھے راستے کی درخواست کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور اپنے بندے کی رہنمائی فرماتا ہے۔ لہٰذا میں ہر کام میں صراط مستقیم کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی رہتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرماتا ہے۔ میں پاکستانی مسلمان عورتوں سے بھی کہوں گی کہ وہ اپنے دین کی طرف متوجہ ہوں۔ دنیا کی کچھ حیثیت نہیں ہے یہ چند روزہ زندگی ہے اسے گزر ہی جانا ہے، اگر یہ حقیقت سمجھ لی جائے تو مال، جائیداد، اولاد ان سب کی حقیقت انسان پر آشکارا ہو جاتی ہے۔ اس لئے ان کو چاہیے کہ صحیح معنوں میں اسلام کو بطور دین قبول کریں اور رسم و رواج سے ہٹ کر اس پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن میں نے یہاں دیکھا ہے کہ اکثر عورتیں شرعی پردہ نہیں کرتیں۔ صرف رواجی پردہ کرتی ہیں، جب گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے تو خوب پردہ کر لیتی ہیں لیکن گھروں میں نوکروں، دیوروں اور رشتے داروں کے سامنے پردے کا حق ادا نہیں کرتیں جس کا سارا گناہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے شوہروں کو بھی ہو گا۔ میں ان سے یہی کہوں گی کہ وہ اپنے اللہ کی طرف رجوع کریں۔ ان شاءاللہ ان کا یہ عمل دنیا و آخرت کی کامیابی کیلئے اجر کا ذریعہ ہو گا۔
جس طرح عرب ممالک کے وسائل پر آج امریکہ ویوروپ کا قبضہ ہے اسی طرح مسلم ملکوں کے وسائل پر مغربی طاقتیں قابض رہیں گی ؟بھارت میں وہ دلتوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا معیار زندگی دن بدن گرتا جارہا ہے، اسی طرح مزید گرے گا اور وہ عہد وسطیٰ کے دلتوں کے مقام پر پہنچ چکے ہونگے؟ جس طرح پانچ ہزار سال تک دس فیصد برہمنوں نے نوے فیصد آبادی پر راج کیا اسی طرح مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہونگے اور مسلمان غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہونگے؟ پیوریسرچ سینٹر نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی قیاس آرائی تو کی ہے مگر ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے جنھیں ہم اٹھا رہے ہیں۔ اس نے یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ جس طرح سے عرب ملکوں میں مسلمان ہی مسلک کے نام پر مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، اس وقت بھی کاٹتے رہیں گے؟ جس طرح عراق اور شام میں ’داعش‘خون خرابہ کر رہا ہے کرتا رہے گا؟ جس طرح مصر میں اسلام دشمنوں کے اشارے پر جمہوریت کی جڑیں کھودی جارہی ہیں، کھودی جاتی رہیں گی؟ جس طرح سعودی عرب میں اسلام کے نام پر شہریوں کاناطقہ بند کیا جارہا ہے اور خواتین کی زندگی دوبھر کی جارہی ،اس کا سلسلہ جاری رہے گا؟جس طرح پاکستان کی مسجدوں میں بم پھٹ رہے ہیں پھٹتے رہیں گے؟ جس طرح افغانستان سے افریقہ تک اسلام کے نام پر تنگ نظری کا دور دورہ ہے ،جاری رہے گا؟
بھارت سال 2050 تک دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہو جائے گا اور اس معاملے میں وہ ابھی سب سے بڑی مسلم آبادی والے انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ دے گا جب کہ اس وقت تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندوؤں کی ہو جائے گی۔پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے جمعرات کو جاری مذہب سے متعلق اندازوں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھنے کا اندازہ ہے اور ہندو و عیسائی آبادی عالمی آبادی میں اضافہ کی رفتار کے مطابق رہے گی۔اس میں کہا گیاہے کہ ہندوستان ہندو اکثریت والا ملک بنا رہے گا لیکن وہ انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا میں سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک بھی بن جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 17. 7 کروڑ مسلم آبادی کے مقابلے میں ابھی انڈونیشیا میں قریب 20. 5 کروڑ مسلم آبادی ہے۔ اس کے مطابق اگلی چار دہائیوں میں عیسائی سب سے بڑا مذہبی گروپ بنا رہے گا لیکن اسلام کسی دوسرے بڑے مذہب کے مقابلے میں تیز رفتار سے بڑھے گا۔
پیو ریسرچ کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی کہ سال 2050 تک تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں (2.8 ارب یا آبادی کا 30 فیصد) کی تعداد اور عیسائیوں کی تعداد (2.9 ارب یا آبادی کا 31 فیصد) تقریبا اسی طرح کی ہو گی۔ اس میں کہا گیا ہے، ‘مسلمانوں کی آبادی دنیا بھر میں عیسائیوں کے قریب ہو گی اوراگر یہ رجحان جاری رہتا ہے تو 2070 کے بعد اسلام سب سے زیادہ مقبول مذہب ہو گا۔ سال 2050 تک مسلم یورپ کی آبادی کے قریب 10 فیصد ہوں گے جو 2010 کے 5.9 فیصد سے زیادہ ہوگا۔
پیو ریسرچ رپورٹ کے مطابق ہندوؤں کی آبادی دنیا بھر میں 34 فیصد بڑھنے کا اندازہ ہے جو ایک ارب سے کچھ زیادہ بڑھ کر 2050 تک تقریبا 1.4 ارب ہو جائے گی۔ اس میں کہا گیا کہ سال 2050 تک دنیا کی کل آبادی میں تیسرے مقام پر ہندوؤں کی آبادی ہوگی۔ وہ دنیا کی کل آبادی کا 14.9 فیصد ہوں گے۔ اس کے بعد وہ لوگ ہوں گے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے. ان لوگوں کی تعداد 13.2 فیصد ہو گی۔ فی الحال کسی بھی مذہب میں ایمان نہ رکھنے والے لوگ دنیا کی کل آبادی میں تیسرے مقام پر ہیں۔ اس مدت تک یورپ میں ہندوؤں کی آبادی قریب دوگنی ہونے کی امید ہے. یہ بنیادی طور پر امیگریشن کے چلتے قریب 28 لاکھ (0. 4 فیصد) ہو جائے گی۔
شمالی امریکہ کی آبادی میں ہندوؤں کی تعداد اگلی دہائیوں میں تقریبا دوگنی ہونے کی امید ہے. بدھ مت واحد ایسا مذہب ہے جس کے پیروکاروں کے بڑھنے کا امکان نہیں ہے۔ ایسا اس مذہب کے پیروکاروں کی زیادہ عمر ہونے اور بودھ ممالک (چین، جاپان اور تھائی لینڈ) میں مستحکم تولیدی شرح کی وجہ سے ہو گا۔ مطالعہ سے یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050 تک ہر نو برطانوی میں ایک مسلمان ہوگا۔ وہاں عیسائی اقلیتی مذہب بننے والا ہے۔ تخمینوں کے مطابق عیسائی کے طور پر شناخت رکھنے والی برطانیہ کی آبادی 2050 تک تقریبا ایک تہائی رہ جائے گی اور یہ محض 45.4 فیصد ہو گی۔
پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آور ی عرب کی سرزمین پر ہوئی۔ اس لحاظ سے یہ دھرتی مسلمانوں کے لئے ہمیشہ قابل احترام رہی ۔ یہیں قرآن کانزول ہوااور یہیں سے اسلام کا پیغام ساری دنیامیں پھیلا۔ اس تاریخی حقیقت سے انکارممکن نہیں‘مگرموجودہ دنیا کو دیکھاجائے‘ تو مسلمانوں کی اکثریت غیرعرب ہے۔مسلمان یوں توساری دنیامیں بستے ہیں۔ دنیاکا کوئی گوشہ ایسا نہیں ‘جوبادہ توحید کے متوالوں کا مسکن نہ ہو۔ افریقہ کے تپتے ریگستانوں سے لے کر یوروپ کی برف پوش وادیوں تک‘ ہرجگہ مسلمان پھیلے ہوئے ہیں‘ مگر ان کی اکثریت ایشیا میں رہتی ہے اوروہ بھی عرب کے باہررہتی ہے۔
تمام عرب ملکوں کی آبادی کو یکجا کردیاجائے‘ تو بھی وہ کل ملاکر انڈونیشیا کی آبادی کے برابر نہ پہنچیں۔ اسی طرح عوام پر اثرات ڈالنے والی شخصیات میں بیشتر کا تعلق بھی غیر عرب خطو ں سے ہی ہے۔ بیشتر مسلمان ہندوستان‘پاکستان ‘بنگلہ دیش ‘چین‘انڈونیشیا‘ ملیشیا‘ افغانستان اور سابق سوویت یونین کے خطوں میں رہتے ہیں۔ اگردیکھا جائے‘ توتمام مسلمانوں میں تقریباً80فیصدکاتعلق انہیں ملکوں سے ہے۔ اس طرح یہ ایک طاقتور ترین مسلم خطہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی طاقت کا احساس نہیں کیا اور ہرمعاملے میں ان کی نظرعرب ملکوں کی طرف اٹھتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا قائدعرب کی طرف سے اٹھے اوران کی مذہبی رہنمائی بھی عرب کے علماء ہی کریں۔ حالانکہ جس طرح سے غیر عرب علاقے مسلمانوں کی اکثریت کے مسکن ہیں اس طرح بڑے بڑے قائدین‘ اہل علم اور عظیم ادارے بھی غیر عرب ایشیائی ملکوں میں ہی ہوئے۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا احمد رضا خاں بریلوی‘مولانا محمدعلی جوہر‘ علامہ اقبال‘ مولانا ابوالاعلی مودودی‘ محمد علی جناح‘مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘سرسیداحمد خاں‘ سیدامیر علی‘ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام‘ ڈاکٹرعبدالقدیرخاں‘ قاضی نذرالاسلام وغیرہ وہ شخصیات ہیں‘ جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں عالم گیر اور دیرپا اثرات چھوڑے۔ یہ سبھی غیر عرب ہیں اور جنوب ایشیا سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
پاکستان‘ بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں کئی بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور مدارس اسلامیہ ہیں۔ ہندوستان جہاں عام طور پر مسلمانوں کو حکومت سے شکایتیں رہتی ہیں‘ یہاں بھی کئی بڑے بڑے ادارے ہیں‘ جومختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین پیدا کررہے ہیں اوریہاں عرب کے طلباء بھی استفادے کے لئے قدم رکھ رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اورہمدرد یونیورسٹی ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم تعلیمی ادارے ہیں‘ جہاں عصری اور جدید تکنیکی تعلیم دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں دینی تعلیم کے لئے یہاں عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند ہے‘ جہاں افریقہ ویوروپ سے بھی طلباء آتے ہیں۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور‘ندوۃ العلماء لکھنؤ‘الثقافتہ السنیہ کا لی کٹ‘الجامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ‘ الجامع الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ‘ مظاہرعلوم سہارنپور اور جامعہ سلفیہ بنارس ایسے دینی تعلیمی ادارے ہیں‘ جن کے نام جامعہ ازہر( مصر) کے بعد لئے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی محققین پیدا کئے جاتے ہیں‘ جو اسلامی موضوعات پرکام کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاردیتے ہیں۔ اس قسم کے مدرسے جنوب ایشیا میں بڑے پیمانے پر ہیں‘ جہاں اہل عرب بھی علم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ عرب مسلمانوں کے مقابلے غیر عرب مسلمانوں میں خواندگی کی شرح زیادہ ہے‘ اسی لئے ان کے اندر اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔ عرب ملکوں میں دولت کی بہتات ہے‘ کیونکہ وہاں کی زمین ’’سیال سونا‘‘ اگلتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پاس عیش وعشرت کے سامان موجود ہیں۔ اگر وہ اپنی دولت کا مثبت استعمال کرتے‘ تو وہ علم وہنر اور سائنس وتکنالوجی میںیوروپ سے بہت آگے ہوتے‘ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے‘ تو ایشیا کے غیرعرب ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کی مالی حالت خواہ بہت اچھی نہ ہو‘ مگر وہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں عربوں سے بہت آگے ہیں۔ آج جس قدر اہل علم وہنر دوسرے خطوں کے مسلمانوں میں پیدا ہو رہے ہیں‘عرب میں نہیں ہوتے۔ سعودی عرب میں شرح خواندگی 77فیصد ہے ‘جبکہ عراق میں 74فیصد ہے۔ یہ دونوں کثیرآبادی والے عرب ممالک ہیں۔ان کے مقابلے انڈونیشیا اورملیشیا میں شرح خواندگی100فیصد کے آس پاس ہے‘ کچھ ایسی ہی صورت حال سوویت یونین سے آزاد ہونیوالے مسلم ملکوں کا ہے۔ ظاہر ہے کمیونسٹ تسلط نے انہیں اسلام سے دور کردیا ہے‘ مگر بہت تیزی کے ساتھ ان ملکوں میں بیداری کی لہر آرہی ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان میں شرح خواندگی کم ہے۔
پیوفورم کی 2010کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا خطہ ہے۔ یہاں دنیاکی 62فیصد مسلم آبادی رہتی ہے۔ یہاں کی کل آبادی کا 24.8فیصد حصہ مسلمان ہے‘ یعنی یہاں کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ پیوفورم کی یہ رپورٹ 2010 میں منظر عام پر آئی تھی اور امکان ظاہرکیاگیا تھاکہ یہاں جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ مستقبل میں ان کی آبادی کا تناسب بڑھ سکتا ہے۔ واضح ہوکہ ایشیا میں بیشتر مسلم آبادی والے ممالک آتے ہیں جن میں انڈونیشیا‘ ملیشیا‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ازبکستان‘ ایران ‘ ترکی اورچین شامل ہیں۔ یوں توسب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک انڈونیشیا ہے ‘مگرجنوبی ایشیا کی 90فیصد مسلم آبادی ہندوستان‘ پاکستان اوربنگلہ دیش میں رہتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی والے ملکوں میں چین اور ہندوستان شامل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑی آبادی کے باجود یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے‘ وہاں کچھ مسائل ضرور ہیں۔ مگر شناخت کا مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ہندوستان اورچین جیسے ملکوں میں اگرچہ کروڑوں مسلمان ہیں‘ مگریہاں ان کے ساتھ شناخت کامسئلہ بھی ہے اوروہ اپنے وجود کو دوسروں سے الگ شناخت کے ساتھ باقی رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس میں ان کی معاونت کرتے ہیں وہ اسلامی تعلیمی ادارے‘ جن کاقیام ہی اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے ہوتا ہے۔
مسلمان ساری دنیامیں کروڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر و ہ ایشیا میں زیادہ گھنی آبادی رکھتے ہیں‘ مگرموجودہ دورمیں ان کی نہ توکوئی عالمی لیڈر شپ بن پائی ہے اورنہ ہی علاقائی لیڈر شپ۔ وہ جہاں کہیں بھی بغیر کسی لیڈرکے زندگی گذار رہے ہیں‘ مسلم اکثریتی ملکوں میں تووہ خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان ممالک میں جہاں وہ اقلیت میں ہیں‘لیڈر شپ کی کمی کے سبب گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں۔ حالانکہ ان کے بہت سے افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اثرانداز ہوتے بھی ہیں‘ مگر تمام مسلمان انہیں اپنا رہنما تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
ایک عالمی ادارہ The Royal Islamic Stratagic Studieso Centreکی رپورٹ کے مطابق د نیا کی 500 اثرانداز ہونے والی مسلم شخصیات میں سے بہت سے افراد ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس لسٹ میں بیشتر مسلم سربراہان مملکت ہیں‘ مگر بعض غیر سیاسی شخصیات بھی ہیں۔ ایسی شخصیات میں پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ‘انڈونیشیا کی مسلم تنظیم نہضتہ العلماء کے چیئرمین ڈاکٹر کے ایچ سید عقیل سرادی‘ہندوستان کے اہلسنت کے پیشوا مفتی اختر رضا خاں ازہری ، مارہرہ کی خانقاہ برکاتیہ کے سجادہ نشین مولانا سید محمد امین، پاکستان کے اسلامی محقق مولانامحمد تقی عثمانی‘ جمعیۃ علماء ہند کے لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مولانامحمودمدنی‘ بوہرہ طبقہ کے مذہبی پیشوا سیدنا برہان الدین (اب وہ دنیا میں نہیں رہے)شامل ہیں۔ ظاہر ہے یہ تمام افراد ایک خاص طبقے یاکسی خاص مکتبہ فکر کے لئے ہی قابل قبول ہیں۔ دوسراطبقہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کے باوجود یہاں وہ منتشر ہیں اور ان کے بیشتر مسائل کا سبب ان کا یہی انتشار ہے۔ ظاہر ہے سیدنا برہان الدین کاحلقہ اثر بوہرہ فرقے تک محدود ہے۔ اس طرح حاجی محمد عبدالوہاب کے اثرات تبلیغی جماعت کے افراد تک ہی ہیں۔ مولاناسید محمد امین میاں اور مفتی اختر رضا خاں ازہری اپنے مریدین میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں‘ تو مولانا محمود مدنی کی مقبولیت جمعیۃ علماء ہند تک محدود ہے۔ ان حضرات کو دوسرے مسلکی گروپ کے لوگ قبول نہیں کرتے‘ بلکہ انہیں حضرات کے اپنے مکتبہ فکرمیں ہی کئی گروپ ہیں‘ جوان کی مخالفت میں آواز بلندکرتے رہے ہیں۔ ایک چھوٹے سے طبقے میں مقبولیت کے باوجود یہ حضرات مقبول ترین لیڈر ہیں‘ مگر افسوس کہ مسلمانوں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں‘ جو ہر طبقے کے افراد کے لئے قابل قبول ہو۔
اس وقت اہم سوال یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا میں کم ہوگی یا زیادہ؟ اہم سوال تو یہ ہے کہ وہ دنیا پر کس قدر اثرانداز ہونے کی صلاحیت والے ہونگے؟ آج کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لئے علم اور سائنس وتیکنالوجی میں مہارت کی ضرورت ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان ان شعبوں میں ساری دنیا سے پیچھے ہیں۔ بھارت ، پاکستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے مسلمان غریب ہیں اور ان کے پاس تعلیمی اداروں کی کمی ہے نیز مالی وسائل بھی نہیں ہیں پھر بھی وہ اوقات بھر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر عرب مسلمانوں کے پاس دولت کی افراط ہے۔ وہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں اور سائنسی تحقیقات میں سرمایہ لگا سکتے ہیں مگر جو صورتحال سامنے ہے ، وہ زیادہ خوش کرنے والی ، نہیں ہے۔انھیں دیکھ کر تو بس یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ
یہ مسلماں ہیں، یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
۔۔۔۔۔۔

یہودیوں اور عیسائیوں کو دنیا میں
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی
اور مذہبی انتہا پسندی پر تشویش

رواں صدی کے اختتام پر اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ایک بین الاقوامی جائزے کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی آبادی دیگر مذاہب کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس صدی کے اختتام تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ایک امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 23 فیصد ہے جو سنہ 2050 تک 30 فیصد تک پہنچ جائے گی اور دنیا میں ہر تیسرا شخص مسلمان ہو گا۔
مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی واحد وجہ ان کی آبادی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ان کی نقل مکانی، شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے اثرات اور اسلام کے نام پر تشدد میں ملوث دیگر شدت پسند گروہوں کی وجہ سے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں کئی ممالک کی سیاسی بحث میں موضوع بنا ہے۔
اس کے علاوہ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں دنیا کے کئی حصوں میں زیادہ معلومات نہیں ہے جبکہ امریکہ جہاں مسلمانوں کی تعداد قدرے کم ہے وہاں کے لوگوں کے مطابق وہ اسلام کے بارے میں بہت کم یا بالکل نہیں جانتے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق 2010 تک دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ تھی جو دنیا کی کل آبادی کا 23 فیصد ہے جبکہ اس وقت اسلام عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے جبکہ موجودہ صدی کے اختتام تک مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔
اس وقت مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی تعداد 20 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعددا ایشیا اور مشرق بعید کے خطے میں 62 فیصد ہے جہاں پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، ترکی، انڈیا اور انڈونیشیا جیسے مسلمان ممالک ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی انڈونیشیا میں ہے لیکن اندازے کے مطابق 2050 تک انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی 30 کروڑ ہو جائے گی جو کہ کسی بھی ملک میں آباد مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہو گی۔
اس کے علاوہ یورپ میں بھی مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے تحت 2050 تک یورپ کی کل آبادی کا 10 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہو گا۔
مذہب اسلام کے فروغ کی دو بڑی وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ یہ ہے کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے مقابلے میں زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا میں ہر مسلمان عورت کے اوسطً 3.1 فیصد بچے ہوتے جبکہ دوسرے تمام مذاہب کو ملا کر یہ اوسط 2.3 بنتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ 2010 میں پوری دنیا کی 27 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر کی تھی، وہیں 34 فیصد مسلمان آبادی 15 سال سے کم کی تھی اور ہندوؤں میں یہ آبادی 30 فیصد تھی۔ اسے ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کے مقابلے زیادہ تیز رفتار سے بڑھے گی اور ہندوؤں اور عیسائیوں اسی رفتار سے بڑھیں گی جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔
مسلمان اکثریتی ممالک میں زیادہ تر عوام کی رائے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے حق میں نہیں ہے اور اس میں لبنان سرفہرست ہے جہاں آباد تقریباً تمام مسلمان شدت پسند تنظیم کی مخالف ہے جکہ اردن میں یہ شرح 94 فیصد ہے۔لیکن بعض ممالک میں اکثریت نے دولتِ اسلامیہ کے بارے میں کسی رائے سے انکار کیا اور پاکستان میں دولتِ اسلامیہ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں 62 فیصد ان اپنی رائے دینے سے اجتناب کیا۔
چند ممالک میں دولتِ اسلامیہ کے بارے میں نرم گوشہ بھی پایا جاتا ہے جس میں نائجیریا میں 14 فصید نے شدت پسند تنظیم کی حمایت میں رائے کا اظہار کیا ہے۔زیادہ تر مسلمان ممالک میں شہری کی رائے ہے کہ عام شہریوں کے خلاف اسلام کے نام پر خودکش حملوں اور بم دھماکوں سمیت تشدد کے واقعات کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے جبکہ چند ممالک میں شہریوں کے خیال میں کبھی کبھار شدت پسندی کے ایسے واقعات کا جواز بنتا ہے۔اس میں فلسطین میں اسلام کے نام پر تشدد کے حق میں 40 فیصد، افغانستان میں 39 فیصد، مصر میں 29 فیصد اور بنگلہ دیش میں 26 فیصد ہیں۔دوسری جانب دنیا کے وہ ممالک جہاں پر مسلمانوں کی زیادہ آبادی ہے جیسا کہ یورپی ممالک وہاں اسلامی شدت پسندی کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔اور ان خدشات میں حالیہ برسوں میں قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ نائجیریا اور لبنان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسلامی شدت پسندی کے بارے میں فکرمندی میں اضافہ ہوا ہے۔
2011 کے ایک سروے میں جائزہ لیا گیا ہے کہ مغربی عوام اور مسلمان ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔مسلمان اکثریتی سات ممالک میں کیے گئے سروے کے مطابق 38 فیصد مسلمان مغربیوں کو خودغرص سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ 64 فیصد انھیں لالچی، 61 غیر اخلاقی سمجھتے ہیں جبکہ مثبت رائے میں 44 فیصد عورتوں کی عزت کرنے والے، 33 فیصد ایماندار اور 31 فیصد برداشت کرنے والا سمجھتے ہیں۔جبکہ مسلمانوں کے بارے میں مغربی یورپ کے چار ممالک، امریکہ اور روس کے پچاس فیصد لوگوں کے نزدیک مسلمان پرتشدد، متعصبانہ ہیں جبکہ 58 فیصد کے خیال میں مسلمان لالچی، خودغرض اور غیر اخلاقی ہیں۔جبکہ صرف 22 فیصد لوگوں نے مسلمانوں کے بارے میں مثبت رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عورتوں کی عزت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ 51 فیصد نے مسلمانوں کو ایماندار اور 41 فیصد نے انھیں کشادہ دل قرار دیا۔
۔۔۔۔۔

اسلام کی اصل تاریخ اور
اسلام کا اصل چہرہ

اسلام کی آمد تاریخِ انسانی میں اسلام سراپا انقلاب ثابت ہوئی۔ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تاریخ ساز تبدیلی پیدا کی ہے۔ اسلام نے دنیا کے مذہبی و سیاسی، علمی و فکری اور اخلاقی و معاشرتی حلقوں میں نہایت پاکیزہ اور دوررس انقلاب کی قیادت کی ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں تک آفتابِ اسلامی کی کرنیں نہ پہنچی ہوں۔ قافلۂ انسانیت، اسلام کی آمد سے پہلے ایک بھیانک اور تباہ کن رخ کی طرف محوِ سفر تھا۔ مجموعی طور پر پوری دنیا کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور علمی حالت نہایت ابتر تھی۔ اسلام کی دل گیر صداؤں نے اسے ایک روح پرور، حیات بخش اور امن آفریں منزل کی طرف رواں دواں کردیا۔ کرۂ ارضی مذہبی بے راہ روی، اخلاقی انارکی، سیاسی پستی، طبقاتی کشمکش، علمی و فکری تنزلی اور معاشرتی لاقانونیت کے اس آخری نقطے پر پہنچ چکا تھا جس کے آگے سراسر ہلاکت، شر و فساد اور ہمہ گیر تباہی کی حکم رانی تھی۔ اسلام نے دنیا کو اس مہیب صورتِ حال سے نکال کر سرخ روئی اور سرفرازی عطا کی۔

اسلام سے پہلے اور بعد کی عالمی تاریخ کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت واضح طور پر محسوس ہوگا کہ اسلام کا ظہور تاریخ عالم کا سب سے زیادہ صالح انقلاب ثابت ہوا ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس عالمِ رنگ و بو میں بپا ہونے والا ہر انقلاب اسلامی انقلاب کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد کی انسانی دنیا بالکل مختلف ہے۔ زمانے کے ان دونوں ادوار کے مابین اسلام ایک واضح نشان امتیاز محسوس ہوتا ہے۔ اسلام کے بعد کی دنیا میں انسانی زندگی کا ہر پہلو خوشگوار اسلامی انقلاب کی بادِ بہاری سے مہک اٹھا ہے۔ خواہ وہ مذہبی و سیاسی پہلو ہو یا اخلاقی و معاشرتی ہو یا علمی و سائنسی ۔ قرآن کریم نے اپنے بلیغ اور جامع پیرائے میں اس کو من الظلمات الی النور (تاریکی سے روشنی کی طرف سے) سے تعبیر کیا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرۃ۲۵۷:۱، سورۃ المائدۃ ۱۶:۵ ، سورۃ ابراہیم ۱:۱۴، سورۃ الحدید ۹: ۵۷)
آج ہم جس تاریخ کو پڑھتے ہیں وہ عموماً مغربی مؤرخوں اور مصنفوں کے خیالات اور اصطلاحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یورپ جس کی ذہنی ترقی اور علمی و فکری بلندی کی تاریخ مسلمانوں کے زیر اثر چند سو سال پہلے شروع ہوئی اور جس کا نقطۂ آغاز انقلابِ فرانس یا اقتصادی انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل کی تاریخ کو اہل یورپ تاریک دور (Dark Age) یا ازمنۂ وسطی (Middle Ages) سے یاد کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل یہ تاریکی عالم گیر تھی، لیکن ساتویں صدی کی ابتداء میں جب جزیرہ نمائے عرب میں آفتابِ اسلام طلوع ہوا ، اس کی روشنی (صرف ساتویں صدی) کے اخیر تک ایشیا و افریقہ کے ایک بڑے حصے کو منور کرچکی تھی۔ یہ تاریکی صرف یورپ میں چھائی ہوئی تھی اور مسلم اسپین و قبرص و سسلی کے استثناء کے ساتھ یہ تاریکی وہاں مسلسل بعد کی کئی صدیوں تک چھائی رہی ۔ عین اس وقت جب یورپ تاریک دور کی اندھیریوں میں گم تھا، اسلامی تہذیب و تمدن کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور وہ زمانہ تاریخِ عالم کی مذہبی، سیاسی، علمی و فکری تاریخ کا روشن ترین زمانہ تھا۔ مشہور مغربی مفکر برٹرینڈ رسل (Bertrand Russel) نے لکھا ہے کہ 699عیسوی سے 1000عیسوی تک کے زمانے کو تاریک دور کہنے کی ہماری اصطلاح مغربی یورپ پر ناجائز ترکیز کی علامت ہے۔ اس وقت ہندوستان سے اسپین تک اسلام کی شاندار تہذیب پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت عالمِ عیسائیت کو جو کچھ دستیاب نہیں تھا وہ اس تہذیب کو دستیاب تھا۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی یورپ کی تہذیب ہی تہذیب ہے، لیکن یہ ایک تنگ خیال ہے۔ (History of Western Philosophy,’ London, 1948, p. 419)
ظہورِ اسلام سے قبل دنیا کی مذہبی حالت نہایت خستہ تھی۔ عرب اس وقت کی آباد دنیا کے وسط میں واقع تھا۔ وہاں کفر و شرک اور جہالت و لاقانونیت کا دور دورہ تھا۔ قتل و غارت گری، ظلم و ناانصافی کا راج تھا ۔ عرب میں ایک دو نہیں، ہزاروں بت تھے۔ صرف خانۂ کعبہ میں ۳۶۰ بت تھے اور ہر ہر گھر کا بت الگ تھا، یہی نہیں؛ بلکہ معبودوں کی فہرست میں جنوں، فرشتوں اور ستاروں کا بھی نام تھا۔ کہیں کہیں آفتاب پرستی بھی رائج تھی۔
روم و ایران اس وقت دنیا کی دو سُپر طاقتیں تھیں اور آباددنیا کے نصف سے زیادہ حصے پر ان کی حکومت تھی؛ لیکن وہاں اخلاق و مروت، عدل و انصاف کا نام و نشان نہ تھا۔ روم اپنی قدیم یونانی علمی و مادی ترقیات کے باوجود انتہائی ذلت و پستی میں پہنچ چکا تھا۔ ایران میں آتش کدے روشن تھے، جن کے آگے سرِ نیاز خم کیے جاتے تھے۔ پوری انسانی سوسائٹی طرح طرح کی مذہبی و اخلاقی خرابیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں بھی ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ تمام ملک میں بت پرستی کا زور تھا۔ ستاروں، پہاڑوں، دریاؤں، درختوں ، حیوانوں پتھروں اور حتی کہ شرم گاہوں کی بھی پرستش کی جاتی تھی۔
یہودی قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اصل تعلیمات بھول کر دنیا کے مختلف خطوں اور گوشوں میں ذلت کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھارہی تھی، خود عیسائی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی اصل دعوت اور پیغام کو چھوڑ کر انھیں خدا کا بیٹا مان چکے تھے۔ وہ انجیل میں تحریف کرچکے تھے اور سینٹ پال پولس کی پیش کردہ عیسائیت کے پیروکار ہوچلے تھے۔ بدھ ازم چند سو سال کی آب و تاب کے بعد تیزی سے رو بزوال تھا۔ بدھ مذہب کے پیشوا خانقاہوں میں تیاگی بن کر بیٹھ گئے تھے۔ گوتم بدھ جو شرک کے خلاف مشن لے کر آئے تھے، ان کے ماننے والوں نے خود انھیں کو خدا بناکر ان کی پوجا شروع کردی تھی۔
غرض ساتویں صدی عیسوی تک روئے زمین پر ایسی کوئی قوم نہیں تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جا سکے۔ نہ کوئی ایسا دین تھا جو انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف صحیح نسبت رکھتا ہو۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں عبادت گاہوں میں اگر کبھی کبھی کچھ روشنی نظر آجاتی تھی، تو اس کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے برسات کی شب دیجور میں جگنو چمکتا ہے۔ صحیح علم اتنا نایاب اور خدا کا سیدھا راستہ بتانے والے اتنے خال خال تھے کہ ایران کے بلند ہمت اور بے چین طبیعت نوجوان سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کو ایران سے لے کر شام تک کے اپنے طویل سفر میں صرف چار راہب ایسے مل سکے، جن سے ان کی روح کو سکون اور قلب کوذرا اطمینان حاصل ہوا؛غرض یہ کہ دنیا مذہبی کشاکش سے دو چار تھی اور انسانیت کی کشتی مسائل کے گرداب میں چکر کھارہی تھی۔ کوئی ایسا باہمت شناور نہ دکھائی دیتا تھا جو اسے موجوں کے تلاطم سے بچا کر ساحلِ مراد تک پہنچاسکے۔ مایوسی کے اس عالم گیر سناٹے میں صحرائے عرب سے ایک صدا بلند ہوئی:
یَا اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّکُمْ فَآَمِنُوْا خَیْرًا لَکُمْ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلَّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (سورۃ النساء 170:4)
ترجمہ: اے لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگئے ہیں ، اب (ان پر )ایمان لے آؤ کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے۔ اگر (اب بھی) تم نے کفر کی راہ اپنائی تو (خوب سمجھ لو کہ ) تمام آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے۔ (سورۃ النساء ۱۷۰)
پھر کیا تھا؟ سسکتی ہوئی انسانیت کی ڈھارس بندھ گئی، تشنہ کاموں کی سیرابی کا انتظام ہوگیا اور حق کے طالب اور سلیم روحیں قرآن کی اس آواز پر لبیک کہنے لگیں۔ ہزار مخالفتوں اور رکاوٹ کے باوجود اسلام کی تسخیری قوت نے عمل کرنا شروع کیا اور اسلام کے نام لیواؤں کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی؛ تا آں کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک صرف تیئس سال میں اسلام پورے جزیرۃ العرب میں پھیل چکا تھا ۔ خلافتِ راشدہ کے تیس برسوں میں اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر شام و مصر اور ایران و عراق سے گزرتا ہوا شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیل گیا۔ خلافتِ بنی امیہ کے ابتدائی چند عشروں میں اسلام پورے شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا یورپ کے مختلف علاقوں جیسے سسلی، قبرص اور خصوصاً اسپین تک پہنچ چکا تھا اور مشرق میں وسط ایشیا سے ہوتا ہوا سندھ اور ہندوستان میں بھی داخل ہوچکا تھا۔ ایک صدی سے کم عرصہ میں اسلام ایک عالمگیر مذہب بن گیا۔ ایک مستشرق کے الفاظ میں: انسان کی پوری لمبی تاریخ میں اس سے زیادہ تعجب خیز شاید کوئی اور واقعہ نہیں جتنا کہ غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ اسلام کا پھیلاؤ۔ کون اندازہ کرسکتا تھا کہ وہ پیغمبرِ اسلام جنھیں ۶۲۲ء میں ان کے وطن سے نکال دیا تھا اور وہ ایک اجنبی شہر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، ایک ایسے مذہب کی بنیاد رکھیں گے جو ایک صدی کے اندر مغرب میں فرانس کے قلب تک پہنچ جائے گا اور مشرق میں دریائے سندھ کو عبور کر کے چین کی آخری حدود تک پہنچ جائے گا؛ یعنی آدھی مہذب دنیا پر۔
’اشاعت اسلام ‘کے مقدمے میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ لکھتے ہیں: ’’اس (اسلام) کی روحانی تربیت اور اخلاقی اصلاحات نے نہ صرف حلقہ بگوشانِ ادیان سابقہ کو اپنا گرویدہ بنالیا؛ بلکہ ریگستانوں میں بادیہ پیمائی کرنے والوں اور پہاڑوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا مطیع کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت تھوڑی سی مدت میں بحرِ اٹلانٹک کے ساحل سے لے کر بحرِ پاسفک کے کناروں تک اور بحرِ منجمد شمالی کے برفستان سے لے کر صحرائے کبیر افریقہ کی انتہائی گرم حدود تک ہزارہا ہزار میل کی مسافت میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔‘‘ (ص ۷)
اسلام نے ایک جامع و مکمل نظامِ زندگی اور ابدی دینِ فطرت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلامی عقائد و تعلیمات اور اسلامی نظامِ زندگی سابقہ سماوی ادیان کا جامع تھا۔ اسلام نے سارے مذاہب کی خوبیوں کو اپنے اندر سمولیا اور ان مذاہب میں انسانوں نے جو اضافے یا تبدیلیاں کر لی تھیں ان کو نکال باہر کیا۔ گویا اسلام سماوی مذاہب کا سب سے آخری اور مکمل ایڈیشن تھا، جو سب کی خوبیوں کا مجموعہ تھا۔ قرآنِ عظیم نے اسی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدۃ ۳:۵)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا۔ (سورۃ المائدۃ ۳:۵)
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَام (سورۃ آل عمران ۱۹:۳)
ترجمہ : بے شک (معتبر ) دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ (سورۃ آل عمران ۱۹:۳)
اسلام نے اپنی تعلیمات کی جامعیت اور اپنے پیغام کی آفاقیت سے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ کسی مخصوص وقت اور قوم کی حدود سے ماورا ایک آفاقی اور ابدی پیغام کا حامل ہے۔ اسلام ابتداء ہی سے مختلف رنگ و نسل اور مختلف قوم و وطن کے درمیان عملی شکل میں موجود رہا اور تاریخ کے ہر مرحلے میں اس نے اپنی زندہ تعلیمات اور آفاقی پیغام سے کروڑہا افراد کے عقیدہ و عمل کو متاثر کیا ہے۔
اسلام نے مذہب کی اساس توحیدِ خالص کی طرف دعوت دے کر مذہب کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا۔ اسلام سے قبل کے مذاہب اور تہذیبیں یا تو مکمل طور پر کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی تھیں جیسے عرب جاہلیت اور ہندوستان وغیرہ ، یا کم از کم توحید خالص کی روح سے نابلد تھیں جیسے عالمِ عیسائیت جو تثلیث کے عقیدہ میں مبتلا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتا تھا۔ یا اگر کہیں توحید تھی بھی تو وہ انتہائی محدود جیسے یہودی جو بری طرح بکھراؤ کا شکار تھے۔ اسلام نے توحیدِ خالص کی طرف دعوت دی اور اللہ کی بڑائی کا بول اس بلند آہنگی سے بولا کہ اس وقت سے توحیدِ خالص کی یہ دعوت دنیا کی سب سے بڑی دعوت بن گئی اور اللہ کی بڑائی کا بول پوری قوت کے ساتھ پورے عالم میں جاری ہوگیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر اور اس تسلسل اور دوام کے ساتھ توحیدِ خالص کا نظریہ اسلام سے پہلے دنیا میں کبھی رائج نہیں رہا۔ احادیث میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا کہ اس سرزمین پر اس کی پرستش ہوگی۔(دیکھیے: سنن کبری للبیہقی ۴۴۵:۲، مستدرک علی الصحیحین ۳۰۶:۱)
اسلام کے اس پیغام توحید نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اس نے ایسی مذہبی، سیاسی، علمی و تہذیبی انقلابات کی راہ ہموار کی کہ پچھلی صدیوں میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خالص عقیدۂ توحید سے نہ صرف مذہبی انقلاب برپا ہوا؛ بلکہ اس عقیدہ کی برکت سے انسانی ذہن اوہام و خرافات کی بھول بھلیوں سے نکل کر علوم و فنون کی ایسی وسیع شاہراہ پر آگیا جس کے سامنے تحقیق و دریافت کی ایک عظیم الشان دنیا اس کی منتظر بیٹھی تھی۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم جو اسلام کا دستورِ اساسی ہے وہ من و عن محفوظ اور ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس خصوصیت میں اسلام کا کوئی شریک نہیں۔ دوسری طرف اسلام کی دوسری اساس پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کے اقوال و افعال ہیں ، جنھیں اسلام نے اس طور پر محفوظ رکھا ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ صرف یہی نہیں؛ بلکہ آپ کے اقوال و افعال کی روایت کرنے والے اور تدوین کا فریضہ انجام دینے والے صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین اور بعد کی صدیوں کے راویوں تک کے تفصیلی حالات بھی محفوظ ہیں۔
اسلام سے پہلے جو مذاہب رائج ہوئے ، کچھ دنوں کے گزرنے کے بعد ان کے متبعین کی تعداد کم ہوتی گئی یا ان سے لوگوں کی دل چسپی کم ہوتی گئی؛ کیوں کہ وہ مذاہب خاص وقت اور خاص قوم تک محدود تھے ۔ ان میں وہ آفاقیت اور جامعیت نہیں تھی جو اسلام کے حصے میں آئی۔ اسلام مادیت اور روحانیت دونوں کو جمع کرنے والا اور ان دونوں کے درمیان مکمل اعتدال و توازن رکھنے والا مذہب تھا۔ اسلام نے رہبانیت اور جوگ کو مذہب قرار نہیں دیا؛ بلکہ اس نے انسان کی فطری و جبلی نفسیات اور خصوصیات کی رعایت کی اور ایسا جامع نظامِ زندگی پیش کیا جو انسان کی انفرادی و عائلی زندگی سے لے کر اس کی معاشرتی، سیاسی اور معاشی زندگی کے تمام پہلؤوں پر محیط تھا۔
اسلام نے ایک قلیل عرصہ میں دنیا کی مذہبی حالت میں وہ انقلابِ عظیم پیدا کیا، جس کی مثال نہیں مل سکتی۔دنیا میں بابل، ہندوستان و چین ، مصر و شام ا ور یونان و روم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوئے، اخلاق و افکار کے بڑے بڑے نظریے قائم ہوئے، تہذیب و شائستگی کے بڑے بڑے اصول وضع کیے گئے، یہ اصول و افکار سیکڑوں سال میں بنے، پھر بھی بگڑ گئے۔ صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی،پھر بھی وہ فنا ہوگئے؛ لیکن اسلام کا تمدن چند برسوں میں تعمیر ہوا اور ایسا بنا کہ آج چودہ سو سال سے تمام روئے زمین پر قائم و دائم ہے ۔
اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں ایک فرسودہ الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، جب کہ پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے مسلمان فاتح اور غالب ہونے کے باوجود تبدیلیٔ مذہب کے سلسلے میں ہمیشہ روادار اور انصاف پسند واقع ہوئے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں بالجبر اسلام قبول کرنے کے واقعات معدوم ہیں؛ جب کہ اس کے برخلاف عیسائیوں کو جب بھی مسلمانوں پر غلبہ ہوا، انھوں نے مسلمانوں کو جبریہ عیسائی بنانے یا ان کا صفایا کردینے میں کوئی عار نہیں محسوس کی۔اسپین اور صقلیہ (سسلی) اس کے گواہ ہیں کہ وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی صدیوں حکومت قائم رہی، آج وہاں اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں۔ اسلام پر عائد کیے جانے والے بے ہودہ الزامات میں یہ بالکل لغو اور فضول الزام ہے۔ انصاف پسند غیر مسلم مؤرخین نے بھی اس حقیقت کا برملا اظہار کیا ہے۔ ایک مستشرق کے بقول : تاریخ سے یہ واضح ہے کہ مفتوح اقوام میں اسلام کی اشاعت تلوار کی نوک پر ہونے کا الزام مؤرخین کے ذریعہ نقل کیا جانے والا انتہائی بے ہودہ اور لغو خیال ہے ۔ (De Lacy O’Leary, Islam at the Crossroads, London, 1923, p.8.)

اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تاریخ کے ہردور میں ہمیشہ ہی سُپر طاقت ہی ثابت ہوا ہے۔ کبھی تو مسلمانوں کو سیاسی عروج کی بنیاد پر اسلام فاتح اور غالب بن کر رہا اور سیاسی غلبہ کے فقدان کی صورت میں اس نے قلوب پر حکمرانی کی۔ تاریخ میں چند ایسے موڑ بھی آئے ہیں جب لوگوں کو محسوس ہو چلا کہ اسلام اب زوال پذیر ہے اور اس کا چل چلاؤ شروع ہوچکا ہے؛ لیکن تھوڑی ہی مدت میں اچانک کایا پلٹ گئی اور اسلام پھر پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہوگیا۔ پہلی مرتبہ عالمِ اسلام پر اور خصوصاً اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی حکومت خلافتِ عباسیہ اور بغداد پر تاتاریوں کی یورش کے موقعہ پر لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ تاتاریوں کے طوفانِ بلا خیز سے اسلامی علوم و فنون کی دھجیاں اڑ گئی تھیں اور تہذیب و تمدن کا چراغ غل ہوگیا تھا؛ لیکن ایسے وقت جب اسلام کی سیاسی طاقت کا ستارۂ اقبال گردش میں تھا، اسلام کی روحانی طاقت قلوب کو مسخر کررہی تھی اور جنھوں نے مسلمانوں کو مفتوح بنا لیا تھا اسلام نے اسی فاتح قوم کے قلوب کو فتح کرنا شروع کیا؛ تا آں کہ وہی تاتاری ایک دن اسلام کے سب سے بڑے محافظ اور پاسبان بن گئے۔
اسی طرح گذشتہ صدیوں میں جب ہندوستان سے سلطنت مغلیہ اور پھر خلافتِ عثمانیہ کا زوال ہوا ، اور نتیجہ کے طور پر اسلامی ممالک پر یوروپی استعمار کا تسلط ہوا ، اس وقت کچھ لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ اسلام اب شاید زوال پذیر ہے۔ اس وقت بھی مسلمانوں کی سیاسی طاقت یقینا شکست خوردہ اور زوال پذیر تھی؛ لیکن اسلام کی روحانی طاقت اور قوتِ تسخیر نے شکست تسلیم نہیں کیا اور اس نے اہلِ یوروپ و امریکہ کے قلوب کو مسخر کرنا شروع کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور اکثر اسلامی ممالک و علاقہ جات پر یورپ کے استعماری قبضہ و تسلط کی وجہ سے گذشتہ انیسویں اور بیسویں صدی کے نصفِ اول میں یہ تصور بھی مشکل تھا کہ مسلمان کبھی امریکہ یا یورپ میں اپنی بستیاں بسائیں گے اور وہاں پورے اسلامی تشخص و امتیازکے ساتھ نہ صرف آباد ہوں گے؛ بلکہ مساجد و اسلامی مراکز بنا کر یورپ و امریکہ کی ترقی یافتہ قوموں کو اپنا مدعوبنائیں گے۔ آج صور تِ حال یہ ہے امریکہ مسلمانوں کی تعدادتقریباً ایک کڑوڑ اور یورپ میں تقریباً پانچ کڑوڑ ہو رہی ہے۔ اسلام اس وقت امریکہ و یورپ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔
اسلام کی تسخیری قوت اور اس کے روحانی طور پر سپر پاور ہونے کا تصورمسلمانوں کا بنایا ہوا کوئی خواب نہیں؛ بلکہ تاریخ اسلام کے مختلف مراحل میں اس کا تجربہ ہوچکا ہے اور ماضی قریب میں بھی ایسے خیالات پائے جاتے رہے ہیں۔ مشہور انگریزی مفکر اور فلسفی جارج برنارڈ شا نے نہایت کھل کر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’آئندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب انگلینڈ؛ بلکہ پورے یورپ پر حکومت کرنے کا موقع پاسکتا ہے تو وہ مذہب ’’اسلام‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ … میں نے اسلام کو اس کی حیرت انگیز حرکت و نمو کی وجہ سے ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ یہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، جو اس کو ہر زمانہ میںقابلِ توجہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ …میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے کہ وہ کل کے یورپ کو قابلِ قبول ہوگا جیسا کہ وہ آج کے یورپ کو قابلِ قبول ہونا شروع ہوگیا ہے۔‘‘(George Bernard Shaw in ‘The Genuine Islam,’ Vol. 1, No. 8, 1936)
فرانس کے طالع آزما سکندر زمانہ نپولین بونا پارٹ کا کہنا ہے کہ مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں جب میں سارے ممالک کے سمجھدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں گا اور قرآنی اصولوں کی بنیاد پر متحدہ حکومت قائم کروں گا ۔ قرآن کے یہی اصول ہی صحیح اور سچے ہیں اور یہی اصول انسانیت کو سعادت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ (Napoleon Bonaparte as Quoted in Cherfils, ‘Bonaparte et Islam’ Paris, France, pp. 105, 125)
آج بھی مغربی مصنفین اور محققین کی طرف سے ایسے مضامین کثرت سے شائع ہورہے ہیں جس کا عنوان کچھ اس طرح ہوتا ہے: اسلام امریکہ کا اگلا مذہب، مغربی یورپ میں آئندہ ۲۵ برسوں کے اندر مسلمانوں کی اکثریت ہوجائے گی وغیرہ ۔ اہلِ یورپ پر آج یہ خوف چھایا ہواہے کہ ایک صدی کے اندر مسلمان متعدد یورپی ممالک میں نہ صرف بڑھ جائیں گے؛ بلکہ دیگر ہم وطنوں سے آگے نکل جائیں گے۔ اہلِ مغرب کے اسی خوف اور اس کی بنیاد پر عالمِ اسلام کے خلاف اس کی خفیہ یلغار کی وجہ مغربی لٹریچر میں ایک نئے لفظ ـ’اسلاموفوبیا‘ (Islamophobia) کا اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے اسلام سے خوف کی نفسیا ت اور اسلام ومسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار۔
غرض یہ کہ اسلام کا وجود و ظہور انسانی تاریخ کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر واقعہ ہے۔ یہ ایک ایسا نقطئہ انقلاب ہے، جس نے انسانی زندگی کے دھارے کو شر سے خیر کی طرف اور اندھیرے سے روشنی کی طرف پھیر دیا ۔ اسلام کل بھی روحانیت کا سرچشمۂ اعلی تھا اور وہ آج بھی انسان کی بھٹکی ہوئی روح اور اس کے آوارہ ذہن کو ایمان و یقین کی تازگی اور روحانیت کی لذت آگیں حلاوت سے بالیدہ و زندہ بنا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔

صلح و رحمت کا مذہب

گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثہ کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس تصور کو تقویت پہنچائی گئی کہ اسلام، جنگ و تشدد کا دین ہے ۔ پیش خدمت مقالہ پہلے تو قرآن و حدیث اور مسلمان فقہا دانشوروں کے اقوال و آراء کی روشنی میں دین اسلام کا صحیح تعارف پیش کرتا ہے
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثہ کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس تصور کو تقویت پہنچائی گئی کہ اسلام، جنگ و تشدد کا دین ہے اس مضمون میں میں قرآن و حدیث اور مسلمان فقہا دانشوروں کے اقوال و آراء کی روشنی میں دین اسلام کا صحیح تعارف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
بعض مستشرقین اور اہل مغرب کا اسلام اور پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پرانے زمانے سے اب تک یہ الزام رہا ہے کہ اسلام تلوار اور جنگ و جدال کا دین ہے اور اپنے پیروکاروں کو غیروں کے مقابلہ میں شدت پسندی سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے یہ تہمت اور الزام گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثہ کے بعد خاص طور سے مغربی ذرائع ابلاغ ، رسائل و مجلات اور افواہ پھیلانے والے مراکز اور سیاسی بیانات کی رونق بڑھانے والے ٹھکانوں پر شدت پاگیا اور اب تک یہ سلسلہ مغربی دنیا میں جاری و ساری ہے اس سلسلہ میں بہت سے اجتماعات ، کانفرنسیں مغرب اور یورپ میں نیز علمی نشستیں اور یونیور سٹی لیول پر جلسے منعقد ہوئے کہ اسلام ، دین صلح ہے یا آئین جنگ ؟ اس بحث کا سلسلہ اسکولوں میں کلاسوں تک پہنچ گیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کی حمایت و طرفداری کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر ثقافتی یلغار میں تبدیل ہو گیا۔
اس موضوع پر تبصرہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آج کل انواع و اقسام کے ذرائع ابلاغ ( ریڈیو، ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ ) اور بین الاقوامی نشریات و مجلات بڑے وسیع پیمانے پر منتشر ہوتے ہیں اور روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور ان ذرائع ابلاغ کے عالمی افکار پر یہاں تک کہ مسلمانوں کے اوپر تاثر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا چنانچہ اگر ہم ان ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلام و مسلمین کی مثبت یا منفی تصویر پیش کرنے اور اسلام و مسلمین اور سنت پیغمبر کے درست یا غلط مفاہیم کی تعریف میں دخیل اثرات پر نظر ڈالیں تو ہمیں جو کچھ وہ اسلام کے سلسلہ میں کہتے ہیں ان کی تحقیقات کی سطح نیز اسلام و مسلمین کے اوپر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کے جوابات کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔
دشمنان اسلام کی ثقافتی یلغار ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور اب بھی جاری ہے لیکن تمام اسلامی فرقوں کے بیدار و ہوشیار علمائے اسلام بھی ان حملوں و تہمتوں کا دفاع اور اسلام کے حیات بخش آئین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی درخشاں سیرت و سنت کی پاسداری و تحفظ میں مشغول ہیں اور انھوں نے عقل و منطق اور اسلام کی عظیم منزلت سے مناسبت رکھنے والے جوابات دیئے ہیں ۔ جدید مسائل کی تطبیق اور اسلام کے نظریات پیش کرنے میں شریعت کی اساس اور موضوع سے بھر پور آگاہی رکھنے والے مسلمان علماء کے نمایاں کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علماء اور مسلم دانشوروں کی جانب سے اسلام و مسلمین پر جنگ طلبی اور تشدد و دہشت گردی کی تہمت کا بنیادی جواب دینے کے لئے انھوں نے اس موضوع پر منطقی و علمی زاویہ سے نظر ڈالی اور مبانی کے اعتبار سے وہ اس نظریہ پر تاکید کرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں اور بیگانوں کے درمیان تعلقات کی اصل و بنیاد مسا لمت آمیز اور صلح پسندانہ ہے ۔
اس نظریہ کی تقویت اور اس کے سیاسی ،حقوقی و معاشرتی زاویوں کو اسلام کی سیاسی فقہ کے اصول سے استفادہ کرتے ہوئے موجودہ بین الاقوامی زندگی کے واقعیات اور اسلامی معاشروں کی ضرورت سے ہم آہنگ کرکے دیکھا جا سکتا ہے اسی لئے اس مقالہ کے پہلے حصہ میں ہم اسلامی تعلیمات ، سنت پیغمبر اور بعض اسلامی دانشوروں کے نظریات کی روشنی میں اسلام کی صلح جوئی اور مسالمت آمیز تعلقات کی نشانیاں پیش کریں گے اور پھر مقالہ کے دوسرے حصہ میں اسلام پر لگائی جانے والی نا روا تہمت کہ اسلام ، دین جنگ و جدال اور آئین شمشیرہے ، کے بارے میں مخالفین کے دعوں اور اسباب و علل کو بیان کریں گے ۔
صلح و مصالحت اور رحم و مہربانی دین اسلام کے بنیادی اغراض و مقاصد میں شامل ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں اغراض و مقاصد کی ترویج کے لئے مبعوث کئے گئے تھے بےشک جس دین کی بنیاد رحم و مہربانی پر قائم ہے اس دین کا پیغامبر بھی پیامبر رحمت ہوگا ( سورہ ٴانبیاء/۱۰۷) ”ہم نے آپ کو عالمین کے لئے بس رحمت بنا کر بھیجا ہے“ آنحضرت خود اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ” و انا نبی الرحمة “ ( ترمذی ، ۱۴۱۲: ۳۰۶) ”میں نبی رحمت ہوں “اور ” انما انا رحمة مھداة “ ( ابن کثیر ۱۴۱۲: ۳/۲۱۱) ”میں تو بس ہدیہ رحمت الٰہی ہوں “
”رحمت“ کا مطلب عربی زبان میں : عطوفت ، مہربانی اور شفقت و مروت ہوتا ہے (اصفہانی مادہ ” رحم“ اور الشامی ۱۴۱۴: ۷/۴۱) اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صفت یوں بیان کرتے ہیں : ” و ھو نبی : لیّن الخلقة ، کریم الطبیعة ، جمیل المعاشرة طلیق الوجہ ، بسّام من غیر ضحک ، محزون من غیر عبوس شدید من غیر عنف“۔ (الشامی ۱۴۱۴) ” آپ نبی تھے بڑے نرم مزاج کریم الطبع ،خوش رو و بشاش ، متبسم مگر قہقہہ کے بغیر ، غمگین مگر چہرہ پر ترشی لائے بغیر ،سخت مگر شدت پسندی کے بغیر “” نبی الرحمة و امام الھدی“ (الثعالبی ۱۴۱۸: ۱/۳ ۶) [2] ۱ آپ نبی رحمت و امام رشد و ہدایت تھے ۔ فتح مکہ کے دن جب مسلمین وارد شہر مکہ ہوئے تو فتح کا ایک پرچم سعد بن عبادة انصاری کے ہاتھ میں تھا اور وہ آواز دے رہے تھے : ”الیوم یوم الملحمة۔۔۔ “ آج انتقام کا دن ہے ۔ جونہی پیغمبر اسلام کو پتہ چلا آپ نے سعد کی معزولی کا حکم صادر فرمادیا اور علم دوسرے شخص کے سپرد کر دیا تاکہ وہ سعد کے نعرہ کے بجائے نعرہ لگائے کہ ” الیوم یوم المرحمة ۔۔۔“ ( الھندی : ۱۰/۵۱۳)آج شفقت و مہربانی کا دن ہے ۔ جب مشرکین مکہ کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب پر ظلم و ستم اور آزار و اذیت حد سے بڑھ گئے اور لوگوں میں صبر کا یارانہ رہا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی گئی کہ اس قوم پر نفرین کریں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول نہیں فرمایا اور جواب دیا کہ ” انّی لم ابعث لعانا و انما بعثت رحمة “ ( ابن کثیر ۱۴۱۲: ۳/۲۱۱) مجھے نفرین و لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے میں تو بس رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ آنحضرت کی سیرت ، عفو و بخشش تھی ۔ کعب بن زہیر جو اپنے اشعار کے ذریعہ اسلام اور مسلمین پر طعنہ زنی کرتا تھا جس وقت اسے پتہ چلا کہ رسول رحمت و محبت کا پیکر ہیں تو آنحضرت کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور اپنے اس شعر کے ساتھ معذرت خواہی کرنے لگا :
نبئت ان رسول اللہ اوعدنی
والعفو عند رسول اللّٰہ مامول
” مجھے خبر دی گئی ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے ( قتل کردینے کی ) دھمکی دے دی ہے جب کہ عفو و بخشش ہی رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم)کا معمول رہی ہے “۔
آنحضرت نے اپنے پیارے چچا کے قاتل ” وحشی “ کے بارے میں کہ جس نے امیر حمزہ کو جنگ احد میں مار ڈالا تھا صرف اتنا فرمایا تھا کہ ” میری نگاہوں سے دور چلے جاؤ کہ میں تمھیں نہ دیکھوں “ ( العسقلانی : ۷/۲۸۴ ) یہ چند نمونے بطور مثال ذکر ہوئے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ شریعت اسلام اور سنت نبوی ، صلح و مصالحت اور رحم و مہر بانی کی بنیاد پر قائم ہے اس کے علاوہ اسلام کی حیاتی تعلیمات ، شرعی دلائل اور اسلام کے پاکیزہ نصوص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کا قانونی و دستوری نظام صلح پر استوار ہے نہ کہ شدت پسندی پر ۔قرآن و احادیث کے بہت سے نصوص مسالمت آمیز رفتارو کردار پر دلالت کرتے ہیںچند نمونے ملا حظہ ہوں :
۱۔ قرآن مجیدعرب کے بدووٴں کو جو تند مزاج ،جنگ جو ،خونریز اور جھگڑالو طبیعت کے مالک تھے صلح کی دعوت دیتا ہے اور جنگ و جدال سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے (سورہٴ انفال /۶۱) ” اور اگر صلح و آشتی کا دامن پھیلا دیں تو آپ بھی آشتی کا دامن پھیلا دیں اور اللہ پر بھروسہ کریں “۔اسلام، میدان جنگ میں بھی صلح و آشتی کا خواہاں ہے( سورہ نساء / ۹۴) ”اور جو تمھارے سامنے صلح و آشتی کی خاطر ہتھیار ڈال دے تو اس سے یہ نہ کہنا کہ تم مومن نہیں ہو“ ۔ فقہاء اسی آیت کریمہ کو مستند قرار دے کر فرماتے ہیں جب بھی کوئی مسلمان سے عین جنگ کے دوران صلح و آشتی کا اقدام کرے تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کو مثبت جواب دیں اور اس سے جنگ کرنے سے باز رہیں ( دیکھئے ، قرطبی ۱۴۰۵: ۵/۳۳۶اور الشوکانی :۱/۵۰۱۱۴)
۲۔ اس وقت جب کہ قابیل نے اپنے بھائی کو مار ڈالنے کی دھمکی دی ، ہابیل نے صلح طلب جواب دیا کہ جو ایک صلح طلب اور نیک انسان کی حکایت کرتا ہے (سورہ مائدہ /۲۸) اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے میری جانب اپنا دست دراز کرو تو بھی میں تمھاری طرف اپنا ہاتھ تمھیں قتل کرنے لئے نہیں بڑھاؤں گا میں پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں ۔
۳۔ ”سلام “ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ( سورہ حشر /۲۳) ” وہ اللہ کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ بادشاہ بڑا پاکیزہ اور سلام ہے “۔
۴۔ قرآن مجیدعالمی امن و آشتی کی بشارت دیتے ہوئے فرماتا ہے( سورہ بقرہ / ۲۸ ) ”اے ایمان والو سب کے سب صلح و آشتی (کے دائرہ) میں داخل ہو جاؤ اور دیکھو شیطان کے قدموں (وسوسوں اور فریب کاریوں ) کی پیروی نہ کرو“۔ اسی طرح مسلمانوں کو صلح و امن اور سلامتی کا پابند بنانے کے لئے ارشاد فرماتا ہے: ( سورہ نساء /۹۰) اور جب وہ ہاتھ کھینچ لیں اورتم سے جنگ نہ کریں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھا دیں تو خدا نے ان کے اوپر تمھارے لئے کوئی راستہ نہیں قرار دیا ہے ( یعنی اب تمھیں جنگ نہیں کرنا ہے ) اس بنیاد پر صلح و آشتی پر دلالت کرنے والی آیتیں منسوخ نہیں ہوئی ہیں اور جنگ و جدال بس اسی وقت جائز ہے کہ جب صلح جوئی موجود نہ ہو
دلچسپ بات یہ ہے کہ لفظ ” سلام “ اور اس کے دیگر مشتقات سو( ۱۰۰)سے زیادہ آیتوں میں استعمال ہوئے ہیں جب کہ لفظ” حرب یعنی جنگ “ اور اس کے دیگر مشتقات صرف چھ ( ۶)آیتوں میں دکھائی پڑتے ہیں ۔ جس طرح قرآن مجید صلح و آشتی کے لئے بڑی اہمیت کا قائل ہے یوں ہی سنت رسول اور آپ کے بعد کردار مسلمین میں بھی امن صلح کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسلام کی پہلی شخصیت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہی صلح طلب ڈپلومیسی کی طرف پیش قدمی کی ہے اور اپنے زمانہ کی حکومتوں اور سلطنتوں سے مسالمت آمیز تعلقات قائم کرنے کی خاطر اپنے نمائندے بھیجے ہیں مصر ، روم ، حبشہ ، اور فارس کے بادشاہوں کے پاس آنحضرت نے اپنے نمائندوں کے ساتھ خط بھیجا تاکہ وہ اسلام سے آشنا ہوں اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے جن افراد کا انتخاب ہوا وہ بڑے شائستہ ، نیک کردار معتبر اور ہوشیار و بااخلاق تھے اور جدید دین اور خصوصیات حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تعارف کرانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے واقعہ نگاروں نے ان خطوط اور مکالمات کو تفصیل سے بیان کیا ہے ( دیکھئے : ابو الوفاء، ۱۹۹۲: ۱۷۲۔۱۷۸) بعض مستشرقین کے دعوؤں کے برخلاف ان مکاتبات و مکالمات میں کسی ایک سے بھی یہ مطلب نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلاہے ۔
” اسلام “”لم “ سلام اور سلامہ سے مشتق ہے، السلام علیکم اور علیکم السلام مسلمانوں کا روز مرہ کا درودو سلام ہے اور یہ شعار ان کے درمیان ہر جگہ چاہے وہ مسجد ہو یا یونیور سٹی کارخانہ ہو یا کمپنی ہر جگہ رائج ہے ۔ یہ درود و سلام بہترین اور خوبصورت درود و سلام ہے کیوں کہ اس کے اندر صلح و آشتی کا مفہوم مضمر ہے جب کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا دیگر انبیاء کا نام لیا جا تا ہے تو ان کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا اضافہ کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ جملہ بہترین اور خوبصورت ترین دعا ہے (محمصانی ۱۹۸۲: ۵۰۔۵۴) مسلمین اپنی نمازوں کو” السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ “ کی عبارت پر ختم کرتے ہیں اور اس جملہ کی روز انہ کئی مرتبہ تکرار کرتے ہیں ۔ اسلام میں اس طرح کی تعلیمات کے ہوتے ہوئے بھلا کس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد جنگ و جدال اور شدت پسندی پر ہے ؟!
بعض لوگوں کے خیالات کے برخلاف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جنگیں خود بہترین اور اہم ترین دلیل ہیں کہ صدر اسلام کی جنگوں میں صلح جوئی اور آشتی پسندی کے جذبات کار فرما تھے واقعہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ میں قیام کے دوران ہر گز فوجی دستہ تیار نہیں کیا اور جب مدینہ ہجرت فرمائی اور مسلمانوں کے اوپر جہاد واجب ہوا تو مشرکوں کے ساتھ جنگ کی ان سب کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جنگیں دفاعی تھیں نہ کہ تہاجمی ۔ آداب حرب و جنگ کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بعد کے خلفاء کی سفارشات بخوبی گواہ ہیں کہ اسلام کا مقصد اختلافات کو زور بازو اور شدت پسندی سے حل کرنا نہیں ہے تاریخ میں منقول ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کوئی فوجی دستہ تیار کرتے تھے تو پہلے انھیں اپنے سامنے بیٹھا کر فرماتے تھے (۔۔۔ ولا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا صغیرا ولا ام-راٴة ولا ت-غلوا و اص-لحوا و اح-سنوا ان اللہ یحب ال-محسنین) ( الحلی: ۹/۶۳اور الشامی: ۱۳۱۴: ۶/۷) ”کسی پیر فرتوت ، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل نہ کرنا ، خیانت نہ کرنا ، صلح و مصالحت اور نیکی کرنا کہ اللہ نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے “ ۔جس وقت پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کی جانب روانہ کیا تو فرمایا: یا علی !لئن یہدی اللہ علی یدیک رجلا خیر لک مما طلعت علیہ الشمس ( الحاکم النیسا پوری ، ۱۴۰۶: ۷/۵۹۸) ” اے علی ﷼ !اگر خدا وند متعال تمھارے ہاتھوں کسی ایک شخص کی ہدایت کر دے تو یہ تمھارے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہو تا ہے ( اور اس کی کرنیں پڑتی ہیں)“۔
بہت سے دانشوروں کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے یہاں دوسروں سے تعلقات کا قانون و صلح و آشتی پر استوار ہے اور جنگ ایک عارضی و غیر عادی حالت ہے جو اسلامی دعوت کی حمایت اور ظلم و تجاوز کی برطرفی کے لئے کبھی کبھی ضرورت بن جاتی ہے جس میں دوسروں پر تسلط یا غلبہ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔
ابن الصلاح ( صلاح الدین ) کہتے ہیں:” اصل و قانون تو یہ ہے کہ کافرین بھی با حیات رہیں خدا وند متعال انسانوں کی نابودی کا خواہاں نہیں ہے اور انھیں قتل ہونے کے لئے نہیں پیدا کیا ہے اور اس کا قتل کرنا سوائے ایک عارضی ضرورت کے علاوہ کہ جب ان کا وجود مضر اور خطر ناک بن جائے ، جائز نہیں ہے ، ابن تیمیہ سے نقل ہوا ہے کہ جنگ بس ان لوگوں سے جائز ہے جو دین پر عمل کرنے کے معاملہ میں ہم سے جنگ کرتے ہیں ۔ ( القاسمی ۱۹۸۲۔۱۷۶)“
اسلام ان لوگوں سے کہ جو صلح کے خواہاں ہیں صلح و آشتی کرتا ہے ، اسلام جنگ نہیں چاہتا مگر بس ان لوگوں کے ساتھ جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہوتے ہیں یا دعوت مسلمین کی مخالفت کرتے ہیں زبان و بیان کے ذریعہ جہاد کرنا قدرت و طاقت کے ذریعہ جہاد پر مقدم ہے (القاسمی ۱۸۳ ۔ ۱۸۴ ) ۔
مصطفےٰ السباعی کہتے ہیں :” ہمارے یہاں دیگر قوموں اور ملتوں سے تعلقات کی بنیاد صلح و آشتی، ترک جنگ و جدال اور دوسری قوموں کے اموال، عقائد ، آزادی اور اخلاقی اقدار کے احترام پر قائم ہے“۔
محمد عبدہ کہتے ہیں:” اللہ نے ہمارے لئے جنگ کو دوسروں کی جان ، مال لینے اور اپنی آمدنی بڑھانے ، خونریزی کرنے لئے واجب نہیں کیا ہے بلکہ جنگ کو حق اور اہل حق کا دفاع اور واجب دعوت کی حمایت و نصرت کے لئے واجب کیا ہے ۔( القاسمی ۱۸۷،و ۳۰۹) “
مصری اہل قلم عباس عقاد اپنی کتاب ” حقائق الاسلام و اباطیل خصومہ “ کہ جسے آپ نے اسلام پر کئے جا رہے اعتراضات اور تہمتوں کا جواب دینے کے لئے لکھا ہے آپ اسلام کی جنگ اور تلوار سے نسبت کے بارے میں لکھتے ہیں :اسلامی دعوت کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمین مشرکین کی اذیتوں اور قتل و غارت گری کو ختم کرنے کی قدرت حاصل کرنے سے پہلے خود ہی ان کی بے شمار تکلیفوں اور شکنجوں کا شکار تھے اپنے شہر و وطن سے بھگا دیئے گئے حبشہ کی طرف گئے اور وہاں پناہ لی ، مسلمانوں نے کبھی بھی طاقت کا سہارا نہیں لیا مگر صرف انھیں لوگوں کے مقابلہ میں جو منطق و عقل کا فیصلہ نہیں قبول کرتے تھے اگر مسلمانوں کو نہ چھیڑا جائے تو برائی کے بجائے ان سے اچھائی ہی دیکھنے کو ملے گی جیسا کہ حکومت حبشہ کے مقابلہ میں انھوں نے ایسا ہی کیا جزیرة العرب میں مسلمانوں کی عرب قبیلوں سے جنگ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کی نوعیت دفاعی تھی یا پھر پیشگیری اور تحفظ مقصد تھا ، تلوار اٹھانے کا حق ، زندگی کے حق کے مقابلہ میں ہے یعنی اسلام نے جہاں بھی تلوار اٹھانے کو لازمی قرار دیا ہے وہ از باب ضرورت اور حق حیات کے تحفظ کی خاطر قرار دیا ہے اور اسلام میں حق زندگی کا مطلب ہے دعوت اور عقیدہ میں آزادی کا حق ․․․ اگر ہم کائنات کے موجودہ نقشہ پر ن-ظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ تلوار صرف چند مقامات کے علاوہ کہیں اسلام کے نفوذ کا باعث نہیں بنی ہے وہ سر زمین جہاں جنگ کم ہوئی ہے وہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جیسے ہندوستان اور انڈونیشیا اور چین اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام بنیادی حقوق کے مطابق دوسری قوموں سے تعلقات صلح پسندی اور مسالمت پر استوار ہے اور اسلام میں جنگ کا سہارا لینا در حقیقت دوسروں کے ذریعہ بھڑکائی گئی جنگ سے دفاع کی خاطر ہے اسلام دو لفظ ہے دین اور صلح ۔( العقاد ۱۹۶۶:۳۰۰۔ ۳۰۹)
ڈاکٹر زحیلی اس سلسلہ میں لکھتے ہیں : غیر مسلم قوموں سے جو مسلمانوں سے بر سر پیکار نہیں اور مسلمانوں کو اپنے دین کے مطابق عمل کرنے میں آزاد رکھتی ہیں جنگ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان سے مسالمت آمیز تعلقات ختم کرنا چاہئے کیوں کہ ( اسلام میں ) اصل صلح و آشتی ہے ۔ ( الزحیلی ۱۹۹۷: ۱۰۲)
بنا بر ایں یہ کہنا کہ اسلامی شریعت غالب مواقع پر جنگ اور تلوار پر مبنی ہے ایک بے بنیاد نتیجہ گیری ہے اور اسلام کی حیات بخش تعلیمات اور دینی نصوص سے تضاد رکھتی ہے ۔
۳)۔ جنگ کی دعوت دینے والی آیات پر ایک نظر
جیسا کہ بیان ہوا غیر مسلمانوں سے تعلقات کی اصل صلح و آشتی پر استوار ہے اس کے باوجود یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس اصل و قانون کے درمیان اور ان آیات قرآنیہ کے درمیان جو جنگ و جدال کے مضمون کی حامل ہیں نیز عصر پیغمبر کی جنگوں کے درمیان کس طرح ہم آہنگی کو قائم کیا جاسکتا ہے ؟اس سوال کے تمام فروعات پر تبصرہ مستقل بحث کا طالب ہے لیکن جس حد تک ہمارے مقالہ کے عنوان سے تعلق رکھتا ہے ہم کچھ چیزیں گزارش کر رہے ہیں ۔
جنگ پر دلالت کرنے والی مشہور ترین آیت یہ ہے : ( توبہ /۳۶ ) ”اور مشرکین سے سب مل کر جنگ کرو جس طرح وہ سب مل کر جنگ کرتے ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ متقیوں کے ہمراہ ہے “ اس آیت کی وضاحت کے لئے چند نکتوں پر توجہ دینا ضروری ہے ایک یہ کہ آیت میں انسانی حق حیات کا تحفظ مد نظر ہے اس بنیاد پر کہ اگر تمام دشمنان اسلام مسلمانوں کی حیات سلب کرنے کا قصد کر لیں تو واضح ہے کہ مسلمین بھی اپنے حق کا دفاع کرنے کے لئے ان کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں گے ۔ اور ایسا دفاع تو انسانی فطرت سے بھی ہم آہنگ ہے دوسرے آیت صراحت کر رہی ہے کہ چوں کہ وہ سب کے سب جنگ کا قصد رکھتے ہیں تو تم سب بھی ان سے جنگ کرو اس بنیاد پر در اصل یہ غیر مسلمین ہیں جو مسلمانوں سے تعرض کر رہے ہیں اورمسلمین بھی جواب میں دشمن کے تجاوز کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ۔ آیت کے ذیل میں اللہ کے متقیوں کے ہمراہ ہونے کی یاد دہانی اصل میں جنگ و قتال میں بھی انسانی اصول کی پاسبانی کی قدر و منزلت کو واضح کرتی ہے ۔ ( الطباطبائی : ۲/۶۵اور ۹/۲۷)
پیغمبر کی جنگوں کے بارے میں بہت سے دانشوروں کا عقیدہ ہے کہ ان کی جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں اور صلح و آشتی کی اصل سے سازگار تھیں اس نظریہ کے مطابق اسلام کی جنگیں لوگوں کو نئے دین قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لئے نہیں ہو تی تھیں کیوں کہ دین اسلام اپنی ذات و حقیقت میں مجبوری کو قبول نہیں کرتا ۔اس بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور کی جنگوں کو ایسی جنگیں سمجھنا چاہئے جو اسلامی معاشرہ کا دفاع کرنے کے لئے خاص حالات میں اور خاص وجہوں سے ہوئی ہیں چنانچہ اگر مشرکین مکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب و انصار کو ان کی سر زمینوں سے جلا وطن نہ کرتے اور مدینہ میں بھی انھیں نہ چھیڑتے تو کوئی جنگ ہی نہ ہوتی ۔ حقیقت میں یہ عرب مشرکین تھے جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور پورے شہر مدینہ اور اسلامی حکومت کے نونہال کو جنگ بدر واحد کی شکل میں نابود کرنے کی ٹھان لی تھی ۔ اس کے علاوہ جو جنگیں پیش آئی ہیں اگر چہ انھیں جنگ کا نام دے دیا گیا ہے لیکن در حقیقت وہ اجتماعی دفاع سے زیادہ شباہت رکھتی ہیں نہ کہ جنگ واقعی سے اسی لئے اسلامی حکومت اور حبشہ کی حکومت کے درمیان تعلقات و روابط کو دوستانہ تعلقات اور مسالمت آمیز روابط کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے مسلمانوں نے صرف اسی صورت میں طاقت کا سہارا لیا جب کہ دوسرے ان کی دینی آزادی اور عمل و استقلال کی راہ میں روڑے اٹکانے لگے تھے ۔ ( العقاد ۱۹۹۶: ۳۰۰ اور ۳۰۵)
ایک دوسرا سوال جس کے بیان کرنے کا موقع آگیا ہے وہ یہ کہ اگر تعلقات کی بنیاد صلح و آشتی پر قائم ہے تو دین اسلام میں جہاد کو شرعی حیثیت کیوں ملی؟
بطور خلاصہ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں جہاد کا مقصد، امت اسلامی کا تحفظ اس کی حاکمیت و استقلال کی سلامتی کی ضمانت ہے جہاد ، آسمانی ادیان کی حمایت و صلح و آشتی کی پائیداری کے لئے معین و مقرر ہوا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس پر قرآن مجید نے بھی مہر تائید ثبت کر دی ہے ارشاد ہوتا ہے: (سورہ حج /۴۰)” اگر اللہ بعض لوگوں کو دوسرے بعض کے ذریعہ نہ روکتا تو کنیسے (گرجے) بیع (یہودیوں کے عبادت خانے)صلوات ( مجوسیوں کی عبادت گاہیں ) اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کو یاد کیا جاتا ہے سب منہدم کر دی جاتیں اور یقینا اللہ ان لوگوں کی ضرورمدد کرے گا جو اس کی مدد کرتے ہیں بیشک اللہ قوی و عزیز ہے “۔
جہاد کا مقصد دین اسلام کی قلمرو ، امت اسلام اور اسلامی حکومت کی حمایت و تحفظ کے لئے آمادگی اور ضرورت بھر دفاع کی طاقت رکھنا ہے اس بنیاد پر بہت سے لوگوں کے غلط تصورات کے برخلاف جہاد دوسروں کو اسلام قبول کرانے کے لئے دینی جنگ کا نام نہیں ہے اس لئے کہ ایسا مفہوم اخذ کرنا دین اسلام کی ماہیت و حقیقت سے دور اور روح شریعت کے خلاف ہے جس میں سہولت و سازگاری ہے اور جس کے اندر عقیدہ کی آزادی (لا اکراہ فی الدین ) کے قالب میں بیان کی گئی ہے ۔( القاسمی ، ۱۹۸۲: ۱۸۸) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پوری حیات طیبہ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی ایک بھی مسیحی کو اسلام قبول کرنے کی خاطر قتل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بر عکس نجران کے عیسائیوں کو بحث و مناظرہ اور مباہلہ کی دعوت دی گئی اور انھیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ مسلمانوں کی مسجد میں عبادت کریں ، مورخین ، اسلام کا سنہرا دور اسی دو سالہ صلح و آشتی کے زمانہ کو جانتے ہیں جو مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان صلح حدیبیہ واقع ہونے کے بعد گزرا اس دو سالہ دور میں مسلمان ہونے والوں کی تعداد اس صلح و پیمان صلح کے انعقاد سے پہلے پورے بیس سال میں مسلمان ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے ( فضل اللہ : ۱۹۸۱: ۲۱۱) اسلامی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ دوسری قوموں کے اقتصادیات پر قابض ہونے اور استثمار و استعمار کے ارادہ سے یہاں تک کہ طاقت و توانائی کے وسائل و امکانات رکھتے ہوئے طاقت کا سہارا لیں اس لئے کہ اسلامی حکومت میں ثروت و دولت کے منابع پر قبضہ کرنے ، بازار کی ضرورتوں کو پورا کرنے ، یا دنیا کے دیگر علاقوں پر اپنی سلطنت کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے جو آج کل کی مغربی دنیا میں قائم حکومتوں کا مقصد ہے ۔ جہاد کرنے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ جہاد کو اس صورت میںوسیلہ بنایا جا سکتا ہے جب کہ دشمن صلح کا ارادہ نہ رکھتا ہو یا ایسے حالات پیدا کر دے جس کے باعث اسلامی قلمرو اور امت اسلامی کو خطرہ لاحق ہو جائے اور ان کا مقصد اسلام و مسلمین کی تباہی ہو شہید باقر الصدر آیت کریمہ ( سورہ بقرہ آیت ۲۰۸) میں لفظ سلم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : صلح وہ روداد ہے جس کا حکم شرعی ہر قضیہ میں اس کے خاص حالات و کیفیات کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کبھی ایسے حالات ہوتے ہیں جن میں صلح کرنا واجب ہوجاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید اس آیت میں اشارہ کرتا ہے : ( سورہ نساء /۹۰)” اگر وہ لوگ تم سے ہاتھ روک لیں اور جنگ نہ کریں اور صلح کا پیغام دیں تو تمھارے لئے خدا نے ان کے اوپر کوئی راہ قرار نہیں دی ہے “ اور کبھی حالات ہی صلح کو حرام بنا دیتے ہیں جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے : (سورہ محمد/۳۵ ) ” پھر تو تم ہمت نہ ہارو اور صلح کی دعوت نہ دو جب کہ تم ہی سر بلند ہو“۔
اس بنیاد پر اسلام کا نظریہ صلح و آشتی کے بارے میں دوسرے حالات کی طرح خاص حالات و کیفیات کا تابع ہے اور تمام جوانب پر توجہ دیئے بغیر قطعی طور پر صلح کا حکم صادر نہیں کیا جا سکتا ہے (الصدر ۲۰۰۴: ۹۰۔ ۹۱) واضح سی بات ہے کہ دشمن کا موقف اور دشمنوں کی وجہ سے مسلمانوں کو در پیش حالات کی بنیاد پر صلح یا جنگ کا موقف مقرر ہوتا ہے اور یہ بات مکتب اسلام کی تعلیمات میں اصل و قانون صلح سے بھی مناسبت رکھتی ہے ۔
ایک بار پھر ہم اس نکتہ پر تاکید کریں گے کہ اسلامی دنیا میں غیر مسلموں سے تعلقات کی بنیاد قانون صلح پر استوار ہے اور طاقت کا استعمال اور جنگ و خونریزی ایک استثنائی حالت ہے جو اسلامی سر زمینوں پر فوجی تجاوز ات و جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے حق دفاع کے عنوان سے شرعی و قانونی حیثیت پیدا کر لیتی ہے ۔ ( دیکھئے : الزحیلی ۱۹۹۷: ۱۱۶)
قانون دفاع بھی وہ حق ہے جو موجودہ بین الاقوامی حقوق کے آئین میں قبول کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ کے عالمی منشور کا ،۵۱ویں بند میں اس کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے اگرچہ بین الاقوامی حقوق میں حق دفاع کی تاریخ طولانی نہیں ہے [5] اگر چہ آج کل بین الاقوامی حقوق کے آئین میں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد صلح و آشتی پر قائم ہے اور جنگ ایک ثانوی ضرورت ہے لیکن اس قانون کی تاریخ بین الاقوامی سماج میں ایک صدی سے کم کی ہے کیوں کہ ۱۹۲۸ءء میں ” بریان ۔ کلوگ “ معاہدہ میں جنگ ، حقوق سے تضاد رکھنے والی شے کے عنوان سے متعارف ہوئی جب کہ اس سے قبل نہ صرف جنگ حقوق سے تضاد رکھنے والی شے نہیں مانی جاتی تھی بلکہ ایک حق سمجھی جاتی تھی۔ ( شارل ۱۳۶۹:۲۶)
البتہ ” صلح جوئی “ مغربی ممالک کے حکمرانوں کا ایک خوشنما دعویٰ ہے جسے وہ بڑی آب و تاب کے ساتھ زبان پر جاری کرتے ہیں لیکن یہ قانون کافی کوششوں اور پہلی و دوسری عالمی جنگ میں لا تعداد بے گناہوں کے خون بہہ جانے کے بعد بین الاقوامی حقوق کے آئین میں وارد ہوا ” غنیمی “ کا کلام اس بارے میں سننے کے لائق ہے وہ کہتا ہے: ” نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں حقوق صلح نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اسے موجودہ بین الاقوامی حقوق کی دین کہا جا سکتا ہے بلکہ ان دونوں حقوق کے ما بین بہت سی شباہتیں پائی جاتی ہیں اور دونوں کا مقصد بھی ایک ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں جگہ حقوق کا منبع جدا جدا مگر فلسفہ صلح کا سر چشمہ دونوں میں ایک عقلی منطق ہے اور وہ عقلی منطق ، بین الاقوامی سماج کی رفاہ و آسائش کی حصول یابی ہے جسے دوستانہ تعلقات اور مسالمت آمیز روابط کے ثبات سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ میرے اوپر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ میں بین الاقوامی حقوق کو اسلامی حقوق پر ترجیح دے رہا ہوں ناقص حقوق کی کامل حقوق پر ترجیح قطعا جائز نہیں ہے میرا خیال ہے کہ انسانی فکر ہمیشہ صلح جورہی ہے لیکن ہر دور میں نئی روش کی متلاشی رہی ہے ( غنیمی بغیرتاریخ : ۱۹۳۴) اس کے باوجود اس نکتہ کا اضافہ ضروری ہے کہ جس چیز کو اسلام نے صدیوں پہلے کھوج نکالا ہے اور اس کا اعلان کر دیا تھا اسی چیز کو بین الاقوامی حقوق نے تیرہ صدیوں کے بعد حاصل کیا ہے ۔
ب: اسلام سے جنگ و شدت پسندی منسوب کرنے کی وجہیں
پہلی عالمی جنگ کے بعد مغرب میں اسلام کو جنگ و شمشیر کے دین سے تعارف کرایا جاتا رہا اور اس وقت سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اسلام کو دہشت گردی اور شدت پسنددین کہا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو شدت پسند بتلا یا جارہا ہے جیسا کہ کہا گیا یہ کوئی نیا الزام نہیں ہے بلکہ لفظیں بدل گئی ہیں اور نئے سیاسی ادبیات کے ہمراہ ہم آواز ہو گئی ہیں ۔ بعض اہل مغرب اور بعض مستشرقین کی طرف سے اس قسم کے الزمات کی درج ذیل وجہیں ہو سکتی ہیں:
۱۔دینی نصوص اور اسلامی فقہ کے حقائق سے غلط مفہوم لینا
بعض لوگوں نے آیات قرآن مجید کے ظاہری معانی اور احادیث کے سطحی معنی سے استناد کرتے ہوئے جنگ کو مسلمانوں کی زندگی میں ایک اصل و قانون فرض کر لیا ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کے سلسلہ میں اسی اصل و قانون کو تقویت دی ہے ۔ یہ نظریہ اس بات کا باعث بنا کہ بعض مغربی اور مشرقی محققین ، اسلام کو جنگ و شمشیر کا دین و مذہب سمجھ بیٹھیں لیکن جدید تحقیقات نے اس قسم کے رجحانات رکھنے والے فقہاء جو جنگ کو اصل سمجھتے تھے کے نظریات سے پردہ ہٹا دیا ہے ڈاکٹر وہبہ زحیلی اپنی کتاب آثار الحرب جو مصر کی ایک یونیورسٹی میں ان کی ڈاکٹریٹ کی تھیسس کا عنوان تھا مفصل تحقیق کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں :
دوسری صدی ہجری میں جو فقہی اجتہاد کا دور تھا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان روابط پر چھائی ہوئی حالت سے متاثر ہو کر اکثر فقہاء کا یہ نظریہ رہا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی بنیاد جنگ پر قائم ہے نہ کہ صلح پر مگر یہ کہ صلح کے اسباب جیسے ایمان آوری یا امان نامہ وجود پا جائیں اس نظریہ کے اپنانے کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی فتوحات کا سلسلہ کامیابی کے ساتھ جاری و ساری رہے اور عزت مسلمین اور اسلامی دعوت کی ذمہ داری کائنات میں اس طرح رواں دواں رہے ۔(الزحیلی ۱۹۹۷: ۹۳) ایسے نظریات کی تقویت و پشت پناہی جو اموی و عباسی دور سیاست میں اس زمانے پر مسلط جنگی حالات کی بنا پر قائم ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ہر زمانے کے مسلط سیاسی و سماجی تقاضے کچھ مثبت آراء و نظریات کے حامل ہو جاتے ہیں جو صرف اسی خاص زمانے سے زیادہ سازگار اور مناسبت رکھتے ہیں ۔
وقت گزر نے کے ساتھ یہ تصور ہونے لگا کہ دوسری صدی ہجری کے فقہاء نے اس دور کے سیاسی و سماجی حالات سے متاثر ہو کر جو موقف اختیار کیا تھا وہی نظریہٴ اسلام تمام زمانوں کا نظریہ ہے اور اصل جنگ اسلامی شریعت کے آئین کا ایک حصہ ہے اس تصور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ گزشتہ فقہاء کے ذریعہ دنیا کو دو حصہ میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی دارالحرب اور دارالاسلام ، اسلامی فقہ و حقوق کا ایک حصہ ہے کہ مسلمانوں اور غیروں کے درمیان تعلقات پر ہمیشہ سایہ فگن رہا ہے اور مسلمین اسی اصل کی پیروی کرتے رہے ہیں جب کہ دنیا کی دو حصوں دار الحرب اور دار الاسلام میں تقسیم در حقیقت دوسری صدی ہجری میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات پر سایہ فگن سیاسی و فوجی تقسیم بندی کا مظہر ہے جسے ایک شرعی و قانونی حکم نہیں سمجھا جا سکتا یہ تقسیم صرف اس زمانے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فقہاء اور حقوق دانوں نے استنباط کی ہے ۔( الزحیلی ۱۹۹۷ : ۱۰۲) اس دور میں اسلامی حکومت سرحدی خطروں سے دو چار تھی جو کبھی کبھی فوجی کارروائی پر ختم ہوتی تھی اور یہ ٹکراؤ ایک طرف سے اسلامی و سماجی معاشرہ پر بڑا برا سیاسی اثر ڈالتا تھا اور دوسری طرف وہ زمانہ اجتہاد کے پنپنے اور وسیع پیمانے پر فقہ کے نکھار کا دور تھا اس لئے جنگی حالات اور اس زمانے کی خاص صورت حال نے فقہی استنباط پر اثر ڈلا۔
مستشرقین میں مجید خدوری [6] دنیا کو دو حصوں دار الحرب اور دار الاسلام میں تقسیم کے نظریہ کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے : جہاد وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعہ دنیا دارالحرب سے دار الاسلام میں تبدیل ہو جاتی ہے اسی بنیاد پر مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان عادی روابط و تعلقات پر ایک قسم کی دشمنی و مخاصمت آمیز حالت طاری ہے اس کا خیال ہے کہ اسلام میں غیر مسلمین سے دائمی صلح و آشتی پر مبنی معاہدہ کا انعقاد کوئی حیثیت نہیں رکھتا سوائے اہل کتاب سے معاہدوں کے ۔( عبد الرزاق بحث نظریہ الحرب ہی الاصل )
اگر ہم اسلام کو ایک کامل شریعت و دین تسلیم کرتے ہیں تو یہ منطقی بات ہے کہ اس کے اخلاقی اصول و ضوابط کے پہلو میں صلح و جنگ اور دوسروں سے تعلقات پر مبنی قوانین و دستورات پر بحث کریں ۔ اس لئے کہ انسانی زندگی میں صلح و جنگ نا گزیر ہے لیکن کسی حقوقی نظام میں موجود اسی طرح کے اصول و قوانین کو اس نظام میں ایک حالت باقی رہنے کی دلیل نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ چوں کہ اسلام میں جہاد ، شرعی و قانونی حیثیت رکھتا ہے پس مسلمین ہمیشہ غیر مسلمین سے جنگ کی حالت میں رہتے ہیں موجودہ بین الاقوامی حقوق میں بھی کچھ ایسے قوانین پائے جاتے ہیں جن میں جنگی امور ، اسراء ، زخمیوں اور اسلحوں کے استعمال کے طریقہ وغیرہ پر گفتگو ہوئی ہے جس کی بہت سی شاخیں جیسے ” حقوق جنگ “ (Khadduri,p.54)یا ” مسلحانہ نزاع کے حقوق“ (Law of Armed Conflict)اور ” دوستانہ انسانی حقوق“ (Humanitarian Law) وجود میں آگئی ہیں اس بنیاد پر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی حقوق ، جنگ و شمشیر کے حقوق ہیں کیوں کہ اس میں جنگ و جدال سے متعلق امور پر گفتگو ہوئی ہے ؟ واضح ہے کہ قبول نہیں کیا جا سکتا اس طرح تاریخ اسلام میں ایک خاص موقع پر سایہ فگن جنگی حالت کو مستند قرار دے کر ہمیشہ کے لئے اس حالت کو ایک کلی قاعدہ کا عنوان نہیں دیا جا سکتا اور اس کی بنیاد پر اسلام کا جنگ طلب اور شدت پسند دین کے عنوان سے تعارف نہیں کرایا جا سکتا۔
اور پھر کیا سارے ادیان و مذاہب ہمیشہ صلح و آشتی کی حالت میں رہے ہیں اور ہرگز جنگ و جدال سے رو برو نہیں ہوئے ہیں ؟ کیا تاریخ عیسائیت میں دوسروں کو عیسائی بنانے کے لئے متعدد جنگیں نہیں ہوئی ہیں؟ کیا عیسائیوں نے جن جنگوں کے شعلے بھڑکائے ہیں انھیں حضرت عیسیٰ کے دین سے جو صلح و آشتی کا دین ہے نسبت دی جا سکتی ہے ؟ مغربی لوگ اسلام کو تلوار اور جنگ کا دین سمجھتے ہیں جب کہ مغرب میںکم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو شمالی یورپ والوں کو جبری طور پر عیسائی بنانے کے لئے اور اس علاقہ کے پورے ادیان و مذاہب کی بیخ کنی کے لئے کئے گئے سلوک کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں جب تک اہل مغرب ایمان دار عیسائی تھے عیسائیت وہ پرچم تھا جسے جنگوں میں ہراتے تھے اور جب ان کے درمیان دین کم رنگ ہو گیا تو قوم پرستی، فاشیزم کمیونسم، کیپسٹلیزم اوردوسرے مکاتب فکر نے سر اٹھایا۔
ہاں !اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسلام ، دین شمشیر ہے اگر اس کا مقصد دین شمشیر سے یہ ہے کہ اس نے جہاد کو ایک نظام جہاد کے طور پر واجب کیا ہے تو اس کی بات درست ہے لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ اسلام تلوار کی دھار سے پھیلا ہے تو وہ ایک آشکار غلطی میں مبتلا ہے کیوں کہ اسلام ، عقل و منطق اور اپنی ثقافتی روش کے ذریعہ کائنات پر چھا گیا ہے ۔
دوسری جانب بعض مسلمان بھی اہل مغرب کے اسلام کو غلط سمجھنے میں حصہ دار ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا برُا سمجھانا بھی دوسروں کے برے سمجھنے میں کافی حد تک موثر ہے بعض متعصب مسلمانوں کی تحریر اور سلوک و عمل اسلام سے اس قسم کے نتائج اخذ کرنے کا راستہ ہموار کر دیتا ہے (مثال کے طور پر دیکھئے http://www.mojahedin.com) کسی بھی حقوقی نظام میں غیر فوجیوں ، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا جائز نہیں چہ جائیکہ اس دین میں جس کا پیغام ہی رحمت و سلامتی اور مہر بانی ہے اور اس کے نبی عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ، یہ کہنا کہ ّ” اسلام میں دو قسم کی دعوت دی جاتی ہے زبان سے دعوت ، سنان و تلوار سے دعوت لوگوں کے عقائد کی اصلاح کرنے کے لئے یا یہ کہنا کہ ” خدا نے مسلمانوں پر واجب کر دیا ہے کہ کفار و مشرکین کے اس گروہ سے جنگ کا آغاز کر دیں جو اسلام قبول کرنے کی دعوت کے بعد اسلام قبول نہیں کرتے اور اسلامی امت پر واجب ہے کہ سوائے محترم مہینوں کے جن میں جنگ کا آغاز منع ہے بقیہ مہینوں میں ان پر حملہ کریں اور جنگ کا آغاز کریں اس لئے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب نے آنحضرت کی طرف سے بھیجے گئے فارس اور روم کے حکمرانوں کے نام خطوط پر توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے جنگ کا آغاز کیا جب کہ ان ملکوں نے کسی بھی مسلمان سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا ، کتاب و سنت میں روح شریعت اور اسلامی رحمت کے سلسلہ میں دقیق غور و فکر کی ضرورت ہے ایساتصور بہت سی دلیلوں کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ اسلام کے انسان ساز اور حیات بخش مکتب کے حقائق اور تعلیمات سے کوسوں دور ہے بلکہ موجودہ مسلم معاشروں سے بھی کوئی سازگاری و مناسبت نہیں رکھتا۔
۱۔ یہ جو دین اسلام کی دعوت کو دو دعوتوں (زبانی دعوت اور تلوار کے زور پر دعوت ) میں تقسیم کیا گیا ہے قرآن کی بیان کردہ منطقی روش کے ذریعہ مد مقابل کو قانع کرنے اور قطعی برہان و دلیل پر قائم دعوت کی روش سے موافقت نہیں رکھتا ۔ آیت کریمہ ( سورہ نحل /۱۲۵)” اپنے رب کی طرف حکمت اور حسین پند ونصیحت کے ذریعہ دعوت دو اور ان سے بہترین طریقہ سے بحث کرو “ ۔ جیسی آیت کے ہوتے ہوئے دوسروں کو قہر وجبر کے ذریعہ مسلمان کرنا شرعی و قانونی دعوت کی روش شمار نہیں کی جاسکتی ۔ اسلامی دعوت کبھی بھی صلح جوئی اور مسالمت آمیز روش اور قرآن کی تعبیر میں احسن روش سے دور وبے گانہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کے علاوہ دین کی بنیاد ایمان اور قلبی طور پر تسلیم کرنا ہے جو ارادہ و اختیار کے ساتھ ہی ممکن ہے نہ قہر و غلبہ اور جبر و تشدد کے ذریعہ ۔ ( سورہ بقرہ /۲۵۶) الزحیلی ۹۷) دعوت دین صرف زبان و سنان میں محدود نہیں ہے بلکہ دعوت دین میں عمل و کردار کے پہلو کا انکار نہیں کیا جا سکتا ( کونوا دعاة للناس بغیر السنتکم ) ” لوگوں کو بغیر زبان کے ( عمل کے ذریعہ ) دعوت دینے والے بنو “۔دنیا کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسانوں کے دلوں میں جو اسلامی ایمان گھر کر گیا ہے یہ مسالمت آمیز دعوت ہی کی دین ہے نہ شمشیر و سنان کی دعوت ۔ ہم (مسلمین ) جہاں بھی تلوار کے ذریعہ وارد میدان ہوئے تلوار کے ذریعہ بھگا بھی دیئے گئے ۔ دین کی دعوت دلیل و برہان کے ذریعہ نتیجہ بخش ہے نہ کہ شمشیر و سنان کے ذریعہ ، ہاں ! اسلام تلوار والا ضرور ہے لیکن تلوار دفاع کے لئے ہے ، موانع کو برطرف کرنے کے لئے ہے نہ کہ حملہ آور ہونے کے لئے ۔
۲۔ مذکورہ نتیجہ ان فقہی و حدیثی نصوص سے بھی مناسبت نہیں رکھتا ہے کہ جن میں جنگ کی ابتداء سے منع کیا گیا ہے ۔ ( القاسمی ۱۹۸۲: ۱۷۵ بنقل از سفیان بن سعید بن مسروق ثوری دوسری صدی ہجری کی معروف شخصیت بھی آغاز جنگ کو قبول نہیں کرتی ) اسی طرح مذکورہ خیال ان آیات و روایات سے بھی کوئی تناسب نہیں رکھتا جو عفو و بخشش اور احسان و گزشت پر دلالت کرتی ہیں مثال کے طور پر ( سورہ بقرہ /۸۳) ” اور لوگوں سے اچھے انداز میں باتیں کرو “ ۔ ( سورہ بقرہ /۱۰۹) ” پھر عفو و درگزشت کرو“ ( سورہ نحل /۱۲۵) ” اپنے پروردگار کی طرف حکمت اور پسندیدہ موعظہ کے ذریعہ دعوت دو اور بحث و مباحثہ بہترین طریقہ سے کیا کرو“ ( سورہ مائدہ / ۸) ” اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر جری نہ بنا دے کہ تم عدل و انصاف سے کام نہ لو عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑو کہ عدل و انصاف ہی تقویٰ سے قریب تر ہے “۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر وہ آیات و روایات جو کہ دوستی و مہربانی ، حلم و برد باری، دوسروں کی برائیوں اور ان کے عیوب سے چشم پوشی ، غصہ کو پی جانا ، نرم مزاجی وغیرہ وغیرہ کے بارے میں موجود ہیں مذکورہ خیال و نظریہ کے ساتھ قابل جمع نہیں ہیں
۳۔ اس نظریہ کے قبول کرنے کا مطلب ہے ان تمام امکانات و وسائل سے ہاتھ کھینچ لینا جو دوسروں کے ساتھ مسلمانوں کے مسالمت آمیز معاملہ کے اظہار کے لئے انجام پاتے ہیں ۔
۴۔ بین الاقوامی سماج کی واقعیات نیز اسلامی حکومتوں سے تشکیل پائے سماج کی واقعیات جو کہ موجودہ زمانے میں (OIc)ادارہٴ اسلامی کانفرنس کے قالب میں ظہور پزیر ہو ا ہے وہ مسلمانوں کی دوسری قسم کی حالت کو آشکار کرتا ہے ۔ تمام اسلامی ممالک جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور بین الاقوامی معاہدوں اور معاملات میں دخیل ہیں انھوں نے دوسرے ملکوں اور قوموں سے مسالمت آمیز اصولوں پر تعلقات قائم کئے ہیں اور بین الاقوامی سماج کے مقابلہ میں ایک فریضہ و ذمہ داری کے عنوان سے طاقت کے استعمال سے منع کر دئیے گئے ہیں موجودہ بین الاقوامی سماج اور ان افکار کے ساتھ معاہدہ و معاملہ ہر گز ممکن نہیں ہے جو مسلمانوں کی زندگی کے ایک خاص دور سے متعلق اور جنگ پر مبنی تھے ۔ اس لئے کہ اسلامی ممالک کی بین الاقوامی اداروں اور خاص طور سے اقوام متحدہ میں رکنیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان ممالک نے اپنے بین الاقوامی تعلقات میں اصل صلح کو قبول کیا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ اختلافات کے حل و فصل کے لئے مسا لمت آمیز اسلوب اپنائیں گے ۔( دیکھئے اقوام متحدہ کا آئین مادہ ۱و ۲ بند ۳)
اسلامی ممالک نے بھی اسلامی کانفرنس کے آئین نامہ میں بین الاقوامی تعلقات کے لئے اسی قسم کا عہد قبول کیا ہے اس ادارہ نے بین الاقوامی صلح و امنیت کی حمایت کے لئے ضروری تدابیر کے اتخاذ کو اپنا ایک اہم مقصد اعلان کیا ہے اس ادارہ کے آئین کے مادہ دوم کے بند چہارم (الف ) بین الاقوامی صلح و امنیت سے متعلق ہے جس میں آیا ہے: ” اس ادارہ سے وابستہ ممالک ، بین الاقوامی صلح و امنیت کی حمایت میں ضروری تدابیر کے اتخاذ کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کرتا ہے ۔ادارہ اسلامی کانفرنس کے آئین نامہ کا یہ بند دین اسلام و عقیدہٴ اسلامی کے بنیاد پر استوار ہے اور اقوام متحدہ کے مادہ یک کے بند یک سے متاثر ہے کہ جس میں بین الاقوامی صلح و امنیت کو اقوام متحدہ کا ایک ہدف و مقصد جانا گیا ہے اور دونوں کے آئین نامہ کے مفاد میں اس طرح کی ہم آہنگی ان دونوں بین الاقوامی اداروں کے ما بین مشترک اغراض و مقاصد کا پتہ دیتی ہے اور چوں کہ دین اسلام میں اصل یہ ہے کہ دوسری اقوام و ملل کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی بسر کی جائے اس لئے اسلامی ممالک بھی اس مقصد کی حصول یابی کے لئے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔
۵۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دنیا کے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالیں اسلام اور مسلمین کے اوپر دحشت گردی اور تشدد پسندی کا لیبل دشمنوں نے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ءء کے بعد لگانا شروع کیا ہے اور دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ سے مسلمانوں کی بے حد غلط تصویر منعکس کی گئی مسلمانوں کو ایسے خطر ناک افراد کے عنوان سے پہچنوایا گیا کہ جن سے دوسروں لوگوں کو بچنا چاہئے اور مسلمانوں کے اوپر ہر طرح کی سختیاں کی جای گئیں رہی ہیں بہت سے مادی و معنوی نقصانات مسلمانوں کو اٹھانے پڑے ۔مسلمانوں سے متعلق مدارس خیراتی و ثقافتی مراکز اور کمپنیاں تعاون یا احتمال تعاون کی تہمت کی وجہ سے بند کر دئے گئے ان کے اموال کو ضبط کر لیا گیا ملیونوں کی تعداد میں مسلمین جو کہ مختلف وجوہات کی بنا پر جیسے علاج ، تعلیم اور اپنے ہم مذہب لوگوں کے درمیان تبلیغ کے لئے مغربی ممالک اور غیر اسلامی ملکوں کا سفر کرتے ہیں تو ان کے ساتھ بغض و کینہ کا اظہار کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ خطرناک مسافروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے بہر حال میں ایک مسلمان کی یہ بات نہیں بھول سکتا جو کہہ رہا تھا اگر میں اسلام کے صلح پسند دین اور مسلمانوں کے صلح جو ترین افراد ہونے کا یقین نہ رکھتا ہوتا تو ہمیں یقین ہو جاتا کہ ہم مسلمین دحشت گرد اور تشدد پسند ہیں ۔
۲)۔ مغرب میں اسلام کی ترویج
اسلام کی مخالفت کا ایک اور داعی جو کہ مسلمانوں کو جنگ طلب اور دحشت گرد کا لیبل لگانے میں موثر رہا ہے وہ روز بروز مغربی دنیا میں اسلام و مسلمین کی بڑھی ہوئی طاقت و تعداد ہے کیوں کہ یہ حالت ان لوگوں کے بقول بحرانی کیفیت تک پہنچ گئی ہے اس سلسلہ میں ہم صرف امریکہ کے بھاری تعداد میں نشر ہونے والے تازہ ترین میگزین پر نظر کرتے ہیں جس نے یورپ میں شناختی بحران(Europe’s identity crisis) کے عنوان سے مسلمانوں اور یورپ میں روز بروز بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی تعداد سے یورپیوں کی شناخت پر اثر کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اس میگزین کے ۲۸ویں شمارہ فروری۲۰۰۵ ءء کے پہلے صفحہ پر مونا لیزا کی مشہور پینٹنگ کو پڑھنے والا ملاحظہ کرتا ہے جو اسلامی حجاب سے روپوش ہے اورتصویر کے نیچے دیئے گئے عنوان مقالہ کے متن کو مطالعہ کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔
مقالہ نگار کے خیال میں یورپین شناختی بحران کا سر چشمہ بھاری تعداد میں مہاجر مسلمانوں کی وجہ سے ہے جس کے نتیجہ میں یورپ کا اشتراک ثقافت پر مبنی مثالی معاشرہ شکست کھا چکا ہے اس گزارش میں بلجیم ، جرمن ، ہالینڈ میں مہاجرت ، مہاجرین کے خلاف روز بروز تشکیل پانے والی احزاب کی بڑھتی تعداد سے اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ انھیں کس قدر مسلمان مہاجر ین کے تسلسل سے اپنی یورپین شناخت کے مضمحل ہونے کا خطرہ لاحق ہے وہ مہاجرین جو اپنی ثقافتوں اور آداب زندگی کو خیر باد کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور یورپیوں کے رنگ میں نہیں ڈھلتے اس گزارش کے آغاز بلجیم کی داہنے بازو کی شدت پسند حمایت ” ولامس بلانگ “ کے لیڈرکا تعارف پیش کیا گیا ہے کہ جس نے اس ملک کے شہر انتورپ نورث میں پہلی رسمی مسجد کی تاسیس و تعمیر کو روکنے کے لئے تحریک شروع کی تھی ،اخبار ٹائم کے بقول جب یہ شخص ( دو وینتر ) سڑک سے گزرتا تھا تو سڑک کے ایک جانب سے مہاجرین اسے ” قوم پرست“ کہتے تھے اور دوسری جانب اس کے طرفدار اس کی تعریف کرتے تھے در حقیقت ولامس بلانگ جماعت کا لیڈرت نوبس ایک نمونہ ہے ایسے نہ جانے کتنے تھے ۔اخبار ٹائم کے بقول مسلمان مہاجرین کو قانونی طور پر یورپین سکولر کے اقدار قبول کرنے کا پابند بنا نا چاہئے اچھاہے انھیں اسلامی آداب و سنن چھوڑ کر یورپیوں کے ساتھ ہم رنگ ہونا پڑے یورپین سیاستمداروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلامی دہشت گردوں اور بھیانک مہاجرت کے درمیان تعلقات کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ یہی مذکورہ روش ہے ۔
اس مقالہ کے دوسرے حصہ میں ” کارل دووس“ بلجیم کے شہر گنت یونیور سٹی میں سیاسیات کے استاد کا کہنا ہے ، سنتی طور پر یورپین یعنی وہ شخص جو یورپ کے کسی ایک ملک کا باشندہ ہے لیکن یورپی اقدار کے بارے میں مزید فلسفی بحث جاری ہے یہ واقعیت ہے کہ مسلمانوں کی دوسری نسل اب بھی مہاجر شمار ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک بہت بڑی مشکل سے دو چار ہیں “ ۔بلجیم کی ” ولامس بلانگ“ جماعت کا لیڈر کہتا ہے :اشتراکی ثقافت ایک وہم ہے اکثر مہاجرین ہم رنگ نہیں ہو رہے ہیں وہ خاص خاص محلوں میں اپنی خاص طور طریقہ پر مشتمل زندگی بسر کر رہے ہیں انھیں چاہئے کہ ہماری طرح زندگی بسر کریں دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہئے یورپ میں خون کی ندیاں بہی ہیں تاکہ یہ جدائی حاصل ہو سکے “اس کا خیال ہے کہ مسلمین موجودہ زمانے میں یورپ کی سب سے بڑی مشکل ہیں اور اگر بہت جلد اس سلسلہ میں کوئی کام نہ ہوا تو بہت دیر ہوجائے گی۔(Time: February 28-2005 vol. 165 no 9)
مسلمانوں کے اوپر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا ایک اور پشت پردہ مگر عیاں ہو جانے والا انگیزہ ، اسرائیلیوں کی حمایت ہے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہودیوں کی کارستانیاں اور ان کی گھناؤنی تاریخی ایسی رہی ہے کہ یہ قوم دنیا کے بہت سے بحرانوں کا سر چشمہ رہی ہے اور اب بھی یہی روش افراطی یہودیوں اور اسرائیلیوں کے ذریعہ جاری ہے بلا شبہ اسرائیلیوں کو بھی مسلمانوں کے اوپر لگائے گئے دہشت گردی کے لیبل کا سرچشمہ سمجھنا چاہئے دنیا میں جہاں کہیں بھی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور وحشیانہ حادثہ پیش آتا ہے اس کی جڑ اور سر چشمہ یہودیوں کے درمیان تلاش کرنا چاہئے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور رسائل و مجلات میں دو رخی بین الاقوامی صہیونیزم کی حمایت و طرفداری کی بہترین دلیل ہے نیز اس گروہ کے مخفی ہاتھ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کو شہرت دینے میں کارفرما ہیں ایک طرف تو مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے اور ان کو بھیانک ثابت کرنے میں آزاد رہے ہیں اور ان کی حمایت ہوتی رہی ہے تو دوسری جانب ٹھیک اس کے بر خلاف جو کلام یا تحریر یہودیوں کی تاریخ یا ان کے جرائم سے متعلق ہوتے انھیں سنسر کر دیا جاتا رہا ہے ۔ بعض مواقع پر اس قسم کے رائٹروں کو نکال دیا گیا یا پھر ان کی سر گرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے کیوں کہ انھوں نے یہودیوں اور اسرائیلیوں کے بارے میں حقائق بیان کر دئیے تھے اس سلسلہ کا آخری نمونہ جس میں بعض اسلامی چینل پر پابندی ہے جو اسرائیلیوں اور یورپیوں کے مزاج پر بار تھا اور انھیں اچھا نہیں لگتا تھا ۔ مغرب میں علمی مراکز اور یونیورسٹیوں میں آزادی بیان اور اخبارات وغیرہ پر پابندی اور محدویت کی بہترین دلیل ، یہودیوں اور اسرائیلیوں کے خلاف نشر ہونے والے مطالب ہیں ۔مغربی حکومتوں کی جانب سے اسرائیلیوں کی فوجی اقتصادی سیاسی اور تبلیغاتی حمایت گفتگو کی محتاج نہیں ہے کیوں کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور بہت سی یورپی حکومتوں نے رسمی طور پر اسرئیلیوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے ۔اسلامی سرزمینوں جیسے عراق و افغانستان پر ظالمانہ قبضہ اس علاقہ کے ممالک کو اسلامی آئین سے دست بردار ہو جانے کی ترغیب کی دھمکی ، مسلمانوں کو ایٹمی انرجی یہاں تک کہ صلح و امنیت طلب اغراض و مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ، بعض اسلامی ملکوں کا نام شرارت کی مرکز حکومتوں کی لسٹ میں درج کرنا اور آخر میں دہشت گردی (اسلام ) کے مقصد کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان وغیرہ یہ سب کے سب اسرائیلیوں کی منفعت میں اٹھائے گئے قدم ہیں ۔دوسرے اغراض و مقاصد جیسے مسلمانوں کو علمی ترقی سے محروم کرنا تبلیغاتی جنگ کے خاتمہ پر اہل مغرب کے سامنے ایک فرضی دشمن کے وجود کی ضرورت ، تہذیبوں اور کلچر کی جنگ اور ٹکراؤ کا نظریہ پیش کرنا اور اسے جامہٴ عمل پہنانا ، ڈیموکریسی کے فروغ کے بہانے اسلامی حکومتوں کے داخلی امور میں مداخلت کرنا در حقیقت ملکوں کی ملی ثروتوں کو ہڑپنا وغیرہ یہ وہ دیگر اغراض و مقاصد ہیں جو مسلمانوں کے اوپر جنگ طلبی اور دہشت گردی کی تہمت کو پھیلانے میں پوشیدہ انگیزے ہیں۔
۔۔۔۔۔

اسلامو فوبیا کی تاریخ

نیویارک کے ’’ورلڈ ٹریڈ سینٹر‘‘ کے سانحے کو ابھی صرف تین سال ہی مکمل ہوئے تھے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ابتدائی کامیابیوں پر اسقدر غرور میں تھا کہ اس نے اقوام متحدہ کی پرواہ کئے بغیر، اور عالمی رائے عامہ کے بالکل برعکس، اپنے مستقل حلیف برطانیہ کے ساتھ مل کر جھوٹے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے عراق میں اپنی فوجیں اتاردیں تھیں۔ صدام حسین اور اس کی سات لاکھ ’’ریگولر‘‘ آرمی ریگستان کے مرغولے کی طرح غائب ہوچکی تھی۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی فوج تھی، جس کے پاس چھ ہزار ٹینک، چار ہزار بکتر بند گاڑیاں، تین ہزارہیوی آرٹلری ہتھیار اور تین سو اڑتالیس لڑاکا طیارے موجود تھے۔ امریکی کانگریس میں 28مارچ 2003ء کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خدمات پر وہ اہم رپورٹ بھی پیش ہوچکی تھی، جس کے مندرجات سے جنرل پرویز مشرف ایک ایسا کردار نظر آتا ہے، جس نے امریکی افواج کے حوالے پاکستان کے تین ہوائی اڈے کردئیے تھے، جہاں سے امریکی جہازوں نے ستاون ہزار دفعہ اڑان (Sorties)بھری اور انہوں نے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں صف شکن طالبان پر بم برسائے۔ ایسے حالات میں یوں لگتا تھا کہ اب آنے والی صدیاں امریکہ اور اس کی ٹیکنالوجی کے غلبے اور اقتدار کی صدیاں ہوں گی۔ پاکستان کے سیکولر لبرل ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر ٹیکنالوجی پرست اس امریکی اور مغربی فتح پر فرحاں و شاداں تھا۔ قوت و اقتدار کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں پر مسلسل نظر رکھتی ہے اور اپنے مقابلے میں ابھرنے والی ہر طاقت کو آغاز میں ہی کچل دینے کا سامان کرتی ہے۔ امریکہ نے بھی اپنے تمام بڑے سوچنے اور غوروفکر کرنے والے اداروں (Think Tanks)کو یہ ذمہ داری سونپی کہ آئندہ آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی نظریاتی، معاشی اور عسکری قوتوں کا جائزہ لیں اور بتائیں کہ امریکہ کو ان طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے کیا حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ اس ضمن کی پہلی رپورٹ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے بارے میں سامنے آئی، جسے امریکہ کے اہم ادارے ’’کونسل آف فارن ریلیشنز‘‘ (Council Of Foreign Relations)نے ترتیب دیا۔ رپورٹ کا نام تھا ’’جنوبی ایشیاء میں نئی ترجیحات‘‘ (New Priorities In South Asia)۔ اسے تحریر کرنے والوں میں بنگال کے ایرانی نژاد اصفہانی خاندان کی چشم و چراغ اور حسین حقانی کی خواہر نسبتی ’’مہناز اصفہانی‘‘ سرفہرست تھیں۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی دو اوراہم رپورٹیں ‘’’رینڈ کارپوریشن‘‘ نے تحریر کیں جن کا موضوع اور مقصد اسلامی دنیا کو امریکی مفادات کے مطابق ڈھالنے کے لئے حکمتِ عملی وضع کرنا تھا۔ پہلی رپورٹ کا نام تھا ’’سول ڈیموکریٹک اسلام‘‘ جو اپنے نام سے ہی اپنے مطالب واضح کرتی ہے، جبکہ دوسری اس پہلی رپورٹ میں دئیے گئے حقائق کی بنیاد پر حکمتِ عملی کی تفصیل پر مبنی تھی جس کانام تھا ’’ماڈریٹ اسلام کے لئے نیٹ ورک کی تشکیل‘‘ (Building Moderate Muslim Networks)۔ ان دونوں رپورٹوں کی بنیادی خالق ’’شیرل بینراڈ‘‘ (Cheryl Benrad)تھی۔ یہ مشہور بھارت نواز زلمے خلیل زاد کی بیوی ہے۔ ان تینوں رپورٹوں کا موضوع اور مخاطب اسلام اور مسلم دنیا ہے۔ ان رپورٹوں کا مطالعہ موجودہ مسلمان معاشرے، اس کے تضادات، مسلکی اختلافات اور مسلمانوں میں آزادانہ سیکولر تصورات کے امین افراد کے ساتھ ساتھ شدت پسندانہ رجحانات کے حامل طبقات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ ہمیں اپنی خامیوں، خوبیوں، تضادات اور مشترکات کا اس قدر علم نہیں جتنا ان رپورٹوں کے لکھنے والوں کو ہم پر عبور حاصل ہے۔ یہ رپورٹیں آپ کے سامنے اس حکمتِ عملی کو بھی عیاں کرتی ہیں جو امریکہ اور اس کے حواری مسلم معاشروں کو مغربی رنگ میں رنگنے اور انہیں اپنی تہذیب کا حصہ بنانے کے لئیے اختیار کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام رپورٹوں سے مختلف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر سے بالکل علیحدہ ایک اور رپورٹ دسمبر 2004ء میں سامنے آئی۔ یہ ’’نیشنل انٹیلجنس کونسل‘‘ (National Intelligence Council)کا پراجیکٹ تھا، جسے ’’پراجیکٹ 2020‘‘کہا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کا نام ہے، ’’دنیا کے مستقبل کا خاکہ‘‘ (Mapping The Global Future)۔ یہ رپورٹ جو 2004ء میں شائع ہوئی، ایک نقشہ کھینچتی ہے کہ سولہ سال بعد یعنی 2020ء میں دنیا کیسی ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں چین اور بھارت کی معیشتیں امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہوں گی اور ان کے ساتھ ہی برازیل کی معیشت بھی یورپ کے کسی بھی ملک سے بڑی ہو چکی ہوگی۔ دنیا بھر میں گلوبلائزیشن اس طرح چھا جائے گی کہ لاتعداد ملٹی نیشنل کمپنیاں پوری دنیا کے ممالک میں اپنا جال بچھا چکی ہوں گی۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود، دنیا کو اب کسی ایک طاقت کے قابو میں رکھنا مزید مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق چار مختلف گروہوں اور علاقوں میں دنیا منقسم ہو جائے گی۔ پہلا اہم گروہ جسے وہ ’’ڈیوس دنیا‘‘ (Davos World)کہتی ہے، وہ چین اور بھارت کی معاشی قوت کے سامنے سرنگوں یورپ، افریقہ اور ایشیاہوگا۔ دوسرا گروہ امریکہ کے زیراثر ممالک کا ہوگا، وہ بہت کم ہوں گے، لیکن اپنی اہمیت کی وجہ سے سیاسی اور عسکری طاقت کو کنٹرول کریں گے۔ تیسری قوت ایک نئی ابھرنے والی’’ خلافت‘‘ ہوگی، جس کا قیام رپورٹ کے مطابق 2024ء میں ہو جائے گا اور یہ مغربی اقدار، روایات اور طرزِ زندگی کے لئیے بہت بڑا خطرہ ہو گی۔ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ ان تینوں قوتوں کے علی الرغم دنیا میں خوف کا راج بھی شروع ہوچکا ہوگا۔ بہت سارے آزاد عسکری گروہ اور ملک ایک دوسرے کی تباہی پر آمادہ ہوں گے۔ ایٹمی ہتھیار سمگل، چوری یا اندرون ِخانہ بے شمار ہاتھوں میں چلے جائیں گے اور پوری دنیا ان کے خوف سے کانپ رہی ہوگی۔ ان حالات کی بنیادی وجہ تمام مذاہب میں شدت پسندوں اور مذہب سے مضبوط وابستگی رکھنے والے افراد میں اضافہ ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے مذاہب کے ماننے والوں میں شدت پسندانہ وابستگی رکھنے کے اعتبار سے مسلمان تعداد میں زیادہ سے زیادہ ہوتے چلے جائیں گے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ مذہب پر زیادہ سختی سے کاربند مسلمان ہوں گے، پھر سکھ، پھر ہندو اور پھر عیسائی ہو جائیں گے۔ یہ وہ گروہ ہوں گے جو معاشروں کو اپنی مرضی سے ترتیب دیں گے، ان پر غلبہ حاصل کریں گے اور ان کے خوف سے باقی سادہ لوح مسلمان، سکھ، ہندو اور عیسائی سہمے ہوئے ہوں گے۔ چونکہ مسلمانوں میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوگی، اس لیئے وہ 2020ء کے آس پاس لڑتے جھگڑتے طاقت اور قوت پکڑ لیں گے اور ’’خلافت‘‘ قائم کردیں گے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے، پھر بھی دنیا کے لیئے بہت بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد امریکہ کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے ’’PEW‘‘ کو بار بار مسلمان ملکوں میں سروے کرانے اور حالات کا جائزہ لینے کیلئے کہا گیا ۔ اس ادارے کے سروے کے مطابق مسلمان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت صرف اور صرف شرعی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ یہ تعداد افغانستان میں 99%، پاکستان میں 84%، انڈونیشیا میں 74%، نائیجریا میں 72%اور مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے باقی تمام مسلمان ملکوں میں 71 فیصد ہے۔ رپورٹ میں ایک حیرت انگیز سوال صرف عورتوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرنا پسند کرتی ہیں؟ اس کے جواب میں عراق، مراکش، انڈونیشیا، افغانستان، ملائشیاء اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کی 95فیصد خواتین نے کہا کہ وہ اپنے خاوند کی مطیع رہنا چاہتی ہیں۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ایسی صورتِ حال میں شریعت کا نفاذ بہت آسان ہوگا۔ آج جائزہ لیں تو اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے حالات تو بالکل ویسے ہی ہو چکے ہیں۔ رپورٹ نے 2020ء کو ایک بہت بڑی کشمکش کے آغاز کا سال کہا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر کے تبصرہ نگار، تجزیہ نگار، سیاسی پنڈت، معاشی بزرجمہر، ستارہ شناس، یہاں تک کہ روحانی رجال الغیب بھی ایسا ہی کہہ رہے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021ء میں سب کچھ بدل جائے گا اور باقی تمام ماہرین بھی اسی بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ آج دنیا جس کشمکش میں گھری جا چکی ہے، اس کا قریبی مستقبل میں صرف بارود کی بو، گولیوں کی ترتراہٹ اور بموں کا دھواں نظر آرہا ہے۔ شاید اس سب کے بعد راوی چین لکھ دے۔

۔۔۔۔

اسلام کی تعلیمات اور
دنیا کے مختلف حصوں میںاسلام کا پھیلاؤ

بتداء آفرینش ہی سے حق و باطل کی کشمکش رہی ہے اور ہر دور میں حق کو باطل کے تیر وں کا نشانہ بننا پڑا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس شمع اسلام کو گل کرنے والی ہزاروں آندھیاں اٹھی اور کاروان حق کی اس ناؤ کو ڈبو دینے کی ہزاروں کوششیں ہوئیں لیکن ہر طوفان اس چٹان سے ٹکرا کر اپنا رخ پھیر لینے پر مجبور ہوگیا۔اسلامی تاریخ نے وہ بد ترین دن بھی دیکھا جس دن اسلام کے بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے دار الندو میں آخری رسول کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن خدائی قانون کی دفعات اس کے بالکل برعکس تھیں قرآن کریم میں اس کا قانون یہ بتایا گیا ہے ۔۔۔

جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ۔
اس کے بعد مدینہ کے یہود و منافقین نے اشاعت اسلام کے راستے میں بند باندھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن حق پھیلنے کے لئے ہی کرہ ارضی پر جلو اگر ہواتھااور پھیلتا ہی رہا اور ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں اس نے دنیا کے دو بر اعظموں ایشیاو افریقہ کو اپنا زیر نگیں بنالیا اور بر اعظم یورپ کے دروازوں پر دستک دینا شروع کردی جس سے گھبرا کر یہودیت و نصرانیت مل کر اسلام کے راستے میں مزاحم ہوئے لیکن شکست ان کا مقدر بنی، چنانچہ میدان کارزار میں شکست خوردگی کے بعد انہوں نے تلوار چھوڑ کر قلم کا سہارا لیا اور اسلام کی شکل مسخ کرکے اسے جدید دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اس کی شبیہ بگاڑنے کے لئے انہوں نے اپنی ریسرچ اور تحقیقات کی آڑ میں سیدھے سادے اسلام کو ایک خوشنما زہر بنادیا جس کا ہلکا سا اثر بھی ایک مسلمان کو اس کے دین پر باقی نہ رہنے دے لیکن اس میدان میں بھی ان کا مقابلہ ایسے سرفرشوں سے ہوا جنہوں نے اس زہر کے لئے تریاق تلاش کرلیا ۔اور اس بار بھی شکست ان کامقدر قرار پائی۔
اس باب میں ہم جدید یورپ کے عروج و ارتقاء اور اس کے اسباب و وجوہات اور پھر اسلام کی شبیہ کو مسخ کردینے کی جو کوششیں ہوئیں اس پر بھر پور روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ تاریخ یورپ کے ادوار آٹھویں صدی قبل مسیح کے بعد تاریخ یورپ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1۔دور قدیم:۔
جو آٹھویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے ۔یہی وہ زمانہ ہے جب رومہ کی عظیم سلطنت قائم ہوئی تھی اور یونان سے علوم و معارف کے دریا بہہ نکلے تھے ۔
2۔قرون وسطی :۔
یہ وہ زمانہ ہے جو زوال رومہ 476 ء سے شروع ہوکر یورپ کی نشأۃ ثانیہ یعنی سولہویں صدی عیسوی پر ختم ہوتا ہے۔
3۔دور جدید:۔
جو سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہوا ہے ۔ قرون وسطی میں یورپ کی اخلاقی ،معاشی، معاشرتی اور علمی حالت۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یورپ مختلف وحشی قبائل کا مسکن تھا ۔بحیرۂ اسود کے شمالی اور دریائے ڈنیپر (deniper) کے دونوں طرف گاتھ آباد تھے ،موجودہ پولینڈ ،رومانیہ ،اور ہنگری وغیرہ کے مقام پر ہنز رہتے تھے ،جرمنی تین خونخوار قبائل یعنی دینڈلز ،سیکسنزاور اینگلز کا وطن تھا ،فرانس میں فرانک اور برطانیہ میں سلٹ (CELTS ) رہتے تھے اور باقی حصوں میں بھی اجڈ قبائل آباد تھے۔جو کہ صدیوں تک وحشت و بربریت اور تہ بتہ جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے ،تہذیب و اخلاق کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر ڈریپر (1882ء) لکھتے ہیں کہ قرون وسطی میں یورپ کا بیشتر حصہ لق و دق بیا باں یا بے راہ جنگل تھا۔کہیں کہیں راہبوں کی خانقاہیں اور چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں جابجا دلدلیں اور غلیظ جوہڑ تھے ۔لندن اور پیرس جیسے شہر وں میں لکڑی کے ایسے مکانات تھے جن کی چھتیں گھاس کی تھیں ۔ آسودہ حال امراء فرش پر گھاس بچھاتے اور بھینس کے سینگ میں شراب ڈال کرپیتے تھے۔صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا ،گلیوں میں فضلے کے ڈھیر لگے رہتے تھے ۔روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔عوام ایک ہی لباس سالہا سال تک پہنتے تھے جسے دھوتے نہیں تھے نتیجہ وہ چرکین ،میلا اور بدبودار ہوجاتا تھا ۔ فقر و فاقہ کا یہ عالم تھا کہ لوگ سبزیاں ،پتے اور درختوں کی چھالیں ابال کر کھالیتے تھے ۔متوسط طبقہ کے یہاں ہفتے میں ایک مرتبہ گوشت عیاشی سمجھا جاتا تھا ۔ مذہبی طور پر عیسائیت کا غلبہ تھا چنانچہ ان کے پادری فریب اور جعلسازی سے کام لیتے تھے ۔پوپ جنت کی راہداری اور گناہ کرنے کی پرمٹ (اجازت نامہ) فروخت کرتے تھے۔علماء عشائے ربانی ،کرامات اولیاء ،رہبانیت اور تصرفات روح کی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے ۔
دوسری طرف ساتویں صدی عیسوی میں اسلام سرزمین عرب میں آیا تو عربوں کو علم وہنر کی کنجی مل گئی جس کے ذریعہ انہوں نے نئے نئے علوم و فنون سے دنیا کو متعارف کرایا ۔فتوحات کا سلسلہ بھی بڑھا اور مسلمان ایشیا سے نکل کر افریقہ اور پھر یورپ میں داخل ہوگئے اور اسپین سے لے کر فرانس کی حد ود تک پہنچ گئے ۔اور اسپین میں مسلمانوں کی ایک شاندار حکومت قائم ہوگئی ۔یہ حکومت بہت جلد علم وفن کا مرکز بن گئی۔صنعت و حرفت ، تجارت و معیشت میں دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے نظریں ملانے لگی ۔دوسرے ممالک سے لوگ جوق در جوق علم کی تلاش میں وہاں آنے لگے چنانچہ جربرٹ دی اورلیاک (Jerbert de Oraliac) پہلا شخص تھا جس نے خفیہ طور پر اندلس جاکر علوم اسلامیہ حاصل کی اور اشبیلہ اور قرطبہ کے اساتذہ فن سے کسب فیض کیا اور اندلس سے واپسی کے بعد اس کو سلوسٹردوم (999ء۔1003ء) کے نام سے روم کے کلیسا کا پوپ منتخب کیاگیا ۔
ڈاکٹر مصطفی سباعی لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مغرب کے دیگر فضلاء اور اہل علم اندلس گئے اور وہاں مسلمانوں اور عربوں کے علوم و فنون سے استفادہ کیا اور واپس آکر اپنے اپنے وطن میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی اشاعت کی ،عربی زبان کی تعلیم کے بہت سے ادارے قائم کیے ۔‘‘ طلیطلہ کے اسقف اعظم ریمنڈلل نے بعض عربی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا ۔اٹلی نزاد جیرارڈ دی کریمون (Gerard de cermona) (1114ء۔1187 ء) نے طلیطلہ کا سفر کیا ۔وہاں عربی زبان سیکھی اور اپنے وطن واپس آ کر فلسفہ ،طب ،فلکیات اور دیگر موضوعات پر 87 کتابوں کا ترجمہ کیا۔ یہ سب انفرادی علمی کاوشیں تھیں کیونکہ کلیسا نے جس کی اب تک بالا دستی قائم تھی اور علم پر اس کا قبضہ تھا عام طور پر علم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی یہی نہیں بلکہ متعدد اہل علم پاپاوں اور پادریوں کے علم دشمنی کی وجہ سے موت کے گھاٹ تار دیے گئے ۔کوپر نیک (1473ء۔1543) گلیلیو گلیلی (1564ء۔1642ء) اس کی زندہ مثال ہیں ۔ لیکن صلیبی جنگوں میں شکست فاش کے بعد لوئی نہم کی وصیت کے مطابق بعض پادریوں نے پاپائے اعظم سے ملاقات کی اور ان کے سامنے مسلمانوں کو زیر کرنے اور ان کو شکست دینے کے لیے لوئی نہم کا فارمولہ پیش کیا جس میں اس نے مشورہ دیا تھا کہ جنگ کے بجائے علم کے راستے کو اختیار کیا جائے اور مسلمانوں کی طاقت اور ان کے جذبے ایثار و قربانی کے اسباب و عوامل کا پتہ لگا یا جائے اور پھر ان کی قوت و طاقت کے سرچشمہ کو خشک کردیا جائے۔
چنانچہ ان پادریوں نے پوپ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ کلیسا علم حاصل کرنے کی عام اجازت دے اور اس کے لئے ادارے قائم کرے اور اس کے ذریعہ عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کی جائے۔ یہ منصوبہ پیش کرنے والوں میں سر فہرست روجربیکن اور ریمنڈلل تھے اس کے بعد 1312ء میں ویانا کے کلیسا نے علم حاصل کرنے خصوصا اسلامی علوم وفنون اور عربی زبان سیکھنے کی اجازت دیدی اور فوری طور پر اس مقصد کے لئے پیرس ،آکسفورڈ ،پولینڈ کے تعلیمی اداروں میں عربی زبان و ادب اور مشرقی علوم کے شعبے کیے گئے اور عربی کتابوں کے انگریزی زبان میں ترجمہ ہوئے ۔ایک تحقیق کے مطابق پندرہویں صدی عیسوی تک تقریبا چار سو کتابیں عربی سے انگریزی اور یورپی زبانوں میں منتقل ہوگئیں ۔اور تقریبا چھ صدیوں تک عربوں کی کتابیں یورپی یونیورسٹیوں میں نصاب کی بنیاد رہیں اور یورپ ان کو اپنا علمی مآخذ سمجھتا رہا۔
دورجدید کا یورپ:
پندرہویں صدی میں قسطنطنیہ کے سقوط (1453ء) اور ویانا کے سرحد تک عثمانی فوجوں کے پہنچنے کے بعد جس نے یورپ کی چولیں ہلا دیں اور جس سے اہل یورپ کے حصول علم رجحان میں مزید تیزی آئی اور دوسری ایک وجہ یہ بھی رہی کہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے معاندانہ ٹکراو اور اسپین میں مسلمانوں سے مصالحانہ میل جول کا نتیجہ یورپ کی نشأۃ ثانیہ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مسیولیٹری لکھتے ہیں کہ اگر تاریخ میں عرب منصہ شہود پر نمودار نہ ہوتے تو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن مین یورپ کی بیداری کئی صدی اور مؤخر ہوجاتی۔‘‘ بریولٹ اپنی کتاب’’ انسانیت کی تعمیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جدید دنیا پر عربی تہذیب کا سب سے بڑا احسان علم ہے لیکن اس کے نتائج بعد میں رونما ہوئے ۔جس عظیم جنیئس نے اسپین میں عربی تہذیب کو جنم دیا وہ ایک طویل وقت گزارنے کے بعد اپنے شباب کو پہنچی اور تنہا علم ہی نے یورپ کو حیات نو نہیں کی بلکہ اسلامی تہذیب کے اور بھی بہت سے مؤثرات کا رفرماتھے جس اسلامی تہذیب نے اپنے فن کی پہلی کرنیں یورپ پر ڈالیں ،یورپ کی ترقی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اسلامی تہذیب سے متأثر ہوئے بغیر رہ گیا ہو۔‘‘ یورپ نے مسلمانوں سے علم سیکھا ۔تہذیب وتمدن سیکھی اور نظریہ آزادی حاصل کیا اور مسلمانوں سے تجربی علوم حاصل کئے اور ان پر اپنی نشأۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی ۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ:
قرون وسطی کے مقابلے میں جدید دور کے ذہنی رنگ ڈھنگ کا آغاز اٹلی میں ہونے والی تحریک سے ہوا جسے نشأۃ ثانیہ کہتے ہیں ۔ابتداء میں چند لوگ اس طرح کا نظریہ رکھتے تھے جس میں خاص طور پر پٹرارک کا نام آتا ہے لیکن پندرہویں صدی میں یہ تحریک باذوق ،باادب،دنیادار اور دین دار دونوں قسم کے اطالوی باشندوں کی ایک بڑی تعداد میں پھیل گئی۔ فلورینس دنیا کا بہت تہذیب یافتہ شہر ہونے کے علاوہ نشاۃ ثانیہ کا منبع ہونے کی وجہ سے بھی اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ادبی دنیا کے تقریبا تما م بڑے ادباء اوردنیائے فن کے اہم ترین اور نامور لوگوں کا تعلق فلورینس سے تھا ۔ تیرہویں صدی میں فلورینس میں تین طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے تھے۔اشرافیہ (دولت مند اور جاگیردار) امیر کبیر تجار( بورژوا) اور ادنی لوگوں کا طبقہ ۔یہ سب باہمی مفادات کے لئے باہم دست و گریباں تھے، ان میں سے اشرافیہ کے لوگ بنیادی طور پر پوپ کے خلاف شہنشاہ کی حمایتی تھے جب کہ دوسرے طبقوں کے لوگ شہنشاہ کے خلاف پو پ کی حمایت کر رہے تھے۔ان میں اول الذکر طبقہ شکست سے دوچار ہوا اور چودہویں صدی مین ادنی طبقہ کے لوگوں نے بھی بورژوا طبقے سے اپنی جان چھڑالی۔
نشأۃ ثانیہ کا دور فلسفے میں حاصل کی گئی کسی بڑی کامیابی کا دور نہیں تھا لیکن اس کے نتائج کے طور پر جو چیزین سترہویں صدی میں ہوئیں وہ بڑی اہمیت کا حامل تھی ۔اس نے افلاطون کے مطالعہ کا ازسر نو احیاء کیا ۔آزادی رائے اور فکری آزادی پروان چڑھی چنانچہ نشأۃ ثانیہ کے نتیجہ میں انسانوں نے معقول انداز سے سوچنا شروع کیا اور قدیم دور سے چلی آرہی لغویات کی بابت ان کے افکار و خیالات میں وسعت نظری پیدا ہوئی۔ اسی طرح اخلاقی حالات و واقعات کے دائرہ کار سے باہر نشأۃ ثانیہ بڑی خوبیوں کی حامل تھی ۔فن تعمیرات ،فن مصوری،شاعر ی اور دیگر علوم وفنون کو اس دور مین بڑی ترقی حاصل ہوئی ،عربی و عبرانی زبان سیکھنے کا عام رواج ہو ا۔ مشنریوں نے ادارے اور اسکول قائم کئے۔اس دور میں بڑے بڑے فلسفی اور اہل علم پیدا ہوئے جیسے لیوناڈو،مائیکل ،اینجلو اور میکاولی وغیرہ ۔اس نے پڑھے لکھے انسانوں کو قرون وسطی کے تنگ وتاریک تمد ن سے آزادی دلائی ۔ صنعتی انقلاب نشأۃثانیہ کے نتیجہ کے طور پر یورپ میں علوم و فنون کا عام رواج ہوگیا ۔طب ،فلکیات،اور سائنس و ریاضی کے عربی کتب کے تراجم انگریزی و دیگر یورپین زبانوں میں ہوچکی تھی ۔اب صرف ان علوم و فنون کا مظہرسامنے آنا باقی تھاجو اٹھارہویں صدی کے آخر کے پچاس سالہ مدت میں بر طانیہ میں صنعتی انقلاب کی شکل میں رونما ہوا اور پھر انیسویں صدی کے ابتداء میں بڑی تیزی کے ساتھ باقی یورپ میں پھیلتا چلاگیا ۔فرانس ،جرمنی ،اٹلی،آسٹریا اور روس وغیرہ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔
ہر جگہ جسمانی محنت کی جگہ مشینوں نے لے لیں ۔کپڑا بننے اور دھاتوں کی چیزیں بنانے کی صنعتوں اور انجن بنانے میں نئے نئے ایجادات ہونے لگے۔ 1829ء میں بھاپ سے چلنے والی ریل گاڑی کی ایجاد سامنے آئی اور بہت کم عرصہ میں اس کو خوب ترقی ملی ۔صرف 1850ء سے 1870ء تک ایک لاکھ40 ہزار میل ریلوے لائن بنا دی گئی۔ ریلوے کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت میں حیرت انگیز توسیع ہوئی ۔اس سے ملک میں تجارتی کاروبار میں بڑی سہولت میسر آئی اور بیرون ممالک سے تجارتی روابط بڑھے ۔ایندھن کی مانگ میں بڑا اضافہ ہوا۔قریب قریب اسی زمانے میں دخانی جہاز کی ایجاد کے باعث ذرائع نقل و حمل میں ایک اور انقلاب رونما ہوا اوربڑے بڑے سمندر جو کبھی آمد ورفت میں بڑی روکاوٹ بنے ہوئے تھے اس میں آسانیاں پیدا ہوئیں ۔ صنعت وحرفت کی اس قدر ترقی نے پورے یورپ کا نقشہ ہی بد ل کر رکھ دیا ،چنانچہ عیش و عشرت کے سامان کی فراوانی تو ہوئی۔لیکن تجارتی منڈیاں ماند پڑ گئیں ۔
چنانچہ سرمایہ داری کے اس تیز رفتار ترقی اور بورژوا طبقے کے بڑھتے ہوئے قدم کے باعث نو آبادیاتی توسیع کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوا ۔بورژوا کو خام اشیاء اور سستے وسائل اور نئی منڈیوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی ضرورت کو پوری کرنے کے لئے نوآبادیاتی نظام کی ابتداء ہوئی اور ان توسیع پسند ملکوں میں برطانیہ صف اول پر تھا ۔اس نے برما، ہندوستان،چین پر اپنا تسلط جما لیا ۔ہندوستان میں کپڑے کی صنعت کو تباہ و برباد کرکے اپنے تجارتی منڈی کی طور پراس کا استعمال کیااور چین سے افیون سستی قیمتوں میں خرید در آمدکرنا شروع کی ۔اور جس سے اس کو بہت زیادہ منافع ہوا۔ساتھ ہی ساتھ یہاں کے علمی سرمایے کو اٹھاکر یورپ منتقل کردیا گیا ۔ہندوستان کی سنسکرت اور فارسی زبان میں موجود تمام کتابیں بڑی اہمیت کے حامل تھیں ۔ طب ،فلسفہ ،اور اسلامی علوم وفنون سے متعلق یہ کتابیں آج لندن کے کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ دوسری طرف فرانس نے الجیر ،مصراور دیگر افریقی ممالک پر قبضہ کرلیا اوروہاں کے صحت مند اور تندرست مرد و خواتین کو گرفتار کر کے غلام بنالیا ۔اور یورپ میں انسانوں کی خرید و فروخت عام ہوتی چلی گئی۔ان غلاموں سے کمپنیوں میں جانوروں کی طرح کام لیاجاتاتھا۔اور ایک زمانہ تک افریقی غلاموں کو امریکہ اور امریکی غلاموں کو یورپ منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔اس کے بعد زوال پذیر اسپین کی طرف نگاہیں اٹھیں اوربرطانیہ ،فرانس،پولینڈکی متحدہ افواج نے اسپین پر حملہ کرکے اسے بھی تباہ و برباد کردیا اور وہاں کے کتب خانوں کو فرانس منتقل کردیا گیا ۔
دوسری طرف صنعتی انقلاب کی وجہ سے دولت بورژوا طبقہ میں محدود ہوکر رہ گیا تھا اور ادنی طبقہ اپنی زمینوں سے بے دخل ہوکر فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور تھے۔اس لئے سرمایہ دار ان مزدوروں کی بڑی بے رحمی سے استحصال کررہے تھے ۔کم سے کم وقت میں وہ مزدوروں کو نچوڑ کر زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہر طرح کوشش کرتے تھے ۔اوراکثر ان سے 16 سے 18 گھنٹے کام لیتے تھے ۔عورتوں اور بچوں کی محنت کا وسیع پیمانے پر استعمال کیاجاتاتھاجو آسانی سے سستی قیمتوں میں مل جاتے تھے۔مزدوروں کے اس بے انتہا استحصال سے ان کے جسمانی یا کم از کم روحانی تنزل کا خطرہ ضرور لاحق ہوگیا تھااور اس طرح جاگیردارانہ نظام کے بعد سرمایہ دارانہ نظام اس کی جگہ پر قابض ہوگیا تھا ۔ یورپ میں اسلام پر جدید مطالعہ کا آغاز ایک طرف اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون اور مسلمان علماء ومفکرین کے بدولت یورپ میں سوچنے اور غور وفکر اور علمی میدان میں آگے بڑھنے کا شوق بیدار ہوا تھا جس کی وجہ سے پاپائیت اور ملوکیت کے رد عمل میں سیکولرازم ،پھرجاگیردارانہ نظام کے خلاف کیپٹل ازم اورخود کیپٹل ازم کے خلاف اشتراکیت جیسے نظریات یکے بعد دیگرسامنے آرہے تھے دوسری طرف ایک ترقی یافتہ قوم کے علوم و فنون ،تہذیب وثقافت کو اپنا کر اپنی ترقی کی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں دسویں صدی یا اس بھی پہلے سے شروع ہوگئی تھی ۔اور اس وقت ان کے بحث و تحقیق کا مقصد خالص علمی و معروضی تھا۔
مولانا وثیق ندوی لکھتے ہیں ’’ اسلامی علوم وفنون کی خالص علمی بحث و تحقیق کا آغاز دسویں صدی عیسو ی میں ہوا یہ تحقیق کرنے والے مستشرقین معروضی اور تحقیقی و علمی مزاج رکھنے والے تھے ان میں حسد و عداوت نہ تھی ‘‘ پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں کہ اسلام اور اس کے تہذیبی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کا جذبہ مغرب میں اس وقت بیدار ہوا تھا جب اسپین اور سسلی کی سر زمین پر عربوں نے قدم رکھا تھا ۔یہ صرف ایک ملک یا ایک جزیرہ کی فتح نہ تھی بلکہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے ایک نئے اور انقلاب آفریں دور کا آغاز تھا۔جس نے بقول فرانسیسی مستشرق پروفیسر میسی نیون تہذیبی اعتبار سے یورپ کو بیدار کیا اور مغرب کے ترقی کے لئے نئے نئے امکانات پیدا کردئے ۔عربوں کے علوم و فنون کو حاصل کرنے، ان کا علمی سربلندی کا راز دریافت کرنے کا جذبہ اس بات کا محرک ہوا کہ اسلام کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے ۔عربوں کی نئی تحقیقات ،نئے علمی تجربات اور نئے علمی رجحانات سے یورپ کے عالم استفادہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘ چنانچہ یورپ کا شاہراہ ترقی پر یہ پہلا قدم تھا جس پر قدم رکھتے ہی اس نے علمی دنیاکی سر براہی کا راز پالیا اور اس کے بعد وہ عظیم الشان علمی کارنامے انجام دئے جنہوں نے اس کو علمی فضیلت کی صف اول میں پہونچا دیا ۔اب مسلم ممالک زوال پذیر تھے اور یورپ زمین سے ثریا کی طرف اپنے علمی،سیاسی ،اور تہذیبی سفر میں مصروف تھا اور اس سفر میں سد راہ بننے والے کانٹے کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوششیں تیز تر ہوگئی تھیں ۔
لارنس براؤن کہتے ہیں کہ پہلے ہم یہودی خطرے سے ڈرتے تھے ،زرد خطرے (جاپان،چین) سے ڈرتے تھے اور اشتراکیت سے ڈارتے تھے لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا ،اس لئے کہ یہودی ہمارے دوست نکلے ،چنانچہ ان پر ظلم کرنے والا ہمارا جانی دشمن ہوگا پھر دوسری جنگ عظیم کے دوران اشتراکی ہمارے حلیف بنے رہے ،رہا زرد خطرہ (جاپان ،چین) تو اس سے نمٹنے کے لئے بڑی جمہوری حکومتیں کافی ہیں ۔اب اصل خطرہ نظام اسلامی اور اس کے زندہ و جاوید مذہب ہونے کی حیثیت سے اپنے حلقہٗ متبعین کو وسیع کرلینے کی غیر معمولی قدرت و صلاحیت سے ہے ۔مسلمان زبردست ،حیرت انگیز،حیات بخش طاقت و قوت کے مالک ہیں ۔یورپی سامراج کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تنہا یہی (اسلام)ہے‘‘۔ ایک دوسرے مغربی رہنما کہتے ہیں کہ میرے خیال میں کمیونزم یورپ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ حقیقی خطرہ اسلام سے ہے ،جو ہم کو براہ راست چیلنج کررہا ہے ۔مسلمان ہماری مغربی دنیا سے الگ اپنی ایک مستقل دنیا رکھتے ہیں ۔ان کے پاس خالص روحانی سرمایہ ہے اور وہ ایک حقیقی سچی اور تاریخی تہذیب و تمدن کے مالک ہیں ۔مسلمانوں میں اس کی صلاحیت و اہلیت ہے کہ وہ بغیر کسی تعاون و مدد کے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ‘‘۔
اس دور کے مستشرقین اسلام اور اسلامی تہذیب کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے واقفیت اور اسلام کے دوبارہ غالب ہونے کے خوف نے مستشرقین کے ذہن میں یہ جذبہ پیدا کردیا کہ ایسے وسائل اختیار کئے جائیں کہ جن سے یہ خطرہ جس سے یورپ ایک ہزار سال تک دوچار رہا ہے واپس نہ آئے ۔اس لئے اب ان کے مطالعے اور تحقیق کا رخ ہی بدل گیا۔ مولانا شبلی نے اس دور کے مستشرقین کی علمی دلچسپیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یورپ کی فیاض دلی رشک کے قابل ہے کہ ایک طرف تومذہبی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا لیکن دوسری طرف اس نے بے تکلف مسلمانوں کے خوان کرم سے زلہ ربائی شروع کردی لیکن اس فیاضی کا تعلق غیر مذہبی لٹریچر سے تھا جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو صلیبی جنگوں کے بعد مستشرقین کے طرز فکر اور انداز تحقیق میں بنیادی تبدیلی رونما ہوگئی ۔اب اسلام کی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ اور اسلامی تہذیب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا تھا جو ان کے متعصبانہ افکار کی زد میں نہ آگیا ہو‘‘۔ تیرہویں صدی کے آخیر میں مستشرقین کو کلیسا کا تعاون حاصل ہوگیا اوراب کلیسا نے انہیں اسلامی علوم وفنون پر مواد فراہم کرانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
مولانا وثیق ندوی لکھتے ہیں کہ’’ خود ویٹی کن میں مشرقی علوم و مذاہب پر مشتمل کتابوں کا ایک کتب خانہ قائم کیا گیا ۔اور سولہویں صدی عیسوی میں اس علمی تحریک نے ترقی حاصل کرلی اور رومن کلیسا نے مشرقی زبانوں کے سیکھنے کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کیا۔‘‘ کلیسا کا یہ تعاون اس راہ کا سنگ میل ثابت ہوا چنانچہ کلیسا نے فرانس ،روس،امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے عنوان سے سنٹر قائم کئے ۔عربی کتابوں کے انگریزی زبان میں ترجمے ہوئے اور خاص طور پر رازی ،زہراوی ،ابن رشد،ابن سینااور دیگر مسلم فلاسفہ کی کتابیں انگریزی زبان میں منتقل ہوئیں ۔ اس کے بعد صنعتی انقلاب نے یورپی ممالک میں استعمار اور ملک گیری کی نئی خواہشات کو بیدار کردیا جس کے نتیجہ میں انہوں نے دنیا کے بہت سارے ممالک پر اپنی نو آبادیات قائم کیں اور وہاں کے سیم و زر بھر بھر کر یورُ پ منتقل کرنے لگے ،وہاں کے خام اشیاء پر قبضہ کرلیا اورعوام پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑنے شروع کردئے ۔اسی کے ساتھ ساتھ وہاں کے علمی اور فنی ذخائر کو سمیٹ کر یورپ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔اور سترہویں صدی عیسوی میں اس پر عمل در آمد بھی شروع ہو گیا۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں کہ’’ آکسفورڈ کے عربی پروفیسر ایڈورڈ پوکاک نے حلب سے عربی مخطوطات کے بیش بہا ذخیرے حاصل کئے ۔
اسی زمانے میں جارج سیل نے قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی میں کیا ۔یورپی زبان میں قرآن مجیدیہ پہلا مکمل کا ترجمہ تھا۔نیپولین نے 1798ء کے بعد مصر کے علمی ذخیروں کو فرانس منتقل کرنا شروع کردیا اور انگریزوں نے 1757ء کے بعد ہندوستان کے نادر قلمی نسخے لندن پہنچا دیئے ۔انڈونیشیا ، ہندوستان ،ایران،مصر،شام اور عراق کے کتنے ہی انمول موتی جن کو غیر ملکوں میں دیکھ کر بقول اقبال ’’ دل سی پارہ‘‘ ہوتا ہے ‘‘ پھر جب نو آبادیاتی نظام سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں تو اب یورپین کے لئے نو آبادیوں کی آزادی کو ٹالنا اور اس کو مزید طول دینا ممکن نہ رہا ۔اس لئے دولت برطانیہ نے اپنی نو آبادیوں سے دست بردار ہونے میں پس وپیش نہیں کیا ۔لیکن اس دور میں حالات بدل چکے تھے اس لئے اب سیاسی برتری قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ بظاہر اپنی انداز تحقیق میں احترا م کے پہلو کو ملحوظ خاطر رکھاجائے۔ اس سیاسی مقصد کی حصولیابی کی خاطر مستشرقین کے انداز تحقیق کے رخ میں بھی بدلاؤ آگیا اور اب ان کے تعصب میں بھی کچھ نرمی آئی ۔ پروفیسر نظامی لکھتے ہیں کہ اس دور کے مستشرقین کی تحقیقی کاوشوں میں رنگ احترام آگیا ۔اقبال نے 1932 میں جب پروفیسر میسی نیون سے کہا کہ مغرب کے مؤرخین کو اسلام سے جو تعصب و عناد ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ کم ہورہا ہے اور اسلام کی صداقت ان پر آشکارہ اور واضح ہوتی جارہی ہے تو میسی نیون نے ان کی رائے پر پوری طرح سے اتفاق کیا‘‘۔
لیکن دوسری طرف ایسے فتنوں کو خاموشی کے ساتھ بیدار کردینے کی جستجو شروع ہوگئی جس سے مسلمان ممالک افتراق و انتشار کا شکار بنے رہیں اور ملی وحدت کی پرچھائیاں بھی ان کے ذہن و دماغ پر نہ پڑنے پائیں ۔اس دور کے مستشرقین اپنے ملکوں کے وزارت خارجہ کے مشیر خاص بن گئے اور ان کی تحقیق اگر ایک طرف مغربی حکومتوں کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کرنے لگی تو دوسری طرف ان علاقوں میں خیالات کی تبدیلی لانے کے لئے وزارت خارجہ ان مستشرقین سے مدد لینے لگی۔اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مستشرقین نے اس کا برو رپورٹ تیا رکیا جس کو صحیح معنوں میں مستشرقین کا منشور کہاجاسکتا ہے جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ بدلتے ہوئے حالات پر نگاہ رکھی جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ان بدلتے ہوئے حالات کیوجہ برطانوی سامراجی مقاصد کو بری طرح نقصان پہنچے ۔چنانچہ اب برطانیہ نے امن عالم کا پر فریب نعرہ بلند کرنا شروع کردیا تاکہ اس کی آڑ میں وہ اپنے مقاصد کو بعینہ پوراکرسکے ۔لیکن حالات نے کروٹ لیا اور عربی ممالک میں تیل کے ذخائر دریافت کرلے گئے۔اب عرب ممالک کچھ سالوں میں سیم وزر سے مالا مال ہونے والے تھے ۔اس لئے اب صورتحال تبدیل ہوتی ہوئی نظر آنے لگی جس سے مستشرقین کی پریشانیاں مزید بڑھ گئیں ۔
لیکن ان حالات پر قابو پانے کے لئے ان کے تحقیقات کا مرکز اب اسلامی تحریکات ،سماجی رجحانات،اقتصادیات و معاشیات کے امکانات قرار پائیں پروفیسرنظامی لکھتے ہیں کہ اب مستشرقین کی دلچسپی جدید مذہبی تحریکات ،سماجی رجحانات اور اقتصادی امکانات کے مطالعہ کی طرف منتقل ہوچکی ہے اور فکر اسلامی کی توجیہ و تاویل سے زیادہ مسلمان ملکوں کے اندورونی اور بیرونی حالات کے تجزیہ کی طرف توجہ ہے ۔قومیت کے وہ عناصر جو عربوں کی وحدت ملی کے تصورات کو پارہ پارہ کرسکتے ہیں ،اب توجہ کا مرکز بن گئی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صہیونیت نے مستشرقین کے انداز تحقیق سے خاموش ساز باز کرلیا ہے۔‘‘
مستشرقین کے مطالعے اور تحقیقات کے مقاصد:
مستشرقین کے پیش نظر ان تحقیقات اور مطالعات کے ذریعہ بہت سارے مقاصد کو حاصل کرنا تھا جن میں سے اکثر و بیشتر میں انہیں کامیابی ملی ہے۔اسلام کے تناظر میں ان کی تحقیقات کا جائزہ لیاجائے تو اس میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کی تہذیبی وتمدنی ورثہ اور اجتماعی زندگی کے دینی شعور سے بالکل الگ کردیا جائے تاکہ ان کے افکار و خیالات میں مغربیت کی جھلک نظر آئے،اور جب بھی وہ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان کے ہیروز اور قائدین مغرب کے ہیروز اور ان کے لیڈروں کے سامنے کمتر نظر آئیں ۔اور اس طرح سے وہ مغرب کی برتری اور ان کے قیادت قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ ہم کو صرف یہی رونا نہیں ہے کہ ہمارے زندوں کو یورپ کے زندوں نے مغلوب کرلیا ہے بلکہ یہ رونا بھی ہے کہ ہمارے مردوں پر یورپ کے مردوں نے فتح پالی ہے‘‘۔ مستشرقین کا دوسرا اہم مقصد یہ رہاہے کہ اسلام کے روشن اور تابناک چہرہ کو مسخ کرکے پیش کیا جائے اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کے دین ،ان کی تہذیب و ثقافت اور ان کے قانون و شریعت کے سلسلے میں ایسی تشکیک اور بیزاری پیدا کردی جائے کہ وہ انہیں فرسودہ خیال کرنے پرمجبور ہوجائیں ۔بقول پروفیسر نظامی کے مسلمان سائنس کی بر تری تسلیم کرکے مذہب بیزار ہوجائیں ‘‘۔ ان کے مطالعے کا تیسرا اہم مقصد یہ تھا کہ ان کو فروعی مسائل میں ایسے الجھا کر رکھا جائے کہ جس سے ان کے سوچنے ،سمجھنے اور غور وفکر کرنے کا مادہ باقی ہی نہ رہے ۔اس مقصد کے لئے انہوں نے نبی ﷺ، صحابہ کرام و صحابیات ،تابعین اور دیگر علماء اسلام پر الزام تراشیاں شروع کردیں ۔ساتھ ہی ساتھ قرآن عیسائیت و یہودیت سے ماخوذ اورمحمد ﷺ کی تصنیف کردہ کتا ب اورکتب ا حادیث اور اسماء الرجال کو عہد عباسی کی خود تراشیدہ تصنیفات ثابت کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی ۔بقول پروفیسر نظامی کہ مسلمانوں کے ذہن کو ایسے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا جائے جن کا ان کے علمی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو لیکن جو قوائے ذہنی کو مضمحل کرنے میں کارگر ثابت ہوں ‘‘
اکیسویں صدی میں مستشرقین کارخ:
اخبارات ورسائل پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام اور مغرب کی کشمکش آج بھی جاری ہے ،مستشرقین کے انداز تحقیق کا رخ ضرور بد ل گیا ہے ان کے تحقیقات و مطالعات کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے چنانچہ انہی مقاصد کی حصولیابی کے لئے 9/ ستمبر 2001 ء کو امریکہ کے ولڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کراگیا تاکہ اس کے ذریعہ افغانستان میں اسلامی حکومت کی اٹھنے والی چنگاری کو بجھا کر رکھ دیا جائے جس میں شاید انہیں کامیابی کم نقصان زیادہ ہوا اور اسی مقصد کے پیش نظر ابھی دو سال قبل ابو بکر البغدادی کی قیادت میں اسلامک اسٹیٹ کے نام پر جو خونی کھیل شروع ہوا وہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے جسے امریکہ اور دیگر یورپین ممالک کا تعاون حاصل ہے ۔اس کے ذریعہ اسلام کے چہرہ کو مسخ کرنے اور اسلام کی طرف مائل ہونے والوں کو اس سے بیزار کرنے کی کوشش کی گئی جس میں انہیں ناکامی ملی ۔
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ یہ کردار سے پھیلا ہے تلوار کے زور سے نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکین کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے اپنے کردار کو پیش کیا تھا۔ قرآن حکیم میں ہے
فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَO
’’بیشک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo‘‘
يونس، 10 : 16
لوگوں میں عمر گزارنا سیرت و کردار کا پتا دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق اور امین جانے جاتے تھے اور کفار و مشرکین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن اخلاق اور حسن کردار کا اس حد تک اعتراف تھا کہ بت پرستی پر قائم رہنے کے عوض وہ وہ آپ کی ساری باتیں ماننے پر تیار تھے۔ جب وہ اس پر سمجھوتہ نہ کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر مایوس ہو گئے تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء کر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مسلمان حاضر ہوتے تو کوئی زخمی حالت میں ہوتا، کسی کو کوڑوں سے مارا گیا ہوتا، تو کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا ہوتا۔ یہ درد ناک صورتحال دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو صبر کی تلقین فرماتے۔
تبيان القرآن، 5 : 762
بیعت عقبہ اولیٰ کے موقعہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ روانہ فرمایا۔ ان کی دعوت اس قدر پر اثر ثابت ہوئی کہ اگلے سال حضرت مصعب رضی اللہ عنہ 75 مسلمانوں کو بیعت عقبہ ثانیہ کے لئے مکہ لے کر آئے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے ہمراہ 12 انصار صحابہ کو نقباء مقرر فرما کر مدینہ رخصت کیا اور جب ہجرت مدینہ ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کی غالب اکثریت اس حال میں مسلمان ہو چکی تھی کہ نہ تلوار اٹھائی گئی اور نہ ہی اذن قتال نازل ہوا تھا۔
قرآنی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 63 سالہ انقلابی جدوجہد سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جتنے بھی معرکے ہوئے، ان میں کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ضرورت کے وقت دفعِ شر اور فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے جنگ میں پہل کی گئی لیکن زیادہ تر معرکوں کی نوعیت دفاعی رہی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی مخالفین نے سرِ تسلیم خم کیا یا راہِ فرار اختیار کی، صلح کے لئے ہاتھ بڑھایا یا ہتھیار ڈال دیئے تو پھر مسلمانوں نے بھی ان پر ہتھیار نہ اٹھائے۔ اسلام میں جنگ محض برائے جنگ نہیں بلکہ قیامِ امن کا ذریعہ ہے۔ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو سندھ دار السلام بن گیا۔ یہ محض مسلمانوں کے کردار اور ان کے ثقافتی غلبہ کا اثر تھا کہ غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے اور دنیا میں ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔
آج برصغیر میں 5 کروڑ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں دنیا میں یہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد بنتی ہے جب اسلام انڈیا میں داخل ہوا تھا تو اس علاقے کے لوگوں نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ آج اس بارے میں بہت سارے نظریات پائے جاتے ہیں کہ برصغیر میں کیسےاتنی زیادہ تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس وقت ہندوستان میں کچھ سیاسی و مذہبی ہندو تحریکیں اسلام کو غیر ملکی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ آج یہ پروپیگنڈہ زوروشور سے کیا جارہا ہے کہ اسلام یہاں عرب اور فارسی جنگجووں کے ذریعے پہنچا اور یہ کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان دراصل ان غیرملکی مسلمان حملہ آوروں کی اولاد ہیں جو یہاں لوٹ مار کی نیت سے وقتاً فوقتاً آتے رہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کی تاریخ اس سے بہت زیادہ پُرانی ہے۔
ہندوستان کے قدیم مسلمان
600 ء کے لگ بھگ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے بہت پہلے عرب لوگ تجارت کے ذریعے انڈیا سے رابطے میں تھے عرب تاجر باقاعدگی سے انڈیا کے مغربی ساحلوں پرسامان تجارت بیچتے تھے جیسے مصالحے، سونا اور افریقی سامان وغیرہ۔ جب عربوں نے اسلام قبول کیا تو قدرتی طورپر اسلام عرب تاجروں کے ذریعے ہندوستان کے ساحلوں پر پھیلنا شروع ہوگیا۔ انڈیا میں پہلی مسجدکیرالہ کے مقام پر حضور ﷺ کے دور میں ہی 629 ءمیں تعمیر ہوئی ۔اس طرح عرب مسلمانوں اور انڈیا کےمقامی مسلمان تاجروں کے ذریعے اسلام تیزی سے انڈیا کے ساحلی علاقوں اور قصبوں میں رابطوں کے ذریعے پھیلتا چلا گیا۔
محمد بن قاسم
اسلام کی انڈیا میں مزید اشاعت خاندان بنو امیہ کے دور میں ہوئی جب دمشق میں بیٹھے اموی خلیفہ نے 711 ءمیں بنو امیہ کے ایک نوجوان لڑکے محمد بن قاسم جس کا تعلق طائف سے تھا، کو اموی اقتدار کو سندھ میں توسیع دینے کے لیے مقرر کیا چنانچہ محمد بن قاسم 6000 سپاہیوں کی فوج کے ساتھ مکران پہنچا جہاں اسے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مکران شہر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے ۔ محمد بن قاسم کی مکران آمد پر وہاں کے مقامی بدھ راہبوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ زیادہ تر شہر بغیر لڑائی کے رضاکارانہ طور پر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا ۔ ہندو حکومت کے مظالم سے تنگ بدھ مت اقلیت سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگ بڑی تعداد میں مسلم فوج میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ ہندستان میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے سندھ کا راجہ داھر مسلمانوں کے خلاف ہو گیا اور اپنی فوجوں کو محمد بن قاسم سے لڑائی کے لیے تیار کیا۔ 712 ءمیں دونوں فوجیں فیصلہ کن جنگ کے لیے آمنے سامنے ہوئیں راجہ داھر کو شکست ہوئی اور سارا سندھ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ سارے سندھ کی آبادی مسلمان نہ ہوئی۔ آج بھی اندرون سندھ میں کثیر تعداد میں ہندو آبادی موجود ہے۔ اصل میں مسلمان فاتحین نے کبھی بھی مقامی لوگوں کی روز مرہ زندگی کو نہ چھیڑا ۔محمد بن قاسم نے ہندووں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کی اور بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مقامی ہندو حکومت کے ظلم و زیادتی سے ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا۔اسی مذہبی رواداری اور انصاف کی وجہ سے ہندوستان کے باقی آبادی میں رہنے والے لوگوں نے محمد بن قاسم اور اس کی فوج کو خوش آمدید کہا۔
مسلمانوں کی انڈیا میں مسلسل تیز کامیابیوں کی ایک ہی بنیادی وجہ تھی اور وہ تھی مفتوح لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی۔بعد کی صدیوں میں آنے والے محمود غزنوی اور محمد تغلق وغیرہ نےبھی بغیر کسی مذہبی تبدیلی کے سب کو مکمل حقوق دیے ۔ اسلام کی آمد سے پہلےپورے ہندوستان میں ذات پات کابڑا مضبوط نظام موجود تھا۔ معاشرہ مختلف حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ جب اسلام یہاں داخل ہوا تو اونچی ذاتوں کے مظالم سے تنگ آئی ہوئی پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ اس کی کئی ایک وجوہات تھی ذات پات اور نسل پرستی کے مقابلے میں اسلام کا برابری کا نظام زیادہ پسندیدہ تھا۔ ذات پات کے نظام کی وجہ سے ہندو معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر شخص کےبارے میں معاشرہ پہلے ہی یہ تعین کردیتا تھا کہ تم کیوں پیدا ہوئے ۔ تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ معاشرے میں تمہارا کیا مقام ہوگا۔ اس وجہ سے ہندو معاشرے میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے معاشی ترقی، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور کسی عظیم مقصدکو حاصل کرنے کے لیے کوئی مواقع نہیں پائے جاتے تھےلیکن اسلام میں داخل ہونے کے بعدسب لوگوں کے لیے یکساں مواقع ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے معاشرے میں نام پیدا کرسکیں اور محنت کرکے معاشی ترقی حاصل کرسکیں ۔
برصغیر میں اسلام کی آمد سے پہلے اسی وجہ سے بدھ مت مذہب بہت مقبول تھاکیونکہ اس میں ذات پات کا نظام نہیں تھا روایتی طور پر جب لوگ ذات پات کے نظام سے فرار چاہتے تھے تو لوگوں کی بڑی تعداد نے بدھ مت مذہب کو قبول کیا لیکن جب اسلام آگیاتو لوگوں نے اس ذات پات کے نظام کو چھوڑنے کے لئے بدھ مت کی بجائے اسلام کی طرف پلٹنا شروع کردیا۔
ان مذاہب کی غلط تعلیمات کی وجہ سے اسلام تیزی سے لوگوں میں پھیلنے کی وجہ بنا ۔ مسلمان علماء نے انڈیا کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا اور لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا ۔ انہوں نے زیادہ تر صوفی خیالات کی تعلیم دی اور زیادہ تر لوگوں نے صوفیانہ نقطہ نظر کو اپنایا ۔ البتہ مقامی لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے باوجود صدیوں سے چلتی آئی ہندوانہ تہذیب کےاثرات کو مکمل طور پر نہ چھوڑا اور ان ہندوانہ رسموں کے اثرات آج بھی برصغیر کے مسلمانوں میں شادی ، مرگ اور دوسرے مواقع پردیکھے جاسکتے ہیں۔
کیا اسلام طاقت سے پھیلا؟ یہ اسلام پر بہت بڑا الزام ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کی وجہ مسلمان حکمرانوں کی زبردستی اور تشدد ہے ۔یہ بات سچ ہے کہ برصغیر کے بہت سے علاقوں میں مسلمان حکمرانوں نے ہندو حکمرانوں کو شکست دے کر ان کی جگہ لی لیکن رعایاپر تشدد اور لڑائی کی کہانیاں بہت ہی کم ہیں اور ان میں سے اکثر ناقابل اعتبار ہیں۔ اگر اسلام تشد د اور جنگ سے پھیلا ہوتا تو انڈیا میں آج جو مسلمانوں کی آبادی موجود ہے وہ اس موجودہ مسلم آبادی سے کہیں زیادہ ہوتی ۔ چنانچہ برصغیر کا مغربی اور شمالی حصہ مکمل طور پر اسی مسلم آبادی پر مشتمل ہوتا کیونکہ یہاں مسلمان حکمرانوں نے مسلسل کئی صدیوں تک حکومت کی ہے اگر وہ چاہتے تو تمام لوگوں کو بڑی آسانی سے مذہب تبدیل کرنے پر مجبورکرسکتے تھے لیکن ان علاقوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب ستے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
اس کی بجائے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلا م پورے برصغیر میں پھیلا ہوا ہے ان علاقوں میں بھی جہاں کبھی بھی مسلمانوں کی حکومت نہیں رہی۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش اور اسکی۱۵ کروڑ سے زائد مسلم آبادی بہت دور مشرقی علاقے میں موجود ہے جو کثیر آبادی والے علاقوں سے بہت دور ہے ۔ کم آبادی والی مسلم آبادیاں مغربی میانمار، سنٹرل انڈیا اور سری لنکا کے مشرقی حصے میں موجود ہیں جوکہ برصغیر میں اسلام کے پُرامن طریقے سے پھیلنے کا ثبوت ہے کیونکہ ان علاقوں پر شاذوناذر ہی مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اگر اسلام تشدد سےپھیلا ہے جیسے کہ آج کچھ لوگ کہتے ہیں تو یہ مسلم آبادیاں ان علاقوں میں موجود نہ ہوتیں ۔
اسلام ہندوستان اور اس کی تاریخ کا اہم حصہ ہے حالانکہ برصغیر بہت سارے عقائد اور مذاہب رکھنے والا علاقہ بن چکا ہے آج کے دور میں یہ سمجھنا ضروری ہے اسلام اس علاقے میں اپنی ایک خاص پوزیشن رکھتا ہے ۔ انڈیا اور دوسرے لوگوں کو اس سچائی کو بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام انڈیا میں پر امن طریقے سے پھیلا۔
انڈونیشیا جزیروں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے‘ اس اسلامی مملکت میں تقریباً 17508جزیرے ہیں۔ جن میں چار ہزار کے قریب آباد ہیں۔ پانچ بڑے جزیرے اور 30جزیروں کے جھنڈ رکھتا ہے۔ بڑے جزائر میں سماٹرا، جاوا، کلیمانٹان، سولادیسی اور ایرانی جایا شامل ہیں۔ مملکت میں 90فیصد مسلمان ہیں، باقی آبادی ہندو، بدھ مت اورآبادی آبائی چینی باشندوں اور بت پرستوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک 27صوبوں میں منقسم ہے۔ اِس کی لمبائی 5150 کلومیٹر ہے جو آسٹریلیا تک پھیلا ہوا ہے۔ موسم گرما مرطوب ہے۔ درجہ حرارت 28 تا 33درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ ہوا میں نمی 80فیصد سے زائد ہوتی ہے۔ ستمبر سے مارچ کے اختتام تک موسم برسات رہتا ہے۔
اسلام کی آمد پہلی صدی عیسوی میں ان جزائر میں ہندی تاجروں کی آمد شروع ہوئی۔ ان کی وجہ سے انڈونیشیا میں بدھ مت اور ہندومت پھیلا۔ ساتویں صدی عیسوی میں طاقتور بدھ سلطنت سری وی جایا میں قائم ہوئی جو بڑھتے بڑھتے بورو بودر (Boro Boder) کی سلطنت بن کر مشرقی جاوا میں ابھری۔ انڈونیشیا کے بیشتر علاقے اس کے زیرنگیں آ گئے۔ وہ دو سو سال تک قائم رہی۔ جب انڈونیشیا میں اسلام پہنچا، تو جاوا کی سیاسی حالت یہ تھی کہ اس کے مرکزی اور مشرقی صوبہ جات جو آبادی و تہذیب کے لحاظ سے ترقی یافتہ تھے، مجاپہت (Majapahat)نامی ہندو ریاست کے زیرنگین تھے۔مغربی حصہ میں چربون کی حکومت اور چند چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستیں واقع تھیں۔ جزیرے کا بقیہ علاقہ جس میں مغربی گوشے کے تمام اضلاع شامل تھے۔ وہ راجا پجاجرن کی حکومت میں آتے تھے۔
انڈونیشیا کی تاریخ پُرامن اسلامی تبلیغ کی داستان کا نہایت دلچسپ پُرکشش اور سبق آموز باب ہے جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام تلوارنہیں‘ بلکہ مبلغین اسلام کی کاوشوں، ہمت اور محنت سے پھیلا۔ ہر جگہ تبلیغی کام والیانِ ملک کی سرپرستی یا امداد کے بغیر ہوا۔
دوسری صدی قبل مسیح میں لنکا کی بیرونی تجارت کلیۃً عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ ساتویں صدی کی ابتدا میں چین کے شہر کینٹن میں عرب تاجر بکثرت نظر آتے۔ ملایا میں اسلام ساحل مالابار (ہندوستان) سے آیا جس کی بندرگاہوں میں یمن اور ایران کے تاجر آمدورفت رکھتے تھے۔
ان تاجروں نے ملکی زبان اور رسم و رواج سیکھے، مقامی عورتوں سے شادیاں کیں اور اپنی ذہانت، لیاقت، تقویٰ، ایثار اور عدل و انصاف کی بدولت صف اوّل کے امرا میں شمار ہونے لگے۔
رفتہ رفتہ انھوں نے باہمی اتفاق و یگانگت سے ایک قسم کی وفاقی حکومت بنا لی۔ وہ ملایا اور انڈونیشیا کے جزیروں میں فاتحین کی حیثیت سے داخل نہیں ہوئے بلکہ اپنے کردار اور اخلاق کی بلندی سے تبلیغ کے لیے مضبوط معاشرتی بنیاد فراہم کی۔
مشہور ہے کہ سماٹرا میں اسلام بلادِ عرب سے آیا، لیکن سماٹرا کے پہلے مبلغ غالباً ہندی مسلمان تاجر تھے۔ ملایا کی تاریخ کے مطابق آنجہ کے علاقے میں جو سماٹرا کے شمال مغرب میں واقع ہے ایک عرب بزرگ عبداللہ عارف تبلیغ کی نیت سے بارھویں صدی کے وسط میں داخل ہوئے۔
اُن کا ایک مرید برہان الدین اسلام کا پیغام سماٹرا کے مغربی ساحل پریمان (Preman) تک لے گیا۔ایک قدیم انڈونیشی کتاب، شجرہ ملایو میں لکھا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی، سمودرا (Samudra) کے لوگ اسلام میں داخل ہوں گے۔ اسی لیے شریف مکہ نے چند لوگوں کو سماٹرا بھیجاتاکہ وہاں اسلام کا نور پھیلا سکیں۔ اس جماعت کے سربراہ جناب شیخ اسماعیل تھے۔ وہ مالابار سے روانہ ہونے کے بعد جزیرہ سماٹرا کے مغربی ساحل پاسوری نامی مقام پر وارد ہوئے۔ تبلیغ کی برکت سے وہاں کے باشندوں نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر وہ شمال کی سمت لمبری (Lumbri) نامی علاقے میں گئے۔ پھر وہاں سے آرو (Aro)جو مشرقی ساحل پر ملاکا کے مقابل واقع ہے۔ آرو پہنچ کر سمودرا کا پتا پوچھاگیا جو پیرولاک (Perolhk)کے نزدیک واقع تھا۔ سمودرا میں ان کی ملاقات حاکم سے ہوئی جس کا نام میراہ سالو (Merah Slu)تھا۔ شیخ اسماعیل کی نظر اور ترغیب سے اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اسے خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔
شیخ صاحب نے میراہ سالو کو قرآن کریم کا نسخہ پیش کیا اور پڑھایا پھر اسے راجا بنا کر ’’ملک الصالح‘‘ کا خطاب دیا۔ بعدازاں ملک صالح نے راجا پیرولاک کی بیٹی سے شادی کر لی جس کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔
ابن بطوطہ نے 1345ء میں سماٹرا کی سیاحت کی اور ملک الصالح کے بیٹے ملک الطاہر کو برسرِ حکومت دیکھا یہ بہت متقی اور دیندار بادشاہ تھا۔ شیخ اسماعیل کی کوششوں سے لمبری میں ایک ہزار خاندانوں نے اسلام قبول کیا۔ مملکت آرو کا بادشاہ اور وہاں کی رعایا بھی مسلمان ہو گئی۔
چودھویں صدی کے آخر اور پندرھویں صدی کے آغاز میں مننگ کابو (Menang Kabu)نامی ہندو سلطنت کے بعض سرداروں نے اسلام قبول کر لیا جو جزیرہ سماٹرا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اسلام اس سلطنت میں تیزی سے پھیلنے لگا۔ لمپونگ (Lampung) کے اضلاع میں اسلام سب سے پہلے جاوا ہی کی طرف سے داخل ہوا۔ تبلیغ علاقے کے ایک سردار منک کملا بسومی (Munak Kamlabasumi) نے کی جس نے اسلام قبول کر لیا اور حج بھی کیا۔
پندرھویں صدی کے اختتام پر وہ آبنائے سنڈا (Sunda) عبور کر کے بانتم (Bantam) مملکت میں داخل ہوا جو جاوا کے مغربی ساحل پر واقع تھی اور لوگوں میں دین پھیلایا۔ جاوا میں اسلام کی ترویج وہیں کے ایک شخص نے بارھویں صدی کے قریب کی تھی۔ جاوا کے مغربی حصہ میں پجاجرن ریاست واقع تھی۔
وہاں کے بادشاہ نے دو لڑکے چھوڑے۔ بڑے نے تجارت کا پیشہ پسند کیا اور مال لے کر ہندوستان روانہ ہوا۔ سلطنت اپنے چھوٹے بھائی کے سپرد کر دی جو 1190ء میں پربومنڈنگ سری کے نام سے تخت پر بیٹھا۔ بڑا بھائی عرب تاجروں کی تبلیغ سے مسلمان ہو گیا۔ اس نے عرب مبلغ کی مدد سے اپنے بھائی اور شاہی خاندان کو بھی مسلمان کرنا چاہا، لیکن کامیاب نہ ہوا۔
چودھویں صدی کے نصف میں ملک مولانا محمدابراہیم چند مسلمانوں کے ساتھ جزیرہ مدورا کے مقابل گریسک (Gresuk) شہر میں آباد ہوئے اور تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ 1419ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ گریسک میں مدفون ہیں۔ ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔
راجا مجاپہت نے چمپا کے راجا کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ چمپا ریاست کمبوڈیا میں واقع تھی۔ اس رانی کو راجا کی دوسری حرم سے حسد پیدا ہوا۔ راجا نے دوسری حرم کو اپنے بیٹے آریا دامر کے پاس بھجوا دیا، جو سماٹرا میں پالم بنگ (Palam Bung) نامی علاقے کا حاکم تھا۔ وہاں اس رانی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام رادن پتہ رکھا گیا۔ اس دوران راجا چمپا کی دوسری لڑکی مسلمان ہو گئی۔ ایک عرب سے اس کی شادی ہوئی جس سے رئیس المبلغین جناب رادن رحمت پیدا ہوئے۔
جب رادن رحمت کی عمر 20برس ہوئی، والدین نے اُسے اپنے خالو مجاپہت کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ راستے میں دو ماہ پالم بنگ میں آریا دامر کے مہمان رہے۔ قریب تھا، اس کو مسلمان کر لیتے لیکن وہ اپنی رعایا کے خوف سے اسلام نہ لا سکا۔ رادن رحمت وہاں سے گریسک پہنچے جہاں جناب شیخ جمادی الکبریٰ نے ان کا استقبال کیا۔ اس نے پیشین گوئی کی کہ انڈونیشیا میں اسلام پھیلانے کا سہرا رادن رحمت کے سر رہے گا۔ رادن رحمت پھر مجاپہت کے راجا کے پاس پہنچے جو ان سے بہت متاثر ہوئے۔
گو وہ خود مسلمان نہیں ہوئے لیکن رادن رحمت کو شہر امپل (Ampel) میں تین ہزار خاندانوں کا حاکم مقرر کر دیا۔ جلد ہی شہر امپل جاوا کا سب سے بڑا اسلامی مرکز بن گیا۔ان کی شہرت سن کر جناب مولانا اسحاق امپل میں تشریف لائے تاکہ رادن رحمت کی مدد کریں۔ مولانا اسحاق کو پالم بنگ کی ریاست میں تبلیغ اسلام کے لیے مقرر کیا گیا۔ یہاں پہنچ کر انھوں نے راجا کی بیٹی کا علاج کیا جسے شفا مل گئی۔ شہزادی نے پھر بڑی گرم جوشی سے اسلام قبول کیا۔ اس کی شادی مولانا اسحاق سے کر دی گئی۔ ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام رادن پاکو رکھا گیا۔
اس کو رادن رحمت کے ہاں بھیج دیا گیا۔ وہیں اس کی پرورش ہوئی۔ پھر رادن رحمت کی لڑکی سے اس کی شادی ہو گئی۔ رادن پاکو نے گری (Giri) میں مسجد تعمیر کی اور ہزاروں لوگوں کو مسلمان کیا۔ رادن رحمت کا انتقال ہوا تو راجا مجاپہت نے اسی کو امپل اور گریسک کا حاکم مقرر کیا۔
رادن رحمت کے دو لڑکوں نے جاوا کے شمال مغربی ساحل پر سکونت اختیار کر لی اور تبلیغ کی وجہ سے خوب شہرت پائی۔ راجا آریا دامر نے گو مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا، تاہم اپنے بچوں کی تربیت اسلامی طریقے سے کروائی۔ جب رادن پتہ، راجا مجاپہت کا لڑکا بیس برس کا ہوا، تو آریا دامر نے اسے اپنے رضاعی بھائی رادن حسین کے ساتھ جاوا کی طرف روانہ کیا۔ یہ دونوں گریسک میں رادن رحمت کے ہاں ٹھہرے۔ رادن پتہ نے رادن رحمت کی پوتی سے شادی کرلی۔
اسی دوران اپنی ماں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے باعث رادن پتہ نے راجامجاپہت کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ اس نے بنترا کے دلدلی علاقے میں جو گریسک کے قریب واقع تھا، سکونت اختیار کرلی۔ ادھر رادن حسین کو راجا مجاپہت نے اپنا سپہ سالار مقرر کیا اور ایک ضلع کا حاکم بنا دیا۔ بعدازاں اس نے رحمت پتہ کو راجا مجاپہت کے پاس لے جانے کی سعی کی جس میں وہ کامیاب ہو گیا۔
باپ نے بیٹے کو معاف کر دیا اور اسے بنترا کا حاکم مقرر کیا۔ تاہم رادن پتہ اپنی ماں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نہ بھول سکا۔ اس نے 1478ء میں باپ کے خلاف سات روزہ سخت جنگ لڑی جس میں راجا مجاپہت کو شکست ہوئی۔
یوں جاوا کے مشرقی حصہ میں ہندو راج کے بجائے ایک اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ اس واقعہ کے بعد بہت سے ہندو جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا، بھاگ کر بالی جزیرے میں آباد ہو گئے۔ اس جزیرے کی ہندو آبادی شیو دیوتا کی پجاری ہے۔
وسطی جاوا میں بھی ہندو مت کی جڑیں مضبوط تھیں۔ 1768ء میں جا کر منو سمرتی اور ہندوئوں کی دیگر قانونی کتابیں وہاں منسوخ ہوئیں۔ مشرقی جاوا میں اسلام سولھویں صدی کے آغاز میں جناب شیخ نور الدین ابراہیم کی تبلیغ سے پھیلا جو چربون کے رہنے والے تھے۔
شیخ مذکور نے ایک جذامی عورت کا علاج کیا۔ اسے اللہ پاک نے شفا بخشی۔ اس واقعے کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ہزاروں افراد ان کے پاس اسلام کی تعلیم پانے آئے۔ کئی راجے بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ شیخ نور الدین نے اپنے بیٹے مولانا حسن الدین کو اسلام کی تبلیغ کے لیے بانٹم بھیجا جو پجاجرن کے ہندو راجا کے زیر نگیں تھا۔ وہاں کے لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
مغربی جاوامیں اسلام پھیلنے کی رفتار سست رہی کیونکہ شیو کے پجاریوں اور مسلمانوں میں عرصہ دراز تک کشمکش رہی۔ سولھویں صدی کے وسط سے پہلے پجاجرن ہندو سلطنت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ پجاجرن سلطنت ختم ہوئی، تو وہ باشندے جو آبائی مذہب پر رہنا چاہتے تھے، جنگلوں اور پہاڑوں میں جا چھپے۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے سلطان بانٹم کی اطاعت اختیار کر لی۔
یوں اسلام کو بت پرستی پر مکمل فتح حاصل ہوئی۔ مغربی جاوا میں شریعت اب ایک زندہ قوت ہے۔ رئیس المبلغین رادن رحمت کی لحد سرابایا (Surabaya)میں مرجع خلائق ہے۔ مولانا محمد ابراہیم، مولانا محمد اسحاق اور ان کے چند متعلقین کے مزار گریسک میں مرجع خلائق ہیں۔ وہاں صرف قرآن خوانی ہوتی ہے۔
سنہ 1600ء میں ولندیزی حکومت نے سلطان کو شکست دے کر اس کے ملک پر قبضہ کر لیا۔ ولندیزی رفتہ رفتہ پورے انڈونیشیا پر قابض ہو گئے۔ ان کا قبضہ 1945ء تک برقرار رہا۔ اس دوران اسلام کو یورپی تہذیب و تمدن کی یلغار کام سامنا کرنا پڑا۔ تب اسلام کی بقا کے لیے1912ء میں ’’ محمدیہ تحریک‘‘ نے جنم لیا۔
اسی دور میں اسلام اور قدیم ہندو تہذیب و بدھ مت1912 ء کی تہذیب کا امتزاج شروع ہوا۔ یہ عمل روکنے کے لیے دیگر اسلامی تحریکیں مثلا ’’شرکت الاسلام‘‘ اور’’ نہضتہ العلماء‘‘ وجود میں آئیں۔ آج محمدیہ اور نہضۃ العلماءانڈونیشیا کی سب سے بڑی اسلامی جماعتیں ہیں۔ غیر سیاسی ہیں، لیکن ان کے راہنما سیاست میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ یہ اسلامی جماعتیں تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور صحت کے میدانوں میں خدمت انسانیت میں سرگرم ہیں۔
اسلام مستقبل میں دنیا کا سب سے بڑا مذہب۔پیش گوئی
حال ہی میں یو ٹیوب پر آنے والے چند عشروں میں براعظم یورپ میں اسلام کے اثر و نفوذ کے حوالے سے ایک ویڈیو بہت مقبول ہوئی۔ اس ویڈیو کو ایک کروڑ سے زائد ناظرین نے دیکھا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جو کچھ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے آپ اس پر یقین کرتے ہیں یا نہیں۔
’مسلم ڈیموگرافکس‘ کے نام سے جاری کی جانے والی اس ساڑھے سات منٹ کی ویڈیو میں چمکدار تصاویر اور ڈرامائی موسیقی کی مدد سے کچھ حیران کن دعوے کیے گئے ہیں جن کے مطابق یورپ میں آنے والے چند عشروں میں اسلام اکثریتی آبادی کا مذہب ہوگا۔ اس ویڈیو کے مطابق گزشتہ بیس برس کے دوران یورپ کی آبادی میں ہونے والے اضافے میں سے نوے فیصد مسلمان تارکینِ وطن کی اس براعظم میں سکونت اختیار کرنے کی وجہ سے ہوا۔اس ویڈیو کے مطابق فرانس کی بیس سال یا اس سے کم عمر کی تیس فیصد آبادی مسلمان ہے اور مسلمان خاندانوں میں شرحِ پیدائش میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے فرانس آنے والے انتالیس برس میں اسلامی جمہوریہ بن جائے گا۔ ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں اسّی کے عشرے کے آغاز سے اب تک مسلم آبادی میں تیس گنا اضافہ ہوا ہے۔
ویڈیو میں کیا جانے والا یہ دعوٰی کہ یورپ میں سنہ انیس سو نوے کے بعد آبادی میں ہونے والے اضافے میں سے نوّے فیصد مسلم تارکینِ وطن کی آمد کی وجہ سے ہوا، کچھ حد تک درست ہے۔ یورپی یونین کے اعدادوشمار کے مطابق بھی آبادی میں اضافے کی اہم وجہ تارکینِ وطن کی آمد ہے لیکن یورپ میں آنے والے تمام تارکینِ وطن مسلمان نہیں تھے۔
ویڈیو میں براعظم کی نسبت انفرادی یورپی ممالک کے بارے میں کیے جانے والے دعوے زیادہ چونکا دینے والے ہیں۔ اس کے مطابق فرانس میں جہاں ایک عام فرانسیسی خاندان میں اوسطاً ایک اعشاریہ آٹھ بچے ہیں وہیں فرانسیسی مسلمانوں میں یہ شرح آٹھ اعشاریہ ایک ہے۔اب اب دعوؤں کی تصدیق کیسے کی جائے؟ ان معلومات کے لیے کسی ذریعے کا حوالہ نہیں دیا گیا اور فرانسیسی حکومت مذہب کی بنیاد پر اعدادوشمار اکھٹے نہیں کرتی۔ اس لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ فرانس کے مختلف مذہبی گروہوں میں شرحِ پیدائش کیا ہے۔تاہم اتنی زیادہ شرح پیدائش تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ حتٰی کہ الجیریا اور مراکش، وہ دو ملک جہاں سے سب سے زیادہ مسلم تارکینِ وطن فرانس آتے ہیں، وہاں بھی اقوامِ متحدہ کے سنہ 2008 کے اعدادوشمار کے مطابق شرحِ پیدائش دو اعشاریہ تین آٹھ ہے۔ویڈیو کے مطابق نیدرلینڈ میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے نصف مسلمان ہیں اور آنے والے پندرہ برس میں ملک کی نصف آبادی مسلمان ہوگی۔ تاہم ولندیزی ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمان نیدرلینڈ کی آبادی کا صرف پانچ فیصد ہیں اور اگر یہ مان لیا جائے کہ ملک میں پیدا ہونے والے نصف بچے مسلمان ہیں، تو اس کے لیے مسلمان عورتوں میں شرحِ پیدائش کو دیگر ولندیزی خواتین سے چودہ گنا زیادہ ہونا ضروری ہے۔
کیا ویڈیو میں کیے گئے دعوے کے مطابق بیلجیئم کی پچیس فیصد آبادی مسلم ہے؟ اس حوالے سے بیلجیئن ادارۂ شماریات سنہ 2008 کی ایک تحقیق پیش کرتا ہے جس کے مطابق مسلم آبادی کل آبادی کا صرف چھ فیصد ہے۔ ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ تیس برس میں برطانیہ میں مسلم آبادی میں تیس گنا اضافہ ہوا ہے۔ اور ان کے اندازوں کے مطابق وہاں مسلمانوں کی آبادی بیاسی ہزار سے پچیس لاکھ تک جا پہنچی ہے۔اس حوالے سے سنہ 2001 کی مردم شماری کے نتائج کو دیکھا جائے تو انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں کی تعداد سولہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یقیناً سنہ 2001 کے بعد برطانیہ میں مسلم آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور اس تعداد کا پچیس لاکھ تک پہنچ جانا ناممکن نہیں تاہم اس کی تصدیق سنہ 2011 کی مردم شماری سے ہی ہو سکے گی۔ تاہم ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈاکٹر اینڈریو ہنڈ کا کہنا ہے کہ بیاسی ہزار کا ہندسہ حقیقت سے کہیں کم ہے۔ ان کے مطابق ’ اگر آپ سنہ اکیاسی کی مردم شماری کو دیکھیں تو اس میں مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئی سوال شامل نہیں تھا لیکن اگر سنہ اکیاسی میں صرف پاکستان اور بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے برطانوی مسلمانوں کو ہی گنیں تو یہ تعداد تین لاکھ کے قریب بنتی ہے‘۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں اضافے کی جس شرح کا ویڈیو میں ذکر کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں۔
تاہم ویڈیو میں صرف اعدادوشمار کی ہی بات نہیں کی گئی۔ اس میں جرمنی کا ایک سرکاری بیان بھی شامل ہے جس کے مطابق ’جرمن آبادی میں کمی کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ایک نیچے جانے والا سلسلہ ہے جس کی واپسی کا امکان نہیں اور یہ سنہ 2050 تک ایک اسلامی ریاست ہوگا‘۔یہ بیان جرمنی کے وفاقی شماریات دفتر کے اس وقت کے نائب صدر اور یورپی یونین کے چیف شماریاتی افسر والٹر ریڈرمیکر نے جاری کیا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ جرمنی کی آبادی میں کمی کا رجحان ہے تاہم ان کے مطابق بیان کا آخری حصہ بعد میں شامل کیا گیا ہے اور انہوں نے جرمنی کے مسلم ریاست بننے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔والٹر ریڈرمیکر کے مطابق ’ ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کے حوالے سے یہ کہا جا سکے کہ جرمن حکومت نے ایسی کوئی بات کی ہے‘۔ ویڈیو میں یہ دعوٰی بھی کیا گیا ہے کہ جرمن حکومت کا ماننا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد دوگنا ہو کر ایک سو چار ملین ہو جائے گی۔اس حوالے سے والٹر ریڈر میکر کا کہنا ہے کہ ’یہ سچ نہیں ہے۔ جرمن حکومت نہیں مانتی کہ آنے والے چالیس سے پچاس برس میں مسلم آبادی دوگنی ہو جائےگی۔ اس اندازے کے حق میں کوئی قابلِ اعتماد ثبوت موجود نہیں ہے‘۔آبادی میں اضافہ ایک ایسی چیز ہے جس میں کچھ حتمی نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ سنہ 2050 تک یورپ میں یا کہیں اور کتنے مسلمان رہ رہے ہوں گے۔ حالیہ رجحان کو دیکھا جائے تو یہ بات صحیح ہے کہ سنہ 2050 میں یورپ میں مسلم آبادی کا تناسب آج کے مقابلے میں زیادہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔

یورپ، عیسائیت، اسلام اور اسلامو فوبیا

قسطنطنیہ جسے آج کی دنیا استنبول کے نام سے جانتی ہے۔ سید الانبیائؐ کی زبانِ مبارک سے اس شہر کا ذکر کئی حوالوں سے ہوا ہے اور یہ آپؐ کی پیش گوئیوں کی حقانیت کا امین ہے۔ یہ شہر آپ کی پیش گوئیوں کے مطابق 1453ء میں فتح ہوا۔ لیکن اس عظیم شہر کے بارے میں باقی تمام احادیث اس بڑی جنگ ’’ملحمتہ الکبریٰ‘‘ سے متعلق ہیں جس میں یہ شہرـ ایک بار پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیگا اور سیدنا امام مہدی کی فتوحات میں فتح ہونے والا آخری شہر یہی ہو گا۔ یہ قسطنطنیہ جو اس وقت استنبول کہلاتا ہے اس کی ایک عمارت آیا صوفیہ گذشتہ دو ہزار سال سے تاریخ کے لاتعداد مناظر دیکھ چکی ہے۔ آیا صوفیہ 481 سال تک مسلمانوں کے سجدوں سے آباد رہی، لیکن 1931ء میں اتا ترک نے اپنی اسلام دشمنی میں پہلے اس پر تالے لگائے اور پھر 1935ء میں اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ اب دوبارہ اس کے میناروں سے اذان کی صدا بلند ہونیوالی ہے۔ قسطنطنیہ کا شہر اور یہ عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی تو سناتی ہے لیکن ساتھ ساتھ عظیم بازنطینی رومی شہنشایت کے زوال کی بھی داستان بیان کرتی ہے۔ یہ شہر ایشیا اور یورپ کے سنگھم اور آبنائے باسفورس کے کنارے آباد کیا گیا۔ اس جگہ کا انتخاب رومن بادشاہ قسطنطین نے کیا تھا۔ قسطنطین جب قدیم رومن شہنشائیت کے تخت پر بیٹھا تو پورے ملک میں خانہ جنگی عروج پر تھی اور بادشاہت بکھر چکی تھی۔ اسی دور میں عیسائی راھب رومی بادشاہوں کی عیاشی، اخلاق باختگی اور معاشرتی فحاشی سے تنگ آئے ہوئے عوام میں دن بدن مقبول ہوتے جارہے تھے۔
اس دور کے عیسائی راھب صلیب نہیں اٹھاتے تھے، بلکہ ان کے جھنڈوں پر سواستیکا کی طرح ایک ستارہ ہوتاتھا۔ قسطنطین کی افواج اس خانہ جنگی میں پے درپے شکست کھا رہی تھیں کہ میلان کے مقام پر اس نے ایکدم یہ اعلان کیا کہ اس نے رات کو خواب میں آسمان پر عیسائیت کا نشان چمکتا ہوا دیکھا ہے، جس کی تعبیر کے نتیجے میں اس نے عیسائیت قبول کر لی اور ہتھیاروں پر برکت کے طور پر عیسائیت کا نشان بھی کندہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد جب وہ مقابل فوج پر میلوین پل (Melvin Bridge) کے مقام پر حملہ آور ہوا تو فتح یاب ہو گیا۔ اسی فتح کے بعد ہی وہ 312عیسوی میں متحدہ روم کے تخت پر جلوہ گر ہوسکا۔ اس نے آتے ہی عیسائی راہبوں کے قتلِ عام کا حکم منسوخ کردیا اور عیسائیت کی ترویج، بائیبل کی تدوین اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی شروع کر دی۔ اس کی والدہ ہیلن (St. Helen) نے ایک راھبہ کی حیثیت سے خود کو عیسائیت کے لئے وقف کر دیا، لیکن رومی سیاست کی وجہ سے اعلان نہ کرپائی تو قسطنطین نے اسے بہت سا سرمایہ اور سپاہی دے کر فلسطین بھیج دیا تاکہ وہ وہاں جا کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش پر ایک گرجا گھر (Basilica Of The Nativity) تعمیر کرے۔ یہ گرجا گھر بیت اللحم فلسطین میں آج بھی تمام عیسائی گروہوں کا مقدس ترین مقام تصور ہوتا ہے۔ قسطنطین نے قدیم روم کی بجائے آبنائے باسفورس کے کنارے اس علاقے کو 324عیسوی میں اپنے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا۔ یہ دراصل یونانیوں کا آباد کیا ہوا شہر، بازنطینم (Bazantium) تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر سے حکمرانی کرنے والے رومن بادشاہوں کو بازنطینی حکمران کہا جاتا ہے۔ رومن بادشاہت اب دوحصوں میں تقسیم ہو گئی اور اس کے ساتھ عیسائت بھی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک بازنطینی جن کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا اور ان کا مذہب آرتھوڈوکس عیسائیت تھی، جبکہ دوسری بادشاہت کا مرکز روم تھا جب کا مذہب کیتھولک عیسائیت تھی۔ بازنطینی بادشاہت کا پہلا اہم ترین بادشاہ جسٹینین اوّل تھا۔
اس نے 532عیسوی میں آرتھوڈوکس چرچ کے مرکز کے طور پر یہ عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ تعمیر کرنے کا حکم دیا جو 537عیسوی میں مکمل ہوئی۔ جسٹینین جب تکمیل کے بعد اسے دیکھنے کے لئے اندر داخل ہوا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گیا، جس پر اس نے غرور سے کہا ’’سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا‘‘۔ اس کا اشارہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف تھا جنہوں نے بیت المقدس تعمیر کیا تھا۔ آرتھوڈوکس عیسائیت کے مرکز کے طور پر یہ عمارت تقریباً نو سو سال رہی۔ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا تو شہر کی عیسائی آبادی اس عمارت میں گھس گئی۔ ان کا ایمان تھا کہ اس کے گنبد سے ایک فرشتہ اس وقت تلوار لے کر آسمان سے اترے گا جب ترک دشمن قسطنطین کے ستون تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن سلطان محمد فاتح اس ستون سے گذرتا ہوا اس مسجد کے گنبد والے ہال میں داخل ہوا اور اس نے وہاں کھڑے ہو کر رسولِ اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، گنبد والے فرشتے کے منتظر عیسائیوں کے لئے ویسے ہی فقرے بولے جو رسولِ اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے وقت بولے تھے کہ ’’آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، تم سب امان میں ہو‘‘۔ آیا صوفیہ میں موجود عیسائی خاندان جو اپنی موت اپنے سامنے دیکھ رہے تھے، سلطان کے اس اعلان پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ قسطنطنیہ جو کبھی عیسائی تہذیب کامرکز تھا آج وہاں صرف 0.2فیصد عیسائی ہیں اور وہ بھی باہر سے آئے ہوئے آرمینائی آبادکار۔ سلطان محمد فاتح جمعہ کے دن فجر کے وقت آیا صوفیہ میں داخل ہوا تھا، اس نے کہا کہ چونکہ یہ شہر ہم نے حضرت عمرؓ کے عیسائیوں سے معاہدے کے تحت بیت المقدس حاصل کرنے کی طرح حاصل نہیں کیا بلکہ، لڑکر فتح کیا ہے اس لئے ہم عبادت گاہوں کے ضامن ہیں، ہم جمعہ کی نماز یہاں ادا کریں گے۔ اس دن سے ساڑھے چار سو سال تک یہ جگہ اذانوں سے گونجتی اور سجدوں سے مزین رہی۔
مصطفیٰ کمال اتا ترک نے 1931ء صرف اسلام دشمنی میں اسے بند کیا۔ وہ اسے واپس گرجا گھر بنانا چاہتا تھا، لیکن ایک تو وہاں عیسائی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی اور دوسرا مسلمانوں کا دباؤ۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد آبادی کا بہت بڑا ایک تبادلہ ہو چکا تھا جس کے تحت دس لاکھ عیسائی یونان چلے گئے تھے اور تین لاکھ مسلمانوں کو ترکی بلالیا گیا تھا۔ عیسائیوں کی غیر موجودگی میں آیاصوفیہ ایک بے آباد گرجا گھر ہی رہتا۔ اتاترک کی اسلام دشمنی اسقدر تھی کہ اس نے گرجا بنانے میں ناکامی کے بعد اسے مسجد کی بجائے ایک عجائب گھر بنا دیا۔ آج طیب اردگان کی حکومت 85سال بعد دوبارہ اس ساڑھے چار سوسالہ مسلم تاریخ کو زندہ کرنے جارہی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہاتھا دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں بہت سے سیکولر لبرل تلملائیں گے۔ شور مچے گا، لیکن آثار قدیمہ کے عالمی اصولوں کے مطابق تمام قدیمی عمارتیں اور نوادرات اس ملک کی ملکیت ہوتے ہیںجہاں وہ پائے جاتے ہیں اس لئے آیا صوفیہ بھی مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ آج کے دور میں ملکیت ہی عمارت کا مصرف بتاتی ہے۔ یورپ کے صرف ایک شہر لندن کے پانچ سو بند گرجا گھروں میں 423کو مسلمانوں نے خرید کر مسجد بنایا اور آج ان میں نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ یہ تو باہم رضامندی سے ہوا، لیکن سپین سے جب مسلمانوں کو زبردستی نکالا گیا تو وہاں کی تین ہزار مساجد کو گرجا گھر بنا دیا گیا۔
ان کی تفصیل جسٹن کروسین (Justin Kroesen) نے اپنی کتاب (Mosques To Cathedral) میں دی ہے۔ کیا یہ سیکولر اور لبرل مافیا سپین کی تین ہزار مساجد کو مسلمانوں کے اختیار میں دینے کے لئے آواز بلند کرے گا۔ بابری مسجد میں اذان کی آواز کے لئے جلوس نکالے گا۔ ہرگزنہیں۔ اس لئے کہ دنیا ہر سیکولر، لبرل اور لادین اصل میں مذہب دشمن نہیں ہے بلکہ اسلام دشمن ہے۔ اسے کرسمس کی رونق، ہولی کے رنگ اور دیوالی کے دیپ اچھے لگتے ہیں لیکن اسے مسلمانوں کی اذان سے لے کر بکروں کی قربانی تک ہر چیز سے نفرت ہے۔ آیا صوفیہ میں پچانوے سال بعد بلند ہونے والی اذان ایک ایسے شہر سے اللہ کی بڑائی کا اعلان ہے جو ایک ہزار سال تک یورپی تہذیب کا مرکز رہا تھا۔
ایک زمانہ تھا جب مسلمان یورپ، برطانیہ وغیرہ میں اجنبی تھے۔ اہل یورپ نے مسلمانوں کے لیے دروازے ضرورکھولے، مگر ان کے دل نہیں کھلے تھے،لیکن آج اسلام امریکا و برطانیہ سمیت پورے یورپ میں بڑے زور و شور سے پھیل رہا ہے، اسلامی لٹریچر تقسیم ہو رہا ہے۔ لوگ قرآنی تعلیمات، حقائق، سچائی اور دلائل پر مبنی ریسرچ اور تحقیق کے بعد اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد صرف برطانیہ میں ایک لاکھ لوگ اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔ ویلز یونیورسٹی کے محقق کیون بروس کے مطابق ہر سال 5200 افراد دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قابل ذکر وقت گزارا اور ان سے متاثر ہوئے۔ برطانیہ میں نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے لوگ اسلام جیسے امن پسند مذہب کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ انگلینڈ میں تقریباً ساڑھے 7 ملین، فرانس میں 5 ملین اور جرمنی میں چار ملین سے زائدمسلمان موجود ہیں، ان بڑے ممالک کے علاوہ اسپین، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، یونان وغیرہ میں بھی مسلمان موجود ہیں، جن میں سے اکثر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں۔برطانیہ میں مسلمان ہونے والی آبادی کا 66 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے، برطانیہ میں عام افراد تیزی سے اسلام کی جانب راغب ہورہے ہیں گزشتہ چند برس میں ایک لاکھ سے زائد افراد دینِ حق قبول کرچکے ہیں۔ ان میں اکثریت سفید فام نوجوان خواتین کی ہے۔ جو معاشرے کی بے راہ روی اور مادہ پرستی سے سخت نالاں ہیں۔ یہ خواتین روحانی سکون کی تلاش میں تھیں جو انہیں اسلام میں ملا ہے۔ برطانیہ میں کثیرالمذہبی تنظیم ’فیتھ میٹرز‘ نے ایک طویل سروے کے بعد کہا ہے کہ برطانیہ میں اسلام تیزی سے فروغ پارہا ہے اور اسے قبول کرنے والے خواتین و حضرات کے مطابق اسلام پر عمل پیرا رہتے ہوئے برطانیہ میں رہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ معاشرے سے ’مکمل مطابقت‘ رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کے بعد بھی دینِ اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کا رجحان بڑھا اور برطانوی ذرائع ابلاغ میں اس کا بہت چرچا ہوا تھا۔تاہم فیتھ میٹرز نے کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ مغربی طرزِ زندگی کے خلاف ہیں بلکہ عام نارمل افراد دین کی جانب مائل ہورہے ہیں اور وہ اسلام کو مغربی معاشرے اور اقدار کے ساتھ ہم آہنگ بھی سمجھتے ہیں۔ سروے کے مطابق اسلا م قبول کرنے والے دوتہائی افراد میں سفید فام خواتین شامل ہیں جن کی اوسط عمر 27 سال ہے۔ 50 فیصد خواتین نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسکارف پہنا جبکہ 5 فیصد نے برقع کا انتخاب کیا۔ نصف سے زائد افراد نے کہا کہ اسلام اپنانے کے بعد انہیں اپنے خاندان کے منفی رویے کا سامنا ہوا۔ خوبصورت، مضبوط اور عالیشان عمارتوں، صاف ستھری شاہراہوں پر دوڑتی موٹر گاڑیوں اور بہترین نظم و ضبط والا شہر لندن ان دنوں تہذیبی تبدیلی کے دور سے گذر رہا ہے۔ پہلے جہاں عام طور پر مغربی تہذیب ہی نظر آتی تھی وہاں آج مشرقی اقدار کی جھلک بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ اب یہاں صرف انگریزی طرز زندگی ہی نہیں دکھائی دیتی بلکہ اسلامی تمدن کی روشنی بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ بات صرف لندن ہی کی نہیں بلکہ پورے انگلینڈ کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں فی الحال برطانیہ میں اسلام کی بہارچل رہی ہے ۔ برطانوی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار اور مختلف تحقیقات کے نتیجے ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں اسلام پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے اور عیسائیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ مسجدیں آباد ہو رہی ہیں اور چرچ ویران ہورہے ہیں۔ نئی نئی مسجدیں خوب تعمیر ہورہی ہیں یا پرانی عمارتوں کو خرید کر مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عیسائیوں کی عدم توجہی کے سبب گرجا گھروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گرجا گھروں کے مالکان نے انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کردیا کہ وہ اسے مسجد بنا لیں۔ یہ صورت حال جہاں عیسائیت کے خیر خواہوں کے لئے فکر کا سبب ہے وہیں اسلامی داعیوں کے لئے باعث مسرت ہے۔ اس سے مغربی شہریوں کا مذہب کے تعلق سے مثبت رویہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف جہاں اسلام کی مخالفت ہوتی ہے وہیں دوسری طرف اس کے بارے میں عوام اچھے خیالات بھی رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہوئے ایک نئے ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ اس ملک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے۔ وہیں، چرچ آف انگلینڈ کو کم تعداد میں پیروکار مل رہے ہیں۔ نیٹسین کے برطانوی سوشل ایڈٹس یوٹس سروے کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں چرچ آف انگلینڈ کے 20 لاکھ پیروکار کم ہوئے ہیں تو دین اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں10 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اسلام برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا مذہب بن چکا ہے۔ مسلمان جو دس برس قبل محض تین فیصد تھے اب بڑھ کر پانچ فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ حالانکہ مسلمان ان اعداد کو قبول کرنے سے گریز ہے اور وہ مانتے ہیں کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں مذہب کا خانہ لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے لہٰذا ہرکوئی اپنے مذہب کے بارے میں جواب نہیں دیتا۔ اس رپورٹ کے مطابق 7.2 فیصد شہریوں نے اپنے مذہب کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے مذہب کے بارے میں جواب نہیں دیا ہے ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔رطانیہ میں شائع ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال تقریباً 5 ہزار سے زائد لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ پچھلے عشرے کے دوران اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تقریباً دگنا اضافہ ہوا ہے اور برطانیہ میں اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں۔عام طور پر دین اسلام کے بارے میں ناقص معلومات رکھنے والے غیر مسلم یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انھیں ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے۔ اگر ایسی سوچ رکھنے والے افراد اگریورپ میں اسلام قبول کرنے سے متعلق جائزوں کو غور سے پڑھیں تو انھیں چشم کشا جواب مل جائے گا۔ اعدادو شمار کے مطابق یورپی خواتین، مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اسلام قبول کررہی ہیں بلکہ ان کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً دگنا ہے ۔WHY ISLAM IS OUR CHOICEنامی کتاب جو اسلام قبول کرنے والوں کے خیالات پر مشتمل ہے ،اس کم از کم پچاس نو مسلم خواتین کے اعترفات جمع کئے گئے ہیں ،جنہوں نے محض اس لیے اسلام قبول کیا کہ اسلام کے علاوہ کو ئی دوسرا مذہب ایسا نہیں ،جس نے خوتین کو اتنے حقوق دئے ہوں ،یہ اعترافی بیانات اور اس کے علاوہ نو مسلم خواتین کی روز افزوں تعداد مغرب کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی قلعی کھول رہے ہیں۔
محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت مغربی یورپ میں مسلمانوں کی آبادی ۲۰ ملین (دو کروڑ) ہے۔ اس وقت یورپ میں عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد یورپ کے مذہبی، سماجی اور سیاسی منظر کا ایک حصہ ہے لیکن بیش تر مغربی ممالک میں ان کی بڑی تعداد کی حیثیت گذشتہ ۶۰سال میں آنے والے تارکینِ وطن کی ہے، اس لیے انھیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں اسلام کے بارے میں بڑی حد تک لاعلمی پائی جاتی ہے۔ یورپ کے اکثر باشندوں کو دیگر مذاہب کے بارے میں سرسری علم ہے لیکن اس کے باوجود وہ نہ صرف اسلام کے بارے میں اپنی راے دینے سے احتراز نہیں کرتے بلکہ پوری تحدی سے منفی، حتیٰ کہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ میڈیا نے اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور اس منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر وہ اسلام کو ’بنیاد پرستی‘، ’انتہا پسندی‘ یا اب ’دہشت گردی‘ کے ہم معنیٰ سمجھنے لگے ہیں۔ ان میں چند ہی افراد نے اسلام کا معروضی یا بھر پور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مآخذ معتبر نہیں ہیں۔ اکثریت کا اسلام کے بارے میں راے کا دار و مدار متعصب مبلغوں، سیاست دانوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں پر ہے یا پھر ان کی راے متعصب، تنگ نظر مطبوعات سے متاثر ہوتی ہے۔ اسلام کے بارے میں کچھ مآخذ یقیناًقابل اعتبار ہیں لیکن ان کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ مستند معلومات فراہم کی جائیں اور اس پر گفت و شنید ہو۔ قابل اعتماد معلومات کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
یورپ میں مسلمانوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے اور ان کے حل کے لیے منظم کوششوں اور واضح لائحۂ عمل کی ضرورت ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اپنے ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔
lہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ امریکا میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے افسوس ناک واقعے کے بعد دہشت گردی کے جو دیگر واقعات ۷جولائی۲۰۰۵ء کو لندن میں اور پھر میڈرڈ، اسپین اور دیگر مقامات پر رونما ہوئے، ان کے باعث یورپ میں مقیم مسلمانوں کے تحفظ اور مسلمانوں کے متعلق خدشات اور مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے غیر مسلم پڑوسیوں کے دل و دماغ میں بے اعتمادی اور مخالفت پیدا کرنے والے متعدد دیگر واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ اس کا ثبوت You Govجائزے کے یہ اعداد و شمار ہیں جو انگلستان میں راے عامہ کے آئینہ دار ہیں:m ۵۸فی صد افراد کے مطابق اسلام کا تعلق انتہا پسندی سے ہے m۵۰فی صد افراد کے مطابق اسلام کا تعلق دہشت گردی سے ہے mصرف ۱۳ فی صد افراد کی راے میں اسلام کا تعلق امن سے ہے mصرف ۶ فی صد افراد کی راے میں اسلام کا تعلق انصاف سے ہےm۶۹فی صد افراد کی راے میں اسلام عورتوں پر ظلم کرنے کی ہمت افزائی کرتا ہے۔
انگلستان کی مذکورہ بالا صورت حال کم و بیش دیگر یورپی ممالک کی بھی عکاس ہے۔ اس کے پیش نظر ہمیں اسلاموفوبیا (اسلام کے خلاف نفرت)، میڈیا میں اسلام کے منفی تصور اور اسلام کو انتہاپسندی اور عورتوں پر ظلم سے غلط طور پر منسلک کرنے جیسے مسائل پر توجہ کرنا چاہیے۔
lپورے یورپ میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کا آج کل عروج ہے۔ اسلام کے خلاف ان کی دشمنی کوئی راز نہیں۔ اس کا اظہار ڈنمارک میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، ہالینڈ میں قرآن مجید کے خلاف فلم کی تیاری اور انگلستان کے متعدد شہروں میں انگلش ڈیفنس لیگ کے جلوسوں سے ہوتا ہے۔ غرضیکہ یورپ کے مسلمان نسل پرستی، تعصب اور زندگی کے تمام شعبوں میں ناانصافی کا شکار ہیں۔ یہ مسائل تعلیمی اداروں، ملازمتوں، محلوں اور بستیوں، غرض ہرجگہ موجود ہیں۔
lدیگر تارکینِ وطن کی مانند مسلمان بھی مختلف ممالک سے یورپ آئے اور ان کا مقصد ملازمت یا تعلیمی لیاقت حاصل کرنا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ میں افرادی قوت کی شدید کمی تھی۔ لہٰذا ان یورپی ممالک نے کم تنخواہ پر مزدوروں کی آمد کا خیر مقدم کیا۔ آج چونکہ عالمی پیمانے پر کساد بازاری ہے، ملازمت سے کارکنوں کو برطرف کیا جارہا ہے اور بے روزگاری سنگین سطح پر پہنچ چکی ہے، اس لیے ملازمت کا حصول اور مشکل ہوگیا ہے۔ مقامی آبادی میں یہ تاثر عام ہے کہ تارکینِ وطن (جن میں مسلمان شامل ہیں) نے ان کی ملازمتوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ آج متعدد یورپی ممالک میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت عام ہے۔
l ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں جب مسلمان مرد یورپ آئے تو ان کا خیال تھا کہ وہ مختصر قیام کے بعد وطن واپس چلے جائیں گے اور اس قیام کے دوران میں وہ معقول رقم پس انداز کرلیں گے تاکہ اپنے اہل خانہ کی کفالت کرسکیں۔ ان کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنے وطن پھر جابسیں گے، لیکن وطن واپسی کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ صرف چند افراد واپس گئے اور وہ بھی وہاں دوبارہ نہ بس سکے بلکہ واپس آگئے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے ان تارکینِ وطن کے بیوی بچوں نے یورپ کا رخ کیا۔ اس کے نتیجے میں دینی تعلیم، اسلام کی ثقافتی اقدار کی منتقلی اور ترویج اور اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلامی عائلی قوانین، عائلی نظام، اسلامی اسکولوں اور مدارس میں مسلم بچوں کی تعلیم، اسکولوں، ہسپتالوں اور جیلوں میں حلال کھانے کا انتظام اور مسلمانوں کی تدفین کے انتظام سے متعلق سماجی معاملات اور مسائل بھی پیدا ہوئے۔ دیگر مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑا، مثلاً مسلم خواتین کا حجاب اور نقاب کا استعمال۔ اس سے بڑا تنازع کھڑا ہوا اور اس کے نتیجے میں فرانس میں حجاب پر پابندی لگی۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے مسجد کے لیے میناروں والی عمارت کو ممنوع قرار دیا۔ اب فرانس کی حکومت سڑکوں پر نماز کی ادایگی کے خلاف قدم اٹھانے والی ہے، جب کہ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مسجد کے اندر اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ تمام نمازی اس کی عمارت کے اندر نماز ادا کرسکیں۔
lاسلام کے بارے میں لاعلمی کے نتیجے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس کے باعث اسلام کا حقیقی پیغام اور اس کی اقدار یورپ کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں۔ اس کا ثبوت You Govجائزے کے یہ اعداد شمار ہیں:m۶۰فی صد افراد نے کہا کہ وہ اسلام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے m۱۷فی صد افراد نے کہا کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب پیدا کرنے میں بڑا ہاتھ اسلام مخالف میڈیا اور اس کی متعصبانہ رپورٹوں کا ہے۔ مذکورہ بالا جائزے سے یہ حقائق سامنے آئے: m۵۷فی صد افراد کا اسلام سے متعلق معلومات کا ذریعہ ٹی وی ہے m۴۱فی صد افراد کا اسلام سے متعلق معلومات کا ذریعہ اخبارات ہیں۔شریعت، جہاد، حجاب اور دیگر اسلامی اصطلاحات اس حد تک بدنام ہوچکی ہیں کہ ان کے استعمال سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ اسلام کی تصویر سفاکیت اور وحشیانہ پن سے عبارت ہے۔ اس شدید غلط فہمی کا سد باب کرنا اور حقیقی، مستند اسلامی تعلیمات سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو روشناس کرانا ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
مسلم معاشرہ لسانی، قومی اور فرقہ وارانہ یا مسلکی بنیادوں پر منتشر، منقسم اور ایک دوسرے سے دُور ہے۔ مسلمانوں کے اپنے ممالک میں جو مسلکی اور نظریاتی اختلافات تھے، وہی اختلافات یورپ میں مقیم مسلمانوں میں بھی در آئے ہیں۔ اسلام دشمن قوتیں یہ تحقیق نہیں کرتیں کہ ہمارا تعلق اسلام کی کس شاخ یا فرقے سے ہے۔ ان کی مخالفت اسلام سے ہے۔ افسوس کہ ہم باہمی اختلافات میں برسر پیکار ہیں ؂
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
مزید برآں، مسلم اُمت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے نمٹنے کے لیے عقلی اور ذہنی صلاحیتوں سے مالامال ہو۔ اس کے لیے ہمیں غیرمعمولی صبر، حکمت اور دُوراندیشی کی ضرورت ہے۔ مغرب میں اسلام کے خلاف تمام منفی تصورات کی بیخ کنی کے لیے ہمیں سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہم جس معاشرے میں مقیم ہیں اس میں ہم اپنا ایسا مقام بنائیں جس کی مدد سے ہم اپنے خلاف غلط فہمیوں، تعصبات اور شکوک کو دور کریں۔ مغربی معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان کے حل کے لیے بھی ہمیں کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ اب ہم بھی اسی معاشرے کا جزو ہیں۔
ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہم بلاشبہہ فی الوقت متعدد مسائل سے دوچار ہیں، البتہ ہمارے لیے متعدد امکانات اور مواقع بھی ہیں۔ مسائل سے گھبرانے یا ہمت ہارنے کے بجاے ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ سورۂ انشراح میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے:
فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا oاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o(انشراح ۹۴ : ۵۔۶) پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
اس آیت کریمہ کی تکرار ہمیں یہ اطمینان دلاتی ہے کہ مسائل اور مصائب وقتی ہیں اور بہتر مستقبل ہمارا منتظر ہے۔ بعض مفسرین نے اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ دونوں آیات میں تنگی کے لیے قرآنی لفظ عسر میں تخصیص کے لیے ال کا استعمال ہوا ہے، فراخی کے لیے قرآنی لفظ یسر میں ایسی کوئی تخصیص نہیں۔ بالفاظِ دگر اﷲ تعالیٰ نے ایک پریشانی کے لیے دگنی زیادہ فراخی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اس امر پر ہم غور کریں کہ اللہ حکیم ہے اور اس کائنات میں رونما ہونے والے تمام واقعات اس کی حکمت پر مبنی ہیں۔ لہٰذا یہ سوال قدرتی ہے کہ حکمت الٰہی نے تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں مختلف ممالک سے جمع کرکے یورپ میں کیوں مجتمع کیا؟ اس نکتے کا اعادہ بر محل ہے کہ ہم اس سے قبل بھی یورپ میں مقیم رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ۷۰۰ برس تک (۷۱۱ء سے ۱۴۹۲ء تک) اسپین پر حکومت کی۔ اس کے بعد ان کو شکست اور در بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ سسلی پر مسلمانوں نے ۲۶۰برس تک (۸۳۱ء سے ۱۰۹۱ء تک) حکومت کی، یہاں بھی انھیں اسپین جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی ترک مشرقی یورپ کے حاکم رہے۔ وہ دریاے ڈینوب تک حکمراں تھے اور آسٹریا کے دارالسلطنت ویانا تک پہنچ گئے تھے لیکن پھر انھوں نے پسپائی اختیار کی۔ اب اس صدی میں لاکھوں مسلمانوں نے یورپ کو بطور اپنے وطن اختیار کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں ان کی حیثیت فاتح کی نہیں بلکہ تارکینِ وطن کی ہے۔
اس موقع پر ممتاز اسلامی مفکر نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء ۔۲۰۱۱ء) کی ایک تقریر کا حوالہ مناسب رہے گا۔ کئی سال قبل مانچسٹر، برطانیہ میں ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ اہم نکتہ پیش کیا کہ یورپ میں مسلمانوں کی صورت حال فرعون کے محل میں حضرت موسٰی ؑ کے داخلے سے مشابہ ہے۔ وہ اس وقت ایک ناتواں، بے بس بچے تھے۔ فرعون ہی کے محل میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی۔ انھوں نے حکمراں طبقے کے طور طریقے وہاں سیکھے تاکہ وہ آیندہ قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں۔ فی الحال یورپ میں مسلمان بھی کمزور اور پسماندہ ہیں۔ ہمیں یہاں اس لیے لایا گیا ہے تاکہ ہم مغرب کی سائنس اور ٹکنالوجی پر حاوی ہوں اور اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیغام کی بھی اشاعت کریں تاکہ اسلام کے معاندین کے دل و دماغ کو مسخر کریں۔ اس نکتے کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ یورپ میں مسلم نوجوانوں کی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، ان کو زندگی میں کامیابی کے بہتر مواقع حاصل ہیں، ان کو مسلم ممالک کی بہ نسبت یہاں اظہار خیال اور آزادیِ راے زیادہ میسر ہے۔ ان کے ذہن مسلم ممالک کی بدعنوانیوں سے مسموم نہیں ہیں۔ ان تمام اُمور کے پیش نظر اس کی زیادہ توقع ہے کہ وہ اپنا اسلامی تشخص اور اسلامی کردار قائم رکھیں گے جس سے دنیا کے دیگر ممالک میں غیر مسلموں میں اسلام کی جانب رغبت اور کشش پیدا ہوگی۔
ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کے معنیٰ اور پیغام پر غورو فکر کریں اور یہ ہدایت حاصل کریں کہ غیر مسلم معاشرے میں ہم اپنی زندگی کیسے بسر کریں۔ انبیاے کرام ؑ بالعموم غیرمسلم معاشرے میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ قرآن مجید سے یہ واضح ہے کہ بیش تر انبیا نے دعوت کا آغاز غیرمسلم معاشرے سے کیا۔ بسا اوقات ان کی آواز تنہا تھی۔ ان کے پیغام کا لب لباب تھا: میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (الشعراء ۲۶: ۱۰۷۔۱۰۸)۔ یہ کہ میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمھارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ کے رسول بنی نوع انسانی کے لیے ہدایتِ الٰہی لاتے رہے ہیں۔ یہ ان کا فرض تھا کہ وہ پیغام الٰہی کی ترسیل بنی نوع انسانی تک کریں، یہی فریضہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا۔ حضور اکرمؐ نے اپنا فریضہ کما حقہٗ انجام دیا، اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اسوۂ مبارک پر عمل پیرا ہوں اور ان کے پیغام کو اپنے اہل خانہ، احباب، پڑوسیوں اور عام لوگوں تک پہنچائیں۔
لوگوں سے باہمی معاملات اور کسی کے ذمے سپرد کسی فریضے کی ادایگی کی ضمن میں امانت کی بہت اہمیت ہے۔ اس سے مراد روز مرہ کی زندگی میں دیانت داری اور اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی بھی ہے۔ قرآن کی یہ ہدایت سورۂ بقرہ آیت ۲۸۳ اور سورۂ انفال آیت ۲۷ میں واضح طور پر ملتی ہے۔ امانت سچے اہل ایمان کی امتیازی خصوصیت ہے (المومنون ۲۳: ۸ ، المعارج ۷۰:۳۲)۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد اور سب کے ساتھ اعتماد کا ماحول پیدا کریں۔ لوگوں کو ہماری دیانت داری اور اخلاص پر بھروسا ہونا چاہیے۔ نبوت کے عطیۂ الٰہی سے قبل بھی حضور اکرمؐ کا لقب امین تھا اور یہ ان کی دیانت داری کے اعتراف کے طور پر تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ کے کافروں نے آپؐ کے پیغام کو مسترد کردیا لیکن وہ اپنی امانتیں آپؐ ہی کی تحویل میں دیتے تھے۔
انبیاے کرام ؑ کا اپنی امتوں سے تعلق سر تا سر اخلاص پر مبنی تھا۔ یہ ان کی دلی خواہش تھی کہ لوگوں کی اصلاح ہو اور پوری اُمت کی فلاح و بہبود ہو۔ غرضیکہ نصیحت ایک فعال بامقصد فعل ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق دین نصیحت ہے (مسلم) ۔ بالفاظ دیگر معاشرے سے ہمارا تعلق اخلاص پر مبنی ہوتا ہے اور ہم ایک دوسرے اور پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ تصور کیا جاتا ہے۔ میزبان آبادی کی راے میں ہم ان کی اقدار اور تہذیب کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے بعض نادان دوستوں کا یہ خیال سرتاسر بے وقوفی ہے کہ یورپ میں ہمارے قیام کا مقصد خلافت قائم کرنا اور شریعت نافذ کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں کے دل و دماغ مسخر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں انھیں یہ یقین دلانا چاہیے کہ ہم قابل اعتبار ہیں اور یہ کہ ہم ان کی فلاح و بہبود کے لیے مخلص ہیں۔
انبیاے کرام ؑ کی ایک امتیازی صفت صبر ہے۔ قرآن مجید میں ان کو صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ صبر سے مراد برداشت، ہمت اور مشکلات سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انسان پریشانی، ناامیدی اور یاس پر قابو پائے اور اپنے نقطۂ نظر پر مضبوطی سے قائم رہے۔ بالعموم لوگ صبر کو کمزوری اور مجبوری کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بے بسی میں انسان بلا شبہہ ان کیفیات سے دوچار ہوتا ہے، البتہ صبر کے حقیقی معنیٰ مسائل پر ہمت اور عزم کے ساتھ قابو پانا ہے۔
قرآن کریم میں جابجا حضوؐر اکرم کو صبر پر کاربند رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بالخصوص اپنے مخالفین کے جواب میں اور کافروں کے انکارِ حق کے جواب میں صبر کرنے اور نماز کا مشورہ دیا گیا ہے (البقرہ ۲:۱۵۳)۔ مکی دور میں انھیں ۱۸ مرتبہ صبر کی نصیحت کی گئی ہے۔ ہمیں بھی اشتعال اور مخالفت کا سامنا صبر سے کرنا چاہیے۔ بحیثیت قوم ہمارا ردّعمل بالعموم جذباتی ہوتا ہے۔ ہمیں مدلل اور منظم انداز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی مشق کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مخالفین کے مقابلے میں اس صفت میں ان سے ممتاز ہونا چاہیے۔ قرآن کا مطالبہ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo(اٰل عمران ۳ : ۲۰۰)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو۔ باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ۔ حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔
اگر ہمیں یہ پختہ یقین ہو کہ ہمارا نقطۂ نظر معاشرے کی فلاح کے لیے ہے تو ہم مخالفت کے باوجود بھی صبر کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھیں گے۔
ہدایت قرآنی اور انبیاے کرام ؑ کی روشن مثالوں کے پیش نظر بالخصوص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری اولین ترجیح اخلاص کے ساتھ اسلام کی ترویج اور تبلیغ ہونا چاہیے۔ اسی کی مدد سے ہم مغرب میں لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ صبر اور برداشت کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ ہمیں عام آدمی کے ذہن میں اسلام کا تصور بدلنا چاہیے۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کو بھی اس کا قائل کرنا چاہیے۔ دشمنی پھیلانے کے بجاے ہمیں انھیں اسلام سے قریب لانا چاہیے۔ ہمیں اس کا احساس ہونا چاہییے کہ معاشرے میں صاف اور صحیح ذہن کے لوگ ہیں اور ہرشخص اسلام یا اس کی تعلیمات کا مخالف نہیں ہے۔ انھیں بھی ہماری طرح انصاف، امن اور مساوات کی اقدار عزیز ہیں۔ اگر ہم انھیں اسلام قبول کرنے کے لیے قائل نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم انھیں اس حد تک اپنا ہم نوا بنائیں کہ وہ نفرت اور مخالفت کے ماحول میں حضرت ابوطالب کی مانند ہماری مدد کریں۔ اس کے لیے ہمیں بین المذہبی مکالمے میں حصہ لینا چاہیے اور افہام اور تفہیم کو فروغ دینا چاہیے۔ اگر ہم اپنی مہم کا آغاز اس طور پر کریں گے تو ہمیں یقیناًنصرت الٰہی ملے گی اور اس سے اسلام کے خلاف نفرت اور تعصب کم ہوگا۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات لوگوں تک پہنچیں گی تو ان کے دل متاثر ہوں گے۔ اس میں کامیابی کے لیے سورۂ نحل کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق ہمیں دعوت کا کام کرنا ہوگا:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶: ۱۲۵)، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔
ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب مسلمان بڑی تعداد میں مغرب میں وارد ہوئے تو ابتدا میں انھیں یہاں مقیم ہونے اور بسنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یورپ کا ماحول ان کے لیے نیا اور اجنبی تھا۔ اسی طرح ابتدا میں جب مسلمانوں کا سابقہ بالکل مختلف سماجی اقدار اور تہذیب سے پڑا تو انھیں اپنی اقدار اور تہذیب کے تحفظ کی فکر ہوئی۔ اس ابتدائی رد عمل کے باعث انھیں علیحدہ رہنے، وسیع تر معاشرے سے الگ تھلگ رہنے کی عادت پڑی تاکہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔یہ رویہ آج بھی موجود ہے۔ اس طرز فکر کے غیر سود مند ہونے کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ بقیہ دنیا سے کنارہ کش ہوکر تشخص قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ مسلمانوں میں ایک گروہ اس فکر کا علم بردار رہا کہ مغربی اقدار اور ثقافت سے مکمل ہم آہنگی اختیار کی جائے اور اسلامی تعلیمات کو اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے خیر باد کہا جائے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔بقول اقبال :
حدیثِ بے خبراں ہے ، تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد ، تو بازمانہ ستیز
گویا اقبال کے نزدیک انسان میں موجودہ اور باطل طریقۂ حیات کو تبدیل کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔
مسلم ممالک میں آج بھی ایسے افراد ہیں جو مغرب کی مادی ترقی اور خوشحالی سے حد درجہ مرعوب ہیں۔ ان کی راے میں مغربی طور طریقے اختیار کرکے ہم بھی خوشحالی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اندھی نقالی اور ذہنی غلامی سے ان مسلم ممالک کی تقدیر یا حالت نہیں بدل سکتی۔
ہمارے درمیان گذشتہ چند سالوں میں انتہا پسندی کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ایک مختصر گروہ بآواز بلند مغرب سے ٹکراؤ اور آویزش کا حامی ہے۔ یہ مغربی اقدار کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور ان کی جگہ اسلامی اقدار قائم کرنے پر مصر ہے۔ یہ گروہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ مغربی اقدار بھی یہودیت اور عیسائیت سے ماخوذ ہیں۔ اس نکتے کی جانب حال میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اشارہ بھی کیا ہے۔ مختصراً تینوں مذاہب کی اقدار بنیادی طور پر دینِ ابراہیم ؑ سے مستعار ہیں اور بعض اقدار ان تینوں مذاہب میں مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت میں انتہا پسندی کی مطلق کوئی گنجایش نہیں۔ تمام انبیاے کرامؑ نے امن اور یگانگت کی تعلیم دی ہے۔ انھوں نے معاشرے کی اصلاح اندرونی طور پر کی۔ انھوں نے اپنے نظریات نافذ کرنے کے لیے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا، بلکہ اس کے برخلاف انھوں نے تشدد کو برداشت کیا اور کبھی انتقام نہیں لیا۔ لہذا انتہا پسندی کا رویہ اختیار کرنا خطرناک بھی ہے اور برعکس نتائج کا حامل بھی۔
اس انتہا پسندی کا جواب کیا ہو؟ اسلام یقیناًاجتماعی معاملات میں لوگوں کی شرکت کا علَم بردار ہے۔ ہمیں اس اسلامی حکم پر کاربند ہونے کا حکم ہے کہ بھلائی کو فروغ دیں اور برائی کو روکیں۔ مغربی تہذیب کا نقد و جائزہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سے مراد اس کو یکسر مسترد کردینا یا اس میں بالکل ضم ہوجانا نہیں ہے۔ ہمیں مغربی تہذیب کے تمام پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے، تاکہ ہماری تہذیب سے اس کے مماثل اور مختلف پہلو نکھر کر سامنے آئیں۔ اس کی روشنی میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مغربی تہذیب کے کون سے پہلو پسندیدہ ہیں اور کون سے ناپسندیدہ۔ غرضیکہ ہمیں آزادانہ تنقید کا رویہ اپنانا چاہیے۔ ہمارا ایک مخصوص نظریاتی اور ثقافتی تشخص ہے جس کا مآخذ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات ہیں۔ اسی ہدایت الٰہی کی بدولت ہم ہمہ وقت اپنے ایمان کو تازہ اور مضبوط رکھتے ہیں۔
ان مغربی ممالک میں جہاں جمہوریت رائج ہے اقتدار صرف مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں مرکوز نہیں ہوتا۔ یورپین یونین کے قیام کے بعد قانون سازی اصلاً یورپی پارلیمنٹ میں انجام پاتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کے پس پشت اصل قوت عوام کے منتخب یورپین پارلیمنٹ کے ممبر، متعلقہ ممالک کے ممبر پارلیمنٹ، لوکل کونسلر، میڈیا کے نمایندے، راے عامہ پر اثر انداز ہونے والے گروہ، مرکزی اور مقامی حکومت کے ذمہ داران وغیرہ ہوتے ہیں۔ اقتدار کے مراکز تک اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے ہمیں ان گروہوں کو قائل اور متاثر کرنا ہوگا۔ یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے، البتہ اس کے خوش گوار نتائج مستقبل میں رونما ہوں گے۔
یورپ میں نئی مسلم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں مقیم مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہو۔ یہ قیادت مذہبی، مسلکی اور فقہی اختلاف سے بالاتر ہو۔ یہ قیادت نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ یورپی معاشرے کے مسائل کے حل پر قادر ہو۔ ہمیں توقع ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ عزم اور حکمت کے ساتھ اس نازک اور مشکل ذمہ داری سے عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے۔ اس میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کا جذبہ اور خواہش ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ وہ لوگوں کے دل و دماغ میں ایسے جذبات بیدار کرے جس سے وہ اسلام کے پیغام کے لیے اَن تھک کام کریں۔ ان کا مقصد احسان کے درجے پر فائز ہونا ہو، نہ کہ ضابطے کی خانہ پُری۔
مغرب میں مسلمانوں کو درپیش مسائل سے واقفیت کے باعث ہماری یہ کاوش ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ متحد ہو۔ فی الحال یہ مسلکی، گروہی، فقہی اختلافات کے باعث منتشر ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک مشکل اور طویل المدتی کام ہے لیکن صبر اور استقلال کے ساتھ اس کا حصول ممکن ہے۔ اگر ہم میں تقویٰ اور اخلاص ہے اور ہمارا مقصد رضاے الٰہی کا حصول اور اُخروی نجات ہے تو یقیناًاپنے وعدے کے مطابق اﷲ تعالیٰ ہمیں نصرت الٰہی سے سرفراز کرے گا:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o(العنکبوت ۲۹: ۶۹)،جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقیناًاﷲ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔
(یہ اس کلیدی خطاب کا نظرثانی اور اضافہ شدہ متن ہے جو ۲۶۔۲۸ نومبر ۲۰۱۰ء کو یورپین مسلم کونسل کی افتتاحی کانفرنس بمقام بریسیا، اٹلی میں پیش کیا گیا)۔
بار بار مسلم عسکریت پسندوں کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے فرانس کی چھیاسٹھ ملین کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد پانچ ملین سے زائد ہے اور مسیحیت کے بعد اسلام اس یورپی ملک میں دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔فرانس میں طنزیہ جریدے شارلی ایبدو کے دفاتر پر کیا جانے والا حملہ ہو، گزشتہ برس پیرس میں پانچ مختلف مقامات پر کی جانے والی مربوط دہشت گردانہ کارروائی یا پھر تازہ ترین واقعے میں پیرس کے نواح میں ایک تھانے کے انچارج اور اس کی بیوی کا خنجر کے پے در پے حملوں سے کیا جانے والا سفاکانہ دوہرا قتل، اس یورپی ملک کو گزشتہ کئی برسوں سے اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والےعسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملوں کا سامنا ہے۔
جرمنی کی مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی کے ایک صوبائی سربراہ بیورن ہوئکے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی جماعت نیشنل فرنٹ کی قیادت سے ملاقات کے حامی ہیں لیکن اس بات پر انہیں اپنی ہی پارٹی کے اندر سے کڑی تنقید کا سامنا ہے۔یہ بات شاید زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ جرمنی کے ہمسایہ اس ملک کی 66 ملین کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد یقینی طور پر پانچ ملین سے زیادہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ آئینی طور پر سیکولر ریاست فرانس میں اسلام مسیحیت کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہب بھی ہے۔فرانس میں اسلام اور مسلم آبادی سے متعلق پیش کیے جانے والے قومی اعداد و شمار کے ذرائع مختلف ہیں اور اسی لیے ان میں کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق شمالی افریقہ کی سابقہ فرانسیسی نوآبادیوں سے آنے والے تارکین وطن ہے، جن میں سے الجزائر، مراکش اور تیونس سب سے اہم ہیں۔فرانسیسی مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد دارالحکومت پیرس، لِیوں، سٹراسبرگ اور مارسے جیسے شہروں یا ان کے نواحی علاقوں میں رہتی ہے۔ فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ قومی تنظیم کا نام مسلم کونسل آف فرانس ہے، جو مختصرا ﹰ CFCM بھی کہلاتی ہے اور یہ 2003ء میں قائم کی گئی تھی۔مسلم کونسل آف فرانس نہ صرف ملک میں نئی مساجد کی تعمیر کے معاملے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے بلکہ وہ پیرس اور مارسے جیسے شہروں میں مفتیوں کی تقرری کی ذمے دار بھی ہے۔ اس کے علاوہ فرانس میں رمضان کا مہینہ کب شروع ہو گا یا کوئی مذہبی تہوار کب منایا جائے گا، اس کا تعین بھی یہی کونسل کرتی ہے۔یورپی یونین کے رکن اس ملک میں ریاست کو مذہب سے علیحدہ رکھنے کے بہت سخت قانون کے تحت سرکاری دفتروں یا تعلیمی اداروں میں مسلم خواتین کی طرف سے سروں پر رومال باندھنے پر پابندی ہے۔ اپریل 2011 سے عوامی زندگی میں مسلم خواتین کی طرف سے مکمل برقعہ پہننا بھی ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی مسلم خاتون اپنے گھر سے مکمل برقعہ پہن کر باہر نکلے، تو اسے 150 یورو جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔فرانس میں حالیہ مہینوں اور برسوں کے دوران مسلمانوں اور مسلم طرز زندگی سے متعلق جو معاملات عوامی سطح پر شدید بحث کی وجہ بنے، ان میں صرف حجاب اور برقعہ ہی واحد متنازعہ موضوع نہیں تھا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران فرانسیسی عوامی اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے حلال خوراک اور کھانے پینے سے متعلق مذہبی احکامات پر عمل درآمد بھی ایک بڑا زیر بحث موضوع رہا ہے۔
جہاں تک خاندانی امور اور اقدار کا تعلق ہے تو فرانس میں مسلمانوں اور قدامت پسند مسیحیوں کی سوچ میں کئی معاملات میں قدر مشترک بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2013 میں جب ملک میں ہم جنس پرست افراد کو آپس میں قانونی طور پر شادی کرنے کی اجازت دینے کی متنازعہ تجویز پیش کی گئی تھی، تو اس کے خلاف مسلمانوں اور قدامت پسند مسیحیوں نے مل کر مختلف شہروں میں سڑکوں پر احتجاجی تحریک چلائی تھی۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ ایمن مازییک کا کہنا ہے کے فرانس کے دارلحکومت میں اسلامی شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ ہوا ہے۔جرمنی کے کثیر الاشاعتی روزنامے ’ٹاگس سائٹُنگ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مازییک کا مزید کہنا تھا کہ مسلمانوں سے امتیازی سلوک ’’نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘یورپ کی اسلامائزیشن کے خلاف جرمنی میں شروع ہونے والی تحریک پیگیڈا اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ‘ (اے ایف ڈی) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کی شکایت تھی کہ جرمن معاشرے میں مثبت جذبات مانند پڑتے جار رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیگیڈا جیسی اسلام مخالف تحریکیں کھلے عام نفرت پھیلاتی ہیں۔ مازییک کے مطابق، ’’سرعام نسل پرستانہ بیانات دینا اب جرمن معاشرے میں قابل قبول بات بنتی جا رہی ہے۔ پہلے ہمارا معاشرہ ایسی باتوں کو سختی سے رد کر دیتا تھا۔‘‘جرمنی میں سامیت مخالف بیانات دینا قابل تعزیر جرم ہے۔ مازییک کا کہنا تھا کی سامی دشمنی کو روزمرہ کی گفتگو سے ختم کرنے کے لیے بہت کوششیں کی گئی ہیں اور ایسی کوششوں کو مسلسل جاری بھی رکھنا چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اسلاموفوبیا‘ یا اسلام سے خوف کے خلاف بھی ایسے ہی اقدامات کرنے چاہییں۔جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ نے یہ بھی کہا، ’’ وہ اس بارے میں جرمن حکام سے بات چیت کر رہے ہیں کہ اسلاموفوبیا پر مبنی جرائم کو الگ سے درج کیا جائے۔‘‘انتہا پسندی کے خاتمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مازییک نے کہا کہ اس ضمن میں مسجدوں، اسکولوں، خاندانوں اور کھیلوں کی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمن مسلمانوں کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ جرمنی کی مسجدوں میں ایسے اماموں کو تعینات کیا جائے جو جرمن معاشرے ہی میں پلے بڑھے ہوں۔پیگیڈا ہر ہفتے یورپ کے اسلامیائے جانے اور تارکین وطن کو پناہ دینے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کرتی ہے۔ترک نژاد جرمن شہری چِیم اُزدیمیر جرمنی کی سیاسی جماعت گرین پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں بہت ہی کم ایسے مذہبی لوگ ہیں جو نوجوانوں سے مکالمہ کرتے ہیں۔اُزدیمیر کا کہنا تھا، ’’زیادہ تر امام دوسرے ملکوں سے مثلا، مصر، ترکی اور دیگر عرب ممالک سے آتے ہیں، جو اچھے طریقے سے جرمن زبان بھی نہیں بول سکتے ہیں۔ پھر وہ مذہب کی تشریح بھی اپنے پس منظر کے مطابق کرتے ہیں۔‘‘

اسلام کے خلاف
یورپ متحد

پیرس، نیس اور ویانا میں ہونے والے حملوں کے بعد یورپی یونین کی رکن ریاستوں نے دہشت گردی کے خلاف نیا اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ اب ممکنہ طور پر یورپ بھر میں نگرانی کے نظام کو وسعت دی جائے گی۔برسلز میں یورپی وزرائے خارجہ کے اس اجلاس کے لیے تاریخ کا انتخاب خود ایک مضبوط علامتی اظہاریہ ہے۔ پانچ برس قبل اسی دن پیرس میں خودکار ہتھیاروں اور خودکش جیکٹوں سے مسلح افراد نے آگ اور خون کا کھیل کھیلا تھا۔ یہ مسلح دہشت گرد، جنہوں نے دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کی بیعت کر رکھی تھی، نے پیرس میں مختلف مقامات پر اندھا دھند فائرنگ اور بم دھماکے کر کے ایک سو تیس افراد کو موت کی نیند سلا دیا تھا جب کہ اس واقعے میں چھ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
مگر پیرس حملے کے پانچ سال بعد بھی یورپ میں مسلم دہشت گردی کا مسئلہ بدستور موجود ہے۔ پیرس اور نیس میں تازہ دہشت گردانہ حملوں کے بعد فرانس میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے خلاف رسمی انتباہی سطح بلند ترین کر دی گئی ہے۔ رواں ماہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایک حملہ آور نے فائرنگ کر کے چار افراد کو ہلاک اور قریب دو درجن افراد کو زخمی کر دیا۔
جمعے کو یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں مہاجرت اور سیاسی پناہ کی ایک مشترکہ پالیسی پر بھی بات چیت کی گئی۔ جب کہ مسلح شدت پسندوں کے خلاف مشترکہ اشتراک عمل پر بھی گفتگو کی گئی۔
اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے، ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم تمام ممکنہ اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کا انسداد کریں گے۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ وزرائے داخلہ نے متعدد امور پر اتفاق کیا ہے جن میں دہشت گردی کے خدشات پر سکیورٹی اداروں کے درمیان معلومات کے تبادے کے نظام میں بہتری، انٹرنیٹ سے دہشت گردی سے متعلق مواد کا فوری طور پر ہٹایا جانا اور شینگن علاقے کی سرحدوں پر سخت جانچ جیسے اقدامات شامل ہیں۔نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر فائرنگ کے واقعے میں اکاون مسلمان ہلاک اور پچاس زخمی ہوئے تھے۔ حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ نے 15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں نماز جمعہ کے دوران نمازیوں پر اندھادھند فائرنگ کر دی تھی۔ اس نے خونریزی کے اس واقعے کو فیس بک پر لائیو نشر بھی کیا تھا۔ سفید فام نسل کی برتری کے تفاخر میں مبتلا ملزم ٹیرنٹ کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے۔جرمن وزیرخارجہ ہورسٹ زیہوفر نے اس مشترکہ اعلامیے کو یورپی اتحاد کا ايک زبردست اشارہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تمام رکن ریاستیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ اقدامات کرتی ہیں، تو یورپ ایک ‘سپر پاور‘ بن سکتا ہے۔تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مشترکہ اعلامیے میں طے کردہ بعض نکات پر عمل درآمد کو مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ زیہوفر کا موقف ہے کہ انٹيليجنس حکام کو انکرپٹڈ گفتگو تک رسائی ہونا چاہیے، تاکہ وہ واٹس ایپ سمیت انکرپیٹڈ طریقے سے بھیجے اور وصول کیے جانے والے پیغامات پڑھ سکیں۔ متعدد یورپی ریاستوں نے اس سلسلے میں اس قرارداد پر کام شروع کر دیا ہے جس کے ذریعے واٹس ایپ سمیت ایسے دیگر انٹرنیٹ میسیجنگ پلیٹ فارمز کو نگرانی کے لیے ڈیٹا مہیا کرنے کا پابند کیا جائے گا۔

اسلام کی آمدتاریخ کا ہمہ گیر انقلاب

اسلام کی آمد تاریخِ انسانی میں اسلام سراپا انقلاب ثابت ہوئی۔ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تاریخ ساز تبدیلی پیدا کی ہے۔ اسلام نے دنیا کے مذہبی و سیاسی، علمی و فکری اور اخلاقی و معاشرتی حلقوں میں نہایت پاکیزہ اور دوررس انقلاب کی قیادت کی ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں تک آفتابِ اسلامی کی کرنیں نہ پہنچی ہوں۔ قافلۂ انسانیت، اسلام کی آمد سے پہلے ایک بھیانک اور تباہ کن رخ کی طرف محوِ سفر تھا۔ مجموعی طور پر پوری دنیا کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور علمی حالت نہایت ابتر تھی۔ اسلام کی دل گیر صداؤں نے اسے ایک روح پرور، حیات بخش اور امن آفریں منزل کی طرف رواں دواں کردیا۔ کرۂ ارضی مذہبی بے راہ روی، اخلاقی انارکی، سیاسی پستی، طبقاتی کشمکش، علمی و فکری تنزلی اور معاشرتی لاقانونیت کے اس آخری نقطے پر پہنچ چکا تھا جس کے آگے سراسر ہلاکت، شر و فساد اور ہمہ گیر تباہی کی حکم رانی تھی۔ اسلام نے دنیا کو اس مہیب صورتِ حال سے نکال کر سرخ روئی اور سرفرازی عطا کی۔

اسلام سے پہلے اور بعد کی عالمی تاریخ کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت واضح طور پر محسوس ہوگا کہ اسلام کا ظہور تاریخ عالم کا سب سے زیادہ صالح انقلاب ثابت ہوا ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس عالمِ رنگ و بو میں بپا ہونے والا ہر انقلاب اسلامی انقلاب کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہے۔ اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد کی انسانی دنیا بالکل مختلف ہے۔ زمانے کے ان دونوں ادوار کے مابین اسلام ایک واضح نشان امتیاز محسوس ہوتا ہے۔ اسلام کے بعد کی دنیا میں انسانی زندگی کا ہر پہلو خوشگوار اسلامی انقلاب کی بادِ بہاری سے مہک اٹھا ہے۔ خواہ وہ مذہبی و سیاسی پہلو ہو یا اخلاقی و معاشرتی ہو یا علمی و سائنسی ۔ قرآن کریم نے اپنے بلیغ اور جامع پیرائے میں اس کو من الظلمات الی النور (تاریکی سے روشنی کی طرف سے) سے تعبیر کیا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرۃ۲۵۷:۱، سورۃ المائدۃ ۱۶:۵ ، سورۃ ابراہیم ۱:۱۴، سورۃ الحدید ۹: ۵۷)
آج ہم جس تاریخ کو پڑھتے ہیں وہ عموماً مغربی مؤرخوں اور مصنفوں کے خیالات اور اصطلاحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یورپ جس کی ذہنی ترقی اور علمی و فکری بلندی کی تاریخ مسلمانوں کے زیر اثر چند سو سال پہلے شروع ہوئی اور جس کا نقطۂ آغاز انقلابِ فرانس یا اقتصادی انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل کی تاریخ کو اہل یورپ تاریک دور (Dark Age) یا ازمنۂ وسطی (Middle Ages) سے یاد کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل یہ تاریکی عالم گیر تھی، لیکن ساتویں صدی کی ابتداء میں جب جزیرہ نمائے عرب میں آفتابِ اسلام طلوع ہوا ، اس کی روشنی (صرف ساتویں صدی) کے اخیر تک ایشیا و افریقہ کے ایک بڑے حصے کو منور کرچکی تھی۔ یہ تاریکی صرف یورپ میں چھائی ہوئی تھی اور مسلم اسپین و قبرص و سسلی کے استثناء کے ساتھ یہ تاریکی وہاں مسلسل بعد کی کئی صدیوں تک چھائی رہی ۔ عین اس وقت جب یورپ تاریک دور کی اندھیریوں میں گم تھا، اسلامی تہذیب و تمدن کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور وہ زمانہ تاریخِ عالم کی مذہبی، سیاسی، علمی و فکری تاریخ کا روشن ترین زمانہ تھا۔ مشہور مغربی مفکر برٹرینڈ رسل (Bertrand Russel) نے لکھا ہے کہ 699عیسوی سے 1000عیسوی تک کے زمانے کو تاریک دور کہنے کی ہماری اصطلاح مغربی یورپ پر ناجائز ترکیز کی علامت ہے۔ اس وقت ہندوستان سے اسپین تک اسلام کی شاندار تہذیب پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت عالمِ عیسائیت کو جو کچھ دستیاب نہیں تھا وہ اس تہذیب کو دستیاب تھا۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی یورپ کی تہذیب ہی تہذیب ہے، لیکن یہ ایک تنگ خیال ہے۔ (History of Western Philosophy,’ London, 1948, p. 419)
ظہورِ اسلام سے قبل دنیا کی مذہبی حالت نہایت خستہ تھی۔ عرب اس وقت کی آباد دنیا کے وسط میں واقع تھا۔ وہاں کفر و شرک اور جہالت و لاقانونیت کا دور دورہ تھا۔ قتل و غارت گری، ظلم و ناانصافی کا راج تھا ۔ عرب میں ایک دو نہیں، ہزاروں بت تھے۔ صرف خانۂ کعبہ میں ۳۶۰ بت تھے اور ہر ہر گھر کا بت الگ تھا، یہی نہیں؛ بلکہ معبودوں کی فہرست میں جنوں، فرشتوں اور ستاروں کا بھی نام تھا۔ کہیں کہیں آفتاب پرستی بھی رائج تھی۔
روم و ایران اس وقت دنیا کی دو سُپر طاقتیں تھیں اور آباددنیا کے نصف سے زیادہ حصے پر ان کی حکومت تھی؛ لیکن وہاں اخلاق و مروت، عدل و انصاف کا نام و نشان نہ تھا۔ روم اپنی قدیم یونانی علمی و مادی ترقیات کے باوجود انتہائی ذلت و پستی میں پہنچ چکا تھا۔ ایران میں آتش کدے روشن تھے، جن کے آگے سرِ نیاز خم کیے جاتے تھے۔ پوری انسانی سوسائٹی طرح طرح کی مذہبی و اخلاقی خرابیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہندوستان میں بھی ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ تمام ملک میں بت پرستی کا زور تھا۔ ستاروں، پہاڑوں، دریاؤں، درختوں ، حیوانوں پتھروں اور حتی کہ شرم گاہوں کی بھی پرستش کی جاتی تھی۔
یہودی قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اصل تعلیمات بھول کر دنیا کے مختلف خطوں اور گوشوں میں ذلت کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھارہی تھی، خود عیسائی بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی اصل دعوت اور پیغام کو چھوڑ کر انھیں خدا کا بیٹا مان چکے تھے۔ وہ انجیل میں تحریف کرچکے تھے اور سینٹ پال پولس کی پیش کردہ عیسائیت کے پیروکار ہوچلے تھے۔ بدھ ازم چند سو سال کی آب و تاب کے بعد تیزی سے رو بزوال تھا۔ بدھ مذہب کے پیشوا خانقاہوں میں تیاگی بن کر بیٹھ گئے تھے۔ گوتم بدھ جو شرک کے خلاف مشن لے کر آئے تھے، ان کے ماننے والوں نے خود انھیں کو خدا بناکر ان کی پوجا شروع کردی تھی۔
غرض ساتویں صدی عیسوی تک روئے زمین پر ایسی کوئی قوم نہیں تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جا سکے۔ نہ کوئی ایسا دین تھا جو انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف صحیح نسبت رکھتا ہو۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں عبادت گاہوں میں اگر کبھی کبھی کچھ روشنی نظر آجاتی تھی، تو اس کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے برسات کی شب دیجور میں جگنو چمکتا ہے۔ صحیح علم اتنا نایاب اور خدا کا سیدھا راستہ بتانے والے اتنے خال خال تھے کہ ایران کے بلند ہمت اور بے چین طبیعت نوجوان سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کو ایران سے لے کر شام تک کے اپنے طویل سفر میں صرف چار راہب ایسے مل سکے، جن سے ان کی روح کو سکون اور قلب کوذرا اطمینان حاصل ہوا؛غرض یہ کہ دنیا مذہبی کشاکش سے دو چار تھی اور انسانیت کی کشتی مسائل کے گرداب میں چکر کھارہی تھی۔ کوئی ایسا باہمت شناور نہ دکھائی دیتا تھا جو اسے موجوں کے تلاطم سے بچا کر ساحلِ مراد تک پہنچاسکے۔ مایوسی کے اس عالم گیر سناٹے میں صحرائے عرب سے ایک صدا بلند ہوئی:
یَا اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّکُمْ فَآَمِنُوْا خَیْرًا لَکُمْ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلَّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (سورۃ النساء 170:4)
ترجمہ: اے لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگئے ہیں ، اب (ان پر )ایمان لے آؤ کہ تمہاری بہتری اسی میں ہے۔ اگر (اب بھی) تم نے کفر کی راہ اپنائی تو (خوب سمجھ لو کہ ) تمام آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے۔ (سورۃ النساء ۱۷۰)
پھر کیا تھا؟ سسکتی ہوئی انسانیت کی ڈھارس بندھ گئی، تشنہ کاموں کی سیرابی کا انتظام ہوگیا اور حق کے طالب اور سلیم روحیں قرآن کی اس آواز پر لبیک کہنے لگیں۔ ہزار مخالفتوں اور رکاوٹ کے باوجود اسلام کی تسخیری قوت نے عمل کرنا شروع کیا اور اسلام کے نام لیواؤں کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی؛ تا آں کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک صرف تیئس سال میں اسلام پورے جزیرۃ العرب میں پھیل چکا تھا ۔ خلافتِ راشدہ کے تیس برسوں میں اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر شام و مصر اور ایران و عراق سے گزرتا ہوا شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیل گیا۔ خلافتِ بنی امیہ کے ابتدائی چند عشروں میں اسلام پورے شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا یورپ کے مختلف علاقوں جیسے سسلی، قبرص اور خصوصاً اسپین تک پہنچ چکا تھا اور مشرق میں وسط ایشیا سے ہوتا ہوا سندھ اور ہندوستان میں بھی داخل ہوچکا تھا۔ ایک صدی سے کم عرصہ میں اسلام ایک عالمگیر مذہب بن گیا۔ ایک مستشرق کے الفاظ میں: انسان کی پوری لمبی تاریخ میں اس سے زیادہ تعجب خیز شاید کوئی اور واقعہ نہیں جتنا کہ غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ اسلام کا پھیلاؤ۔ کون اندازہ کرسکتا تھا کہ وہ پیغمبرِ اسلام جنھیں ۶۲۲ء میں ان کے وطن سے نکال دیا تھا اور وہ ایک اجنبی شہر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، ایک ایسے مذہب کی بنیاد رکھیں گے جو ایک صدی کے اندر مغرب میں فرانس کے قلب تک پہنچ جائے گا اور مشرق میں دریائے سندھ کو عبور کر کے چین کی آخری حدود تک پہنچ جائے گا؛ یعنی آدھی مہذب دنیا پر۔
’اشاعت اسلام ‘کے مقدمے میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ لکھتے ہیں: ’’اس (اسلام) کی روحانی تربیت اور اخلاقی اصلاحات نے نہ صرف حلقہ بگوشانِ ادیان سابقہ کو اپنا گرویدہ بنالیا؛ بلکہ ریگستانوں میں بادیہ پیمائی کرنے والوں اور پہاڑوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا مطیع کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت تھوڑی سی مدت میں بحرِ اٹلانٹک کے ساحل سے لے کر بحرِ پاسفک کے کناروں تک اور بحرِ منجمد شمالی کے برفستان سے لے کر صحرائے کبیر افریقہ کی انتہائی گرم حدود تک ہزارہا ہزار میل کی مسافت میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔‘‘ (ص ۷)
اسلام نے ایک جامع و مکمل نظامِ زندگی اور ابدی دینِ فطرت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلامی عقائد و تعلیمات اور اسلامی نظامِ زندگی سابقہ سماوی ادیان کا جامع تھا۔ اسلام نے سارے مذاہب کی خوبیوں کو اپنے اندر سمولیا اور ان مذاہب میں انسانوں نے جو اضافے یا تبدیلیاں کر لی تھیں ان کو نکال باہر کیا۔ گویا اسلام سماوی مذاہب کا سب سے آخری اور مکمل ایڈیشن تھا، جو سب کی خوبیوں کا مجموعہ تھا۔ قرآنِ عظیم نے اسی کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدۃ ۳:۵)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا۔ (سورۃ المائدۃ ۳:۵)
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَام (سورۃ آل عمران ۱۹:۳)
ترجمہ : بے شک (معتبر ) دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ (سورۃ آل عمران ۱۹:۳)
اسلام نے اپنی تعلیمات کی جامعیت اور اپنے پیغام کی آفاقیت سے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ کسی مخصوص وقت اور قوم کی حدود سے ماورا ایک آفاقی اور ابدی پیغام کا حامل ہے۔ اسلام ابتداء ہی سے مختلف رنگ و نسل اور مختلف قوم و وطن کے درمیان عملی شکل میں موجود رہا اور تاریخ کے ہر مرحلے میں اس نے اپنی زندہ تعلیمات اور آفاقی پیغام سے کروڑہا افراد کے عقیدہ و عمل کو متاثر کیا ہے۔
اسلام نے مذہب کی اساس توحیدِ خالص کی طرف دعوت دے کر مذہب کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا۔ اسلام سے قبل کے مذاہب اور تہذیبیں یا تو مکمل طور پر کفر و شرک میں ڈوبی ہوئی تھیں جیسے عرب جاہلیت اور ہندوستان وغیرہ ، یا کم از کم توحید خالص کی روح سے نابلد تھیں جیسے عالمِ عیسائیت جو تثلیث کے عقیدہ میں مبتلا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتا تھا۔ یا اگر کہیں توحید تھی بھی تو وہ انتہائی محدود جیسے یہودی جو بری طرح بکھراؤ کا شکار تھے۔ اسلام نے توحیدِ خالص کی طرف دعوت دی اور اللہ کی بڑائی کا بول اس بلند آہنگی سے بولا کہ اس وقت سے توحیدِ خالص کی یہ دعوت دنیا کی سب سے بڑی دعوت بن گئی اور اللہ کی بڑائی کا بول پوری قوت کے ساتھ پورے عالم میں جاری ہوگیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر اور اس تسلسل اور دوام کے ساتھ توحیدِ خالص کا نظریہ اسلام سے پہلے دنیا میں کبھی رائج نہیں رہا۔ احادیث میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا کہ اس سرزمین پر اس کی پرستش ہوگی۔(دیکھیے: سنن کبری للبیہقی ۴۴۵:۲، مستدرک علی الصحیحین ۳۰۶:۱)
اسلام کے اس پیغام توحید نے دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اس نے ایسی مذہبی، سیاسی، علمی و تہذیبی انقلابات کی راہ ہموار کی کہ پچھلی صدیوں میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خالص عقیدۂ توحید سے نہ صرف مذہبی انقلاب برپا ہوا؛ بلکہ اس عقیدہ کی برکت سے انسانی ذہن اوہام و خرافات کی بھول بھلیوں سے نکل کر علوم و فنون کی ایسی وسیع شاہراہ پر آگیا جس کے سامنے تحقیق و دریافت کی ایک عظیم الشان دنیا اس کی منتظر بیٹھی تھی۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم جو اسلام کا دستورِ اساسی ہے وہ من و عن محفوظ اور ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس خصوصیت میں اسلام کا کوئی شریک نہیں۔ دوسری طرف اسلام کی دوسری اساس پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کے اقوال و افعال ہیں ، جنھیں اسلام نے اس طور پر محفوظ رکھا ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ صرف یہی نہیں؛ بلکہ آپ کے اقوال و افعال کی روایت کرنے والے اور تدوین کا فریضہ انجام دینے والے صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین اور بعد کی صدیوں کے راویوں تک کے تفصیلی حالات بھی محفوظ ہیں۔
اسلام سے پہلے جو مذاہب رائج ہوئے ، کچھ دنوں کے گزرنے کے بعد ان کے متبعین کی تعداد کم ہوتی گئی یا ان سے لوگوں کی دل چسپی کم ہوتی گئی؛ کیوں کہ وہ مذاہب خاص وقت اور خاص قوم تک محدود تھے ۔ ان میں وہ آفاقیت اور جامعیت نہیں تھی جو اسلام کے حصے میں آئی۔ اسلام مادیت اور روحانیت دونوں کو جمع کرنے والا اور ان دونوں کے درمیان مکمل اعتدال و توازن رکھنے والا مذہب تھا۔ اسلام نے رہبانیت اور جوگ کو مذہب قرار نہیں دیا؛ بلکہ اس نے انسان کی فطری و جبلی نفسیات اور خصوصیات کی رعایت کی اور ایسا جامع نظامِ زندگی پیش کیا جو انسان کی انفرادی و عائلی زندگی سے لے کر اس کی معاشرتی، سیاسی اور معاشی زندگی کے تمام پہلؤوں پر محیط تھا۔
اسلام نے ایک قلیل عرصہ میں دنیا کی مذہبی حالت میں وہ انقلابِ عظیم پیدا کیا، جس کی مثال نہیں مل سکتی۔دنیا میں بابل، ہندوستان و چین ، مصر و شام ا ور یونان و روم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوئے، اخلاق و افکار کے بڑے بڑے نظریے قائم ہوئے، تہذیب و شائستگی کے بڑے بڑے اصول وضع کیے گئے، یہ اصول و افکار سیکڑوں سال میں بنے، پھر بھی بگڑ گئے۔ صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی،پھر بھی وہ فنا ہوگئے؛ لیکن اسلام کا تمدن چند برسوں میں تعمیر ہوا اور ایسا بنا کہ آج چودہ سو سال سے تمام روئے زمین پر قائم و دائم ہے ۔
اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں ایک فرسودہ الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، جب کہ پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے مسلمان فاتح اور غالب ہونے کے باوجود تبدیلیٔ مذہب کے سلسلے میں ہمیشہ روادار اور انصاف پسند واقع ہوئے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں بالجبر اسلام قبول کرنے کے واقعات معدوم ہیں؛ جب کہ اس کے برخلاف عیسائیوں کو جب بھی مسلمانوں پر غلبہ ہوا، انھوں نے مسلمانوں کو جبریہ عیسائی بنانے یا ان کا صفایا کردینے میں کوئی عار نہیں محسوس کی۔اسپین اور صقلیہ (سسلی) اس کے گواہ ہیں کہ وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی صدیوں حکومت قائم رہی، آج وہاں اسلام کا کوئی نام لیوا نہیں۔ اسلام پر عائد کیے جانے والے بے ہودہ الزامات میں یہ بالکل لغو اور فضول الزام ہے۔ انصاف پسند غیر مسلم مؤرخین نے بھی اس حقیقت کا برملا اظہار کیا ہے۔ ایک مستشرق کے بقول : تاریخ سے یہ واضح ہے کہ مفتوح اقوام میں اسلام کی اشاعت تلوار کی نوک پر ہونے کا الزام مؤرخین کے ذریعہ نقل کیا جانے والا انتہائی بے ہودہ اور لغو خیال ہے ۔ (De Lacy O’Leary, Islam at the Crossroads, London, 1923, p.8.)
اسلام روحانی سُپر پاور
اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تاریخ کے ہردور میں ہمیشہ ہی سُپر طاقت ہی ثابت ہوا ہے۔ کبھی تو مسلمانوں کو سیاسی عروج کی بنیاد پر اسلام فاتح اور غالب بن کر رہا اور سیاسی غلبہ کے فقدان کی صورت میں اس نے قلوب پر حکمرانی کی۔ تاریخ میں چند ایسے موڑ بھی آئے ہیں جب لوگوں کو محسوس ہو چلا کہ اسلام اب زوال پذیر ہے اور اس کا چل چلاؤ شروع ہوچکا ہے؛ لیکن تھوڑی ہی مدت میں اچانک کایا پلٹ گئی اور اسلام پھر پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہوگیا۔ پہلی مرتبہ عالمِ اسلام پر اور خصوصاً اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی حکومت خلافتِ عباسیہ اور بغداد پر تاتاریوں کی یورش کے موقعہ پر لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ تاتاریوں کے طوفانِ بلا خیز سے اسلامی علوم و فنون کی دھجیاں اڑ گئی تھیں اور تہذیب و تمدن کا چراغ غل ہوگیا تھا؛ لیکن ایسے وقت جب اسلام کی سیاسی طاقت کا ستارۂ اقبال گردش میں تھا، اسلام کی روحانی طاقت قلوب کو مسخر کررہی تھی اور جنھوں نے مسلمانوں کو مفتوح بنا لیا تھا اسلام نے اسی فاتح قوم کے قلوب کو فتح کرنا شروع کیا؛ تا آں کہ وہی تاتاری ایک دن اسلام کے سب سے بڑے محافظ اور پاسبان بن گئے۔
اسی طرح گذشتہ صدیوں میں جب ہندوستان سے سلطنت مغلیہ اور پھر خلافتِ عثمانیہ کا زوال ہوا ، اور نتیجہ کے طور پر اسلامی ممالک پر یوروپی استعمار کا تسلط ہوا ، اس وقت کچھ لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ اسلام اب شاید زوال پذیر ہے۔ اس وقت بھی مسلمانوں کی سیاسی طاقت یقینا شکست خوردہ اور زوال پذیر تھی؛ لیکن اسلام کی روحانی طاقت اور قوتِ تسخیر نے شکست تسلیم نہیں کیا اور اس نے اہلِ یوروپ و امریکہ کے قلوب کو مسخر کرنا شروع کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور اکثر اسلامی ممالک و علاقہ جات پر یورپ کے استعماری قبضہ و تسلط کی وجہ سے گذشتہ انیسویں اور بیسویں صدی کے نصفِ اول میں یہ تصور بھی مشکل تھا کہ مسلمان کبھی امریکہ یا یورپ میں اپنی بستیاں بسائیں گے اور وہاں پورے اسلامی تشخص و امتیازکے ساتھ نہ صرف آباد ہوں گے؛ بلکہ مساجد و اسلامی مراکز بنا کر یورپ و امریکہ کی ترقی یافتہ قوموں کو اپنا مدعوبنائیں گے۔ آج صور تِ حال یہ ہے امریکہ مسلمانوں کی تعدادتقریباً ایک کڑوڑ اور یورپ میں تقریباً پانچ کڑوڑ ہو رہی ہے۔ اسلام اس وقت امریکہ و یورپ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔
اسلام کی تسخیری قوت اور اس کے روحانی طور پر سپر پاور ہونے کا تصورمسلمانوں کا بنایا ہوا کوئی خواب نہیں؛ بلکہ تاریخ اسلام کے مختلف مراحل میں اس کا تجربہ ہوچکا ہے اور ماضی قریب میں بھی ایسے خیالات پائے جاتے رہے ہیں۔ مشہور انگریزی مفکر اور فلسفی جارج برنارڈ شا نے نہایت کھل کر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’آئندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب انگلینڈ؛ بلکہ پورے یورپ پر حکومت کرنے کا موقع پاسکتا ہے تو وہ مذہب ’’اسلام‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ … میں نے اسلام کو اس کی حیرت انگیز حرکت و نمو کی وجہ سے ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ یہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، جو اس کو ہر زمانہ میںقابلِ توجہ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ …میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے کہ وہ کل کے یورپ کو قابلِ قبول ہوگا جیسا کہ وہ آج کے یورپ کو قابلِ قبول ہونا شروع ہوگیا ہے۔‘‘(George Bernard Shaw in ‘The Genuine Islam,’ Vol. 1, No. 8, 1936)
فرانس کے طالع آزما سکندر زمانہ نپولین بونا پارٹ کا کہنا ہے کہ مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں جب میں سارے ممالک کے سمجھدار اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں گا اور قرآنی اصولوں کی بنیاد پر متحدہ حکومت قائم کروں گا ۔ قرآن کے یہی اصول ہی صحیح اور سچے ہیں اور یہی اصول انسانیت کو سعادت سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ (Napoleon Bonaparte as Quoted in Cherfils, ‘Bonaparte et Islam’ Paris, France, pp. 105, 125)
آج بھی مغربی مصنفین اور محققین کی طرف سے ایسے مضامین کثرت سے شائع ہورہے ہیں جس کا عنوان کچھ اس طرح ہوتا ہے: اسلام امریکہ کا اگلا مذہب، مغربی یورپ میں آئندہ ۲۵ برسوں کے اندر مسلمانوں کی اکثریت ہوجائے گی وغیرہ ۔ اہلِ یورپ پر آج یہ خوف چھایا ہواہے کہ ایک صدی کے اندر مسلمان متعدد یورپی ممالک میں نہ صرف بڑھ جائیں گے؛ بلکہ دیگر ہم وطنوں سے آگے نکل جائیں گے۔ اہلِ مغرب کے اسی خوف اور اس کی بنیاد پر عالمِ اسلام کے خلاف اس کی خفیہ یلغار کی وجہ مغربی لٹریچر میں ایک نئے لفظ ـ’اسلاموفوبیا‘ (Islamophobia) کا اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے اسلام سے خوف کی نفسیا ت اور اسلام ومسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار۔
غرض یہ کہ اسلام کا وجود و ظہور انسانی تاریخ کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر واقعہ ہے۔ یہ ایک ایسا نقطئہ انقلاب ہے، جس نے انسانی زندگی کے دھارے کو شر سے خیر کی طرف اور اندھیرے سے روشنی کی طرف پھیر دیا ۔ اسلام کل بھی روحانیت کا سرچشمۂ اعلی تھا اور وہ آج بھی انسان کی بھٹکی ہوئی روح اور اس کے آوارہ ذہن کو ایمان و یقین کی تازگی اور روحانیت کی لذت آگیں حلاوت سے بالیدہ و زندہ بنا سکتا ہے۔
انگریز اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تشدد اور خونریزی کی دعوت دیتا ہے۔ ان کا اعتراض قرآن مجید کی اس آیت پر مبنی ہے۔
قرآن کہتا ہے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ جہاں کہیں کفار کو پائیں انہیں قتل کردیں؟”قرآن کریم سے بعض مخصوص آیات کا ٖغلط طور پر اس لیے حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس غلط تصور کو قائم رکھا جاسکے کہ اسلام تشدد کی حمایت کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں پر زور دیتا ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے باہر رہنے والوں کو قتل کردیں۔
آیت جس کا غلط حوالہ دیا جاتا ہے :
سورۃ توبہ کی مندرجہ ذیل آیت کا اسلام کے ناقدین اکثر حوالہ دیتے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ اسلام تشدد، خون ریزی اور وحشت کو فروغ دیتا ہے۔
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ (٥)​
تم مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ، انہیں قتل کردو۔” ​( سورۃ التوبہ 9 آیت 5)
​آیت کا سیاق و سباق :
در حقیقت ناقدینِ اسلام اس ایت کا حوالہ سیاق و سباق سے ہٹ کردیتے ہیں۔ آیت کے سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اس سورت کا مطالعہ آیت نمبر 1 سے شروع کیا جائے۔ اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جو معاہداتِ امن ہوئے تھے، ان سے براءت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس براءت ( معاہدات کی منسوخی ) سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود عملاً خلاف قانون ہوگیا کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نظم و ضبط میں دے دیں۔ مشرکین کو اپنا رویہ بدلنے کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا۔ ارشاد الٰہی ہوا:
فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥)
پس جب حرمت ( دی گئی مہلت ) والے مہینے گزر جائیں تو تم مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کردو اور ان کر پکڑ لو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکواۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو،بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والاہے۔( سورۃ التوبہ 9 ایت 5)​
عہد نو کی ایک مثال :
ہم سب جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا امریکہ ویت نام پر برسر پیکار تھا۔ فرض کیجیئے کہ صدر امریکہ یا امریکی جرنیل نے جنگ کے دوران میں امریکی سپاہیوں سے کہا: جہاں کہیں ویت نامیوں کو پاؤ انہں ہلاک کردو۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے اگر آج میں سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ کہوں کہ امریکی صدر یا جرنیل نے کہا تھا کہ جہاں کہیں ویت نامیوں کو پاؤ انہیں قتل کردو، تو یوں معلوم ہوگا کہ میں کسی قصائی کا ذکر کرررہا ہوں۔ لیکن اگر میں اس کی یہی بات صحیح سیاق و سباق میں بیان کروں تو یہ بالکل منطقی معلوم ہوگی کیونکہ وہ دراصل جنگ کے حالات میں اپنی سپاہ کا حوصلہ پڑھانے کے لیئے ایک ہنگامی حکم دے رہا تھا کہ دشمن کو جہاں کہیں پاؤ ختم کردو، حالت جنگ ہونے کے بعد یہ حکم ساقط ہوگیا۔
حالتِ جنگ کا حکم :
اسی طرح سورۃ توبہ کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوا کہ ” تم مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ انہیں قتل کردو۔ ” یہ حکم جنگ کے حالات میں نازل ہوا اور اس کا مقصد مسلم سپاہ کا حوصلہ بڑھانا تھا، قرآن کریم درحقیقت مسلمان سپاہیوں کو تلقین کررہا ہے کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں اور جہاں کہیں دشمنوں سے سامنا ہو انہیں قتل کردیں۔
ارون شوری کی فریب کاری :
ارون شوری، بھارت میں اسلام کے شدید ناقدوں میں سے ہے۔ اس نے بھی اپنی کتاب ” فتاوٰی کی دنیا ” کے صفحہ 572 پر سورۃ توبہ کی آیت نمبر 5 کا حوالہ دیا ہے۔ آیت نمبر 5 کا حوالہ دینے کے بعد وہ دفعتاً ساتویں آیت پر آجاتا ہے، یہاں ہر معقول آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر آیت نمبر 6 سے گریز کیا ہے۔
قرآن سے جواب :
سورۃ توبہ کی آیت نمبر 6 اس الزام کا شافی جواب دیتی ہے کہ اسلام ( نعوذ باللہ ) تشدد، بہیمت اور خونریزی کو فروغ دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے:
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْلَمُونَ (٦)
( اے نبی! ) اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیجیئے تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکے ، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیجیئے، یہ ( رعایت ) اس لیئے ہے کہ بے شک وہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ “
( سورۃ التوبہ 9 آیت 6)​
قرآن کریم نہ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی مشرک حالات جنگ میں پانہ طلب کرے تو اسے پناہ دی جائے بلکہ یہ حکم دیتا ہے کہ اسے محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے، ہوسکتا ہے کہ موجود بین الاقوامی منظر نامے میں ایک رحم دل اور امن پسند جرنیل جنگ کے دوران میں دشمن کے سپاہیوں کو امن طلب کرنے پر آزادانہ جانے دے لیکن کون ایسا فوجی جرنیل ہوگا جو اپنے سپاہیوں سے یہ کہ سکے کہ اگر دوران جنگ دشمن کے سپاہی امن کے طلب گار ہوں تو انہیں نہ صرف یہ کہ رہا کردو بلکہ محفوظ مقام پر پہنچا بھی دو؟
اسلام اور مسلمانوں کے عمل میں واضح فرق کیوں؟
اگر اسلام بہترین مذہب ہے تو بہت سے مسلمان بے ایمان کیوں ہیں اور دھوکے بازی، اور رشوت اور منشیات فروشی میں کیوں ملوث ہیں ؟ “
اسلام بلا شبہ بہترین مذہب ہے لیکن میڈیا مغرب کے ہاتھ میں ہے جو اسلام سے خوفزدہ ہے، میڈیا مسلسل اسلام کے خلاف خبریں نشر کرتا اور غلط معلومات پہنچاتا ہے، وہ اسلام کے بارے میں غلط معلومات پہنچاتا ہے وہ اسلام کے بارے میں غلط تاثر پیش کرتا ہے، غلط حوالے دیتا ہے اور واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے، جب کسی جگہ کوئی بم پھٹتا ہے تو بغیر کسی ثبوت کے سب سے پہلے مسلمانوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے۔ وہ الزام خبروں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں جب یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے ذمہ دار غیر مسلم تھے تو یہ ایک غیر اہم اور غیر نمایاں خبر بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پچاس برس کا مسلمان کسی پندرہ سالہ لڑکی سے اس کی اجازت سے شادی کرتا ہے تو مغربی اخبارات میں وہ پہلے صفحے کی خبر بنتی ہے، لیکن جب کوئی 50 سالہ غیر مسلم 6 سالہ لڑکی کی عصمت دری کرتا ہے تو یہ سانحہ اندر کے صفحات میں ایک معمولی سی خبر کے طور پر شائع ہوتا ہے۔ امریکہ میں روزانہ عصمت دری کے 2713 واقعات پیش آتے ہیں لیکن خبروں میں جگہ نہیں پاتے کیونکہ یہ امریکیوں کی طرزِ زندگی کا ایک حصہ ہے۔
ہر معاشرے میں ناکارہ لوگ ہوتے ہیں :
میں اس بات سے باخبر ہوں کہ ایسے مسلمان یقیناً موجود ہیں جو دیانتدار نہیں اور دھوکے بازی اور دوسری مجرمانہ سرگرمیوں سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لیکن میڈیا یہ ثابت کتا ہے کہ صرف مسلمان ہی ان کا ارتکاب کرتے ہیں، حالانکہ ایسے افراد اور جرائم دنیا کے ہر ملک اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے مسلمان بلا نوش ہیں، اور غیر مسلموں کے ساتھ مل کر شراب نوشی کرتے ہیں۔
مسلم معاشرے کی مجموعی حالت بہتر ہے :
اگرچہ مسلمان معاشرے میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں مگر مجموعی طور پر مسلمانوں کا معاشرہ دنیا کا بہتری معاشرہ ہے۔ ہمارا معاشرہ دنیا کا وہ سب سے بڑا معاشرہ ہے جو شراب نوشی کے خلاف ہے، یعنی ہمارے ہاں عام مسلمان شراب نہیں پیتے۔ مجموعی طور پر ہمارا ہی معاشرہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرتا ہے۔ اور جہاں تک حیائ، متانت، انسانی اقدار اور اخلاقیات کا تعلق ہے دنیا کا کوئی معاشرہ ان کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ بوسنیا، عراق اور افغانستان میں مسلمان قیدیوں سے عیسائیوں کا سلوک اور برطانوی خاتون صحافی کے ساتھ طالبان کے برتاؤ میں واضح فرق صاف ظاہر ہے۔
کار کو ڈرائیور سے پرکھیئے :
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مرسیڈیز کار کا نیا مادل کیسا ہے اور ایک ایسا شخص جو ڈرائیونگ نہیں جانتا سٹیرنگ پر بیٹھ جائے اور گاڑی کہیں دے مارے تو آپ کس کو الزام دیں گے؟ کار کو یا ڈرائیور کو ؟فطری بات ہے کہ آپ ڈرائیور کو الزام دیں گے۔ یہ دیکھنے کے لیےے کہ کار کتنی اچھی ہے ، ڈرائیور کو نہیں بلکہ کار کی صلاحیت اور اسکے مختلف پہلوؤں کو دیکھنا چاہیئے کہ یہ کتنی تیز چلتی ہے، ایندھن کتنا استعمال کرتی ہے، کتنی محفوظ ہے وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح اگر یہ ابت محض دلیل کے طور پر مان بھی لی جائے کہ مسلمان خراب ہیں تگو بھی ہم اسلام کو اس کے پیروکاروں سے نہیں جانچ سکتے۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کتنا اچھا ہے تو اُسے اس کے مستند ذرائع سے پرکھیں، یعنی قرآن مجید اور صحیح احادیث سے!
اسلام کو محمد (ﷺ) کی ذات ِ گرامی سے پرکھیں :
اگر آپ عملی طور پر یہ دیکھنا چاہیں کہ کار کتنی اچھی ہے تواس کے سٹیرنگ وہیل پر کسی ماہر ڈرائیور کو بٹائیں، اسی طرح یہ دیکھنے کے لیے کہ اسلام کتنا اچھا دین ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے آخری پیغمبر (ﷺ) کو سامنے رکھ کر دیکھیں، مسلمانوں کے علاوہ بہت سے دیانتدار اور غیر متعصب غیر مسلم مؤرخون نے علانیہ کہا ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) بہترین انسان تھے، مائیکل ایچ ہارٹ نے ” تاریخ پر اثر انداز ہونے والے سو انسان ” کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں سر فہرست پیغمبر اسلام محمد (ﷺ) کا اسم گرامی ہے، غیر مسلموں کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں انھوں نے نبی (ﷺ) کی بہت تعریف کی ہے ، مثلاً تھامس کا لائل، لا مارٹن وغیرہ۔
اسلام خطرناک مذہب نہیں۔ 5 دلائل

دلیل 1: اسلام کثرتیت پسندی اور بقائے باہمی کو فروغ دیتا ہے
جب بھی کہیں اور خاص طور پر پاکستان میں صوفیہ کے مزارات پر یا دیگر مقامات پر شیعہ مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملے کیے جاتے ہیں تو اسلام کے ان ناقدین جو اسلام کثرتیت پسندی کے اقدار اور بقائے باہمی کو فروغ دیتے ہیں اسلام کے حامیان خاموش ہو جانے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اس قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہیں: “تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے” (109:6)۔ تاہم اس تصور کو جہادیوں نے مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کے کسی علاقے سے شائع ہونے والی اردو زبان کی ایک میگزین نوا ے افغان جہاد میں حافظ احسان الحق نے ‘تیونس اور مصر کے انتخابات میں ڈیموکریٹک اسلام پسندوں کی کامیابی’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے کہ یہ آیت تکثیریت پسندی کو فروغ دینے کے لئے نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ اسلامی نظام حیات مکہ کے غیر مسلموں کے طرز حیات کے ساتھ مخلوط نہ ہو جائے۔
انہوں نے اس مضمون میں وضاحت کی کہ کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقائے باہمی اور اختیارات کی تقسیم کے غیر مسلموں کی ایک پیشکش کو مسترد کر دیا تھا: ‘تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مکمل وضاحت کے ساتھ قرآن کا یہ فرمان ہے کہ اللہ نے ان کے لئے مکمل مذہب اسلام کا انتخاب کیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک دین لیکر تشریف لائے تھے اور آپ نے اپنے شب و روز کو صرف اسی دین کے نافذ کرنے کے لیے کے لئے ہمارے درمیان بسر کیا۔ انہوں نے [تعاون کے ساتھ] حکومت کرنے کے کفار مکہ کی ایک کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا اس لیے کہ سمجھوتے کی بنیاد پر اسلام کے ساتھ ایک مشرک نظام کو چلانا غیر ممکن ہے۔

دلیل 2: اسلام میں خودکش حملوں کی اجازت نہیں ہے
پاکستان میں طالبان نے احمدی مسلمانوں، شیعوں اور صوفیہ کے بے شمار مساجد، مزارات اور مقدس مقامات کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ سال رواں 2014 میں عراق اور شام میں ان کے نظریاتی ہمجولی تاریخی مساجد اور نبیوں کے ان مزارات کو زمین بوس کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کا احترام و عقیدت شیعہ اور سنی دونوں کے دلوں میں یکساں ہے۔ تاہم، جو لوگ جہادیوں کی مذمت نہیں کر سکتے ہیں ان کی ایک اہم دلیل یہ ہے: مساجد پر بمباری غیر اسلامی ہے اور خودکش حملے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ دلیل جہادیوں کے دفاع میں سب سے پہلے یہ دلیل دی جاتی ہے۔ تاہم، خود جہادی لوگ اسلام کے ابتدائی ادوار کے واقعات اور مستند اسلامی کتب کا حوالہ دیتے ہوئے اس دلیل کی تردید کر رہے ہیں۔
2013 میں، جہادی ویب سائٹ “منبر التوحید و الجہاد” میں عبادت خانوں اور گرجا گھروں پر بم دھماکوں کی اباحت میں ماریشس کے ایک بنیاد پرست عالم شيخ أبو المنذر الشنقيطي کا لکھا گیا ایک فتوی شائع کیا گیا۔انہوں نے اسلامی فقہاء کی رائے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں عبادت گاہوں پر حملے کرنا حرام ہے: “اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وه مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے۔ (22:40)”
تاہم، شيخ أبو المنذر الشنقيطي نے قرون وسطی کے عالم ابن القیم الجوزیہ کی اس رائے کا حوالہ دیتے ہوئے خود اس دلیل کو مسترد کر دیا ہے کہ اس آیت کی افادیت صرف قبل از اسلام کے زمانے تک ہی محدود ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ ظہور اسلام کے ساتھ ہی یہودیت اور عیسائیت منسوخ ہو چکی ہے اسی لیے ان کی عبادت گاہوں کو حفاظت کا دیا گیا خصوصی درجہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ أبو المنذر الشنقيطي نے وضاحت کی کہ صرف دو قسم کی عبادت گاہوں کو اسلام میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے: ان لوگوں کی عبادت گاہوں کو کی ایک مسلم ریاست میں ذمی (دوسرے درجے کے شہری)، اور ویران خانقاہیں۔ لیکن حالات کے اعتبار سے گرجا گھروں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اسے اس طرح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر مشرک ہندو ذمی کی حیثیت سے ایک مسلم ریاست میں رہتا ہے تو ان کی مندروں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ یہ تحفظ صرف موحد غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو ہی حاصل ہے۔
دسمبر 2013 میں، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی یا پاکستانی طالبان کی تحریک) اپنے کمانڈر قاری حسین احمد محسود کی موت کے بعد ایک ویڈیو جاری کیا۔ ویڈیو میں محسود نے مساجد پر بمباری کرنے پر طالبان کی پاکستانی ادیبوں کی تنقید کا جواب اس طرح دیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں جہاد کا اعلان کیا اور منافقین کی تعمیر کردہ مساجد کو ڈھا دیا”۔ مدینہ منورہ میں منافقین کی مسجد کایہ مسئلہ سورہ توبہ کی آیت 107-110 میں مذکور ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دور حیات میں رونماں ہونے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے جہادی اس بات کو بھی کو مسترد کر رہے ہیں کہ اسلام میں خودکش حملوں کی اجازت نہیں ہے۔ جہادیوں سمیت اکثر اسلامی علماء اس بات سے متفق ہیں کہ ذاتی وجوہات کی بناء پر اسلام میں خود کشی کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، جہادیوں کا یہ کہنا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے قیام کے لیے خودکش حملوں کی اجازت اسلام میں۔ 2013 میں طالبان کے ایک میگزین میں لکھتے ایک اسلام پرست کالم نگار محمد قاسم نے ‘شہادت’ کے حملوں کے جواز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ پیش کیا: ”اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش! یہ جانتے ہوتے۔”(29:64)؛ “جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مرده نہ سمجھیں، بلکہ وه زنده ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں” (3:169)۔

دلیل 3: اسلام ایک پرامن مذہب ہے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد جانشینی کے لیے قتل و غارت گری شروع ہو گئی۔ مقام غدیر پر اپنے پیروکاروں کو دیے گئے ایک پیغام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو اپنا جانشیں نامزد کیا تھا جسے تمام علماء کرام متفق ہیں لیکن سنی علماء اسے ذرا مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ تاہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد ہی صحابہ کرام نے یہ رائے پیش کی کہ خلیفہ مشاورت کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ ابو بکر پہلے خلیفہ بنے اس کے بعد عمر بن خطاب اور پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم تخت خلافت پر جلوہ نشیں ہوئے۔ چوتھے خلیفہ کے انتخاب کے وقت اختلاف پیدا ہو گیا اور خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلی گئی۔ اس اختلاف کے بطن سے دو اسلامی فرقوں کا جنم ہوا پہلا فرقہ سنیوں کا تھا جنہوں نے اس جانشینی کو معتبر مانا جس میں حضرت علی چوتھے خلیفہ بنیں۔ دوسرا فرقہ شیعوں کا تھا جن کا یہ ماننا تھا کہ حضرت علی ہی پہلے خلیفہ ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلام میں خونی معرکوں کا آغاز ہوا۔
حضرت ابوبکر کے علاوہ باقی تمام خلفاء اور شیعہ کے بارہ اماموں کو قتل کر دیا گیا یا کربلا کی جنگ کے نتیجے میں زہر دیکر مار دیا گیا۔
آج بھی زیادہ تر جہادی خونریز تنازعات کو شیعہ–سنی اختلافات کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تنازعات مسلم ممالک میں ایران اور سعودی عرب کے کردار کے پلندہ ہیں، خاص طور پر تہران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد۔ ایران (بنیادی طور پر شیعہ) نے حزب اللہ سمیت بے شمار دہشت گرد گروہوں کی پروورش کی ہے۔ سعودی عرب (بنیادی طور پر سنی) ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے دنیا بھر میں سنی جہادی تنظیموں کی حمایت کی ہے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کے امریکی صدر براک اوباما کے فیصلے نے سعودی عرب خود کو اتنا غیر محفوظ مھسوس کر رہا ہے کہ ریاض شام اور عراق میں آئی ایس آئی ایس جیسی جہادی تنظیموں کی حمایت اور مدد کی ہے۔ شام اور عراق میں خونریزی کی موجودہ لہر کو تہران، ریاض اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ کی کارستانی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ابتدائی اسلامی ادوار میں خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 27 جنگوں میں شرکت کی ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ساتھ ہمدردی اور انصاف کا معاملہ کیا؛ اور بے شک ان کی زندگی کے واقعات کا مطالعہ کرنے پر یہ بات سچ ثابت ہوو جاتی ہے۔ تاہم، اسلام پسندوں کی سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے فتح کے بعد اپنے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا تھا۔ یہ تاریخی طور پر غلط ہے یا اس کا سچائی سے واسطہ صرف جزوی طور پر ہے۔ 2012 میں القاعدہ نے استاد احمد فاروق کا ایک آڈیو لیکچر جاری کیا جو پاکستان کے لئے القاعدہ کا شعبہ تبلیغ و اشاعت اور میڈیا کے سربراہ ہیں۔ لیکچر میں فاروق نے اعلی سیکورٹی کمانڈو ملک ممتاز قادری کو داد و تحسین سے نوازا ہے جسے پنجاب کے لبرل گورنر سلمان تاثیر کی حفاظت کے لئے تعینات کیا گیا تھا اور اس نے ان کی حفاظت کرنے کے بجائے پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین میں اصلاحات کی وکالت کرنے کی پاداش میں انہیں قتل کر دیا۔
فاروق نے افواج کو اس بات کی وکالت کرنے کے لئے دشمن فورسیز کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ طالبان اور دیگر جہادی فورسز کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور انہیں پر امن طریقے سے احتجاج درج کرانا چاہیے۔ استاد فاروق نے کہا کہ “نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہمیں یہ نہیں سکھایا ہے۔ فتح مکہ کے دن جب تمام لوگوں کو عام معافی دی گئی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع دی گئی کہ عورتوں سمیت تقریباً 10 لوگ ایسے ہیں آپ کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چہ وہ کعبہ (مکہ مکرمہ کی مقدس مسجد) کے پردے میں بھی لپٹے ہوں وہ احترام کے مستحق نہیں ہیں ان کا خون بہا دیا جائے اور پھر انہیں مار دیا گیا۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں توہین رسالت کا یہ قانون عیسائیوں، احمدی مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔

دلیل 4: جہاد صفائے قلب و باطن کے لیے ذاتی سطح پر جد و جہد کا نام ہے
جہاد کا لفظی معنی جدو جہد اور سعی پیہم کرنا ہے۔ علماء اسلام بارہا یہ کہتے ہیں کہ جہاد کا مطلب ایک بہتر مسلمان بننے کی جدوجہد اور سعی پیہم کرنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جہاد کا معنی جدو جہد اور سعی پیہم کرنا ہے لیکن عام مسلمانوں کے ذہن میں اس کا صرف ایک ہی معنی ہے اور وہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے مسلح جنگ ہے۔ تقریبا جہادی تنظیموں کی جانب ساے جاری کی گئی تمام ویڈیوز اور ای بک (e-book) میں براہ راست قرآن مجید کے حوالے سے یہ بات کہی گئی ہے کہ جہاد کا مطلب ہتھیار اٹھانا، تربیت لینا اور زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کی خاطر لڑنے کے لیے تیار رہنا ہے۔ اکثر جہادی ویڈیو میں ایک آیت کا حوالہ بارہا دیا جاتا ہے:” اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیده نہ رہے۔ اور دین اللہ ہی کا ہو جائے”( 8:39)۔ اس آیت کا حوالہ ملا محمد عمر کی قیادت میں افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے منبع الجہاد اسٹوڈیو کی 2013 میں جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دیا گیا تھا۔
اسی طرح کی دیگر آیات بھی ہیں کہ دہشت گرد جن کا حوالہ اکثر پیش کرتے ہیں۔ 2013 میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک ویڈیو میں اس آیت کا حوالہ دیا گیا تھا : ‘ ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا (9:14)۔ گزشتہ سال قاعدہ الجہاد فی بلاد خراسان (افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ) نے عسکریت پسند مولانا عاصم عمر کا ایک ویڈیو لیکچر جاری کیا جس میں انہوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دیا اور یہ کہا کہ اسلام کو تمام دوسرے نظام حیات پر غالب ہونا چاہئے: “اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل وکرم کرنے والا ہے”(2:251)۔ عاصم عمر نے معنی کی وضاحت اس طرح پیش کی: “اگر جہاد نہ کیا جاتا ہے تو روئے زمین کا ذرہ ذرہ فساد سے بھر جائے گا۔”
جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اسلام اعتدال پسندی کی تعلیم دیتا ہےان وہ اس قرآنی آیت کا حوالہ پیش کرتے ہیں: “دین (کی قبولیت) کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں”(2:256)۔ تاہم، جہادیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت غیر مسلموں پر قابل انطباق ہے جنہیں شرعی احکام کے تحت ہونا ضروری ہے۔ ایک سال قبل تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان میں رہنے والے ایک برمی عسکریت پسند عالم مفتی ابوذر اعظم کا ایک ویڈیو بیان جاری کیاجس میں انہیں نے وضاحت کی کہ
اس آیت کے مطابق کسی بھی عیسائی، یہودی یا غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب مسلمان جنگ کرنے کے لئے جائیں تو انہیں سب سے پہلے دین کی دعوت دینی چاہیے۔ تاہم انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ “صرف اسلام ہی ‘جیو اور جینے دو’ کا اصول فراہم کرتا ہے” انہوں نے کہا کہ بے شک مسلمانوں کے لئے اسلام میں جبر ہے۔ انہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘جب تمہارے بچے دس سال کے ہو جائیں اور نماز ادا نہ کریں تو انہیں نماز کی ترغیب دینے کے لیے مارو۔ اعظم کیا اس تشریح کا مطلب یہ ہے کہ ؛1) بے شک جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو دین کے معاملے میں اس پر جبر ہے؛ 2) غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسلامی حکومت کے تحت ذمی (دوسرے درجے کے شہری) کے طور پر رہنا چاہیے، جو کہ روئے زمین پر واحد جائز نظام حکمرانی ہے۔ اور جزیہ کے بدلے میں ان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے گی۔
جون 2013 میں عاصم عمر نے القاعدہ کے ایک ویڈیو میں کہا کہ کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام کو حکمرانی کے دوسرے تمام نظام پر غالب ہونا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہے اسلام میں ایسی کسی بھی صورت حال کا کوئی تصور نہیں ہے کہ جس میں یہ اقتدار میں غیر مسلموں کے ساترھ ہم آہنگ ہو سکے۔ عمر قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیا: “اور اگر [ایک اسلامی شرعی نظام کے قیام کے] راہ میں کوئی طاقت دخل انداز ہو تو قرآن کا حکم ہے کہ: ‘جو شخص اس نظام میں مخل ہو تو ان کے خلاف قتال کرو یہاں تکہ کہ ان کی طاقت بکھر جائے، ان کی حکمرانی ختم ہو جاتا ہے اور پھر قرآن کے مطابق پوری دنیا میں ایک نظام حکومت قائم کرو”۔ “ٹی ٹی پی کے ساتھ منسلک فیس بک پر ایک انٹرنیٹ فورم، 5 مارچ کو ایک پوسٹ میں اس بات کو مسترد کر دیا کہ “اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں”۔ اس میں ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے: جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے واﻻ ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زنده کردیا (5:32)”۔ جہادیوں کے نقطہ نظر سے جہاد کا مطلب صرف پوری بنی نوع انسان کو شرک اور اس جیسے دیگر مفسدات سے بچانے کے لیے

دلیل 5: اسلام اقلیتوں کی حفاظت کرتا ہے اور امن کی تعلیم دیتا ہے
جب کوئی اسلام پر تنقید تو ہماری بستیوں میں اسلام پسند لوگ یہ جواد دیتے ہیں کہ اسلام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ان کا یہ جواب یقینا درست ہے لیکن اگر ایک گہرائی کے ساتھ اس کی تحقیق کی جائے تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے تحفظ سے لطف اندوز ہونے کے لئے غیر مسلم اقلیتوں کو اسلامی حکومت کے تحت رہنا اور جزیہ ادا کرنا ضروری ہے۔ بہ الفاظ دیگر غیر مسلم حکمران نہیں بن سکتے۔ یہ بالکل وہی جہادی دلیل ہے جس کی بنیاد پر بہت سارے مسلم ممالک غیر مسلم شہریوں کو ریاست کا سربراہ بننے کی اجازت نہیں دیتے۔ آئین پاکستان کے تحت، ایک غیر مسلم پاکستانی شہری ریاست کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ 2008 میں ایک آئینی ترمیم کے تحت مالدیپ نے غیر مسلموں کو وہاں کا شہری بننے سے روک دیا۔ کئی دہائیوں سے مصر نے آئینی طور پر حکومت میں اعلی عہدوں سے اپنے غیر مسلم شہریوں محروم کر رکھا ہے۔ کئی اسلامی ممالک میں خود انہیں کے غیر مسلم شہریوں سربراہ مملکت بننے کی اجازت نہیں ہے۔ سوڈان سے لیکر پاکستان تک پھیلے ہوئے کئی اسلامی ممالک میں توہین رسالت قانون کا بھی یہی حال ہے جہاں اسلام پسندوں کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کو وہ کبھی بھی معاف نہیں کر سکتے۔
اسلامی علماء اور ایک مسلمان اوسطاً یہی کہتے ہیں کہ قرآن امن کی وکالت کرتا ہے۔ بے شک یہ سچ ہے۔ قرآن پاک سینکڑوں آیات ایسی ہیں جو محبت، امن اور بھائی چارے کی دعوت دیتی ہیں ۔ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور مسلمانوں کی اکثریت پرامن ہے۔ تاہم معنی خیز انداز میں اکثریت کا وجود نہیں ہے: ایک پورے گاؤں کو خاموش کرنے کے لیے صرف ایک عالم کو کھڑے ہو کر تقریر کرنے کی ضرورت ہے؛ مسلمانوں کی اکثریت اسے نظر انداز کر کے ان پر حکمرانی کرنے کی اجازت اس عالم کو دے دیتی ہے؛ اور وہ چند لوگ جو اس کی پیروی کرتے ہیں صحیح معنوں میں جہادی بن سکتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ امن اور بھائی چارے کے حق میں سینکڑوں قرآنی آیات ہیں جبکہ اسلام میں مسلح جنگ اور جنگ کی حالت میں عورتوں کی گرفتاری کے کئی جواز بھی موجود ہیں جس کا مظاہرہ بوکو حرام نے نائیجیریا میں کیا۔ لہٰذا دوسرے لوگ دوہری صورت حال کا اعتراف کرنے کی ضرورت کی بات کرتے ہیں: متعدد آیات سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور نہیں بھی۔
کچھ غیر مسلم عام طور پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے اتنی زیادہ تعداد میں نہ ہوتے اگر اسلام تلوار کے ذریعے سے نہ پھیلا ہوتا۔ مندرجہ ذیل نکات یہ حقیقت واضح کریں گے کہ اسلام بزورِ طاقت ہرگز نہیں پھیلا بلکہ اپنی عالمگیر صداقت، عقل پر مبنی تصورات اور سچائی پر مبنی دلائل کی بدولت اسلام کو فروغ ملا ہے۔
اسلام کا مطلب :
اسلام لفظ “سلام ” سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے سلامتی اور امن ، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کی رضا کے آگے جھکا دیا جائے۔ پس اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے جو اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے آگے جھکا دینے کی بدولت نصیب ہوتا ہے۔
طاقت کا استعمال :
دنیا میں ہر انسان امن اور ہم آہنگی قائم رکھنے کے حق میں نہیں ہوتا یا بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے امن و امان کو خراب کرتے ہیں۔ لہذا بعض اوقات امن قائم رکھنے کے لیئے طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ے کہ جرائم کے سد باب کے لیے پولیس کا نظام قائم کیا گیا ہے جو مجرموں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم رہے، اسلام امن کا خواہاں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو ظلم و استحصال کے خلاف لڑنے کا حکم دیتا ہے۔ بعض اوقات ظلم سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام میں طاقت کا استعمال صرف ظلم کے خاتمے ، امن کے فروغ اور عل کے قیام کے لیے ہے اور اسلام کا یہ پہلو سیرت النبی (ﷺ) خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالی عنھم ) کے عہد کے ادوار سے بخوبی آشکار ہوتا ہے۔
مؤرخ ڈی لیسی اولیری کی رائے :
اس غلط نظریے کا جواب کہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلا، ایک انگریز مؤرخ ڈی لیسی اولیری نے اپنی کتاب “Islam at the Cross Road” صفحہ 8 میں بہترین انداز میں دیا ہے:
تاریخ بہرحال یہ حقیقت واضح کردیتی ہے کہ مسلمانوں کے متعلق روایتی تعصب پر مبنی کہانیاں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا اور اس کے ذریعے سے جنونی مسلمان دنیا پر چھا گئے، سب نامعقول اور فضول افسانے ہیں جنھیں مؤرخین نے بار بار دُوہرایا ہے۔”
سپین میں مسلمانوں کے 800 برس :
مسلمانوں نے سپین میں تقریباً 800 سال حکومت کی اور وہاں لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے کبھی تلوار نہیں اٹھائی، بعد میں صلیبی عیسائی برسر اقتدار آئے تو انہوں نے وہاں سے مسلمانوں کا صفایا کردیا اور پھر سپین مین ایک بھی مسلمان ایسا نہ تھا جو آزادی سے ” اذان ” دے سکے۔
تقریباً ڈیڑہ کروڑ عرب نسلی عیسائی ہیں :
مسلمان دنیائے عرب پر 1400 سال سے حکمران ہیں۔ اس کے باجود ابھی تک 14 ملین یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب ایسے ہیں جو نسلوں سے عیسئی ہیں۔ جیسے مصر کے قبطی عیسائی ، اگر اسلام تلوار یا طاقت کے زور سے پھیلا ہوتا تو عرب میں ایک بھی عیسائی نہ ہونا۔
بھارت میں غیر مسلم :
ہندوستان میں مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی۔ اگر وہ چاہتے تو بذریعہ طاقت ہندوستان کے ہر غیر مسلم کو مسلمان کر لیتے۔ آج بھارت کی 80 فیصد آبادی غیر مسلموں کی ہے۔ یہ تمام غیر مسلم کیا اس بات کی زندہ شہادت نہیں ہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا۔
انڈونیشیا اور ملائشیا میں اسلام :
دُنیا بھر کے ممالک میں سے انڈونیشیا میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اسی طرح ملائشیا میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ کون سی اسلامی فوج انڈونیشیا اور ملائشیا گئی تھی؟
افریقہ کا مشرقی ساحل :
اسی طرح اسلام بہت تیزی سے براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پر پھیلا ۔ مستشرقین سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام تلوار کے ذریعے سے پھیلا تو کونسی اسلامی فوج افریقہ کے مشرقی ساحل پر گئی تھی۔
تھامس کار لائل کی دلیل :
مشہور مؤرخ تھامس کار لائل اپنی کتاب ” ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ ” میں اسلام کے پھیلاؤ کے بارے میں مغربی تصورات کی تردید کرتے ہئے کہتا ہے:
اسلام کے فروغ میں تلوار استعمال ہوئی لیکن یہ تلوار کیسی تھی؟ ایک نظریہ تھا۔ ہرنیا نظریہ شروع میں فردِ واحد کے نہاں خانہ دماغ میں جنم لیتا ہے۔ وہاں وہ نشونما پاتا رہتا ہے۔ اس پر دنیا بھر کا صرف ایک ہی آدمی یقین رکھتا ہے۔ گویا ایک شخص فکری لحاظ سے تمام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر وہ ہاتھ میں تلوار لے اور اس کے ذریعے سے اپنا نظریہ پھیلانے کی کوشش کرے تو یہ کوشش بے سود رہے گی۔ لیکن اگر آپ اپنے نطریے کی تلوار سے سرگرمِ علم رہیں تو وہ نظریہ دُنیا میں اپنی قوت سے خود بخود پھیلتا چلا جائے گا۔”
دین میں کوئی جبر نہیں :
یہ درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ مسلمان فروغ اسلام کے لیے تلوار استعمال کرنا چاہتے بھی تو استعمال نہیں کرسکتے تھے کیونکہ قرآن مجید مندرجہ ذیل آیت میں کہتا ہے۔
لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (سورۃ البقرہ 2 آیت 256)
دین میں کوئی جبر نہیں۔ ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے۔ “
حکمت کی تلوار :
فروغِ اسلام کا باعث دراصل حکمت کی تلوار ہے۔ یہ ایسی تلوار ہے جو دل اور دماغ فتح کرلیتی ہے۔ قرآن کہتا ہے ۔ :
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (سورۃ النحل 16 آیت 125)
لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین وعظ کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کریں۔”
نصف صدی میں عالمی مذاہب کے پیروکاروں میں اضافہ :
1986ء میں ریڈرز ڈائجسٹ کے ایک مضمون میں 1934ء سے 1984ء تک نصف صدی میں دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے پیروکاروں کی تعدار میں فیصد اضافے کے اعداد و شمار دئے گئے تھے۔ یہ مضمون ” صاف سچ ” (The Plain Truth) نامی جریدے میں بھی چھپا۔ ان میں سرفہرست اسلام تھا جس کے پیروکاروں کی تعداد میں 235 فیصد اضافہ ہوا اور عیسائیت میں اضافہ صرف 47 فیصد رہا۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ اس صدی میں کون سی مذہبی جنگ لڑی گئی جس نے لاکھوں لوگوں کو مسلمان کردیا۔
امریکہ اور یورپ میں روز افزوں مذہب اسلام ہے :
آج یورپ اور امریکہ میں سب سے زیادہ بڑھنے والا مذہب اسلام ہے۔ وہ کون سی تلوار ہے جو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ہونے پر مجبور کررہی ہے؟ یہ تلوار اسلام کا سچا عقیدہ ہے۔
ڈاکٹر جوزف آدم پیٹرسن کا اعلانِ حقیقت :
ڈاکٹر جوزف آدم پیٹرسن صحیح کہتے ہیں:
جو لوگ فکر مند ہیں کہ ایٹمی ہتھیار ایک دن عرب لوگوں کے ہاتھ لگ جائیں گے ، وہ اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ اسلامی بم تو پہلے ہی گرایا جاچکا ہے۔ یہ اس دن گرا تھا جب محمد (ﷺ) پیدا ہوئے تھے۔ “
۔۔۔۔۔۔

اسلامو فوبیا کی تاریخ
ماضی، حال اور مستقبل

مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی یورپ کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ مسلمانوں کا شاندار ماضی ان کے تعصب زدہ دل و دماغ میں کچوکے لگاتا رہتا ہے اور وہ اپنا ذہنی خلفشار مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر افشانی کرکے دور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یورپ میں مساجد اور دیگر اسلامک سنٹرز پر حملہ آور ہو کر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا روز کا معمول بن چکا ہے، خواتین کا حجاب بھی کئی ممالک میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے، کچھ ملکوں نے اس پر مکمل تو کچھ نے جزوی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ مغرب اس دانشور یا نام نہاد مفکر کو سر آنکھوں پر بٹھاتا اور اعزازات سے نوازتا ہے جو اسلام اور اسلامی افکار کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ سلمان رشدی کو ”سر‘‘ کا خطاب دیا جانا اس کی واضح مثال ہے۔ یورپ، امریکا، بھارت سمیت دنیا بھر میں ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دینِ اسلام کے خلاف بے شمار نفرت انگیز تحریکیں سرگرم عمل ہیں، اگرچہ ایسی تحریکیں ہر نسل اور ہر قوم کے پناہ گزینوں کے خلاف ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا نشانہ اسلام اور مسلمان ہی ہیں۔ اینٹی مسلم فائونڈیشنز، این جی اوز کو کئی ملین ڈالرز کے فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں۔ سوسائٹی آف امیریکنز فار نیشنل ایگزیسٹنس (SANE) جیسی تنظیموں کا مقصدِ عین اسلامی شریعہ کے خلاف مہم چلانا ہے۔ اسی طرح ایک تنظیم ”سٹاپ اسلامائزیشن آف امریکا‘‘ (SIOA) نے 2010ء میں مساجد کے قیام کے خلاف احتجاج کئے اور نفرت انگیز اشتہار چلانے کے لیے بسوں کا استعمال کیا۔ امریکا میں 2016ء میں مسلم مخالف گروہ تیزی سے قائم ہوئے اور 2018ء میں ایک ہزار سے زائد گروپوں کی تشکیل نے امریکا میں ریکارڈ قائم کر دیا۔ نیوز میڈیا، لٹریچر، ویب سائٹس، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، وڈیو گیمز سمیت تمام ذرائع ابلاغ کو اسلاموفوبیا کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے بعض مغربی ممالک میں اسلام کی منفی انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے‘ نیوز چینلز پر بھی مسلمانوں کے حوالے سے منفی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جاتا رہا اور امریکیوں کی اس حد تک ذہن سازی کی گئی کہ عمومی تاثر یہ ہو چکا ہے کہ امریکا و یورپ میں مسلمان ہی دہشت گردی کی کارروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔

آکسفورڈ انگلش اور اُردو ڈکشنری فوبیا کی تعریف اس طرح کرتی ہے ”ذہن کی مریضانہ کیفیت‘ جو کسی طرف سے خوف یا نفرت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے‘‘۔ آج مغربی دنیا کو اسلام کا خوف دامن گیر ہوگیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامو فوبیا کی اصطلاح مشہور مصور الفانسے ڈینٹ اور الجیریا کے مفکر سلیمان بن ابراہیم نے 1918ء میں فرانسیسی میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں متعارف کروائی تھی لیکن درحقیقت اسلامو فوبیا صلیبی جنگوں کے دوران وجود میں آیا اور شاہ فلپ نے اسلامو فوبیا ہی کے تحت تین لاکھ مسلمانوں کو اندلس سے دربدر کیا تھا۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق اس لفظ کا باقاعدہ استعمال 1923ء میں”دی جرنل آف تھیولوجیکل سٹڈیز‘‘ کے ایک مضمون میں ہوا تھا۔ اسلاموفوبیا کی اصطلاح کا استعمال برطانیہ کے ایک ادارے رینمیڈ ٹرسٹ نے 1997ء میں ایک رپورٹ میں بھی کیا تھا جس کا عنوان تھا ”اسلامو فوبیا سب کے لیے چیلنج‘‘۔ رینمیڈ ٹرسٹ کے مطابق اسلامو فوبیا کوئی ایک خوف نہیں بلکہ بہت سے دیگر خوفوں کا مجموعہ ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مدیر رچرڈ رابنسن کے مطابق اسلامو فوبیا کی اصطلاح کی موزوں تعریف متعین کرنے کی ضرورت ہے۔
سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samuel P. Huntington) کے تہذیبوں کے ٹکرائو کے نظریے نے بھی مغربی معاشروں میں اسلام دشمنی کے جذبات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح نائن الیون کو فوری طور پر مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا۔ جارج بش کا یہ اعلان کہ ہم ”صلیبی جنگ‘‘ کا آغاز کریں گے‘ دراصل ان عزائم کا واضح اظہار تھا جن کے تحت صلیبی و صہیونی تحریکیں عرصہ دراز سے دنیا کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ گوانتا نامو اور ابوغریب جیل میں مقدس کتب کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی گئی وہ بھی اسلامو فوبیا ہی کا نتیجہ تھا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو خونخوار‘ دہشت پسند اور امن عالم کیلئے خطرے کی علامت کے طور پر پیش کیا جانا‘ گستاخانہ خاکوں کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانا‘ سب یہ اسلامو فوبیا نہیں تو اور کیا ہے؟ یورپی معاشرے میں آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق ناقابل تنسیخ ہے لیکن اس کے لیے بھی حدود و قیود مقرر ہوتی ہیں اور ان سے تجاوز کرنے پر قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے‘ مثلاً یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر یہودیوں کے قتل عام (Holocaust) کے خلاف لکھنا‘ اس کی تردید کرنا، اور تفصیلات شائع کرنا ایک جرم ہے۔ ہولو کاسٹ کی تردید کرنے والے عالمی شہرت یافتہ مصنف ارنسٹ زنڈل(Ernst Zundel) کو 2005ء میں کینیڈا بدر کر دیا گیا تھا۔ جرمنی میں اس پر 14 الزامات عائد ہوئے اور 5 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ برطانوی مورخ ڈیوڈ اورنگ کو 2006ء میں آسٹریا کی عدالت نے دوسری جنگ عظیم کی تاریخ لکھنے کی پاداش میں 3 سال قید کی سزا سنائی۔ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لکھنا، ہرزہ سرائی کرنا، توہین آمیز خاکے شائع کرنا جیسے اقدام آزادیٔ اظہار کے نام پر بلاخوفِ تعزیر انجام دیئے جاتے ہیں۔ یہ مغرب کا دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک طرف یہ ممالک یہودیت و عیسائیت کے تحفظ کا قانون بناتے ہیں اور دوسری جانب اسلام کے خلاف دشنام طرازی پر خاموش رہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے یورپی و امریکی اخبارات مسلمانوں کے خلاف من گھڑت کہانیا ں شائع کر رہے ہیں کیونکہ اسلامو فوبیا مغرب میں خوف کی صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ امریکی مصنف ناتھن لین کے مطابق امریکا میں اسلامو فوبیا ملین ڈالر انڈسٹری کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ جس سے امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے سیاسی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ بعض اخبارات و جرائد میں باقاعدگی سے اسلامو فوبیا کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور گزشتہ سال ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن کی آڑ میں اسلامو فوبیا مہم بھی چلائی گئی۔ ہالی وُڈ کی فلموں کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں عربوں اور مسلمانوں کو ہمیشہ منفی انداز میں بالخصوص ولن، دہشت گرد اور خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث دکھایا گیا اس ضمن میں لاتعداد فلموں کی مثال دی جا سکتی ہے؛تاہم بیروت، 7 days in Entebbe، The 15:17 to Prais، جیک ریان اور الہ دین جیسی فلمیں سرفہرست ہیں۔ نائن الیون کے بعد بڑی تعداد میں اسلام مخالف لٹریچر اور کتابیں منظر عام پر آئیں۔ رابرٹ سپنسر، پامیلا گیلیر اور بل وارنر جیسے مصنف اس ضمن میں نمایاں ہیں۔ اس مقصد کے لیے کئی ویب سائٹس بھی چلائی جا رہی ہے۔ بعض وڈیو گیمز بھی اس حوالے سے کافی نمایاں ہیں۔
مسلمانوں کے حوالے سے امریکا و یورپ میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ امریکا سمیت پوری دنیا میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں‘ اس لئے اگست 2017ء میں 43 امریکی ریاستوں میں شرعی نظام کے خاتمے کیلئے 201 بل منظور کئے گئے تھے۔ اس وقت اسلامو فوبیا کو سیاست اور سیاسی پالیسیوں کا ایک اہم عنصر بنا دیا گیا اور متعدد امریکی و یورپی سیاستدانوں نے اسی چیز کی بنیاد پر ووٹ مانگا۔ ایک سروے کے مطابق صرف 15 فیصد امریکی اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہیں، 37 فیصد اسلام کے حوالے سے منفی رائے رکھتے ہیں۔ پیو سروے کے مطابق دیگر مذہبی و نسلی اقلیتی گروپوں کی نسبت مسلمانوں کے خلاف نفرت و عصبیت 48 فیصد زیادہ پائی جاتی ہے۔ 41 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ مسلمان تشدد پسند ہیں اور نصف سے زائد امریکیوں کے خیال میں اسلام امریکی سماج کا حصہ ہی نہیں۔ امریکا میں مسلمانوں کے خلاف عصبیت و منافرت 75 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ اس وقت مغرب اور عالم اسلام کے مابین جس قسم کی کشمکش پائی جاتی ہے اس کی ذمہ داری یورپی ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ایک عرصہ تک اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ عالم اسلام کے ساتھ مغرب کی عداوت کو بڑھانے میں تحریک استشراق (Orientalism) کا اہم کردار ہے۔ اسلام کے ساتھ عداوت کو تاریخی طور پر صلیبی جنگوں سے جوڑنے میں ان کی بیشتر کتابیں اسلام سے متعلق انتہائی منفی افکار سے بھری ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ گلوبلائزیشن، لبرل ازم، سیکولر ازم اور مغرب کے دیگر مادی فلسفے بھی عالم اسلام کو کمزور کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ آئے روز یورپ کے کسی نہ کسی ملک میں توہین آمیزخاکے بھی تہذیبوں کے تصادم کی راہ کھول رہے ہیں لہٰذا ایسے میں اسلام مخالف مواد پر اسی نوعیت کی پابندی لگائی جانی چاہئے جیسے ”ہولوکاسٹ‘‘ سے متعلق عائد ہے۔ رحمت دو عالم حضرت محمد مصطفیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ”مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں‘ اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘ لہٰذا عالم اسلام کے حکمرانوں کو اب خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر دنیا بھر کے ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔

ففتھ جنریشن وار
اسلامو فوبیا اور عیسائی ذہنیت

انگریزی مقولہ ہے کہ ”کتے کو مارنے سے پہلے اسے پاگل مشہور کردو

اسلام اور مسلمانوں پر اسلامو فوبیا کے تخلیق کاروں کی طرف سے جو چارج شیٹ لگائی گئی ہے، اس کے اہم نکات میں سے عدم رواداری‘ بنیاد پرستی‘ خواتین کی حقوق تلفی اور تاریک خیالی ہیں‘ دن رات یہ تاثر دینے کی کوشش چل رہی ہے کہ”اسلام کے اڑیل غیر لچک والے رویہ“ کی وجہ سے ساری دنیا میں خلفشار پھیلا ہوا ہے۔ یہ چارج شیٹ شاید تاریخِ انسانی کی سب سے زیادہ جھوٹی اور خلافِ حقیقت چار شیٹ کہی جاسکتی ہے‘ عملاً دنیا میں جو ہورہا ہے وہ اس کے برعکس ہے ۔ دنیا کی ظالم طاقتوں نے مل کردنیا کے وسائل اور انسانوں کو اپنا غلام بنانے کے لئے ایک پلان بنایا ہے ،اس پر وہ عمل پیرا ہیں‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں چیلنج کرنے والی کوئی طاقت اور نظریہ باقی نہ رہے‘ کمیونزم کی شکست کے بعد ”قوم پرستی“ اور ”اسلام“ ہی دو خطرہ ہیں‘ ”قوم پرستی“ بڑا خطرہ اس لئے نہیں کیونکہ یہ انہیں انسان دشمنوں کا ایجاد کردہ ہے‘ اسلام ہی اکیلا چیلنج ہے جو موجود ہے‘ اور اسلام کے تعلق سے انگریزی مقولہ پرعمل ہورہا ہے کہ ”کتے کو مارنے سے پہلے اسے پاگل مشہور کردو“ مغربی ممالک ایک ”گینگ“ کی صورت میں اپنے اپنے حصہ کا رول ادا کررہے ہیں اور ”سردار“ ان کو حرکت میں رکھ رہا ہے‘ اسلام کے خلاف جنگ میں ان کا اہم حربہ مسلمانوں میں غیر مرکزیت اور فواحش ومنکرات کا فروغ ہے‘ اس مہم کو جمہوریت کے ”قیام“ اور ”خواتین کی آزادی“ کی مہم کا نام دیا ہے۔ جمہوریت کے تعلق سے ان کے منافقانہ رویہ کی کھلی اور تازہ ترین مثال فلسطین‘ ترکی اور فرانس میں دیکھنے میں آئی‘ فلسطین میں جمہوری طریقہ سے الیکشن جیت کر آنے والی جماعت کو ساری مغربی دنیا اور غیر اسلامی دنیا نے منظوری اور ممد نہیں دی‘ اس پر پابندیاں لگادیں‘ انصاف پسندی کی مثال دیکھئے حما س کی %۷۰ سیٹیں ہیں اور اس کے وزراء کی تعداد ۱۹/ میں سے ۹/ہوگی۔ فتح کی نشستیں %۲۵ ہیں ،اس کے وزیر ۶/ہوں گے ۔یہ ہے انصاف جو مکہ المکرمہ میں کیا گیا ہے، مگر مغرب ابھی بھی ناراض ہے اور حماس کی سرکار کو مانا نہیں جارہا ہے۔ ترکی میں صدارتی انتخاب میں اسلامی رجحانات کے حامل متوقع امید وار عبد اللہ گل کے وزیر اعظم طیب اردگان کے ذریعہ اعلان کئے جانے پر یہ معاملہ اٹھایا کہ عبد اللہ گل اسلام پسند ہیں اور ان کی بیوی اسکارف باندھتی ہیں اور ایسی خاتون ملک کی خاتون اول کے طور پر قصر صدارت میں پہنچنا ترکی میں شوشلزم کے لئے بڑا خطرہ ہوگا‘ وہاں کی مغرب زدہ فوج نے دھمکی دی اور انقرہ اور ازمیر میں بڑے بڑے مظاہرہ کرائے گئے کہ اسلام پسندوں سے ترکی کو خطرہ ہے‘ یہاں تک کہ یہ صدارتی انتخابات عدالت نے ایک قانونی حیلہ سے جولائی تک کے لئے ٹال دیئے۔ دوسری طرف دیکھیں کہ اسی ماہ فرانس میں صدارتی الیکشن ہوئے‘ جس میں ایک انتہاء پسند عیسائی‘ صہیونیت کا حامی‘ بیرونی مہاجرین کا مخالف اور کھلے بندوں سرمایہ داری اور امریکہ واسرائیل کی حمایت کرنے والا شخص نکولس سارکوزی صدر منتخب ہوگیا، مگر دنیا میں کوئی چرچا نہیں، کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی بحث نہیں۔ ترکی کے رکن امیدوار پر ہی ہنگامہ اور فرانس میں کٹر اور انتہائی سخت تنگ نظر شخص کے منتخب ہونے پر بھی کوئی ہنگامہ نہیں‘ جب کہ طیب اردگان کی پارٹی نے اپنے چار سالہ اقتدار میں یورپین یونین میں شامل ہونے کے لئے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا جس سے مغربی ممالک کو اعتراض کا موقع ملے‘ اس کے برعکس فرانس میں سارکوزی کے مقابلہ نرز اور سیوکلر صدر نے بدنام زمانہ قانون پاس کرکے لاگو کرایا کہ کوئی بھی خاتون اسکارف یا مذہبی علامت پہن کر اسکول نہیں آسکتی‘ جبکہ طیب اردگان کے ترکی میں ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ کو اسکارف باندھ کر پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک نہیں ہونے دیا گیا، دراصل یہ ساری بہانہ بازیاں اپنے اصل مکروہ اور ظالمانہ عزائم کو پوشیدہ رکھنے کے لئے کی جارہی ہیں، جمہوریت کارونارویا جاتا ہے اور ڈکٹیٹروں کی حمایت کی جاتی ہے ‘ میانمار کے ڈکٹیٹروں‘ پاکستان کے ڈکٹیٹر‘ مصر کے ڈکٹیٹر‘ مغربی ممالک کے منظور نظر کیوں ہیں؟ پاکستان کے صدرپاکستان کو جدید فلاحی ریاست بنانے کے لئے مدرسوں کی اصلاح کے لئے بلیئر اوربش‘ جاپان اور جرمنی سے کروڑوں روپیہ لے رہے ہیں۔ خواتین کی آزادی کے لئے مقابلہٴ حسن کا انعقاد ہورہا ہے، وہاں کی خاتون وزیر اسپین جاکر ہوا باز کی گردن میں بانہیں ڈال کر فوٹو کھنچواتی ہیں‘ لاہور میں میراتھن دوڑ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں مرد اور عورت ایک ساتھ حصہ لے کر شہر میں دوڑتے ہیں‘ مختارن مائی کی عصمت دری پر رونے والے اسلام آباد میں خواتین کی عصمت فروشی کو ”خواتین کی آزادی“ کے نام پر حلال کر لیتے ہیں اور مغربی آقا بھی مختارن مائی کو اقوام متحدہ کی ”برانڈایمبیسڈر“ بناتے ہیں مگر ”کوثربی بی“ پر ہونے والے شرمناک ظلم پر ابھی تک زبانیں گنگ ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ مغرب کن عوامل کے ذریعہ انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے؟ ایک تو انسانیت میں بے حیائی اور شراب‘ جوا کا فروغ ”تہذیب“ اور ”آزاد خیالی“ اور ”روشن خیالی“ کے نام پر کرتا ہے۔ دوسرے عقیدہ میں کمزوری پیدا کرنے کے لئے ”برداشت“ اور ”رواداری“ کے ناموں کا استعمال کرکے اسلامی دنیا میں اس کے لئے ماحول تیار کرتا ہے ۔ترکی میں صدارت کے اسلام پسند امیدوار کے خلاف رائے عامہ کو بنانے کے لئے مغرب نے ایک طرف تو اپنے ایجنٹوں کو سڑکوں پر اتارا ہے کہ وہ ”شریعت منظور نہیں ہے“ کے نعرہ لگائیں، دوسری طرف پورا مغربی میڈیا اس مہم پر لگ گیا ہے کہ ان مصنوعی مظاہروں کو دنیا بھر میں نمایاں کرکے پیش کرے۔ فلسطین میں حماس کے مقابلہ کے لئے ”الفتح “کو نمایاں کیا جارہا ہے اور فرضی ناموں کے انٹرویو دکھا کر اسے رائے عامہ بتا کر پیش کیا جارہا ہے کہ عوام اب اکتا گئی ہے اور وہ اب آزادی کی جنگ نہیں لڑنا چاہتی ہے نوبت یہاں تک ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے مل کر ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا اسلحہ گذشتہ (اپریل ۲۰۰۷ء) میں مصر کے ذریعہ الفتح کو بھجوایا ہے، تاکہ حماس کے مقابلہ میں کمزور نہ پڑے۔ مئی ۲۰۰۷ء کے دوسرے ہفتہ میں جو برادر کشی فلسطین میں جاری ہے، اس میں الفتح کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے سیدھاحماس کو نشانہ بنایاہے اور ۴-۵ دنوں میں میزائل حملوں میں ۲۰ سے زائد حماس رکن اور بے گناہ فلسطینی شہید کردیئے گئے ۔ سوڈان میں عرصہ سے یہ منافقین جنوبی لبنان کے عیسائیوں کی بھر پور مدد افریقی ممالک کے ذریعہ کررہے ہیں ،وسطی ایشیا کی تمام جمہوریاؤں میں ڈکٹیٹروں کی مدد کرکے عوام کو دبار ہے ہیں ا۔قوام متحدہ کے تمام اداروں کا استعمال مسلمانوں میں آپسی انتشار کو بڑھانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مجرم اور عیاش صدر سابق امریکی نائب وزیر دفاع کی جو گرل فرینڈ شاہ علی رضا ہیں ،وہ نام نہاد خواتین کی حقوق کی علمبردار ۵۱ سال کی ہیں اور پال ولفووٹز سے عشق لڑا رہی ہیں اور اسی کلچر کو کہ ۵۱ سال کی عمر میں عاشقی فرمائی جائے وہ پھیلانے کے لئے دنیا بھر میں کوشاں ہیں، یعنی دنیائے اسلام میں ان کا خاص میدان کار شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا ہے اور دونوں کی دوستی ۹۰ کی دہائی کی شروعات میں تب ہوئی ،جب دونوں ”نیشنل انڈومنٹ فارڈیموکریسی“ سے جڑے ہوئے تھے ۔ یا د ہے کہ پال ولفوٹز ایک کٹر یہودی اور عراق کے خلاف امریکی جنگ کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے، ورلڈ بینک میں اپنی تصویر غریبوں کے ہمدرد کی بنائی ہے اور شمالی افریقی ممالک نے اس معاشقہ پر چٹکی لیتے ہوئے بجا ہی کہا ہے کہ: ہمیں بات بات پر کرپشن کا طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ غریبوں کی امداد کی رقم کے بل بوتے پر عاشقی منائی جارہی ہے ،عورتوں کی ہمدرد گرل فرینڈ کو غیر قانونی ترقی دے کر اس کی تنخواہ ۱۳۳۰۰۰ امریکی ڈالر سے بڑھا کر ۱۹۳۰۰۰ امریکی ڈالر کردی ہے، اسی طرح کی دوسری مسلم خاتون امریکہ کی محکمہ خارجہ میں شیریں طاہر خیل ہیں، امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشیا کے معاملات کی ذمہ دار ہیں، ان کی بھی یہی خصوصیات ہیں۔ گذشتہ ماہ ہندوستان آمد پر ایک اخبار کو انٹرویو دیا اور دل کھول کر بالکل صاف صاف عراق پر امریکی حملہ کی حمایت کی کہ اس سے جمہوریت کو فروغ حاصل ہوگا‘ ہالینڈ میں پرس علی افریقہ نژاد خاتون کو سارے مغربی میڈیا نے خوب سر پر چڑھا کر رکھا ،کیونکہ وہ قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ پر خوب تنقید یں کرتی تھی، سیاسی طور پر دیکھیں تو ہر ملک کے انتہائی کرپٹ حکمرانوں کو انہیں وواصلاح پسندوں“ کے در پر جائے امان ملتی ہے ،تمام مسلم دنیا کے کرپٹ حکمراں اور سیاست داں یہیں پناہ گزیں ہیں۔ سلمان رشدی اور فتنہٴ امامت خواتین کی بانی اسریٰ نعمانی اور مغرب کے ایجنٹ لندن سے ہی کارو بار قتل وخون چلا رہے ہیں، ایک طرف تو یہ مغربی شاطر مسلم دنیا کی غریبی اور ابتر حالت پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں ،دوسری جانب جو لٹیرے اس ابتر صورت حال کے لئے ذمہ دار ہیں انہیں اپنے گھروں میں امان دیتے ہیں ،ان کی لوٹی ہوئی دولت کو اپنے یہاں بینکوں میں جمع کرکے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، صومالیہ کی مثال بالکل تازہ ہے، جہاں پڑوسی عیسائی ملک کی فوج کو اپنے ایمان فروش ایجنٹوں کے ساتھ صومالیہ پر قبضہ کرادیا اور وہاں کشت وخون جاری ہے ،مغرب کا اسلحہ بھی فروخت ہورہا ہے اور مسلمان آپسی انتشار میں بھی مبتلا ہورہا ہے ۔ یہاں پر غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ حقوق نسواں‘ڈیموکریسی‘ ورلڈبینک ان سب کا آپس میں رشتہ کیا ہے؟ ایک کٹر یہودی کی صدارت میں ورلڈ بینک افریقی ممالک کی معاشی مدد کن شرطوں پر اور کیوں کر رہا ہے؟ مغرب نواز کردوں کے ذریعہ ترکی اور ایران میں کون بم دھماکہ کرارہا ہے؟ لبنان کی حکومت کو فتح کے مسلح گروپ پر لبنان میں فوج کشی کے لئے امریکی ۳۰۰ ملین ڈالر کے ہتھیار کون دے رہا ہے؟ عراق میں کرد امریکی مفادات کا تحفظ کیسے کررہے ہیں؟ اس پلاننگ کا ایک اہم پہلو عقیدہ کو مضمحل کرنا ہے اور اس کے لئے فری میسن طرز کے ہتھکنڈے ابھی بھی اپنائے گئے ہیں ،مسلم ممالک میں ان کے قبل از اسلام ماضی کی تاریخ اور تہذیب کو آرٹ اور Ethnicity کے نام پر بڑھایا جارہا ہے ،افریقی ممالک‘ مصر‘ انڈونیشیا ہرجگہ قدیم کی طرف رجوع کے نام پر غیر اسلامی تہذیب کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ۱۸/ مئی کے اخبارات میں سینگال کے تعلق سے رائٹر کی یہ خبر میرے مدعا کو بہتر طور پر سمجھا سکتی ہے ”مریدی فرقہ ۱۸۸۷ء میں فرانسیسی غلامی کے زمانہ میں فاتح ہوا تھا، یہ فرانسیسیوں کے خلاف بغاوت اور کلچرل پروجیکٹ تھا ،جس میں اسلامی اور مقامی روایات کو یکجا کیا گیا تھا۔مریدیوں نے کہا :اگر ہم اپنی مساجد بنانے کے لئے سعودیوں سے پیسہ لے لیتے تو پھر ہمیں انہیں کے طریقہ سے عبادت کرنی پڑتی، مغربی افریقہ میں سعودی مدد سے مسجدیں بنی ہیں، جس سے وہاں وہابی نظریات کا فروغ ہوسکتا ہے ،جبکہ مریدی رواداری کی تعلیم دیتے ہیں، مرید یہ اپنی آزادی اور مذہبی تسکین کو بہت اہمیت دیتے ہیں ،مگر دیگر مسلم ممالک کی طرح ان کی عورتیں برقعہ پوش نہیں ہوتی ہیں، آزادی سے گھومتی ہیں، اس طریقہ کی ایک شاخ تو ایسی ہے جس میں نماز روزہ کی پابندی نہیں ہے ،بلکہ شراب پینے اور دیگر نشہ کو بھی منع نہیں کیا جاتا ،اسے بائی فال کہا جاتا ہے، اس گروپ کے شیخ تیدین سامب نے کہا: اسلام امن کا مذہب ہے، یہ ہمیں لوگوں کو کلاشنکوف سے مارنا نہیں سکھاتا۔ یہ لوگ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ: اگر کوئی شخص حج کے لئے مکہ جانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ’ ’وتوبا“ (بانئی فرقہ مریدیہ کی جائے پیدائش) آکر اتنا ہی ثواب حاصل کرسکتا ہے۔ نیویارک میں یہ بڑی تعداد میں رہتے ہیں اور ”لٹل سینگال“ نام کی برادری قائم کررکھی ہے۔ (ہندوستان یکسپریس‘ ۱۸/مئی ۲۰۰۷ء) خط کشیدہ جملوں پر غورفرمائیں کہ”رائٹر“(ایک جرمن یہودی کی ایجنسی ) کس قسم کی خصوصیات مسلمانوں میں پروان چڑھاناچاہتی ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے پندرہ دنوں(مئی۲۰۰۷ء کے پہلے پندرہ دن میں ) بوسنیاسے خبر آئی کہ وہاں کے مقامی یورپین مسلمانوں نے باہر سے آئے مجاہدین سے نفرت کرنی شروع کردی ہے ،کیونکہ یہ لوگ سخت قسم کے مسلمان ہیں اور بوسنیائی مسلمان آزادی ،شراب نوشی ،سورکا گوشت خوری اور آزادانہ جنسی اختلاط اورنائٹ کلب کی زندگی کے عادی ہیں ۔اسی طرح کی خبریں تواتراور تسلسل کے ساتھ پورے میڈیا اورہندی ،انگلش سب میں یکساں الفاظ میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔اندونیشیااور وسطی ایشیا کے بارے میں بھی ہمیں یہاں کی ایجنسیا ں بتاتی رہتی ہیں کہ وہاں ”صوفی اسلام “ اشاعت پذیر ہے اور” سخت گیر“”کٹر “”وہابی مسلمان “کم ہورہے ہیں ۔ ان تمام رپوٹوں میں قدرِمشترک یہ ہے کہ وہ آزادی پسند ،حرام وحلال سے بے پرواہ اور جواکے عادی ہوتے ہیں، اورایسے ہی مسلمان اچھے اور روادار کہلاتے ہیں اوراسی طرح کے مسلمان کواسلامی دنیا میں فروع دیناہے ۔ اسی لئے حماس کے مقابلہ الفتح کی حمایت کی جارہی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور مشرف سے امریکا ماتحتی میں سمجھوتہ کرایا جارہا ہے، ترکی میں مظاہرہ کراکر اسلام پسند سیاستدانوں کو دباؤ میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک جانب تو مسلمانوں اور عالم اسلام کے حکمرانوں میں مذہب سے دوری پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش دن رات جاری ہے، دوسری طرف تمام مغربی اور مشرقی ممالک کے معاشرہ اور ان کے حکمراں زیادہ سے زیادہ اپنے مذاہب سے وابستہ ہورہے ہیں، وہاں کٹر مذہبی گروہ حکومتوں پر حاوی ہورہے ہیں، نام نہاد دہشت گردی اور ”اسلامی انتہا پسندی“ کے خلاف جنگ میں آگئے۔ تمام ممالک میں اس وقت مذہبی ،نسلی، انتہا پسند براہ راست یا بالواسطہ اقتدار میں ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اسرائیل، جرمنی ہر جگہ انتہائی کٹر عیسائی و یہودی ذہن کے حکمراں اور نوکر شاہی حکومت کررہی ہے۔ قارئین بش اور بلیئر کے ان صلیبی اعلانوں کو بھولے نہیں ہوں گے کہ ”عراق کے خلاف جنگ خدائی حکم ہے“ یا یہ کہ ”میں خدائی مرضی پوری کررہا ہوں۔“ اس کے علاوہ آپ بش کے بڑے بڑے فیصلے دیکھیں۔ کلوننگ، اسقاط حمل، Stem Cell پر تحقیق سب مسئلوں میں بش نے عیسائی مذہبی پیشواؤں کے خیالات کی تائید کی ہے، بلیئر بھی اپنے یہاں قدامت پسند عیسائی روایات کو قدیم کی طرف رجوع (Return to Basics) کے نام پر آگے بڑھارہے ہیں، یہی حال جرمنی، اٹلی، فرانس، ہالینڈ ہر جگہ ہے یا تو مذہبی انتہا پسند حکومت کررہے ہیں یا جنونی وطن پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے یا بالکل ہی جانور بنانے کی تہذیب کو فروغ دیا جارہا ہے؟ جن باتوں یعنی قدامت پرستی، بنیاد پرستی، عدم رواداری وغیرہ پر عالم اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وہی تمام خصوصیات یورپ، امریکا اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ لڑنے والے ہر ملک میں بڑھائی جارہی ہیں، یعنی جواوروں کے لئے بُرا ہے ان ٹھیکیداروں کے لئے اچھا ہے۔ عالم اسلام کی انسانی ذمہ داری: یہ ہے کہ وہ تارِ عنکبوت کو تار تار کردے، اور تمام دنیا کے سامنے انصاف، عدل، امن، امر بالمعروف و نہی عند المنکر کے مقاصد کو حاصل کرنے والے نظام کی طرف متوجہ کرائے، اللہ کا دیا ہوا نظام ہی دنیا کے مسائل کو حل کرکے اسے جنت بناسکتا ہے، ماحولیاتی آلودگی، ہتھیاروں کی اندھا دھند تجارت، صارف کلچر ،سرمایہ کی لوٹ، اخلاقی قدروں کی پامالی، نشہ کی بڑھتی لت، جانوروں کی حد تک گری ہوئی جنسی حرکات جیسی لعنتوں سے تمام عالم پریشان ہے اور دنیا کے نام نہاد غنڈا ٹھیکیدار اپنے مذموم مقاصد کے تحت تریاق کو زہر بناکر پیش کرنے کی مہم میں آگے ہیں، کیونکہ اس سے ان کی لوٹ، کھسوٹ، ظلم اور اجارہ داری کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے، اس وقت دنیا میں تمام منفی پروپیگنڈا اور گھناؤنی شازشوں، فریب کارانہ بم دھماکوں اور انکاؤنٹروں، بی بی سی اور ”دیش بھگت“ میڈیا کی دن رات کی زہرا فشانیوں کے باوجود اسلامی تعلیمات کا سورج اپنی روشنی بکھیر رہا ہے، اسلام دلیل کے میدان اورپرامن طریقہ سے بات منوانے کے میدان میں کبھی کمزور نہیں رہا ہے اور نہ رہے گا، کیونکہ یہ اللہ علیم و خبیر کا پیغام ہے، اسلام آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ تو ہے ہی، ساتھ دنیا کو بھی جنت بنانے کا کام یہ اپنے پیرؤں کو دیتا ہے۔ امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کستوری ہرن کی طرح اپنی مشک کی خوشبو کو اپنے اندر ڈھونڈنے کے بجائے ستارئہ صلیب، ہاتھ ہتھوڑا، ہنسیا، ہاتھی، سائیکل میں ڈھونڈھ رہا ہے، جبکہ وہ جس روشنی اور ہدایت کا امین ہے، وہ ان سب کے لئے ہدایت کا موجب ہے، دنیا کے لئے امن، انصاف اور حقیقی مسرت کا پیغام ہے، اس پیغام امن و فلاح کی بے کم و کاست تبلیغ و ترویج ہی امت مسلمہ کے لئے دنیا افتخار اور نصرت خداوندی کا ذریعہ بن سکتی ہے، باقی تمام راستے غلامی، بے بسی اور ذلت کے ہی ہیں۔

سابق رکن یورپین پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد کریم نے اسلامو فوبیا کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ پاپولر نظریات پر سیاست یورپ و برطانیہ میں اسلاموفوبیا میں اضافے کی وجہ ہیں۔
سابق رکن یورپین پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد کریم نے کہا ہے کہ اقدار کی سیاست کی بجائے پاپولر نظریات پر سیاست قوموں کے اندرونی اتحاد میں دراڑیں پیدا کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپ اور برطانیہ میں اسلاموفوبیا اور مخالفانہ تعصبات (اینٹی سیمیٹزم) میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’یورپ اور برطانیہ میں بڑھتے ہوئے مخالفانہ تعصبات اور اس کی وجوہات‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپ میں شدت پسندانہ خیالات میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ دائیں بازو کی جانب سے ہے۔ اسی لیے ہم اینٹی سیمیٹزم اور اسلاموفوبیا میں اضافہ دیکھ رہے ہیں، یہ بات ہم تمام یورپ میں رہنے والوں کے لیے تشویش کا باعث اس لیے ہے کہ ہمارے معاشرے کی بنیاد اقدار پر رکھی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس اضافے کی ایک اہم وجہ ان فار رائٹ گروپوں کا زیادہ فعال ہونا اور حکام کا ان کی صحیح جانچ پڑتال نہ کر کے ان کی راہ میں مزاحمت نہ کرنا ہے۔ڈاکٹر سجاد کریم نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ ان مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے انہیں چٹائی کے نیچے دھکیل کر چھپا دیا جائے، اسی کے باعث اب ہماری سوسائٹی میں دراڑیں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ میں اس کی مثال دو تین ممالک کے ذریعے دینے کی کوشش کرونگا۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنے ملک برطانیہ کی بات کرونگا جہاں موجودہ وزیراعظم بورس جانسن جب کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کا الیکشن لڑرہے تھے تو انہوں نے پبلک ٹی وی پر لائیو گفتگو کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ منتخب ہوکر برطانیہ میں اسلاموفوبیا کی موجودگی پر تحقیقات کروائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ لیکن جب وہ وزیراعظم بن گئے تو انہوں نے یہ تحقیقات نہیں کروائیں، بلکہ اس کی بجائے انہوں نے ’امتیازی سلوک‘ کے نام سے ایک رپورٹ پر کام شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھ سمیت ایسے لوگ جو ان تحقیقات کے لیے بہت سے ثبوت پیش کر سکتے تھے، انہیں اس عمل سے علیحدہ کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہوتا یہ ہے کہ وہ چیزیں جن پر آپ کی سوسائٹی کے اتحاد کی بنیاد ہوتی ہے، اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں اور اینٹی سیمیٹزم اور اسلاموفوبیا دونوں میں اضافہ ہوتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ایسے میں قومیت پرستی کی تحریکیں سر اٹھاتی ہیں اور بریگزیٹ پر مذاکرات کے دوران ناردرن آئرلینڈ پر گفتگو جیسی چیزیں نظر آتی ہیں۔یورپین صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے مسلسل 15 سال تک یورپین پارلیمنٹ کے رکن رہنے والے ڈاکٹر سجاد کریم نے کہا کہ یورپ میں اینٹی سیمیٹزم اور اسلاموفوبیا کا آغاز اینٹی امیگرینٹ گفتگو میں ہوا۔شروع میں ایسے گروہوں کو انتخابات میں کامیابی نہیں حاصل ہوئی، لیکن انہوں نے اپنے ممالک میں سیاسی گفتگو کا رخ ان مسائل کی طرف موڑنے میں کامیابی ضرور حاصل کر لی، یہ عمل قوموں کے اندرونی اتحاد کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوا۔یہ پاپولسٹ سیاست ہے جو اب، ایک عالمی حقیقت اور عوام میں آسانی سے بکنے والا چورن ہے۔اس وقت ایک ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو ان متعصبانہ نظریات کے خلاف کھڑی ہو اور ان کی مزاحمت کرے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس وقت قومی قیادتیں یہ کر رہی ہیں کہ بڑے بڑے وعدے اور گفتگو کرو، اقتدار حاصل کرو اور پھر ان وعدوں سے مکر جاؤ۔یاد رہے کہ ڈاکٹر سجاد کریم 2004 سے لیکر 2019 تک مسلسل یورپین پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔وہ پارلیمنٹ میں کنزرویٹو پارلیمنٹ کے ترجمان، پارلیمنٹ کی ٹریڈ مانیٹرنگ کمیٹی برائے ساؤتھ ایشیا کے سربراہ اور یورپین پارلیمنٹ کی اینٹی ریس ازم اور ڈائیورسٹی انٹر گروپ کے نائب صدر اور اسلاموفوبیا پر اسی کمیٹی کے ورکنگ گروپ کے چئیرمین بھی رہے۔انہوں نے 2014 میں پارلیمنٹ کے ECR گروپ کی جانب سے یورپین پارلیمنٹ کے صدر کا انتخاب بھی لڑا اور 101 ووٹ حاصل کیے۔اس کے علاوہ سجاد کریم یورپین پارلیمنٹ میں فرینڈز آف پاکستان گروپ کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
جرمن پارلیمان کے اسپیکر شوئبلے نے اسلامو فوبیا کو بڑھانے کےلئے ایک بیان دیا تھا۔ ان کا بیان یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام اور مسلمان دشمنی کا آئینہ دار ہے۔ جرمن پارلیمان کے اسپیکر شوئبلے نے کہا ہے کہ شدت پسند مسلمانوں کی دہشت گردی کا ہدف ’ہمارا طرز زندگی‘ ہے۔ ویانا میں دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا کو اس انتہا پسندی کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔بدھ چار نومبر کے روز برلن میں بنڈس ٹاگ کہلانے والے جرمن ایوان زیریں کے ایک اجلاس کے آغاز پر اسپیکر وولفگانگ شوئبلے نے کہا کہ ویانا میں پیر دو نومبر کی رات کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ ایک بار پھر مغربی دنیا کے طرز زندگی پر حملے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا، ”ایک بار پھر مغرب کے آزاد اور کھلے پن کے مظہر معاشروں میں سے ایک کو انتہا پسندی اور نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس دہشت گردی کو مغربی ممالک کی برادری کو مل کر اور فیصلہ کن انداز میں ناکام بنانا ہو گا۔‘‘ویانا میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں چار افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہو گئے تھے۔ ایک بیس سالہ حملہ آور بھی، جو آسٹریا اور شمالی مقدونیہ کا دوہرا شہری تھا، پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔اس کے ساتھیوں کو پولیس تلاش کر رہی ہے۔ اب تک متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اس حملے کے بعد آسٹرین چانسلر کُرس نے کہا تھا کہ یہ خونریز حملہ ’تہذیب اور بربریت کے مابین جنگ‘ کی نشان دہی کرتا ہے۔ مغربی ممالک کی برادری کو اس دہشت گردی کو مل کر اور فیصلہ کن انداز میں ناکام بنانا ہو گا۔یہ حملہ آور دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا حامی تھا، جو ماضی میں داعش کی صفوں میں شمولیت کے لیے شام بھی گیا تھا اور اسی وجہ سے اسے آسٹریا کی ایک عدالت نے 22 ماہ قید کی سزا بھی سنائی تھی۔وولفگانگ شوئبلے نے ویانا حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا خود کو اسلام پسند قرار دینے والے انتہا پسندوں کی طرف سے یہ دہشت گردی اپنے متاثرین میں کوئی تفریق نہیں کرتی۔ لیکن اس کا نشانہ ایک ہی ہے: عقیدے کی آزادی، کسی بھی عقیدے پر عمل نہ کرنے کی بھی آزادی اور ہمارا وہ طرز زندگی جو کھلے معاشرے کی پہچان ہے۔‘‘دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔وولفگانگ شوئبلے کے مطابق، ‘بات چاہے ویانا میں حالیہ حملے کی ہو، یا اس سے قبل پیرس اور نیس میں کیے گئے خونریز حملوں کی، نشانہ آزاد معاشروں کی ہماری انہی اقدار کو بنایا جاتا ہے، جو ہم سب کو متحد کرتی ہیں اور جن میں ہر بات کی کھل کر وضاحت اور باہمی برداشت کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔‘‘بنڈس ٹاگ کے اسپیکر نے مطالبہ کیا کہ ویانا میں دہشت گردانہ حملے کے پس منظر کی جامع اور تیز رفتار چھان بین کی جانا چاہیے اور ساتھ ہی ‘دہشت گردی کے ان ڈھانچوں کی بھی، جن کے تانے بانے جرمنی تک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔‘‘شوئبلے کے الفاظ میں، مغربی دنیا میں آزادی اور کھلے پن کی سماجی اقدار کی حفاظت کے لیے یورپ اور امریکا کو بھی آپس میں اب تک کے مقابلے میں زیادہ قریبی اشتراک عمل کرنا ہو گا۔‘‘
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ’’اندوہ کے بعد کامیابی‘‘ کے فلسفے پرگذشتہ چار سال سے کام شروع کر رکھا ہے اوربہار عرب اس کا ایک شاخ سانہ ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی، سماجی اقتصادی اور عسکری صورت حال کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر بہت کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔آگے بڑھنے سے پہلے ہم اگر سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کے خاص نمبر ’’اسلام اور مغرب‘‘ مورخہ 16 اپریل 1991 میں مولانا مودودی صاحب کا ایک اہم مضمون بہ عنوان ’’یہودیوں کا چوتھا منصوبہ‘‘ کے چند اقتباس پڑھ لیں، توان خدشات کی تفہیم ممکن ہے، جو اب بھی ذہنوں میں اٹھتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اب درحقیقت جس چیز سے دنیائے اسلام کوخطرہ درپیش ہے، وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے، جس کے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب ہیں اور جس کی خاطر وہ 90 سال سے باقاعدہ ایک اسکیم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔اس منصوبے کے اہم ترین اجزا دو ہیں: ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ اور قبۂ صخرہ کو گرا کر ہیکلِ سلیمانی پھر سے تعمیر کی جائے کیوں کہ اس کی تعمیر ان دونوں مقاماتِ مقدّسہ کو ڈھائے بعیر ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس پورے علاقہ پر قبضہ کیا جائے، جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔ منصوبے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میراث کے تصور کے تحت پورے ملک (فلسطین) پر قبضہ کیا جائے۔ میراث کا ملک کیا ہے؟ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے سامنے یہ الفاظ لکھے ہیں ’’اے اسرائیل ! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے۔ اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، اردن، شام، لبنان کا سارا علاقہ، عراق کا ایک بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی علاقہ اور (جگر تھام کر سُنیے) مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے‘‘۔ مولانا مزید لکھتے ہیں ’’مسجد اقصیٰ اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اور خود بیت المقدس کا علاقہ بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلّط سے آزاد کرانے کا ہے۔ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد نہ صرف مسجد اقصیٰ بل کہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت کو یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقامات کو مستقل طور پر محفوظ کرنے کے لیے مجتمع کیا جائے‘‘۔مگر مسلم اُمہ کی تازہ ترین صورت حال کی ایک جھلک یہ ہے۔ حال ہی میں امریکا اور مغرب کے میڈیا میں مسڑ ڈیوڈ ڈی کریک پیٹرک کا ایک تجزیاتی مقالہ شائع ہوا ہے، جس کے مطابق ’’حَمّاس اسرائیل سے زیادہ خطرناک اور بدتر تنظیم ہے۔ مصر، متحدہ عرب امارات ، اردن ، کویت وغیرہ سب حماس کو کچلنے کے مشن میں اسرائیل کے حامی ہو چکے ہیں‘‘۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے حالیہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے سعودی عرب کی حمایت سے مصر نے جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں۔ مغرب اور امریکی میڈیا میں سعودی عرب کو ایک عرب ملک تو لکھا جارہا ہے لیکن اس کی تکرار اتنی زیادہ ہے کہ اب بچے بچے کی سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ کون ملک ہے۔مغربی میڈیا یہ بھی لکھتا ہے کہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایک عرب ملک شام میں جن جہادی تنظیموں کو حربی اور مالی امداد دینے کے بعد امریکا سے مطالبہ کررہا تھا کہ فضائی حملے سے شام کے حکم رانوںکو پاش پاش کردیاجائے تاکہ جہادی تنظیموں کو غلبہ حاصل ہو، اب محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے اس ملک کو اس امر کی یقین دہانی کرادی تھی، جس کے عوض اس عرب ملک نے مصر میں الاخوان المسلمون کی منتخب حکومت کو فوج کے ذریعے معزول کرایا اورجنرل السیسی کی مالی اور سیاسی حمایت بھی کی۔ گو کہ یہ امریکا کا ایجنڈا تھا اور اسی کے نتیجے میں بہار عرب، خزاںمیں بدلی تھی‘‘۔اب صورت حال یہ بھی ہے کہ ایک طرف امریکا اور اسرائیل عربوں کو استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب یہودی اپنے کارپوریٹ میڈیا سے ان کے لیے استعمال ہونے والوں کوسامنے لاکر انہیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلم حکم رانوں کی مسلم اْمّہ کے مسائل سے بے حمیّتی، بے حسّی اور لاتعلقی کو غیر محسوس طریقے سے دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ مثلاً ’’ یہ حکم ران اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اُسی کفر کی قوتوں کے درپردہ حامی ہیں، جن کو یہ بہ ظاہر بُرا بھلا کہتے ہیں‘‘۔اگست 2014 کے وسط میں سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے ایک فتویٰ دیا، جو میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا ۔ اس کی رو سے مفتیٔ اعظم نے جن تین تنظیموں کو دہشت گرد اور اسلام دشمن قرار دیا، اُن کے نام داعش، القاعدہ اور النصر فرنٹ ہیں۔ داعش مخفَّف ہے ’’دولت اسلامیۂ عراق وشام‘‘ کا۔ عالمی پریس اس کو Islamic State of Iraq and Syria (ISIS) کہتا ہے۔ دراصل یہ خلافتِ اسلامیہ کااعلان ہے۔ اس فتوے کو عالم اسلام میں سراہا گیا لیکن درپردہ ان تنظیموں کی امداد کے عمل پر تشویش بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔اب ان تنظیموں کی اسرائیل سمیت بہت سے دیگر مسلم ممالک کی درپردہ حمایت نے عام مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ یہ پریشانی ایک اشتعال کی صورت میں سامنے آرہی ہے اور انتقام کے جذبات پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں ان مشتعل جذبات کو مزید ابھار کر ان تنظیموں کے منتظمین عوام کو مشتعل کر کے آج بھی اپنی جانب مائل کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر اسرائیل چار خونی چاند کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنے کسی خفیہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیتا ہے تو اب وہ مسلمان، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں، کس طرح ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں گے؟خبرِ وحشت اثر کچھ یوں بھی ہے کہ یہودی لابی ایک منظم سازش کے تحت حرمین الشریفین کے گرد 31 اڈے قائم کرچکی ہے۔ دوسری خطرناک سازش یہ ہے کہ انہیں بحیرۂ احمر (Red Sea) پر قبضہ کرنا ہے، اس لیے کہ بحیرۂ احمر کے مشرقی کنارے پر اسلام کے دونوں مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بادشاہ ابرہہ نے بحیرۂ احمر ہی عبور کرکے بیت اللہ کو منہدم کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی، جسے ہمیشہ کے لیے ذلت و عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔حدیث شریف میں ہے کہ قیامت سے پہلے حبشہ سے جو کافر بیت اللہ پر حملہ آور ہوں گے، وہ بھی بحیرۂ احمر سے گزر کر آئیں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی بحریہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ہم ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرۂ احمر ہمارے زیرِ نگیں آجائے گا، تب اس کا نام بحرِ یہود یا بحر ِاسرائیل رکھ دیا جائے گا۔‘‘ یہودیوں کے یہ تمام منصوبے اور سازشیں اسی منظم سازش کا حصہ ہیں جو وہ مکہ اور مدینہ کے خلاف کر رہے ہیں۔ وہ قبلۂ اول کے بعد اب قبلۂ آخر کے خلاف خطرناک سازشوں میں مصروف ہیں۔اس پس منظر میں اگر ہم پاکستان کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھیں تو وہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے اورعسکری مضبوطی کی متقاضی ہے۔ یہ دونوں اہداف اُس وقت تک حاصل کرنا ممکن نہیں جب تک ملک کے سیاسی رہ نما ؤں اور فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا نہیں ہو جاتی۔ نائین الیون سے لے کر نواز شریف کی تیسری وزارتِ عطمیٰ تک کے عرصے کا اگر غیرجانب دار ی سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں سیاسی سطح پر انتشار میں اضافہ قابل تشویش ہے۔ملک میں معاشی اور سماجی سطح پر ابتری کی داستان اس کے علاوہ ہے۔ غیر جانب دار تجزیہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ اس مجموعی صورت حال کی وجوہات میں بیرونی عوامل سے زیادہ ملک کے اندر کرپشن اور میرٹ کی خلاف ورزی سب سے زیادہ اہم ہے ۔ گروہ بندیوں، ذاتی مفاد اور ہر سطح پر لوٹ کھسوٹ نے اس مجموعی صورت حال کو گود لے رکھا ہے اور اس ’’گود بھرائی‘‘ کی رسم کو ہمارے حکم رانوں نے مکمل تحفظ دیا ہوا ہے۔
گزشتہ سال طانوی جریدے ”اکانومسٹ‘‘ میں دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے کا ایسا گھناؤنا منصوبہ سامنے آیا ہے کہ کس طرح بے رحم سرمایہ دارانہ عالمی نظام کے ذریعے سامراجی قوتوں نے اپنے مفادات کی خاطر دنیا کو اپنے کنٹرول میں کرنے کیلئے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔یاد رہے کہ اکانومسٹ میگزین دنیا میں صہیونی طاقتوں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ جریدے کے آرٹیکل کا پہلا حصہ ” Every thing is under control‘‘ پر مشتمل ہے۔میگزین کی رپورٹ میں جن پانچ خفیہ منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اس کے مطابق ہر چیز طے شدہ منصوبے کے تحت کنٹرول میں ہے کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں جان لیوا وائرس سے بچاو کیلئے کروڑوں لوگ خوف سے سہم کر گھروں میں مقید ہو چکے ہیں ‘بڑی بڑی حکومتیں سمٹ کر دارالحکومت تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں‘ یہاں تک کہ امرا اور ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو بھی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور کئی ممالک اپنی بالا دستی اور حیثیت کو برقرار رکھنے کے خطرے سے دوچار ہیں‘لہٰذا ایسے میں غور طلب امراس میگزین کے ٹائٹل کی سرخی ہے ۔Every thing is under control کا آخر مطلب کیا ہے؟ کوروناوائرس کے ذریعے جس جال کو بچھایا گیا تھا وہ توقعات کے عین مطابق پورا ہو رہا ہے ‘دوسرا منصوبہ”بگ گورنمنٹ‘‘ یعنی ایک عالمی حکومت کی تشکیل ہے جس کا صہیونی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات ”دی ایلومینائی‘‘ پروٹوکول میں ”سپر گورنمنٹ ‘‘کے نام سے بار بار ذکر کیا گیا ہے ۔اس کا حکمران فرعون اور نمرود کی طرح اپنے مسیحا کے ذریعے حکمرانی کرے گا جبکہ اقوام متحدہ کی شکل میں ان کی عالمی حکومت تو پہلے ہی بنائی جا چکی ہے‘ صرف اعلان ہونا باقی ہے۔صہیونی منصوبہ سازوں کے بنائے گئے سازشی منصوبے کے مطابق دنیا میں کسی بھی وقت مسائل پیدا کر کے اقوام متحدہ کو ایک عالمی سپرپاور حکومت میں تبدیل کر دیا جائے گا اور اس حکومت کی باگ ڈور ایسے یہودی النسل فرد کے ہاتھ میں دی جائے گی جو دجال کیلئے ہیکل سلیمانی تعمیر کرے گا اور یہودیوں کے سوا پوری دنیاوی قوموں کو اس کا غلام بنا دیا جائے گا۔ برطانوی وزیراعظم سے لے کر متعدد عالمی رہنماؤں نے کھل کر یہ اظہار کرنا شروع کر دیا ہے کہ اب ایک عالمی حکومت بننی چاہیے‘ یعنی وہ اس کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔اگر اقوام متحدہ کا کوئی حکمران کوروناکے خاتمے اور بنی نوع انسان کیلئے ویکسین دینے کا اعلان کر دے تو کوئی ایسا ملک نہیں بچے گا جو اس کی حکمرانی کو قبول نہ کرے۔
صہیونی ایجنڈے کے مطابق آزادی سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد کی آزادی کا ”ریموٹ‘‘ کنٹرول اسی خفیہ ہاتھ میں ہوگا جو ہاتھ اکانومسٹ کے شمارہ اپریل 2020ء کی کور فوٹو پر بطور علامت دکھایا گیا ہے۔یہ وہ خفیہ ہاتھ ہے جو پوری دنیا کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے‘ پوری دنیا کی معیشت‘ زراعت‘ میڈیا ‘ حکومتیں حتیٰ کہ ہر چیز ان کے قبضے میں ہے۔اقوام متحدہ ہو یا ورلڈ بینک یاآئی ایم ایف‘ دنیا بھر کے قابلِ ذکر ادارے انہی کے فنڈز سے چلتے ہیں‘ تمام عالمی اداروں کے سربراہ یہودی النسل ہیں اور اقوام متحدہ کوان کے گھر کی” لونڈی ‘‘کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔حقیقت میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اقوام متحدہ کے ہی ادارے ہیں۔ آج یہ 13 صہیونی خاندان جن کے تصرف میں دنیا کی 80 فیصد دولت ہے‘ اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں جس کے بارے میں حال ہی میں اسرائیلی یہودی لابی اور صہیونی حکومت کے وزراء اعلان بھی کر چکے ہیں کہ ”مسیحا‘‘ اسی سال آ رہا ہے۔ ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ’ ‘مسیحا‘انہیں مل چکا ہے‘ یعنی یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کا ‘مسیحا‘ کون ہے‘ فی الحال اس کا اعلان کرنا باقی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ دنیا کورونا کی تباہ کاریوں سے لرز رہی ہے لیکن لاکھوں ہلاکتوں کے بعد بھی صہیونی منصوبہ سازوں کا یہ اعتراف کرنا کہ یہ جان لیوا وائرس ان کے قابو میں ہے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ‘ کیونکہ ان کے نزدیک کورونا وائرس دنیا کی 70 فیصد آبادی کو متاثر کرکے ازخود ختم ہو جائے گایعنی یہ پہلے سے باخبر ہیں کہ اس سے کتنے فیصد لوگ متاثر ہوں گے اور ساتھ ہی ان کا یہ کہنا کہ انہیں کوئی پریشانی نہیں ‘اس بات کا ثبوت ہے کہ پردے کے پیچھے کیا ہورہا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا یہ بیان کہ انہیں اس موذی وائرس سے کوئی پریشانی یا تشویش نہیں بھی سوالیہ نشان ہے ۔گویا یوں لگتا ہے کہ سامراجی قوتوں نے پوری دنیا کو اپنے قبضے میں لینے کا جو پروگرام بنایا تھا اس میں وہ کافی حد تک کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
عالمی افق پر اقتدار کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سامراجی قوتیں گھنائونے منصوبوں کی تکمیل کیلئے سرگرداں ہیں‘ بہت سے خطرناک معاملات بتدریج سامنے آرہے ہیں۔ اس میں شبے کی گنجائش نہیں کہ دنیا کے بہت سے ممالک کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت موسم سرما سے محروم کر دیا جائے گا۔فلم”Contagion ‘‘میں بھی ایک ایسا ہی ڈائیلاگ سننے کو ملتا ہے جس میں ایک لڑکی اکتا ہٹ کے بعدکہتی ہے کہ اس سال میرا موسم سرما پھر برباد ہو جائے گاکیونکہ مجھے اسے گھر میں قید رہ کر گزارنا ہوگا ۔ اکانومسٹ میگزین اور فلم Contagion میں گہرا تعلق دکھائی دیتا ہے اور حالات بھی کافی حد تک اس فلم کی طرح کے ہی ہیں۔ ایسے میں سب کو پہلے سے ہی تیاری کر لینی چاہیے۔ جان لیوا وائرس سے بچائو کیلئے لاک ڈائون کی جو صورتحال ہے اس سے متعدد ممالک میں کھانے کی قلت پیدا ہوچکی ہے‘لہٰذا اب دکھائی ایسے دے رہا ہے کہ لوگ روپے پیسے کیلئے نہیں بلکہ روٹی اور راشن کیلئے ایک دوسرے پر بندوق چلائیں گے‘ بالکل فلم کی طرح سارے حالات ہولناکی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایک بڑا ایشو فائیو جی پراجیکٹ نینو چپ بذریعہ ویکسین کابھی ہے جس کیلئے بل گیٹس نے ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیاہوا ہے اور یہ اعلان پوری دنیا کو ڈیجیٹیلائز کرنے کے متعلق تھا۔
بل گیٹس نے اقوام متحدہ سے ایک بلین ڈالر کا جومعاہدہ کیاتھا اس کے تحت انسانوں کودی جانے والی ویکسین میں ایک چپ ہوگی جو دور بین سے ہی نظر آ سکتی ہے۔فائیو جی کیلئے لگائے گئے ٹاورز کا بظاہرتو انٹرنیٹ کی سپیڈ تیزکرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا لیکن ان کا اصل خفیہ مقصد انسانوں میں لگی” نینو چپ‘‘ جو ویکسین کے ذریعے ان کے جسموں داخل کی جائے گی اس میں اکٹھا ہونے والے ڈیٹا کو کسی خفیہ و نامعلوم جگہ اکٹھا کرنا ہے‘ یہ وہ خفیہ ہاتھ جو اکانومسٹ میگز ین کے سرورق پر ہیں پوری دنیا میں ہر انسان کی سوچ کو اپنے سپر کمپیوٹر کے ذریعے کسی نامعلوم جگہ پر کنٹرول کریں گے‘ لہٰذا اسی مقصد کی تکمیل کیلئے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے سے کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ فائیو جی انسولیشن خفیہ طریقے سے جاری ہے جیسا کہ لاک ڈائون کے دوران بھی لندن کے علاقوں میں فائیو جی کے ٹاور زنصب کئے جارہے ہیں ۔عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر فائیوجی کے انسانوں پر مضر اثرات کورونا وائرس کے ساتھ اس کے تعلق کی ہولناک خبریں منظر عام پر آنے سے عوام مشتعل ہیں‘ بعض مقامات پر تو ان ٹاورزکو آگ بھی لگا دی گئی۔
پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی فائیو جی کی تشہیر کا کام اب ایک منصوبہ بندی کے ساتھ شروع کیا جا رہا ہے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی افواج اس ٹیکنالوجی کو پہلے سے ہی استعمال کررہی تھیں ‘اب عوامی سطح پر بھی اس کے استعمال کیلئے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں ۔ فائیو جی سگنل میں رہنے والا انسان ایسا ہو گا کہ جیسے اس کا دماغ مائیکروویو اوون میں پڑا ہو‘اس ٹیکنالوجی سے ہر فرد کی جاسوسی میں آسانی ہو گی‘ موبائل سے لے کر گھریلو الیکٹرانک اشیا میں نصب خفیہ کیمرے سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ضرورت اب اس امر کی ہے کہ جس پر فتن دور کا آغاز ہوچکاہے ان حالات میں عالمی دجالی قوتوں کا مقابلہ ہم صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی کر سکیں گے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس دجالی و استعماری سازشوں کے خلاف امتِ محمدیہﷺ میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے انہیں ہر فتنہ سے دور رکھے ۔ ”آمین‘‘۔!
متحدہ عرب امارات‘‘ اور ’’اسرائیل‘‘ کے درمیان امن معاہدہ ہوا ہے۔ اس کی علامات تو اس دن سے واضح ہونا شروع ہو گئیں تھیں، جب اپریل 2019ء میں ہندو مندر کی تعمیر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب کو شرک سے پاک کرنے کے بعد سید الانبیاء ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں جزیرہ عرب میں صرف ایک بت خانے اور بتوں کی پرستش کی خبر دی تھی جو اس علاقے اور اس کے قرب و جوار میں ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کا ذوالخلصہ کا (طواف کرتے ہوئے) چو تڑسے چوتڑ چھلے۔ ذوالخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جسے وہ زمانہ جاہلیت میں پوجا کرتے تھے‘‘ (صحیح بخاری: 7116)۔ یہ ذوالخلصہ کا بت کہاں تھا اور اس کا علاقہ کونسا تھا۔ اس علاقے کی تاریخ کیا ہے اور رسولِ اکرم ﷺنے کس کو بھیج کر اس علاقے سے بت پرستی کے مرکز کو تباہ و برباد کروایا تھا۔ یہ سب احادیث و تاریخ کی کتب میں مذکور ہے۔ سید الانبیاء ﷺ کی بعثت کے وقت جزیرہ نمائے عرب کی وہ ساحلی پٹی، جس پر آج کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات، مسقط، عمان کے ممالک اور یمن کے وہ مغربی علاقے جو عدن کی بندرگاہ کے ساتھ منسلک ہیں، یہ سب کے سب ایران کی زرتشت ساسانی سلطنت کا حصہ تھے۔ اس ایرانی خطے کو ’’ماذون‘‘ کہا جاتا تھا۔ ساسانی سلطنت کے بانی ’’اردشیر‘‘ نے 240قبل مسیح میں یہ علاقہ فتح کیا تھا اور یہاں اپنا ایک گورنر یعنی مرزبان مقرر کررکھا تھا۔ رسولِ اکرم ﷺ کی ولادت سے پہلے مشہور ایرانی بادشاہ ’’خسرو‘‘ نے 531میں المنذر بن النعمان کویہاں کا گورنر مقرر کیا اور اسے ’’الخمیون‘‘ کے بادشاہ کا لقب دیا تھا۔ ایرانیوں نے اس پورے ساحلی علاقے کو اپنا باجگزار اس لئیے بنایا ہوا تھا تاکہ جزیرہ نمائے عرب کے اکھڑ قبائل کو قابو میں رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا عمرؓ کے دور میں صحابہ کرامؓ یزدگرد کے دربار میں پہنچے تو اس نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’تمہاری یہ مجال کہ تم یہاں تک آپہنچے ہو، ہم تو تمہارا دماغ اپنے گورنروں کے ذریعے سیدھا کیا کرتے تھے‘‘۔ لیکن حضرت عمرؓ کی ایران پر اس عظیم الشان فتح سے بہت پہلے ہی رسولِ اکرم نے اس خطے کو بت پرستی اور ایرانی اثرورسوخ سے پاک فرمایا دیا تھا۔ اس پورے خطے میں بت پرستی کا ایک مرکز تھا جسے ’’کعبۃ الیمانیہ‘‘ یعنی یمن کا کعبہ کہا جاتا تھا۔ یہ قبیلہ خثعم کا بت خانہ تھا جسے ذوالخلصہ کہتے تھے۔ یہی وہ خطہ تھا جہاں ابرہیہ نے صنعا کے قریب بہت بڑی عبادت گاہ تعمیر کی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ عرب اسے مرکزِ عبادت بنائیں مگر عربوں کے دل میں کعبہ بسا ہوا تھا، اسی پر غصے کے عالم میں وہ 570ء میں ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لئیے نکلا، مگر جب مکہ کے نزدیک پہنچا تو اللہ نے اس کی فوج پر ’’ابابیلوں‘‘ سے حملہ کرواکر انہیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر دیا تھا۔ یہ ساحلی پٹی کبھی ایرانیوں کے زیراثر رہتی اور کبھی رومن بادشاہوں کے زیرنگیں۔ یہی پٹی اوپر جاکر بحیرہ روم کے کنارے شام، لبنان اور فلسطین کے ساتھ ساتھ دریائے نیل تک جا نکلتی تھی۔ ان سب کے بیچوں بیچ عرب کی وہ مقدس سرزمین ہے، جسے میرے اللہ نے ان عالمی حکومتوں کی دست برد ہی نہیں بلکہ تہذیب سے بھی آزاد رکھا۔ جب پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کی دعوت پھیلی تو یمن سے بھی لوگ جوق در جوق اسلام لانے لگے، مگر ذوالخلصہ کا ابھی تک بت خانہ قائم تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت جریر بن عبداللہؓ سے فرمایا، ’’ذوالخلصہ کو برباد کرکے مجھے راحت کیوں نہیں دیتے‘‘ (بخاری)۔ جریر نے بیان کیا کہ پھر وہ قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب اچھے گھڑسوار تھے مگر میں گھوڑے کی سواری اچھی نہیں کرپاتا تھا۔ آپؐ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا، فرمایا،’’اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما، اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا‘‘۔ اس کے بعد جریرؓ روانہ ہوئے اور ذوالخلصہ کی عمارت گراکر اس کو آگ لگادی (صحیح بخاری)۔ اسی قبیلہ خثعم کے بارے میں ترمذی اور ابودائود کی وہ مشہور حدیث ہے جس میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو وہاں کافروں کے درمیان رہائش پذیر تھے۔ آپ ﷺ نے ایک سریہ اس جانب روانہ کیا اور وہاں پر رہائش پذیر مسلمان بھی مشرکوں کے ساتھ اسی جنگ میں قتل کردئیے گئے۔ آپؐ کو خبر ملی تو آپؐ نے ان کی آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور پھر قیامت تک ایک اصول واضح کرتے ہوئے فرمایا، ’’میں ہر اس مسلمان سے برّی الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسولؐ آخر کیوں۔ آپؐ نے فرمایا، ’’مسلمانوں کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں (ترمذی: 1604)۔ اس علاقے کے گردونواح میں ہی قبیلہ دوس آباد تھا، جس کے سردار عرب کے قابلِ ذکر اشراف اور معدودے چند اصحاب مردت میں سے تھے۔ اسی قبیلے کا سردار طفیل بن عمرو بہت مہمان نواز تھا، وہ رسولِ اکرمؐ کا سن کر مکہ پہنچا تو سردارانِ قریش نے اسے گمراہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک نبی آیا ہے جو قبیلے سے لوگوں کو جدا کرتا ہے اور تمہاری سرداری کو بھی اس سے خطرہ ہے۔ اس لئیے وہ جب حرم میں گیا تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر گیا کہ کہیں آپؐ کا کوئی کلام اس کے کانوں میں نہ آجائے۔ لیکن جیسے ہی اس نے رسولِ اکرمؐ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو وہ قریب ہو تا گیا اور ایسا مسحور ہوا کہ ایمان لے آیا۔ بہت دن کعبہ میں ٹھہرا۔ جتنا ممکن ہوا قرآن یاد کیا اور پھر رسولِ اکرمؐ سے کہا میں قبیلے میں واپس جا کر دعوت دینا چاہتا ہوں۔ آپؐ مجھے کوئی نشانی عطا کردیں۔ آپؐ نے دعا کی ’’اللہ طفیل کو کوئی نشانی عطافرمائیں‘‘، طفیل کہتے ہیں کہ میں جب اپنے قبیلے کے قریب پہنچا تو میری دونوں آنکھوں کے درمیان ایک روشنی پیدا ہو گئی۔ میں نے دعا کی کہ یہ روشنی میری لاٹھی میں منتقل ہو جائے تو وہ ایک قندیل بن کر میری لاٹھی کے سرے پر لٹکنے لگی۔ پورے دوس قبیلے میں سب سے پہلے حضرت ابوہریرہ نے ایمان قبول کیا جبکہ باقی سب بہت لیت و لعل کے بعد مسلمان ہوئے۔ اس سارے پس منظر کے بعد سیدالانبیاء ﷺ کی احادیث کی روشنی میں متحدہ عرب امارات کے یہودیوں سے دوستی کے فیصلے کو سمجھنے میں مشکل نہیں ہوتی۔ جزیرہ عرب میں یہ پہلا خطہ ہے کہ جس نے سب سے پہلے رسولِ اکرمؐ کی اس ہدایت کی خلاف ورزی کی جس میں آپؐ نے مشرکین اور مسلمانوں کو علیحدہ رہنے کا حکم دیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے ایک ایسی دنیا آباد کی جس میں تمام طرز زندگی تک یورپ سے مماثلت رکھتی تھی، یہاں تک کہ نائٹ لائف تو مغرب سے بڑھ کر ہے، جس میں ہر علاقے کی خاتون میسر ہوتی ہے۔ آپؐ نے حکم دیا تھا کہ جزیرہ نما عرب میں دوادیان کو جمع مت ہونے دینا (مسلم: 1767)۔ بلکہ حضرت ابوعبیدہ الجراح روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرمؐ نے آخری کلام جو فرمایا وہ یہ تھا کہ ’’یہود کو حجاز سے نکال دو‘‘(مسند احمد)۔ اسی خطے میں قیامت کی سب سے اہم نشانی پوری ہوئی کہ ’’ننگے پائوںچرواہے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے (بخاری، مسلم)۔ دبئی شہر کی آسمان کو چھوتی عمارات اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ صدیوں ایرانی اور رومن مشرکین کے زیر اثر رہنے والا یہ خطہ عربوں کی اس تباہی پر دستک کر رہا ہے، جس کی خبر میرے آقاؐ نے دی تھی۔ آپؐ نے ایک ایسے فتنے کے بارے میں بتایا تھا، جس سے عرب کا کوئی ایک گھر بھی نہیں بچے گا(مشکوٰۃ)۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا یہ معاہدہ اسی تباہی کی جانب اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔
پاکستان میں دو موضوعات ہمیشہ سے ایسے رہے ہیں کہ جن پر قیامِ پاکستان سے پہلے بھی ہمدرددانہ گفتگو نہ صرف دینی حلقوں میںبلکہ دانشوروںکی بڑی اکثریت میں بھی شجر ممنوعہ سمجھی جاتی تھی۔ ایک سرزمین فلسطین پر یہودیوں کی آبادکاری اور پھر اسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام اور دوسرا فتنۂ قادیانیت۔ دینی حلقے تو ان دونوں کا جوازقرآن پاک کی تعلیم اور سیدالانبیاء ﷺ کی ہدایات سے دیتے تھے، لیکن برصغیر پاک و ہند کے دانشور طبقے کی اکثریت چونکہ مارکسزم سے شدیدمتاثر تھی، اس لئے وہ ان دونوں کو اس دور کی نو آبادیاتی طاقت ، برطانیہ کے لگائے ہوئے پودے تصور کرتی تھی۔لیکن گذشتہ چندسالوں سے ان دونوں موضوعات کے حق میں گفتگو مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح دھیرے دھیرے سنائی دے رہی ہے۔ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ نہیںآئی،بلکہ اچانک اور یکدم آئی ہے۔ جس دن کیمونسٹ روس کا ہتھوڑے اور درانتی والا سرخ پرچم سرنگوں ہوا، پاکستان کے ترقی پسند، روشن خیال اور جدید خیالات کے امین دانشوروں، تجزیہ نگاروں، شاعروں اور ادیبوں میں جس سرعت سے ایکدم محبت اور نفرت کے معیارات بدلے ہیں، ویسے ہی اسرائیل کے لئے بھی ان کے دل میں میٹھی میٹھی، دبی دبی سی محبت بھی بیدارہوئی ہے ۔ یہ دانشور طبقہ قیامِ پاکستان سے لے کرسویت یونین کے خاتمے تک، فلسطین،، ویت نام اور انگولامیں لڑنے والے روس نواز حریّت پسند گروہوں کے لئے لاتعدادنظمیں اور افسانے لکھتا رہا۔جب تک سویت یونین قائم رہا،اسرائیل ان کے نزدیک امریکہ سے بھی بڑا مجرم تھا۔کیمونزم کی تحریک کے روح رواں اور ترقی پسندوں کے سرخیل شاعر فیض احمد فیض نے اپنی زندگی کے آخری سال بیروت سے نکلنے والے بائیں بازو کے رسالے ’’لوٹس‘‘(Lotus)کی ادارت اختیار کی۔ یہ رسالہ سویت یونین، مشرقی جرمنی، مصر اور فلسطین کی قوم پرست تحریک ،پی ایل او (PLO) کے مشترکہ سرمائے سے نکلتا تھا۔یہ رسالہ خطے میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والی ہرلادین کیمونسٹ قوم پرست آوازکا علمبردار تھا۔جیسے ہی سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں ،اگلے سال اسرائیل اور شام نے بھی اپنی فوجیں لبنان میں اتار دیں۔ کشمکش بڑھی، حالات دگرگوں ہوئے توفیض بھی1982ء میں واپس لاہور آگئے۔ وہ اگلے دو سال زندہ رہے لیکن ان دو سالوں میں انہوں نے کبھی روس کے افغانستان میں داخل ہو کر افغان عوام کے قتل عام پر ایک لفظ بھی نہ لکھا ۔وضع دار آدمی تھے، شاید لکھنے بیٹھتے ہوں گے تو سامنے پڑا لینن ادبی ایوارڈ انہیں حق نمک یاد دلاتا ہوگا۔یہ حال صرف فیض احمد فیض کا ہی نہیںتھا، بلکہ ترقی پسندی کے خمار میں ڈوبے ہوئے ہر ادیب و شاعر کا ہی یہی عالم تھا، یہاں تک کہ ’’عظیم‘‘انقلابی شاعرحبیب جالب کو میں نے خود افغانستان میں روس کی فوج کے داخلے کو، پاکستان کے لیئے نوید مسرت بتاتے ہوئے سنا اور سر خوشی سے جھومتے دیکھا ہے۔یہ تما م ’’دانشورانِ ملت ‘‘اسقدر خوش فہم تھے کہ خواب دیکھا کرتے تھے کہ، اب بس چند دنوں میں روس کی افواج طورخم اور چمن کے راستے پاکستان میں داخل ہوں گی، یہاں کے مولویوں کی داڑھیاں خون سے رنگین ہو جائیں گی ، امریکی نواز سرمایہ دارملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، ملیں مزدوروں کی ملکیت ہوں گی اور کھیت مزارع اور ہاری کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ مگر افغان عوام کی پر عزم جدوجہد، انکی عظیم قربانی اورضیاء الحق شہید کی بصیرت تھی کہ پاکستان کے بارے میں ان دانشوروں کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ورنہ آج پاکستان کا بھی وہی حال ہوتا جو کیمونسٹ روس کے زیرِ قبضہ ،تاجکستان اور ازبکستان جیسی مسلمان ریاستوں کاہوا تھا۔ اسلام انکی زندگی سے مکمل طور پرنکل گیا۔پچھتر سال مسجدوں کو تالے لگے رہے اور قرآن کے مصحف تک ضائع کر دیے گئے لیکن جب پچھتر سال کے بعد یہ ریاستیںآزاد ہوئیں تو غربت اور افلاس کی بھی بدترین تصویر تھیں۔پاکستان اور دنیا بھر کا ترقی پسند ادیب، فلسطین لبریشن آرگنائیزیشن کا اس لئے مداح تھا کہ یہ تنظیمجب2 جون 1964ء کو مصر کے شہر قاہرہ میں قائم ہوئی تو اس کی نظریاتی بنیاد کے لئے ایک ’’اقرار نامہ‘‘(Palestinian National Covenant)لکھا گیا۔ اس کے تحت اس تنظیم کا مقصدفلسطینیوں کے وطن کی بحالی کی جدوجہد کرنا تھااور اس جدوجہد کا کسی بھی مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوگا۔ تنظیم کا قیام بھی سویت کیمپ کے مصری صدرجمال عبدالناصر کی کوششوں سے ہوا اور اس کانفرنس کا اہتمام بھی قوم پرست علاقائی تنظیم ’’عرب لیگ‘‘ نے کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام کیمونزم نوازدانشوروں کی محبتوں کا مرکز، فلسطین تھا۔ وقت نے کروٹ لی، افغان سرزمین پر بہنے والے افغانوں کے مقدس خون نے تاریخ کا نقشہ ایسا بدلا کے وہ ادیب اوردانشور جو امریکہ اور اس کے حواریوںکو گالیاں دیا کرتے تھے،اسی امریکہ کے آگے یکدم سربسجودہو گئے ۔اپنی اس ’’لوٹا کریسی ‘‘ کو چھپانے کے لئے کیسے کیسے سوانگ رچائے گئے، کیسے کیسے لبادے اوڑھے گئے، این جی اوز، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے علم بردار، حقوق نسواں کے پرچم بردار۔ اسقدر بے پیندے کے لوٹے شاید ہی کسی اور گروہ میں نظر آئیں جتنے آپ کو پاکستان کے قدیم ’’ترقی پسند‘‘ اور موجودہ ’’روشن خیال‘‘ دانشوروں اور سیاست دانوں میں نظر آئیں گے۔ جب روس کی افواج افغانوں کا خون بہانے وہاں داخل ہوئیں تو خان عبدالولی خان، محمود خان اچکزئی اور اس قبیل کے سیاست دانوں اورحبیب جالب جیسے انقلاب آفریں دانشوروں تک ،سب سوویت فوج کا ساتھ دیتے تھے اور امریکہ کو گالی دیتے ہوئے یہ بھی کہتے تھے کہ پاکستان نے افغان جہاد میں امریکہ کی مدد کرکے اپنی بربادی پر دستخط کر دئیے ہیں اور اب یہ ملک ختم ہو جائے گا۔ پاکستان تو میرے اللہ کی مہربانی سے آج تک قائم ہے، مگر ان دانشوروں کے خوابوں کی سرزمین۔۔ سوویت یونین 1992ء میں دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔اس سانحے کے ٹھیک نو سال بعد جب امریکہ نے بھی اپنی افواج افغانستان میں داخل کیں تو اس وقت یہی سیاست دان اور دانشوراسی امریکہ کے ساتھ ہو گئے جسے وہ بائیس سال قبل افغان مجاہدین کا ساتھ دینے پر گالیاں دیا کرتے تھے۔ سویت یونین ختم ہوا تو فلسطین کی جدوجہد بھی ایک نئے مختلف نظریاتی مرحلے میں داخل ہو گئی۔اب وہاں جو بھی اسرائیل کے خلاف لڑرہا ہے، وہ صرف اور صرف اس سرزمین پر اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لئے لڑرہا ہے۔ حماس ہو یا حزب اللہ یا کوئی اور تنظیم اب گفتگو صرف ایک ہی ہوتی ہے کہ ہم اس ’’دجالی‘‘یہودی مذہبی منصوبے’’ گریٹر اسرائیل ‘‘اور یہودیوں کے ’’مسیحا ‘‘کی عالمی حکومت کے قیام کے خلاف لڑیں گے۔ اب فلسطین کے لئے لڑنے والوں کے دلوںمیں قومیت کے نعرے باقی ہیں اورنہ ہی سرخ انقلاب کی صدائیں۔ اب یہ وہ فلسطینی نہیں رہے ،جنہوں نے کبھی اپنی جلاوطنی کے ایام میں خود کو مذہب سے دور ثابت کرنے کے لئے ا ردن اور لبنان میں مذہب بیزاری کے جلوس نکالے تھے۔آج اسرائیل کے خلاف جنگ، زمین سے زیادہ نظریے کی جنگ بن چکی ہے۔ایسی جنگ کے فیصلے عالمی برادری یا علاقائی قوتیں نہیں کیا کرتیں۔ ایسی جنگ کسی ایک گروپ کی فتح کے بغیر ختم نہیں ہوتی، جیسے افغانستان میں طالبان کی امریکہ پر فتح کے بعد ہی امن کا سفر شروع ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج اسرائیل اور اس میں آباد91لاکھ 36ہزار یہودی یہ فیصلہ کر یں گے کہ وہ کل سے اپنی زمین تک محدود ہو جائیں گے اور خطے میں امن قائم کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ اسلئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خودیا انکے آباء و اجداد پیرس، لندن، برلن، نیویارک اور برسلز جیسی خوبصورت آبادیاں، اربوں ڈالر کا کاروبار اور کروڑوں ڈالرز کی جائیدادیں چھوڑ کر حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی خطے میں ایک مقصد کی تکمیل کے لئے آکر آباد ہوئے تھے۔ ان کے دلوں میں صرف اور صرف ایک ہی خواب دھڑکتا تھاکہ ایک دن ایسا وقت اس سرزمین پر ضرور آئے گا جب دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک یہودیوں کی عظیم اور پرشکوہ حکومت قائم ہوگی، جس کا حکمران ایک ایسا ’’مسیحا‘‘ ہوگا جس کی خبر تورات اور تالمود میں دی گئی ہے اور جس کا ہر یہودی دوہزار سال سے انتظار کر رہا ہے۔ یہودیوں کا مسیحا۔۔ ایک ایسا عظیم روحانی بادشاہ جو ہیکل سلیمانی میں تخت دائودی پر بیٹھ کر اپنی حکومت کے ذریعے صرف اس خطے پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔
یروشلم کے قرب و جوار کے بے آباد اور بے آب و گیاہ علاقوں میں ایک منصوبے اور مذہبی جذبے کے تحت یہودیوں کی منتقلی جدید انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہے، جو بغیر قطرۂ خون بہائے عالمی طاقتوں کے زیر سایہ شروع ہوئی اور تیس سال اسرائیلی ریاست کے اعلان تک پورے زور و شور سے جاری رہی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اس پورے نیم صحرائی علاقے کے دو شہروں جافہ اور تل ابیب میں صرف چودہ ہزار یہودی انتہائی خاموشی سے آباد تھے۔ صہیونی تحریک کی داغ بیل ڈالے ہوئے بیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ 1896ء میں لکھے جانے والے ’’پروٹوکولز‘‘ (Protocols)کے مطابق دنیا بھر کے یہودیوں کے لئے ایک واضح نصب العین طے کر دیا گیا تھا، کہ اب یروشلم کی ارض مقدس میں یہودیوں کی واپسی ہوگی، آنے والے مسیحا کا انتظار اور پھر ہیکل سلیمانی سے ایک عالمی حکومت کا قیام۔ برطانیہ کو اس جنگ میں امریکی مدد کی ضرورت تھی، جو وہاں پر آباد طاقتور یہودی لابی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اسی جنگ کے دوران خلافتِ عثمانیہ سے یروشلم کی علیحدگی کی تحریک جافہ اور تل ابیب کے انہی چند ہزار یہودیوں نے برطانیہ کے ایما پر شروع کی۔ ان چند ہزار یہودیوں نے وہاں کی عرب آبادی کو بھی ساتھ ملالیا اور مخالف اتحادی افواج کے ساتھ ساز باز شروع کردی۔ بحیرہ روم کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے ترکوں نے سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ان دونوں علاقوں سے تمام آبادی کو نکل جانے کا حکم دیا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی اکثریت ان کے خلاف جاسوسی کر سکتی ہے۔ اس وقت تک وہاں آباد یہودیوں نے ’’عرب نیشنلزم‘‘ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ چھ اپریل 1917ء کو تمام آبادی وہاں سے نکال دی گئی، جن میں مسلمان اور یہودی دونوں شامل تھے۔ اس دن یہودیوں کا تہوار ’’پاس اور‘‘ (Passover)تھا۔ تمام یورپ، یہاں تک کہ ترکوں کے ساتھی جرمنی کے اخبارات نے بھی اسے صرف یہودیوں پر ایک ظلم عظیم قرار دیا، وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک عالمی میڈیا یہودی قبضے میں آچکا تھا۔ مسلمان تو اسکندریہ میں جا کر آباد ہو گئے لیکن یہودیوں کو برطانیہ نے اپنے ہاں پناہ دے دی۔ جیسے ہی برطانیہ اور فرانسیسی افواج نے مل کر جنوبی شام اور مصر کے سیناء صحرا پر قبضہ کیا تو برطانوی وزیر خارجہ ’’آرتھر بالفور‘‘ (Arthur Balfore)نے عالمی یہودی کمیونٹی کے رہنما اور بینکاری نظام کے بانی خاندان کے چشم و چراغ ’’لارڈ روتھ شیلڈ‘‘ کو ایک خط تحریر کیا کہ ’’برطانیہ پوری دنیا میں آباد یہودیوں کو ایک قوم تصور کرتا ہے اور ان کا ارض مقدسہ میں واپسی کا حق تسلیم کرتا ہے‘‘۔ اس خط کو مشہور عام ’’بالفور ڈیکلریشن‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے ہی 1918ء کی گرمیوں میں برطانیہ نے عرب علاقوں پر قبضہ مکمل کیا تو یہ نکالے گئے یہودی واپس اپنے علاقے میں لاکر آباد کردئیے گئے۔ یہ علاقہ جسے آج فلسطین، اردن اور اسرائیل کہتے ہیں، بندربانٹ کے بعد برطانیہ کے حصے میں آیا۔ اس فتح سے پہلے دنیا بھر سے یہودی صرف مذہبی رسومات ادا کرنے یروشلم، چند دنوں کے لئے آیا کرتے تھے۔ برطانیہ کا مینڈیٹ آیا تو یروشلم کی پہاڑیوں پر یہودیوں نے قلعہ نما گھر بنانا شروع کر دئیے، جو دور سے کسی حصار کی طرح نظر آتے تھے اور پہاڑ کے دامن میں غریب فلسطینیوں کے سفید چونے کے پتھر سے بنے ہوئے گھر ایک واضح فرق سے نظر آنے لگے۔ اس کے بعد پورے خطے میں یہودیوں کی واپسی کا مسلسل سفر شروع ہوا۔ یروشلم اور اس کے گردونواح میں آباد ہونے کے اس سفر کو یہودی مذہبی اصطلاح میں ’’ایلیا‘‘ (Aliyah)کہا جاتا ہے۔ یہودی جو 70عیسوی میں رومن جرنیل ’’ٹائٹس‘‘ (Titus) کے ہاتھوں یروشلم سے نکالے گئے تھے، تقریباً دو ہزار سال بعد اب 1881ء سے 1903ء تک چھپ چھپ کر واپس جا کر آباد ہونا شروع ہو ئے تھے۔ یہ زیادہ تر مشرقی یورپ کے یہودی تھے، جو اس وقت تک خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ یہ سب کھاتے پیتے اور امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جب فلسطین میں روز گار، سخت موسم اور غربت کا سامناکرنا پڑا تو سب واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ تقریباً پینتیس ہزار یہودی تھے، جن میں صرف تین ہزار فلسطین میں رہ گئے، یہ وہ تھے جنہیں اپنے مسیحا کا شدت سے انتظار تھا۔ اسے یہویوں کی تاریخ میں پہلا ایلیا یا پہلی واپسی کہا جاتا ہے۔ اسی ایلیا کے دوران یمن کے یہودی بھی آہستہ آہستہ وہاں آکر آباد ہونے لگے۔ یمن کے یہودیوں اور مشرقی یورپ کے فلسطین میں باقی رہ جانے والے یہودیوں نے پورے نیم صحرائی علاقے میں چند گھروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی آبادیاں بنانا شروع کر دیں۔ پہلی آبادی ’’ریشن لی زائن‘‘ (Rishon Li Zion) تھی جو تل ابیب سے 8 کلومیٹر ساحل سمند پر 1882ء میں بنائی گئی۔ ایک درجن سے بھی کم یہودی وہاں آباد ہوئے تھے، مگر آج وہ اسرائیل کی چوتھا بڑا شہر ’’گش دان‘‘ (Gush Dan) ہے جس کی آبادی دو لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ پہلے ایلیا میں ایسی تیس چھوٹی چھوٹی آبادیاں پورے صحرا میں میخوں کی طرح گاڑی گئیں، تاکہ کل کو ان سب کو ملا کر علاقے میں ایک پورا جال بچھا دیا جائے۔ پہلے ایلیا کی آخری آبادی 1904ء میں ’’کفر صبا‘‘ (Kfar Saba)تھی۔ چند یہودیوں پر مشتمل یہ علاقہ آج اسرائیل کا بہت بڑا ضلع ہے، جس کی آبادی ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ ان تمام چھوٹی چھوٹی بستیوں کو عبرانی زبان میں ’’موشوا‘‘ (Moshva)کہا جاتا ہے۔ یوں اس پورے خطے میں چند ہزار یہودی کینسر کی چھوٹی چھوٹی گلٹیوں کی طرح پھیل کر آباد ہوگئے، جن کا مقصد ایک دن پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینا تھا۔ یہ تمام یہودی جو آج تک فلسطین کی سرزمین پر آباد ہوتے چلے آئے ہیں، وہ کسی معاشی مقصد، کاروباری مصلحت یا خوشگوار ماحول کے لئے وہاں نہیں آئے تھے۔ وہاں تو اسوقت پینے کو پانی بھی میسر نہ تھا۔ یہ تو لق دق صحرا، بے آب و گیاہ سرزمین اور شہری زندگی سے عاری علاقہ تھے۔ یہ وہاں ایک عالمی حکومت کے قیام کے لئے آئے تھے۔ دوسری واپسی یادوسرا ایلیا 1904ء میں خالصتاً نظریاتی اور مذہبی تصور لئے ہوئے تھا۔ صہیونی تحریک نے دنیا بھر کے یہودیوں کو حکم دیا تھا کہ اب کوئی یہودی کسی ایسے ملک میں نہ رہے جہاں ان پر ظلم و ستم ہو رہا ہو۔ روس میں کیمونسٹ انقلاب کی آمد آمد تھی اور یہودیوں سے نفرت عروج پر تھی۔ یہودیوں کی اکثریت وہاں سے بھاگ کر امریکہ میں جا کر آباد ہوئی، لیکن چالیس ہزار یہودی اپنے ’’مسیحا‘‘ کی عالمی حکومت کا خواب لے کر تل ابیب کے علاقے میں آکر آباد ہوگئے جو اس وقت ایک چھوٹا سا صحرائی گائوں تھا۔ انہوں نے وہاں ایک عام سی مہاجربستی آباد نہیں کی، بلکہ ایک چھائونی کی طرح اپنی ایک نجی اجتماعی و دفاعی فوج بھی بنائی جسے ’’ہاشومر‘‘ (Hashomar) کہتے ہیں۔ برطانیہ نے علاقہ کا انتظام سنبھالا تو تیسرا ایلیا شروع ہوا، جو 1923ء تک جاری رہا اور فلسطین میں جہاں جہاں یہودیوں نے چند گھروں والی بستیاں بنائی تھیں، یہ سب وہاں جا کر مکھیوں کے چھتے کی طرح آباد ہونے لگے۔ تیسرے ایلیا کے آخر یعنی 1924ء تک نوے ہزار یہودی مزید آباد ہو گئے۔ اب امریکہ کے یہودیوں نے ایک چال چلی۔ انہوں نے امریکہ میں ایک قانون منظور کروایا کہ چونکہ یہودیوں کا امریکہ میں داخلے کا کوٹہ ختم ہو گیا ہے، اس لئے مزید یہودی یہاں نہ آئیں۔ اس کے بعد چوتھے اور پانچویں ایلیا میں دنیا بھر سے یہودی صرف فلسطین میں برطانوی سرپرستی میں آباد ہونے لگے۔ یہ تمام انہی چھوٹی چھوٹی پرانی بستیوں کے گرد آباد ہوتے چلے گئے۔ ہر آبادی کے لئے اپنی ایک مسلح نجی فوج بنائی جاتی۔ یوں یہ بستیاں نہیں چھائونیاں تھیں۔ یورپ میں ’’ہولوکاسٹ‘‘ شروع ہوا تو وہاں رہنے والے یہودی بھی یہاں آنے لگے۔ جب ایک اکثریتی تعداد اس علاقے میں اکٹھی ہو گئی تو برطانیہ نے 12اپریل 1947ء کو اقوام متحدہ سے کہا کہ ہم فلسطین کو چھوڑنا چاہتے ہیں، اس لئے آپ اس کا کوئی حل نکالیں۔ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد 181(۱۱) 29نومبر1947ء کومنظور کی جس کے تحت تل ابیب، جافہ اور بیر شابہ وغیرہ پر مشتمل یہودی ریاست بنا دی گئی، جبکہ غزہ اور مغربی کنارہ فلسطین کے پاس رہنے دیا گیا، جبکہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ یروشلم کا پورا شہر اقوام متحدہ کی نگرانی میں رہے گا۔ مئی 1948ء کے آغاز میں برطانوی افواج وہاں سے نکلیں اور 14مئی کو اسرائیل کی ریاست قائم ہو گئی۔ ایک ایسی ریاست جس کا مقصد یہودیوں کے لئے ’’ہوم لینڈ‘‘ نہیں بلکہ پوری دنیا پر عالمی حکومت قائم کرنا تھا۔
اپنی ہنستی بستی دنیا کو چھوڑ کر ویرانوں میں جا کر آباد ہونے کے محض دو مقاصد ہوا کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہواور چھپتے چھپاتے ایسی جگہ جا کر آباد ہو جائیں جہاں کوئی تلاش نہ کر سکے اور دوسرا یہ کہ آپ عشق و محبت کی وارفتگی میں مجنوں ہو جائیں یا گیان کی منزلوں کے راہی بنے ہوئے ہوں۔ لیکن اسرائیل کے ویرانوں میں یہودیوں کی واپسی، عام انسانوں کی ہجرتوں سے بالکل مختلف تھی۔ وہ روزگار کی تلاش میں یہاں آئے تھے اور نہ سرسبز و شاداب کھیتوں کی آباد ی کے لئے۔ انہیں اس ویرانے میں آباد ہونے کی لوریاں گذشتہ دو ہزار سال سے دی جاتی رہی ہیں۔ ہر یہودی بچے کو اس خواب کے ساتھ پروان چڑھایا جاتا رہا کہ وہ ایک دن ارض مقدسہ جائے گا، جہاں اس آنے والے عظیم ’’مسیحا‘‘ کی فوج کا حصہ بن کر لڑے گا جسکی پوری دنیا پر عالمی حکومت قائم ہوگی۔ اسی لئے اسرائیل کی ساخت ایک قومی ریاست نہیں بلکہ ایک گیریژن یعنی چھاؤنی جیسی ہے۔ آپ اسرائیل کے تمام قوانین، اصولِ حکمرانی، طرزِ زندگی یہاں تک کے شہروں اور علاقوں کے دفاعی نظام کا مطالعہ کر لیں، یہ آپ کو ایک بہت بڑا کنٹونمنٹ نظر آئے گاجس کے ہر شہری کیلئے کم از کم تین سال فوج کی ملازمت ضروری ہے۔ اسرائیل کا وجود ایک خالصتاً مذہبی عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر استوار ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ریاست نے اپنا کوئی تحریری آئین نہیں بنایا، بلکہ وہ تورات اور تالمود کو اپنا آئین سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے عالمی حکومت کے اس مذہبی عقیدے کے مقابلے میں ’’اسلام‘‘ نے بھی علاماتِ قیامت اور آخر الزمان کے بارے میں اپنا ایک تصور دیا، جو وضاحت کے ساتھ قیامت سے پہلے برپا ہونیوالے آخری معرکۂ خیر و شر یعنی ’’ملحمتہ الکبریٰ‘‘ کے بارے میں بتاتا ہے۔ سید الابنیاء ﷺ کی پیش گوئیوں کے مطابق یہ معرکہ اسی سرزمین میں برپا ہونا ہے جسے ’’ارض شام‘‘ کہتے ہیں اور جس کے ایک حصے میں فلسطین یا موجودہ اسرائیل پر آخری محاذ آرائی ہوگی، جس میں آخر کار مسلمان فتح یاب ہوں گے۔ قرآن پاک نے بنی اسرائیل کی تاریخ بتاتے ہوئے آخر میں اس معرکے کے متعلق فرمایا ہے، ’’ اب تم زمین میں بسو، پھر جب آخری وعدے کا وقت آئیگا تو ہم تمہیں ایک ساتھ اکٹھا کر دیں گے (بنی اسرائیل:104)۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل کو زمین میں منتشر کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، ارشاد ہے، ’’ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا‘‘ (الاعراف: 168)۔ قرآن پاک نے یہودیوں کے دو ہزار سال تک زمین میں بکھرنے اور پھر آخری معرکیلئے یروشلم میں جمع ہونے کا ذکر کرنے کے بعد اس واپسی کا مقصد بھی بیان کردیا ہے، فرمایا،’’ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ لیکن اگر تم نے اپنی سابقہ روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی اپنی سزا کا اعادہ کریں گے (بنی اسرائیل: 8)۔ یہ کونسی سزاجس کا اعادہ ہو گا۔ اللہ نے گذشتہ دو سزائوں کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا، ’’جب پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے پر ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کے ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر رہنا تھا (بنی اسرائیل: 5)۔ یہ یروشلم کے پہلے ہیکل سلیمانی کی تباہی کا تذکرہ ہے، جب 589قبل مسیح میں بابل کے حکمران بنو کدنضر دوم ( ii) نے اس شہر کا محاصرہ کیا جو تیس مہینوں تک جاری رہا۔ ہیکل سلیمانی گرادیا گیا، تمام اہل اور کار آمد لوگ غلام بنا لئے گئے اور پورا شہر زمین بوس کردیا گیا۔ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے بنی اسرائیل پر دوبارہ فضل و کرم کا ذکر کیا ہے۔ یروشلم میں واپسی کے بعد یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ ؑ کی مخالفت کی اور انہیں اپنی دانست میں مصلوب کیا تو اللہ نے بنی اسرائیل پر دوسری سزا مسلط کی جس کا ذکر یوں ہے، ’’پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کر کے رکھ دیں‘‘(بنی اسرائیل: 7)۔ قرآن میں درج یہ دوسری تباہی 70عیسوی میں آئی۔ رومن جرنیل ’’ٹائٹس ویسپاسیان‘‘ نے بیس ہزار فوجیوں کیساتھ 14اپریل 70ء کو یروشلم کا محاصرہ کیا جو چار ماہ تین ہفتے اور چار دن جاری رہا۔ گیارہ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا اور 97ہزار کو غلام بنا لیا گیا اور اب اللہ نے آخری معرکے کیلئے یہودیوں کو واپس یروشلم میں اکٹھا کرلیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ اس بار اگر تم نے سرکشی کی تو سزا بھی بالکل پہلے جیسی ہو گی۔ یہ سزا کن کے ہاتھوں سے دی جائے گی؟ اس کی وضاحت سیدالانبیاء ﷺ کی احادیث میں تفصیلاً موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا، ’’تم یہودیوں سے جنگ کرو گے یہاں تک کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپا ہوگا تو وہ پتھربول کر کہے گا: اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اسے قتل کر ڈالو‘‘ (صحیح بخاری: 2925)۔ یہ ہے وہ آخری معرکہ جو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اسی سرزمینِ فلسطین پر برپا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیش بندی کے طور پر اسرائیل کے قیام سے پہلے ہی ایک سازش کے تحت ارد گرد آباد مسلمانوں کو قومیت کے نام پر مصر، شام، اردن، لبنان اور دیگر ریاستوں میں تقسیم کیا گیا اور ان میں عرب قومیت کی چنگاری سلگائی گئی۔ یہودیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ جب تک مسلمان قومیت کے نام پر ان سے لڑیں گے تو شکست کھائیں گے۔ لیکن اگر وہ بحیثیت امتِ مسلمہ لڑے تو یہ جنگ اسرائیل کو بہت مہنگی پـڑ سکتی ہے۔ مگر میرے اللہ کے بھی اپنے منصوبے ہیں۔ احادیث کے مطابق یہودیوں سے ہونے والی آخری لڑائی کی فاتح قوم نہ عرب ہوگی نہ عجم۔ عرب تو صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹ جائیں گے، فرمایا’’سب سے پہلے لوگوں میں فارس والے ہلاک ہوں گے پھر ان کے پیچھے عرب والے‘‘ (کتاب الفتن: 56)۔ عربوں کی مکمل تباہی کا ذکر تو لاتعداد احادیث کا مستقل مضمون ہے۔ بیت المقدس کی سرزمین پر جس قوم کے جھنڈے گاڑے جائیں گے وہ دریائے سندھ سے دریائے ایموں کے درمیان آباد ’’خراسان‘‘ کی سرزمین سے آئے گی۔ دو مختلف احادیث ہیں، ایک جگہ لفظ ’’مشرق‘‘ استعمال ہوا ہے اور دوسری جگہ ’’خراسان‘‘، فرمایا’’خراسان (مشرق) سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے اور انہیں کوئی طاقت واپس نہیں پھیر سکے گی، یہاں تک کہ وہ ایلیا (بیت المقدس) میں گاڑ دئیے جائیں گے‘‘(ترمذی، مسند احمد)۔ اللہ کے منصوبوں کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہودیوں نے عالمی طاقتوں کی مدد سے امتِ مسلمہ کو قومیت کے نام پر تقسیم کر دیا اور اطمینان سے اسرائیل کے قیام کی طرف بڑھ رہے تھے، مگر اللہ نے اسرائیل کے قیام سے ٹھیک نو ماہ قبل 14اگست کو اسی خراسان و مشرق کے علاقے میں ’’پاکستان‘‘ نام کی ایسی ریاست قائم کردی جس کی بنیاد کلمۂ طیبہ ہے۔ یہی وہ پاکستان ہے جس کے بارے میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریان نے 1967ء کی جنگ جیتنے کے بعد پیرس میں فتح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا۔ یہ تقریر 1967 ء کے ’’Jewish Chronicle‘‘ میں چھپی ہے۔ ’’دنیا بھر کی صہیونی تحریک کو پاکستان کی جانب سے خطرات سے خبردار رہنا چاہیے اور اب پاکستان ہمارا پہلا نشانہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہماری بقا کے لئے خطرہ ہے، پورے کا پورا پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ عربوں کا دلدادہ، عربوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی لئے وقت آگیا ہے کہ عالمی صہیونی تحریک فوری طور پر پاکستان کے خلاف قدم اٹھائے۔ بھارت کے ہندو پاکستانیوں سے نفرت کرتے ہیں، اس لئے بھارت پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لئے بہترین ملک ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔
ڈیوڈ بین گوریان کو صہیونیت ورثے میں ملی، اس کا باپ ایویگڈر گرون (Avigdor Gron) اس گروہ میں شامل تھا،جنہوں نے عالمی صہیونی تحریک کے ’’پروٹوکولز‘‘ تحریر کیئے تھے۔ ڈیوڈ بین گوریان 1906ء میں ہی اس وقت جافہ میںجاکر آباد ہو گیا تھا، جب روس میں یہودیوں کے خلاف نفرت کا آغاز ہوا تھا۔ اسرائیل کے قیام تک وہ وہاں آباد ہونے والے یہودیوں کو فوجی انداز میںمنظم کرتا رہا۔ یہی شخص تھا جس نے 14مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کے اعلان کی دستاویز پر دستخط کئیے اور اسے متفقہ طور پر بلا مقابلہ اسرائیل کا وزیر اعظم چنا گیا۔ اسرائیل کی ریاست کے قیام کے فوراً بعد ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں اس نے لوگوں کو اس وقت حیران کر دیا، جب ہر یہودی گھر سے مسلح افراد برآمد ہونے لگے، جنہیں اس نے تربیت دی تھی۔ یہ شخص اپنی موت تک اسرائیلی ریاست اور صہیونی تحریک کے لئے واحد مسلمہ رہنما رہا اور موت کے بعد بھی آج تک اس کی پالیسیاں اسرائیل کی ریاست کے لئیے مشعل راہ ہیں۔ اسی شخص ڈیوڈ بین گوریان نے 14مئی 1948ء کو وزیراعظم بنتے ہی قائداعظمؒ کو ایک ٹیلیگرام بھیجا تاکہ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا جا سکے۔ قائداعظمؒ جو پہلے ہی اسرائیل کو یورپ کی ناجائز اولاد کہہ چکے تھے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ عرب اسرائیل جنگ جو اسرائیلی قیام کے ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی، پاکستان نے چیکوسلاویکیاسے دو لاکھ پچاس ہزار بندوقیں خریدیں اور لڑنے والے عربوں کو سپلائی کیں، اور اس کے علاوہ اٹلی سے چار فوجی طیارے خرید کر مصر کو مہیا کئے۔ امریکی آرکائیوز سے ملنے والی ان معلومات کی بنیاد پر یہ تفصیل ’’موشے ییگر‘‘ (Moshe Yegar)نے اپنے مضمون میں لکھی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں تھی، مگر پھر بھی قائداعظمؒ نے اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عربوں کو مکمل مدد فراہم کی۔ اس کے بعد دوسری عرب اسرائیل جنگ جو 1967ء میں ہوئی، پاکستان نے اسرائیل سے لڑنے کے لئیے اپنے چھ فائٹر پائلٹ بھیجے، جن میں سے ایک پاکستانی پائلٹ ’’سیف الاعظم‘‘ کو چار اسرائیلی طیارے مار گرانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1973ء کی جنگ میں پاکستان نے فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس جنگ میں مصر نے حیران کن فتح حاصل کی تھی اور دنیا کی سب سے مضبوط اسرائیلی دفاعی لائن ’’بار لیو‘‘ (Bar Lav) لائنکو خاک میں ملا دیا تھا۔ اس کے بعد 1982ء میں جب اسرائیل لبنان میں داخل ہوا تو لاتعداد پاکستانی اس سے لڑنے کے لئیے گئے جن میں سے پچاس پاکستانیوں کو اسرائیل نے گرفتار بھی کیا۔ اسرائیل سے آخری جنگ 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہوئی، جس میں حزب اللہ کے صرف 70لوگ شہید ہوئے لیکن حزب اللہ کے حملوں نے اسرائیل کا مضبوط ترین ائیر ڈیفنس سسٹم ریت کا گھروندہ ثابت کردیا۔ وہ ڈیفنس سسٹم جس کی تمنا امریکی پینٹاگون بھی کرتا تھا۔ تل ابیب سمیت اسرائیل کے چار شہر خوف کے مارے خالی کر دئیے گئے اور اسرائیلی وزیراعظم ’’ایہود اولمرٹ‘‘ نے پارلیمنٹ میں اپنی شکست کا اعتراف کیا۔ دنیا بھر کے لکھاری جن میں پاکستان کے کچھ ’’جہالت کے پہاڑ‘‘ بھی شامل ہیں، اسرائیل کو پتہ نہیں کس کے ایماء پر بہت بڑا ہوّا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اب تک ہونے والی چار جنگوں میں اسرائیل نے صرف 1967ء کی ایک جنگ جیتی ہے۔ پہلی جنگ 1948ء میں ہوئی، اردن نے برطانوی زیر تسلط مغربی کنارے پر چند دن میں ہی قبضہ کر لیا تھا۔ تیسری جنگ میں مصر نے اسرائیلی دفاعی لائن کا غرور خاک میں ملا دیا تھا اور اپنا علاقہ بھی واپس لے لیا تھا اور چوتھی جنگ میں حزب اللہ نے اسے بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔ جس ملک کا سائز اتنا ہو کہ اس کے ساحل سمندر پر دس چھوٹے جہاز بھی کھڑے ہو جائیںتو وہ دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ جس کی اپنی کوئی فضائی حدود نہیں ہے بلکہ وہ مشقوں کے لئیے ترکی کی فضائی حدود استعمال کرتا ہے۔ جہاں یہ قول زبان زدعام ہو کہ اگر چند عرب بازاروں میں بندوقوں سمیت نکل آئیں تو سارا شہر اپنے گھروں میں بنائے ہوئے تہہ خانوں میں گھس جاتا ہے۔ اس ملک کو قائم، برقرار اور زندہ صرف اور صرف عرب ممالک کی منافقت نے رکھا ہوا ہے اور وہ صرف ان نام نہاد دانشوروں کے دلوں میں دھڑکتا ہے۔ پاکستان اور اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کا ’’خفیہ‘‘ آغاز قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کی طرف سے ہوا۔ اس بات کا انکشاف امریکی آرکائیوز میں وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل رافیل (G. Rafael)کے 16 جنوری 1953ء کو لکھے گئے ایک نوٹ سے ہوتا ہے کہ 14جنوری 1953ء کو سرظفر اللہ اور امریکہ میں اسرائیلی سفیر ابا ایبان (Abba Eban)کی ملاقات کروائی گئی، جس میں ظفر اللہ نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو تو اسرائیل سے کوئی نفرت نہیں ہے اور وہ اسے مڈل ایسٹ کا ایک اہم حصہ سمجھتی ہے، مگر حکومت مذہبی طبقے سے بہت خوفزدہ ہے۔ اس نے اسرائیل اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں رابطوں اور وفود کے تبادلوںکا بھی وعدہ کیا۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے عرب علماء کے وفود سے ملاقات کے دوران اسرائیل کو ناسور قرار دیا تھا اور اس کے بعد اگلے وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے کولمبو کی ایشیائی ممالک کی کانفرنس میں اسرائیل کے خلاف تقریر کی تھی۔ ظفراللہ بھی پاکستانیوں کے سامنے ویسا ہی بیان دے رہا تھا، لیکن اندرون خانہ اس منافقت کا وہی عالم تھا جو آج کے سیکولر، لبرل دانشوروں اور ’’شہرت کے حصول کے دیوانے‘‘ قلم کاروں کا ہے کہ جن کا طریق کار یہ ہے کہ بغیر کسی دلیل کے شوشے چھوڑ کر گالیاں کھائی جائیں تاکہ ’’ریٹنگ‘‘ بہتر ہو۔ قادیانی وزیرخارجہ ظفر اللہ کے بعد حکومتی سطح پر رابطہ 1998ء میں نوازشریف نے کیا جب اس نے اسرائیلی وزیراعظم کو ایک خفیہ خط تحریر کیا کہ ہم اپنی ایٹمی صلاحیت ایران کو نہیں دیں گے۔ مشرف کے دور میں بہت پیش رفت ہوئی اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ میں ملاقات بھی ہوئی۔ لیکن اسی دوران یہی اسرائیل بھارت کے بہترین دوستوں کی صورت سامنے آیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم ’’مناخم بیگن‘‘ نے 12 اپریل 1981ء کو امریکی سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، عرب ریاستوں سے کہے کہ وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کروائیں۔ یہ حقیقت بھی اب دنیا کے سامنے واضح ہو چکی ہے کہ 1980ء اور 1988ء میں دو دفعہ اسرائیلی فائٹر جیٹ کہوٹہ پر حملہ کرنے پہنچ چکے تھے تاکہ عراق کے ’’آپریشن اوپرا‘‘ کی طرح حملہ کیا جائے۔ ان دونوں حملوں اور بھارت اسرائیل منصوبوں کی تفصیل دو برطانوی مصنفین ’’آرڈن لیوی‘‘ (Ardin Lavy) اور ’’کیتھرین کلارک‘‘ (Cathrine Clark) نے
اپنی کتاب میں بتائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیلی جہاز ہر دفعہ پرواز کیلئے تیار تھے لیکن بھارت کے اعلیٰ حکام نے یہ کہہ کر منصوبہ مسترد کر دیا کہ اسرائیل کا کچھ نہیں بگڑے گا، لیکن اس کے بعد ہم پاکستان سے جنگ میں کود پڑیں گے۔ سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور علاقائی اعتبار سے یہ آج تک کی مختصر تاریخ ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو خود امریکی امداد پر پلتا ہے۔ 1985ء لے کر اب تک امریکہ اس کو 3ارب ڈالر سالانہ امداد اور 8ارب ڈالر کے دیگر فوائد دیتا ہے۔ اب تک امریکہ اسرائیل کو 142.3ارب ڈالر نقد امداد دے چکا ہے۔ وہ اسرائیل جس کی دفاعی بارلیو لائن کو 1973ء میںانوار السادات کی فوج تباہ کر دیتی ہے اور جس کا ائرڈیفنس سسٹم 2006ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ جو پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت کا دوست ہی نہیں، پاکستان مخالفت میں برابر کا شریک بھی ہے۔ ایسے اسرائیل سے میرے ملک کا بزدل اور مادہ پرست دانشور ہمیں مسلسل ڈراتا اور خوفزدہ کرتا ہے۔ میرے ملک کے یہ دانشور، جو قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرویز مشرف کے دور میں خاصے پھلے پھولے تھے، آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں لکھتے ہیں مگر اسکا ایک فائدہ بھی نہیں گنوا سکتے۔ ہمیں کہا جاتا ہے، ملکوں کو اپنا معاشی مفاد دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ میرا ان حضرات سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا یہ اپنے گھر کے سارے فیصلے صرف اور صرف دنیاوی، معاشی اور مادی فائدہ ذہن میں رکھ کر کرتے ہیں۔ کیا وہ اپنے گھر میں دولت، امن اور سکون لانے کیلئے دین، غیرت، عزت، خاندان اور وقار سب کا سودا کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اپنے گھر کے فیصلوں میں غیرت کی پگڑی سر پر باندھتے ہو اور خاندانی حمیت کی چودھراہٹ کا خیال رکھتے ہو تو پھر اللہ، اس کے رسولؐ اور قومی حمیت کے سامنے ذلیل و رسوا کرنے کے لئے پاکستانی قوم ہی رہ گئی ہے جس کو ایسے بے غیرتی کے مشورے دئیے جاتے ہیں۔
عیسائیوں میں بائبل کی ( متنازعہ) تشریحات کے مطابق ، فلسطین [اب اسرائیل] میں قیامت سے پہلے (Armageddon) آرماجیڈن کی لڑائی ہوگی جہاں تمام یہودی جمع ہوجائیں گے ، یسوع مسیح واپس آکر برائی کی تمام قوتیں کو تباہ کردیں گے تب یہودی بھی مسیحیوں طرح حضرت عیسیٰ کو اپنا رب مان لیں گے (یعنی عسیائی ہو جائیں گے)، جو یہودی ایسا نہیں کریں گے وہ تباہ و برباد ہلاک ہوجائیں گے۔ صہیونی مسیحی، عیسیٰ علیہ السلام کی دوسری آمد میں جلدی پیدا کرنے کے لئے ، اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں تاکہ تمام یہودی وہاں اکٹھے ہو جائیں- اگرچہ یہ نظریہ یہودیت کے خلاف جاتا ہے مگر یہودی امریکی “صیہونی مسیحیوں” کی مدد اور سپورٹ اور اپنے مطلب کو حاصل کرنے کے لیے صیہونی مسیحیوں کو احمق الہ کار سہولت کار سمجھتے ہیں- نتیجہ ٹرمپ بھی امریکی صیہونی مسیحیوں اور یہودیوں کی سپورٹ اور دوسری ٹرم الیکشن میں کامیابی کے لیے یہودی تھرڈ ٹمپل کی تعمیر کا سہولت کار بن چکا ہے-
[حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پوری وضاحت سے بیان فرمادیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور تمام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کردیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے۔ روئے زمین پر امن وامان کا دور دورہ ہوگا، شیر اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس ٹھہریں گے، پھر ان کی وفات ہوجائے گی، مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ان کو دفن کردیں گے۔ (مسند احمد: ۲/۴۰۶۔ فتح الباری: ۶/۲۵۷)]
بنیاد پرست مسیحی یہودیوں کی مختلف تنظیموں کا کپیٹل ہل Capitol Hill بہت اثر ہے ان کا دعویٰ ہے کہ ان کو 50 ملین سے زیادہ ایمان رکھنے والے مسیحیوں کی مدد حاصل ہے۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن اور ریپبلکن ان سے متاثر رہے- اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت مسیحی صہونیت پسند یہودی صیہونیوں سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔ ان کے یورپ میں مددگار اسرائیل کے لیے لابی کرنے میں مصروف عمل ہیں اور امن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔ ان کے مطابق امریکہ اور اسرائیل جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں جن کا دل اکٹھے دھڑکتا ہے اور وہ مشترکہ تاریخی مذہبی اور سیاسی اقدار کو شئیر کرتے ہیں۔
Pastor John Hagee مسیحی صیہونی موومنٹ کا ایک لیڈر ہے 19000 افراد کی چرچ کا لیڈر ہے۔اس کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام دنیا میں 160 ٹی وی سٹیشن 50 ریڈیو اسٹیشن 8 نیٹ ورک کے ذریعے 99 ملین گھروں میں 200 ملکوں میں دیکھا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ 25 سال سے میں صہونیت کا پرچار کر رہا ہوں، بائبل اسرائیل کی حمایت میں ہے۔ اگر کوئی کرسچئین یہ کہے کہ: “میں بائبل پرایمان رکھتا ہوں”، تو میں اس کواسرایئل کی حمایت میں کھڑا کر دوں گا ورنہ وہ اپنےایمان سے ہاتھ دھو ڈالیں۔ لہذا آپ کہہ سکتے ہیں کہ “میرے پاس عیسائی ایک بیرل میں ہیں”
مسیحی صہیونی 6 بنیادی سیاسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں جو ان کی فائقة الحرفية (لفظ بلفظ) بنیاد پرست الہیات ultra-literal and fundamentalist theology سے ماخوذ ہیں۔
یہ ایمان کہ یہودی خدا کے خاص قوم ہیں اس لیے مسیحی صہونی اسرائیل کی مدد کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ اسرئیل کی متعصبانہ، نسل پرست پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں جن میں سیاستدان بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
خدا کے منتخب قوم کی حیثیت سے یہودیوں کی اسرائیل میں آبادکاری ان کو امداد مہیا کرنا یہودی تنظیموں کے ساتھ مل کر مدد کرنا شامل ہوتا ہے۔
جیسا کہ مقدس کتاب میں بیان ہے دریائے نیل سے فرات تک علاقہ مکمل طور پر یہودیوں کے لیے مخصوص ہے اس لیے زمین کو شامل کرنا فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دینا غیر قانونی یہودی بستیاں آباد کرنا بلکل جائز ہے۔
یروشلم کو مسیحی صیہونی [Zioinist Christians] مکمل طور پر یہودیوں کا مرکز سمجھتے ہیں جس کو فلسطینیوں سے شیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح سے مسیحی صہیونیوں نے امریکی حکومت کو پرشر ڈالا کہ وہ امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرے تاکہ اسےباضابطہ طور پر اسرائیل کا کیپٹل مان لیا جائے۔
مسیحی صیہونی، یہودیوں کی مختلف تنظیموں کو مدد فراہم کرتے ہیں جیسے”یہودی ٹیمپل ماونٹ کے ایماندار” جو گنبد صخرہ کو تباہ کرکے وہاں حرم شریف پر یہودیوں کا ٹیمپل ماونٹ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
مسیحی صیہونی [Zioinist Christians] مستقبل کے متعلق بہت منفی سوچ رکھتے ہیں، ان کو یقین ہے کہ بہت جلد دنیا میں تباہی کی جنگ ہوگی۔ ان کو یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن ممکن نہیں لگتا اس لیے وہ امن کی کوششوں کے خلاف ہیں۔ اس طرح سے وہ “امن کے لیے زمین” Land for peace کے خلاف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا کے اسرائیل کے ساتھ وعدے کے خلاف ہے اس لیے دشمنوں کی مرد کے برابر ہے۔ [تفصیل اس..لنک..پر..]
مذھب کے نام پر دنیا کی سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ سیکولر قوم امریکہ اور اسرایئل مل کر تباہی کا کھیل کھیل رہے ہیں …
ہزاروں سالوں سے ، دنیا نے انتباہ سنا ہے کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جب گناہگار انسان ، دجال ، انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فریب کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوگا۔
اگرچہ آج کا کوئی بھی زندہ انسان استبدادی عالمی معاشیات ، معاشرتی ہولناکیوں اور اس کی آمد کے بعد ہونے والی حتمی (apocalypse – دنیا کی مکمل حتمی تباہی ، جیسا کہ بائبل کی کتاب وحی میں بیان کیا گیا ہے۔) پر گفتگو کرسکتا ہے ، لیکن بہت کم لوگوں کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس مقام کی تعمیر کے لئے اس مقام پر بات چیت ہو رہی ہے جہاں ویرانی کا مکروہ عمل کھڑا ہوگا۔ مقدس جگہ میں یہ ، جیسا کہ ڈینیل کی کتاب نے پیش گوئی کی ہے ، عمل انگیز واقعہ ہوگا ۔دنیا کی مکمل حتمی تباہی ، جیسا کہ بائبل کی کتاب وحی میں بیان کیا گیا ہے۔
اختتام کا آغاز….. بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کے لیے تاریخی “بادشاہ سائرس” کا کردار کرے گا اور یہ کہ ٹرمپ یہودیوں کے تیسری عبادت گاہ/ معبد/ مندر کی عمارت کی تعمیر نو کا سہولت کار اور نگران ہے اور اس مقصد کے حصول میں ان کے بااثر کردار کو ہاشم (خدا) بذات خود رہنمائی کر رہے ہیں تاکہ اپنے خاص لوگوں (یہودیوں) کو سب سے زیادہ مقدس عبادت گاہ میں بحال کردیا جائے۔
کیا یہودیوں تیسری عبادت گاہ/معبد/ مندر کی تعمیر کے لئے خفیہ منصوبہ تیار ہے؟
اور جیسے جیسے ان منصوبوں میں تیزی لائی جارہی ہے ، کیا ٹرمپ اس اہم بلڈنگ کوتعمیر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ، تاکہ “یوم آخر” کے قیام میں جلدی ہو؟
“The Rabbis, Donald Trump, and the Top-Secret Plan to Build the Third Temple” By Dr. Thomas Horn
اپنی کتاب “ربی ، ڈونلڈ ٹرمپ ، اور تیسرا یہودی معبد بنانے کے لیئے ٹاپ سیکریٹ پلان” میں Dr. Thomas Horn بیان کرتا ہے کہ:
ڈونلڈ ٹرمپ ، ربیوں اور تیسرے یہودی مندر کو کھڑا کرنے کے لئے پردے کے پیچھے اسکیم کے درمیان تعلق۔-
ٹرمپ کے آرتھوڈوکس یہودی داماد جیرڈ کشنر کا کرداراور منصوبے، جو وہ ہیکل ماونٹ (Al Aqsa Masjid) (Temple Mount) پر قبضہ حاصل کرنے کے لیئے سعودی عرب کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے فیصلے اور وہاں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے سے تیسرے مندر کے حامیوں کو ایک طاقتور سگنل بھیجا-
ٹیمپل ماؤنٹ کے مقام پر تنازعہ اور تیسرا یہودی مندر جس جگہ پر تعمیر کیا جائے گا اس کی نقاب کشائی عنقریب کر دی جایے گی –
ویرانی کی مکروہ سازی کیا ہے اور دنیا کی سب سے طاقتور سیاسی شخصیات کے مقدس زمین پر اس کے مستقبل کے ظہور کے بارے میں کیا کہنا ہے-
قمران کے غاروں کے قریب حالیہ آثار قدیمہ کی دھات کے سراغ لگانے والے اسکینز (scans) نے قدیم مندر کے خزانوں (جس میں “عہد” کامقدس صندوق بھی شامل ہے) کی دریافت کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور اس کا تیسرے مندر کی عمارت سے کیا تعلق ہے۔
کاپر اسکرول (copper scroll) کا معمہ اور اس سے کیا انکشاف ہوا؟
تیسرے مندر کی تعمیر میں ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنماؤں کو شامل کرنے کے واقعات ، اور واضح “یوم آخر” (End Times) کے واقعات کے اشارے
جب مندر تعمیر ہو گا ، اس کی بے حرمتی کی جائے گی تو پھر کیا ہوگا ؟
تھرڈ ٹیمپلکی تعمیر، یہودی اور صیہونی مسیحیت کا مشترکہ پراجیکٹ عالمی امن کے خطرہ ہے، جس میں شدت پسند انڈین ہندو حکمران ٹولہ بھی شامل نظر اتا ہے- اس طرح امریکہ، اسرائیل ، ہندوستان کا گٹھ جوڑ ، پاکستان کو غیر موثر بنانا چاہے گا، جو واحد مسلم مضبوط فوجی ایٹمی طاقت ہےجس میں 200 ملین سے زیادہ کی غیرت مندپر جوش مسلمان آبادی ہے۔ غزوۂ ہند بھی ممکنات میں شامل ہو سکتا ہے-
واضح ہوتاہےکہ “بنیاد پرست، مذہبی جنونی، پروٹسٹنٹ صیہونی مسیحت” اسلام سےٹکراؤکی طرف گامزن ہے- یہودی اور ہندو مذہبی جنونی تین مذاھب کے جنونیوں کا مذہبی اتحاد اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مذہبی جنگ (crusade ) کر رہے ہیں جو جدید ہائبرڈ جنگ ہے- اس کا مسلمانوں کے پاس توڑ صرف جہاد ہے – جہاد ان کی نیندیں حرام کر دیتا ہے، خلافت عثمانیہ کے بعد سعودی عرب میں خلافت کی بجاے بادشاہت قائم کرنے کا مقصد اسلام میں کسی قسم کی مرکزیت کو قائم نہ ہونے دیا جایے کہ وہ جہاد کا اعلان نہ کر سکے- شاہ فیصل جو امت مسلمہ کا خیر خواہ تھا شہید کر دیا گیا. جہاد کو امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کیا پھر اب خود بھی بھگتا – مگر مسلمانوں کو جہاد سے دور رکھنے کے لیے داعیش جیسے دہشت گرد گروہ بنا کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا- مگر اب ان کی مکروہ سکیموں کا سب کو علم ہو چکا ہے- مسلمان جب جہاد کو چھوڑتے ہیں تو محکوم ہو کر غلامانہ کٹھپتلی بن جاتے ہیں- کشمیر کا تعلق اس بڑے منصوبہ اور مذہبی گٹھ جوڑ کے تناظر میں دیکھنا ہو گا- آنکھیں اور دماغ کھلا رکھیں- اس مسلمان دشمن گٹھ جوڑ کو “اسلامی ریپبلک پاکستان” ان کے گھناؤنے منصوبوں کے لئے نقصان دہ لگتا ہے۔ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی حقیقیت کو بھی امریکی اسرائیل ، بھارت گٹھ جوڑ کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کا سفارتی یا پرامن حل ممکن نہیں،آزاد کشمیر کسی قرارداد یا احتجاج سے نہیں ملا تھا- کشمیر کے میدان جنگ (کشمیریوں کے ذریعہ) میں کامیابی کے بعد ہی مذاکرات ہو سکتے ہیں ۔ ویتنام ، الجیریا، افغانستان اور بہت سارے دوسرے ممالک کی مثال لیجئے جنہوں نے مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کی ایک جائز جدوجہد کی ، جسے اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی قبول کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

اسلامو فوبیا اور ہندو ؤں کی کارستانیاں

ہندوؤں نے مسلمانوں کا تاثر دہشت گردوں کا بنا رکھا ہے
اگر تاریخ کو دیکھ جائے تو ہندؤں نے برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو بری طرجح مسخ کردیا تھا۔ مگر جدید تحقیقا ت جو کہ
غیر جانبدار ہندو ہی ر رہے ہیں اس کے مطابق برصغیر میں اسلام کی آمد اور اس کا پھیلاؤ دہشت گردی نہیں بلکہ امن و آشتی کی بدولت تھا۔
ہندوؤں کے الزامات غلط ثابت۔افغانستان سے آنے والے مسلمان بادشاہ دہشت گرد نہیں تھے۔
سلطان محمود غزنوی کا اصل نام ابوالقاسم محمود اور خطاب یمین الدولہ تھا۔ اس کی پیدائش 2 اکتوبر 971 اور بعض تاریخی حوالوں میں نومبر971 میں ہوئی۔ ابتدائی عمر میں ہی قران حفظ کرنے کے علاوہ اسلامی فقہ اور علم و حدیث میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ سلطان محمود غزنوی کا باپ سبکتگین ایک ترک غلام تھا جو کہ بلاشبہ افغانستان کا پہلا خودمختار بادشاہ بھی کہلاتا ہے۔ سبتگین کی حکومت خراسان، ہرات، بخارا،مکران ،خضدار، جلال آباد،پشاور، اٹک اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب سبکتگین کی وفات اگست 997 میں ہوئی تو اس وقت سلطان محمود اپنے باپ کی طرح سے نیشاپور کا حاکم مقرر تھا اور سلطان کا بھائی اسماعیل جو باپ کی وفات کے موقع پر غزنی میں موجود تھا، نے اپنے تاج پوشی کا اعلان کردیا۔ سلطان محمود نے پہلے خط کتابت کے ذریعے بھائی اسماعیل سے بات کرنے کی کوشش کی جب کوئی حل نہ نکلا تو 998 میں غزنی پر حملہ کردیا۔ اسماعیل کی حکومت ختم کرکے خود غزنی کی سلطنت سنبھال لی۔
سلطان محمود جن کو اسلامی تاریخ کے چند عظیم جرنیلوں میں شامل کیاجاتا ہے،کی فوج کم و بیش ایک لاکھ تھی اور فوج میں عرب، غوری، سلجوق، افغان، مغل کے علاوہ دس سے پندرہ ہزار ہندو سپاہی بھی شامل تھے۔ ہندوستان سے جتنے بھی فوجی بھرتی کئے جاتے تھے۔ وہ بیشتر ہندو ہوتے تھے۔ ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا ہندو فوجی افسروں میں چند ایک قابل زکر نام بیرپال، چک ناتھ، زناش،بجے راؤ اور سوھنی راؤ شامل تھے۔ عباسی خلیفہ نے 999 میں سلطان محمود کو یمین الدولہ کا خطاب عطا کیا جس کی مناسبت سے سلطان محمود کے خاندان کی حکومت کو یمینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے۔ محمود غزنوی نے ہرات کے قریب صحرا کنارے ایک خاص شہر ، ہاتھی نگر، تعمیر کیا کہ ان خطوں کی گرم آب و ہوا ہندوستان کے موسموں سے مطابقت رکھتی تھی۔ پھر اس نے ہندوستان سے لائے ہوئے سینکڑوں ہاتھیوں کی پرورش اس شہر میں کی۔ ہاتھیوں کے ساتھ انہیں سدھارنے والے بھی ہندستان سے منگوائے گئے اور یوں ہاتھی اس شہر میں خوش وخرم ہوگئے۔ محمود ہربرس ان ہاتھیوں کی مدد سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتا اور واپسی پر انہیں غزنی کی بجائے ہرات کے قریب اس ہاتھی نگرمیں واپس بھیج دیتا تھا۔
سلطان محمود غزنوی جس کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہندوستان پر سترہ حملے ہیں، کی بنیادی وجہ جان لینا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ پاکستان کے علاقے لاہور سے پشاور تک کا علاقہ ایک ہندو راجہ جے پال کے زیر سلطنت تھا۔ جے پال اور سلطان محمود کے باپسبکتگین کی ایک جنگ پشاور اور جلال آباد کے علاقوں میں 986 میں ہوئی تھی، جس میں جے پال کو شکست ہوئی اورسبکتگین کی سلطنت دریائے سندھ کے ساتھ اٹک تک پھیل گئی تھی ۔سلطان محمود نے حکومت سنبھالتے ہی پشاور تک کے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی مہمات کرکے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا تو راجہ جے پال جو کہ پہلے ہی اپنی شکست کا بدلہ لینے کو بے تاب تھا، نے ایک بڑا لشکر تیار کیا اور غزنی پر حملے کے لئے نکل پڑا۔ 1001 میں پشاور کے قریب راجہ جے پال اور سلطان محمود کی فوجوں کا ٹکراؤ ہوا۔ راجہ جے پال کو شکست ہوئی اور پورے خاندان سمیت گرفتار ہوگیا۔ مذاکرات اور ایک بھاری تاوان کے عوض رہائی کے بعد جے پال واپس لاہور آیا، چونکہ لڑائی سے پہلے جے پال اپنے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کرگیا تھا اس لئے شکست کے بعد نہایت شرمندگی کی حالت میں اپنی حکومت بیٹے انندپال کے حوالے کرکے خود لاہور کے ایک دروازے کے پرانے برگد کے درخت کے پاس ایک بہت بڑی چتا جلائی اور جل مرا۔
سلطان محمود غزنوی نے دوسرا حملہ جو کہ 1004 کو ہوا۔ بھنڈا یا بھیرہ جو کہ دریائے ستلج کے قریبی علاقوں پر مشتمل ریاست پر کیا جس کا راجہ بجی راؤ تھا۔ تیسرا حملہ ملتان کے حاکم ابوالفتح کے خلاف 1006 میں کیا لیکن راستے میں ہی دریائے سندھ کے کنارے جے پال کے بیٹے انند پال کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی ۔سخت جنگ کے بعد انند پال کو شکست ہوئی اور بعض روایات کے مطابق وہ کشمیر پناہ لینے کے لئے بھاگ گیا۔ انند پال کو شکست دینے کے بعد سلطان محمود نے ملتان کا رخ کیا اور ملتان کو فتح کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ملتان کا حاکم جے پال کے پوتے سکھ پال کو مقرر کیا جو اسلام قبول کرچکا تھا۔ جلد ہی سلطان محمود کو پھر ملتان جانا پڑا جہاں پر سکھ پال نے بغاوت کردی تھی۔ 1008 میں سلطان نے سکھ پال کو شکست دے کر معزول کردیا۔ اسی دوران انند پال جو کہ شکست کھا کر کشمیر بھاگ گیا تھا، نے واپس آکرایک بار پھر سلطان کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ اس کے ساتھ ہی انند پال نے اردگرد کے راجاؤں سے مدد لے کر ایک بہت بڑا لشکر اکٹھا کردیا۔ 1008 کے آخری دنوں میں ایک بار پھر دریائے سندھ کے قریب اٹک کے علاقے میں جنگ کا آغاز ہوا۔ خونریز جنگ کے بعد انند پال کو ایک بار پھر شکست ہوئی۔
1009 کے آخری مہینوں میں ایک بار پھر سلطان محمود نے ہندوستان پر حملہ کرکے پہلے نرائن پور کی ریاست کو فتح کیا اور پھر 1010 میں ملتان کے گردونواح کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلئے۔ 1014 میں سلطان نے انند پال کے بیٹے لوجن پال کو موجودہ کوہستان کے علاقے میں شکست دی اور مزید لوجن پال کی مدد کے لئے کشمیر سے آئے ہوئے ایک بڑے لشکر کو بھی شکست فاش سے دوچار کیا۔ 1015 میں سلطان محمود نے کشمیر پر حملہ کیا اور لیکن برف باری کے باعث راستے بند ہونے پر بغیر جنگ کے ہی واپس آنا پڑا۔ 1018 میں سلطان محمود نے پہلی بار پنجاب کے پار دریائے جمنا کے علاقے میں اپنی فوج کو اُتارا اور ہندوؤں کے مذہبی مقام متھرا کو فتح کرنے کے بعد ایک مشہور ریاست قنوج کا محاصرہ کرلیا۔ قنوج کے راجے نے سلطان سے صلح کا پیغام بھیجا اور سلطان کا باجگزار بننا قبول کرلیا۔ 1019 میں قنوج کی ملحقہ ریاست کالنجر کے راجہ گنڈا نے قنوج پر حملہ کرکے راجہ کو قتل کردیا اس کی خبر جب سلطان محمود تک پہنچی تو وہ اپنے مطیع راجے کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے نکلا اور کالنجر پر حملہ کرکے اسے شکست فاش سے دوچار کیا۔ راجہ لوجن پال اور راجہ گنڈا جو کہ سلطان محمود سے شکست خوردہ تھے۔ دونوں نے مشترکہ طورپر ایک بڑے حملے کی تیاری کی اور ایک بار پھر 1019 میں ہی سلطان کو دوبارہ ان دونوں کی سرکوبی کے لئے ہندستان کا سفر کرنا پڑا۔ نتیجتاً دونوں راجاؤں کو شکست ہوئی اور ہندوستان سے ہندو شاہی راجہ کا خاتمہ ہوگیا۔
سلطان محمود غزنوی 1020ء سے 1025ء کے درمیانی عرصے میں سلطنت کے شمالی مغربی حصے اور دریائے فرات کی وادیوں میں فتوحات میں مشغول رہا۔ اسی عرصہ میں سلطان محمود کو اپنے مخبروں سے یہ اطلاعات متواتر مل رہی تھیں کہ شمالی اور وسطی ہندوستان کی تمام ریاستیں سلطان سے شکست کھانے کے بعد بدلہ لینے کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہیں اور اب کے بار ایک مشترکہ حملہ کی تیاری ہے اس کے لئے گجرات کے علاقے کاٹھیاوار میں ایک بہت ہی مشہور مندر سومنات کو مرکز بنایا گیا ہے۔ سومنات سمندر کے کنارے ایک عظیم الشان مندر تھا، جسے پورے ہندوستان میں ہندوؤں کے درمیان ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مندر میں موجود شیوا کے بت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شیوا بت کو غسل دینے کے لئے تازہ پانی روزانہ کی بنیاد پر دریائے گنگا سے لایا جاتا تھا۔ جنگ کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ سلطان نے پیشگی حملے کی تیاری کردی۔ غزنی سے سومنات تک فاصلہ تقریباً 2600 کلومیٹر بنتا ہے جس میں سے 500 کلومیٹر طویل مشکل ترین صحرائے چولستان اور راجستھان بھی پڑتا تھا۔
اکتوبر 1025 میں سلطان کی فوج تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ غزنی سے روانہ ہوئی۔ تین مہینوں کی مسافت کے بعد جنوری 1026 میں سومنات مندر کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ ہندوستان کے طول و عرض سے مہاراجے اور راجواڑے اپنی اپنی فوج کے ساتھ مندر کی حفاظت کے لئے موجود تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا اور ایک سخت مقابلے کے بعد سلطان محمود فتح یاب ہوا۔ مندر کو توڑ ڈالا گیا۔ یہی وہ مشہور جنگ ہے جس کی بنا پر بعض مورخین نے سلطان محمود کی ذات کو ایک لٹیرا مشہور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سومنات کے بعد سلطان محمود کی ہندوستان پر آخری لڑائی 1027 میں ہوئی جو کہ دریائے سندھ سے دریائے بیاس کے درمیانی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔
آخری دو تین سال سلطان محمود غزنوی بیمار بھی رہا اپنی آخری جنگی مہم 1029 میں ایرانی علاقے رے میں انجام دی اور رے کے حاکم آل بویہ کو شکست دی اور کہا جاتا ہے کہ دق اور سل کے مرض میں مبتلا ہوکر اپریل 1030 میں 59 سال کی عمر میں غزنی میں وفات پائی۔
دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر رومیلا تھاپر نے اپنی کتاب “سومنات: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somantha: the many voices of history)” میں محمود غزنوی کے مشہور سومنات حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس نے سومنات مندر پر نویں صدی سے اٹھارویں صدی تک سنسکرت گجراتی ہندی فارسی تمام زبانوں کے پرانے مخطوطے اور 1951 میں سومنات کی تیسری کھدائی سے ملنے والے نوادرات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ خاص کر گیارہویں اور بارہویں صدی کے ہندو شاعروں کی شاعری اور کچھ سفرناموں کا خاص ذکر کیا ہے۔ ان کتبات میں سے کچھ تو محمود غزنوی کے حملے سے بھی پہلے کے ہیں۔
رومیلا تھاپر نے سینکڑوں کتابوں، مقالوں اور قدیم سنگی کتبوں کے حوالے سے یہ حقیقت دریافت کی ہے کہ سومنات جو سومنات پٹن ، سوم شاور پٹن اور دیو پٹن کے نام سے بھی مشہور تھا۔ کبھی بھی محمود نے برباد نہ کیا۔ تھاپر کا کہنا ہے کہ ان زمانوں میں بڑے اور اہم مندروں کی جاگیریں ہوتی تھیں اور انکے اندر نذرانوں کی صورت میں جمع شدہ بے پناہ دولت ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ جب کوئی ہندو راجہ بھی ان خطوں میں یلغار کرتا تو وہ بھی ان مندروں کو لوٹتا تھا اور اکثر اپنی فتح کی نشانی کے طورپر وہاں ایستادہ بت اپنے ساتھ لے جاتا تھا تو محمود نے بھی وہی کچھ کیا جو اس سے پیشتر ہندو راجے کرتے آئے تھے۔ لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوا جیسا آج بیان کیا جارہا ہے۔ اس عہد کے کسی مخطوطے یا دریافت ہونے والے پتھر پر یہ نقش نہیں ہے کہ محمود کے حملے کے بعد سومنات اجڑ گیا بلکہ یہ درج ہے کہ اس کی یلغار کے بعد سومنات بدستور آباد رہا اور وہاں پرستش ہوتی رہی۔
رومیلا تھاپر کی تحقیق کے مطابق یہ انگریز حکمران تھے جنہوں نے، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حکمت عملی کے تحت اس نظریئے کو فروغ دیا خاص طور پر1857 کی جنگ آزادی کے بعد جس میں مسلمان اور ہندو یکساں طورپر شامل تھے اور یہ ہندوؤں کیلے خاص تھا کہ دیکھو مسلمان تم پر کیسے کیسے ظلم ڈھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے سومنات کو برباد کر دیا جب کہ ہم تمہاری عبادت گاہوں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس مہم کا آغاز گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کی برطانوی پارلیمنٹ کی 1843 کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی کتاب اور زبان میں 1857 سے پہلے محمود غزنوی بطور لٹیرا کا ذکر نہیں ملتا۔ وائسرائے ہند The Viscount Earl canning 1858-1862 Charles John نے جنگ آزادی کے بعد محمود بطور لٹیرا کا بھرپور پرچار کیا۔ اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں ایک تقریر میں اس بات کاذکر کیا جسے پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے منظور کرکے پورے ہندستان میں پھیلایا۔ اور برطانوی و ہندستان کے انگریزی اخبارات نے اس پر مسلسل لکھنا شروع کیا۔
تھاپر کا کہنا ہے کہ اب بھی لوک گیتوں میں محمود غزنوی کے گن گائے جاتے ہیں۔ سومنات کے فقیر اور سادھو محمود غزنوی کو ایک داستانوی ہیرو گردانتے ہیں۔ اگر وہ محض ایک لٹیرا ہوتا، مندروں کا دشمن ہوتا تو ہندو لوک گیتوں میں اس کی توصیف کیوں کی جاتی۔ بعدازاں ہم نے بھی انگریزوں کے تخلیق کردہ اس نظریئے کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیا۔ تھاپر نے یہ بھی لکھا ہے کہ سومنات کے علاقے میں بے شمار مسلمان تاجرآباد تھے جو گھوڑوں کا بیوپار کرتے تھے۔ ان میں عرب بھی شامل تھے جنہوں نے مقامی عورتوں سے شادی کرکے ہندوستانی تہدیب کو اپنا لیا تھا۔ مارکوپولو نے بھی اپنے سفر نامے میں سومنات اور گجرات کے علاقے کے بیوپاریوں کا ذکر کیا ہے، جو ایران سے گھوڑے لاکر ہندوستان میں فروخت کرتے تھے۔ یہ بیوپاری باہر سے گھوڑے ،اور دھاتیں درآمد کرتے تھے اور ہندوستان سےکپڑے، مصالحے، جواہرات، لکڑی اور تلواریں برآمد کرتے تھے۔ سومنات کا علاقہ تجارت کا ایک اہم مرکز تھا۔ تھاپر کی تحقیق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوہستان نمک میں جو مندر تھے وہ بہت غریب تھے دولت صرف تھانیسر، ملتان اور سومنات کے مندروں میں تھی، ان مندروں سے حاصل ہونے والی دولت سے محمود کی فوج کی تنخواہیں دی جاتی تھیں اور ان میں سے بیشتر ہندو ہوتے تھے اور ان مندروں پر حملہ کرنے والوں میں شامل ہوتے تھے، ہندوستان میں جتنے بھی فوجی بھرتی کئے جاتے تھے ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا اور وہ محمود کا وفادار ہوتا تھا۔
محمود غزنوی نے 1026 میں سومنات پر حملہ کیا تھا اس کے 12 سال بعد 1038 میں گوا کے مقامی راجہ کدمب نے سومنات کا شاہی سفر کیا جس پر ایک سفرنامہ بھی لکھا تھا۔ جو سنسکرت زبان میں چھپا ہے۔ اس کے مطابق مندر کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ محمود کی فوجوں نے اس کی بے حرمتی کی تھی۔ اور سومنات مندر کی خطے میں سیاسی بالادستی ختم کی تھی۔ اور حملے کے بعد اسے دوبارہ مرمت کرلیا گیا تھا۔ یوں مندر کی رونق برقرار رہی۔ گوا سے سومنات تک کے سفر کا ایک احوال 1125 کی ایک تحریر میں بھی ملتا ہے۔ اس شاہی سفر میں بادشاہ کا جہاز سمندری طوفان میں تباہ ہوگیا تھا اور ایک عرب بیوپاری نے بادشاہ کی جان بچائی تھی۔ اس مدد کے عوض بادشاہ نے عرب بیوپاری کے پوتے کو ایک علاقہ کا منتظم بنایا اور اسے مسجد بنانے کی اجازت دی تھی۔ بارہویں صدی کے گجراتی چولوکیا خاندان کے راجہ کمارپال کے مطابق راجھستان کا مگران مندر شان و شوکت میں سومنات سے کم تر تھا۔ سومنات کے قریب منگرال سے ملنے والے بارہویں صدی کے ایک کتبے کے مطابق سومنات مندر میں دیوی دیوتاؤں پر چڑھاوؤں کی صورت میں بہت مال آتا تھا۔
گیارہویں صدی کی ایک مہارانی نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ سومنات مندر آنے والے یاتریوں کے سفر کو ٹیکس فری کیا جائے اور وہ راستے میں دریا پل یا کسی مقامی راجہ کے علاقے سے گزرنے پر کوئی ٹیکس ادا نا کریں۔ بارہویں صدی تک سومنات مندر اس قدر امیر ہوچکا تھا کہ سونے چاندی کے انبار لگ چکے تھے۔ چولوکیا بادشاہ کمارپال کے کتبے سے پتہ چلتا ہے اس نے سومنات کے تحفظ کیلے ایک گورنر مقرر کیا تھا جس کا کام مندر کی دولت کو مقامی ابہیرا راجاؤں کی ڈکیتی و لوٹ مار سے بچانا تھا۔ کمار پال نے بھاؤ براہسپتی کو 1169 میں سومنات کا گند یعنی راہب اعلی مقرر کیا تھا۔ اس راہب اعلی کی اہم ذمہ داری مندر کو آباد رکھنا اور ویران ہونے سے بچانا تھا کیونکہ محمود غزنوی کے بعد مندر خستہ حال ہوچکا تھا جس کا تعلق حملے سے نہیں بلکہ خستہ حالی کی ایک وجہ کل یگ یعنی بیوپاریوں کی جانب سے مندر کی مالی سرپرستی چھوڑ دینا تھا۔ دوسرا مندر کی عمارت بہت زیادہ پرانے ڈھنگ کی تھیں جن کا کوئی پرسان حال نا تھا۔ تیسری وجہ مندر سمندر کے بہت قریب ہونے کی بنا پر سمندری لہریں اور نمی عمارت کو نقصان پہنچاتی تھی۔
اس کے کچھ سال بعد 1216 میں اس وقت کا چولوکیا بادشاہ سومناتھ مندر کو مالوہ کے ہندو راجاؤں کی لوٹ مار سے بچاتا رہا تھا۔ بھدر کالی کے کتبے کے مطابق بھوبر ہسپتی کا دعوی ہے کہ وہ ہے جس نے کمارپال کو تیار کیا تھا کہ وہ مندر کو دوبارہ تعمیر کرے۔ اس کا کہنا ہے کہ اصل مندر سونے کا بنا ہوا تھا جس کو بعد میں سونا ہٹا کر چاندی کے مندر میں بدل دیا گیا اور آخر میں چاندی ہٹا کر پتھروں کا مندر بنادیا گیا۔
اتنے زیادہ تاریخی سنسکرت پراکرت اور جینی کتبات میں محمود غزنوی کے حملے کا ذکر نا ہونا حیران کن ہے۔ ان میں اگر کچھ لکھا گیا ہے تو اتنا کہ مندر خستہ ہوگئے ہیں ان کی تعمیر ضروری ہے اور مندر کے بتوں کے توڑنے کا جوذکر آیا ہے وہ سب مقامی ہندو راجاؤں کے بارے ہیں جو دولت لوٹنے کیلے سومناتھ مندر پر حملے کرتے تھے۔ محمود غزنوی کے حملے اگر اتنے ہی سنگین جذبات کو زخمی کردینے والے اور ناقابل برداشت ہوتے جیسے کہ اب دعوے کیے جاتے ہیں۔ تو حملوں کے دوسو برس بیت جانے کے بعد ان کو اس طرح نہ بھلا دیا جاتا کہ کسی کتبے میں محمود غزنوی کی طرف سے مندر کی تباہی اور لوٹ مار کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر ذکر ہے تو صرف اتنا کہ محمود واپس جاتے ہوئے سومنات پٹن میں ایک مختصر فوج چھوڑ کر دب شالم کو اپنا گورنر قائم کرگیا تھا۔
محمود غزنوی کے ایک معاصر شاعر دھن پال جو مالوہ کے بھوج دربار کا شاعر تھا نے اپنی شاعری نے محمود کی گجرات پر مہم کا ذکر کیا ہے۔ محمود راجستھان کے ستیہ پور کے مقام پر جین مندر میں مہاویر مجسمے کو توڑنے میں ناکام رہا جبکہ سومنات کے بڑے بت کو توڑا ضرور مگر مندر کو تباہ اور مال کی لوٹ مار نہیں کی۔ اسی طرح پربھار سوری نے بھی لکھا ہے کہ محمود کے ہاتھی مہاویر مجسمے کو نہیں توڑ سکے تھے۔ حتی کہ کشمیر کا مشہور شاعر بلہانا جو محمود کے 50 سال بعد 1076 میں سومناتھ آیا۔ گجرات کے چولوکیا دربار میں رہا۔ ایک ناٹک کرن سندری بھی لکھا۔ گجرات کے لوگوں کے تفصیلی حالات لکھے اور محمود غزنوی کے ملتان میں اسماعیلی شیعوں پر حملہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے مگر محمود غزنوی کے سومناتھ حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
یہ ایک بڑی حیران کن بات نظر آتی ہے۔ محمود غزنوی کے سومنات حملے بارے جو وجوہات منسوب کی جاتی ہیں۔ گجرات میں غزنوی کے ہم عصر اور دوسو سال بعد تک مصنفوں و شعراء نے سومنات کی محمود کے ہاتھوں تباہی اور دولت کی لوٹ مار کا ذکر تک نہیں کیا۔ آج جتنی شدت سے محمود غزنوی کو لٹیرا ثابت کیا جاتا ہے اگر یہ اتنا بڑا اور اہم واقعہ ہوتاتو اس دور میں کتابیں بھر دی جاتی۔ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سومنات کا حملہ بھی باقی دوسرے حملوں جیسے جواز اور نتائج رکھتا تھا۔ اور صدیوں تک محمود کو لٹیرا کی بجائے اچھے الفاظ میں یاد رکھا گیا۔ حقیقتاً یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے اس سازشی تھیوری کا آغاز کیا۔ اور ہندوؤں میں نفرت کے بیج بوئے۔ پھر کچھ اپنے بھی اس رو میں بہک گئے۔ ہم نے اپنی نابینائی میں اس عظیم علم دوست فاتح محمود غزنوی کو صرف بت شکن اور لٹیرے کے درجے پر فائز کرکے اس کی قامت مختصر کردی ہے جو بقول ایڈورڈ گبنز مقدونیہ کے سکندراعظم سے بھی عظیم فاتح تھا۔
۔۔۔۔۔

ہندو اور اسلامو فوبیا – مودی کا دو قومی نظریہ

پاکستان کا قیام کسی جنگ کا نتیجہ تھا نہ کسی جنگی شکست کے بعد کوئی شرمناک معاہدہ صلح اس کی بنیاد بنا ، پھر بھی خود سے پانچ گنا بڑےپڑوسی کے جارحانہ عزائم نے اسے اس وقت کی “بائی پولر ورلڈ” میں ایک جانب جھکنے پر مجبور کیا۔ ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا تمام تر دارومدار زراعت اور زراعت کا انحصار اس پانی پر تھا جو پڑوسی ملک سے آتا تھا۔ پڑوسی بھی ایسا جس نے آغاز ہی سے کشمیر پر قبضے کے بعد دریائی پانی کے معاملے میں من مانی شروع کردی۔ اس موقعے پر غلطیاں تو ہمارے حکمرانوں نے بھی کیں لیکن اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو پاکستان کو امریکی کیمپ میں دھکیلنے کی زیادہ ذمہ داری بھارت ہی پر عاید ہوتی ہے۔ (معاف کیجیے، میں دانشوری بگھارنے کے لیے بھارت کو بری الذمہ اور صرف اپنے وطن کو مطعون کرنے کی صلاحیت اور جرات نہیں رکھتا)۔ ان ابتدائی برسوں سے ہماری امریکا کے ساتھ جو رفاقت رہی، اس نے ہمیں چند فوائد تو ضرور بہم پہنچائے لیکن طویل المدتی مفادات میں ہم خسارے ہی میں رہے۔ اس خسارے پر نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر سے بھی ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب اسی دور میں بھارت نے نہ صرف کامن ویلتھ کے ذریعے سرمایہ دار بلاک کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار رکھا بلکہ سوویت یونین کے ساتھ بڑے جنگی معاہدوں کے ذریعے خود کو خطے کی بڑی طاقت بنایا اور اسی طاقت کے زور پر ہمارا مشرقی بازو جو ہماری اپنی نا اہلی کے باعث ذہنی اور فکری طور پر ہم سے دور ہوچکا تھا، اس کی علاحدگی کے عمل کو مکمل کیا۔ اگر ہم اپنی گزشتہ انہتر برس کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو امریکی بلاک میں ہمارا ایکٹیو رول ہی ہماری سب سے بڑی غلطی نظر آتا ہے جس پر اہل دانش نے ہمیشہ ہی بجا طور پر تنقید کی۔ گزشتہ صدی میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے آنے والی صدی کو امریکی صدی بھی قرار دے ڈالا تھا تاہم چند ہی برس میں سوویت یونین نے جوہری میدان میں امریکی برتری کو ختم کرتے ہوئے بیسویں صدی کو سرد جنگ کی صدی میں تبدیل کردیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرد جنگ ختم ہوئی تودنیا ایک بار پھر بائی پولر سے “یونی پولر” ہوگئی۔ اسی دور میں امریکا نے سرمایہ دار دنیا کی قیادت کرتے ہوئےسوویت یونین کی جگہ ایک نیا دشمن تخلیق کیا اور نوم چومسکی کے پراپیگنڈا ماڈل کے عین مطابق مرئبی میڈیا نے عوام کو سرخ خطرے کی جگہ سبز خطرے سے خوفزدہ کرنا شروع کیا۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں سرگرم عمل زیادہ ترمسلم دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھنے سے سرپرستی کرنے کا عمل امریکی خفیہ ایجنسیوں ہی نے انجام دیا ہے اور دے رہی ہیں۔ بہرطور قوانین فطرت کے مطابق دنیا زیادہ عرصے تک یک قطبی نہیں رہ سکتی تھی، اس لیے ایک جانب روس نے انگڑائی لینا شروع کی دوسری جانب عوامی جمہوریہ چین کی ابھرتی ہوئی معیشت نے امریکی عزائم کے لیے ایک ایسے خطرے کی گھنٹی بجا دی جو ظاہر اور فوری نوعیت کا تو نہیں لیکن بہرحال موجود ہے۔
جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے سوویت روس کی “ناکہ بندی” کرنے کے لیے یورپ میں نیٹو اور ایشیا میں سیٹو اور سینٹو کے دفاعی معاہدے کیے تھے، انہی کی طرز پر چین کا راستہ روکنے کے لیے نئے معاہدے اس بار بھی تشکیل دئیے جارہے ہیں۔ تاہم دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق اس بار یہ معاہدے تجارتی بھی ہیں اور عسکری بھی۔ چین اگر اپنی تجارت بڑھانے اور پھیلانے کے لیے سٹرنگ آف پرلز اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبوں پر عمل کر رہا ہے تو امریکا بھی اس کاراستہ روکنے کے لیے ٹرانس پیسیفک ٹریٹی جیسے تجارتی معاہدوں کے ساتھ ساتھ ایشیا میں نئے عسکری معاہدوں میں مصروف ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بہرحال دلچسپ ہے کہ جس غلطی پر پاکستان ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا اور اس غلطی کا خمیازہ بھی بھگتا، وہی غلطی اس بار بھارت کر رہا ہے جس نے امریکا کے ساتھ فوجی تعاون اور اپنے جنگی اڈے فراہم کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ معاہدہ جو گزشتہ روز امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے بھارت کے دورے کے دوران کیا، واضح طور پر پاکستان اور چین کے خلاف ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی بھی تاویل نہیں پیش کی جاسکتی۔ نہ تو چین ہمالیہ پار کرکے بھارت پر حملہ آور ہو سکتا ہے اورنہ بھارت سے پانچ گنا چھوٹا پاکستان بھارت کے لیے کوئی عسکری خطرہ بن سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا اس خطے میں ایک نئی بساط بچھا کر چین اور اس کے حلیف پاکستان کے خلاف ایک نئی مہم جوئی کا ارادہ رکھتا ہے اور بھارت کے لیے اپنے ازلی حریف پاکستان کو “اوقات میں رکھنے” کا یہ ایک نادر موقع ہے۔ اس معاہدے اور اس کے نتیجے میں خطہ جس عدم توازن کا شکار ہوگا، اس کا اندازہ کرنا قطعی مشکل نہیں۔ امریکی خارجہ پالیسی کی اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ بھارت میں زیرک اور دور اندیش قیادت کا فقدان ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں امریکی عزائم کے لیے ہمیشہ مذہب پسند حکومتیں اور گروہ ہی کارآمد رہے ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہی وصف اس امریکی قربت کی بنیاد ثابت ہو رہا ہے۔ خطے میں بالادستی، سپر پاور اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے دلکش تصور نے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مودی کی وہی حالت کی ہے جو ایک “نودولتئیے” کی ہوتی ہے۔ اسی کیفیت کے زیر اثر ایک جانب انہوں نے لال قلعے سے پاکستان کو للکارا ہے تو دوسری جانب اپنے عوام جن کی نصف سے زائد تعداد بیت الخلاء جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہے، کو ہدایت کی ہے کہ ہر شہری ہر روز ایک روپیہ بینک میں جمع کرائے تاکہ اس سے حاصل ہونے والے بہتر کروڑ ڈالر سالانہ کی رقم سے بھارتی فوج کے لیے ہتھیار خریدے جاسکیں۔ جی ہاں اسی بھارتی فوج کے لیے جس کا جنگی بجٹ باون ارب ڈالر سے زائد ہے اور وہ دنیا بھر میں ہتھیار اور جنگی سامان درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام سے جمع کی جانے والی رقم بھارتی جنگی اخراجات کے ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس تجویز کے پس پشت مقصد صرف بھارتی عوام میں جنگی جنون پیدا کرنا ہے جبکہ حقیقی طور پر بھارت کی سلامتی کو کسی جانب سے کوئی خطرہ نہیں۔
مودی کے عزائم ایک بار پھر ان خدشات کی مکمل طور پر تصدیق کرتے ہیں جن سے ہمارے بڑے دوچار تھے اور انہوں نے متحدہ ہندوستان سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت میں دو قومی نظریئے کی بنیادیں کسی کو کیسی ہی بلاجواز کیوں نہ نظر آئیں لیکن ہر بار بھارتی جارحیت اور مکمل اختیار اور طاقت کی اندھی خواہش اس نظرئیے کو نئی زندگی دیتی چلی آئی ہے۔ کبھی اندرا گاندھی اس نظرئیے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں تو کبھی ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی وزیر دفاع آزاد کشمیر کو بزور طاقت حاصل کرنے کے دعوے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دو قومی نظریہ حقیقی طور پر وجود رکھتا ہے۔ ۔۔ اور جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے تو اس نے نہ صرف بھارت کے اندر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر کے بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو موجودہ نہج پر پہنچا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم تسلیم کریں نہ کریں، انتہا پسند ہندو پوری طرح دو قومی نظرئیے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری تو بنیاد ہی اس نظرئیے پر کھڑی ہے تاہم بھارتی عوام کو بھی مودی کا دو قومی نظریہ مبارک ہو۔
مودی سرکار بھارت بھر میں بسنے والی اقلیتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں ‘ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں اور ایل او سی پر جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے‘ وہ اب کسی سے ڈھکی چھپا نہیں ۔ جوں جوں وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے‘ ویسے ویسے انتہاء پسند ”بنیئے‘‘ کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے ۔نام نہاد جمہوریت کے علمبردار ملک بھارت میں اقلیتوں پر کورونا وائرس کی آڑ میں ظلم و ستم کی جو ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے‘ وہ ناقابلِ بیان ہے ‘ معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے مسلم تاجروں سے خرید وفروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ہسپتالوں میں مسلم مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔چوکوں چوراہوں میں انسانیت کا قتل ِعام کیا جا رہا ہے۔ ہندوتوا یا اکھنڈ ہندو مملکت کی علمبردار مودی سرکار کی شہہ پر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو کورونا وائرس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اکثریتی علاقوں میں تشدد کا نشانہ بنا کر بیدخل کیا جارہا ہے۔
مودی سرکار کی سفاکانہ ذہنیت کا اس سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج پوری دنیا‘ عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو کورونا وائرس سے انسانیت کو محفوظ کرنے کی فکرلاحق ہے‘ اس کا پھیلائو روکنے کے جتن کئے جارہے ہیں‘ ریاستوں نے اپنے اپنے اختلافات اور لڑائیاں ختم کر دی ہیں اور بین الریاستی ہم آہنگی کا تمام عالمی اور علاقائی قیادتوں کی جانب سے درس دیا جارہا ہے‘ جس میں مذہبی‘ نسلی اور علاقائی ترجیحات کو فراموش کرکے انسانیت کو بچانا مقدم سمجھا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی دنیا پر ٹوٹی ہوئی کورونا وائرس کی افتاد کے تناظر میں تمام عالمی قیادتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کسی بھی تنازع کو وقتی طور پر ختم کرکے جنگ بندی کریں اور کورونا وائرس سے انسانوں کو بچانے کا جتن کریں‘ مگر مودی سرکار نے ان حالات میں بھی مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے اور بھارتی مسلمان اقلیتوں کو راندۂ درگاہ بنانے کے اپنے جنونی عزائم میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دی اور قدرتی آفت کورونا وائرس کو بھی دین ِ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نتھی کرکے بھارتی مسلمانوں پر مظالم کی انتہاء کی جارہی ہے۔ کورونا وائرس سے بچائو کی آڑ میں مودی سرکار نے مساجد اور مسلمانوں کی دوسری عبادت گاہوں کی پہلے ہی مکمل تالہ بندی کی ہوئی ہے اور عبادت گزار مسلمانوں کو چن چن کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے‘ جبکہ اب بھارت کے مختلف علاقوں میں اذان دینے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق‘ دہلی کے پریم نگر میں پولیس نے مساجد سے جبراً لائوڈ سپیکر اٹھالئے ہیں‘ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی لاک ڈائون کی آڑ میں مساجد پر مزید سخت پابندیاں لگا دی گئی ہیں اور ماہِ رمضان میں کشمیری مسلمانوں کیلئے عبادت کرنا عملاً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
انتہاء پسند ڈنڈا بردار ہندو کورونا پھیلانے کا الزام لگا کر مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر چادرو چاردیواری کا تقدس پامال کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو سبزی‘ پھل اور کھانے پینے کی دوسری اشیا خریدنے کی اجازت تک نہیں دی جارہی۔ انڈین میڈیا پرمسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔بھارتی اخبارات میں تو ایسے ایسے کارٹون شائع کئے جارہے ہیں کہ جن میں مسلمانوں کو دہشت گرد کے روپ میں دکھایا گیاہے۔ اس متعصبانہ مہم سے مسلمانوں کو ”اچھوت‘‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ دراصل ہندو فرقہ پرست مودی سرکار نے مسلمانوں کیخلاف عرصہ دراز سے جوجسمانی‘ زبانی اور نفسیاتی جنگ چھیڑ رکھی تھی ‘اسے اب مزید ہوا دے کر ہندوتواکے گھنائونے منصوبے کو تقویت دی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کے 140گروپس سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز پیغامات پھیلا رہے ہیں ‘ایسا غلط تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان دہشت گرد یا جو ہندوؤں کی نسل کشی میں مصروف ہیں‘ جبکہ حقیقت میں ہند و‘ اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر یہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ کہیں وہ اقلیت میں نہ آجائیں۔اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ لاکھوں افراد کو بھوک اور مصائب میں پھنسانے والی مودی سرکار کا کوروناوبا کے حوالے سے اپنی ناکام پالیسیوں کیخلاف عوامی ردعمل سے توجہ ہٹانے کیلئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارتی مسلمانوں کو نشانۂ ستم بنانا ‘ویسا ہی سلوک ہے‘ جیسا جرمنی میں نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
کورونا جیسی ناگہانی آفت کی آڑ میں بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو جس نفرت‘ تعصب اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاہا ہے‘ اس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی خاموشی اور بے بسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ۔ ذہن نشین رہے کہ مودی سرکار انڈیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور مقبوضہ کشمیر میں جاری نسل کشی سے توجہ ہٹانے کیلئے آئے روز پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا رہی ہے ۔
دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ کرنے کے لیے” اسلامو فوبیا ‘‘کا لفظ کثرت سے استعمال کیا جارہا ہے۔ مودی حکومت مذہبی سیاست کا کارڈ کھیل کرمسلمانوں کے مذہبی تشخص اور تہذیب کے خلاف مستقل پراپیگنڈہ شروع کئے ہوئے ہے اوراسلام سے خوف دلانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ اسلام دشمن عناصر لفظ”اسلامو فوبیا ‘‘کا استعمال تقریبا ً40یا50برس سے کر رہے ہیں‘ لیکن اس میں تیزی نائن الیون کے بعد ہی دیکھنے کو ملی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بی جے پی مسلم شناخت اور تشخص کے خاتمے کے لیے سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کے لیے آر ایس ایس 95برس سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے ۔اس کا اصل مقصد ”ہندو راشٹریہ‘‘ کا نفاذ ہے ‘کیونکہ اس بھیانک منصوبے میں ہندوستان میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمان ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
بی جے پی کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے پاس ہے‘ ایم ایس گووالکر کی کتاب ”ہم یا ہماری قومیت کی وضاحت‘‘ سے مودی کی تنظیم کے اراکین کی فکر واضح ہوجاتی ہے جو 1940ء میں گیوار کے بعد آر ایس ایس کا سربراہ بنا تھا۔اس نے لکھا کہ ”جس دن مسلمانوں نے ہندوستان کی سر زمین پر قدم رکھا‘ اس دن سے آج تک ہندو قوم ان کے خلاف جنگ کررہی ہے ‘جس کے باعث اب ان میں قومیت کا احساس اجاگر ہونے لگا ہے‘ ہندوستان میں ہندوئوں کو ہی رہنا چاہیے‘ باقی سب قومیتوں سے تعلق رکھنے والے غدار اور قومی مفاد کے دشمن ہیں‘ سادہ الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو وہ احمق ہیں۔ ہندوستان میں بسنے والی تمام قوموں کو ہندوئوں کے زیر نگیں رہنا چاہیے‘ وہ کوئی حق مانگیں اور نہ ہی کوئی مراعات‘ ترجیحی برتائو اور شہری حقوق کا مطالبہ بھی نہ کریں ‘اپنی قوم اور ثقافت کو دوسری قوموں کے اثرات سے بچانے کے لیے جرمنی نے یہودیوں سے اپنی دھرتی کو پاک کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا‘ اہل جرمنی میں قومیت کا فخر پیدا کیا گیا‘ اس میں ہمارے لیے بہت سے اسباق پنہاں ہیں‘‘۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ فرقہ ورانہ فسادات برپا کرنے میں سرِفہرست ہے‘ 1927ء کے ناگپور فسادات میں اسی تنظیم کا اہم کردار تھا جبکہ 1948 ء میں مہاتما گاندھی کا قتل بھی آر ایس ایس کے غنڈے نتھورام نے کیا تھا۔ 1969 ء احمد آباد اور 1989 ء جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات بھی آر ایس ایس کی کارستانی تھے۔آر ایس ایس کی دہشت گردی کے دیگر بڑے واقعات میں مالیگاؤں بم دھماکہ‘ حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ‘ اجمیر بم دھماکہ اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ شامل ہیں۔2002ء میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی سر پرستی میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی‘ جب مودی نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو مسلمانوں سے بابری مسجد چھین لی ‘ متنازع شہریت کے قانون کی آڑ میں آسام کے مسلمانوں کی دربدری کا گھنائونا منصوبہ بنایا گیاجبکہ دہلی مسلم کش فسادات 2020ء نے بھارتی سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی ہٹلر کے فاشسٹ نظریات پر عملدرآمد میں مصروف ہے اور نشانے پر مسلمان ہیں۔ عرب اور خلیجی ممالک میں لاکھوں انڈین شہری غیر ملکی زرمبادلہ کا انتہائی اہم ذریعہ ہیں کیونکہ یہ ان ممالک سے ہر سال تقریباً 50 ارب ڈالر سے زائد انڈیا بھیجتے ہیں۔مودی کی ذاتی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب آنے والے برسوں میں انڈیا میں تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرنے والے ہیں‘لیکن انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست سے ان کوششوں کو دھچکا سا لگاہے۔ انڈیا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے بارے میں خلیجی ممالک بھی تشویش کا شکار ہیں لیکن ‘انہیں ان لاکھوں مسلمانوں کے بارے میں کوئی فکر لاحق نہیں جنہیں مسلسل بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف انڈیا میں نفرت کی موجودہ لہر میں کوئی کمی آئے گی یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت اور مشکل ہے لیکن یہ پہلی باردیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب حکمران بی جے پی اور ہندوتوا کے علمبردار یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انڈیا کی اندرونی سیاست کے بین الاقوامی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔بھارت کی شروع دن سے یہی کوشش رہی کہ خطے میں اپنی بالا دستی کے لیے پاکستان کو ٹیرر فنانسنگ کے الزامات لگا کر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈلوا دے اور یہ جارحانہ عزائم پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژکرنے کے لیے اٹھائے جا رہے تھے‘ کیونکہ بنیئے کو ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی ۔
مقبوضہ وادی میں کرفیو کی آڑ میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی ہو یا بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام‘ ایل او سی پر جارحیت ہو یا پھر بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کے واقعات ان سب گھنائونے منصوبوں کا مقصد پاکستان کو کشمیریوں کی استصواب رائے کے بنیادی حق کی حمایت سے دستبردار کرانا اور سی پیک منصوبے کو روکنا ہے۔پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہر اہم عالمی فورم پر بھارتی جارحیت وبربریت اور مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگرکرتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی لیکن انڈیانے ”ہندوتوا‘‘کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے امن کوششوں کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔ پاکستان اسلام کا قلعہ اور ایٹمی صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے‘ ایسے میں اگر بھارت نے میلی آنکھ سے دیکھنے کی غلطی کی توغیور عوام اور پاک ا فواج دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا جذبہ اور صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاکستان جنگ میں پہل نہیں کرے گا‘ لیکن پھر بھی مودی نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ترک نہ کیا تو اس کاانجام ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتا ہے ‘یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ خطے میں قیام امن کی کوششوں کو رائیگاں ہونے سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ کو چاہیے کہ کورونا کو جواز بناتے ہوئے بی جے پی کی حکومت بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جس طرح مسلم نسل کشی کے لیے سر گرم ہے‘ اس کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔
2013 میں مظفرنگرمیں دوہندوئوں کی ہلاکت پر مسلمانوںکے خون کی ہولی کھیلی گئی‘خواتین کی عصمتیں تارتار ‘بچے کی بلی چڑھادیئے گئے مظلوم مسلم خواتین کیخلاف سنگین جرائم میں ملوث ملزم سنجیوبالا بی جے پی کا لیڈر وزیر بنادیا گیا‘ سنگین جرائم میں ملوث دیگرمجرم بھی آزاد ہیں بی جے پی سرکارنے متاثرہ خاندا نوں کو پانچ لاکھ دینے کااعلان کیا‘رقم ملی نہ انصاف‘ایک لاکھ مسلمان دربدر‘ٹھوکریں کھانے پرمجبورہیں رابعہ عظمت ’’ہمارے لیے اپنے خاندان کو چلانا بہت مشکل کام ہے۔ میرے بچے زیادہ تر بھوکے ہی رہتے ہیں اور مجھے کام حاصل کرنے اور کچھ کمانے کے لیے گھر سے باہر ہی رہنا پڑتا ہے۔ حکومت نے ہم سے پانچ لاکھ فی گھرانہ امداد دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی امداد کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دی گئی ہے‘‘۔یہ جملے بھارتی ریاست اتر پردیش کے مسلم اکثریتی علاقے مظفر نگر فساد کی متاثرہ عمرانہ کے ہیں۔ 2013ء میں ہوئے مسلم کش فسادات نے ان کی اور ان کے بچوں کی زندگیوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں، ان پر حملہ کیا گیا اور اپنا گھر، گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جن کے وہ کبھی مالک تھے۔ 2013ء میں اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے معاوضے کے نام پر انہیں 5 لاکھ بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک انہیں وہ رقم نہیں مل پائی ہے۔ 7 ستمبر 2013ء کو مظفر نگر شہر کے باہر ایک گاؤں کے ایک بڑے اجتماع میں وہاں کی بااثر جاٹ کمیونٹی کے ہندو سیاسی رہنماؤں نے لوگوں کے ایک مجمع سے خطاب کیا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک تنازع میں ہونے والے دو ہندوؤں کے قتل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما اور اس کے ذریعے اشتعال انگیر تقریریں کی گئیں، بس اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا گیا۔ اس اجتماع کے بعد مسلم رہائشی علاقوں میں آگ بھڑک اٹھی اور آناََ فاناََ مسلمانوں کے گھر نذرآتش، املاک کی لوٹ مار اور خواتین کی عصمت دری کا وحشیانہ کھیل کھیلا گیا۔ آج چار سال گزرنے کے بعد بھی یہاں خوف کا ماحول قائم ہے۔ مسلم کش فساد میں ملوث ہندو جاٹ بی جے پی رہنما سنجیو بالیان کو انعام کے طور پر رکن اسمبلی بنادیا گیا اور مسلمان خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث دیگر مجرم بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بھگوا حکومت کا سیاسی حصہ بن چکے ہیں۔مظفر نگر فساد میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھورنا پڑا اور آج بھی وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ فساد سے متاثر مسلمان خاندان پناہ گزینوں کی طرح اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان میں شامل بچے اپنے خاندان گھر اور بچپن سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی بستی میں رہائش پذیر اب واپس اپنے علاقوں میں نہیں جانا چاہتے۔ 46 سالہ مناظرہ کا کہنا ہے کہ چار سال پہلے وہاں ایک علاقے کو ٹبا میں رہتی تھی لیکن اب فساد متاثرین کی ایک بستی میں ہے۔ موجودہ ایم پی اور وزیر سنجوبالیان کا تعلق اسی گاؤں کوٹبا سے ہے۔ آج سے چار سال پہلے ہندو بلوائیوں نے پہلا حملہ اسی گاؤں پر کیا تھا اور 8 مسلمانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔اس گاؤں کی آبادی 8 ہزار سے زائد ہے اس گاؤں میں رہنے والے مسلمانوں پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے حملہ کیا گیا تھا۔ فساد متاثرین مومن کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے والے تمام مسلمان جاٹوں کو ووٹ دیتے تھے۔ اور کہا کہ گاؤں لا پردھان ہمارے گھر آیا اور کہا تھا کہ کوئی مسلمان بالکل نہ ڈرے آپ لوگوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ مومن نے مزید بتایا کہ جگہ جگہ سے فساد کی خبریں آرہی تھیں۔ صبح کو پردھان نہیں آیا تو ہم ان کے گھر گئے۔ ہم وہاں ہی تھے کہ ’’باہر شور مچا اور بھیڑ ہمارے محلے کی طرف بڑھ گئی۔ ‘‘65 سالہ قدیم الدین نے اس فساد میں اپنی بیوی کو کھویا وہ بتا رہے تھے جیسے ہی ہجوم آیا اس نے اندھا دھند فائرنگ کی جس میں میری بیوی کی گردن میں گولی لگی۔ وہ وہیں مرگئی، ہم سب ایک چھت پر چڑھ گئے ، پولیس کو گاؤں میں آنے کی جرات نہیں ہوئی، فوج آئی تب ہمیں اپنے ساتھ لے گئی۔ مہدی حسن کہتے ہیں پہلے ہمیں تھانے میں لے جایا گیا،پھر ہمیں گاؤں کے پردھان مدرسے میں لے گئے جہاں ہم کئی دنوں تک ڈرے سہمے رہے۔ محمد یعقوب کہتے ہیں وہ بہت برادن تھا، گاؤ ں میں دو مسجدیں ہیں وہ بھی بند کردی گئی ہیں۔ گاؤں میں لڑکے پستول لے کر گھوم رہے تھے اور کسی نے انہیں نہیں روکا،ہمیں پہلے ہی آجانا چاہیے تھا۔ واضح رہے کہ اس گاؤں میں مسلمانوں کے قتل میں ملوث ملزموں کی ضمانتیں ہوچکی ہیں اور وہ آزاد ہیں۔ تاہم بے گھر خاندانوں کے لیے حکومتی معاوضہ اور انصاف ایک مذاق بن چکا ہے اور وہ آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں خستہ حالی اور غلاظت کے ڈھیر پر رہ رہے ہیں کیونکہ انہیں ریاستی حکومت کی جانب سے معاوضہ نہیں دیا گیا کہ وہ ایک خاندان کی تصدیق پر پورا نہیں اترتے ہیں۔ 65 سالہ یامین حمید کو اس لیے معاوضہ دینے سے انکار کردیا گیا کہ اس کے والد کو پہلے ہی امداددی جا چکی ہے ۔حالانکہ یامین کے والد کا 1985ء میں انتقال ہوچکا ہے۔ خاندان نے معاوضہ کے حصول کے لیے موت کے سرٹیفیکیٹ کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے۔ محمد شفیع کو بھی حکومتی معاوضہ نہیں ملا کہ اس کے والد پہلے ہی وصول کرچکے ہیں، اس کے والد کی وفات 30 سال قبل ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کا رکن اکرم اختر چودھری کا کہنا ہے کہ ریاست کے بہت سے ایسے خاندانوں کو نظر انداز کرنا ہے کہ جو معاوض کے اہل ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ بتائیں چار بھائی جنہوں نے اپنی زمین اپنا گھر سمیت ہر وہ چیز جس کے مالک تھے چھوڑ دیا ہے اور جو شادی شدہ ہیں اور ان کے پاس بچے ہیں؟ یہاں تک کہ بہت سے خاندانوں کو ریاست کی طرف سے اس بات کا جواب بھی نہیں ملا ہے انہیں معاوضہ دینے سے کیوں منع کردیا گیا ہے۔ فساد متاثرین کے مطابق حکومت کی جانب سے کئے گئے سروے تعصب پر مبنی تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی گواہیوں پر اعتما د کیا جن کے بارے میں امکان ہے کہ وہ خود ان فسادار میں ملوث رہے ہیں۔ پناہ گزین بستیوں میں قیام پذیر مسلمانوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بستیاں بنیادی سہولیات سے ہنوز محروم ہیں صاف پانی پینے کی دقت ہے۔ بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں ، بجلی تو بالکل نہیںآ تی ، پانی کے پمپ سے آنے والا پانی پیلا ہوتا ہے۔ بستی میں رہائش پذید وسیلہ کا کہنا ہے کہ ’’براہ مہربانی ہمیں بتائیں کہ ہم اس پانی کو کھانا پکانے اور پینے کے لیے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘ فساد متاثرہ خاندانوں کی مناسب رہائش ، پانی اور صفائی کے آئینی حقوق صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ اتر پردیش کی ریاستی حکومت اور موجودہ بی جے پی حکومت بھی ان بے گھر مسلمانوں کی دوبارہ بحالی میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ان چار برسوں میں مسلم متاثرین کو بھی ووٹر آئی کارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا تھا اسی وجہ سے 2014ء کے عام انتخابات میں یہ سب حق رائے دہی سے محروم رہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق مظفر نگر فساد میں جن خواتین کو بے آبرو کیا گیا تھا ملوث ملزموں میں ایک کو بھی سزا نہیں مل سکی۔ کئی خواتین نے دھمکیوں کی وجہ سے اپنے مقدمات بھی واپس لے لیے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں کچھ نے اعتراف کیا کہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا کیونکہ ان کی اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئی تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایک متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ ’’ ہم ابھی بھی گھر سے باہر نکلتے وقت خوف محسوس کرتے ہیں۔ قابل ذکر تو یہ ہے کہ ریاستی پولیس نے عصمت دری کے معاملات درج ہی نہیں کئے۔ ایف آئی آر درج کروانے طبی معائنہ کروانے اور ضلعی مجسٹریٹ کے سامنے بیان درج کروانے میں بھی تاخیر سے کام لیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاتون آرزو کی جانب سے چارج شیٹ ہی فائل نہ ہوسکی۔ دوسری متاثرہ خاتون بانو کا بھی یہی معاملہ ہے ان کا مقدمہ 2014ء میں بند کردیا گیا تھا۔ پھر سپریم کورٹ سے انہیں اجازت ملی کہ وہ ملزم کے خلاف اپنا بیان ریکارڈ کروائے۔ اس کیس میں عدالے نے بھی کوئی چارج فریم نہیں کیا اور عدالت میں ابھی ٹرائل شروع ہونے ہیں۔ تیسری متاثرہ خاتون چمن ہے جنہوں نے جان کے خطرے کے پیش نظر اپنا بیان بدل لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ ملزم نہیں ہیں جنہوں نے ان پر تشدد کیا۔ چوتھی متاثرہ خاتون دلنا ز ہے انہوں نے بھی بیان دیا تھا اور ان کے خلاف جرم میں ملوث ملزم رہا ہوچکے ہیں۔ پانچویں متاثرہ ایشا ہے جن کا اگست 2016ء میں بچے کی پیدائش کے دوران انتقال ہوچکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ فسادات میں خواتین سے زیادتی اجتماعی تذلیل اور اہانت کا ایک ہتھیار بن گیاب ہے اور مجرموں کو سزا نہ ملنے کے باعث پوری برادری خوف کے سائے میں زندگی گزاررہی ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق خواتین زیادتی کیسوں میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی اور بیشتر مقدمات کی ابھی تک سماعت ہی نہیں مکمل ہوسکی ہے۔ زیادتی کے ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے اور بعض مقدمات میں تو چار برس گزرنے کے بعد بھی فرد جرم عائد تک نہیں کی گئی۔ متاثرین کے وکیل کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے چار برس بعد بھی ہم پر بھی حملے ہوچکے ہیں۔ ایک بار تو عدالت میں ہی ہوا تھا کیونکہ میں مقدمے کی پیروی کررہا ہوں۔ میں نہیں رہوں گا تو مقدمے کی پیروی کون کرے گا؟۔ بہت سی خواتین نے سماج کے خلاف اور ڈرسے اپنا مقدمہ ہی درج نہیں کروایا۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ آل انڈیا ڈیمو کریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس تک پہنچیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اجتماع عصمت دری میں ملوث درندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تو اس دیگر خواتین کے بھی حوصلے ٹوٹ گئے اور انہوں نے ایسے واقعات کی پولیس تھانوں میں رپورٹ کروانا ہی چھوڑ دی۔ جب 2012میں چلتی بس میں تشدد کا شکار ہونے والی نربھیا کے مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو پھر مسلمان عورتوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے والے ان وحشی درندوں کو سزا کیوں نہیں مل سکتی؟ اس لیے کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں اور نربھیا ایک ہندو تھی۔ تاحال ان پناہ گزینوں کی بستیوں میں رہ رہے مفلسی وبدحالی کی تصویر بنے مہاجر مسلمان اپنی بے بسی ولاچاری پر آنسو بہارہے ہیں۔ آج چار سال گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے گھروں کو لوٹ نہ سکے۔ نہ ہی معاوضہ ملا اور نہ ہی انہیں انصاف ، ان میں فسادات سے متاثرہ ہر شخص اپنے سینے میں ظلم کی ایک الگ داستان چھپائے بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی اپنے بیٹے کو کھو چکا ہے کسی کی بیوی چھن گئی کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل پر غمزدہ ہے اور اس کے ملزموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا چاہتی ہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے اثاثے لوٹ لیے گئے۔ درجنوں شیر خوار بچوں کو اپنے والدین سے چھین کر جان سے ماردیا گیا۔ کئی خواتین کی عصمتیں تارتار کردی گئیں وہ ہنوز انصاف کے منتظر ہیں۔
۔۔۔۔۔

اسلامو فوبیا یا سفید فام دہشت گردی

دہشت گردی، نسل پرستی، تعصب ،سیاہ فام غلامی مغرب کی تاریخ کابدترین تسلسل ہے۔اگر تاریخ کو مد نظر رکھیں تو ہونا تو کرسچینو فوبیا، جیوز فوبیا اور ہندو فوبیا چاہیئے تھا۔ مگر اسلامو فوبیا پھیلا کر سفید فام دہشت گردی و فروغ دیا گیا۔جو نہ صرف مسلماوں کو مثلنےکےلئے بے چین ہے۔ بلکہ کسی بھی اقلیت حتیٰ کہ ان کی معشیت میںمیں رہڑھ کی ہڈی کا سا کردار ادارے والے سیاہ فام افراد کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔
میدان عرفات میں جبل الرحمت پر کھڑے ہو کر 6مارچ 632بمطابق 9ذلحج10ہجری کو محسن انسانیت ﷺ نے رنگ و نسل، اور زبان و قومیت کو توڑتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’’کسی گورے کو کالے پر،کالے کو گورے پر، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضلیت حاصل نہیں، اللہ کے نزدیک برتر وہ ہے جو متقی و پرہیزگار ہے، تم سب ایک آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے‘‘۔ آج اس عظیم،برتر اور حسین آواز کو دنیا میں بلند ہوئے چودہ سوسال ہو چکے ہیں۔ وہ امت مسلمہ جو سید الانبیائﷺ نے اپنی میراث میں چھوڑی تھی اس میں سے غلامی کی لعنت کو بھی ختم ہوئے آج ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ وہ امتِ عظیم ہے جس نے اس خطبئہ حجتہ الوداع کے اعلان کو اسقدر سچ کر دکھایا، کہ نہ صرف اپنی عبادات اور نمازوحج کے اجتماعات میں سے گورے و کالے اور عربی و عجمی کا فرق مٹایا،بلکہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا سنگ میل رقم کیا جو اس دور میں توناقابلِ یقین تھا۔ آج سے ساڑھے آٹھ سو سال قبل 1206عیسوی میں ہندوستان میں ایک ایسی بادشاہت کی بنیاد رکھی گئی، جس کا سربراہ ایک غلام تھا۔ قطب الدین ایبک۔۔ جسے ایک سوداگر نے ترکستان سے خرید کر نیشاپور کے قاضی فخرالدین عبدالعزیزکے ہاتھ فروخت کیا اوراس نے اس غلام کو شہاب الدین غوری کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ انتہائی معمولی شکل و صورت کے اس غلام کی ایک چھنگلیا ٹوٹی ہوئی تھی، اسی لیے اسے ایبک مثل(خستہ انگشت) کہتے تھے۔ یہ غلام جو 1150ء میں پیدا ہوا، جوانی میں فروخت ہوا اور صرف بیالیس سال کی عمر یعنی 1192ء میں، شہاب الدین غوری نے اسے دلی اور اجمیر کا گورنر مقرر کر دیا۔
اگلے سال سلطان نے اس غلام کیلئے ’’فرمان فرزندی جاری کیا‘‘یعنی اسے اپنا بیٹا بنالیا۔ جب 15مارچ 1206 ء کو شہاب الدین غوری جہلم کے قریب گگھڑوں کے ہاتھوں مارا گیا تو ترکستان کے بازاروں میں بکنے والا یہ غلام، ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا بانی ٹھہرا۔ اس کی سلطنت میں موجود تمام مسلمانوں نے جن میں ہاشمی النسل سید بھی تھے اور ترکی النسل شاہسوار بھی، سب نے اسے بادشاہ تسلیم کیا۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ قطب الدین ایبک کے مرنے کے بعد1210ء میں اس کا بیٹا آرام شاہ تخت پر بیٹھا۔ وہ اس قدر نااہل تھا کہ ترک سرداروں نے اسے بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایک اور ترک غلام شمس الدین الشمس جسے قطب الدین ایبک نے خریدا تھا، اسے ہندوستان کے تخت پر بٹھا دیا۔ غلاموں کی حکومت کا سلسلہ جو انسانی تاریخ کا روشن ترین باب ہے، چوراسی سال یعنی تقریباایک صدی تک چلتا رہا۔ اس سلسلے نے ایسے متقی، پرہیزگاراور منصف مزاج حکمران پیدا کئے ہیں جن کی نظیر ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیاکی تاریخ میں بھی ملنا مشکل ہے۔ محسن انسانیت ﷺ کے خطبئہ حجتہ الوداع کے اعلان کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کے چودہ سو عیسوی سال گذرنے بعد اور امت مسلمہ کی قائم کردہ مثالی خاندانِ غلاماں کی حکومت کے ساڑھے آٹھ سو عیسوی سال کے بعد آج کے جدید ترین جمہوری نظام کے چیمپئن، انسانی حقوق کے علمبرداراور مغربی تہذیب کے پرچم بردار امریکہ میںاس وقت سیاہ فام افراد کے خلاف جمہوری اکثریت کی نفرت کاایک طوفان برپا ہے۔سڑکوں، گلیوںاور بازاروں میں کالے اور گورے کے درمیان صدیوں پرانی دبی ہوئی عصبیت آتش فشاں کی طرح ایسی پھوٹی ہے کہ اس نے انسانی حقوق ، برابری اور جمہوری اخلاقیات کے چہرے سے نقاب اتارکر پھینک دیا ہے اور اندر سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمئین امریکہ کا مکروہ چہرہ عیاں ہو چکا ہے۔
امریکی جمہوری چیمئین شپ وہ ہے جو میرے ملک کے سیکولرلبرل اور مغربی جمہوریت کے علمبرداروں کو بہت عزیز ہے۔ وہ ہر سال امریکہ کے سٹیٹ ڈییارٹمنٹ کی دو رپورٹوں کا شدت سے انتظار کیاکرتے تھے۔ ایک ’’انسانی حقوق کی صورت حال‘‘ سے متعلق اور دوسری’’مذہبی رواداری‘‘ سے متعلق۔ جیسے ہی یہ دونوں سالانہ رپورٹیں سامنے آتیں، ہر سیکولرلبرل اور جمہوری آمریت کا علمبردار کالم نگار پاکستان کومطعون کرنا شروع کر دیتا۔ اسی طرح مخصوص اینکر پرسن پہلے پاکستان اور پھرمسلمان ممالک کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتے۔ آخر میں ان سب کی تان اس بات پر ٹوٹتی کہ پاکستان میں نہ انسانی حقوق کی حالت بہتر ہے اور نہ ہی مذہبی رواداری کا ثبوت ملتا ہے، اس لئیے جلدہی امریکہ اور یورپ اس ملک پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کا جینا دوبھر کر دے گا۔ یہ سیکولراورلبرل ’’جمہورئیے‘‘ آخر میں ایک ’’عظیم تاریخی تجزیہ‘‘ بیان کرتے کہ یہ سب اس لئیے ہے کہ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا تھا اوراس ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ قراردادمقاصد ہے۔ جب تک اس بنیاد سے نجات نہیں ملتی ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ امریکہ کا جو چہرہ اس وقت دنیا کے سامنے آیا ہے، یہ با لکل نیا اور انوکھا نہیں ہے۔امریکی سوسائٹی اور تہذیب کی بنیاد ہی کالوں سے نفرت، ان کے استحصال اور ان پر ظلم و تشددسے عبارت ہے۔ چارسو برسوں سے اس دھرتی پر سیاہ فام افریقیوں کی غلامی کا کاروبار جاری ہے۔ اگست 1619 ء میں افریقی علاقے ،انگولا سے بیس سیاہ فام افریقیوںکو ولندیزی یعنی موجودہ ہالینڈ کے گوروں نے اغوا کر کے برطانوی گوروں کے ہاتھ بیچا تھا۔ جس دن ان کا جہاز امریکہ میں برطانوی کالونی ورجینیا کے شہر جیمز ٹائون پہنچا،یہ وہ پہلا دن تھا، جب سرکاری طور پر امریکی ساحلوں پر غلاموں کی تجارت کا منظم آغاز ہوا۔ اس سے پہلے کوئی اکاّدکاّ گورا زمیندار یا تاجر اپنی ضروریات کیلئے اغوا شدہ افریقی سیاہ فام افراد کو خریدکر امریکہ لایا کرتا تھا۔ اس دن کے بعد پوری ایک صدی افریقہ سے غلاموں کی تجارت ہوتی رہی اور تقریباسترلاکھ سیاہ فام افریقی امریکہ لائے گئے۔
جیمز ٹائون کے ’’مہذب‘‘امریکہ میں اگست 1619 ء کے جس دن غلاموں کا بازار سجا تھا، اس دور میں مسلم امہ کی سرزمین پر خلافت عثمانیہ کی مرکزیت قائم تھی، ایران میں صفوی بادشاہت اور ہندوستان میں مغل حکمران بام عروج پر تھے۔ ہندوستان کے دلّی اور لاہورکے شہرثقافت، تہذیب، ادب اور فنِ تعمیر کے مراکز تھے۔ شاہ جہان کا تاج محل اسی صدی میں دنیا کے نقشے پر ابھرا اور اورنگ زیب عالمگیر نے اسی صدی میں ایک ایسی حکومت قائم کی تھی جس میں پہلی دفعہ برصغیر پاک و ہند کے تمام بڑے بڑے ہندومندروں کے لئیے بھی زمینیں وقف کی گئیں اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے لئیے مستقل سرکاری گرانٹ جاری کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ اورنگ زیب عالمگیرسے پہلے مسلمان استاد اور ہندو استاد کی تنخواہوں میں آدھے کا فرق تھا، اس نے ان دونوں کی تنخواہ کو برابر کر دیا۔ اسی صدی میںمغرب کا فرانس غربت اور افلاس کا ایسا شکار تھا کہ لوئی چودہ کے زمانے میں صرف پیرس شہر میںچھ لاکھ فقیر تھے۔
ہندوستان دنیابھر میں25 فیصد جی ڈی پی کا حصے دار تھا۔ چین میں منگ خاندان زوال پذیر ہوچکاتھا۔ جن دنوں امریکہ اور یورپ غلاموں کی تجارت اور کپاس سے دولت کمانے میں لگے ہوئے تھے، اسی زمانے میں اورنگ زیب کے دورکے ہندوستان میں علم و عرفان کا یہ عالم تھا کہ دنیا میں پہلا بے جوڑ گلوب علی بن لقمان کشمیری نے بنایا تھا جس پر دنیا کا نقشہ موجود تھا۔ جو نپور کے صادق اصفہانی نے دنیا کی 32 صفحات پر مشتمل پہلی اٹلس بنائی تھی۔ جب امریکہ کا جدید معاشرہ غلاموں کی تجارت اورمظالم کی بنیاد پر اپنی معیشت استوار کر رہا تھا، خلافت عثمانیہ دنیا بھرکے مظلوم یہودیوں کیلئے واحدپناہ گاہ تھی۔
سترھویں صدی کی مہذب اور ترقی یافتہ مسلم دنیاکے مقابلے میں جدید امریکہ، انسانی تاریخ کے اس بدلتے ہوئے موڑ اورتہذیبی ترقی کے عروج میں ابھی غلاموں کی تجارت کا آغاز کر رہا تھا۔ اگست 1619ء کے اس خوشگوار دن جب جیمز ٹائون، ورجینیا کے بازار میں انگولا سے بیس سیاہ فام کو لا کر بیچا گیا، اس دن سے یہ انسانی تجارت امریکہ میںسرکاری سرپرستی میں پھلنے پھولنے لگی۔ اس سے پہلے براعظم امریکہ میں یورپ سے بھاگ کر آنے والے جرائم پیشہ گوروںکی اکثریت آبادتھی اور وہ امریکہ میں موجود مقامی ریڈانڈین افرادسے غلامی کا کام لیتے تھے۔ یہ وہ مقامی ریڈ انڈین تھے جو اس خطے میں امن سے رہ رہے تھے کہ اچانک 12اکتوبر 1492ء کو کرسٹوفرکولمبس کا جہاز امریکہ کے ساحلوں پر اترا اور یورپی اقوام کے لٹیروں، ڈاکوئوں، قاتلوں، چوروں اور جرائم پیشہ افراد نے یہاںآکر آباد ہونا شروع کردیا۔بیچارے مقامی ریڈانڈین کا پہلا قتلِ عام ’’ٹیکا اوک‘‘ (Tecoak)کے علاقے میں ہوا جہاں پر آباد پورا قبیلہ ’’اوٹومی‘‘ (Otomi)بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ یوں علاقوں پر علاقے فتح ہوتے رہے اور قبیلوں پر قبیلے صفحہ ہستی سے مٹتے رہے۔ آخری قتلِ عام 19جنوری1911ء کو نویڈاکی ریاست میں ہوا۔
آج بھی پورے امریکہ میں ریڈانڈین مقامی افراد کی پانچ سو سے زیادہ آبادیاں ہیں جنہیں ریزرویشنز (Reservations)کہا جاتا ہے۔ ان آبادیوں میں یہ قبائل صدیوں پرانی زندگی میں رہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سولہویں صدی کا امریکہ ریڈانڈین کے قتلِ عام اور نسل کشی کاامریکہ تھا۔ تقریباََگیارہ کروڑ مقامی افراد قتل کئے گئے۔ جس شخص کو انسانی تاریخ کاعظیم سیاح اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جس کولمبس کی تصویریں بچوں کے نصاب کی کتابوں میں لگائی جاتی ہیں اس اکیلے شخص کی قیادت میں 5لاکھ ریڈانڈین مقامی افراد قتل کئے گئے۔ مقامی آبادی کا قتلِ عام اور غلاموں کی تجارت چارسوسال تک ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ اسی دوران ڈھائی سو سال قبل 1777ء میں امریکی جمہوری اور آئینی حکومت بھی قائم ہوئی اور جارج واشنگٹن پہلا جمہوری صدر بھی بنا۔ یوں جمہوریت اور سیاہ فام انسانوں کی غلامی اورتجارت ہاتھ میںہاتھ ڈالے پروان چڑھتے رہے۔غلاموںکی جس تجارت کاامریکی آغاز 1619ء میں ہواتھا،ان کی آبادی چند سالوں میں اسقدر بڑھ گئی کہ ان کو قابو میں رکھنے کے لئے قانون بنائے جانے لگے۔ سب سے پہلا قانون 1661ء میں بنایا گیا جس کے تحت کوئی کالا گورے سے یا گورا کالے سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ قانون 21ریاستوں میں فوراََ لاگو ہو گیا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آخری ریاست الباما (Albama)ہے جس میں ایک نسل سے دوسری نسل کی شادی پر پابندی کا قانون صرف بیس سال پہلے یعنی 2000ء میںختم کیا گیا۔ اس دوران امریکہ کے آئین کی وہ دفعات جو 1777ء کے اعلانِ آزادی میں تمام انسانوں کے برابر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، مستقل نافذ رہیں، آئین کا حصہ تھیں اور امریکہ انسانی حقوق کے نام پر پوری دنیا میں دھاڑتا بھی رہا۔ ان بیچارے افریقی سیاہ فام غلاموں کا امریکہ کے ساحلوں تک کا سفر بھی دردناک اور المناک کہانیوں سے عبارت ہے۔ سپین، پرتگال، فرانس، انگلینڈ اور دیگر ممالک سے انسانوں کے تاجر افریقہ کے علاقوں میں نہتے سیاہ فام افراد کو اغوا کرتے، کبھی گڑھے کھود کرانہیں ٹہنیوں سے ڈھانپتے، قسمت کے مارے ان میں گر جاتے تو انہیں زنجیروں میں جکڑ کرباہر نکالا جاتا۔ ساحلِ سمندر کے پاس بڑے بڑے اڈے بنائے گئے تھے جن میں ایک کمروں کی قطار میں مردوں کو رکھا جاتا، دوسرے میں عورتوں اور تیسری قطار کے کمروں میں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا۔ تینوں کمرے پنجروں کی طرح آمنے سامنے ہوتے۔ بچے بھوک اور تنہائی سے روتے بلکتے اور والدین اپنی آنکھوں کے سامنے بے بسی سے انہیں دیکھتے رہتے، عورتوںسے جنسی زیادتی ہوتی، مردوں پر شدید تشدد کیا جاتااور یہ تماشہ ایک دوسرے کے روبرو ہوتا۔
یوں ان کوکئی سال ایسی حالت میں رکھ کریہ احساس دلایا جاتا کہ یہی تمہاری زندگی اور تمہارا مقدرہے۔ اس کے بعد انہیں بحری جہازوں کے ایسے کیبنوں میں ٹھونسا جاتا، جن کی چھت صرف ڈھائی فٹ اونچی ہوتی۔ خوف، بیماری، گھٹن اور تکلیف سے جو مر جاتا اسے سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیا جاتا۔ صرف پچیس فیصد غلام ہی امریکہ کے ساحلوں تک پہنچ پاتے جو خود کوبہت خوش قسمت تصور کرتے کہ آزاد فضا میںسانس لے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی باقی پوری زندگی کپاس ، تمباکو اور گنے کے کھیتوں میں غلامی کرتے گزر جاتی۔ غلاموں کی تعداد بڑھانے کے لئے عورتوں کو گائے بھینسوں کی طرح جنسی اختلاط پر مجبور کیا جاتا تاکہ وہ ہر سال ایک نئے غلام کو جنم دیں۔ اس فعل کے بعد مردوں کو علیحدہ کر دیا جاتا اور عورتیں ایک جانوروں کے گلے کی طرح سے بچے پالتیں۔ عورتیں دہرا بوجھ اٹھاتیں، کمپنیوں اور گھروں میں کام کے علاوہ بچے بھی پالتیں۔ ایک ساتھ ریوڑکی طرح جوان ہونے والے بچوں کو بھیڑبکریوں کی طرح غلاموں کی منڈیوں میں بیچ دیا جاتا۔ جمہوریت کی سب سے بڑی علامت امریکی کانگریس نے 1793ء میں ایک قانون “Fugitive Slave Act”پاس کیا جس کے تحت کسی غلام کو بھگانا یا فرار کرانے میںمدد دینا ایک جرم قرار دیا گیا۔ یہ قانون اس لئے منظور کیا گیا تھا، کیونکہ سیاہ فام غلاموں میں بغاوت کی چنگاریاں سلکنے لگی تھیں۔ اس بغاوت کا پہلاعلمبردار ناٹ ٹرنر(Nat Turner)تھا جس کی ماں ایک افریقی غلام عورت تھی جسے گوروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اپنی ماں سے محبت اور نامعلوم باپ سے نفرت نے اسے پاگل بنا دیا تھا۔ وہ ہر وقت سیاہ فام افریقیوں کی آزادی کے خواب دیکھتا رہتا۔ ایک دن 1831ء میںاس نے سورج گرہن دیکھا تو اسے ایک انقلاب کی علامت سمجھا۔ اس نے اپنے چند ساتھیوں سمیت اپنے مالک کے خاندان ’’ٹریوس فیملی‘‘(Travis Family) کو قتل کر دیا اور ورجینیا ریاست کے چھوٹے سے شہر’’ یروشلم‘‘ کی طرف چل پڑا۔
اس کے ساتھ پچھتر کے قریب سیاہ فام غلام اکٹھا ہو گئے، جنہوں نے 60گوروں کو قتل کر دیا۔ ریاست فوری طور پر ایکشن میں آئی۔ بندوقوں، بکتربندگاڑیوں اور جدید اسلحے سے لیس ملیشیا نے انہیں یروشلم شہر کے باہر گھیر لیا، نہتے غلاموں پر فائرنگ شروع ہوئی، سو کے قریب سیاہ فام غلام اور کچھ راہگیر مارے گئے۔ ٹرنروہاں سے بھاگ نکلا، چھ ہفتوں تک جنگلوں میں مارا مارا پھرتا رہا، پکڑا گیا، مقدمہ چلا اور پھر اسے عبرت کا نشان بنانے کے لئے سرِعام پھانسی دے دی گئی۔ یاد رہے کہ یہ 1831ء یعنی صرف ایک سو نوے سال پہلے کا واقعہ ہے، کوئی ہزاروں سال پہلے کی کہانی نہیں ہے۔ اس واقعے کے تیس سال بعد 1861ء کی بہار میں امریکہ کی ریاستوں میں غلامی کی حق اور خلاف آپس میں ایک بہت بڑی جنگ کا آغاز ہوا۔ ابراہیم لنکن امریکی صدر منتخب ہوا تو اس کا نعرہ امریکہ سے غلامی اور غلاموںکی تجارت کا خاتمہ تھا۔ پورا امریکہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ جنوبی ریاستیں جہاں کھیتی باڑی عام تھی وہ غلامی کے حق میں کھڑی ہو گئیں اور شمالی ریاستیں غلامی کے خلاف۔ 12اپریل1861ء سے 9مئی 1865ء تک چار سال تک جنگ چلی۔ ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ پینسٹھ ہزار افراد مارے گئے جن میں اسی ہزار سیاہ فام غلام اور پچاس ہزار آزاد شہری بھی شامل تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں امریکہ سے قانونی طور پر غلامی کا خاتمہ توہو گیا لیکن گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے سیاہ فام افراد سے نفرت کی آگ امریکی معاشرت، تہذیب اور زندگی کے دیگر معاملات میں مسلسل سلگ رہی ہے اور ہر چند سال بعد کسی سیا ہ فام کی موت کی صورت رونما ہوتی رہتی ہے۔ ٹھیک ایک سو چالیس سال بعد امریکی جمہوری الیکشنوںمیں پچھتر فیصد گوری اکثریت نے ڈونلڈٹرمپ کو ووٹ دے کر ایک بار پھر امریکہ کو اسی طرح فتح کر لیا ہے جیسے1492ء میں کولمبس کی سربراہی میں فتح کیا تھا۔فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت بندوق استعمال ہوئی تھی اور اس دفعہ ووٹ۔اور ٹرمپ نے اسلام کو دبانے کےلئے ہر ممکن قدم اٹھایا۔اوراسلام کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ دہشت گردی کی نئی مثالیں رقم کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

‘ففتھ جنریشن وار فئیر ‘
کی اصطلاح اور اس کی تاریخ

وار فئیر ماڈل کا استعمال سنہ 1648 میں معاہدہ امن ویسفالیہ ( Treaty of Westphalia ) کے بعد شروع ہوا۔ یہ معاہدہ اس 30 سالہ جنگ کے بعد ہوا تھا جو اُس وقت کی جرمن سلطنت اور دوسرے ممالک کے درمیان مذہبی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ اس جنگ میں تقریباً 80 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جنگ کیتھولک عیسائیوں اور پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان مذہبی منافرت کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی۔

جنگوں کے ماڈل یعنی وار فئیر ماڈل کی اصطلاح اسی معاہدے کے بعد سے شروع ہوئی اور اس 30 سالہ جنگی دور کو ‘فرسٹ جنریشن وار فئیر ‘ کہا گیا۔اس جنگ اور اس کے خاتمے کے بعد دنیا بھر میں آج کل کا رائج خود مختار ریاستوں کے نظام کا آغاز ہوا۔
جنگوں کے مورخین اور ماہرین نے تفہیم کی خاطر اب تک کی جنگوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ فرسٹ جنریشن وار ، سیکنڈ جنریشن وار ، تھرڈ جنریشن وار ، فورتھ جنریشن وار اور ففتھ جنریشن وار ۔ پانچ پیڑیوں میں تقسیم کے حوالے سے تو ماہرین متفق ہیں لیکن الگ الگ جنریشن کی تعریف پر اختلاف موجودہے ۔ مثلاً کچھ ماہرین سیکنڈ جنریشن وار کو ایک دور سے شروع کرتے ہیں اور کچھ دوسرے دور سے ۔ اسی طرح کچھ ماہرین اس وقت ففتھ جنریشن وار کے اقدامات کو بھی فورتھ جنریشن وار کا حصہ قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ اس کو ففتھ جنریشن کا نام دے رہے ہیں ۔ تاہم مروجہ معنوں میں جب جنگیں دونوں طرف کے انسان آمنے سامنے رہ کر تلواروں وغیرہ سے لڑا کرتے تھے تو ان کو فرسٹ جنریشن وارز (پہلی پیڑی کی جنگیں) کہا جاتا ہے ۔ انگلش سول وار اور امریکہ کی جنگ آزادی اس کی نمایاں مثالیں ہیں ۔ پھر جب بندوق اور توپیں ایجاد ہوئیں اور اس کے ذریعے جنگیں لڑی جانے لگیں تو ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار (دوسری پیڑی کی جنگیں) کہا جاتا ہے۔ بندوق اور توپ کے ایجاد سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک کی جنگیں اس کی مثالیں ہیں ۔ اس کے بعد جب جنگوں میں فضائیہ اور نیوی وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگئی یا میزائلوں کے ذریعے دور سے دشمن پر وار کرنے کے راستے بھی نکل آئے اور ٹیکنالوجی کا استعمال فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگا تو ان جنگوں کو تھرڈ جنریشن وار ز کا نام دیا جاتا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم اور ویت نام یا کوریا کی جنگیں اس کی نمایاں مثالیں ہیں ۔ تھرڈ جنریشن تک جنگیں صرف افواج کے درمیان لڑی جاتی تھیں لیکن گزشتہ صدی کے دوران ان میں ملکی افواج کے ساتھ ساتھ نان ا سٹیٹ ایکٹرز اور مقامی شورشوںکا عنصر شامل ہوگیا ۔ مثلاً سرد جنگ کے دنوں میں سوویت یونین نے کئی ممالک میں یہ جنگیں اپنی فوجیں بھیجنے کی بجائے مقامی طاقتوں کے ذریعے لڑیں جبکہ دوسری طرف امریکہ نے افغانستان میں نان اسٹیٹ ایکٹر کی حیثیت رکھنے والے مجاہدین کو سپورٹ کرکے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی ۔ اس وقت جنگوں میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ ساتھ سفارت کاری، معیشت اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہوگئے اور ریاستی افواج کے ساتھ ساتھ پراکسیز کا کردار بھی اہم بن گیا ۔ اسی طرح دہشت گردی بھی جنگوں کے اہم ہتھیارکی حیثیت اختیار کرگئی ۔جنگوں کی اس نئی قسم کو فورتھ جنریشن وارز کا نام دیا جاتا ہے ۔ بنیادی طور پر ہائیبرڈ وار (Hybrid Warfare)کی اصطلاح بھی اسی فورتھ جنریشن وار کا دوسرا نام ہے کیونکہ اس میں اسلحے کے ساتھ ساتھ جنگ کے دیگر کئی ہتھیار شامل ہوگئے ۔ افغانستان، عراق اور شام وغیرہ کی جنگیں فورتھ جنریشن وارز کی نمایاں مثالیں ہیں ۔ تاہم اب جنگوں کی ایک نئی قسم سامنے آگئی ہے جسے ففتھ جنریشن وار کہتے ہیں ۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم فورتھ جنریشن وارز سے نکل کر ففتھ جنریشن وار ز کے زمانے میں آگئے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ابھی ہم فورتھ سے ففتھ کے انتقال (Transition) کے مرحلے سے گزر رہے ہیں ۔ ففتھ جنریشن وار کو سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے انگریزی لفظ بیٹل (Battle) اور وار(War) کے فرق کو سمجھنا چاہئے بیٹل وہ ہوتا ہے جس میں دو فوجیں یا مسلح طاقتیں ایک دوسرے سے براہ راست لڑائی لڑتی ہیں جبکہ وار بہت مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے ۔ اس میں ہتھیاروں کے ساتھ پروپیگنڈے، سفارت کاری ، معیشت اور دیگر ہر طرح کے حربوں کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ اسی طرح موجودہ دور میں کسی ملک کی طاقت دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے ۔ یعنی ہارڈ پاور (Hard Power) اور دوسرا سافٹ پاور (Soft Power) ۔ ہارڈ پاور سے مراد کسی ملک کی فوج، جنگی ہتھیار اور جنگی ٹیکنالوجی وغیرہ ہے جبکہ سافٹ پاور سے مراد اس کی لابنگ، پروپیگنڈے ، سفارتی اثرورسوخ، پراکسیز اور معیشت کی صلاحیتیں ہیں ۔ ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ یہ بیٹل (Battle) نہیں بلکہ وار (War) ہوتا ہے ۔ اس میں بیٹل کی یا تو نوبت نہیں آتی یا پھر وار (War) جیت کر آخری وار کے طور پر بیٹل کا آپشن آزمایا جاتا ہے ۔ اسی طرح ففتھ جنریشن وار میں دشمن اپنے ہارڈ پاور کی بجائے سافٹ پاورز کو بروئے کار لاتا ہے اور وہ زیرنشانہ ملک کے سافٹ پاورز ہی کو نشانہ بناتا ہے ۔ ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ میڈیا، سفارت کاری، پراکسیز اور معیشت ہیں۔ یہ زمین پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جاتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ فوجیں بھیجنے کی بجائے زیرنشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے ۔ براہ راست حملے کے بجائے پراکیسز کے ذریعے زیرنشانہ ریاست کو کمزور کیا جاتا ہے اور اس ملک کے اپنے شہریوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کے ذریعے اپنے پراکیسز میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ اس جنگ میں پہلے مرحلے پر زیرنشانہ ملک کی فوجی چھاونیوں اور تنصیبات کو نہیں بلکہ معاشرے میں موجود فالٹ لائنز کو تلاش کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ذریعے اندرونی انتشار کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔روایتی جنگیں صرف حکومتیں چھیڑتی تھیں لیکن ففتھ جنریشن وارز بعض اوقات نان ا سٹیٹ ایکٹرز انفرادی طور پر بھی چھیڑ سکتے ہیں ۔ اسی طرح روایتی جنگوں کے مختلف ایکٹرز کے درمیان کوآرڈینیشن ضروری ہوتی ہے لیکن ففتھ جنریشن وار میں ضروری نہیں کہ مختلف حملہ آوروں میں کوئی کوآرڈینیشن ہو بلکہ بعض اوقات مختلف کردار اپنے اپنے طریقے سے زیرنشانہ ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں براہ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود ان کا ہدف ایک ہوتا ہے ۔ اس جنگ میں کسی ملک کے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے عناصر اور اداروں کو خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اس لئے ذرائع ابلاغ ( ٹی وی ، ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیااور فلم وغیرہ) اس جنگ کے خصوصی ہتھیار بھی سمجھے جاتے ہیں اور یہی پہلا نشانہ بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں شاعر اور ادیب بھی ذہن سازی میں بنیادی کردار اد ا کرتے ہیں اور شاید ان سب سے اہم ترین مذہبی رہنما ہیں اور ہمارے ملک کو چلانے والوں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان اس ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہے اور اس کے تحت مذکورہ سب عناصر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ویسے تو جنگوں کو مختلف پیڑیوں میں تقسیم کرنے کا آغاز امریکی جنگی ماہرین نے کیا تھا لیکن مغرب میں یہ بحث بڑی حد تک آج بھی فورتھ جنریشن وار پر رکی ہوئی ہے ۔ مغربی سیاست اور میڈیا میں ففتھ جنریشن وارز کی اصطلاح بہت کم سننے کو ملتی ہے ۔ وہاں اگر یہ اصطلاح استعمال بھی ہورہی ہے تو بالکل الگ تناظر میں استعمال ہورہی ہے ۔ مثلاً امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس نے سوشل میڈیا کے ذریعے جو اثر ڈالا ،اسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیا جارہا ہے ۔ باقی دنیا میں یہ اصطلاح سب سے زیادہ مصر کے حکمران جنرل سیسی نے استعمال کی ۔ جنرل سیسی اور ان کے ترجمانوں کا یہ دعویٰ رہا کہ ان کی حکومت کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ ففتھ جنریشن وار کے تحت ہورہا ہے جس کا بنیادی مقصد مصری فوج اور ریاست کو کمزور کرنا ہے ۔ مصر کے بعد اب یہ اصطلاح بڑی شدت کے ساتھ پاکستان میں استعمال ہونے لگی ہے اور میرا اندازہ ہے کہ چند ماہ بعد ہمیں ہر طرف اس اصطلاح کا ذکر اور غلغلہ نظر آئے گا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ان دنوں دشمن ممالک اور مختلف نان ا سٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار چھیڑ دی ہے جس کے تحت ملک کے اندر مختلف قومیتوں کے لوگوں کو ریاست اور بالخصوص فوج کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے ۔ اسی طرح مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی فساد کو ہوا دی جارہی ہے ۔مختلف بنیادوں پر ذہنی انتشار اور تفریق کو ہوا دی جارہی ہے۔ اداروں کو آپس میںلڑانے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ بے یقینی کی فضا پیدا کرکے پاکستانی معیشت کو بھی تباہ کیا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست، صحافت حتیٰ کہ عدالت کو بھی اس ففتھ جنریشن وار کے آئینے میں دیکھاجارہا ہے اوراسی کے تناظر میں ریاستی پالیسیاں تشکیل پارہی ہیں ۔

‘فرسٹ جنریشن وار فئیر ‘ کیا ہے؟
ہنگری کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر جنگوں کی وہ شکل ہے جس میں بڑی سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں۔ ان جنگوں کو ‘فری انڈسٹریل وارز ‘ بھی کہا گیا ہے۔
اس جنریشن میں انفنٹری یا فوج کے دستے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں اور انسانی قوت کو کامیابی کا منبہ سمجھا جاتا ہے یعنی جتنی بڑی فوج ہوگی اتنی ہی زیادہ کامیابی ہوگی۔یہ پہلی جنریشن17 ویں صدی کے وسط سے لے کر 19 ویں صدی کے آخر تک چلتی رہیں اور انھی اصولوں پر دنیا بھر میں مخلتف جنگیں لڑی گئیں۔
‘سیکنڈ جنیریشن وار فئیر
امریکی پروفیسر رابرٹ جے بنکر کی لکھی ہوئی ایک تحقیق کے مطابق سیکنڈ جنریشن وار فیئر ٹیکنالوجی کی جنگیں تھیں جس میں فوج کے دستوں کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لے لی اور جنگوں میں بڑا اسلحہ جیسا کہ مشین گن، میگزین رائفلز، توپوں نے لے لی۔ پروفیسر رابرٹ نے ان جنگوں کو ٹیکنالوجی کی جنگیں قرار دیا۔جنگوں کا یہ دور 19ویں صدی کے وسط سے شروع ہوا اور ابھی تک کچھ جنگیں انہی اصولوں پر لڑی جاتی ہیں۔

‘تھرڈ جنیریشن وار فئیر
پروفیسر رابرٹ کے اسی تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ تھرڈ جنریشن وار فیئر میں جنگیں آئیڈیاز یعنی خیالات کی بنیاد پر شروع ہوگئیں۔پروفیسر رابرٹ کے مطابق اس دور میں جنگی چالوں کا استعمال عام ہوا۔ ان کے مطابق ان جنگوں میں مختلف چالوں سے دشمن قوتوں کی جنگی طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے اور یا ایسی جگہوں سے حملہ کیا جاتا ہے جس میں مخالف فریق کو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حملہ ہوا ہے۔ایک اور تحقیقی مقالے میں تھرڈ جنریشن وار فیئر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس جنریشن کی جنگوں میں ائیر کرافٹس یعنی جنگی طیاروں کا استعمال بھی شروع ہوگیا۔

فورتھ جنریشن وار فئیر
جدید دور کی جنگوں کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا گیا ہے۔ مختلف تحقیقی مقالوں میں لکھا گیا ہے کہ فورتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح سنہ 1989 کے بعد سے شروع ہوئی۔اس جنریشن کی جنگوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شامل کیا گیا ہے۔ رابرٹ بنکر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ آج کل ایک فوج ایک آبادی والی جگہ پر حملہ کرتی ہے اور اس چال کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا ایک اہم عنصر گردانا جاتا ہے۔لیکن دیگر مخلتف تحقیقی مقالوں میں جنگوں کے اس ماڈل پر بہت تنقید بھی سامنے آئی ہے اور بعض جنگوں کے اس ماڈل پر یقین ہی نہیں کرتے۔
’ففتھ جنریشن وار فئیر‘
مخلتف یونیورسٹیوں کے ریسرچ پیپرز پڑھ کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ماڈل ابھی ارتقائی دور سے گزر رہا ہے اور ابھی تک اس کو درست طور پر سکالرز کے سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔تاہم دنیا بھر میں بعض ادارے، باالخصوص ملٹری امور سے وابستہ ادارے اس قسم کی مختلف اصطلاحات استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
وار فیئر ماڈل کو مختلف سلطنتوں نے ہمیشہ کسی جگہ میں مداخلت کے لیے بطور ایک ہتھیار استعمال کیا ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے جس کو دنیا بھر کی ‘اسٹیبلشمنٹ ‘ کسی جگہ پر اپنی طاقت اور اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے جواز بناتے ہیں۔اس طرح کی اصطلاحات جیسا کہ جنریشن وار فیئر کا استعمال بظاہر جمہوریت اور سول حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کو ہندوستان، امریکہ اور دنیا بھر میں مختلف ریاستیں استعمال کرتی ہیں۔ اگر کشمیر ہی کو دیکھا جائے تو وہاں انڈیا اپنی فوج کی موجودگی کے لیے یہی جواز بناتا ہے کہ وہاں پر جنریشن وار فیئر لڑی جا رہی ہے جو کہ ان کے ملک کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ جنریشن وار فیئر اصل میں جنگوں میں جدت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا نام ہے۔سوشل میڈیا ہی ایک ذریعہ ہے جس کو دنیا بھر میں ‘ملٹرائزڈ آپریشن ‘ یعنی فوجی تسلط کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کو ففتھ جنریشن وار فیئر سے منسلک کیا جاتا ہے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو یہ جواز ملے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں پر کڑی نظر رکھ سکیں اور ان کے خلاف قوانین بنا سکیں۔ دنیا بھر کی افواج اس کا استعمال کرکے لوگوں کے ذہنوں میں یہی بات ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں کہ سول حکومتیں اور جمہوریت کو ففتھ جنریشن وار فیئر سے خطرات لاحق ہیں اور اسی لیے فوجوں کو کسی بھی جگہ مداخلت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
۔۔۔۔۔

ففتھ جنریشن وار –
خوددہشت گردی کی تحریکیں چلاکر
اور دہشت گردی کے خلاف شور مچانا

ففتھ جنریشن وار کا ایک اہم حصہ اپنے دشمن ممالک کے اندر تخریب کاری کے ذریعے ملک دشمن عناصر پیدا کرنا، ان کی تربیت کرنا ، ان کی مالی معاونت کرنا اور ان کو اپنے اشاروں پر چلا کر ان ممالک کو کمزور کرن۔ یہی صورتحال اس وقت بلوچستان میں بھی موجود ہے۔ جس کا ایک اہم مہرہ بھارتی انٹیلی جنس کا اہلکار کلبھوشن یادیوکا کیس اس سلسلے میں سب سے بڑا ثبوت ہے۔

دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ اور بھرپور کامیابیوں کے باوجود بلوچستان میں ابھی تک شرپسند عناصر کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ۔ موقع ملنے پر دہشت گرد کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واردات کر کے ملک بھر کے لوگوں کا امن اور سکون برباد کر دیتے ہیں۔ ماضی میں ان کی کارروائیاں، سکولوں، مسجدوں، درباروں اور پُر رونق مارکیٹوں میں ہوتی تھیں، جن کے نتیجے میں سیکڑوں معصوم شہری شہید ہو تے تھے، ان پر تو کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ اب انہوں نے بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ شروع کر رکھی ہے۔ بلوچستان میںدہشت گردی کے واقعات میں 2006 سے دو ہزار سترہ تک 524 اہلکاروں نے جام شہادت نوش فرمایا جبکہ معصوم شہریوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پولیس، فوجی جوانوں اور شہریوں کی شہادت کے بعد بھی ان پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا اور نہ ہی ان کی مذموم کارروائیاں رک سکی ہیں۔ آئے روز کہیں نہ کہیں کوئی بڑا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں پریشان کن حد تک اضافہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ افسوس ناک امر تو یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ وارداتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس کا نشانہ زیادہ تر ہزارہ برادری کے لوگ بن رہے ہیں۔ پاکستان کے طول عرض میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے اگر اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں تو پتا چلے گا کہ دہشت گردانہ حملے مخالف فرقے کی عبادت گاہوں، اجتماع یا علاقے میں کیے گئے ہیں، اسلام میں فرقہ واریت کی سخت ممانعت ہے بلکہ اسے شرک کہا گیا ہے، مگر پاکستان میں فرقہ واریت کا ناسور اسلام کی واضح تعلیمات کے باوجود پھیلتا جا رہا ہے۔ چند دن پہلے بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک بس میں سوار کم از کم چودہ افراد کو فائرنگ کر کے ناحق قتل کر دیا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹوں کے مطابق حملہ آوروں نے فائرنگ سے قبل بس کے مسافروں کے شناختی کارڈ بھی چیک کیے تھے۔ پھر 16 افراد کو بس سے اتارا گیا، جن میں سے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ یہ خونریز واقعہ اورماڑہ کے ساحلی قصبے کے قریب مکران نیشنل ہائی وے پر جمعرات اٹھارہ اپریل کی صبح پیش آیا۔ اس حملے میں شہید ہو جانے والے افراد کوئٹہ سے اسی صوبے میں گوادر کے بندرگاہی شہر جا رہے تھے۔ بلوچستان کے صوبائی ہوم سیکرٹری حیدر علی کے مطابق حملہ آوروں نے نیم فوجی فرنٹیئر کور کے دستوں کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ شروع میں تو کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن بعد ازاں بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انہوں نے اس افسوس ناک واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ صوبائی ہوم سیکرٹری حیدر علی کے مطابق اوماڑہ واقعے میں جو افراد شہید ہوئے، ان میں پاک بحریہ کے دو اہلکار اور ملکی ساحلوں کی حفاظت کرنے والے دستوں کا ایک رکن بھی شامل تھا اس طرح کے واقعات بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے زہر قاتل ہیں، جن کا سدباب کیا جانا ضروری ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کچھ دن سے ہونے والے منظم دہشت گردی کے واقعات دشمنوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ دشمنوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کے اندر لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تقسیم کی جائے۔ خیال رہے کہ یہ بسوں سے اتار کر مسافروں کو اس طرح سے قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی یہاں ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 2015 میں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں پیش آیا تھا، جہاں مسلح افراد نے کراچی سے تعلق رکھنے والی کوچز کے تقریباً 2 درجن مسافروں کو اغوا کر لیا تھا، جس کے بعد کھڈ کوچا کے علاقے میں پہاڑوں پر 19 افراد کو قتل کر دیا تھا۔ کوئٹہ اور چمن بم دھماکوں نے ثابت کیا ہے کہ دشمن پاکستان میں امن اور استحکام کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنے مذموم ایجنڈے پر گامزن ہے اور کسی طور یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں ترقی کا عمل آگے بڑھے۔ بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیا میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے میں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک گوادر پورٹ جیسے عظیم منصوبوں پر بھی کام جاری ہے جو دشمنوں کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل کیا جائے تو دوسری جانب اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں جائیں تاکہ بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبے جاری و ساری رہ سکیں اور بلوچ عوام کی زندگیوں میں بھی خوشحالی آ سکے۔ اس کے لیے حکومت کا کردار انتہائی اہم ہے۔
۔۔۔۔۔

عالمی امن، اسلامو فوبیا
بذریعہ ففتھ جنریشن وار

اگر آپ ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کی فلمیں دیکھیں تو ہر دوسری فلم‘ سیزن اور ڈاکیومنٹری کا ولن کسی مسلمان کو بتایا جاتا ہے۔ پہلے یہ ولن عرب ممالک اور عربی بولنے والے ہوتے تھے‘ اب پاکستانیوں اور افغانوں کو ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس سے لوگوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی اور پھیلائی جا رہی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اور اقوام مسلمانوں سے نفرت میں مبتلا ہیں‘ مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں، راہ چلتی مسلمان خواتین کے سر سے سکارف کھینچ لئے جاتے ہیں، داڑھی اور پگڑی والے مسلمان مردوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور بچوں کو سکولوں‘ کالجوں میں مسلمان ہونے پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس نفرت کو بہت منظم طریقے سے پھیلایا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نسلی تعصب اور حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اگر کوئی مسلمان انفرادی حیثیت میں کسی پر حملہ کرے تو وہ دہشت گرد کہلاتا ہے اور اگر کوئی دوسرے مذہب کا شخص کسی پر حملہ کرے تو اس کو ذہنی بیمار کہا جاتا ہے۔ اسے نفسیاتی عارضوں کا شکار قرار دے کر اس سے ہمدردی کی جاتی ہے جبکہ کوئی مسلمان اگر کسی چھوٹے جرم میں بھی مبتلا ہو تو اس کو مغربی میڈیا پر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس سے بڑا مجرم کوئی نہیں ہے۔ گورے رنگ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بالخصوص دہشت گرد کہنے سے گریز کیا جاتا ہے اور نفسیاتی مریض بنا کر انہیں جرم سے بری الذمہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سے مغربی لیڈروں، ہندوستانی سیاستدانوں کے مذموم بیانات اور انگریزی فلموں میں مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی نفرت کے باعث نیوزی لینڈ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا‘ اس پر انسانیت کانپ گئی تھی۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں دہشت گرد برینٹن ٹیرینٹ جدید اسلحے کے ساتھ داخل ہوا اور اس نے نہتے نمازیوں پر فائرنگ شروع کردی۔ یہ سب کچھ وہ ریکارڈ بھی کر رہا تھا اور اسے فیس بک پر براہِ راست نشر بھی کر رہا تھا۔ یہ سب اُس اسلامو فوبیا کا نتیجہ ہے جو بہت سے مغربی ممالک، ہالی ووڈ اور ہندوستان کے اس پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جو وہ مسلمانوں کے خلاف کرتے چلے آ رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں 51 نمازی شہید ہوئے‘ جن کا کوئی جرم نہ تھا، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ ایک سفید نسل پرست شخص ان کے دین سے نفرت کرتا تھا۔ سفید فام نسلی برتری کے پیروکار برینٹن ٹیرینٹ نے 3سال کے معصوم بچے سے لے کر ساٹھ‘ ستر سالہ بزرگ افراد تک‘ سب کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ اس نے اندھا دھند فائرنگ کی اور یہ قتلِ عام لائیو نشر کیا جس سے دنیا بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس نے اپنا لائحہ عمل بھی فیس بک پر پوسٹ کیا جس میں اس کارروائی کو صلیبی جنگ اور مسلمانوں سے بدلہ لینے سے جوڑا گیا تھا‘ بعد ازاں اس پوسٹ کو فیس بک نے ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ وہ جدید ترین اسلحے کے ساتھ آیا تھا‘ اس کے پاس رائفلیں اور گیس سلنڈر تھے۔ ایک موقع پر کچھ بہادر افراد نے اس کو قابو کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ سب نہتے تھے۔ یہ سانحہ کبھی نہ ہوتا اگر مسلمانوں کے خلاف منظم نفرت نہ پھیلائی گئی ہوتی۔ یہی کچھ اب دوبارہ ہو رہا ہے اور پہلے سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ۔
فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے شائع کئے اور اس کو آزادیٔ اظہارِ رائے قرار دیا جبکہ دنیا کی کسی بھی اخلاقیات میں کسی مذہب کے لوگوں کے جذبات مجروح کرنا آزادیٔ رائے نہیں ہے؛ تاہم فرانس نے اس انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ چند غیور مسلمانوں نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا تو 2 افراد مارے گئے۔ اس پر پوری دنیا جمع ہوگئی اور شمع روشن کی گئی جبکہ مسلمانوں کے احساسات مجروح ہونے پر کسی نے لب کشائی گوارا نہ کی۔ اسی طرح نیدرلینڈ کے ایک اسلام دشمن سیاست دان گیرٹ ولڈرز نے اعلان کیا کہ وہ گستاخانہ خاکوں کی نمائش کرے گا‘ اس نے ایک خاکہ سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا تھا؛ تاہم عالمی برادری ان معاملات پر مجرمانہ خاموشی کا شکار نظر آئی۔ یہ بہت حساس نوعیت کا معاملہ ہے کہ مذاہب اور ان سے وابستہ شخصیات کا احترام کیا جائے اور ان کی شان میں گستاخی نہ کی جائے، کوئی بھی مسلمان تو یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ناموسِ رسالتﷺ کا تحفظ ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے لیکن اپنی سڑکوں پر ٹائر جلانے سے کچھ نہیں ہوگا،ہمیں یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا ہوگا کہ کچھ اسلام دشمن آزادیٔ اظہارِ رائے کا نام لے کر دنیا بھر میں مسلمانوں کے احساسات مجروح کررہے ہیں۔ہمارے دین اور ہماری مقدس ہستیوں کا احترام سب پرواجب ہے۔ کسی کے جذبات کے ساتھ کھیلنا آزادیٔ اظہار میں نہیں آتا۔ اب فرانس نے ایک بار پھر مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے ہیں اور گستاخانہ خاکے ایک بار پھر شائع کئے ہیں۔ 2015ء میں چارلی ہیبڈو پر انہی خاکوں کی وجہ سے حملہ ہوا تھا‘ وہی خاکے دوبارہ شائع کئے گئے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ اس طرح کی مذموم کوششیں انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتی ہیں۔ فرانس کے صدر‘ حکومت اور میگزین انتظامیہ کو دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگنا چاہیے۔ناموسِ رسالتﷺ پر ہر شمع رسالت کا پروانہ اپنی جان‘ مال اور ناموس قربان کرسکتا ہے، اس معاملے کی حساسیت کو دنیا کو سمجھنا چاہیے۔
اس حوالے سے پاکستان میں بھی بہت غم اور غصہ پایا جاتا ہے، تمام لوگ فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ اور احتجاج کا تذکرہ کررہے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اپنے ملک کی املاک اور لوگوں کو نقصان پہنچانا کسی بھی طور درست نہیں ہے‘ احتجاج ضرور کریں‘ انگریزی زبان میں پلے کارڈ اٹھائیں ، انگریزی زبان میں ٹویٹس اور پوسٹس سے اپنا پیغام دنیا تک پہنچائیں کہ مسلمان ایک پُرامن قوم ہیں‘ اپنی مقدس ہستیوں کو لے کر بہت حساس ہیں، اُن کی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔پاکستان کی پارلیمان میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کی گئی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسلامی تعاون تنظیم 15مارچ کو عالمی سطح پر اسلاموفوبیا سے نمٹنے کا دن منائے، نیز تمام مسلم ممالک فرانسیسی مصنوعات کو بین کریں۔ آزادیٔ رائے کے نام پر اسلام مخالف مہم کو اب بند ہونا چاہیے، تمام اسلامی ممالک یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر جائیں اور پوری دنیا کو یہ باور کرائیں کہ نبی پاکﷺکے حوالے سے کسی قسم کی اہانت برداشت نہیں کی جا سکتی۔اس ایک ایشو پر تمام اسلامی ممالک کو اکٹھا ہونا چاہیے اور پُرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے روز اپنے نبی کریمﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے، آمین!
فرانس کے صدر کے حالیہ بیانات نے اسلام دشمنی کی آگ پر تیل کا کام کیا ہے، وہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں اور اپنی کم علمی میں دینِ اسلام کے مخالف اقدام کر رہے ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لائیں اور پیار محبت سے اپنا پیغام دنیا تک پہنچائیں۔ فرانسیسی چیزوں کا بائیکاٹ کریں لیکن کسی کی املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں، بات دلیل سے کریں‘ جذباتیت اور غصے سے نہیں۔ ہمارے نبیﷺ کا پیغام امن و سلامتی ہے‘ ہمیں اسی طریقے سے بات آگے پہنچانا ہو گی۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قرآن پاک اور حدیث کی نشر و اشاعت میں حصہ لیں اور دنیا بھر کی زبانوں میں ان کے تراجم شائع کرائیں۔ اس کے ساتھ سیرت نبویﷺ کا ترجمہ تمام سفارت خانوں میں بطور ہدیہ دیں۔ نبی پاکﷺ کی زندگی سے مختلف حالات و واقعات کو سوشل میڈیا پر شیئر کریں تاکہ دنیا رحمۃ للعالمینﷺ کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کی تعلیمات سے آگاہ ہو سکے اور اسلاموفوبیا کا بھی خاتمہ ممکن ہو پائے۔ جہاں بھی کوئی ایسا مواد نظر آئے جو خلافِ مذہب ہو‘ اس کو پی ٹی اے اور سوشل میڈیا پر رپورٹ کرنا چاہیے۔ یہاں پر وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان کا کردار قابلِ ستائش ہے، دونوں امت مسلمہ کی آواز بن کر اس کی ترجمانی کر رہے ہیں اور ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف ایک قرارداد پاس کی جس میں رُکن ملکوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان توہین کے قانون (Blasphemy Law) کو ختم نہیں کرتا تو وہ پاکستان کے ساتھ GSP Plusتجارتی معاہدہ ختم کردیں۔ مطلب یہ مغرب بالخصوص یورپی ممالک یہ چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں بھی کوئی توہینِ مذہب یا گستاخی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اُسے جرم نہ سمجھا جائے بلکہ آزادیٔ رائے کے طور پر برداشت کر لینا چاہئے۔ یورپی یونین پارلیمنٹ کی اِس قرداد سے کچھ دن پہلے گزشتہ ماہ اپریل 2021میں امریکہ کی مذہبی آزادی کی متعلقہ تنظیم United States Commission on International Religious Freedomنے اپنی تازہ رپورٹ میں امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے متعلق یہ سفارش کی کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کے ساتھ ساتھ یہاں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دی جانے والی آئینی شق کو ختم کروانے کے لئے امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ یورپی یونین کے پارلیمنٹ کی قرارداد کی طرح اِس رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ جو لوگ پاکستان میں گستاخی کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں اُنہیں رہا کیا جائے۔ اب اس پر امریکی حکومت اور یورپی ممالک کیا عملی اقدامات کرتے ہیں، یہ ابھی دیکھنا ہے لیکن امریکہ و یورپ کا ایجنڈا ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ آزادیٔ رائے کے نام پر پاکستان میں ایک ایسے انتشار اور شر کے راستے کو کھولنا چاہتے ہیں جسے یہاں کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔ جس جرم پر پوری دنیا کے مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں اور جو گستاخانہ عمل آئے دن مغربی ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں بار بار دہرایا جاتا ہے، کوشش یہ ہے کہ وہی کچھ نام نہاد آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کے نام پر پاکستان میں اگر کوئی چاہے تو کرے لیکن اُسے نہ پکڑا جائے، نہ سزا دی جائے بلکہ ایسا عمل کرنا اُس کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
کہا جاتا ہے یورپی یونین، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں توہینِ مذہب کے عمل کا آزادیٔ رائے کے نام پر دفاع کرنے والے دراصل مسلمانوں کے جذبات اور اُن کی اپنے دین اور مذہب سے جڑی پاک ہستیوں سے محبت سے آگاہ نہیں۔ میں یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ میرا یقین ہے کہ مغرب میں ایک مخصوص طبقہ بار بار اسلام دشمنی اور مسلمانوں کو تکلیف دینے کے لئے جان بوجھ کر گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ اسلام دشمنی ہے جو بار بار اُن کے عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ جو مغرب امن، برداشت، تہذیب اور بین المذاہب روا داری کے راگ الاپتا ہے مگر حقیقت میں جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، جہاں مسلمانوں کے خلاف آئے دن نئی نئی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، اُن کی مذہبی آزادیاں چھینی جا رہی ہیں، وہ آزادیٔ رائے کے نام پر مسلمان ممالک کے عوام پر بھی اپنی مرضی کے قوانین اور اپنی مرضی کی تہذیب مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اہلِ مغرب چاہتے ہیں کہ یہاں توہینِ مذہب کا قانون ختم ہو، وہ چاہتے ہیں کہ قادیانیوں کے غیرمسلم قرار دیے جانے والی آئینی شق کو ختم کیا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ یہاں موت کی سزا کو ختم کر دیا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ یہاں اسلامی قوانین کی بجائے اُن قوانین اور اُس ثقافت کو رواج دیا جائے جو مغرب میں لاگو ہے، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی انسانی حقوق کے نام پر ہم جنس پرستی کو جرم نہ سمجھا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ مغرب کی طرح یہاں مرد اور عورت بغیر شادی کے ایک ساتھ رہ سکیں۔ گویا وہ ہمیں اُس طرح چلانا چاہتے ہیں جو اُن کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہو اور جو سراسر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
ہمارے ہاں مغرب زدہ ایک طبقہ مغرب کے ان مطالبات سے اتفاق کرتا ہے لیکن یقین کریں جیسا کہ اسلام کہتا ہے کہ اگر ہم غیرمسلموں کے اشاروں پر چلے اور اُن کی خواہش پر اپنے آپ کو بدلنا شروع کر دیا تو یاد رکھیں کہ وہ اُس وقت تک ہم سے خوش یا راضی نہ ہوں گے جب تک کہ ہم اپنے دین کو چھوڑ کو اُن کے مذہب میں شامل نہیں ہو جاتے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یورپی یونین نے اگر GSP Plusکی سہولت واپس لے لی تو پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی برآمدات کا نقصان سالانہ اُٹھانا پڑے گا۔ نقصان چھ ارب ڈالر کی برآمدات کا ہو یا چھ کھرب ڈالر کی، جن معاملات کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کے ایمان سے ہو اُنہیں مغرب کی خواہش پر بدلا نہیں جا سکتا۔ کیا پاکستان میں کوئی یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ یہاں توہینِ مذہب کے قانون کو ختم کر دیا جائے یا قادیانیوں کے متعلق قوانین کو ریورس کر دیا جائے؟ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک بیان میں بالکل درست کہا کہ ختمِ نبوتؐ کے قانون پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی آزادیٔ اظہار کی آڑ میں مذہبی ہستیوں کو نشانہ بنانے کا عمل کسی صورت میں برداشت کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ اسلامو فوبیا ہے جس کے خلاف او آئی سی اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو مل کر ایک حکمت عملی بنانی ہوگی تاکہ مغرب میں بھی کسی بھی گستاخانہ عمل کو جرم تسلیم کیا جائے اور توہینِ اسلام کے بار بار دہرائے جانے والے واقعات کو روکا جا سکے۔ ایسا ممکن ہے کہ نہیں اس بحث میں پڑے بغیر وزیراعظم کی اس کوشش کو سپورٹ کیا جانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔

اسلامو فوبیا، ففتھ جنریشن وار
او ر میڈیا کی ذمہ داریاں

ففتھ جنریشن وار فیئر دراصل خیالات، کلچر اور معلومات کی جنگ ہے، طویل عرصہ جاری رہنے والی یہ ایسی جنگ ہے جس کے ذریعے کوئی ملک یا حکومت دوسری اقوام کے ذہنوں کو بالعموم اور اپنی دشمن اقوام کو بالخصوص مسخرکرنے کے لیے خفیہ منصوبوں پر عمل کرتی ہے، اس جنگ کے مقاصد نہایت خطرناک اور ہولناک ہیں۔زبان ہماری تہذیب و تمدن کی عکاس ہوتی ہے، جب کوئی قوم اپنی زبان چھوڑ کر کسی اور کی زبان پر فخر محسوس کرنے لگے تو دراصل یہ تباہی کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ زبان ہماری ثفاقت کا ایک اہم جزو ہے اور جب ہم کسی ایک جزو سے دوری اختیار کرتے ہیں تو جلد یا بدیر ہم پوری ثقافت سے ہی دوری اختیار کر لیتے ہیں، دشمن ہمیں سب سے پہلے ہمارے ذہنو ں میں ہماری زبان اور ثقافت سے نفرت پیدا کرتا ہے، پھر آہستہ آہستہ ہم تک ایسی معلومات پہنچائی جاتی ہیں جن کے ذریعے ہمارے اندر مایوسی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ہمارے دلوں میں ہمارے ملک کے استحکام اور سلامتی کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کئے جاتے ہیں اور بالآخر ایک محب وطن انسان ھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ خیر باقی نہیں رہی، جس ریاست کے لئے وہ جان کی بازی لگانے سے بھی در یغ نہیں کرتا تھا، اب اس کے لئے کچھ بھی کر نے سے کتراتا ہے۔ففتھ جنریشن وار فیئر کے اثرات کے تحت ایک شہری یہ سوچنے پر مجبو ہو جاتا ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے اعتماد کے لائق نہیں رہے، رفتہ رفتہ اس کا دل اپنے ملک سے اٹھ جاتا ہے یا یوں کہہ لیجئےکہ اٹھا دیا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وارفیئر دراصل ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کے ذریعے مخالف قوم کے ذہنوں کو مسخر کرنے کے لئے جائز و ناجائز ہر حربہ آٓزمایا جاتا ہے اور اس سب میں دشمن کا ساتھ دیتی ہے ہماری بے حسی اور لاپراہی۔اب ان حالات میں ایک نوجوان کو خصوصاً اور قوم کو عموماً کیا کرنا چاہیئے؟ سوش میڈیا کا تعمیری اور مثبت استعمال کر کے ہم دشمن کے منصوبے کو شکست دے سکتے ہیں، سوشل میڈیا پر ملک و قوم کے مثبت امیج کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے، ان تمام سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیئے جن سے ملک کا مثبت تاثر دنیا کے سامنے آ سکے، امن و امان کی عکاسی ہو، ملک کے کلچر کو فروغ مل سکے، ملک و قوم کے با رے میں دنیا کے ابہام دور ہو سکیں۔خواتین کو با اختیار بنانا، اس ضمن میں حقیقی معنوں میں کوشش کرنا، ہر شعبہ زندگی میں خواتین کو مساوی حقوق اور مواقع فرام کرنا اور ان تعلیم سمیت دیگر ضروریات بہم پہنچانا ضروری ہے، اس کے ذریعےخواتین ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں گی۔ ان کے اندر موجود احساس کمتری کو کم کیا جا سکے گا اور بالآخر ملکی ترقی میں خواتین ایک اہم کردار ادا کر سکیں گی۔سیاحت کے فروغ کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے یہ کسی ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے لئے بھی نہایت اہم ہے، گھر کی چار دیواری میں مقید رہ کر انسان رفتہ رفتہ منفی سوچوں میں گھر جاتا ہے اور یہی منفی سوچ انسان کو ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں کی طرف لے جاتی ہے۔اس سب کے علاوہ ہمیں ملک کے اندر دیگر ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے میل جول بڑھانے میں ا پنا کردار ادا کرنا ہوگا، اس سے ہمارے درمیان فاصلے کم ہوں گے، ذہن میں موجود مختلف غلط فہمیاں دور ہوں گی اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ہمیں اپنے ہم وطنوں کی فلاح کے لئے کام کرنا ہو گا، مشکل گھڑی میں ان کے شانہ بشان کھڑا ہونا ہو گا جس سے ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ ملک کے تمام باسی برابر ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہیں اور کوئی بھی مشکل گھڑی ہو، سب مل کر اس سے با آسانی سرخرو ہوں گے۔دشمن کے پاس صرف حملے کا اختیار ہوتا ہے، اگر ہمارا دفاعی منصوبہ پہلے سے تیار ہو اور ہم اپنی صفوں میں اتحاد برقرا ر رکھیں تو پسپائی دشمن کا مقدر ہی ٹھہرے گی۔ چاہے وہ سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگ ہو یا پھر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا پر مسخر کرنے کے حربے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر اس نعمت سے نوازا ہے جس کی ایک قوم صرف خواہش کر سکتی ہے، ہمارا باہمی اتفاق اوربھائی چارہ بھی مثالی ہے، ہمارے ادارے استحکام کی جانب گامزن ہیں اور ہماری فوج الحمدللہ ایک طاقتور فوج ہے، ضرورت ہے تو بس بدلتی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اور دشمن کی چالوں کو سمجھ کر ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
عالمی منظر نامے میں پاکستان اس مقام پر کھڑا ہے جہاں دہشت گردی کی طویل اور کٹھن جنگ سے نبرد آزما ہے۔ ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانوں کی قربانی دینے اور کامیابی سے دشمن کو اپنے ملک سے مار بھگانے کے بعد اب گوادر اور سی پیک کے ذریعے اس خطے کو پوری دنیا کا مرکز و محور بنا چکا ہے۔ عالمی طاقتیں جہاں گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے اور پاکستان کے راستے اپنے لئے راہداری حاصل کرنے کی متمنی ہیں وہیں پاکستان کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ مستقبل کی اس ریجنل پاور کو کیسے ایک مرتبہ پھر پیچھے دھکیل کر اپنے لئے جگہ بنائی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے ایک بار پھر ڈرامہ رچا کر پلوامہ حملے کا قضیہ پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔سعودی ولی عہد کا دورہ رکوانے کی بھر پور کوششیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ بھارت نے امریکہ سے اجازت مانگی کہ پاکستان پر حملے کی صورت میں امریکہ ان کا ساتھ دے۔ کوشش کی کہ محدود حملہ کیا جائے تاکہ مودی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لے اور قوم کے سامنے رسوائی بھی نہ ہو اور اپنے جاسوس کلبھوشن کے لئے عالمی عدالت میں راہ ہموار کی جائے۔
گویا ایک مرتبہ پھر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ کھیلا گیا۔ خدشہ تھا کہ ہندوستان ایران کو بھی اس سازش میں اپنا ہمنوا بنا لے گا۔ اس شر انگیزی کا ایک اور مقصد یہ تھا کہ اسلام آباد میں افغان طالبان و امریکہ کے مابین مذاکرات کو سبو تاژ کیا جائے۔ گویا ایک تیر سے کئی شکار۔۔ لیکن اس مشکل گھڑی میں ہمارے سول و فوجی حکمران نہ صرف ایک پیج پر نظر آئے بلکہ پوری قوم بھی آہنی دیوار کی مانند ان کے پیچھے کھڑی نظر آئی۔ یہی وجہ تھی کہ سعودی ولی عہد بھی تشریف لائے اور پاکستان کی جانب سے ہندوستان کو منہ توڑ جواب بھی دیا گیا۔ قارئین! یہ بیانیے کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں میڈیا اور سوشل میڈیا وہ ہتھیار ہیں جہاں سازشوں کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار فیئر ، بیانیے کی جنگ یا نفسیاتی مات کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ ہم کن مراحل سے ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔
تغیر و تبدل کا یہ سلسلہ ازل سے چلا ا رہا ہے او ر ابد تک قائم رہے گا۔ ہم اکیسویں صدی کے ایک ا یسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ترقی یافتہ دنیا میں انسان کا اگلا ممکنہ پڑاو مریخ ہے ، انسان ٢٠٣٠ تک دوسرے سیاروں پر بستیاں ا باد کرنے کا سوچ رہا ہے اور سائنسدانوں نے اس کے لئے بھرپور تیاری بھی کر لی ہے۔ یہ زمین جسے ہم نے گلوبل ولیج کا نام دیا ہے ، کے موجودہ منظرنامے میں یہ سوچنا محال ہے کہ ایک زمانہ تھا جب انسان اپنی بقا کی جنگ تلواروں اور خنجروں سے لڑا کرتا تھا۔ اس وقت قبائل کے درمیان جنگیں ہاتھ سے بنائے تیر تفنگ، منجنیق اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں اور فتح یا شکست کا انحصار فوج کے حجم پر بھی ہوتا تھا ۔ اس دور کو فرسٹ جنریشن وار فیئرکا نام دیا جاتا ہے۔ انسان نے کچھ ترقی کر لی تو ہاتھ سے بنائے، ہتھیاروں، اوزاروں، ہاتھی اور گھوڑے کی جگہ بندوق، رائفل ، ٹینکوں اور توپوں نے لے لی۔ یہ دور سیکنڈ جنریشن وار فئیر کہلایا۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے ہم نے مزید ترقی کی منزلیں عبور کیں ۔ انڈسٹریئل دور میں ترقی کے نئے راستے وا ہوئے۔ ائیر کرافٹ ،جیٹ ، طیارے، اور انواع و اقسام کے میزائل ایجاد ہوئے اس دور میں بری، بحری اور ہوائی افواج کی الگ الگ تخصیص کی جانے لگی ۔ اس دور کو تھرڈ جنریشن وار فئیر کا نام دیا گیا۔ جنگی چالیں ، جاسوس اور جاسوسی کے آلات تو تقریبا ہر دور میں استعمال کئے گئے لیکن فورتھ جنریشن وار فئیر میں کچھ نئے طریقے آزمائے گئے اس دور میں عالمی طاقتوں نے سامنے آئے بغیر اپنے مسلح حامیوں کو میدان میں اتار کر اور کبھی دو گروپوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کئے۔ اس فورتھ جنریشن وار فئیر میں قبضہ کرنے کی خواہش مند طاقت تو پس منظر میں رہتی ہے لیکن وہ کثیر سرمایہ لگا کر ایسے گروہ تشکیل دیتی ہے جو مسلح جدوجہد ، بغاوت اور سازشوں کے جال بچھا کر اپنے آقا کے لئے من پسند سر زمین پر قبضہ کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ فورتھ جنریشن وار فئیر اور ففتھ جنریشن وار فئیر کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگوں ، پراکسی وارز، اور کالے سونے ( تیل ) کے لالچ نے اس دنیا میں آگ لگا دی ہے۔
گزشتہ دہائی میں جب الیکٹرانک میڈیا نے ترقی کی تو ہمارے ملک میں بھی نجی ٹیلی ویثرن چیینلز کا آغاز ہوا ۔ نیوز اور کرنٹ افئیرز کے اس ہنگامہ خیز دور نے ریٹنگ کی ا یسی دوڑ لگائی کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز مٹ گئی۔ کو ئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ جادوئی کھٹولہ جس کے اندر پوری دنیا سمائی ہوئی ہے اتنی جلدی اپنی کشش کھو دے گا۔ ابھی تو چند برس ہی گزرے تھے کہ انسان نے اپنے آپ کو ٹی وی کے سحر سے آزاد کروا کر پوری کائنات کو اپنی انگلیوں کی پوروں کے گرد گھمانے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جی ہاں! انٹرنیٹ نے اس سوشل میڈیا کو جنم دیا جس نے معلومات کی پٹاری ہر بچے، جوان اور بوڑھے کے ہاتھ میں تھما دی اور یہیں سے ففتھ جنریشن وار فئیر میں تیزی آگئی۔ جہاں پہلے پراپیگنڈے کے لئے ٹی وی اور ریڈیو کا سہارا لیا جاتا تھا اب نظریات کی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑی جاتی ہیں۔ یہ اذہان کی جنگ ہے ، چومکھی لڑائی ہے۔ اس میں روایتی جنگ لڑنا ضروری نہیں ، بلکہ میڈیا کے محاذ پر اذہان کو بدلنے کی ایسی جنگ لڑی جاتی ہے کہ نوجوان نسل کو فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بھڑکا کر بغاوت برپا کی جاتی ہے۔ عرب سپرنگ میں سوشل میڈیا کو استعمال کر کے نوجوانوں کو بغاوت پر اُکسا یا گیا۔ ان معاشروں میں موجود معاشرتی اور معاشی نا انصافی سے اکتائی ہوئی عوام کو ورغلانا انتہائی سہل کام ثابت ہوا۔کیمیائی ہتھیاروں کے پراپیگنڈے نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن کیمیائی ہتھیاربرآمد نہ ہو سکے۔ صدام حسین سے لے کر قذافی تک کو ان کی قوموں کے سامنے پھانسی پر لٹکایا گیا لیکن جس امن اور معاشی خوشحالی کے وعدے پر یہ سب کیا گیا وہ کبھی پورا نہ ہوا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ ففتھ جنریشن وار آج کی بات ہے لیکن ایساہرگز نہیں۔ اس طریقہ کار کے مختلف حربے ایک مدت سے دشمن کو زیر کرنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ نازی ہٹلر دور میں ہٹلر پر حملے کے بعد فوج میں اس کی موت کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی ، جاسوسوں کا استعمال کیا گیا تا کہ قوم پر نفسیاتی اثر ہو اور وہ ہٹلر کے خوف سے باہر نکل کر کسی اور کمانڈر کو حکمران تسلیم کر لیں۔یہ ففتھ جنریشن وارکا ہی ایک حربہ تھا۔ موجودہ دور اب اسی اعصابی جنگ کا دور ہے۔ لیکن اب میڈیا اور سوشل میڈیا کے بعد اس وار کا دائرہ کار بہت پھیل چکا ہے۔
اس ففتھ جنریشن وار میں پاکستان دشمنوں کی زد پر ہے۔ لیکن صحافیوں اور ادیبوں کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ آزادی بہت قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے لہٰذا ہم اس کو کسی کے کہنے پر ایسے نہیں جانے دیں گے ، ہماری زباں بندی نہ کی جائے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستانی میڈیا نے یہ آزادی کوڑے کھانے اور سزائیں پانے کے بعد حاصل کی ہے۔ گو کہ ایسے صحافی اب گنتی کے ہیں جنھوں نے واقعی اس آزادی کی قیمت چکائی ہے، لیکن دہشت گردی کی جنگ میں بہت سے صحافیوں نے اپنی جان گنوائی۔ یہی وجہ کہ پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک مما لک میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ففتھ جنریشن وار میں میڈیا کی ذمے داری دوگنا ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جب دشمن گھات میں بیٹھا ہواور آپ کی ثقافت سے لے کر معاشرتی و مذہبی نظریات پر حملے کئے جا رہے ہوں ، معیشت کو کمزور کر کے ریڑھ کی ہڈی توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو میڈیا کو شتر بے مہار آزادی نہیں دی جا سکتی۔
ہم زیادہ دور نہیں جاتے قریب کی مثال لے لیتے ہیں ۔ حال ہی میں ہندوستان نے پلوامہ حملے کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی۔ اس سلسلے میں غازی عبدالرشید کی تصویر چھاپ کے ان کو ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ غازی عبدالرشید کون تھا اور اس کو جاں بحق ہوئے کتنا عرصہ ہوچکا ہے۔ لوگ سمجھتے رہے کہ شائد ہندوستانی اخبار نے غلطی سے شائع کر دیا۔ لیکن یہ ایک پراپیگنڈا تھا جس کے ذریعے مغربی ممالک کو یہ باور کرانا تھا کہ اس حملے کا ذمے دار بھی پاکستان ہے۔ یہ فیک نیوز کا دور ہے ۔ فیک نیوز کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ یہ ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ فلاں خبر غلط ہے اور پراپیگنڈا ہے۔ اسی ففتھ جنریشن وار کے ذریعے امریکہ کے گزشتہ انتخابات کو ہیک کیا گیا۔ ہیلری کلنٹن کو بھی فیک نیوز پراپیگنڈے کا سامنا رہا۔ اس سلسلے میں کیمبرج اینیلیٹیکا نے اہم کردار ادا کیا۔ کروڑوں صارفین کا ڈیٹا بیچا گیا لیکن لوگ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر پائے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے ہر کلک پر ہماری شناخت دوسرے تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ ہم کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں ،کس سے مل رہے ہیں، ہماری پسند و نا پسند کیا ہے؟ ہمارے رحجانات کیا ہیں یہ سب بھاری قیمت میں بکتے ہیں اور پھر ان معلومات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں ہمارے اداروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ سی پیک کو گزند پہنچانے کے لئے بھی ایسے ہی حربے استعمال کئے جا رہے ہیں کبھی چین کو پاکستان سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ریاست مخالف بیانیہ ترتیب دے کر پاکستان کا نام بلیک لسٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔ ستم طریفی یہ ہے کہ یہ بیانیہ ترتیب دینے کے لئے اپنے ہی لوگوں کو ورغلایا اور پھسلایا جاتا ہے تو کبھی بھاری معاوضے پر ادارے یا شخصیات بک جاتی ہیں۔ پاکستان کے اندر فرقہ واریت نے سر اٹھایا تو ففتھ جنریشن وار نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ گروہوں کے بیچ باہمی اختلافات، اور شدت پسندی کو ہوا دی گئی۔ ہر ملک کسی نہ کسی نظریئے پر قائم ہوتا ہے اور اس کی بقا بھی اسی نظریئے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ دشمن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بقاء کی اس جنگ میںمخالف کو شکست دی جائے اور اس کا بہترین طریقہ سافٹ پاور کو ملک کے خلاف استعمال کر کے چوٹ پہنچانا ہوتا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان ہی اس قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں۔ نوجواں جہاں کسی ملک کی طاقت ہوتے ہیں وہیں اگر دشمن انہیں برین واش کر کے ملک کے خلاف استعمال کر لے تو اس سے بڑی تباہی کوئی نہیں۔ کامیاب یا ناکام لابنگ بھی ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں اہم عہدوں پر اپنے من پسند لوگ لگا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرائی جاتی ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کا کیس اس کی واضح مثال ہے۔ ہندوستان نے وہاں اپنے لوگ تعینات کرا رکھے ہیں اور اس کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح لابنگ کر کے اپنے جاسوس کو بچا کر لے جائے۔
پاکستان کو براہ راست ففتھ جنریشن وار کا سامنا اس لئے بھی ہے کہ تیس لاکھ سے زائد افغانی گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک میں بس رہے ہیں۔ اس ملک میں افغانیوں کی نئی نسل پروان چڑھ چکی ہے۔ اس کے باوجود بارڈر پار سے شرانگیزیاں جاری رہتی ہیں۔ یہاں پر ایسے گروہوں کو منظم کیا جاتا ہے جو بارڈر پار سے ڈکٹیٹ کئے ہوئے خاص مقاصد کے تحت فوج کے خلاف ایک کمپین کا آغاز کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی پشت پناہی حاصل کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میںحالیہ دنوں میں ایک گروہ نے سراٹھایا جس نے اپنے حقوق کی آڑ میں مسلح افواج اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا ۔ صوبائی عصبیت اور پاک افواج سے نفرت اُن کے ہر پیغام کا حصہ ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ ففتھ جنریشن وار کا ہی ایک حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس سازش کاحصہ بن جائیں تو ملک تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس لڑائی میں حریف توپ ٹینک یا میزائل کا استعمال نہیں کرتا بلکہ کسی مہرے کے منہ میں ٹھونسے جانے والے الفاظ اور دماغوں میں ڈالے جانے والے خیالات ہی لیتھل ویپن بن کر کسی معاشرے کی جڑوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ داعش کے منظم گروپ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بہکاتے ہیں اور ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان لڑکے لڑکیاں بھی ان کے چنگل میں پھنس کر اپنا گھر بار چھوڑ کر ان کے پاس چلے جاتے ہیں۔ آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہائبرڈ وار کا جال کیسے پھیلایا جاتا ہے کہ پہلے ایک وقوعہ ہوتا ہے پھر اس کا ملبہ کسی پر ڈالنے کے لئے باقاعدہ چالیں چلی جاتی ہیں اور میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ممبئی حملے ہوں، نائن الیون یا پلوامہ اٹیک ۔۔۔ حملہ ہوتے ہی بغیر کسی تحقیق کے الزام پاکستان پر لگایا گیا، پھر فیک نیوز کا سہارا لیا گیا۔ سوشل میڈیا ، ٹی وی ، اخبارات میں اپنے حواریوں کے ذریعے دشمن نے طرح طرح کے پینترے بدلے، جال بُنے ،چالیں چلیں ۔ اس میں بڑے بڑے جغادری مہروں کے طور پر استعمال ہوئے۔ لیکن صد شکر کہ دشمن لاکھ کوششوں کے باوجود ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ لیکن اب میڈیا اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی بات کی جا رہی ہے جو خوش آئند نہیں لیکن مجبوری ہے کیونکہ ہم نے اپنی آزادی کا ناجائز استعمال کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران نازک مواقع پر ہمارے نشریاتی اداروں نے ذمے داری کا ثبوت نہیں دیا۔ ہم اپنی لکھنے اور بولنے کی آزادی کو صحیح طور استعمال نہیں کر پا ئے۔ آگے تو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دور ہے۔۔ اگلا دور وہ ہے جب انسان کے جسموں میں چپ لگائی جائے گی۔ اقوام تو اس حد تک اپنے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کے ارادے باندھ رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں بولنے اور لکھنے کی جتنی آزادی ہے، بڑی بڑی جمہوریتوں میں اتنی آزادی نہیں لیکن ہم اس آزادی کو سنبھال نہیں پا ئے ۔ پاکستان کے نشریاتی اداروں، اخبارات، سکالرز، دانشمندوں، صحافیوں ، سوشل میڈیاایکٹوسٹوں کو وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر اپنی آزادی کا استعمال کرنا چاہئے۔یہ ایک انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور قومی فریضہ بھی۔ آزادی ضرور ہونی چاہئے مگر اُسے تباہی کا پیش خیمہ نہیں بننا چاہئے۔ کیونکہ آخر کار پاکستان ہے۔ تو ہم سب ہیں۔
ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح اگرچہ مغربی ماہرین حرب نے ایجاد کی تھی لیکن وہاں یہ اصطلاح زیادہ تر سائبر وار کے لیے استعمال ہوتی ہے،گزشتہ تین چار سال کے دوران اگر کسی ملک میں اس اصطلاح کا سب سے زیادہ تذکرہ ہوا تو وہ پاکستان ہے کیونکہ پاکستان چلانے والوں کو یقین ہے کہ اس وقت پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار کے تحت پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا گیا ہے۔ یہ تشویش یوں بجا ہوسکتی ہے کہ جن ممالک میں نسلی، علاقائی، مذہبی، فرقہ وارانہ ، سماجی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر فالٹ لائنز موجود ہوں تو اس کے دشمن روایتی جنگ کی بجائے پروپیگنڈے کی جنگ کے آپشن کو استعمال کرتے ہیں اوربدقسمتی سے پاکستان ان فالٹ لائنز کے حوالے سے خودکفیل ہے۔ امریکی میجر شینن بیبی کا کہنا ہے کہ ففتھ جنریشن وار کا سب سے بڑا عامل محرومی ہے اور ماشاء اللہ پاکستان میں ہر طرف محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ اسی طرح ایک اور امریکی لیفٹیننٹ کرنل سٹینٹن لکھتے ہیں کہ ففتھ جنریشن جنگیں محرومی کے جزیروں میں لڑی جائیں گی اور ماشاء اللہ پاکستان اس حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔ہمیں بتایا جاتا رہا اور شاید ٹھیک بتایا جاتا رہا کہ اس وقت امریکا ، انڈیا اور دیگر دشمن ممالک مل کر ففتھ جنریشن وار کے تحت پاکستانی ریاست کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہیں۔ بلوچستان، گلگت بلتستان ، پختونخوا اور کراچی اس کے خصوصی نشانے پر ہیں، یہاں کے عوام کی محرومیوں کو استعمال کرکے انہیں ریاست سے متنفر اور اس کے خلاف صف آرا کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔اسی طرح مذہب اور فقہ کی بنیاد پر بھی انتشار کو ہوا دی جارہی ہے، بے یقینی کی فضا پیدا کرکے پاکستانی معیشت تباہ کرنے پر کام ہورہا ہے، اس تناظر میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ پاکستانی سیاست ، عدالت اور بالخصوص میڈیا کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا اور ان پر ریاستی اداروں کی گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ضروری سمجھا گیا جبکہ پی ٹی آئی کی سرپرستی کے پیچھے بھی دیگر عوامل کے ساتھ یہ سوچ بھی کارفرما تھی۔ہوسکتا ہے یہ کام قوم کے وسیع تر مفاد میں پوری نیک نیتی سے کیا گیا ہو لیکن بعض اقدامات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سے ففتھ جنریشن وار میں دشمن کاکام مشکل ہونے کی بجائے آسان ہورہا ہے۔
کہا جاتا ہے اور بالکل درست کہا جاتا ہے کہ میڈیا ففتھ جنریشن وار کا اصل ہتھیارہے اور نشانہ بھی، اب ففتھ جنریشن وار کے تناظر میں ضروری تھا کہ پاکستانی میڈیا کومزیدتوانا کرکے کسی نہ کسی حد تک انڈین اور امریکی میڈیا کے مقابلے کے قابل بنایا جاتا لیکن یہاں الٹ ہوا۔ ففتھ جنریشن وار کی آڑ میں قومی میڈیا کا بیڑہ غرق کردیا گیا، پہلے اسے ففتھ جنریشن وار میں اپنے ہتھیار کی بجائے دشمن کا ہتھیار باور کرایا گیا، پھر اسے تقسیم کیاگیا، پھر آپس میں لڑا کر اور پابندیاں لگا کر بے وقعت کیا گیا۔
۔۔۔۔۔

عالمی امن کے لئے خطرہ
اسلامو فوبیا کی آڑ میں پیدا کئے
جانے والے تنازعات اور ان کا حل

مسلمانوں سے شدید نفرت اور اسلامو فوبیا کی آڑ میں پیدا کئے جانے والے تنازعات نے سرحدوں کے اندر اور سرحدوں کے باہر مسلح تصادم اور جنگوں کے بہت سے دلخراش واقعات رقم کئے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔امن کو سبوتاژ کرنے والا ہر انسانی رویہ اور عمل چاہے وہ سرحدوں کے اندر شورش برپا کرے یا سرحدوں کے باہر جارحیت کا باعث بنے ہمیشہ سے قابلِ مذمت اور قابلِ گرفت رہا ہے۔ اور ایسے ہر عمل کی فوری روک تھام اور تنازعات کے مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کے لئے دنیا بھر میں مختلف ادارے اور فورمز کی بنیاد ڈالی گئی جن میں لیگ آف نیشن اور اقوامِ متحدہ قابلِ ذکر ہیں۔

لیگ آف نیشن اپنے قیام کے مقاصد کے عدم حصول کے باعث اپنی موت آپ مرگئی جبکہ اقوامِ متحدہ (جس کے تحت ہر سال 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے ) بعض طویل عرصہ سے موجود تنازعات (مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین) کے حل میں ناکامی کے ساتھ ساتھ بعض تنازعات ( مشرقی تیمور، سوڈان) کے حل میں جانبدارانہ تیزی کے ساتھ دنیا میں امن کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہے۔
دنیا میں موجودہ تنازعات کا حل منتج ہے امن پر۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال سری لنکا میں تامل ٹائیگرز اور سرکاری افواج کے مابین سالہاسال سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔ دنیا میں سرد جنگ کے اختتام پر تنازعات اور تشدد کے واقعات میں کمی کی امید کی جا رہی تھی۔ لیکن 9/11 کے واقعہ نے دنیا کو ایک نئے چیلنج دہشت گردی سے متعارف کروادیا ہے۔ جس کی روک تھام کے سلسلے میں ہونے والے اقدامات (ردعمل ) نے دنیا کو پُر امن بنانے کی بجائے مزید بے امن کر دیا ہے۔ اور پاکستان، افغانستان اور عراق اس ردعمل ( دہشت گردی کے خاتمہ) کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
امریکا کے نیشنل کائو نٹر ٹیرر ازم سینٹر کے اعداد وشمار کے مطابق 2005 سے 2011 تک دنیا بھر میں دہشت گردانہ کاروائیوںکے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا آدھے سے زائد حصہ عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں پر مشتمل تھا۔ 2005 میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے باعث ہونے والی 64 فیصد ہلاکتیں ان تینوںممالک میں ہوئیں۔ 2006 میں یہ تناسب بڑھ کر 74 فیصد ہو گیا۔ 2007 میں اس تناسب میں مزید اضافہ ہوا اور یہ 77 فیصد تک جا پہنچا جبکہ 2008 میں یہ کم ہوکر 59 فیصد پر آگیا لیکن اُس کے بعد اس تناسب میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا اور یہ 2011 تک 68 فیصد تک پہنچ گیا۔
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے پاکستان کو دہشت گردی کے جس آسیب کا شکار بنایا ہے۔ اس عفریت نے 2003 میں 189 افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ 2013 میں اس کے شکنجے میں4160 افراد آئے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسڈیز اسلام آباد کے ریسرچ پیپر ’’ امپیکٹ آف ٹیررازم آن پاکستان ‘‘ کے ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ عرصہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی سے وابستہ اموات میں 2101 فیصد اضافہ ہوا۔ ان اموات میں اضافہ کی بڑی وجہ امریکی ڈرون حملے اور افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے قریب بھارت کے بڑی تعداد میں قائم ہونے والے قونصل خانے ہیں جو پاکستان کے امن کو تہہ و بالا کرنے کا موجب بنے اور بن رہے ہیں۔
مستقبل کا یہ امکانی منظر نامہ قابلِ بحث ہو سکتا ہے۔ لیکن ماضی سے حال تک امن کے قیام اور اس کو تہہ و بالا کرنے کا سفر حقیقت کا حامل ہے۔ جو اس پہلو کو عیاں کر رہا ہے کہ ماضی کی طرح اس وقت بھی دنیا کے امن کو نقصان پہنچانے والے تنازعات موجود ہیں۔ جو 2013 کے دوران 20 جنگوں، 25 محدود جنگوں اور 176 تشدد پر منتج ہونے والے بحرانوں کی صورت میں ظہور پذیر ہوچکے ہیں۔
جرمنی کے Heidelberg انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل کانفلیکٹ ریسرچ کے جاری کردہ کانفلیکٹ بیرو میٹر 2013 کے یہ اعدادو شمار اور غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت، روس یو کرائن تنازعہ، شام، عراق اور پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کی صورتحال، پاکستان بھارت سرحد پر بھارت کی اشتعال انگیزی پر مبنی جارحانہ اقدامات، پاکستان افغانستان سرحد پر افغانستان کی جانب سے غیر ریاستی عناصر کی دہشت گردانہ کاروائیاں، افریقہ کے مختلف ممالک میں خانہ جنگی، نسل کشی اور قتلِ عام کے واقعات وغیرہ پُر امن دنیا کے خواب کو چکنا چور کر رہے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں ایک طرف جنگی طاقت میں اضافہ کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف جارحیت کے خطرات کے دفاع کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی سکیورٹی بہتر کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تو عسکریت پسند اپنے عزائم کو پورا کرنے کا سامان حاصل کرنے کی سعی بھی کر رہے ہیں۔ یہ تمام صورتحال اسلحہ کے زیادہ سے زیادہ حصول کے سلسلے میں اس کی دھڑا دھڑ خرید پر آکر ٹھہرتی ہے۔
عالمی امن پر کام کرنے والے بین الاقوامی تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری)کے مطابق2011 میں دنیا میں 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں ( چین کی کمپنیوں کے علاوہ) نے 410 ارب ڈالر مالیت کا بھاری اسلحہ فروخت کیا۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ڈیپارٹمنٹ آف پبلک انفارمیشن کے مطابق دنیا میں ہر سال 04 ارب ڈالر مالیت کے ہلکے ہتھیار فروخت ہوتے ہیں۔ 410 ارب ڈالر مالیت سے زائد اسلحہ سازی کی یہ صنعت کیا دنیا میں تنازعات کوختم ہونے دے گی؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے کیونکہ جو ممالک دنیا میں اس وقت امن کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔
ان ہی ممالک کی اسلحہ ساز کمپنیاں دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت سے اپنے ممالک کو معاشی توانائی مہیا کر رہی ہیں۔ SIPRI کے اعداد و شمار اس پہلو کی پردہ کشائی یوں کرتے ہیں کہ 2008 سے 2012 تک دنیا میں فروخت ہونے والے اسلحہ کی کل مالیت کا 30 فیصد امریکی کمپنیوں نے کمایا جبکہ 26 فیصد اسلحہ کی عالمی کمائی روس کی کمپنیوں کے حصہ میں آئی۔ جرمنی نے اس عرصہ کے دوران اسلحہ کی فروخت سے دنیا کی تیسری بڑی مالیت حاصل کی جو عالمی فروخت کا 7 فیصد تھی۔
اس کے علاوہ فرانس، چین،برطانیہ، اسپین، اٹلی، یوکرائن اور اسرائیل یہ اُن دس ممالک کی فہرست ہے جنہوں نے 2008 سے 2012 کے دوران سلحہ کی فروخت کی عالمی مالیت کا مجموعی طور پر 87 فیصد حاصل کیا۔ ان ممالک میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے وہ تمام مستقل ارکان موجود ہیں جو دنیا میں قیام امن کے مقاصدکو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں جو ایک طرف امن کی بات کرتے ہیں تودوسری طرف امن کو برباد کرنے والے ہتھیاروں کی فروخت میں مصروف ہیں یعنی بغل میں چھری منہ میں رام رام۔ اسی طرح 2009 سے 2013 کے دوران امریکا، روس، جرمنی، چین اور فرانس ان پانچ بڑے اسلحہ بر آمد کنندگان نے عالمی مارکیٹ کا 74 فیصد حصہ کمایا۔
اسی سکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت کے حصول میں مصروف بھارت اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے اپنی جنگی قوت میں مسلسل اضافہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے اُس نے 2008 سے 2012 کے دوران اسلحہ کی سب سے زیادہ مالیت کی خریداری کی جو دنیا میں فروخت ہونے والے اسلحہ کا 12 فیصد حصے پر مشتمل تھی۔ دوسری بڑی خریداری چین کی تھی جس نے مذکورہ عرصہ کے دوران 6 فیصد عالمی اسلحہ درآمد کیا۔ پاکستان عالمی سطح پر اسلحہ کی درآمد کے حوالے سے 5 فیصد حصہ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان کی اس خریداری کی بنیادی طور پر دو بڑی وجوہات باعث بنیں۔
ایک تو ملک کی اندرونی سکیورٹی کو دہشت گردوں کی صورت میں درپیش چلینجز اور دوسری بھارت کا بڑھتا ہوا جنگی جنون ۔کیونکہ یہ امر روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت اسلحہ کے جو ڈھیر لگانے میں مصروف ہے اس کا پہلاہدف پاکستان دوسرا خطہ میں اپنی دھونس اور بالا دستی قائم کرنا اور تیسرا ہدف ایک بڑی فوجی قوت کی صورت میں ابھرنا ہے۔ بھارت کے یہ جارحانہ عزائم پاکستان کو اپنے اندرونی اور بیرونی دفاع کے لئے ہر ممکن انتظام کرنے کے حوالے سے چوکس کئے ہوئے ہیں۔
بھارت، چین اور پاکستان کے علاوہ 2008 سے 2012 کے دوران جن دیگر ممالک نے سب سے زیادہ مالیت کا اسلحہ خریدا ان میں بالترتیب جنوبی کوریا، سنگاپور، الجیریا، آسٹریلیا، امریکا، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب شامل ہیں۔ ان 10 ممالک نے مجموعی طور پر مذکورہ عرصہ کے دوران عالمی سطح پر فروخت ہونے والے اسلحہ کا نصف حصہ درآمدکیا۔ اگر ہم 2009 سے 2013 کے دوران دنیا میں اسلحہ کے پانچ بڑے درآمد کنندگان کی فہرست پر نظر ڈالیں۔ تو بالترتیب بھارت، چین، پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب اس فہرست میں موجود ہیں ۔ ان پانچ ممالک نے مذکورہ عرصہ کے دوران عالمی سطح پر درآمد شدہ اسلحہ کا 32 فیصد حصہ (مالیت کے حوالے سے) حاصل کیا۔
بھارت کی اسلحہ خریداری میں 2004 سے 2013 تک 111 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اور اس عرصہ کے دوران بھارت نے عالمی سطح پر ہونے والی اسلحہ کی درآمدات کا 14 فیصد حاصل کیا جو پاکستان اور چین سے تقریباً تین گنا زائد ہے۔ یوں اس وقت بھارت دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ بھارت اپنے اسلحہ کی درآمدات کا 75 فیصد روس، 7 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسرائیل سے حاصل کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان اپنے اسلحہ درآمد کا 54 فیصد چین اور 27 فیصد امریکا سے لیتا ہے۔ پاکستان کا 2004 سے 2008 اور 2009 سے 2013 کے عرصہ میں اسلحہ درآمدات میں119 فیصد اضافہ ہوا۔
دنیا میں اسلحہ کی تیاری اور حصول کا آخر کار نتیجہ انسانی ہلاکتوںاور انفاسٹرکچر کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 1989 سے اب تک دنیا میں 128 مسلح تصادم نے ہر سال کم ازکم اڑھائی لاکھ افراد کی جانیں لیں۔ جبکہ تنازعات سے مبرا علاقوںمیں ہتھیاروں کا استعمال ہر سال 3 لاکھ افراد کو موت کی آغوش میں سلا دیتا ہے۔ یہی ہتھیار تشدد کے واقعات میں استعمال ہوتے ہیں اور لوگوں کی اموات اور اُنھیں زخمی کرنے کا موجب بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار سے مرتب کردہ تشدد کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی عالمی درجہ بندی میں گوئٹےمالا سرفہرست ہے۔ جہاں تشدد کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 74.9 اموات فی لاکھ آبادی ہے۔ اس فہرست کے پہلے دس ممالک میں زیادہ تر کا تعلق افریقہ کے خطے سے ہے۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں نیپال 10.4 اموات فی لاکھ کے ساتھ خطے میں سر فہرست اور دنیا میں 73 ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش دوسرے، بھوٹان تیسرے، پاکستان چوتھے، بھارت پانچویں، سری لنکا چھٹے، افغانستان ساتویں اور مالدیپ آٹھویں نمبر پر ہے۔
تشدد، مسلح تصادم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یہ سب کچھ امن کے متضاد عوامل ہیں۔ جن کی وجہ سے ایک اور انسانی المیہ سرحدوںکے اندر اور سرحدوں کے باہر ہجرت کی صورت میں جنم لیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق دنیا میں ایک کروڑ 67 لاکھ مہاجرین اپنے ممالک کو چھوڑ کر دیگر ملکوں میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعدادکی میزبانی کر رہا ہے اور اب ملک میں آئی ڈی پیز کی بھی تعداد قابلِ ذکر ہے۔ جو جون 2014 تک IDMC کے مطابق 11 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر امن اسلحہ کے استعمال سے خراب ہوتا ہے تو اُس کی بحالی اور اس کا قیام بھی اسلحہ کے استعمال اور اُس کی موجودگی ہی سے ممکن ہے۔ شاید یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ جتنی رقم دنیا بھر میں فوجی ضروریات اور انتظامات پرخرچ کی جاتی ہے۔ اس کا اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر حصہ بھی اگر تعلیم، صحت، خوراک ، پینے کے صاف پانی اور سینی ٹیشن جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی پر خرچ کیا جائے تو شاید 1747 ارب ڈالر مالیت کے فوجی اخرجات کی نوبت ہی نہ آئے۔دنیا کو بسانے اور اُجاڑنے کے اخراجات کا موازنہ اس امر کی زیادہ بہتر وضاحت کرتا ہے۔
2010 میں اقوامِ متحدہ نے ترقیاتی اور انسانی فلاح وبہبود اور امداد پر 24 ارب ڈالر خرچ کئے۔ یہ رقم دنیا میں انسانی ترقی کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے یقیناً کم ہے۔ اقوام متحدہ نے 2020 تک بنیادی سماجی ضروریات کی یونیورسل کوریج کے حصول کے لئے 206 سے 216 ارب ڈالر سالانہ ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن جو عالمی برادری اپنی فلاح کے لئے اقوامِ متحدہ کو فنڈز اُس کی ضرورت کے مطابق آج بھی مہیا نہیں کرتی وہ کس طرح 2020 کے ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے اس کی مالی ضروریات پورا کرے گی؟ اس کے برعکس دنیا کے معاشی وسائل کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر ہر سال صرف کیا جاتا ہے۔ جس کی مالیت 2013 میں 1747 ارب ڈالر تھی۔
جنوبی ایشیاء کے چھ ممالک جو سارک تنظیم کے ارکان ہیں۔ ان ممالک نے 2013 کے دوران 60231 ملین ڈالر فوجی اخراجات کئے۔ خطے کی سطح پر بھارت فوجی اخراجات کے حوالے سے سرفہرست رہا جبکہ پاکستان دوسرے، سری لنکا تیسرے، بنگلہ دیش چوتھے، افغانستان پانچویں اور نیپال چھٹے نمبر پر رہے۔ خطے میں 1992 سے 2011 تک فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ جاری رہا جس کے بعد 2011 سے 2012 کے دوران اس میں کمی ہوئی لیکن اگلے سال اس میں پھر اضافہ ہوا۔
گزشتہ عشرے (2004-13 ) میں ہونے والے اضافہ کی ایک وجہ افغانستان کے فوجی اخراجات کا آغاز اور اس میں مسلسل اضافہ ہے۔ افغانستان دنیا کے اُن 23 ممالک میں اس عرصے کے دوران اول نمبر پر رہا جنہوں نے اپنے فوجی اخراجات میں دگنا سے لے کر چھ گنا تک اضافہ کیا۔ 557 فیصد کا اضافہ افغانستان کے ملٹری بجٹ میں 6 گنا اضافہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اور 2012-13 کے دوران دنیا بھر میں سب سے زیادہ انفرادی فیصد اضافہ بھی افغانستان کے فوجی اخراجات کیصورت میں سامنے آیا۔ جہاں ایک سال کے دوران ان اخراجات میں 77 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
دنیا میں ایک سال کے دوران فوجی اخراجات میں 26 فیصد اضافہ عالمی سکیورٹی کی صورتحال کی واضح نشاندہی کر رہا ہے کیونکہ کئی پرانے تنازعات کی موجودگی میں نئے تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں جو حال سے مستقبل تک عالمی امن کو متاثر کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان تنازعات میں پاک بھارت آبی تنازعہ نہایت اہم ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر نے اس تنازعہ کی بنیاد ڈالی اور پاکستان کے پانی کو روکنے اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سیلابی پانی چھوڑنے کے واقعات اس تنازعہ کی شدت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح ISIS اور داعش کی صورت میں ابھرتے چیلنجز بھی مستقبل میں عالمی سکیورٹی کے لئے کسی آزمائش سے کم نہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے تنازعات کا بیج بویا جا رہا ہے۔ اور جب ان کی فصل پکے گی تو عالمی امن کی کیا صورتحال ہوگی۔ اس کی ایک جھلک پولیٹیکل سائنٹسٹ James G. Blight اور سابق امریکی ڈیفنس سیکرٹری Robert McNamara کی اس پیش گوئی سے واضح ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا بھر میں جنگوں سے وابستہ اموات کی تعداد اوسطً30 لاکھ سالانہ تک ہو سکتی ہے۔
امن کی بربادی نام ہے ڈر اور خوف کا اور انسان میں ڈر اور خوف کا مادہ ہی اسے اپنی اصلاح کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ ماضی سے سبق سیکھنا اور مستقبل میں ان غلطیوں کو دوہرانے سے بچنا ہی دانشمندی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ انسان پھر بھی نہیں سمجھتا اور اپنی تخریب کا سامان کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔
۔۔۔۔۔

اسلامو فوبیا کے خلاف
نظریاتی جنگ

“نظریاتی جنگ” کے لیے “جہاد کبیرہ” (الفرقان 25:52) میں کوئی امر مانع نہیں، حکومت یا کسی ادارہ سے فتوی یا اجازت کی ضرورت بھی نہیں، صرف مظبوط ارادہ ، پلان اور تنظیم کی ضرورت ہے- کچھ تجاویز ہیں:
یونیورسٹیز ، دارالعلوم اور اعلی تعلیمی اداروں میں اس “نظریاتی جنگ” (جہاد) کے سبجیکٹ پر تعلیم و تحقیق کا علیحدہ شعبہ قائم ہو، جو “بین المذاھب”، خاص طور پر مسیحیت ، صیہونیت ، ہندتوا اور بدھسٹ شدت پسندی، اسلام دشمنی، انسانیت دوستی ، برداشت وغیرہ پر ان کی مقدس کتب کے نظریاتی ایکسپرٹس تیار کرے-
جدید لائنز پر سلیبس تیار کریا جائے- امریکہ اور یورپ میں پاکستانی اور دوسرے مذاھب کے ماڈریٹ سکالرز سے رابطہ کر کہ، میٹریل اور ویڈیو لیکچرز کا بندوبست کیا جا سکتا ہے-
تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے مختصر دورانیہ کے سرٹیفکیٹ کورسز، ان لائن کورسز، ورکشاپ، سیمنارز کا اہتمام کیا جاۓ-
پرجوش رضاکاران کی تنظیم جو انٹرنیٹ پر انگریزی اور دوسری بین الاقوامی زبانوں میں اسلام دشمن باطل نظریات (اسلاموفوبیا) کا مدلدل جواب دے سکیں-
قرآن اور اسلام کے اصل پیغام کو بھی پھیلا سکیں-
ویب سائٹس ا ور سوشل میڈیا کے ٹول (tool) کو موثر انداز میں استعمال کریں-

اسلامی دنیا کی تباہی کا منصوبہ
– برنارڈ لوئس پلان

کچھ عرصہ پہلے امریکی وزارتِ دفاع کے حوالے سے پاکستان کا ایک مختصر اوربدلہ ہوا نقشہ منظر عام پرآیا ۔اس پر وطن دوست حلقوں میں تشویش پیدا ہونا ایک فطری سی بات تھی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ امریکہ اوراس کے ساتھی ایک عرصے سے عالم اسلام کو مزید چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں..
اس نقشے پر نظر ڈالنا ہی کافی ہے بہر حال رالف پیٹرز کے لکھے ہوئے مضمون میں شامل کیے گئے اس نقشے کے چند نکات ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:

  1. فرہ ،باد غیس اور ہرات کو ایران میں شامل کردیا گیا ہے
    2۔پحتون خواہ جو اس وقت پاکستان کا حصہ ہے، اسے افغانستان سے ملحق کردیا گیا ہے
    3۔ نیمروز کو نئی ریاست آزاد بلوچستان کا حصہ بنادیا گیا ہے
    4۔ ایرانی صوبہ سیستان وبلوچستان آزاد بلوچستان میں شامل کردیا گیا ہے
    5۔کردستان کے نام پر نیا ملک بنایا گیا ہے ،
    6۔ ایرانی صوبہ کردستان اس میں شامل کردیا گیا ہےاسی طرح عراق اور ترکی کے کرد علاقے بھی اس میں شامل کردیے گئے ہیں
    7۔کشمیر کو ایک الگ نیا ملک بنا دیا گیا ہے
    8۔عراق کو تین ملکوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک حصہ آزد کردستان میں شامل کیا گیا ہے جبکہ سنی عراق اور شیعہ عراق دومستقل آزاد ریاستیں بنا دی گئی ہیں
    9۔وٹیکن سٹی کی طرزپر مسلمانوں کی مذہبی ریاست بنانے کے لئے حرمین شریفین کا علاقہ تجویز کیا گیا ہے جسے سعودی عرب سے الگ کرکے ایک نئی ریاست کا درجہ دیا گیا ہے
    10یمن سے ملحقہ علاقے جہاں شیعہ کی آبادی ہے سعودیہ سے الگ کرکے اسے یمن میں شامل کیا گیا ہے۔
    11۔ اس طرح سے سعودی خاندان کے لئے نسبتاً چھوٹی ریاست تجویز کی گئی ہےسعودی ریاست کے شمالی علاقے اردن کی ریاست میں شامل کیے گئے ہیں۔
    12۔ اس طرح سے اردن کی سرحدوں کونئی مقدس ریاست سے جوڑ دیا گیا ہے
    13۔شام کی کرد آبادی والے علاقے کو کردستان کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے
    14۔شام کے جنوبی علاقے لبنان میں شامل کرکے گریٹر لبنان بنایا گیا ہے ایران اور چین کا زمینی راستہ پاکستان سے کاٹ دیا گیا ہے۔
    حال ہی میں پاکستان کا جو نیا مجوزہ نقشہ نئے سرے سے امریکی وزارتِ دفاع کے حوالے سے سامنے آیا ہے وہ اسی نقشے کے مطابق ہے۔
    اس نقشے کے مطابق کبھی عراق کے نام سے نیا نقشہ شائع کردیا جاتا ہے جس میں کردستان، سنی عراق اور شیعہ عراق کے نام سے تین ملک دکھائے جاتے ہیں
    کبھی ایران کا نیا نقشہ شائع کردیا جاتا ہے اورکبھی افغانستان وغیرہ کا۔ ہم یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ عرض کرتے چلیں کہ بلوچ لبریشن آرمی، تازہ دہشت گردی ، بیانات اوردھمکیاں، کشمیر سرحد پر بھارتی افواج کا دباو ان سب باتوں کو کوئی سادہ اندیش ہی جدا جدا واقعات کے طور پر دیکھ سکتا ہے،
    ہم تو اسے ایک مجموعی پلان کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں اگرچہ کوئی ایک فرد یا گروہ شعوری طور پر اس پلان کا حصہ نہ ہو۔
    پاکستان اور فوج اس پلان میں رکاوٹ ہے ۔۔ ففتھ جنریشن وارفئیر میں صحافی، سوشل ، پرنٹ ، الیکٹرونک میڈیا، سیاستدان، این جی اورز، لبرل سیکولر برگیڈ اور بہت لوگ شامل ہیں ان پر نظر رکھیں اور نیوٹرلائیز کریں ۔۔
    ایسے میں پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا اس” جرم ضعیفی“سے توبہ کا بھی کوئی راستہ ہے؟کیا بے بسی کے درد کا کوئی درمان ہے؟
    ہم کہیں گے کہ ہاں ہے ۔شرط یہ ہے کہ کوئی قائل اور مائل ہوجائے۔ جب تک”تن بہ تقدیر“ کی کیفیت رہے گی ہمارے غم کاچارہ نہیں ہوپائے گا۔

اسلامو فوبیا اور اسلامی تعاون
تنظیم (او آئی سی) کا کردار

بیسویں صدی کی دوسری دہا ئی میںعرب اور عجم کا مسئلہ یہ رہا کہ عجم خصوصا ً برصغیر کے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے مسلمان اسلامی عقیدے کے مطابق حقیقت میں بھائی بھائی ہو کر متحد ہو جائیں مگر دوسری جانب عرب کے امیر و شیوخ بادشاہ بننے کے تمنائی عرب نیشنلزم پر زور دیتے تھے اور ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف تھے جب کہ ترکی بھی اُس وقت اپنی کمزوریوں کی وجہ سے مردِ بیمار کہلاتا تھا اور مرکزی مشرقی یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں بھی وسیع رقبوں کے کئی علاقے گنوا چکا تھا۔
یوں جب 1914 ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو ترکی برطانیہ ، روس ، فرانس، امریکہ اور دیگر ملکوں کے اتحاد کے مقابلے میں ترکی اس لیے جرمنی کے ساتھ مل کر جنگ لڑا تھا کہ ایک جانب تو فتح کی صورت میں اُسے اُس کی سابق مقبوضات دوبارہ مل سکتی تھیں تو ساتھ ہی وہ مستقبل میں برطانیہ ، فرانس ، اٹلی اور روس کے مقابلے میں مستحکم ہو سکتا تھا مگر پہلی عالمی جنگ کے اختتام 1918 ء پر جرمنی اور ترکی کو شکست ہوگئی۔
لیکن شکست کے باوجود ترک فوج کے جنرل مصظفٰی کمال پاشا نے بڑی جدوجہد سے 1923-24 ء تک ترکی سے انگریزوں کو نکال دیا مگر اتاترک مصطفٰی کمال پاشا نے بھی ترک قوم پرستی اور سیکولرازم کی پالیسی اپنائی یہ عربوں کے خلا ف ردعمل بھی تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل کے دوران عرب دنیا میں مشہور انگریز ایجنٹ لارڈ لارنس المعرف لارنس آف عریبیہ کے ساتھ مل کر عرب امیر اورشیوخ نے بادشاہتیں حاصل کرنے کے لیے ترکوں کو جنگ کے دوران ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جو ترک خلافت کی مکمل شکست کا سبب بنا جب کہ اس کے مقابلے میں برصغیر کے مسلمانوں نے جنگ کے دوران اور جنگ کے فوراً بعد ترکی کی بہت مدد کی یہاں تک کہ بچیوں کے جہیز اور زیورات تک چندے میں دیئے۔
پھر 1918 ء میں ترک خلافت سلطنت ِ عثمانیہ کی شکست کے بعد ہندوستان میں تحریک خلافت چلائی کہ انگریزوں پر دباؤ ڈال کر ترکی کی خلا فت کو بحال کر وایا جا سکے مگر جب خود مصطفٰی کمال پا شا نے خلافت کی بجائے ترکی کو سیکو لر اور جمہوریہ بنا دیا تو پھر برصغیر میں بھی یہ تحریک ٹھنڈی ہوگئی مگر مسلمانوں میں عالمی سطح پر اسلامی اتحاد کی خواہش باقی رہی۔ پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد عرب قوم پرستی قبائلیت کی گروہی قیادتوں میں سرداروں، امیروں اور شیوخ کے ساتھ بر طانوی فرانسسی اوراٹلی کی نو آبادیات میں بعض ملکوں میں کٹھ پتلی بادشاہتوں کی صورت نیم آزاد تصور کے ساتھ چلتی رہیں جنگ عظیم اوّل میں یہودی سرمایہ داروں نے انگریزوں کی بہت مالی مدد کی تھی۔
اس لیے بر طانیہ اُن اِس کا بدلہ دینا چاہتا تھا جس کا وعدہ انگریز نے پہلے سے کر رکھا تھا یہاں اِن عرب رہنماؤں میں سے بہت کم کو یہ معلوم ہو سکا کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور عالمی صیہونی تنظیم کو عرب دنیا کے قلب فلسطین میں طاقتور یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ دے چکا تھا یا اگر چند بادشاہوں کو یہ معلوم بھی تھا تو اُنہوں نے اس کو ایک راز ہی رہنے دیا۔ یہ حکمران پہلی جنگِ عظیم میں مغربی طاقت اور اس کے جدید ہتھیاروں ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی کار کردگی دیکھ چکے تھے اس لیے انہوں نے کسی طرح کی جرات مندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اب ایک جانب ترکی اہل مغرب سے شکست کھانے کے بعد مغربی طرزِ معاشرت اور تہذیب کو اپنائے ہوئے ترک قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے سیکو لرازم کے ساتھ غیر جانبدار رہتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا تھا تودوسری جانب پہلی جنگ عظیم کے اٹھارہ برس بعد ہی دنیا دوسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی۔
اس دوران افغانستان اور ترکی کے علاوہ سعودی عرب ہی آزاد اسلامی ممالک رہ گئے تھے۔ دوسری عالمی جنگ 1939 ء سے 1945ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں ’’ہالو کاسٹ‘‘ یعنی یہودی قتلِ عام میں جرمنی نے عالمی اطلاعات کے مطابق 6000000 یہودیوں کو قتل کیا جن میں سے 85% سویلین تھے۔ 1942 کے آخر تک جرمنی ، اٹلی اور پھر جا پان کا پلڑا بھاری رہا۔
اس جنگ کا ایک بڑا اور تاریخی محاذ مصر ، سینا ، لیبیا اور شام ، عراق کا علا قہ بھی رہا، یہاں مشہور جرمن جنرل رومیل جسے صحرائی لومڑی کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں مشہور انگریز جنرل منٹگمری تھا، دیگر محاذوں کی طرح اس محاذ پر بھی انگریزی فوج کے ہندوستانی فوجی ہزاروں کی تعداد میں لڑے۔ اسی طرح یہاں دنیا بھر کے یہودی اور خصوصاً فسلطین میں نو آباد یہودی صیہونی لیڈروں کے کہنے پر ہزاروں کی تعداد میں اتحادی فوج خصوصاً انگریز فوج کے ساتھ مل کر یہاں جرمنی کی فوجوں کے خلا ف لڑے۔ مشرق وسطیٰ خصوصاً فلسطین میں دوسری جنگ عظیم کے وقت صورت یہ تھی یہاں تیس ہزار یہودی فوج نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔
اسی طرح دیگر عرب رہنماؤں کے کہنے پر بارہ ہزار عرب فوج بھی انگریزوں کے حق میں یہاں جرمنی کے خلاف لڑی مگر یروشلم کے مفتی محمد امین الحسینی نے نازی جرمنی کا ساتھ دیا۔ مفتی محمد امین الحسینی نے اپنے موقف کو فلسطین اور اسلام کے حق میں بہتر جانا۔ دوسری جنگ عظیم میں مجموعی طور پر یہودیوں کی جانب سے پوری دنیا سے پندرہ لاکھ یہودیوں نے صیہونی قیادت کے کہنے پر اتحادیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور تقریباً دو لاکھ یہودی روس اور امریکہ کی طرف سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے چند مہینے قبل یہ صورت تھی جب 22 مارچ 1945 ء میں عرب لیگ قائم ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ عرب نیشنلزم کی بنیاد پر تشکیل پانے والا اتحاد تھا اور اس میں بنیادی رکن ملکوںکے سربراہ وہ تھے جو ترک خلافت کے خلاف پہلی جنگ عظیم میں عرب نیشنل ازم کی بنیاد پر ترکوں کے خلاف اور مغربی اتحاد کے حق میں لڑے تھے۔
جولائی 1948 ء میں اسرائیل قائم ہو گیا اور اس کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں عرب ملکوں کو شکست ہوئی۔ اُس وقت قائد اعظم محمد علی جناح ٹی بی کے مرض کے باعث دونوں پھیپھڑوں کے مکمل ناکارہ ہوئے جانے پر بغرض علاج بلوچستان زیارت میں تھے قائد اعظم نے فلسطین کے انگریزی منصوبے کی شروع ہی سے مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ برطانوی دولت مشترکہ اور برطانوی حکومت اس خوفناک منصوبے کو روکے ورنہ یہ مسئلہ مستقبل میں طویل عرصے تک تباہی کا سبب بنا رہے گا۔
پہلی عرب اسرائیل جنگ کے تھوڑے عرصے بعد مصر ، عراق ، شام اور بعد میں لیبیا میں بادشاہتوں کا خاتمہ ہو گیا اور یہاں عرب نیشنل ازم کے ساتھ سوویت یونین کی حامی سوشلسٹ جمہوریائیں قائم ہو گئیں، مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے عرب قوم پرست نظریے نے عرب ملکوں میں ایک طرف تو سعودی عرب، بحرین ، عمان، کویت، قطر اور عرب امارت کے حکمرانوں کو ڈرا دیا۔ دوسری جانب ناصر عرب قوم پرستی اور سوشلست نظریات میں اتنا آگے نکل گئے کہ اسلامی نظریات اور عقائد کو بھلا دیا لیکن یہ عرب قومی پرستی عرب امیروں، شیوخ اور بادشاہوں کی اُس عرب قوم پرستی سے مختلف تھی جس نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا۔ یہ عرب قوم پرستی سوویت یونین کی حمایت اور سوشلسٹ نظریات کے ساتھ عرب دنیا میں بادشاہتوں اور اسلامی نظریات و عقائد کے خلاف تھی۔
1967 ء میں تیسری عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو بد ترین شکست ہوئی۔ مصر ، شام ، اردن اور لبنان کے کئی علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا ، اس شکست کی وجہ سے اس سوشلسٹ عرب قوم پرستی کو بھی نقصان پہنچا۔ پھر 21 ستمبر1969 ء کو اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں مسجد اقصٰی کو جب صیہونی سازش کے تحت آگ لگائی گئی تو یروشلم کے مفتی نے عرب لیگ کو دعوت نہیں دی بلکہ عالم اسلام کے سربراہوں کو ایک مشترکہ کانفرنس کرنے کی اپیل کی۔
یوں مراکش کے شہر رباط میں 22 ستمبر سے 25 ستمبر 1969 ء کو پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی اور اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی Organisation of Islamic Cooperation تشکیل پائی یعنی عرب قوم پرستی جو پہلے عرب امیروں، شیوخ اور باشاہوں کے نظریے کے مطابق تھی اور اس کے بعد مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے نظریے کے مطابق تھی اب مسلم اتحادکی صورت مسجدِ اقصٰی میں آتشزدگی کے سانحہ کے بعد عالم اسلام کے مسئلے کے طور پر سامنے آئی اور اس میں عر ب ممالک بھی اسی جوش وخروش سے شامل ہوئے جس جوش و جذبے سے عجم یعنی غیر عرب مسلم مما لک شامل ہو ئے تھے۔
آج او آئی سی کے57 ممبرملک ہیں۔ 1969 ء میں جب یہ قائم ہوئی تو اس کے بنیادی ارکان میں افغانستان،الجزائر، چاڈ، مصر ، جمہوریہ گنی، انڈو نیشیا ،ایران،اردن،کویت ، لبنان، لیبیا، ملائشیا، مالی ، ماریطانیہ، مراکش، نائیجیریا، پاکستان ،ترکی فلسطین، یمن سعودی عرب، سینی گال، سوڈان ، صومالیہ اور تیونس شامل تھے۔
1970 ء میں بحرین ، کویت ،اومان ، قطر، شام ، متحدہ عرب امارات 1972 ء میں سیرالیون، 1974 ء میں بنگلہ دیش گیمبون ، گیمبیا، گنی بساؤ، یو گنڈا، 1975 ء میں بر کینا فاسو، کیمرون، 1976 ء میں جزائر قمر، عراق، مالدیپ، جبوتی، 1982 ء میں بینن، 1984 ء بر ونائی، 1986 ء میں نائجیریا ، 1991 ء کر غزستان ، تاجکستان ، البانیہ، ترکمانستان موزمبیق، 1995 ء میں قازقستان ، ازبکستان، 1996 ء میں سورینام، 1997 ء میں ٹوگو، 1998 ء میں گیانا، 2001 ء آئیوری کوسٹ او آئی سی میں شامل ہوئے جب کہ مبصر ممالک میں بوسینیا ہرزیگونیا ، 1994 ء میں وسطیٰ افریقہ 1997 ء میں ترک قبرص 1979 ء میں تھائی لینڈ، 1998 ء میں اور روس 2005 ء میںا سلامی تعاون تنظیم کا مبصر بنا۔
اوآئی سی میں شامل ممالک کا کل رقبہ 3 کروڑ 16 لاکھ 60 ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی تقریباً ایک ارب 86 کروڑ ہے۔ اِ ن کا مجموعی جی ڈی پی ا فراد قوت خرید کے اعتبار سے 27.949 ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدن 9361 ڈالر ہے اور اگر اِن ملکوں میں واقعی اتحاد اور تعاون بڑھ جائے تو یہ جی ڈی پی اور فی کس آمدن تھوڑے عرصے میں چار گنا بڑھ جائے اور یہ بلاک دنیا میں اقتصادی ، معاشی ، سیاسی اور عسکری اعتبار سے دنیا کا ایک مضبوط ترین بلاک بن جائے۔
واضح رہے کہ اِن رکن ملکوں کے علاوہ ہندوستان کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 18% سے 20% کے درمیان ہے اور روس کی آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب اب بھی 10% سے زیادہ ہے ، روس او آئی سی کا مبصر ہے جس سے روس اور او آئی سی دونوں کو فائد ہ ہے جب کہ بھارت بارہا او آئی سی میں رکنیت اور مبصر کے لیے درخواست کر چکا ہے اور اس کی شدید مخالفت پاکستان نے ہمیشہ کشمیر میں مسلم اکثریت پر ظلم و جبر اور اِن کو اقوم متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قراردادوں کے مطابق آزادی نہ دینے کی بنیادوں پرکی ہے۔
او آئی سی کا صدر دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ ا و آئی سی کے سیکرٹر ی جنرل کی فہر ست یوں ہے۔ نمبر 1 ۔ ملائیشیا کے تنکو عبدالرحمن 1971 ء سے 1973ء تک سیکرٹری جنرل رہے۔ نمبر2 ۔ مصر کے حسن التہومی 1974-75ء نمبر3 ۔ سینی گال کے ڈاکٹر مادو کریم گائے 1975ء سے 1979ء نمبر 4 ۔ تیونس کے حبیب شیتی1979 ء تا1984 ء نمبر5 ۔ پاکستان کے شریف الدین پیر زادہ 1984 ء سے1989 ء نمبر6 ۔ نائجیریا کے ڈاکٹر حامد الغابد 1989ء سے1996 ء نمبر7 ۔ مراکش کے ڈاکٹر عزالدین لراکی 1997 ء سے2000 ء نمبر8 ۔ مراکش ہی کے ڈاکٹر عبد لاحد بلکغریر 2001 ء سے 2004 ء نمبر9 ۔ ترکی کے ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو 2004 ء سے 2014 ء، سعودی عرب کے عیاد بن امین مدنی 2014 ء سے2016 ء اور اس کے بعد سے اب تک سعودی عرب ہی کے یوسف الوتایمین اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہیں۔
1969 ء میں جب او آئی سی قائم ہوئی تو یہ وہ دور تھا جب دنیا سرد جنگ کے اعتبار سے ایک اہم مر حلہ طے کر رہی تھی۔ 1970 ء میں عرب دنیا کے انقلابی لیڈر صدر کرنل جمال عبدالناصر کا انتقال ہو گیا۔ 1971-72 تک عرب امارات ، قطر، بحرین اور عمان آزاد ملک اور اقوام متحدہ کے رکن بن گئے ۔
چین بھی نہ صرف اقوام متحدہ کا رکن ملک بن گیا بلکہ اس کو تائیوان کی جگہ حقیقی مین لینڈ چین تسلیم کرتے ہوئے سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست اور ویٹو پاور دے دیا گیا ۔ چوتھی عرب اسرائیل جنگ 1973 ء میں ہوئی، اس جنگ میں عرب لیگ سے کہیں زیادہ اہم کردار اسلامی تعاون تنظیم OIC نے ادا کیا اور پاکستان سمیت بہت سے ملکوں نے فوجی اعتبار سے در پردہ اور سیاسی خارجی محاذوں پر خصوصاً اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اعلانیہ فلسطینیوں اور عربوں کی بھر پو ر حمایت کی۔ 1974 ء میں پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کئے جا نے کے بعد چین نے اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی رکنیت پر اعتراضات واپس لے لیے اور بنگلہ دیش اُس وقت آبادی کے اعتبار سے انڈو نیشیا کے بعد دوسرے بڑے اسلامی ملک کی حیثیت سے اسلامی تعاون تنظیم کا رکن بن گیا۔
اسی سال اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کی دوسر ی اسلامی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ یہ اسلامی کانفرنس جنگ ِ عظیم اوّل اور خلافتِ عثمانیہ کے اختتام کے76 سال بعد اور جنگ عظیم دوئم کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی تشکیل کے 29 سال بعد منعقد ہوئی تھی، اس کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل اور لیبیا کے انقلابی رہنما کرنل معمر قد افی سمیت عرب دنیا بلکہ عالمِ اسلام میں آپس میں نظریاتی تضاد رکھنے والے رکن ملکوں کے بہت سے رہنما شریک ہوئے تھے۔
یوں دیکھا جائے تو 103 برس کے طویل عرصے بعد عالمی اسلامی اتحاد کی بنیاد پر 1974 ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم کی یہ دوسری اسلامی کانفرنس سب سے کامیاب کانفرنس تھی جب کہ اس کے بعد او آئی کی سربراہ کانفرنسیں قواعد کے مطابق ہر تین سال بعد تواتر سے منعقد ہوتی رہیں۔ یوں یہ باقاعدہ اجلاس سعودی عرب میں دو مرتبہ ، مراکش میں دو مرتبہ ترکی میں دو مرتبہ اور ،کویت ، سینی گال، مراکش، تہران ، قطر،ملائیشیا،مصر، ایک ایک دفعہ منعقد ہو چکے ہیں۔ اس قاعدے کے مطابق آخری اسلامی کانفرنس 31 مئی 2019 ء کو سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں منعقد ہوئی جب کہ اسلامی تعاون تنظیم اوآئی سی کے سات خصوصی اجلاس بھی 1997 ء سے 2018 ء منعقد ہو چکے ہیں ، اس سلسلے کا پہلا خصوصی اجلاس 23 اور 24 مارچ1997 ء کو اسلام آباد پاکستان میں، دوسرا اجلاس 2003 ء میں قطر میں ، تیسرا اور چوتھا خصوصی اجلاس 2005 ء اور 2012 ء میں سعودی عرب مکہ مکرمہ میں، پانچواں خصوصی اجلاس انڈو نیشیا 2016 ء میں ہوا اور چھٹا اور ساتواں خصوصی اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں 2017 ء اور2018 ء کو منعقد ہوئے ۔
اسلامی تعاون تنظیم دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کے آپس میں تعاون اور ایک دوسرے کی امداد کے بنیادی نظریے پر قائم ہوئی تھی اور اس حوالے سے ا و آئی سی کے قواعد کے مطابق اس کے سربراہ اجلاس تین سال بعد ہوتے ہیں ، اِن اجلاس میں طے شدہ پالیسیوں اور منصوبوں پر کارکردگی اور پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے رکن ملکوں کے وزراء خارجہ کے سالانہ اجلاس ہوتے ہیں جن میں طے پالیسیوں اور منصوبوں پر عملدر آمد کے لیے او آئی سی کی پانچ قائمہ کمیٹیاں ہیں۔ نمبر1 ۔ اطلاعات و ثقافتی معاملات کی قائمہ کمیٹی ، نمبر 2 ۔ اقتصادی وتجارتی معاملات، نمبر 3 ۔ سائنس و ٹیکنا لوجی تعاون قائمہ کمیٹی، نمبر 4 ۔ اسلامی کمیٹی برائے اقتصادی ،ثقافتی و سماجی معاملات، نمبر5 ۔ مستقل تجارتی کمیٹی ۔ جب کہ اس او آئی سی کے وینگ یا بازو یوں ہیں ، نمبر 1 ۔ شماریاتی، اقتصادی ، سماجی ، تحقیقی اور تربیتی مرکز برائے اسلامی ممالک ، نمبر 2 ۔ اسلامی تاریخ ، فن اور ثقافتی تحقیقی مرکز کے دفاتر انقرہ اور استنبول ترکی میں ہیں۔ نمبر 3 ۔ جامعہ اسلامی برائے ٹیکنالوجی ڈھاکہ بنگلہ دیش، نمبر4 ۔ اسلامی مر کز برائے تجارت کاسابلانکا مراکش، نمبر5 ۔ اسلامی فقہ اکیڈمی اور نمبر6 ۔ اسلامی سولیڈیرٹی فنڈ کا رایگزیکٹو بیور اور وقف جدہ سعودی عرب، نمبر7 ۔ جامعہ اسلامی نائجیریا ، نمبر8 ۔ جامعہ اسلامی ایمبا کے یوگنڈا۔
اسی طرح او آئی سی کے ملحقہ ادارے بھی ہیں ۔ نمبر1 ۔ اسلامی ایوان ہائے صنعت و تجارت کراچی پاکستان ، نمبر 2 ۔ اسلامی دارالحکومتوں اور شہروں کی تنظیم جدہ سعودی عرب ، نمبر 3 ۔ اسلامی سو لیڈرٹی گیمز کے لیے اسپورٹس فیڈ ریشن ریاض سعودی عرب، نمبر4 ۔اسلامی کمیٹی برائے بین الاقوامی ہلال ICCI بن غازی لیبیا، نمبر5 ۔ بین الا قوامی عرب اسلامی اسکولوں کی فیڈریشن جدہ سعودی عرب، نمبر6 ۔ بین الاقوامی تنظیم برائے اسلامی بنک IAIB جدہ سعودی عرب، نمبر 7 ۔ اسلامی کانفرنس فورم نوجوانان برائے مذاکرات و تعاون ( CICYF-DC ) استنبول ترکی، یوں اگر او آئی سی کے تنظیمی ڈھانچے کو دیکھیں تو یہ دنیا کی دیگر بڑی فعال عالمی تنظیموں سے کسی طرح مختلف اور کم نہیںہے۔ یہ رقبے ،آبادی ، وسائل ہر لحاظ سے یورپی یونین سے کہیں زیادہ ہے۔
یورپی یونین کے 27 ممالک کا رقبہ 4233225 مربع کلومیٹر آبادی 447 ملین یعنی 44 کروڑ 70 لاکھ اور جی ڈی پی 19.397 ٹریلین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدن 43615 ڈالر ہے، یوں فی کس سالانہ آمدن کے علاوہ اب بھی یورپی یونین سے اسلامی تعاون تنظیم آگے ہے۔
یہ عالمی تنظیم جو 57 ملکوں کی رکنیت کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر قائم ہو نے والی دنیا کی سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 1969 ء میں یہ تنظیم مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحہ کے بعد یروشلم کے مفتی کی اپیل پر قائم ہوئی تھی یعنی یہ کسی اسلامی ملک کے سربراہ کی تجویز پر نہیں بنائی گئی اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب یہ قائم ہوئی تو اسرائیلی مقبوضہ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے واقعہ پر اسلامی تعاون تنظیم نے سوائے مذمت کے اور کچھ نہیںکیا اور مراکش کے شہر رباط میں بس یہ ایک تاریخی واقعہ تھا کہ یہ تنظیم قائم ہوئی۔
یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوںمیں غم و غصہ تھا اور خلافت عثمانیہ کے بعد ایک مر تبہ پھر دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت یہ چاہتی تھی کہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔ 1918 ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ترک خلافت ختم ہوئی تھی تو اس کے نتیجے میں جب سعودی عرب کو آزاد ملک کے طور پر دنیا میں متعارف کروایا گیا تو یہاں حکمران کے لیے خلیفہ کا لقب نہیں اپنایا گیا بلکہ بادشاہت کا اعلان کیا گیا پھر کہیں بہت بعد میں اسی کی دہائی میں خادمین حرمین شریفین کا لقب بھی عمومی طور پر اختیار کیا گیا اور سرکاری طور پر اور اقوام متحدہ میں بھی سعودی عرب کے لیے kingdom یعنی سعودی سلطنت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پھر 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ جس میں مصر اور شام کی پوزیشن ماضی کی تین جنگوں کے مقابلے میں بہتر رہی تھی اِس جنگ کے بعد اسلامی دنیا کے اُس وقت کے تین ر ہنماؤں سعودی عرب کے شاہ فیصل پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قدافی نے اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ اُس وقت دیگر اسلامی ملکوں کے رہنماؤں نے بھی اِن کا بھر پور ساتھ دیا لیکن جرات اور بیباکی ابتدا میں ان ہی تین رہنماؤں نے کی کیونکہ اُس وقت سرد جنگ کے عروج پر تھی۔
اسلامی دنیا خصوصاً عرب ممالک واضح طور پر امریکی اور سوویت کے دوبلاکوں میں تقسیم تھے اور اسی اعتبار سے اِن مسلم اکثریتی ملکوں کی حکومتو ں کے ہر شعبہ پر سرد جنگ کی اِن دونوں قوتوں کی گرفت تھی اس کانفرنس میں نہ صرف اسلامی ملکوں کے درمیان تعاون کی بات ہوئی بلکہ اس پر کافی حد تک عملدر آمد بھی ہوا۔ تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے نہ صرف تیل پید ا کر نے والے اسلامی ملکوں کی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا بلکہ 1970 ء سے1972 ء تک برطانوی نو آبادیات سے عرب امارات سمیت دیگر جو خلیجی ممالک آزاد ہوئے تھے۔
وہ نہ صرف آزاد ہوتے ہی امیر ترین ہو گئے بلکہ عرب امارات نے تو سلیقے سے صنعت و تجارت پر توجہ دیتے ہوئے ترقی بھی کی اور پاکستان نے اُن کی بہت مدد کی، اِن ملکوںکے ایئر پورٹ اور فضائی کمپنیوں سمیت کئی شعبوں میں اِن سے تعاون کیا جب کہ اس دوران 35 لاکھ پاکستانی اِ ن تیل پید ا کرنے والے ملکوں میں ملازمتوں کے لیے گئے اور پا کستا ن کے پاس مستقل اور مستحکم انداز کا زرمبادلہ کا ذریعہ ہاتھ آگیا یہی وجہ تھی کہ بھٹو نے آزاد خارجہ پالیسی اپنائی اور روس ، چین سے بھی تعلقات مضبوط کئے اور امریکہ ، بر طانیہ سے خارجہ سطح پر نہ صرف متوازن انداز اپنایا بلکہ اُن کے معاشی،اقتصادی ، سیاسی اور عسکری شکنجے سے بھی آزادی حاصل کرلی ۔
اگر چہ پاکستان میں سوویت یونین کے لحاظ سے یہ صورتحال سوویت یونین کے لیے بہتر تھی لیکن مجموعی طور پر او آئی سی کی لاہور میں منعقد ہونے والے کامیاب اسلامی کانفرنس امریکہ اور سوویت یونین دونوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ سوویت یونین پریہ حقیقت روز اوّل سے عیاں تھی کہ مصر ، شام ، عراق، وغیرہ جیسے مسلم اکثریتی ملکوں میں فوجی انقلابات کی بنیادی پر سوویت نواز حکومتیں تو قائم ہو گئی تھیں اور اِن کا نظام ِ حکومت بھی آمریتوں کے ساتھ قدرے سوشلسٹ ہو گیا تھا لیکن دنیا میں کہیں بھی کسی مسلم ملک میں پولینڈ ، ہنگری، چیکوسلواکیہ جیسا کیمونسٹ لادینی نظام نہیں آسکا تھا ، پھر سوویت یونین کی وسطیٰ ایشیا کی مسلم اکثریت کی ریاستیں ، آذربائیجان ، ازبکستان، کرغزستان ، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمنستان ایسی ریاستیں تھیں جن پر زار شاہی روس کے زمانے میں 1839 ء سے اُس وقت روسی قبضہ مستحکم ہوا تھا جب پہلی اینگلو افغان جنگ ہوئی تھی اور پھر دوسری اور تیسری برطانوی افغان جنگ کے دوران تو روس نے یہاں مسلمانوں کے مذہبی حقوق بھی سلب کر دیئے تھے۔
1917 ء کے اشترکی انقلاب کے دو سال بعد 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی تھی جس کے بعد افغانستان کے باد شاہ غازی امان اللہ خان نے برطانیہ کی جانب سے 1878 ء سے دی جانے والی سبسڈی کی بھاری رقم سے انکار کے بعد افغانستان کی دفاعی اور خارجہ پا لیسی کو آزاد اور متوازن کر لیا تھا بعد میں غازی امان اللہ خان نے سوویت یونین کا دورہ بھی کیا تھا پھر سوویت یونین نے افغانستان کو لڑاکا طیاروں سمیت جدید اسلحہ کے ساتھ افغان فوجیوں کی ٹریننگ بھی دی تھی ۔
1973 ء میں افغانستان میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کا خاتمہ کر کے سردار داؤد صدر ہو گئے تھے۔ 1974 ء میں کامیاب اسلامی کانفرنس کے کچھ عرصے بعد سردار داؤد کا جھکاؤ بھی اس جانب ہو نے لگا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ 1978 ء میں سوویت یونین کی پشت پناہی سے افغانستان میں سردار داؤد کو قتل کر کے وہاں کیمونسٹ حکومت قائم کی گئی جس کے سربراہ صدر نور محمد تراکئی ہوئے یعنی سوویت یونین نے خود کو اسلامی قوت کی بنیاد پر بچانے اور سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں میں ممکنہ اسلامی تحریک کو افغانستان کو ڈھال بنا کر روکنے کی اسٹر ٹیجی اپنائی۔
دوسری جانب امریکہ کے اتحادی بلاک نے اپنی جانب سے پہلے اسلامی ملکوں اُس قیادت کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا جن کی وجہ سے لاہور کی اسلامی کا نفرنس کا میاب ہو ئی تھی اور اس کے بعد طے شدہ احداف کامیابی سے حاصل کئے جا رہے تھے امریکہ ،برطانیہ اور اِن کے اتحادیوں کو اس میں اِس لیے جلد کامیابی حاصل ہو ئی کہ بیشتر اسلامی ملکوں میں خصوصاً جہاں بادشاہتیں ، آمریتیں یا نیم جمہوری حکومتیں تھیں یہاں کی اہم شخصیات پہلے ہی سوویت یونین کی اشتراکیت سے خائف تھیں وہ امریکہ اور برطانیہ کی مدد گار ثابت ہو ئیں اس پورے تناظر میں او آئی سی کا کردار اُس وقت بہت بدل گیا جب سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا اور ہمارے ہاں ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
1979 ء میں ایران میں امام خمینی کا اسلامی انقلاب آگیا یوں افغانستان ، ایران ، پاکستان اور پھر کچھ عرصے بعد عراق میں بھی جنگوں کی سی صورتحال پیدا ہو گئی افغانستان میں روسی فوجی مداخلت سے افغانستان جنگ کا میدان بنا تو پاکستان فرنٹ لائن کا ملک بن گیا، ایک سال بعد یعنی 1980 ء میں ایران ، عراق جنگ شروع ہو گئی اس پورے تناظر میں اسلامی تعاون تنظیم کی لیڈر شپ بھی تبدیل ہوئی اور اُس کا انداز بھی بدل گیا ۔
بدقسمتی سے اُس وقت سے اب تک او آئی سی کی قیادت کا وژن مستقبل بینی کی بنیاد پر حکمت ِعملی اور منصوبہ بندی کے لحاظ سے مدبرانہ نہیں رہا بلکہ یہ لیڈر شپ ذاتی مفادات کی بنیادوں پرعقائد و نظریات اور ملت ِ اسلامی کے اتحاد سے بھی انحراف کرتی رہی ہے۔ 1974 ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں مسلم اکثریتی ممالک کی بادشاہتیں اور اشتراکیت نواز آمریتیں اور نیم جمہورتیں سب ہی عالمی سطح پر اسلامی ملکوں کی حکومتوں کے تعاون پر متفق تھے اور ایک دوسرے کے خلاف اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر حکمت ِعملی اختیار کر چکے تھے ۔
اب صورت بہت مختلف تھی ۔ او آئی سی جو حقیقت میں اسرائیل ، امریکہ ، برطانیہ اور مغربی اتحاد کے خلاف دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف اقوام متحدہ کی بنیاد پر ناانصافی اور زیادتی کے ردعمل میں قائم ہوئی تھی مگر اب افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت پر اسلامی ممالک سوویت یونین کے خلاف تھے، پھر ایران عراق جنگ کی بنیاد پر عالم اسلام میں فرقہ واریت پر اختلافات پیدا ہو رہے تھے یا کئے جا رہے تھے ، پھر 1990ء میں صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کے مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جواز فراہم کر دیا، 1990 ء میں سابق سوویت یونین بکھر گئی اور روس خود تاریخ کے بڑے اقتصادی سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔ سرد جنگ اور دنیا میں اشتراکیت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبل ولیج جیسے تصورات کی بنیاد پر پالیسیاں اور منصوبے دئیے تو ہمارے خطے میں بھی اب پا کستان کی بجائے بھارت امریکہ کا اسٹریجیکل پارٹنر بننے لگا۔
امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے لانے کے لیے پینترے بدلنے لگا، بھارت کی جمہوریت میں سیکولرازم کی بجائے ہندو دھرم پرستی، شدت اور انتہا پرستی متعارف ہونے لگی اور نوے کی دہا ئی ہی میں بابری مسجد کو مسمار کر کے اُس کی جگہ رام مندر بنانے کے ساتھ بھارت میں ہندو دھرم کے شدت پسندانہ رجحان میں اضافہ ہونے لگا، نائین الیوان کے واقعہ کے بعد پوری دنیا میں مسلم ممالک ہی دہشت گردی کے مجرم ٹھہرے اور اس کا مرکز اُسی افغانستان کو بنایا گیا جہاں سے امریکہ نے افغان مجاہدین کی مدد سے سوویت یونین اور اشتراکیت کو دنیا میں شکست دی تھی، اس دوران او آئی سی نے بس سابق سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں فوجی مداخلت کے خلاف آواز بلند کی جب کہ نائین الیون کے بعد سے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چاہا ویسے ہی اوآئی سی نے عمل کیا۔
2014 ء سے خصوصاً اوآئی سی پر عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب ، کویت، عمان، بحرین ، قطر اور عرب امارات کا کنٹرول رہا ہے۔ اس دوران عرب دنیا میں عراق ، شام ، لیبیا ، شدید نوعیت کی خانہ جنگیوں کا شکار ہوئے ۔افغانستان مستقل جنگ کا میدان بنا رہا اور پاکستان میں ہر طرح سے مداخلت کی گئی۔ 2016 ء سے امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دور شروع ہوا تو اُس نے اقوام متحدہ کے سامنے 73 برسوں سے رکھے گئے دنیا کے دو بڑے مسئلے یعنی کشمیر اور فلسطین کو طاقت کے زور پر نا انصافی سے حل کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی، اس دوران امر یکہ نے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا، اس کے تھوڑے عر صے بعد ہی عرب امار ات ، بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، باقی عرب ممالک کے تعلقات بھی اسرائیل سے قائم ہیں اور اسرائیلی حکمران اِن ملکوں کے دورے بھی کر رہے ہیں اسی طرح 2019 ء سے بھارت کا رویہ بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے انتہائی شدت پسندانہ ہے۔
370 آرٹیکل کو بھارتی آئین سے ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کو نہ صرف بھارت کا صوبہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ دفعہ 35 کو ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے۔ تقریباً سوا سال سے مقبوضہ بھارتی جموں وکشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور علاقے میں بد ترین انداز سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ۔ بدقسمتی سے پا کستان نے اس دوران جب بھی اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے اس صورتحال پر آواز بلند کر نے کے لیے کوشش کی تو عرب ممالک نے بھارت کے مقابلے میں پا کستان کو اہمیت نہیں دی گئی اس وقت خصوصاً عرب ممالک کے تعلقات امریکی حمایت کی وجہ سے بھارت سے زیادہ بہتر ہیں۔
اب جب کہ پا کستان کے مفادات چین سے وابستہ ہو چکے اور بھارت مکمل طور پر امریکہ اور برطانیہ پر انحصار کر رہا ہے تو دنیا پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ اب یا تو او آئی سی کی قیادت تبدیل ہو کر حقیقی معنوں میں اپنا کردار ادا کر ے گی یا او آئی سی کے مقابلے میں ایک نیا اسلامی اتحاد سامنے آئے گا اور اگر ایسا نیا اتحاد قائم ہوتا ہے تو اس میں تیل پیدا کر نے والے بیشتر اسلامی ممالک شامل نہیں ہونگے، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ 2014 ء کے بعد سے او آئی سی مکمل طور پر اپنے مقاصد سے ہٹ کر بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
1990 ء میں سرد جنگ کے فوراً بعد او آئی سی نے اپنے چارٹر اور رہنما اصولوں میں وقت کے مطابق کچھ تبدیلیاں بھی کیں۔ مصر قاہرہ اعلامیہ کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے قرآن و شریعت کی بنیاد پر اپنایا گیا، مارچ 2008 ء کو چارٹر کا دو بارہ جائز ہ لیا گیا جس میں انسانی حقوق ، بنیادی انسانی آزادی اور حقوق ، رکن ملکوں میں اچھی حکمرانی پر زور دیتے ہو ئے اقوام متحدہ کے چارٹر اور یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن راٹس کو بھی رہنما بنایا گیا ، مگر ان تمام باتوں کے باوجود UNHCR کے مطابق او ائی سی کے رکن ممالک میں مہاجرین کی تعداد ایک کروڑ 86 لاکھ تھی۔ 2012 ء سے شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے مزید 49 لاکھ مہا جر ہوئے ہیں ، مگر ہنوز او آئی سی کے 57 رکن ممالک کی ایک ارب 80 کروڑ آبادی کے مستقبل کو شدید انداز کے اند یشے لاحق ہیں ۔
۔۔۔۔۔

’اسلاموفوبیا کی بیخ کنی
کے لیے ضروری اقدامات ‘

اسلامی ممالک نے اقوام متحدہ کے ذیلی انسانی حقوق کے ادارے سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلامو فوبیا کی بیخ کنی کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں- اسلامو فوبیا تعصب، نسلی امتیاز اور تفریق کی نئی شکل ہے-میڈیا کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے ماتحت سعودی سفارتی مشن سے متعلق ادارہ انسانی حقوق کے سربراہ مشعل البلوی نے انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ اغیار کے خلاف نفرت، نسلی تفریق اور امتیاز کو ترویج دینے والا کھلا میدان بنا ہوا ہے- اسے قابو کرنے کے لیے موثر اقدامات کرنا ہوں گے- اقداما ت ایسے ہوں کہ اظہار رائے اور اس کی آزادی کے احترام اور نسلی امتیاز و تفریق کے انسداد کے درمیان توازن ہو۔البلوی نے توجہ دلائی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور نسلی امتیاز و تفریق کا پرچار سعودی قوانین کے تحت قابل سزا جرم ہیں- سعودی عرب 2007 میں انفارمیشن کرائمز کے انسداد کا قانون جاری کرکے اسے جرم قراردے چکا ہے-البلوی نے توجہ دلائی کہ سعودی قانون کے تحت جو شخص بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف وسائل استعمال کرکے دوسروں کو نقصان پہنچائے گا اسے ایک برس تک قید اور 5 لاکھ ریال تک جرمانے یا دونوں میں سے کوئی ایک سزا دی جائے گی-البلوی نے بتایا کہ سعودی عرب 2015 میں نجی اداروں اور این جی اوز کا قانون جاری کر کے ایسی ہر تنظیم کے قیام پر پابندی لگا چکا ہے جس کا لائحہ عمل اسلامی شریعت کے احکام یا قومی قانون یا ملکی آداب یا قومی اتحاد کے منافی ہو-
آج ہمارا معاشرہ بہت سارے مسائل ، تضادات، تنازعات اور بدعنوانی کا شکار ہے ۔ اس لیے موجودہ دور میں اپنی اپنی اسلامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا نہایت اہم ہے اور وقت کی اولین ضرورت ہے۔ اسلام نے ہمیں معاشرتی مسائل کے حل کے لیے جو علم اور فہم عطا فرمائی ہے اس کو سمجھ کر ہم ایک بہترین معاشرے اور ایک بہترین امت مسلمہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

1۔ رابطے کے ذریعے اتحاد
اگر مسلمان ایک دوسرے سے دور اور الگ تھلگ گروہوں میں بٹ جائیں گے یا ان کو ا س تقسیم سے بچانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جاتی تو امت مسلمہ میں اتحاد ناممکن بات ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کو ایسے عملی اقدامات اور رستوں کی ضرورت ہے جن کی مدد سے وہ ایک دوسرے سے جڑ کر رہ سکتے ہیں۔ یہ اصول نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسی طرح لاگو ہوتا ہے اور اس اصول پر عمل کر کے ہم ایک دوسرے سے جڑ کر اور ایک دوسرے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور اس عمل کے ذریعے ہی ہم ایک دوسرے کی تاریخ، رسوم و رواج، رہن سہن اور اچھے اقدار سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔

2۔ قرآن کریم کے احکامات کے مطابق مسلمانوں کو ایک دوسرے کا اتحادی بن جانا چاہیے
اس بات کو محض زبانی کلامی کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کو عملی شکل دینا، معاہدے کی صورت میں ڈھالنا اور یادداشتوں کی شکل میں لکھنا بہت ضروری ہے تاکہ تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کے مضبوط اتحادی بن جائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے معاہدوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کس طرح مسلمانوں کے مابین سیاسی تنظٰیم پیدا کی ۔ قرآن کریم بھی چیزوں کو لکھنے اور معاہدوں پر پورا اترنے پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔

3۔ معاشی بھائی چارہ
دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کی پیداوار میں خود کفیل ہوں۔ اور تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی پابندی یا شرائط کے تجارت کا عمل جاری رکھیں تاکہ تمام مسلم ملکوں کی معیشت مضبوط ہو۔ مسلمان ملکوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح خود انحصاری اور ترقی کی منازل تک پہنچ سکتے ہیں۔ مسلمان ممالک کو اب محض امداد اور فوری امداد سے آگے نکل کر سوچنا ہوگا۔

4۔ ذاتی دفاع اور تحفظ
مسلمانوں کی زندگی، جائیداد اور اثاثوں کا تحفظ اور سیکورٹی اس طرح اہم ہے جس طرح کے دنیا کے دیگر انسانوں کی۔ موجودہ حالات میں یہ بہت ضروری ہے کہ کسی بھی خطرے کی صورت میں قومیں اور افراد ایسی مہارات سے لیس ہوں جو ان کو اس خطرے کی صورت میں تحفظ دے سکے۔ مسلم اکثیرتی ممالک کو فوجی اتحاد کی صورت میں متحد ہونا چاہیے اور آپس کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ثالث کا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔ مزید برآں مسلمان ملکوں کو اسلحے کی دوڑ میں بھی اپنی طاقت کو بڑھانا چاہیے اور ایک دوسرے کو فوجی سامان کی فروخت اور سائنس اور ریسرچ میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔

  1. بین المذاہب ہم آہنگی اور اس سے بڑھ کر
    اس وقت نہ صرف بین الاقوامی بلکہ مقامی طور پر بھی مسلمانوں کے مفاد میں ہے کہ وہ بین المذاہب بات چیت میں ملوث ہوں۔ اور اس کا آغاز مغربی ممالک کی طرف سے ہونا چاہیے۔ اس قدر بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کے باوجود ابھی تک بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جس سے مختلف نسلوں اور ثقافتوں میں باہمی سمجھ بوجھ کا فقدان ہے ۔ اس لیے مسلمان ممالک کو بین المزاہب ہم آہنگی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔
  2. مشترکہ زبانیں مختلف ریاستوں اور افراد کو قریب لاتی ہیں۔
    اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ مقامی زبانوں کو ترق کر دیں یا انہیں ترجیح نہ دیں۔ مسلمانوں کے لیے عربی ایک مشترکہ زبان بن سکتی ہے جب کہ عرب ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ دیگر مسلمان ممالک کی جانب سے بولی جانی والی زبانوں میں مہارت حاصل کریں۔ مسلمان دیگر مسلم ممالک کی زبانوں میں دلچسپی لینے کی بجائے یورپی ممالک کی زبانوں پر ترجیح دیتے ہیں اور انہیں سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان ملکوں میں خواندگی کے اضافے کے لیے منصوبے بھی شروع کیے جائیں۔
  3. علم سیکھنے کی کوئی حد نہیں
    مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دنیا بھر سے علم کے حصول کے لیے اپنی کاوشیں تیز کریں اور اپنے اندر سیکھنے کی لگن پیدا کریں۔ یہ ضروری ہے کہ مسلمان علم کے حصول کے لیے خود کو صرف مغرب تک محدود نہ کریں۔ موجودہ دور میں حصول علم کے لیے جسمانی موجودگی ضروری نہیں ۔ دنیا بھر سے آپ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مسلمان ممالک کو بہترین یونیورسٹیز قائم کرنے کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ریسرچ کے عمل کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔افسوس ناک بات ہے کہ دنیا میں سو بہترین یونیورسٹیز میں ایک بھی یونیورسٹی مسلم ممالک کی نہیں۔ وہی مسلمان جو کبھی دنیا کے علم و ریسرچ کا مرکز ہوا کرتے تھے ۔ جن میں ابن خلدوں اور الیثم ، اور امام جعفر صادق جیسے لوگ موجود تھے آج ان میں نہیں ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان پہلے بہترین جامعات کی بنیاد رکھیں جو علم و ریسرچ کا مرکز ہوں۔
  4. سرحدوں سے پار
    جب مسلمانوں کے مسائل کی بات ہو تو پھر سرحدوں سے ہٹ کر بات کرنی چاہیے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں مسلمان ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری بہت اہم اور ضروری قدم ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں مسلمانوں کو اپنی عوام کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لینی چاہیے اور ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کی بہتری کے لیے بھی مشترکہ طور پر کوششیں کرنی چاہئیں۔

9.میڈیا اور ثقافتی مسائل
بین الاقوامی میڈیا دوسرے لوگوں کی تاریخ اور ثقافت کو سمجھنے اور اس کو آگے بڑھانے کے علاوہ اس کی اقدار کو بھی شئیر کر سکتا ہے۔ ہم اس حوالے سے مشہور ترکی ڈرامہ ارطغرل کی مثال لے سکتے ہیں جس کو بہت سارے مسلمان ممالک بشمول مغرب نے اپنے ممالک میں دکھایا ہے اور لوگوں نے اسے بہت پسند کیا ہے۔ اس ڈرامے نے مسلم اقدار اور ان کی ثقافت کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

  1. قومیت اور نسل پرستی کی آگاہی
    مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان نسل پرستی اور قومیت کی انتہا پسند شکلوں کا تجزیہ بہترین اندا ز میں کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مغرب کی ان پالیسیز سے بہتر انداز سے نمٹنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ یہ مغربی ممالک مسلم مخالف اور اسلام مخالف یعنی اسلاموفوبیا کا گڑھ ہیں اس لیے اس حوالے سے تمام مسلمان ملوکوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں مغرب کے مسلمان مخالف اور اسلاموفوبک رویے کے بارے میں اپنے بچوں کو آگاہی فراہم کریں۔
    ۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.