پاکستان اورکشمیرکی سیاسی تاریخ اور نئے سیاسی نظام کی بازگشت ۔ یونیکوڈ ٹیکسٹ

پاکستان اورکشمیرکی سیاسی تاریخ اور نئے سیاسی نظام کی بازگشت ۔ یونیکوڈ ٹیکسٹ

پاکستان اورکشمیرکی سیاسی تاریخ اور
نئے سیاسی نظام کی بازگشت

تحریر و تحقیق
راجہ ابرار احمد

انتساب

یہ کتاب میں سیاست سےگند ختم کرنےکے لئے کوشاں ہر شخص کے نام کرتا ہوں

کتاب کا عنوان: پاکستان اورکشمیرکی سیاسی تاریخ اور نئے سیاسی
نظام کی بازگشت
تحریر و تحقیق: راجہ ابرار احمد
ریسرچ اسسٹنٹ: محمد موسیٰ سومرو
تعداد اشاعت: 1000
سال اشاعت؛ 2021
پبلشر: اختلاف نیوز میڈیا
گروپ آف پبلیکیشنز

فہرست عنوانات
نمبر
شمار
عنوانات
صفحہ نمبر









10۔
11۔
12۔
13۔
14۔
15۔
پیش لفظ
دیباچہ
پاکستان کے عوام سے بانیٔ پاکستان کا پہلا خطاب
برصغیر میں سیاست کاآغاز۔ایسٹ انڈیا کمپنی
ہماری سیاسی تاریخ
پاکستان میں حکومت مخالف اتحاد وںکی تاریخ
پاکستان مسلم لیگ کی تاریخ
پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ
جماعت اسلامی
جمعیت علماء اسلام (ف)
آل پاکستان مسلم لیگ
متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی
عوامی نیشنل پارٹی
جمہوری وطن پارٹی سے بلوچ رپبلکن آرمی تک

16۔
17۔
18۔
19۔
20۔
21۔
22۔
23۔
24۔
25۔
26۔
27۔
28۔
29۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)
موروثی سیاست،
پاکستانی سیاست کا سب سےبڑاالمیہ
پاکستان میں انتخابات
سیاستدانوںکی قابل اعتراض کارکردگی اورپاکستانی ووٹرز
2013-18مسلم لیگ ن کے پانچ سال:
حکومت کی کامیابیاں اور ناکامیاں
بلوچستان کا سیاسی پس منظر
جنوبی پنجاب صوبہ
پنجاب کی سیاست
سیاسی کارڈز
پاکستان کےصدر
پاکستا ن میں فوجی سیاست۔ یامارشل لاء
نئےسیاسی نظام کی بازگشت

پیش لفظ

اسلام علیکم قارئین میں ہو راجہ ابرار احمد اور آپ کے ہاتھوں میں میری تیسری کتاب ہے جس کا عنوان ہے” پاکستان اور کشمیر کی سیاسی تاریخ اور نئے نظام کی بازگشت”۔ اس کتاب میں میں نے پاکستان اور کشمیر کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اور اور ممکنہ نئے نظام کے بارے میں کچھ بات کی ہے۔اس کتاب کو میں نے دو حصوںمیں تقسیم کیا ہے پہلا حصہ پاکستان اور کشمیر کی سیاسی تاریخ پر مشتمل ہے۔ جبکہ دوسرےحصےمیںاسلام،جمہوریت اورصدارتی نظاموںکے ساتھ ساتھ ہمارےہمسایہ ممالک ایران اور چائنا کے سیاسی نظاموں پر بھی ایک اجمالی نظر ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ سیاسی نظام کے حوالے سےمعلومات شامل ہیں۔
اس کتاب میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں بہت سے ایسے نکات ہیں بہت سی ایسی انفارمیشن ہے جو شاید آپ نے پہلی مرتبہ پڑھی ہوں۔ کیونکہ ہمارے تاریخ دان سیاستدانوں سے پیسے لے کر لکھتے رہے ہیں اور انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کو ان کے اصل پس منظر میں واضح نہیں کیا گیا یا عوام سے حقائق چھپائے گئے عوام سے اصل حقیقتوں کو چھپا کر جھوٹ کو پرموٹ کیا گیا شاید اسی لیے ہماری تاریخ تعمیر و ترقی کے لئے استعمال نہیں ہو سکی میں میں نے اس کتاب میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کے آج تک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کی ضخامت اجازت نہیں دیتی تھی ورنہ میں ایک ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کر تا لیکن میری کوشش یہ رہی ہے کہ آپ کو ماضی کے سیاسی سیٹ اپ سے آگاہ کروں اور آپ کو سیاست دانوں کی غلطیوں کے بارے میں بتاؤں۔ سیاست دانوں کے مثبت رویوں کے بارے میں بتاؤں۔ سیاستدانوں کی کرپشن کے بارے میں بتاؤں۔ سیاستدانوں کی ایمانداری کے بارے میں بتاؤں۔ ان سیاستدانوں کے بارے میں بتاؤں جو پھٹے پرانے کپڑوں میں سیاست میں آئے اور اربوں کھربوں روپے کے مالک بن گئے اور سیاست پر اس طرح قابض ہوئے کہ آج ان کی کی نسلیں سیاستدان ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ پاکستان کو سب سے زیادہ جس سیاسی کمزوری نے نقصان پہنچایا وہ موروثی سیاست ہے۔ جی ہاں موروثی سیاست۔ موروثی سیاست جس کی وجہ سے غیر سیاستدان اولادیں خود کو سیاستدان سمجھتی ہیں۔اورخود کو اپنی پارٹی کا بلا شرکت غیرے مالک سمجھتی ہیں۔ اور پاکستان کی عوام کو اپنا غلام سمجھتی ہیں۔ ان نسل در نسل نسل مفاد پرست سیاست دانوں نے پاکستان کو انتہائی نقصان شدید نقصان پہنچایا میری کوشش ہو گی کہ میں آپ کو پاکستان کی سیاسی و تاریخی معلومات مہیا کروںاورآ پ کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اصل صورت دکھائوں، تاکہ آپ آئندہ اپنے ووٹ کو درست طریقے سے استعمال کرسکیں اور ملک میں تعمیر ترقی ہو سکے۔ کرپٹ سیاست دانوں کا خاتمہ ہو سکے۔ مفاد پرست سیاست دانوں کو اٹھا کے باہر پھینکا جا سکے۔ ایسے لوگ جو سیاست کے نام پر کرپشن کر رہے ہیں۔ مفادات اٹھا رہے ہیں ۔ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ان کا کھیل ختم ہونا چاہیئے۔
قارئین میری یہ کتاب اس وقت مارکیٹ میں آ رہی ہے جبکہ کشمیر کے الیکشن سر پر ہیں آپ کو گلی گلی میں مفاد پرست سیاست دانوں کے بینر اور نعرے نظر آ رہے ہیں۔ یہ مفاد پرست اور کرپٹ لوگ عوام کے اندر موجود کالی بھیڑوں کو خرید لیتے ہیں جو ان کی جے جے کار کرتے ہیں ان کرپٹ سیاستدانوں کی کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور لوگوں کو مائل کرتے ہیں کہ وہ انہی کرپٹ سیاستدانوں کو دوبارہ سے ووٹ دیں۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے پاکستان بالخصوص کشمیر کے لوگ اس کتاب کو بغور پڑھیں گے۔ اور آنے والے الیکشن میں صرف اور صرف غیر جانبدار، ایماندار سیاستدانوں کو ووٹ دیں گے۔ جس سے ہمارا ملک بالخصوص کشمیر تعمیر و ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوگا ہمارے عوام جن مسائل سے دوچار ہیں ان مسائل کا خاتمہ ہوگا کشمیر میں بھی دنیا کے دیگر دیگر ملکوں کی طرح خوب تعمیر و ترقی ہوگی۔اس تناظر میں اس کتاب میں جو معلومات دی گئی ہیں ان شاء اللہ تعالی کو پسند آئیں گی۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔لیکن عوام اس وقت اس نظام سے نالاں نظر اتے ہیں۔ اور ادارہ جاتی کرپشن اور سیاستدانوں کی اپنے اختیارات اور فنڈز کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ نوجوان ملازمت اور روزگار کے حاوالے سےمایوسی کی اتھاہ گہرائیوںمیں ڈٖوبے ہوئے ہیں۔ میری کوشش ہو گی کہ میں اپنے قا رئین کے سامنے اسلام کے ساتھ ساتھ ممکنہ سیاسی نظاموںپر ایک نظر ڈالوںتاکہ سولسوسائٹی اورباشعور طبقہ اس حوالےسےفیصلہ کر سکے کہ ملک کو کس نظام کے تحت چلایا جائے۔ جس سے ملک تعمیر و ترقی کی منازل طے کرے اور ہمارے عوام ترقی کے فوائد سے مستفید ہو سکیں۔
اس حوالے سے مجھے آپ کی آراء کا انتظار رہے گا اس کتاب کو تحریر کرنے میں مجھے بہت سے دوستوں کا تعاون رہا ہے ان کا میں شکر گزار ہوں بالخصوص محمد موسیٰ سومرو المعروف ابن انسان نے اس کتاب کی تحقیق میں میری بہت مدد کی ہے۔میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ آخر میں یہی التماس ہے کہ اگر اس کتاب میں کوئی کوریکشن نظر آتی ہے تو مجھے پلیز بروقت مطلع کیجیے گا تاکہ نیکسٹ ایڈیشن میں ہم اس کی تصحیح کر سکیں۔

مورخہ:۔10جون 2021
راجہ ابرار احمد سوشل ریسرچر
چیف ایڈیٹر: روزنامہ اختلاف نیوز
اختلاف نیوز میڈیا گروپ آف پبلیکیشنز

دیباچہ

علامہ نے فرمایاتھا
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
پاکستان کے پہلے وزیرا عظم لیاقت علی خان کو بالعموم ایک پروگریسو شخصیت سمجھا جاتا ہے مگر نظریہٴ پاکستان کے بارے میں انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا قیام اسلام کے لئے ایک لیبارٹری ثابت ہو گا۔ تخلیق پاکستان کے موقع پر سب سے اہم کام مسئلہ قومیت کی تشریح تھی۔ کانگریس اور اس کے ہمنوا علمائے کرام مسلم کتب دشمنی یا کم فہمی کی بنا پر وطن، جغرافیے اور نسل وزبان کو قومیت کی بنیاد سمجھتے تھے مگر مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ظفر احمد انصاری نے وضاحت کی کہ اسلامی قومیت کی زبان ونسل نہیں عقیدہ ہے اور عقیدہ پر ہے کہ ہمارا معبود اللہ ہے اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔نظریہٴ پاکستان کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تو پاکستان ،قرار دادِ پاکستان ،مطالبہٴ پاکستان اور حصول پاکستان کا تھا جو بخیروخوبی تمام ہوا اور خود قائد اعظم محمد علی جناح رح کی قیادت میں مکمل ہوا ۔نظریہٴ پاکستان کا دوسر ا مرحلہ ابھی تشنہٴ تکمیل ہے ۔دوسرا مرحلہ وہی ہے کہ جس کا تذکرہ قائد اعظم محمد علی جناح رح نے1945-1946ء کی انتخابی مہم کے دوران بار بار کیا کہ ہم پاکستان کو ایک خوشگوار اور خوشحال ملک بنانا چاہتے ہیں ۔پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھایا جائے گا جو اسلام کے عدل وانصاف پر مبنی اصولوں پر قائم ہو گاجہاں خوشی اور خوشحالی کا چلن عام ہوگا۔1944ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگی قائدین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ دنوں مجھے ملک کے کونے کونے میں جانے کا اتفاق ہوا، مجھے یہ دیکھ کر شدید صدمہ ہوا کہ مسلمان ہر جگہ نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔خوشحالی انہیں چھو کر بھی نہیں گزری وہ بدحالی کا شکار ہیں ۔اگر اہل ثروت کی تجوریاں بھرنے کیلئے پاکستان بنایا جا رہا ہے تو پھر میں اس جرم میں ہرگز شریک نہیں ہوں گا۔ قائداعظم نے شدید ترین الفاظ میں جاگیرداروں کی مذمت کی اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے رویّے کو درست کریں۔
پاکستانی قوم کی بدقسمتی تھی کہ جب بھارت صرف دوسال کے عرصے میں آئین تیار کرکے نافذ کر چکا تھا اس وقت ہمارے سیاست دان باہم دست و گریباں تھے اور سول وملٹری بیوروکریسی کی ملک کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں۔ 11/اگست1947ء کو قائد اعظم رح کی تقریر میثاق مدینہ کی پیروی کا ایک بہترین شاہکار تھا مگر گنتی کے چند سیکولر دانشوروں نے اس تقریر کے دوجملوں کو بنیاد بنا کر کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں تحریر کر ڈالیں مگر حقیقت یہ ہے کہ باربار قرآن پاک کو دستور پاکستان قرار دینے والے قائد اعظم محمدعلی جناح رح مغربی سیکولرازم کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔11/اگست کے دوجملوں میں قائد اعظم نے اقلیتوں کو بے پناہ اعتماد دیتے ہوئے کہا کہ آج سب اپنے اپنے معبدوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔
اور بحیثیت شہری آپ سب برابر ہیں ۔ قائداعظم وہ ریاست مدینہ کے نمونے پر دور جدید کی ایک اسلامی ریاست بنانے کے خواہاں تھے جہاں معاشی خوشحالی، سیاسی آزادی، معاشرتی رواداری اور تعلیمی ترقی اسلامی اصول مساوات وانصاف پر مبنی معاشرے کا قیام اُن کی اولین ترجیح تھی ۔نظریہٴ پاکستان کا یہ دوسرا مرحلہ صرف مکمل نہیں ہوا بلکہ 65برس کے دوران جاگیرداروں ،سرمایہ کاروں،اقتدار پرست جرنیلوں ،نوکر شاہی کے کل پرزوں اور بعض دانشوروں نے وہ لوٹ مار مچائی کہ الحفیظ والامان اور آج ملک کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی کیلئے ترس گئے ہیں، بجلی کیلئے ترس گئے ہیں،گیس کیلئے ترس گئے ہیں،علاج معالجے کیلئے ترس گئے ہیں ، انصاف کیلئے ترس گئے ہیں اور یکساں تعلیم کے لئے ترس گئے ہیں۔آج وہی لیڈر قائد اعظم کا جانشین کہلانے کا حقدار ہو گا جو بانیٴ پاکستان کے وژن کے مطابق نظریہٴ پاکستان کا دوسرا مرحلہ مکمل کرے گا اور ملک میں خوشحالی لائے گا۔
14اگست ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ وقت گزرتار ہےگا اور 14اگست کا دن ہماری قومی زندگی میں بار بار آتا رہے گا، اسی طرح وہ تحریک بھی زندہ و پائندہ تابناک اور ضوفشاں رہے گی، جس کا آغاز بر صغیر پاک و ہند میں اس احساس کے ساتھ ہوا کہ مسلمان یہاں ایک مختلف قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں اپنی قومی انفرادیت ، اپنی حیثیت اور معاشرت، علوم و فنون ،تہذیب اور اس کی اقدار کی ارتقا کے لیے ایک الگ ریاست قائم کرنی ہوگی۔ 14اگست 1947کو ریاست پاکستان ظہور میں آگئی۔ قرار داد پاکستان کی منظوری سے قیام پاکستان کے اعلان تک صرف سات سال کا عرصہ اس بات کا شاہد ہے کہ ، جو قوم اپنے مقصد پر یقین رکھتی ہے، اپنی صفوں کو آہنی دیوار کی طرح استوار کرتی ہےاور اپنے قائد کی فراست پہ کامل یقین کے ساتھ قدم آگے بڑھاتی ہے۔
اس کے لیے کوئی راستہ دشوار اور کوئی منزل دور نہیں ہوتی ۔آزادی کا یہ دن ایک منزل نہیں صرف نشان منزل ہے۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے بے پایاں قربانیوں کے نتیجے میں ایک ملک تو حاصل کرلیا، لیکن اصل مقصد تو اس کے بعد آتا ہے، یعنی ایک ایسے معاشرے کا قیام ، جو دین داری، روشن خیالی، علم، فن، تہذیب، معاشرت اور معیشت کے اعتبار سے دوسرے ملکوں کے لیے ایک مثال ہو، آخر یہی تو مقصد تھا، جس کے حصول کی خاطر ہم نے ایک الگ ملک کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد تقریباً چوتھائی صدی کا عرصہ ہم نے ضائع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا نصف حصہ گنوا بیٹھے۔ اب ان باتوں کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ ماضی کی غلطیوں سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے ۔
ہمارے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ ملک میں آئین اور جمہوریت کے اصولوں کو کسی حد تک مستحکم بنا دیا گیا۔ ملک کی اقتصادی حالت پے در پے حادثوں کے باوجود اب پہلے سے کہیں بہتر ہے، گرچہ ہمارے روایتی دشمن آج بھی وہی ہیں ، جو کل تھے لیکن ان کے مقابلے میں دوستوں کی تعداد کرۂ ارض پر ایک سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ہے اور ان کے ساتھ ہمارے دوستانہ مراسم اور باہمی لین دین میں برابر اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم قومی اتحاد کی بہ دولت تمام دشواریوں پر قابو پالیں گے اور مسلسل محنت کی بہ دولت اس معاشرے کی تشکیل میں کام یاب ہوں گے ، جس کی خاطر پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔
قائد اپنی غیر معمولی فراست اور عظمت کردار سے ٹوٹی پھوٹی کشتی کو ساحل مراد تک لانے میں کام یاب رہے۔ ہمیں آزادی حاصل کیے 70 سال ہونے کو آئے ہیں اور آج یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ہم نے آزادی کے کتنے بنیادی تقاضے پورے کیے ہیں اور نئے تقاضوں کا ہمیں کتنا شعور ہے۔
دوسری اقوام کے مقابلے میں ہماری آزادی کے تقاضے کسی قدر مختلف ہیں۔ ہمیں اس تاریخی تسلسل کا بھی اہتمام کرنا ہوگا، جو ملت اسلامیہ کے تصور سے وابستہ چلا آرہا ہے۔آج ہم حالات کے جس بھنور میں ہچکولے کھا رہے ہیں، اس کا بڑا سبب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی کھینچا تانی اور جمہوری رواداری کا شدید فقدان ہے۔ بداعتمادی کی فضا میں شکوک و شبہات خطرات کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔پاکستان کی تشکیل کا بنیادی مقصد عوام کا معیار زندگی بلند کرنا اور انہیں ہر سطح پر باوقار بنانا تھا۔ قائداعظم نے 1942ء میں فرمایا تھا کہ، میری جدوجہد جاگیرداری کے خاتمے، اقتصادی اور تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لیے ہے۔ وہ اپنی ہر تقریر میں معاشرتی انصاف کی اہمیت اجاگر کرتے ، مساوات، حریت اور اخوت کو معاشرے کے بنیادی اجزا قرار دیتے تھے۔ انہوں نے شدید نقاہت کی حالت میں اسٹیٹ بینک کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان میں ایک ایسا اقتصادی نظام فروغ پائے گا ،جو شہریوں کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے یکساں مواقع فراہم کرے گا۔ معاشرتی اور معاشی ناہم واریاں بتدریج دور ہوجائیں گی ،محروم اور پس ماندہ طبقوں کا ملکی وسائل پر سب سے زیادہ حق ہوگا۔‘‘
70 برس قبل ہم بکھرے ہوئے اور کم زور تھے، ہم نےنئے سفر کا آغاز کیا اور کافی حد تک آگئے گئے لیکن مختلف وجوہ کی وجہ سے ہم بحرانوں کا شکار رہے، ہمارے قدم مسلسل لڑکھڑاتے رہے اور اب تک لڑکھڑا رہے ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اے پاک پروردگار، تو ہمیں متحد کردے، ہمیں حوصلہ دے، ہمیں دنیا بھر میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل بنا دے۔آمین۔
آج اگر ہم اپنے ماضی پر ڈالیں کہ اس عرصے میں کیا کچھ کیا ہے، گوکہ ہماری حالیہ تاریخ اتنی قابل فخر نہیں کہ اس کے ساتھ ہم دنیا میں سر اٹھا کر کھڑے ہو سکیں، لیکن اتنی اہم ضرور ہے کہ اس کا نئی نسل کو ضرور پتا ہونا چاہئے۔ اس مضمون میں کوشش کی جارہی ہے کہ مختصراً ستر سال کو چند صفحات میں سمیٹ دیا جائے۔
جب پاکستان بنا تو اس میں رہنے والے ایک عام انسان کے خواب یہ تھے کہ اس میں ایک فلاحی ریاست کی تمام خوبیاں موجود ہوں گی، صحت اور تعلیم کی سہولتیں مفت اور اعلٰی درجے کی ہوں گی، فراہمی اور نکاسی آب کا بھرپور انتظام ہوگا، توانائی کے ذرائع مہیا کئے جائیں گے، سڑکوں کے جال بچھائے جائیں گے، لوگ اپنے گلی محلوں اور اپنے گھروں میں محفوظ ہوں گے ،طرز حکم رانی منصفانہ ہوگا اور انصاف کی فراہمی ہر ایک کو ہوگی۔
اگر عام آدمی کے یہ خواب تھے تو دیگر طبقات کے خواب خاصے مختلف تھے۔ مثلاً اس خطے میں رہنے والے زمین داروں اور جاگیر داروں کے خواب یہ تھے کہ کسی قسم کی زرعی اصلاحات نہ ہوں اور اگر ہوں بھی تو انہیں ناکام بنادیا جائے، کیوں کہ متحدہ ہندوستان میں کانگریس اعلان کرچکی تھی کہ فوری زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں گی، یعنی بڑے بڑے زمین داروں اور جاگیر داروں سے ان کی زمینیں چھین کر تقسیم کی جائیں گی اور زیادہ سے زیادہ زمین رکھنے پر حکومتی پابندی ہوگی۔اسی طرح نوزائیدہ پاکستان میں رہنے والے اور آنے والے زیادہ سرمایہ داروں کے خواب یہ تھے کہ انہیں بھارت کے زیادہ تر غیر مسلم سرمایہ داروں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا، پاکستان کی معیشت اور صنعت اب مسلمان سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی مرہون منت ہوں گی، جس میں وہ بلاشرکت سرمایہ کاری کریں گے اور خوب منافع کمائیں گے۔
اُس وقت کی مسلمان سول اور فوجی افسر شاہی کے خواب یہ تھے کہ اب انہیں سرکاری عہدوں کے لیے غیرمسلموں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا، وہ اعلٰی ترین عہدوں پر بڑی آسانی سے پہنچ جایا کریں گے اور ایسا ہوا بھی۔ مثلاً جنرل ایوب خان کبھی بھی متحدہ ہندوستان میں آرمی چیف نہیں بن سکتے تھے اور نہ خود کو فیلڈ مارشل کا عہدے دے پاتے اور شاید نہ ہی خود کو ملک کا صدر بنا سکتے تھے۔ یہ سب اسی لیے ممکن ہوا کہ یہاں سول اور فوجی افسر شاہی نے اپنے ان سب خوابوں کی تعبیر حاصل کی، جو شاید وہ متحدہ ہندوستان میں بھی حاصل نہ کر پا سکتے۔
اسی طرح مذہبی رہنمائوں کے یہ خواب تھے کہ وہ پاکستان میں ایک تھیوکریسی یا ملائیت کا راج لے آئیں گے، جہاں پر ان کے مذہب اور فرقے کو مکمل بالادستی ہوگی اور معاشرے کے ہر شعبے میں فرقہ واریت کو گھسا کر لوگوں کی عام زندگی کو بھی فرقوں کے تابع کردیا جائے گا۔اسی طرح سیاست دانوں کے یہ خواب تھے کہ سیاست پر غیر مسلم مخالفین کا سامنا نہ کرنا پڑے، خاص طور پر جو پہلی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی تھی، اس کی کوشش یہ تھی کہ دستور ہی نہ بن پائے، کیوں کہ نیا آئین بننے کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی کو خود تحلیل ہوجانا تھا اور اسمبلی کے اکثر ارکان کو خطرہ تھا کہ نئے دستور کے تحت نئے انتخاب میں شاید وہ جیت نہیں پائیں گے، اس لیے آئین سازی کا عمل طویل سے طویل تر کیا جاتا رہا۔اس سارے عمل میں جو عام آدمی کے خواب تھے، وہ پورے نہ ہوسکے، البتہ باقی سب نے اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر بڑی حد تک حاصل کرلی۔ عوام کو صحت اور تعلیم کی کی سہولتیں تو نہ مل سکیں، لیکن جاگیر دار اور زمین دار بدستور اپنی جاگیروں پر قائم رہے۔ فراہمی اور نکاسی آب کی سہولتیں تو پسماندہ رہیں، لیکن سرمایہ دار قرضے لے کرخوب کھاتے اور اپنی صنعتوں کا فضلہ آبی وسائل میں ڈال کر عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے رہے۔
بجلی کی سہولتوں کے لیے تو عوام ستر سال سے ترس رہے ہیں، لیکن سول اور فوجی افسر شاہی اپنے لیے خوش حالی کے جزیرے ضرور قائم کرتی رہی۔ اسی طرح عوام کو دیہی علاقوں تک سڑکوں کی سہولتیں تو حاصل نہ ہوسکیں، حتیٰ کہ شہروں میں بھی سڑکوں کی حالت بہت خراب رہی اور اب تک ہے۔
سو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسے ہوا کہ عوام کے خواب تو دھرے کے دھرے رہ گئے اور باقی سارے طبقات اپنے مفادات بھرپور طریقے سے حاصل کرتے رہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ قیام پاکستان کے بعد جو کام سب سے پہلے کرنے تھے، ان سے رو گردانی کی جاتی رہی۔ مثلاً آئین سازی سب سے پہلا مرحلہ تھا، کیوں کہ آئین ہی ملک کو ایک مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کرسکتا تھا، مگر تقریباً تمام سیاسی رہنما اس کوشش میں لگے رہے کہ آئین نہ بن پائے۔جمہوری روایات کی بیخ کنی آزادی کے پہلے سال میں ہی شروع کردی گئی۔ صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت کو شروع میں ہی برخاست کردیا گیا اور کوشش کی جاتی رہی کہ مسلم لیگ کے علاوہ اور کوئی سیاسی جماعت قائم نہ رہ پائے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کے تنازعات دیگر مقامی رہنمائوں سے ابھر کرسامنے آتے رہے۔
لیاقت علی خان کا حلقہ انتخاب پاکستان میں نہیں تھا اور بہت سے مقامی رہنما انہیں مہاجر سمجھ کر ان کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے اور خود لیاقت علی خان ایسے قدم اٹھاتے رہے کہ جس سے ان کی مخالفت میں اضافہ ہوا، اس کے علاوہ قرارداد مقاصد کی صورت ایک ایسی دستاویز قوم پر مسلط کردی گئی، جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔اس قرارداد کی پاکستان کے غیرمسلم باشندوں، خاص طور پر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے شدید مخالفت کی۔ پاکستان کے پہلے وزیر قانون، جو گندر ناتھ منڈل ایک ہندو تھے،جن کا انتخاب خود قائد اعظم نے کیا تھا۔ اُنہوں نے قرارداد مقاصد کو ایک ایسی دستاویز قرار دیا، جس کی وجہ سے پاکستان مذہبی بنیاد پرست اور فرقہ وارایت کی راہ پر چل نکلے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد وزیر قانون منڈل بھی مایوس ہو کر پاکستان سے چلے گئے اور پاکستان میں مذہبی رواداری کے امکانات کم سے کم ہوتے چلے گئے۔
یاقت علی خان کا چار سالہ دورِ حکومت سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا دور ثابت ہوا۔ کسی بھی صوبائی حکومت کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ مرکز ہر صوبائی معاملے میں مداخلت کرتا رہا۔ وزرائے اعلٰی کو بار بار برخاست کیا جاتا رہا اور ان پر بدعنوانی کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ دستور سازی کے بنیادی عمل سے کوتاہی برتی جاتی رہی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ملکوں افغانستان، بھارت اور سوویت یونین سے دُور کرکے امریکا کی گود میں بٹھا دیا گیا۔
پاکستان میں امریکی مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لیاقت علی خان کے دور میں ہی ترقی پسند اورسیکولر لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا۔ راول پنڈی سازش کیس بناکر اعلیٰ پائے کے دانش وروں اور مزدور رہنمائوں کو قید کردیا گیا، جن میں فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، حسن عابدی، ظفر اللہ پوشنی، میجر اسحاق محمد حسین عطاء اور دیگر کئی ترقی پسند دانش ور اور کارکن شامل تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دائیں بازو کے فرقہ پرست رہنما اور بنیاد پرست تو کھل کرکھیلتے رہے اور اس کے مقابلے میں ایک ترقی پسند اور لبرل بیانیہ دے سکنے والے لوگوں کو کچل کر رکھ دیا گیا۔ یہ عمل آج تک جاری ہے جس کے نتیجے میں ملک کا معاشرتی تار و پود بکھر کر رہ گیاہے۔
سن1967ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑنے لگی، اب تین بڑی سیاسی طاقتیں تھیں، جنہیں عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں بہت مقبول تھی اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلزپارٹی اور ینشنل عوامی پارٹی، جو ولی خان گروپ اور مولانا بھاشانی گروپ میں تقسیم ہوچکی تھی۔ ان تینوں سیاسی قوتوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں جنرل ایوب خان استعفٰی دینے پر مجبور ہوگئے اور انہوں نے خود اپنے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کردیا یا اب جنرل یحییٰ خان ملک میں ایک اور مارشل لا لگا کر صدر بن گئے ۔
جب مارچ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو لوگوں نے ایوب خان سے نجات ملنے پر سکون کا سانس لیا، پھر جنرل یحییٰ خان نے کچھ ایسے اعلانات کئے، جس سے عوام یہ سمجھنے لگے کہ یہ قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور اپنے اعلان کے مطابق انتخابات کراکر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کردیا جائے گا۔جنرل یحییٰ خان نے سیاسی سرگرمیوں کی مکمل آزادی دی اور عوام کے دیرینہ مطالبے، یعنی ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کیا، جس سے لوگ بہت خوش ہوئے۔ بالآخر دسمبر 1970ء میں عام انتخابات کرا دئیے گئے، جس میں مذہبی جماعتیں بری طرح ناکام ہوگئیں اور نسبتاً سیکولر اور لبرل جمہوری جماعتیں یعنی مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی اور عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔
مغربی پاکستان، خاص طور پر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام بھی کچھ نشستیں لینے میں کام یاب ہوگئی۔ یہ نتائج عوام کی خواہشات کے آئینہ دار تو تھے، مگر جنرل یحییٰ خان کے لیے بالکل غیرمتوقع تھے۔ جنرل صاحب یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی، جس سے سیاست دان آپس میں جھگڑنے لگیں گے اور موصوف خود صدر کی کرسی پر بیٹھے رہیں گے، جب کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تو جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو مل کر مجیب الرحمان کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جنرل یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے اور بھٹو خود اقتدار میں حصہ دار بننا چاہتے تھے اور حزب مخالف کے رہنما کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
مغربی پاکستان، خاص طور پر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام بھی کچھ نشستیں لینے میں کام یاب ہوگئی۔ یہ نتائج عوام کی خواہشات کے آئینہ دار تو تھے، مگر جنرل یحییٰ خان کے لیے بالکل غیرمتوقع تھے۔ جنرل صاحب یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی، جس سے سیاست دان آپس میں جھگڑنے لگیں گے اور موصوف خود صدر کی کرسی پر بیٹھے رہیں گے، جب کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تو جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو مل کر مجیب الرحمان کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جنرل یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے اور بھٹو خود اقتدار میں حصہ دار بننا چاہتے تھے اور حزب مخالف کے رہنما کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
دسمبر 1970ء کے انتخابات کے واضح نتائج کے بعد صدر جنرل یحییٰ خان کو فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا چاہئے تھا، مگر وہ اس کوشش میں تھے کہ انہیں صدر مملکت کے عہدے پر برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی جائے، جس کے لیے شیخ مجیب الرحمان تیار نہیں تھے، شیخ مجیب بھاری اکثریت سے کام یاب ہوچکے تھے اور ملک کا وزیر اعظم بننے کے لیے تیار تھے، مگر جنرل یحییٰ خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اتنی آسانی سے مجیب الرحمان کو اقتدار دینے پر تیار نہیں تھے۔ بھٹو مغربی پاکستان کے وزیر اعظم بننا چاہتے تھے اور اس پر مجیب سے اقتدار میں شراکت کے خواہاں تھے۔ جب مجیب نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے تو تین ماہ کے لیت و لعل کے بعد جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے نتائج کو منسوخ کردیا اور عوامی لیگ کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔
اس طرح مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جو بالآخر دسمبر 1971ء میں لاکھوں شہریوں کے قتل کے بعد بنگلا دیش کے قیام پر منتج ہوا۔ اس طرح متحدہ پاکستان کا خاتمہ ہوگیا اور مشرقی پاکستان بھارت کی فوجی مداخلت کے بعد بھارتی فوج کے قبضے میں آگیا، جس نے مجیب کی عوامی لیگ کو اقتدار سونپ دیا۔ پاکستان کے تقریباً ایک لاکھ فوجی اور غیرفوجی لوگ بھارت کی قید میں چلے گئے اور پاکستان کو جمہوریت سے انحراف کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی، اسی طرح پاکستان اپنے قیام کے پچیس سال بعد دو لخت ہوگیا۔
سن1971ء کے بعد کا نیا پاکستان
بھٹو صاحب نے جب اقتدار سنبھالا تو پاکستان کا بچا کچھا حصہ جو اب مغربی پاکستان سے صرف پاکستان رہ گیا تھا ایک عجیب طرح کی مایوسی کا شکار تھا، اس کے تقریباً ایک لاکھ سول اور فوجی لوگ بھارت کی قید میں تھے۔ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالنے کے بعد یہی مناسب سمجھا تھا کہ جنرل یحییٰ کو معزول کرکے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دیا جائے اور بھٹو اس کے لیے تیار تھے۔ غالباً وہ یہی چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان بے شک الگ ہوجائے، مگر مغربی پاکستان میں چونکہ ان کی جماعت اکثریت حاصل کرچکی ہے، اس لیے وہ یہاں ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتےتھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے اس دوران انتہائی منفی کردار ادا کیا اور مجیب الرحمان کی جیت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح وہ خود اقتدار میں حصے دار بن جائیں اور انہیں حزب مخالف کا کردار ادا نہ کرنا پڑے، لیکن اس کے باوجود پاکستان ٹوٹنے کے اصل ذمے دار جنرل یحییٰ خان اور جنرل ٹکا خان اور جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تھے، جنہوں نے اقتدار کے نشے میں مشرقی پاکستان کی اکثریتی حمایت رکھنے والی جماعت کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔مارچ 1971ء سے دسمبر 1971ء تک کی خانہ جنگی اور بھارت سے جنگ کا عرصہ پاکستان کی فوجی قیادت نے انتہائی شرم ناک طریقے سے گزارا۔ جنرل یحییٰ خان اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہے اور جنرل نیازی بنگالیوں کی نسل تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد شکست کے اس داغ کو دھونے کی کوشش کی۔ صرف چھ ماہ بعد بھارت سے مذاکرات کا ڈول ڈالا اور جولائی 1972ء میں شملہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی رو سے پاکستان کے قیدیوں کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی، مگر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو نے مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیاد پر حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، ورنہ غالباً اس سے بہتر موقع کوئی نہ تھا۔
1972ء میں بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ایک سہ فریقی معاہدہ کرکے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں این اے پی اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت بنانے کی اجازت دی، مگر بہت جلد بھٹو ہر قسم کی مخالفت کو کچلنے کے درپے ہوگئے، صرف نو ماہ بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کو غداری کا الزام لگا کر برطرف کردیا، جس پر احتجاجاً صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود نے بھی وزیر اعلٰی کی حیثیت سے استعفٰی دے دیا،ان دونوں صوبوں میں پیپلزپارٹی مخالف حکومتیں ختم ہوگئیں اور بھٹو صاحب نے وہاں بھی جیسے تیسے اپنی حمایتی حکومتیں قائم کرلیں۔
سن1973ء کا سال اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس برس ملک کو نیا اور متفقہ آئین ملا، جس پر حزب مخالف نے بھی دست خط کئے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اپنی حکومتیں ختم ہونے کے بعد بھی اس آئین پر دست خط کرنے پر راضی ہوگئیں ، اس طرح اس متفقہ آئین کی منظوری کا سہرا بھٹو کے علاوہ ولی خان اور مفتی محمود کو بھی جاتا ہے۔بھٹو نے جلدی جلدی اپنے اسلامی سوشلزم کے نعرے پر بھی عمل کیا، تقریباً تمام بڑی صنعتیں اور بینک ریاستی ملکیت میں لے لیے۔ تمام تعلیمی ادارے بھی ہتھیا لیے گئے، جن سے صنعت کاری اور تعلیم کے شعبوں پر خاصا منفی اثر پڑا۔اگر ریاستی ملکیت میں لینے کے بعد ان اداروں کا معیار بہتر بنایا جاتا تو یہ قدم سودمند ہوتا، مگر ہوا یہ کہ تمام صنعتیں اور بینک ریاستی ملکیت میں لینے کے بعد اس میں سول اور فوجی افسر شاہی کا راج ہوگیا اور اپنی مرضی کے سیاسی حمایتی بھرتی کئے جانے لگے، جس سے کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔ نئی سرمایہ کاری اور صنعت بالکل رک گئی اور نئے تعلیمی ادارے بھی کھلنا بند ہوگئے، یعنی نجی شعبہ بالکل مفلوج ہوگیا، جس کی وجہ سے تاجر اور صنعت کار بھٹو کے مخالف ہوتے گئے، پھر بھٹو نے خود اپنے آئین کو تاراج کیا اور تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز کرلیے۔ 1974ء میں بھٹو نے ملک کی سب سے بڑی لبرل، سیکولر اور جمہوریت پارٹی یعنی نیشنل عوامی پارٹی پر حتمی حملہ کیا اور اس پر غداری کا الزام لگا کر پابندی لگا دی تمام بڑے رہنما، مثلاً عبدالولی خان، عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر وغیرہ سب گرفتار کرلیے گئے۔ یہ ملک میں جمہوریت پر ایک بڑی کاری ضرب تھی اور اس سے دائیں بازو کی انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ ملک میں بنیاد پرست اور فرقہ پرست قوتیں دندناتی پھر رہی تھیں، لیکن لبرل اور ترقی پسند قوتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا اور یہ گلا گھونٹنے والی کوئی فوجی حکومت نہیں، بلکہ خود بھٹو کی جمہوری طور پر منتخب حکومت تھی۔
بھٹو نے ایک طرف تو حزب مخالف کو کچلا اور دوسری طرف بھارت دشمنی کا راگ الاپنا شروع کیا۔ کشمیر کےلیے ہزار سالہ جنگ لڑنے کی باتیں کیں۔ ملک کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کےلیے ایٹم بم کے راستے پر ڈالا اور خود کو عرب ممالک کے بہت قریب لے گئے، اس سے ملک میں بائیں بازو کی ترقی پسند اور لبرل طاقتیں کمزور ہوئیں اور دائیں بازو کی ملائیت کو فروغ ملا، جو بالاخر بھٹو صاحب کو لے ڈوبا۔1976 تک بھٹو صاحب نے آئینی ترامیم کرکے عدلیہ کو بھی بڑی حد تک اپنے زیر نگین کرلیا، ایسا لگتا تھا کہ بھٹو صاحب بڑے طویل عرصے اقتدار میں رہیں گے، کیوں کہ حزب مخالف کچلی جاچکی تھی۔ فوج میں جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنادیا گیا، جو بھٹو کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے تھے۔ بھٹو کی تشکیل کردہ فیڈرل سیکورٹی فورس (FSF) کے غنڈے من مانی کارروائیاں کرتے پھرتے تھے اور بھٹو ان سے بہت خوش تھے، ایسے میں بھٹو قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے پہلے تو حزب مخالف کو حیران کردیتے ہیں، پھرجلد ہی خود حزب مخالف متحد ہوکر بھٹو صاحب کو نہ صرف حیران،بلکہ پریشان بھی کردیتی ہے۔
مارچ 1977 کے انتخابات میں بھٹو اگر دھاندلی نہ بھی کراتے تو جیت جاتے ،کیونکہ ان کو عوامی مقبولیت حاصل تھی، مگر جب انہوں نے خود بلامقابلہ منتخب ہونے کا راستہ اپنایا تو ان کے سینئر وزیر و مشیر بھی بلامقابلہ منتخب ہونے لگے۔
حزب اختلاف نے متحد ہوکر پاکستان قومی اتحاد (PNA) تشکیل دے لیا ، جس کا بنیادی نعرہ نظام مصطفٰے کا قیام تھا، اس میں حزب مخالف کی نو چھوٹی بڑی جماعتیں شامل تھیں، جو نظریاتی طور پر بہت مختلف تھیں، مگر سب بھٹو کی حرکتوں سے نالاں تھیں۔ اس میں دائیں اور بائیں شامل تھیں اور اس کی قیادت مولانا مفتی محمود کررہے تھے۔ نیپ کی جگہ سردار شیر باز خان مزاری کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی تھی ،جو اس اتحاد کا حصہ تھا۔
الیکشن کے نتائج میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تو پی این اے نےدھاندلی کا الزام لگا کر تحریک چلانے کا اعلان کیا، اس تحریک نے مارچ سے جون تک صرف تین ماہ میں پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ بھٹو احتجاجی تحریک پر قابو نہ پا سکے اور مذاکرات پر مجبور ہوگئے۔ طویل مذاکرات کے بعد نئے انتخابات پر راضی بھی ہو گئے، مگر معاہدے پر دستخط میں دیر کردی، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو کے منظور نظر آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور بھٹو کو معزول کرکے خود اقتدار پر قابض ہوگئے۔
پانچ جولائی کو جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی جرنیل جمہوریت پر حملہ آور ہوئے اور تمام سیاسی رہنمائوں کو حراست میں لے لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 90 دن میں انتخابات کا وعدہ کیا، مگر گیارہ سال سے زائد اقتدار پر قابض رہے، اس طرح پاکستان میں ایک اور تاریک دور کا آغاز ہوا، جس نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچایا، جتنا ضیاء الحق سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں پہنچایا ہوگا۔جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی بھٹو سے نجات حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی، ایک پرانا کیس کھولا گیا، جس میں بھٹو قتل کے ملزم کے طور پر نامزد تھے۔ نواب محمد احمد خان قصوری کے بیٹے احمد رضا قصوری نے بھٹو پر اپنے والد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا، عدلیہ نے اس دوران فوجی حکومت کی خوش نودی کے لیے جنرل ضیاء الحق کے من پسند فیصلے سنائے پہلے تو جنرل ضیاءالحق کے اقتدار پر قبضے کو جائز قرار دیا گیا، پھر ججوں میں ردو بدل کر کے بھٹو کو بالاخر پھانسی کی سزا سنا دی۔
عالمی رہنمائوں کی درخواستوں کے باوجود اپریل 1979میں جنرل ضیاء الحق نے ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل مسترد کر دی اور انہیں پھانسی پر لٹکا دیا ۔دسمبر1979میں افغانستان میں روسی فوجوں کی مداخلت سے یہ خطہ ایک نئی جنگ کا شکار ہوا۔ امریکا نے جنرل ضیاء الحق اور ان کی حکومت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ملک میں جہادی کلچر فروغ پانے لگا۔ہزاروں کی تعداد میں مدرسے کھولے گئے اور جہادیوں کی تربیت کے لیے امریکا نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے، جس میں ہماری سول اور فوجی افسر شاہی نے بھرپور فائدے اٹھائے۔ ملک میں لاٹھی، کوڑے اور پھانسیوں کو فروغ دیاگیا، مگر امریکا کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا وہ تو پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کو زچ کرنا چاہتے تھے ،جو اس نے کیا۔
جنرل ضیاءالحق نے آئین، جمہوریت، انسانی حقوق ،وغیرہ کے پرخچے اڑا دیئے اور تمام دائیں بازو کی جماعتیں خاص طور پر جماعت اسلامی نے اس دور میں اقتدار کی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور ملک کو اس فرقہ واریت میں دھکیلا،جس کے بعد آج تک نہ نکل سکے ۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میں بھٹو کی ریاستی ملکیت کی پالیسی تبدیل کی، بہت سے صنعتی اور تعلیمی ادارے اُن کے پرانےمالکان کو واپس کئے، جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑے، پھر امریکی پیسہ بھی ملک میں آ رہا تھا۔
آٹھ سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے بعد 1985میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا، مگر وہ بھی تین سال سے زیادہ نہ چل سکے۔جب اپریل1988میں اوجڑی کیمپ کے دھماکے ہوئے تو جونیجو نے اس کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرانی چاہی ،جس پر جنرل ضیا جزبز ہوئےاور جونیجو کو برطرف کربیٹھے، پھرخود بھی اگست1988کو ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے۔
جنرل اسلم بیگ نئے آرمی چیف بن گئے اور غلام اسحاق خان نئے صدر، جنہوں نے عام انتخابات کرائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں، مگر انہیں اقتدار مشروط طور پر دیا گیا اورانہیں مجبور کیا گیا کہ وہ غلام اسحاق خان کو صدر اور صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ کے طور پر قبول کریں گی۔بے نظیر بھٹو کی بمشکل بیس ماہ حکومت رہی اور اگست1990میں غلام اسحاق نے انہیں برطرف کر دیا، پھر نئے انتخابات کرا کر اُس وقت کےاسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر میاں شریف کو وزیر اعظم بنا دیا گیا، جو تین سال بعد غلام اسحاق خان سے لڑ بیٹھے اور انہیں بھی 1993میں برطرف کر دیا گیا، مگر خود غلام اسحاق خان کو بھی صدارت سے محروم ہونا پڑا۔
سن1993ء میں بار بار حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ سال شروع ہوا تو نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ اپریل 1993ء میں غلام اسحاق نے انہیں برطرف کر کے مہر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیر اعظم بنا دیا، جو صرف چالیس دن وزیر اعظم رہنے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو بحال کیے جانے پر گھر چلے گئے۔ نواز شریف کی بحالی کو غلام اسحاق خان نے قبول نہیں کیا، جس پر آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کر کے صدر اور وزیر اعظم دونوں کو گھر بھیج دیا اور معین قریشی کی نگراں حکومت تشکیل دی گئی،پھر انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بن گئیں اور اپنے پرانے ساتھی فاروق احمد خان لغاری کو صدر بنا دیا، لیکن پھر بھی جمہوریت نہ پنپ سکی۔ تین سال بعد بے نظیر اور لغاری ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ صدر فاروق لغاری نے جنرل ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم کے تحت وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکو پھر فارغ کردیا۔فروری 1997ء کے انتخابات میں نواز شریف جیت کر دوبارہ وزیر اعظم بن گئے، مگر ڈھائی سال بعد جنرل پرویز مشرف نے انہیں گرفتار کر کے معزول کر کے جلا وطن کردیا۔ 1988ء سے 1999ء تک کا نام نہاد جمہوری دور پاکستان کے لیے انتہائی عدم استحکام کا دور تھا، جس میں دو بار نواز شریف وزیر اعظم بنے ،مگر کسی کو بھی ٹک کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، بالآخر ایک اور فوجی حکومت نے اقتدار پر قبضہ کیا اور جنرل پرویز مشرف اپنی کارگل کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے خود وزیر اعظم کو ہی نشانہ بنا بیٹھے۔ اس طرح جنرل پرویز مشرف کی 9 سالہ آمریت کا دور شروع ہوا، جو جمہوریت کو مزید نقصان پہنچانے کا باعث بنا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے 9 سال دور اقتدار میں پہلے تین سال بلا شرکت غیرےحکومت کی، کیونکہ چیف جسٹس ارشاد حسن نے ایک بار پھر عدلیہ کو فوجی حکومت کی مدد پر مجبور کردیا تھا اور مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا، پھر 2002ء میں جنرل مشرف نے انتخابات کرا کر اپنی پسند کی حکومت قائم کی،جس میں پہلے جمالی کو وزیر اعظم بنایا گیا، پھر چودھری شجاعت کو اور پھر شوکت عزیز کو۔جنرل مشرف کے دور میں امریکا میں ورلد ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا، جس سے امریکا کو افغانستان میں فوجی مداخلت کا موقع ملا اور جنرل مشرف کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اپنے 9 سال دور اقتدار میں جنرل مشرف نے جنرل ضیاء الحق کی طرح پاکستان کو مکمل طور پر امریکی اشاروں پر چلایا ، پھر بالآخر چیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی پرتمام جمہوری قوتیں اور وکلا تنظیمیں چیف جسٹس کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں، جس کی وجہ سے مشرف کو ہنگامی حالات نافذ کرنا پڑے۔ مشرف نے بے نظیر کے ساتھ NRO کیا، مگر بے نظیر نے جنرل مشرف کے اشاروں پر چلنے سے انکار کیا ،پھر وہ قتل ہو گئیں، جس سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان ہوا۔
دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد جب انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا گیا، جنہیں بحال شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے برطرف کردیا۔ الزام یہ تھا کہ وہ صدر آصف زرداری کے خلاف سوئٹزر لینڈکو مقدمات کھولنے کے لیے خط کیوں نہیں لکھ رہے، پھر راجا پرویز اشرف وزیر اعظم بنے اور پیپلز پارٹی جیسے تیسے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر پائی۔
2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اکژیت حاصل کر کے حکومت بنائی۔مگر کرپشن کی دلدل میں پھنسی رہی اور لگانے سے زیادہ کھانے پر زور رہا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف ملک اور ادارے تباہ ہوئے بلکہ نظام بھی جمود کا شکار رہا۔اورجب کرپشن اسکینڈلزسامنے آئےتو پھر سپریم کو ٹ کو نواز شریف کو نا اہل قرارینا پڑا۔
اسی طرح عمران خان جو کرپشن کے خاتمے،انتظامی اداروںکی بحالی اور نئے پاکستان کے قیام کےلئے آیا تھا، اس کو مختلف کرپٹ مافیا نے کام کرنے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں جمہوریت کو کبھی بھی پنپنے نہیں دیا گیا، جس کا پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ۔ بار بار جمہوری تسلسل ٹوٹنے کے باعث آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی پانچ سال مدت پوری نہیں کر سکا۔ لیاقت علی خان چار سال بعد قتل کر دیئے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اپنی وزارت عظمیٰ کے پانچ سال پورے کر سکتے تھے، انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے چار سال بعد ہی قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری۔اس طرح سیاسی لحاظ سے پاکستان مستقل غیر یقینی کا شکار رہا ۔ کسی بھی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو ٹک کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، جس میں سول اور فوجی افسر شاہی کے علاوہ خود موقع پرست سیاست دانوں کی ایک پوری کھیپ شامل ہوتی ہے۔ اب توقع کی جانی چاہیے کہ ستر سال آزاد رہنے کے بعد کاش ہم جمہوری طور پر مستحکم ہو سکیں ۔ ہماری سول اور فوجی افسر شاہی اور سیاست دان بالآخر یہ مان لیں اکیسویں صدی میں جمہوریت ہی مہذب اقوام کا طرز حکمرانی ہے، جسے بار بار بدلا نہیں جا سکتا۔
۔۔۔۔۔

پاکستان کے عوام سے
بانیٔ پاکستان کا پہلا خطاب

اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان کو عظیم مملکت بنانے کی توفیق عطا کرے۔۔۔’’اہلیان پاکستان! میں انتہائی مسرت اور قلبی احساس کے ساتھ آج آپ کی خدمت میں تہنیت پیش کرتا ہوں۔ 14اگست ہماری آزادو خود مختار مملکت کے وجود میں آنے کا دن ہے، آج کا دن مسلم قوم کی تقدیر کی بار آوری کا دن ہے۔ جس نے اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں میں بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں ۔
اس انتہائی اہم ساعت میں میرا دل ہماری جنگ آزادی کے لیے ان دلیرمجاہدوں کی یاد سے پُر ہے، جنہوں نے پاکستان کو حقیقت بنانے کے لیے اپنا سب کچھ ، اپنی جانیں تک نثار کیں۔
میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ہمیشہ ان کا ممنونِ احسان رہے گااور ان ساتھیوں کو جو،اب ہم میں نہیں رہے ہمیشہ دل سے یادرکھا جائے گا۔
اس نئی مملکت کے قائم ہو جانے سے پاکستان کے شہریوں پر زبر دست ذمے داری عائد ہوتی ہے، انہیں یہ موقع حاصل ہوا ہے کہ دنیا کو ثابت کرکے دکھائیں کہ کس طرح ایک ایسی قوم جس میں مختلف عناصر شامل ہیں، آپس میں مل جل کر صلح و آشتی کے ساتھ رہتی ہےاور عقائد و ذات پات کا امتیاز کیے بغیر اپنے تمام شہریوں کی یکساں فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔
ہمارا مطمح نظر امن ہونا چاہیے۔ اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی ۔ ہم صلح و امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںاور اپنے قریبی پڑوسیوں کے ساتھ اور ساری دنیا کے ساتھ خوش گوار اور دوستانہ تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ، ہم اقوام متحدہ کے منشور کے پابند ہیں اور عالمی امن اور خوش حالی کے فروغ میں بہ خوشی پوراپورا حصہ لیتے رہیں گے۔
ہندوستان کے مسلمانوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ ایک متحدہ قوم ہیں، ان کے مطالبے اور مقاصد حق و انصاف پر مبنی ہیں، جنہیں ہر گز رد نہیں کیا جا سکتا ۔ آیئے ،آج کے دن ہم اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کا شکر بجا لائیں اور دعا کریں کہ وہ ہمیں ان کا اہل ثابت ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
۔۔۔۔۔

برصغیر میں سیاست کاآغاز
ایسٹ انڈیا کمپنی

 سترہویں صدی کے شروع میں جب سونا اگلتی سرزمین ہند پہ برطانوی تجارتی قزاقوں کی ہوسناک نظر پڑی اور انہوں نے ہر طرح سے اس کی عصمت دری کا ناپاک منصوبہ بنایا۔شرق الہند ولندیزیوں ، پرتگیزیوں اور برطانیہ کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔1588 ء میں سپینی بحری بیڑے کی لشکر کشی جس کا مقصد ملکہ الزبتھ اول کا تختہ الٹنا لیکن درحقیقت برطانیہ کے بڑھتے ہوئے سامراجی عزائم کا سدباب کرنا تھا، ناکام بنادی گئی اور برطانیہ کے ہاتھ مال غنیمت میں تجارتی اسبا ب سے لدے وہ اسپینی اور پرتگیز بحری بیڑے لگ گئے جنہوں نے سلطنت برطانیہ کے دنیا بھر میں نئے تجارتی امکانات کے دروازے کھول دئیے۔ آگے سارا سمندر تھا اور برطانوی تاجروں کو بنگال کی سونے کی چڑیا پکار رہی تھی۔ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے سرمائے کی ضرورت تھی۔ اس سے قبل ان کی تجارت جاوا اور سماٹرا تک محدود تھی جہاں سے مسالہ جات وغیرہ یورپ درامد کئے جاتے تھے۔ برطانوی تاجروں نے ملکہ الزبتھ اول سے بحر ہند میں تجارتی سفر کرنے کا اجازت نامہ حاصل کرلیا ۔اس اجازت کا مقصد بحر ہند اور شرق الہند میں اسپینی اور ولندیزی کمپنی فار ایسٹ ٹریڈ کی مونوپلی کو مکمل طور پہ ختم کرنا تھا ۔ 1591ء میں جب یہ برطانوی جہاز سر جیمز لن کیسٹر اور سر ایڈورڈ بوناوینچر کی قیادت میں اپنے پہلے مشن پہ روانہ ہوئے تو راس الامید کے گرد سے چکر لگاتے ہوئے واپسی پہ راس الکومورن کے مقام پہ اسپینی اور ولندیزی جہازوں سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی ، جن پہ انہوں نے قبضہ کرلیا۔تین سال بعد اپنی مہم کے اختتام پہ جب برطانوی تجار قبضہ شدہ جہازوں کو لے کر واپس برطانیہ پہنچے تو پرتگیز بحری جہاز برطانوی سرزمین پہ نظر آنے والااب تک کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو اس مال و اسباب سے بھرا ہوا تھا جو پرتگیزیوں نے شرق الہند میں تجارت سے حاصل کیا تھا۔ اس پہ ٹنوں کے حساب سے قیمتی ساگوان ، خوشبو دار مصالحے، زرو جواہر اورسمندری موتی،سونے اور چاندی کے سکے اور بھانت بھانت کا اسباب لدا ہوا تھا۔ یہ بحری قزاقی کامیاب ہوئی تو برطانیہ نے مزیدتین بحری جہاز بحر ہند میں اتارے لیکن وہ راستہ بھول گئے۔اس کے ایک سال بعد مہم جو برطانوی تاجر رالف فچ اپنی کمپنیوں نے ساتھ منظر عام پہ آیا جس نے پندرہ سال تک بحر ہند، میسو پوٹیمیا،خلیج فارس اور جنوب مشرقی ایشیا میں نہ صرف کامیاب تجارتی سفر کئے بلکہ وہ ہند کی سیاست میں بھی دخیل ہوگیا جہاں اس وقت مغلوں کی حکومت تھی۔ یہی وہ شخص تھا جس نے ہند بالخصوص بنگال کی خوشحالی، مال و دولت اور سونا اگلتی کپڑے کی صنعت کی مخبری کی اور سر لانکاسٹر کو نہایت مفید اور خفیہ معلومات فراہم کیں۔یہی وہ شخص تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد بنا جس نے ملکہ برطانیہ الزبتھ اول سے ہندوستان میں تجارت کا پروانہ حاصل کیا اور ہند میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے۔بحر ہند میں برطانیہ کے تجارتی حریف ولندیزی اور پرتگیز پہلے ہی موجود تھے لیکن 1612 ء میں سوالی کے مقام پہ بحر ہند میں اس نے ولندیزیوں کو فیصلہ کن شکست دی اور سورت کے مقام پہ اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی محض ایک تجارتی کمپنی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی فوج بھی تھی۔اس فتح کے بعد ہی سر تھامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا اور اس سے سورت اور دیگر علاقوں میں فیکٹریاں اور دفاتر قائم کرنے کی اجازت چاہی اور بدلے میں یورپی مصنوعات ہندوستان کو دینے کا وعدہ کیا۔ جہانگیر کو شاید علم نہ تھا کہ یورپ کی تجارت کا دارومدار ہی درامدات پہ تھا اور سلطنت برطانیہ کی فیکٹریاں ایسا کچھ نہیں بنا رہی تھیں جو ہندوستان منگوایا جاسکے۔ جہانگیر کے دربار میں ہونے والے اس معاہدے نے تاریخ کا وہ ورق پلٹا جس کی آواز آج تک سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے مکمل طور پہ ہندوستان کے وجود میں اپنے پنجے گاڑ لئے اور اس کی شہ رگ بنگال میں اپنے دانت گاڑ کر اس وقت تک خون چوستی رہی جب تک جنگ آزادی 1857ء کا خون آشام دن نہ آگیا اور ہندوستانی مسلمانوں اور ہندووں کی کٹی پھٹی لاشوں کے ڈھیرپہ تخت برطانیہ نہ بچھا دیا گیا۔اس دوران مسلمان سکون سے نہ بیٹھے۔ ہوسناکی اور ظلم کی سیاہ تاریخ میں جنگ پلاسی، سرنگاپٹم اور بکسر کے میدان ستاروں کی طرح چمکتے ہیں۔سراج الدولہ نے جنگ آزادی سے ایک صدی قبل پلاسی کے میدان میں کلائیو کے ہاتھوں شکست کھائی۔ کلائیو کی فوج میں صرف پانچ سو برطانوی تھے جبکہ باقی ڈھائی ہزار وہ ہندوستانی غدار تھے جو ہمیشہ ہی تاج برطانیہ کے وفادار رہے۔ نواب سراج الدولہ شہید کی فوج میں پچاس ہزار پیادے، اٹھارہ ہزار گھڑ سوار اور 55 توپیں تھیں لیکن وہیں میر جعفر بھی تھا۔اسی کے بیٹے میرن نے سراج الدولہ کو شہید کیا۔ میرجعفر کو حسب وعدہ نواب بنا دیا گیا لیکن اس کو تمام خزانہ اور ذاتی زروجواہر کلائیو کی نذر کرنے پڑے۔صرف کلائیو کا حصہ پانچ کروڑ روپے تھا اسی سے کل خزانے کی مالیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہرجانے کے طور پہ ایک کروڑ روپیہ بھی دیا گیا جو برطانیہ پہنچا دیا گیا۔اس کے بعد 1764 میں بکسر کے مقام پہ جو بنگال کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا نواب اودھ ، نواب بنگال میر قاسم،شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے جنگ کی جو اپنے منطقی انجام یعنی ہندوستان کی شکست پہ متنج ہوئی حالانکہ ان کی جنگی اور افرادی قوت ایسٹ انڈیا کمپنی سے بہت زیادہ تھی۔یہاں سے کلائیو نے مقامی باشندوں سے ٹیکس یا لگان وصول کرنے کا حق بھی حاصل کرلیا جو چھبیس لاکھ روپے سالانہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان ہندو مہاراجوں کو جو سلطنت مغلیہ کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مغربی طاقتوں کے ایما پہ بغاوت کرچکے تھے انہیں بھی زیر نگین کرلیا۔ یہیں سلطان ٹیپو بھی تھا جس کے انگریزوں پہ رعب کا یہ عالم تھا کہ اس شیر کو پشت میں چھرا گھونپ کر مار گرانے کے باوجود گھنٹوں کسی انگریز کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس کے قریب جائے۔پھر اس کے لاشے پہ پاوں رکھ کر نعرہ لگایا: آج ہندوستان ہمارا ہوا۔ اس کی شہادت ، شہادت جاریہ تھی جس کا ثبوت یہ تھا کہ ایک عرصے تک انگریز اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھتے رہے تاکہ ان کے دل سے شہید سلطان کی دہشت کم ہو۔ اس کے بہت عرصے بعد جب تاریخ کے پلوں کے نیچے نسیان کا پانی بہہ چکا تو انگریز افسر کے سلطان کے مقبرے پہ حاضری دی اور کانپتا ہوا باہر آیا۔ اس کا بیان تھا کہ شہید سلطان کی روح کہیں آس پاس موجود ہے اور بزدل افسر کا دل اس کی ہیبت جھیلنے کا یارا نہ رکھتا تھا۔ پچھلے دو ہزار سالوں میں بنگال میں سترہ بار قحط پڑا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک سو بیس سالہ دور حکومت میں 34 بار قحط پڑا۔انگریزوں کی شقی القلبی کا یہ عالم تھا کہ جب بنگال میں قحط پڑا اور لاکھوں بچے بھوک سے فوت ہوگئے تو انہوں نے بھوک سے مرتے لوگوں کو چاول کئی گنا قیمت پہ فروخت کیا اور کروڑوں پاونڈ منافع کمایا۔ ۔ ہر بار قحط کے زمانے میں مغل حکومت میں لگان کم کردیا جاتا لیکن یہ ایسے ظالم تھے کہ قحط کے دوران لگان بڑھا کر لاشوں کی قیمت وصول کرتے تھے۔مرنے والوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ جب 1942 ء میں سلطنت برطانیہ کے زیر نگین بنگال میں قحط پڑا تو چرچل نے کوئی حفاظتی اقدامات نہ کئے ۔وہ مالتھس کا پیروکار تھا جس کے مطابق قدرت اپنی آبادی کو قدرتی آفات کے ذریعہ کم کرتی رہتی ہے اور چرچل خدائی کاموں میں دخل دینا غالبا کار گناہ سمجھتا تھا۔ سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد جب ہندوستان انگریزوں کا ہوگیا اور جنگ آزادی کے بعد براہ راست تاج برطانیہ کے زیرنگین آگیا تو کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی تحلیل کردی گئی۔اس کا ہندوستان میں آنے کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد کی تاریخ ہماری تاریخ ہے۔ یہ کانگریس ، مسلم لیگ اوربرطانیہ کی تاریخ ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے جاگیر دار کیوںمسلم لیگ میں شامل ہوئے اور ان کے بغیر مسلم لیگ کبھی اکثریت حاصل نہ کرسکتی یہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔

۔۔۔۔۔

ہماری سیاسی تاریخ

تاریخ پاکستان یا پاکستان کی تاریخ سے مراد اُس خطے کی تاریخ ہے جو 1947ء کو تقسیم ہند کے موقع پر ہندوستان سے الگ ہو کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلایا۔ تقسیم ہند سے قبل موجودہ پاکستان کا خطہ برطانوی راج کا حصہ تھا۔ اُس سے قبل اس خطے پر مختلف ادوار میں مختلف مقامی بادشاہوں اور متعدد غیر ملکی طاقتوں کا راج رہا۔ قدیم زمانے میں یہ خطہ برصغیر ہند کی متعدد قدیم ترین مملکتوں اور چند بڑی تہذیبوں کا حصہ رہا ہے۔ 18 ویں صدی میں سرزمین برطانوی ہند میں ڈھل گئی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آغاز 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے ہوتا ہے۔ اس جماعت کے قیام کا مقصد ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے مفاد کا تحفظ اور اُن کی نمائندگی کرنا تھا۔ 29 دسمبر 1930ء کو فلسفی و شاعر، ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال نے جنوب مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک خود مختار ریاست کا تصور پیش کیا۔1930ء کی دہائی کے اواخر میں مسلم لیگ نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی۔1933 میں اس کا نام چوہدری رحمت علی گجر نے تجویز کیا اور خاکہ بنایا جس میں مختلف علاقوں کو ملا کر پاکستان کا ایک نقشہ کھینچا۔ محمد علی جناح کی جانب سے دو قومی نظریہ پیش کیے جانے اور مسلم لیگ کی جانب سے 1940ء کی قرارداد لاہور کی منظوری نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔ قرارداد لاہور میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ برطانوی ہند کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد ریاستیں قائم کی جائیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک کامیاب تحریک کے بعد 14 اگست 1947ء کو برطانوی تسلط سے آزادی ملی اور تقسیم ہند عمل میں آئی۔
مسلم لیگ 1906ء میں قائم ہوئی جس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ تھا۔ 1937ء کے انتخابات میں کانگرس کو فتح ہوئی اس نے ہندوستان کے تمام صوبوں میں حکومتیں قائم کرلیں۔ ہندوئوں کا مسلمانوں کیخلاف عملی تعصب کھل کرسامنے آگیا۔ مسلمان اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں ہوسکتے۔ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ کامیابی سے لڑا۔ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ عالمی اور کوریا کی جنگوں میں مسلمانوں نے امریکہ اور برطانیہ کا ساتھ دیا جبکہ ہندو الگ تھلگ رہے۔ اس طرح برطانیہ کا مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ پیداہوگیا۔ 1945-46ء کے انتخابات میں مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے اور مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ دونوں لیڈر اپنی زندگی میں پاکستان کو آئین نہ دے سکے جس نے آزاد ریاست کی سمت متعین کرنا تھی۔ پاکستان کے پہلے دس سال (1947-58) محلاتی سازشوں کے سال ثابت ہوئے جن کے دوران سات وزیراعظم بنے۔ دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی۔ سول سرونٹس اور جرنیل طاقتور ہوگئے۔ چوہدری غلام محمد اقتدار کا مرکز رہے۔ 1956ء کا آئین تشکیل پایا۔ امریکہ کا اثرورسوخ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اس نے انتخابات میں امریکہ مخالف سیاسی رہنمائوں کی کامیابی کے خوف سے سکندر مرزا اور جنرل ایوب کے ہاتھوں مارشل لاء نافذ کرادیا اور اس طرح مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی و جمہوری رشتہ ہی ٹوٹ گیا۔
جنرل ایوب خان کی آمریت کے دس سالوں (1958-68) میں صنعتی ترقی ہوئی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم تعمیر ہوئے البتہ جنرل ایوب کا صدارتی آئین 1962ء پاکستان کو قائداعظم کے نظریات اور علامہ اقبال کے تصورات کیمطابق جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست نہ بناسکا۔ قومی دولت اور وسائل پر بائیس خاندان قابض ہوگئے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کی معاشی ترقی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اگر جنرل ایوب صدارتی انتخاب میں دھاندلی دھونس اور دھن سے کام نہ لیتے اور مادر ملت فاطمہ جناح کو کامیاب ہونے دیا جاتا تو پاکستان سنبھل جاتا۔ جنرل ایوب خان کو دل کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ امور مملکت پر انکی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ سیاستدانوں نے ایوبی آمریت کیخلاف زبردست عوامی تحریک چلائی۔ آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے موقع پاتے ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ البتہ سیاستدانوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا اعلان کردیا۔ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کو کالونی سمجھ کر استحصال کیا۔ احساس محرومی کی بناء پر چھ نکات وجود میں آئے۔ 1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پی پی پی نے اکثریت حاصل کرلی۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کیا۔ بھٹو اور مجیب سیاسی مفاہمت نہ کرپائے۔ سیاسی مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت نے صورتحال سے فائدہ اُٹھایا اور پاکستان کو دولخت کردیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا۔ 1973ء کا متفقہ آئین، ایٹمی صلاحیت کا حصول اور عوامی شعور انکے یادگارکارنامے ہیں۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد پی این اے کی تحریک زور پکڑ گئی۔ امریکہ کو بھٹو کو ’’عبرت ناک مثال‘‘بنانے کا موقع مل گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرکے مارشل لاء نافذ کردیا۔ بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔ روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے روس کیخلاف جہاد شروع کردیا۔ اسی ہزار جہادیوں کو اسلحہ اور تربیت دی گئی۔ روس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ امریکہ نے کامیابی کے بعد جنرل ضیاء الحق کو تنہا چھوڑ دیا اور وہ عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف (1988-99)کے دوران دو دو بار اقتدار میں رہے۔ یہ دور محاذ آرائی اور کرپشن کا دور تھا۔ بے نظیر نے افواج پاکستان کو ایٹمی میزائیل دئیے اور خواتین و نوجوانوں کو مقتدر بنانے کی کوشش کی۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کیا اور موٹر ویز تعمیر کیے۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں میاں نواز شریف کو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انکے (1999-08)دور میں سرمایہ کاری ہوئی جس کی صنعتی اور زرعی بنیاد نہیں تھی۔ جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد ٹیلی فون پر امریکہ کی شرطیں تسلیم کرکے پاکستان کو جنگ میں جھونک دیا جس میں اب تک اسی ہزار کے لگ بھگ معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ اس دور میں بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی شہید ہوئے۔ 2008ء میں ایک بار پھر جمہوری دور شروع ہوا 2008-15ء کے دوران پہلے آصف علی زرداری اور اب میاں نواز شریف اقتدار میں ہیں۔ اسے مفاہمت کا دور کہا جاتا ہے گویا مل کر اقتدار انجوائے کرو۔ آج بھی سارا زور موٹرویز اور میٹروز پر ہے۔ تاریخ میں پہلی بار فوج اور سیاستدان باہم اشتراک سے کام کررہے ہیں۔ جو خوشگوار تجربہ ہے۔ اس جمہوری دور میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے سیاسی اہمیت حاصل کی ہے۔ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اگلے انتخابات تک پی پی پی کی سیاست کو محدود کرکے پہلی یا دوسری وفاقی سیاسی جماعت بن جائیگی۔ پاکستان نے 68 سالوں کے دوران کئی حوالوں سے ترقی بھی کی ہے۔ پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ صنعتوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کی تعداد آج بہت زیادہ ہے۔ لاکھوں پاکستانی بیرون ملکوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور پاکستان کو زرمبادلہ بھیج رہے ہیں۔ میڈیا بڑا طاقتور ہوچکا ہے اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
1947ء میں پاکستانی منظم قوم تھے۔ آج قوم منتشر اور منقسم ہوچکی ہے۔ قیادت اہل، دیانت دار اور پرعزم تھی۔ آج کی قیادت زوال پذیر ہے ابھی تک مستحکم جمہوری سیاسی نظام منصفانہ معیشت اور عدل اور انصاف کا قابل رشک نظام پاکستان کے عوام کو نہیں دیا جاسکا۔ سیاسی سفر کا کوئی دور ایسا نہیں جسے گڈ گورنینس اور قانون کی حکمرانی کا دور کہا جاسکے۔ پاکستان کے حکمران مختلف پس منظر اور شعبوں سے تعلق رکھتے تھے مگر ان میں سے ایک بھی قائداعظم جیسا کردار پیش نہ کرسکا اور نہ ہی پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنا یا جاسکا۔ پاکستان کے سیاسی سفر کے دوران عوام کا کردار صرف تحریکوں اور انتخابات میں نظر آتا ہے۔ ان کو مقامی حکومتوں میں شریک نہ کیا گیا۔ کالم کا اختتام دو نامور مبصرین کے اقتباسات سے کرتا ہوں۔
’’اس افسوسناک اور وسیع ڈرامے کے بیچ میں منتخب اور غیر منتخب حکومتوں دونوں میں سے ایک مرکزی نکتہ نظر انداز ہوا ہے اور وہ ہے پاکستان کے عوام کی خواہشات۔ اگر اب بھی اُمید کی کوئی وجہ باقی ہے تو اس کا انحصار پُرجوش، محنتی سادہ مگر تخلیقی مردوزن پر ہے جو اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ یقینی طور پر ایک دن ان (عوام) کی خواہش غلبہ حاصل کریگی۔‘‘ [روئیداد خان: British Papersصفحہ xxvii] معروف امریکی سکالر کریگ بیکسٹر(Craig Baxter) کے خیال میں پاکستان ان پانچ شعبوں میں ناکام ہوا ہے۔ جو ایک کامیاب ریاست کیلئے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ (1) ریاست کی تشکیل، (2)قوم کی تعمیر، (3)معاشی نظام کی تعمیر، (4)عوام کی شراکت، (5)تقسیم کا نظام۔ [Pakistan Founders Aspirations] پاکستان کے سیاسی سفر پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا
۔۔۔۔۔

لیاقت علی خان کی جدوجہد اور
ان پر الزامات کی حقیقت

اپاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قتل کردیا گیا۔ لیاقت علی خان قائدِ اعظم کے دیرینہ رفیق کار تھے۔ انہی کے دور میں مذہبی جماعتوں نے مملکتِ خداداد پاکستان میں اپنے قدم جمانے شروع کیے۔ان مذہبی جماعتوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے انہوں نے قراردادِ مقاصد قومی اسمبلی میں متعارف کروائی تاکہ ان کے اثر و نفوذ کو محدود کیا جاسکے۔ لیاقت علی خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ قرارداد مقاصد کی منظوری سے مذہبی جماعتوں کا اثر تو محدود نہ ہوا الٹا پاکستان میں ان کو اپنے نظریات نافذ کرنے کا ایک آئینی جواز مل گیا۔ اسی قراردادِ مقاصد کو بعدِ ازاں جنرل ضیاء نے اپنے خود ساختہ اسلامی نظریے کو لاگو کرنے کے لیے آئین کا حصہ بنا دیا۔
کمپنی باغ کے نام کو لیاقت علی خان کے قتل کے بعد لیاقت باغ کا نام دے دیا گیا۔ اسی لیاقت باغ میں ٹھیک 56 سال بعد ایک اور وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا۔ ایم ایس وینکٹے رامانی کی کتاب ”پاکستان میں امریکا کا کردار“ جس کا ترجمہ قاضی جاوید نے اردو میں کیا ہے، کے صفحہ نمبر 233-232 پر لکھا ہے کہ، “قاتل کی ایک گولی نے سماں ہی بدل دیا تھا۔ پاکستانی حکام نے قاتل سید اکبر کو ایک افغان شہری قرار دیا۔ افغان حکومت کے ترجمان نے فوراً پُر زور دعویٰ کیا کہ اکبر کو اس کی قوم دُشمن سرگرمیوں کی بناء پر افغان شہریت سے محروم کیا جاچکا تھا اور انگریز حکام نے اسے صوبہء سرحد میں پناہ دے رکھی تھی۔
جلد ہی یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ انگریزوں نے اس کا جو وظیفہ مقرر کیا تھا وہ حکومتِ پاکستان بھی ادا کرتی رہی تھی۔ روزنامہ ”نیویارک ٹائمز“ میں ایک ایسوسی ایٹڈ رپورٹ ”حکومت کا وظیفہ خوار پاکستانی قاتل“ کے عنوان سے شائع ہوئی جس کے مطابق پاکستانی حکام نے آج یہ انکشاف کیا کہ سید اکبر نامی وہ افغان شہری جس نے گذشتہ ہفتے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کا قتل کیا وہ حکومت پاکستان کا 450 روپے (155 ڈالر) کا ماہانہ الاؤنس حاصل کرتا تھا۔”
ایک بات تو طے ہے کہ لیاقت علی خان کا قاتل سید اکبر اسٹیج کے بالکل سامنے اس قطار میں بیٹھا تھا جہاں سی آئی ڈی والوں کے لیے جگہ مخصوص تھی۔ اپنی نشست سے وہ لیاقت علی خان کو باآسانی نشانہ بنا سکتا تھا اور اس نے ایسا ہی کیا اور اس میں کامیاب بھی ہوا۔ وہ اس نشست تک کیسے پہنچا یہ ایک ایسی کہانی ہے جس پر 56 سال بعد قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔
قتل کے فوراً بعد پولیس نے اُسے گرفتار کرنے کے بجائے جان سے مارنے میں عافیت جانی۔ ”نیویارک ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق ”جب اس نے دو گولیاں چلائیں تو اس کے فوراً بعد پاس بیٹھے افراد اُس پر جھپٹ پڑے، اُنہوں نے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے، اس پر گولیاں بھی چلائی گئیں، اور ان میں کم از کم ایک گولی ایک پولیس افسر نے چلائی تھی جس نے بعدِ ازاں یہ شہادت دی کہ گولی چلانے کا حکم ایک اعلیٰ افسر نے دیا تھا۔“
ایک لمحے کے لیے ہم یہ تسلیم کر بھی لیں کہ ایسا ہی ہوا تھا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جلسہ گاہ کی اگلی نشستیں تو سی آئی ڈی والوں کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ اگر سید اکبر وہاں اکیلا پہنچ بھی گیا تو کیا پولیس کے تربیت یافتہ اہلکار یہ نہیں جانتے تھے کہ قاتل کو جان سے مارنے کے بجائے زندہ گرفتار کیا جانا چاہیے؟
جب اتنے سارے لوگ سید اکبر پر جھپٹے ہوں گے جنہوں نے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہوں، تو اس کے بعد وہ یقیناً اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ اپنے پستول کا مزید استعمال کرے۔ کیا وجہ تھی کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس کے باوجود اُسے گولی مارنے کا حکم دیا اور ان کے اس حکم پر فوری عمل درآمد بھی ہو گیا؟
یہ تو ایسے ہی ہے کہ 2007 میں جب بینظیر بھٹو لیاقت باغ میں جلسے کے بعد قتل ہوئیں تو اس کے فوراً بعد راولپنڈی فائر بریگیڈ کے عملے نے جائے وقوعہ کو پانی کے ذریعے دھو کر چمکا ڈالا۔ ان کا یہ عمل آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے مطابق جائے وقوعہ سے سینکڑوں شواہد مل سکتے تھے مگر دھوئے جانے کے بعد صرف چند ایک شواہد ہی مل پائے۔
خیر یہ الگ کہانی ہے۔ لیاقت علی خان کے قاتل کو وظیفہ ڈالرز کی شکل میں ملتا تھا اور ڈالر امریکا کی کرنسی ہے۔ لیاقت علی خان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان کو امریکا کی جھولی میں اس وقت ڈال دیا جب انہوں نے روس کے بجائے امریکا کے دورے کی دعوت قبول کی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم سے قبل اور اس کے فوراً بعد قائدِ اعظم محمد علی جناح یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پاکستان روسی نہیں بلکہ امریکی بلاک میں شامل ہوگا۔
امریکی محکمہء خارجہ کے ایک ریٹائرڈ افسر ڈینس ککس اپنی کتاب The United States and Pakistan 1997 – 2000 کے صفحہ نمبر 13-12 پر لکھتے ہیں کہ امریکی سفارت کار ریمنڈ ہیئر نے جب مئی 1947 میں نئی مملکت کی خارجہ پالیسی کے حوالے جناح سے سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا رجحان مشرقِ وسطیٰ کی مسلمان ریاستوں کی جانب ہوگا کیوں کہ وہ کمزور ہیں۔ مسلم ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف شانہ بشانہ ہونا ہوگا اور اس کے لیے انہیں امریکی معاونت درکار ہوگی۔ جناح کے بقول انہوں نے عوامی سطح پر اس بات کا اظہار نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی اکثریت یہ سوچتی ہے کہ امریکیوں کا رویہ دوستانہ نہیں ہے۔ اُن کا تاثر یہ ہے کہ امریکی پریس اور بہت سارے امریکی پاکستان کے خلاف ہیں۔
یہ تو تھے جناح صاحب کے روس مخالف خیالات جو تقسیم سے قبل تھے لیکن اُن کے یہ خیالات تقسیم کے بعد اور زیادہ راسخ ہوگئے تھے۔ اس کا ذکر آگے کریں گے۔ اس سے پہلے اس الزام کا ذکر ہوجائے کہ لیاقت علی خان نے روسی دورے کو پس پشت ڈال کر امریکا جانے کو کیوں ترجیح دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ روس نے لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت ہی نہیں دی تھی بلکہ یہ دعوت حاصل ہو گئی تھی۔
1949 میں امریکی صدر ٹرومین نے ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو امریکا کے دورے پر مدعو کیا۔ پاکستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان، جو اپنی مغرب نواز پالیسوں کے حوالے سے خاصے معروف تھے، کو اپنی سُبکی کا احساس ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ مغرب دوست وہ تھے لیکن نہرو جنہیں ایک سوشلسٹ اور کمیونسٹ سمجھا جاتا تھا، امریکا کے دورے کے لیے مدعو کیا گیا۔
اس دعوت نے ان کی انا کو شدید ٹھیس پہنچائی۔ اس تمام صورتحال کا حل ایک سینئر مسلم لیگی رہنما راجہ غضنفر نے جو اس وقت تہران میں پاکستان کے سفیر تھے نکالا۔ ان کے ایران میں روسی سفارت کار سے بہت اچھے تعلقات تھے انہوں نے ایک عشائیے کا بندوبست کیا جس میں روسی سفارت کار علی علوی اور لیاقت علی خان کی ملاقات ہوئی۔ لیاقت علی خان نے اس موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ روس کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ 2 جون 1949 کو اُن کو روس کے دورے کی دعوت موصول ہوگئی اور اس کے ٹھیک 5 دن بعد لیاقت علی خان نے روس کی دعوت قبول کر لی۔
یہ بات پاکستان کی امریکی زدہ نوکر شاہی پر گراں گزری، اور اس کے ساتھ ساتھ برطانویوں اور امریکیوں پر بھی۔ برطانیہ نے اس فیصلے کو تحمل سے برداشت کیا لیکن امریکیوں کے لیے یہ ناقابل قبول تھا۔ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر سر لارینس گرافٹی اسمتھ نے سر ظفر اللہ خان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ امریکی اور برطانوی شہریوں کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرے گا۔ آخر کار یہ دورہ منسوخ ہو گیا۔
لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے صدر اور اساتذہ کے ساتھ۔ فوٹو Missouri Digital Heritage
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ روس اور امریکا دونوں کی جانب سے لیاقت علی خان کو بیک وقت دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن ہم عرض کر چکے ہیں ایسا نہیں تھا۔ روس کے دورے کی منسوخی اور امریکی دورے کی قبولیت کا الزام بھی لیاقت علی خان کے سر ہے۔ ایسا بھی کچھ نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ روس کے دورے کی دعوت لیاقت علی خان کی جانب سے حاصل کی گئی تھی۔
ڈینس ککس اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 33 پر لکھتے ہیں کہ ”پاکستان نے ابتدائی طور پر یہ تجویز کیا تھا کہ لیاقت علی خان 20 اگست 1949 کو ماسکو پہنچیں گے جبکہ روسیوں کی رائے تھی کہ وہ 15 اگست کو ماسکو پہنچیں۔ پاکستان کا مؤقف یہ تھا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ 14 اگست کو وزیرِ اعظم یوم آزادی کی تقریبات میں مصروف ہوں گے۔
روسی حکام نے یہ تجویز کیا کہ دورہ دو ماہ بعد نومبر کو ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا اصرار تھا کہ ایلچیوں کی تعیناتی بھی دورے سے قبل ضروری ہے لیکن وہ پاکستان میں سفیر کی تعیناتی کے لیے 28 اکتوبر تک ناکام رہے۔ اکتوبر 1949 میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ نے برطانوی ہائی کمشنر گرافٹی اسمتھ کو یقین دلایا کہ روسی حکام وزیر اعظم پاکستان کے دورے کے حوالے سے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، اسی سبب وزیراعظم کا پاسپورٹ گذشتہ 3 ہفتوں سے نئی دہلی میں روسی سفارت خانے میں پڑا ہوا ہے۔
ان حقائق سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ لیاقت علی خان روس کا دورہ کرنا چاہتے تھے، لیکن روسی حکام نے گو کہ انہیں دعوت نامہ بھیج دیا، مگر شرط 20 اگست کے بجائے 15 اگست رکھ دی جو ممکن نہ تھی۔ تقسیم ہند کے بعد روس کی ہمدردیاں تو ویسے ہندوستان کے ساتھ تھیں۔ روسی سیاستدانوں کو بخوبی اس بات کا اندازہ تھا کہ انڈیا ہی ان کا قدرتی اتحادی ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندوستانی سفارت کاروں نے اس دورے کو منسوخ یا ناکام بنانے کے لیے اپنی کاوشیں کی ہوں۔
ہم لیاقت علی خان پر اس الزام کا ذکر پہلے بھی کر چکے ہیں کہ وہ امریکا نواز تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ روایت انہیں ورثے میں جناح صاحب سے ملی تھی۔ جناح صاحب کی امریکا دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ 5اکتوبر 1947 میں قائد اعظم کے ایلچی لائق علی نے امریکی حکام کو ایک یادداشت پیش کی تھی جس میں ان سے پاکستان کو قرضے کی فراہمی کی درخواست کی گئی تھی۔
ایم ایس وینکٹے رامانی کی کتاب ”پاکستان میں امریکا کا کردار“ کے اردو ترجمے کے صفحہ نمبر 24-23 پر درج ہے کہ لائق علی نے محکمہء خارجہ کو دو مزید کاغذات پیش کیے۔ ایک میں پاکستان کی ضروریات کی تشریحات تھیں اور دوسرے میں مختلف ضرورتوں کا جواز پیش کیا گیا تھا۔ ان میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو صنعتی ترقی کے لیے 70 کروڑ ڈالر، زرعی ترقی کے لیے 70 کروڑ ڈالر اور اپنی دفاعی سروسز کی تعمیر و آلات کی فراہمی کے لیے 51 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ دو ارب ڈالر کے لگ بھگ مجموعی رقم پانچ برس کی مدت میں استعمال کے لیے قرضے کے طور پر طلب کی گئی تھی۔
ان حقائق کی روشنی میں ایک بات تو واضح ہے کہ لیاقت علی خان نے پاک امریکا دوستی کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ آغاز قائدِ اعظم کی موجودگی میں تقسیم ہند سے قبل اور اس کے بعد ہو چکا تھا۔ لیاقت علی خان کے ساتھ ایک المیہ یہ تھا کہ انہوں نے جناح صاحب جیسے بااختیار گورنر جنرل کے ساتھ کام کیا تھا۔ جب تک جناح صاحب حیات رہے، کابینہ کے تمام اجلاس ان کی سربراہی میں ہوتے تھے اور فیصلہ کن شخصیت ان ہی کی تھی۔
لیاقت علی خان کے پورے دور حکومت میں آئین نہ بن سکا۔ انہیں اپنے ہم عصر سیاستدانوں خصوصاً حسین شہید سہروردی کی عوامی مقبولیت کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا۔ اس حوالے سے ان کے ذہنی تحفظات بھی تھے۔ لیاقت علی خان ایک انتہائی محتاط شخص تھے۔ حد یہ تھی کہ وہ بھی انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے لیکن ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کے دفتری عملے میں کوئی ایسا فرد نہ ہو جو انڈیا اور پاکستان کی دہری شہریت رکھتا ہو۔ نعیم احمد کی مرتب کردہ کتاب ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 40-39 پر لکھا ہے:
وزیرِ اعظم عملے کے انتخاب میں نہایت محتاط تھے۔ جب کام ذرا زیادہ بڑھا تو اپنے ذاتی عملے میں ایک اور افسر کا اضافہ کیا، یعنی آپ نے ایک ڈپٹی پرائیوٹ سیکریٹری کی تعیناتی کا فیصلہ کیا۔ اس افسر کے انتخاب میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے۔
وزیر اعظم کو تین آدمیوں کا پینل پیش کیا گیا جس میں سے انہوں نے میاں منظور احمد کو چنا۔ ایم ایم احمد کا انتخاب اس بناء پر کیا گیا تھا کہ اس کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا، جبکہ دوسرے دو کا تعلق اتر پردیش وغیرہ سے تھا اور ان کے رشتے دار اتر پردیش میں موجود تھے۔
ایسا فیصلہ کسی علاقائی تعصب کی بناء پر نہیں تھا بلکہ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ چونکہ پاکستان نیا نیا بنا تھا اور وزیر اعظم کے دفتر میں نہایت اہم اور خفیہ دستاویزات ہوتی تھیں، اس لیے ایسا آدمی زیادہ بہتر سمجھا گیا جس کا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہندوستان سے کسی قسم کا تعلق نہ ہو۔ کیونکہ وہ لوگ جن کے رشتے دار ابھی ہندوستان میں موجود تھے، ان کی حیثیت ابھی دوغلے پاکستانی یا دو کشتیوں میں سوار کی سی تھی۔ ہندوستانی ایجنٹ کسی وقت بھی ایسے آدمی کو خرید سکتے تھے۔”
لیاقت علی خان پر مہاجر نوازی کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے لیکن اس مثال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بطور وزیر اعظم وہ کسی بھی ایسے اردو بولنے والے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہ تھے جن کے تقسیم کے بعد بھی انڈیا میں رشتے دار بستے ہوں۔ لیاقت علی خان پر ایک اور الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے مذہب کو سیاست میں آئینی اور قانونی طور پر متعارف کروایا، لیکن وہ اس حوالے سے بھی محتاط تھے کہ ان کے عملے میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جس کی کسی مذہبی تنظیم سے جذباتی وابستگی ہو۔ نعیم احمد اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 20-19 پر اس کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:
پرائم منسٹر برانچ میں ایک کلرک جس کا نام رحمت الہٰی تھا، وہ اس برانچ میں سرکاری کاغذات ڈائری کرنے کے کام کرتا تھا۔ یہ آدمی نہایت خاموش اور سنجیدہ قسم کا تھا۔ چند ماہ نوکری کے بعد اس شخص کے بارے میں انٹیلی جنس بیورو سے یہ رپورٹ آئی کہ اس کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ اس شخص کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر وہ یہ کہہ دے کہ اس کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں تو اس کی ملازمت میں کوئی خلل واقع نہ ہوگا ورنہ اسے نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔
لیکن وہ نہایت دلیر انسان تھا۔ اس نے جواب دیا کہ جماعت سے وابستگی کی وجہ سے ایسی ہی رپورٹ کی بناء پر اسے فوج سے جہاں وہ بطور کمیشنڈ افسر زیر تربیت تھا، نکال دیا گیا تھا۔ یہاں تو میں صرف ایک کلرک ہوں۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ لہٰذا رحمت الہٰی نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ رحمت الہٰی وہ ہیں جو اب چودھری رحمت الہٰی کے نام سے جماعت اسلامی کے بڑے کارکنوں میں شامل ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ان کی کابینہ میں بطور وزیر پانی و بجلی کچھ عرصہ کام کرتے رہے۔
پاکستان میں لیاقت علی خان سے لے کر بینظیر بھٹو تک جتنے بھی سیاسی لیڈر قتل ہوئے اُن کے قتل کی سازش کس نے، کب اور کیوں تیار کی یہ ایک راز ہی ہے۔ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیق کرنے والے افسر اور اس حوالے سے تمام دستاویزات ایک ہوائی حادثے میں انجام کو پہنچ گئیں۔ سید نور احمد اپنی کتاب ”مارشل لاء سے مارشل لاء تک“ کے صفحہ نمبر 397-396 پر اس تمام کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں:
نوابزادہ اعتزاز الدین جو اس مقدمے کی تفتیش کے متعلق اہم کاغذات ساتھ لے کر وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کی طلبی پر ان سے گفتگو کرنے کے لیے ہوائی جہاز سے جا رہے تھے۔ ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ ہوائی جہاز کو یہ حادثہ جہلم کے قریب پیش آیا جہاں کسی اندرونی خرابی کی وجہ سے جہاز کو آگ لگ گئی اور مسافر اور ان کا سامان (اور لیاقت علی خان کے قتل کے مقدمے کے متعلق اہم کاغذات) نذر آتش ہو گئے۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جو نئی کابینہ بنی تھی، اس میں نواب مشتاق احمد گورمانی کو جو اس سے پہلے وزیر برائے امورِ کشمیر تھے، وزیرِ داخلہ کا عہدہ مل گیا تھا۔ قتل کے متعلق تفتیش بے نتیجہ رہی تو لامحالہ گورمانی صاحب کو اعتراضات کا نشانہ بننا پڑا۔ ان اعتراضات سے بچنے کے لیے انہوں نے بہت دیر بعد ایک مرحلے پر انگلستان کے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد حاصل کی اور وہاں سے ایک ماہر سراغ رساں کو بلا کر تفتیش پر مامور کیا۔ لیکن یہ اقدام بھی محض اتمام حجت ثابت ہوا۔ اس سے لیاقت علی خان کے قتل کے اسباب پر کوئی روشنی نہ پڑ سکی۔
اس کے بعد 1958 میں ایک عجیب انکشاف ہوا۔ فروری 1958 میں جب ہتکِ عزت کا مشہور مقدمہ گورمانی بنام زیڈ اے سلہری لاہور میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے روبرو زیرِ سماعت تھا تو ایک نکتے کی تصدیق کے لیے عدالت نے لیاقت علی خان کے قتل کے متعلق پولیس کی تفتیشی کارروائیوں کی فائل کا ملاحظہ کرنا چاہا اور اٹارنی جنرل پاکستان سے جو عدالت میں موجود تھے، دریافت کیا کہ کیا اس تفتیش کے متعلق سرکاری فائل عدالت کو مہیا کی جاسکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے 25 فروری 1958 تک ضروری معلومات مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو عدالت نے اٹارنی جنرل کو ایک چٹھی بھجوائی۔ اس نے جواب میں کہا کہ متعلقہ فائل حکومتِ مغربی پاکستان کے چیف سیکرٹری کی تحویل میں ہے۔ عدالت نے اس فائل کو منگوانے کے لیے سمن جاری کر دیے۔ یکم مارچ 1958 کو صوبائی حکومت کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر بیان کیا کہ متعلقہ فائل گم ہے۔ اس کی تلاش کی جا رہی ہے۔ اس تلاش کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگی گئی۔ 8 مارچ کو سی آئی ڈی کے ایک افسر نے عدالت کو مطلع کیا کہ تلاش کے باوجود اس فائل کا کوئی پتہ نہیں چل سکا لہٰذا حکومت اسے پیش کرنے سے معذور ہے۔
لیاقت علی خان کے قتل پر سیاستدانوں کے رویوں کے بارے میں ایوب خان اپنی کتاب ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ کے صفحہ نمبر 70 پر لکھتے ہیں:
جب میں پاکستان واپس آیا تو مجھے کراچی میں نئی کابینہ کے اراکین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین، چودھری محمد علی، مشتاق احمد گورمانی اور دوسرے لوگوں سے ملاقات کی۔ ان میں سے کسی نے نہ تو مسٹر لیاقت علی خان کا نام لیا اور نہ ان کے منہ سے اس واقعے پر افسوس یا دردمندی کے دو بول ہی نکلے۔
گورنر جنرل غلام محمد بھی اس حقیقت سے بے خبر معلوم ہوتے تھے کہ ایک قاتل کی سنگدلانہ حرکت نے ملک کو ایک نہایت قابل اور ممتاز وزیرِ اعظم سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ انسان کیسا بے حس، بے درد اور خود غرض واقع ہوا ہے۔ ان حضرات میں سے ہر ایک نے خود کو کسی نہ کسی طرح ترقی کے بام بلند پر پہنچا دیا تھا۔ وزیر اعظم کی موت نے گویا ان کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔ اس بات سے دل میں حد درجہ کراہت اور نفرت پیدا ہوتی تھی۔ بات تو بے شک تلخ ہے، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ان سب لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ہو کہ وہ واحد ہستی جو ان سب کو قابو میں ررکھ سکتی تھی، دنیا سے اُٹھ گئی ہے۔”
۔۔۔۔۔

مسلم لیگ کی تاریخ

1906 میں مسلم لیگ ایک انگریز اے ھیوم کی سرکردگی میں وجود میں آئی ,جس کا مقصد ایک الگ پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے مطالبات اور مسائل کو انگریز سرکار تک پہنچانا تھا 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک میں قرار داد پاکستان پیش ھوئی ,اور یوں تقسیم ہند 1947ءکے بعد ایک نومولود اور نیم خود مختار ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر وجود میں آگئی، جس کا پہلا گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح ( 15 اگست1947 تا 11ستمبر 1948 ) اور پہلا وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بنایا گیا۔
(14 اگست 1947 تا 1951) اس وقت یہ انتظامی لحاظ سے ایک نامکمل ریاست تھی ریاستی امور چلانے کے قاعدے قوانین اور متعین کردہ سیاسی اور معاشی روڈ میپ موجود نہ تھا حتیٰ کہ ریاست کو جن اہم اداروں کی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے ان کے سربراہان بھی غیر ملکی اور انگریز سرکار کے وفادار اور تربیت یافتہ تھے۔
اگر پاکستان کے پاس کوئی قیمتی اثاثہ تھا تو وہ قائداعظم کی ذات تھی۔ ان کے چند ایک ساتھیوں کے علاوہ, مفاد پرستوں کا ٹولہ عوامی اور ملکی مفاد کے برعکس ہر سطح پر کنٹرول حاصل کرتا گیا۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد میدان صاف ہو گیا، یہی وجہ تھی کہ تمام پالیسیاں ایک خاص مفاد پرست ٹولے اور سامراجی ایجنڈے کے تحت مرتب کی گئیں۔ جو جاگیردار طبقہ پاکستان بننے کی مخالفت کرتا آرہا تھا وہ ایک دم مسلم لیگی بن بیٹھا اور جو مذہبی طبقہ قائد اعظم کو کافر اور انگریز کا ایجنٹ قرار دیتا رہا اور پاکستان کو شیطان کا نومولود بچہ کہہ رہا تھا۔ اس نے جاگیردار، سرمایہ دار اور سامراجی ایجنٹوں سے اتحاد کر لیا اور یوں ریاست پر فوج، ملاء ، سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے کا قبضہ ہو گیا۔ اسی طرح مرکزی سیاسی اور انتظامی عہدوں پر اردو بولنے والوں انگریز سرکار کے وفادار اور انگریزی خطو ط پر تربیت یافتہ لوگوں کو بٹھا دیا گیا۔ جن کی اکثریت یو پی سی پی سے تعلق رکھتی تھی۔
جنہوں نے داخلی اور خارجی امور اپنے اور سامراجی مفادات کے تحت چلانے شروع کر دیئے۔ جاگیرداری کو برقرار رکھا، سرکاری زمینوں اور بڑے بڑے گھروں، جائیدادوں کی جعلی کلیموں کے ذریعے بندر بانٹ شروع کر دی, اور اصل حقداروں کو محروم رکھا گیا, یوں انگریز تو ملک چھوڑ گیا لیکن جو انڈے اور بچے پیدا کر گیا ,ان سب نے مل کر پاکستانی عوام اور ریاست کو غلام اور یرغمال بنا لیا۔ یہ غلامی آج تک قائم ہے۔ حکمران بدلتے رہے , پارٹیاں بدلتی رہیں۔ لیکن غریب عوام کی قسمت نہ بدلی، انگریز نے ہندوستان کی عوام کو زیر نگیں اور کنٹرول میں رکھنے کیلئے بیوروکریسی کا ایک ظالمانہ اور جابرانہ نظام قائم کررکھا تھا جس میں, پٹوراری، تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشن,کمشنر اور پولیس شامل تھی۔
لیکن انگریز کے جانے کے بعد یہی انگریز کا وضع کردہ ظالمانہ اور جابرانہ نظام قائم رکھا گیا اور آج تک عوام کو اسی قانون کے ڈنڈے سے ہانکا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف کا راستہ روکنے، جرائم کو بڑھاوا دینے، لوگوں کے مسائل میں اضافہ اور رشوت اور لوٹ مار کا نظام قائم کرنے میں پولیس, انتظامیہ، حکمرانوں اور عدلیہ کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ لوگوں کو بے شعور رکھنے کیلئے حکمران طبقے نے طبقاتی نظام تعلیم قائم کر کے ایک انتہائی ظالمانہ کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ریاست، تشدد، جرائم ، سازشوں، سکینڈلوں اور سیاسی و معاشی بے چینی اور خلفشار کا بری طرح شکار ہے۔ پورا ملک بداخلاقی، بدعنوانی، لاقانونیت، متشددانہ رویوں اور بے راہ روی کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔

” سیاسی تاریخ اور پس منظر “
پاکستان وجود میں آتے ہی قلات اسٹیٹ کی بغاوت کا معاملہ پیش آگیا جو فوج نے بروقت مداخلقت کر کے مئی 1948ءکو حل کر لیا۔ دوسرا اھم اور بڑا واقعہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی پیش قدمی تھا یہ پہلی جنگ تھی جو ہندوستان سے لڑی گئی۔جس کے نتیجے میں جو کشمیر آج پاکستان کے پاس ہے وہ آزاد ہوا۔ اسی سال 11 ستمبر 1948ءکو قائداعظم وفات پا گئے ہوا۔ 1951ءمیں جنرل محمد ایوب خان پہلے باوردی جنرل مقامی کمانڈر انچیف بن گئے۔ اسی سال 16اکتوبر 1951ءکو لیاقت علی خان کو ایک افغانی سابقہ بریگیڈئر سید محمد اکبر نے لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسے میں تقریر کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ قائداعظم کی وجہ کے بعد خواجہ ناظم الدین کو دوسرا گورنر جنرل بنایا گیا تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو وزیراعظم بنا دیا اور خود گورنر جنرل بن گیا۔ 17 اپریل 1953ءکو محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنا دیا۔

“راولپنڈی سازش کیس “
قیام پاکستان کے بعدد یہ واقعہ پیش آیا۔ مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا ھے کہ یہ ریاست کے خلاف پہلی بغاوت کی کوشش تھی۔ گیارہ فوجی افسران اور چار سویلین اس سازش میں ملوث تھے۔ میجر جنرل اکبر خان اس سازش کا اہم کردار تھے۔ سویلین میں اہم کردار معروف شاعر فیض احمد فیض اور ان کے ساتھ سجاد ظہیر، محمد حسین عطاء اور جنرل اکبر خان کی بیوی نسیم شاہنواز بھی شامل تھیں۔ اس منصوبے کے تحت لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین کو گرفتار کر کے ایک عبوری حکومت قائم کرنا، زمینی اصلاحات، اقربا پروری کا خاتمہ اور کشمیر ایشو تھا لیکن اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے سازش بے نقاب ہو گئی۔
چوہدری محمد علی ( 12 اگست 1955 تا 12 ستمبر 1956 ) , حسین شہید سہروردی (12 ستمبر 1956 تا 17 اکتوبر 1957 ) ابراہیم اسماعیل چندریگر ( 17 اکتوبر 1957 تا 16 دسمبر 1957 ) اور آخر میں ملک فیروز خان نون (16 دسمبر 19557 تا 7 اکتوبر 1958 )پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔
حسین شہید سہروردی کے دور میں امریکہ نے پشاور کے نزدیک بڈھ بیڑ کے مقام پر سابق سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے ہوائی اڈا حاصل کر لیا۔ 1954ءاور 1955ءمیں پاکستان سیٹو اور سینٹو پر دستخط کر کے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت ختم کر چکا تھا۔ چوہدری محمد علی نے 1956ءکا آئین بنایا جو دوسال تک نافذ العمل رہا جس میں 1935ءکے قانون ہند میں گورنر جنرل کے اسمبلی تحلیل کرنے اور حکومت کو برخاست کرنے کے اختیارات ختم کر دیئے۔ نئے آئین کے تحت اسکندر مرزا گورنر جنرل کی بجائے صدر مملکت بن گیا تو اس نے بعض اراکین اسمبلی کو ساتھ ملا کر عام انتخابات نہ کروانے کی سازش کی ,جب سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا تو اس نے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو ملک میں مارشل لاءنافذ کرنے کی دعوت دے دی۔ ایوب خان نے آئین منسوخ کر دیا, صدر سکندر مرزا کو برطرف کر کے 27 اکتوبر 1958ءکو صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا اور ملک میں پہلا مارشل لاءنافذ کر دیا۔

مولوی تمیز الدین کیس”
مولوی تمیز الدین 1948ءکو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے دوسرے صدرمنتخب ہوئے۔ خواجہ ناظم الدین کو اس اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا اس کے باوجود گورنر جنرل کے اختیارات محدود کرنے کے لیے اور آئندہ ایسی کسی صورتحال سے بچنے کے لیے ایک ترمیمی بل پیش کیا گیا۔گورنر جنرل اور اسمبلی کے درمیان اختلافات بڑھ گئے۔ چنانچہ گورنر جنرل نے 24 اکتوبر 1954ءکو قانون ساز اسمبلی کو ہی برطرف کر دیا۔ مولوی تمیز الدین اس وقت اسمبلی کے صدر تھے انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دے کر گورنر جنرل کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر احمد نے گورنر جنرل کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو درست قرار دے دیا، حالانکہ ایک عبوری آئینی حکم کے تحت گورنر جنرل سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا تھا اور اسمبلی ھی خود کو تحلیل کر سکتی تھی اس غیرآئینی فیصلے نے تاریخ کا رخ موڑ کر آنے والے مارشل لاؤں کی راہ ھموار کر دی .
1954 میں مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات کروائے گئے ,مسلم لیگ کو بری طرح شکست ھوئی ,307 نشستوں میں سے صرف 10 نشستیں حاصل کر سکی ,عوامی لیگ نے 143 نشستوں کے ساتھ ,دیگر جماعتوں سے اتحاد کر کے ,اے کے فضل حق کو وزیر اعلی منتخب کر لیا ,مگر چھ ھفتوں کے بعد ھی جگتو فرنٹ کی اس حکومت کو بر طرف کر کے اسمبلی تحلیل کر دی گئ ,اور اے کے فضل حق کو نظر بند کر دیا گیا,یوں یہ بحران شدت اختیار کر گیا,مگر اس کو 1951 سے ھی دبایا جاتا رھا ,اس انتشار کے دور میں امریکہ نے فائدہ اٹھانا چاھا ,پاکستان میں اس وقت کی اھم سیاسی جماعتیں اور شخصیات امریکہ کی حمائت کرنے لگ گئیں جس میں ملک غلام محمد ,اسکندر مرزا ,اور دوسرے اھم بیورو کریٹ بھی شامل تھے
1953 سے 1958ءتک فیلڈ مارشل محمد ایوب خان فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع بھی رہے۔
ایوب خان نے اقتدار سنبھالتے ہی تین ماہ بعد فوج کو چھاؤنیوں میں واپس بلوالیا اور سول ایڈمنسٹریشن سے بخوبی اور حکمت عملی سے کام لیا۔ بیوروکریسی اس لیے بھی خوف زدہ ہو گئی کہ اس نے 303 سول افسران کو فارغ کر دیا۔
اس دور میں ایوب خان نے ذوالفقار بھٹو کو وفاقی وزیر بنا دیا۔ صدارتی نظام حکومت کے تحت بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان سے چالیس چالیس ہزار بی ڈی ممبران انتخاب کے ذریعے منتخب کروائے اور ان ارکان کو ہی الیکٹرول کالج کا درجہ دے دیا۔ ان ممبران نے مشرقی اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کیا اور بعد ازاں 80 ہزار بی ڈی ممبران نے قومی اسمبلی ممبران کو بھی منتخب کیا اور ان 80 ہزار ممبران نے براہ راست ایوب خان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر مملکت منتخب کیا۔ اس نومنتخب اسمبلی نے 1962ءکا آئین بنایا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت 1960-61ءمیں بھارت سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل کر لیا۔ جس میں ورلڈ بینک ضامن ہے۔ اس معاہدے کے تحت ھی مشرقی دریا، راوی ,ستلج اور بیاس بھارت کے حوالے کر دیئے گئے اور تین مغربی دریاؤں, سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا 1958ءتا 1964ءایوب خان کا دور کامیابیوں اور خوشحالیوں کا دور رہا، اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط رہی ,لیکن اسی دوران بائیس خاندان قومی دولت اور وسائل پر قابض ہو گئے۔ 62ءکا آئین بھی پاکستان کو جمہوری اور فلاحی ریاست نہ بنا سکا۔ 1965ءکی جنگ نے پاکستان کی معاشی ترقی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 65ءکی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کی شرائط کے خلاف سیاستدانوں نے ایک زبردست عوامی تحریک چلائی۔
آرمی چیف جنرل یحیٰ خان نے موقع پاتے ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ البتہ سیاستدانوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا اعلان کر دیا۔ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بیوروکریٹس نے مشرقی پاکستان کو کالونی سمجھ کر استحصال کیا۔ احساس محرومی کی بناءپر مجیب الرحمان کے چھ نکات وجود میں آئے۔ 1970ءکے انتخابات میں مشرقی پاکستان نے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی۔ جنرل یحییٰ نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
بھٹو اور مجیب سیاسی مفاہمت نہ کر پائے۔ سیاسی مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش میں 1971ءمیں بھارت نے جنگ مسلط کر کے پاکستان کو دو لخت کر دیا, اور 16 دسمبر 1971ءکو مشرقی پاکستان بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔اور بنگلہ دیش بن گیا ,پاکستان کے سیاسی حالات انتہائی خراب ھوگئے ,جب کوئی چارہ کار نہ رھا تو 20دسمبر 1971ءکو یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقار بھٹو کے حوالے کر دیا۔ ذوالفقار بھٹو نے مغربی پاکستان اور مجیب نے مشرقی پاکستان میں اقتدار سنبھال لیا۔ بھٹو نے پہلے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔
1973ءکا متفقہ آئین بنایا۔زرعی اصلاحات ,کا نفاذ کیا ,قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ,قومی شناختی کارڈز اور راشن کارڈز کا اجراء کیا , 1977ء میں عام انتخابات کروائے جس میں پیپلز پارٹی اکثریت سے انتخابات جیت گئی۔ دھاندلی کے الزامات لگے۔ذوالفقار بھٹو کے خلاف 9جماعتی اتحاد قائم ہو گیا۔ پی این اے کی تحریک زور پکڑ گئی۔ جنرل ضیاءنے اقتدار پر قبضہ کر کے 5 جولائی 1977ءکو بھٹو کو گرفتار کر لیا اور بالآخر اسے احمد خان قصوری کے قتل کیس میں تختہ دار پر چڑھا دیا۔
24 دسمبر 1979ءکو روس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی نے مل کر دنیا بھر کے جہادی روس کے خلاف میدان میں اتار دیئے اور کھل کر ان کی تربیت اور ہر طرح سے معاونت کی۔ اربوں ڈالر کا سرمایہ برطانیہ وامریکہ، سعودی عرب، پاکستان اور دوسرے ممالک نے مجاہدین کو دیا۔ پاکستان نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا اور ہزاروں مجاہدین لڑائی کے لیے بھیجے۔ اور آخر 9 سال ایک ماہ اور بائیس دن کے بعد جینوا معاہدے 1988ءکے تحت یہ جنگ ختم ہو گئی۔ بعد ازاں طالبان حکومت قائم ہوئی۔ امریکہ اور طالبان کی دشمنی شروع ہو گئی اور آج تک یہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے امریکی فوج ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں۔

“جنرل ضیاءطیارہ حادثہ”
جنرل ضیاءالحق 17اگست 1988ءکو ملتان میں فوجی مشقوں کا معائنہ کرنے کے بعد جب فوجی طیارے میں واپس روانہ ہوئے تو اڑان کے فوراً بعد ھی طیارہ ایک دھماکے سے فضا ءمیں پھٹ گیا اس حادثے میں جنرل ضیاءالحق، امریکی سفیر رابن راقیل جنرل اختر عبدالرحمان ,جنرل سمیع الحق اور دیگر کئی افسران جابحق ہو گئے۔

نواز شریف کی سیاست میں آمد”
نواز شریف جنرل جیلانی کی وساطت سے پاکستانی سیاست میں وارد ہوافوج کو اس وقت ایک پیسے والے اور مطیع و فرمانبردار قسم کے بندے کی ضرورت تھی ,نواز شریف ان تمام شرائط پر پورا اترتا تھا 1981ءمیں جنرل ضیاءالحق نے اس کو وزیر خزانہ بنایا اور پھر 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والا محمد خان جونیجو ایک سینئر سیاستدان تھا اس کو وزیراعظم بنا دیا گیا,لیکن 1988ءمیں جینوا مذاکرات پر دستخط کے بعد اختلافات کی بناءپر 29 مئی 1988 کو جنرل ضیاء الحق نے مختلف الزامات لگا کر جونیجو گورنمنٹ کو برطرف کر دیا۔ ڈھائی ماہ بعد ہی طیارہ حادثے میں ضیاءالحق جاں بحق ہو گیا۔ 88ءکے انتخابات ہوئے اور غلام اسحاق خان صدر پاکستان بن گیا۔ نواز شریف اسلامی جمہوریہ اتحاد میں شامل تھا لیکن یہ اتحاد پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کم سیٹیں حاصل کر سکا اور یوں بینظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئیں لیکن 16 اگست 1990ءکو آٹھویں ترمیم کے تحت غلام اسحاق خان نے بینظیر کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دیں 1990ءکے دوبارہ انتخابات میں آئی جے آئی نے اکثریت حاصل کر کے گورنمنٹ بنالی ۔
نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم پاکستان بن گیا۔اختیارات کی جنگ شروع ھوگئی نواز شریف سے اختلافات کی بناءپر غلام اسحاق خان نے 18 مارچ 1993ءکو اسمبلی تحلیل کر دی۔ اکتوبر 93 میں دوبارہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اکثریت حاصل کر لی اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان بن گئیں۔ لیکن یہ دوسرا دور بھی سیاسی عدم اطمینان اور تنازعات سے بھرپور تھا۔ اسی دور حکومت میں میر مرتضیٰ بھٹو کو پولیس نے قتل کر دیا۔ جس کا ذمہ دار آصف زرداری کو ٹھہرایا گیا۔
غلام اسحاق خان کے استعفیٰ کے بعد پیپلز پارٹی کا سینئر رھنماء فاروق لغاری صدر بن گیا۔ 5 نومبر 1996ءکو صدر لغاری نے مختلف الزامات کے تحت بینظیر کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا اور اسمبلیاں توڑ دیں۔ 1997ءکے انتخابات ہوئے اور نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان بن گیا۔ نواز شریف نے سینئیر جنرلز کو کراس کر کے جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا ,اسی دوران کارگل جنگ ھوئی سول اور فوجی قیادت میں اختلافات اور غلط حکمت عملی کی بناء پر پاکستان کو کافی فوجی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ,جس میں تین ھزار کے قریب فوجی جوان شہید ھوئے ,نواز شریف کو امریکی صدر سے ملاقات کر کے جنگ رکوانا پڑی۔
12 اکتوبر 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف سرے لنکا کے دورے سے واپس آرھا تھا تو اس کی عدم موجودگی میں نواز شریف نے جنرل ضیاءالدین بٹ کو آرمی چیف بنا دیا اور جنرل مشرف کے طیارے کو لینڈ کرنے سے روک دیا اور ائیر کنٹرول سے ایک پیغام کے ذرئعے طیارہ انڈین گجرات یا احمد پور اتارنے کی ھدایات جاری کر دیں ,بہر حال کراچی کے کور کمانڈر نے کراچی ائیر پورٹ کا کنٹرول سنبھال کر طیارہ لینڈ کروایا ,اور نواز شریف کو گرفتار کرلیا اور ملک میں مارشل لاءنافذ کر دیا۔
جنرل مشرف ملک کا چیف ایگزیکٹو بن گیا بعدازاں ریفرنڈم اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے دو مرتبہ صدر بھی بن گیا ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنا دیا۔ 26ءجون 2004ءکو جمالی مستعفی ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے آئی ایم ایف کے عہدے دار شوکت عزیز کو پاکستان بلا کر اس کو وزیراعظم بنا دیا جس نے قومی اسمبلی کی معیاد پوری ہونے پر عہدہ چھوڑ دیا ۔
نواز شریف کو سعودی عرب کی مداخلت پر رھا کر دیا گیا تھا اور اسے سعودی عرب نے پناہ بھی دے دی تھی بے نظیر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے دوبئی میں رھائش پذیر تھیں سعودی شاہ اور امریکہ کی مداخلت پر بے نظیر اور نواز شریف کو ایک این آر او کے تحت ملک میں واپس آگئے ,اعلی عدلیہ کے ججوں کی برطرفی کے خلاف ملک میں وکلاء تحریک چل رھی تھی جنرل مشرف نے مجبورا” عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا ,ملک میں سیاسی جلسے جلوس نکل رھے تھے
27دسمبر 2007ءکو لیاقت باغ راولپنڈی میں بینظیر بھٹو جلسے کے اختتام پر ایک خود کش بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئیں۔ انتخابات مختصر وقت کے لئے ملتوی ھو گئے اس کے بعد مارچ 2008ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گیا۔ توہین عدالت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے 19 جون 2012ءکو اسے عہدے سے ہٹا دیا۔ 22جون 2012ءکو راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر 5 جون 2013ءکو نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گیا ایک مقدمے میں اسے سپریم کوعٹ نے عہدے سے ھٹا دیا اور 20جون 2017ءکو شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن گیا اور اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک فرائض انجام دیئے۔ اس طرح 1947ءسے لیکر 2018ءکے عام انتخابات تک نگران وزرائے اعظم سمیت 21 بار وزارت اعظمیٰ کا حلف لیا گیا۔
جس طرح انسانی زندگی میں مختلف موڑ آتے ہیں اسی طرح ملکوں اور قوموں کی زندگی میں بھی موڑ آتے ہیں۔ 1947سے لیکر 1970ءتک ایک ہی تسلسل چلتا رہا لیکن 1970ءمیں پاکستانی تاریخ میں ایک نیا موڑ آگیا۔ تھا اب 2018ءمیں بھی ایک عہد ختم ہوا اورایک نیا موڑ آیا۔ 25جولائی 2018ءکو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف نے بائیس سالہ جدو جہد کے بعد سیاسی میدان مار لیا اور عمران خان وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔

تحریک انصاف کا پس منظر”
کرکٹر عمران خان سے وزیراعظم خان تک بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کا سفر ہے۔ 26 اپریل 1996ءکو عمران خان نے تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی ور 1997ءکے عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن کسی بھی حلقے سے یہ پارٹی جیت نہ سکی۔2002ءکے انتخابات میں عمران خان صرف اپنی سیٹ ھی جیت سکے , یوں ان کی پارٹی ایک سیٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں داخل ہو گئی۔ 2008ءمیں تحریک انصاف نے الیکشنز کا بائیکاٹ کیا البتہ 2013ءمیں 28 قومی اور 39 صوبائی نشستیں حاصل کر کے ایک مضبوط پوزیشن حاصل کر لی اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں صوبائی حکومت بھی قائم کر لی اور 2018ءکے عام انتخابات میں اس نے چاروں صوبوں اور مرکز میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ عوامی حمایت حاصل کر لی اور 116 نشستیں جیت کر مرکز میں اپنی حکومتم بھی قائم کر لی اور 17 اگست 2018ءکو عمران خان 176 ووٹ لیکر وزیراعظم پاکستان بن گیا اور یوں پاکستانی سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

پاکستانی سیاست اور عوام کی حالت زار”
اب غور طلب بات یہ ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اس میں کب عوامی رائے اور مفاد مقدم رکھا گیا؟ بڑے اعلیٰ عہدوں پر انگریز کے پروردہ اور سامراجی ایجنٹ قابض تھے انگریز کے بنائے ہوئے قانون سے عوام کو ھانکنا شروع کر دیا گیا۔ اس خطے کے عوام کو دبانے اور ان پر حکومت کرنے کے طور طریقے اور جابرانہ نظام حکومت کو قائم رکھا گیا تاکہ کوئی سر اٹھا کے بات نہ کر سکے۔ سب سے بڑا ظلم اور زیادتی جاگیردارانہ اور ظالمانہ نظام کو برقرار رکھ کر کیا گیا۔ حالانکہ ہندوستان میں جواہر لال نہرو نے 1951ءمیں جاگیرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کر کے جاگیریں سرکاری قبضے میں لے لیں تھیں لیکن پاکستان میں جمہوری اور اسلام کی آڑ میں استحصالی اور جابرانہ نظام حکومت قائم کر دیاگیا مارشل لاؤں کی چھتری تلے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی اسمبلیاں قائم کر کے جمہوری نظام کا خوب شور مچایا جاتا رہا´ جمہوریت کا لوگو استعمال کرنے والی دو بڑی پارٹیاں عوامی ہونے کے دعویدار ہیں لیکن عوامی فلاحی ریاست قائم نہ کر سکیں۔ بینظیر بھٹو نے اپنے شوہر آصف علی زرداری کو سیاست میں لا کر بہت بڑی سیاسی غلطی کی۔
مسٹر ٹین پرسٹ سے ترقی کر کے مسٹر ہنڈرڈ اینڈ ٹین پرسٹ کے عہدے پر چلا گیا۔ اس نے اپنے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کو دبا دیا۔ چائیدادیں بنائیں۔ فرانس میں بڑے محل خریدے۔ سوئس بینکوں میں لوٹی دولت جمع کرائی۔ اپنے ملازموں اور فرنٹ مینوں کے بینک اکاؤنٹس میں اربوں روپے جمع کرائے۔ ان کے حواریوں نے بھی دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹنا شروع کر دیا۔اشرف رئیسانی نے 84 ارب ، شرجیل میمن نے 426 ارب، ڈاکٹر عاصم نے 480 ارب روپے کی کرپشن کی۔ خادم اعلیٰ نے 8 ارب 72 کروڑ روپے دس سالوں میں اپنی سکیورٹی پر خرچ کر ڈالے ۔ نواز شرنف نے چھ ہزار ایک سو چالیس کروڑ روپے قرضہ اپنی بیس ملوں اور کارخانوں کے لیے جو مختلف بنکوں سے لیا اور معاف کروالیا۔
یہ سارا پیسہ عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ قوم ,بھوکی ننگی، بغیر علاج، جہالت میں گھری سسکیاں لے رہی ہے اور ان کی اولادیں سونے کی پلیٹوں اور چمچوں سے کھانا کھاتے ہیں اور بیس بیس کروڑ کی گاڑیوں اور محلات کے مزے لیتے رہے۔ اگر غیر جانبداری اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو بہتر سالوں سے غیریبوں کے پاس نا رھائش ہے نا تعلیم ہے نا روزگار ہے نا علاج ہے یہ لوگ مجبور محض,بے بسی ,غربت اور جبر کی زندگیاں گزار کر اگلے جہاں سدھار جاتے ہیں۔ غریبوں کی بیٹاں بن بیاہی بیٹھی بیٹھی بوڑھی ھو جاتی ہیں۔
ذرا سوچیئے گزشتہ حکمرانوں کے تمام ٹولے نے منشیات فروشی اور رشوت خوری کو ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ گلی گلی گاؤں گاؤں اور شہروں میں نشے کی کھلے عام فروخت جاری ھے,تعلیمی ادارے منشیات استعمال کرنے کا گڑھ بن چکے ھیں
دوسری طرف ایک مخصوص طبقے کے لیے دنیا کی ہر عیاشی کا سامان موجود ہے۔ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی دنیا ھے بڑی بڑی رھائش گاھیں ,فارم ھاؤسز ,لگژری گاڑیاں ,عہدے ,اعلی تعلیم ,سب کچھ موجود ھے ,غریب کے حصے میں صرف غربت اور بھوک ھے

روایتی سیاستدانوں کی روایتی چالیں”
انتخابات 2018ءسے قبل پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے جو رہنما ایک دوسرے کو ملک دشمن، عوام دشمن اور چور لٹیرے ثابت کرتے تھے اور ننگا کرنے کے چکر میں بیان بازیاں اور تقریریں کر رہے تھے جب عمران خان اقتدار میں آگیا اور کرپشن کے کلاف عملی اقدامات شروع کیے تو کل کے دشمن آج کے بھائی اور اتحادی بن گئے۔
ذرا ماضی کی ہوشیاریاں ملاحظہ فرمائیں۔

نواز شریف کا بیانیہ:
عمران خان اور زرداری بھائی بھائی ہیں دونوں مل کر قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔
یہ تو انگریزوں کے کتے نہلانے والے لوگ ہیں۔
یہ عورتیں نہ جانے کہاں سے آئی ھیں یہ پاکستان کو برباد کر دیں گی۔ اگر بے نظیر کو موقع ملے تو یہ پاکستانیوں کو بھوکا مار دے گی۔
جو یہ وزیراعظم بننے کے خواب دیکھا رہا ہے میں تو شیروانی کا ٹوٹا بٹن بھی نہیں دوں گا۔
سارا روپیہ تو کھا گیا آصف زرداری۔ وہ جو ملینز ڈالر ہیں وہ پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی ہیں وہ بھی کھا گیا۔ حاجیوں کے پیسے بھی نہ چھوڑے۔

شہباز شریف کا بیانیہ:
آصف زرداری تم نے قوم کا پیسہ لوٹا ہے وہ پیسہ ہم واپس لائیں گے اور اس چوک میں تمہیں الٹا لٹکاؤں گا اگر تمہیں لاڑکانہ، لاہور، کراچی اور پشاور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔

حمزہ شہباز کابیانیہ:
میں عمران خان کو ایک شیروانی سلوا دیتا ہوں جب یہ پہن کر جائے گا تو لوگ کہیں گے وہ دیکھو عمران خان وزیراعظم جارہا ہے۔

مریم نواز کا بیانیہ:
لوگو سن لو یہ عمران خان اور آصف زرداری بھائی بھائی ہیں جو ووٹ تم عمران خان کو دو گے وہ آصف زرداری کو جائے گا۔

آصف زرداری کابیانیہ:
گلی گلی میں شورہے نواز شریف چور ہے۔ مک گیا تیرا شو نواز شریف گو نواز شریف گو نواز شریف۔
آپ نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ اب آپ سے کبھی صلح نہیں ہو سکتی۔ آپ سے جنگ ہی رہے گی۔ہم آپ کے پیچھے لگے رھیں گے, اس دور کا ہی نہیں چالیس سال کا حساب لینا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ:
مجھے پیپلز پارٹی پر تعجب ہورہا ہے کہ عمران خان کی نظر میں آصف زرداری کم چور تھا۔
جاؤ نواز شریف کو بتا دو وہ ایک بہت بڑا ڈاکو ہے۔

خواجہ سعد رفیق کا بیانیہ :
آصف زرداری تم ملک کو کتنا کھاو گے تمہارا پیٹ نہیں بھرتا۔ کھا کھا کر تم موٹے ہو گئے ہو کتنا لوٹو گے؟؟

قمر الزمان قائرہ کا بیانیہ:
تم نے بینظیر بھٹو شہید اور اس کی والدہ کی فوٹو جہازوں سے پھینکوائیں ۔ آپ نے ان کی کردار کشی کی جب ضرورت ہوتی ہے آپ کو بھٹو اور بی بی شہید یاد آجاتی ہے۔ آپ ان کے پوسٹر جلسوں میں خود تقسیم کرتے تھے۔

اسی طرح نواز شریف مارشل لاءکی گود میں پل کر جمہوریت کا سب سے بڑا چمپیئن بننے کے دعوے کرنے لگا۔ اپنے محلات تعمیر کیے، قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا، منی لانڈرنگ کی۔اپنے بچونکو اربوں روپوں کے محلات برطانیہ اور دیگر ممالک پر بنا کر دیئے۔ 25 ھزار کنال کا محل قائم کرنے والا کتنا جمہوریت پسند ہو سکتا ہے۔ آج یہ دونوں جیل میں ہیں لیکن قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس دینے کو تیار نہیں۔ حالانکہ یہ رقم قومی خزانے میں جمع ھونی ہے اگر ان سب کو عوام اور ملک عزیز ہے تو یہ لوٹی ہوئی دولت واپس کر کے محب وطن اور عوام دوست ہونے کا عملی ثبوت پیش کریں۔ لوٹ کھسوٹ اور اقرباءپروری کی سیاست کے ساتھ اپنی اولادوں کو موروثی سیاسیت کے ذریعے مسلط رکھنے کیلئے غیر جمہوری ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ یہ سب احتساب سے بچنے، اقتدار حاصل کرنے، لوتا ہوا مال اور اربوں ڈالر اور بے نامی جائیدادوں کو بچانے کے لیے واویلا کیا جارہا ہے۔ شور مچایا جارہا ہے لیکن ابن آر او کے لیے منتیں اور کبھی دھمکیاں دی جارہی ھیں.

” موجودہ حکومت کے اقدامات “
عمران خان نے الیکشنز سے پہلے کرپشن ,غربت اور مہنگائی ختم کرنے کے جو وعدے عوام سے کئے تھے ان سب سے یو ٹرن لیا گیا ھےمہنگائی آسمانوں کو چھو رھی ھے ,ڈالر کا ریٹ راکٹ بن کر اڑ رھا ھے ,غربت میں مزید اضافہ ھوا ھے انتظامی معاملات مزید بگڑے ھیں ,علاج اور دوائیاں عام آدمی کی پہنچ سے باھر ھو چکی ھیں طبقاتی تعلیمی نظام بلکل اسی طرح قائم ھے روزگار کے لئے لوگ دھکے کھا رھے ھیں سرکاری نوکری حاصل کرنا اک خواب ھے رشوت کے بغیر نوکریوں کا تصور ھی ختم ھو چکا ھے دفاتر کچہریوں ,تھانوں,ھسپتالوں میں وھی دھکے ھیں ,محکموں کی کارکردگی زیرو ھے جرمانے سزائیں اور ٹیکس دھڑا دھڑ بڑھائے جا رھے ھیں لیکن عوام کو ریلیف اور بہتر ماحول نہیں دیا جا رھا , غریب کے لئے ایک جال بن دیا گیا ھے جب آمدنیاں کم ھوتی جائیں گی لوگ ٹیکس اور جرمانے کہاں سے ادا کریں گے ؟ عوام کو صبر اور انتظار کی تلقین کی جا رھی ھے لیکن آخر کب تک ؟
۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں حکومت مخالف
اتحاد وںکی تاریخ

پاکستان کی اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف نئے اتحاد بنانے کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ سال جنوری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا
پاکستان کی تاریخ ایسے سیاست دانوں سے بھری پڑی ہے جن کی سیاست صرف اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہتی ہے، اس سے زیادہ اْن کی نظر میں سیاست کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں ،اور ملک کو اتحادی سیاست کی وجہ سے ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑ ا ہے۔پاکستان میں اب تک ایک درجن سے زائد سیاسی اتحاد بن چکے ہیں۔یہ اتحاد کبھی انتخابات سے پہلے بنے تو کبھی بعد میں بنے۔ان اتحادوں کے ذریعے کبھی کسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تو کبھی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی وقت کے حکمرانوں کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اتحادی سیاست کا سہارا لینا پڑا۔ یہ سیاسی اتحاد کبھی جمہوریت کی بحالی کے لیے بنے تو کبھی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تشکیل دیے گئے ۔اگر یہ کہا جائے کہ اتحادی سیاست کے بغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ ادھوری ہے تو غلط نہ ہوگا۔
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اتحادی سیاست کاسب سے پہلے آغاز1952 میں ہوا جب ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اورایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا تھا، مگر یہ اتحاد اتنا کامیاب نہیں ہوا اس لیے تاریخ میں اس کا ذکر اتنا نہیں کیا جاتا جتنا 1953میں بننے والے اتحاد کا ذکر ملتا ہے،یہ اتحاد دی یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے بنایا گیا۔یہ اتحاد چار پارٹیوں پر مشتمل تھا، جس میں عوامی مسلم لیگ، نظام اسلام،جنتا دل اورکرشک پراجاپارٹی شامل تھیں۔ یہ اتحادبھی مسلم لیگ کے خلاف بنا ،اس کی وجہ پارٹی میں اندرونی انتشار ، لیڈر شپ کا بحران، ا نتظامی نا اہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا جس کی وجہ سے مسلم لیگ عوامی حلقوں میں اپنی مقبولیت کھو چکی تھی۔ حسین شہید سہروردی جیسے منجھے ہوے لیڈر پارٹی چھوڑ کر عوامی مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے۔ یہ اتحاد بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل بنایا گیا تھا جس کا مقصد بنگال کے عوام کو مسلم لیگ کامتبادل فراہم کرنا تھا ۔1953 میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں دی یونائیٹڈ فرنٹ نے 223 نشستیں جیت کر مسلم لیگ کو بری طرح شکست سے دوچار کیا، وہ صرف 9 سیٹوں پر انتخاب جیت سکی تھی۔
پاکستان میں دوسرا سیاسی اتحاد ایوب خان دور میں بنا۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح جو قائدِ اعظم کے انتقال کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی تھی ایک بار پھر سے سیاست کے میدان میں سرگرم ہوگئی تھیں، انہوں نے 1964 کے صدارتی انتخابات کے دوران ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کے نام سے ایک اتحاد بنا یا ۔لیکن اس اتحاد کے خلاف حکومت وقت نے منفی پرو پیگنڈا یہ کیا کہ اسلام خواتین کو حکومت کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔شاید اس لیے فاطمہ جناح ، اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
ان انتخابات میں مقابلہ ایوب خان کے گلاب کے پھول اور محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کے درمیان ہواتھا۔ اہل کراچی نے تو ایوب خان کے گلاب کے پھول کو اپنے سینے پر سجا نے سے صاف انکار کردیا اور لالٹین کی مدھم روشنی کو ہی دل و جان سمجھا لیکن فوجی حکمران کے سامنے بھلا لالٹین کی مدھم روشنی کہاں روشن رہ سکتی تھی۔ ایوب خان کا گلاب کا پھول وقتی طور پر تو اقتدار کے ماتھے کا جھومر بن گیا۔پھر رفتہ رفتہ پتی پتی ہوا اورخاک میں مل گیا۔ اس دورکے معروف نعروں میں ’’ایک شمع جلی جل جانے کو، ایک پھول کھلا مرجھانے کو‘‘ اور ’’ملت کا محبوب۔ ایوب ایوب‘‘ تھے۔
اس اتحاد کے بعد 30 اپریل 1967 کونوابزادہ نصراللہ خان نے پانچ پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحا د بنایا۔ اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا ،بعد میں اس اتحاد کا نام بدل کر پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی رکھا گیا ،یہ اتحاد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا۔
1971 میں ملک ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ 1977 میں انتخابات منعقد ہوئے تو اس میں اتحادی سیاست نے بھی خوب اپنے رنگ دکھائے، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کرپاکستان قومی اتحاد(پاکستان نیشنل الائنس یا پی این اے) کے نام سے ایک اتحاد بنایا،پی این اے کا نصب العین ، تھا کہ وہ ملک میں نظامِ مصطفی نافذ کریں گے۔ اس تحریک نے عوامی حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی حاصل کی اور مذہب کو بھی سیاسی طور پرخوب استعمال کیا ، لیکن اس کے با وجود انتخابات میں وہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکے جن کی وہ توقعات کر رہے تھے،پی این اے کو صرف 36 نشستوں پرکامیابی ملی ، انتخابات کے بعد پی این اے نے ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی اس حکومت کے خاتمے کے لیے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکا لنا شروع کردیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک سول نافرمانی میں بدل گئی ، نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حکومت کو کراچی،لاہور، حیدرآباد سمیت کچھ دیگر شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا، کچھ عرصہ سیاسی کشیدگی چلتی ر ہی لیکن پھر حکمران جماعت او رپی این اے کے درمیان مذاکرات ہوئے، حکومت اورپی این اے کئی باتوں پر متفق ہو چکے تھے کہ ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا، اس طرح یہ اتحاد بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
جنرل ضیا الحق کیخلاف6 فروری 1981کو جمہوریت کی بحالی کے لیے میں ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا بنیادی مقصد جمہوریت کی بحالی تھا ،اس تحریک کی قیادت نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی،ایم آر ڈی کی تحریک میں10 سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں،اس تحریک میں متعد د سیاسی رہنما ؤں نے جیل کی ہوا بھی کھائی اور سیاسی کارکنوں کو اس تحریک کے دوران خوب کوڑے کھانے پڑے تھے ،یہ تحریک شروع میں پنجاب اور سندھ میں خاصی مقبول رہی لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ تحریک صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور جمہوریت کے نفاذ اور آمروں کیخلاف اتحاد تو بنتے ہی رہے ہیں مگر پاکستان میں اسلام کے نام پر بھی اتحاد بنائے گئے جن میں ایک اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد تھا۔اس اتحاد کی بنیاد پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی رہنماؤں نے رکھی اور اس کی قیادت سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈرغلام مصطفیٰ جتوئی کے سپرد کی گئی، اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے ہی نواز شریف قومی سطح پر ایک سیاسی لیڈر کے طورپر متعارف ہوئے تھے ، یہ اتحا د بھی پی این اے کی طرح 9 سیاسی و مذہبی پارٹیوں پرمشتمل تھا ، یہ اتحاد 1988 کے الیکشن سے پہلے وجود میں آیا، اِس اتحاد کو غیر جمہوری اور پی پی پی مخالف قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔اسلامی جمہوری اتحاد کو اس الیکشن میں قومی سطح پر کامیابی نہ مل سکی تاہم یہ اتحاد صوبہ پنجاب میں کامیاب ہوکرحکومت بنانے کی پوزیشن میں آگیا، قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی 94 نشستوں پر انتخاب جیت کر مرکز ی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
اِس انتخابی معرکے کے بعد وطنِ عزیز میں قبل از وقت انتخابات1990 میں ہوئے،انتخابی میلہ سجا تو اٰس انتخابی دنگل میں دوبڑے اتحاد بنے جن میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس اور اسلامی جمہوری اتحاد جو کہ پہلے سے بنا ہوا تھا۔آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف ،جب کہ پی ڈی اے کی قیادت بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں۔ اس انتخابی معرکے میں غیر جمہوری قوتوں نے بھرپورمداخلت کی اورالیکشن کے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے سیاست دانوں میں پیسہ بھی خوب تقسیم کیاگیا،اسلامی جمہوری اتحاد ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 106 نشستوں پر الیکشن جیت کر مر کز میں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آگیا،جب کہ اس کے مدِ مقابل پی ڈے اے کو صرف 45 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسی عرصے کے دوران آرٹیکل 58- 2 B کا بھی خوب استعمال ہوتا رہا، منتخب جمہوری حکومتوں کو مدت پوری کرنے سے پہلے فارغ کرنے کا رجحان بھی کچھ زیادہ رہا اور ساتھ ہی اتحادی سیاست کا میلہ بھی سجتا رہا، اس دوران چھوٹے چھوٹے اتحاد بنتے رہے لیکن یہاں پر بڑے اتحادوں کی بات کی جا رہی ہے، اس لیے چھوٹے اتحادوں کا ذکر کرنا اتنا ضروری نہیں۔
اس کے بعد 1997 میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک نیا اتحاد بنا جس کی قیادت نصراللہ خان کررہے تھے ،یہ اتحادنواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن 12۱کتوبر 1999 کو بعد جنرل مشرف نے حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے ساتھ ،جی ڈی اے کا کام تمام کر دیا۔ اس دوران ملک کی سیاسی قیادت نے ملک میں جمہوریت کے استحکام اور آمریت کے خاتمے کے لیے مل کر جدوجہد کرنے اور باہمی اختلافات ختم کرنے کا فیصلہ کیا، ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بار پھر 15 سے زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئیں اور ایک نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی، اس اتحاد کا نام ‘‘تحریک بحالی جمہوریت’’یا اے آر ڈی رکھا گیا تھا۔اس اتحاد کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملک کی دو سب سے بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پہلی مرتبہ کسی ایک اتحاد میں شامل ہوئی تھیں، اس سے پہلے ہمیشہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومتوں کو کمزور کرنے میں اپنی قوت صرف کیا کرتی تھیں۔
اس دوران ایک اور انتخابی میلہ 2002 کو سجا ،اس مرتبہ بھی ہمیشہ کی طرح مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنا ،جس کا نام متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) رکھا گیا اِس اتحاد میں ملک کی چھ مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ایم ایم اے کو ان انتخابات میں صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختونخوا) میں صوبائی حکومت جبکہ صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی،ایم ایم اے ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 57 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن گئی،اسی الیکشن کے دوران ایک اور بھی اتحاد بنا تھاجس کا نام نیشنل الائنس تھا تاہم یہ اتحاد کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا اور اس اتحاد کو صرف 16 نشستوں پر کامیابی مل سکی۔
اس اتحاد میںصدرات جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور سیکرٹیری شپ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ہاتھ میں تھی۔ یہ اتحاد بردار اسلامی ملک افغانستان پر امریکا اور چالیس ملکوں کی نیٹو اتحاد کی فوجوں کا حملہ اور افغان طالبان کی جائز حکومت امارت اسلامیہ کو بزور قوت ختم کر کے افغانستان پر قبضہ تھا۔ اس اتحاد کو افغانوں کے خون کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں پذیرائی ملی۔متحدہ مجلس عمل نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختونخواہ اور بلو چستان میں صوبائی حکومتیں بنائیں۔مرکز میں لیڈر ا?ف حزب اختلاف کی سیٹ مولانا فضل الرحمان صاحب کو ملی۔ یہ اتحاد مشرف کے خلاف خیر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی نہ توڑنے کے اختلاف پر ختم ہوا۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 کے انتخابی معرکہ میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی2008 کے انتخابات میں کوئی نیا اتحاد نہیں بنا۔ البتہ متحدہ مجلس عمل جو پہلے سے بنا ہوا تھا وہ بھی ا پنی مقبولیت بر قرار نہیں رکھ سکا۔ انتخابات کے بعدپیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت بنائی ،جس میں ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آء ( ف) شامل تھیں ۔
2012میں ایک اور اتحاد دیکھنے میں آیا یہ تھا دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد’’ملی یکجہتی کونسل‘‘۔اس اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اس اتحاد کی کیاسیاسی مقاصد ہوسکتے تھے؟ نیز یہ کہ اس کا مستقبل کیا ہوا؟ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصروںکا کہنا تھا کہ یہ بالکل ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کی طرزکا اتحاد تھا۔ گو کہ ابھی اس کے بارے میں خود اتحادی جماعتوں کا کہنا تھا کہ یہ غیر سیاسی اتحاد ہوگا لیکن پاکستان کی تاریخ کو مدنظر رکھیں تو ایسا ممکن نہیں تھا کہ کوئی اتحاد جس کے تمام ارکان سیاسی ہوں ، وہ غیر سیاسی بھی رہا ہو۔اس اتحاد کا نام مئی 2012 میں اس وقت پہلی مرتبہ سامنے آیا جب ملک کی اہم سیاسی و دینی جماعتوں نے ملک میں مختلف مسالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے قیام‘ فرقہ واریت کے خاتمے‘ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد ، اسلامی معاشرے کے قیام اور متحدہ مجلس عمل کے انتخابی پلیٹ فارم اور دفاع پاکستان کونسل کی موجودگی اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے ’’ملی یکجہتی کونسل ‘‘ کے نام سے ایک اتحاد بنانے کا اعلان کیا تاہم اسے ’بحالی‘ کانام دیا گیا۔
سابق امیر جماعت اسلامی و صدر متحدہ مجلس عمل قاضی حسین احمد کو تنظیمی ڈھانچہ بنانے والی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔انہوں نے ہی ’’ملی یکجہتی کونسل ‘‘کی بحالی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان انہوں نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔اتحاد کے دیگر ارکان میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن جمعیت علمائے اسلام ف کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد، پیر عبدالشکور نقشبندی، محمد یحییٰ مجاہد، صاحبزادہ سلطان احمد علی، محمد خان لغاری، صاحبزادہ محمود الحسن نقشبندی، علامہ ساجد علی نقوی، لیاقت بلوچ، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر وغیرہ شامل تھے۔چار جون کو اس اتحاد کے حوالے سے ایک اور اہم پیش رفت ہوئی جس نے واضح کیا کہ ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ غیرسیاسی نہیں ہوگی۔ اس دن قاضی حسین کو تنظیم کا متفقہ صدر اور حافظ حسین احمد کو سیکرٹری جنرل منتخب کرلیا گیا۔ واضح رہے کہ قاضی حسین احمد ایم ایم اے کے صدر اور حافظ حسین احمد ا یم ایم اے کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔
2013 کے الیکشن میں کوئی اتحاد نہیں بنا، البتہ کہیں کہیں مختلف جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوی تھیں ،2013 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ، 2013 کے انتخابات کا سب سے مثبت پہلو پاکستان تحریک انصاف کا ابھر کر سامنے آنا تھا، پاکستان تحریک انصاف پہلی مرتبہ اتنی بڑی سطح پر کامیاب ہوئی تھی ، تحریک انصاف کی سیاست کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اسمبلی سے زیادہ احتجاجی سیاست کو اپنا مرکز سمجھتی ہے۔
2018کے انتخابات سے قبل بھی سیاسی اتحاد تشکیل پائے۔ نواز شریف تا حیات نا ا ہل ہوچکے تھے، زرداری صاحب کی پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی، تاہم عمران خان کی تحریک انصاف ملک میں سیاسی جوہر دکھارہی ہے۔ ایسے حالات میں کراچی کی دو سیاسی جماعتوں نے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی، ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی نے ایک نام ، ایک جھنڈے اور ایک منشور پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، ا?پس میںگلے بھی ملے اور ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی۔ لیکن بد قسمتی سے یہ اتحاد ایک رات ہی چل سکا، صبح ہوتے ہی دم توڑ گیا۔تاہم پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بیرون ملک رہتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ 23جماعتوں پر مشتمل اتحاد تھا۔
23جماعتی اتحاد کے سربراہ جنرل پرویز مشرف تھے، اسی جماعت کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر امجد کوآرڈینیٹر اورمسلم لیگ (جونیجو) کے سربراہ اقبال ڈار کو اتحاد کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا ۔ اس اتحاد میں آل پاکستان مسلم لیگ ، مسلم لیگ (جونیجو) ،پاکستان سنی تحریک، مجلس وحدت المسلمین، سنی اتحاد،مسلم کانفرنس، کشمیر،پاکستان عوامی تحریک، پاکستان مسلم لیگ کونسل، پاکستان مسلم لیگ نیشنل، عوامی لیگ، پاکستان مسلم الائنس، پاکستان مزدور محاذ، کنزرویٹو پارٹی، مہاجر اتحاد تحریک، پاکستان انسانی حقوق پارٹی،.ملت پارٹی، جمعیت علما پاکستان (نیازی گروپ)، عام لوگ پارٹی، عام آدمی پارٹی، پاکستان مساوات پارٹی، پاکستان منیارٹی پارٹی، جمعیت مشائخ پاکستان اورسوشل جسٹس ڈیمو کریٹک پارٹی شامل تھیں۔اگرچہ اس فہرست میں شامل سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسی جماعت نظر نہیں آتی جس نے سیاست میں کوئی دھماکا کیا ہو، اکثریت صفر پر آوٹ ہونے والی جماعتوں کی ہی ہے۔
پاکستان میں سیاسی تاریخ پر اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے بطن سے جنم لیا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک جتنی بھی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ان کو وجود مسلم لیگ کامرہون منت تھا۔ اسی مسلم لیگ سے عوامی مسلم لیگ اور جناح مسلم لیگ نے جنم لیا جس کو ملا کر پھر ایک مشترکہ جماعت عوامی جناح مسلم لیگ کا وجود سامنے آیا۔ ضیا دور تک آتے آتے یہی مسلم لیگ کئی شکلیں بدل چکی تھی اور بالاخر ان کے وجود سے مسلم لیگ ن نے جنم لیا۔ اور پھر اگست 2002 میں پرویز الہی نے اپنا دھڑا الگ کر لیا اور مسلم لیگ قائداعظم کا وجود سامنے آیا۔ کچھ ہی عرصے بعد مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیا درکھی۔ شیخ رشید جو کبھی ن لیگ کے کرتا دھرتا سمجھے جاتے تھے انہوں نے اختلافات کی وجہ سے ن لیگ کو خیر باد کہہ کر عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھ دی۔ انہی دھڑوں میں سے پھر پیر صاحب پگاڑا نے مسلم لیگ فنکشنل کی بنیاد رکھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایوب خان نے کنونشنل مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو اس جماعت کے کرتا دھرتا تھے تاہم جلد ہی اختلافات کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو نے ممتاز دولتانہ وغیرہ سے مل کر کونسل مسلم لیگ کی بنیاد رکھ دی تاہم یہ اتحاد بھی زیادہ دیر نہ چل سکا اور ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ 2002 میں بے نظیر بھٹو سے اختلافات کی بنیاد پر آفتاب احمد شیر پاو نے اپنی الگ پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی شیر پاو بنا لی جس کو بعد میں قومی وطن پارٹی کا نام دے دیا گیا۔
پاکستان کی سیاست کاجائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ذاتی و معمولی اختلافات کی بنیاد پر کیسے ایک پارٹی کے بطن سے کئی پارٹیوں نے جنم لیا۔ اور یہ عمل تاحال رکا نہیں بلکہ توڑ پھوڑ کا یہ عمل تا حال جاری ہے اور اب جب پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور میاں نواز شریف منظر عام سے غائب ہیں پیپلز پارٹی بھی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی اور کوئی متبادل بظاہر نظر نہیں آرہا۔ تو ایسے میں ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی بات چیت بھی جاری ہے۔ اسے سیاسی اتحاد کہا جائے یا سیاسی جماعت یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سننے میں آ رہا ہے کہ چند پرانے سیاست دان اب اس بات پر آمادہ نظر آتے ہیں کہ کیوں نہ مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر چھوٹے گروپوں کو ملا کر ایک نئی پارٹی کی تشکیل دی جائے۔ اور اگر کوئی ایسی پارٹی تشکیل پا جاتی ہے تو یقینًا راویتی سیاسی پارٹیاں مشکل میںپڑ جائیں گی۔
ابھی چند روز قبل اپویزیشن نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔اس اے پی سی کا نچوڑ نکالا جائے تو اگرچہ اس بار بھی اجتماعی استعفوں سے متعلق مولانا کا مطالبہ پورا نہیں ہوا لیکن حکومت مخالف جدوجہد کا ٹائم فریم طے ہوگیا ہے، مگر اس میں بھی کچھ مسائل ہیں، اور سب سے بڑا مسئلہ جنوری کے مہینے میں لانگ مارچ اور دھرنا ہوگا۔جنوری میں اس طرح کی حکمتِ عملی پر عمل نہ ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ سردی، یعنی ایک ایسا مہینہ جب اسلام آباد میں سردی دانت بجانے پر مجبور کردے، تو اپوزیشن کی مختلف جماعتیں اپنے کارکنوں کو کسی آزمائش میں کیسے ڈال سکتی ہیں؟ پھر دوسری اور اہم ترین وجہ یہ کہ یہ وہی وقت ہوگا جب سینیٹ انتخابات کی جوڑ توڑ شروع ہوجائے گی۔اگر اپوزیشن کی 2 سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سینیٹ میں اکثریت اور قومی اسمبلی میں طاقتور ہونے کے باوجود اس نے اپنی نااہلی اور مجبوری کی بنیاد پر حکومت کی قوت میں اضافہ کیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے لیے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے دوران واضح ہوا کہ کس طرح اپوزیشن نے حکومت کو محفوظ راستہ فراہم کیا، ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا، چاہے بجٹ منظوری کا عمل ہو، یا دوسری قانون سازی، ہر بار حکومت قومی اسمبلی میں قانون کی منظوری کے دوران اپوزیشن کو اشتعال دلانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، اور یوں وہ ایوان سے واک آؤٹ کرکے نکل جاتے ہیں، جبکہ پیچھے حکومت اپنی واردات ڈال دیتی ہے۔
اس بار اے پی سی کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیسے تو پیپلزپارٹی کے خرچ ہوئے لیکن میلہ مریم نواز نے لوٹا، اور مولانا کو میزبان نے خود اسٹیج حوالے کیا۔ مولانا اپوزیشن جماعتوں کا ایک باضابطہ اتحاد چاہتے تھے، اور وہ اس میں کامیاب رہے، تحریری اعلامیہ اور ایکشن پلان ان کی خواہش تھی جو پوری ہوئی۔ اس سارے منظرنامے میں نقصان شہباز شریف کا ہوا۔
اس آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں اپوزیشن نے حکومت مخالف نیا اتحاد بنا لیاہے۔جس نے جنوری 2021 میں حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔اپوزیشن نے حکومت مخالف الائنس کے نام پر مشاورت کے بعد اسے ‘’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ’’ کا نام دینے پر اتفاق کیاہے۔اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کے درمیان باہمی مشاورت کے بعد مولانا فضل الرحمان نے میڈیا کو اعلامیے کے نکات سے متعلق آگاہ کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پر اپوزیشن کی اے پی سی ہوئی، جس میں اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سیالائنس تشکیل دیا ہے۔اس کے علاوہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کانفرنس میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ حکومت مخالف یہ لانگ مارچ جنوری 2021 کو ہوگا۔اپوزیشن کے لانگ مارچ سے قبل ملک بھر میں ریلیاں اور جلسے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اے پی سی نے وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں 26 نکاتی قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے قومی اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 1947 سے اب تک تاریخ کو دستاویزی شکل دینے کیلئے ٹروتھ کمیشن اور چارٹر آف پاکستان مرتب کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے۔اعلامیے کے مطابق اپوزیشن ربر اسٹمپ پارلیمنٹ سے کوئی تعاون نہیں کرے گی، موجودہ حکومت نیپارلیمان کو مفلوج کردیا ہے، اجلاس نے ٹروتھ کمیشن کا مطالبہ کیا ہے، تباہ حال معیشت ملک کے لیے خطرہ بن چکی ہے، میثاق جمہوریت پر نظرثانی کی جائے گی، متحدہ اپوزیشن ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کرتی ہے، اس تحریک میں وکلا، تاجر،کسان، عوام اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائے گا،مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ‘’سلیکٹڈ’’ حکومت کو دھاندلی سے مسلط کیا گیا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ الیکشن میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ تباہ حال معیشت ملک کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ آٹا، چینی، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کم کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اجلاس میں غیر جانبدار ججز کو بے بنیاد مقدمات میں جکڑنے پر شدید تشویش کا اظہار اور مذمت کی گئی۔ اپوزیشن کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آج کے بعد ربڑ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی۔ میڈیکل کمیشن سمیت شہری آزادیوں کے خلاف قانون سازی کو واپس لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اے پی سی وزیراعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتی ہے۔ دسمبر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ جنوری 2021 میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اے پی سی میں اتفاق رائے سے فیصلے کیے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئی۔ سوا 2 سال میں معیشت کا بیڑہ غرق کیا گیا۔ حکومت کا مزید قائم رہنا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اپنی گفتگو میں کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک موومنٹ کل سے کام شروع کرے گی۔ ہم ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ سلیکٹڈ حکومت کیخلاف نکل رہے ہیں، امید ہے عوام ساتھ دیں گے۔
اگر حکومت کے خلاف تیار کیے گئے ایکشن پلان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا قائم ہونے والا نیا اتحاد ایسے گل نہیں کھلائے گا، جس کی فوری طور توقع کی جارہی ہے، کیونکہ حکومت کے ساتھ قانون سازی میں تعاون نہ کرنے کا اعلان بتاتا ہے کہ انتخابی اصلاحات ممکن نہیں ہوسکے گی۔ خود مسلم لیگ (ن) کے دور میں انتخابی اصلاحات کا عمل 3 سال تک لے گیا تھا، اور اس حکومت کے تو ویسے بھی 3 سال ہی رہ گئے ہیں۔ پھر ایک اور اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ مولانا خود اسمبلی کا حصہ نہیں، اپوزیشن کی باقی جماعتیں جن میں پختون خواہ ملی عوامی پارٹی (میپ)، جمعیت اہلِ حدیث، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) اور قومی وطن پارٹی کی تو قومی اسمبلی میں نمائندگی تک نہیں۔ دوسری طرف سندھ میں پیپلزپارٹی کی اپنی حکومت ہے جبکہ قومی اسمبلی میں شہباز شریف اور پنجاب میں ان کے بیٹے اپوزیشن لیڈر ہیں تو یہ مراعات کس طرح چھوڑی جاسکتی ہیں، جب آپ کو کہیں سے کوئی واضح اشارہ بھی نہ ہو۔
پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان پہلا سیاسی اتحاد ہے. نیا سیاسی اتحاد عمران خان کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنا کر ملک میں صاف شفاف انتخابات کے لئے دبائو ڈالے گا۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی سندھ حکومت توڑنے ،اتحاد میں شامل پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دینے پر رضامند ہوں گی۔سیاسی حلقوں کے مطابق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اس سے قبل نوابزدہ نصر اللہ خان کی قیادت میں اے آر ڈی، میثاق جمہوریت ،اعلان مری، پرویز مشرف حکومت کیخلاف اور عدلیہ بحالی تحریک میں اکٹھی ہوئیں لیکن کوئی باقاعدہ اتحاد قائم نہ ہوا اور معاملہ مشترکہ جد و جہد تک محدود تھا، یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں جماعتیں ایک پلیٹ فارم سے مشترکہ احتجاجی تحریک چلانے پر آمادہ ہوئیں ہیں. اے پی سی کے جاری اعلامیہ میں عمران خان کے فوری مستعفی نہ ہونے پر اکتوبر میں جلسے، دسمبر میں احتجاجی مظاہرے، جنوری میں اسلام آباد لانگ مارچ کے علاوہ عدم اعتماد اور اجتماعی استعفوں کے لئے کمیٹی قائم کی گئی ہے،ان اہداف کے لئے پاکستان جمہوری تحریک قائم کی گئی ہے جس کی تنظیم کی بجائے کمیٹی قائم ہو گی جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہو گی۔ پیپلزپارٹی کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور سنیئر رہنما الطاف قریشی نے کہا کہ دونوں جماعتوں کا انتخابی اتحاد قائم ہونا قبل ازوقت ہے، ابھی تو اہم سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم نئے الیکشن کرانے میں کامیاب ہو گا، اپوزیشن اتحاد تحریک انصاف نہیں اس کے پیچھے قوتوں کے خلاف سرگرم ہو گا۔
۔۔۔۔۔

پاکستان مسلم لیگ کی تاریخ

اس وقت مسلم لیگ ن پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ہی ایک دھڑا ہے جو پاکستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والی پارٹی تھی۔ مسلم لیگ پاکستان کے بانیوں کی پارٹی تھی۔ لیکن پاکستان کی آزادی کے بعد یہ پارٹی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ 1970 کی دہائی میں یہ تقریبا ختم ہونے والی تھی۔ 1980 کی دہائی میں مسلم لیگ ن کی وجہ سے یہ پارٹی واپس اپنے پاوں پر کھڑی ہوئی۔ آج کی مسلم لیگ آل انڈیا مسلم لیگ کا ہی ایک دھڑا ہے۔ 1970 کی دہائی تک آل انڈیا مسلم لیگ ماڈرنسٹ اسلام اور ماڈرن مسلم نیشنلزم کی بنیاد پر قائم تھی۔ 1970 کی دہائی تک یہ ایسے ہی قائم رہی اور پھر یہ کنزرویٹو اسلامسٹ بنتی گئی۔ پچھلے کچھ سالوں میں مسلم لیگ ن سمیت اس پارٹی کے تمام دھڑے واپس آل انڈیا مسلم لیگ کی رسوم کو اپناتے نظر آئے۔
آل انڈیا مسلم لیگ
آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام
اتوار 30 دسمبر 1906
پاکستان کی خالق سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں عمل میں آیا تھا۔۔!
1885ء میں ہندوستان کی پہلی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس قائم ہوئی۔ ابتداء میں بیشتر مسلمان اس سے وابستہ تھے لیکن ہندو لیڈروں کے متعصبانہ رویے سے ایک خوف پیدا ہوا کہ اگر برطانوی راج ختم ہو گیا تو ہندو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں پر حاکم ہو جائیں گے۔ ایسے میں ایک الگ مسلم سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی تو سربرآوردہ مسلم اکابرین نے پہلے لکھنو میں “مسلم انجمن” کی بنیاد رکھی تھی جو چند سال تک مسلم اشرافیہ کے مل بیٹھنے کا بہانہ ثابت ہوئی۔ یہی سوچ ترقی کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ جیسی ملک گیر تنظیم کے قیام کا باعث بنی جس کے تاسیسی اجلاس کی صدارت نواب وقارالملک نے کی تھی۔ اس کے دیگر شرکاء میں نواب سلیم اللہ ، نواب محسن الملک ، سر آغا خان ، سر امام علی ، مولانا محمدعلی جوہر ، مولانا شوکت علی جوہر ، نواب سر علی محمدخان اف محمودآباد ، نواب محمد اسحاق خان ، حکیم اجمل خان ، مولانا ظفرعلی خان ، مولانا حسرت موہانی ، عزیز مرزا اور صاحبزادہ آفتاب احمد خان قابل ذکر ہیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے تین بنیادی اغراض و مقاصد تھے:
مسلمانوں میں برطانوی راج سے وفاداری کے جذبات کا فروغ
مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور مفادات کا تحفظ و ترقی
مختلف مذاہب کے درمیان منافرت کی روک تھام
آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے سالانہ اجلاس ہوتے تھے جن کی ایک دستیاب فہرست مندرجہ ذیل ہے:
پہلا اجلاس: 1907ء میں پہلا باضابطہ اجلاس کراچی میں ہوا جس کی صدارت سر آدم جی پیر بھائی نے کی۔
دوسرا اجلاس: 1908ء میں علی گڑھ میں سرسید علی امام نے صدارت کی۔ اس اجلاس میں جداگانہ انتخابات کا جائزہ لیا گیا۔
تیسرا اجلاس: 1910ء میں ناگپور میں سر غلام محمد علی بہادر، شہزادہ ارکاٹ نے صدارت کی۔ اس دوران مسلم لیگ کا صدر دفتر علی گڑھ سے لکھنو منتقل ہوا۔
چوتھا اجلاس: 1911 میں لکھنو میں ہوا جس میں بنگال کی تقسیم نہ کرنے پر حکومتی فیصلے کی مذمت کی گئی تھی۔
پانچواں اجلاس: کلکتہ میں نواب سلیم اللہ نے صدارت کی۔
چھٹا اجلاس: 1913ء میں میاں محمد شفیع نے صدارت کی۔ اس اجلاس میں قائداعظمؒ نے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا جبکہ مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ نے تاج برطانیہ کے زیرسایہ حکومت خود اختیاری کا فیصلہ کیا تھا۔
ساتواں اجلاس: آگرہ میں سرابراہیم نے صدارت کی۔
آٹھواں اجلاس: بمبئی میں مظہرالحق نے صدارت کی۔
نواں اجلاس: 1916ء میں لکھنو میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی بار صدارت کی۔ یہ کانگریس کے ساتھ ایک مشترکہ اجلاس تھا جس میں مسلمانوں کے جداگانہ حق خودارادی کا موقف تسلیم کیا گیا تھا جو “میثاق لکھنو” کے نام سے مشہور ہے۔
دسواں اجلاس: 1917ء میں کلکتہ میں مولانا محمدعلی جوہر کی غیر موجودگی میں مہاراجہ محمد علی خان آف محمود آباد نے کی۔ مولانا جوہر اس وقت جیل میں تھے اور ان کی تصویر کرسی صدارت پر رکھی گئی تھی۔
گیارہواں اجلاس: 1918ء میں دہلی میں ابو قاسم فضل حق نے صدارت کی۔
بارہواں اجلاس: 1919ء میں امرتسرمیں ہوا جس کی صدارت حکیم محمد اجمل نے کی۔ یہ بھی کانگریس کے ساتھ مشترکہ اجلاس تھا اور اس میں متفقہ طور پر سلطنت عثمانیہ کی ہر ممکن مدد کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
تیرواں اجلاس: ڈاکٹر ظفر احمد انصاری نے صدارت کی۔
چودھواں اجلاس: 1922ء میں مو لاناحسرت موہانی نے صدارت کی۔ اس میں مسلم لیگ اور کانگریس کے اختلافات سامنے آئے اور میثاق لکھنو ختم ہو گیا تھا کیونکہ کانگریس مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات کے مطالبہ سے مکر گئی تھی۔
پندرھواں اجلاس: 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے صدارت کی۔
سولہواں اجلاس: 1925ء میں سید رضا علی نے صدارت کی۔
سترہواں اجلاس: علی گڑھ میں سر عبدالرحیم نے صدارت کی۔
اٹھارہواں اجلاس: 1926ء میں دہلی میں سر شیخ عبدالقادر نے صدارت کی۔ اس اجلاس میں پہلی بار علامہ اقبالؒ نے بھی شرکت کی تھی۔
انیسواں اجلاس: کلکتہ میں 1927 میں الگ الگ ہوا۔ اس وقت آل انڈیامسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک جناح گروپ جس کی صدارت مولوی محمد شفیع نے کی جبکہ دوسرا شفیع گروپ تھا جس کی صدارت سر محمد شفیع نے کی۔
بیسواں اجلاس: 1929ء میں مہاراجہ محمد علی آف محمود آباد کی صدارت میں ہوا جس میں قائداعظمؒ کے چودہ نکات منظر عام پر آئے۔
اکیسواں اجلاس: 1930ء میں الہٰ آباد میں شاعر مشرق علامہ محمداقبالؒ کی صدارت میں ہوا جس میں ان کا مشہور زمانہ تاریخی خطبہ سامنے آیا جس میں انہوں نے الگ مسلم وطن کی تجویز پیش کی تھی۔
بائیسواں اجلاس: 1931ء میں چوہدری ظفراللہ خان اور مسٹر عبدالعزیز نے صدارت کی۔
تئیسواں اجلاس: ۔۔۔
چوبیسوں اجلاس: ۔۔۔
پچیسواں اجلاس: 1937ء میں لکھنو میں ہوا۔ اس سال صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جن میں مسلم لیگ کو عبرتناک شکست ہوئی اور 489 مسلم نشستوں میں سے صرف 104 ہی جیت سکی۔
چھبیسواں اجلاس: 1938ء میں پٹنہ میں قائد اعظمؒ کی صدارت میں ہوا۔
ستائیسواں اجلاس: 22 سے 24 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں ہوا جس کی صدارت قائد اعظم نے کی اور اس میں قراداد لاہور منظور ہوئی جو پھر “قرارداد پاکستان” کہلائی۔
اٹھائیسوں اجلاس: 1941ء میں مدراس میں ہوا۔
انتیسواں اجلاس: 1942ء میں الہٰ آباد میں ہوا۔
تیسواں اجلاس: دہلی میں ہوا۔
اکتیسواں اجلاس: کراچی میں صدارت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے صدارت کی۔
بتیسواں اجلاس: 1946ء میں قائداعظمؒ نے صدارت کی۔ اس سال جنوری میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جن میں مسلم لیگ نے شاندار کامیابی حاصل کی اور کل 494 میں سے 439 مسلم نشستیں جیت لی تھیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری اجلاس 14 دسمبر 1947کو کراچی میں ہوا جس کی صدارت بانی پاکستان قائداعظمؒ نے کی۔ اس اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کو پاکستان مسلم لیگ کا نام دے دیا گیا تھا۔
یہ پارٹی شروع میں بھارت کی مسلم مڈل کلاس کی سیاسی نمائندگی کے لیے 1906 میں قائم کی گئی ہے۔ سر سید احمد خاند پہلے ایکٹوسٹ تھے جن کی کوششوں سے مسلمانوں نے بھارت میں ماڈرن ازم کو قبول کرنے کی ٹھانی۔ ان کی وفات کے کچھ سال بعد ہی یہ پارٹی کچھ مسلمان سیاستدانوں نے بنگال میں قائم کی۔1930 میں علامہ اقبال نے پارٹی کی صدارت سنبھالی اور ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز دی۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی واپس بھارت آکر مسلمانوں کی نمائندگی اور مسلم لیگ کی رہنمائی کرنے پر ابھارا۔ 1920 کے زمانے میں بھارت میں مسلمانوں اور ہندوں میں اختلافات کے بعد جناح واپس انگلینڈ چلے گئے۔ وہ برطانیہ میں وکالت کی پریکٹس میں مصروف ہو گئے تھے۔ اقبال نے سر سید احمد خان کے خیالات اور مسلم ماڈرن ازم کے ساتھ جڑ کے بھارت میں مسلم نیشنلزم کی بنیاد رکھی۔جناح 1930 کی دہائی میں واپس آئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ ایک پارٹی میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے 1940 میں جناح نے اعلان کیا کہ ہندوں کی اکثریت کی وجہ سے مسلمان اکھنڈ بھارت میں دب جائیں گے اس لیے انہیں ایک علیحدہ ملک پاکستان کے نام سے دیا جائے جہاں وہ اپنی زندگی پوری آزادی کے ساتھ جی سکیں۔1945/46 میں برطانوی حکومت نے الیکشن کے انعقاد کے ذریعے بھارت میں مرکزی اور صوبائی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے آپ کو بھارتی مسلمانوں کا واحد نمائندہ ثابت کرنے کے لیے یہ انتخابات مسلم لیگ کے لیے بہت اہم تھے۔ مسلم لیگ کی جیت کی صورت میں ہی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔ مسلم لیگ کی سب سے بڑی حریف بھارت کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس تھی۔ کچھ دوسری پارٹیاں جو مسلم لیگی عہدیداروں کو جعلی مسلمان سمجتھی تھیں بھی مسلم لیگ کے مقابلہ میں کھڑی ہو گئیں۔ مسلم لیگ کا منشور یہ تھا کہ یہ پارٹی برصغیر کے تمام مسلمانوں اور اقلیتوں کو بھی ان کے حقوق کا تحفظ دلائے گی۔ لیگ نے دعوی کیا کہ چھوٹی ذات کے ہندو بھی مسلمان میں زیادہ محفوظ زندگی گزاریں گے۔ الیکشن میں مسلم لیگ کو بنگال میں 250 میں سے 114 ، پنجاب میں 175 میں سے 75 ، این ڈبلیو ایف پی میں 150 میں سے 17، سندھ میں 60 میں سے 28، اتر پردیش میں 228 میں سے 54، بہار میں 152 میں سے 34، آسام میں 108 میں سے 31، بمبئی میں 175 میں سے 30، مدراس میں 215 میں سے 29 اور اڑیسا میں 60 میں سے 4 سیٹیں ملیں۔ اسطرح مسلم لیگ کو مسلمان ووٹوں میں 87 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ ملے اور اسے پورے ملک کی مسلم نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا گیا۔
حکمران پارٹی
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل جناح اور وزیر اعظم لیاقت علی خان بنے۔ آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان کے قیام کی وجہ بنی۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان ایک ماڈرن مسلم سٹیٹ ہو گا جہاں ریاست مذہبی لحاظ سے غیر جانبدار رہے گی اور لوگ اپنے مذہب کو بالائے طاق رکھ کر اچھے پاکستانی بنیں گے۔ 1948 میں قائد اعظم کا انتقال ہو گیا۔
پہلی دراڑ
جناح کی وفات کے فوری بعد مسلم لیگ میں اندرونی سطح پر اختلافات شروع ہو گئے۔ پارٹی کے الگ الگ دھڑے بننے لگے۔
آل پاکستان عوامی مسلم لیگ
آل پاکستان عوامی مسلم لیگ پہلا دھڑا تھا۔ یہ 1949 میں بنایا گیا اور اس کے لیڈر کا تعلق بنگال سے تھا ۔ ان کا نام حسین شہید سہروردی ہے۔ سہروردی کا ماننا تھا کہ مسلم لیگ کی پارٹی عوام سے دور ہو کر رہ گئی ہے۔اسی لیے سہروردی نے 1949 میں مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
جناح مسلم لیگ (جے ایم ایل )
افتخار ممدوٹ پاکستان میں پنجاب کے پہلے چیف منسٹر بنے اور صوبے میں مسلم لیگ کے بھی سربراہ مقرر وہئے۔ جناح کی طرح ممدوٹ کو بھی تنظیم اور ڈسپلن کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ وہ کھل کر گفتگو کرنے والے لیڈر تھے۔ جناح کی موت کے بعد ممدوٹ کو پنجاب کے چیف منسٹر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ پارٹی کےاحکامات اور وزیر اعظم کی ہدایات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ 1949 میں ہی ممدوٹ بھی مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے اور جناح مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی۔
جناح عوامی مسلم لیگ (جے اے ایم ایل)
یہ پارٹی 1950 میں سہروردی اور ممدوٹ کی جماعتوں کے اختلاط سے قائم ہوئی۔
آزاد پاکستان پارٹی (اے پی پی)
اےآئی ایم ایل کا ایک ووکل لیفٹ ونگ تھا اور میاں افتخار اس ونگ کے لیڈر تھے۔ جناح کی موت کے بعد اس ونگ کی اہمیت مسلم لیگ میں کمزور پڑ گئی۔ 1949 میں میاں افتخار مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے اور آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے ایک لیفٹ ونگ پارٹی قائم کی۔ اے آئی ایم ایل کے کچھ سوشلسٹ ممبر بھی میاں افتخار کی پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ کچھ دوسری لیفٹ ونگ پارٹی کے ساتھ مل کر اس پارٹی نے 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی کی شکل اختیار کر لی۔
سندھ مسلم لیگ (ایس ایم ایل)
ایوب کھوڑو سندھ مسلم لیگ کے پہلے رہنما تھے۔ وہ اس صوبے میں مسلم لیگ کے سربراہ بھی رہ چکے تھے۔ 1952 میں کھوڑو اور سندھ کے لیڈرز کے بیچ اختلافات پیدا ہوئے تو کھوڑو کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ کھوڑو نے مسلم لیگ چھوڑ کر سندھ مسلم لیگ قائم کی۔ سندھ مسلم لیگ 1954 میں ختم ہو گئی۔
1951، 53 اور 54 کے صوبائی الیکشنز
اگرچہ مسلم لیگ کوپارلیمنٹ میں اکثریت حاصل تھی لیکن1951 میں پہلی بار مغربی پاکستان کے چار صوبوں، پنجاب اور این ڈبلیو ایف پی کے اندر براہ راست الیکشن کا انعقاد ہوا۔ پنجاب میں 191 کل سیٹوں میں سے مسلم لیگ کو 140 سیٹیں ملیں، جناح مسلم لیگ کو 32 سیٹیں ملیں ، آزاد پاکستان پارٹی کو ایک سیٹ پر فتح حاصل ہوئی جب کہ جماعت اسلامی کو بھی ایک ہی سیٹ مل پائی۔ آزاد امیدواروں نے 17 سیٹیں جیتیں۔ این ڈبلیو ایف پی میں مسلم لیگ کو 85 میں سے 67 سیٹیں ملیں، جناح عوامی مسلم لیگ 4 سیٹیں جیت پائی اور 13 سیٹیں آزاد امیدواروں کے حصہ میں آئیں۔ سندھ میں براہ راست انتخابات 1953 میں ہوئے۔ 111 میں سے مسلم لیگ کو 78 سیٹیں ملیں او ر سندھ مسلم لیگ 7 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ جی ایم سید کی سندھی نیشلسٹ پارٹی جو سندھ محاذ کے نام سے قائم تھی کو 7 سیٹیں ملیں ۔ آزاد امیدوار 19 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
جناح عوامی لیگ
1953 میں سہروردی کی جناح عوامی مسلم لیگ نے اپنی پارٹی کے نام سے مسلم کا لفظ حذف کر دیا اور ایک سیکولر پارٹی بن گئی۔ ممدوٹ اس پارٹی سے علیحدہ ہو کر پی ایم ایل میں چلے گئے۔
1954، مشرقی پاکستان الیکشن ،
1954 میں مشرقی پاکستان میں پہلی بار صوبائی انتخابات ہوئے ۔ جناح عوامی لیگ نے ڈیموکریٹک پارٹی ، پیپلز کمیٹی پارٹی، نظام اسلام پارٹی سے اتحاد کر لیا جس کا نام یونائیٹڈ فرنٹ رکھ لیا۔ 309 میں سے جناح عوامی لیگ کو 223 سیٹیں ملیں۔ مسلم لیگ کو صرف 10 سیٹیں ملیں۔ پاکستان نیشنل کانگریس کے حصے میں 24 سیٹیں آئیں۔ ایک اور ہندو پارٹی شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کو 27 سیٹوں پر فتح ملی۔ دی فرنٹ کو 10 سیٹیں ملیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے 4 سیٹوں پر فتح سمیٹی۔ گاناتنتری دل کو 3 سیٹیں مل گئیں۔ بدھسٹ پارٹی کو 2 سیٹوں پر فتح ملی۔ ایک عیسائی پارٹی کو بھی ایک سیٹ پر فتح ملی۔ صرف ایک سیٹ آزاد امیدوار کو ملی۔ مسلم لیگ کو بد ترین شکست ہوئی۔ حسین شہید سہروردی1956 میں پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔
ری پبلکن پارٹی
1955 میں اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی قائم کی۔ یہ پارٹی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کی طاقت پر کھڑی تھی اس لیے مسلم لیگ کے ممبران اور پارلیمنٹ لیڈر بھی اس جماعت میں شریک ہونے لگے۔ ری پبلکن پارٹی کے مضبوط ہوتے ہی مسلم لیگ کی پوزیشن کمزور ہونے لگی۔ سکندر مرزا کو وزیر اعظم سہروردی اور جناھ عوامی لیگ سے سخت نفرت تھی۔ ری پبلکن پارٹی ایک کنزرویٹو پارٹی تھی۔ 1958 میں اس پارٹی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
عوامی لیگ
1954 میں بنگال میں فتح سمیٹنے کے بعد جناح عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی پارٹی بن گئی۔ 1956 میں اس پارٹی کا نام چھوٹا کر کے عوامی لیگ رکھا گیا۔ 1971 میں یہ بنگال کی بانی پارٹی بن گئی۔
پارٹی کا خاتمہ
1958 میں مرزا اور ایوب خان نے مل کر ملک میں پہلا مارشل لا لگایا۔ کچھ ماہ بعد ایوب خان نے مرزا کو ہٹا کر ملک کی صدارت سنبھال لی۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس وقت تک مسلم لیگ ویسے بھی بہت سکڑ چکی تھی۔
سیاست میں واپسی
جب 1962 میں ایوب دور حکومت میں سیاسی جماعتوں پر پابندی ختم ہوئی تو مسلم لیگ کے بہت سے دھڑے بکھرے پڑے تھے۔ ایوب خان نے پارٹی کو دوبارہ سے نئے روح میں لانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ کنوینشن
1959 میں ایوب خان پاکستان کے صدر بنے۔ 1962 میں وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی کے دھڑوں کے لیڈرز کو بلایا۔ ایک نئی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ پاکستان کے لفظ کو جوڑ کا پارٹی کا نیا نام پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا۔ جب کچھ مسلم لیگ کے رہنماوں نے اس پارٹی میں اآنے سے انکار کیا تو اسے پاکستان مسلم لیگ کنوینشن کا نام دیا گیا۔ اس پارٹی کے منشور کے اہم نکات میں تیز رفتار انڈسٹریلائیزیشن، فری مارکیٹ انٹرپرائز، اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلم ماڈرنازم کی ترقی شامل تھے۔ ایوب خان اس پارٹی کے سربراہ اور ذوالفقار علی بھٹو اس پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے۔
پاکستان مسلم لیگ کونسل
ایوب کی پاکستان مسلم لیگ کے قیام کے بعد سردار عبد القیوم اور ممتاز دولتانہ نے مل کر ایک اور دھڑا قائم کیا جسے پی ایم ایل کونسل کا نام دیا گیا۔ اس پارٹی کے ممبران نے اپوزیشن بینچ پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ اس پارٹی کے منشور میں ملک میں جمہوری پارلیمنٹ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔
1965 کے صدارتی الیکشنز
1965 کے صدارتی انتخابات کے دو بڑے امیدوار صدر ایوب اور فاطمہ جناح تھے۔ فاطمہ جناح پی ایم ایل کونسل کی درخواست پر یہ الیکشن لڑ رہی تھیں۔ بعد میں نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، نظام اسلام پارٹی، اور جماعت اسلامی جیسی پارٹیاں بھی پی ایم ایل کونسل کے اتحاد میں شامل ہو گئیں اور فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار مقرر کیا۔ ایوب کو 64 فیصد جب کہ 36 فیصد ووٹ فاطمہ جناح کو ملے۔ کراچی اور ڈھاکہ میں البتہ ایوب کو بُری طرح شکست ہوئی۔ حیدرآباد میں بھی جناح کو فتح مل گئی۔ باقی سب علاقوں سے ایوب خان کو فتح ملی۔
خاموشی کے سال
1969 میں ایوب کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا جس کی وجہ طلبا، لیبر یونین اور اپوزیشن کی طرف سے کیا جانے والا احتجاج تھا۔ نئے ملٹری چیف یحیی خان نے ملک میں براہ راست الیکشن کے انعقاد کی حامی بھری۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی علیحدہ پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے قائم کی۔ مغربی پاکستان میں یہ پارٹی بہت تیزی سے پھیلی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو اکثریت تھی۔
قیوم مسلم لیگ
پی پی پی اور اے ایل کو شکست دینے کے لیے پی ایم ایل کنوینشن اور پی ایم ایل کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی۔ پی ایم ایل کونسل کے لیڈر سردار قیوم نے پارٹی چھوڑ دی اور قیوم مسلم لیگ کے نام سے علیحدہ پارٹی بنا لی۔
1970 کے تاریخی انتخابات
70 کے انتخابات میں 300 میں سے عوامی لیگ کو 160 جب کہ پی پی پی کو 81 سیٹیں ملیں۔ باقی تمام پارٹیوں کو بہت کم تعداد میں سیٹیں ملیں۔ 16 سیٹیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں۔ 1971 میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا اور بنگلہ دیش کی شکل میں ایک نیا ملک بن گیا۔ مغربی پاکستان کی فاتح جماعت پی پی پی ملک کی حکومتی پارٹی بن گئی۔ قیوم لیگ کو پی پی پی میں ضم کر دیا گیا۔
مسلم لیگ فنکشنل
1973 میں ایک سندھی جاگیردار پیر پگاڑا نے پی ایم ایل کنوینش اور پی ایم ایل کونسل کو ملا کر پی ایم ایل فنکشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس پارٹی کو انڈسٹریلسٹ حضرات اور تاجر برادری کی حمایت حاصل تھی اور یہ پی پی پی کی نیشنلائزیشن پالیسی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ 1972 اور 1976 کے ضمنی انتخابات میں اس پارٹی کو شکست فاش ہوئی۔ 1976 میں یہ ایک اتحاد کاحصہ بن گئی جو صرف پی پی پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اتحاد نے 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔ احتجاج پر تشدد ہوتا گیا اور جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔
پاکستان مسلم لیگ ف” یا پاکستان مسلم لیگ فنکشنل پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ یہ اصلی پاکستان مسلم لیگ سے جدا ہونے والے مختلف دھڑوں میں سے ایک ہے۔ اس کی قیادت سندھ سے تعلق رکھنے والے پیر پگارا کے ہاتھ میں ہے۔ مسلم لیگ ف کا قیام 1985ء میں محمد خان جونیجو کی زیر قیادت تشکیل پانے والی پاکستان مسلم لیگ سے اختلافات کے باعث عمل میں آیا۔
پاکستان کے صدارتی انتخابات 1947ء میں محترمہ فاطمہ جناح کو لیاقت علی خان نے شکست دینے کے بعد جناح نے مسلم لیگ (فیکشن) قائم کی۔ پیر پگارا سید شاہ مردان شاہ دوم اس سیاسی جماعت کے سربراہ بن گئے۔ انہیں یونائیٹڈ مسلم لیگ کے پہلے صدر بھی نامزد کیا گیا۔اور پاکستان مسلم لیگ (فیکشن) مسلم لیگ (ف) کے سربراہ اور حر جماعت تنظیم کے روحانی رہنما تھے۔پاکستان کے 2002ء کے عام انتخابات میں اس جماعت نے 1.1 فیصد ووٹ حاصل کر کے 272 نشستوں کے ایوان میں 4 نشستیں حاصل کیں۔مئی 2004ء میں پاکستان مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو یکجا کرنے کی کوشش میں یہ جماعت بھی پاکستان مسلم لیگ ق میں ضم ہو گئی تاہم صرف دو ماہ بعد جولائی 2004ء میں پیر پگارا نے چودھری برادران سے اختلافات کے باعث اپنی راہیں الگ کر لیں ۔2008ء کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ف نے 4 نشستیں حاصل کیں اور خواتین کے لیے مخصوص نشست ملنے پر قومی اسمبلی میں اس کی کل نشستوں کی تعداد 5 ہو گئی۔ صوبائی سطح پر اسے سندھ میں 8 اور پنجاب میں 3 نشستیں حاصل ہیں۔جنوری 2012ء میں ساتویں پیر پگارا شاہ مردان شاہ دوم کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے سید صبغت اللہ شاہ راشدی اٹویں پیر پگارا پاکستان مسلم لیگ (ف) کے صدر بنے. مسلم لیگ (ایف) کے ہیڈ کوارٹر کو کنگری ہائوس سے راجا ہائوس منتقل کردیا گیا۔2018ء میں پاکستان کے جرنل الیکشن کیلئے مسلم لیگ ف نے قومی عوامی تحریک، نیشنل پیپلز پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز، اور پاکستان پیپلز مسلم لیگ کے ساتھ گرینڈ ڈیموکریٹک اتحاد نامی نئے اتحاد کی کیادت کی۔
پاکستان مسلم لیگ قاسم
ملک قاسم 1977 میں مسلم لیگ فنکشنل سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ 1978 میں انہوں نے اپنا علیحدہ دھڑا بنایا جسےپی ایم ایل قاسم کا نام دیا گیا۔ یہ پارٹی پی پی پی کے ساتھ مل کر ضیا الحق سے نجات کی جدوجہد میں مصروف ہو گئی۔
سیاست میں واپسی
1985 میں صدر بن کر مارشل لا ہٹانے کے بعد ضیا نے جنرل الیکشنز کا انعقاد عمل میں لایا۔ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ پی ایم ایل فنکشنل کے ایک لیڈر محمد خان جنیجو نے پی ایم ایل فنکشنل کو ایک متحدہ پاکستان مسلم لیگ میں بدل دیا۔ یہ اکثریتی پارٹی بن گئی اور جنیجو کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ اس پارٹی کا منشور ضیا سے نجات اور اکانومی کی بہتری تھا۔ یہ پارٹی ملک میں اسلام کا نفاذ اور افغان جنگ سے نجات چاہتی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز
میاں نواز شریف 1985 کی پی ایم ایل کے ممبر رہ چکے تھے۔ یہ پارٹی 1988 میں رائٹ ونگ الائنس کا حصہ بن گئی۔ الیکشن میں پی پی پی کو فتح ملی۔ صدر اسحاق نے پی پی پی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں کرپشن کے الزام میں وزارت عظمی سے علیحدہ کر دیا گیا۔ ۔آئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ پارٹی کا ایک گروپ جنیجو کو وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا۔ یہ دھڑا 1993 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیا۔ بچی کھچی پارٹی کو پی ایم ایل این کا نام دیا گیا۔ ن لیگ ضیا مشن کو جاری رکھنا چاہتی تھی۔ اس حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1997 میں پی ایم ایل این ایک بار پھر حکمران پارٹی بن گئی اور 1999 میں مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
2000 کی دہائی میں مسلم لیگ ن کمزور پڑ گئی۔ مشرف کی رخصتی کے بعد پی ایم ایل نے زبردست انداز سے واپسی کی۔ 2013 میں مسلم لیگ ن نے ملک میں واضح اکثریت حاصل کی۔ پی ایم ایل این اب تک پاکستان مسلم لیگ کا سب سے بڑا دھڑا ہے۔ لیکن کچھ سالوں سے اس کی توجہ صرف مرکز تک محدود ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ معاشی ترقیاتی اور جمہوری لبرل ازم میں یقین رکھتی ہے۔ اب یہ ایک ماڈریٹ مذہبی پارٹی بن چکی ہے۔ یہ پارٹی مذہبی شدت پسندی کے خلاف آپریشن کی حمایت کرتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ جنیجو
جنیجو کی 1993 میں موت کے بعد حامد ناصر چھٹا نہ مسلم لیگ جونیجو قائم کی۔ پارٹی نے 1993 میں پی پی پی کو سپورٹ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ جناح
منظور وٹو پی ایم ایل جونیجو کے ایک بڑے لیڈر تھے۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں جب جونیجو لیگ نے پی پی پی کے ساتھ اتحاد کیا اور فتح حاصل کی تو منظور وٹو چیف منسٹر پنجاب مقرر ہوئے۔ لیکن پارٹی کے اندر اختلافات کی وجہ سے وٹو کو وزارت اعلی سے محروم کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی علیحدہ جماعت بنا لی۔ جسے پی ایم ایل جناح کا نام دیا گیا۔ 2008 میں منظور وٹو پی پی پی میں شامل ہو گئے۔
پاکستان مسلم لیگ ق
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے دوران پارٹی میں ایک بڑی دراڑ پڑ گئی۔ جب 1999 میں پرویز مشرف نے نواز شریف کو حکومت سے باہر کر کے جلا وطن کر دیا تو پی ایم ایل این کے چار رہنما چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی، مشاہد حسین اور شیخ رشید نے مشرف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ جب مشرف نے 2002 میں اپنی پوزیشن مضبوط کی تو کچھ دوسرے پی پی ممبران بھی مشرف کے ساتھ آ گئے اور مسلم لیگ قائد کے نام سے ایک پارٹی قائم ہوئی۔ پی ایم ایل ق نے 2002 میں الیکشن میں فتح حاصل کی اور مشرف کے ساتھ مل کر معاشی اصلاحات لانے کا بیڑا اٹھایا۔ 2008 میں پی ایم ایل ق کو شکست ہوئی اور پی پی پی حکومت میں آئی جب کہ 2013 میں پی پی پی کو مسلم لیگ ن سے شکست فاش ہوئی۔
پاکستان مسلم لیگ ق یا پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم، پاکستان کی ایک روشن خیال اور اعتدال پسند پارٹی ہے۔ جو اس مسلم لیگ کا ایک دھڑا ہے جس نے پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔ یہ جماعت عمومی طور پر ایک روشن خیال تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ق یا ق لیگ کا قیام 2001 میں اس وقت عمل میں آیا جب وقت مسلم لیگ بہت سے دھڑوں میں بٹ چکی تھی، جن میں سے ق لیگ کو سب سے کم عوامی حمایت حاصل تھی۔ صدر جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کو ایک دوسرے کی زبردست حمایت حاصل ہے۔اب اصل پاکستان مسلم لیگ کے بہت سے ارکان ق لیگ کا حصہ بن چکے ہیں جو صدر مشرف کی حمایت کرتے ہیں۔صدر مشرف نے 2006ء میں اپنی سوانح عمری ’ ان دی لائن آف فائر، اے میموائر‘ میں انکشاف کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی تشکیل ان کے ایماء پر ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد انہوں نے سوچا کہ اس ملک میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو ان دو جماعتوں ( پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن) کا مقابلہ کر سکے اور اس موقع پر ان کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے چوہدری شجاعت حسین کی جنرل مشرف سے ملاقات کا اہتمام کیا جس کے بعد یہ جماعت وجود میں آئی۔
اکتوبر 2002 کے انتخابات میں اس جماعت نے 25.7% فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ 272 منتخب ارکان میں سے 69 ارکان پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے وزیر اعظم جمالی تھے مسٹر جمالی پاکستان مسلم لیگ کی حمایت کے ذریعے پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ ملک کی اقتصادی حالت اس وقت اچھی نہیں تھی۔ حکومت نے اس کو بحال کرنے دلچسپی لی۔ لیکن نتائج اطمینان بخش نہیں تھی۔ دونوں، جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت وزیر اعظم کے طور پر ٹیکنوکریٹ لانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے قرض اور ادائیگی کی۔ پاکستان کے بہتر اقتصادی حالت میں کھڑا تھا۔اس وقت پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے صدر چودھری شجاعت حسین ہیں۔ جن کا تعلق گجرات کے ایک متمول سیاسی خاندان سے ہے۔ چودھری شجاعت حسین سابق وزیر خارجہ چودھری ظہور الہی کے بیٹے ہیں جبکہ موجودہ وزیر اعلی پنجاب چودھری پرویز الہی ان کے چچا زاد بھائی ہیں۔مسلم لیگ جماعت میں جمہوری طریقہ سے رہنماؤں کے انتخاب کی روش نہیں پڑ سکی۔ جس بڑے کا جی چاہتا ہے وہ مسلم لیگ کا اپنا دھڑا بنا لیتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ضیا
2002 میں ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق نےمسلم لیگ ضیا کے نام سے ایک چھوٹی سی پارٹی بنائی۔ یہ دھڑا مسلم لیگ کا سب سے چھوٹا دھڑا رہا ہے۔
عوامی مسلم لیگ
شیخ رشید جو پہلے پی ایم ایل این اور پی ایم ایل ق کے ممبر رہ چکے تھے نے 2008 میں ق لیگ کی شکست کے بعد اپنی علیحدہ پارٹی کی بنیاد رکھی جسے انہوں نے عوامی مسلم لیگ کا نام دیا۔ اس وقت یہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔
آل پاکستان مسلم لیگ
مسلم لیگ کا یہ فیکشن مشرف نے قائم کیا جب 2008 میں انہیں صدارت سے علیحدہ کر دیا گیا۔ یہ دھڑا آج بھی ایک چھوٹے سے گروپ کی شکل میں موجود ہے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
پی ایم ایل این یا نون لیگ
پاکستان مسلم لیگ (ن)
جماعت کا قیام 1992 میں عمل میں آیا۔
1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد نے نواز شریف کی قیادت میں الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں سے اختلافات کے بعد 1993 کے انتخابات سے قبل نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی۔
اہم رہنما
نواز شریف (تاحیات قائد)
شہباز شریف (صدر)
مریم نواز (نواز شریف کی صاحبزادی)
حمزہ شہباز (شہباز شریف کے صاحبزادے)
شاہد خاقان عباسی
خواجہ سعد رفیق
خواجہ محمد آصف
احسن اقبال
چوہدری نثار علی خان (ناراض رہنما)
راجا ظفر الحق
پرویز رشید
مشاہد اللہ خان
اسحٰق ڈار (خود ساختہ جلا وطن رہنما)
کلیدی امور
مسلم لیگ (ن) کا بیشتر زور بنیادی ڈھانچے، ترقیاتی کاموں پر ہوتا ہے، جس میں سڑکیں، ریل کا نظام، پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر شامل ہیں جبکہ ان کے منشور میں اسے ڈیموکریٹک گورنس کا نام دیا گیا ہے۔
حال ہی میں پارٹی نے ریاست کے 3 اہم ستونوں کے درمیان طاقت کے توازن کے حوالے سے بھی آواز بلند کی ہے جبکہ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں پارٹی قیادت کی جانب سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ نواز شریف نے خود ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کی مدد سے سیاست کا آغاز کیا تھا تاہم وہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے دور ہوتے گئے اور اب جمہوریت کے لیے سب سے متحرک نظر آتے ہیں۔
ماضی میں ملک کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے قریب ہونے اور مرکزی ترقی کے ماڈل کے حوالے سے متحرک رہنے کے سبب مسلم لیگ (ن) نے خود کو دیگر سیاسی جماعتوں سے دور کرلیا ہے اور مزید دور ہوتے جارہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی دلی خواہش ہے کہ روایتی حریف اور ہمسائے، بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں بڑھائی جائیں، تاہم اس حوالے سے حالیہ کوششوں کو نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے سرحد پر شروع کی جانے والی کشیدگی اور انتہائی سخت رویے کے باعث نقصان پہنچا۔
1992 میں قیام
مسلم لیگ (ن) 1992 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی ملک کے سیاسی میدان میں
انتہائی اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آتی رہی ہے، اس کے باوجود کہ نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے ملک کے اعلیٰ سیاسی عہدوں پر براجمان رہ چکے تھے۔
انتخابات 1993، 1997 اور 2002
مسلم لیگ (ن) 1993 کے انتخابات کے بعد ملک کی اہم اپوزیشن جماعت کے طور پر سامنے آئی جبکہ 1997 کے انتخابات میں پارٹی نے واضح اکثریت کے ساتھ حکومت قائم کی تاہم 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) قابل ذکر نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی، کہ اس موقع پر ان کے بیشتر رہنما جیلوں میں قید تھے یا ملک سے باہر جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔
انتخابات 2008
2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی کے بعد ملک کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر روایتی سیاسی حریف ہونے کے باوجود حکومتی نشستوں پر براجمان ہوئی اور کابینہ کا حصہ بن گئی تاہم یہ غیر معمولی اتحاد زیادہ عرصے نہیں چل سکا اور مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کی نشستوں پر آکر بیٹھ گئی اور 2013 کے انتخابات کا تحمل سے انتظار کرنے لگی۔
انتخابات 2013
مسلم لیگ (ن) 2013 کے انتخابات میں مرکز میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی اور اس نے پنجاب اسمبلی میں ایک تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کی تھی، نواز شریف نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے ساتھ اتحاد کرکے وفاق میں حکومت تشکیل دی۔ یوں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم کا حلف لینے والے ملک کے واحد فرد ٹھہرے۔
مسلم لیگ (ن) نے وفاق کے علاوہ صوبہ پنجاب میں بھی حکومت قائم کی اور شہباز شریف کو صوبے کا وزیراعلیٰ مقرر کیا جبکہ صوبہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی سے معاہدہ کرکے عبدالمالک بلوچ کو ڈھائی سال کے لیے صوبے کا وزیراعلیٰ مقرر کیا جبکہ اسی معاہدے کے تحت بقیہ ڈھائی سال مسلم لیگ (ن) کے نامزد نمائندے نے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنا تھا۔
سندھ اور پختونخوا میں نمائندگی ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے سندھ اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں بالترتیب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو حکومت تشکیل دینے دی۔
اہم سیاسی معاملات
مسلم لیگ (ن) نے 1996 میں بینظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے بعد نواز شریف غیر معمولی اکثریت حاصل کرکے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں آٹھویں آئینی ترمیم کو فوری طور پر منسوخ کرنے کے لیے اقدامات کیے جو اس وقت تک دو مرتبہ استعمال کی گئی تھی ایک مرتبہ نواز شریف کو ہٹانے کے لیے اور ایک مرتبہ بینظیر کے خلاف استعمال ہوئی تھی۔
نواز شریف کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد 2 اہم واقعات سامنے آئے، جن میں ایک جوہری دھماکے اور دوسرا کارگل جنگ تھی۔ نواز شریف کے مذکورہ اقدامات پر انہیں شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا تھا جس پر انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی جو کامیاب ثابت ہوئی۔
اس کے علاوہ شدید تنقید کا شکار رہنے والا لاہور سے اسلام آباد موٹر وے بعد میں بڑی کامیابی ثابت ہوا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے 2013 کے انتخابات کے لیے مزید سڑکیں اور بہتر انفرااسٹرکچر کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔
پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے اور انہیں ملک بدر کیے جانے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اس میں شرکت کی اور تقریبا آدھی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
2006 میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔
پی پی پی کی جانب سے ججز، جن میں جسٹس افتخار چوہدری بھی شامل تھے، کو بحال کرنے میں تاخیر کے باعث شروع ہونے والی وکلا تحریک نے شدت اختیار کی تو نواز شریف نے مذکورہ تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا، یہاں تک کے نواز شریف کی قیادت میں ابھی قافلہ گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف نے مداخلت کی، جس کے نتیجے میں جسٹس افتخار چوہدری عہدے پر بحال ہوگئے۔
نوازشریف نے میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے بھی مرکزی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو مستعفی ہونا پڑا۔ نواز شریف مذکورہ کیس میں درخواست گزار تھے جو پی پی پی کے لیے مشکلات کا باعث بنا، اور انہوں نے کچھ سالوں بعد اس کردار کو عوامی سطح پر تسلیم بھی کیا تھا۔
تنازعات
1999 میں نواز شریف نے مبینہ طور پر آئین میں متعدد ترامیم کے ذریعے ریاست کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے اور امیر المومنین (ماننے والوں کے رہنما) بننے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم انہیں اسی سال معزول کردیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کو حال ہی میں ایک اور تنازع کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب شریف خاندان کی اربوں روپے مالیت کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے پاناما پیپرز لیکس میں انکشافات سامنے آئے۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے کے حل میں ناکامی کے بعد اپوزیشن نے اس معاملے کو عدالت میں اٹھایا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کی گئی جبکہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔
اس سے قبل 12 اکتوبر 1999 کو مسلم لیگ (ن) کو ملک کے سب سے بڑے تنازع کا سامنا کرنا پڑا تھا جب نواز شریف پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا سری لنکا سے واپس آنے والے طیارے کو کراچی میں مبینہ طور پر لینڈ کرنے کی اجازت نہ دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور نواز شریف کی حکومت کو معزول کردیا گیا۔ اس واقعے کے بعد نواز شریف کو جیل بھیج دیا گیا تاہم ایک معاہدے کے بعد انہیں، ان کے بھائی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو سعودی عرب میں 10 سال کی جلا وطنی کاٹنے کے لیے ملک بدر کردیا گیا۔ شریف خاندان کے ملک سے جانے کے بعد شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے خاندان کا کاروبار اور پارٹی کے معاملات سنبھالے۔
2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلم لیگ (ن) پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جبکہ عمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی نے 126 روز تک اسلام آباد میں دھرنا دیا اور معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر رضا مندی ظاہر کی جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور میں ہونے والے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تاہم جوڈیشل کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔
1997 میں سپریم کورٹ پر حملہ: سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری کرنل (ر) مشتاق طاہرخیلی کی سربراہی میں عدالت پر حملہ کردیا، اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اس حوالے سے ہجوم کے عدالت میں پہنچے سے کچھ دیگر قبل بتایا گیا جس پر انہوں نے کیس کی سماعت ملتوی کردی تاہم مشتعل ہجوم نے کمرہ عدالت پہنچ کر فرنیچر کو نقصان پہنچایا۔
قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم: مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دور میں ملک میں خود کفالت، عالمی بینک سے قرض حاصل نہ کرنے اور عالمی برادری سے قرض کے حصول کے حوالے سے قائم کشکول توڑنے کے لیے ایک اسکیم متعارف کرائی تھی، جس میں عوام کی جانب سے 2 ارب روپے جمع کرائے گئے اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا کہ تمام رقم قومی خزانے میں مذکورہ حوالے سے جمع کرادی گئی ہے تاہم اپوزیشن نے اس منصوبے کو غیر شفاف قرار دیا تھا جبکہ گزشتہ سال اسٹیٹ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ وہ تمام رقم ان افراد کو واپس کردی گئی ہے، جنہوں نے مذکورہ اسکیم کے لیے یہ جمع کرائی تھی۔
حدیبیہ پیپرز ملز کیس: نواز شریف کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد 25 اپریل 2000 میں اسحٰق ڈار نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان قلمبند کرایا تھا، جس میں اسحٰق ڈار نے ایک کروڑ 48 لاکھ 60 ہزار روپے کی منی لانڈرنگ اور نواز شریف کے بھائی کے لیے سکندر مسعود اور طلعت مسعود قاضی کے ناموں پر 2 بینک اکاؤنٹس کھلوانے کے الزامات کو تسلیم کیا تھا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ کی جانب سے مذکورہ معاملے پر ریمارکس سامنے آئے کہ یہ کیس شریف خاندان کے خلاف سیاسی طور پر استعمال کیا گیا تھا۔……
نورالامین امین کی وفات کے بعد اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران پاکستان مسلم لیگ سیاسی گھاٹی میں چلی گئی،
اس نے 1970 کی دہائی میں بھٹو کے قومیانے کے پروگرام کے جواب میں ایک مضبوط واپسی کی۔ بااثر نوجوان کارکنان ، جن میں نواز شریف ، جاوید ہاشمی ، ظفر الحق ، اور شجاعت حسین شامل تھے ، پارٹی کے قائدین کی حیثیت سے شامل ہوئے اور مسلم لیگ کے ذریعے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔
یہ پارٹی نو پارٹیوں کے اتحاد ، پی این اے کا ایک لازمی حصہ بن گئی ، اور اس نے 1977 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم چلائی۔ انہوں نے دائیں بازو کے پلیٹ فارم پر انتخابی مہم چلائی اور 1977 کے عام انتخابات میں قدامت پسند نعرے لگائے۔ شریف اور حسین سمیت مسلم لیگ مختلف خیالات کا حامل تھا اور اس نے مسلم لیگ کے مالی اخراجات کے لئے بڑا سرمایہ فراہم کیا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب پارٹی کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور ایک بااثر سندھی قدامت پسند شخصیت پیر پگارا کے ساتھ بھٹو مخالف پی این اے میں اس کا منتخب صدر منتخب ہوا۔ 1977 کے مارشل لاء کے بعد ، پارٹی نے اپنے آپ کو دوبارہ تشخیص کیا اور ظہور الٰہی کی سربراہی میں ، جو مسلم لیگ کے مرکزی رہنما تھے ، کے زیر اقتدار ایک طاقتور اولگارچ بلاک کا عروج دیکھا۔ 1984 کے ریفرنڈم کے بعد ، صدر ضیاء الحق ملک کے منتخب صدر بن گئے تھے۔
1985 کے عام انتخابات کے دوران ، ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایک نئی مسلم لیگ (ن) ابھری۔
پارٹی نے ضیاء الحق کی صدارت کی حمایت کی تھی اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم کے عہدے پر مقرر کرنے کے لئے ان کی حمایت حاصل کی تھی۔ نواز شریف نے صدر ضیاء الحق کی حمایت اور حمایت حاصل کی تھی ، جس نے 1985 میں ان کی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی کے عہدے پر تقرری کی منظوری دی تھی۔
1988 عام انتخابات
1988 پاکستانی عام انتخابات اور اسلامی جمہوری اتحاد پارٹی کی جدید تاریخ 1988 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران شروع ہوئی ، جب سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی: ایک کی قیادت فدا محمد خان اور اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب نواز شریف کررہے تھے۔ صوبہ ، اور دوسرا جونیجو (جس نے بعد میں پاکستان مسلم لیگ (ف) کی بنیاد رکھی)۔
۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ

پاکستان پیپلز پارٹی 1967 میں قائم ہوئی جس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) تھے، موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں۔
اہم رہنما
ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم)
بے نظیر بھٹو (مرحوم)
بلاول بھٹو زرداری (چیئرپرسن)
آصف علی زرداری (شریک چیئرپرسن)
رضا ربانی
سید خورشید شاہ
شیری رحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 1967 میں جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں وجود میں آئی۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے، جو جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں وزیر خارجہ رہے، پالیسی تنازع پر 1967 میں عہدے سے سبکدوشی کے بعد پارٹی قائم کی۔
پیپلزپارٹی نے جس کا نعرہ ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ ہے، جمہوری سوشلزم نظریے کی تقلید کی۔ پارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کا مقصد مساوی معاشرے کا قیام اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ تھا تاکہ ’کسانوں اور ان کے مفادات کا تحفظ‘ کیا جاسکے۔
پارٹی کے پہلے منشور میں کہا گیا کہ ’اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔‘
تاہم بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد نجی کاروبار اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جو ان کے والد کی قومیانہ پالیسی کے برعکس تھا، جس کے تحت تمام شعبے حکومت کے زیر اثر آگئے تھے۔
پیپلز پارٹی پہلی بار 1971 میں، دسمبر 1970 کے سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار میں آئی۔
اہم معاملات پر مؤقف
صوبوں کی مکمل خود مختاری کا مطالبہ کیا۔
حکومت اور ریاستی پالیسی کے کسی بھی معاملے میں فوج اور عدلیہ کی مداخلت کی مخالف۔
انتخابات 1970
شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی، تاہم دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی تنازعات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باعث پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی پوزیشن سنبھالی تھی، 1973 میں ملک کے وزیر اعظم بنے۔
انتخابات 1977
پیپلز پارٹی نے دوبارہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی، تاہم حزب اختلاف نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور حلف لینے سے انکار کیا۔ اس سیاسی تنازع نے ضیا الحق کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔
انتخابات 1988
پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آئی اور بےنظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
انتخابات 1990
کرپشن کے الزامات پر اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی۔
انتخابات 1993
پیپلز پارٹی نے پھر حکومت بنائی جس میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان کی حکومت کو 1996 میں ایک بار پھر ختم کردیا گیا جس کے فوری بعد وہ برطانیہ چلی گئیں۔
انتخابات 2008
بے نظیر بھٹو کے قتل کے چند ماہ بعد عام انتخابات ہوئے، کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے باعث پیدا ہونے والی ہمدردی نے پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم جبکہ آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے۔
انتخابات 2013
پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی، جبکہ اس نے سندھ میں حکومت بھی بنائی۔
انتخابات 2018
پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی، جبکہ اس نے سندھ میں حکومت بھی بنائی۔
کامیابیاں
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں 1973 میں ’پاکستان کا آئین‘ منظور ہوا۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کا آغاز پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں ہوا۔
گروہی تفریق کو کم کرنے اور جاگیرداری نظام ختم کرنے کا اپنا وعدہ نبھانے کے لیے پیپلز پارٹی نے غریب کسانوں میں زمینیں تقسیم کیں، پاکستان اسٹیل ملز قائم کی۔
1988 سے 1990 اور 1993 سے 1996 کے درمیان اپنے مختصر دور حکومت میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بےنظیر بھٹو نے خواتین کے پولیس اسٹیشنز قائم کیے، خواتین کو کاربار کے لیے قرض فراہم کیا، 1993 میں ویانا اعلامیے میں خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرایا اور اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججز کا تقرر کیا۔
2006 میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہندو خاتون رَتنا بھگوان داس چاؤلہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں۔
پیپلز پارٹی نے ’این ایف سی‘ ایوارڈ میں بلوچستان کے حصے میں اضافہ کرکے اور گوادر پورٹ پر ترقیاتی کام کا آغاز کرکے صوبے کو قومی دھارے میں لانے کی بھی کوشش کی۔
آئین میں 18ویں ترمیم منظور کرائی، جس سے صوبے بااختیار ہوئے۔
صوبہ ’سرحد‘ کا نام تبدیل کرکے ’خیبر پختونخوا‘ کیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار خاتون اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کا تقرر کیا۔
2018 کے سینیٹ انتخابات کے بعد شیری رحمٰن کو ایوان میں پہلی قائد حزب اختلاف بنایا۔
پہلی بار تھر سے تعلق رکھنے والی ہندو خاتون کرشنا کماری کو 2018 کے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ جاری کیا اور وہ سینیٹر منتخب ہوئیں۔
سیاسی نقصان
1978 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے ایک ساتھی کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی، لیکن ان کا ٹرائل تاحال متنازع ہے۔
بےنظیر بھٹو کی دونوں حکومتی ادوار میں ان پر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگے، جس پر پہلے 1990 میں غلام اسحٰق خان نے اور 1996 میں فاروق لغاری نے ان کی حکومت ختم کی۔
2007 میں تقریباً دس سالہ جلاوطنی کے بعد جس دن بےنظیر بھٹو برطانیہ سے واپس پاکستان آئیں، کراچی کے کارساز روڈ پر دو دھماکوں میں تقریباً 150 افراد ہلاک ہوئے۔
اگرچہ کارساز حملے میں بے نظیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن تقریباً دو ماہ بعد ہی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ریلی کے دوران انہیں قتل کردیا گیا، جس کے بعد پارٹی کی قیادت ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو سونپی گئی۔
2008 میں حکومت میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی، لیکن اس کے دور حکومت میں کئی تنازعات سامنے آئے، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونا پڑا۔
پاکستان کے شمالی اور قبائلی علاقوں میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکا کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہوئے۔
2011 میں امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اس وقت مزید خراب ہوئے جب ’سی آئی اے‘ کے سابق ملازم ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو موٹرسائیل سواروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا، ریمنڈ ڈیوس پاکستان سے اس وقت روانہ ہوگیا جب دونوں نوجوانوں کے خاندان نے دیت کی رقم قبول کرنے کا اعلان کیا۔
پاکستان اور امریکا کے دوران تعلقات کو شدید دھچکا اس وقت پہنچا جب امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد میں ریڈ کرکے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔ پاکستانی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اسے اس ریڈ کے بارے میں نہیں بتایا گیا لیکن امریکی انتظامیہ نے اس کے برعکس بیان دیا۔
اسی سال پاکستان نے نیٹو ہیلی کاپٹرز کی جانب سے سلالہ کی چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں 28 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی لائن بند کردی۔
دہشت گردی، اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائمز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت میں اضافہ ہوا۔
قیادت کی ناکامی
صوبہ سندھ میں گزشتہ 10 سال سے حکومت میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کراچی میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
ضلع تھر میں غذائی قلت سے متعدد نومولود بچوں سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود حکومت اس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے صوبائی اسمبلی میں یہ کہا کہ تھر میں ہلاکتیں غذائی قلت سے نہیں بلکہ غربت کی وجہ سے ہوئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کے علاوہ پیپلز پارٹی کے تمام حکومتی ادوار میں کرپشن کے کئی اسکینڈلز سامنے آئے۔
یہ بھی عجیب بات ہے پاکستان پیپلز پارٹی کو کالعدم پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے سابقہ ممبران نے قائم کیا۔ واضح ہو کہ اس سوشلسٹ پارٹی پر خود قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خان ؒ نے وزیر اعظم کی حیثیت سے پابندی عائد کی تھی۔ 1960 میں صدر ایوب کے مغرب اور امریکہ کی جانب جھکاؤ کی پالیسیوں کی مخالفت اور سوشل ازم کی حمایت میں مغربی پاکستان میں شدت آنے لگی۔ حریف بھارت کے ساتھ معاہدہ ء تاشقند کے فوراً بعد تو یہ دو چند ہو گئی۔
یہ وہ پس منظر ہے جب 30 نومبر 1967 کو لاہور میں بائیں بازو کے دانشور وں اور سوشلسٹوں کی ایک مجلس، ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں سابقہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوئی۔ یوں ایک سیاسی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی عمل میں لائی گئی۔ مورخوں اور اس مجلس کے شرکاء کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن اور جے اے رحیم اس پارٹی کے بانیان میں سے ہیں۔ باہمی مشاورت سے ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا پہلا چیرمین بنایا گیا۔ اس کا منشو ر ’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ رکھاگیا۔ یہ مشرقی پاکستان کے کمیونسٹ، جے اے رحیم نے لکھا اور سب سے پہلے 9 دسمبر 1967 کو شائع ہوا۔
ادھر بائیں بازو والوں کے لئے ایک دوسر ا پر کشش نعرہ بھی دیا گیا: ’زمین بے زمینوں کی‘ ۔ پارٹی نے نہ صرف جاگیرداری نظام کے خاتمے کا وعدہ کیا بلکہ بے زمین ہاریوں اور کسانوں کو ان جاگیروں میں سے دینے کی بات بھی کی۔ ملازم پیشہ اورمزدور جوق در جوق پیپلز پارٹی کی جانب آنے لگے۔ اکثریت کی سوچ تھی کہ یہی وہ واحد پارٹی ہے جو ملک سے سرمایہ دارانہ نظام نکالنے میں مخلص ہے۔ ملک کی کئی اقلیتوں کو بھی پارٹی کا منشور دل کو لگا اور وہ بھی اس میں شامل ہو گئیں۔
لوگوں کو جمع کرنے کے لئے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ پیپلز پارٹی کا ایک ملک گیر نعرہ بن گیا۔ پارٹی کو اپنے خیالات کے پرچار کے لئے ”نصرت“ ، ”فتح“ او ر روزنامہ ”مساوات“ میسر تھے۔ بہت جلد مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی عوام کے پسے ہوئے طبقے، ہاریوں، مزدوروں اور طلباء میں اہمیت حاصل کر گئی۔ پارٹی لیڈران اور خود بھٹو صاحب نے صدر ایوب کے خلاف غصہ اور مخالفت کی مہم شروع کر دی جو ترک موالات، نافرمانی اور لاقانونیت میں تبدیل ہو گئی اور صدر ایوب کو پاکستان پیپلز پارٹی سے بات کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان مسلسل لڑائی جھگڑوں نے 1969 میں صدر ایوب کو بالآخر صدارت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ اس پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء کا نفاذ کر کے دو سال میں انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ اس تمام عرصہ میں پیپلز پارٹی کے خوش کن نعرے اپنا کام کرتے رہے۔
1970 کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی، مغربی پاکستان میں پورے زور سے میدان میں اتری۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ جب اس پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایسی کوئی منظم انتخابی مہم نہیں چلائی نہ وہ وہاں کبھی فعال ہی ہوئی تو پھر پارٹی لیڈر چلا چلا کر اپنے آپ کو قومی لیڈر کیسے کہہ سکتے ہیں؟ بہر حال دائیں بازو کی سیاسی و دینی پارٹیوں کو پیپلز پارٹی نے انتخاب میں شکست دے دی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے میدان مار لیا۔
اس طرح قومی سطح پرپیپلز پارٹی کو ایک فیصلہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے فلسفی، کمیونسٹ دانشور جیسے ملک معراج، جے اے رحیم، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن اور خود بھٹو صاحب نے مختلف سیاسی مسائل پر برہمی، خفگی اور غضب کے انداز میں خطابات کیے ۔ صورت حال اس وقت عروج پر پہنچی جب 1970 کے انتخابی نتائج میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں ؛ جب کہ پیپلز پارٹی، مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 138 نشستوں میں سے صرف 81 نشستیں حاصل کر سکی۔
یہاں پر پیپلز پارٹی کی تمام جمہوریت پسندی اورعوام دوستی اور روشن خیالی کی قلعی کھلتی ہے۔ پارٹی کے چیرمین ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے عوامی لیگ کے لیڈر، جن کی جماعت کو پاکستانی آئین کے تحت وفاق میں حکومت بنانے کا پورا پورا حق حاصل تھا ان کو ملک کے وزیر اعظم ماننے سے انکار کر دیا۔ ذرا بھٹو صاحب کی ’جمہوریت پسندی‘ دیکھئے کہ کھلے عام کہا کہ اگر قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں پارٹی سے کوئی شریک ہوا تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔
یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جو ایس ایم لاء کالج، کراچی میں قانون پڑھاتا رہا جہاں اسے اعزای ڈاکٹریٹ کی سند بھی دی گئی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ بھٹو صاحب نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بیک وقت دو وزرائے اعظم کی نہایت مضحکہ خیز تجویز پیش کی۔ مشرقی پاکستان میں اس پر شدید تنقید ہوئی۔ خانہ جنگی کو بھانپتے ہوئے بھٹو صاحب نے اپنے سب سے زیادہ بھروسے کے ساتھی، ڈاکٹر مبشر حسن کو ڈھاکہ بھیجا جس پر شیخ مجیب الرحمان ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے پر تیار ہو گئے۔
مجیب بھٹوملاقات میں طے ہو گیا کہ مجیب الرحمان وزیر اعظم اور بھٹو صاحب صدر ہوں گے۔ جب یہ طے ہو گیا تو اس پر عمل کرنا کون سا مشکل تھا؟ حالات کچھ ایسے اشارے دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں کسی اور کو شریک کرنے کی شروع سے ہی قائل نہیں تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے باہمی تعلقات پہلے ہی کون سے اچھے تھے؟ حسین شہید سہر وردی اور شیر بنگال مولوی فضل حق کیوں ’جگتو فرنٹ‘ بنانے پر مجبور ہوئے تھے؟ جب مشرقی پاکستان میں فرنٹ کی حکومت بنی چند ماہ بعد ہی گورنر اسکندر مرزا کے ہاتھوں اس کو گھر بھیج دیا گیا۔
کیا یہ جمہوریت تھی؟ واضح ہو کہ شیخ مجیب الرحمان اول مسلم لیگی تھے۔ جب مشرقی پاکستان کی جائز شکایتیں کراچی نے نہیں سنیں تو حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ کو خدا حافظ کہا اور عوامی لیگ بنائی۔ ان کے تمام ہم خیال بھی عوامی لیگ میں شامل ہو گئے۔ شیخ مجیب الرحمان بھی سہروردی صاحب کی لیگ میں آ کربہت فعال ہو گئے۔ حسین شہید سہروردی صاحب عوامی لیگ کے پلیٹ فارم سے ہی ملک کے وزیر اعظم بنائے گئے تھے۔
اب حیلے بہانوں سے جب حق دار کا حق اسے نہیں دیا جائے تو وہ کیاخوش ہوتا پھرے گا؟ نہیں! ۔ بلکہ جلد اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ 1955 سے مشرقی پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت کو مجیب الرحمان نے نہ صرف خود دیکھا بلکہ وہ اس کا حصہ رہے۔ انہوں نے مولوی فضل حق کی حکومت کو گورنر راج کی بھینٹ چڑھتے دیکھا، اپنی پارٹی کے لیڈر حسین شہید سہروردی کے بطور وزیر اعظم ملک کی بہتری کے بھرپور اقدامات کرتے دیکھا۔ ایسے زخم خوردہ شخص کے ساتھ یہ نازیبا سلوک صرف وقت حاصل کرنے کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟
اندر خانہ اسلام آباد میں کوئی کھچڑی پک رہی تھی۔ جو کچھ بھی ہو رہا تھا اس میں ایک طرح یا دوسری طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا ملوث ہونا بعید از قیاس نہیں۔ جلد ہی مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن شروع کر دیا گیا۔ بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی نے صدر یحییٰ پر تنقید کی کہ انہوں نے صورت حال سے صحیح طور پر نہیں نپٹا۔ اس پر بھٹو صاحب، پیپلز پارٹی کے لیڈران اور مجیب الرحمان کو اڈیالہ جیل میں قید کر دیا۔
ا سٹیبلشمنٹ ( ملک کی مقتدرہ بادشاہ ساز) نے صدر یحییٰ کو صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور نہایت جلد بازی میں بھٹو صاحب کو کرسی صدارت پر بٹھا دیا۔ یوں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشلسٹ اقتدار میں آئے۔ ایک غلط فہمی لوگوں میں عام ہے کہ صدر ایوب نے بھٹو صاحب کو وزارت دے کر سیاست میں آنے کا موقع دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کہیں پہلے صدر اسکندر مرزا کی کابینہ کے ممبر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو سیاست میں داخل ہو چکے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے والد ریاست جوناگڑھ میں دیوان کے عہدے پر فائزتھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت نوجوان تھے۔ انہوں نے ریاستی درباروں کی سیاسی اونچ نیچ، جوڑ توڑ، اس کو دباؤ اس کو گراؤ کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ و ہاں انگریز کو اپنا الو سیدھا کرتے اور ان کی سیاسی چال بازیوں کو بھی دیکھا۔ اس وقت کے خواص کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سمندر پار سے اعلیٰ تعلیم لے کر بھٹو صاحب نے 1951 میں صدر اسکندر مرزا کی دوسری ایرانی النسل بیوی کی سہیلی، نصرت اصفہانی سے شادی کر لی۔
یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ بیگم اسکندر مرزا کے کہنے سے 1958 میں صدر اسکندر مرزا نے بھٹو صاحب کو وزیر تجارت بنا دیا۔ بعد میں آنے والے صدر ایوب نے نہ صرف ا ن کو برقرار رکھا بلکہ 1960 میں ترقی دے کر پانی اورتوانائی، مواصلات اور صنعت کا وزیر بنا دیا۔ کم عمری اور اضافی تجربے کے نہ ہونے پر بھی جلد ہی بھٹو صاحب نے صدر ایوب کا اعتماد حاصل کیا، اس طرح کہیں کم وقت میں اثر و رسوخ اور طاقت حاصل کر لی۔ بھارت کے ساتھ دریائے سندھ کے پانی کے 1960 کے معاہدے میں صدر ایوب کی معاونت کی۔
قسمت نے یاوری کی اور مختلف وزارتوں سے ہوتے ہوئے 1963 میں ان کو خارجہ امور کا وزیر بنایا گیا۔ یہاں سے بھٹو صاحب کے اندر کا سوشلسٹ واضح ہوا۔ اس وقت عوامی جمہوریہ چین اور تائیوان کاجھگڑا کہ اصل چین کون ہے جب کہ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک نے اصل چین تائیوان کو تسلیم کر لیا تھا، اس وقت بھٹو صاحب نے کھل کر عوامی جمہوریہ چین کی حمایت کی اورصدر ایوب کو بھی قائل کر لیاحالاں کہ سوویت روس اور اس کے طفیلئے، نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر عوامی جمہوریہ چین سے ناتا توڑ چکے تھے صرف البانیہ اور پاکستان تھے جو عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کھڑے تھے۔
اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لئے آپریشن جبرالٹر کے محرک تھے جن کے مشورے سے یہ شروع کیا گیا اور اس کا اختتام ناکامی کی صورت میں ہوا۔ طرفہ تماشا یہ کہ پھر اس ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا۔ اس سلسلے میں مارچ اور اگست 1965 میں رن کچھ سے شروع ہونے والی جھڑپوں کا، صدر ایوب اور بھٹو صاحب کی توقع کے برعکس رد عمل آ گیاجوبھارت نے لاہور، سیالکوٹ کی سرحد پر جوابی حملہ کی صورت میں دیا۔
اس طرح 1965 کی جنگ شروع ہو گئی۔ بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شا ستری اور صدر ایوب کے تاشقند میں ہونے والے ا من معاہدے کی کوششوں میں بھٹو صاحب بھی شامل تھے۔ آنجہانی شاستری اور صدر ایوب میں جنگی قیدیوں کا باہمی تبادلہ اور جنگ سے پہلے والی سرحدوں پر دونوں افواج کے واپس چلے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس معاہدہ (تاشقند) کی پاکستانی عوام میں بہت مخالفت ہوئی اور ایوبی حکومت کے لئے انتہائی سیاسی مسائل کھڑے ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس معاہدے پر تنقید شروع کردی جو ان کے اور صدر ایوب کے درمیان دراڑ بن گئی۔ حالات اور سیاسی فضا دیکھتے ہوئے انہوں نے جون 1966 میں وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اور کمر کس کر صدر ایوب کی بھر پور مخالفت میں سرگرم ہو گئے۔
کتنی عجیب بات ہے۔ آپ کی موجودگی میں ایک معاہدہ طے پا رہا ہو۔ ا ور آپ اس معاہدے سے مطمئن نہیں تو ا سی وقت اس بات کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ حالات اور بعد کے واقعات کچھ اور ہی اشارہ دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی اورنپی تلی چالیں تھیں جو صدر ایوب کی حکومت کو کمزور کرنے اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کا منصوبہ تھا۔
صدر اسکندر مرزا پر جب برا وقت آیا اور جبرا جلاوطن کیا جا رہا تھا، اس وقت بھٹو صاحب نے ان سے کنارہ کر لیا۔ یہی کہانی صدر ایوب خان کے ساتھ دہرائی گئی۔ وہ ایوب خان۔ جن کو بھٹو صاحب ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ جنہوں نے بھٹو صاحب کے کسی سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کوئی انتخاب جیتنے اور وابستگی کے نہ ہونے پر کبھی اعتراض نہیں کیا اور ان کے مشوروں کو خاصی اہمیت دی۔ محض اپنی صوابدیدگی پر نہ صرف پچھلے صدر ( اسکندر مرزا) کی کابینہ کے ممبر کی حیثیت کو برقرار رکھا بلکہ مزید اہم وزارتیں دیں اور بالآخر وزیر خارجہ بنایا۔
انہی ’ڈیڈی‘ کے لئے پاکستان کی سڑکوں پر ناقابل اشاعت نعرے لگوائے گئے۔ اپنے وزارت عظمیٰ کے دوران صدر ایوب کے انتقال 19 اپریل، 1974 کے بعد ان کے جنازے میں شرکت بھی نہیں کی۔ جبکہ ایک دوسری مثال محمد خان جونیجو صاحب کی ہے۔ صدر ضیاء الحق نے ان کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا تھا لیکن 1988 میں طیارہ کے حادثہ میں ہلاک ہو جانے پر صدر ضیاء الحق کی نماز جنازہ میں محمد خان جونیجو نے شرکت کی تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ رن کچھ اور آپریشن جبرالٹر پر صدر ایوب کو قائل کر کے عمل کرانا بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کی پہلی سیڑھی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار کے شاطر کھلاڑیوں کے ایسے کھیل میں نتائج اپنی مرضی کے آئیں تو وارے نیارے اور برعکس آنے پر بھی بازی مات نہیں ہوا کرتی۔
’ ادھر ہم ادھر تم‘ یہ کسی مقبول یا آنے ولی کسی فلم کا نام نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کا مشہور زمانہ نعرہ تھا جو مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمان کے لئے وضع کیا گیا تھا جو آگے چل کر بنگلہ دیش کے قیام کا موجب بنا۔ دوسرے الفاظ میں آپ اور آپ کی پاکستان پیپلز پارٹی نے طے کر لیا تھا کہ آئینی اور قانونی طور پر مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب کو ملک کا وزیر اعظم نہیں بننے دینا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ آپ نے مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی کی سرے سے کوئی سرگرمی ہی نہیں دکھائی نہ موجودگی ہی ثابت کی اور اپنی پارٹی کا نام ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کہلوایا۔
بہتر ہوتا کہ اس کا نام صرف ’پیپلز پارٹی‘ رکھا جاتا۔ پاکستان کا لفظ اس وقت قطعاً مناسب نہیں تھا۔ بحر حال اقتدار میں آتے ہی نئی لیبر پالیسی کا اعلان کیا گیا اور ایٹمی منصوبے کے پروگرام پر سرگرمی دکھائی۔ 1973 کے آئین کے بننے اور تمام سیاسی پارٹیوں کا اس سے متفق ہونا بلا شبہ بھٹو صاحب کے کھاتے میں جاتا ہے۔ البتہ ان کی کئی ایک پالیسیوں سے عوام اور سیاسی پارٹیاں بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کی مخالف ہو گئیں۔
بھٹو صاحب سے متعلق ان کے رفقاء کاروں نے کئی ایک انٹرویو اور لکھی گئی کتابوں میں ایک بات تسلسل سے کہی کہ ذوالفقار علی بھٹو اٹھتے بیٹھتے سوشلزم، اسلامی سوشلزم، جمہوری سوشلزم کی بات بے شک کرتے تھے لیکن۔ عملاً ایک عجیب ہی نظام نظر آتا تھا۔ جیسے مختلف چیزوں کا مرکب۔ پیپلز پارٹی جمہوری سوشلزم کی حامی تھی، کھل کر نیم لادینی نیم اسلامی ہونے کا پرچار کرتی تھی۔ جاگیرداری ختم کرنے کا اعلان بس تقریر کی حد تک ہی رہا۔
آخر وقت تک وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔ جمہوری سوشلسٹ نظریات کے باوجود پیپلز پارٹی کبھی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکی۔ کمیونسٹ پارٹی نے اس بات پر بارہا پیپلز پارٹی کے مفاد پرست ہونے کا الزام بھی لگایا۔ 1973 سے 1975 کے عرصے میں پیپلز پارٹی کے انقلابی کمیونسٹ معراج خالد اور خالد سید کو پارٹی ہی سے نکال دیا گیا تاکہ سندھ اور پنجاب کے طاقتور جاگیرداروں کی سیاسی حمایت حاصل ہو سکے۔ اس اقدام سے پارٹی کے بائیں جانب جھکاؤ کا تاثر اور عنصر جاتا رہا۔ قصہ مختصر یہ کہ 1977 کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے منشور سے ’سوشلزم‘ کا لفظ ہی غائب کر دیا گیا۔
انتخابی نتائج کو پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) نے دھاندلی کے الزامات لگا کر مسترد کر دیا۔ قومی اتحاد سے بات چیت کی گئی جو ناکام رہی اور پیپلز پارٹی کے خلاف سول نا فرمانی کی تحریک چل پڑی۔ بعینہٖ یہی کام ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی نئی پیپلز پارٹی نے صدر ایوب کے خلاف کیا تھا۔ لیکن اب کی مرتبہ بے چینی اور نا فرمانی کی شدت زیادہ تھی۔ پہلے پیپلز پارٹی یہ ماننے پر تیار نہیں تھی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔
پھر بعد میں یہ مان لیا گیا کہ چند حلقوں میں ہوئی ہے ؛ بہر حال پیپلز پارٹی نے تسلیم کر لیا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ پھر کیا کیا جائے؟ اس پر قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کی بات چیت کے کئی دور چلے۔ قریب تھا کہ کسی سمجھوتے پر پہنچ جا تے لیکن وہی ہوا جو 1958 میں اس وقت کی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ہوا۔ وہ باہمی سمجھوتے پر پہنچنے ہی والے تھے۔ کہ۔ اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یہاں بھی وہی کہانی دھرائی گئی اور چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم نے جہاں ایک جانب اپنا لانگ مارچ ملتوی کر دیا ہے وہی اس اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں دوریاں بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں قربتیں بڑھنے اور دوریاں پیدا ہونے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں، ماضی کی بات کی جائے تو ملک کے سیاسی افق پر ان دونوں نے گہرے سیاسی نقوش چھوڑے ہیں۔پیپلز پارٹی جس کی بنیاد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی، ایک عوامی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔سنہ 1977 میں سابق فوجی آمر ضیا الحق کے اقتدار پر قبضہ اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کے بعد بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کا سفر شامل ہے۔جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنی سیاست کا سفر ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں 1980 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت شروع کیا جب پیپلزپارٹی اسی سابق فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت میں عتاب کا شکار تھی۔نوے کی دہائی میں دونوں حریف جماعتوں کا ایک دوسرے کی حکومت کے خلاف سیاسی تحریک چلانے اور الزامات لگانا آج بھی سب کو یاد ہے لیکن نوے کی دہائی میں دو مخالف انتہاؤں پر کھڑے میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں سویلین حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب بھی آئے۔نویں کی دہائی کے دوران دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت میں ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے میں کامیاب ہو چکی تھی لیکن اس سے جمہوری عمل اور نظام کو نہ صرف نقصان پہچنا بلکہ یہ کمزور بھی ہوا اور اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا۔پہلی مرتبہ چھ اگست 1990 کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58(2) بی کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی جبکہ 18 اگست 1993 کو ایک بار پھر صدر غلام اسحاق خان نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا لیکن اس بار سپریم کورٹ نے نہ صرف فیصلہ غیر آئینی قرار دیا بلکہ حکومت بحال کر دی۔پانچ نومبر 1996 کو اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو اسی آئینی شق کے تحت برطرف کر دیا۔جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے آئین میں ترمیم کے لیے پہلی مرتبہ سیاسی تعاون کیا اور نواز شریف کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد دو تہائی اکثریت سے اپریل 1997 میں 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کے صوابدیدی اختیار 58(2)بی کو ختم کر دیا۔ اس وقت صدر مملکت فاروق لغاری اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت تھے۔مگر 2000 کی دہائی کے اوائل میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے 58(2) بی کا گڑھا مردہ نکالا اور اسے جھاڑ پونچھ کر 17ویں آئینی ترمیم کے تحت اسمبلی اور وزیرِاعظم کے سر پر داموکلس کی تلوار کی طرح لٹکا دیا۔ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے ’کبھی خوشی کبھی غم‘ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے سنیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان ’لو اینڈ ہیٹ‘ یعنی محبت اور نفرت کی ایک لمبی کہانی ہے۔سنہ 1977 کے بعد کی ملکی سیاست کا دور جو سابق فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے اقتدار سے شروع ہوا اور 1988 میں ان کے موت کے ساتھ ختم ہوا، اس وقت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جو ایک سیاسی طاقت ابھری اس کی سربراہی آج کی مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کر رہے تھے۔ اس مخالفت کے نتیجہ میں دونوں نے ایک دوسرے کی حکومت کو دو دو مرتبہ گرایا اور یہ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے پر منتج ہوئی۔ ’سنہ 1988 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، 1990 میں مسلم لیگ نون حکومت بنانے میں کامیاب رہی، پیپلز پارٹی نے 1993 میں نواز حکومت گرا کر اپنی حکومت بنائی اور پھر ایک بار دوبارہ 1997 میں نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت گرا کر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہے جس کا تختہ سنہ 1999 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے الٹا دیا تھا۔ دونوں سیاسی حریف جماعتوں میں قربت کا آغاز سنہ 1999 میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہوا۔پرویز مشرف کی حکومت کے آغاز میں ہی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں قربت پیدا ہو گئی اور انھوں نے مشرف حکومت کے خلاف الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یا اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) کا سیاسی اتحاد قائم کیا۔ دونوں جماعتوں نے اے آر ڈی کے تحت مل کر جنرل پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کی اور اسی دوران دونوں جماعتوں کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی(میثاق جمہوریت) پر دستخط ہوئے اور دونوں میں سیاسی محبت مزید پروان چڑھی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کی بہت سے شقوں پر عمل ہوا، بہت سی پر عمل نہیں بھی ہوا۔پرویز مشرف کے دور حکمرانی کے آخری عرصے میں جب سنہ 2007 میں جنرل مشرف کے خلاف وکلا تحریک کا آغاز ہوا تو اس میں بھی دونوں جماعتوں نے مل کر وکلا کی حمایت کی۔ سنہ 2007 کے آخر میں بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد اور 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی بننے والی حکومت میں آصف زرداری نے مسلم لیگ ن کو وفاق اور پنجاب میں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔’چنانچہ مرکز میں دونوں جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی جبکہ پنجاب کی صوبائی حکومت میں بھی پیپلز پارٹی کے لوگ شامل تھے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور کچھ عرصہ بعد نواز شریف نے وفاق سے اپنے ارکان واپس بلا لیے اور اسی طرح پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی جو وزارتیں تھیں انھیں ختم کر دیا گیا۔‘

58(2) بی کا دوبارہ خاتمہ اور اٹھارویں ترمیم
’سنہ 2007 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران جب پارلیمنٹ کو بااختیار کرنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی تھی اور آئین کے آرٹیکل 58(2) بی کو ایک مرتبہ دوبارہ ختم کر کے صدر کے اختیارات کو محدود کر کے ملک میں حکومت توڑنے کا راستہ روکا جا رہا تھا یا جب اٹھارویں ترمیم کے وقت قانون سازی کی جا رہی تھی اس وقت دونوں جماعتوں کے تعلقات بہت اچھے تھے۔‘’حالانکہ مسلم لیگ ن اپوزیشن میں تھی لیکن ایک ایک شق پر مشاورت ہو رہی تھی، ہر شق پر اتفاق رائے ہو رہا تھا۔ نواز شریف کی مرضی سے اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی۔‘
میمو گیٹ سکینڈل اور نواز شریف کا کالا کوٹ
دونوں سیاسی جماعتوں میں محبت و ہم آہنگی کا سلسلہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے جب پیپلز پارٹی کے دور میں آرمی چیف کی تبدیلی اور امریکہ میں ایک خط لکھنے کا معاملہ عدالتوں میں چلا تو اس وقت میاں نواز شریف، آصف زرداری کے خلاف باقاعدہ کالا کوٹ پہن کر عدالت گئے تھے۔ اس عمل سے نواز شریف نے ایک طرح سے پیپلز پارٹی کی مخالفت کا عندیہ دیا۔اسی طرح عدلیہ کی بحالی کے لیے بھی وکلا کا لانگ مارچ لے کر گئے تھے اور گوجرانوالہ کے قریب ہی تھے تو پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کی آزادی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا اعلان کر دیا اور یوں یہ معاملہ ٹل گیا۔
نواز شریف کی حکومت اور پیپلز پارٹی کا تعاون
سنہ 2013 کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو اس وقت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شروع میں ان کے ساتھ بہت تعاون کیا۔’آصف زرداری بہت اچھے بیانات اور تقریریں کرتے رہے بلکہ جہاں نواز شریف کو ضرورت ہوتی وہ بیان دیتے یا تقریر کرتے۔‘
فوج کے معاملے پر اختلاف رائے
مسلم لیگ نون کے تیسرے دور حکمرانی میں دونوں جماعتوں میں ایک مرتبہ دوریاں اس وقت بڑھی جب ان کے درمیان فوج کے معاملے پر اختلاف رائے سامنے آیا۔
’سندھ حکومت میں جب نیب نے چھاپے مارنے شروع کیے، جب رینجرز نے چھاپے مارنے شروع کیے تو آصف زرداری نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور آخر کار دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔‘ جب نواز شریف کو عدالتی فیصلے کے ذریعے اقتدار سے رخصت کیا گیا تو اس وقت پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری ان کے ساتھ نہیں بلکہ مخالف صفوں میں کھڑے تھے۔
عمران خان کی حکومت اور اتحاد کی ضرورت
سنہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو دوبارہ ایک ساتھ متحد ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اسی ضرورت کے تحت پی ڈی ایم کا سیاسی اتحاد وجود میں آیا جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام (ف) سمیت حزب مخالف کی دس جماعتیں شامل ہیں۔
برسوں ایک دوسرے کے مخالف اور ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں اب بھی کبھی اختلاف تو کبھی اتفاق ہوتا ہے۔’کیونکہ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ایک جماعت کو فائدہ ہوتا ہے تو دوسری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ میرا نقصان ہے۔ اگر دوسرے کو فائدہ ہو تو پہلے کو نقصان کا گمان ہوتا ہے۔‘’دونوں جماعتوں میں لو اینڈ ہیٹ کا تعلق چلتا رہتا ہے، یہ مفادات کا کھیل ہے، جہاں مفادات کا ٹکراؤ آتا ہے دونوں علیحدہ ہو جاتے ہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے اور مفادات مشترک ہو تو یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔‘کن مفادات نے ان سیاسی حریفوں کو اکٹھا کیا اور کن نے جدا کیا، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’دونوں جماعتوں کے مفاد سے مراد اقتدار اور حکومت کا حصول ہے۔ ‘’ان کی قربتوں اور دوریوں کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی اقتدار میں آنے کی بات ہوتی ہے تو جس کو اقتدار مل رہا ہوتا ہے وہ سارے اصول بھول جاتا ہے اور جس کا اقتدار چھن رہا ہوتا ہے اس کو سارے اصول یاد آ جاتے ہیں۔‘ چارٹر آف ڈیموکریسی، اٹھارویں ترمیم، مل کر حکومت بنانا اور دونوں جماعتوں کے پانچ پانچ سالہ دور حکومت کا مکمل ہونا، ان تمام فوائد میں شامل ہے جو انھوں نے مشترکہ مفادات کے اتحاد سے حاصل کیا۔ماضی میں اے آر ڈی کی تحریک ہو، سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے اقتدار کو کمزور کرنا یا پھر اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سیاست میں مداخلت اور ان کے کردار کو کم کرنا ہوں، یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہیں۔ ’بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں ہیں جن کا بہت دیر ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں۔ انتخابات میں دونوں ایک دوسرے کے خلاف لڑیں گی۔‘ ’دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی سیاسی سوچ بہت مختلف ہے خصوصاً موجودہ حالات میں کیونکہ آصف زرداری نے بڑے واضح انداز میں کہہ دیا کہ ہم پارلیمان سے لڑیں گے یعنی وہ نظام میں رہتے ہوئے لڑیں گے۔‘’اسی طرح جب مسلم لیگ ن کے قائد نے اپنی تقریر میں فوجی قیادت اور جرنیلوں کے نام لیے تھے تو اس وقت بلاول بھٹو نے جلسے میں کہا تھا کہ نام لینا مناسب نہیں ہے۔‘ ’اس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت ملکی اسٹیبلشمنٹ سے ’آل آؤٹ وار‘ نہیں چاہتی کیونکہ ان کے ممکنہ طور پر اسٹیبلیشمنٹ کے ایک حلقے سے رابطے بھی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن نے اپنی ایک سیاسی حکمت عملی بنائی اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا جس کا مطلب یہ ہے ووٹ کو اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے عزت نہیں دی جاتی۔‘دونوں جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی مختلف ہے اور دونوں ہی مختلف سطحوں پر اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص حلقے سے رابطوں میں ہیں۔ مسلم لیگ کے لوگ انھی رابطوں کے باعث ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوئے۔‘
ماضی کی بات کی جائے تو دونوں جماعتوں میں اتفاق اور اختلاف کے سفر میں دونوں جماعتوں نے اپنا مفاد سامنے رکھا، دونوں جماعتیں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اکٹھی ہوئی اور انھی کی بنیاد پر جدا ہوئی ہیں۔ اگر اب دونوں جماعتوں کی راہیں جدا ہوں گی تو حکمت عملی پر ہوں گی۔ ’آصف زرداری کو استعفے دینے اور سڑکوں پر آنے کا فیصلہ مناسب نہیں لگتا جبکہ مسلم لیگ ن سمجھتی ہے ایسے حکومت مخالف تحریک کو تقویت دی جا سکتی ہے۔‘
۔۔۔۔۔

جماعت اسلامی
جماعت کا قیام
جماعت اسلامی (جے آئی) 26 اگست 1941 میں لاہور میں وجود میں آئی۔ سید ابولاعلیٰ مودودی اور دیگر 74 افراد نے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ جدوجہد کے لیے اس کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔
اہم رہنما
سراج الحق
لیاقت بلوچ
ڈاکٹر معراج الہدیٰ
پروفیسر ابراہیم
میاں مقصود
مشتاق احمد خان
فرید پراچہ
عبدالحق ہاشمی
عبدالغفار عزیز
پارٹی منشور
اسلامی انقلاب
اسلامی فلاحی ملک
اتحاد بین المسلمین
کرپشن سے پاک ملک
جمہوریت
انتخابات 1970
سال 1970 میں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی 4 جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایک، ایک نشست حاصل کی۔
انتخابات 1977
1977 میں جماعت اسلامی نے پاکستان نیشنل الائنس کا حصہ بن کر انتخابات لڑے جس نے قومی اسمبلی کی 36 نشستیں جیتیں۔
انتخابات 1990
1990 میں پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن کر انتخابات لڑے لیکن یہ اتحاد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا اور مشکل سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی۔
انتخابات 1993
1993 میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 3، پنجاب کی 2 اور خیبر پختونخوا کی 4 نشستیں جیتیں۔
انتخابات 1997
1997 میں پارٹی نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمرانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔
انتخابات 2002
سال 2002 میں جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ تھی جس نے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں سمیٹیں۔ اس اتحاد نے خیبر پختونخوا میں 48 نشستیں حاصل کرکے حکومت قائم کی۔
انتخابات 2008
2008 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کا حصہ بننے کا انتخاب کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔
انتخابات 2013
پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس نے قومی اسمبلی کے 166 حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے تھے جہاں سے اسے 9 لاکھ 67 ہزار 651 یا 2.13 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ پنجاب میں پارٹی صرف ایک سیٹ حاصل کرسکی جہاں اس نے 208 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پنجاب میں پارٹی نے 4 لاکھ 90 ہزار 706 ووٹ حاصل کیے جو کاسٹ کیے گئے کُل ووٹوں کا 2 فیصد تھا۔ سندھ اور بلوچستان میں جماعت اسلامی نے بالترتیب 46 اور 19 امیدوار کھڑے کیے لیکن کسی نشست پر اسے کامیابی نہیں ملی۔ پارٹی نے سندھ میں ایک لاکھ 31 ہزار 140 اور بلوچستان میں 3 ہزار 627 ووٹ حاصل کیے۔ تاہم خیبر پختونخوا میں پارٹی کے لیے کچھ رغبت دکھائی دی اور جماعت اسلامی نے وہاں سے 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ صوبے میں پارٹی نے 86 امیدوار کھڑے کیے جنہوں نے 4 لاکھ 5 ہزار ووٹ حاصل کیے۔
قراردادِ مقاصد
پارٹی نے ’قراردادِ مقاصد‘ متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا جو بعد ازاں آئین کا دیباچہ بنا۔ پارٹی نے قرارداد کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم کا آغاز کیا۔ جماعت اسلامی نے تمام دستیاب فورمز پر معاملہ اٹھانے اور قرارداد کے مسودے میں بھی فعال کردار ادا کیا۔
جماعت اسلامی نے ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی حمایت کی
7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے کمانڈر اِن چیف اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ چند سال بعد آمر نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کیا اس لیے جنوری 1965 میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرح ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ جماعت اسلامی، ایوب خان کے خلاف جنم لینے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اصل روح تھی۔ جب ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے ’خاتون‘ کی حمایت سے متعلق سوال اٹھایا گیا تو پارٹی کی قیادت نے قرار دیا کہ ’آمریت‘ کسی خاتون کے صدر بننے سے زیادہ بدتر اور غیر اسلامی ہے۔ فاطمہ جناح یہ انتخاب ہار گئیں۔
جماعت اسلامی نے البدر بنائی
1971 میں مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے اپنا وزن آرمی کے پلڑے میں ڈالا۔ عوامی لیگ کے عسکری ونگ مُکتی باہِنی، جسے مبینہ طور پر بھارت فنڈ کر رہا تھا، سے نمٹنے کے لیے آرمی نے ’البدر‘ بنائی۔ یہ بٹالین جماعت اسلامی کے رضاکاروں اور اس کے طلبہ ونگ پر مشتمل تھی جس نے مکتی باہنی اور بھارتی آرمی کے خلاف مسلح کارروائیوں میں حصہ لیا۔
بائیں سے تصادم
پارٹی، بالخصوص اس کا طلبہ ونگ ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ دائیں بازو کی سب سے مضبوط نظریاتی قوت بن کر سامنے آئی۔ اس نے بائیں بازو کے نظریات کا صنعتی یونٹس، تعلیمی اداروں، پریس اور دانشورانہ فورمز پر مقابلہ کیا۔
نظام مصطفیٰ
خود کو سوشلسٹ رہنما کے طور پر متعارف کروانے والے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’نظام مصطفیٰ موومنٹ‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تاہم اس سے قبل کہ یہ موومنٹ کوئی نتیجہ سامنے لاتی، اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاالحق نے جولائی 1977 میں ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کردیا۔
ضیاالحق کے ساتھ شمولیت اور علیحدگی
اگرچہ ابتداء میں جماعت اسلامی نے ضیاالحق حکومت کے ’اسلامائزیشن‘ پروگرام کی حمایت کی، لیکن بعد ازاں اس کے حکومت کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ پارٹی کے 3 اراکین نے اس شرط کے ساتھ کابینہ میں شمولیت اختیار کی کہ آرمی سویلین حکومت کو چارج دے دے گی۔ تاہم پارٹی نے 3 ماہ سے بھی کم عرصے میں علیحدگی اختیار کرلی۔
افغانستان و کشمیر میں جہاد
جماعت اسلامی نے ہمیشہ جہاد کے حق میں آواز اٹھائی اور افغانستان و کشمیر میں جہادی تحریکوں میں فعال کردار ادا کیا۔ گلبدین حکمت یار کی قیادت میں ’تنظیم اسلامی‘، جو افغان جہاد میں پیش پیش تھی، کو افغانستان میں جماعت اسلامی کی شکل کہا جاتا رہا۔ اسی طرح کشمیر کی سب سے بڑی جہادی تحریک ’حزب المجاہدین‘ بھی جماعت اسلامی کی سِسٹر تنظیم ہے۔
ایم ایم اے کا قیام
نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کردی اور اسے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی بمباری پر پاکستان میں شدید تنقید کی گئی۔ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد، دفاع افغانستان کونسل کے قیام کے پیچھے اہم طاقت تھے، جس نے افغانستان میں امریکی حملوں کے خلاف بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کیا۔ 2002 میں نتیجتاً مذہبی سیاسی جماعتون نے ’دفاع افغانستان کونسل‘ کے نام سے جو اتحاد بنایا تھا، وہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نام سے سیاسی اتحاد میں تبدیل ہوگیا۔
آمر پرویز مشرف سے محبت اور نفرت کا رشتہ
جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے اس وقت کے آمر کو ان کی ملکی و غیر ملکی پالیسیوں پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم پارٹی نے، جو اس وقت ایم ایم اے کا حصہ تھی، پرویز مشرف کے قانونی فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کی حمایت کی۔ چونکہ پرویز مشرف نے ایل ایف او کی حمایت پر ایم ایم اے سے وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا، پارٹی نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔ جماعت اسلامی نے دیگر جماعتوں کی طرح پرویز مشرف کے خلاف وکلاء تحریک میں اپنا وزن ڈالا۔
بی ٹیم کے الزامات
ضیاالحق کے اسلامائزیشن پروگرام، افغانستان اور کشمیر میں جہاد کی حمایت کرنے (جن کے متعلق یہ خیال تھا کہ آرمی کی بھی اس کو حمایت حاصل ہے) اور دیگر کئی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی حمایت کرنے پر جماعت اسلامی کو اس کے مخالفین کی جانب سے آرمی کی ’بی ٹیم‘ کہلایا جانے لگا۔
طالبان کے ساتھ رومانس اور اس کی قیمت
کیونکہ کابل میں افغان طالبان نے جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ حزب اسلامی کی جگہ لے لی تھی، اور خلیج ہمیشہ طالبان اور جماعت اسلامی کے درمیان غالب رہی لیکن اس کے باوجود پارٹی نے ان کی کابل میں حمایت کی۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کھلے عام افغانستان میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں طالبان کی شکست سے انکار کیا۔ اس نے طالبان کی نہ صرف اخلاقی حمایت کی بلکہ اسلامی جمعت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کئی کارکن طالبان کے ساتھ شامل ہوئے اور افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ پارٹی کے متعدد مخالف رائے رکھنے والے افراد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شامل پائے گئے۔ تاہم پارٹی قیادت نے ہمیشہ واضح کیا کہ پارٹی پاکستان میں پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔
احمدیہ برادری کے خلاف مہم
جماعت اسلامی نے 1953 میں پاکستان میں احمدیہ برادری کے خلاف مہم چلائی۔ مہم کے دوران کئی افراد ہلاک و گرفتار ہوئے اور امن کو بُری طرح نقصان پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ موومنٹ پنجاب میں مارشل لاء اور وفاقی کابینہ برطرفی کی وجہ بنی۔
مارشل لاء انتظامیہ نے 11 مئی کو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق کتاب لکھنے پر جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی جسے بعد ازاں واپس لے لیا گیا۔
بالآخر 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ موومنٹ کامیاب ہوئی اور قومی اسمبلی کے ذریعے احمدی برادری کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوادیا گیا۔
پاناما پیپرز کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والی پہلی جماعت
جماعت اسلامی وہ پہلی جماعت تھی جس نے پاناما پیپرز کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسی اسکینڈل کے خلاف دائر متعدد درخواستیں یکجا کردیں۔ کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مختصر اتحاد
2013 کے انتخابات کے بعد پارٹی، خیبر پختونخوا کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بنی۔ تاہم اس اتحاد میں چند اتار چڑھاؤ آئے اور حکومتی مدت پوری ہونے سے کچھ عرصے قبل دونوں اتحادی پارٹنرز نے اپنی، اپنی راہ لے لی۔
تنازعات
جماعت اسلامی کی کہانی، جو آٹھ دہائیوں سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی ہے، خود اپنے تنازعات کا پتہ دیتی ہے۔ پارٹی کے کئی فیصلوں پر تنقید کی گئی۔
پارٹی کو 1957 میں اس وقت بڑے تنازع کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کے بانی سید ابولاعلیٰ مودودی نے پارٹی کے جنرل کنونشن میں تحریک پیش کی۔ یہ تحریک تقریباً 98 فیصد ووٹوں (920 ووٹوں) سے منظور ہوئی اور مخالفت میں صرف 15 ووٹ آئے۔ یہ پارٹی کی تاریخ میں اہم موڑ تھا، جس کے نتیجے میں ارشاد احمد حقانی اور امین احسن اصلاحی سمیت کئی نامور اسکالرز نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔
مشرف کے جھوٹے وعدے کے بدلے ’ایل ایف او‘ کی حمایت
ایم ایم اے کے حصے کے طور پر جماعت اسلامی نے پرویز مشرف کے زبانی وعدے کے بدلے ان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
اس قدم کو بڑے پیمانے پر غیر جمہوری عمل کے طور پر دیکھا گیا، تاہم پارٹی رہنما اس فیصلے کا دفاع کرتے رہے اور اسے مشرف کی جانب سے ملک کی بھاگ دوڑ سویلین سیٹ اپ کو سپرد کرنے کے لیے اس وقت آخری دستیاب آپشن قرار دیتے رہے۔
شہادت پر منور حسن کا سلیم صافی کو متنازع جواب
جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے اپنے دورِ امارت کے دوران امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو ’شہید‘ قرار دیا۔ انہوں نے یہ بحث بھی کی کہ ایک امریکی جو میدان جنگ میں ہلاک ہوتا ہے اگر اسے شہید نہیں کہا جاتا تو پاکستان آرمی کے جوانوں کو (جو امریکا کی جنگ لڑ رہے ہیں) کیسے شہید کہا جاسکتا ہے؟
اس بیان پر آرمی کی جانب سے سخت ردِ عمل آیا اور جماعت اسلامی کے امیر سے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کرنے والے ہزاروں فوجیوں کے لواحقین کے جذبات کو مجروح کرنے پر غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ جماعت کے رہنماؤں نے آرمی کے مذمتی بیان کے باوجود اپنے قائد کا دفاع کیا، لیکن انہوں نے منور حسن کے اس بیان سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی یہ ان کا ’ذاتی خیال‘ تھا۔
اندرونی اختلافات
پارٹی رہنماؤں کے درمیان واحد تنازع 1957 میں مچھی گوٹھ میں سامنے آیا۔ اس معاملے نے پارٹی کے کئی رہنماؤں کو کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی قریب میں جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے خود کو ایک اور مدت کے لیے پارٹی کے مرکزی معاملات چلانے سے محروم کیا، کیونکہ انہیں ان کے متنازع بیانات پر ایسا کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ پارٹی کے اسٹرکچر، پالیسیاں اور تاریخ اس نکتہ نظر کی حمایت نہیں کرتیں۔
تاہم کہا جاتا ہے کہ پارٹی کو مشکل وقت سے گزرنا پڑا اور پارٹی قیادت کو پارٹی کے اندر سے ہی سیاسی معاملات چلانے کے لیے حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اپنانے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کے متعدد رہنماؤں نے اپنی ذاتی ملاقاتوں میں قیادت پر، سیاسی معاملات کو زیادہ ترجیح دینے اور اپنے قیام کے اصل مقصد سے ہٹنے کا الزام لگایا۔
1996 میں پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف دھرنا
پارٹی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین سید نے 27 ستمبر کو سینیٹ رکنیت سے استعفیٰ دے کر بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کا آغاز 27 اکتوبر 1996 کو ہوا۔ 4 نومبر کو اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر کی حکومت ختم کردی۔
مسلم لیگ (ن) کے خلاف دھرنا
پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف بھی اس وقت دھرنا دیا جب حکومت نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو دورہ لاہور کی دعوت دی اور ان کا بھرپور استقبال کیا۔
مستقبل میں امیدیں
بظاہر پارٹی کی آئندہ عام انتخابات میں کوئی خاص کارکردگی نظر نہیں آرہی۔ پارٹی عام طور پر قومی اسمبلی میں 3 سے 4 نشستیں حاصل کرتی ہے۔ تاہم جماعت اسلامی کے خیبر پختونخوا اور کراچی میں کسی حد تک کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔
یہ جماعت خیبر پختونخوا کی بلدیاتی حکومت کی کارکردگی کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اسی طرح، کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین گروپ کے تقریباً ختم ہونے سے دیگر جماعتوں کو موقع ہاتھ آیا ہے۔ جماعت اسلامی ’کے الیکٹرک‘ اور نادرا کے ’مظالم‘ کے خلاف مہمات چلاتی رہی ہے۔ اس نے پانی کی کمی اور دیگر شہری سہولیات کی کمی کے خلاف بھی مہمات چلائی ہیں جو اسے فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔

جمعیت علماء اسلام (ف)

جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن) کی بنیاد 1988 میں رکھی گئی۔
بھارت میں برطانونی سامراج سے سیاسی سطح پر نمٹنے کے لیے 1919 میں دیوبند مکتبہ فکر کے حامل افراد نے جمعیت علماء ہند (جے یو ایچ) کی بنیاد رکھی اور جے یو آئی کی جڑیں اسی نظریے سے ملتی ہے۔
واضح رہے کہ جے یو ایچ نوآبادیات کے خلاف تھی اور متحدہ بھارت کی خواہاں رہی۔ جے یو ایچ بھارتی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے تصور ‘پاکستان’ کی مخالف تھی اور اسی وجہ سے 1945 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کے تنازع پر ایک دھڑا قائم ہوا۔
اس دھڑے کو جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کا نام ملا اور بعدازاں 1988 میں صدر ضیاء الحق کے دور میں افغانستان جنگ کے دوران مجاہدین کی حمایت کے تنازع پر جے یو آئی مزید تقسیم کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں جمعیت علماء اسلام (سمیع الحق) اور جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن) کا قیام عمل میں آیا۔
جے یو آئی (ف) کے نمایاں رہنما
مولانا فضل الرحمٰن
مولانا گل نصیب خان
مولانا محمد خان سرہندی
اکرم خان درانی
مولانا عبدالغفور حیدری
اہم نکات
حکومت کے انتظام و انصرام میں نفاذ شریعت کے خواہاں
درج ذیل شعبوں میں بہتری لانے کی خواہش:
تعلیم
صحت
ملازمت
معیشت اور اقتصادیات
تجارت
تنخواہ
زراعت
عدلتی نظام
انتظامیہ
ٹیکس
تعلقات عامہ
اقلیت
خارجہ پالیسی
حالات حاضرہ
اطلاعات اور مواصلات
دفاع
22 اسلامی نکات
رفاعی ٹرسٹ
انتخابات 2008
قومی اسمبلی کی 41 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ خیبر پختونخوا میں 29 نشستوں پر کامیابی ملی۔
انتخابات 2013
قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے صرف 15 پر سبقت حاصل کر سکی۔
اہم سیاسی کارنامے
مولانا فضل الرحمٰن افغان طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کرانے کے حوالے سے بطور ثالث مشہور ہیں۔
اسی طرح، جے یو آئی (ف) نے حکومت پر طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے پر بھی دباؤ ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن پارلیمانی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین کے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ دائیں باوزں کی جماعت ہونے کی وجہ سے کشمیر پر واضح مؤقف رہا۔
مولانا فضل الرحمٰن بیان کر چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں کشمیر کے مسئلے کو ترحیج دینے کی ضرورت ہے اور حکومت پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی اور سفارتی مدد کا اعلان کرے۔
2008 کے انتخابات میں جے یو آئی (ف) نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ سیاسی اتحاد کے ذریعے وفاق میں حکومت بنائی اور دسمبر 2010 تک وفاقی کابینہ کا حصہ رہی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے دسمبر 2017 کو وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا) کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا اور قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز کے خلاف مخالفت جاری رکھنے کی قسم کھائی۔
تنقید اور تنازعات
جے یو آئی (ف) نے بھارت کو ‘زیادہ پسند کی جانے والی قوم’ کہلائے جانے کی حمایت کی اور اس کے حق میں دلائل دیئے کہ اس طرح تاجربرادری کو فائدہ پہنچے گا۔
پارٹی کی پالیسی میں خواتین کے حقوق اورمعاشرے میں ان کے کردار کے حوالے سے متعدد حلقوں میں فساد کا باعث رہا ہے۔
جے یو آئی (ف) نے پارلیمانی کمیٹی کے سیشن برائے گھریلو تشدد کے بل کو پاکستان میں ‘مغربی ثقافت’ پھیلانے کی ایک سازش قرار دیا اور دھمکی دی کہ بل نے قانون کا درجہ اختیار کیا تو ملک گیر احتجاج ہوگا۔
پارٹی نے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے کی سخت مخالفت کی لیکن اب کبھی کبھار حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومت کی ‘پرو امریکی پالیسی’ قرار دیتی ہے۔
2002 کے انتخابات سے قبل پارٹی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ بنی۔ اس حوالے سے الزام لگایا جاتا ہے کہ انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے ایم ایم اے کی بنیاد رکھی تھی۔
ایم ایم اے نے 2003 میں پرویز مشرف کی حمایت میں آکر 17ویں ترمیم منظور کرائی اور یوں صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا۔
بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے مطالبہ کیا کہ وہ رواں برس 20 مئی سے قبل منصوبہ مکمل کریں ورنہ جے یو آئی (ف) صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرے گی۔
……….

آل پاکستان مسلم لیگ
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 2008 میں ملک کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد سیاسی عزائم کو زندہ رکھنے کے لیے سیاسی جماعت تشکیل دینے کا اعلان کیا، 14 اگست 2010 کو آل پاکستان مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اہم رہنما
ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف
ڈاکٹر محمد امجد
بنیادی منشور
پاکستان سے کرپشن اور اقربا پروری کا خاتمہ
روشن خیال جدت پسندی
انتخابات 2013
اے پی ایم ایل نے پورے ملک میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا مگر چترال سے پارٹی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے، ان میں سے ایک نے قومی اسمبلی کی نشست جبکہ دوسرے نے خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
2005ء میں مشرف نے اس علاقے میں لورائی ٹنل کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کروایا تھا۔
اہم معاملات پر مؤقف
اے پی ایم ایل اپنی بنیاد بنانے میں ناکامی کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد بنانے کی تلاش میں رہی ہے، اس کے رہنما جنرل (ر) مشرف نے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کے درمیان ہونے والے اتحاد کا خیر مقدم کیا، مگر یہ اتحاد زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔
کراچی پارٹی کی توجہ کا مرکز رہا ہے، اس کی وجہ یہ محسوس کی گئی کہ مشرف کو شہر میں کافی سیاسی حمایت حاصل ہے، حالانکہ اس دعوی کو ثابت کرنے کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں تھے، پارٹی نے یہاں سے ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل کی، جبکہ شہر میں ہونے والا پارٹی کا جلسہ، جس میں مشرف نے وڈیو خطاب کیا تھا، بھی غیرمتاثر کن رہا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے کافی سوچ بچار کے بعد نگراں حکومت کے قائم رہنے تک وطن واپسی میں تاخیر کا فیصلہ کیا۔
تنازعات
پارٹی کو قائم رکھنے کی بارہا کوشش کے باوجود بھی اے پی ایم ایل ابھر کر سامنے آنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ اس کے سربراہ پر عدالتوں میں چل رہے مقدمات کی وجہ سے دبئی میں خود ساختہ جلاوطن ہیں۔
جب نواز شریف عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے فارغ ہوئے، تب پرویز مشرف کو آل پاکستان مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹانے کی استدعا کی گئی، جسے لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی سربراہی میں بننے والے 23 جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد کا بھی اعلان کیا، تاہم جن سیاسی جماعتوں کو اتحاد کا حصہ بتایا جارہا تھا، ان میں سے چند جماعتوں نے واضح کیا کہ وہ ابھی صرف اس تجویز پر غور کر رہے ہیں، وہ اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔
مشرف کو اکثر مختلف مقدمات میں عدالتوں کے سامنے پیش نہ ہونے اور بطور صدرِ پاکستان اپنے کردار کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کمیشن برائے گمشدہ افراد کے سربراہ جاوید اقبال کا یہ دعویٰ بھی کافی خبروں میں رہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 4000 پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا۔
اے پی ایم ایل کے سربراہ کو 2013 کے انتخابات میں الیکشن ٹربیونل کی جانب سے حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔\
//////

متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)
قیام: 2016
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان دراصل الطاف حسین کی جانب سے بنائی گئی ایم کیو ایم سے الگ ہونے والا ہی ایک دھڑا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کو 23 اگست 2016 کو اس وقت بنایا گیا جب ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بانی متحدہ الطاف حسین اور ان کی لندن کی پارٹی سے تمام تر تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اس پارٹی کو اس وقت بنایا گیا، جب 22 اگست 2016 کو الطاف حسین نے پاکستان اور ریاست مخالف تقریر کی تھی، جس کے بعد ایم کیو ایم کارکنان نے ایک نجی نیوز چینل پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ شروع کردی تھی۔
انہی ہنگاموں اور کشیدگی کے بعد پیراملٹری فورس نے ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کرلیا تھا، جنہیں بعد ازاں رہا کردیا گیا، جب کہ ساتھ ہی اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو اور تمام یونٹ دفاتر کو بھی بند کردیا گیا تھا۔
اہم رہنما
خالد مقبول صدیقی
ڈاکٹر فاروق ستار
خواجہ اظہار الحسن
سیاست کے اہم نکات
کراچی
شہری سندھ
اردو بولنے والے افراد (مہاجر)
سماجی بہتری
کوٹا سسٹم کا خاتمہ
انتخابات 2013
اس وقت یہ سیاسی دھڑا موجود ہی نہیں تھا۔
ماضی کے انتخابات
ماضی میں یہ سیاسی دھڑا موجود ہی نہیں تھا، یہ گروپ پہلی بار انتخابات میں شامل ہوا ہے۔
اہم سیاسی معاملات
اگرچہ اس سیاسی دھڑے کے رہنماؤں کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں، تاہم پھر بھی پارٹی رہنماؤں نے شہری سندھ کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرکے اپنی پارٹی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد جاری رکھی۔
اختلافات اور مسائل کے باعث اس دھڑے کے کم سے کم ڈیڑھ درجن قانون ساز پارٹی سے علیحدہ ہوکر ایم کیو ایم سے ہی جنم لینے والی نئی سیاسی جماعت ’پاک سر زمین پارٹی‘ (پی ایس پی) سمیت دیگر جماعتوں میں چلے گئے۔
اس دھڑے کی قیادت نے کسی کا نام لیے بغیر متعدد مواقع پر دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پارٹی رہنماؤں کو جماعت چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی اس دھڑے کی قیادت نے مختلف سیاسی جماعتوں پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ بھی ان کے رہنما توڑنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
تنازعات
یہ دھڑا جس دن سے وجود میں آیا ہے تب سے ہی تنازعات چلے آ رہے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دھڑے کی مرکزی قیادت نے مبینہ طور پر سندھ رینجرز کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر اس گروپ کی تشکیل کی، ساتھ ہی مختلف سیاسی پارٹیاں اور سیاسی مبصرین بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس گروپ کو بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، لیکن دوسری طرف ایسے بیانات اور دعوے سامنے آنے کے بعد سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل محمد سعید ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم لندن کی تقسیم ان کے اندرونی اختلافات کے باعث ہوئی۔
بدنام زمانہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار 16 ستمبر 2016 کو ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار بھی کرچکے ہیں، دوسری جانب یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اس گرفتاری کے پیچھے ڈاکٹر فاروق ستار کا ہاتھ تھا، کیوں کہ خواجہ اظہار نے ان سے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شپ کے عہدے سمیت دیگر مطالبات کیے تھے۔
8 نومبر 2017 کو متحدہ لندن سے الگ ہونے والے دونوں سیاسی گروپوں یعنی پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان نے اختلافات بھلا کر اتحاد قائم کرنے اور 2018 کے انتخابات ایک ہی نام اور ایک ہی منشور کے ساتھ لڑنے کا اعلان کیا، تاہم یہ اعلان حقیقت کا روپ دھار نہ سکا اور یہ اتحاد چند ہی گھنٹوں میں ٹوٹ گیا اور کئی اہم رہنماؤں جن میں علی رضا عابدی بھی شامل تھے، انہوں نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
اگلے ہی دن ایم کیو ایم کا مخصوص انداز ایم کیو ایم پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملا اور حیران کن طور پر پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کی سربراہی سے استعفیٰ کا اعلان کیا، تاہم اپنی والدہ اور پارٹی کارکنان کی مداخلت اور فرمائش کے بعد چند ہی گھنٹوں میں انہوں نے یہ اعلان واپس بھی لیا۔
نئے سال میں بھی تنازعات نے ایم کیو ایم کے دامن کو نہیں چھوڑا اور 2018 کے ماہ فروری کے پہلے ہی ہفتے میں 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کے اعلان پر پارٹی رہنماؤں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور کئی رہنماء پہلی بار کھل کر فاروق ستار کی مخالفت کرنے لگے۔
پارٹی رہنماؤں نے فاروق ستار سے مطالبہ کیا کہ وہ سینیٹ انتخابات کے لیے اپنے پسندیدہ امیدوار کامران ٹیسوری کی نامزدگی کا اعلان واپس لیں، ساتھ ہی پارٹی کی رابطہ کمیٹی نے ان کا نام مسترد کرتے ہوئے ان کی رکنیت بھی 6 ماہ کے لیے معطل کردی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو بھی پارٹی سربراہی سے ہٹاتے ہوئے ان کی جگہ خالد مقبول صدیقی کو نیا سربراہ مقرر کردیا، جس کے ردِ عمل میں فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو ہی توڑ کر انٹرا انتخابات کے ذریعے خود کو نیا سربراہ منتخب کروالیا۔
انہی اختلافات کے باعث ایم کیو ایم پاکستان 2 گروپوں یعنی ایم کیو ایم ’پیر الاہی بخش‘ (پی آئی بی) کالونی اور ایم کیو ایم بہادر آباد میں تقسیم ہوگئی۔ پی آئی بی دھڑے کی قیادت فاروق ستار نے سنبھال لی جبکہ بہادر آباد کی قیادت خالد مقبول صدیقی کے پاس رہی۔
12 فروری کو ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ رابطہ کمیٹی کے کچھ ارکان نے انہیں کنوینر شپ کے عہدے سے اس لیے ہٹایا، کیوں کہ وہ ارکان ان کی جگہ سابق آرمی چیف (ریٹائرڈ) جنرل پرویز مشرف کو لے آنا چاہتے ہیں، تاہم بعد ازاں پرویز مشرف نے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پیش کش کے باوجود اس پارٹی کے کسی بھی دھڑے کی سربراہی سے انکار کردیا ہے۔
ماضی کی ایم کیو ایم
الطاف حسین نے زمانہ طالب علمی میں 11 جون 1978 میں چند دوستوں کے ساتھ مل کر سندھ میں مہاجر سیاسی پارٹی کی تشکیل کرتے ہوئے ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کا بنیاد رکھی۔
جلد ہی اے پی ایم ایس او دائیں بازوں کی طلبہ تنظیم کے طور پر ناکام ہوگئی، جس کے بعد اسی کے پیٹ سے ’مہاجر قومی موومنٹ‘ (ایم کیو ایم) کا جنم ہوا، جو آگے چل کر سندھ کی قوم پرست پارٹیوں سے مذاکرات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے نام میں ضم ہوگئی۔
ماضی کی ایم کیو ایم بھی تنازعات کی اپنی تاریخ رکھتی ہے، کیونکہ جلد ہی ایم کیو ایم میں عسکری ونگ تشکیل پاگیا، جس کے بعد اسے دہشت گرد تنظیم کے طور پر پہچانا جانے لگا، جو نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی مصیبت بن گئی۔
بعد ازاں پارٹی میں بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور تشدد سمیت ریاست مخالف سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں، یہاں تک کہ اس کے روابط بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے بھی ہوگئے، جس وجہ سے ہی آج تک اس پارٹی کے خلاف ریاستی اداروں نے کم سے کم 3 آپریشن بھی کیے ہیں۔
بعد ازاں اسی پارٹی سے ایم کیو ایم (مہاجر) آفاق احمد کا دھڑا بھی الگ ہوگیا، جو آج تک ایک الگ سیاسی پارٹی کے طور پر کام کر رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے بانی قائدین میں اب صرف الطاف حسین، فاروق ستار اور آفاق احمد زندہ ہیں، باقی دیگر تمام پُراسرار طور پر ہلاک ہوگئے یا مار دیے گئے۔
22 اگست 2016 تک ایم کیو ایم کو الطاف حسین برطانیہ سے بیٹھ کر انتہائی مؤثر انداز سے چلاتے رہے، تاہم بعد ازاں ان کی ریاست مخالف تقریر نے ہی ان کی پارٹی میں پھوٹ ڈال دی اور ایک نئی پارٹی ایم کیو ایم پاکستان تشکیل میں آئی۔
۔۔۔۔۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا قیام 1989 میں آیا، یہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی نیشنل عوامی پارٹی ( این اے پی ) کے منتشر گروہوں میں سے ایک تھی۔
پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں، جنہوں نے 1973 میں ہونے والے بم دھماکے میں اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی وفات کے بعد ان کی جماعت پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔
اہم رہنما
محمود خان اچکزئی
حمید خان اچکزئی (محمود خان اچکزئی کے بھائی )
محمد عثمان خان کاکڑ
اہم معاملات پر مؤقف
پی کے میپ خیبرپختونخوا، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور بلوچستان کی پختون قومیت کی وکالت کرتی آئی ہے اور صوبوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا مطالبہ کرتی ہے۔
یہ جماعت 18ویں آئینی ترمیم کی بھرپور حامی ہے، اور اس بات کا مطالبہ کرتی رہی ہے کہ اس پر عمل ہونا چاہیے۔
پشتون خوا ملی عوامی پارٹی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف ہے جبکہ صوبائی خودمختاری کی حمایت کرتی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے پی کے-میپ کا موقف رہا ہے کہ تمام ممالک سے غیر جانبدارانہ تعلقات ہونے چاہیے، جبکہ یہ بھی موقف بھی رکھتی ہے کہ پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔
انتخابات 1990
گزشتہ انتخابات کا جائزہ لیا جائے، تو پی کے میپ نے قیام کے ایک سال بعد انتخابات میں 1990 میں 3 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں تھیں جبکہ بلوچستان کے ضلع پشین سے محمود خان اچکزئی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
انتخابات 1993
1993 کے انتخابات میں پی کے میپ کو قومی اسمبلی کی 3 اور صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
انتخابات 1997
1997 کے انتخابات کی بات کریں، تو اس میں پی کے میپ 2 صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرسکی تھی۔
انتخابات 2002
2002 میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو صوبائی اسمبلی کی 3 اور ایک قومی اسمبلی کی نشست حاصل ہوئی تھی۔
انتخابات 2008
2008 کے عام انتخابات میں اے پی ڈی ایم (آل پارٹیز ڈیموکریٹک الائنس) کا حصہ ہونے کی وجہ سے پی کے میپ نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اس الائنس میں پی کے میپ کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) اور دیگر قومی جماعتیں شامل تھی اور انہوں نے مشرف حکومت کی جانب سے منعقدہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔
انتخابات 2013
گزشتہ انتخابات کی بات کی جائے تو پشتونخوا ملی عوامی پاٹی نے قومی اسمبلی میں 3 نشتیں حاصل کی تھیں۔
محمود خان اچکزئی اور عبدالقہر خان وادان جنرل نشستوں جبکہ نسیمہ حفیظ پانیزئی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی تھیں۔
اس کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بڑے بھائی محمد خان اچکزئی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔
پی کے میپ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی اتحادی بھی رہی، لیکن جب 14 اراکین اسمبلی کی جانب سے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، تو اس جماعت نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔
تنازعات اور سیاسی کردار
2013 کے انتخابات میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے کسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا تھا، لیکن پھر بھی یہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی اتحادی رہی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے ساتھ کچھ مشکل وقت میں بھی پی کے میپ نے بھر پور ساتھ دیا، تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے 2014 میں حکومت مخالف دھرنے دیئے تھے، اس دوران محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں نواز شریف کی حکومت کو بھر پور سہارا دیا۔
جنوری 2018 میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کردار ادا کرنے اور بعد ازاں میر عبد القدوس بزنجو کو ووٹ دینے پر پی کے میپ نے اپنے رکن اسمبلی کے خلاف کارروائی بھی کی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ پی کے میپ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے احتجاج کی حمایت کی، جماعت کے ایک سینیٹر عثمان خان کاکڑ کو پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کے ساتھ ایک تصویر میں بھی دیکھا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔

عوامی نیشنل پارٹی

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 1986 میں موجود میں آئی جس کا منشور خان عبداللہ غفار خان کے نظریات پر مبنی تھا۔
خان عبداللہ غفار ‘باچا خان’ کے نام سے مشہور ہوئے، وہ ہمیشہ صوبائی خو دمختاری کے داعی رہے اور عدم تشدد کا برچار کیا۔
اے این پی نے دراصل نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے بطن سے جنم لیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی ہمدرد حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے الزام میں این اے پی کے رہنما ولی خان کو گرفتار کرایا اور پارٹی پر پابندی عائد کرادی۔
ضیاءالحق کے دور آمریت میں ولی خان کو رہائی نصیب ہوئی تو انہوں نے اے این پی کی بنیاد رکھی اور پارٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی فعال رہے۔
اگرچہ اے این پی باچاخان کے نظریات کی حامی رہی لیکن اب پارٹی نظریہ مارکسزم کی بنیادی نکات سے کنارہ کشی اختیار کرچکی ہے۔
اے این پی اقتصادی امور میں اوپن مارکیٹ کے کردار کو تسلیم کر چکی ہے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے حکومتی فنڈز پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔
اے این پی ایک قوم پرست جماعت ہے جس کی ساری جدوجہد پشتون حقوق کے لیے مرکوز رہی اور نسل، رنگ اور جنس سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی علمبرداری کا نعرہ لگایا۔
پارٹی نے ملک میں ہمیشہ قیام امن کی بات کی لیکن اے این پی پر الزام ہے کہ پارٹی نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے لسانی بنیادوں پر فسادات کیے۔
واضح رہے کراچی میں ایم کیوایم اور اے این پی دو بڑی سیاسی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔
سیاسی جھکاؤ
اے این پی نے سیکیولر نظریات کے برعکس مذہبی جماعت مثلاً جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی بنایا۔
مضبوط گڑھ
خیبرپختونخوا کراچی (پشتون آبادی پر مشتمل بیشتر علاقے)
سیاسی کارنامہ
این ڈبلیو ایف پی کو خیبر پختونخوا کا نیا نام دلایا
اہم معاملات پر مؤقف
وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا) کا خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد پشتون اکثریتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبے کا مطالبہ
انتظامی امور میں عسکری مداخلت کی سخت مخالف اور عسکری بجٹ میں کٹوتی کی خواہاں ہے تاکہ بجٹ کو عوام کی مزید فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جاسکے۔
صوبائی خود مختاری اور 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد کی مکمل حامی
اے این پی یقین رکھتی ہے کہ سرکاری افسر کو کسی دوسرے صوبے میں تعینات کرنے سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت طلب کی جائے۔
پارٹی جمہوری نظام کے استحکام پر یقین رکھتی ہے۔
اے این پی کا استدلال ہے کہ پڑوسی ممالک مثلاً بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اور کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔
انتخابات 2002
پارٹی کی کارکردگی 2002 کے انتخابات میں انتہائی مایوس کن رہی تاہم سیاسی مبصرین نے دعویٰ کیا کہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے حق میں دھاندلی کی گئی جس کے باعث سیکیولر پارٹی کو انتہائی کم ووٹ ملے۔
انتخابات 2008
اے این پی نے نہ صرف قومی اسمبلی میں 15 نشستیں حاصل کی تھیں بلکہ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ابھر کر سامنے آئی اور حکومت قائم کی۔
انتخابات 2013
2008 کے انتخابات کے مقابلے میں 2013 کے الیکشن میں اے این پی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔
اے این پی نے 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں صرف 2 نشستیں جیتیں۔ غلام احمد بلور اور امیر حیدر خان ہوتی نے عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
تنازعات
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں مارشل لا نافذ کردیا، پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی اتحاد کے معاملے پر اے این پی کے چیف اجمل خٹک کا اپنے پارٹی رہنماؤں سے اختلاف ہوا اور یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا جس کے بعد انہوں نے پارٹی سے خود کو علیحدہ کرلیا۔
اجمل خٹک سیاسی اتحاد میں شمولیت کے خواہاں تھے۔
بعدازاں پارٹی کی ذمہ داری ولی خان کے بیٹے اسفند یار ولی خان کے سپرد کردی گئی اور پھر اجمل خٹک نے بھی دوبارہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اے این پی کے رہنماؤں اور ورکرز خصوصاً خواتین ورکرز کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے جس کی وجہ یہ بتاتی گئی کہ پارٹی نے اتنخابات 2018 کے لیے نئے چہروں کے بجائے پرانے چہروں کو ہی پارٹی ٹکٹ تفویض کیے۔
بعدازاں اے این پی کے ناراض صوبائی اسمبلی رکن نے پی پی پی میں شمولیت بھی اختیار کی۔
دہشت گردی کا شکار
دہشت گردی کے خلاف واضح موقف رکھنے کی وجہ سے اے این پی کے رہنماؤں پر متعدد حملے ہوچکے ہیں۔
اے این پی کے متعدد ورکرز دہشت گردوں کو حملے میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
پارٹی کے سینئر رہنما بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون بلور 10 جولائی 2018 کو انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک کارنر میٹنگ میں خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس حملے میں دیگر 20 سے زائد افراد بھی لقمہ اجل بن گئے تھے، اکثریت پارٹی کارکنوں کی تھی۔
پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی بشیر احمد بلور 2012 میں خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
بشیر احمد بلور پر قاتلانہ حملے میں ان کے سیکریٹری، پولیس افسر اور 6 لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔
2008 میں پارٹی کے چیف اسفندیار ولی خود کش حملے میں بال بال بچ گئے تھے جبکہ 2010 میں ان کی بہن ڈاکٹر گلالئی حملے میں زخمی ہوئی۔
اگرچہ عسکری آپریشن کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن تاحال دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔
اے این پی کے مطابق ان کے رہنماؤں کو مسلسل سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں تاہم چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت کے بعد اے این پی کے چیف اسفندیار والی اور جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین سمیت دیگر سیاست دانوں، پولیس افسران اور ججز کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔
منشور (اہم نکات)
اگرچہ اے این پی نے دعویٰ کیا کہ وہ نئے منشور کے انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن ان کی ویب سائٹ پر پرانا منشور ہی موجود ہے جسے 2013 میں شائع کیاا گیا تھا۔
منشور میں متعدد مسائل پر غیر واضح موقف ہے۔ اے این پی کے ووٹرز یہ جان سکیں گے کہ پارٹی ‘کیا’ ارادہ رکھتی ہے لیکن ان ارادوں کی تکمیل ‘کیسے’ ہو گی اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق اے این پی کا منشور وعدہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتوں کی تعداد بڑھائی جائے گی اور مذہب، جنس اور زبان سے بالاتر ہوکر تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے۔
منشور میں وعدے کے باوجود اے این پی کی خاتون ورکز نے شکایت کی کہ پارٹی قیادت کی جانب سے ٹکٹ کی فیس میں اضافے کی وجہ سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کراسکیں۔
دوسری جانب پارٹی نے دعویٰ کیا کہ فیس میں اضافے کا مقصد فنڈز میں بہتری لانا ہے۔
منشور کے مطابق شہداء کے اہل خانہ کے لیے فنڈز قائم کیا جائےگا۔
منشور میں صوبائی خود مختاری کی مکمل حمایت موجود ہے۔
سیکیولر نظریات سے جڑھے رہتے ہوئے اے این پی کا واضح مؤقف ہے کہ وہ پشتون ثقافت میں ‘اسلامائزیشن’ کے خلاف ہے۔
پارٹی منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ خواتین، دہشت گردی سے متاثرہ خاندان اور غریب گھرانوں سمیت دیگر ضرورت مندوں کے لیے فنڈز تشکیل دیے جائیں گے تاہم ملازمت کے مواقع پیدا کرنے پر زیادہ توجہ نہیں۔
ملازمت کے مواقعوں کے حوالے سے منشور میں گھریلو صنعت اور کاروبار پر زیادہ زور دیا گیا۔
اگرچہ پارٹی کے منشور میں متعدد وعدوں کا ذکر موجود ہے لیکن مختلف مسائل پر پارٹی کی پالیسی متعلقہ امور پر اپنی حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہی۔
۔۔۔۔۔

جمہوری وطن پارٹی
سے بلوچ رپبلکن آرمی تک

جمہوری وطن پارٹی براہمدغ گروپ نےجماعت کا نام جھنڈا اور آئین تبدیل کرکے بلوچ ریپبلکن پارٹی کا نام اختیار کر لیا ہے اور اب جماعت بلوچ ساحل و وسائل پر مکمل دسترس کے لیے جدوجہد کرے گی۔یہ فیصلے جماعت کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے جس کی صدارت سینیئر نائب صدر محمد حیات جمالدینی نے کی ہے۔جماعت کے سیکریٹری اطلاعات میر جلیل ریکی نے بتایا ہے کہ یہ بڑے درد ناک اور کرب ناک فیصلے تھے لیکن معروضی حالات کے تحت یہ فیصلے کیے گئے ہیں۔ جماعت کے نام کے ساتھ ساتھ جھنڈا بھی تبدیل کر دیا گیا ہے جو اب سرخ سبز اور نیلے رنگ کا ہوگا جس میں ایک ستارہ ہوگا۔جلیل ریکی کے مطابق ان فیصلوں کے لیے نوابزادہ براہمدغ بگٹی کی مکمل حمایت حاصل تھی جنھیں اس جماعت کا چیف آرگنائزر مقرر کیا گیا ہے۔نواب اکبر بگٹی کی جماعت مضبوط وفاق کی حمایتی رہی ہے لیکن دوہزار پانچ میں جب ڈیرہ بگٹی کے حالات کشیدہ ہو گئے تھے تو اس وقت نواب اکبر بگٹی نے تمام بلوچ قوم پرست جماعتوں کے قائدین سے اپیل کی تھی کہ وہ بلوچوں کی ایک جماعت قائم کریں اور اس کے لیے وہ اپنی جماعت جمہوری وطن پارٹی تحلیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔جلیل ریکی کے مطابق اب ان کی جماعت قوم پرستی کی سیاست کرے گی اور جمہوری اور سیاسی سطح پر بلوچ سرمچاروں کی حمایت کرےگی۔ اس کے علاوہ جماعت بلوچ قومی آزادی اور نواب اکبر بگٹی کی جدوجہد کو جاری رکھے گی۔یاد رہے نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد جماعت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی ایک دھڑے کی سربراہی نواب اکبر بگٹی کے بڑے بیٹے طلال اکبر بگٹی کر رہے ہیں اور وہ بگٹی ہاؤس کوئٹہ مقیم رہے۔ اور2015میںان کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد جماعت کی باگ ڈوران کے بیٹے شازین کے ہا تھ میں آگئی تھی۔
……..
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) دراصل بلوچ قوم پرست پارٹی ہے، جس کا قیام 1996 میں عمل میں آیا، جو صوبوں اور خصوصی طور پر بلوچستان کی خود مختاری کی زبردست حامی ہے۔
اہم رہنما
عطاء اللہ مینگل
اختر مینگل
جہانزیب جمال دینی
ثناء اللہ بلوچ
ساجد ترین
سیاست کے اہم نکات
بلوچستان کی خود مختاری
لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ افراد کو قتل کرنے کی روایات کا خاتمہ
بلوچستان کے اختیارات صوبائی سیاسی پارٹیوں کے سپرد کرنا
ماضی کے انتخابات
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور معروف سیاستدان کی جانب سے پارٹی کو بنائے جانے کے محض ایک سال بعد بی بی این پی مینگل 1997 کے عام انتخابات میں 9 صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اختر مینگل جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پارٹی میں اختلافات پیدا ہوگئے اور اختر مینگل کو بلوچستان میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے سے متعلق پارٹی سے مشاورت نہ کرنے کے الزامات کے باعث استعفیٰ دینا پڑا، جس کے بعد نواب اسراراللہ زہری کی سربراہی میں بی این پی عوامی تشکیل دی گئی۔
بی این پی مینگل نے 2002 اور 2008 کے عام انتخابات فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی سربراہی میں کرانے کی وجہ سے ان میں حصہ نہیں لیا، لیکن اس کے باوجود پارٹی کے تین امیدوار قومی و صوبائی نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پارٹی کا ایک سینیٹر بھی منتخب ہوا، جنہوں نے 2006 میں اپنی نشستوں سے اس وقت استعفیٰ دے دیا، جب بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔
عام انتخابات 2013
عام انتخابات 2013 سے قبل اگرچہ اختر مینگل طویل جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی پارٹی قومی و صوبائی اسمبلی کی صرف 2 نشستیں ہی جیت سکی تھی، اختر مینگل خود اپنی صوبائی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے اور ایک نشست انہوں نے قومی اسمبلی کی حاصل کی تھی۔
ابتداء میں اگرچہ اختر مینگل نے 2013 کے انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات عائد کرکے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے نتائج کو قبول کرکے حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
اہم واقعات اور تنازعات
2012 میں اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں 6 نکات پیش کیے تھے، جن کا شیخ مجیب الرحمٰن کے ان چھ نکات سے موازنہ کیا جا رہا تھا، جو بعد ازاں بنگلہ دیش بنانے کا سبب بنے۔
ان 6 نکات میں لاپتہ افراد کی واپسی، مبینہ طور پر فوجی اور حساس اداروں میں قائم ڈیتھ اسکواڈز کے خاتمے جیسے متنازع مطالبے شامل تھے۔
بی این پی مینگل نے 2002 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جس میں انہیں ایک صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست حاصل ہوئی، جس کی بدولت سینیٹ کی ایک سیٹ بھی اس کے حصے میں آئی، تاہم 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد پارٹی نے اسمبلیاں چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نشستوں سے استعفیٰ دے دیا۔
پارٹی نے 2008 کے انتخابات میں بھی بائیکاٹ جاری رکھا اور کراچی جیل سے رہائی کے بعد اختر مینگل نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔
2013 کے عام انتخابات میں بلوچ قوم پرست جماعتوں اور رہنماؤں کے شدید دباؤ کے باوجود بی این پی نے انتخابات میں حصہ لیا، جس کے بعد پارٹی میں تنازعات اور جھگڑے شروع ہوگئے۔
پارٹی کی تاریخ میں سب سے زیادہ تنازع 2006 میں اس وقت ہوا، جب اختر مینگل کے ذاتی سیکیورٹی گارڈ نے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر خفیہ ادارے کے اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد اختر مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔
اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ اہلکار کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کیوں کہ وہ ان کے بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اختر مینگل کو کئی سالوں تک جیل بھیج دیا گیا، اور رہائی کے بعد انہوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی، جو 4 سال تک جاری رہی۔
2017 میں بلوچستان کے شہر خضدار کے علاقے وڈھ میں قائم ان کے گھر پر نامعلوم افراد نے راکٹ سے حملہ کیا، جس کی وجہ سے ان کے گھر کا مرکزی دروازہ بری طرح متاثر ہوا، تاہم اس میں کوئی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
اسی طرح ملک کی 19 ویں مردم شماری کے حوالے سے بھی دیگر بلوچ قوم پرست جماعتوں کی طرح بی این پی (مینگل) نے بھی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ صوبے کی سیکیورٹی کی صورتحال مناسب نہیں اور وہاں لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں۔
بی این پی مینگل کے متعدد رہنما بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے دوران مارے جاچکے ہیں۔
بی این پی مینگل کو جہاں بلوچ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہیں محب وطن پاکستانی سوچ رکھنے والے افراد کی جانب سے بھی ان پر دوہرا معیار رکھنے کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔
پارٹی پر الزام ہے کہ وہ جہاں بلوچ قوم پرست سیاست کرتی ہے، وہیں وہ محب وطن پاکستانی ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔

موروثی سیاست،
پاکستانی سیاست کا سب سےبڑاالمیہ

موروثی یا خاندانی سیاست پاکستان میں ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب پاکستان تحریک انصاف نے اپنے رکن اسمبلی جہانگیر خان ترین کی نااہلی کے بعد انہی کے بیٹے علی ترین کو ان کی خالی نشست کیلئے نامزد کیا تو عمران خان پر بھی موروثی سیاست کی حمایت کرنے کے الزامات لگے۔ حالانکہ عمران خان کے اپنے خاندان کا کوئی فرد یا ان کے بیٹوں میں سے کوئی بھی اس وقت سیاست میں نہیں ہے۔
جب کہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ہر ملک میں کچھ نہ کچھ خاندان ایسے ہوتے ہیں جن کی قومی سیاست پر، قومی وسائل پر، نجی یا قومی شعبے میں تاریخی وجوہات کی بنا پر اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔ تاہم اس اجارہ داری کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے مختلف انداز، زاویے اور درجے ہوتے ہیں اور ان تمام باتوں کا ان ممالک کے سماجوں کی ترقی، تعلیم اور معیشت طے کرتی ہے۔ جاگیردارانہ نظام میں موروثی سیاست کا کردار زیادہ ہوگا جبکہ صنعتی معیشت میں کم۔
موروثی سیاست یا قیادت صرف بڑے خاندانوں تک محدود نہیں ہے یہ طرز سیاست معاشرے کے نچلے طبقوں میں بھی بہت زیادہ مروج ہے۔ ایک خاندان کی اجارہ داری صرف قومی یا صوبائی اسمبلیوں تک ہی محدود نہیں، مقامی حکومتوں میں بھی امیدواروں کی شرح موروثی سیاست کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ میڈیا پر بیٹھ کر موروثی یا خاندانی سیاست کو برا بھلا تو کہا جاتا ہے مگر عملاً اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمینٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے محقق، ڈاکٹر علی چیمہ اور ان کے ساتھیوں (حسن جاوید، اور محمد فاروق نصیر) نے پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا تھا۔ ان کے مطابق، امریکی کانگریس میں 1996 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010 تک 28 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔ (کسی بھی جمہوری معاشرے کیلئے موروثی سیاست کی یہ شرح ناقابل قبول ہے۔)
انہی محقیقن کے مطابق، موروثی یا خاندانی سیاست کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400 خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آرہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اُن کے مطابق 1985 کے انتخابات سے 2008 کے انتخابات تک ہر انتخابی حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی مجموعی دو تہائی تعداد موروثی یا خاندانی سیاست سے تعلق رکھتی ہے۔ اور تاحال یہ حالات بدلے نہیں ہیں۔
اب بھی زیادہ تر خاندانی سیاست میں بیٹوں کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ اس کے بعد قریبی رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے، پھر بھتیجوں کا نمبر ہے اور سب سے کم دامادوں کا حصہ ہے۔ بیٹیوں کا حصہ شاذ و نادر نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ موروثی یا خاندانی سیاست دان 2008 کے انتخابات تک قومی اسمبلی کا پچاس فیصد رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ الیکٹ ایبلز” امیدوار ڈھونڈے اور اس طرح نئی جماعت بھی موروثی سیاست سے بچ نہیں پاتی ہے۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے غیر جماعتی انتخابات میں نئے امیدوار انتخابات میں آئے مگر ان ہی میں سے نئے آنے والوں میں سے چند ایک نے اپنی نئی حاندانی سیاسی اجارہ داریاں قائم کرلیں۔ جرنیلوں کے بچوں نے انتخابات لڑ کر اپنی اجارہ داریاں بنانے کی کوششیں کیں ہیں۔ یعنی فوجی حکمرانوں نے موروثی قیادت کو کمزور نہیں کیا۔ اس لئے اس سے یہ بات نظر آتی ہے کہ نئی قیادت کے آنے سے ضروری نہیں ہے کہ موروثی سیاست یا خاندانی سیاست کا نظام کمزور ہو گا۔
اسی تحقیق میں یہ بھی نظر آیا کہ موروثی سیاست جاگیرداروں کے طبقے تک محدود نہیں ہے، بلکہ سیاست میں آنے والے صنعت کاروں اور کاروباری طبقے بھی اپنے اپنے وارث سیاست میں لیکر آئے اور اس طرح انھوں نے موروثی سیاست کی روایت کو جلا بخشی۔ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں امیدواروں کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط تو رکھی تھی مگر جب انھوں نے جوڑ توڑ کی سیاست کی تو سیاسی خاندانوں کے گریجویٹ چشم و چراغ پھر سے اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔
پنجاب کے بڑے سیاسی خاندان بشمول نواز شریف، چوہدھریز آف گجرات، ٹوانے، قریشی، گیلانی، جنوبی پنجاب کے مخدوم اور اقتدار میں رہنے والے جرنیلوں کے بچے، نہ صرف قومی اسمبلی میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھتے ہیں بلکہ صوبائی اسمبلیاں بھی براہ راست ان ہی کے خاندان کے افراد یا ان سے وابستہ لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ نواز شریف کی اپنی بیٹی، مریم نواز کو مسلم لیگ کا لیڈر بنانے کی کوشش بھی ان کی جماعت میں کشیدگی بڑھنے کی ایک وجہ سمجھی جاتی ہے۔
شدت پسند اور کالعدم مذہبی جماعتوں میں سوائے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے، کسی میں موروں سیاست نہیں ہے۔ مگر جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن اپنے والد مفتی محمود کی وجہ سے لیڈر بنے، جبکہ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کے بعد ان کی بیٹی قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔
موروثی یا خاندانی سیاست کی یہی حالت صوبہ خیبر پختون خواہ کی ہے جہاں اس وقت بڑا سیاسی خاندان پرویز خٹک کا ہے، روایتی طور پر وہاں بڑا سیاسی خاندان خان عبدالولی خان کا رہا ہے۔ ہوتیوں کا خاندان، سیف اللہ کا خاندان، یوسف خٹک کا خاندان، ایوب خان کا خاندان اور مولانا مفتی محمود کا خاندان اس موروثی سیاست سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ قاضی حسین احمد کا خاندان بھی جماعت اسلامی میں موروثی سیاست کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔
سندھ میں کیونکہ سیاست زیادہ تر جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے تو وہاں موروثی سیاست معاشرتی طور پر بہت زیادہ مضبوط ہے۔ لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں الطاف حسین کی متحدہ قومی موومینٹ نے اپنے زیر اثر حلقوں میں ایک نئی جماعت ہونے کی وجہ سے موروثی یا خاندانی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب جبکہ یہ جماعت اسٹیبلشمینٹ کے عتاب کا شکار ہے تو خدشہ ہے کہ اس میں بھی ایسی تبدیلیاں آئیں جو موروثی یا خاندانی سیاست کو واپس لانے کا سبب بنیں۔
سندھ میں عموماً موروثی سیاست کے حوالے سے بھٹو خاندان کا نام لیا جاتا ہے۔ تاہم وہاں، زیادہ تر سیاسی رہنما موروثی لیڈر ہی ہوتے ہیں۔ البتہ بھٹو خاندان کے بارے میں یہ کوئی بات نہیں کرتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو موروثی سیاست نہیں ملی تھی۔ وراثت کے لحاظ سے ممتاز بھٹو کو سیاست کرنا تھی اور اگر بھٹو کی حکومت کا تختہ نہ الٹا جاتا تو بے نظیر بھٹو کے لیڈر بننے کے امکانات بہت ہی کم تھے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی اپنی پر تشدد موت نے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی جس کی وجہ سے قیادت ان کے بیٹے کو ملی۔ تشدد اور مارشل لا وغیرہ نے پیپلز پارٹی میں موروثی سیاست کو مضبوط کیا۔
بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں، سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔ یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک، سابق وزیر اعلیٰ، کے علاوہ ڈاکٹر اللہ نذر کی زیر قیادت قوم پرست بلوچ لبریشن آرمی ایسی ہے جہاں فی الحال موروثی قیادت نظر نہیں آتی ہے۔
سوائے ڈاکٹر اللہ نذر کی بلوچ لبریشن آرمی کے، بلوچستان میں سیاسی قیادت قبائلی نظام کی وجہ سے موروثی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ شدت پسند تنظیمیں، لشکر طیبہ، جماعت الدعوٰۃ، جماعت اہل سنت والجماعت اور تحریک طالبان پاکستان میں تاحال موروثی سیاست نظر نہیں آتی ہے۔ لیکن تحریک نفاذ شریعت محمدی میں موروثی قیادت واضح طور پر نظر آتی ہے کیونکہ صوفی محمد کے داماد فقیر اللہ نے قیادت سنبھال لی۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے محقیقین، عبدالقادر مشتاق، محمد ابراہیم اور محمد کلیم کے مطابق، موروثی سیاست کے بارے میں ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیونکہ تاریخی لحاظ سے بڑے سیاسی خاندان ریاستی وسائل، اپنی خاندانی دولت، حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اور مخالفین یا دوسروں پر تشدد کرنے کی صلاحیت پر اجارہ داری رکھتے ہیں اس لئے انہی خاندانوں کی اگلی نسل کے لیے سیاست میں اپنی حیثیت بنانا یا منوانا آسان ہوتا ہے۔
پاکستان میں موروثی سیاست یا خاندانی سیاست و قیادت نہ صرف اعلیٰ سطح پر مروج ہے بلکہ کونسلر کی سطح کے انتخابات میں بھی لوگ عموماً ایک ہی خاندان سے وابسطہ امیدواروں کو منتخب کرتے ہیں۔
پھر ایک بات اور بھی کہی جاتی ہے کہ موروثی سیاست ان معاشروں میں زیادہ مضبوط ہوتی ہے جن میں جمہوری روایات پھلی پھولی نہیں ہوتی ہیں اور غیر جمہوری قوتیں گاہے بگاہے جمہوری نظام میں مداخلت کرتی رہتی ہیں (بھارتی پنجاب میں اگر موروثی یا خاندانی سیاست کا حصہ 28 فیصد ہے تو پاکستانی پنجاب میں 53 فیصد)۔ تاہم اب ایک رجحان دیکھا جا رہا ہے کہ موروثی سیاست دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں کمزور ہو رہی ہے۔
روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty is not Democracy میں کہتی ہیں کہ موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جبکہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔ اس کے علاوہ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی دولت کی بہتر تقسیم اور صنعتی ترقی بھی موروثی سیاست کو کمزور کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔

پاکستان میں انتخابات

پس منظر:
پاکستان کے انتخابات کی تاریخ پاکستان سے بھی پہلے شروع ہوتی ہے جب دسمبر انیس سو پینتالیس میں جداگانہ بنیادوں پر ہندوستان کی مرکزی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور کانگریس نے اسی فیصد سے زائد غیر مسلم نشستیں اور مسلم لیگ نے تیس کی تیس مخصوص مسلم نشستیں پاکستان کے نام پر جیت لیں۔س کے علاوہ مسلم لیگ نے صوبہ سرحد کو چھوڑ کر دیگر مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی اچھی خاصی نشستیں حاصل کرلیں۔ لیکن یہ انتخابات ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر نہیں تھے۔ بلکہ ووٹر بننے کے لئے صاحبِ جائیداد یا ٹیکس دھندہ ہونے کی شرط تھی۔ہر ایرا غیرا ووٹ نہیں دے سکتا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد:۔
قومی سطح پر پاکستان میں مجلس شوریٰ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمان عام انتخاب کے ذریعہ قائم شدہ ایوان زیریں جبکہ صوبائی ایوانوں کے ارکان کے ذریعہ ایوان بالا کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ایوان زیریں میں منتخب کیا جاتا ہے جبکہ صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ صوبائی و قومی ایوانوں کے علاوہ پاکستان میں پانچ ہزار سے زائد منتخب شدہ بلدیاتی حکومتیں بھی کام کر رہی ہیں۔
پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں ہیں۔ عام طور پر کوئی بھی ایک جماعت اکثریت حاصل نہیں کرتی اور عام انتخابات کے بعد حکمران اتحاد کا قیام ضروری ہوتا ہے۔
1947ء – 1958ء
1947ء اور 1958ء کے دوران پاکستان میں قومی سطح پر کوئی بھی عام انتخابات منعقدنہ ہو سکے۔ صوبائی انتخابات بہرحال منعقد ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان میں منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
پاکستان میں پہلے عام انتخابات صوبہ پنجاب میں مارچ 1951ء میں منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات 197 نشستوں کے لیے منعقد ہوئے۔ کل 939 امیدواروں نے 189 نشستوں کے لیے مقابلہ کیا جبکہ باقی کی نشستوں پر بلامقابلہ ارکان منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں کل سات سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ کل رجسٹرڈ شدہ ووٹروں کی تعداد تقریباً نو ملین تھی۔ ان انتخابات میں ٹرن آؤن بہت کم رہا، لاہور جو صدر مقام ہے میں بھی صرف %30 ٹرن آؤٹ رہا۔
دسمبر 1951ء میں صوبہ سرحد میں صوبائی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ کے عین مطابق ہارنے والے امیدواروں نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور مبینہ بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات لگائے۔ اسی طرح مئی 1953ء میں صوبہ سندھ کے صوبائی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کو شکست ہوئی اور بنگالی قوم پرست جماعت نے جیت حاصل کی۔ ان انتخابات میں بھی بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔
پاکستان کی پہلی انہتر رکنی قانون ساز اسمبلی انہی مسلم اور چند مقامی غیر مسلم نمائندوں کو ملا کر بنائی گئی تھی۔ ان میں سے چوالیس کا مشرقی بنگال سے، سترہ کا مغربی پنجاب سے ، چار کا سندھ سے، تین کا صوبہ سرحد سے اور ایک کا کوئٹہ میونسپلٹی سے تعلق تھا (اس وقت بلوچستان کا وجود نہیں تھا۔اور ریاست قلات پاکستان میں شامل نہیں تھی)۔
پاکستان بننے کے بعد پہلے انتخابات مارچ انیس سو اکیاون میں پنجاب اسمبلی کی ایک سو ستانوے نشستوں کے لیے ہوئے۔جن میں سات جماعتوں نے حصہ لیا اور ووٹرز لسٹ میں صرف ایک ملین ووٹر تھے۔ لیکن ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح تیس فیصد سے بھی کم رہی۔ دسمبر انیس سو اکیاون میں سرحد اسمبلی کے، مئی تریپن میں سندھ اسمبلی کے انتخابات ہوئے جن میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی۔
البتہ اپریل انیس سو چون میں جب مشرقی پاکستان اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو بنگالی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد جگتو فرنٹ کے ہاتھوں مسلم لیگ کو پہلی بھر پور انتخابی زک پہنچی کیونکہ مسلم لیگ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حق میں نہیں تھی۔
انیس سو اکیاون سے چون تک کے عرصے میں ہونے والے ان انتخابات کا معیار کیا تھا اس کا اندازہ جھرلو کی اصطلاح سے ہو سکتا ہے جو پہلے پہل پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کی نشاندھی کے لیے استعمال ہوئی۔ انیس سو چھپن میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز دینے والے سرکاری کمیشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان بننے کے بعد سات برس کے عرصے جتنے بھی صوبائی انتخابات ہوئے وہ جعل سازی، فراڈ اور مذاق سے زیادہ نہیں تھے۔
اور پھر انہی منتخب صوبائی اسمبلیوں نے انیس سو چون میں پاکستان کی دوسری مجلسِ قانون ساز تشکیل دی جس نے ون یونٹ نظام کے تحت انیس سو چھپن کا پہلا آئین بنایا۔ یہ اسمبلی اسی ارکان پر مشتمل تھی یعنی ملک کے دونوں حصوں سے چالیس چالیس ارکان لیے گئے تھے۔ آئین کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ ایک تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیا۔
لیکن اس سے پہلے کہ یہ الیکشن کمیشن انتخابات کرا پاتا۔ صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کی مدد سے سات اکتوبر انیس سو اٹھاون کو مارشل لا لگا کر آئین، اسمبلی اور الیکشن کمیشن کو ہی لپیٹ دیا۔اور پھر بیس روز بعد جنرل ایوب نے سکندر مرزا کی بساط لپیٹ دی۔بہت سے سیاستداں اور اسمبلی ارکان کو سات برس کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ایک اور آئینی کمیشن بنا جس نے سن باسٹھ کا صدارتی آئین بنایا۔
انیس سو باسٹھ کے آئین کے تحت ایک سو چھپن ارکان پر مشتمل جو قومی اسمبلی تین برس کے لیے وجود میں آئی، اس کا چناؤ عوام نے نہیں بلکہ صدر ایوب کے بنیادی جمہوریتی نظام کے تحت عوامی ووٹ سے بننے والے اسی ہزار بیسک ڈیموکریٹس نے کیا۔ بعد ازاں آئین میں ترمیم کرکے اسمبلی کے ارکان کی تعداد دو سو اٹھارہ اور الیکٹورل کالج ( بیسک ڈیموکریٹس) کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک کر دی گئی۔انہی بیسک ڈیمو کریٹس نے جنوری انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ایک اور مدت کے لئے صدر منتخب کیا۔ایوب خان اس دوڑ میں مسلم لیگ کنونشن کے حمائیت یافتہ تھے۔جبکہ فاطمہ جناح کی حمائیت کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز نامی پانچ جماعتی اتحاد کررھا تھا۔الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لئے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی۔
لیکن جب اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عام لوگ فاطمہ جناح کو سننے کے لیے جوق در جوق آ رہے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے ہر فریق کے لیے زیادہ سے زیادہ نو پروجیکشن میٹنگز منعقد کرنے کی حد لگا دی ۔جن میں صرف الیکٹورل کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔عوام کو ان اجلاسوں میں آنے کی ممانعت تھی۔
عجیب بات ہے کہ ایوب خان جنہیں عام طور پر ایک لبرل اور سیکولر شخصیت سمجھا جاتا تھا انہوں نے کئی علماء سے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ لیا۔جبکہ جماعتِ اسلامی نے کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ایوب خان کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ باسٹھ کے آئین کے تحت اس وقت تک صدر رہ سکتے تھے جب تک انکا جانشین منتخب نہ ہوجائے۔
چنانچہ ایوب خان بحثیت صدر پوری سرکاری مشینری اور ہر طرح کا دباؤ برتنے کے بعد حسبِ توقع بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔اس کے نتیجے میں سیاسی حلقوں میں جو مایوسی پھیلی اس نے تین برس بعد ایوب خان کے خلاف بھرپور ملک گیر ایجی ٹیشن کی بنیاد رکھ دی۔
میں اس مضمون میں بات کا ایک مختصر تجزیہ پیش کررہا ہوں کہ 1970ء سے لے کر 2008ء تک کے عرصے کے دوران پاکستان میں براہ راست حق رائے دہی کے ذریعے ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور شکست سے دوچار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ ان انتخابات نے پاکستانی سیاست کی ترتیب و تشکیل پر کیا اثرات مرتب کیے۔

1970ء کے انتخابات:
یہ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پاکستان کے پہلے انتخابات تھے اور ان کے متعلق یہ بھی کہا جارہا تھا کہ یہ ملکی تاریخ میں ہونے والے سب سے زیادہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پولنگ 7 دسمبر، 1970ء جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ 17 دسمبر کو ہوئی۔ پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے ساتھ ساتھ اس موقع سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ۔ یہ انتخابات یحیٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر(ایل ایف او)برائے تیس مارچ 1970ء کے تحت منعقد کیے گئے۔ جس میں راۓئے دہی کے حوالے سے اصول بھی طے کیے گئے تھے۔ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی مہم میں صف اول پر تھیں۔ پاکستان کے پہلے براہ راست انتخابات ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف ہی ماحول دوستانہ رہا اور انہوں نےاس کے طریقہ کار کا توجہ کے ساتھ مشاہدہ نہیں کیا۔ چنانچہ جب عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی تین سو تیرہ نشستوں میں سے 167 نشستیں حاصل کر کے میدان مار لیا ،اور اس طرح یہ واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی جسے حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہوا تو مغربی پاکستان میں سب حیران رہ گئے کہ اب کیا ہوگا؟ اس لیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی جو عوامی لیگ کے مدمقابل تھی، قومی اسمبلی کی 80 نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی۔ اس وقت کی مقتدر طاقتوں نے ایک نیا کھیل شروع کردیا، عوامی لیگ کو حق رکھنے کے باوجودحکومت نہیں بنانے دی گئی، ظاہر ہے کہ جس کا نتیجہ پاکستان کے مشرقی حصے میں احتجاج کی صورت میں ہی نکلنا تھا، یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا جو بالآخر پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بنی اور بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست بن کر دسمبر 1970ء کو دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔
مغربی پاکستان میں صدارت بھٹو کے سپرد کر دی گئی، یہی نہیں بلکہ انہوں نے ملک کے پہلے غیر فوجی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے چارج سنبھالا اور 1972ء میں انہوں نے مختصر مدتی قومی اسمبلی کو ایک دستور ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا، جو کہ مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے والے 138 ارکان، خواتین کی نشستوں سے 6، اور مشرقی پاکستان کی نشستوں پر منتخب ہونے والے 2 ارکان، جن کا تعلق عوامی لیگ سے نہیں تھا، پر مشتمل تھی۔ بالآخر وہ اسمبلی، جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم منتخب کیا اور 1973ء کے آئین کا مسودہ تیار کیا، کی مدّت 1977ء تک بڑھادی گئی۔

1977ء کے انتخابات:
1977ء کے انتخابات سال کے دوسرے نصف میں منعقد ہونا تھے، لیکن بھٹو نے اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ یہ انتخابات سال کے اوائل میں 7 مارچ کو ہی منعقد ہوں گے ۔ جنوری 1977ء میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی بھٹو نے ایک بہت بڑی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا،عوامی اجتماعات اور پُرہجوم جلسوں سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے نام نہاد اسلامی اشتراکیت کی تشہیر کی، یہی نہیں بلکہ مذہبی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مذہبی حقوق کے نام پر مختلف احکامات بھی جاری کرنے شروع کر دیے ۔
اس وقت دائیں بازو کی نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان نیشنل الائنس بھٹو کے مدّمقابل تھا۔ یہ سیاسی ومذہبی جماعتیں 1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس کے خلاف متحد ہوگئی تھیں۔ انہوں نے بھٹو اور ان کے ساتھیوں پر بدعنوانی، بد انتظامی اور ملک کو بحران میں مبتلا کرنے کا الزام عائد کیا۔ پی این اے نے مذہب کو اپنا بنیادی نعرہ بنایا تھا اور ساتھ ہی بھٹو کے خلاف مہم بھی جاری رکھی، ان کی تنقید کا ہدف ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی خامیاں تھیں۔
جب 1977ء انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی ایک بڑی اکثریت کے ساتھ جیت گئی، اس نے قومی اسمبلی کی 200 نشستوں میں سے 100 پر کامیابی حاصل کی۔ پی این اے جس نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا، اس نے قومی اسمبلی میں صرف 36 نشستیں حاصل کیں ۔ الائنس نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور ایک بڑی سول نافرمانی کی ملک گیر مہم شروع کردی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ، اور پیپلز پارٹی کے صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد نے انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا بھی مطالبہ کیا ۔
ابتداء میں تو بھٹو نے قومی اتحاد کے مطالبات مسترد کر دیے، لیکن بعد میں ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی، دونوں جانب سے گفت و شنید کےسلسلے کے بعد انتخابات دوبارہ کرانے پر اتفاق کی کچھ اُمید پیدا ہوئی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس کا موقع آتا، بھٹو کے منتخب کردہ چیف آف آرمی اسٹاف ضیاء الحق نے جولائی 1977ء کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔
چنانچہ افسوسناک واقعات ایک سلسلہ ہے جو یکے بعد دیگرے سامنے آتا رہا اورپہلے بھٹو کی گرفتاری اور آخر میں محمّد احمد قصوری (ایک مشہور وکیل اور بھٹو کے سابقہ وفادار احمد رضا قصوری کے والد) کے قتل کے مقدمے میں پھانسی تک اختتام پذیر ہوا۔

1985ء کے غیر جماعتی انتخابات:
جنرل ضیاء کے دور حکومت میں انتظامیہ بے لچک تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی اور فروری 1985ء میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور قید میں ڈال دیا گیا جو جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے تھے، ان سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف اتحاد تشکیل دے دیا تھا ۔
انتخابات سے پہلے بہت سے قوانین اور قواعد میں تبدیلیاں کی گئیں۔ جداگانہ انتخابات کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔ ووٹ رجسٹریشن کی درخواست میں ایمان کی شہادت کو لازمی قرار دیا گیا۔ عوام کی نظر میں ان انتخابات کا مقصد ایک نمائندہ حکومت کے قیام کے برعکس، ضیاء الحق کے اقتدار کو قانونی حیثیت دینا تھا اور یہ خیال اُس وقت درست ثابت ہوگیا جب انتخابات کے بعد اختیارات پارلیمنٹ سے صدر یعنی ضیاء الحق کو منتقل ہو گے۔ اختیارات کی منتقلی آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ہوئی جس کو اس سال کی منتخب قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا ۔
حالانکہ ضیاء الحق بار بار یہی کہتے رہے کہ یہ تمام اقدامات آئین کے مطابق ہیں جبکہ دوسری جانب سیاسی جماعتیں جن پر انتخابات میں حصّہ لینے پر پابندی تھی، 1973ء کے آئین کی بحالی کا مطالبہ کرتی رہیں۔

1988ء کے انتخابات:
انتیس مئی، 1988ء کو ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا۔ بعد میں اُنہوں نے نومبر 1988ء کو ملک گیر غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ لیکن مطلق العنان فوجی حکمران کو اپنے اس اعلان پر عمل ہوتے ہوئے دیکھنے کا موقع نہ مل سکا کہ اُن کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا اور ان کے ساتھ امریکی سفیر آرنلڈ رافیل بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حالانکہ ضیاء کے فیصلے مطابق 1988ء کے انتخابات غیر جماعتی ہونا تھے، لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی طرف سے دائر کی گئی پٹیشن کے جواب میں سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ بے نظیر نے یہ دلیل دی کہ یہ طریقہ کار بنیادی حقوق کی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
چنانچہ سیاسی جماعتوں میدان صاف ہو گیا۔ بے نظیر پیپلز پارٹی کی قیادت کررہی تھیں۔ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 16 اور 19 نومبر 1988ء کو یکے بعد دیگرے منعقد ہوئے۔ بہر حال پیپلز پارٹی کے سیاسی میدان میں واپسی کے ساتھ ہی ایک انتخابی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے تشکیل دے دیا گیا۔ یہ جماعت پیپلز پارٹی کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف جماعتوں نے مل کر بنائی تھی، اس کے نمایاں ارکان جماعت اسلامی اور مسلم لیگ تھے۔
سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم زیادہ تر پُر امن رہی، نتائج آنے پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی، اس نے قومی اسمبلی کی 204 نشستوں میں سے 93 نشستیں حاصل کیں اور دوسری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے ایک مخلوط حکومت قائم کی۔ 4 دسمبر 1988ء کو بے نظیر ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا حلف اُٹھایا۔

1990ء کے انتخابات:
بے نظیر کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بد عنوانی اور لاقانونیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں بر طرف کر دیا۔ 24 اکتوبر 1990ء کے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بے نظیر نے ملک گیر جلسے منعقد کرنے شروع کر دیے، جن میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کارکنان نے شرکت کی، اسی دوران نواز شریف نے بھی انتخابی مہم کے تحت عوامی جلسے شروع کر دیے۔ اس بار پیپلز پارٹی نے پاکستان جمہوری اتحاد کے جھنڈے تلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس جماعت میں تین اور جماعتیں شامل تھیں، اصغر خان کی تحریک استقلال ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور پاکستان مسلم لیگ کا ملک قاسم گروپ شامل تھے۔ حالانکہ بےنظیر کی جماعت کے حامی کافی زیادہ تھے لیکن انتخابات میں دیکھا گیا کہ آئی جے آئی جیسی قدامت پسند جماعت نے قومی اسمبلی میں 105 نشستیں جیتیں جب کہ پی ڈی اے نے صرف 44 نشستیں حاصل کیں۔ چنا نچہ نواز شریف نے اسلام آباد میں حکومت قائم کی جبکہ پیپلز پارٹی انتخابات میں دھاندلی کا گلہ کرتی رہی۔ لیکن اس کے اعتراضات کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
کافی عرصے کے بعد 1996ء میں اصغر خان نے آئی ایس آئی کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ 1990ء کے انتخابات میں پی ڈی اے کو ہرانے کے لئے آئی ایس آئی نے سیاست دانوں کو بھاری رقوم بطور رشوت دی تھی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ سنایا ہے، جس کے مطابق 1990ء کے انتخابات غیر منصفانہ اور بدعنوانی پر مبنی تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ بعض سیاسی رہنماؤں کو رشوت دی گئی تھی تا کہ عوام اپنے نمائندوں کا آزادانہ انتخاب نہ کر سکیں۔ خیر کچھ ہی عرصے میں صدر غلام اسحاق خان اور نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے جس کے نتیجے میں نواز شریف کا دور حکومت 1993ء کو ختم ہوگیا اور ساتھ ہی صدر نے بھی استعفا دے دیا۔ اس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے بحیثیت صدر اور معین قریشی نے قائم مقام وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

1993ء کے انتخابات:
ان انتخابات میں نواز شریف اور ان کے حامیوں نے پاکستان مسلم لیگ، نواز گروپ کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔ کچھ لوگ جنہوں نے نواز گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، انہوں نے پاکستان مسلم لیگ، جونیجو گروپ کا نام اختیار کیا ۔
یہ انتخابات 6 اکتوبر 1993ء کو منعقد ہوئے، جس میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کافی نشستیں حاصل کیں، مگر وہ اتنی نہ تھیں کہ پیپلز پارٹی اپنی حکومت بنا سکے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی دوسری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر اپنی حکومت قائم کرلی اور بے نظیر دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ مسلم لیگ نون نے بےنظیر حکومت میں حزب مخالف کا کردار سنبھال لیا ۔
فاروق احمد خان لغاری ملک کے صدر منتخب ہوئے، شاید صرف اس لیے کہ آگے چل کر بے نظیر کی حکومت کو بر طرف کر سکیں۔ ابتدا میں برطرفی کی وجہ پیپلز پارٹی کی صدر اور ان کے خاوند آصف علی زرداری پر بد عنوانی کے الزامات تھے۔ سندھ میں ہنگامہ آرائی، سپریم کورٹ سے مسلسل اختلافات اور بےنظیر کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا کراچی میں پولیس مقابلے میں قتل نے ان حالات کے دوران جلتی پر تیل کا کام کیا۔

1997ء کے انتخابات:
بےنظیر حکومت کی برطرفی کے بعد صدر نے 6 فروری، 1997ء کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مابین انتخابی جنگ شروع ہو گئی۔
سابقہ حکومت کی نااہلی کے بعد، انتخابی مہم کا زیادہ تر زور بد عنوانی کے خاتمے، مستحکم اقتصادی حالت کی کوششوں اور نسلی تعصب ختم کرنے پر تھا۔
انتخابات میں دیکھا گیا کہ مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی میں 135 نشستیں حاصل کیں جبکہ پیپلز پارٹی بمشکل 18 نشستیں حاصل کر پائی، متحدہ قومی موومنٹ نے 12 اور عوامی نیشنل پارٹی نے 9 نشستیں حاصل کیں۔
مسلم لیگ نون نے اپنی حکومت قائم کی اور پیپلزپارٹی کی شکست کے کچھ ماہ بعد بینظیر نے ملک چھوڑ دیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔

2002ء کے انتخابات:
نواز شریف کی 1997ء کی فتح مختصر مدت کے لیے تھی، جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوجی انقلاب ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یہ فوجی انقلاب نواز شریف اور ان کے منتخب کردہ آرمی چیف کے درمیان مہینوں سے پروان چڑھنے والے اختلافات کا نتیجہ تھا۔
اس انقلاب کے ڈیڑھ سال بعد جنرل مشرف نے 10 اکتوبر ، 2002ء کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ سیاسی جماعتیں جو ایک مدت سے اس وقت کا انتظار کر رہی تھیں میدان میں آگئیں اور تقریباً پچاس کے قریب گروپوں نے نشستوں کے حصول کے لیے انتخابی مہم میں حصّہ لینا شروع کر دیا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ قاف نے 118 نشستیں اور پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں حاصل کیں۔ متحدہ مجلس عمل نے 60 جبکہ مسلم لیگ نون بمشکل 19 نشستیں حاصل کر پائی۔ پولنگ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے 17 اور عمران خان کی تحریک انصاف نے فقط ایک نشست حاصل کی۔ مسلم لیگ قاف جسے بادشاہ کی جماعت بھی کہا جانے لگا تھا، متحدہ مجلس عمل (جو کہ مذہبی جماعتوں کا مجموعہ تھی) کو اپنا سب سے اہم حلیف بنا لیا۔ چنانچہ مرکز میں مسلم لیگ قاف کی قیادت میں حکومت بنائی گئی، جس کے حقیقی قائد جنرل مشرف خود تھے اور جیسا کہ انہوں نے آغاز نسبتاً اچھی شہرت کے ساتھ کیا تھا، ان کے دور حکومت میں ہونے والے واقعات خاص طور سے اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد آپریشن، بینظیر کا قتل اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی برطرفی نے عوام کی نظر میں شہرت کو نقصان پہنچایا۔
بگڑتی ہوئی ساکھ نے فوجی حکمران کو نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور قومی میڈیا پی پابندی عائد کرنے پر مجبور کر دیا ۔
حالات ایسے ہو گئے کہ موجودہ ریٹائرڈ جنرل کو، اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، ساتھ ہی 8 جنوری 2008ء کو انتخابات کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ جو کہ آخر کار اس سال 18 فروری کو ہوئے۔ انتخابات کے کچھ ماہ بعد پرویز مشرف صدارت سے مستعفی ہو گئے اور خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرکے لندن چلے گئے۔

2008ء کے انتخابات:
انتخابات جو کہ بینظیر کے قتل کے ایک ماہ بعد ہی ہونے تھے، وہ امکان کے مطابق پیپلزپارٹی کے حق میں ثابت ہوۓ ئے۔ جماعت نے 122 نشستیں حاصل کیں، نواز گروپ نے 92 نشستیں، 25 نشستیں متحدہ قومی موومنٹ نے اور عوامی نیشنل پارٹی نے 13 نشستیں حاصل کیں ۔
پیپلز پارٹی نے مرکز میں دوسری جماعتوں، خاص طور سے مسلم لیگ نون کے اشتراک سے حکومت بنائی۔ گو کہ یہ اتحاد زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا، لیکن متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کئی سال تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی جبکہ مسلم لیگ قاف بہت بعد میں حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ کہ مشرف کے استعفے کے بعد زرداری کو ملک کا صدر منتخب کر لیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دو وزیر اعظم آئے، یوسف رضا گیلانی جن کو عدالت کی توہین پر نا اہل قرار دے دیا گیا تھا، دوسرے راجہ پرویز اشرف جن کو گیلانی کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔
ملکی تاریخ میں یہ پہلی منتخب غیر فوجی حکومت تھی جس نے اپنی معیاد پوری کی اور اس دوران کسی قسم کی فوجی مداخلت نہیں ہوئی۔
2013ء میں نئی اسمبلی کے انتخاب کے لیے، گیارہ مئی کو انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے۔ انتخابات میں جو بڑی جماعتیں حصّہ لے رہی ہیں ان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، مسلم لیگ قاف، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ ملک میں جاری بدامنی اوردہشت گردانہ حملوں کے ساتھ انتخابی مہم چلانا کافی دشوار ہو گیا ہے، خاص طور سے حال ہی میں متحدہ موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ انتخابی مہم اب خون آلود ہوچکی ہے۔ اب عوام اپنے ووٹ سے ایک نئی حکومت منتخب کرنے جارہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ عوام کا فیصلہ ملک کو کس طرز کے راستے پر آگے بڑھاتا ہے۔

2013کےانتخابات
11مئی 2013ء کو ملک کی 14ویں قومی اسمبلی کی تشکیل کیلئے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس انتخابی عمل کے دوران رائے دہندگان نے ملک کے چاروں صوبوں پنجاب‘ سندھ ‘ کے پی کے اور بلوچستان کے لئے صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا چناؤ بھی کیا۔ ان انتخابات میں ایک طرف سیاسی جماعتوں پر دھاندلی‘ نسلی اور فرقہ وارانہ رویوں کے الزامات لگے، دوسری جانب ان انتخابات کو یہ مثبت امتیاز بھی حاصل ہوا کہ ان کے نتیجے میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت نے اپنی 5سالہ مدت مکمل کی اور پُرامن انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوا۔
قومی اسمبلی کے 272حلقوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ خواتین اور اقلیتوں کی 72 مخصوص نشستیں اس کے علاوہ ہیں جو انتخابات میں کامیابی کے تناسب سے مختلف جماعتوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ ان انتخابات میں کوئی ایک جماعت 172نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جو سادہ اکثریت کے لئے درکار ہوتی ہیں۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن کے پاس بھی سادہ اکثیریت سے 6 ووٹ کم تھے، یوں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ 19 آزاد امیدواروں کی مدد سے ن لیگ نے مرکز میں اپنی حکومت بنائی اور میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے اتحاد بنایا جبکہ ن لیگ‘ مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچ پارٹیوں نے متحد ہو کر انتخاب لڑا۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی۔
انتخابات سے قبل جب نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ درپیش تھا تو مسلم لیگ ن‘ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام (ف) اس بات پر متفق تھیں کہ سابق سینئر جج ناصر اسلم زاہد کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا جا ئے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت اور حزب اختلاف میں عدم اتفاق کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ لحاظہ آئین کی رو سے نگران وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس آ گیا۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا۔
یکم اگست 2012ء کو پاکستان الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی منعقد کروائے جائیں گے۔
دسمبر2012: پاکستان سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ کراچی میں فوج کی نگرانی میں نئے سرے سے حلقہ بندیوں کی تشکیل کی جائے اور گھر گھر جا کر ووٹرز کی تصدیق کا عمل مکمل کیا جائے۔
17جنوری 2013ء: پاکستان الیکشن کمیشن نے گھر گھر جا کر رائے دہندگان کی تصدیق کے عمل کا آغاز کر دیا۔
3 فروری2013ء: صدر آصف علی زرداری نے اعلان کیا کہ ملک میں عام انتخابات 8 اور 14 مارچ 2013ء کے درمیان منعقد کرائے جائیں گے۔
31 مارچ 2013ء امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ مقرر ہوئی۔
2013ء کے انتخابات پر تشدد وواقعات کے حوالے سے بھی یاد رکھے جائیں گے۔ کالعدم تحریک طالبان نے ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں28اپریل کو 2آزاد امیدواروں کے دفاتر پر بم دھماکے ہوئے۔ کوہاٹ میں اے این پی کے ناصر خان آفریدی کے دفتر پر حملے میں 6 افراد شہید ہو گئے۔2مئی کو ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر بم دھماکہ ہوا۔ 4 مئی کو ایم کیو ایم کے عزیز آباد دفتر میں بم دھماکے میں 3 افراد شہید اور 34زخمی ہو گئے ۔ کُرم ویلی میں جے یو آئی (ف) کے منیر اورکزئی کی انتخابی ریلی پر حملے میں 15 افراد شہید اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ 9 مئی کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو اغوا کر لیا گیا۔ انتخابات والے د ن پولنگ کے اختتام تک مختلف پرتشدد واقعات میں 20 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
انتخابی نتائج کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں سانے آنے والی صورتحال کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ (ن) 214 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ میاں شہباز شریف صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے 94 نشستوں کے ساتھ سندھ میں حکومت بنائی، قائم علی شاہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف نے 39 نشستوں کے ساتھ حکومت بنائی جبکہ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی بھی اس حکومت میں شامل تھیں۔ حکومت کے سربراہ پرویز خٹک منتخب ہوئے۔ بلوچستان میں پختونخواہ میپ کی 10نشستیں تھیں جبکہ پاکستان نیشنل پارٹی کے سات ارکان کے ساتھ ن لیگ کے آٹھ ارکان ملا کر حکومت سازی کی گئی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔
دھاندلی اور فرقہ واریت پر مبنی رویوں سے داغ دار ہیں۔ الیکشن کو پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد پرامن انتقال اقتدارکی راہ ہموار کرنے کا منفراد امتیاز حاصل ہے۔

2018 کے انتخابات
کسی بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو ملنے والے مجموعی ووٹوں سے ملک کی مقبول ترین جماعت کا تعین ہوتا ہے اور ان ووٹوں کو انگریزی میں (Popular Votes) کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جو جماعت سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے وہی ملک میں مقبول ترین جماعت بھی ہوتی ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق عام انتخابات میں ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار تھی جبکہ مجموعی طور پر ووٹر ٹرن آؤٹ 51 اعشاریہ 82 فیصد رہا۔ اس حساب سے پورے پاکستان میں 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 472 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
ہر ووٹر عام طور پر دو (ایک صوبائی اسمبلی اور ایک قومی اسمبلی کے امیدوار کو) ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ممکن ہے کہ ووٹر قومی اور صوبائی اسمبلی پر ایک ہی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے یا پھر قومی پر الگ اور صوبائی پر الگ جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے دے۔
الیکشن 2018 میں ووٹرز ٹرن آؤٹ اور نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے بہت سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔
ن لیگ سے پاکستان کی مقبول ترین جماعت کا اعزاز چھِن گیا
عام انتخابات 2018 پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے علاوہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اعتراضات اٹھارہی ہیں تاہم ان اعتراضات سے قطع نظر پی ٹی آئی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔
ملک بھر سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی پر ملنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد ن لیگ کو ملنے والے مجموعی ووٹوں سے تقریباً 39 لاکھ 53 ہزار 485 ووٹ زیادہ ہے۔ اس حساب سے پی ٹی آئی قومی سطح پر پاکستان میں ووٹرز کی مقبول ترین جماعت بن کر ابھری ہے۔
2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان کی مقبول ترین جماعت تھی اور اس نے مجموعی طور پر 1 کروڑ 48 لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ حاصل کیے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف ووٹرز کی دوسری پسندیدہ ترین جماعت تھی لیکن اس نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے کم نشستیں حاصل کی تھیں۔ تحریک انصاف نے 2013 میں مجموعی طور پر 76 لاکھ 79 ہزار 954 ووٹ حاصل کیے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013 میں دو مقبول ترین جماعتوں کے درمیان حاصل کردہ ووٹوں کا فرق 71 لاکھ 94 ہزار 150 تھا جبکہ 2018 کے الیکشن میں دو مقبول ترین جماعتوں کے درمیان حاصل کردہ ووٹوں کا فرق صرف 39 لاکھ 53 ہزار 485 رہا۔
1- پاکستان تحریک انصاف
اعداد و شمار کے مطابق عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف ہر اعتبار سے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ آزاد امیدواروں سے قطع نظر (جن کی تعداد پورے پاکستان میں تقریباً 1600 تھی) تحریک انصاف ملک بھر میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر سب سے زیادہ امیدوار کھڑے کرنے والی جماعت تھی جس نے اپنے 242 کھلاڑی میدان میں اتارے۔
242 میں سے تحریک انصاف کے 116 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی یعنی تحریک انصاف کے امیدواروں کی جیت کا تناسب 47.93 فیصد رہا۔
تحریک انصاف کو پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر ایک کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار 675 ووٹ ملے اور اس طرح تحریک انصاف ان انتخابات میں ووٹرز کی پسندیدہ ترین جماعت رہی۔ قومی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے کُل ووٹوں میں تحریک انصاف کا حصہ 30.70 فیصد رہا۔
2013 میں تحریک انصاف نے صرف 29 قومی نشستیں حاصل کی تھیں اور اس بار پی ٹی آئی کی قومی نشستوں کی تعداد 116 ہوگئی ہیں یعنی اس کی 87 سیٹیں بڑھی ہیں۔
2- پاکستان مسلم لیگ ن
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی سطح پر سابقہ حکمران جماعت کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور پورے پاکستان سے ن لیگ کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر 1 کروڑ 29 لاکھ 35 ہزار 236 ووٹ ملے۔ ن لیگ نے پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پر 212 امیدوار کھڑے کیے جن میں سے صرف 64 امیدوار کامیاب ہوئے اور اس طرح ن لیگ کی کامیابی کا تناسب 30.18 بنتا ہے۔ قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ن لیگ کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 23.50 رہا۔
2013 کے عام انتخابات میں ن لیگ نے قومی اسمبلی سے 126 نشستیں حاصل کی تھیں یعنی الیکشن 2018 میں ن لیگ نے تقریباً نصف (62) نشستیں گنوائی ہیں لیکن اس کے باوجود ن لیگ قومی سطح پر ووٹرز کی دوسری مقبول ترین جماعت رہی۔
3- پاکستان پیپلز پارٹی
الیکشن 2018 میں جس جماعت نے توقعات سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پیپلز پارٹی قومی سطح پر پاکستان کی تیسری مقبول ترین جماعت رہی اور اسے مجموعی طور پر 69 لاکھ 13 ہزار 410 ووٹ پڑے۔
پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 270 نشستوں کے لیے پاکستان بھر میں 243 امیدوار کھڑے کیے جن میں سے صرف 43 امیدوار کامیاب ہوئے اس طرح قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کا تناسب صرف 17 فیصد رہا۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 12.59 رہا۔
پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کے مقابلے میں 99 لاکھ 49 ہزار 565 ووٹ جبکہ ن لیگ کے مقابلے میں 59 لاکھ 94 ہزار 681 ووٹ کم ملے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن 2018 گزشتہ الیکشن سے بہتر ثابت ہوئے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 35 جنرل نشستیں حاصل کی تھیں تاہم اس بار اس کی جنرل نشستوں میں 9 سیٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد 2018 الیکشن کے تقریباً برابر ہی ہیں۔ 2013 میں پیپلز پارٹی نے 69 لاکھ 11 ہزار 218 ووٹ حاصل کیے تھے اور 35 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ اس بار اس نے 69 لاکھ 13 ہزار 410 ووٹ لے کر 43 نشستیں اپنے نام کرلی ہیں۔
4- آزاد امیدوار
پاکستان کی سیاست میں آزاد امیدواروں کا کردار ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے اور انہیں ’بادشاہ گر‘ کہا جاتا ہے۔ آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا اپنا ووٹ بینک ہوتا ہے اور کامیابی کے بعد وہ عام طور پر اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
الیکشن 2018 میں آزاد امیدواروں نے پاکستان بھر سے 60 لاکھ 60 ہزار 894 ووٹ حاصل کیے۔ 2013 کے عام انتخابات میں آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر 58 لاکھ 80 ہزار 658 ووٹ حاصل کیے تھے۔
گزشتہ انتخابات کی نسبت آزاد امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں میں تو 2 لاکھ سے زائد کا اضافہ ہوا ہے تاہم قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ 2013 میں 30 آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی تاہم اس بار کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی تعداد صرف 13 ہے جوکہ جمہوریت کے لیے خوش آئند ہے۔ اس بار ووٹرز نے انفرادی شخصیات کے بجائے سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو ووٹ دیے ہیں۔
قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں آزاد امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 11.03 فیصد رہا۔
5- متحدہ مجلس عمل
دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) پاکستان کی پانچویں مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ عام انتخابات میں ایم ایم اے کو تقریباً 25 لاکھ 69 ہزار 971 ووٹ ملے ہیں اور وہ قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں تمام دینی و مذہبی جماعتوں نے انفرادی طور پر حصہ لیا تھا اس لیے ان کا ووٹ بینک تقسیم ہوگیا تھا۔
قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ایم ایم اے کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 4.60 فیصد رہا۔
6- تحریک لبیک پاکستان
سیاست کے میدان میں موجود دینی جماعتوں کی فہرست میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نومولود ہے تاہم اسے پڑنے والے ووٹوں کی تعداد نے سب کو حیران کردیا ہے۔ ٹی ایل پی نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کیلئے اسے مجموعی طور پر 22 لاکھ 34ہزار 338 ووٹ ملے۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ٹی ایل پی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 4.06 فیصد رہا۔
حیران کن طور پر قومی سطح پر پاکستان میں ووٹرز کی چھٹی مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود تحریک لبیک پاکستان قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکی۔ تاہم آنے والے وقت میں ٹی ایل پی کا ووٹ بینک مزید بڑھ سکتا ہے۔
7- گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
اندرون سندھ میں بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے وجود میں آنے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی، قومی عوامی تحریک، سندھ نیشنل فرنٹ اور دیگر قوم پرست جماعتیں شامل تھیں۔ قومی سطح پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ساتویں مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے 11 لاکھ 93 ہزار 444 ووٹ حاصل کیے ہیں۔
قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں جی ڈی اے کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 2.17 فیصد رہا۔
گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس قومی اسمبلی کی 2 نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی اور ممکن ہے کہ وہ وفاقی حکومت میں اتحادی بن جائے۔
8- عوامی نیشنل پارٹی
قومی اسمبلی میں حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے عوامی نیشنل پارٹی پاکستان کی 8 ویں مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ 2008 کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے والی عوامی نیشنل پارٹی 2013 اور اب 2018 کے انتخابات میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھاسکی۔
الیکشن 2018 میں اے این پی نے مجموعی طور پر 8 لاکھ 15 ہزار 993 ووٹ حاصل کیے اور قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کرسکی۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں آزاد امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 1.48 فیصد رہا۔
9- متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
الیکشن 2018 میں جتنا نقصان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو ہوا ہے شاید کسی اور جماعت کو نہیں ہوا۔ ایک دور میں صرف کراچی سے جیت کر پاکستان کی چوتھی بڑی جماعت بننے والی ایم کیو ایم اس بار صرف 6 نشستوں تک محدود ہوگئی ہے۔
قومی اسمبلی کے لیے حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے ایم کیو ایم پاکستان اب پاکستان کی 9 ویں مقبول ترین جماعت بن گئی ہے تاہم حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان صرف 7 لاکھ 31 ہزار 794 ووٹ لے کر بھی قومی اسمبلی کی 6 نشستیں جیت گئی ہے جبکہ تحریک لبیک پاکستان ، جی ڈے اے اور عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم کے مقابلے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود نشستوں کے معاملے میں اس سے پیچھے ہیں۔
قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 1.33 فیصد رہا۔
10- پاکستان مسلم لیگ (ق)
2002 کے عام انتخابات کے بعد حکومت میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ (ق) اب محض چند حلقوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ الیکشن 2018 میں ق لیگ کو مجموعی طور پر 5 لاکھ 17 ہزار کے قریب ووٹ ملے تاہم کم ووٹ ملنے کے باوجود وہ قومی اسمبلی کی 4 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی اور یوں وہ 10 ویں مقبول ترین جماعت رہی۔
قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ق لیگ کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب صرف 0.94 فیصد رہا۔
سندھ : پیپلز پارٹی کی مقبولیت برقرار
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق سندھ میں اس بار رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 23 لاکھ 90 ہزار تھی جبکہ عام انتخابات میں صوبے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 47.6 فیصد رہا یعنی اس حساب سے تقریباً ایک کروڑ 6 لاکھ 57 ہزار 640 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
1- پیپلز پارٹی
صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی بدستور مقبول ترین جماعت ہے۔ الیکشن 2018 میں پیپلز پارٹی کو سندھ سے مجموعی طور پر 38 لاکھ 57 ہزار 346 ووٹ ملے۔2013 میں سندھ سے پیپلز پارٹی کو 32 لاکھ 9 ہزار 686 ووٹ اور 69 صوبائی نشستیں ملی تھیں جو اس بار بڑھ کر 77 ہوگئی ہیں۔
سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 36.19 فیصد رہا۔
2- گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
سندھ کی دوسری مقبول ترین جماعت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس رہی جس نے مجموعی طور پر 14 لاکھ 89 ہزار 573 ووٹ حاصل کیے، جی ڈی اے نے سندھ سے صوبائی اسمبلی کی 10 نشستیں بھی حاصل کیں۔
سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے جی ڈی اے کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 13.97 فیصد رہا۔
3- پاکستان تحریک انصاف
سندھ میں تحریک انصاف حاصل کردہ ووٹوں کے حساب سے تیسری مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی۔ تحریک انصاف نے سندھ سے 14 لاکھ 24 ہزار 605 ووٹ حاصل کیے۔ پی ٹی آئی نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے تقریباً 66 ہزار ووٹ کم لیے ہیں لیکن نشستیں جی ڈے اے سے کہیں زیادہ حاصل کی ہیں۔تحریک انصاف نے سندھ کی 23 صوبائی نشستیں حاصل کیں حالانکہ 2013 میں پی ٹی آئی سندھ سے صرف 3 صوبائی سیٹیں جیت سکی تھی۔
سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 13.35 فیصد رہا۔
4- متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو 2013 کے عام انتخابات میں سندھ کی دوسری مقبول ترین جماعت تھی اس بار چوتھے نمبر پر چلی گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان سندھ میں مجموعی طور پر 7 لاکھ 44ہزار 322 ووٹ لے سکی ہے۔ سندھ سے ایم کیو ایم کو 16 صوبائی نشستیں حاصل ہوئی ہیں حالانکہ 2013 میں ایم کیو ایم 25 لاکھ 10 ہزار 853 ووٹ لے کر دوسری مقبول ترین جماعت رہی تھی اور سندھ سے 38 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
سندھ میں صوبائی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 6.98 فیصد رہا۔
نوٹ: سندھ میں آزاد امیدواروں کو 7 لاکھ 63 ہزار 621 ووٹ ملے
پنجاب اسمبلی : ووٹ تحریک انصاف اور نشستیں ن لیگ کی زیادہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پنجاب میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 6 لاکھ 70 ہزار ہے جبکہ عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 58.3 فیصد رہا یعنی 3 کروڑ 53 لاکھ 70 ہزار 610 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ان میں سے زیادہ ووٹ تو تحریک انصاف کے حصے میں آئے لیکن نشستوں کے معاملے میں ن لیگ آگے رہی۔
1- پاکستان تحریک انصاف
آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے مقبولیت میں دیگر تمام جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کو مجموعی طور پر 1 کروڑ 11 لاکھ 65 ہزار 976 ووٹ ملے ہیں البتہ یہ 2013 میں ن لیگ کو ملنے والے ووٹوں سے تقریباً 2 لاکھ کم ہیں۔ 2013 میں پی ٹی آئی نے صوبے سے 49 لاکھ 51 ہزار 216 ووٹ لیے تھے جبکہ ن لیگ کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ایک کروڑ 13 لاکھ 65 ہزار 363 تھی۔
الیکشن 2018 میں تحریک انصاف نے پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 123 نشستیں حاصل کی ہیں حالانکہ 2013 میں وہ صرف 20 نشستیں حاصل کرسکی تھی۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کے حصے میں 31.56 فیصد ووٹ آئے۔
2- پاکستان مسلم لیگ (ن)
حاصل کردہ نشستوں کے حساب سے دیکھیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) اب بھی پنجاب کی مقبول ترین جماعت ہے تاہم اسے تحریک انصاف سے کم ووٹ ملے ہیں۔ صوبے بھر سے ن لیگ کو 1 کروڑ 5 لاکھ 30 ہزار 766 ووٹ ملے ہیں اور یوں وہ پنجاب کی مقبول ترین جماعت کا اعزاز کھوکر دوسرے نمبر پر آگئی ہے۔ 2013 میں ن لیگ کو پنجاب سے ایک کروڑ 13 لاکھ 65 ہزار 363 ووٹ ملے تھے اور وہ مقبول ترین جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔
عام انتخابات میں ن لیگ پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 129 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ نے پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 213 نشستیں حاصل کی تھیں۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ن لیگ کے حصے میں 29.77 فیصد ووٹ آئے۔
3- تحریک لبیک پاکستان
صوبہ پنجاب میں تحریک لبیک پاکستان کی مقبولیت میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے پنجاب سے 18 لاکھ 87 ہزار 913 ووٹ لیے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ٹی ایل پی پنجاب سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے۔ ٹی ایل پی نے صوبائی اسمبلی کی محض 2 نشستیں حاصل کی ہیں اور وہ دونوں نشستیں اسے سندھ سے ملی ہیں۔ سندھ میں تحریک لبیک کو 4 لاکھ 8 ہزار 29 ووٹ ملے۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک لبیک پاکستان کے حصے میں 5.33 فیصد ووٹ آئے۔
نوٹ: پنجاب میں آزاد امیدواروں کو 61 لاکھ 86 ہزار 779 ووٹ ملے
خیبر پختونخوا : تحریک انصاف کی مقبولیت میں مزید اضافہ
الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 53 لاکھ 20 ہزار ہے جبکہ انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 45.5 فیصد رہا یعنی 69 لاکھ 70 ہزار 600 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
1- پاکستان تحریک انصاف
صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ کے پی کے میں اس بار تحریک انصاف کو ملنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد 21 لاکھ 32 ہزار 517 ہے۔ 2013 میں پی ٹی آئی کو صوبے سے 10 لاکھ 39 ہزار 719 ووٹ ملے تھے یعنی اب پی ٹی آئی کی مقبولیت دوگنی ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف نے کے پی کے سے صوبائی اسمبلی کی 65 نشستیں حاصل کیں، 2013 میں اس نے صوبائی اسمبلی کی 35 نشستیں حاصل کی تھیں اور مخلوط حکومت بنائی تھی۔
خیبر پختونخوا میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کو 30.59 فیصد ووٹ ملے۔
2- متحدہ مجلس عمل
خیبر پختونخوا میں 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن دوسری مقبول ترین جماعت بن کر ابھری تھی تاہم اس بار دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ ایم ایم اے کو کے پی کے سے مجموعی طور پر 11 لاکھ 27 ہزار 707 ووٹ ملے اور وہ صوبے کی دوسری مقبول ترین جماعت رہی۔
ایم ایم اے نے عام انتخابات میں کے پی کے اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کی ہیں۔ 2013 میں متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے علیحدہ علیحدہ الیکشن لڑا تھا۔خیبر پختونخوا میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایم ایم اے کو 16.17 فیصد ووٹ ملے۔
3- عوامی نیشنل پارٹی
عوامی نیشنل پارٹی صوبہ خیبر پختونخوا کی تیسری مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ اے این پی نے اس بار صوبے سے مجموعی طور پر 8 لاکھ 4 ہزار 824 ووٹ حاصل کیے جبکہ 2013 میں اسے 5 لاکھ 56 ہزار 525 ووٹ ملے تھے۔ الیکشن 2018 میں عوامی نیشنل پارٹی کو کے پی کے اسمبلی کی صرف 7 نشستیں ملی ہیں۔
2013 میں اے این پی نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی صرف 4 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ خیبر پختونخوا میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے اے این پی کو 11.54 فیصد ووٹ ملے۔
نوٹ: خیبر پختونخوا میں آزاد امیدواروں کو 9 لاکھ 31 ہزار 761 ووٹ ملے
بلوچستان : قوم پرست جماعتیں مقبولیت میں آگے
الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 43 لاکھ تھی جبکہ انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 45.3 فیصد رہا یعنی 19 لاکھ 47 ہزار 900 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
1- بلوچستان عوامی پارٹی
سندھ اور بلوچستان وہ دو صوبے ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف مقبول ترین جماعت نہیں بن سکی ہے اور ان صوبوں میں قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت برقرار ہے۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ اس نے صوبے سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 46 ہزار 795 ووٹ حاصل کیے۔ 2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا تاہم اس بار اس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔
الیکشن 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی 4 اور صوبائی اسمبلی کی 15 نشستیں حاصل کیں اور یہ تمام سیٹیں اس نے بلوچستان سے ہی نکالی ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے بلوچستان عوامی پارٹی کو 22.93 فیصد ووٹ ملے۔
2- متحدہ مجلس عمل
دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل بلوچستان میں بھی دوسری مقبول ترین جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ ایم ایم اے نے بلوچستان سے 2 لاکھ 71 ہزار 498 ووٹ حاصل کیے۔ ایم ایم اے کو صوبائی اسمبلی کی 8 نشستیں بلوچستان سے ملیں۔
بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایم ایم اے کو 13.93 فیصد ووٹ ملے۔
3- بلوچستان نیشنل پارٹی
صوبے میں حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے تیسری مقبول ترین جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) رہی جس نے مجموعی طور پر 1 لاکھ 27 ہزار 823 ووٹ حاصل کیے۔ بی این پی نے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی 6 نشستیں حاصل کیں۔
بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے بلوچستان نیشنل پارٹی کو 6.56 فیصد ووٹ ملے۔
4- پاکستان تحریک انصاف
بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے تاہم اب بھی صوبے کی بڑی آبادی قوم پرست جماعتوں کی حامی ہے۔ پی ٹی آئی نے صوبے سے مجموعی طور پر ایک لاکھ 9 ہزار 743ووٹ حاصل کیے۔ صوبے میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی 5 سیٹیں ملیں۔
بلوچستان اسمبلی کیلئے میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے تحریک انصاف کو 5.63 فیصد ووٹ ملے۔
2013 میں پی ٹی آئی کو بلوچستان سے صرف 24 ہزار 30 ووٹ ملے تھے اور وہ کوئی نشست نہیں جیت سکی تھی۔
نوٹ: بلوچستان میں آزاد امیدواروں کو 3 لاکھ 23 ہزار 121 ووٹ ملے
دینی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ
الیکشن 2018 میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے دینی جماعتوں کا اتحاد سامنے آیا۔ ایم ایم اے میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، تحریک اسلامی پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث جیسی مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق الیکشن 2018 میں قومی اسمبلی کے لیے دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کو یکجا کیا جائے تو یہ تعداد تقریباً 51 لاکھ 15 ہزار بنتی ہے۔ اس میں سب سے بڑا حصہ ایم ایم اے کا رہا جسے ملک بھر سے 25 لاکھ 69 ہزار 971 ووٹ ملے۔ مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافے کا سب سے بڑا سبب تحریک لبیک پاکستان کی سیاست میں انٹری ہے جس نے اپنے پہلے ہی الیکشن میں 22 لاکھ 34 ہزار 338 ووٹ لے کر سب کو حیران کردیا۔
دینی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافے کے باوجود ڈالے جانے والے مجموعی ووٹوں میں سے مذہبی جماعتوں کا حصہ محض 9.31 فیصد رہا جبکہ اگر تین مقبول ترین جماعتوں (تحریک انصاف، ن لیگ اور پی ٹی آئی) کے قومی اسمبلی کے لیے حاصل کردہ ووٹوں کو یکجا کیا جائے تو تعداد تقریباً 3 کروڑ 66 لاکھ 49 ہزار271 بنتی ہے۔ یعنی عام انتخابات میں ڈالے گئے 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 472 ووٹوں میں سے 66 فیصد ووٹ ان تین جماعتوں کے حصے میں گئے۔
2013 کے عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دینی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے تاہم یہ اضافہ تحریک لبیک پاکستان کی مرہون منت ہے کیوں کہ اگر ٹی ایل پی کے حاصل کردہ 22 لاکھ 34 ہزار 338 ووٹوں کو نکال دیا جائے تو ایم ایم اے سمیت تمام مذہبی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد تقریباً 28 لاکھ 83 ہزار 303 بنتی ہے جو 2013 میں دینی جماعتوں کی جانب سے حاصل کردہ ووٹوں 30 لاکھ 66 ہزار 595 سے بھی کم ہے۔
2013 کے عام انتخابات میں 4 کروڑ 62 لاکھ 17 ہزار 482 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور ان میں سے دینی جماعتوں کا حصہ 6.63 فیصد جبکہ ٹاپ تھری جماعتوں (ن لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی) کے حصے میں 63.75 فیصد ووٹ آئے تھے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ 2018 میں تحریک لبیک پاکستان کی آمد کے بعد دینی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔

سیاستدانوںکی قابل اعتراض کارکردگی
اورپاکستانی ووٹرز۔

جب پاکستان میں پہلی بار عام انتخابات کا انعقاد 1970 میں ہوا تو قومی اسمبلی کی 290 نشستوں (یہ 300 نشستیں تھیں مگر 10 پر انتخابات مختلف وجوہات کی بناءپر ملتوی ہوگئے تھے) کے لیے جتنا جوش و خروش دیکھنے میں آیا، وہ فقید المثال ہے۔اس وقت رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 5 کروڑ 52 لاکھ تھی جبکہ 1545 امیدوار اپنی قسمت آزمانے کے لیے نکلے تھے۔اس وقت 25 بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی تعداد 1229 جبکہ آزاد امیدوار 316 تھے۔پولنگ کا وقت صبح ساڑھے 8 سے شام ساڑھے 4 بجے تک تھا جس کے دوران مردوں سے زیادہ خواتین میں ووٹ ڈالنے کا اشتیاق نظر آیا، ہر عمر کے افراد نے اپنے حق رائے دہی کو استعمال کیا، جن میں معذور، نابینا غرض ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔اس زمانے کے انتخابات کی ڈان اخبار میں شائع ہونے والی تصویری جھلکیاں ہوسکتا ہے کہ آپ کو ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے پر مجبور کردیں۔ملک بھر میں انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کے دوران لوگ پہلی بار حق رائے دہی کو استعمال کرتے ہوئے بہت پرجوش تھے اور پولنگ کے آغاز سے اختتام تک لوگوں کی لمبی قطاریں پولنگ اسٹیشنز میں نظر آئیں۔کراچی کی مصروف علاقے الیکشن کے دن ویران نظر آئے کیونکہ شہری جوق در جوق پولنگ اسٹیشنز کا رخ کررہے تھے اور ساری رونق پولنگ اسٹیشنز کے اندر یا باہر نظر آئی۔انتہائی معمر افراد نے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے عزم سے سب کو حیران کردیا، اگرچہ انہیں پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے کے لیے لوگوں سے مدد لینا پڑی مگر جوش و خروش میں یہ نوجوانوں سے کم نہیں تھے۔درحقیقت ووٹرز کے جوش و خروش نے سب کو حیران کردیا تھا کیونکہ توقع نہیں تھی کہ اس طرح لمبی قطاریں پولنگ اسٹیشنز میں دیکھنے میں آئیں گی۔پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے خواتین کا جوش و خروش بھی دیدنی تھا۔پولنگ اور پریزائیڈنگ آفیسر ووٹوں کی گنتی کے دوران کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم انہوں نے اپنا فرض بخوبی ادا کیا۔پہلی بار جب خواتین ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آئی تو اکثر کو درست طریقہ بھی معلوم نہیں تھا، جس پر پولنگ عملے نے ان کی مدد کی۔طویل انتظار بھی خواتین ووٹ ڈالنے سے روک نہیں سکا اور اپنی پسند کے امیدواروں کو انہوں نے ووٹ ڈالا۔اکثر جگہوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے خواتین کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑا جیسا اوپر تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے، جس میں خواتین ایک پولنگ اسٹیشن میں انتظار کررہی ہیں۔ایک معمر خاتون لیڈی پولنگ آفیسر کی مدد سے ووٹ کاسٹ کرنے جارہی ہیں، ایسے مناظر پورے ملک میں دیکھنے میں آئے جس میں عمر یا معذوری بھی لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روک نہیں سکے۔کئی جگہوں پر تو نوجوانوں نے اپنے چلنے پھرنے سے معذور بزرگوں کو کندھے پر لاد کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچایا اور ووٹ ڈالنے میں مدد کی، جیسے اس تصویر میں ایک بزرگ اور چلنے سے قاصر خاتون اپنے پوتے کی مدد سے ووٹ ڈال رہی ہیں۔صرف شہری علاقوں میں نہیں دیہات میں بھی ووٹرز کا جذبہ بے مثال تھا اور وہاں بھی لوگ گھنٹوں پولنگ اسٹیشنز میں ووٹ ڈالنے کے لیے انتظار کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

2013-18مسلم لیگ ن کے پانچ سال:
حکومت کی کامیابیاں اور ناکامیاں

پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے اور اس کے خلاف دھرنے سے شروع ہونے والا یہ سفر، ڈان لیکس سے ہوتے ہوئے نواز شریف کی نااہلی پر ختم ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب گذشتہ ایک دہائی کے دوران تسلسل سے ملک میں جمہوری دور رہا ہے۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی مسلم لیگ نواز کی حکومت میں سول ملٹری تعلقات تناؤ کا شکار رہے۔
ذیل میں ہم نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کے اُن اُمور پر نظر ڈالی جنھیں اس کی کامیابیاں اور ناکامیاں تصور کیا جا سکتا ہے۔
اقتدار سے طویل عرصے سے دوری کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے جب اقتدار سنھبالا تو میاں نواز شریف خاصے پراعتماد اور پرعزم تھے۔
ایوان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرادری نے تو انھیں تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ‘میاں صاحب ابھی ہم سیاست نہیں کریں گے اور سیاست ہم الیکشن کے قریب آخری سال کریں گے ‘ مگر پاکستان تحریکِ انصاف نے انتخابات میں دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی جانبداری پر سوالات اُٹھا دیے۔
تحریک انصاف نے ایک سال بعد ہی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات نہ کرنے پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دے دیا۔ اس دھرنے میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری بھی شامل ہو گئے۔ دھرنے کے شرکا انتہائی حساس علاقے میں پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے اور پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
ان حالات میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دوسری سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دیا اور پارلیمنٹ میں رہ کر مسئلے حل کرنے پر زور دیا۔ حساس مقامات پر فوج تعینات کر دی گئی اور دھرنے کا زور ٹوٹ گیا۔تحریک انصاف کا یہ دھرنا 126 دن تک جاری رہا اور دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نیشنل ایکشن پلان
دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلوائی گئی۔
اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کی منظوری دی۔
جس کے بعد قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ گو کہ اس نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا لیکن ملک میں امن و امان کی حالت بہتر کرنے کی جانب یہ اہم قدم ضرور تھا۔
کراچی میں بھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے شرپسند عناصر کے خلاف رینجرز کی سربراہی میں آپریشن ہوا جس کے بعد شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گئی۔
توانائی اور ترقیاتی منصوبے
انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اقتصادی ترقی اور اصلاحات کے لیے اہم منصوبوں کا اعلان کیا۔ اپریل 2015 میں چین کے صدر شی جنگ پینگ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے نہ صرف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا بلکہ 46 ارب ڈالر کی لاگت سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کا بھی اعلان کیا۔
گذشتہ پانچ برسوں میں ملک میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہوا۔ کراچی حیدر آباد موٹر وے، راولپنڈی اسلام آباد، لاہور میٹرو بس، لاہور اورنج لائن منصوبے، ایل این جی درآمد کے منصوبے سمیت متعدد منصوبے مکمل ہوئے۔
فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام
مسلم لیگ نواز کے دورِ اقتدار میں قبائلی علاقوں میں برطانوی دور سے رائج ایف سی آر کا خاتمہ ہوا اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے حکومت نے فاٹا میں اصلاحات متعارف کروانے اور اسے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے لیے آئینی ترمیم کی منظوری دی۔
فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد صوبائی اسمبلی میں فاٹا کے لیے نشستیں مختص کی گئیں۔
قبائلی علاقوں میں ترقی کے لیے فاٹا کو خصوصی رقم دی گئی اور قبائلی علاقوں میں اب پاکستان کے آئین کے تحت تمام قوانین کا اطلاق ہو گا۔
ناکامیاں
خارجہ تعلقات کا تاریک دور
ان پانچ برسوں میں جہاں پاکستان اور چین کے مابین تعلقات میں وسعت آئی وہیں دیگر ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہت خراب رہے۔ تین ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور انڈیا سے پاکستان کے تعلقات مزید بہتر ہونے کے بجائے خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے مصالحت اور طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا کردار بھی کم ہو گیا ہے۔ ایران کے صدر نے پاکستان کا دورہ تو کیا لیکن اُن کی پاکستان میں موجودگی کے دوران ہی بلوچستان سے انڈین جاسوس گرفتار ہوا۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کابل سے اچانک لاہور پہنچے لیکن یہ اتفاقی ملاقات بھی اعتماد سازی بحال نہیں کر سکی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سالِ نو کا آغاز ہی پاکستان کے خلاف ٹویٹ سے کیا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی امداد بھی روک دی ہے۔
سول ملٹری تعلقات اور ڈان لیکس
پاناما لیکس کے ہنگامے میں تحریک انصاف جہاں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی وہیں اکتوبر 2016 میں ڈان اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ ایک اجلاس کے دوران سویلین حکام نے عسکری قیادت سے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں یا پھر بین الاقوامی سطح پر تنہا ہونے کے لیے تیار رہیں۔
اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سول ملٹری تعلقات میں جو کشیدگی 2014 کے دھرنے کے وقت شروع ہوئی تھی وہ مزید بڑھی اور تنازعات کھل کر سامنے آنے لگے۔
ڈان لیکس کی اس خبر کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹویٹ میں اسے مکمل طور پر مسترد کیا گیا اور بظاہر حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی وجہ سے مشیر اطلاعات پرویز رشید اور طارق فاطمی کو مستعفیٰ ہونا پڑا۔
الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور ختمِ نبوت کا حلف نامہ
حکومت نے اپوزیشن کی مشاورت سے الیکشن اصلاحات متعارف کروانے کے لیے آئینی ترمیم کی منظوری دی لیکن اس آئینی ترمیم میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے حلف نامے کی عبارت تبدیل ہو گئی۔گو کہ حکومت کا کہنا تھا کہ دفتری غلطی تھی لیکن مذہبی جماعتوں نے اس معاملے پر خوب ہنگامہ کیا۔
تحریک لیبیک یا رسول اللہ نے مخِتلف مذہبی جماعتوں کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے نومبر 2017 میں رولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی شاہراہ پر دھرنا دیا اور وزیر قانون سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
اس دھرنے سے دارالحکومت میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی اور حکومت کی جانب سے دی گئی متعدد ڈیڈ لائنز کے بعد دھرنے کے شرکا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا لیکن اس میں آپریشن میں پولیس اور ایف سی کو پسپائی ہوئی۔
آخر میں فوج کی مداخلت سے تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا اور پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ کے ترمیمی بل کی منظوری دی۔
پاناما لیکس اور نااہلی
ویسے تو پاناما سے قبل بھی کئی مراحل ایسے آئے جب مسلم لیگ کی حکومت کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوا لیکن پاناما لیکس میں نواز شریف اور اُن کے بچوں کی آف شور کمپنیاں تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئیں۔
اپریل 2016 میں پاناما لیکس کی افشا ہونے والی دستاویزات میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آنے کے بعد اپوزیشن کے دباؤ پر وزیراعظم نے عدالتی کمیشن بنا کر تحقیقات کروانے کا اعلان کیا۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین کمیشن کے ٹرم آف ریفرنسز پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ اگست 2016 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی۔
ویسے تو پاناما سے قبل بھی کئی مراحل ایسے آئے جب مسلم لیگ کی حکومت کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوا لیکن پاناما لیکس میں نواز شریف اور اُن کے بچوں کی آف شور کمپنیاں تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئیں
اکتوبر میں تحریک انصاف نے نواز شریف سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایک اور دھرنا دینے اعلان کیا۔ جس کے بعد نومبر میں عدالتی حکم پر عمران خان نے اپنا دھرنا ختم کیا اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف درخواست کو منظور کرتے سماعت شروع کی۔
فرروی 2017 میں پاناما مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اور اپریل میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ جولائی 2017 میں عدالت میں جمع کروائی اور 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا جس کے بعد انھوں نے اپنے جلسوں میں بارہا یہ سوال اٹھایا کہ ’مجھے کیوں نکالا‘۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو مسلم لیگ ن کی حکومت کا نیا وزیراعظم بنایا گیا اور ان کی سربراہی میں ہی اس حکومت نے اپنا دورِ اقتدار مکمل کیا ہے۔
۔۔۔۔۔

بلوچستان کا سیاسی پس منظر

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان جہاں نواب خیر بخش مری (مرحوم ) اور ان کے رفقاءکار کا فکری اور نظریاتی ایندھن چند بلوچ نوجوانوں کواپنی ہی ریاست پاکستان کے ساتھ آمادہ جنگ کیے ہوئے ہے میں سیاست اور حکومت پھولوں کی سیج ہر گز نہیں ہے۔پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخواہ، گلگت اور آزاد کشمیر میں جہاں حکومت حاصل کرنے کے لیے سیاست دان ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہیں بلوچستان میں حکومتی منصب لینا اور دینا مقابلتاً ایک پر امن مشق ہوتی ہے۔ وجہ ہے بلوچستان کے پیچیدہ ترین مسائل اور وسیع ترین رقبہ۔ یہ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں پارٹی پالیٹکس کی اہمیت ہمیشہ سے نسبتاً کم رہی ہے اور بلوچستان کی سیاست میر، نواب، سردار اور خانوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کچھ دوست اسے منفی رنگ بھی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح فاٹا اور قبائلی علاقوں میں سیاسی پارٹیوں سے شخصیات زیادہ اہم رہی ہیں اسی طرح بلوچستان میں قبائلی طرز زندگی لوگوں کی سیاسی زندگی کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ ہماری سرشت میںسردار وہ ہے جو بلاشرکت غیرے اقتدار اعلیٰ چاہتا ہے ، جو اختلاف برداشت نہیں کرتا ، جو تنقید برداشت نہیں کرتا ، جو اپنے ہوتے ہوئے کسی اور کو اختیار میں ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا ، جو اپنے اقتدار اور مفاد کیلئے کسی سے بھی سمجھوتہ کرسکتا ہے۔ لیکن بلوچ معاشرے میں سردار کو باپ کا درجہ حاصل ہے ۔یعنی ”ب“سے برکت وبزرگی والا”الف“ سے اساس واصل اورآبیاری والا اور”پ“سے پیار رومحبت والفت کا مجموعہ ۔ یہی ہے وہ مقام جو بلوچ عوام اپنے سردار ، میر، نواب اور خان کو دیتے ہیں۔ لہذا فاٹا اور قبائلی علاقوں کی طرح بلوچستان کی سیاست کو ان شخصیات سے آزاد کر کے دیکھنا ممکن نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پہلی بار سیاسی بصیرت اور فراخی قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2013کے عام انتخابات کے بعد دو صوبوں میں اپنی حکومتوں کی قربانی دی۔ ان میں ایک خیبر پختونخواہ ہے جہاں جمیعت علما اسلام ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ نواز اپنی حکومت قائم کر سکتی تھی لیکن وسیع تر قومی اتحاد اور سیاسی ہم آہنگی کی خاطر اس نے صوبے میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام کیا اور انہیں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا تو دوسری جانب بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی زیر قیادت نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی قوم پرست مخلوط حکومت کو معاہدہ مری کے تحت حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کے اس اقدام کی تمام اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ستائش کی کیونکہ پہلی بار کسی نے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر عوامی مینڈیٹ اور ملی یکجہتی کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اعلیٰ مثال قائم کی۔ اسی لیے پنجاب کے پر فضا مقام مری میں 6جون 2013کو طے پانے والے معاہدے جس پر وزیر اعظم نواز شریف، نیشنل پارٹی کے راہنما میر حاصل بزنجو اور میپ کے راہنما محمود خان اچکزئی نے دستخط کیے کے موقع پر میر حاصل بزنجو اور محمود خان اچکزئی نے کہا تھا ”ہمیں پنجاب سے ہمیشہ شکوہ رہا ہے مگر آج پنجاب نے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جمہوری پاکستان کی تشکیل، کرپشن کے خلاف لڑنے اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے ایجنڈا ہے اور ہماری پشتون اور بلوچ قوم اس متحدہ جنگ میں شامل ہیں، اور آج خوشی کی بات ہے کہ پشتون بلوچ اتحاد اور پنجاب کی رہبری کے ساتھ اکٹھے یہ اعلان ہو رہا ہے ۔ ایک جمہوری پاکستان کی تشکیل میں یہ سنگ میل کی حیثیت رکھے گا“اسی معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ وفاقی حکومت کے کل پانچ سالہ دور حکومت کا نصف عرصہ یعنی ”اڑھائی سال “ حکومت نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی پر مشتمل اتحاد کی ہو گی اور باقی نصف عرصہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی حکومت ہو گی۔بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بلوچستان کے وہ واحد وزیر اعلیتھے جن کا تعلق نہ ہی کسی سابق حکمرانوں کے شاہی ریاستی خاندان سے تھا اور نہ ہی وہ کسی قبیلے کے سردار تھے۔ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے ہے تاہم وہ پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں۔وہ تربت کے قریب سگنسار گاو¿ں میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم گاو¿ں کے اسکول سے حاصل کی جبکہ انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ کالج تربت سے کیا۔ بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد آنکھوں کی سرجری میں مہارت حاصل کی اور سیاست میں آنے سے قبل ایک طویل عرصہ ایک کلینک چلاکر عوام کی خدمت کی۔ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگینائزیشن (بی ایس او) بنانے میں ڈاکٹر عبدالمالک نے ایک اہم کردار ادا کیا جبکہ 1987ءمیں انہوں نے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جس کا نام ’بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ‘ ( بی این وائی ایم) رکھا۔بی این وائی ایم کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد وہ ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ کے تعاون سے بلوچستان نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) قیام میں لائے اور ڈاکٹرعبدالحئی کو تنظیم کا چیئرمین منتخب کیا۔ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان اسمبلی کی نشست کے لیے پہلی مرتبہ 1988ءمیں انتخابات میں حصہ لیا جس کا پلیٹ فارم بلوچستان نیشنل اتحاد نے فراہم کیا اور اس کی قیادت نواب اکبر بگٹی اور سردار عطاءاللہ مینگل کر رہے تھے۔نشست حاصل کرنے میں عبدالمالک بلوچ کو کامیابی ملی اور انہیں نواب اکبر بگٹی کی کابینہ میں وزیر صحت بنایا گیا۔2004ءمیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی پارٹی (بی این ایم) اور میر حاصل خان بزنجو کی پارٹی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کا ملاپ ہوا اور اس تنظیم کا نام نیشنل پارٹی (این پی) رکھا گیا۔انہوں نے اپنے اڑھائی سالہ دور حکومت میں ناراض بلوچوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بہترین کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کالعدم BLAکے قائد اور سابق بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے لندن میں ملاقات بھی کی اسی ملاقات کے بعد براہمداغ بگٹی نے نہ صرف مذاکرات کی میز پر آنے میں رضا مندی ظاہر کی بلکہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں دیگر مسلح گروہوں اور علیحدگی پسند قیادت کو بھی مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنے کو کہا۔ ”بہت سارے معاملات میں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن انھیں کثرت رائے سے حل کیا جاسکتا ہے۔میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)، بی آر ایس او، بی ایس او-اے، نوابزادہ ہربیار مری، نواب مہران مری، سردار بختیار ڈومکی اور میر جاوید مینگل سمیت تمام آزادی کی حامی جماعتوں اور رہنماو¿ں سے درخواست کرتا ہوں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود بلوچ قوم اور شہیدوں کی قربانیوں کی خاطر قومی اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔میری جماعت بی آر پی ایک سیاسی اور جمہوری تنظیم تھی اور پر امن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ہر تحریک کو کسی نہ کسی نکتے پر مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے اور بی آر پی کو بھی بلوچوں کے مقصد کو پر امن اور سیاسی طریقے سے پیش کرنے کا حق حاصل ہے“ ۔ روزنامہ اوصاف سنڈے میگزین سے خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک کے ترجمان سینیٹر جان بلیدی کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال میں ہم نے فوج اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ سینکڑوں نئے تعلیمی ادارے قائم کیے ۔ پرائمری سکولوں کو مڈل تک اپ گریڈ کیا۔ نئے اساتذہ بھرتی کیے۔ بلوچستان میں جہاں قیام پاکستان سے اب تک صرف ایک یونیورسٹی تھی کو 5نئی یونیورسٹیاں اور 3میڈیکل کالج دیے۔ Skill Developmentکالجز بنائے ۔ مائننگ کے شعبے کو شفاف بنانے کے لیے مائننگ بورڈ تشکیل دیا۔ ا لبتہ انہوں نے شکوہ کیا کہ اندریں حالات بھی سیندک جو بلوچستان کا سب سے بڑا منرل پراجیکٹ ہے سے حاصل ہونے والی آمدنی کا محض 2فیصد بلوچستان کو ملتا ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں اصلاح احوال کا مطالبہ کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ مالک حکومت ایران بارڈر سے سمگلنگ کی روک تھام ، پینے کے پانی اور نہری نظام کی فعالیت کے مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکی۔ لیکن انہوں نے قلت وقت اور دیگر گھمبیر مسائل کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک وزیر اعظم کے مشیر یا سینئیر صوبائی وزیر جیسا کوئی عہدہ بھی قبول نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ نیشنل پارٹی کے عام کارکن کی حیثیت سے کام کرنا پسند کریں گے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت چاہے اور ذمہ داری دے تو ڈاکٹر مالک علیحدگی پسند براہمداغ بگٹی، خان آف قلات اور ان کے ساتھیوں کو بلوچستان واپس لانے اور سیاسی عمل میں شراکت داری پر آمادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
دوسری جانب مری معاہدے پر عمل درآمد سے بلوچستان کے سیاسی راہنماؤں نے جس آئینی پاسداری ، جمہوری رویےاور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہےیہ بحران کے شکار بلوچستان میں قوم پرستوں کی مزاحمانہ جدوجہد، فوجی آپریشنز اور داخلی بدامنی کی پیچیدہ صورتحال میں ایک مثبت پیش رفت ہے جس سے بلوچستان کی مخلوط حکومت کا بدترین مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا۔اور یہ سب کچھ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو اقتدار سونپنے کے باعث ممکن ہوا اور اب اسی اسپرٹ کے تحت صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزیر سردار ثنااللہ زہری کو بلوچستان میں قیام امن، بھائی چارے، بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنماو¿ں کی وطن واپسی اور صوبہ کی معاشی ترقی کا بہت صبر آزما ٹاسک دیا گیا ہے۔سردار ثنااللہ زہر ی بلوچستان کے مضبوط قبیلے زہری کے سردار ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ چیف آف جھالاوان بھی ہیں۔ چیف آف جھالاوان بذات خود بلوچستان کا سب سے بڑا قبائلی عہدہ ہے ۔ بلوچ معاشرے میں چیف آف جھالاوان کو 40قبائلی سرداروں کے جرگے میں مشترکہ سردار منتخب کیا جاتا ہے۔ ان کے والد سردار دودا خان زہری پہلے قیوم لیگ اور پھر ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل تھے بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ نواب ثناءاللہ زہری نے کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی سیاست کا آغاز غوث بخش بزنجو کی جماعت نیشنل پارٹی سے کیا۔ ان کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی بنا لی۔ 2010ء میں وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے، دو برس بعد انہیں بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا صدر بنا دیا گیا، وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی کابینہ میں سینئر وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔ نواب زہری نے 1990ء میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتا، انہیں پہلے تاج محمد جمالی کی کابینہ میں وزیر بنا دیا گیا، بعدازاں وہ ذوالفقار علی مگسی کی کابینہ میں بھی وزیر رہے۔ 1998ءمیں وہ بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ وہ 2002ء اور 2008ء میں بھی ایم پی اے منتخب ہوئے، پارلیمانی سیاست میں وہ ایک طویل کیریئر رکھتے ہیں۔ روزنامہ اوصاف سنڈے میگزین سے خصوصی بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے ترجمان علاؤالدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے 29ارکان کی حمایت کے باوجود 14ارکان والی پارٹی کے وزیراعلیٰ کوڈھائی سال تک تسلیم کیا۔انہوں نے کہا وزیراعظم نوازشریف نے وعدہ پورا کرکے بلوچوں کے دل جیت لیے ، پنجاب اوربلوچستان کے درمیان بداعتمادی کی فضا ختم ہونے میں مدد ملے گی ،تمام گلے شکوے دورہوگئے ، وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازے کارکنوں کیلئے کھل گئے۔ بلوچستان میں قیام امن پہلی ترجیح ہے ،گڈگورننس،کرپشن کا خاتمہ،ناراض فراری کمانڈروں کی واپسی،صوبہ کی تعمیروترقی،عوام کی خوشحالی ترجیحات میں شامل ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال میں مالک بلوچ نے بطور وزیراعلیٰ جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس میں ن لیگ کا بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کا مستقبل ہے ،منصوبہ کی تکمیل کیلئے امن وامان کویقینی بنایا جائیگا۔ انہوں نے کہا بیسیوں فراری کمانڈرز نے سردار ثنا اللہ زہری پر اعتمادکرتے ہوئے ہتھیار ڈالے اور وفاق کو مضبوط کرنیکا عزم کیا۔ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں فوج نے شاندار خدمات انجام دی ہیں، حالات درست سمت پر ڈالنے میں فوج کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے سابق مالک حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اتھاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بلوچستان کے پاس موجود 17ارب روپے خرچ نہ ہو سکنے کی وجہ سے واپس چلے گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کوئٹہ میں کارڈیک ہسپتال بنانے کے لیے جو دو ارب روپے دیے تھے وہ بھی اسی طرح پڑے ہیں اور سابق وزیر اعلٰی نے بوجوہ یہ منصوبہ شروع نہیں کیا۔ اپنی حکومت کی ترجیحات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مالک مکران ڈویژن میں امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ آپ ہماری حکومت کے پہلے 6ماہ میں بلوچستان میں واضح تبدیلی دیکھیں گے۔ مسائل کا ادراک ہے اور انہیں حل کرنے کا راستہ بھی جانتے ہیں۔ آئی جی ایف سی اور نئے کور کمانڈر عامر ریاض کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔ ہم تمام اداروں کو ساتھ لے کر بہتر ٹیم ورک سے کام کریں گے۔
علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے سردار ثنائاللہ زہری کا ٹریک ریکارڈ شاندار ہے ۔ وزیر اعلیٰ نہ ہونے کے باوجود پچھلے اڑھائی سال میں انہوں نے اس حوالے سے نہ صرف مخلصانہ کوششیں کیں بلکہ ان کی یقین دھانیوں پر اہم ترین فراری کمانڈروں نے ہتھیار پھینک کر پاکستان کا قومی پرچم لہرایا۔ یاد رہے کہ مشرف دور میں جب 2004میں آپریشن شروع کیا گیا اور خان آف قلات نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تو ثنا اللہ زہری جو اس وقت بلوچستان کے وزیر داخلہ و جیل خانہ جات تھے نے احتجاجاً استعفا دے دیا تھا۔ یہ بات بھی کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ سردار ثنا اللہ زہری بلوچ علیحدگی پسندوں کے مابین اچھی شہرت کے حامل اور قابل احترام شخصیت گردانے جاتے ہیں اور امید کی جانی چاہیے کہ بطور وزیر اعلیٰ ان کی آمد سے بلوچستان میں جاری خونریزی کو روکنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔بطور وزیر اعلیٰ اپنی نامزدگی کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ”علیحدگی پسند بلوچ غیر فطری جنگ لڑ رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ گوادر بندرگاہ اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کی تکمیل جلد کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اڑھائی سالہ دور میں بلوچستان میں تبدیلی لاؤنگا۔ تمام چیلنجز کا بہادری سے مقابلہ کروں گا، آواران کے زلزلہ متاثرین سے کئے گئے وعدے پورے کریں گے۔ سرکاری ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نوازشریف بلوچستان سمیت پورے ملک میں ترقی چاہتے ہیں۔ امن و امان کی بہتر صورتحال سے بلوچستان میں ترقی ہو سکے گی۔ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے بلوچستان کے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ خضدار میں ایسٹرن زون اور خضدار سے ڑوب تک ڈبل روڈ بنایا جا رہا ہے۔ تمام بلوچوں کو قومی دھارے میں لانا پہلی ترجیح ہے۔ گوادر بندرگاہ کی جلد تکمیل چاہتے ہیں۔ کور کمانڈر کوئٹہ میرے بہت قریبی دوست ہیں وہ امن و امان کے معاملات میں مجھ سے تعاون کریں گے“
پچھلے اڑھائی سال میں جہاں ڈاکٹر عبدالمالک حکومت نے تعلیم کے شعبے پر کافی توجہ دی ہے وہاں ثنا اللہ زہری حکومت کے لیے بلوچستان کو منرلز اور رائلٹی پر انحصار کرنے کی بجائے بلوچستان کو ایک صنعتی صوبہ بنانے کی جانب پیش قدمی کرنا ہو گی۔ انہیں یہ سوچنا ہو گا کہ خام مال کی دوسرے صوبوں اور ملکوں کو منتقلی کی بجائے تیار مصنوعات کی برآمد سے بلوچستان میں معاشی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے بے روزگار افراد کو فوری روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے اورصوبے میں تعلیم کی اہمیت کو دو چند کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں ایران کے ساتھ سمگلنگ کا کاروبار بہت وسیع ہے۔ ایران پر پابندیوں کے دور میں یہ زیادہ بڑے پیمانے پر پھیل گیا۔ اب ایران پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ایرانی سرحد کے ساتھ ساتھ ایسی مصنوعات کے کارخانے لگا دئے جائیں جن کی ایران میں مانگ ہے۔ قلیل المدت منصوبہ بندی کے تحت ایسے کارخانے ہنگامی طور پر لگائے جاسکتے ہیں، جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ سمگلنگ کا دھندا باقاعدہ قانونی تجارت کی شکل اختیار کرلے گا۔ وفاقی حکومت اپنے وزیراعلیٰ کو کامیاب کرنے کے لئے ایسے چند منصوبے ہی شروع کرا دے تو اس کا بہت مثبت اثر ہوسکتا ہے۔بلوچستان میں سونے اور تانبے جیسی قیمتی دھاتیں موجود ہیں لیکن زیر زمین خزانے اب تک دبے ہوئے ہیں اور انہیں باہر نکالنے کی کوششیں ہمیشہ سازشوں کی نذر ہوتی رہی ہیں، سیندک اور ریکوڈک منصوبے اس کی مثال ہیں۔ صوبے کی اقتصادی ترقی کے ذریعے بلوچستان میں لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں لیکن اس کا اہتمام کرنا ہوگا کہ ترقی کے فوائد عام لوگوں تک پہنچیں۔
بہرحال، یہ تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹے صوبے کو قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی سارے سویلین اور فوجی حکمرانوں نے اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا۔بلوچستان کو صوبے کا درجہ ہی آزادی کے 23 سال بعد یعنی 1970ء میں ملا اور پھر افسوسناک امر دیکھیں کہ بلوچستان کے عوام کی پہلی منتخب اسمبلی کو اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے محض 8 ماہ بعد ہی فارغ کردیا تھا۔ جس کے بعد بلوچستان میں کم و بیش 4 سال تک ایک طول و طویل جنگ ہوئی، بعد میں شائع ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں جہاں ساڑھے 4 ہزار بلوچ مزاحمت کار مارے گئے وہیں کم و بیش اتنے ہی سیکیورٹی فورسز کے جوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس نقصان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بلوچستان میں، بلوچوں کی حمایت اور غیرت پر جب جب بندوقوں کی گھن گھرج سے وار کیا گیا تو اس کا جواب بھی اسی زبان میں دیا گیا۔
اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی پہلی منتخب حکومت کے خاتمے، بھٹو دور میں نیپ کے بلوچ، پختون رہنماؤں پر چلنے والے حیدرآباد سازش کیس اور پھر بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح بلوچوں، پختونوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم کا شیرازہ بکھرا اس نے بلوچستان کی تاریخ نہ صرف بدل دی بلکہ یہ ایک ایسی راہ پر گامزن ہوگئی کہ جس کا ہر راستہ ’بند گلی‘ کی طرف جارہا تھا۔
بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کا آغاز تو قیامِ پاکستان کے وقت بانئ پاکستان محمد علی جناح کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، جب بلوچستان کی سب سے معتبر اور مقتدر شخصیت خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ جھالاوان کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے تھے۔ مگر اسلحہ اور وسائل کی کمی کے سبب یہ مزاحمتی بلکہ علیحدگی کی تحریک چند ماہ میں دم توڑ گئی۔
آغا عبدالکریم اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ یاد رہے کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔ آغا عبدالکریم افغانستان میں چند ماہ کی دربدری کے بعد پاکستان واپس لوٹ آئے جہاں انہیں برسوں قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلنا پڑا۔
ایک دہائی کے بعد، یعنی 1958ء میں بلوچ ایک بار پھر بغاوت کے لیے آمادہ ہوئے، اور تب خان آف قلات کے تاریخی قلعے پر چڑھائی بھی کی گئی۔ نصف صدی گزر گئی مگر ابھی تک یہ ایک راز ہے کہ پاکستان کے حق میں ووٹ دینے والے خان آف قلات نے ہمارے روایتی پڑوسی دشمن ملک سے مل کر آزاد بلوچستان کی سازش کی یا پھر وہ خود ایک سازش کا شکار ہوئے؟ اس صورتحال کا تانا بانا اس وقت کے صدر اسکندر مرزا سے مل رہا تھا جو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان سے گٹھ جوڑ کرکے اس سرزمین پر پہلے مارشل لا کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے ’خان آف قلات‘ کی نام نہاد بغاوت محض ایک بہانہ تھی۔
تاہم ’خان آف قلات‘ کے قلعے پر چڑھائی اور ان کی گرفتاری کو بلوچ مزاحمتی تحریک کے قائدین نے تسلیم نہیں کیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں ہی بلوچستان کی سیاست کے 4 بڑے نام ابھر کر سامنے آئے۔ میری مراد بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، سردارعطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی سے ہے جن کی کرشمہ ساز شخصیت بذات خود اس وقت ایک تحریک کا روپ دھار چکی تھی۔
1958ء کی یہ وہ تاریخی مزاحمتی تحریک تھی جس میں نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو پاکستانی ریاست میں قرآن کے نام پر پہاڑوں سے اُتارا اور پھر حیدرآباد جیل میں پھانسیوں پر چڑھا دیا۔
نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کی پھانسی نے بلوچستان کے عوام اور پاکستانی حکمرانوں کے درمیان ایک ایسی دیوار بلکہ پہاڑ کھڑا کردیا جسے 6 دہائی بعد بھی ختم نہیں کیا جاسکا۔ 1958ء کے بعد 1962ء میں ایک بار پھر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں ہی بلوچستان کے جنگجو سرداروں کا ایوبی آمریت سے ٹکراؤ ہوتا ہے مگر یہ دور ذرا مختصر تھا۔
1970ء میں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بلوچستان کو پہلی بار صوبے کا درجہ ملنے سے اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ مزاحمت کار بلوچ جنگجوؤں کو اعتماد میں لے کر ایک ایسی فضا بحال کرتے جس سے علیحدگی پسندوں اور آزادی کا نعرہ لگانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ مگر بھٹو صاحب جیسے سیاستدان بھی اپنی پارٹی میں موجود عقابوں کے سبب ایک ایسی سازش کا شکار ہوگئے کہ جس کا انجام ایک بار پھر طویل خانہ جنگی پر ہوا۔
مگر تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ بلوچوں اور پختونوں کی نمائندہ جماعت نیپ میں ایک ایسا دھڑا تھا جو اسلام آباد کے حکمرانوں سے تال میل رکھنے کے بجائے کابل اور ماسکو سے نظری اور عسکری تعلق رکھنے کو ترجیح دیتا تھا۔ نیپ کی 2 صوبوں میں حکومت ہوتے ہوئے بھی اس پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان اس وقت لندن میں بیٹھے تھے۔ وہ نیپ کے پشاور کنونشن میں اپنے ساتھیوں کے ذریعے یہ بیان جاری کرتے ہیں کہ ‘ان کی پارٹی کا بلوچ گورنر بھٹو کے جال میں آگیا ہے۔ بھٹو ناقابلِ اعتبار ہے اس لیے ہمیں مزید اس کے ساتھ چلنے کے بجائے دونوں حکومتیں چھوڑ دینی چاہئیں۔
پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بلوچوں، پختونوں کی منتخب حکومتوں کا 1972ء میں خاتمہ اور پھر اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور پھر اس کے 56 قائدین پر ’حیدرآباد سازش کیس‘ کا مقدمہ ایسے بڑے سانحات و واقعات تھے جس کے اثرات بعد کے برسوں میں بلوچستان پر اتنے گہرے پڑے کہ ان کا ازالہ آج تک نہیں ہوسکا ہے۔ بہرحال نیشنل عوامی پارٹی ایک روشن خیال قوم پرست سیاسی جماعت تھی اور اس کے بلوچستان میں اثرات بڑے گہرے تھے۔
بھٹو حکومت نے مسلسل 4 سال تک نیپ کی قیادت کو حیدرآباد جیل کی کال کوٹھریوں میں نظر بند کیے رکھا اور اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ نے محرومیوں کے احساس سے بھپرے شدت پسند بلوچ نوجوانوں کو اس بات کی کھلی آزادی دے دی کہ وہ سرحد پار سے فکری اور عسکری امداد لے کر جہاں معتدل اور ایک حد تک محبِ وطن سرداروں، نوابوں کی جمہوری سیاست کا راستہ بند کردیں وہیں قیامِ پاکستان کے بعد سے چلنے والی گوریلا جنگ کو ہی بلوچستان کی محرومیوں کا واحد حل قرار دے کر اس کی کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔
ہمارے دوست صوفی جمعہ نے حال میں ایک کتاب ‘فریب ناتمام ‘ لکھی ہے۔ آج کے بلوچستان کی صورتحال کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بہرحال جولائی 1977ء میں جانا اس لیے ضروری ہے کہ جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت نے پاکستان کی سیاست، معاشرت اور دینی رواداری کو ہی ملیامیٹ نہیں کردیا تھا بلکہ بھٹو دشمنی میں نیشنل عوامی پارٹی کی اس قیادت کو تقویت دی جو ایک طویل عرصے سے آزاد بلوچستان اور پختونستان کی خواہاں تھی۔
حیدرآباد سازش کیس کا ذکر آیا تو میں یہاں سے سرسری گزر نہیں پارہا تھا کہ یہ پاکستان کی سیاسی عدالتی تاریخ کا ایک ایسا مقدمہ ہے جو بالخصوص ہماری آزاد عدلیہ کے دعویداروں اور سرخیلوں کے لیے ہمیشہ ایک بدنما داغ رہے گا۔
حیدرآباد جیل میں حیدرآباد سازش کیس کی کارروائی ایک عینی شاہد کی حیثیت سے دیکھنا ایک ایسا تجربہ تھا کہ 4 دہائی بعد بھی آج تک میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ جس عدالت میں یہ مقدمہ چل رہا تھا اس تک پہنچنے کے لیے 4 پھاٹکوں پر کھردرے ہاتھوں سے تلاشی دینی پڑتی تھی۔ جس وقت وہاں پہنچا تو عدالتی کارروائی چل رہی تھی۔ عدالت بھی کیا تھی ایک بڑا کٹہرا تھا جس میں قیدیوں اور ملاقاتیوں کے درمیان لوہے کی ایک اونچی مضبوط دیوار کھڑی تھی۔
3 رکنی بینچ کی مسند کی صدارت جسٹس اسلم ریاض کررہے تھے۔ استغاثہ کے وکیل ممتاز قانون دان اور اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار تھے اور وکیل صفائی ان سے بھی بڑے بین الاقوامی شہرت یافتہ وکیل میاں محمود علی قصوری۔ ایک شوروغل تھا۔ ہاں یہ بتانا تو بھول گیا کہ بلوچوں، پختونوں کی نیپ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے چند قیدی بھی تھے جن میں ہمارے شاعرِ عوام حبیب جالب بھی شامل تھے۔
جسٹس اسلم ریاض ایک ایک قیدی سے اقرارِ جرم کروا رہے تھے۔ جب جالب صاحب کی طرف وہ آئے تو اپنی روایتی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جالب صاحب آپ تو کوئی شعر میں ہی اقرارِ جرم کریں گے۔ اب جالب صاحب کی جرأت و ہمت کو دیکھیں کہ جیل کے 4 پھاٹکوں کے اندر لگی عدالت میں کیسا تاریخی شعر کہہ بیٹھتے ہیں۔
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں کیا انصاف دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر ہمیں جو فیصلہ دیں گے
یہ لیجیے، بھٹکتے ہوئے ذرا دُور تک نکل آیا ہوں مگر بلوچستان کی سیاسی تاریخ ہی اتنی گنجلک، پیچیدہ اور گھمبیر ہے کہ ایک سِرا پکڑتا ہوں تو دوسرا سِرا کھینچ بیٹھتا ہوں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ غلطی محض بھٹو صاحب کی ہی نہیں تھی۔ نیپ خصوصاً پختون قیادت اپنے روایتی افغان رشتوں کے سبب بھٹو صاحب سے انتقام کی حد تک انہیں کسی طور یہ گوارا نہیں تھا کہ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو جیسا معتدل اور متوازن قوم پرست رہنما کوئی ایسا بیچ کا راستہ نکالتا جس سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار جمہوری قوتوں کے درمیان ٹکراؤ سے کسی تیسرے کو اس بات کا موقع فراہم ہوجاتا کہ جس سے جمہوری اداروں کی ساری بساط ہی لپٹ جاتی اور جیسا کہ پھر ہوا بھی۔
بھٹو صاحب تو پھانسی چڑھ کر اپنے انجام کو پہنچے ہی مگر وطنِ عزیز کی سب سے مؤثر ترقی پسند سیکولر جماعت یعنی نیشنل عوامی پارٹی کا بھی ’حیدرآباد جیل سے‘ نکلنے کے بعد شیرازہ بکھر گیا۔
پختون سیاست کے سرخیل خان عبدالولی خان نے نیپ کا طوق گلے سے اُتار کر نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی بنالی اور بلوچ قیادت 3 مختلف سمتوں میں نکل پڑی۔ میر غوث بزنجو اور عطا اللہ مینگل نے ایک معتدل راستہ اختیار کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ سحر انگیز سخصیت کے مالک نواب بخش مری نے اپنے قبیلے کے جنگجوؤں کو محفوظ کیمپوں میں مستقبل کے لیے محفوظ رکھا۔ اسے ایک تاریخی المیہ ہی کہا جائے گا کہ ایک میر غوث بزنجو کو چھوڑ کر ساری بلوچ، پختون قوم پرست قیادت اور پھر اس کی دوسری پیڑھی نے جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کے دنوں میں پُرآسائش زندگی گزاری۔
آج بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کے لیے ضروری ہے کہ ان اسباب پر نظر ڈالی جائے جس کے سبب بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز سے 4 بڑی جنگیں ہوئیں، اور پانچویں مزاحمتی تحریک جس کا آغاز اگست 2006ء میں نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت سے شروع ہوا اور جو گزشتہ ایک دہائی سے، کبھی دھیمے کبھی تیز، جاری و ساری ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلیکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور لشکر بلوچستان جیسی تنظیمیں بہرحال حقیقت ہیں۔ ان 4 تنظیموں میں 3 کے رہنما یعنی نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی، نواب خیر بخش مری کے بیٹے ہربیار مری اور سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل برسوں سے پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں۔
ان تینوں نوابوں کے وارثوں سے زیادہ منظم تحریک بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق رہنما ڈاکٹر اللہ بخش نذر کی ہے۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سابق سربراہ اور بلوچستان کے کور کمانڈر نے کوئٹہ میں 2016ء میں یہ انکشاف کیا کہ ڈاکٹر اللہ بخش نذر اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا ہے، تاہم بعد کے دنوں میں اس کی تردید آگئی۔
ڈاکٹر اللہ بخش نذر کی آرمی اور دیگر مزاحمتی تنظیمیں کیا مستقبل میں اتنی بڑی قوت بن سکتی ہیں کہ جن کے بارے میں ایک عرصے سے ہمارے pseudo intellectual اور سول سوسائٹی کا ایک حصہ خوش فہمی کی حد تک اسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جوڑنے لگا ہے؟
سوال بڑا حساس اور خطرناک ہے، اسے سمیٹنے کی کوشش کروں گا لیکن یہاں پہنچ کر خیال آرہا ہے کہ میں بلوچستان کی حالیہ تاریخ میں اس کردار پر تفصیل سے گفتگو کر ہی نہیں سکا جو موجودہ ’مزاحمتی تحریک‘ کا سب سے بڑا سبب بنا۔
میری مراد نواب اکبر خان بگٹی سے ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی پر ایک غیر ملکی مصنفہ Sylvia Matheson نے ایک کتاب The Tiger of Balochistan لکھی تھی۔ جس میں نواب اکبر بگٹی نے اعتراف کیا تھا کہ صرف 12 سال کی عمر میں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے قبائلی رواج کے مطابق پہلا قتل کیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی حالیہ خونریز تاریخ میں ٹرننگ پوائنٹ اگست 2006ء میں ہی آیا جب نواب اکبر بگٹی کی پُراسرار ہلاکت جسے بلوچستان میں شہادت کہا جاتا ہے، اس نے انہیں سارے بلوچستان کا ہیرو بنادیا۔
نواب اکبر بگٹی اپنی 7 دہائیوں پر محیط سیاست میں ہمیشہ متنازع رہے۔ ان کے مخالفین کی تعداد ہمیشہ ان کے حامیوں سے زیادہ رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ سردار عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کی گوشہ نشینی اور پھر غوث بخش بزنجو کے انتقال نے انہیں 90ء کی دہائی تک آتے آتے بلوچستان کی سیاست میں سب سے اونچے منصب پر فائز کردیا۔
اگر اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نہ آتی تو شاید بلوچستان کا مسئلہ اس سنگین نہج پر نہ آتا۔ میاں نواز شریف کی دونوں حکومتوں کے دوران بلوچ قوم پرستوں سے مسلم لیگ (ن) کے تعلقات اگر بہت مفاہمانہ نہ تھے تو بہت مخالفانہ بھی نہ تھے۔
1998ء میں جب نواز شریف ایٹمی دھماکا کرنے کوئٹہ سے چاغی گئے تو ان کی گاڑی کو ڈرائیو کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ سردار اختر مینگل کر رہے تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے جو مخاصمت تھی وہ تو سمجھ آتی ہے مگر بلوچستان کا معاملہ دوسرا تھا۔
جنرل پرویز مشرف یہ حقیقت نہ جان سکے کہ مری، مینگل اور بگٹی اور بزنجو کی حامی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے حقیقی نمائندے اگر اسلام آباد اور بلوچستان کی پارلیمانی سیاست سے باہر رہے تو پہلے ہی سماجی اور معاشی طور پر محرومیوں کے شکار بلوچوں کے غیض و غضب میں اضافہ ہوگا کہ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں نوجوان تعلیم یافتہ بلوچوں کی وہ پیڑھی بھی تیار ہوچکی ہے، جسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ انہیں خاص طور پر سرکاری ملازمتوں سے محروم رکھا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں ان کی ہی زمین سے نکلنے والے معدنی ذخائر کی آمدنی سے بھی محروم رکھا گیا۔
بلاشبہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے نمائندے کے طور پر جب چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید نے نواب اکبر خان بگٹی سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تو اسے نتیجہ خیز بنایا جاسکتا تھا۔ مگر پھر یہی وہ وقت تھا جب جنرل پرویز مشرف مری کے علاقے میں جلسہ کرتے ہوئے ایک راکٹ حملے میں بال بال بچ گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے اس کی براہِ راست ذمہ داری مری اور بگٹی پر ڈال دی تھی۔
جنرل مشرف پر اس حملے کے بعد سوئی، کوہلو، اور ڈیرہ بگٹی میں فوجی چوکیوں پر حملوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس دوران ایک حملے میں 19 فوجی اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے جواب میں اکبر خان بگٹی کی رہائش گاہ پر پہلا حملہ ہوا، اور تمام تر فاصلوں اور رکاوٹوں کے باوجود الیکٹرانک میڈیا بھی ڈیرہ بگٹی پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔
برسوں سے میڈیا سے دُور اکبر خان بگٹی کے لیے چینلوں کی اسکرینیں ایک نیا میدان جنگ تھیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کا سرخ و سفید چہرہ جب ٹی وی کی اسکرینوں پر آتا اور ان کی بارعب کاٹتی ہوئی زبان اسلام آباد کی سویلین فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چلتی تو ایسا لگتا کہ بلوچستان ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔
مگر حقیقت یہ تھی اس وقت نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ دیگر قبائل تو چھوڑیں خود بگٹیوں کی بھی اتنی تعداد نہ تھی کہ وہ کوئی طویل لڑائی کے متحمل ہوتے۔ ڈیرہ بگٹی کو چھوڑنا نواب اکبر خان بگٹی کی ایک جنگی حکمت عملی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ مری، بگٹی، جنکشن پر جب وہ اپنا مورچہ بنائیں گے تو سارا بلوچستان ان کے پیچھے کھڑا ہوگا۔ نواب صاحب ایک بھرپور عظیم الشان زندگی گزار چکے تھے اور وہ اب خود کو ایک ہیرو اور افسانوی کردار کی حیثیت سے بلوچستان کی تاریخ میں زندہ دیکھنا چاہتے تھے اور پرویز مشرف نے انہیں یہ موقع فراہم کردیا تھا۔
2013ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی ڈاکٹر مالک بلوچ کی منتخب حکومت نے بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی کمانڈ کے ساتھ کلیدی کردار ادا کیا۔ وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ اور نیشنل پارٹی کے قائد میر حاصل خان بزنجو کی حکومت کے ڈھائی سال بجا طور پر بلوچستان کی کرپشن اور حبس زدہ صوبے میں خوشگوار ہوا کا جھونکا تھے، مگر اسلام آباد میں بیٹھی مسلم لیگ (ن) اور ایک حد تک اقتدار میں آنے کے لیے ذرا جلد بازی کا شکار ڈاکٹر مالک کی حکومت وہ غلطی کر بیٹھی جو بہرحال اس کی مجبوری بھی تھی۔ مگر اس کا نقصان مستقبل میں سارے صوبے کو اٹھانا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی کے معاہدے کے تحت ڈھائی سال کی مدت پوری کرنے کے بعد روایتی سردار ثنا اللہ زہری مسلم لیگ (ن) کے وزیرِ اعلیٰ بنے تو دراصل یہ واپسی تھی روایتی سرداروں، نوابوں کے طرزِ حکمرانی کی۔ سینیٹ میں صادق سنجرانی کو لانے اور ایک نئی صف بندی کے لیے پیپلزپارٹی جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال ہوئی اور سردار ثنا اللہ زہری کی حکومت کو ختم کرکے قدوس بزنجو کو لے کر آئی، اس کے بعد باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کو تو وجود میں آنا ہی تھا۔ یہ دراصل ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا، جس میں نمائندہ قوم پرست جماعتوں کو پیچھے دھکیل کر اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک ایسا گھاٹے کا سودا کیا جس کے نتائج اسے مستقبل میں زیادہ سنگین صورتحال میں بھگتنے پڑیں گے۔
سی پیک اور گوادر کی اقتصادی اور جغرافیائی اہمیت کے سبب پاکستانی ریاست کے دشمنوں کے لیے بہرحال بلوچستان اپنے وسیع رقبے اور کھلی مغربی سرحدوں کے سبب ایک سوفٹ ٹارگٹ رہا ہے۔
بلوچستان کو جب 23 سال بعد 1970ء میں صوبے کا درجہ ملا تو ایک مختصر سے گروہ کو چھوڑ کر تمام ہی بلوچ قوم پرست سرکردہ رہنما اس بات پر متفق تھے کہ اگر بلوچستان کو حقیقی معنوں میں صوبائی خودمختاری دے دی جائے اور ریاستی امور میں برابر کی بنیاد پر شراکت کا موقع ملے تو بلوچستان کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں کہ اسے حل نہ کیا جاسکے۔
فروری 1973ء میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو سے نواب اکبر خان بگٹی گورنر بلوچستان کے عہدے کا حلف لے رہے ہیں—ڈان/ وائٹ اسٹار آرکائیوز
1948ء، 1958ء، 1962ء اور پھر 1971ء کی سنگین خونریزی کے بعد جب وطنِ عزیز میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو بلوچستان کی نمائندہ سیاسی تنظیم نیشنل عوامی کے مقتدر اور معتدل رہنما میر غوث بخش بزنجو نہیں بلکہ پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کرنے والے مری، مینگل، بگٹی قبائل کے سخت گیر سرداروں اور نوابوں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ 1973ء کے آئین پر ایک نواب خیر بخش مری کو چھوڑ کر بلوچستان کے قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام اراکین نے دستخط بھی کیے اور ریاستِ پاکستان سے وفاداری کا حلف بھی اٹھایا۔
مگر 80ء اور 90ء کی دہائی اور پھر سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کے بعد کی حکومتوں نے جو تجربے کیے، ان کی وجہ سے بلوچستان کے مسئلے کو گنجلک اور گمبھیر تو ہونا ہی تھا کہ آنے والے دنوں میں ڈاکٹر مالک بلوچ جیسا کوئی معتدل قوم پرست نمائندہ سامنے نظر نہیں آتا۔
بلوچستان کی حالیہ مزاحمتی تحریک مستقبل میں کتنا خطرہ بن سکے گی، اس کا انحصار اندرون سے زیادہ بیرون پر ہے۔ شاید اسی لیے گریٹر بلوچستان کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ اس خطے کے بڑے کھلاڑی، حتیٰ کہ روایتی دشمن بھارت بھی ایک نیا بنگلہ دیش بنانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ بات بھی اسلام آباد میں بیٹھے سویلین حکمرانوں کو یاد رہے کہ کوئٹہ میں بیٹھی باپ میں جو خون دوڑ رہا ہے وہ ان حریت پسند بلوچوں کا نہیں کہ جو غلام بن کر رہیں، چاہے غیروں کے یا اپنوں کے۔
۔۔۔۔۔

جنوبی پنجاب صوبہ

پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ بڑا پرانا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وفاق غیر متوازن اور غیر مساوی ہوگیا۔ پنجاب کی آبادی کی بنیاد پر دوسرے صوبوں پر بالادستی کھٹکنے لگی۔ فیڈرل ازم کے ماہرین نئے صوبوں کی تشکیل پر زور دینے لگے۔ پنجابی اسٹیبلشمینٹ (سول ملٹری سیاسی بیوروکریسی) نے نئے صوبوں کی مزاحمت کی تاکہ قومی وسائل اور اختیارات پر اسکی بالادستی قائم رہے۔ حکمران اشرافیہ کی سیاسی اور معاشی بالادستی اور سول ملٹری تناؤ کے تناظر میں نظریہ ضرورت کے تحت جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پی پی پی نے پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے 2012ءمیں جنوبی پنجاب صوبہ کو بطور سیاسی نعرہ استعمال کیا۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس نعرے کے بڑے علمبردار بن کے سامنے آئے۔ جنوبی پنجاب صوبہ کے نعرے کی بازگشت نے تخت لاہور کو متاثر کیا اور مسلم لیگ(ن) نے پی پی پی کے ہاتھ سے جنوبی پنجاب صوبہ کا کارڈ چھیننے کے لیے پنجاب اسمبلی میں 2012ءمیں بہاولپور صوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کیلئے دو قراردادیں منظور کرلیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) دونوں نے جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبوں کا وعدہ اپنے اپنے منشور میں شامل کرلیا۔ انتخابات کے بعد نئے صوبوں کا مسئلہ سردخانے میں رکھ دیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاستدان قومی جذبے کے تحت نہیں بلکہ سیاسی مصلحتوں کے تحت نئے صوبوں کا مسئلہ اُٹھاتے ہیں۔ ”من خوب می شناسم پیران پارسا راچوں بہ خلوت می روند کاردیگر می کنند“۔ 2018ءکے انتخابات سے پہلے نئے صوبوں کا پرانا سکرپٹ پھر سیاسی منظر پر آیا ہے البتہ اس بار سکرپٹ میں نیا رنگ بھرا اور اسے ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ نئے صوبے کے نعرے میں کشش پیدا ہو۔ حکومتی جماعت مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والے جنوبی پنجاب کے درجنوں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے اچانک اپنی وفاداری تبدیل کرکے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم کرلیا۔ یہ محاذ اس وقت تک مو¿ثر اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا تھا جب تک اسے بڑی سیاسی جماعت کی حمایت اور تعاون حاصل نہ ہوتا۔ صوبے کے نام پر سیاسی محاذ کے پاس دو آپشنز پی پی پی اور تحریک انصاف تھے۔ البتہ تحریک انصاف کئی حوالوں سے بہتر آپشن تھا لہذا محاذ میں شامل اراکین اسمبلی نے تحریک انصاف میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا جس کا اعلان مشترکہ پریس بریفنگ میں کیا گیا۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنما خسروبختیار نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب کا 60فیصد بجٹ لاہور پر خرچ کردیا ہے جس سے جنوبی پنجاب میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا ہے اور وفاق پاکستان کے استحکام کو چیلنج لاحق ہوگئے ہیں اس لیے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے نئے صوبے کی شرط پر تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔قومی اسمبلی کے پانچ اراکین اور صوبائی اسمبلی کے تیرہ اراکین کی تحریک انصاف میں شمولیت مسلم لیگ(ن) کیلئے سیاسی دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے لیڈر اسے ”خلائی مخلوق“ کی ”سیاسی انجینئرنگ“ قراردے رہے ہیں۔
ایئرمارشل اصغر خان کیس کی روشنی میں اسے بعید از قیاس قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر پی پی پی کو روکنے کیلئے آئی جے آئی بن سکتی ہے تو مسلم لیگ(ن) کو روکنے کیلئے اتحاد بھی بن سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے مو¿قف اختیار کیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد مسلم لیگ(ن)نے آئین کی منشا کے مطابق مالی اور انتظامی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل نہیں کیے لہذا پسماندہ علاقوں میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے جس سے جنوبی صوبہ پنجاب کے مطالبے کو تقویت ملی ہے۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے لیڈروں کو تحریری یقین دہانی کرائی ہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد چھ ماہ کے اندر جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنادےگی۔ تحریک انصاف نے چوں کہ خیبرپختونخواہ میں اختیارات ضلعی حکومتوں کو منتقل کیے ہیں اور تیس فیصد بجٹ بھی مختص کیا ہے اس لیے اسی جماعت سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نئے صوبوں کے بارے میں اپنا وعدہ پورا کرے گی۔ چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار عوام کو حکمران اشرافیہ کی بیڈ گورنینس کا افسوسناک چہرہ دکھا رہے ہیں۔ افسوس سترسال کے بعد ہمیں حکومتی اداروں کی تباہی اور بربادی کا افسوسناک منظر دیکھنا تھا۔ حکمران اشرافیہ میں اگر نیشلزم کا جذبہ ہوتا تو نئے صوبوں کا مسئلہ بہت پہلے حل ہوچکا ہوتا۔ اجارہ داری اور بالادستی پر مبنی پرلے درجے کی مفاد پرستی کی سیاست اختیارات کی شراکت کے بجائے مرکزیت کو جنم دیتی ہے اور ریاست نااُمیدی، بے حسی اور جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔جنوبی پنجاب کے جاگیردار سیاستدان پاکستان کے صدر، وزیراعظم، پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہے۔ کسی نے عام آدمی کے بنیادی حقوق اور ان کے معیار زندگی میں اضافے کے لیے قابل ذکر کام نہ کیا البتہ ان کے خاندانی اثاثوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ جنوبی پنجاب کے موجودہ سیاستدانوں کی نیت کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے البتہ تاریخ شاہد ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کو بطور انتخابی کارڈ ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ وفاق کو متوازن اور مستحکم بنانے کیلئے اور اچھی حکمرانی کیلئے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل ضروری ہے مگر عوام کو مقتدر بنانے کا واحد حل بااختیار مقامی حکومتیں ہیں جس کا مرکزی بنیادی یونٹ یونین کونسل ہو۔ مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی دونوں نے اتفاق رائے سے آئین میں ترمیم کرکے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ضلعی حکومتوں کو خودمختار بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاریخ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ووٹر کو عزت اور اہمیت دینے کے دعوے تو کرتی رہی ہیں مگر عملی طور پر ان کا ریکارڈ افسوسناک ہی رہا ہے۔
پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) دونوں نے آئین سے کھلا انحراف کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کو زیرالتوا رکھا کیونکہ دونوں جماعتوں کے لیڈر قومی وسائل اور اختیارات مقامی سطح پر منتقل کرنے میں مخلص نہیں تھے۔ سپریم کورٹ کے دباؤ پر بادل نخواستہ بلدیاتی انتخابات کرائے گئے مگر ریکارڈ شاہد ہے کہ پنجاب سندھ اور بلوچستان میں آئین کے مطابق بلدیاتی ضلعی حکومتوں کو مالی اور انتظامی اختیارات منتقل نہیں کیے گئے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے صحافی، دانشور، نوجوان اور طلبہ نئے بااختیار مقامی حکومتوں کا مطالبہ کریں ۔وگرنہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ لاہور کی طرح ملتان اور بہاولپور ترقی کرجائیں گے جبکہ جنوبی پنجاب کے باقی اضلاع پسماندہ ہی رہیں گے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے کارکن شخصیات کے مزارع اور غلام بننے کے بجائے پاکستان کے عاشق اور سچے شہری بنیں اور یونین کونسل کو مالی اختیارات دینے کی تحریک چلائیں تاکہ پاکستان کے تمام علاقے مساوی ترقی کرسکیں اور ہریونین کونسل کے عوام مقامی مسائل پانی، صحت، تعلیم، سڑکیں، صفائی اور امن و امان کے سلسلے میں بااختیار ہوں۔ جمہوریت کے استحکام اور ووٹ کی عزت کا واحد حل یہ ہے کہ یونین کونسل کے افراد کو بااختیار اور مقتدر بنادیا جائے تاکہ مرکز صوبے اور ضلع کے سیاسی لیڈر اور بیوروکریٹ ان کا استحصال نہ کرسکیں۔ اختیارات کی یونین کونسل کی سطح پر تقسیم ہی آئینی ، جمہوری، قرآنی اور اخلاقی حل ہے۔ عوام کب تک دھوکے کھائیں گے ان کا مقدر انکے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ووٹ دینے سے پہلے اُمیدوار سے یونین کونسل کو مالی طور پر بااختیار بنانے کا حلف لیں۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد جناب میاں نواز شریف نے اب کھلم کھلا ریاستی اداروں کو للکارنا شروع کردیا ہے مگر چوں کہ انکی حکومت کے دن پورے ہونےوالے ہیں اس لیے اس موقع پر انکی للکار کسی کام نہیں آئیگی۔ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے میاں صاحب کے چیلنج کو مسترد کردیا ہے اور پاکستانی قوم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کسی قسم کا خوف ، دباؤ یا لالچ ان کو اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے نہیں روک سکے گا۔ احتساب کا عمل بلاتفریق، بلاامتیاز ، یکساں اور شفاف طریقے سے جاری رہے گا اور پاکستان کی لوٹی ہوئی قومی دولت قومی خزانے میں واپس لائی جائےگی تاکہ غریب اور مقروض ریاست کو قرضوں کی بوجھ سے نجات دلائی جائے اور پاکستان ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔
۔۔۔۔

پنجاب کی سیاست

پاکستان میں چھوٹی قومیتوں نے مختلف سیاسی جماعتیں بنائیں ہوئی ہیں، جو سرے عام قوم پرستی کا پرچار کرتی ہیں۔ لیکن اب ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی قوم پرستی کی آوازیں سنائی دینا شروع ہو گئی ہیں۔تاریخی طور پر پنجاب نے کبھی بھی قوم پرستی کی سیاست نہیں کی اور یہاں ہمیشہ مذہبی یا نظریاتی سیاست ہوتی رہی۔ البتہ ماں بولی کی ترویج کے لیے یہاں کئی تنظِمیں برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں چھوٹی قومیتوں کی طرف سے پنجاب کے خلاف الزامات، کالا باغ ڈیم کی سندھ اور کے پی کی طرف سے مخالفت، پنجاب کے مختلف شہروں میں پختونوں کی آمد اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے پنجاب کی ممکنہ تقسیم نے اس قوم پرستانہ جذبے کو مزید ابھار دیا ہے۔ پنجابی قوم پرست گروپس میں کچھ ترقی پسندانہ سوچ بھی رکھتے ہیں۔ کچھ سیاسی، معاشی اور ثقافتی محاذ پر پنجاب کے مفادات کا دفاع کرنا چاہتے ہیں جب کہ کچھ گروہ انتہائی نفرت انگیز سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔
پنجاب نیشل پارٹی پاکستان کے صدر احمد رضا وٹو نے پنجابی قوم پرستی کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”ایک عام پنجابی کا خِیال ہے کہ پنجاب کو بلا وجہ چھوٹے صوبوں کی طرف سے لعن و طعن کی جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم پنجاب کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے لیکن دوسرے صوبے اس کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح سندھی کسی صورت سندھ کی تقسیم نہیں چاہتا لیکن پنجاب کی تقسیم سرائیکی صوبے کے نام پر کرنے کے لیے سندھ سے لے کر کے پی تک سارے قوم پرست آوازیں لگاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کے پی سے آنے والے پختونوں نے پنڈی اور دوسرے شہروں میں بڑے کاروبار سنھبال لیے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی ایم کے رہنما نے بھی پنجابیوں کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔ پنجاب میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ایک بلوچ کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کو وزیر اعلٰی بنا دیا گیا ہے تو یہ وہ سارے عوامل ہیں جو پنجاب میں ایک عام آدمی کو قوم پرستی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تنظیم پنجابی زبان کی ترویج چاہتی ہے،”اس کے علاوہ ہم سرائیکی صوبے کے نام پر پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم کسی غیر پنجابی کو یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں، جو پنجاب دھرتی میں رج بس گیا ہے۔ تاہم ہم ایسے عناصر کو بالکل برداشت نہیں کریں گے، جو پنجاب کو توڑنے یا تقسیم کرنے کی باتیں کریں گے۔”
تاریخی طور پر پنجابیوں کی سب سے پہلے کوئی تنظیم لسانی بنیادوں پر پنجاب کے بجائے سندھ میں بنی۔ 1980ء کی دہائی میں کراچی میں پنجابی اسٹوڈنٹس ایسویسی ایشن بنی جبکہ 1980ء کی دہائی میں ہی کراچی میں ایک پنجابی سیاست دان ملک غلام سرور اعوان نے پنجابی پختون اتحاد کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔
پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے سابق مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری یاسر فرید نے پنجابی قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی لہر کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں جب پنجاب میں تھا تو مجھے کبھی بھی پنجابی ہونے کا احساس نہیں ہوا لیکن جب میں سندھ آیا تو یہاں ہم پر جملے کسے جاتے تھے اور ہمارا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ تو اس وقت ہمارے رہنماؤں نے پی ایس اے بنائی۔ پہلے قوم پرستانہ جذبات صرف سندھ کے پنجابیوں میں تھے کیونکہ سندھ میں سندھی قوم پرستی بہت ہے لیکن اب پنجاب میں بھی ایسے جذبات ابھر رہے ہیں۔ تاہم پنجابیوں کو ایک رہنما ملنے میں ابھی وقت لگے گا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابیوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی تعداد سرکاری اداروں میں کم ہو رہی ہے اور پنجاب میں بھی ان کے کاروبار پر دوسرے لوگ آرہے ہیں۔‘‘
ان دونوں پنجابی جماعتوں میں قوم پرستانہ جذبات کی بہت شدت نہیں ہے۔ تاہم پنجابی نیشنلسٹ فورم یا بی این ایف کے نام سے ایک گروپ پنجاب بھر میں منظم ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس گروپ کی سوشل میڈیا پر کئی تحریریں اور نعرے ناقدین کے خیال میں بہت اشتعال انگیز ہیں۔ اس تنظیم کے چیف آرگنائزر شہباز آرائیں کا دعوی ہے کہ پنجاب کے کئی علاقوں پر کرد نژاد بلوچوں اور عرب سے آئے ہوئے خاندانوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان کا دعوی ہے بلوچوں، پختونوں اور بھارت سے آئے ہوئے اردو بولنے والے مہاجروں نے پاکستان پر قبضہ ہوا کیا ہے۔
تاہم بی این ایف سے وابستہ سلیم الیاس پنجابی کا کہنا ہے کہ ان کا فورم کسی بھی قومیت کے خلاف نہیں ہے،”ہم یہ چاہتے ہیں کہ پنجابیوں کے حوالے سے جو تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، اس درست کیا جائے۔ پنجاب کو آبادی کے لحاظ سے اس کا جائز حق دیا جائے اور پنجابیوں کو برا بھلا کہنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ پنجابیوں کا ریاست پر قبضہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1947ء سے لے کر 1971ء تک صرف ایک پنجابی فیروز خان نون وزیر اعظم بنے اور انہوں نے بھی آپ کو گوادر لے کر دیا۔ اس کے علاوہ سندھ اور کراچی میں پنجابی آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہیں لیکن آپ سرکاری نوکریوں میں ان کی شرح دیکھ لیں۔ کراچی سے زیادہ اردوبولنے والے پنجاب میں آباد ہیں۔ یہاں بلوچوں اور پختونوں کی ایک بڑی تعداد ہے لیکن پنجابی کراچی اور بلوچستان میں خوف کی فضا میں رہے رہا ہے۔ تم ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر پنجاب میں بھی ہم ایسا طرز عمل اپنائیں تو پھر کیا ہو گا۔ تاہم ہم کسی قومیت کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں اور ہماری آبادی باسٹھ فیصد ہے، ہمیں اسی لحاظ سے ہمارا حق دیا جائے۔‘‘
تاہم پنجابی قوم پرستی کی جہاں مختلف حلقوں کی طرف سے مخالفت آرہی ہے، وہاں پنجاب میں بھی کچھ حلقے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ معروف پنجابی سماجی کارکن امجد سلیم کے خیال میں پنجاب میں تنگ نظر قوم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے،”ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ پنجابی زبان کی ترویج ہو اور پہلے سے لے کر گریجویشن تک پنجابی میں تعلیم دی جائے۔ ماں بولی کو فروغ دینا ہمارا مشن ہے۔ لیکن دوسری قومیتوں کے خلاف بولنا قوم پرستی نہیں بلکہ شاؤنزم ہے، جس کے ہم شدید مخالف ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔

سیاسی کارڈز
پاکستان کی سیاست میں کون سے کارڈز کھیلے جاتے ہیں؟

 ماضی میں کے لگ بھگ رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا اور حکومتی مشیروں نے  ن لیگ پر انڈیا سے رابطوں کا الزام عائد کیا تو اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت اس کے خلاف غداری کارڈ استعمال کر رہی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی سیاسی کارڈ کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہو۔ درحقیقت جب بھی ملک میں سیاسی محاذ گرم ہوتا ہے تو سیاسی حریفوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف کسی نہ کسی کارڈ کے استعمال کی بازگشت شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی مذہب کارڈ استعمال کرتا ہے تو کوئی غداری کارڈ، کبھی کرپشن کارڈ موثر ہوتا ہے تو کبھی پنجاب یا سندھ کارڈ۔
آخر یہ کارڈ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کارڈ کتنے موثر ہوتے ہیں اور کب ایکسپائر ہوتے ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ تاش کے پتوں یا کارڈز کو جس طرح اپنے حق میں استعمال کر کے بازی جیتی جاتی ہے اسی طرح سیاسی کارڈز کا استعمال بھی مخالفین کو مات دینے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی امور کے ماہر پروفیسر رسول بخش رئیس نے کہا کہ کارڈز اصل میں سیاسی ایشوز کی علامت ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہ اندازہ کرتی ہیں کہ کسی خاص وقت میں کون سے ایشوز ان کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ دیکھتی ہیں کہ سیاسی اور سماجی حلقوں کی خواہشات یا توقعات کیا ہیں پھر ان کے مطابق اپنے بیانیے یا کارڈ کو تشکیل دیا جاتا ہے۔
ثلاً پاکستان کے صوبہ سندھ میں قومیت کا معاملہ ہمیشہ سے اہم رہا ہے اور ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ایشو یا کارڈ کو ہمیشہ سے اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اس کا مقصد عوام کی خواہشات اور جذبات کے مطابق بیانیے کو تشکیل دے کر ان کی حمایت اپنے ساتھ قائم رکھنا ہے تاکہ کوئی اور یہ کارڈ نہ کھیل سکے۔
سیاست دان ان کارڈز کو اپنی ساکھ کو بحال کرنے اور عوام میں اپنی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں مذہب اور غداری کے کارڈز سب سے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے کئی سیاسی کارڈز استعمال کیے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ملک بنتے ہی کرپشن کارڈ کو استعمال کیا گیا اور اسی وجہ سے سنہ 1949 میں ہی اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے پروڈا کے نام سے ایک قانون لوگو کیا جس کے تحت کرپشن کے الزام پر سیاست دانوں کو نااہل کیا جا سکتا تھا۔ یہ کارڈ آج بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح مشرقی پاکستان کے رہنماؤں کے خلاف غداری کارڈ بھی شروع سے ہی استعمال کیا گیا ۔ سہیل وڑائچ کے مطابق ہمیشہ بڑے صوبوں کی جانب سے یہ کارڈ چھوٹے صوبوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ مغربی پاکستان جب بڑا صوبہ تھا تو اس کی جانب سے چھوٹے صوبے یعنی مشرقی پاکستان کے خلاف اس کارڈ کا استعمال 1954 کے انتخابات میں کیا گیا تاہم یہ کارڈ نہیں چلا اور مشرقی پاکستان کا سیاسی اتحاد ’جگتو فرنٹ‘ بھاری اکثریت سے جیت گیا تھا۔ بعد میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بڑے صوبے پنجاب کی طرف سے دوسرے صوبوں کے خلاف اسے استعمال کیا گیا تاہم اب پہلی بار پنجاب کی قیادت کے حوالے سے بھی اس کارڈ کا استعمال ہوا ہے تاہم پنجابی کو غدار کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر غداری کارڈ استعمال کیا گیا جسے کبھی قرارداد پاکستان پیش کرنے والے اے کے فضل الحق کے خلاف استعمال کیا گیا تو کبھی مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف اور کبھی تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے سندھی رھنما جی ایم سید کے خلاف۔
اس کے علاوہ محمد ضیا الدین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے ہی لسانی اور صوبائی کارڈز بھی استعمال کیے جب سابق صدر جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں اپنے خلاف پائے جانے والے جذبات کا مقابلہ کرنے کے لیے لسانی تنظیم ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا۔ اسی طرح جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بننے لگیں تو ’جاگ پنجابی جاگ‘ کے نعرے کے تحت نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوایا گیا اور بے نظیر بھٹو کو حلف اس وقت تک نہیں اٹھانے دیا گیا جب تک نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بن گئے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی سندھ کارڈ نہیں کھیلتی تو ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے کبھی سندھ کارڈ کی بات نہیں کی۔
رسول بخش رئیس کے مطابق مذہب کارڈ پاکستان میں استعمال تو کیا گیا مگر کبھی اس سے سیاسی کامیابی نہیں حاصل ہوئی کیونکہ مذہبی جماعتیں الیکشنز میں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئیں۔
تاہم رسول بخش رئیس کی بات سے اس حد تک اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی کارڈ اگر حکومت بنانے میں مدد نہیں دے سکا تو گرانے میں ضرور معاون ثابت ہوا ہے۔
حالیہ تاریخ میں لال مسجد آپریشن کے بعد فوجی صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی حامی جماعت مسلم لیگ ق کے خلاف مذہب کارڈ استعمال ہوا اور انتخابات میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح مسلم لیگ نواز کی حکومت میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے فیض آباد دھرنا اور دیگر احتجاجوں نے حکومت کا پہیہ جام کر دیا تھا اور 2018 کے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کے خلاف مذہب کارڈ کسی حد تک کامیابی سے استعمال ہوا اور کئی نشستوں پر مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک کے امیدواروں کے ووٹ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ہرانے میں معاون ثابت ہوئے۔
سیاسی کارڈ ہمیشہ ہی کارآمد نہیں رہتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت بڑھتی کم ہوتی رہتی ہے۔ پروفیسر رسول بخش کے مطابق جب کوئی ایشو عوام کے لیے اہم نہیں رہتا تو اس کا کارڈ استعمال کرنا بے کار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی نے برسوں پشتون کارڈ کھیلا اور انتخابی فائدہ بھی اٹھایا مگر اب وہ الیکشن ہار جاتی ہے گویا اس کا یہ کارڈ ایکسپائر ہو گیا ہے۔ وسطی پنجاب کے لیڈر نواز شریف کے خلاف استعمال کے بعد اب غداری کارڈ بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے کیونکہ وسطی پنجاب سے ہمیشہ اس کارڈ کی حمایت کی جاتی تھی مگر اب اسے عوامی تائید حاصل نہیں رہی۔ رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ کسی بھی کارڈ کو استعمال کرنے کے لیے سیاسی رہنما کا عوام کی نبض پر ہاتھ ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غداری ایک سنگین الزام ہے جسے لگانے میں احتیاط نہیں کی جاتی۔
۔۔۔۔۔

پاکستان کےصدر

سکندر مرزا سے غلام اسحاق خان تک
30 جولائی کو پاکستان کے آئین کے مطابق قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ملک کے 12ویں صدر کا انتخاب کریں گی۔ اس سے قبل پاکستان کے جو صدور گزرے ہیں ان میں سے سب آئینی طریقے سے منتخب نہیں ہوئے تھے، جب کہ 11 میں سے پانچ صدور فوجی تھے۔
اس کے علاوہ وسیم سجاد دو مرتبہ ملک کے عبوری صدر منتخب ہوئے۔
پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا تھے جو 23 مارچ 1956 سے 27 اکتوبر 1958 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔ 1956 میں جب پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا گیا تو اس میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے صدارت کا منصب تخلیق کیا گیا، جس کا انتخاب الیکٹرل کالج کے ذریعے ہونا تھا۔
تاہم صرف دو سال بعد ہی سکندر مرزا جس آئین کے تحت صدر بنے تھے، انھوں نے اسی آئین کو معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔
27 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا نے ایوب خان سے اختلافات کی بنا پر استعفیٰ پیش کر دیا اور جنرل ایوب خان نے صدر کا منصب سنبھال لیا۔
ایوب خان کو الیکٹرل کالج نے منتخب نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے یہ ساغر خود بڑھ کے اٹھایا تھا۔ تاہم اپنے عہدے کو قانونی چھتری فراہم کرنے کے لیے انھوں نے 1960 میں ریفرینڈم منعقد کروایا، جس میں انھیں بھاری حمایت فراہم ہو گئی۔
ایوب خان گیارہ سال کے لگ بھگ صدارت کے عہدے پر براجمان رہے۔ اس دوران ایک اور آئین منظور کیا گیا جس میں ان کی صدارت کی توثیق کی گئی۔ جب کہ اسی دوران انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔
ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ایوب کی حکومت کے خلاف عوامی ناپسندیدگی جس رفتار سے بڑھتی گئی، اسی رفتار سے ایک شعلہ بیان سیاست دان یعنی ذوالفقار علی بھٹو کا ستارہ بلند ہوتا گیا۔ بالآخر 25 مارچ 1969 کو ایوب خان نے اپنا عہدہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے سپرد کر کے بن باس لے لیا۔
یحییٰ خان کو پاکستان سیاسی تاریخ کا سب سے رنگین و سنگین کردار کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ انھوں نے پاکستان میں دوسری بار مارشل لا نافذ کیا۔ انھیں بڑے پیمانے پر مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ ان کے شراب و شباب کے رسیا ہونے کے قصے بھی مشہور ہیں، تاہم ان کے نامۂ اعمال میں یہ نیکی ضرور لکھی ہوئی ہے کہ انھوں نے 1971 میں ملک کی تاریخ کے سب سے صاف و شفاف انتخابات منعقد کروائے۔
تاہم بھارت سے بدترین شکست اور ملک کے دولخت ہونے پر رائے عامہ ان کے اس قدر غیر موافق ہو گئی کہ ان کا مزید اپنے عہدے پر برقرار رہنا ناممکن ہو گیا۔ چناں چہ وہ 20 دسمبر 1971 کو عنانِ اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ کر چلتے بنے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ، وزیرِ اعظم اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ برس تک ملک کے صدر بھی رہے ہیں۔ 1971 میں ان کی جماعت نے مغربی پاکستان میں واضح برتری حاصل کی تھی، جس کے باعث وہ 1973 میں وزیرِاعظم منتخب ہو گئے۔
بھٹو کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں ملک کے صدر چودھری فضل الٰہی چوہدری تھے۔ 1973 کے آئین کے تحت ملک کو پارلیمانی جمہوریت بنا دیا گیا تھا جس میں اختیارات کا طرہ منتخب پارلیمان اور وزیرِاعظم کے سروں پر سجا دیا گیا، جس کے بعد صدر کا عہدہ فائلوں پر دستخط کرنے اور تقریبات میں فیتہ کاٹنے تک سمٹ کر رہ گیا۔ بعض ستم ظریفوں نے صدارت اسی بے توقیری کے پیشِ نظر ایوانِ صدارت کی دیواروں پر لکھ دیا تھا، ’چودھری فضل الٰہی کو رہا کرو۔‘
بھٹو نے وہی غلطی کی جو ان سے قبل سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کر چکے تھے، یعنی فوج کے سربراہ کا ناعاقبت اندیشانہ چناؤ۔ اس کا خمیازہ انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ جنرل ضیاالحق 1977 میں انھیں معزول کر کے ملک کے تیسرے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ چودھری فضل الٰہی نے کچھ عرصہ ساتھ نبھایا لیکن تابکے؟ آخر 14 ستمبر 1978 کو وہ سبک دوش ہو گئے، جس کے دو دن بعد جنرل ضیاالحق نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔
اس مدتِ صدارت کو توسیع دینے کے لیے جنرل ایوب کی مانند جنرل ضیا کو بھی ریفرینڈم کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی۔ چناں چہ 1984 میں انھوں نے وہ بے حد متنازع ریفرینڈم منعقد کروایا جس میں وہ 95 فیصد ووٹ لے کر سرخ رو ہوئے۔
اگلے برس ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ نومنتخب اسمبلی نے نہ صرف ضیاالحق کے تمام سابقہ اقدامات کی توثیق کر دی بلکہ آٹھویں ترمیم بھی منظور کر دی جس کی بدنامِ زمانہ 58- 2B شق کے تحت صدر کو اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔
اب صدر محض چودھری فضل الٰہی نہ رہا بلکہ اس کے سامنے وزیرِاعظم اور پارلیمان ربر سٹیمپ بن کر رہ گئے۔
17 اگست 1988 کو گیارہ برس کے بعد صدر ضیاالحق کے اقتدار کا سورج اس وقت غروب ہوا جب ان کا طیارہ بہاولپور کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہ ہو گیا۔
1973 کے آئین کے تحت صدر کی غیرموجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین صدر بن جاتا ہے۔ اس وقت سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحٰق خان تھے، چناں چہ وہ ملک کے پانچویں صدر بن گئے۔
غلام اسحاق خان سے زرداری تک
جب 16 نومبر کو انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آ گئی۔ تاہم بے نظیر بھٹو کی حکومت نے مصلحتاً جنرل ضیا کے محرمِ دروں خانہ غلام اسحٰق خان ہی کو صدر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ خاصا بھاری ثابت ہوا اور جی آئی کے نے دو سال کے اندر اندر ہی بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بساط لپیٹ دی۔
اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی۔ شروع شروع میں تو ان کی حکومت کی غلام اسحٰق خان کے ساتھ خوب پینگیں بڑھیں لیکن رفتہ رفتہ حالات خراب ہوتے گئے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ نواز شریف ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے جولائی 1993 میں نہ صرف خود وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو لیے بلکہ غلام اسحٰق خان کو بھی ساتھ لے ڈوبے۔
یہ سیاسی میوزیکل چیئر کا زمانہ تھا، کبھی ہم کبھی تم۔ ایک بار پھر بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ گئیں۔ اس بار انھوں نے کسی اور جماعت کے صدر پر بھروسا کرنے کی بجائے اپنی جماعت کے فاروق احمد لغاری کو بھاری اکثریت سے صدر منتخب کرا دیا۔ لیکن نومبر 1996 میں جن پہ تکیہ تھا، انھی پتوں نے ہوا دے دی اور ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو معزول کر دیا گیا۔
نواز شریف ایک بار پھر وزیرِاعظم بن گئے۔ اور جیسا کہ ہوتا آیا ہے، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ان کے فاروق لغاری کے ساتھ اختلاف پیدا ہو گئے۔ نواز شریف چوں کہ پہلے ہی ایک سوراخ سے ڈسے ہوئے تھے اس لیے انھوں نے آتے ہی بھاری مینڈیٹ کے زنبور سے آٹھویں ترمیم کا ڈنک نکلوا دیا۔ فاروق لغاری کو چودھری فضل الٰہی بننا منظور نہیں تھا، اس لیے دو دسمبر 1997 کو انھوں نے تنگ آ کر استعفیٰ دے دیا۔
فاروق لغاری کے بعد سپریم کورٹ کے سابق جج اور نواز شریف کے معتمد محمد رفیق تارڑ ملک کے صدر بنے۔ ان کے دورِ میں چوں کہ صدر کے خصوصی اختیارات ختم ہو چکے تھے، اس لیے ایک بار پھر لوگوں کو چودھری فضل الٰہی کی یاد آ گئی۔
نواز شریف نے ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو خصوصی ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا۔ جب جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو اپنے لیے چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ منتخب کیا اور رفیق تارڑ کو صدر رہنے دیا۔ لیکن انھیں محسوس ہوا کہ ملک کے دوسرے فوجی سربراہان کی طرح ان پر صدارت ہی سجے گی، اس لیے انھوں نے بھی ایک ریفرینڈم منعقد کروایا اور رفیق تارڑ کو گھر بھجوا کر 20 جون 2001 میں خود صدارت کا حلف اٹھا لیا۔
تاہم مشرف کی یہ صدارت رفیق تارڑ اور چودھری فضل الٰہی کی طرح بے ضرر نہیں تھی، بلکہ انھوں 58- 2B کا گڑا مردہ نکالا اور اسے جھاڑ پونچھ کر اسمبلی اور وزیرِاعظم کے سر پر داموکلس کی تلوار کی طرح لٹکا دیا۔ اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور منتخب وزیرِاعظم اٹھتے بیٹھتے ’یس باس‘ کا ورد کرنے لگے۔
انھی بھاری اختیار کے ساتھ 2007 میں ایک بار پرویز مشرف کے سر پر صدارت کا سہرا سجایا گیا۔ اس بار انھیں الیکٹرل کالج نے منتخب کیا تھا۔
2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی، اور اس کے چند ماہ کے اندر اندر ہی حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ پرویز مشرف کو نہ صرف ایوانِ صدر بلکہ ملک ہی کو خیرباد کہنا پڑ گیا، اور آصف علی زرداری گیارھویں صدر منتخب ہو گئے۔ ویسے تو ملک میں ان کی مخالفت جاری رہی، لیکن یہ کریڈٹ انھیں ضرور دینا پڑے گا کہ وہ 58- 2B سے دست بردار ہو گئے۔ تاہم ان کا اپنی پارٹی پر شکنجہ اتنا مضبوط تھا کہ انھیں بقیہ ماندہ مدتِ وزارت میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔
۔۔۔۔۔

پاکستا ن میں فوجی سیاست
یامارشل لاء

اس مضمون میںمیری کوشش رہی ہے کہ پاکستان کے سینیئر تجزیہ نگاروں کی رائے سے اسے مکمل کروں۔
70 برس میں بیشتر وقت پاکستان پر آمریت کا سایہ ہی رہا۔70 برس کے عرصے میں پاکستان میں فوج چار مرتبہ برسرِِاقتدار آئی1947 میں قیامِ پاکستان سے 2017 میں اس کی 70ویں سالگرہ تک اس ملک میں فوج تقریباً ساڑھے تین دہائیوں تک برسراقتدار رہی ہے۔اس عرصے کے دوران میں پاکستان میں چار فوجی ادوار رہے جب زمامِ اقتدار جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے پاس تھی۔جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک ہر دور میں ایک ہی بیانیہ سننے کو ملتا رہا، جس میں سویلین حکومت کی نااہلی، کرپشن اور ملک کو لاحق خطرات کے دعوے سرفہرست تھے۔
دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اس ملک میں فوج یہ چاہتی ہے کہ تمام معاملات اس کے مشورے سے چلائے جائیں۔ان کا کہنا ہے کہ ‘خارجی سکیورٹی کا بوجھ ان پر ہے، داخلی سلامتی اور انسداد دہشت گردی بھی فوج کر رہی ہے۔ سویلین حکومت کا کردار محدود ہے لہذا جب تک مشاورتی عمل قائم رہتاہے، اس وقت تک معاملات ٹھیک رہتے ہیں۔حسن عسکری کے مطابق ‘دوسرا اہم ایشو بجٹ کے معاملات ہیں کہ وہ مشاورت سے ہوں، تیسرا یہ ہوتا ہے کہ خود کو بااختیار دکھانے کے لیے کچھ وزیر غیر ضروری طور فوج پر تنقید کرتے رہتے ہیں جس سے تعلقات میں خرابی آتی ہے۔حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نااہلی کے بعد احتجاجی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد سے لاہور پہنچے ہیں۔ اس سفر کے دوران ان کی تقاریر میں بالواسطہ اور کہیں کہیں بلاواسطہ طور پر بھی فوج اور عدلیہ کو ان کی برطرفی کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا۔نواز شریف کی بذریعہ عدالت برطرفی نے ملک میں ایک بار پھر سویلین بالادستی کی بحث کو جنم دیا ہے۔نواز شریف دو مرتبہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں آئے، یہ تیسرا موقع تھا کہ انہیں منصب سے ہٹنا پڑا، لیکن اس بار تعلقات میں خرابی کی کیا وجوہات رہیں؟ دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا خیال ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ خارجہ پالیسی تھی۔نواز شریف کی بذریعہ عدالت برطرفی نے ملک میں ایک بار پھر سویلین بالادستی کی بحث کو جنم دیا ہےان کے مطابق ‘نواز شریف خارجہ پالسی کو آہستہ آہستہ تبدیل کرنا چاہ رہے تھے اور قومی سلامتی کا ایک نیا بیانیہ بنا رہے تھے جس میں ہندوستان اس بیانیے کا مرکز نہیں رہتا۔ یہ فوج کی دکھتی رگ تھی اور اس لیے میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا تاکہ میاں صاحب کو ہٹایا جا سکے۔میاں نواز شریف کی برطرفی کے بعد بعض تجزیہ نگار یہ بات بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز کہتے ہیں کہ ملٹری اور سویلین تضاد کی بنیادی وجہ قول اور فعل میں فرق بھی ہے۔’نظام صرف باتوں سے نہیں، عمل سے قائم ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف سویلین حکومت یا فوج کی غلطی ہے بلکہ یہ معاشرے کی مجموعی ذمہ داری بنتی ہے۔’پاکستان کی بنیادی ضرورت گڈگورننس ہے۔ جب حکومت لوگوں کی ضروریات پوری کرے گی اور دیانتداری سے کام کرے گی تو عوام بھی اس کا ساتھ دیں گے پھر دوسری کوئی طاقت اسے الٹ نہیں سکتی۔پاکستان میں سویلین حکومت اور فوج میں رابطے کے ‘فارمل’ اور ‘اِن فارمل ‘ دونوں ہی پلیٹ فارم رہے ہیں۔ کسی زمانے میں وزیر اعظم، صدر اور آرمی چیف پر مشتمل ٹرائیکا کی ملاقاتیں اہم تھیں، اس کے بعد نیشنل سیکیورٹی کونسل اور موجودہ دور میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج اپنا موقف سامنے لاتی ہے۔تجزیہ نگار حسن عسکری کا خیال ہے کہ ان اداروں کہ فعال نہیں رکھا جاتا۔قومی سلامتی کونسل کے اب جا کر تین چار اجلاس ہوئے ہیں ورنہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی غیر رسمی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ جب آپ ایسے غیر رسمی انتظام کرتے ہیں تو اس سے ادارے کمزور ہوجاتے ہیں اور سویلین بالادستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ماضی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوج کے اقتدار کو غیر ملکی حمایت بھی حاصل رہی یہ حمایت نہ صرف سیاسی تھی بلکہ امداد کی صورت میں بھی آئی۔شجاع نواز کہتے ہیں کہ جب حکومت لوگوں کی ضروریات پوری کرے گی اور دیانتداری سے کام کرے گی تو عوام بھی اس کا ساتھ دیں گے پھر دوسری کوئی طاقت اسے الٹ نہیں سکتی۔تجزیہ نگار اور مصنف شجاع نواز کہتے ہیں کہ جب فوجی حکومت ہو تو پاکستان کی امداد کا گراف بڑھ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان بین الاقوامی صورتحال کو قابو میں نہیں رکھ سکتا، اسے امریکہ اور دوسرے بڑے ممالک کے ساتھ مل کر چلنا ہوتا ہے، ان بڑے ممالک کو فوجی حکومت سے جلد مدد مل جاتی ہے۔پاکستان میں جہاں گذشتہ 70 برس میں فوج کا سیاسی اثرو رسوخ بڑھا ہے، وہیں چینی اور کھاد کے کارخانوں سے لے کر بیکری تک کے کاروبار میں اس کی شراکت داری میں بھی اضافہ ہوا ہے تو کیا اقتدار کی وجہ کاروبار کی وسعت یا استحکام ہوتا ہے؟
فوج کے کاروبار پر کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ کاروبار میں فروغ کی وجہ یہ بیانیہ ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور فوج اس ملک میں ترقی اور سلامت کے لیے کام کر رہی ہے اس لیے اسے کاروبار کا حق ہے۔سیاست دانوں نے ان کے کاروبار پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی اور انھیں یہ سوچ کر یہ سب کرنے دیا کہ اس طرح سے ان کا منہ بند رہے گا لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک فوج کا قومی سلامتی کا بیانیہ تبدیل نہیں ہوتا۔
پاکستان میں آمریت کے ادوار میں صحافی بھی جمہوریت کی بحالی اور اظہار رائے کی آزادی کی جدوجہد میں شریک رہے ۔ سینیئر صحافی راشد الرحمان کا کہنا ہے کہ بعض وہ صحافی جو آمریت کا ساتھ دیتے تھے تو انہیں بری نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج کل صورتحال افسوس ناک ہے۔عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ فوج کے کاروبار میں فروغ کی وجہ یہ بیانیہ ہے کہ فوج اس ملک میں ترقی اور سلامت کے لیے کام کر رہی ہے اس لیے اسے کاروبار کا حق ہے
‘ٹی وی چینلز اور کسی حد تک اخبارات میں جو بیانیہ چل رہا ہے، اسے آئی ایس پی آر بناتی ہے۔ یہ بیانیہ دانستہ طور پر نہیں تو ڈر یا خوف یا کسی اور وجہ سے صحافیوں نے اپنا لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ تو صحافت کے تقاضے پورے کر رہا ہے اور نہ وہ ذمہ داری جو صحافیوں پر عائد ہوتی ہے ۔پاکستان میں فوجی ادوار کے دوران آئین میں ترامیم ہوئیں اور ایسی ہی ایک ترمیم کا نشانہ نواز شریف بھی بنے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب 18ویں آئینی ترمیم کی گئی تو اس وقت فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دور میں شامل کی گئی صادق و امین کی شقیں بھی ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن مسلم لیگ ن نے اس کی مخالفت کی اور بعد میں وہ خود اسی شق کا نشانہ بن گئی ہے۔آج پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں یہ شقیں ختم کرنا چاہتی ہیں لیکن تحریک انصاف اس کی مخالف ہے۔انسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ ‘وہ راستے روکنے ہوں گے جو پچھلی آمریتیں چھوڑ کر گئی ہیں۔’ اور اس کے علاوہ جو بنیادی انسانی حقوق آئین میں ہیں انہیں مضبوط کرنا ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ ‘اظہار رائے کے بارے میں آرٹیکل 19 یہ کہتا ہے کہ آپ سب کچھ کہہ سکتے ہیں مگر درحقیقت آپ صرف اپنے گھر والوں کے خلاف بول سکتے ہیں۔ پاکستان میں آپ نہ فوج پر بحث کرسکتے ہیں اور نہ ہی عدلیہ پر بات کر سکتے ہیں۔

پہلےمارشل لاء کے اسباب

ممتاز ماہر عمرانیات ایرک فروم کا کہنا ہے کہ آزادی کا حصول اور اس کے حصول کے بعد اس کو قائم رکھنا ایک دشوار طلب عمل اور کشمکش ہے بعض لوگ، بعض گروہ یا قومیں اس سے گھبرا کر اپنی آزادی اپنی رضا سے ایک شخص یا جماعت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس طرح انھیں فیصلہ کرنے کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے اور وہ حکم ماننے میں ایک گو نہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ سات اکتوبر 1958 ء کو جب سکندر مرزا نے پاکستان میں علانیہ مارشل لاء نافذ کرکے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں کو چیف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر نامزد کر دیا تو قوم نے بغیر کسی مزاحمت کے سر تسلیم خم کرنے میں سکون محسوس کیا اور بقول ایوب خان ملک میں مارشل لاءاتنی آسانی سے جاری ہو گیا جیسے کوئی بجلی کا بٹن دبا دے۔
لیڈر خود غرض، علماءمصلحت بیں، عوام خوفزدہ اور راضی بر ضائے حاکم، دانشور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں تو مارشل لاؤں کے لیے راستہ ہموار ہوتا چلا جاتا ہے پھر کوئی طالع آزما ملک کو غضبناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ مارشل لاء خود بخود نہیں آتا اسے لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آ جاتا ہے تو قیامت اس کے ہمرکاب آتی ہے۔
بیسویں صدی کے وسط میں بہت سے ممالک نے طویل اور صبر آزما جد و جہد کے بعد آزادی حاصل کی مگر کچھ ریاستوں کی جھولی میں یہ آزادی پکے ہوئے پھل کی طرح آ گری۔ جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں سیاسی خلاء پیدا ہوا۔ جس کی شدت میں اضافہ اقتصادی بحرانوں نے کیا۔ ممتاز ماہر دانشور Edward Luctwack کہتا ہے کہ
” There was one thing that the new states lacked which they could neither make for themselves, nor obtain from abroad, and this was a genuine political community.“
بلاشبہ حقیقی پولیٹیکل کیمونٹی کے نہ ہونے سے نو آزاد ریاستوں نے کمزور ادارہ سازی کے ماحول میں سیاسی عمل شروع کیا جس کے نتیجے میں ان ریاستوں میں سیاسی راہنماؤں کو سٹیٹس Quo بدلنے کے لیے طاقت پر انحصار کرنا پڑا۔
عائشہ جلال نے 1958 ءکے مارشل لاء کی وجوہات کا ذکر یوں کیا ہے کہ یہ اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی اسباب کا باہمی عمل تھا کہ چالیس اور پچاس کی دہائی میں خصوصی طور پر امریکہ سے تعلقات استوار کیے گئے جن کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی حیثیت متاثر ہوئی۔ پاکستان کی ریاست ارتقائی حالت میں تھی لہٰذا توازن سول بیورو کریسی اور فوج کے حق میں ہو گیا۔ ۔ ۔ غیر جمہوری اداروں کی بالا دستی، اعلیٰ سول بیورو کریسی اور فوج کی متفقہ حکمت عملی کا نتیجہ تھی، جس کے پیش نظر سیاست دانوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھایا گیا۔
اور ان قوتوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت لندن اور واشنگٹن میں بین الاقوامی نظام کے مراکز سے اپنے ذاتی تعلقات کو استعمال کرکے پاکستان میں سیاسی نظام کو کمزور کیا آخری تجزیے کے طور پر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کی ناکامی کی ذمہ داری سول بیوروکریٹس، فوجی افسروں، چیف جسٹس اور سیکولر و مذہبی سیاستدانوں سب پر عائد ہوتی ہے۔ عائشہ جلال کا تجزیہ بہت حد تک درست اور جامع ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پاکستان کے جمہوری ملک نہ بن پانے اور مارشل لاءکے لیے فضا ہموار کرنے کے کام کا آغاز تو خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اختیارات کا منبع و مرکز بن کر دیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی قد آور شخصیت کی وجہ سے ان کی ذاتی اتھارٹی تقدس کی حد تک بلند و بالا تھی نیز یہ کہ انھیں بطو ر گورنر جنرل گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 اور انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ 1947 کے تحت وسیع اختیارات بھی حاصل تھے۔ اس ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت ان کے بعد کے گورنر جنرلوں کو بھی وسیع اختیارات حاصل رہے اسی کے تحت وہ محض ایک فرمان سے آئین میں ترمیم کر سکتے تھے۔ تا ہم اس ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت گورنرجنرل کو تفویض کیے جانے والے ان لا محدود اختیارات کی حتمی حد ساڑھے سات ماہ تک تھی یعنی 31 مارچ 1948 ءکے بعد اس کی تنسیخ ہو جانا تھی مگر اس مدت کے خاتمے سے پہلے ہی اس میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور پھر جناح کے بعد ان اختیارات کے استعمال نے ملک میں سیاسی تماشا لگا دیا محمد علی جناح کا بطور گورنر جنرل کابینہ کا چناؤ اور کابینہ کی صدارت بھی کوئی احسن جمہوری روایت ثابت نہ ہوا۔
دوسرا یہ کہ ان کی طبیعت نا ساز رہتی تھی، چنانچہ ان کے انتظامی امور کا انحصار بیوروکریسی پر رہا۔ ان کا گورنر جنرل کا منصب اور آئین ساز اسمبلی کی صدارت بیک وقت سنبھالنا ایک تندو تیز بحث ہے تا ہم منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کی روایت کا آغاز بھی ان ہی کی ہدایت پر سرحد اور سندھ کے گورنر وں نے ڈاکٹر خانصاحب اور محمد ایوب کھوڑو کی وزارتیں 22 اگست 1947 ء اور 26 اپریل 1948 ء کو برطرف کرکے کیا۔ خالد بن سعید پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی کی جڑیں محمد علی جناح کی گورنر جنرل شپ میں دیکھتا ہے۔
پاکستان کے ابتدائی عشرے میں جمہوری نظام کی ناکامی کی ایک اوربڑی وجہ مسلم لیگ کا انحطاط بھی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام کی ناکامی کے اسباب میں لیگ کی بدعنوانی، بحیثیت سیاسی ادارہ کمزوریاں اور جاگیرداروں کے مفادات سرفہرست ہیں دراصل مسلم لیگ ایک سیا سی جماعت سے زیادہ ایک سیاسی تحریک تھی اور اس کی قیادت کو آزادی اتفاق سے مل گئی۔ مسلم لیگ کا پاکستان کا حصول آزادی ہند کی جدو جہد کی ضمنی پیداوار تھا۔
مسلم لیگ نے توہمیشہ عوامی مزاحمت کی تحریکوں سے خود کو علیحٰدہ رکھا۔ مسلم لیگ کی توانائی کا بڑا حصہ کانگرس کے دعوؤں کو جھٹلانے پر صرف ہوتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ وہ کردار ادا نہ کر سکی جو بھارتی سیاست میں کانگریس نے کیا۔ لارنس زائرنگ نے پاکستان میں پہلے مارشل لاء کو مسلم لیگ کے زوال سے در آنے والی ادارتی کمزوریوں سے منسلک کیاہے۔ مسلم لیگ اپنی عوامی حمایت کو مستحکم پارٹی ڈھانچہ کی اصطلاحات میں ادارہ بندی میں تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ تھی یعنی وہ پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے عوامی تائید کا حامل منشور تیار کرنے اور ایسی تربیت دینے کا انتظام نہیں کر سکی جس سے حکومتی اقتدار کے ڈھانچہ میں نمائندہ سیاسی حکومتوں کی قومیت کا تحفظ ہو سکتا۔
مزید یہ کہ مسلم لیگ پر پست ذہنی سطح کے جاگیرداروں اور زمینداروں کے غلبہ نے اسے اس قابل نہیں رہنے دیا تھا کہ وہ نئے ملک میں ایسا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دے جس میں عوامی امنگوں کو تسلیم کیا جا سکتا۔ لیکن جمہوری ناکامی کا واحد سبب مسلم لیگ کا انحطاط ہی نہیں تھا کیونکہ جدوجہد آزادی کے فیصلہ کن مرحلہ میں عارضی طور پر قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد مرکز گریز قوتیں ایک بار پھر اپنے راستے پر چل نکلی تھیں۔ مرکز میں اختیارات کے ارتکاز کے لیے جب آہنی ہاتھ استعمال کیا گیا تو مرکز گریز قوتوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا اس حوالے سے محقق یونس صمد نے اپنی کتاب A Nation in Turmoil میں تفصیلی بحث کی ہے۔
پاکستان کے پہلے عشرے میں جمہوری سیاست کی ناکامی محض بدعنوانی، انتشار اور سیاسی بدنظمی کا نتیجہ نہیں تھی۔ آئی اے رحمان کا خیال ہے کہ اس کے اسباب بیوروکریسی کی روایات اور سیاسی کلچر کی پیچیدگیوں میں پائے جاتے ہیں جو پاکستان کو نو آبادیاتی دور کی میراث میں ملے تھے۔ بالخصوص فوج اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ۔
تقسیم ہند سے قبل بیوروکریسی اور فوج نوآبادیاتی طاقت کا موثر ترین ذریعہ تھے۔ ان کا اہم ترین فریضہ مختلف مقامی طبقات کو محکوم بنانا اور اپنے نو آبادیاتی آقاؤں کے آلہ کار کے طور پر قوم پرست جدوجہد کو کچلنا ہوتا تھا۔ آزادی کی جدوجہد کے دنوں میں وہ قوم پرست راہنماؤں کی مخالف سمت میں ہوتے تھے مگر آزادی کے بعد وہی سیاسی راہنما جنہیں دبانا اور جن کی سرگرمیوں کو حکومتی حدود میں پابند رکھنا ان کا فرض ہوتا تھا وہ اب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکے تھے اور انھیں بظاہر فوج اور بیوروکریسی پر اختیار حاصل ہوگیا تھا۔
لہذا ان کے درمیان لحاظ اور افہام و تفہیم پر مبنی ایک نئے تعلق کو قائم کرنا عصری ضرورت بن چکا تھا۔ ا س ضرورت کو پورا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کو بہت طاقتور بیوروکریسی اور فوج ورثے میں ملی تھی جن کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کی حالت ابتر تھی۔ حمزہ علوی نے ایک فکر انگیز مضمون میں لکھا ہے کہ نو آبادیاتی تعمیر کی وجہ سے فوج ا اور نوکر شاہی کے ادارے ضرورت سے زیادہ ترقی کر گئے تھے۔
بہ نسبت زمیندار اور بوروژوائی حکمران طبقہ کے۔ چنانچہ فوج اور نوکر شاہی کا بالا دست طبقہ ریاست کے اندر دوسروں کی نسبت خود مختارانہ حیثیت کا مالک بن گیا۔ بیوروکریسی نے سب سے زیادہ فائدہ محمد علی جناح کی قد آور شخصیت کا اٹھایا اور وزیراعظم سمیت سیاسی قیادت کو بالائے طاق رکھ کرگورنر جنرل محمد علی جناح سے رابطہ رکھا۔ جناح نے بھی غلام محمد وغیرہ کو وزارتوں میں عملی طور پر لاکر اپنی تعلقداری کی نوعیت کا اظہار کر دیا تھا۔
جناح کی ذات انتظامی اختیارات کا مرکز تھی مگر چونکہ وہ علیل تھے لہذا ان کے اختیارات کا انتظامی حوالے سے استعمال بیوروکریسی ہی کرتی تھی۔ قائد اعظم کے عہد میں ہی بیوروکریسی نے اقتدار اپنے شکنجے میں لے لیا اور پھر جناح کی وفات کے بعد یہ اور مضبوط ہوئی۔ سیکرٹری جنرل کے عہدے نے چوہدری محمد علی کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد بیوروکریسی سیاسی قیادت سے آزاد حیثیت اختیار کرتے ہوئے مرکز تک چھا چکی تھی۔
بعد ازاں بیورو کریٹ غلام محمد گورنر جنرل کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تو بیورو کریسی اور مضبوط ہوئی۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا۔ بظاہر کوئی انقلابی اقدام تو سامنے نہیں آیابلکہ یہ سب نوازئیدہ ریاست کو ممکنہ مشکلات سے نجات دلانے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کے باعث ہوا۔ بیوروکریسی نے یہ اختیا ر ایسا انہونا عہدہ تخلیق کر کے حاصل کیا جو گورنر جنرل کی معاونت کے لیے تخلیق کیا گیا۔
سیکرٹری جنرل کا عہدہ جناح کے حکم پر تخلیق ہوا۔ کابینہ کی قرار داد کے ذریعے سیکرٹری جنرل کو تمام سیکرٹریوں اور فائلوں تک رسائی دے دی گئی پھر پلاننگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو چوہدری محمد علی کی قیادت میں ایک متوازی کابینہ بن گئی۔ جب غلام محمد گورنر جنرل بنا تب اس نے سیکرٹری جنرل اور پلاننگ کمیٹی تحلیل کر دی کیونکہ بیوروکریسی اب خود ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر قابض ہو چکی تھی۔ اس بیوروکریٹ گورنر جنرل نے 4 اکتوبر 1954 ء کو اسمبلی تحلیل کر کے نظم و نسق خود سنبھال لیا۔ حمزہ علوی کے خیال میں یہ پہلا موقع تھا کہ سیاسی قوتوں کو جبری طور پر اقتدار سے الگ کیا گیا، یوں اسے پہلا انقلاب یعنی کو ڈیٹا (Coup deta) کہنا چاہیے۔
بیوروکریسی یہ کام اکیلے نہیں کر رہی تھی اس نے فوج کے ساتھ تعلقات استوارکر لیے تھے۔ جنرل ایوب خاں کو جو اہمیت کی منزلیں بہت تیزی سے طے کر رہے تھے فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ وزارت دفاع کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ اسی طرح ان کے دوست ا سکندر مرزا جو سیکرٹری دفاع تھے انھیں وزیر داخلہ بنا دیا گیا، اس کابینہ کو ”قابل ترین افرادکی وزارت“ کہا گیا۔ یہ کابینہ فوج اور بیوروکریسی کی نمائندہ تھی، نہ کہ عوام کی۔
1947 ءمیں تقسیم سے فوج کمزور ہوئی تھی نیزکمانڈر انچیف بھی برطانوی تھے لیکن 1951 ء میں ایوب خاں کے دوست ا سکندر مرزانے وزیر اعظم سے ایوب خان کوکمانڈر انچیف مقرر کروا لیا۔ ایوب نہ تو سب سے سینئر تھے اور نہ ہی سب سے بہترین۔ ایوب کی نامزدگی کے دنوں میں دوسینئر جرنیل اچانک ایک فضائی حادثے میں مارے گئے اس سے ایوب خاں صرف چار سالوں میں لیفیٹنٹ کرنل سے جنرل بن گئے۔ جنرل شیر علی کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت لیفیٹینٹ جنرل افتخار کمانڈر انچیف بنتے تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔
ایوب خاں کے کمانڈر انچیف بننے سے ان کو ملنے والی ایکسٹینشن تک فوج اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ نمایاں رہا اور یہی پہلے مارشل لاء کی اہم وجہ بھی بنا۔ ایوب خاں کے کمانڈر بننے کے بعد راولپنڈی سازش کیس سامنے آیا۔ ایک جنرل نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایوب خاں نے اس سازش کا پتہ اپنی پسند کے لوگوں کو آگے لا نے کے لیے کیا۔ اس سے وہ ایسے لوگوں کو آگے لانے میں کامیاب ہوا، جو اس کے وفا دار تھے۔ راولپنڈی سازش کیس نے ایوب کو موقع فراہم کیا کہ وہ بیورو کریٹک زعماء، سکندر مرزا اور غلام محمد کے ساتھ قریبی تعلقات پیدا کریں۔
یہ تعلق نہ صرف دوستی میں تبدیل ہوا بلکہ پاکستانی سیاست کی سمت کے تعین میں بھی کردار ادا کرتا رہا۔ ستمبر 1953 ء کے اواخر میں، بری فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خاں امریکی سول اور فوجی حکام سے ملاقات کے لیے امریکہ پہنچے۔ ان کے اس دورے سے پہلے امریکی بحری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے 23 ستمبر 1953 کو امریکہ کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئر مین ایڈمرل ڈبلیو راڈ فورڈ کو ایوب خان کا ایک ”خاکہ“ روانہ کیا جس میں لکھا کہ ”6 فٹ 2 انچ سے زیادہ طویل القامت اور 210 پاؤنڈز کے وزن کے توانأ جنرل ایوب خاں پاکستان ملٹری سروسز کے سب سے با اثر افسر ہیں۔
فوج پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ زیادہ اور کم ہر دو قسم کی اہمیت کے فیصلے خود ہی کرتے ہیں کیونکہ وہاں سٹاف افسروں کو بہت کم اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ انہیں افسر کیڈر کا احترام حاصل ہے لیکن وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ درشتی اور سختی سے پیش آنے کا میلان رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ کس شے کی جستجو کرنی چاہیے اور یہ کہ وہ نتائج پر زور دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے اور اپنی افواج پر بڑا اعتماد ہے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ امریکہ نواز ہیں۔ جاہ و جلال کی بہت زیادہ ہوس اور سیاست کو اپنے فوجی کیریئر سے مخلوط کرنے کے میلان کو ان کی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔
فوج اور بیوروکریسی کے اس گٹھ جوڑ کو امریکی اشیر باد بھی حاصل رہی۔ دراصل آزادی کے بعد کے دور میں قومی بورژوا کی عدم موجودگی میں غیر ملکی تجارتی اور سرمایہ دار طبقے سامراجی دورجیسا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس خطے میں امریکہ کی موجودگی اور مفادات نے بھی پاکستان میں آمرانہ قوتوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار اکیا۔ پاکستان نے شروع میں ہی امریکہ سے تعلقات کی کوششیں کیں تاہم ابتدائی سالوں میں امریکہ نے آنکھیں نہ ملائیں۔
مارچ 1951 ءمیں ایرانی تیل کی صنعت کی ڈاکٹر مصدق کے ہاتھوں نیشنلائزیشن نے امریکہ کے تیور بدلے۔ 1952 ء کے بعد پاکستان امریکہ کی سرپرستی میں آ گیا۔ امریکہ کا معاشی مفاد فوجی سازو سامان کی فروخت سے وابستہ رہا۔ چنانچہ امریکی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کا انحصار فوج پر بڑھا۔ امریکہ کی فوجی امداد نے پاکستان کو سیاسی حوالے سے بھی مضبوط کیا اورپاکستان کی دفاعی معاہدوں میں شرکت ممکن ہوئی۔ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں ملٹری بیوروکریسی کو تقویت ملنے کی بڑی وجہ سرد جنگ کا ماحول تھا۔
امریکی سمجھتے تھے کہ ملٹری بیوروکریسی پاکستان میں ایک مضبوط مرکزی نظام قائم کر سکتی ہے۔ 3 اکتوبر 1953 ء کو پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے امریکہ کا غیر رسمی دورہ کیا جو کابینہ کی رسمی منظوری کے بغیر تھا اس دورے میں امریکی زعماؤں اور پاکستانی فوج کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ امریکہ Containment Policy کے زیر اثر دفاعی حصار قائم کرنا ضروری سمجھتا تھا۔ اس کے لیے ترکی اور پاکستان کو دفاعی لائن کے طور پر استعمال کرنا اس کا مقصد تھا۔
اس مقصدکے لیے یہاں موجود مضبوط فوجی و نوکر شاہی گٹھ جوڑ کو مضبوط کر کے اس نے Oligarachy قائم کرنا بہتر سمجھا تاکہ ساز باز میں آسانی رہے۔ امریکی مفاد کے لیے پاکستان میں جمہوری قوتوں اور اداروں کو کمزور بنایا گیا۔ پاکستان اور ترکی میں فوج اس کے لیے یہ سب کرنے کو تیار تھی۔ فوج اور امریکہ کے تعلقات اس نوعیت کے ہو گئے تھے کہ انہی دنوں بریگیڈیرغلام جیلانی کو امریکہ میں ملٹری اتاشی لگایا گیا تو امریکہ بھیجتے وقت کمانڈر انچیف جنرل ایوب نے انھیں بلا کر ہدایات دیں کہ تمھاری بنیادی ذمہ داری پینٹا گون کے ساتھ ملٹری ایڈ کے تعلقات استوار کرنا ہے تم ان امریکیوں سے براہ راست ڈیل کرنا اور پاکستانی سفیر کو اعتماد میں نہ لینا۔ شیریں طاہر خیلی کے مطابق جنرل ایوب خاں نے ”مناسب قیمت پر امریکہ سے ایسی ڈیل کی کوشش کی جس کے مطابق پاکستان مغر ب کے اتحادی کا کردار ادا کر سکے۔ امریکی تعاون حاصل کرنے کے لیے ایوب خاں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ایک امریکی اہلکار کو یہ تک کہہ دیا کہ
”Our Army can be your Army if you want“
اس بات کا حوالہDenis Kuksنے بھی دیا ہے۔ مغربی پاکستان میں امریکی اشیر باد سے قائم ہونے والے نظام کی acceptance موجود تھی کیونکہ یہاں کی مذہبی، جاگیردارانہ اور کمزور سیاسی قوتیں شراکت اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے ہر قیمت چکانے کو تیار تھیں لیکن مشرقی پاکستان میں اس منصوبے کو مشکلات کا سامنا تھا۔ چنانچہ جب یہی مشکلات آئینی بحران کے ساتھ ظاہر ہوئیں تو مشرقی و مغربی کا بحران شدت اختیار کر گیا جو بعد ازاں 1971 ء میں منطقی انجام کو پہنچا۔ اس پس منظر میں 1958 ءکا مارشل لا ء امریکہ، مغربی پاکستان کے کمزور سیاستدانوں، بیورو کریسی اور فوج کے مفادات کا ترجمان تھا جبکہ پاکستان کے عوام اور مشرقی پاکستان اس کے Victim تھے۔
پاکستان میں پہلے عشرے کی جمہوریت کی ناکامی کا بڑا سبب ریاستی ساخت بھی تھی۔ اس ریاست کا قیام وارتقاءاور سماج جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے لیے زیادہ زرخیز نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی سیاسی قیادت باہر سے تھی۔ یو پی /سی پی کی قیادت بھی مقامی لوگوں، ان کے کلچر، روایات اور ضرورت سے آشنا نہ تھی چنانچہ وہ سیاسی و سماجی مسائل پر قابو پانے کی بجائے غلطی پر غلطی کرتی چلی گئی۔ جب قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد حالات Son of the soil کو سنبھالنا پڑے تو ان کی نا تجربہ کاری آڑے آئی۔
یہی وہ مسائل تھے جس کے باعث ابتدائی عشرے کا پاکستان خالد بن سعید کے الفاظ میں ہابس کی ریاست کا منظر پیش کر رہا تھا۔ خالد بن سعید لکھتا ہے کہ ”پاکستان 1951 ءسے 1958 ءتک کے درمیانی عرصے کے دوران ہابس کی ریاست کے جیسا تھا جو کہ فطرت کی ہو بہو عکاسی کرتی نظر آتی ہے جہاں پرہر سیاسی یا صوبائی گروہ دوسرے گروہوں سے دست و گریباں ہوتا ہے۔ اس عرصے میں یہاں تسلسل کے ساتھ اقتدار کے لیے رسہ کشی جا ری رہی۔ پاکستان کو اس ازار ضرر رساں سے نجات چاہیے تھی اور مارشل لا ء ہی اس ملک کو تباہی کے دہانے سے واپس لا سکتا تھا جس کے نفاذ سے امن و امان اور عوامی بھلائی کو تلوار کی نوک پر ممکن بنایا گیا۔“
مذکورہ بالا حالات نے نہ صرف 1958 ء کے مارشل لاء کے منصوبے کی تکمیل کو ممکن بنایا بلکہ آنے والے مارشل لاؤں کو بھی بنیاد فراہم کی۔ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے حاکمیت غیر جمہوری کا کردار معرض وجود میں آ گیا۔ یہ وجوہات نہ صرف پہلے مارشل لاءکا سبب بنیں بلکہ آج بھی کسی نہ کسی طرح ریاست میں نمایاں نظر آتی ہیں ان اسباب کی موجودگی میں مؤرخین کے لیے تحقیق کا موضوع یہ نہیں کہ پاکستان میں مارشل لاءکب کب لگا بلکہ ان کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ جب جب مارشل لاءنہیں لگا تو اس کی وجوہات کیا تھیں۔
رئیس امروہی مرحوم نے پاکستان میں پہلے مارشل لاء کا قطعہ تاریخ کچھ یوں کہا تھا کہ
دیار پاک میں ہے کار فرما بحمد اللہ پاکستان کی فوج
نظر آتا ہے ملت کا ستارہ بالآخر مائل صد عظمت و اوج
وہاں ہیں امن ساحل کے نظارے جہاں سیل بلا ہے موج در موج
گرفت پنجۂ افواج کا سال
نہیں جز ’پنجۂ‘ فوج ظفر موج
(1378)
اکتوبر 1958 کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سرکاری ریڈیو و اخبارات مسلسل فوج کی مدح سرائی میں جتے ہوئے تھے اور قوم کو تصویر کا من پسند رخ دکھانے میں مصروف عمل تھے لیکن برہنہ آمریت کے اس دور میں ایک نحیف و نزار آواز جو قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کے حق میں بلند ہوئی وہ مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایم آر کیانی کی تھی۔ ان کی ایک تقریر جو 11 دسمبر 1958 ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے تھی اس میں انہوں نے کہا کہ مارشل لاء کا نفاذ سب سے بڑی آفت ہے جو کسی قوم پر نازل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بد نصیبی تنہا نہیں آتی اس کے ساتھ فوجی دستے بھی ہوتے ہیں لیکن اس بار تو پوری فوج اس کے ساتھ ہے۔
۔۔۔۔۔

پہلامارشل لاء

سیاسی تجزیہ نگاروں کی جانب سے گوہر ایوب کو ایوب خان کے زوال کا ایک بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ فوج سے استعفیٰ دینے کے بعد ان کی کاروباری اور سیاسی سرگرمیاں تھیں۔ان سرگرمیوں میں 2 معاملات اہم تھے۔ ایک تو گندھارا انڈسٹریز کا قیام اور دوسرا ان کے والد صدر ایوب خان کی صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں کامیابی کے بعد جشنِ فتح منانے کے لیے کراچی میں نکالے جانا والا جلوس۔ اس جلوس کے نتیجے میں شہر بھر میں فسادات پھوٹ پڑے اور 14 افراد اپنی جان سے گئے۔گوہر ایوب کا جنم 8 جنوری 1937ء کو ان کے آبائی گاؤں ‘ریحانہ’ میں ہوا۔ ان کی والدہ نے ان کا نام حبیب اللہ رکھا لیکن ان کے والد ایوب خان نے ان کا نام گوہر ایوب تجویز کیا۔ ان کا ابتدائی نام حبیب اللہ تھا، اس کو حسنِ اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ ان کے سسر کا نام بھی حبیب اللہ تھا۔ گوہر ایوب نے اپنے سسر کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور وہی کاروبار ایوب خان کے لیے ایک دردِ سر بن گیا، کیونکہ حزبِ اختلاف کی جانب سے گوہر ایوب کی کاروباری سرگرمیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔گوہر ایوب نے فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد 1958ء میں اپنے والد یعنی اس وقت کے کمانڈر ان چیف کے اے ڈی سی کی ذمہ داریاں بھی نبھائی تھیں۔ گوہر ایوب نے 1953ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور 11 سال فوج میں گزارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
م ۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ کے صفحہ نمبر 139 پر ’پسرانِ ایوب‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان ایوانِ صدر میں منتقل ہوئے تو بَری فوج کی طرف سے اے ڈی سی ان کے اپنے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب خان تھے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کیپٹن گوہر ایوب خان نے پاک فوج سے ریلیز لی اور نجی کاروبار میں مشغول ہوگئے۔ ان کی جگہ ایوب خان کے دوسرے صاحبزادے کیپٹن اختر ایوب خان، صدرِ پاکستان کے اے ڈی سی بن کر تشریف لے آئے۔ تھوڑے عرصے بعد انہوں نے بھی پاک فوج سے ریلیز لے لی اور کاروبار میں مصروف ہوگئے۔ ایوب خان کے یہی 2 لڑکے فوج میں تھے جنہوں نے یکے بعد دیگرے فوجی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا‘۔
م۔ ب۔خالد اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 140 سے 142 پر مزید لکھتے ہیں کہ ’فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جس شخص کا پشتوں سے پیشہ آبا سپہ گری رہا ہو، جس نے مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے پاکستانی سپہ سالار ہونے کا بلند ترین اعزاز حاصل کیا ہو، جس نے اپنے خون پسینے سے بَری فوج جیسے مقدس ادارے کی آبیاری کی ہو اور جو صرف اپنے فوجی عہدے کی بدولت صدرِ پاکستان کے بلند ترین مقام تک پہنچا ہو، وہ اپنے لڑکوں کو عین عالمِ شباب میں جب وہ تقریباً 25 یا 26 برس کے ہوں اور صرف 4، 5 سال کی سروس کی ہو فوج سے ریلیز کرکے نجی کاروبار میں لگادے، یہ ناقابل فہم ہے۔ والد کے صدرِ پاکستان بن جانے کے بعد اولاد کے لیے فوج سے وابستگی کیا مقدس پیشہ نہیں رہا تھا؟ صدرِ پاکستان کے لڑکوں کا فوج میں رہنا غیر محفوظ یا غیر منافع بخش ہوگیا تھا؟ ایک کیڈٹ کی تعلیم و تربیت پر حکومت کا زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں اتنے کم عرصے سروس کے بعد فوج سے ریلیز لینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اگر صدرِ پاکستان کے علاوہ کسی عام شہری کے لڑکے ہوتے تو کیا وہ بھی یوں آسانی سے ریلیز حاصل کرسکتے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پریزیڈنٹ ایوب خان نے عہدِ صدارت میں یا باقی ماندہ زندگی میں کبھی نہ دیا۔
’خود تو جنرل کے عہدے سے فیلڈ مارشل بن گئے مگر اپنی اولاد کو فوج سے نکل جانے کی اجازت دی بلکہ نکال لیا۔ ان کے پریزیڈنٹ بننے کے بعد یہ پہلی لغزش تھی جو ان سے سرزد ہوئی اور جس کی انہیں بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ان کے لڑکوں کے بارے میں جھوٹی سچی کئی کہانیاں مشہور ہوئیں اور باپ ہدفِ تنقید بنتا رہا۔ میرے ایک دوست اور ان کی بیگم جن کا اپنا تعلق وزارتِ دفاع سے تھا، پریزیڈنٹ ایوب خان کے بڑے مداح ہوا کرتے تھے، مگر لڑکوں کے کردار کی وجہ سے انہیں اپنی رائے بدلنا پڑی۔ ایک دفعہ میں نے ایوب خان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اولاد بالغ ہو تو اپنے قول و فعل کی خود ذمہ دار ہوتی ہے اور یہ کہ ان کی کسی بُرائی کو باپ کے کھاتے میں ڈالنا انصاف نہیں، تو وہ خاتون مجھ پر برس پڑیں کہ چھوڑیے جی! جو باپ اپنی اولاد کو کنٹرول نہیں کرسکتا، پورے ملک کو سنبھالنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ مجھے خاموش ہونا پڑا، کیونکہ مجھے اس سے اتفاق تھا۔ کیپٹن گوہر ایوب نے اپنے سسر لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان کے ساتھ مل کر گندھارا انڈسٹریز کی بنیاد رکھی مگر کیپٹن اختر ایوب خان چھوٹے موٹے کاروبار پر قناعت کرتے رہے۔ ایوب خان کو البتہ اپنے بڑے لڑکے گوہر ایوب خان سے زیادہ توقعات وابستہ تھیں، اگرچہ گندھارا انڈسٹریز سے منسلک ہونے کی وجہ سے گوہر ایوب خان کا شمار سرمایہ داروں میں ہونے لگا تھا، اس کے برعکس اختر ایوب خان غریب عوام میں رہتے ہوئے ان کی خدمت سے لطف اٹھانے میں مگن رہے‘۔
گندھارا انڈسٹریز کا نام اس سے پہلے جنرل موٹرز تھا جس کے حصص خریدنے کے بعد گوہر ایوب کے سسر لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان خٹک نے اس کا نام گندھارا موٹرز تجویز کیا۔ گندھارا موٹرز کے قیام کے ساتھ ہی حزبِ اختلاف کے ہاتھوں گویا ایوب خان کے خلاف ترپ کا پتا آگیا۔ حزبِ اختلاف نے اس معاملے کو ایوب خان کی جانب سے اقربا پروری کی بدترین مثال قرار دیا۔ حزبِ اختلاف کی رائے تھی کہ ایک سازش کے تحت جنرل موٹرز کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا کاروبار پاکستان سے سمیٹے۔ اس کے نتیجے میں انہیں کمپنی ایوب خان کے بیٹے اور اس کے سسر کو فروخت کرنی پڑی۔
لیکن گوہر ایوب اپنی کتاب GLIMPSES INTO THE CORRIDORS OF POWER (ایوانِ اقتدار کی جھلکیاں) کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں کہ ’فوج سے استعفیٰ کے بعد میں نے اپنے سسر حبیب اللہ خان کے کاروبار میں حصہ لیا۔ میری گندھارا انڈسٹریز سے وابستگی بعد ازاں حزبِ اختلاف کے ہاتھوں ایک ایسا ہتھیار بن گئی جس کا نشانہ میرے والد کو بنایا گیا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے جنرل موٹرز پاکستان کی خریداری اور بعد ازاں اسے گندھارا انڈسٹریز میں تبدیل کرنے کو میرے والد کی جانب سے ہمارے لیے تحفہ قرار دیا۔ وہ اس بات سے انکاری تھے کہ یہ دو کمپنیوں کے درمیان ایک نجی کاروباری معاہدہ تھا جس کا حکومتِ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
’مخالفین نے اس بات کو عام کیا کہ صدر ایوب خان نے لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا پورا زور میرے والد کی کردار کشی پر تھا۔ گوکہ وہ سرِعام میرے والد پر تنقید نہیں کرتے تھے لیکن انہوں نے عوام میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ میں نے پاکستان کے تقریباً منافع بخش ادارے خرید لیے ہیں۔ ایک بار میرے والد نے اپنے دورہ کراچی کے دوران لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان اور مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ جب گفتگو کا آغاز ہوا تو اس کا رخ گندھارا انڈسٹریز کی جانب ہوگیا۔ میرے والد نے بالکل صاف انداز میں ہمیں کہا کہ جنرل موٹرز خرید کر ہم نے غلطی کی ہے‘۔
جیسا کہ ہم ابتدا میں ہی یہ ذکر کرچکے ہیں کہ ایوب خان کے زوال میں گوہر ایوب کے کردار کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی سوانح عمری ’شہاب نامہ‘ کے صفحہ نمبر 968 سے 970 پر رقم طراز ہیں کہ ’ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان 3 جنوری 1965ء کو کیا گیا۔ صدر ایوب کے حق میں49 ہزار 647 ووٹ اور فاطمہ جناح کے حق میں 28 ہزار 345 ووٹوں کا اعلان ہوا۔ بظاہر ایوب خان 21 ہزار 302 ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے تھے‘۔
ایوب خان اپنی سوانح عمری ‘جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی’ کے صفحہ نمبر 392 پر لکھتے ہیں کہ ’فاطمہ جناح کو صرف دو شہروں میں اکثریت حاصل ہوئی تھی، ایک ڈھاکہ اور دوسرا کراچی۔ مغربی پاکستان میں کراچی کے سوا باقی ہر ایک ڈویژن اور ڈسٹرکٹ میں میرا پلّہ بھاری رہا۔ مشرقی پاکستان میں 17 میں سے 13 اضلاع میں مجھے اکثریت حاصل ہوئی۔ رائے دہندگان کی مجموعی تعداد میں سے 99.62 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ مس جناح کی 36 فیصد کے مقابلے میں مجھے 63 فیصد کی اکثریت حاصل ہوئی‘۔
قدرت اللہ شہاب اپنی سوانح عمری میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’انتخابات میں ڈھاکہ اور کراچی نے بھاری اکثریت سے صدر ایوب کے خلاف ووٹ ڈالے تھے۔ ڈھاکہ کے متعلق تو وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن کراچی میں ان کے فرزند دل پذیر گوہر ایوب نے اہلیانِ شہر کی گوشمالی کا بیڑا ٹھایا۔ چنانچہ 5 جنوری کو جشنِ فتح کے نام پر کراچی میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ جس کی قیادت گوہر ایوب کے ہاتھ میں تھی۔ ان کے جلوس میں سڑکوں پر جیپوں، ویگنوں، بسوں اور رکشوں کی طویل قطار تھی۔
‘اس کا بدلہ چکانے کے لیے رات کے اندھیرے میں ان بستیوں پر شدید حملے کیے گئے۔ آگ لگائی گئی اور کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔ اس نقصان کا صحیح اندازہ کسی کو نہیں، لیکن ’شہیدانِ لیاقت آباد‘ کی یاد منانے کے لیے ہر سال 5 جنوری کو ایک تقریب منائی جانے لگی۔ کئی روز تک کراچی میں خوف و ہراس طاری رہا اور پٹھانوں اور مہاجروں کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔ کچھ راویوں کے مطابق اس زمانے میں ایک بار پھر ‘ہندو مسلم’ فسادات کے واقعات کی یاد تازہ ہوگئی۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے فوراً بعد یہ صورتحال صدر ایوب کے نئے دورِ حکومت کے لیے صریحاً ایک شدید بدشگونی کی علامت تھی۔
‘گندھارا انڈسٹریز کے بعد گوہر ایوب کا یہ دوسرا شگوفہ تھا، جس نے صدر ایوب کی ساکھ پر بدنامی، بدسگالی، بدفالی اور نحوست کی گہری دھول اڑائی۔ اس کارنامے کے بعد اس فرزندِ دل پذیر نے مزید کل پرزے نکالنا شروع کیے جس سے بادی النظر میں یہ گمان گزرتا تھا کہ شاید صدر ایوب اس برخوردار کو اپنی ولی عہدی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ کراچی کے نظم و نسق میں بڑی حد تک دخیل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد جب انہیں کراچی مسلم لیگ کی رابطہ کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ اس تقرری کے پردے میں اس نوجوان کو اگلا صدارتی انتخاب لڑنے کی تربیت دی جارہی ہے۔
‘کراچی میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جن کے دل میں گوہر ایوب کے خلاف غم و غصے کی آگ پہلے ہی سے سلگ رہی تھی۔ اس افواہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس صورتحال کا علم نہ صدر ایوب خان کو تھا نہ گوہر ایوب کو، کیونکہ بیشتر سرکاری اور سیاسی ادارے ان دونوں کی خوشامد و چاپلوسی میں لگے ہوئے تھے۔ اہلیانِ کراچی کی آشفتگی، برہمی اور جھلاہٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹا، جب رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کے موقع پر گوہر ایوب نے کراچی کی میمن مسجد میں تقریر کرنے کی کوشش کی۔ اس پر مسجد میں زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ لوگوں نے تقریر سننے سے صاف انکار کردیا۔ کسی قدر ہاتھا پائی بھی ہوئی، اور گوہر ایوب کو بمشکل پولیس کی حفاظت میں مسجد سے باہر لایا گیا۔ اس احتجاجی واقعہ نے ایک طرف تو گوہر ایوب کی بڑھتی ہوئی توقعات اور خواہشات کی بساط الٹ دی۔ دوسری جانب صدر ایوب کے اقتدار کی سیڑھی کے پائیدان کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
’یوں بھی اقتدار کی سیڑھی کے اس پائیدان میں پہلے ہی سے بہت سی دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ میمن مسجد والے حادثے سے تقریباً 4 ماہ قبل کراچی میں ایک اور واقعہ بھی رونما ہوچکا تھا۔ جولائی 1967ء میں مادرِ ملّت مس فاطمہ جناح کی وفات پر کراچی میں لاکھوں شہری ان کے جنازے میں شامل ہوئے۔ جلوس کے ایک حصے نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، کچھ نعرے حکومت کے خلاف بلند ہوئے، کچھ نعروں میں ’ایوب خان مردہ باد‘ کہا گیا۔ اس پر پولیس حرکت میں آئی اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے علاوہ گولیاں بھی چلائی گئیں۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد مصدقہ طور پر کبھی بھی متعین نہیں ہوئی، لیکن خون کی جو قدر مقدار بھی اس موقع پر بہائی گئی بلاشبہ اس نے صدر ایوب کے زوال کی راہ کو ہموار کرنے میں بدنصیبی کا چھڑکاؤ کیا۔
’کراچی کی میمن مسجد میں گوہر ایوب کو جو سانحہ پیش آیا تھا اس کے بعد پے درپے بدفال واقعات کا ایسا تانتا بندھ گیا جس نے صدر ایوب کے راج سنگھاسن کو نہایت بُری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ دسمبر 1967ء کے آخری حصے میں وہ مشرقی پاکستان کے دورہ پر گئے ہوئے تھے۔ میں بھی اسی سلسلہ میں ڈھاکہ گیا ہوا تھا، یکایک خبر اڑی کہ صدر ایوب کو اغوا کرکے انہیں قتل کرنی کی سازش پکڑی گئی ہے، اس خبر کے پھیلتے ہی صدر کی ذاتی حفاظت کا انتظام کئی گنا زیادہ سخت کردیا گیا اور ڈھاکہ میں ایوانِ صدر پر پولیس اور فوجی گارڈز بھی غیر معمولی طور پر بڑھادیے گئے‘۔
اب یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ گندھارا انڈسٹریز کو کس طریقے سے گوہر ایوب اور ان کے سسر حبیب اللہ خان کی جانب سے خریدا گیا اور پھر حزبِ مخالف کی جانب سے ایوب خان پر اقربا پروری کاالزام لگاکر انہوں نے اپنے بیٹے ان کے سسر کو فائدہ پہنچانے کے لیے کس طرح ایوانِ صدر کے وسائل استعمال کیے۔ اس بات کو جواز بناکر حزبِ اختلاف نے ایوب خان کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا۔
گوہر ایوب پر دوسرا الزام یہ تھا کہ انہوں نے کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی مداخلت کا آغاز کردیا۔
الطاف گوہر کے مطابق پاکستان کے ایک سینئر سیاستدان پیر علی محمد راشدی نے ایوب خان کو یہ مشورہ دیا کہ ’چونکہ وہ عالم اسلام کی ایک بہت بڑی شخصیت ہیں اس لیے انہیں فوری طور پر اپنی بادشاہت کا اعلان کرکے گوہر ایوب کو اپنا ولی عہد نامزد کردینا چاہیے‘۔
ان تمام باتوں کا ہم مرحلہ وار جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے گندھارا انڈسٹریز کے قیام کا ذکر کرتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ اس میں بھی ورلڈ بینک کے ملازمین کا ذکر ہے اور 2020ء میں بھی ہماری معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ورلڈ بینک کے ملازمین ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
م ۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ کے صفحہ نمبر 135 تا 137 پر اس پوری صورتحال کو ’ایوب خان کا وزیرِ خزانہ’ کے عنوان سے یوں بیان کرتے ہیں کہ ’اپنے نظریاتی عقائد اور تحریکِ آزادی کے پس منظر کی وجہ سے ہم شروع ہی سے اشتراکی روس سے الرجک رہے، امریکا نے اپنے بین الاقوامی مفاد میں ہمارے رویے کی پذیرائی کی بعد میں پچاس کے عشرے میں بغداد پیکٹ (عراق میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد سینٹو) اور سیٹو کی رکنیت اختیار کرکے دفاعی اعتبار سے ہم مکمل طور پر امریکا ہی کے دستِ نگر بن گئے۔ یہ اس پالیسی کا نتیجہ تھا جسے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور وزیرِ خزانہ غلام محمد نے ترتیب دیا تھا اور ان کے بعد ہر آنے والی حکومت نے اسی ایک سمت پیش قدمی جاری رکھی یہاں تک کہ واپسی کے لیے کوئی راستہ نہ رہا۔ ایوب خان کے خیال میں ایسا کرنا لیاقت علی خان کی مجبوری تھی اور اس وقت کے حالات کا یہی تقاضہ تھا۔ اپنی ذاتی خواہش کے برعکس ایوب خان نے اسی پالیسی پر گامزن رہنے میں خود کو مجبور پایا۔ انہوں نے اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی تو وزارتِ خزانہ کے قلمدان کے لیے ورلڈ بینک میں پاکستانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب ایم شعیب کا انتخاب کیا حالانکہ ایم شعیب کا امریکی سی آئی اے سے تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔
’پاکستان کا وزیرِ خزانہ بن کر بھی ایم شعیب اپنی تنخواہ ورلڈ بینک سے باقاعدہ زرِ مبادلہ وصول کرتے رہے۔ دونوں طرف سے بیک وقت دو تنخواہیں وصول کرنا ملکی مفاد اور اخلاقی اصولوں کے خلاف تھا مگر شعیب نے اس کھلی بے قاعدگی کی ایوب خان سے تحریری اجازت لے رکھی تھی۔ ورلڈ بینک کی تنخواہ کے مقابلے میں پاکستانی وزیر کی تنخواہ اتنی قلیل تھی کہ شعیب ایثار سے کام لے کر اسے چھوڑ بھی سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف مارشل لا آرڈر کے تحت لوگ باہر کے بینکوں میں اپنی جمع شدہ رقم پاکستان منتقل کرنے پر مجبور تھے اور دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خزانہ غیر ملکی بینک میں ہر مہینے ڈالر جمع کروا رہے تھے۔
’ایم شعیب میں صوبائی تعصب کی یہ کیفیت تھی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو بلاتمیز ’بلڈی پنجابی‘ کہا کرتے تھے۔ یہ سب ایوب خان کے علم میں تھا جس سے وہ مصلحتاً چشم پوشی کرتے رہے۔ ورلڈ بینک اور امریکا سے اقتصادی اور فوجی امداد حاصل کرنے کی خاطر ایوب خان شعیب کو استعمال کرنا چاہتے تھے مگر الٹا شعیب کے ہاتھوں استعمال ہونا شروع ہوگئے۔ شعیب نے سب سے پہلے ایوب خان کی پدری کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔ ایوب خان کے دونوں بڑے بیٹے گوہر ایوب خان اور اختر ایوب خان بَری فوج میں کیپٹن تھے، انہیں فوج سے نکل کر کاروبار کرنے کی ترغیب دی اور ہر قسم کے تعاون اور مدد کا لالچ دیا۔ حُسنِ اتفاق سے موقع بھی ہاتھ آگیا۔
‘جنرل حبیب اللہ خان، جو بَری فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف اور سب سے سینئر افسر تھے امپریل ڈیفنس کالج لندن سے کورس کرکے واپس آئے تو ایوانِ صدر میں ایوب خان کے مہمان کی حیثیت سے ٹھہرے۔ ان کے پہنچنے سے پہلے افواہ گرم تھی کہ وہی ایوب خان کی جگہ کمانڈر ان چیف بننے والے ہیں۔ ایوانِ صدر میں ان کے قیام سے اس افواہ کو مزید تقویت ملی جس کی وجہ سے ان کی عزت اور اثر و رسوخ میں کثیر اضافہ ہوا۔ ایوب خان نے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے جنرل حبیب اللہ خان کو فوج سے ریٹائر کردیا اور ان کے بجائے جنرل محمد موسیٰ کو کمانڈر ان چیف بنایا جن کی وفاداریاں شک و شبہ سے بالا تھیں۔
’جنرل حبیب اللہ خان کی بیٹی کیپٹن گوہر ایوب خان سے منسوب تھیں اور خدشہ تھا کہ جنرل حبیب اللہ خان کی ایوب خان سے ناراضگی اس رشتے پر اثر انداز ہوگی مگر فریقین نے دانش مندی کا ثبوت دیا اور شادی بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ گوہر ایوب خان نے بَری فوج سے ریلیز لے لی اور ایم شعیب نے انہیں امریکا کی مشہور فرم جنرل موٹرز کی ایجنسی لے دی۔ یوں سسر اور داماد نے مل کر گندھارا موٹرز کے نام سے کاروبار شروع کردیا۔ گندھارا موٹرز جلد ہی گندھارا انڈسٹریز میں تبدیل ہوگئی اور مالکان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہونے لگا۔
’شعیب نے ایوب خان کے دوسرے لڑکے اختر ایوب خان کو بھی ترغیب دی مگر وہ کاروباری سوجھ بوجھ کے اعتبار سے گوہر ایوب جیسے نہیں تھے، نہ ہی انہیں جنرل حبیب اللہ خان جیسا سسر میّسر آیا۔ ان کی شادی بیگم ایوب خان کے بھائی عبدالرحمٰن خان کی صاحبزادی سے ہوئی جو جرمنی میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اختر ایوب خان نے کبھی جم کر کاروبار نہ کیا اور قناعت پسندی پر اکتفا کیے رکھا۔
’ایوب خان کا اپنے دونوں بیٹوں کو یکے بعد دیگرے فوج سے نکال کر کاروبار میں جھونک دینا کوئی معمولی قدم نہ تھا۔ اس کے بڑے دُور رس نتائج برآمد ہوئے اور یہ سودا ایوب خان کو بڑا مہنگا پڑا۔ جن لڑکوں کا والد کمانڈر ان چیف اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہو، دادا (رسالدار میجر میر دادا) اپنے وقت میں دیسی فوجیوں کے لیے بلند ترین عہدے سے ریٹائر ہوا ہو، وہ صرف کیپٹن کے عہدے پر ہی پہنچ کر بیل آؤٹ کرگئے اور یوں سپہ گری کے پیشے کو حقارت سے ترک کردیا۔ ایوب خان کے دوسرے بیٹے شوکت ایوب خان اور طاہر ایوب خان اس وقت زیرِ تعلیم تھے۔ بعد میں انہوں نے بھی نجی کاروبار ہی کو ترجیح دی اور اپنے ساتھ اپنے باپ کی بھی بدنامی کا باعث بنے۔ ایوب خان کے زوال میں ان کے بیٹوں کے بارے میں جھوٹی سچی داستانوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا‘۔
پاکستان میں ایک مثل عام ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اس مثال کو عموماً لوگ اپنے اپنے انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے استعمال کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ سیاست میں آپ کوئی بھی عمل کریں اس کے لیے کسی اخلاقی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کا عمل آپ کو اس حوالے سے فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ایوب خان نے بالکل اسی طرح کیا، ان کے چھوٹے بھائی سردار بہادر خان ان کی خود ساختہ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف تھے اور ایوب خان کی ذات اور ان کی حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔
سردار بہادر خان سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے انہوں نے ایک ترکیب بنائی جس کا ذکر گوہر ایوب اپنی کتاب GLIMPSES INTO THE CORRIDORS OF POWER (ایوانِ اقتدار کی جھلکیاں) کے صفحہ نمبر 84 پر کرتے ہیں کہ ’1962ء میں جب میرے والد صدرِ پاکستان تھے اور ان کے چھوٹے بھائی سردار بہادر خان قائد حزبِ اختلاف تھے تو دونوں کے درمیان 7 برس قبل ایک تنازعہ پیدا ہوا۔ جب میرے والد نے خاندانی روایات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ خاندان سے باہر اپنی مرضی کے مطابق شادیاں کرسکتے ہیں تو سردار بہادر خان نے میرے والد سے بول چال بند کردی جس کے باعث میری دادی کو گہرا صدمہ پہنچا۔ 1964ء کے وسط میں میرے والد نے مجھے کراچی سے طلب کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ اب جبکہ ان کے بھائی قائدِ حزب اختلاف نہیں تھے تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم 1965ء کے عام انتخابات میں اپنے چچا کے خلاف ہزارہ سے عام انتخابات میں حصہ لو۔ اس موقع پر میں نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ اختر ایوب اس کام کے لیے بہترین امیدوار ہوں گے، کیونکہ وہ ریحانہ میں رہائش پذیر ہیں اور مقامی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے ہیں جس کے سبب لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔
’والد صاحب نے میرے اس مشورے کو پسند کیا لیکن آخر میں کہا کہ تم پسند کرو یا نہ کرو تمہیں لازماً الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ صدارتی انتخابات کا انعقاد دسمبر 1964ء میں ہوا۔ ایک سخت مقابلے کے بعد والد صاحب نے یہ جنگ جیت لی۔ پاکستان کنونشن مسلم لیگ کراچی کی جانب سے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیا تھا تاکہ والد صاحب کی فتح کا جشن منایا جائے۔ گوکہ کراچی کے عوام کی بڑی تعداد نے محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں ووٹ دیے تھے۔
‘کنونشن لیگ کے کارکنوں اور حمایتیوں نے مجھے پی ای سی ایچ ایس میں واقع میرے گھر سے اپنے ہمراہ لیا اور پولو گراؤنڈ کی جانب چل پڑے جہاں پر جشن کا آغاز ہونا تھا۔ مجھے جلوس کے راستے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا ماسوائے اس کے کہ جلوس کا اختتام مزارِ قائد پر ہوگا جہاں پر فاتحہ ہونے کے بعد جلوس منتشر ہوجائےگا۔ بدقسمتی سے کراچی کے مختلف علاقوں میں جلوس نکالے گئے جس کے نتیجے میں ہمارے حمایتیوں اور مخالفین کے درمیان تصادم کے واقعات رونما ہوئے۔ جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے قیمتی جانوں کا زیاں ہوا۔ اس واقعے نے مجھے ذہنی کرب میں متبلا کردیا۔ یہ اس وقت ہوا جب میں اپنی پوری صلاحیتیں اس ضمن میں استعمال کررہا تھا کہ مہاجروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے جنہوں نے پاکستان کی صنعتی اور معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ مجھے اس صورتحال پر دلی افسوس ہوا‘۔
ایوب خان، گوہر ایوب کو سیاست میں لے آئے، ان کے فیوض و برکات کی وجہ سے جنرل موٹرز گندھارا انڈسٹریز میں تبدیل ہوگئی۔ حزبِ مخالف نے ان پر براہِ راست تنقید کے بجائے گوہر ایوب کو تختہ مشق بنایا۔ کیونکہ وہ ایوب خان کے مقابلے میں ایک آسان ہدف تھے اور پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی ایسی نئی بات بھی نہیں ہے۔ کسی بھی حکمران کی نااہلی کا سبب اس کے وزرا یا اہلخانہ کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز تقسیمِ ہند سے ہی ہوگیا تھا لیکن جب بات فوجی آمروں تک پہنچی تو ان کے اہلخانہ کے بجائے ان کی عادات و اتوار کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ ایوب خان تو خوش قسمت تھے کہ ان کے زوال کا سبب ان کے نجی معاملات کے بجائے ان کے بیٹے کو قرار دیا گیا۔ لیکن ایوب خان کے سینے میں یہ بات ایک پھانس کی طرح چبھتی تھی کہ لوگ آخر کیوں ان کے بیٹے کو موضوعِ بحث بناتے ہیں۔
اس حوالے سے ہمایوں مرزا اپنی کتاب FROM PLASSEY TO PAKISTAN (پلاسی سے پاکستان تک) کے صفحہ نمبر 295 پر ایوب خان سے 29 دسمبر 1965ء کو ہونے والی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ملاقات کے دوران سب سے پہلے سیاسی اور خاندانی امور پر بات ہوئی۔ پھر اچانک ایوب خان نے مجھ سے سوال کیا کہ ناجانے کیوں میرے بیٹوں کے بارے میں گمراہ کن خبریں پھلائی جارہی ہیں۔ تمہارے والد بھی پاکستان کے صدر تھے۔ تمہارے بارے میں کسی نے کچھ بھی نہیں لکھا۔ میں ان کے اس سوال پر حیران رہ گیا کہ وہ کس طرح مجھے اپنے بیٹوں کے ساتھ ملارہے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب چند ماہ پہلے ہی پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر پر جنگ ہو چکی تھی۔
صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشقند معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کررہے ہیں، تصویر میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی نظر آرہے ہیں
‘خیر، میں نے ان کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے اپنی روزی روٹی کے لیے بہت جدوجہد کی اس حوالے سے میرے والد نے میری کسی طرح بھی مدد نہیں کی۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ گوہر ایوب نے فوج سے اس وقت علیحدگی اختیار کی جب آپ صدرِ پاکستان تھے اور میری معلومات کے مطابق انہیں اپنے معاملات آگے بڑھانے کے لیے ایوانِ صدر کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ سنتے ہی ایوب خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور ہماری یہ ملاقات اختتام پا گئی۔ میں ان کے اس ردِعمل پر حیران ہوا کیونکہ گوہر ایوب کی بدعنوانیاں زبان زدِ عام تھیں۔ اب یہ ایوب خان کی معصومیت تھی یا ان تمام معاملات سے چشم پوشی۔ اس بارے میں کوئی بھی بات سن کر ایوب خان سیخ پا ہوکر غصے میں آجاتے تھے اور بغیر کسی لحاظ کے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے‘۔
الطاف گوہر اپنی کتاب ‘ایوب خان، فوجی راج کے پہلے دس سال’ کے صفحہ نمبر 448 پر لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان کو اس نقصان کا بھی کوئی اندازہ نہ تھا جو ان کی ذات اور حکومت کو ان کے خاندان پر بدعنوانیوں کے الزامات کے نتیجے میں پہنچا تھا۔ وہ ایک غیر ملکی جریدے میں پاکستان کے بارے میں ایک تبصرہ پڑھ کر بہت غضب ناک ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنے والد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں ‘افواہ سازی’ کا کارخانہ الاٹ کرادیں کیونکہ ملک میں اس جنس کی سب سے زیادہ کھپت تھی۔ انہوں نے سیکرٹری اطلاعات سے پوچھا کہ ‘آخر یہ سب لوگ میرے بیٹے کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں؟’ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ ‘اس لیے جناب صدر کہ وہ آپ کو اپنی اولاد کے اعمال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘۔
جب کوئی حکمران ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو اور امورِ مملکت میں عوام کی رائے کی اہمیت ختم ہوچکی ہو تو حکمران کے عزیز و اقارب کی بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں اس کی اپنی شہرت اور کردار پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایوب خان کے لیے یہ دلیل ناقابلِ فہم تھی۔ گوکہ ایوب خان نے اپنی سوانح عمری ‘جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی’ میں اپنے بیٹوں کا اور ان کی بحیثیت اے ڈی سی تقرری کا کوئی ذکر نہیں کیا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جن باتوں کا ذکر آپ نہ کریں تو کوئی اور بھی نہ کرے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ ایوب خان کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں اور خود، ان کے اپنے بیٹے گوہر ایوب نے ان باتوں کا تذکرہ تفصیل سے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔
۔۔۔۔۔

دوسرامارشل لاء
یحییٰ خان

جنرل آغا محمد یحٰیی خان (4 فروری، 1917ء – 10 اگست، 1980ء) پاکستان کی بری فوج کے پانچویں سربراہ اور تیسرے صدر مملکت تھے۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں انھیں 1966ء میں بری فوج کا سربراہ نامزد کیا۔ 1969ء میں ایوب خان کے استعفے کے بعد عہدۂ صدارت بھی سنبھال لیا۔ یحیی خان کے یہ دونوں عہدے سقوط ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر، 1971ء میں ختم ہوئے جس کے بعد انھیں طویل عرصے تک نظر بند بھی کیا گیا۔
: یحٰیی خان کے خاندان کا تعلق شیعہ قزلباش ذات سے ہے جنہوں نے اسماعیل شاہ صفوی کی طرف سے ایران میں شیعہ سلطنت اور وہاں کی سنی آبادی کی نسل کشی میں اہم کردار ادا کیا۔
مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔ 23 مارچ 1969ء کو یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات دیں۔ 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحیٰی خان باقاعدہ مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔
یحییٰ خان کو بھاری شرابی کے طور پر جانا جاتا تھا شراب میں انکی ترجیح وہسکی تھی۔ دور حکومت میں یحییٰ خان کی قریبی دوست اور گھریلو ساتھی اکلیم اختر تھیں جنہیں جنرل رانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اکلیم اختر، جو بعد ازاں جنرل رانی کے نام سے مشہور ہوئیں، پاکستان کے صدر جنرل یحیی خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتی تھیں۔ ان کے قریبی تعلقات کی بنا پر وہ جنرل یحیی کو “آغا جانی“ کے نام سے پکارتی تھیں اور ان تعلقات کی بنیاد پر وہ نہایت مقبول اور انتہائی اختیارات کی حامل شمار ہوتی تھیں۔ اسی طاقت اور اختیار کی وجہ سے انھیں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل یحیی کے دور میں جنرل کے بعد اکلیم اختر پاکستان کی سب سے بااختیار شخصیت ہوا کرتی تھیں۔ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مگر پھر بھی انھیں سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔
پاکستان کے مشہور پاپ گلوکار، فخر عالم اور عدنان سمیع، جنرل رانی کے نواسے ہیں ۔
عدنان سمیع خان کے خاندان کا اصل تعلق افغانستان سے ہے۔انکے دادا محفوظ خان کابل، ہرات، جلال آباد اور بلخ کے گورنر تھے۔بچہ سقہ کے دور میں برا وقت شروع ہوا تو انہیں افغانستان چھوڑنا پڑا۔عدنان کے والد ارشد سمیع خان پاکستان ایئرفورس میں اسکوارڈن لیڈر تھے اور 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں ستارہ جرات بھی حاصل کیا۔ارشد سمیع خان 1966ء سے 1972ء کے دوران صدر ایوب خان، صدر یحییٰ خان اور صدر ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی رہے۔ بعد ازاں فارن سروس میں آ گئے۔پھر چھٹی لیکر بیرون ملک چلے گئے۔ کئی سال بعد واپس آکر دوبارہ فارن سروس جوائن کرلی۔ کئی ملکوں میں سفیر بنے۔ چیف آف پروٹوکول بنے ، 1989ء میں کینسر کا شکار ہوئے تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ان کا سرکاری خرچ پر برطانیہ سے علاج کرایا۔وفاقی سیکرٹری بھی بنے ،عدنان سمیع کو فلموں میں گانے اور کام دلوانے کیلئے سیکرٹری کلچر کے طور پر اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کرتے رہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یحییٰ خان کے دور میں جنرل رانی کے نام سے مشہور ہونے والی اقلیم اختر رانی رشتے میں عدنان سمیع خان کی نانی تھی۔ارشد سمیع خان جنرل رانی کی بہن کے داماد تھے۔ جنرل رانی کی ایک بیٹی عروسہ عالم پچھلے کئی سال سے بھارتی پنجاب کے ایک سیاست دان ارمیندر سنگھ کی دوست بن کر بھارت میں مقیم ہیں۔بھارتی میڈیا میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ ارمیندر سنگھ نے عروسہ عالم سے شادی کرلی ہے لیکن سابق مہاراجہ پٹیالہ کے بیٹے ارمیندرسنگھ کی بیوی مہارانی پرنیت کور کا کہنا ہے کہ سکھ مذہب کے مطابق ارمیندر سنگھ کی واحد قانونی بیوی ان کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی۔عروسہ عالم رشتے میں عدنان سمیع خان کی خالہ ہیں۔ بھانجے نے 2001ء اور خالہ نے 2006 میں پاکستان چھوڑا تھا لیکن اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا کیونکہ اس خاندان کے طاقتور اداروں میں گہرے تعلقات تھے۔ عدنان سمیع خان نے فلمی دنیا میں قدم رکھنے کیلئے پہلے زیبا بختیار کو اپنی سیڑھی بنایا اور پھر آشا بھو سلے کو استعمال کیا۔موصوف کے پاکستان چھوڑنے پر مجھے کوئی دکھ ہے نہ اعتراض لیکن میں اہل وطن کو یہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ عدنان سمیع خان کے والد ارشد سمیع خان بھی پاکستان چھوڑ کر امریکہ چلے گئے تھے اور ان کا انتقال ممبئی میں ہوا تھا۔ ارشد سمیع خان کی کتاب ”تھری پریذیڈنٹس اینڈ این ایڈ“ بھارت میں شائع ہوئی تھی۔ارشد سمیع خان نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ 1970ء کے انتخابات صاف اور شفاف نہیں تھے۔خان عبدالقیوم خان، صبور خان اور مولانا بھاشانی سمیت کئی سیاست دانوں میں رقوم تقسیم ہوئیں لیکن انتخابات میں عوامی لیگ کو اکثریت ملی تو یحییٰ خان غصے میں آ گئے اور انہوں نے اپنے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل غلام عمر سے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج مختلف ہونے چاہئیں لیکن جنرل عمر کچھ نہ کر سکے۔ اس الیکشن میں یحییٰ خان نے راولپنڈی میں سائیکل کے نشان کے سامنے مہر لگائی اور ارشد سمیع خان سے بھی سائیکل پر مہر لگوائی۔ارشد سمیع خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ کس طرح وہ ڈھاکہ کے پریذیڈنٹ ہاؤس میں رات کو تمام روشنیاں بجھا دیتے تھے اور پھر صدر پاکستان کو اپنی گاڑی میں چھپا کر ڈانس پارٹیوں میں لے جاتے جہاں صدر صاحب تمام رات عورتوں کے ساتھ ناچتے رہتے تھے اور علی الصبح ارشد سمیع خان اپنے باس کو واپس پریذیڈنٹ ہاؤس میں لے آتے.
ارشد سمیع خان نے لکھا ہے کہ جب انہیں حمود الرحمان کمیشن کے سامنے بلایا گیا اور یحییٰ خان سے ملاقاتیں کرنے والی عورتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اسکوارڈن لیڈر صاحب نے لاعلمی ظاہر کر دی۔جسٹس حمود الرحمان نے ا±ن سے پوچھا کہ کیا یحییٰ خان کثرت شراب نوشی کا شکار تھے تو ارشد سمیع خان نے نفی میں جواب دیا۔ ارشد سمیع خان کی اس لاعلمی کے باوجود حمود الرحمان کمیشن نے یحییٰ خان کے بارے میں بہت سے ثبوت اور حقائق حاصل کرکے اپنی رپورٹ میں شامل کر دیئے۔کمیشن کی رپورٹ کے باوجود یحییٰ خان پر کوئی مقدمہ نہ چلا جنرل ضیاءالحق نے انہیں رہا کر دیا اور ارشد سمیع خان پر بھی اپنی عنایات کو جاری رکھا۔ ارشد سمیع خان نے اپنی کتاب میں اپنے ستارہ جرات کا بڑے فخر سے ذکر کیا ہے۔جس ملک کیخلاف جنگ میں یہ ستارہ جرات انہیں ملا ان کے بیٹے عدنان سمیع خان نے اسی ملک کی شہریت حاصل کرکے اور جے ہند کا نعرہ لگا کر اس ستارہ جرات کی نفی کر دی۔
حمودالرحمن کمیشن کے سامنے بریگیڈیئر منور خان نے بیان دیا کہ 1971 میں گیارہ اور بارہ دسمبر کی درمیانی شب، جس رات دشمن کی فوج ہمارے فوجیوں پر آگ کے گولے برسارہی تھی، اسی رات کو کمانڈر بریگیڈیئر حیات اللہ اپنے بنکر میں عیاشی کے لئے چند لڑکیوں کو لے کر آیا تھا۔ کمیشن کو بریگیڈیئر عباس بیگ نے بتایا کہ بریگیڈیئر جہانزیب ارباب (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) جو ملتان میونسپل کمیٹی کے چیئرمین تھے نے ایک پی سی ایس افسر سے رشوت کے طور پر ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ افسر نے خودکشی کر لی تھی اور اپنے پیچھے ایک پرچی پر لکھا چھوڑ گیا کہ بریگیڈٰیر جہانزیب ارباب نے اس سے ایک لاکھ کا مطالبہ کیا حالانکہ اس نے صرف پندرہ ہزار روپے کمائے تھے۔ یہی جہانزیب ارباب تھا جس نے بعد ازاں بطورکمانڈر سابق مشرقی پاکستان میں بریگیڈ57 سراج گنج میں نیشنل بینک کے خزانے سے ساڑھے تیرہ کروڑ روپے لوٹےتھے۔
کمیشن کی تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ میجر جنرل خداداد خان ایڈیٹر جنرل پاکستان آرمی کے نہ صرف مشہورِزمانہ جنرل اقلیم اختر رانی کےساتھ ناجائز تعلقات تھےبلکہ اس نے مارشل لاء کے دوران کئی مقدمات دبانے میں جنرل رانی کی معاونت بھی کی۔ مار شل لا کے دوران ہی کئی کاروباری سودوں میں وسیع پیمانے پر رقم کی خرد برد کے الزامات بھی میجر جنرل خداداد خان پر ہیں۔
جنرل اے کے نیازی کے لاہور کی سعیدہ بخاری کے ساتھ مراسم تھے جس نے سینوریٹا ہوم کے نام سے گلبرگ میں ایک گھر کو کوٹھا بنایا ہوا تھا۔ یہی سعیدہ بخاری اس وقت لاہور میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور بعد میں کورکمانڈر “ٹائیگر نیازی” کی ٹاؤٹ تھی اور غیرقانونی کاموں اور رشوت ستانی میں اس کی مدد کرتی تھی۔ سیالکوٹ کی بدنامِ زمانہ شمیم فردوس بھی نیازی کے لئے اسی خدمت پر مامور تھی۔ فیلڈ انٹیلیجنس کی 604 یونٹ سے میجر سجادالحق نے کمیشن کو بتایا کہ ڈھاکہ کےایک گھر میں میں جرنیلوں کی عیاشی کے لئے بارہا ناچنے گانے والیاں لائی جاتی تھیں۔ ٹائگر نیازی اپنی تین ستاروں اور کور کی جھنڈے والی سٹاف کار پر بھی ناچنے والیوں کے در کے طواف کرتا تھا۔
لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان نے کمیشن کو بتایا کہ فوجیوں کا کہنا تھا کہ جب کمانڈر خود بلاتکاری ہو تو وہ فوجیوں کو بلاتکار (جبری زنا) سے کیسے روک سکتا ہے۔ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے خواتین سے زیادتی و بلاتکار جیسے گھناونے جرم کا دفاع کرتے ہوئی نیازی نے کہا تھا کہ” یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی جوان سے یہ توقع کریں کہ وہ جئے ، لڑے اور مرے مشرقی پاکستان میں اور جنسی بھوک مٹانے کے لئے جہلم جائے”۔
یحیٰی خان کا دورِ حکومت پاکستان کا سیاہ ترین دور تھا جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا ور پاکستان کا ایوانِ صدر عملی طور پر کنجر خانہ بنا ہوا تھا۔اُس دور کی اندر کی کہانی سنیں سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری کی زبانی:
یحیٰی خان شراب اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھےان میں آئی جی پولیس کی بیگم، بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، میڈم نور جہاں، اقلیم اختر رانی،کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی، نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام سر خضر حیات ٹوانہ کے سابقہ بیگم، انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن،للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم ، شگفتہ ، نغمہ ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔ ان کے علاوہ لا تعداد آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر خواتین ان کے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔
اس رپورٹ میں 500 سے زائد خواتین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ملک کے سب سے ملعون حاکم کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارا اور بدلے میں سرکاری خزانے سے بیش بہا پیسہ اور دیگر مراعات حاصل کیں۔ جنرل نسیم ، حمید ، لطیف ، خداداد ، شاہد ، یعقوب ، ریاض پیرزادہ ، میاں اور کئی دوسروں کی بیویاں باقاعدگی سے یحیٰ کے حرم کی زینت بنتی رہیں۔
یہاں تک کہ جب ڈھاکہ میں حالات ابتر تھے۔ یحیٰ خان لاہور کا دورہ کرنے آتے اور گورنر ہاوس میں قیام کرتے تھے۔ جہاں ان کے قیام کے دوران دن میں کم از کم تین بار ملکہ ترنم و حسن وعشق نور جہاں مختلف قسم کے لباس، بناو سنگھار اور ہیر سٹائل کے ساتھ ان سے ملاقات کرنے تشریف لے جاتی تھیں۔ اور رات کو نور جہاں کی حاضری یقینی ہوتی تھی۔ جنرل رانی نے سابق آئی جی جیل خانہ جات حافظ قاسم کو بتایا کہ اس نے خود جنرل یحیٰ اور ملکہ ترنم نور جہاں کو بستر پر ننگے بیٹھے اور پھر جنرل کو نور جہاں کے جسم پر شراب بہا تے اور چاٹتے دیکھا تھا۔ اور یہ عین اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا۔
بیگم شمیم این حسین رات گئے جنرل یحیٰ کو ملنے آتیں اور صبح واپس جاتیں۔ ان کے شوہر کو سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیجا گیا جبکہ بعد ازاں بیگم شمیم کو آسٹریا کے لئے سفیر مقرر کردیا گیا تھا۔ میاں بیوی کو دونوں سفارت کاری کا کوئی تجربہ تھا نہ ہی امورِخارجہ کے شعبے سےان کا کوئی تعلق تھا۔
بیگم شمیم کے والد ، جسٹس (ر) امین احمد کو ڈائریکٹر نیشنل شپنگ کارپوریشن مقرر کیا گیا تھا اس وقت جب کہ وہ عمر میں ستر برس کے تھے۔ اور اسی زمانے میں نور جہاں ایک موسیقی کے میلے میں شرکت کرنےکے لئے ٹوکیو گئی تھیں تو ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بہت سے افراد سرکاری خرچ پر جاپان گئے تھے۔
یحیٰ خان کی ایک رکھیل نازلی بیگم کو جب پی آئی سی آئی سی (بینک) کے ایم ڈی نے قرضہ نہیں دیا تو اس کو عہدے سے زبردستی بر خاست کر دیا گیا تھا۔ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ پر یحیٰ خان نے ایک گھر بنایا جس کی تزئین وآرئش بھی بینک کے پیسے سے کی گئی۔ یحیٰ اور ان کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان اس گھر کے احاطے میں فوج کی حفاظت میں طوائفوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
ایک غیر معمولی انٹرویو میں جنرل رانی نے انکشاف کیا کہ ایک رات آغا جانی مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے اور کسی حد تک بے چین تھے ۔ آتے ہی مجھ سے پوچھا تمھیں فلم دھی رانی کا گانا ‘چیچی دا چھلا‘ آتا ہے۔ میں نےمسکراتے ہوئے جواب دیا میرے پاس گانے سننے کا وقت کہاں ملتا ہے۔ اسی وقت انھوں نے ملٹری سیکرٹری کو فون کیا اور نغمے کی کاپی لانے کا حکم صادر کر دیا۔ رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ بازار بند تھے۔ ملٹری سیکرٹری کو ایک گھنٹے کے اندراندر ایک آڈٰیو البم کی دکان کھلوا کر گانے کی کاپی حاضر کرنا پڑی۔ جس کے بعد آغا جانی خوشی خوشی نغمہ سن رہے تھے۔ اور اس کی اطلاع نور جہاں کو کر دی گئی۔
یحیٰ خان کے دور حکومت میں اداکارہ ترانہ کے بارے میں ایک لطیفہ زبان زدِ عام تھا کہ ایک شام ایک عورت صدارتی محل میں پہنچی اور یہ کہہ کر اندر داخل ہونے کا مطالبہ کیا کہ ‘میں اداکارہ ترانہ ہوں ، سیکورٹی گارڈز نے جواب دیا.کہ تم کیا ہو ہمیں پرواہ نہیں ہے ہر کسی کو اندر جانے کے لئے پاس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاتون مصر رہیں اور اےڈی سی سے بات کرنے کا مطالبہ کیا جس نے اداکارہ کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اداکارہ جب دو گھنٹے بعد واپس لوٹی تو گارڈ نے اداکارہ کو سیلیوٹ کیا۔ اداکارہ نے روئیے کی تبدیلی کی وجہ پوچھی تو گارڈنے جواب دیا۔ پہلے آپ صرف ترانہ تھیں اب آپ قومی ترانہ بن گئی ہیں۔
یحیٰی خان پر لے درجے کا شرابی اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کی سیکورٹی کا انچارج کرنل بھی ہم جنس پرست تھا، البتہ صدر کے ملڑی سیکرٹری میجر جنرل اسحاق نہ صرف پکے نمازی بلکہ تہجد گذار تھے۔ اس کے علاوہ ایوانِ صدر مین دلال اور طوائفیں تھیں اور بعض کو اہم مرتبہ حاصل تھا۔ ان میں اقلیم اختر رانی، مسز کے این حسین اور لیلی مظفر سر فہرست تھیں۔ علاوہ ازیں وہاں بہت سی بدنام لیکن حسین و پر کشش عورتوں کا ہجوم تھا جو سارا دن تمباکو نوشی، شراب نوشی اور ناچنے کودنے میں مصروف رہتی تھیں۔
صدر ِ پاکستان یحیٰی خان سے قربت کی وجہ سے اقلیم اختر کو عرف ِ عام میں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ جب یحیٰی خان کو اقتدار سے نکال دیا گیا اور بھٹو نے اقتدارسنبھال لیا تو جنرل رانی کو بھی گجرات میں نظر بند کر دیا گیا۔پولیس نے کئی دن تک جنرل رانی سے تفتیش کی جس میں بڑے حیرت انگیز اور باعثِ شرم حقائق سے پردہ اُٹھایا۔جنرل رانی پولیس انسپکٹر رضا کی بیوی تھی اور گجرات سے تعلق رکھتی تھی۔ یحیٰی خان اور جنرل رانی کے مابین تعلق اُس وقت قائم ہوئے جب یحیٰی خان نے سیالکوٹ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کی حیثیت سے سی ایم ایچ کا دورہ کیا جہاں وہ زیرِ علاج تھی۔ ان کی دوستی میں جلد ہی بے تکلفی اور اعتماد بڑھ گیا۔ یحیٰی خان ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اس وقت بھی ہیلی کاپٹر پر اس کے گھر جاتارہا جب وہ گجرات کے نزدیک چھمب سیکٹر کا انچارج تھا۔
ایک دن یحیٰی خان دادِ عیش دینے کی غرض سے اس کے پاس گیا تو وہ ایک دوسرے ڈی ایس پی مخدوم کے ساتھ رنگ رلیا منا رہی تھی۔ شراب کے نشے میں دھت مخدوم، یحیٰی خان کو دیکھ کر اس قدر مشتعل ہوا کہ سرکاری پستول سے جنرل رانی کے خفیہ اعضا پر گولیا ں برسا دیں۔ فائرنگ کی آواز سن کر یحیٰی خان ڈر گیا اور ہیلی کاپڑپر واپس بھاگ گیا۔ رانی نے مخدوم کے آئندہ غیظ و غضب سے بچنے کے لیئے اپنی نوخیز لڑکی اس کے عقد میں دے دی۔ مخدوم بعد ازاں عادی نشئی بن گیا اور انتہائی عبر انگیز انجام سے دوچار ہوا۔
اس زمانے میں پولیس کے سپاہی، ایوانِ صدر کو کنجر خانہ، جی ایچ کیو کو ڈنگر خانہ اور اپنی پولیس لائینز کو لنگر خانہ کہتے تھے۔
جنرل رانی کے پاس یحیٰی خان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں بڑی معلومات تھیں، رانی کے بقول یحیٰی خان نے بہت پہلے سے اقتدار پر قبضے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ وہ فوج کے تقریباََ ہر اہم آدمی کو جانتی تھی اور جرنیلوں کی رنگ رلیوں، سمگلنگ، زراندوزی، اور دیگر کرتوتوں پر مبنی بہت سی کہانیوں سے واقف تھی۔ میجر خداداد کے ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لاہور بننے کے بعد جنرل رانی اور مذکورہ جنرل نے مارشل لاء کے نفاذ اور یحیٰی خان سے قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت جمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ رفیق سہگل کو جو اُن دنوں سہگل گروپ آف انڈسٹریز کے سربراہ تھے، ایک سودے کی پیشکش کی گئی۔ اگلے دن سہگل نے فلیٹیز ہوٹل میں رانی سے ملاقات کی اور اسے دس لاکھ کے علاوہ نئی ٹیوٹا کار پیش کی۔ سہگل کے روانہ ہوتے ہی جنرل خداداد رانی کے کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے کار رانی کو دے دی اور رقم خود لے کر چمپت ہو گیا۔
رانی نے جرنیلوں، سیاستدانوں اور سینئر افسروں سے میل ملاپ کے نتیجہ میں بے پناہ دولت اکٹھی کر لی تھی۔ جنرل یحیٰی خان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد گجرات کے ایک مشہور سیاستدان نے اُسے چھ ہزار روپے ماہوار الاؤنس دینا شروع کر دیا۔ شیخ محمد اکرم، ڈی آئی جی سپیشل برانچ کے بھی رانی کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے۔ جب انہوں نے رپورٹ میں اپنا نام اور سرگرمیوں کی تفصیل پڑھی تو بڑے غضب ناک ہوئے۔
رانی نے بتایا کہ وہ ناگہانی طور پر رفیق سہگل کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی۔ کیونکہ وہ انتہائی خوب صورت تھے۔ تاہم سہگل نے اس کی پیش قدمیوں کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ انہیں اس کی دلچسپ سزا بھگتنی پڑی۔ ایک دن پشاور کے گورنر ہاؤس میں ایک پارٹی کے دوران رانی نے یحیٰی خان سے شکایت کی کہ
: ”آغا جی رفیق سہگل میرے نال محبت نی کردا“
یحیٰی خان نے گورنر ہاؤس کے نگران کو طلب کر کے اُس سے پوچھا کہ ”جب ملکہ الزبتھ اپنے دورے کے دوران یہاں آئی تھیں تو کون سے کمرے میں سوئی تھیں؟“
نگران نے کمرہ کی نشاندہی کی۔ اس پر جنر ل یحیٰی خان نے جو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھا، رفیق سہگل کو حکم دیا:
”آج رات تم مارشل لاء احکام کے تحت اُسی کمرے میں رانی کے ساتھ سوؤ گے“
رفیق اِس حکم سے انکار کی جرات نہیں کر سکے۔
اس کے بعد یحیٰی خان رانی سے مخاطب ہوا۔
”موٹی تم اِس کے پیچھے جاؤا۔خدا حافظ“
رانی رفیق کے پیچھے روانہ ہوگئی اور دونوں کے داخل ہو جانے کے بعد کمرے کو باہر سے تالا لگا دیا گیا۔۔۔
رانی نے پوچھ گچھ کرنے والوں کو بتایا کہ ایک بار کراچی میں قیام کے دوران شاہِ ایران کو روانہ ہونے میں خاصی تاخیر ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یحیٰی خان گورنر ہاؤس میں اپنی نگا ہ سے باہر نہیں آرہا تھا۔ پروٹوکول کے حوالے سے بڑا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا لیکن کوئی بھی صدر کی خواب گاہ میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر رہا تھا۔ آخر کار ملٹر سیکر ٹری جنرل اسحاق نے رانی سے درخواست کی کہ وہ اندر جائے اور صدر کو باہر لائے۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو ملک کی ایک مشہور ترین گلوکار،(نور جہاں) کو صدر کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پایا۔ گو رانی کو اس منظر سے بڑی کرہت محسوس ہوئی۔ اس نے کپڑے پہننے میں صدر کی مدد کی اور اُسے باہرلائی۔
رانی نے بتایا کہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ایک رات وہ یحیٰی خان کے پہلو میں تھی تو مجیب الرحمان کمرے میں آگیا۔ اُس کے جانے کے بعد رانی نے یحیٰی خان کو کہا کہ اِ س شخص کو ملنے سے ایوب خان ناراض ہو سکتا ہے۔تو یحیٰی خان نے کہا ”فکر نہ کرو موٹی، ایوب خان ختم ہوچکا۔ اب تم حکومت کر و گی۔ لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا، یہ ایک خفیہ معاملہ ہے“
رانی نے مزید بتایا کہ 1960ء میں روالپنڈی کلب کی ایک محفل میں اُس کی ملاقات بھٹو سے ہوئی، جہاں اُس کا کزن تجمل حسین بھی موجود تھا۔ بعد میں وہ پارٹی فلشمین ہوٹل منتقل ہو گئی جہاں بھٹو اور تجمل حسین میں اِس بات پر لڑائی ہوئی کہ رانی نے بھٹو کو لفٹ کیوں کرائی۔ رانی نے کہا کہ بھٹو نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا لیکن تجمل نے سارا کھیل خراب کر دیا۔ رانی کے بقول بھٹو بعد میں اس کی بھابھی کو ترجیح دینے لگا اور رانی کو رقابت دکی آگ میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا۔4
جنرل آغا محمدیحییٰ خان نے اکسٹھ برس تک ایک مطمئن اور خوشحال زندگی بسر کی وہ اپنے راولپنڈی میں ہارلے سٹریٹ پر موجود اسی گھر میں قیام پذیر رہے جو کہ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے تعمیر کیا گیاتھا۔ اور ان کو بطور سابق صدر اور آرمی چیف کے پنشن اور دیگر مراعات حاصل رہیں۔ اور دس اگست 1980 کو وہ جب وفات پا گئے تو ان کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
جنرل یحیٰ نے مارچ انیس سو انہتر میں صدر ایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔
اب جنرل یحییٰ ایک ہی وقت میں پاکستان کے صدر، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔
وہ چونکہ ایوب کے زوال کے اسباب دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے فوراً سیاستدانوں سے کوئی لڑائی مول لینے کے بجائے ایوب دور میں سیاسی جماعتوں پر لگی پابندیوں کو ختم کیا۔ جنرل یحیٰ خان نے ایوب دور میں بنایا گیا انیس سو باسٹھ کا متنازعہ آئین بھی منسوخ کردیا۔ انھوں نے دسمبر انیس سو ستر میں صدارتی انتخابات کروائے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے جس میں ایک آدمی ایک ووٹ کا اصول استعمال ہوا۔ انھیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات کہا جاتا ہے۔ لیکن ان شفاف انتخابات کا نتیجہ بہت خوفناک برآمد ہوا۔
ان شفاف انتخابات میں میں بنگال کے شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا اور ایک سو ساٹھ نشستیں جیت لیں۔ لیکن ان کی جماعت مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی۔ ادھر ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اکیاسی نشتیں جیتیں۔ لیکن مشرقی پاکستان میں وہ ایک بھی سیٹ نہ جیت سکے۔ پاکستان واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔
پورا مشرقی پاکستان شیخ مجیب کے ساتھ کھڑا تھا اور شیخ مجیب آئینی لحاظ سے پاکستان کے نئے منتخب حکمران تھے۔ جنرل یحییٰ کی ذمہ داری تھی کہ انھیں اقتدار منتقل کرتے۔ اسی مقصد کیلئے جنرل یحییٰ نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا کہ پاکسان کو مشرقی پاکستان سے منتخب قیادت مل رہی تھی۔ لیکن بھٹو نے اس نہایت اہم تاریخی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ اپنے نمائندوں کو دھمکی دی کہ اگر کوئی ڈھاکہ والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ بھٹو نے جنرل یحییٰ پر اجلاس ملتوی کرنے کیلئے دباؤ ڈالا۔ جنرل یحییٰ نے یہ اجلاس ملتوی کروا دیا۔ اجلاس کا ملتوی ہونا تھا کہ مشرقی پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی بنگالی سمجھ گئے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ ہمیں اقتدار منتقل نہیں کرنا چاہتی۔ بھارت جو پہلے سے موقعے کی تاڑ میں بیٹھا تھا اس نے باغیوں کا ایک مسلح گروہ مکتی باہنی کے نام سے تیار کیا اور مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت شروع کروا دی۔ مکتی باہنی کے مسلح گروہوں نے پاک فوج اور مغربی پاکستان کے حامیوں پر حملے شروع کر دئیے۔
یہ پاکستان بچانے کا آخری موقع تھا کہ اس وقت بھی ایک اجلاس بلا کر اقتدار انتخابات جیتنے والے کے سپرد کر دیا جاتا تو شاید پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ گو کہ یہ اتنا سادہ اب نہیں رہا تھا لیکن جنرل یحییٰ نے یہ آخری موقع بھی گنوا دیا اور بغاوت کچلنے کیلئے فوجی ایکشن شروع کروا دیا۔ پاک فوج نے مکتی باہنی کی بغاوت کو نو ماہ میں کچل دیا۔ لیکن اس فوجی ایکشن کے نتیجے میں نفرت کی ندی کا پانی سروں سے بہت اونچا ہو چکا تھا۔ دوسری طرف موقع کی تاڑ میں بیٹھے بھارت نے اپنی سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو انٹرنیشنل بارڈر کراس کرتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج چاروں طرف سے گھیرے میں آ گئی۔ جغرافیہ ہمارے خلاف تھا، پاک فوج اپنے مرکز سے ایک ہزار میل دور اور چاروں طرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی تھی۔ پاک فوج کی سپلائی لائن بھی کٹ چکی تھی اور مشرقی پاکستان کی سرزمین بیگانی ہو چکی تھی۔ شکست دیوار پر لکھی تھی۔
اس کے باوجود پاک فوج کے جوان بہادری سے لڑے، وطن کی خاطر ہزاروں جوان کٹ مرے لیکن یہ ایک ہاری ہوئی جنگ تھی۔ جسے لمبا تو کھینچا جا سکتا تھا جیتا نہیں جا سکتا تھا۔ اور ہوا بھی یہی۔ پاکستان کو اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور نوے ہزار پاکستانی فوجی بھارت کے قیدی بن گئے۔ ملک ٹوٹ چکا تھا اور پاکستان مشرقی او مغربی کے بجائے صرف پاکستان رہ گیا تھا۔
گو کہ ملک توڑنے کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں ہو سکتااس کے پیچھے سیکڑوں عوامل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ دیکھنا ہو کہ آخری وقت میں وہ کون سا شخص تھا جو پاکستان کو بچا سکتا تھا لیکن اس نے نہیں بچایا تو اس کا نام ہے جنرل یحییٰ۔ جنرل یحییٰ اس لیے کہ ان کی بطور صدر اور کمانڈر ان چیف یہ ذمہ داری تھی کہ اقتدار سب سے زیادہ ووٹ لینے کو ایماندری سے منتقل کر دیتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان توڑنے کے تنہا ذمہ دار جنرل یحییٰ ہیں۔ کیونکہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی جنرل یحییٰ کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ جنرل یحییٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک کاغذ کی تحریر کے ذریعے اقتدار منتقل کر دیا۔ بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور دستور ساز اسمبلی کے سربراہ بن گئے۔ انھوں نے اقتدار سنبھالا اور جنرل یحیٰ کو نظر بند کر دیا۔ باقی زندگی میں جنرل یحیٰ زیادہ تر نظر بند ہی رہے۔ بھٹو کی پھانسی کے ایک سال بعد سقوط ڈھاکہ کا یہ اہم ترین کردار انتقال کر گیا۔
ادھر پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش میں ایک کے بعد ایک فوجی بغاوت جنم لیتی رہی یہاں تک کہ علیحدگی کے صرف چار سال بعد ڈھاکہ میں شیخ مجیب کو نوجوان فوجی افسروں نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ یوں صرف دس سال کے اندر اندر سقوط ڈھاکہ کے تینوں اہم کردار بھٹو، شیخ مجیب اور جنرل یحییٰ موت کی وادی میں جا سوئے۔ پاکستان نے اس سانحہ کی وجوہات جاننے کیلئے بنگال سے تعلق رکھنے والے شخص حمودالرحمان کی سرپرستی میں ہی ایک کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے رپورٹ تیار کی لیکن اس کی رپورٹ نہ تو بھٹو نے شائع کی اور اس کے بعد آج تک کبھی سامنے آئی۔ اس کے کچھ حصے بھارت میں تو شائع ہوئے لیکن پاکستان میں اسے کبھی پبلک نہیں کیا گیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد طلبہ نے معاہدہ ئتاشقند کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو کافی شدت اختیار کر گئی، وہ تحریک رفتہ رفتہ جنرل ایوب خان خلاف ایک قوت کی شکل اختیار کر گئی لیکن اسے قوت سے کچل دیا گیا۔ اسی دوران وزارت خارجہ کا قلمدان چھننے کے بعدذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور عوام میں موجود ایوب مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 1966ء میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مشہور زمانہ چھ(۶) نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے۔ ان نکات کو مغربی پاکستان میں سیاسی اور عوامی دونوں سطحوں پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علیحدگی پسندی کے مترادف قرار دیا گیا۔ اس کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑتی گئی اور امن عامہ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
1969کے اوائل میں جنرل ایوب کی حکومت کے خلاف ہنگامہ آرائی اور مظاہرے اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے لیکن وہ غیرمنظم تھے اور مختلف سیاسی قوتیں اپنے اپنے طور پر احتجاج کررہی تھیں۔ انہیں مربوط بنانے اور ایک سیاسی اتحاد کے قیام کے لئے 8جنوری 1969ء کو ڈھاکہ میں قومی جمہوری محاذ کے صدر نور الامین کی قیامگاہ پر آٹھ سیاسی جماعتوں کے قائدین جمع ہوئے اور جمہوری مجلس عمل یا ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آیا۔ اس میں کونسل مسلم لیگ، نظام اسلام پارٹی، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، قومی جمہوری محاذ، عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ)، اور نیشنل عوامی پارٹی (ولی خان گروپ) شامل تھیں۔
جمہوری مجلس عمل کے قیام کے موقع پرحسب ذیل آٹھ نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا:
حزب اختلاف کی جماعتوں کو اس بات پر یقین ہے کہ پاکستان کی موجودہ مطلق العنان شخصی حکومت نے ملک کے وقار کو ختم کردیا ہے اور قومی زندگی کے ہر پہلو کو برباد کردیا ہے خصوصاً اسلامی نظام زندگی کے قیام، جمہوریت کی بحالی، عوامی حاکمیت، بنیادی آزادیوں اور بنیادی حقوق کی بحالی سے مسلسل انکارکیا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ
۱۔ ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام قائم کیا جائے۔
۲۔ انتخابات دنیا بھر میں مروج بالغ رائے دہی کے نظام کی بنیاد پر براہ ِ راست کرائے جائیں۔
۳۔ ہنگامی حالات کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
۴۔ تمام کالے قوانین خصوصاً یونیورسٹی آرڈیننس اور بغیر مقدمہ چلائے قید کرنے سے متعلق قوانین منسوخ کئے جائیں۔
۵۔ تمام سیاسی نظربندوں، صحافیوں، طلبہ اور سیاسی کارکنوں بشمول شیخ مجیب الرحمن، ولی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور عدالتوں اور ٹریبونلز میں دائر تمام سیاسی مقدمات واپس لئے جائیں۔
۶۔ دفعہ 144کے تحت جاری ہونے والے تمام احکام واپس لئے جائیں۔
۷۔ مزدوروں کو ہڑتال کا حق دیا جائے۔
۸۔ اخبارات پر عائد تمام پابندیاں واپس لی جائیں۔ ضبط شدہ چھاپے خانے، اخبارات اور جرائد بشمول روزنامہ اتفاق اور ہفت روزہ چٹان کے ڈیکلریشن بحال کئے جائیں اور پروگریسو پیپرز لمٹیڈ کو اس کے اصل مالکان کے حوالے کیا جائے۔
جمہوری مجلس عمل کے قیام اور ان کے مطالبات سے جنرل ایوب کی آمریت کے خلاف تحریک میں جان پڑگئی اور حکومت اور عوام کے درمیان پرتشدد واقعات اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں روز کامعمول بن گئیں۔
جمہوری مجلس عمل کے قیام کے چند ہفتوں کے اندر ہی یعنی 31جنوری 1969کو جنرل ایوب نے اس سے مذاکرات کا اعلان کردیا۔ جمہوری مجلس عمل کے سربراہ نوابزادہ نصر اللہ خان نے ڈیفنس آف پاکستان رولز اور ایمرجنسی کو فوری طور پرختم کرنے کا مطالبہ کیا اور تمام گرفتار شدہ طلبہ اور سیاسی کارکنوں کی رہائی کی شرط عائد کی۔ جنرل ایوب خان نے ایک ایک کرکے تمام مطالبات تسلیم کرلئے۔ بھٹو اور شیخ مجیب سمیت تمام سیاسی قیدی رہا کردئیے گئے اور اگرتلہ سازش کیس کا مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
26/فروری1969کو اس گول میز کا نفرنس کا پہلا اجلاہوا۔ اس میں شیخ مجیب الرحمن اور اصغر خان شریک ہوئے مگر ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحمید خاں بھاشانی نے کانفرنس میں حصہ لینے سے صاف انکار کردیا۔ ابتدائی گفتگو کے بعد گول میز کانفرنس کا اگلا اجلاس 10مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔ 11مارچ کو کانفرنس پھر شروع ہوئی، جمہوری مجلس عمل نے دو متفقہ نکات پیش کئے۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست انتخابات اور پارلیمانی نظام کی بحالی جس میں صوبوں کو مکمل خودمختاری حاصل ہو۔ مگر بھٹو اور بھاشانی نے اس مرتبہ بھی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔
نامور صحافی الطاف گوہر اور دوسر ے تجزیہ کاروں نے لکھا ہے کہ بھٹو اور بھاشانی کے بائیکاٹ کے پیچھے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کا ہاتھ تھا تاکہ کانفرنس کو ناکام بنا کر مارشل لاء کی راہ ہموار کی جاسکے۔ اور پھر ہوا بھی یہی۔ جنرل ایوب کی تمام تر نیک خواہشات کے باوجود گول میز کانفرنس ناکامی سے دوچار ہوئی اور جنرل یحییٰ کو مارشل لاء لگانے کا جواز مل گیا۔
23 مارچ 1969ء کو یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات جاری کیں۔اس حوالے سے قدرت اللہ شہاب نے اپنی مشہور کتاب شہاب نامہ میں یوں لکھا ہے:
”مارچ 1969کے تیسرے ہفتے تک گول میز کانفرنس تو ناکام ہوکر ختم ہوچکی تھی مگر بدامنی اور ہنگاموں کا زور نہ ٹوٹنا تھا نہ ٹوٹا، بلکہ ان کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہا تھا۔ اس ماحول میں صدر ایوب نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا جو ان کے عہد صدارت کا کابینہ کا آخری اجلاس ثابت ہوا۔ کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ کان کو اس اجلاس میں بطو ر خاص مدعو کیا گیا تھا۔ صدر نے ملک بھر میں پھیلی ہوئی بدامنی اور بدنظمی کا تجزیہ بیان کرکے یہ تجویز پییش کی کہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کا واحد طریقہ مارشل لاء کا نفاذ ہے۔ سب کی آنکھیں بری فو ج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ کی طر ف اٹھی ہوئی تھیں۔ جب ان سے اس تجویز پر رائے طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر کنی کترالی کہ وہ اس بارے میں صدر ایو ب سے علیحدگی میں بات کریں گے۔
بعدازاں تخلیہ میں صدر ایوب اور جنرل یحییٰ کے مابین جو گفتگوہوئی اس کا براہ راست کسی کو کچھ علم نہیں البتہ قرائن و شواہد سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ نے مارشل لاء نافذکرنے کی حامی اس شرط پر بھری کہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑ دیا جائے گا۔ صوبائی گورنروں کو ان کی کابینہ سمیت موقوف کردیا جائے اور 1962کے آئین کو منسوخ قراردیاجائے۔ صدر ایو ب عقلمند آدمی تھے۔ جنرل یحییٰ کا اشارہ پاگئے کہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر وہ خود کرسی صدارت سنبھالنے کے خواہشمند ہیں۔ ان کی اپنی ذاتی مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ صدر ایوب اپنے پروردہ کمانڈر انچیف کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ چنانچہ ایوان صدر کے بند کمرے میں انہوں نے خاموشی سے بلاچون و چرا ان کی ساری شرائط منظور کرلیں۔
25مارچ 1969کی صبح ایوان صدر میں جنرل ایوب نے اپنا آخری پیغام ریکارڈ کرایا۔ ریکارڈنگ کے دوران جنرل یحییٰ غمگین صورت بنائے سرجھکائے بیٹھے رہے لیکن جونہی ریکارڈنگ کے ٹیپ ان کے قبضے میں آئے، ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ وہ ہشاش بشاش جھومتے جھامتے کمانڈر انچیف ہاؤس واپس آئے۔ اپنے چند قریبی دوستوں اور منظور نظر خواتین کو طلب کیا۔ شراب کا دور چلا اور دیر تک سب نے ہو جمالو کی تان پر بھنگڑا ڈالا“۔
ملک کی تاریخ کے سیاہ ترین دور کا آغاز ہوچکا تھا، جس کا اختتام قائد اعظم ؒ کے پاکستان کے ٹوٹنے پر ہوا۔
//////

تیسرا مارشل لاء
ضیاء الحق

چالیس سال پہلے ضیا نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک میں تیسرا اور سب سے طویل مارشل لا نافذ کر دیا۔ اگلی دہائی کے دوران انہوں نے پاکستان کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست بنانے کے قائد اعظم کے خواب کو چھوڑ کر ملک کو مکمل طور پر ایک مذہبی ریاست میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کے کاموں کے اثرات تین دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور مستقبل میں دور دور تک اس کا کوئی متبادل سیاسی ڈھانچہ نظر نہیں بھی آ رہا۔
پاکستان کا تشخص مکمل طور پر بدل ڈالنے اور اپنی اسکیم کو جاری و ساری رکھنے میں انہیں ملنے والی کامیابی کو سمجھنے لیے ہمیں ’تصورِ پاکستان’ کا جائزہ لینا ہوگا کیوں کہ انہوں نے لوگوں کے دو گروہوں کے درمیان اس بات پر لکیر کھینچ دی تھی کہ پاکستان کو کیسا ہونا چاہیے تھا۔
قرارداد لاہور 1940 میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں درج قانون ساز اسکیم کے متبادل کے طور پر ایک قانون ساز اسکیم پیش کی گئی تھی۔ 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے اپنے خطاب کے دوران تشکیل پاکستان اور تقسیمِ ہند کو ہی ہندوستان کے دستوری مسئلے کا واحد حل بتایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریکِ پاکستان مذہبی مقاصد سے پاک خالصتاً ایک سیاسی جدوجہد تھی۔
مگر برٹش انڈیا کے خطے کے دو حصوں کے لیے پیش کی گئی اس نئی دستوری اسکیم کی بنیاد یہ تھی کہ یہ مسلمان اکثریتی علاقے ہیں اور، جب مسلمان رہنما اپنی برادری کے لیے مناسب (آئینی و قانونی) تحفظ حاصل کرنے میں ناکام ہوئے اور انہیں ایک بڑی اقلیت قرار دیا گیا، تو آل انڈیا مسلم لیگ دو قومی نظریے کے لیے کافی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نظریے کے مطابق ہندوستان کے مسلمان ایک قوم کی حیثیت تھے، اکثریتی (ہندو) برادری سے مکمل طور پر مختلف تھے اور اپنی الگ ریاست بنانے کا حق رکھتے تھے۔
جن لوگوں کے لیے اس نئی ریاست کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر پاکستان کے مطالبے نے اس خیال کو تقویت دی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ اور قائد اعظم نے نہ مذہبی سیاست کی حمایت کی اور نہ ہی کبھی (اس تحریک کے پیچھے موجود) مذہبی جذبات سے انکار کیا۔ گاندھی نے پیش کش کی کہ اگر الگ ملک کا مطالبہ مذہبی بنیادوں پر نہ کیا جائے تو وہ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنے کے لیے کانگریس کو منائیں گے، لیکن انہوں نے اس پیش کش کو بھی مسترد کر دیا۔
جناح اکثر اوقات فرماتے تھے کہ وہ ایک جمہوری ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اسلام بھی اس بات کی حمایت کرتا ہے۔ مگر چند علماء کو چھوڑ کر باقی تمام علماء دین مانتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں ہوگا.
1945-46 کے انتخابات نے پاکستان کے حامی حلقوں کے درمیان ایک نمایاں تقسیم کا انکشاف کیا۔ جہاں مسلم لیگ یہ واضح کیے بغیر کہ پاکستان کس طرح کا ہوگا، پاکستان کا مطالبہ کر رہی تھی (جیسے، خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مذہبی نعرے لگائے جا رہے تھے)۔ ‘پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ’ (ہندوستانی مسلمانوں کا) عمومی نعرہ تو نہیں تھا، لیکن چند مقامات پر باقاعدگی سے ضرور بلند کیا جاتا تھا۔ دیگر مذہبی نعرے جیسے، ‘مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ’ اور ‘پاکستان میں مسلمان کی حکومت ہوگی’ اکثر و بیشر بلند کیے جاتے۔
مذہب نے تحریکِ پاکستان میں اپنا کردار ادا کیا تھا، اس بات کی تصدیق تب ہوگئی جب پنجاب میں کانگریس کے مہم کاروں نے اپنی اعلیٰ کمان سے مدد کے لیے چند مسلمان دانشوروں کو بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ یوں پاکستان کے حامی دو کیمپس میں تقسیم ہو گئے؛ ایک وہ جن کے بارے میں کسی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جمہوریت کے پکے حامی تھے جبکہ دوسرے وہ جو مبہم طور پر مذہبی ریاست کے تصور سے منسلک تھے۔ ضیا کے پاکستان کی جڑیں اسی تقسیم میں موجود ہیں۔
تشکیل پاکستان کے ساتھ دونوں گروہوں کے مزاج میں تبدیلی آئی۔ قائد اعظم نے محسوس کیا کہ اب مذہبی کارڈ کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے ایک ریاست بننے سے تین دن قبل انہوں نے دو قومی نظریے کو خدا حافظ کہہ دیا اور لوگوں کی پاکستانی شہریت کی بنیاد پر ایک نئی قوم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ جن مذہبی جماعتوں نے پاکستان کے مطالبے کی مخالفت کی تھی، انہوں نے مکمل طور پر اپنا مؤقف تبدیل کر لیا اور پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔
دو عناصر نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا: انہوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی کیوں کہ انہیں کوئی امید نہ تھی کہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست بننے جا رہا ہے اور یہ کہ اس ملک میں مسلمان برائے نام اکثریت حاصل کرنے جا رہے تھے اور یوں اسے ایک اسلامی ریاست قرار دینا تقریباً ناممکن ہونا تھا۔ مگر پنجاب اور بنگال کی تقسیم نے صورتحال کو بدل دیا۔ 6 کروڑ 50 لاکھ کی آبادی والے نئے پاکستان میں، غیر مسلموں کی تعداد قریب 2 کروڑ تھی، اور ان کی زیادہ تر تعداد مشرقی حصے میں موجود تھی۔ اس وقت جاری فسادات سے غیر مسلم آبادی مزید کم ہو گئی۔ علاوہ ازیں، مذہبی جماعتیں انتخابات میں مذہبی نعروں کی طاقت دیکھ چکی تھیں۔ ان دو عناصر نے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے امکانات کو مزید روشن کر دیا تھا۔
مولانا مودودی ان اوّلین علماء میں سے تھے جنہوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ پاکستان ہجرت کر کے آئے، اپنی ایک اہم کتاب ‘مسلمان اور سیاسی کشمش’ سے پاکستان مخالف نظریات کو خارج کر دیا، اور پنجاب حکومت کی جانب سے بیوروکریٹس کو اسلامی اقدار پر لیکچر کی دعوت کو قبول کیا جبکہ ان کی باتوں کو ریڈیو پر بھی نشر کیا گیا۔ لیکن انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اس وقت حکومت کی خیر خواہی کھو دی جب انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان کی کشمیر میں مداخلت کو جہاد نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست نہیں ہے۔
تشکیل پاکستان کے چند ماہ کے اندر ہی، فروری 1948 میں مختلف مکاتب فکر کے علماء نے حکومت کے سامنے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جس میں ایک مذہبی ریاست کو قائم کرنے کے لیے ضروری اقدامات درج تھے۔ ان مطالبات کو زیر غور لانے کے وعدوں کے ساتھ ایک جگہ رکھ دیا گیا۔ مگر مشرقی بنگال کی جانب سے اس کے ثقافتی حقوق کو تسلیم کرنے کے مطالبوں نے حکومت کو پریشان کر دیا تھا، چنانچہ حکومت نے اسلامی یکجہتی کے معیار کو بلند کرتے ہوئے ان مطالبوں کا سامنا کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر حکومت نے مارچ 1949 کی قرارداد مقاصد میں جائے پناہ تلاش کی جس میں وہ تمام باتیں نظر آئیں جو آبادی کے مختلف حلقوں کے لیے موزوں تھیں۔
اس قرارداد کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اللہ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے۔ علماء خوش تھے۔ نعرے مارنے والوں نے جناح کی لابی کو شکست دے دی تھی۔ جماعت اسلامی نے اب پاکستان کو ایک اسلامی ریاست قرار دے دیا۔ قرارداد مقاصد پر ایک سب سے قابل ذکر تبصرہ ایک کانگریسی رکن اسمبلی کی جانب سے آیا جنہوں نے اسمبلی کو خبردار کیا کہ قرارداد نے کسی بھی ایسے مہم جو شخص کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے جو خدا کا مقرر کردہ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اور جنرل ضیاء نے بالکل یہی کیا۔
اسی لیے 1947 اور 1953 کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ ’مذہبی نعرے مارنے والوں کے گروپ’ نے سیاسی میدان میں اپنے قدم جما لیے تھے، کیوں کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھنے کی جناح کی تجویز پر عمل پیرا ’جمہوری نظریات والا گروپ’ خود ناکام ہوا اور جمہوری معیار کو فروغ دینے میں بھی ناکام ہوا۔ مزید یہ کہ، اس گروپ نے جمہوری مطالبوں کی مزاحمت کے لیے مذہب کا سہارا لینے کی سنگین کوشش کی تھی۔ ‘مذہبی نعرے مارنے والوں کے گروپ’ نے اپنی نام نہاد طاقت سے 1953 میں احمدی مخالف تحریک کا آغاز کرتے ہوئے حکومت کو للکارا۔ تحریک کو بری طرح شکست ہوئی کیونکہ ریاستی اداروں، خاص طور پر فوج، نے امن و امان کی قیمت پر کسی بھی مذہبی/مسلکی عناصر کو برداشت نہ کرنے کی انگریز دور کی پالیسی کو ترک نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ وہ واحد فتح تھی جو ’جمہوری نظریات والے گروپ’ نے ’مذہبی نعرے مارنے والے’ گروپ کے خلاف حاصل کی تھی۔
1953 اور 1958 کے درمیان ’جمہوری نظریات والے گروپ’ کو ایک نئے چیلنجر سے مقابلہ کرنا پڑا— ایک سول اور فوجی بیوروکریٹس جن کے نزدیک اُس جمہوری شکل کے لیے احترام نہیں تھا جو کسی حد تک اب بھی ملک میں قائم تھی۔ دونوں میں سے کسی بھی فریق نے ’مذہبی نعرے مارنے والے’ گروپ پر زیادہ توجہ نہیں دی جسے 1953 میں لگے زخموں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن، ملک کا پہلا دستور تیار کرنے کے دوران سول بیوروکریسی نے ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ کر، مسلمانوں کے لیے صدارت کا عہدہ مختص کر کے، حکومت کو اس کے اسلامی فرائض اور قوانین کی ’اسلامائزیشن’ کے کام میں مشاورت کے لیے ایک بورڈ تشکیل دے کر، مذہبی جماعتوں کو کافی رعایت بخشی۔ ان قانونی اصولوں کو بعد میں ایک مذہبی ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
ایوب حکومت نے ’جمہوری نظریات’ اور ’مذہبی نعروں والے’ گروہ، دونوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ جمہوری خیالات والوں کو ایبڈو قوانین کے تحت سیاسی اکھاڑے سے باہر نکال دیا گیا۔ (ایبڈو کا مطلب Elective Bodies Disqualification Order جس کے تحت سیاستدانوں کو دھمکایا گیا کہ اگر سیاستدان سات برسوں تک سیاست کا حصہ نہ بننے کا وعدہ نہیں کریں گے تو ان کے خلاف ’نامناسب رویے’ پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔)
دوسری جانب مساجد کو محکمہ اوقاف کے حوالے کر کے ‘مذہبی نعرے مارنے والے’ گروپ کو اپنے قابو میں کر لیا گیا۔ مزید یہ کہ، جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے ساتھ تنظیم کو ایک پروپیگینڈا مہم کا نشانہ بنایا۔ جب حکومت 1962 میں اپنا پہلا دستور پیش کیا تو اس میں ریاست کے نام سے ’اسلامی’ خارج کر دیا گیا۔ (جبکہ بنیادی حقوق پر مشتمل باب کو بھی خارج کر دیا گیا۔)
لیکن ایوب حکومت مذہبی جماعتوں کے قومی سیاست میں پیر مضبوط کرنے کی ذمہ دار تھی۔ جب تقریباً تمام سیاستدان گم نامیوں کا شکار بن گئے تب مساجد ہی وہ واحد پلیٹ فارم تھیں جہاں سے کسی قسم کی تحریک پیدا ہو سکتی تھی۔ 1965 کے صدارتی انتخابات میں اپنے امیدوار اتارنے کے لیے حزب اختلاف نے اپنے سر جوڑے، تو ان جماعتوں کے اتحاد میں جتنی مذہبی جماعتیں تھیں اتنی ہی نیم سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں اور انہوں نے فاطمہ جناح کی حمایت میں مہم کا حصہ بن کر عوامی مقبولیت حاصل کی تھی۔
ایوب مخالف تحریک سیکولر، جمہوری تحریک تھی اور اسی لیے یحیٰی خان نے ’ایک آدمی، ایک ووٹ’ کے اصول کو تسلیم کر کے اور ون یونٹ کو ختم کر کے لوگوں کی سیاسی محرومیوں کو دور کرنے پر پورا دھیان مرکوز کیا۔ ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی رات ایک نیا دستور جاری کرنے کی کوشش سے پہلے تک انہوں نے مذہبی لابی کو لبھانے کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، لیکن ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس دستوری مسودے کی حمایت سے نہ تو یحیٰی کو کوئی فائدہ ہوا، نہ ہی انہیں خود کوئی فائدہ پہنچا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں سے ان جماعتوں نے زبردست فائدہ اٹھایا۔ 73 کے آئین میں اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا گیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کے اختیارات میں توسیع کی گئی۔ فروری 1974 میں بھٹو نے عرب قوم پرستی کی فوج کا مقابلہ اسلامی قوم پرستی سے کرنے کی شاہ فیصل کی کوششوں کا ساتھ دیا اور اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ قریب 6 ماہ بعد، ان کی حکومت نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ لیکن یہ تمام اقدامات ان کے لیے مددگار ثابت نہ ہوئے۔
ان کے مشیروں کے ہاتھوں 1977 کے انتخابات میں بدانتظامیوں کے بعد، مذہبی جماعتوں نے نظام مصطفیٰ کے نعرے کے ساتھ ان کی حکومت ختم کرنے کی تحریک شروع کی، جس کا مقصد ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ تھا۔ مذہبی علماء کو مزید رعایت — جیسے شراب پر پابندی اور جمعے کو ہفتہ وار چھٹی کا دن مقرر کرنے— دینے سے بھی بھٹو کو کوئی فائدہ نہ پہنچا کیوں کہ ضیا پہلے ہی ان کی حکومت ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اب ایسا کہا جاسکتا ہے کہ 77-1971 کی بھٹو حکومت ضیا کو پاکستان اپنے منصوبے کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک وسیع پلیٹ فارم فراہم کر چکی تھی۔ اور وہ نئے نئے جوش و خروش اور اعتماد کے ساتھ اپنے کام میں جت گئے۔
1978 اور 1985 کے درمیان ضیا نے پاکستان کو ایک مذہبی ریاست میں بدلنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ مذہبی قوانین کے نفاذ اور اسلام کے منافی پائے جانے والے قوانین کو خارج کرنے کے لیے وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی اور اسے قانون سازی کے کچھ اختیارات بھی دیے گئے۔ ریاست نے زکوٰۃ اور عشر وصول کرنے کے اختیارات اپنے پاس رکھ لیے۔ احمدیوں کو اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے، قرآن مجید اپنے پاس رکھنے اور تلاوت کرنے، ایک دوسرے سے مسلمانوں کی طرح سلام کرنے کا انداز اپنانے، اور اسلامی خطابات اور اپنی بیٹیوں کے نام رسول اللہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین پر رکھنے سے منع کر دیا گیا۔
قرآن مجید کی توہین کرنے کی سزا اور گستاخی کرنے پر موت یا عمر قید کی سزا دینے کے لیے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کی گئی (بعد میں شرعی عدالت نے گستاخی کرنے پر موت کی سزا کو لازم قرار دے دیا)۔ پارلیمنٹ کو مجلس شوریٰ کا نام دیا گیا اور کہیں کہیں سے ترمیم شدہ قرارداد مقاصد — جسے اب تک صرف آئین کے دیباچے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا — کو اس کا ایک بنیادی حصہ بنا دیا گیا۔ مزید برآں، غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد کے ذریعے جمہوری انتخابی نظام کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس کے ساتھ ضیا نے اسمبلیوں میں ارکان کی رکنیت کی اہلیت اور نااہلی کے متعلق قانونی تقاضوں میں ترمیم کی تاکہ وہ مذہبی معیار کا احترام کریں۔ انہوں نے نظام تعلیم کو بھی الٹ دیا، پہلے تو انہوں نے مدرسوں کی تعداد بڑھانے میں سہولت فراہم کی (جبکہ عام تعلیم کی توسیع اور بہتری کو نظر انداز کیا گیا اور حقوق اور جمہوریت کے موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔) اور تمام جماعتوں کی نصابی کتابوں میں مذہب سے منسلک اسباق کی تعداد بڑھا دی گئی۔ جبکہ انہوں نے اپنے اقدامات کو آئینی ترمیم (نویں ترمیم) کے ذریعے مستحکم کرنے کی کوشش کی لیکن اسے آئین میں شامل کرنے کی نوبت نہیں آ سکی. وہ نمازوں اور سخت گیر ضابطوں کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے اخلاقی بریگیڈز بنانے کی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔
کئی عناصر نے ضیا کو لوگوں پر اپنے خیالات، بشمول ان اقدامات جن کا اسلام سے تعلق بھی نہ تھا، کو نافذ کرنے میں مدد فراہم کی۔ ضیا نے مذہبی جماعتوں کی ان سیاسی سہولیات کا بھرپور استعمال کیا جو ان جماعتوں نے کمزور نیم جمہوری حکومتوں سے حاصل کی تھیں۔ اور افغانستان میں تنازع نے بھی انہیں بڑی سطح پر حمایت دلوائی۔ ضیا نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اس بات پر قائل کیا کہ انہوں نے اپنی افغان پالیسی کے ذریعے اسلام کے وقار کو بلند کیا ہے۔
پہلی بات، آئین اور قانون میں ضیا کی جانب سے کی گئی تبدیلیوں کو منسوخ کرنا ممکن نہیں ہو پایا۔ مذہبی لابی ضیا کی جانب سے کی گئی ہر معمولی تبدیلی کو مقدس مانتی ہے۔ چند ایسی جماعتیں جو کہ مذہبی تنظیموں میں شمار نہیں ہوتیں وہ ضیا کے تسلسل کی پرزور حمایت کرتی ہیں، اور وہ جماعتیں جو ان کی حامی نہیں، وہ مذہبی ہجوم کا مقابلہ کرنے سے خائف ہیں۔
سیکولر عناصر بہت پہلے ہی مذہبی شخصیات، بالخصوص مدرسہ حکام کے زیر اثر گروہوں کے ہاتھوں سڑکوں پر شکست کھا چکے۔ کبھی بھی مذہبی شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ سنانے میں دلچسپی نہ لینے والی عدلیہ ضیا کی ترامیم کو اکثر اس بنیاد پر ہاتھ لگانے سے انکار کر دیتی ہے کہ منتخب ہونے والی حکومتیں ان کی حمایت کرتی چلی آ رہی ہیں۔
ضیا کی پاکستان کے ڈھانچے کے ساتھ کی گئی گڑبڑ میں مداخلت کرنے کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے ہو جاتا ہے کہ آئین کی شق 270 اے سے ان کا نام اپریل 2010 — مطلب ان کی موت کے 22 سال اور پانچ انتخابات کے بعد — مٹایا گیا تھا۔
دوسرا یہ کہ، مذہبی منظرنامے پر سخت قدامت پسند عناصر غالب ہیں جو مذہبی باتوں پر کسی قسم کی بحث نہیں چاہتے اور جو ان کے خیالات کو چیلنج کرتا ہے وہ ملک میں رہنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتا۔ مزید یہ کہ، مرکزی-بائیں بازو کی جماعتوں کی طاقت کے مراکز سے بے دخلی کی وجہ سے نام نہاد مرکزی دھارے کی جماعتیں قدامت پسند نظریات کے ہاتھوں یرغمال بن گئیں۔
اس صورتحال میں، اس غیر منصفانہ اور جابرانہ اسٹیٹس کو کے لیے مذہب کے غلط استعمال سے چھٹکارے کی بہت ہی کم امید دکھائی دیتی ہے۔ ضیا کے تسلسل کے ظلم و ستم کے اندھیرے سائے ریاست اور لوگوں پر اس وقت تک منڈلاتے رہیں گے جب تک عام شہریوں کو اس بات کا احساس نہیں ہو جاتا کہ اس تسلسل نے ماسوائے مصیبتوں کے اور کچھ نہیں دیا۔
جنرل ضیا الحق کو پاکستان کی ہر جدید برائی کا خالق قرار دیا جاتا ہے۔ہمارےاستاد کے بقول وہ اس بات سے مکمل انکار کرتے ہیں۔مگر قاضی(حسین احمد) اورقادری (طاھر القادری) صاحبان کو دیکھ کر اس سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔جنرل ضیاکا قصور یہی ہے کہ انہوں نے پاکستان جمہوریت کے شجر کو کاٹ ڈالا۔
جنرل ضیا یکم مارچ 1976 کو آرمی چیف بنے۔انکے ساتھ جنرل اختر لیفٹنٹ جنرل بنے۔جنرل اختر کو میجر جنرل تجمل حسین پر ترجیح دی گئ تھی۔جسکا تجمل حسین کو افسوس ہوا۔تجمل حسین 1971 کی جنگ کےواحد افسر تھے جنہوں نےہتھیار نہیں ڈالےتھے۔ورنہ سیالکوٹ،شکرگڑھ پر تعینات سب جنرلوں نے ہتھیار ڈالے۔
جنرل تجمل نے اس پر احتجاج کرنے کافیصلہ کیا۔انکا کہنا تھا اگر انکو حق نہ ملے تو وہ چھین لیں گے۔25مارچ1976 کو انہوں نے بھٹو صاحب کے سامنے احتجاج کرنے کافیصلہ کیا۔انہوں نے اس سلسلے میں ایک خط تحریر کیا۔جس میں انہوں نےفوج کو نجی ملیشیا بنانے سے منع کیا۔فوج کو میرٹ پر چلانے کا کہا۔
جنرل تجمل نےاپنےکرنل سٹاف کو رازدار بنایا۔جس نے یہ بات اعلی عہدیداروں تک پہنچائی۔تجمل کو جنرل ضیا نے طلب کیا۔کورٹ مارشل کر کے جبری طور پر فوج سے نکال دیا۔جنرل صاحب اسلامی خیالات رکھنے والے انسان تھے۔پہلے جماعت اسلامی میں شمولیت کی کوشش کی۔ناکام ہوئے تو تحریک استقلال کا حصہ بنے۔
5جولائی1977 کو جنرل ضیا نے مارشل لا لگایا۔جمہوری قیادت کو نظربند کیا۔90 دنوں میں الیکشن کروانےکاوعدہ کیا۔مگر بعدمیں بھٹوصاحب کو پھانسی دیدی گئ۔90دن کا وعدہ ہواہوگیا۔اس دوران بحالئ جمہوریت کی تحریک چلی۔جس میں سندھ کا کردار نمایاں رہا۔سندھ میں فوجی آپریشن کیاگیا۔یہ ایک کارنامہ ہے۔
1980میں جنرل تجمل نے اپنے بیٹے نوید اور دیگر جونئیر افسران کو ساتھ ملاکر ضیا کے قتل کی سازش تیار کی۔منصوبہ یہ تھا ضیا کو23مارچ کی پریڈ میں گولی مار کر قتل کرنا تھا۔وہی منصوبہ جو انور سادات کے قتل کا تھا۔ضیا کے سکیورٹی انچارج جنرل مجیب نےسازش کاسراغ لگالیا۔سب ملزمان پکڑے گئے۔
17اگست 1988 کو3:51بجے جنرل ضیا،امریکی سفیر رافیل اور آٹھ پاکستانی جنرلوں کے ساتھ جہاز حادثے میں جان بحق پاگئے۔حادثے میں مجموعی طور پر 31 افراد جان بحق ہوئے۔برئگیڈیر یوسف اور فوج کےدیگر زرائع کےمطابق یہ سبوتاژ کی کاروائی تھی۔یعنی ایک ضرب میں پاکستان کی اعلی عسکری قیادت کا خاتمہ۔
بہاولپور حادثے کی تفتیش کیلئے جسٹس شفیق الرحمان کی سربراھی میں کمیشن بنا۔جس کی معاونت کیلئے چھ رکنی امریکی تحقیقاتی ٹیم 19اگست 1988 کو پاکستان آئی۔کمیشن میں دیگر افراد بھی شامل تھے۔16اکتوبر1988 کو کمیشن نے اپنی انکوائری رپورٹ صدر اسحاق کو پیش کی۔یہ رپورٹ 365 صفحات پر مشتمل تھی۔۔
رپورٹ میں تین شکوک کا اظہارکیاگیا۔اؤل۔۔جنرل ضیا کا قتل احمدیوں نےکیا ہے۔دوم۔۔قتل اہل تشیع نےکیا اور آخری جنرل ضیا کا قتل امریکہ یا دیگر غیر ملکی قوتوں نے کیا۔ایک بات پر اتفاق کیا گیا کہ کاروائی کیلئے فوج کے اندر ہی کسی آدمی کو استعمال کیا گیا۔یہاں سے نئ تحقیقات شروع ہوئیں۔
16اکتوبر1988کو ایئرفورس کے تین اعلی افسران پر مشتمل کمیٹی بنائی گئ۔جس نے جہاز حادثے کی تمام فنی اور تکنیکی تحقیقات کرنی تھیں۔کمیٹی میں ایئرکماڈور عباس مرزا۔۔گروپ کیپٹن ظہیر الحسن زیدی اورگروپ کیپٹن صباحت علی خان شامل تھے۔کمیٹی نےچند ماہ کی تحقیقات کےبعد30صفحات کی رپورٹ پیش کی۔
پاک فضائیہ کی رپورٹ کے مطابق جنرل ضیا کو طیارے کو نہ کوئی فنی خرابی تھی۔نہ کسی نے اسکو میزائل سے گرایا۔کیونکہ جہاز پرایسے کسی نشان کی موجودگی کا پتہ نہیں چلا۔جہاز کے ملبےکیمائی معائنہ پاکسان انسٹیوٹ آف نیوکلئیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سےکروایا گیا۔جہاں سےتحقیقات نےنیارخ اختیار کیا۔
کیمائی تحقیق کے مطابق جہاز کے اندر پینٹاایری تھری ٹول ٹیٹرا نائٹریٹ یعنی PETN کی موجودگی کا پتہ چلا۔یہ ایک کیمائی مواد ہے۔جودھماکہ خیز ہتھیاروں میں استعمال ہوتاہے۔یہ مواد صرف چند اعلی لیبارٹریز میں ہی پایا جاتا ہے۔عام طور پر اسکا ملنا ناممکن ہے۔یہی بات محمد حنیف نے بھی لکھی ہے۔
آئی۔ایس۔آئی کو دوران تفتیش معلوم ہوا کہ جنرل ضیا کے طیارے کے کو پائلٹ سجاد حسین کا تعلق گلگت سے تھا۔یاد رھے ضیا دور کے آخری دنوں میں گلگت میں شیعہ حقوق تحفظ کی تحریک چلی۔جس کو کچلنے کیلئے برئگیڈیر پرویز مشرف کو بھیجاگیا۔تحریک کو کچل دیا گیا۔مگر ضیا کی موت بھی لکھ دی گئ تھی۔۔
5جولائی1987 کو شیعہ عالم عارف حسینی کو شھید کیاگیا۔کوھاٹ اورگلگت میں اہل تشیع قتل۔سب عناصر نے سجاد حسین کو بدلا لینے پر مائل کیا۔کہا جاتا ہے سجاد حسین کو اسوقت کام کیلئے تیس لاکھ روپے ادا کئے گئے۔سجاد نے جاتے وقت اپنی ماں سے صرف یہ کہا کہ بڑے مشن پر جارہا ہے۔یہ ایک بڑی قیمت تھی۔۔
1989 کے آغاز میں آئی۔ایس۔آئی نے پائلٹ آفیسر اکرم اعوان کو گرفتار کیا۔ادارے کے بقول آفسر را اور موساد کیلئے جاسوسی کرتا تھا۔آفسر سے دوران تفتیش معلوم ہوا کہ ضیا کےطیارے کے اندر کیمائی مواد ونگ کمانڈر مشہود حسین نے داخل کیا تھا۔یہ باھر سے آیا تھا۔مشہود ضیا کے طیارے کے پائلٹ تھے۔
26اگست2008 کو بھارتی اخبار۔۔ٹائمز آف انڈیا۔۔نے خبر دی کہ ضیا طیارے کے حادثے میں مرکزی کردار ونگ کمانڈر مشہود حسین کا تھا۔یادرھے مشہود ڈاکٹر قدیر نیٹ ورک کے اہم آدمی تھے۔پاکستان اور چین کے درمیان ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کیلئے سو کے قریب پروازیں ہوئیں۔سب کے پائلٹ مشہود حسین تھے۔
1990 میں جب نواز حکومت آئی تو تمام تحقیقات کو عام کرنے کافیصلہ کیا۔جنرل اسلم بیگ نے مخالفت کی۔انہوں نے مناسب وقت کاانتظارکرنے کا کہا۔جس سےشبھات نےجنم لیا۔اعجاز الحق نے انکو سانحے میں ملوث قرار دیا۔مسزاختر کے بقول انکے خاوند جنرل اختر کو امتیاز بلا نے طیارے میں سوار کروایا۔
1993میں تکبیر کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں اعجاز الحق نے اسلم بیگ پر اس سازش کا الزام عائد کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انکے والد کو میجر جنرل اعباز درانی نے اس میٹنگ میں جانے کیلئے آمادہ کیا۔ورنہ ایسی کاروائی کبھی کسی آرمی چیف نے نہیں دیکھی۔نہ کبھی دورہ کیا۔یہ رپورٹ جاری نہ ہوسکی۔
اس واقعےسےجڑا ایک واقعہ اور بھی ہے۔عارف حسینی قتل کا الزام آئی۔ایس۔آئی کے آفسر اور ضیا کی سکیورٹی ٹیم کے رکن کیپٹن ماجد رضا گیلانی پر عائد ہوا۔پہلےانہوں نےاسکا اقرار کیا۔بعدمیں بیان سے منکر ہوگئے۔مقدمے کا فیصلہ 2006-7میں ہوا۔ماجد رہا ہوگئے۔گھر واپسی کےبعد پھر لاپتہ۔۔حقیقت کیا ہے؟
جنرل ضیا کی موت کے بعد مظلوموں کو قید سے رہائی ملی۔سیاسی قیدیوں کو سہولت ملی۔جنرل تجمل اور انکے بیٹے بھی انہی میں شامل تھے۔جنرل تجمل نے 1988 کےانتخاب میں اپنی پارٹی۔۔اسلامی انقلابی جماعت۔۔کےٹکٹ پرالیکشن لڑا۔کامیاب نہ ہوئے۔مگرلازوال ہوئے۔نوسال کی سخت قیدنے انہیں حوصلہ مندبنایا۔

ضیاء کامارشل لاء کیوں آیا تھا
پانچ جولائی 1977 کو چار عشرے سے زیادہ بیت گئے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان میں جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تھا۔ ہم ہر سال پانچ جولائی کو یوم سیاہ مناتے ہیں لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ پانچ جولائی 1977 ہماری زندگیوں میں کیوں آیا تھا اور یہ اب تک ختم کیوں نہیں ہوا؟
اپریل 1977 میں ملک بھر میں پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جاری تھی۔ یہ تحریک اسی برس مارچ میں منعقد ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے نتیجے میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ پاکستان قومی اتحاد کے پاس اگرچہ عوامی قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ انتخابی جلسوں کے دوران بھی وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکے تھے، لیکن اس تحریک کے لیے انہوں نے نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا۔ تحریک کو تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کا نام دیا گیا اور لوگ اسلام کے نام پر سڑکوں پر آ گئے۔ گویا آج سے 42 سال پہلے بھی لوگوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ اسی طرح کھیلا جاتا تھا جیسے آج کھیلا جاتا ہے۔
گھیراؤ جلاؤ کا عمل شروع ہوا تو توڑ پھوڑ اور جلوس جلسے روز کا معمول بن گئے، کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں لیکن بھٹو صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے صرف سٹریٹ پاور کا مظاہرہ ہی تو کافی نہیں تھا۔ اس کے لیے پارلیمانی عدم استحکام پیدا کرنا بھی ضروری ہو گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایجنسیوں نے اپنا کھیل شروع کیا۔ کچھ غلطیاں پیپلز پارٹی کی قیادت سے کرائی گئیں اور کچھ اراکین اسمبلی یا پارٹی رہنما ایسے تھے جو پہلے ہی ایجنسیوں کے اشارے پر نئی منزلوں کی جانب سفر کو تیار تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے کب وفاداریاں تبدیل کرنی ہیں۔ ہوا کے مخالف پرواز کرنا ان پنچھیوں کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔
8اپریل کو بھٹو صاحب نے پارٹی مفادات کے منافی سرگرمیوں کے الزام میں تاج محمد لنگاہ (جو بعدازاں سرائیکی صوبے کی آواز بنے)، احمد رضا قصوری ( جو بعد ازاں اُس مقدمے کے مدعی بنے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوا) اور حامد یاسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ 12 اپریل1977 کو پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل مبشر حسن نے استعفیٰ دے دیا۔
اسی روز ملتان سے پی پی کی خاتون رہنما فخر النسا کھوکھر (سابق جسٹس لاہو رہائی کورٹ) پارٹی رکنیت سے مستعفی ہوئیں۔ اگلے روز ایجنسیوں نے اسمبلیوں میں کھیل شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ پنجاب اسمبلی سے بھٹو حکومت کے خلاف پہلا استعفیٰ آج کے جیالے چوہدری اعتزاز احسن نے دیا تھا۔ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی حکومت میں صوبائی وزیر قانون کی حیثیت سے کام کر رہے تھے وہ پیپلز پارٹی سے پہلے ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال میں شامل تھے۔ استعفے کا جواز انہوں نے یہ بنایا کہ نو اپریل کو لاہور میں مظاہرین پر جو فائرنگ کی گئی اس میں بیورو کریسی نے ان کے احکامات کو نظر انداز کیا۔
اُسی روز پنجاب اسمبلی سے عبد الحفیظ کاردار اور قومی اسمبلی سے سردار احمد علی بھی مستعفی ہوئے۔ کشتی میں سوراخ کرنے کی دیر تھی ایک ایک کر کے ارکان اسمبلی کے استعفے آنے لگے گویا کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے تھے۔ اسی دوران بھٹو صاحب نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سردار شوکت حیات کو بھی پارٹی سے نکال دیا۔ دوسری جانب سڑکوں پر تحریک بھی چلتی رہی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو علم ہو گیا تھا کہ عالمی قوتیں اب انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اپنے دورِ اقتدار کے دوران انہوں نے عرب دنیا کو تیل کی دولت ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا، عالم اسلام کے اتحاد کی کوششیں کیں اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے جو عملی اقدامات کیے وہ امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھائے تھے۔ 28 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’ہاتھی‘ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس کا واسطہ بندۂ صحرا سے پڑ گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس نے بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ جو بھی شکایات ہیں ان پر امریکہ سے خاموشی کے ساتھ بات چیت کر لی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وہی خط مری روڈ راولپنڈی کے ایک چوراہے پر عوام کے سامنے لہرا دیا۔
مئی کے مہینے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ اسی دوران تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے جرنیلوں کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اقتدار سنبھال لیں۔ فوج نے اس وقت بظاہر تو اس خط کو اہمیت نہ دی لیکن بعد ازاں ملک کے وسیع تر مفاد کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا۔ جون میں مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔ یہ مذاکرات پاکستان کے معاملات میں سعودی حکومت کی براہ راست مداخلت کے نتیجے میں شروع ہوئے تھے۔ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب نے حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کو ایک میز پر بٹھایا۔ بھٹو صاحب کی مذاکراتی ٹیم میں کوثر نیازی اور حفیظ پیر زادہ شامل تھے اپوزیشن نے مذاکرات کی ذمہ داری مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ اور پروفیسر غفور کو سونپی۔
مذاکرات کے دوران بعض حلقوں کی جانب سے بھٹو صاحب کو آگاہ بھی کیا گیا کہ فوج ان کے اقتدار کا خاتمہ کر سکتی ہے لیکن بھٹو صاحب نے ان باتوں پر اس لیے کوئی توجہ نہ دی کہ وہ جنرل ضیاء الحق کو قابل اعتماد جرنیل سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت سے سینیئروں کو نظر انداز کر کے جونئیر موسٹ ضیاء الحق کو اس لیے فوج کا سربراہ بنایا کہ وہ خوشامدی تھے اور نواب صادق حسین قریشی کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس ملتان میں اچانک بھٹو صاحب کے سامنے آ جانے پر جلتا ہوا سگریٹ بھی اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو بھلا کیسے گمان کرتے کہ یہی ضیاء الحق نہ صرف یہ کہ ان کا اقتدار ختم کریں گے بلکہ انہیں تختۂ دار تک بھی لے جائیں گے۔
جنرل ضیاء الحق کو 70 کی دہائی کے وسط میں شاہ حسین حکومت کی مدد کے لیے ایک دستے کی کمان دے کر اُردن بھیجا گیا تھا۔ اس دستے نے وہاں اُن فلسطینی مجاہدوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیا جو اُردن حکومت کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کے قتلِ عام کے صلہ میں جنرل ضیاء الحق کو اُردن حکومت کی جانب سے فوجی اعزاز سے نوازا گیا۔ جنرل ضیاء الحق اپنے کندھے پر جو ایک چوڑی سی بیلٹ پہنتے تھے اور جس کی وجہ سے ان کے مخالفین انہیں بینڈ ماسٹر کہتے تھے۔ وہ بیلٹ اُنہیں فلسطینیوں کے قتل عام کے صلے میں ہی ملی تھی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کے ساتھ ضیاء الحق کے رابطوں کا آغاز اسی دور میں ہوا تھا۔
فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل ضیاء الحق حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کو بہت قریب سے مانیٹر کر رہے تھے۔ وہ مذاکرات کے دوران وزیر اعظم ہاؤس کی غلام گردشوں میں موجود رہتے۔ ایک آدھ بار اُنہوں نے مذاکرات میں مبصر کے طور پر بیٹھنے کی کوشش بھی کی مگر نوابزادہ نصراللہ خان اور مفتی محمود کے احتجاج پر انہیں کمرے سے نکال دیا۔ مذاکرات میں جہاں کہیں سلجھاؤ کی صورت پیدا ہوتی یا بحران ختم ہوتا دکھائی دیتا تو جنرل ضیا مذاکرات سے باہر بیٹھے قومی اتحاد کے رہنماؤں کے ذریعے مزید اُلجھاؤ پیدا کر دیتے۔ اصغر خان اُن کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ مفتی محمود، پروفیسر غفور اور نوابزادہ نصراللہ جب معاملات طے کرنے کے بعد حتمی منظوری کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کے پاس جاتے تو اصغر خان کھیل خراب کرنے کے لیے پہلے سے تیار ہوتے تھے۔
ایک مہینہ اسی کیفیت میں گزر گیا۔ جولائی کا مہینہ شروع ہوا تو حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات رات رات بھر جاری رہے۔ سازش کی بو اب بھٹو صاحب کو بھی آ رہی تھی۔ چار جولائی کو رات گئے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے ہو گئے ہیں، اور معاہدے پر صبح دستخط ہو جائیں گے۔معاہدے پر صبح دستخط کیسے ہوتے؟ جنرل ضیاء الحق نے صبح ہی نہ ہونے دی اور ملک پر مارشل لا کی طویل رات طاری کر دی جو 11 برس جاری رہی۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب مارشل لا کا راستہ ہمیشہ کے لیے روکا جا چکا ہے۔ پرویز مشرف اقتدار پر قبضے کے باوجود مارشل لا نافذ کرنے کی جرات نہیں کر سکے تھے۔ بظاہر ہم جمہوری دور میں زندہ ہیں۔ منتخب ادارے کام کرتے دکھائی بھی دے رہے ہیں۔ہم ہر سال پانچ جولائی کو یوم سیاہ مناتے ہیں لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ پانچ جولائی 1977 ہماری زندگیوں میں کیوں آیا تھا اور یہ اب تک ختم کیوں نہیں ہوا؟
۔۔۔۔۔

چوتھا مارشل لاء
پرویز مشرف

بارہ اکتوبر 1999ء پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔ اس روز فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے ملکی وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کر لیا تھا۔
نواز شریف کی مخالف سیاسی جماعتوں نے منتخب حکومت کے خاتمے پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ہی سب کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہو گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق 12 اکتوبر 1999 کا سانحہ دراصل کارگل کی جنگ کی وجہ سے نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان شروع ہونے والی لڑائی کا نقطہ عروج تھا، کیونکہ نواز شریف کارگل میں مہم جوئی کے بعد پرویز مشرف کی مرضی کے خلاف امریکا گئے تھے اور انہوں نے فوجی دستے واپس بلانے کے احکامات جاری کر دیے تھے، جس سے فوج میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ پھر بالآخر یہی بے چینی حکومت اور فوج کے درمیان سرد جنگ کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
جب پاکستان میں تیار کی گئی آگسٹا آبدوز کی افتتاحی تقریب کے لیے جنرل پرویز مشرف بطور آرمی چیف کراچی آئے، تو انہو نے غیر رسمی بات چیت میں یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف امریکا جانے والے ہیں۔ تب ان کے الفاظ تھے ،تمہارا وزیر اعظم معافی مانگنے امریکا جا رہا ہے۔‘‘
وزیر اعظم نواز شریف نے سری لنکا کے دورے پر گئے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا، لیکن نئے آرمی چیف کا فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز کا دورہ ابھی باقی تھا۔ پرویز مشرف جو وطن واپسی کے لیے روانہ ہو چکے تھے، ان کے طیارے کو ملک میں کہیں بھی اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ پھر اچانک فوجی جوان وزیر اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے، فوج کی جانب سے وزیر اعظم سے استعفٰی طلب کیا گیا اور انکار پر نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی طرح کراچی میں بھی ٹی وی اور ریڈیو سمیت دیگر اہم تنصیبات پر فوج تعینات کر دی گئی تھی۔ کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل مظفر حسین عثمانی پرویز مشرف کو لینے ایئر پورٹ پہنچے تو آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمود بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ ضیاء الدین بٹ کے مطابق کور کمانڈر عثمانی پرویز مشرف کا استقبال کرنے ایئر پورٹ نہیں جانا چاہتے تھے، مگر نئے آرمی چیف کی ہدایت پر وہ ایئر پورٹ گئے تھے۔
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
کنٹرول ٹاور میں جنرل عثمانی اور جنرل محمود کی ملاقات ہوئی اور طیارے کو لینڈنگ کے لیے رن وے خالی رکھنے کی ہدایت جاری کر دی گئی تھی۔
طیارے سے باہر آنے پر پرویز مشرف خاصے پرسکون اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ ایئر پورٹ پر موجود دونوں جرنیلوں نے طیارے سے اترنے پر پرویز مشرف کو سلیوٹ کیا تھا، جس کے بعد سب واضح ہوگیا تھا کہ تب ملک کی کمان کس کے ہاتھ میں تھی۔
طیارہ اغوا سازش کیس
جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف طیارہ اغوا کرنے کی سازش کا کیس بنایا۔ یہ مقدمہ غیر معمولی طور پر طیارے میں سوار پرویز مشرف یا کسی دوسرے مسافر کی مدعیت میں درج کیے جانے کے بجائے زمین پر موجود ایک فوجی افسر کی درخواست پر درج کیا گیا تھا۔ مقدمہ کئی برس تک انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت رہا، جس میں زیادہ سے زیادہ سزا موت کی ہو سکتی تھی۔ مگر نواز شریف، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور سینیٹر سیف الرحمان کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں اگر کسی جرم کی سزا موت ہو تو مجرم کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کو مجرم کی فتح سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ،رائٹر اور آرمی آفیسر سر ونسٹن چرچل کہتے ہیں کہ ” بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ” میرے خیال سے ہر وہ شخص جو تھوڑی بہت بھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ سر ونسٹن چرچل کے خیالات سے اتفاق کرے گا اورو اقع ہی جمہوریت آمریت سے کہیں زیادہ اچھا طرز ِ حکومت ہے لیکن کیا میں اُس جمہوریت کو سَر میں ماروں جس میں ڈیلیور کرنے کی اہلیت ہی نہ ہو۔؟ ملائیشیاکے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کہتے ہیں کہ “جمہوریت یا جمہوری نظام بغیر تعلیم کے کسی ملک پر ظلم کرنے کے مترادف ہے” اور پاکستان کی شرح خواندگی روز ِروشن کی طرح عیاں جس سے ہر عام و خاص باخوبی واقف ہے۔ جہاں تک آمریت کا تعلق ہے تو آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک اگر کسی نے ڈیلیور کیا ہے تو فوجی ڈکٹیٹرز(آمروں) نے کیا وہ چاہے ملکی معشیت ہو ڈیم بنے یا ایٹمی پروگرام ۔جنرل ایوب خان کی آمریت کا ایک دُوربھی پاکستان کے تمام جمہوری اَدوار بھی مل کر مقابلہ نہیں کر سکتے ۔یہ وہی دور تھا جب پی آئی اے دنیا کی نمبر ون ایئرلائن ہوتی تھی اور پاکستان دوسرے ممالک کو قرضے دیتاتھا ۔جنرل مشرف کا دُور بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گو کہ آئین ِ پاکستان کے مطابق کوئی بھی فوجی جنرل ملک پر مارشل لاء لگا کر حکومت نہیں کر سکتا۔لیکن ہر دُور میں حالات کی ستم ظریفی نے فوج کو ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ 12 اکتوبر 1999 ؁کو جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا ء لگا کر اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ۔مشرف نے ایسا کیوں کیا یہ پاکستان کی سیاست کا ایک سیاہ باب ہے اور آج کے کالم کا موضوع ِگفتگو ہے۔
1999؁ میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے مابین کچھ اختلاف چل رہے تھے اوروہ اختلاف کارگل کی واپسی سے شروع ہوئے تھے ۔ کارگل وار پاکستان نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی جس کا سہرہ نواز شریف اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی سیٹلمنٹ کے َسر جاتا ہے ۔اِسی اختلاف کے باعث نواز شریف نے جنرل مشرف کو جبری ریٹائر کرنے اور نئے آرمی چیف ضیاالدین بٹ کو تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا ۔اگرچہ میاں صاحب کو اُن کے قریبی ساتھیوں اور ملٹری سیکٹرٹری نے ایسا کرنے سے منع بھی کیا کہ اِس فیصلے کے نتائج ٹھیک نہیں ہوں گے لیکن میاں صاحب بضد تھے ۔ 10اکتوبر 1999 ؁کو آرمی چیف مشرف پرویز اپنی اہلیہ سمیت دو دن کے دورے پر سری لنکا چلے گئے تو مشرف کی عدم موجودگی میں میاں نواز شریف نے اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری شرو ع کر دی ۔مشرف کی واپسی سے 12 اکتوبر 1999کو میاں نواز شریف نے مشرف کی جبری ریٹائرمنٹ کے نو ٹیفیکیشن پر سائن کیے اور پی پی پی کے صدر فاروق لغاری کو ہٹا کراپنے ن لیگ کے لگائے گئے صدر رفیق تارڑسے بھی فائنل اَپرومنٹ کروا لی جس کے بعدمشرف کی جبری ریٹائرمنٹ اور نئے آرمی چیف ضیا ء الدین بٹ کی اپوائنمنٹ کی خبر پانچ بجے پی ٹی وی پر نشر کر دی گئی ۔جنرل مشرف کی جبری ریٹائرمنٹ کی خبر سن کا آرمی کے حلقوں میں اضطراب پیداہو گیا ۔خبر نشر ہونے کے بعد فوج نے خبر دوبارہ نشر کرنے سے روک دیا گیاجبکہ مشرف کی فلائٹ خبر نشر ہونے سے پہلے ٹیک آف کر چکی تھی اورمشرف کو اِس فیصلے کی اطلاع پہنچانے کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔ مشرف کے جہاز PK 805 نے 6:50 منٹ پر کراچی لینڈ کرنا تھا۔ لیکن نواز شریف نے ڈی جی سول ایوایشن اتھارٹی امین اﷲ چوہدری کو مشرف کے جہاز کوپاکستان میں لینڈ کرنے سے سختی سے منع کر دیا اور یہی حکم اُ س وقت پی آئی اے کے چیئرمین اور اب ایئر بلو ایئرلائن کے مالک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی دیا۔شاہد خاقان عباسی اور امین اﷲ چوہدری کے ساتھ نواز شریف نے آئی جی سند کو بھی لینڈنگ روکنے کے احکامات جاری کر دیے ۔سند ھ پولیس نے وزیراعظم کے احکامات پر عمل در آمدکرتے ہوئے ایئرپورٹ پر فائر بریگیڈگاڑیاں کھڑی کر کے رن وے کو بلاک کر دیا تاکہ طیارہ لینڈ نہ کر سکے ۔چھ بجے کے قریب ائیرٹریفک کنٹرول(ATC) سے کیپٹن سروت کو پیغام دیا گیا کہ آپ طیارہ PK 805 کو پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر لینڈ نہیں کر سکتے ۔ یہ سن کر کیپٹن سروت کافی پریشان ہوگے کیونکہ جہاز میں مشرف سمیت ایک سو اٹھانوے مسافر تھے اور جہاز میں فیول صرف تیس سے پنتیس منٹ کی اُڑان کا باقی تھا۔کیپٹن نے واپس پیغام بھیجا کہ جہاز میں اتنا فیول نہیں کہ انڈیا کے شہر احمد آباد ایئرپورٹ کے علاوہ کسی اور ملک جا سکے ۔نوازشریف کو جب جہاز کے فیول کے بارے بتایا کیا تو انہوں نے احمد آباد ایئرپورٹ انڈیا لے جانے کا کہا ۔کیپٹن سروت نے جہاز میں موجود مشرف کے ساتھی بریگیڈئیر ندیم تاج کو کاکپٹ (پائلٹ جہاں بیٹھ کے جہاز اُڑاتا ہے ) میں بلایااور ساری صورت حال سے آگاہ کیا ۔یہ سن کر مشرف بھی کاکپٹ میں آگیا اورپائلٹ کو جہاز انڈیا لے جانے پر کہا”اُوور مائی ڈیڈ باڈی ” (ایسا میری لاش پر سے ہوگا) ۔ جہاز کے کمونیکیشن سسٹم سے کراچی کنٹرول ٹاور رابطہ کیا گیا۔ا یئرکنٹرولر کو مشرف نے کورکمانڈر کراچی سے بات کروانے کو کہا تو ایئرکنٹرولر نے بات کروانے سے انکار کر دیا ۔ جنرل افتخارکو جب ساری سیچوایشن کا پتہ چلا تو وہ کنٹرول ٹاور پہنچ گئے۔جنرل افتخار نے پائلٹ سے بات کروانے کو کہا توکنٹرولر نے یہ کہہ کر انکارکر دیا کہ اوپر سے سخت آرڈرآیاہے کہ فلائیٹ کے علاوہ پائلٹ کی کسی سے بھی کوئی بات نہ کروائی جائے ۔ کنٹرولر کا جواب سن کر جنرل افتخار نے اُس پر پستول تان لی جس پر کنٹرولر نے پائلٹ سے بات کروائی اورجنرل افتخار نے پائلٹ کو احمد آباد انڈیا جانے کی بجائے کراچی میں ہی لینڈ کرنے کا کہا ۔جنرل افتخار نے مشرف کو نئے آرمی چیف ضیاالدین بٹ کی اپوائنٹمنٹ اوراُس کی جبری ریٹائرمنٹ کی خبر دی، بریگیڈئیرندیم تاج او ر جنرل مشرف بھی اُس وقت پائلٹ کے ساتھ کاکپٹ میں موجود تھے ۔ جنرل مشرف نے سات بج کر بتیس منٹ پرجنرل افتخارکو یہ آرڈر کیا کہ ٹرپل ون بریگیڈجو مارشل لاء اوروزیراعظم ہاؤس کو کنٹرول کرتا ہے کے کورکمانڈرراولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل محمود اورجنرل عزیز کو کہیں کہ ملک پر ٹیک اوور کر لیا جائے اور کسی کو بھی ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے ۔لینڈنگ ٹائم 6:50 تھااور طیارہ کو ہوا میں گھومتے ہوئے پچاس منٹ ہو گئے تھے اور پائلٹ کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی آخرکار فوج کی مداخلت سے 7:40 منٹ پر طیارہ کو کراچی ایئرپورٹ پربحفاظت لینڈکرلیا گیا۔جب طیارے نے لینڈ کیا تو جہاز میں صرف 7 منٹ کا فیول باقی تھا ۔جنرل مشرف طیارے سے اُترے تو جنرل عثمانی نے اُترتے ہی اُن کو یہ بتایا کہ مجھے اُپ کو گرفتار کرنے کا حکم ملا ہے۔اس بات پر ایک لمحہ مشرف گھبرائے لیکن پھر اُنہوں نے مسکراتے ہوئے ویلکم کیا ۔ملک میں ایک بار پھر مارشل لا ء لگ چکا تھا اور اب ملک کا تمام کنٹرول فوج کے سپرد تھا ۔اورعوام مٹھایاں بانٹنے میں مصروف تھی ۔یہ وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے مشرف نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارشل لا ء لگایا اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سپیشل کورٹ سے اُن کو سزائے موت ہوئی ہے۔میرا ہر اُس شخص سے سوال ہے جو مارشل لا ء لگانے پر جنرل مشرف کو غدار غدار کے القابات سے یاد کر رہا۔ کیا اِس ملک میں آئین کی خلاف ورزی صرف مشرف نے کی ہے جو اتنی عبرت ناک سزا سنائی گئی ۔؟ کیا غداری صرف مارشل لا ء لگانا ہی ہے ۔؟ کیا ڈان لیکس،ممبئی حملہ لیکس اور حاضر سروس آرمی چیف کا طیارہ اغوا کرنے اور انڈیا لے جانے کا آئین ِ پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں ۔؟

پرویز مشرف کا دوسرا مارشل لا۔
یا ایمر جنسی

نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے آٹھ سال بعد 2007 میں ایک اور بحران تب پیدا ہوا جب جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کردی۔ تین نومبر سے 15 دسمبر تک، 42 روز آئین معطل رہا۔ کئی جج بشمول چیف جسٹس نظر بند کر دیے گئے۔ میڈیا پر پابندی نافذ کردی گئی۔
مشرف نے بڑھتی ہوئی دہشت گردی اورعدلیہ کے انتظامی امور میں مداخلت کو ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے جواز بتایا۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو وہ چیف ایگزیکٹیو بنے تھے۔ بعد میں وہ تین بار صدر بنے۔ پہلی مرتبہ صدر رفیق احمد تارڑ کے استعفے کے بعد انہوں نے خود کو صدر مقرر کیا۔ دوسری مرتبہ 2002 میں خود کو صدر منتخب کرا لیا۔ تیسری مرتبہ صدر بن رہے تھے تو عدالت آڑے آ گئی۔
قصہ یوں شروع ہوا کہ مارچ 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مبہم الزامات کے تحت ہٹایا تو وکلا نے اس اقدام کوعدلیہ کی آزادی پر حملہ قراردیا اور اس کے خلاف ملک بھر میں تحریک چلائی جو ’کالے کوٹوں‘ کا احتجاج کے نام سے مشہور ہوئی۔
جولائی 2007 میں سپریم کورٹ کے تیرہ رکنی بنچ نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کردیا۔ پہلی مرتبہ ججز نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ جواباً جنرل مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر کے 61 ججز کو غیر فعال کردیا۔
2007 کے صدارتی انتخاب کے موقع پر جنرل مشرف کے مخالف امیدوار ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین احمد کی درخواست پر سوال کھڑا ہوا، کہ کیا مسلح افواج کا رکن آئینی طور پر صدارتی انتخاب لڑسکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے اگرچہ مشرف کو راستہ تو دیا لیکن الیکشن کمیشن کو پابند کیا کہ وہ عدالت سے حتمی فیصلے تک سرکاری طور پر جیتنے والے صدارتی امیدوار کا اعلان نہ کرے۔ صدارتی انتخاب جنرل مشرف جیت گئے۔ پرویز مشرف کے صدارتی عہدے کی مدت 15 نومبر کو ختم ہو رہی تھی، لہٰذا عدالت نے پانچ نومبر کی تاریخ درخواست کی سماعت کے لیے مقرر کی۔
اس سے پہلے کہ عدالت کسی نتیجے پر پہنچتی، تین نومبر کی شام کو جنرل مشرف نے بطور آرمی چیف ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔ ملک کے آئین کو معطل کر کےعبوری آئینی حکم جاری کردیا۔ ججز کو ازسرنو حلف لینے کا کہا گیا۔ جن ججز نے ایسا نہیں کیا انہیں فارغ کردیا گیا۔
ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت جنرل مشرف کے پاس صدر اورآرمی چیف دونوں عہدے تھے۔
جنرل مشرف کے ان دو اعلانات کو غیراعلانیہ مارشل لا سے تعبیر کیا گیا۔ اس کے خلاف ملک بھر میں شدید ردعمل ہوا۔
عالمی قوتوں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی۔ امریکی صدر جارج بش نے کہا کہ جنرل مشرف وردی اتاریں اور انتخابات کرائیں۔ دولت مشترکہ نے آئین اور جمہوریت کی بحالی تک پاکستان کی رکنیت معطل کردی۔ مغرب کے دباؤ کےجواب میں مشرف نے کہا کہ وہ آرمی کا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اگر ان کے صدارتی انتخاب لڑنے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔
ایمرجنسی نافذ کرنے کے 25 روز بعد انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ جنرل کیانی کے حوالے کیا اور صدر کے عہدے کا حلف اٹھا کر فل ٹائم سیاست دان بن بیٹھے۔
صدر کے عہدے کا حلف لینے کے 18 روز بعد انہوں نے 15 دسمبر کو عبوری آئینی حکم نامہ واپس لیا اور صدارتی حکم کے تحت ایمرجنسی کے 42 روز تک کے اپنے اقدامات کو قانونی تحفظ دیا۔
آگے چل کر 2009 میں سپریم کورٹ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
مشرف نے نو سال تک ملک پر حکمرانی کی۔ تاہم 2008 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی جانب سے مواخذے کے ڈر سے انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
گیارہ ماہ بعد سپریم کورٹ نے ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم نامے کو غیرآئینی قرار دیا۔ عدالت نے مشرف کو اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے بلایا لیکن وہ لندن روانہ ہو گئے۔
مارچ 2013 میں وہ خودساختہ جلاوطنی سے لوٹے تو سینیئر وکیل اے کے ڈوگر نے سپریم کورٹ میں سوال اٹھایا کہ آئین کی خلاف ورزی کر کے مشرف سنگین غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے جنوری 2013 میں قومی اسمبلی میں مشرف کے خلاف شق چھ کے تحت آئین توڑنے کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔
سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل تشکیل دیا گیا۔ نواز شریف حکومت نے ان کے خلاف غداری کے پانچ الزامات عائد کیے۔ جن میں بطور آرمی چیف ایمرجنسی نافذ کرنا اور آئین کو معطل کرنا، عبوری حکم نامہ نافذ کرنا، ناجائز طریقے سے آئین میں ترامیم کرنا اوراعلیٰ عدالتوں کے ججز کے حلف کا قانون تبدیل کرنا شامل ہیں۔
چھ سال سے یہ مقدمہ خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ موجودہ حکومت اب اس کو واپس لینا چاہتی ہے۔
جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے والے اپنے پیشروؤں کی طرح اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہتے تھے۔
مشرف کی 42 روز کی ایمرجنسی نے ملک کے عدالتی اور سیاسی نظام پر ناقابل تلافی اثرات ڈالے۔
۔۔۔۔۔

پاکستان میں مارشل لا کی 5 مزیدکوششیں
جو ناکام بنا دی گئیں

معروف تاریخ دان فیصل دیوجی کے مطابق پاکستان کی تاریخ ایک دائروں کا سفر ہے۔ یہاں اقتدار فوج اور سیاستدانوں کے بیچ ایک کھلونا ہے جو کبھی ایک کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو کبھی دوسرے کے۔ 73 سال کی تاریخ میں 33 سال ملکی فوج نے براہ راست اور کئی سال سیاستدانوں کے چہروں کے پیچھے سے وطنِ عزیز پر حکمرانی کی ہے۔ کل ملا کر چار فوجی ہیں جو ملک کے لمبے عرصے تک سربراہ بھی رہے جن میں سب سے پہلے جنرل ایوب خان تھے جن کا اقتدار 1958 سے 1969 تک جاری رہا۔ ان سے اقتدار جنرل یحییٰ خان نے لیا اور دو سال میں بنگال کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے بعد بالآخر اقتدار سے علیحدہ ہونے پر راضی ہوئے۔ 1977 سے 1988 تک جنرل ضیاالحق نے ملک پر حکومت کی جب کہ جنرل ضیا کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 سے اگست 2008 تک ملک پر قبضہ جاری رکھا۔
لیکن یہ چار مارشل لا تو وہ ہیں جن کے بارے میں سب کو علم ہے۔ اس کے علاوہ بھی کم از کم پانچ مرتبہ مختلف ادوار میں ملک پر قبضے کی کوششیں ہوئیں لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان میں سب سے پہلی فوجی بغاوت کی کوشش 1951 میں ہوئی۔

جنرل اکبر خان، راولپنڈی سازش کیس، 1951:
کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ 1948 میں ہوئی جس کا اختتام پنڈت جواہر لعل نہرو کے اس معاملے کو اقوام متحدہ لے جانے پر ہوا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی بات مان لی اور ایک ریفرنڈم کے وعدے پر جنگ بندی بھی ہو گئی لیکن فوج کے اندر ایک بڑی تعداد کا ماننا تھا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی بات نہیں ماننی چاہیے تھی۔ ایسے ہی جرنیلوں میں ایک جنرل اکبر خان تھے جو کہ ترکی کے مصطفیٰ کمال اتاترک کے بہت بڑے مداح تھے۔ پاکستان کے دوسرے آرمی چیف جنرل گریسی جب 1950 میں ریٹائر ہوئے تو وہ جنرل ایوب خان کو کہہ کر گئے تھے کہ اکبر خان ایک ’کمالسٹ‘ ہے اور اس پر نظر رکھیں۔
جنرل اکبر خان کی اہلیہ کمیونسٹ خیالات رکھتی تھیں اور جب جنرل اکبر خان نے کشمیر کے معاملے پر دلبرداشتہ ہو کر حکومت الٹنے کا فیصلہ کیا تو ان کی اہلیہ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ بائیں بازو سے اس سلسلے میں مدد طلب کریں، جو کہ انہوں نے کی بھی۔ بائیں بازو کے سیاستدانوں سے کہا گیا کہ وہ طلبہ اور مزدوروں کو سڑکوں پر لا کر احتجاج کروانا شروع کریں تاکہ فوجی ٹیک اوور کا ماحول بن سکے۔ بدلے میں انہوں نے وعدہ کیا کہ اقتدار پر قبضے کے بعد وہ بھی نظام میں بائیں بازو کی اصلاحات نافذ کریں گے۔ ابھی یہ حکمتِ عملی طے ہو ہی رہی تھی کہ جنرل اکبر خان کے ہی ایک ساتھی فوجی نے ان کی مخبری کر دی۔ جو فوجی اور سویلین اس کوشش میں شامل تھے، انہیں گرفتار کیا گیا اور سب کو قریب تین، تین سال کی سزائیں دی گئیں۔
انہی میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور ظفر اللہ پوشنی بھی تھے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں نیا دور سے بات کرتے ہوئے ظفر اللہ پوشنی نے اس حوالے سے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ بائیں بازو کے سیاستدانوں نے فوج کو آخری اجلاس میں بتا دیا تھا کہ وہ حکومت پر اس فوج کشی کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ سنیے انہوں نے کیا کہا، اور پھر اقتدار پر قبضے کی اگلی ناکام کوشش کی طرف چلتے ہیں جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی۔ ظفر اللہ پوشنی:
بھٹو صاحب کے خلاف مارشل لا کی کوشش سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ 1951 کی ناکام بغاوت کی پاداش میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کے طلبہ ونگ ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

برگیڈیئر علی، Bonapartists کی سازش، 1973:

جنرل ایوب نے 1958 میں اقتدار پر قبضہ کیا، ان کے بعد جنرل یحییٰ اقتدار میں رہے، لیکن 1971 میں بنگال کے ٹوٹنے کے بعد انہیں بالآخر فوج کے اندر سے ہی دباؤ کے باعث حکومت سے علیحدہ ہو کر اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرنا پڑا۔ لیکن اقتدار میں آ کر بھٹو صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس قسم کے فوجی افسران کو فوج سے نکالنا ضروری ہوگا جو اس حد تک سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ان ’Bonapartists‘ کو ایک ایک کر کے نکالنا شروع کر دیا۔ یہی وہ موقع تھا جب اس باغی گروپ نے حکومت کے خلاف کو کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا سرغنہ برگیڈیئر ایف بی علی تھا اور یہ ان فوجی افسران میں سے ایک تھا جنہوں نے جنرل یحییٰ پر اقتدار سے علیحدگی کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔ اس کے ساتھ میجر فاروق آدم خان، سکواڈرن لیڈر غوث، کرنل علیم آفریدی اور لیفٹننٹ کرنل طارق رفیع بھی شامل تھے جنہوں نے حکومت کو ہٹانے کا منصوبہ تیار کیا۔
کرنل آفریدی نے آخری وقت میں اس منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کو اس کی مخبری کر دی اور ان تمام افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان افسران کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تو ان کے وکیل ایس ایم ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان افسران کے مطابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ یہ تھی کہ وہاں موجود افسران اسلام پر صحیح طرح عمل نہیں کرتے تھے۔ ان تمام افسران کا کورٹ مارشل کر کے انہیں جیل کی سزا سنانے والے ٹربیونل کا سربراہ اس وقت لیفٹننٹ جنرل ضیاالحق تھا جس نے جولائی 1977 میں بھٹو حکومت الٹنے کے بعد 1978 میں ان افسران کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

میجر جنرل تجمل ملک،
جنرل ضیا کی حکومت ’اسلامی‘ نہیں، 1980:

جنرل ضیاالحق نے 1976 میں تجمل حسین ملک نامی ایک میجر جنرل کو اس بنیاد پر فوج سے جبری ریٹائر کروا دیا تھا کہ یہ بھٹو حکومت کے خلاف تھا۔ لیکن 1977 میں خود ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ تاہم، 1980 میں تجمل حسین ملک نے چند حاضر سروس افسران کی حمایت حاصل کی اور ایک ’اسلامی‘ انقلاب کے نام پر 23 مارچ کی پریڈ کے موقع پر جنرل ضیا کے قتل کا منصوبہ بنایا تاکہ اس کی ’جعلی اسلامی حکومت‘ کی جگہ ایک ’اصلی اسلامی حکومت‘ لائی جا سکے۔ 2001 میں ایک انٹرویو کے دوران میجر جنرل (ر) تجمل ملک نے کہا کہ وہ خلفا راشدین جیسی حکومت واپس لانا چاہتا تھا۔ لیکن اس منصوبے کا علم حکومت کو ہو گیا اور ان تمام افسران اور تجمل ملک کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1988 میں بینظیر بھٹو حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں رہا کر دیا۔

رضا کاظم اور غلام مصطفیٰ کھر، مارکسی انقلاب، 1984:

تجمل ملک کی اقتدار پر قبضے کی کوشش تو ناکام ہو گئی لیکن اس کے چار سال بعد ایک مرتبہ پھر جنرل ضیا کا تخت الٹنے کی ایک کوشش ہوئی۔ اس مرتبہ یہ کوشش بائیں بازو کی طرف سے ہوئی۔ 1982 میں پاک فوج کے دو افسران فلسفی اور قانون دان رضا کاظم سے ان کے گھر پر ملے۔ کاظم اس سے قبل ایک سال جیل میں رہ کر آ چکے تھے کیونکہ انہوں نے جنرل ضیا کے خلاف ایک پمفلٹ لکھا تھا۔ ان دونوں میجر صاحبان نے ضیا حکومت سے اکتاہٹ کا اظہار کیا۔ اس کے بعد یہ دونوں میجر حضرات رضا کاظم سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ان کے ساتھ ایک ترقی پسند دانشور علی محمود بھی اکثر ہوتے۔ بعد ازاں غلام مصطفیٰ کھر نے بھی رضا کاظم سے رابطہ کیا۔ کھر اس وقت برطانیہ میں تھے۔ انہوں نے رضا کاظم کو بتایا کہ وہ برطانیہ میں جلا وطن پاکستانیوں سے فنڈ اکٹھے کر رہے ہیں جو پاکستان میں ضیا مخالف احتجاج کے لئے استعمال کیے جائیں گے۔ رضا کاظم بھی ایک کامیاب وکیل تھے جنہوں نے ان لوگوں کو 90 ہزار روپے اس مد میں دیے۔ یہ وہ موقع تھا جب انہیں بتایا گیا کہ حکومت الٹنے کا ایک منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔
رضا کاظم کے مطابق منصوبہ یہ تھا کہ حکومت کا تخت الٹ کر میجر آفتاب اقتدار پر قبضہ کر لے گا لیکن پھر اچانک انہوں نے رضا کاظم سے رابطے ختم کر دیے۔ انہیں کافی عرصے بعد پتہ چلا کہ اس منصوبے سے متعلق جنرل ضیا کو پتہ چل گیا تھا۔ ان تمام افسران کو گرفتار کر لیا گیا اور پانچ، پانچ سال کی سزائیں سنا دی گئیں۔

برگیڈیئر مستنصر بلا، ایک اور اسلامی انقلاب، 1995:

یہ واقعہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں پیش آیا۔ فوج کے اندر حزب التحریر سے متاثر فوجی افسران کی ایک تعداد موجود تھی۔ حزب التحریر کا دنیا بھر میں اسلامی خلافت قائم کرنے کا منصوبہ ہی یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی افواج کے اندر سے اچھے اور سچے مسلمان فوج کے سینیئر افسران کے خلاف بغاوت کر کے حکومتوں پر قبضے کریں۔ انہی میں سے ایک برگیڈیئر مستنصر بلا بھی تھا جس نے 1995 میں برگیڈیئر ظہیر عباسی اور مذہبی عالم دین قاری سیف اللہ کی مدد سے بینظیر بھٹو حکومت الٹنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کو نکال کر وہ فوج کی کمان سنبھالیں گے اور پھر حکومت پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن فوجی انٹیلیجنس نے جنرل کاکڑ کو اس منصوبے سے آگاہ کر دیا اور یہ تمام افراد گرفتار ہو گئے۔ ان کو رقم اسامہ بن لادن کی جانب سے دی جا رہی تھی۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ بینظیر بھٹو کو قتل کیا جائے گا اور آرمی چیف کو ان کے عہدے سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔
برگیڈیئر علی خان،
حزب التحریر کا ایک اور ناکام وار، 2012:

مبینہ طور پر مارشل لا کی آخری ناکام کوشش جس کے بارے میں تاحال علم ہو سکا ہے وہ 2012 میں کی گئی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس وقت فوج کے سربراہ تھے اور جنرل احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ۔ حزب التحریر سے تعلق رکھنے والے چند افسران کو ایک بار پھر ایک ’اسلامی انقلاب‘ سوجھا۔ ان میں برگیڈیئر علی خان اور چار دیگر فوجی افسران کو ملوث پایا گیا اور ایک فوجی عدالت نے برگیڈیئر علی خان، میجر سہیل اکبر، میجر جواد بصیر، میجر عنایت عزیز اور میجر افتخار کو قید و بند کی سزائیں سنائیں۔
۔۔۔۔۔

پاکستان کی آئینی تاریخ

پاکستان کی آئینی تاریخ کا اگر مجموعی جائزہ لیں تو پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک آئینی بحران کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ جن میں دو پہلے آئین نافض ہوئے اور مارشل لاء مسلط ہوتے ان آئین کو منسوخ کر دیا گیا۔ جب کہ 1973 کے آئین میں بھی کہیں ترمیم کیے گئے ہیں۔ یہ آئین بھی شاید کہ محفوظ نا ہوتا مگر آرٹیکل 6 کے خوف نے، 1973 کے آئین کو ہمارے پاس رہنے پر مجبور کر دیا۔ اب بھی اگر اس آئین کو دیکھا جائے تو وہ اپنی اصلی شکل سے بالکل مختلف نظر آئے گا۔
آرٹیکل 6 اپنے کھلے الفاظوں میں کہتا ہے کہ اگر کوئی بھی اس آئین کو منسوخ کرے گا، متاثر کرے گا، معطل یا آستگت منعقد کرے گا، یا کوئی سازش، کوئی کوشش کرے گا اس آئین کو منسوخ کرنے کے لئے، متاثر کرنے کے لئے، معطل یا آستگت منعقد کرنے کے لئے وہ غداری کا مجرم منعقد ہوگا۔
نو سالوں کے طویل عرصے کے بعد، پاکستان نے اپنا پہلا آئین نافض کیا۔ جو تقریباً دو سال نافذ ہوا۔سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 میں اس وقت کے صدر اسقدر مرزا کا آئین کو منسوخ کرنے کا اعلانیہ سامنے آیا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں مارشل لاء نے جنم لیا۔ جرنل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوا۔
اس کے بعد، 1962 میں ایک نیا آئین اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں اختراع کیا گیا جو یکم مارچ 1962 سے نافذ ہوا تھا۔ جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلیاں منعقد ہوئی تھی۔ 8 جون 1962 راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لاء کو حتمی شکل دی گئی۔
1962 کے آئین میں صدراتی نظام لایا گیا اور صدر کو سارے اختیارات حاصل تھے۔ یہ آئین بھی صرف سات سال چل سکا۔ 25 مارچ 1969 میں پاکستان ایک بار پھر مارشل لاء کے قدموں تلے دبوچ دیا گیا۔ ملک بھر میں بڑھتے احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو اپنے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے اپنے عہدے سے ہٹنے کے بعد سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان‬ کے سپرد کر دیے۔
اس کے بعد 1970 میں عام اتخابات کروائے گئے جس میں عوامی لیگ کے مجیب الرحمن کی اکثریت کے باوجود ان کی حکومت نہیں بننے دی گئی اور ان کو بھارت کا ساتھ ملا جس کے بعد ہم نے پاکستان کی ایک ونگ، مشرق پاکستان کو کھو دیا۔ مشرق پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذولفقار علی بھٹو کو پاکستان کا صدر بنا دیا گیا۔ اس نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور دوسرا مارشل لاء اپنے اختتام تک پہنچا۔
10 اپریل 1973 کو قومی اسمبلی پاکستان نے متفقہ طور پر نیا آئین منتقل کیا جو 14 اگست 1973 سے لاگو ہوا۔ جس میں پارلیمانی نظام لایا گیا اور ذیادہ اختیارات وزیر اعظم کو دیے گئے۔
1977 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت کے بعد، مشترکہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ پہلے ذولفقار علی بھٹو نے سمجھوتہ کرنے کا سوچا اور پھر اپنی بات سے ہٹ کر تاریخی ‘یو ٹرن’ نے جنم لیا۔ مگر اپوزیشن جماعتوں نے سمجھوتے سے انکار کیا اور اس بڑھتے تنازعہ نے پاکستان کی تاریخ کا تیسرا مارشل لاء جنمہ۔ اس میں نیا یہ تھا کہ پچھلے دو مارشل لاء کی طرح آئین منسوخ نہیں کیا گیا بالکہ اس کو آستگت منعقد کیا گیا۔
4 جولائی 1977 تک آئین آستگت منعقد رہا۔ اس کے بعد وسیع ترمیم کے بعد پھر سے یہ آئین بحال ہوا۔ آئین میں آٹھ ترمیم کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق نے تیسری مارشل لاء کا خاتمہ کیا۔
ایک بہت بڑے بحران کے بعد پاکستان کا آئین ایک بار بھر آستگت منعقد ہوا۔ پرویز مشرف نے ہنگامی حالت میں اعلانیہ جاری کیا اور خود چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ سنبھال لیا۔ عدالت اعظمی نے پرویز مشرف کو تین سال تک مدت ملازمت کا وقت دیا۔ اس وقت کے خاتمے کے بعد پرویز مشرف نے پانچ سالوں کے لئے خود کو پاکستان کا صدر منتخب کیا۔
ایک طویل سیاسی بحران کے بعد پاکستان کی آئینی تاریخ کا ایک اور نفرت انگیز باب کھل کر سامنے آیا جس کا نام تھا ‘این آر او’ جس میں یکم جنوری 1986 کے درمیاں سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریٹس کے سارے جرائم معاف کر دیے گئے۔
2008 کے عام انتخابات ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت سے قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنا دی۔ اپریل 2010 میں، سیاسی دباؤ کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اٹھارویں ترمیم کی منظوری دے دی جس میں صدر پاکستان کو پارلیمان کو تحلیل کرنے کی طاقت چین لی گئی۔
اور پی پی کے حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد نون لیگیوں نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور اب پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت اس وسوسے کے ساتھ جاری ہے کہ اٹھارویں ترمیم کو کہیں وہ ترمیم نا کر دیں۔
پاکستان کے دو آئین منسوخ ہونے کے بعد، تیسرا آئین بھی دو بار معطل ہونے کے ساتھ ساتھ پچیس بار ترمیم ہوا ہے۔ جس نے اس آئین کی حقیقی شکل بالکل بدل دی ہے۔
۔۔۔۔۔

مارشل لاء کا تحفظ
نظریہ ضرورت

خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی ۔ 3 ججز پر مشتمل خصوصی عدالت نے 2-1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا، جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غاری کیس کی سماعت کی ۔ وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت کے فیصلے کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ایک شخص کے خلاف ٹارگٹڈ ایکشن تھا ۔ آئین کی جس دفعہ کے تحت پرویز مشرف کو سزا دی گئی ہے، اس میں شریک ملزمان کا بھی ذکر ہے اور موجودہ حکومت کی آدھی کابینہ صدر پرویز مشرف کی ساتھی رہی ہے۔ ترجمان افواج پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے پر مسلح افواج میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے، پرویز مشرف آرمی چیف، چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدرِ پاکستان رہے ہیں، انہوں نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی اور ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔ پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے، کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے ، عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی جب کہ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے۔ اس بارے عرض ہے کہ سزا ہوئی ہے ، ابھی تو کیس سپریم کورٹ میں جائیگا، مشرف کو اپیل کا حق بھی حاصل ہے ، قابل اعتراض سزا تو وہ تھی جو کہ 18 کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو افتخار چوہدری کی طرف سے ڈیزائن شدہ 30 سیکنڈ کی سزا دی گئی جو کہ وہاں کھڑی کھڑی پوری ہو گئی اور وہ اپیل کے حق سے بھی محروم رہے ۔ پرویز مشرف کا فیصلہ آیا ہے تو بات بہت دور تک جائے گی ۔ ایک نیا پینڈورہ بکس کھلے گا ۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ پرویز مشرف کا مقدمہ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام سے چلنا چاہئے ، اسی طرح مارشل لاء لگانے والے اور ان کی معاونت کرنے والے دیگر افراد کو بھی شریک جرم بنایا جاسکتاتھا اور وہ جج صاحبان جو کہ نظریہ ضرورت کے تحت غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیتے رہے ان سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہئے تھی اور وہ جج صاحبان جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ، ان کے خلاف بھی آئین کی دفعہ 6 اور اس کی ذیلی دفعات کے تحت کاروائی ہونی چاہئے ، اور وہ لوگ جو آج مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں ان سے بھی پوچھا جانا چاہئے کہ بحیثیت وزراء پرویز مشرف سے حلف کیوں لیا ؟ عدلیہ کی اپنی تاریخ ہے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کی روح اور عوام کے حقوق کی ضامن آزاد عدلیہ ہوتی ہے۔ صرف عدلیہ ہی نہیں بلکہ آزاد عدلیہ جو اپنے اختیارات اور ان کے استعمال میں اپنے فیصلوں اور ان کے نفاذ میں آزاد ہو ۔ پاکستان کے آئین 1973ء کی دفعہ 175(3) کے مطابق طے پایا تھا کہ سارے ملک میں ایک سپریم کورٹ ہو گی ، صوبوں کیلئے الگ الگ ہائیکورٹ ہونگی ۔ عدلیہ کا دائرہ اختیار آئین اور قانون کے تحت تین سال کے اندر انتظامیہ سے الگ اور آزاد کر دیا جائے گا ۔ بعد میں پانچویں ترمیم 1976ء کے تحت اس مدت میں پانچ سال کا مزید اضافہ کر دیا گیا ۔ یہ پانچ سال مکمل ہونے کے بعد پھر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مزید چودہ سال کا اضافہ کیاگیا جو کہ 14 اگست 1987ء کو مکمل ہوا۔ عدالت عالیہ کی طرف سے اہم فیصلے ہوئے ، جو کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اثر انداز ہوئے ۔ ان میں پہلا اہم مقدمہ مولوی تمیز الدین کی طرف سے 7 نومبر 1954ء کو سندھ چیف کورٹ میں دائر ہونے والی رٹ تھی ۔ دوسرا اہم کیس چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں جسٹس اے آر کار نیلیس ، جسٹس امیر الدین احمد اور جسٹس شہاب الدین نے سنایا ۔ تیسرا اہم کیس ایوب حکومت نے جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تھی ۔ جماعت اسلامی نے اس اقدام کو مشرقی و مغربی پاکستان کی ہائی کورٹ دونوں میں الگ الگ چیلنج کیا ۔ مشرقی پاکستان ہائیکورٹ نے درخواست منظور کر لی جبکہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے مسترد کر دی ۔ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا ۔ چوتھا مقدمہ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے خلاف تھا ۔ یہ مقدمہ عاصمہ جیلانی بنام حکومت کے نام سے مشہور ہے۔ پانچواں اہم مقدمہ جنرل ضیاء کی حکومت کے زمانے میں ہوا جب وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے احکامات جاری کرتے رہے ، 1985 ء میں انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے ذریعے آٹھویں ترمیم کرا کے آئین کا حصہ بنایا۔ محمدخان جونیجو کی کابینہ کو برطرف کر دیا ۔ جس کے خلاف حاجی سیف اللہ کی طرف سے ایک اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ۔ چھٹا اہم مقدمہ عدالت عالیہ میں اس وقت آیا جب غلام اسحاق نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا تو طارق رحیم نے اس اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج گیا ۔ اس کے بعد غلام اسحاق خان نے جب 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو نواز شریف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ، جس سے نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی۔ صدر مملکت فاروق لغاری نے 1996ء میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے بے نظیر کی حکومت برطرف کی اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں ، محترمہ نے بھی صدر کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ، مگر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں اس اقدام کو جائز قرار دیا گیا ۔2010ء میں توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو محض 30 سیکنڈ کی سزا دے کر نا اہل قرار دیکر ان کو برطرف کر دیا۔2017ء میں سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس میں آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل کیااور سزا دی ۔مولوی تمیز الدین کیس سے لیکر وزیراعظم نواز شریف تک حکومت کی برطرفی ، اسمبلیوں کی تنسیخ ، منتخب وزیراعظم کی نا اہلی کے مقدمات سپریم کورٹ پہنچے اور فیصلے ہوئے ۔لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے ملک میں جتنے بھی مارشل لاء لگے اور ماروائے آئین اقدام ہوئے ان کو تحفظ عدالتوں کی طرف سے نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ دیا گیا اور اگر مارشل لاء کے خلاف فیصلہ آیا تو بعد از وقت جس کا متاثرین کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ مارشل لاء کا محافظ نظریہ ضرورت رہا ، اس طرح کا غیر آئینی نظریہ پیدا کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے ۔
۔۔۔۔۔

پرویزمشرف کو موت کی سزا!
کیا پاکستان میں اب مارشل لا کا راستہ
واقعی رک جائے گا؟

پاکستان کے سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف نے ایک بار صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا ’فوج میرے ساتھ ہے، اگر میں یونیفارم میں نہ بھی ہوا تب بھی فوج میرے ساتھ ہو گی، یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے گذشتہ روز انھیں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔
اس سزا پر سیاسی حلقوں، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا پر مختلف قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے لیکن تاحال سب سے شدید ردعمل ملک کی مسلح افواج ہی کی جانب سے سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے اور یہ کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 40 سال سے زیادہ عرصہ پاکستان کی خدمت کی ہے، انھوں نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور وہ کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے۔‘
حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے مؤقف اپنایا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ردعمل دے گی جبکہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں آئین توڑنے کی روایت کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔
یہاں پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سنہ 1972 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنرل یحییٰ خان کی جانب سے سنہ 1969 میں لگائے گئے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا تھا مگر اس مارشل لا کے ساڑھے چار سال بعد ہی سابق فوجی صدر جنرل (ر) ضیا الحق نے ایک اور مارشل لگا دیا تھا۔
میں نےاپنی کتاب کےلئےبہت سےماہرین، تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں سے اس فیصلے کے اثرات سے متعلق سوال کیے کہ کیا واقعی اس فیصلے سے مارشل لا کا راستہ رک جائے گا؟
سینیئر صحافی ضیا الدین سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کی وجہ سے وقتی طور پر یہ راستہ بند ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’یہ ایسا فیصلہ ہے جسے ایمبیشیئس جنرلز کو خاص پیغام گیا ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب کسی جنرل میں حکومت پر قبضہ کرنے کی خواہش ہو گی تو وہ ایسا کر لے گا، کیونکہ آرمی کے لیے بندوق کے زور پر حکومت کا تختہ الٹنا آسان ہے۔ تاہم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے سے آئندہ چند برسوں تک تو کچھ جھجک آئے گی۔‘انھوں نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے میں عدلیہ یا سیاست کے بعض کرداروں کو شامل نہ کرنے سے احتساب کے عمل پر سوال اٹھتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’بدقسمتی سے گذشتہ 72 برسوں میں عدلیہ کا کردار بہت مثالی نہیں رہا، ججز ہمیشہ فوج کے ساتھ رہے ہیں، جو فوج چاہتی ہے وہ کرتے رہے ہیں، اب یہ جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ممکن ہے کہ اس کی وجہ دونوں اداروں کے درمیان کوئی تصادم یا اختلاف ہو۔‘
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ مارشل لا کے راستے میں اب ایک بہت بڑی دیوار کھڑی ہو چکی ہے۔ان کے خیال میں اب اس دیوار کو پھلانگنا ویسے ممکن نہیں جیسے پہلے وزیراعظم ہاؤس یا ریڈیو اور ٹی وی کی دیوار پھلانگ کر ایک اعلان کے ذریعے پاکستانی عوام کا حق حکمرانی چھین کر آمریت کا نفاذ ہو جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اس دیوار کو پھلانگنے کے لیے ’جو جرات درکار ہے وہ نظر نہیں آتی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ’آئندہ ایسا قدم اٹھانے والوں اور ان کے معاونین کے لیے ایک خدشے کا موجب بنا رہے گا کہ اس سے قبل غدار بھی قرار دیا گیا، اور موت کی سزا بھی سنائی گئی۔‘
اسی سوال پر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جب مارشل لا لگائے جاتے ہیں تب حالات کیا ہوتے ہیں اور عوام انھیں ’خوش آمدید‘ کیوں کرتی ہے، یہاں تک کہ اعلی عدلیہ کے ججز بھی انھیں جائز قرار دیتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہا ’اگر دوبارہ کوئی مارشل لگائے اور اس کو جج اور سیاستدان بھی مل جائیں تو کیا فائدہ ایسے فیصلے کا جس میں نہ کسی جج کو سزا ہوئی نہ کسی سیاستدان کو۔‘ امجد شعیب کہتے ہیں ’جو اصل مارشل لا تھا جس سے نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی، اس فیصلے میں اُس مارشل لا کو تو کچھ نہیں کہا گیا۔ یہاں تو یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ کیا سنہ 2007 میں جو ایمرجنسی نافذ کی گئی، کیا وہ واقعی آئین شکنی تھی یا کابینہ کی ایڈوائس پر صدر کا آئینی اختیار؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائی ایک شخص کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج فوج نے بھی اس پر سخت ردعمل دیا ہے۔ اس لیے ان حالات، ان افراد اور عوام کے ردعمل کا جائزہ لینا چاہیے، اگر سیاستدان ملک پر اپنے مفادات کو مقدم جاننے لگ جائیں تو عوام مارشل لا کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس ضمن میں اگرچہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی جانب سے ردعمل پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔
تاہم سینیئر صحافی محمد ضیا الدین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لا سے متعلق فوج کے سٹاف کالجز کے نصاب میں پڑھایا نہیں جاتا ہے۔ ’یہ نہیں بتایا جاتا کہ مارشل لاز کیا ہیں، ان میں خرابی کیا ہے، یہ عوام میں مقبول کیوں ہوتے ہیں، اس لیے میں نہیں کہہ سکتا کہ مسلح افواج کے اندر اس فیصلے کا اثر کیا ہو گا۔‘ وہ کہتے ہیں افواج میں ایک چھوٹا مگر مضبوط طبقہ ہی یہ سمجھ لے کہ اب انھوں نے یہ (مارشل لا) نہیں کرنا، ہو سکتا ہے کہ یہ سوچا جائے کہ اس سلسلے کو (نصاب کے ذریعے) کیسے ختم کرنا ہے۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے فوج کی سوچ میں تبدیلی آنا شروع ہو گی۔ وہ کہتے ہیں ’زمانہ، وقت، حالات، پاکستان کے معاشرے اور اداروں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، جیسا کہ یہی عدالتیں پہلے آئین شکنی کا حق تک دے دیتی تھیں، اب اداروں میں تبدیلی آ رہی ہے، پہلے پارلیمان میں تبدیلی آئی اور اب عدالتوں میں کہ اب انھوں نے نظریہ ضرورت کی تنسیخ کی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں ’پاکستان کی فوج بھی اسی سماج کا حصہ ہے اور سوچ کی تبدیلی کا اثر فوج کی سوچ پر بھی پڑے گا۔‘
مگر جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ غصہ برقرار رہے گا۔ ان کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ افواج میں کمانڈ کے ساتھ بے مثال وفاداری بھی ہے۔ ’بعض ایسے کمانڈر ہوتے ہیں جو فوجی دستوں کے ساتھ قریبی رابطے رکھتے ہیں اور یہ وفاداری ہی وہ اہم ترین وجہ ہے جو فوج کو اکٹھا رکھتی ہے کہ وہ اپنی کمانڈ کے حکم پر میدان جنگ کی طرف چل پڑتے ہیں، تو ایسے میں اگر ان کے کسی سربراہ کو غدار کہا جائے گا تو اضطراب تو ہو گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس مقدمے میں ضروری تھا کہ یہ ’تشریح دیکھی جاتی کہ کیا پرویز مشرف کا عمل واقعی غداری ہے؟‘
امجد شعیب کہتے ہیں کہ فوج میں بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ اس مقدمے میں ’صرف ایک شخص کو نشانہ بنانے کا تاثر ملتا ہے، نہ کہ اس کابینہ کو جس نے اس فیصلے میں صدر مشرف کا ساتھ دیا اور نہ ہی اس سے پہلے سنہ 1999 میں مارشل لا کو جائز قرار دینے والے ججز کا کہیں نام ہے۔‘
پاکستان کی موجودہ حکومت پر اپوزیشن جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی یہ الزام لگاتی ہیں کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرائے گی۔ وہ کہتے ہیں ’یہ واضح ہے کہ حکومت فیصلہ رکوانے کے لیے حیلے بہانے کرتی رہی ہے۔ جو حکومت فیصلہ نہیں چاہتی تھی وہ عملدرآمد کیسے کرائے گی۔‘
مگر صحافی محمد ضیاالدین کے خیال میں ابھی یہ مقدمہ چلے گا اور مستقبل میں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی اس مقدمے کی سپریم کورٹ میں اپیل کا وقت بھی ہے جس کے بعد سماعتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ’شاید سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں بھی مزید چھ یا سات سال لگ جائیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ ہی نہ آئے۔‘ انھوں نے کہا کہ اگر حکومت اپیل لے کر عدالت عظمیٰ میں نہیں جاتی تو ہو سکتا ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان لانے کی زیادہ کوشش بھی نہ کی جائے۔
کیا پرویز مشرف پاکستان آئیں گے؟
صحافی محمد ضیا الدین کہتے ہیں کہ پرویز مشرف روایتی ردعمل دینے والے انسان نہیں ہیں۔ ’ان کا ردعمل غیرروایتی بھی ہو سکتا ہے، وہ بہت ہمت والے اور رسک لینے والی طبیعت کے مالک بھی ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ وہ پاکستان آئیں گے۔‘
پرویز رشید کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف پاکستان نہیں آئیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’پرویز مشرف نے مقدمے کا سامنا نہیں کیا تھا وہ فیصلے کا سامنا بھی نہیں کریں گے۔‘
واضح رہے کہ پرویز مشرف اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور زیرِ علاج ہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق ’انھیں خطرناک بیماری لاحق ہے جو ان کے پٹھوں کو ختم کر رہی ہے۔‘
۔۔۔۔۔

نئےسیاسی نظام کی بازگشت

جمہوریت کی کتابی تعریف عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہے۔جمہور کی رائے اور جمہور کی حکمرانی اصل روح تصور ہوتی ہے۔ فاشزم یا فسطائیت لفظ facio سے نکلا ہے جس کا مطلب قدیم اطالوی زبان میں ڈنڈوں کا مجموعہ ہے جن سے عوام پر قابو پا یا جاتا تھا۔عوامی مقبولیت پر کھڑی سیاسی جمہوریتوں کو فسطائیت اپنانے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل عوامی جمہوریت کے لبادے میں فسطائیت کو اپنانے کا رواج عام ہو رہا ہے۔
گذشتہ برس سابق امریکی سیاستدان اور سفارتکار میڈیلین البرائٹ کی کتاب ’فاشزم اے وارننگ‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ بےحد جاندار دلیلوں کے ساتھ اس کتاب میں دنیا بھر میں فسطائیت پسندی کے رحجانات کا ذکر کیا گیا ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ دنیا میں بہت سی حکومتیں جمہوریت مخالف رویوں کا عملی مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن وہ فاشسٹ حکومتیں نہیں ہیں۔اپنی کتاب میں وہ رجب طیب اردوغان کی حکومت کا حوالہ دیتی ہیں کہ کس طرح سنہ 2002 میں جمہوری طریقوں سے برسراقتدار آنے والی حکومت نے ان تمام اداروں کو یکے بعد دیگرے معطل کر دیا جو اُن پر جمہوری طریقے سے نگرانی رکھتے تھے۔اُن کی حکومت نے فوج سے لے کر ذرائع ابلاغ اور عدلیہ سے لے کر مقننہ تک اپنے اختیار کو وسیع کیا۔ تمام ذرائع ابلاغ کے وہ ادارے جو ان کے حامی نہیں تھے اُنھیں قومیا لیا گیا۔ قانون سازی کے ذریعے اختیار دیا گیا کہ حامی ججوں کو تعینات کیا جائے۔
2016 میں ایک حقیقی بغاوت کو ناکام بنا کر سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ ریفرنڈم کرایا گیا جس کے نتیجے میں انھیں اختیار ملا کہ وہ اپنے حکم کے ذریعے قانون تشکیل دے سکیں۔ انھوں نے گرفتاریوں کا حکم دیا اور گرفتار شدگان کو انصاف کی فراہمی سے محروم رکھا۔ یوں آہستہ آہستہ اردوغان مضبوط اور ریاستی ادارے کمزور ہو گئے۔
ایک اور مثال وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بھی دیتی ہیں جہاں ٹرمپ جیسی شخصیت کا ایسی اشخاص کی تعریف کرنا اور انھیں مثال بنا کر پیش کرنا ہے جو امریکہ کے اس نظریے کی ضد ہیں کہ امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت اور آزادی کا علمبردار ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب ٹرمپ اپنی پریس کانفرنس سے ایک ایسے رپورٹر کو نکال دیتے ہیں جو ٹرمپ کے ناقد ہیں تو اُسی روز کمبوڈیا کی حکومت اپنے ملک میں امریکی رپورٹرز کو نکل جانے کی دھمکی دیتی ہے۔
بہرحال ترکی اور امریکہ جیسے ممالک میں جمہوری رویوں کی کمزوری ناقابل برداشت ہے تاہم ان معاشروں میں معاشی استحکام اس سست روی سے سرایت کر جانے والے رویے کو کسی حد تک قبول کر سکتا ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں معاشی ابتری اپنے عروج پر ہو، لاقانونیت اور ناانصافی رائج ہو چکی ہو، انصاف کا نظام مطعون ہو رہا ہو۔ بیروزگاری عام ہو، روٹی کپڑا اور مکان کے حصول کی جنگ زندگی سے بڑھ کر ہو وہاں فسطائیت نہیں آمریت جنم لیتی ہے جو خود ایک مسئلہ ہے کسی مسئلے کا حل قطعی طور پر نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا جرمنی میں ہٹلر کے دور میں ہوا۔نامساعد معاشی حالات، سیاسی قوتوں کی نااہلی، اداروں میں عدم شفافیت، بدعنوانی کے مارے معاشرے میں احتساب کا نعرہ اور لوٹ کھسوٹ سے نجات کا خواب دکھا کر وقتی مقبولیت اور اُس کی آڑ میں فسطائی نظام کی آبیاری سسٹم کو کمزور نہیں بلکہ توڑ پھوڑ کا شکار کر دیتی ہے۔
دنیا بھر میں جمہوریتوں کی آڑ میں فسطائی حربے بےچینی تو بڑھا سکتے ہیں مگر استحکام پیدا نہیں کر سکتے۔
ذرائع ابلاغ کی آزادی، انصاف کی فراہمی، مقننہ کی خودمختاری اور انتظامیہ کی جوابدہی سے ہی نظام کی مضبوطی ہے۔ ہم اگر اسے یقینی نہ بنا سکے تو غیر آئینی فسطائیت حاوی ہوجائے گی جس سے کم از کم اب لڑنا ناممکن ہو گا۔
جمہوریت میں فسطائیت دبے انداز میں آتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ نظام میں سرایت کر جاتی ہے۔ ہمیں ان دبے قدموں پر نظر رکھنا ہو گی۔ وقت اور حالات جمہوریت کے لیے دگرگوں ضرور ہیں تاہم جمہوریت کی بقا میں ہی معاشرے کی بقا ہے۔
جیسے کے ہم جانتے ہیں کے ہر ادارے میں داخلے سے پہلے اس کی بنیادی تعلیم کا ہونا اشد ضروری ہے اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کے اگر بچے کو سکول میں داخل کروانے کے لیے جاتے ہیں تو اُس سے بنیادی چیزوں الفاظ، اشکال، اور حروف تہجی کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں اور اس کے بعد بچے کو داخلہ دیا جاتا ہے جہاں پر ان بچوں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی جاتی ہے جو کہ آنے والی زندگی میں ان کے کام آتی ہے اور اسی طرح بچہ جب پڑھ لکھ کر نوکری کے لیے کسی بھی ادارے میں کسی بھی پوسٹ پر جاتا ہے تو پہلے اس کو اِس ذمہ داری کو احسن طریقہ سے سرانجام دینے کے لیے بنیادی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ تین ماہ سے ایک سال تک کی ہوتی ہے اور اس تربیت کے بعد ہی ذمےداری اُس پر ڈالی جاتی ہے۔
الغرض کسی بھی کارہاے زندگی کو دیکھ لیں پہلے تعلیم پھر تربیت اور ان سب کے بعد ذمےداری۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جو ان سب چیزوں سے مبراء ہے اور وہ ہے اپ کا اور ہم سب کو ہر دلعزیز شعبہ سیاست۔
سیاست ایک ایسا شعبہ جس میں ہماری بنیادی تعلیم و تربیت بالکل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم اُن ہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو کے ان پڑھ ہونے کے باوجود ہمارے لیے قانون سازی کرتے اور ہم پر اسکا نفاذ بھی کرواتے ہیں۔ چلیں تعلیم کی بات تو ہی گئ اب بات کرتے ہیں تربیت کی جب ہم کسی ادارے میں کام شروع کرتے ہیں تو پہلے اس ادارے کے کام کو سیکھنے میں کچھ وقت لگتا ہے اور وہاں پر پہلے سے موجود اہلکار ان کی تربیت کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جب کوئی سیاستدان کسی بھی اسمبلی کا ممبر بنتا ہے اور اس کی کاروائیوں میں حصہ لیتا ہے جو کہ اسمبلی کے قواعد وضوابط کے مطابق چلتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ مختلف کمیٹیوں کا حصہ یا ان کی صدارت کرتا ہے تو لا محالہ اس کی اس طرح تربیت ہو جاتی ہے کے وہ اداروں کو چلانے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ اور ان میں سے جو پڑھے لکھے اور سمجھ بوجھ والے ہوتے ہیں وہ جلد ہی کسی نا کسی وزارت کا قلمدان سنبھال لیتے ہیں۔
لیکن ان میں سے جو ضرورت سے زیادہ عقل مند ہوتے ہیں وہ اسی خمار میں رہ جاتے ہیں عقل مند اور ان سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور اسمبلی کی کاروائی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کو پر تولتے رہتے ہیں۔
لیکن کسطرح کسی بھی شعبہ زندگی میں کامیاب لوگ جب ترقی کی منازل طے کر لیتے ہیں تو اُن کے بچے اس کام کو خاندانی کاروبار کے طور پر اپناتے ہیں جیسے ڈاکڑ کے بچے ڈاکٹر استاذ کے بچے استاذ اور وہ لوگ اپنے بچوں کی تربیت بھی انہی اصولوں پر کرتے ہیں جیسے کے ہمارے حکمران خاندان اپنے بچوں کو تیار کر رہے ہیں۔
میرا یقین ہے کے پاکستان میں سیاست میں داخلے کا کوئی معیار تو نہیں لیکن اگر کوئی سیاستدان ان مراحل سے گزرتا ہے تو لامحالہ اس میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں، اس لیے سیاست میں شامل ہونے والے نئے چہروں سے میری گزارش ہے کے وہ جس بھی سطح پر ہیں اس سطح پر رہ کر اپنے اپنے علاقے میں کسی بھی قسم کے انتظامی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ان کی صیح معنوں میں تربیت ہو کیوں کہ سیاست براۓ خدمت کا معنی تو کب کا بدل چکا ہے اور اب یہ بھی ایک بہت اچھا کاروبار بن چکا ہے۔
یہ بات سننے میں شاید عجیب لگتی ہو کہ کیا سیاستدانوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔ بعض لوگ اس بات کو شاید تنقید کے زمرے میں لے جائیں کہ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ ملکی قائدین کی تربیت کی بات کر رہے ہیں جو ہر حوالے سے مکمل اور بہترین ہوتے ہیں۔ جو گراس روٹ لیول سے اوپر آتے ہیں، جنہیں عظیم سیاسی قائدین کی صحبت میں وقت گزارنے کا وقت ملا ہوتا ہے ، جن کی تمام زندگی تجربات سے مزین ہوتی ہے لیکن یہاں غور طلب بات یہ کہ ہم نے اپنی کسی کمپنی میں ایک کلرک بھی رکھنا ہو تو ہم اس کی تعلیم، تجربہ، مہارت، عادتیں اور مزاج پرکھتے ہیں۔ اس کے سرٹیفکیٹ دیکھتے ہیں۔ لیکن جب کروڑوں انسانوں ، لاکھوں میل پر محیط زمینوں، کروڑوں چھوٹے بڑے کارخانوں اور سرحدوں پر حکمرانی کے ارادے سے کسی شخص کو پرکھنے لگتے ہیں تو کسی قسم کی تعلیم، اہلیت اور تربیت کی تصدیق نہیں کرتے۔دنیا کے بیشتر حصوں میں نسل در نسل غیر تربیت یافتہ نوجوان،حتی کہ انتہائی بزرگ حضرات انسانوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے مسند نشین ہوجاتے ہیں۔ طاقت اور نام نہاد خود اعتمادی کے نشے میں چور وہ لوگ جو کروڑوں جیتے جاگتے انسانوں کی زندگیوں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ وہ کبھی کچھ سیکھنے کو ضروری نہیں سمجھتے اور شاید اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
چین میں ایسا نہیں ہے یہاں ہر سطح کے سیاسی کارکنوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ چین میں سیاسی عمل میں شامل سیاسی کارکن، مقامی عہدیدار اور مرکزی قائدین خواہ وہ کتنے ہی تجربہ کار اور سینئر کیوں نہ ہوجائیں مسلسل تربیتی عمل میں شریک رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا چین اپنے تمام طے شدہ اہداف مکمل کامیابی کے ساتھ حاصل کر رہا ہے۔ معاشی ترقی ہو یا غربت کے خاتمے کے خلاف ہدف کا حصول ، یہ تمام کامیابیاں اسی تربیت یافتہ سیاسی قیادت کی شب و روز کاوشوں سے حاصل ہوئی ہیں۔
چین میں مختلف سطح پر تربیتی پروگرام جاری رہتے ہیں ۔ ایسا ہی تربیتی پروگرام حالیہ دنوں چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی اسکول کے زیراہتمام منعقد ہوا۔ اس موقع پر چین میں اعلیٰ عہدیداروں کے لئے ایک خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پھنگ نے سیمینار کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور ایک تقریر کی۔جناب شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں نئے ترقیاتی دور میں نئے ترقیاتی تصور کو مکمل طور پر نافذ کرنا چاہیے ، نئے ترقیاتی نمونے کی تشکیل کو تیز کرنا چاہیے،” 14 ویں پانچ سالہ منصوبہ ” کے دور کے دوران اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دیا جائے ، اور یہ یقینی بنایا جائے کہ سوشلسٹ جدید ملک کی جامع تعمیرات کا عمل بخیر و خوبی جاری رہ سکے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں مرکزی کمیٹی کے پانچویں کل رکنی اجلاس میں یہ تصور پیش کیا گیا کہ چین میں خوشحال معاشرے کی تعمیر اور پہلا صد سالہ ترقیاتی ہدف حاصل کرنے میں بڑی پیش رفت حاصل ہوئی ہے ،اس کے بعد دوسرے صد سالہ منصوبے کا آغاز ہوگا، جو اس بات کی نشان ہے کہ چین ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہوگا۔شی جن پھنگ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عوام ہی چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کی بنیاد ہیں۔ عوام کو اولین ترجیح دینا ، عوام کی خاطر ترقی کو فروغ دینا ، عوام پر انحصار کرنا ، اور ترقی کے ثمرات کو عوام تک پہنچانا ہی ہمارا صحیح اور پائیدار ترقیاتی تصور ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی پارٹی کا اسکول، پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کی تعلیم و تربیت کے لئے قائم تعلیمی ادارہ ہے۔ ہر سال کے آغاز پر اسکول میں اعلیٰ سطحی سیمینار منعقد کیا جاتا ہے ۔اس سیمینار میں پارٹی کے صوبائی اور مرکزی سطح کے اعلیٰ عہدیدار شرکت کرتے ہیں۔ سیمینار میں زیادہ تر پارٹی اور ملک کی اہم ترقیاتی حکمت عملی سے متعلق موضوعات پر بات کی جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں منعقد ہونے والے سیمینارز کی افتتاحی تقریبات میں ، جنرل سیکرٹری شی جن پھنگ ضرور شرکت کرتے رہےہیں ، اس دوران انہوں نے اہم خطابات کئے اور پارٹی کے ارکان اور اعلیٰ عہدیداران کو ملک کی ترقی کی نئی حکمت عملی اور پارٹی کے اہم امور سے متعلق رہنمائی فرما کی۔
دو ہزار بیس چین کی تاریخ کا ایک غیر معمولی سال تھا۔ اس سال مشکل اور پیچیدہ بین الاقوامی صورت، اندرون ملک اصلاحات، ترقی اور استحکام خصوصاً کووڈ-19 کی وباکے تناظر میں، چینی کمیونسٹ پارٹی نے جس شاندار حکمت عملی کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔جناب شی جن پھنگ نے 2020 میں منعقدہ “تھیم ایجوکیشن سمری کانفرنس” میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ اپنی حقیقی منزل کو کبھی فراموش نہ کرو ، اپنا مشن ذہن میں رکھو ،اعلیٰ عہدیداروں کو اپنی ذمہ داریوں کو بھر پور انداز میں نبھانا چاہیے ۔
وہ جو 22کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کی زندگیوں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ وہ تو کبھی کچھ سیکھنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ اپنی کسی کمپنی میں ایک کلرک بھی رکھنا ہو تو اس کی تعلیم۔ تجربہ۔ مہارت۔ عادتیں۔ مزاج پرکھتے ہیں۔ سرٹیفکیٹ دیکھتے ہیں۔ لیکن جب دالبندین سے کرتار پور تک کے رقبے۔ کروڑوں انسانوں ۔ زمینوں۔ کارخانوں۔ سرحدوں پر حکمرانی کے ارادے ہوں تو کسی قسم کی تعلیم۔ اہلیت۔ تربیت کی تصدیق نہیں کی جاتی۔ نسل در نسل غیر تربیت یافتہ نوجوان، بزرگ میری اور آپ کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے مسند نشین ہوجاتے ہیں۔
اتنی حکومتیں گرتے اور بنتے دیکھ چکا ہوں۔ ان سیاسی اور غیر سیاسی مہموں۔ شب خونوں۔ جنرلوں کی طویل تاریک راتوں۔ ہمارے منتخب رہنماؤں کی طمع آزمائیوں کا مشاہدہ کرچکا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ اب ایک اور مہم جوئی ہورہی ہے۔ ہمارے نوجوان۔ بزرگ۔ نئے پرانے سیاستدان پھر غیبی اشاروں پر اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع کررہے ہیں۔ کٹھ پتلیاں دوسروں کو کٹھ پتلیاں کہہ رہی ہیں۔
جمہوریت اور آمریت کا تضاد تو بیسویں صدی کا قصّہ ہے۔ اب تو تضاد اچھی اور خراب حکمرانی کا ہے۔ دنیا میں زندگی کو آسان سے آسان کرنے کے لئے تحقیق ہورہی ہے۔ قانون سازی ہورہی ہے۔
تربیت کے کورس وضع کیے جارہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں فوج بھی تحقیق کرکے نظم و ضبط ۔ اسلحے کی تربیت۔ جدید ٹیکنالوجی میں نئے نئے سلیبس اختیار کررہی ہے۔ سول افسروں کی تربیت کے بھی اعلیٰ نظام مرتب کیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ قوم کا درد رکھنے والے قائدین کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ قائدین خود بھی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اپنے ارد گرد بھی ایسے ماہرین کو مشاورت کے لئے مامور کرتے ہیں۔
میں نے اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی ہیں ۔ تحقیق کی ہے۔ اس کا ایک کالم کی تنگنائی میں تو احاطہ نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے کو ان شاء اللہ جاری رکھوں گا۔ ہمارا اصل مسئلہ تحقیق اور تربیت کا فقدان ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس کے ادارے اور مواقع نہیں ہیں۔ فوج اور سول دونوں میں یہ ادارے موجود ہیں۔ جمہوریت کے بہت سے عشاق کو یہ حقیقت ہضم نہیں ہوگی کہ فوج میں آگے بڑھنے بالخصوص بریگیڈیئر سے میجر جنرل۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے لئے تربیتی کورس۔ امتحانات اور پیپر تیار کرنا لازمی ہیں۔ کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ یہاں کس قسم کے کورس ہوتے ہیں۔
کیا نصاب ہے اور کن امور پر تبادلہ خیال ہوتا ہے؟ یہ آئندہ ذکر کریں گے۔ فوج پہلے نیشنل ڈیفنس اسٹاف کالج میں یہ اہتمام کرتی تھی۔ اب نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں یہ تربیت دی جاتی ہے۔ اس میں سول افسروں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ ہر سال ان میں سے کچھ شریک بھی ہوتے ہیں۔ اب یہ کورس Performance Managementکی سطح تک جا پہنچے ہیں۔
9مہینے کے اس تربیتی کورس میں پورے ملک کے مسائل۔ اور تمام شعبوں کے امور پر ارضی حقائق اور اعداد و شُمار کی بنیاد پر رپورٹیں مرتب ہوتی ہیں۔ فوجی افسر اس میں پوری مدت شریک رہتے ہیں۔ سول افسر تھوڑی تعداد میں آتے ہیں۔ پھر درمیان میں چھوڑ کر چلے بھی جاتے ہیں۔
سول افسروں کی تربیت کے لئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ قائم ہیں۔ ان کے کورسز بھی بہت اہم اور جدید ترین انتظامی اہلیت کے حوالے سے ترتیب دیے گئے ہیں۔ با اثر سول افسر اس سے بچنے کے لئے استثنیٰ لے لیتے ہیں۔ یا وہ افسر آتے ہیں جنہیں کہیں اچھی پوسٹنگ نہیںملتی۔ یہاں سے تربیت پانے کے بعد بھی انہیں مرکزی عہدوں پر نہیں لیا جاتا۔
سول محکموں میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ جو کچھ این ڈی یو میں سیکھتے ہیں یا نیپا وغیرہ میں۔ انہیں اس پر عملدرآمد کی حیثیت میں نہیں رہنے دیا جاتا۔اس ملک میںحکومت سیاستدان ۔ بیورو کریٹ اور فوج کررہے ہیں ۔ فوج اور بیورو کریٹس کے لئے تربیتی ادارے موجود ہیں لیکن سیاستدانوں۔ ارکان پارلیمنٹ جو اہم ترین اور فیصلہ ساز مناصب پر ہیں۔
ان کی تربیت کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہے۔ وہ اپنے لئے تربیت ضروری نہیں سمجھتے۔ حالانکہ آج کی دنیا میں حکمرانی مشکل ہوتی جارہی ہے۔اس لئے سیاستدانوں ۔ بیورو کریٹس اور فوج سب کو جدید ترین رجحانات اور انداز حکمرانی سے باضابطہ آگاہ ہونا چاہئے۔ صرف ملک کا مفاد پیش نظر ہونا چاہئے۔ آپ بتائیں کہ کیا سیاستدانوں کی تربیت نہیں ہونی چاہئے۔

۔۔۔تمت بالخیر۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.