تنازعہ کشمیر کا حل ۔ عالمی امن کا راستہ
کشمیر کی تاریخ اور تحریک آزادی پر ایک جواں فکر
تحقیق و تجزیہ پر مشتمل کتاب
تحریر و تحقیق
راجہ ابرار احمد
ریسرچ اسسٹنٹ
موسیٰ ابن انسانؔ
یہ کتاب کشمیر کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں مولف نے نہ صرف کشمیر کی سیاسی و سماجی تاریخ پر ایک جوان فکر ذہن کے ساتھ نئے زاویے سے تحقیق کی ہے۔ بلکہ اپنی تحقیق میں ان عوامل کا بھی جائزہ لیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دنیا کا سب سے بڑا تنازعہ کیوں ہے۔ اور اب تک حل کیوں نہیں ہو سکا۔
2020جملہ حقوق محفوظ ہیں
COPYRIGHT 2020
اختلاف میڈیا گروپ آف پبلیکیشنز۔ آئرلینڈ
Ikhtilaf Media Group of Publications
نوٹس برائے حق نقل و اشاعت
Notice of Copyright
2020جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ چونکہ یہ ایک تحقیق پر مبنی ریفرینس مواد ہے۔ اس لئے ناشر کی اجازت اور ریفرینس سے اس میں شامل مواد کو کسی الیکٹرونک و ڈجیٹل میڈیا کے ساتھ ساتھ کسی دوسری جگہ شامل کیا جا سکتا ہے۔
This book contains research and reference material so with the rior permission of the writer/publisher and proper citation it may be included in some video program or publication as per International laws.
تحریر و تحقیق؛
Research & Writeup
راجہ ابرار احمد
Raja Abrar Ahmed
ریسرچ اسسٹنٹ
Research Assistant;
محمد موسیٰ ابن انسان
Musa Ibn-e-Insaan
پبلشر؛
Published by;
اختلاف میڈیا گروپ آف پبلیکیشنز۔ آئرلینڈ
Ikhtilaf Media Group of Publications
آئرلینڈ مین طبع ہوئی
Printed in Ireland
انتساب
اپنی اس کاوش کو
تحریک آزادی کشمیر کے تمام مجاہدین اور شہداء
کے نام معنون کرتا ہوں
؎
فہرست عنوانات
نمبر شمار باب عنوان
1۔ پیش لفظ میں نے یہ کتاب کیوں لکھی؟
2۔ دیباچہ۔مسئلہ کشمیر کا مختصر مگر جامع تعارف
3۔ کشمیر کی تاریخ
4۔ کشمیر کا جغرافیہ۔محل وقوع، جغرافیائی اہمیت،
5۔ کشمیر کی حیثیت
6۔ٍ کشمیر کی موجودہ صورتحال
7۔ تقسیم ہند اور تنازعہ کشمیر کا بیج
8۔ تنازعہ کشمیر کی جانب دوسرا قدم
9۔ کشمیر کا تنازعہ 1947 سے آج تک
10۔ کشمیر میں ظلم و ستم کی مکمل تاریخ؍ٹائم لائن
11۔ کشمیرمیں ہونے والی نسل کشی اور اقوام متحدہ
12۔ عالمی برادری کی ذمہ داری اور امن
13۔ تنازعہ کشمیر میں را اور آئی ایس آئی کا کردار
14۔ بھارت خطے کا دہشت گرد
15۔ کشمیر کے ٹکڑے در ٹکڑے در ٹکڑے۔
16۔ کشمیر کے وسائل اورآمدنی
17۔ کشمیر کا انتظام ا انصرام۔اے جے کے کونسل
18۔ تنازعہ کشمیر کا حل
پیش لفظ
یہ کتاب کیا ہے اور میں نے یہ کتاب کیوں لکھی؟
لکھنے لکھانے کے بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں۔کوئی اپنی ترقی کیلئے لکھتا ہیتو کوئی اپنے شوق کی تسکین کیلئے لکھتا ہے۔کوئی اپنے مذموم ارادوں اور دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے لکھتا ہے۔ مگر ایک غیر جانبدار محقق اور تجزیہ نگار کے لکھنے کا مقصد متعین ہوتا ہے۔ وہ حالات حاضرہ پر نظر رکھتے ہوئے ماضی کے واقعات کو کرید کر اپنے قاری کے لئے ایک ایسی تحریر پیش کرتا ہے۔ جس کے مطالعے کے بعد ہر قاری اپنی سوچ، سمجھ اور مشاہدے کی مدد سے اس موضوع یا معاملے پر نہصرف اپنی رائے بناتا ہے۔بلکہ اپنے آس پاس موجودافراد اور اپنے حلقہ اثر میں آنے والے عوام کے نکتہ نظر کی تشکیل میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یو ں چراغ سیچراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔
راقم کی اس تحقیق کا مقصد اپنے قارئین کو کشمیر کے تنازعے کی وہ تصویر دکھانا مقصود ہے کہ جس کے بعد وہ یہ تجزیہ خود کر سکیں کہ کشمیر کا تنازعہ گذشتہ سات دہائیوں سے ابھی تک حل کیوں نہیں ہو سکا۔ اسی طرح اس مسئلے کے حل کے لئے اب تک پیش کئے جانے والے وہ تمام حل اور فارمولے بھی پیش کرنا ہے کہ صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہے۔ اور ان کو پیش کرنے والے بھی نہ جانے کہاں چلے گئے۔ مگر ان پر عملدرآمد ابھی تک نہیں ہوسکا۔ہم اس کتاب میں اس حل کی بات بھی کریں گے۔ جو کڑوڑوں کشمیریوں کی دلی امنگوں کو ترجمان ہے۔اور اس وقت کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔ جی ہاں صرف اور صرف اپنے حق رائے دہی یا استصواب رائے کے حق کا حصول ہے۔
راقم ایک نسلاً اور پشت در پشت کشمیری ہے۔ اور اس کا تعلق کشمیر کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے راجپوت خاندان سے ہے۔ بچپن سے لڑکپن تک اور کالج لائف سے پروفیشنل زندگی میں قدم رکھنے تک راقم کی زندگی میں ایسے بہت سے موڑ آئے جب کشمیری بہن بھائیوں کچھ کرنے حتیٰ کی جان سے گذر جانے کی بھی سوچ پیدا ہوئی مگر قسمت نے یاوری نہ کی۔ تاہم راقم نے ہمیشہ اور ہر قدم پر کشمیرکے مفادات کو مقدم رکھا۔ یہی جذبہ اختلاف نیوز کے آغاز کا باعث بنا۔ جو بعد ازاں روزنامہ اختلاف نیوز، ہفت روزہ اختلاف نیوز انٹر نیشنل میگزین، اختلاف نیوز ایچ ڈی ویب ٹی وی اور ان تمام پروجیکٹس کے اجتماعی ویب پورٹل اختلاف نیوز ایچ ڈی ڈاٹ کام کے آغاز، ارتقا اور انتظام و انصرام کا باعث بنا۔اللہ کے فضل و کرم سے آج اختلاف نیوز میڈیا گروپ آف پبلیکیشنز نے دنیا بھر میں اپنی سچی، غیر جانبدار اور دیانتدارانہ رپورٹنگ سے اپنی ایک منفرد پہچان بنا دی ہے۔ اور اختلاف نیوز کا نام ہی مستند اور معتبر روپرٹنگ کیلئے جانا جاتا ہے۔
یہ کتاب کشمیر کے حوالے سے ایک مکمل کتاب ہے۔ جس میں کشمیر کی تاریخ کے ساتھ ساتھ کشمیر کے تنازعے پر تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہین۔ نیز حالات و واقعات کا تجزیہ کرکے ان کے اس تنازعے پر ہونے والے اثرات پر بھی روشنی دالی گئی ہے۔انتہائی افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ 16 مارچ 1846کو جب ریاست جموں وکشمیر کو عہد نامہ امرتسر کے ذریعہ انگریزوں نے ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض فروخت کر دیا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کا کل رقبہ 84471 مربع میل تھا۔اگر اعداد و شمار کا حساب کیا جائے تو یہ سر زمین تقریباً 155 روپے فی مربع میل اور اُس وقت کی آبادی کے حساب سے انسانوںکی قیمت تقریباً 7 یا سوا سات روپے فی کس پڑتی تھی۔اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ انگریز وہ جو کبھی کشمیر کے وارث ہی نہیں تھے انہوں نے کشمیر کا سودا کردیا۔
مہاراجہ نے 84471 مربع میل پر حکومت کی اور بعد ازاں اپنے بیٹے پرتاب سنگھ کو ولی عہد مقرر کیا جوکہ انتہائی چالاک،ہوشیار اور دور رس سمجھ بوجھ کا مالک تھا۔مشہور ہے کہ اُسے افیون کی لت تھی جس کی وجہ سے وہ دن بھر خمار آلود غنودگی کے عالم میں رہتا تھا۔مہاراجہ بے اولاد تھا اور اپنی جانشینی کے لئے اپنی برادری کا ایک لڑکا منتخب کر رکھا تھا جو کہ ہری سنگھ کے باپ امر سنگھ کو گوارا نہ تھا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو ریاست کا وارث بنانا چاہتا تھا،امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ انتہائی بدکردار تھا اور ایک انگریز عورت کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر کافی ذلت،بدنامی اور مالی نقصان اٹھا چکا تھا مگر امر سنگھ کی ریاست میں بچھائی گئی سازشوں کے نتیجیمیں انگریزوں نے پرتاب سنگھ کے منتخب لڑکے کے بجائے ہری سنگھ کو ہی ریاست کی گدی پر بٹھایا۔
1929 میں مہاراجہ ہری سنگھ تخت نشین ہوا اور اپنی بدمستیوں اور عیاشیوں میں مگن ہو گیا،ڈوگرہ ہندو ملازمین کو موقع ملا اور انہوں نے ایک صدی سے زائد ڈوگروں اور سِکھوں کی غلامی میں پھنسے ہوئے مسلمانوں پر مزید ظلم کے پہاڑ توڑے۔اسی دور میں نوجوانان کشمیرکے رویے میں تبدیلی کا عنصر شامل ہوا اور مسلمان نسل کے رحجان نے سر اُٹھانا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ تحریکیں شروع ہو گئیں۔ان تحریکوں میں بھی نوجوان گرفتار،تشدد اور گولیوں کا نشانہ بنے اور یوں کشمیر یوں کی نسل کشی کاایک سلسلہ چل نکلا۔
1933 میں سرینگر تپھر مسجد میں مسلم کانفرنس کی بنیاد ڈالی گئی۔شیخ عبداللہ صدر اور چودھری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور پھر 1935 میں پہلی دفعہ انتخابات ہوئے تو شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچے۔سات سال شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس نے کشمیرکی عوام میں سیاسی روح پھونکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔مسلمانوں کو منظم اور بیدار دیکھ کر ہندووں نے منصوبہ سازی شروع کر دی اور مسلم کانفرنس کے قیام کے دو سال بعد ہی آر۔ایس۔ایس نے اپنا کام شروع کر دیا اور سرینگر،جموں،میرپور،کوٹلی،سانبہ،اودھم پور اور کھٹوعہ کے علاوہ کئی دیگر مقامات پر اپنی عسکری تربیت گاہیں قائم کر لیں۔جو ہندوں اقلیتوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگی تربیت دے رہے تھے۔ادھر راشٹریہ سیوم سیوک سنگ نے اپنا کام شروع کیا تو ادھر آل انڈیا کانگرنس نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ ملانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی بلآخر 1939 کو شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس میں عزتوں کی بلندیوں سے ہندو کانگرنس کی پستی میں جا گرے اور پھر اسی منصوبہ بندی کا شکار ہو کر جموں کشمیر نیشنل پارٹی کی بنیادڈالی۔ایک ہی تھالی میں کھانے والے اور کشمیری عوام کے حق کی جنگ لڑنے والے دونوں لیڈر الگ ہو چکے تھے۔چودھری غلام عباس نظریہ پاکستان کے حامی ہو گئے اور شیخ عبداللہ نظریہ ہندوستان کے۔
8 سال میں مزید بے شمار تحریکیں چلیں۔3 جون 1947 کو جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑا گیا جو اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت سے الحاق کر لیں۔مگر کشمیر کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی قتل و غارت،لوٹ گھسوٹ،خواتین کی بے حرمتی اور نوجوان بچیوں کو اغوا کیا گیا۔چودھری غلام عباس کی بچی کو بھی اغوا کر لیا گیا۔غرض کے انسانی تاریخ کا بدترین ظلم کشمیر میں کیا گیا۔اسی اثناء میں مہاراجہ ہری سنگھ اپنی جان اور قیمتی مال سمیٹ کر سرینگر سے جموں چلا گیا اور بھارت حکومت نے دوسرے روز ہی کشمیر میں اپنی فوج اتار دی۔اسکے بعد دونوں ممالک کی افواج کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کے مختلف حصے دونوں ممالک کے کنٹرول میں آگئے۔جنگ بندی کے بعد مسلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پہنچ گیا۔
اقوام متحدہ میں 1952 سے 1985 تک ڈاکٹر گراہم نے ممکنہ فارمولوں کی بنیاد پر چھ رپوٹیں سلامتی کونسل کو پیش کیں۔تقریباً ہر رپورٹ پاکستان منظور اور بھارت نامنظور کرتا رہا۔اقوام متحدہ میں 1965 تک کبھی بھارت اور کبھی پاکستان کی درخواست پر مسئلہ کشمیر کو 133 دفعہ زیرِ بحث لایا گیا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل استواب رائے شماری ہی نکلا تھا،اقوام متحدہ کے مطابق پہلے دونوں فریق ممالک ریاست جموں و کشمیر سے اپنی افواج کا انخلا کریں اسکے بعد یو۔این۔او کے تحت شفاف رائے شماری ہو جس میں کشمیریوں کو حق دیا جائے کہ وہ خودمختاری،پاکستان یا بھارت کسی ایک کا انتخاب کریں اگر فیصلہ دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے حق میں آتا ہے تو افواج داخل کرنے کا حق صرف اس ملک کے پاس ہو گا مگر بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔اور پھر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم شاستری کے ساتھ روس کی ثالثی میں معاہدہ تاشقند پر 10 جنوری 1966 کو دستخط کر کے مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کا ذاتی مسئلہ بنا کر مسئلہ کشمیر کو مزید کمزور ترین سطح پر پہنچا دیا۔اقوام متحدہ کی تمام قراردادیں متروک الاستعمال ہو گئیں اور دونوں ممالک نے اچھے ہمسائے بننے کی کوشش کی۔ معاہدہ تاشقند کے 6 سال بعد 1972 کو مسئلہ کشمیر میں شملہ معاہدہ کے ذریعے آخری کیل ٹھوک دیا گیا اور کشمیر کے مسئلہ کو پٹڑی سے اتار دیا گیا۔اب اقوام متحدہ کی قراردادیں کہیں دب کر رہ گئیں ہیں اور شاید دقیانوسیت کی وجہ گرد میں تقریباً منسوخ ہو چکی ہیں۔
عمران خان نے 13 فروری 2016 کو آزادکشمیر کے ایک ریاستی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کا بہترین حل تین حصوں میں تقسیم ہے۔عمران خان کے پہلے دورہ امریکہ میں صدر امریکہ ڈونلڈٹرمپ نے عمران خان کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جسے پاکستان نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور وزیراعظم عمران خان کی کامیاب پالیسیوں کا نتیجہ گردانا اور عمران خان کی پاکستان واپسی کے ساتھ ہی آزادکشمیر میں وادی نیلم کے مقام پر بھارتی افواج سویلین آبادی پر کلسٹر بمبوں سے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتی رہی۔ لائن آف کنٹرول پر پریشر بنا کر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چپے چپے پر فوج کھڑی کر کے کرفیو نافذ کر دیا اسکے بعد بھارت میں تمام قوم پرست اور سیاسی قائدین کو نظر بند کر دیا۔ کشمیر کی آئینی تبدیلیوں سے متعلق بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ایک بل راجیہ لوک سبھا (ایوان بالا) میں پیش کیا۔بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ کاسٹ ہوئے۔اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود 5 اگست 2019 کو بھارت اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گیا اور آرٹیکل 370 میں ترمیم جبکہ 35A ختم کر دیا گیا۔مگر ہمیں ضرورت ہے تو اس وقت صرف یہ سمجھنے کی کہ آرٹیکل 370 اور 35A ہے کیا۔آرٹیکل 370 تقسیم برصغیر کے بعد 1954 میں ہندوستان کے آئین کا حصہ بنایا گیا۔اور اس کی اس وقت بھی بھرپور مخالفت کی گئی تھی۔15 اگست 2019 کو جب ختم کیا گیا تب بھی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے کیونکہ ہم لوگ سمجھ ہی نہیں رہے کہ ہو کیا رہاہے بس بھیڑ چال چلتے جا رہے ہیں جبکہ ہمیں 35A پر شور کرنا چائیے اور عالمی سطح پربھارت پر آئین کی بحالی کی لیے دبا و ڈالا جائے۔آرٹیکل 370 ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا تعین کرتا تھا اور یہ آرٹیکل معاہدہ الحاق ہندوستان کے باعث وجود میں آیا۔370 کے تحت ریاست جموں وکشمیر کے خارجی امور،دفاع اور کرنسی ہندوستان کے پاس تھے جبکہ دیگر تمام اختیارات بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر کی اسمبلی کے پاس تھے۔جبکہ پاکستانی اور بھارتی زیر انتظام کشمیر میں 35A بالکل ایک جیسا ہی ہے اور جو کہ اسٹیٹ سبجیکٹ رولز کو تحفظ دیتا ہے جس کے ذریعے کشمیر کے اندر صرف کشمیر کا شہری ہی جائیداد خریدنے اور ملازمت کرنے کا حقدار ہے۔اسکو اب بھارتی زیر انتظام کشمیر سے ختم کر دیا گیا ہے اور یہی ہمارے لیئے ایک مسئلہ ہے۔کیونکہ آرٹیکل 370 معاہدہ الحاق ہندوستان سے مشروط تھا لہذا اسکے ہونے یا نہ ہونے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی کبھی عدالتی فیصلوں اور بِلوں کی ردو بدل سے آزادی کی تحریکوں کو دبایا جا سکتا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل متھلی وجے کمار کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد بھارت کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے اور اس کی حیثیت قبضہ کرنے والے ملک کی ہوگئی ہے ۔معاہدہ کراچی جو کہ پاکستان اور آزادکشمیر کی قیادت نے کیا اور پھر گلگت بلتستان سے اسٹیٹ سبجیکٹ ختم کرنا بھی اسی طرح کا قدم ہے جو بھارتی زیرانتظام کشمیر میں عمل لایا گیا جسکی وجہ سے اب دونوں فریق ممالک تحریک آزادی کشمیر کیلئے مشکوک ہو چکے۔وزیراعظم عمران خان کا نریندر مودی کو پسندیدہ ہم منصب قرار دینا،ٹرمپ سے ملاقات اور امریکہ کی طرف سے ثالثی پیشکش،بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جارحیت اور پھر امریکہ کا سابقہ ثالثی کا ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ اِدھر تم اُدھر ہم کا فارمولا اپلائی کیا جا چکا ہے۔صرف مناسب وقت کا انتظار ہے۔
پاکستان اور بھارت کشمیر کے فریق ہیں اور پاکستان کے مطابق بھارت ہر بار پاکستان پر الزام تراشی اور حیلے بہانے کر کے مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے بھاگ جاتا ہے تو اس کا واحد حل آزادی کے بیس کیمپ (آزاد کشمیر) کو نمائندہ ریاست کے طور پر دونوں فریق ممالک امریکہ،چائینہ،روس ترکی اور متحدہ عرب ریاستوں کی ثالثی میں تسلیم کریں تاکہ ریاست جموں کشمیر کے نمائندے عالمی سطح پر خود اپنا مسئلہ بیان کر سکیں اور اسکے حل کیلئے دنیا کو متوجہ کریں۔اگر یہ نہیں ہو سکا تو آزادی کی تحریک اسی طرح چلتی رہے گی اور مزید شہادتیں،قربانیاں اور مظلوموں کا خون ہمارا مقدر ہو گا۔اگر پاکستان مسلہ کشمیر کے حل کیلئے اس وقت آزاد کشمیر کو نمائندہ حقوق دلوانے کی کوشش بین الاقوامی سطح پر کرتا ہے تو ماہرین کے مطابق 5 اگست 2019 کا بھارتی اقدام مسلہ کشمیر کے حل کی پہلی سیڑھی ثابت ہو گا۔
اس کتاب کی تکمیل میں بہت سے دوستوں کا تعاون شامل حال رہا ہے۔تاہم اسلام آباد پاکستان سے اختلاف نیوز کے گروپ ایڈیٹر محمد موسیٰ سومرو المعروف ابن انسانؔ کی کاوشوں کا تذکرہ نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔انہوں نے اپنی دیگر پرسنل اور پروفیشنل ذمہ داریوں کے ساتھ اس کتاب کے مواد کی چھان پھٹک اور تکمیل کے لئے دن رات کام کیا۔
آخر میں تمام قارئین سے التماس ہے کہ کتاب کے پہلے ایڈیشن میں اگر کوئی کمی کوتاہی یا خامی نظر آئے توضرور آگاہ فرمائیں۔ تاکہ اگلی اشاعت میں اس کو ٹھیک کیا جاسکے۔تمام احباب کی آراء کا انتظار رہے گا۔
ابرار احمد
دیباچہ
جنت نظیر وادء کشمیر کے بارے میں زبانِ زد عام سیکڑوں کہانیوں اور کہاوتوں سے قطع نظر تاریخی طور پر یوسف شاہ چک وہ آخری کشمیری حکمران تھا جسے مغلوں نے شکست دے کر کشمیر فتح کیا۔ جب18ویں صدی عیسوی میں مغلیہ شہنشاہیت کا سورج غروب ہونے لگا تو افغانوں نے درانی عہد میں کشمیر ان کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ بعد میں یہی افغان سکھ فوج سے شکست کھا گئے اور یوں کشمیر پر سکھوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہروپ میں ہندوستان میں اپنے قدم جما چکے تھے۔ سامراجی عزائم کے تحت انہوں نے جب کشمیر پر حملہ کیا تو سکھ ان سے شکست فاش کھانے پر مجبور ہوگئے لیکن انگریزوں کو دقت یہ پیش آئی کہ وہ اس خوبصورت وادی کا کیا کریں گے کیونکہ اس وقت ان کے پیشِ نظر بر صغیر پر مکمل قبضہ کرکے یہاں کے وسائل کو لوٹ کھسوٹ کرکے جدید صنعتی انگلستان کی ترقی یقینی بنانا تھا۔ اسی باعث انہوں نے سکھوں سے بطور خراج وادی کے عوض ڈیڑھ کروڑ روپے کا مطالبہ کیا لیکن سکھ اتنی بڑی رقم کا بندوبست نہ کر سکے اور وادی کا قبضہ انگریزوں کو دے دیا۔انگریز سکھ جنگ کے دوران ایک سکھ جرنیل نے اپنی قوم سے غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے انگریزوں کی مدد کی تھی جس کے باعث انگریز جنگ جیتنے میں کامیاب رہے تھے اس لئے انگریزوں نے اس غدار سکھ جرنیل کو نوازنے کے لئے بدنام زمانہ معاہدے کے تحت16 مارچ 1846 کو جنت ارضی اور اس میں بسنے والے لاکھوں زندہ انسانوں سمیت محض 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض بیچ دی۔ اس غدار سکھ جرنیل کا نام گلاب سنگھ تھا جو کہ ڈوگرہ قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ گلاب سنگھ (1846-1857)کے بعد رنبیر سنگھ (1857-1885)، پرناب سنگھ (1885-1925) اور ہری سنگھ (1925-1949) حکمران بنے۔ تقسیم بر صغیر کے وقت آخر الذکر مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کا حکمران تھا جس کی نا عاقبت اندیشی اور جاہلیت کے باعث آج تک کشمیر جنت ارضی ہو کر بھی بھارتی افواج کی دہکائی ہوئی دوزخ میں جل رہا ہے۔ اس بارے میں تفصیلی روشنی ڈالنے سے پہلے کشمیر کا جغرافیہ اور اس کی تزویراتی اہمیت کا اجمالی تذکرہ کر دیا جائے تو مناسب معلوم ہوگا۔ ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں پر مشتمل رہی ہے۔
وادی کشمیر، جموں، کارگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ شامل ہیں۔ جن میں ان کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے ریجنز بھی موجود ہیں جن کو ملا کر ریاست کا کل رقبہ84ہزار471مربع میل بنتا تھا۔ یہ ریاست دنیا کے تین عظیم الشان پہاڑی سلسلوں یعنی قراقرم، ہمالیہ اور کوہ ہندو کش سے منسلک تھی۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی کشمیر اس مقام پر واقع ہے جہاں پر اس کی سرحدیں دنیا کے اہم ملکوں یعنی پاکستان، بھارت، چین اور افغانستان سے بھی ملتی ہیں۔
14اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ 15 اگست کو مہاراجہ ہری سنگھ نےStand-Still Agreement پیش کیا۔پاکستان نے اسے بلا تامل قبول کر لیا لیکن بھارت نے روایتی مکاری کے سبب اس کو قبول نہ کیا۔ حقیقت یہ تھی کہ مہاراجہ اور بھارتی حکومت نے آپس میں مکارانہ ساز باز کر رکھی تھی اس لئے کشمیر کی ریاست اپنے مسلمان عوام پر بالخصوص مظالم کے پہاڑ ڈھاتی تھی۔ کشمیری مسلمانوں نے جب اس جبر کے خلاف آواز اٹھائی تو مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج اور پولیس نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے اور بے دریغ قتل عام کیا۔ اس پر محسود اور آفریدی قبائل کے جانباز جنگجووں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے وادی میں گھس کر جہاد شروع کر دیا اور 22 اکتوبر 1947 کو جب بحران پونچھ شروع ہوا تو وہ بارہ مولا تک پہنچ گئے ۔بزدل مہاراجہ نے گھبرا کر بھارت سے مدد مانگ لی۔جس پر پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق بھارت نے الحاق کا مطالبہ کر دیا ۔مہاراجہ نے سازباز کے عین مطابق وادی کے عوام کی رائے کے بالکل برعکس وادی کا الحاق بھارت سے کردیا۔ جس کو جواز بنا کر پہلے سے تیار بیٹھی بھارتی افواج فوراً وادی میں گھس گئی اور بدترین قتل و غارت گری شروع کر دی ۔ بعض اہم محققین کے مطابق بھارتی فوج الحاق کے اس ڈاکومنٹ پر دستخط سے پہلے ہی کشمیر میں داخل ہو چکی تھی جو کہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے جس پر بعد میں پاکستان اور بھارت کی جنگ چھڑ گئی ۔ پاکستانی افواج نے کشمیری مجاہدین کی مدد سے آزاد کشمیر کا علاقہ واگزار کرا لیا جبکہ گلگت بلتستان نے پاکستان سے الحاق کے لئے اپنی جنگ خود لڑی۔ ابھی یہ جنگ جاری تھی کہ بھارت کو صاف لگا کہ وادی اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی تو وہ بھاگم بھاگ روتا پیٹتا یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ جا پہنچا اور جنگ بندی کی اپیل کر دی ۔ 17جنوری کو سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قراد داد پاس کردی۔ جنگ بند ہوگئی۔ لائن آف فائر سیزفائرلائن قرار پائی۔20 جنوری کو پاکستان بھارت کمیشن بنا دیا گیا ۔ 5 اگست 1948 اور یکم جنوری 1949 کی قراردادوں کی روشنی میں پوری ریاست کشمیر کو متنازعہ علاقہ قراد دیا گیا ۔ کمیشن نے بھی اپنی سفارشات پیش کیں جس کی رو سے دونوں ممالک کو اپنی اپنی افواج کو وادی سے نکال لینے کا کہا گیا تاکہ کشمیر میں آزادانہ حق خود ارادیت کے انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے ۔ پاکستان نے اس بات کو قبول کیا لیکن بھارت نے روایتی چالاکی و مکاری کا مظاہرہ کیا اور لیت و لعل سے کام لیا۔اقوام متحدہ کی 17 اپریل 1948، 13اگست 1948، 5جنوری 1949 اور 23 دسمبر 1952 کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور قرار یہ پایا کہ استصواب رائے کے تحت کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے گا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ مہاراجہ کی پیش کردہ جس دستاویز کے تحت بھارتی افواج کشمیر میں گھس گئی تھیں اس دستاویز کی بھی بنیادی ترین شق یہ تھی کہ جونہی کشمیر سے مسلمان قبائلی جنگجووں کو نکالا جائے گا تو بھارتی افواج بھی کشمیر کو خالی کر دیں گی۔
تب کشمیر میں بذریعہ ریفرنڈم عوام کی رائے معلوم کی جائے گی جس کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا ۔لیکن ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے کے مصداق چاہے وہ دستاویز ہو یا اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادیں، بھارت نے کسی ایک کو بھی درخوراعتنا نہیں جانا بلکہ ہٹ دھرمی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیری عوام کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے اور ریاستی اداروں کی بربریت اور سفاکیت کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کی درندگی بھول بیٹھی ہے۔ یکم جنوری 1949 کو بھارت پاک جنگ کا سیز فائر ہوا۔65% رقبے پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے جبکہ باقی ماندہ حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ 1971کی جنگ کے بعد شملہ معاہدہ کے تحتسیزفائر لائن کو ہی لائن آف کنٹرول کا درجہ دے دیا گیا ۔1957 میں بھارت نے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں اور مسلمہ و مروجہ بین الاقوامی ضابطوں اور اصولوں کو نہایت بے شرمی کے ساتھ پس پشت ڈال کر اپنے دستور میں ترمیم کردی اور شق 370 کے تحت کشمیر کو دستور کا حصہ بنا کر اسے خصوصی حیثیت دے دی ۔جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی سیاسی مخاصمت میں اضافہ ہوگیا جو بالآخر 1965 کی جنگ کا سبب بنا۔یکم فروری 1966 کو معاہدہ تاشقند ہوا اور جنگ بندی ہوگئی۔ 1971 کی جنگ براہ راست کشمیر کے مسئلے کے باعث تو نہیں ہوئی لیکن اس کے تانے بانے اسی پیچیدہ مسئلے سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ بھارت نے اپنی روایتی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا اور یوں پاکستان کا مشرقی بازو اس سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ابھرا۔ 1947 سے 1980 تک پھر 1980 سے 1989 تک بھارت نے کشمیر میں مکروہ سیاسی کھیل کھیل کر کشمیری عوام کو بہلانے پھسلانے کے کئی گھناونے حربے استعمال کئے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا کشمیری عوام پر بھارتی بدنیتی کھلتی چلی گئی اور وہ اس گندے کھیل کو بہتر طور پر سمجھنا شروع ہوگئے۔ بھارت نے اس دوران وہاں کے ابن الوقت سیاست دانوں کو خرید کر کٹھ پتلی حکومتیں بنائیں لیکن وہ عوام کے دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔1989 میں کاروان آزادی کچھ ایسی آن بان اور شان سے از سر نو عازم،منزل،آزادی ہوا کہ ساری دنیا اپنی آنکھیں مل مل کر دیکھنے پر مجبور ہوگئی۔آزادی کے متوالوں نے سر پر کفن باندہ لئے اور اس راہ دشوار کی ہر تکلیف کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کرنے لگے۔دوسری طرف بھارتیوں نے اپنی درندگی اور سفاکیت کی انتہا کردی۔ آٹھ لاکھ فوج تعینات کر کے اس کو ہر طرح کے ستم کی کھلی چھٹی دے دی۔ جس نے ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمت دری کے نہایت مکروہ اور گھناونے فعل کا ارتکاب کیا اور نوجوان کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ بچوں،بوڑھوں الغرض ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی جان و مال کو فوجی بوٹوں اور بندوقوں کی سنگینوں پر رکھے ہوئے ہے۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔
سترہ سال پہلے ایک بار پھر یہی مسئلہ کشمیر چوتھی پاک بھارت جنگ یعنی جنگ کارگل کا سبب بنا۔اس جنگ میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ مئی 1998 میں دونوں ممالک ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی ملک بن چکے ہیں۔جبکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرجُوں کا تُوں موجود ہے ۔یہ دنیا کا وہ واحد مسئلہ ہے جو 69 برس گزر جانے کے بعد بھی حل نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نہایت پیچیدگی کا رخ اختیار کر گئے ہیں۔ یوں پوری دنیا ایک ممکنہ ایٹمی جنگ کے سنگین خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔ یہ سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ لاکھوں زندہ انسانوں کے بنیادی حقوق کی بات ہے۔ایک طرف غاصب بھارتی افواج ہیں جو لاکھوں کشمیریوں کو ریاستی دہشت گردی کے تحت غلام بنانے پہ تلی ہوئی ہیں اور ایک لاکھ سے زائد کشمیری جوانوں کا قتل بھی کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ مالی نقصان اور املاک کے نقصان کا کچھ حساب و شمار نہیں۔ تازہ ترین بہیمانہ تشدد کے واقعات میں بے گناہوں کا ماورائے عدالت قتل عام کیا جا رہا ہے اور اس وقت پوری وادی بھڑکتی ہوئی دوزخ بنا دی گئی ہے۔ جبکہ ان سارے دہشت گردانہ اقدامات کے باوجود کشمیری بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں اور ان کے جذبہ حریت کو سرد نہیں کیا جا سکا۔انتہا تو یہ ہے کہ خود بھارتی سیاستدان بھارتی حکومت پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔گانگریسی رہنما راہول گاندھی بے اختیار چیخ اٹھا کہ خدا مودی کو جہالت سے نجات دے۔ یہی وہ بھارتی جہالت اور دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں ہیں جنہوں نے جنت ارضی کو دوزخ بنا رکھا ہے اور وہ پچھلے 69 سالوں سے کشمیریوں کے جان و مال سے سنگین کھیل کھیل رہے ہیں اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقِ خودارادیت، دینے سے انکاری ہیں۔ حالیہ بدترین ریاستی تشدد پر او آئی سی سمیت اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی آواز بلند کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے۔ غیور کشمیری عوام نے لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی بے مثال قربانیاں دے کر دنیا کو بتلا اور دکھلا دیا ہے کہ وہ اپنے بنیادی انسانی حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے انہیں اس کی کتنی ہی قیمت چکانی پڑے۔ پاکستان کشمیریوں کی تحریک کو بنیادی انسانی حقوق کی تحریک سمجھتا ہے اور مظلوم بے بس کشمیریوں کی ہر اخلاقی مدد کو اپنا فرض عین گردان کر دنیا بھر میں ان کے حق کی پر زور وکالت بھی کرتا ہے۔ آج کے اس اکیسویں صدی کے سبھی مہذب معاشروں اور نمائندہ پلیٹ فارمز کا اولین فرض ہے کہ وہ اس دہائیوں پرانے انسانی مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرا کر انسانیت کے ماتھے سے رسوائی کا داغ مٹا دیں اور دنیا کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرے سے نجات دلائیں۔ ایسا کرنے میں کشمیری عوام کی تو بھلائی ہے ہی ہے ساتھ ساتھ پاکستان بھارت اور دنیا بھر کے انسانوں کو ایٹمی جنگ کی ہولناکیوں سے بھی بچانے کا راز بھی مضمر ہے۔
مسئلہ کشمیر کے 10 حقائق
1۔ 1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت 565کے قریب خودمختار ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں کو برطانوی حکومت نے حق دیا کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کر سکتی ہیں۔
2۔ ریاست جموں و کشمیرکی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی مگر حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ہندو تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ کشمیر کی آزاد حیثیت بحال رہے۔ اس نے پاکستان اور بھارت سے سٹینڈ سٹل ایگریمنٹس کیے۔
3۔ اکتوبر1947میں ہری سنگھ نے برطانوی فوج کے مسلم سپاہیوں سے اسلحہ ضبط کر کے کشمیر کی ہندوآبادی میں بانٹنا شروع کیا تو مسلم آبادی مشتعل ہو گئی اور انھوں نے بغاوت کردی۔
4۔ کشمیری مجاہدین کو پاکستان کے پشتون قبائلیوں کی مدد بھی حاصل ہو گئی ۔ صورتحال سے گھبرا کر ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد مانگی۔ ہندوستان نے اس شرط پر ہری سنگھ کی مدد کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دے۔
5۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اکتوبر1947میں کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کردیا اور خود دہلی میں پناہ لے کر چھپ گیا۔
6۔ پاکستان نے اس الحاق کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ابھی سٹینڈ سٹل معاہدہ قائم تھا اورہری سنگھ الحاق کی کسی دستاویز پر دستخط کرنے کا مجاز نہیں تھا۔
7۔ 27اکتوبر کو بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں جس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔
8۔ دوران جنگ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے کشمیریوں سے ریفرنڈم کا وعدہ کیا اور اپنی وعدے پر قائم رہنے کی بڑی بڑی قسمیں کھائیں۔
9۔ اسی وعدے کے مطابق بھارت کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں 13اگست1948کو ایک قرارداد پاس ہوئی۔ اس میں طے پایا کہ کشمیری ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ ۔
10۔ مگر جنگ ختم ہوتے ہی بھارت ریفرنڈم سے مکر گیا۔ اور آج تک انکاری ہے۔ وہ دن اور آج کا دن کشمیری بھارتی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ ان کے دل آج بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
کشمیر کا حل امن کے
لئے کتنا اہم ہے؟
مختلف آراء
1۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے لیے کشمیر بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جب تک بھارت کشمیریوں کو حقِ خودارادیت نہیں دیتا، تب تک امن کا قیام ناممکن ہے۔
2۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، نہ صرف انڈیا اور پاکستان بلکہ پورے جنوب ایشیا میں امن داو پر لگا رہے گا۔ مسئلہ کشمیر کا بہترین مستقبل اور پائدار حل انڈیا، پاکستان اور کشمیریوں کے لئے قابلِ عمل حل ہی ہے۔ انڈیا اور پاکستان دونوں اپنی افواج وہاں سے واپس بلائیں اور کشمیر کی انیس سو انہتر سے پہلے والی حیثیت یعنی مکمل خودمختاری کو تسلیم کریں۔
3۔ ایک اور نکتہ نظر؛ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کے بعد انڈیا پاکستان میں امن رہے گا؟ یہ نہیں ہوگا، جس کے ہاتھ سے کشمیر جائے گا وہ دوسرے کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔
4۔ مسئلہ کشمیر ایک انتہائی گھناونا اور بہیمانہ کھیل ہے۔ اسے حل کرتے کرتے آدھا پاکستان تو حل ہوچکا، ڈر ہے کہ باقی ماندہ بھی حل نہ ہوجائے اور شہ رگ پھر بھی قائم رہے۔ انسانی بہیمیت کا بازار گرم ہے، بھارتی فوجیوں کو آبرو ریزی کے لئے کشمیر کی جنت ملی ہوئی ہے اور جہادیوں کا ان کی نظریاتی جنت میں حوریں انتظار کر رہی ہیں۔ رہی پاک فوج تو اس کے لیے تو پاکستان ہی کشمیر بنا ہوا ہے۔
5۔ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان بلاشبہ بنیادی مسئلہ ہے اور اس کا پرامن دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات معمول پر لاسکتا ہے۔ یہ بات سمجھنا ہوگی اور اس پر خاموشی اختیار کرنا بالآخر زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ بار بار اٹھتا ہی رہے گا۔ دونوں کے مفاد میں یہی ہے کہ اسے حل کریں اور غربت، پسماندگی اور عدم تحفظ جیسے مسئلوں کی طرف توجہ دیں۔
تاریخ کشمیر
صوادیِ کشمیر تین صدی قبل مسیح بدھا حکمران آشوکا ?Ashoka? کی ریاست?جو موجودہ بنگال سے دکن اور افغانستان سے پنجاب تک پھیلی ہوئی تھی کا حصہ تھی - آشوکا کی موت کے بعد کشمیر پر بدھ مت کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے بعد وہاں مقامی قبائل کی حکومت رہی - پہلی صدی عیسوی میں کشمیر کو شمال مغرب چین سے آئے بدھ مت مہاراجہ کانیشکا ?Kanishka? نے فتح کیا - پانچویں صدی عیسوی میں ہندو مہارجہ ماہیراکولا ?Mihirakula? نے بدھ مت حکومت کا خاتمہ کر کے برہمن ہندوئوں کی حکومت کی بنیاد رکھی ?تاریخ میں ہندو مہاراجہ ماہیراکولا کو دہشت کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس نے اپنی رعایا پر بے پناہ مظالم ڈھائیجو کہ بعض مورخین کی رائے میں تیرہویں صدی تک رہی - ساتویں صدی عیسوی میں کشمیر کا ہندو راجہ لالی تادتیا ?Lalitaditya? تھا جِس نے کشمیر میںترقی اور فلاح کے لیے کام کیا جو آنے والے ہندو مہاراجوں کے دور میں بھی جاری رہا-دسویں صدی عیسوی میں کشمیر کی حکمرانی کے لیے ہندوشہزادوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی - گیارہویں صدی عیسوی میں افغانستان کے شہزادے سبکتگین غنی نے دو بار کشمیر کو فتح کرنے کی کوشش کی مگرکامیاب نہ ہو سکے-کشمیر میں ہندوئوں کے اقتدار کا خاتمہ چودہویں صدی میں مسلم حکومت کے قیام کے ساتھ ہوا-
کشمیر میں اسلام کی آمد:
ایک طرف کشمیر میں ہندوئوں کی حکومت کمزور ہونے لگی تو دوسری طرف ہندوستان میں صوفیائے کرام اور اولیا اللہ کی کاوشوں سے اسلام کی اشاعت تیزی سے ہونے لگی اورمختلف علاقوں میں اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں – جِس سے تختِ کشمیر کو بھی خطرہ محسوس ہونے لگاتو کشمیر کے سب داخلی و خارجی راستوں کو سیل کر دیا گیا مگر ہندوستان سے تجارت نہ ہونے کی وجہ سے راستے کھول دیے گئے تو انہی ایام میں سوات کے رہنے والے صوفی بزرگ سید شمس الدین شاہ نے کشمیر کی طرف اپنا سفرِ تبلیغ شروع کیا – اور چودہویںصدی کے ہندو بادشاہ رنچن ?Rinchan? نے صوفی بزرگ کو صبح نماز کے وقت عبادت میں مشغول دیکھا تو آپ کے ایمان سے متاثر ہو کر اسلام قبو ل کر لیا اور صدرالدین شاہ کے نام سے کشمیر کے پہلے مسلمان حکمران بنے توکشمیر میں اسلام کا سورج طلوع ہوا – مگرصدرالدین شاہ کی وفات کے بعد اُس کی بیوی ?جس نے اسلام قبول نہ کیا تھا? کشمیر کی نئی مہارانی بن گئی اور کشمیر پر ایک بار پھر ہندو حکمرانی قائم ہو گئی – ہندو حکمرانی کا خاتمہ 1339 ء میںمہارانی کی خود کشی سے ہوا جِس کے بعدمقامی لوگوں کے تعاون سے صوفی بزرگ شمس الدین شاہ کشمیر کے دوسرے مسلم اور خاندانِ شاہ میریہ خاندان کشمیر پر دو سو سال تک حکمران رہا ? کے پہلے بادشاہ بنے-آپ بعد میں حضرت بلبل شاہ کے نام سے مشہور ہوئے اور آپ کا مزار سرینگر ?مقبوضہ کشمیر? میںہے – شمس الدین کے بعد آپ ہی کے خاندان کے مشہور بادشاہ شہاب الدین کے دورِ حکمرانی میںآنے والے اولیاء نے کشمیر میں اسلام کی تبلیغ جاری رکھی جِن میں سب سے گراں قدر خدمات دینے والے صوفی بزرگ حضرت امیر کبیر شاہِ ہمدان میرسید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ ہیںجو کہ علوی سید ہیں-میر سید علی ہمدانی اور آپ کے ساتھ آئے تقریباً سات سو سے زائد پیرو کاروں نے کشمیر میں اسلام کی ترویج و تبلیغکی خدمات سر انجام دیں – اور کشمیریوں کی دینی و روحانی تربیّت اُن کے دِلوں کو زندہ کیا جس کی تاثیر ہے کہ وہ آج بھی اسی طرح زندہ ہیں-خاندان شاہ میر کی دو سو سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ پندرہ سو چھیاسی میں مغلیہ بادشاہ اکبر نے کشمیر کو مغل سلطنت میں شامل کرکے کیا-مغلوں کے بعد کشمیر پر افغان مسلمانوں نے قلیل دور کے لیے حکومت کی-کشمیر میں روشن اسلامی دورِ حکومت کا خاتمہ 1819 کو سکھوں نے کیا-
کشمیر کا اسلامی تمدن:
صوفیاء کے روشن کردہ اسلام کے چراغ کشمیر میں آج بھی زندہ ہیں اور وہاں کا تہذیب و تمدن اُن کی تعلیمات اور فلسفہ کی عکاسی کرتا ہے-صوفیاء کی تعلیمات ، روایات، عادات ، محبت، پیار،رہن سہن کا طریقے سے لوگ بہت متاثر ہوئے اور آج بھی چھ صدیوں کے بعد بھی کشمیریوں کے دلوں میں زندہ ہے کیونکہ کشمیری آج بھی امن اور مساوات کے خواہاں ہیں- لوگ آج بھی اپنے علاقے میں موجود خانقاہ یا مسجد میں اکٹھا ہو کر علاقے کے مسائل کو حل کرتے ہیں-کشمیری عوام کا صوفیا اور اسلام سے محبت کی ایک چھوٹی سی مثال والٹر آر لارنس نے اپنی کتاب میں دی ہے کہ کشمیر میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ اسلامی مہینے شعبان ، رمضان یا رجب میں پیدا ہو تو اس بچے کو اسلامی نسبت سے اس اسلامی مہینے کا نام دیا جاتاہے اور اگر وہ ان مہینوں کے علاوہ کسی مہینے میں پیدا ہوتو صوفیاء سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے عموماً کسی صوفی کی نسبت اس بچے کا نام رکھا جاتا ہے-
کشمیری عوام کا اِسلام اورصوفیاء ِکرام سے محبت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیری عوام حصولِ فیوض و برکات کیلئے صوفیا ء کے مزارات پر بکثرت حاضری دیتے ہیں اور ان کی تعلیمات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں – جِس کی مثال ہمیں حضرت شاہِ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان میں ملتی ہے کہ کشمیری اسلامی روایت میں سب سے معزز روحانی عُہدہ میر واعظ کا سمجھا جاتا ہے جو کہ صرف اِسی مذکورہ خاندان سے تعلق رکھنے والا ہی بن سکتا ہے – اِس مقام پر شاہِ ہمدان کے خاندان کا وہی نوجوان فائز ہو سکتا ہے جو قرآن و سنت اور صوفیاء کی تعلیمات سے مکمل طور پر آشنا ہوتا ہے اور وہی سرینگرجامع مسجد کا امام ہوتا ہے-
مساجد کے نام بھی کشمیریوں کی صوفیا سے محبت کی عکاسی کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک مشہور مسجد جو قادریہ سلسلہ کے بانی اور عراق کے مشہور صوفی بزرگ کے نام سے مشہور ہے وہ مسجد حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہے جو سرینگر کے وسط میں واقع ہے-
کشمیر میں اسلام کی آمد نے کشمیری ہنر ?آرٹ اور نقش نگاری کو نیا رنگ دیا-کشمیری ثقافت ، قالینوں کے ڈیزائین و نقش نگاری پوری دنیا میں مشہور ہیں- جب غیر مسلم ہنر مندوں نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے مساجد کے میناروں اور مساجد کے اند رلگے پتھروں کی تزئین و آرائش کے لیے کاشی کاری و نقش نگاری کنندہ کی اور لکڑیوں پر کشیدہ کاری کے ہنر دکھائے- ہمیں آج بھی کشمیر کی مساجد اور درگاہوں پر یہ خوبصورت نقش نگاری نظر آتی ہے جِس کو مساجد میں بچھے منفرد رنگ و بناوٹ کے قالین چار چاند لگاتے ہیں-اسی طرح مغلیہ دور میں کشمیر میں تعمیراتی کام، نقش نگاری، کشیدہ کاری،قالین سازی اور اون کی صنعت خصوصاً شال بنانے میں خاطر خواہ ترقی ہوئی-
کشمیریوں کی سامراجی غاصب قوتوں کے خلاف صدیوں پہ مشتمل جد و جہد اور اسلام ، قرآن ، حضور تاجدارِ کائنات ? کے پیغام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد بھی اُس اسلامی تمدن کی عکاس ہے جِس طرح صحابہ کرام نے اسلام قبول کرنے کے بعد صعوبتیں برداشت کیں اسی طرح کشمیری بھی اسلام سے محبت اور بلندی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں- جِس کی مثال ہمیں ایک بہت ہی اہم واقعہ سے ملتی ہے کہ جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں کشمیر میں حضورِ اکرم ? کا ایک بال مبار ک لایا گیا وہ جِس جگہ رکھا گیا وہ جگہ درگاہ حضرت بَل کے نام سے مشہور ہوئی ?حضرت کا اِشارہ آقا علیہ السلام کی ذات کی طرف اور بَل بال کو کہتے ہیں یعنی وہ درگاہ جہاں آقا علیہ السلام کا موئے مبارک رکھا ہے ? – 1963 ء میں جب یہ موئے مقدس چوری ہوا تو خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو ہزاروں کشمیری مرد ، عورتیں ، بوڑھے ، بچے ، مذہبی و سیاسی قائدین مل کر احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے، لوگوں نے بغیر کسی کے کہے وادی کے طول و عرض سے جوق در جوق درگاہ کا رُخ کیا اور وہیں بیٹھ گئے – کشمیریوں کے جذبے نے حکومتِ بھارت و مقبوضہ کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا- حکومت نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسی کو موئے مقدس ڈھونڈنے پرلگا دیا-جب تک موئے مبارک واپس نہیں آیا کشمیری اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر ٹھنڈی راتوں میں کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے – کشمیر پر قابض لوگو ں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جو قوم اپنے نبی کریم کے بال کی خاطر اپنی جان دے سکتی ہے وہ قوم اسلام کی بنیاد پر بننے والی ریاست ?پاکستان? اور دو قومی نظریہ ?مسلم و ہندو دو الگ قومیں ہیں?کی خاطر اپنی ہزاروں نسلیں قربان کر سکتے ہیں مگر اپنی بنیاد کو نہیں چھوڑ سکتے-
کشمیر میں بچوں کو حفظِ قرآن و تجوید ، دینی مسائل کی تفہیم ، دینداری سکھانے اور عقائدِ دینی سیکھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں -یاد رہے کہ کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ کشمیر میں نمازِ پنجگانہ میں مساجد پُر ہجوم ہوتی ہیں – اسلام سے محبت اور جذبہ اِسلامی کشمیری مسلمانوں کا اَقوامِ عالَم میں طرہ اِمتیاز ہے – کشمیریوں کے مذہبی عقائد اتنے مضبوط ہیں کہ بیرونی طاقتوں اور ان کے ظلم و جبر بھی کشمیری عوام کے دِلوں سے اسلام کی محبت اور اسلامی طرزِ زندگی نہ چھین سکی-
عہدِ مُغلیّہ کا کشمیر:
کشمیر میں مغلیہ عہد کا آغاز پندرہ سو چھیاسی میں ہواجب کشمیر کو مغلیہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اپنی ریاست میں شامل کیا-مغلیہ دور میں کشمیر میں کاروباری زندگی و سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا-
مغلیہ دور کے بادشاہ پورے برصغیر میں کشمیر کو سب سے زیادہ پسند کرتے تھے-اورنگز یب عالمگیرنے اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کراِ سے زمین پر جنت قرار دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں نے بادشاہ کے اِس فرمان کی تصدیق کرتے ہوئے کشمیر کو زمین پرجنت قرار دیا- بادشاہ جہانگیرنے کشمیر میں شالیمار اور نشاط باغ تعمیر کروائے جنہوںنے کشمیر کی خوبصورتی میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور یہ مغل بادشاہوں کی کشمیر سے محبت کی زندہ مثال ہے- جہانگیر بادشاہ مرتے دم بھی کشمیر کا حسین نظاروں کا دم بھرتا رہا- مغلیہ دور میں لوگوں کا طرزِ زندگی کافی بہتر ہوااور کشمیر کا حسن دنیا کے سامنے کھل کر ظاہر ہوا جِس نے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچامگر دہلی میں کمزور ہوتی مغل سلطنت کشمیر میںبھی اپنا اثر کھونے لگی-
سکھوں کا عہد اور کشمیر:
کشمیر میں مغلیہ گورنر نے مرکز میں حکومت کے خاتمہ کے بعد کشمیر میں ظلم و ستم شروع کر دیے- جِس کو روکنے کے لیے افغانی بادشاہ احمد شاہ درانی ?المعروف ابدالی ? نے 1751 ء میں کشمیر پر تصرف حاصل کیا اور ستر سال تک افغانی حکومت قائم رہی – جِس کا خاتمہ سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1819 ء کو کیا اور کشمیر میں پانچ صدیوں کے مسلم دورِ حکومت کے بعد سکھوںکا دورِ حکومت شروع ہوا- سکھ گورنر دیوان موتی رام کے دور میں مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے- اذان پر پابندی لگا دی گئی، مساجد گرادیں یا بند کرا دی گئیں اور مسلمانوں کو ٹیکسوںکے انبار تلے دبا دیا گیا- ان مظالم کا ذکر ولیم مورکروفٹ نے بھی اپنی کتاب ?Travels in the Himalayan Provinces of Hindustan? میں کیا ہے- ریاستِ جموں کے ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ نے سکھ ریاست کو پھیلانے کی غرض سے لداخ ، ہنزہ اور بلتستان پر حملہ کر کے انہیںرنجیت سنگھ کے حوالے کرتے ہوئے سکھ ریاست میں شامل کردیا-
ایسٹ انڈیا کمپنی کاہندوستان کی ریاستوں میں بڑھتے ہوئے کنٹرول پر سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی ریاست بچانے کی خاطر انگریزوں کے ساتھ ایک دوسرے کی سرحدی حدود کے احترام کا معاہدہ کیا- 1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد انگریز حکومت اور سکھ ریاست کے تعلقات خراب ہو گئے – 1846ء کو ان کے درمیا ن پہلی جنگ ہوئی جِس میں سکھ حکمران ، ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ جِس کی فوج بہت قابل اور مضبوط سمجھی جاتی تھی ? کی مدد کے بغیر لڑے اور شکست ان کا مقدر بنی اور سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے معاہدہِ لاہور کے تحت برٹش حکومت سے امن معاہدہ کیا اور امن کے بدلے دو کروڑ روپے مانگے مگر سکھ طے شدہ رقم کا کچھ حصہ دے کر تختِ لاہور کی حکومت کو برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا جِس سے انگریز راج پورے برِصغیر پر چھا گیا-
ریاست جموں کا مہاراجہ گلاب سنگھ سکھوں کی مدد کرنے کے بجائے اپنے مفادات کی خاطر انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے جنگ سے دور رہا-اُس وقت کے انگریز گورنر جنرل?ایسٹ انڈیا کمپنی کے برطانوی حکومتی نمائندے کو صرف گورنر جنرل کہا جاتا تھا مگر جب برصغیر برطانیہ کے براہِ راست کنٹرول میں آیا تو گورنر جنرل کو وائسرے کا نام بھی دے دیا گیا? نے کشمیر کو براہِ راست کنٹرول کرنے کی بجائے سکھوں کے خلاف مدد کرنے پر جموں مہاراجہ گلاب سنگھ کو معاہدہ امرتسر کے تحت وادیِ کشمیر ? بمعہ سکھ ریاست کے علاقے بلتستان، گلگت ایجنسی اور لداخ? کوسات کروڑ پچا س لاکھ کے عوض گلاب سنگھ کے حوالے کردیا گیا-
عہدِ برطانیہ کا کشمیر:
کشمیر میں عہدِ برطانیہ کا آغاز 1846ء میں ہوا جب کشمیر کو انگریزوں نے سکھوں سے معاہدہ ِ لاہور کے تحت حاصل کیا-مگر جلد ہی براہِ راست کنٹرول کی بجائے برطانوی سامراج نے کشمیر کو معاہدہ امرتسر کے تحت گلاب سنگھ کی حکومت کے حوالے کر دیا- اُس معاہدے کے تحت انگریز حکومت مہاراجہ ِکشمیر سے ہر قسم کی مدد طلب کر سکتی ہے ?مثال کے طور پر پہلی جنگِ عظیم میں کشمیریوں کی شرکت اور بعد میں سوویت یونین کی پیش قدمی کے خوف کی وجہ سے گلگت ایجنسی کو ڈوگرا حکومت سے اپنے براہِ راست کنٹرول میں لینا?- برطانوی راج کو تسلیم کرنے کے ضمن میں مہاراجہ کو سالانہ ایک گھوڑا، بارہ بھیڑیں اور تین شالیں برطانوی حکومت کو پیش کرنی لازم تھیں-
1935 ء میں برٹش حکومت نے سوویت، چائنہ اور افغان قدم پیشی کے خوف اور ان کی نقل حرکت کو روکنے کی خاطر گلگت اور بلتستان کو کشمیر کی ڈوگرا حکومت سے براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا- برٹش انڈیا میں پھیلتی مسلم ?مسلم لیگ ?و ہندو ?کانگریس? تحریکوں کا مطالبہ?پاکستان کا قیام ?مسلم لیگ ، آزاد بھارت بشمول پاکستانکانگریس ? زور پکڑتا گیا جِس کے تحت ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہو گئی – برٹش انڈیا کے اندرونی معاملات کو کنٹرول کرنے اور تقسیمِ ہندبرٹش انڈیا کو پاکستان اور بھارت دو الگ آزاد ریاستوں میں تقسیم کو حتمی شکل دینے کے لیے برٹش حکومت نے گلگت ،بلتستان کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ کے حوالے کر دیا –
برٹش دورِ حکومت بھی سکھ دور کی طرح کشمیریوں کے لیے کوئی نویدِ صبح نہیں لے کر آیا- ڈوگرا مہاراجوں نے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے اور بے پناہ قتل و غارت کی گئی-
کشمیر میں مسلم دورِ حکومت کا خاتمہ ہوتے ہی آنے والی حکومتوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے شروع کر دیے تھے کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ علاقہ کا اکثریتی مذہب ہونے کے ناطے اور سابقہ کئی صدیوں سے حکمرانی کا تجربہ رکھنے کے ناطے مسلمان لڑنے ، حکومت حاصل کرنے اور اپنی اِسلامی شناخت برقرار رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں – اور ایسا ہی ہوا – کشمیری مسلمانوں نے حالات کے جبر سے سمجھوتہ کرنے اور خاموش تماشائی بن بیٹھنے کی بجائے اپنی آزادی ، خود مختاری اور حریت کی جد و جہد شروع کی ، کشمیریوں کی اِس جدوجہد کو کچلنے کی بہت کوشش کی گئی مگرتمام تر مظالم کے باوجود جابر حکمرانوں کو ناکامی کے علاوہ کچھ نہیں ملا- ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی کے لیے جو تحریک شروع ہوئی اس سے کشمیری مسلمانوں کو بھی حوصلہ ملا اورانہوں نے بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنی شناخت ، زندگی اور بقاء کے لیے آزادی کا نعرہ بلند کیا – مگر ڈوگرا دورِ حکومت میں کشمیریوں کو نہ صرف ان کے حقوق سے محروم کیا گیا بلکہ کشمیریوں کے لیے کشمیر میں زندگی گزارنا نا ممکن ہو چکا تھا- 1931 ء میں پونچھ کے کشمیریوں نے حد سے تجاوز کرتے ظلم سے تنگ آ کر مہاراجہ کی فوج سے لڑنا شروع کر دیا مگر اِسے دبانے کے لئے کشمیریوں کا بے جا خون بہا گیا –
یہاں 13 جولائی 1947ء کا ایک افسوسناک مگر ایمان افزا واقعہ بیان کرتا چلوں کہ تیرہ جولائی کی علی الصبح سرینگر کی جیل میں قید مسلمان کشمیری رہنما کا نعرہ آزادی لگانے کے جُرم کی پاداش میں ٹرائل ہو رہا تھا جِس کے حق میں ہزاروں مسلمان سرینگر کی سنٹرل جیل کے باہر جمع تھے- اتنے میں فجر کی اذان کا وقت ہو گیا تو مجمع سے ایک مسلمان نوجوان کھڑا ہو کر اذان دینے لگا مگر جیل کے باہر کھڑے ڈوگرا فوجی نے اُس نوجوان کو گولی مار کر شہید کر دیا۔مگر اتنے میں ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور پہلے نوجوان کی نامکمل اذان کو مکمل کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی ڈوگرا فوجی کی گولی سے شہادت پا گیا – موت کی اِس لہر میں کشمیری مسلمانوں کاجذبہِ ایمانی نہ تو کمزور ہوا اور نہ ہی سرد ہوا اور ایک ایک کر کے نوجوان اٹھ کر اذان مکمل کرتے گئے اور شہید ہوتے رہے – یہ تاریخِ اِسلامی کی وہ واحد اذان تھی جِس کو اکیس لوگوں نے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوکر مکمل کیا – مورخین لکھتے ہیں کہ یہ وہ دن تھا جب کشمیر کی جدوجہد میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا اور ریاست میں مہاراجہ سے آزادی کی جد و جہد کا باقاعدہ طور آغاز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔کشمیری عوام آج بھی تیرہ جولائی کو یومِ شہداکے طور پر مناتی ہے-
ایک جانب کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کر رہی تھی تو دوسری جانب ہندو رہنما انگریزوں کے انڈیا سے جانے کے بعد پورے ہندوستان پر حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے جِس کے لیے انہوں نے آخری وائسرائے سے ملکر کشمیریوں کے خلاف قبضہ کا پلان بنایااورتقسیم کے وقت مسئلہ کشمیرکا آغاز ہوا-
برٹش وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے3جون 1947ء کو منصوبہ تقسیمِ ہند پیش کیا جس نے برٹش انڈیا کو دو الگ آزادو خودمختار ریاستوں ?پاکستان اور بھارت ? میں تقسیم کرنے کی تجویز دی – جْون کے اِس منصوبہ کو مسلم لیگ اور کانگرس کے وفد نے متفقہ طور پر قبول کر لیا تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے اِس منصوبہ کوقانون سازی کے لیے برطانوی پارلیمان کے سامنے پیش کیا- جس کو بعد ازاںبرطانوی پارلیمان نے قانون آزادیِ ہند 1947 کی صورت میں حتمی شکل دے دی-
اِس قانون کی رُو سے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریت والے علاقے بھارت میں شامل ہوں گے- قانونِ آزادیِ ہند 1947 کے تحت پانچ سو باسٹھ ?562? دیسی ریاستیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی تھیں مگر ریاستوں کے مہا راجوں کو یہ نصیحت کی گئی کہ وہ زمینی اور مذہبی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاستوں کا فیصلہ کریں-
22اپریل 1947 کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے جواہر لال نہرو کو واضح کیا کہ برٹش انڈیاکی پانچ سو باسٹھ ریاستیں کسی بھی نئی ریاست پاکستان یا انڈیا سے الحاق کرسکتیں ہیں-مگر بعد میں جب قانونِ تقسیم ہند بنا تو ریاستوں کے زمینی حقائق اور آبادی کے لحاظ سے الحاق کرنے کا کہا گیا- یہ بات کانگریسی رہنمائوں کے لیے پریشان کن تھی کیونکہ اُس وقت تک پلان کے مطابق مجوزہ بھارتی ریاست کا رابطہ کشمیر سے نہیں تھا اور ریاست کی مسلم آبادی اکثریت میں تھی- کانگریسی قیادت نے لارڈ مائونٹ بیٹن اور پلان تقسیمِ ہند پراثر انداز ہونا شروع کر دیاکہ ترمیم کرواکشمیر سے زمینی رابطہ حاصل کیا جائے-
برٹش حکومت کے تقسیم ِ ہند کے فیصلے کے بعد مشہور قانون دان سر ریڈکلف کی زیرِ صدارت نئی بننے والی ریاستوں کی حد بندی کے لیے بائونڈری کمیشن 8 جولائی 1947 کو ہندوستان بھیجا گیا جِس نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ کیااور اپنی رپورٹ تیار کر کے برٹش وائسرے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کے حوالے کی-سر ریڈکلف ?چئیرمین ?کے نام کی وجہ سے اِس کا نام ریڈ کلف ایوارڈ رکھا گیا جِس کے تحت پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے – یہاں یہ بات واضح کر دی جائے کہ ریڈکلف ایوارڈ کی جو رپورٹ 8 اگست 1947 کو مسلم لیگی رہنمائوں کے حوالے کی گئی اس میں پنجاب کا ضلع گور داسپور پاکستان کا حصہ تھا مگر بعد میں گانگریس اور آخری وائسرئے لارڈ مائونٹ بیٹن کی ملی بھگت سے گورداسپور کو 5 اگست 1947 سے پہلے بھارت میں شامل کرتے ہوئے ریڈکلف ایوارڈ میں تبدیلی کر کے قانونِ تقسیم ہند کی خلاف ورزی کی اور اِس تبدیلی سے مسلم لیگی رہنمائوں کو بے خبر رکھا گیا-
یعنی قانونِ آزادیِ ہند 1947 کو مذکورہ دیسی ریاستوں کو یہ اختیار دیتا تھاکہ وہ:
1۔ ? پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں یا
2۔ ?بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں یا
3۔ اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھیں
برطانوی اور کانگریسی رہنماوں نے ملی بھگت سے اِس قانون کی خلاف ورزی کر تے ہوئے سازش کے تحت ضلع گورداسپورکو بھارت میں شامل کر دیا ۔ بھارت کی چال کا آخری مہرہ کشمیر کے مہاراجہ ِہری سنگھ نے تقسیمِ ہند کے وقت کھیلا جِس نے پاکستان حکومت کے ساتھ سٹیند سٹل ?Standstill? معاہدہ کیا جبکہ دوسری طرف ظلم و ستم میں پسی ہوئی کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے جد و جہد کررہی تھی- مگر جب عوام نے مہارجہ کو ریاست کی حکمرانی سے24 اکتوبر کو باہر نکال پھینکا تو نام نہاد راجہ نے سٹیند سٹل ?Standstill? معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کر کے کشمیر میں بھارتی قبضہ کی راہ ہموار کی اور نتیجتاً بھارت نے اپنی فوجیں 27 اکتوبر1947 کو کشمیر میں بھیج دیں-
کشمیر کا جغرافیہ
تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد
کشمیر کے جغرافیہ کی بات کریں توکشمیر ابتدائی طور پر موجودہ وادی Valley of kashmir? پر مشتمل تھا مگر 1846 میں ڈوگرا مہاراجہ گلاب سنگھ نے کشمیر کو برٹش حکومت سے لیکر اپنی ریاست جموں اور کشمیر میں شامل کر لیا - 1834 ?سکھ دورمیں گلاب سنگھ نے لداخ کو فتح کیا اور ریاستِ کشمیر کا حصہ بنایا- 1840 میں بلتستان کو گلاب سنگھ نے فتح کر کے جموں و کشمیر میں شامل کیا-اٹھارہ سو نوے کو انگریزوں نے گلگت کو سکھوں سے لیکر براہِ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا لیکن بعد میں انتظامی امور بہتر نہ ہونے کی وجہ سے سکھ مہاراجہ پرتاب سنگھ کو اپنی زیرِ نگرانی میں گلگت کے انتظامی امور واپس کیے -پچیس ستمبر انیس سو پچیس کو پرتاب سنگھ کی وفات کے بعد اُن کے خاندان کے مہاراجہ ، مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر سر ہری سنگھ نے گلگت کی حکومت سنبھالی-اِس طرح گلگت بھی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بن گئی انیس سو پینتیس میں برطانوی حکومت نے معاہدے ?Lease Agreement? کے تحت ساٹھ سال کے لیے گلگت ایجنسی کو اپنے کنٹرول میں لے لیا جوکہ ساٹھ سال ہونے سے پہلے سازش کے تحت 1947 ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کو واپس دی گئی- اگر گلگت کا علاقہ برطانوی کنٹرول میں رہتا تو تقسیمِ ہند کے قانون کے تحت مسلم اکثریت ہونے کے ناطے یہ پاکستان کا حصہ ہوتا-لیکن چونکہ کانگریس اور لارڈ مائونٹ بیٹن کشمیر پر بھارتی قبضہ کی راہ ہموار کر رہے تھے تو انہوں نے گلگت ایجنسی کشمیر کو واپس کر کے کشمیر کا حصہ بنا دیاجِس کے بارے میں الیسٹر لیمب نے اپنی کتاب ?Kashmir : A Disputed Legacy 1846-1990) میں لکھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن پر اُمید تھے کہ کشمیر کے رکھوالے کا کردار آخر کار بھارت کے پاس ہی ہو گا- لیکن کشمیر دشمن کبھی کامیاب نہ ہو سکا ?کیونکہ گلگت ایجنسی کے لوگوں نے اپنی قیادت کی وجہ سے مہاراجہ راج سے آزادی حاصل کر لی- برطانوی افسر میجر ولیم برائون ?Head of Gilgit scout? نے اُس وقت کے گورنر بریگیڈئیرجنساراسنگھBrg. Gansara Singh? سے الحاق کے لیے مسلم آبادی کی خواہشات کو مدنظر رکھنے کا کہا مگر گورنر نے ٹھکرایا تو میجر ولیم برائون نے مسلم آبادی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ڈوگرا آرمی کے خلاف بغاوت کر دی اور یکم نومبر کو پاکستان کا سبز ہلالی پرچم گلگت ایجنسی میں لہرا دیا گیا اور تین دن بعد گلگت نے ولیم برائون کی قیادت میں پاکستان کے ساتھ قانونی الحاق کر لیا -
تقسیمِ ہند سے پہلے ریاست جموں وکشمیر وادیِ کشمیر ، پونچھ ، لداخ ، جموں، بلتستان اور گلگت ایجنسی پر مشتمل تھی جبکہ کہ جب تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں کشمیر سب سے زیادہ متاثر ہوئی- ہندوئوں کی سازش اور مہاراجہ کے غیر قانونی فیصلے کی وجہ سے ریاست میں بغاوت نے جنم لیا اور ریاست کئی حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ۔ چوبیس اکتوبر کو کشمیریوں نے ریاست کا بڑا حصہ کنٹرول کر لیا اور مہاراجہ کے سرینگر سے جموں بھاگ جانے کے بعد ایک الگ مسلم ریاست کا قیام کا اعلان کر دیا گیا مگر بھارتی قبضے کے بعد ریاست نے سمٹ کر موجودہ آزاد کشمیر کی صورت اختیار کر لی- گلگت ایجنسی بشمول بلتستان کے لوگوں نے یکم نومبر کو علا قے کو مہاراجہ کی فوج سے آزاد کروایا اور گلگت اور بلتستان میں تبدیل کر دی-لداخ ،وادی، جموں اور پونچھ پر بھارت نے ستائیس اکتوبر ء کو غیر قانونی قبضہ کر لیا اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان ایسی لائن کھینچی جِس سے کشمیر دو لخت ہو گیا اور قریبی رشتے بھارتی لکیر کی بھینٹ چرح گئے جو کہ انسانی سطح پہ کشمیریوں سے ایک بڑا ظلم تھا ۔ کشمیر کا کچھ حصہ سائنو-پاکستان معاہدہ کے تحت چین کے پاس ہے ۔ ?سائنو-پاکستان معاہدہ پاکستان نے چین کے ساتھ سرحد کے تنازعہ پر کیا- چین نے پاکستان کا کچھ حصہ اپنے نقشہ میں شامل کر لیا مگر وضاحت پر کوئی جواب نہ آیا-لیکن اقوامِ متحدہ میں چین کے حق میں ووٹ دینے کے باعث چین نے اپنے نقشوں سے پاکستانی علاقے نکال کر پاکستان کے ساتھ مذکرات کیے اور پاک – سائنو معاہدہ کے تحت پاکستان نے چین کو کشمیر کا کچھ حصہ دے دیااور چائنا نے کچھ چوٹیاں پاکستان کو دیں ? –
کشمیر کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جِس علاقے پر بھارت آج اپنا ناجائز حق جتاتا ہے وہ درحقیقت کبھی بھی کسی بھی طرح سے اس کا حصہ تھا ہی نہیں – یہ انگریزوں اور ہندوئوں کے مذموم عزائم تھے جن کو پورا کرنے کے لیے قانون تقسیمِ ہند میں غیر قانونی تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے بھارت نے اِس سر زمین پر قبضہ کیا،جِس زمین کے ٹکڑے سے بھارت کا کوئی زمینی رابطہ نہ تھا اور نہ کوئی مماثلت-کشمیر میں بسنے والے تقریباً پچہتر فیصد مسلمانوں کا مذہب ، تہذیب و تمدن ، رسومات ہندوئوں سے الگ تھا- یہ ایسی بنیادیں تھی جِس کی وجہ سے مسلمان اور ہندو کبھی ایک نہیں ہو سکے اور نہ ہو سکتے ہیں – کشمیریوں نے مسلم دورِ حکومت کے خاتمے کے بعد کسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اورتقسیمِ ہند کے وقت بھی وہ بھارت کے ساتھ الحاق کے مخالف تھا- مگر جغرافیائی اعتبار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اس حصہ کو تاریخ میں برصغیر کی مرکزی حکومت نے کم ہی کنٹرول کیا ہے سوائے مسلمان حکمرانوں کے جو ایک کامل دلیل ہے کہ یہ خطہِ زمین مسلمانوں سے جڑا ہے – تاریخی ، تہذیبی ، تمدنی ، مذہبی و دینی ، روحانی ، ثقافی ، خونی ، سیاسی ، سماجی اور ہر ایک رشتے کی گہرائی میں کشمیر کا کوئی لنک بھارت سے نہیں بنتا – مذکورہ تمام رشتے جب کسی قوم سے میل و رغبت نہیں کھاتے تو حیرت ہے کہ وہ مُلک کشمیر پہ زبردستی کیوں قابض رہنا چاہتا ہے –
تاریخی و تہذیبی طور پہ کشمیر پاکستان ہے۔کشمیر کو قدرتی طور پاکستان کا حصہ کہا جائے تو بالکل درست ہو گا کیونکہ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کا دل و خون کارشتہ پاکستان کے مسلمانوں سے جڑا ہے – ایک تاریخ ، ایک تہذیب و تمدن ، ایک دین و مذہب ، ایک ثقافت و کلچر ، ایک ہی سماج ، ایک ہی روحانی نصب العین ، ایک ہی خونی رشتہ اور حتیٰ کہ ایک دوسرے سے جڑا باہمی بقا و ترقی کا شاندار مستقبل ، کشمیر اپنی ہر جہت اور اپنے ہر تجزیے میں مکمل طور پہ پاکستان کا حصہ ہے – پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے کیونکہ ‘”پاکستان ” لفظ کا حرف “ک ” کشمیر کو ظاہر کرتا ہے – تقسیم سے پہلے کشمیر میں جانے والا ہر راستہ موجودہ پاکستان کی سرزمین سے جاتا تھا – پاکستان اور کشمیر کا موسم ایک جیسا،یہاں سے بہنے والے دریا پاکستان کی جانب جاتے ہیں اور اس اعتبار سے قدرت نے اس کا تعلق پاکستان سے جوڑا ہے ، پاکستان اور کشمیر کے پہاڑ ایک، کشمیر میں اگنے والے اناج سب سے پہلے پاکستان کے شہروں میں آتا اُسکے بعد ہندوستان میں جاتا- دونوں طرف بسنے والے لوگوں کی تہذیب، مذہب اور رسومات ایک جیسی ہیں – دونوں کی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور ایک ہی نظریہ پر کاربند ہیں –
کشمیر کتنا بڑا ہے؟
کشمیر کا مجموعی رقبہ قریباً دو لاکھ 22 ہزار 236 مربع کلومیٹر ہے۔اس طرح سائز میں یہ ہمارے پنجاب سے کچھ زیادہ اور دنیا کے 113 ممالک سے بڑا ہے۔
کشمیر صرف جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کا نام نہیں بلکہ گلگت بلتستان، لداخ، اکسائی چن، وادی شاکسگم اور سیاچن گلیشیئر بھی کشمیر کا حصہ ہیں۔ اس طرح کشمیر دراصل تین ممالک یعنی انڈیا، پاکستان اور چین میں منقسم ہے۔
کس ملک کے پاس کتنا کشمیر ہے؟
انڈیا: کشمیر کا سب سے بڑا حصہ انڈیا کے پاس ہے جو مجموعی رقبے کا قریباً 46 فیصد بنتا ہے۔ اس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ شامل ہیں۔ انڈیا کے زیرانتظام اس کشمیر کا رقبہ ایک لاکھ ایک ہزار 1387 مربع کلومیٹر ہے۔
1962ء میں چین کے ساتھ جنگ سے پہلے انڈیا کا کشمیر کے ایک لاکھ 38 ہزار 200 مربع کلومیٹر حصے پر دعویٰ تھا۔تاہم اس جنگ میں انڈیا نے قریباً 36 ہزار 813 مربع کلومیٹر علاقہ کھویا۔
انڈیا کے سرکاری نقشوں اور ریاست جموں و کشمیر کی ویب سائٹ پر اس کا رقبہ دو لاکھ 22 ہزار 236 مربع کلومیٹر بتایا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔
اس وقت انڈیا کے زیراہتمام وادی کشمیر کا رقبہ قریباً 15 ہزار 948 مربع کلومیٹر، جموں کا رقبہ قریباً 26 ہزار 293 مربع کلومیٹر اور لداخ کا رقبہ قریباً 59 ہزار 146مربع کلومیٹر ہے۔
تقسیم برصغیر کے موقع پر ماونٹ بیٹن اور نہرو نے کشمیری مہاراجہ کے ریاستی اقتدار کو تحفظ دینے کے بدلے اس سے انڈیا کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا لیے تھے۔اس طرح وادی کشمیر، جموں اور لداخ پر انڈیا کا اقتدار قائم ہو گیا تھا۔
پاکستان: کشمیر کا قریباً 38 فیصد علاقہ پاکستان کے پاس ہے جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔یوں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا مجموعی رقبہ قریباً 84 ہزار 100 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔اس میں گلگت بلتستان کا رقبہ قریباً 82 ہزار 420 جبکہ آزاد کشمیر کا رقبہ ایک ہزار 680 مربع کلومیٹر ہے۔
تقسیم برصغیر کے موقع پر جب کشمیر کا انڈیا سے الحاق کرایا جانے لگا تو چند کشمیری گروہوں نے پاکستانی رضاکاروں، صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے قبائلیوں اور فوج کی مدد سے کشمیر کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا جو اب آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔
گلگت بلتستان تاریخی طور پر تین ریاستوں یعنی ہنزہ، نگر اور گلگلت پر مشتمل رہا ہے۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے ان علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا تھا۔ 1947ء اور 1948ء میں ان علاقوں کے مقامی لوگوں نے گلگت سکاوٹس کے تعاون سے آزادی کی جنگ لڑی اور یہ علاقے ریاست کشمیر سے آزاد کرا لیے۔گلگت بلتستان 17 روز تک آزاد رہا جس کے بعد اس کا انتظام پاکستان نے سنبھال لیا۔
چین: قریباً 16 فیصد کشمیر چین کے پاس ہے جس میں اکسائی چن اور وادی شاکسگم شامل ہیں۔اکسائی چن وہ علاقہ ہے جو چین نے 1962ء کی جنگ میں انڈیا سے لیا تھا۔ یہ علاقہ چین اور انڈیا میں اسی طرح متنازع ہے جس طرح جموں و کشمیر کا علاقہ پاکستان اور انڈیا کے مابین متنازع ہے۔اکسائی چن کا رقبہ قریباً 36 ہزار 813 مربع کلومیٹر ہے۔
اکسائی چن انڈیا کے ساتھ متصل ہے جبکہ اس کا ایک کونا پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان کو بھی چھوتا ہے۔تاریخی طور پر یہ علاقہ لداخ کا حصہ تھا۔لداخ 19ویں صدی میں ریاست کشمیر کا حصہ بنا تھا۔ الگ تھلگ اور ویران علاقہ ہونے کی بنا پر 1950ء کی دہائی تک یہ علاقہ عملی طور پر کسی ملک کے زیرانتظام نہیں تھا البتہ چین اور انڈیا دونوں اس پر اپنا دعویٰ کرتے تھے۔
چین نے اس علاقے میں سڑک بنا کر اپنی فوج بھیجی تو انڈیا نے اس پر اعتراض کیا۔ نتیجتاً 1962ء میں دونوں ملکوں میں اس مسئلے پر جنگ ہوئی جس میں چین نے پورے اکسائی چن پر قبضہ کر لیا۔اب یہ علاقہ چین کے صوبے سنکیانگ کا حصہ ہے۔
چین کے زیرانتظام وادی شاکسگم یا ماورائے قراقرم علاقہ علاقہ پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ اس علاقے کا مجموعی رقبہ قریباً 2700 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان نے 1963 میں ایک معاہدے کے تحت یہ علاقہ چین کو دے دیا تھا۔ اس کے بدلے میں چین نے بھی اپنا کچھ علاقہ پاکستان کو دیا جس کا رقبہ ایک ہزار 942 سے پانچ ہزار 180 مربع کلومیٹر کے درمیان ہے۔
انڈیا اس معاہدے اور اس کے نتیجے میں علاقوں کے تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔
سیاچن گلیشیئر: سیاچن گلیشیئر کوہ ہمالیہ میں مشرقی سلسلہ قراقرم میں اس جگہ واقع ہے جہاں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کی کنٹرول لائن کا اختتام ہوتا ہے۔ سیاچن گلیشیئر کی لمبائی 76 کلومیٹر ہے اور قطبی علاقوں سے ہٹ کر یہ دنیا میں دوسرا سب سے بڑا گلیشیئر ہے۔
1984ء میں انڈیا نے سیاچن پر فوجی کارروائی کے ذریعے قریباً ایک ہزار مربع کلومیٹر پر تسلط جما لیا تھا۔اس کے بعد سے پورے سیاچن گلیشیئر اور اس کے تمام بڑے دروں پر انڈیا کا قبضہ ہے۔سیاچن میں سالتورو نامی پہاڑی ڈھلانوں سے مغرب کی جانب برفانی وادیاں پاکستان کے پاس ہیں۔
سیاچن میں دونوں ممالک کے مابین حدود کا تعین نہیں ہو پایا اور طرفین کی فوجیں سالہا سال سے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔
کشمیر کی آبادی کتنی ہے؟
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پورے کشمیر کی مجموعی آبادی قریباً ایک کروڑ 85 لاکھ ہے۔اس میں انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ جبکہ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی شامل ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو کشمیر آبادی کے اعتبار سے دنیا کے 133 ممالک سے بڑا ہے۔
پاکستان میں آزاد کشمیر کے مردم شماری کمشنر کے مطابق 2017ء میں اس علاقے کی آبادی قریباً 40 لاکھ 45 ہزار 366 تھی۔1998ء کی مردم شماری میں گلگلت بلتستان کی آبادی87 ہزار 347 ریکارڈ کی گئی جو اب قریباً 20 لاکھ ہے۔
انڈیا میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68 لاکھ 88 ہزار 8475، جموں کی آبادی 53 لاکھ 78 ہزار 538 اور لداخ کی آبادی دو لاکھ 74 ہزار 289 نفوس پر مشتمل ہے۔
چین کے زیرانتظام اکسائی چن اور شاکسگام کا شمار غیر آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔یہاں عموماً خانہ بدوش پائے جاتے ہیں جو ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد کے حوالے سے معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
یوں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی مجموعی آبادی 60 لاکھ 45 ہزار 366 جبکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302 ہے۔
کشمیر میں کتنے مسلمان رہتے ہیں؟
پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی 99 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے تین حصوں یعنی جموں، وادی کشمیر اور لداخ کو دیکھا جائے تو وادی کشمیر میں 95 فیصد آبادی مسلمان اور 4 فیصد ہندو ہے۔
جموں میں مسلمانوں کی تعداد 30 فیصد ہے جبکہ 66 فیصد آبادی کا تعلق ہندو اور 4 فیصد کا دیگر مذاہب سے ہے۔
لداخ میں 46 فیصد آبادی مسلمان ہے جبکہ 50 فیصد بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔بقیہ 3 فیصد کا تعلق دیگر مذاہب اور عقائد سے ہے۔
انڈیا میں 2011ء میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کی رو سے جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی موجودہ تعداد 68 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
جس طرح پاکستان جموں و کشمیر پر اپنا دعویٰ کرتا ہے اسی طرح انڈیا بھی آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور چین کے زیرانتظام علاقوں سمیت پورے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ تاہم مسئلہ کشمیر کا اہم ترین فریق کشمیری عوام ہیں جن سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ اپنے خطے کو کس شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
کشمیر کی حیثیت
قانونی طور پر کشمیر بھارت کا حصہ نہیں
کشمیرپر بھارت کا قبضہ مکمل طور پہ غیر قانونی ہے اِس کے دلائل برطانوی منصف ا لیسٹر لیمب نے اپنی کتاب ?Kashmir: A Disputed Legacy, 1846-1990? میں لکھے ہیں ، مصنف کا زیادہ اصرار اِس بات پہ ہے کہ راجہ کی جو دستاویزِ الحاق کہی جاتی ہے وہ مکمل طور غیر قانونی ہے – اس کے بقول دستاویز کے غیر قانونی ہونے کی وجوہات یہ ہیں-
1۔ الحاق غیر قانونی تھا،اس کو Stand Still Agreement کی خلاف ورزی بھی کہا جا سکتا ہے جو کہ ریاست جموںو کشمیر نے پاکستان کے ساتھ کیا اور یہ الحاق تقسیم ِ ہند کا اصولی طریقہ کار کے خلاف تھا-
2۔ مہاراجہ ان وجوہات کی وجہ سے الحاقی دستاویز پر دستخط کرنے کے قابل نہیں تھا-
٭ مہاراجہ چوبیس اکتوبر کو بننے والی ریاست آزادکشمیر پر کنٹرول کھو چکا تھا-
٭ مہاراجہ 26 اکتوبر کو اپنا سمر کیپیٹل سرینگر چھوڑ کے بھاگ چکا تھا اورکسی بھی صورت چھوڑی ہوئی ریاست کا فیصلہ کرنے کا اہل نہیں تھا –
اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے الحاقی دستاویز کے دستخط ہونے سے پہلے ہی اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دی تھیں کیونکہ ریاست پٹیالہ نے مئی ء کو بھارت یونین کے ساتھ الحاق کیا اور اپنی ریاست کا کنٹرول برٹش حکومت کے سپرد کر دیا-جب الحاق کے وقت بھارتی فوج سرینگرائیر پورٹ پر پہنچی تو ائیرپورٹ کی نگرانی پٹیالہ آرمیجو کہ آزادی سے پہلے برٹش آرمی تھی اورآزادی کے بعد بھارت کی فوج کر رہی تھی – پٹیالہ آرمی کی موجودگی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے-
کشمیر میں جارحیت کِس نے پہلے کی؟
– برٹش حکومت اور بھارتی رہنمائوں کے علم میں پٹیالہ آرمی کی کشمیر میں مداخلت کیوں نظرنہیں آئی؟
-اگر بھارتی حکومت کومعلوم تھا تو ستائیس اکتوبر کو الحاق کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
-مہاراجہ کے ذریعے الحاق کر کے مدد کرنا تھا یا پہلے سے موجود فوج میں اضافے سے قبضہ مضبوط کرنا تھا؟
السٹر لیمب کے بقول : پٹیالہ آرمی کا کشمیر میں ا لحاقی دستاویز کے دستخط ہونے سے پہلے موجود ہونا ،کشمیر کے الحاق کے عمل کا مشکوک ہونا اور الحاق کا غیر قانونی ہونا، یہ سب حقائق اِس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بھارتی قبضہ غیر قانونی ہے- کشمیری عوام اورپاکستان نے غیر قانونی الحاقی دستاویز اور ظالمانہ بھارتی قبضہ کو نہیں مانا۔ اَقوام متحدہ نے الحاق کے معاملے کو کشمیری عوام کی اُمنگوں سے حل کرنے کے لیے قرار دادیں پاس کیں ہیں-
قانونی طور پہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے:
کشمیر قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے جِس کے متعلق تاریخ سے ہمیں بے شمار دلائل ملتے ہیں-قانون تقسیمِ ہند کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے – کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے تقسیم ہند کے وقت اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھا اور ریاست کے الحاق کا فیصلہ عوا م کی امنگوں سے کرنے کا کہا مگر قارئین کو بتاتے چلیں کہ کشمیری عوام تو پہلے ہی جولائی کو مسلم کانفرس کی زیرِ قیادت پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کر چکی تھی-مگر جب مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرنا چاہا تو عوام نے 24 اکتوبر کو مہاراجہ کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے آزاد ریاست کا اعلان کر دیا جِس کا الحاق وہ 19 جولائی 1947 کو پاکستان کے ساتھ کر چکے ہیں –
قانو ن تقسیم ِہند کے تمام قواعد جِن کے تحت تقسیمِ ہند ہو رہی تھی وہ اِس بات کا ثبوت ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے – جیسا کہ مسلم اکثریتی آبادی، کشمیر کا پاکستان سے واحد زمینی رابطہ اور بقاء کے لیے کشمیر اور پاکستان کا ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوناشامل ہیں- لہٰذا قانونِ تقسیم ہند کے تحت کشمیری عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا یہ الگ بات ہے کہ مہاراجہ اور برٹش انڈیا کی حکومت نے عوام کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے غیر قانونی و ظالمانہ قبضہ کر لیا-
کشمیریوں کی الحاقِ پاکستان کی جد و جہد:
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ کشمیر کی جدوجہد ڈوگرا دورِ حکومت میں نہیں بلکہ سکھوں کے دورِ حکومت سے شروع ہوئی مگر وہ جدوجہد صرف حقوق کی جنگ تھی مگر جب برِّصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تو کشمیر کی جدوجہدکا ایک نیا باب کھلا جِس نے حقوق کی جنگ کو آزادی کی جنگ میں تبدیل کر دیا- کشمیری عوام بھی برصغیر کے مسلمانوں سے ملکر پاکستان کا مطالبہ کرنے لگے مگر ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے جو جدوجہد کی آگ میں ایندھن کا کام کرتے گئے اور آخر کار تقسیم ِ ہند کے وقت جب ان کو آزادی سے محروم کیا جا رہا تھا تو کشمیریوں نے خود عملی اقدامات کرتے ہوئے مہاراجہ سے آزادی حاصل کر لی-
کشمیری عوام کا خوابِ آزادی اْس وقت ادھورا رہ گیا جب کشمیر پر بھارت نے فوج کشی کی اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا،صرف جموں میں تقریباً دو لاکھ مسلمان شہید کئے گئے-مگر یہ قبضہ بھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ختم نہ کر سکا اور آج بھی کشمیری عوام بھارتی مظالم کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے – کشمیر کی پاکستان سے الحاق کی جدوجہد نسل در نسل چلی آ رہی ہے اور چلتی رہے گی کیونکہ کشمیر یوں نے جو آزادی کا دِیا اپنے خون سے جلایا ہے ،جب تک اْس کی روشنی پورے کشمیر کو روشن نہیں کرے گی کشمیری اپنا خون دیتے رہیں گے۔
ستر سال گزرنے کے باوجود کشمیریوں کا پاکستان کے لئے جوش و جذبہ کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے اور اس کا ایک ثبوت مختلف اوقات میں کشمیر کے مختلف علاقوں میں پاکستانی جھنڈا لہرایا جانا ہے،کھیلوں میں پاکستان کی فتح پر جشن اوراپنے ہر جلسہ و جلوس میں پاکستان کی سلامتی کی دعا کرنا قابضین کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے-
پاکستان کشمیریوں کے مقدمہ کا وکیل:
ہندوستان میں جدوجہد ِ آزادی قائد اعظم کی قیادت میں شروع ہوئی اور تب ہی سے وہی قیادت جو ہندوستان میں مسلمانوں کی وکیل تھی پاکستان بننے کے بعد کشمیر کے حقوق کے لیے وکالت شروع کی- بھارت جب مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا تو پاکستان کشمیری رہنمائوں اور کشمیر کی آوازبن کر اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پہنچ گیا اور قائد اعظم کی سوچ اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں اپنے دلائل دیے- پاکستان نے مسئلہِ کشمیر کو دنیا کے سامنے ایک المیہ انسانی حقوق کی صورت میں پیش کیا اوردُنیا کو باور کروایا کہ بھارت نے کِس طرح مسلمانوں کا حق چھینا اور ان کے علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیا-
گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاکستان نے اس کیس کو ہمیشہ عالمی فورمز پر اٹھایا ہے اور حتیٰ کہ 1971 ء میں دو لخت ہونے کے باوجود اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور ان کی قانونی، اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھی – دُشمن پاکستان کے اند ر اتنی نفرت پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستانی عوام و حکومت کشمیر جیسے مسئلے پر بات نہ کر سکے مگر کشمیری بہن بھائیو ں کی طرح پاکستانیوں کا جذبہ بھی کبھی ماند نہیں پڑے گا- اسی طرح آج بھی پاکستان کشمیر کی آواز بن کر دنیا کے سامنے کشمیریوں کے مسائل کو بلند کر رہا ہے کیونکہ بغیر حقیقت اور اچھے دلائل کے دُنیا آپ کا ساتھ نہیں دے گی اور اکیلے آپ اِس قانونی جنگ کو نہیں جیت سکتے اِس لیے ہمیں قائد اعظم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دلائل کو مضبوط کرنے اور اپنے حق کے لیے قانون کی بہتر سمجھ بوجھ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ تشدد کا راستہ آپ کو مزید الجھنوں میں ڈال سکتا ہے-
–
کشمیر موجودہ صورتحال
اور کشمیریوں کی جدوجہد
بھارت نے کشمیر میں امن اور اِس مسئلہ کے حل کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں ہی نہیں کی بلکہ بہانے بہانے سے کشمیر کے ماحول کو خراب کر کے الزام پاکستان پر ڈال دیتا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے چار جنگیں 1948،1965،1971اور 1999 لڑی ہیں جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق مسئلہ کشمیر سے تھا - دنیا کے بڑھتے ہوئے ہوئے دبائو کے پیشِ نظر بھارت کشمیریوں کا حق زیادہ دیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا-جیسے برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کو حقِ خودارادیت موقعہ فراہم کیا اِسی طرح ایک دِن بھارت کو بھی کشمیر یوں کو دینا پڑے گا - مسلم اکثریتی آبادی بھارتی بنیا کے پریشانی کا باعث ہے جِس کے لیے بھارت قبضے کی آڑ میں ایسے کالے قوانین لایا جِن کے تحت کشمیریوں کے ساتھ ایسارویہ اپنایا جاتا ہے جو شائد جانوروں کے ساتھ بھی نہیں اپنایا جاتا -
بھارتی حکومت کشمیریوں کا بنیادی حق ، حقِ خود اِرادیت زیادہ دیر تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتا یہ بات بھارت بھی جانتا ہے جِس کے لیے اسے کشمیر میں ہندئو اکثریت چاہیے-اِس مقصد کے لیے ایک طرف بھارتی فوج کشمیریوںکی نسل کشی کر رہی ہے تو دوسری طرف بھارت کشمیر کے مخصوص مقامSpecial statusھارتی آئین کاآرٹیکل 360کشمیر کو بھارت میں مخصوص مقام دیتا ہے-جِس کے تحت بھارت نہ تو ریاست جموں و کشمیر کے آئین میں تبدیلی کر سکتے ہیں اور نہ ہی بھارت کاکوئی شہری ریاستِ جموں و کشمیر میں کاروبار کر سکتا ہے اور نہ ہی زمین خرید سکتا ہے ? کو ختم کرتے ہوئے ہندو آباد کاری کے ذریعے کشمیر کی آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے – اگر بھارت اِس سازش میں کامیاب ہو گیا جو کہ ناممکن ہے تو کشمیر میں ریفرنڈم کے ذریعے وہ کشمیر پر قانونی قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا-اِس لحاظ سے کشمیریوں کو اپنے حقوق،آزادی اور شناخت ہر محاذ پر جنگ کرنی پڑ رہی ہے اور بطور وکیل پاکستان کو مسئلہِ کشمیر کے ہر پہلو سے دنیا کو آگاہ کرنا ہو گا تاکہ بھارت اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے- بھارت اپنی تمام تر تخریبی ذہنیّت کے با وجود کشمیریوں کو نہیں دَبا سکا ، بلکہ بھارت میں اُٹھنے والی آزادی کی دیگر آوازوں کو بھی نہیں دبا سکا – ایک امر جس کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ کشمیر علیحدگی کی تحریک نہیں بلکہ آزادی کی تحریک ہے ، کیونکہ کشمیریوں نے ایک لمحہ کیلئے بھی ہندوستان کے قبضہ کو تسلیم نہیں کیا ، علیحدگی تو تب ہو جب انہوں نے کبھی تسلیم کیا ہو – اِس لئے کشمیری روزِ اوّل سے آزادی اور حریت اور حقِّ خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں –
بھارت کی دیگر علیحدگی پسند تحریکیں:
تقسیم ہند کے وقت ہندو سوچ اورآخری وائسرائے لارڈمائونٹ بیٹن کے اقتدار نے مہا بھارت کا جو نعرہ و عَلم بلند کیا اُس کے نیچے ریاستوں کے مہاراجوں نے جمع ہونا شروع کر دیا اور جو نہیں آنا چاہتے تھے ان کو زبردستی اُس پرچم کے نیچے اکٹھا کیا گیا تو انہوں نے بھارت کی حکمرانی تسلیم کر لی-
بھارت کے قیام سے اب تک وقتاًفوقتاً کئی علیحدگی پسند تحریکوں نے بھارتی ہندوئوں وحکومت کی ناانصافیوں،نظریاتی ،مذہبی و معاشرتی تفریق اور حقوق کی عدم فراہمی سے تنگ آ کر سیکولر بھارت کو ٹھکراتے ہوئے اپنی الگ آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا – ان تحریکوں کی تعداد تقریباً سا ٹھ سے زیادہ ہے جن میں کچھ نے حقوق?مقامی سطح پر? اور کچھ نے ?قومی سطح ? آزادی کے نعروں سے زور پکڑا-
قومی سطح پرسب سے بڑی علیحدگی پسندسکھوںکی تحریکِ خالصتان ہے جِس کا مطالبہ مشرقی پنجاب پر مشتمل ایک الگ آزاد ریاست خالصتان کا قیام ہے- یہ تحریک بھارتی حکومت و ہندوئوں کی سکھوں کے ساتھ ناانصافیوں کی وجہ سے ابھری اورگولڈن ٹیمپل ?Golden Tample? میں سکھوں کی قتل و غارت و سکھوں کی مذہبی مقام کی بے حرمتی کے بعد اس نے زور پکڑ ا اور آج بھی بھارت میں رہنے والے سکھ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں-
بھارت کے شمال مشرق میں سات بہنوں ?Seven Sister states?کے نام سے مشہور ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہیں جہاں عیسائی ، برمی اور تبتین اکثریت میں ہیں-جن میں صوبہ آسام میں چونتیس علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں جن کا مطالبہ بھی آزادی ہے- اسی طرح ناگالینڈ کے ناگل باغی بھی حکومتِ بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں – مانی پور اور تری پورا کی تحریک ِ آزادی بھی قابلِ ذکر ہے-
بھارت ایک طرف تو خطہ کی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر دوسری طرف جگہ جگہ سے سر اٹھاتی علیحدگی پسند تحریکیں جو اس کے اپنے وجود کیلئے خطرہ ہیں –
ایک تو بُنیادی تصور یہ واضح کر لینا چاہئے کہ بھارت موجودہ نقشہ کے ساتھ کبھی بھی دُنیا میں نہیں رہا ، متحدہ بھارت کا تصور محض فریب ہے کیونکہ تاریخ میں بھارت ہمیشہ کسی طاقتور کے پنجہ طاقت میں متحد رہا ، جیسے ہی وہ طاقت ہٹی بھارت کے ٹکڑے ہو گئے – اشوکا ، سکندر ، مغل اور انگریز سب اِسی بات کی زندہ مثالیں ہیں کہ بھارت کے متحد ہونے کی وجہ کسی طاقت کا اپنا مفاد ہوتا ہے ورنہ قومی طور پہ اتحاد کا کوئی فلسفہ موجودہ بھارت میں موجود نہیں – مختلف رنگ و نسل ،مذہب و ثقافت ، شناخت و سوچ ?نظریہ?،علاقہ و قوم کے لوگوں کو ہندو انتہا پسند ذہنیت کیساتھ اتنے متنوع معاش کے ساتھ زیادہ دیر یکجا رکھنا ممکن نہیں-کسی ملک میں کچھ لوگوں کا تضاد تو ہو سکتا مگر ہم بھارت کی بات کریں تو ہمیں ہر صوبے میں تقریباً علیحدگی پسند تحریک کا وجود دیکھتے ہیں اورہندو ذہن جو خون کی ہولی کشمیر، پنجاب ، گجرات ، حیدر آباد اور شمال مشرق کی ریاستوں میں کھیل رہا ہے اُس کی آگ آہستہ آہستہ پورے بھارت میں پھیل رہی ہے جسے بھارتی میڈیا ظاہر نہیں کرتا اور حکومت پاکستان پر الزام لگا کر حقیقت سے دوربھاگتا ہے اوربھارت جد و جہدِ کشمیر کو اس لئے بھی دباتا ہے کہ اگر ایک تحریکِ آزادای کامیاب ہوئی تو یہ سلسلہ چل نکلے گا اور بھارتیوں کیلئے باقی ریاستوں میں روکنا ناممکن ہو جائے گا – لیکن کشمیر انشااللہ آزاد ہو کر رہے گا اور اسی طرح غاصب بھارت کے ٹکڑے ہونا نوشتہ دیوار ہے –
آزادی کشمیر کی تحریک کا روشن مستقبل:
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ شہیدوں کا خون رنگ لاتا ہے جیسا علامہ صاحب فرماتے ہیں-
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹْوٹا تو کیا غم ہے
کہ خْونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سَحرپیدا
کشمیری عوام اپنے حق ?حقِ خودارادیت کے لیے جِس جوش وجذبہ کا مظاہرہ کیا ہے اور کر رہی ہے یہ اُس کامیابی کی ضامن ہے جِس کے لیے کشمیری دہائیوں سے خون دے رہے ہیں- کشمیری عوام بھارتی مظالم کو بروئے کار لائے بغیر اپنی جدوجہد کو پوری دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور اِس تحریک کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے چلے جا رہے ہیں۔اور وہ دن دور نہیں جن کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع ضرور ملے گا۔
تقسیم ہند اورتنازعہ کشمیر کا بیج
تعارف:
اس حصے میں 1947 کے ان حالات و اقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں لائی جا رہی تھی۔ اور یہ وہ وقت تھا جب کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا۔ ان حالا ت و واقعات کی مزید تفصیل مندرجہ ذیل کتب میں پڑھی جاسکتی ہے۔
راجہ ابرار احمد
تقسیم ہند اور
تنازعہ کشمیر کا بیج
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ بیٹھے ہوئے دہلی سے سری نگر آنے سے پہلے سردار پٹیل کے ساتھ ہونے والی وہ خفیہ گفتگو یاد آئی جس کی وجہ سے وہ اب کشمیر آئے تھے۔ مائونٹ بیٹن کو احساس تھاکہ وہ بہت اہم مشن پر سری نگر آئے ہوئے ہیں اور وہ اس مشن کی ناکامی افورڈ نہیں کر سکتے۔
ہری سنگھ معمولی راجہ نہیں تھا۔ وہ ایک ایسی ریاست کا راجہ تھا جو اسے باپ دادا سے ملی تھی جہاں پاکستان، ہندوستان، چین اور تبت کی سرحدوں نے ملنا تھا۔ راجہ ہری سنگھ اور مائونٹ بیٹن کی یہ پہلی ملاقات نہیں تھی۔ مائونٹ بیٹن کو یاد آیا وہ برسوں پہلے اسی کشمیر میں پرنس ویلز کے ساتھ آیا تھا اور انہوں نے یہاں سرسبز میدانوں میں پولو اکٹھے کھیلی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے راجہ اور وائسرائے کو اپنی جوانی کے وہ دن یاد آئے جب دونوں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر سوار تھے۔ وہ اپنے گھوڑوں کی سموں کی آوازیں آج بھی محسوس کر سکتے تھے۔
مائونٹ بیٹن کی جانب سے آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں موجود 565 ریاستوں کے راجوں مہاراجوں میں تھرتھلی مچ گئی تھی۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن انہیں اپنی ریاستوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے انہوں نے جو ٹائٹل پہلے برٹش حکومت کو سرنڈر کیے تھے اب دوبارہ بھارتی یا پاکستانی حکومت کو سرنڈر کرنا ہوں گے۔ ان کے لیے یہ خیال ہی قیامت سے کم نہ تھا کہ وہ اب اپنی اپنی ریاستوں کے عوام کے سیاہ و سفید کے مالک نہیں ہوں گے بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ غالباً پاکستان یا ہندوستان میں ان پر مقدمے چل سکتے تھے اور انہیں عام لوگوں کی طرح ٹرائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ ان کی تمام مراعات اور عیاشیاں ختم ہونے جارہی تھیں۔ بہت سارے راجے بٖغاوت پر اترے ہوئے تھے اور وہ اتنی آسانی سے انگریز سرکار کی تقسیم سے خوش ہونے والے نہیں تھے۔ وہ سب چاہتے تھے وہ اسی طرح آزاد رہیں جیسے انگریز حکومت کی وفاداری کا حلف اٹھانے سے پہلے وہ تھے۔ ان راجوں کا ایک وفد مائونٹ بیٹن سے بھی ملا تھا جس میں انہوں نے جہاں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا وہیں انہوں نے فرنگی سرکار کو اپنی ان خدمات کا بھی حوالہ دیا تھا جو وہ ان برسوں میں انجام دیتے آئے تھے۔ وہ راجے اب چاہتے تھے کہ جب انگریز ہندوستان سے واپس جا رہا ہے تو کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ انہیں پاکستان یا ہندوستان کے درمیان بانٹ کر چلا جائے اور وہ تخت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ راجے چاہتے تھے کہ واپس جاتے ہوئے گورے ان کا وہی سٹیٹس بحال کرکے جائیں جو ان کے آنے سے پہلے تھا۔ بہت سارے راجوں مہاراجوں کو مائونٹ بیٹن ذاتی طور پر جانتا تھا۔ کچھ تو اس کے بہت قریبی دوست تھے۔ جب وہ پرنس آف ویلز کے ساتھ برسوں پہلے ہندوستان آیا تھا تو وہ بہت ساری ریاستوں میں ان راجوں مہاراجوں اور شہزادوں کا مہمان بنا رہا تھا۔ اس نے ان کی ریاستوں میں بہت اچھا وقت گزارا تھا۔ ان راجوں کے ہاں اس نے ہاتھی کی پیٹھ پر بیٹھ کر شکار کھیلے تھے، زبردست قسم کی دعوتیں اڑائی تھیں۔ اور تو اور ایک راجے کے ہاں تو اس نے ایک انگریز گوری کے ساتھ بال روم میں ڈانس بھی کیا تھا جس کے بعد اس نے شادی کر لی تھی۔
شاید یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے یہ راجے مہاراجے، پٹیالہ کے مہاراجہ کے ہاں اکٹھے ہوئے تھے جہاں انہوں نے وائسرائے پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ اگر ہندوستانی سیاستدان ہندوستان کو تقسیم کر سکتے ہیں تو وہ راجے مہاراجے ہندوستان کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان راجوں کے ذہن میں تھا کہ اگر ان کی نہ مانی گئی تو پھر وہ اپنی اپنی ریاستوں کی آزادی کے لیے اپنے ہاں نسل، مذہب، قوم، زبان، رنگ کی جنگ کو ابھار کر پورے ہندوستان میں آگ لگا سکتے ہیں۔ ان شہزادوں کے پاس اپنی پرائیویٹ آرمی تھی جیٹ جہاز تھے، اور سب سے بڑھ کر یہ لوگ ہندوستان میں ریلوے لنکس، کمیونیکیشن سسٹم کو ناکارہ کرکے انتشار پھیلا سکتے تھے۔ ٹیلی فون، ٹیلی گرام سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اور تو اور یہ کمرشل فلائٹس کو بھی ڈسٹرب کر سکتے تھے۔
اب وائسرائے کیلئے ان کی دھمکیوں کے آگے جھک جانے کا مطلب تھا کہ پورے برصغیر کو ہی ایک ایسے آتش فشاں پر چھوڑ دیا جائے جو پھٹ کر پورے ہندوستان پاکستان کو تباہ کر سکتا تھا۔ سینکڑوں ریاستیں کیسے ایک ساتھ رہ سکتی تھیں خصوصاً جب ان کے ایک دوسرے سے شدید اختلافات ہوں اور جن کا رنگ، نسل، مذہب، زبان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ یہ ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور چین یقینا اس سے خوش ہوگا اس لیے چین بھی گوروں کے ذہن میں تھا۔
اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے وائسرائے ہند نے جو پلان بنا کر لندن بھیجا تھا وہ کچھ ترامیم کے ساتھ واپس بھیجا جا چکا تھا۔ مائونٹ بیٹن کے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ وہ یہ پلان نہرو کو دکھا دیں۔ لارڈ مائونٹ بیٹن عمر بھر اپنے اندرونی وجدان پر بھروسہ کرتا آیا تھا اور اس کے خدشات ہمیشہ درست نکلتے تھے۔ نہرو کو وہ پلان دکھانے سے پہلے مائونٹ بیٹن نے اپنے سٹاف کے ساتھ یہ بات شیئر کی تو وہ دہشت زدہ ہو گیا۔ سٹاف نے وائسرائے کو بتایا کہ یہ بہت خطرناک آئیڈیا ہے۔ اگر اس کی بھنک مسلمانوں کے راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کو پڑ گئی تو سارا پلان خطرے میں پڑ جائے گا۔ مسلمان یہ سمجھیں گے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے وائسرائے نے نہرو اور کانگریس کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کا پلان بنا کر اس کی منظوری لندن سے لے لی ہے۔
وائسرائے ہند بڑے غور سے اپنے سٹاف کے خدشات سنتا رہا جو اسے روک رہے تھے کہ اسے ہندوستان کی تقسیم کا پلان نہرو کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اپنی انگلیاں اپنے سامنے پڑی میز پر دھیرے دھیرے بجا کر گہری سوچ میں غرق رہا۔
جب اس کے سٹاف نے وہ سب باتیں کر لیں تو وائسرائے بولا: آپ سب لوگ درست ہیں۔ عقل کا یہی تقاضا ہے کہ یہ پلان نہرو کو نہیں دکھانا چاہیے۔ اس سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کی باتوں میں بہت وزن ہے۔ پھر وائسرائے نے گہری سوچ سے نکلتے ہوئے کہا: وہ عمر بھر اپنی اندرونی آوازوں کو سنتا آیا ہے اور اب کوئی اندرونی آواز کہہ رہی ہے کہ اسے پلان نہرو کو دکھا کر اس کی رائے لینی چاہیے۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کا بار بار اپنے گمان کی طرف اشارہ دراصل فروری 1941ء کے حوالے سے تھا جب وہ جنگ عظیم دوم کے دوران برٹش نیوی کو کمانڈ کر رہا تھا۔ وہ اپنے بحری جہازوں کو Bicay کے ذریعے جبرالٹرز کی طرف جا رہا تھا جب انہیں اطلاع ملی کہ دو جرمن بحری جہاز بھی Saint Nazire کی طرف جا رہے ہیں۔ انہیں کہا گیا کہ وہ ان جرمن جہازوں کو پکڑیں۔ اس پر لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنے عملے کو Brest کی طرف رخ موڑنے کا کہا۔ عملے نے احتجاج کیا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ جرمن بحری جہازوں کو Saint Nazire کے ذریعے جا کر پکڑیں نہ کہ Brest کی جانب سے۔ اس پر مائونٹ بیٹن نے کہا: میرا وجدان کہتا ہے کہ ہمیں Brest جانا چاہیے۔ میں اگر ان جرمن بحری جہازوں کا کپتان ہوتا تو میں سورج ڈوبنے کے بعد Saint Nazire کا روٹ نہ لیتا بلکہ Brest کے روٹ کو ترجیح دیتا۔ وہی ہوا۔ مائونٹ بیٹن اپنے جہازوں کو اسی طرف لے گیا اور جرمن جہاز وہیں سے گزر رہے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ اب ایک دفعہ پھر لارڈ مائونٹ بیٹن کا وجدان کہہ رہا تھا کہ اسے لندن پلان سامنے لانے سے پہلے نہرو کو خفیہ طور پر یہ پلان پڑھوانا چاہیے۔ اسی رات مائونٹ بیٹن نے نہرو کو اپنی سٹڈی میں بلایا اور لندن پلان کا ایک مسودہ اس کے حوالے کرکے کہا: اسے پڑھیں اور بتائیں اگر اسے اوپن کیا جائے تو کانگریس کا کیا ردعمل ہوگا؟ نہرو نے خود کو بہت اہم تصور کیا کہ وائسرائے ہند اسے وہ مسودہ دکھا رہا تھا جو ابھی تک کسی اور کے پاس نہیں تھا۔ نہرو خوشی خوشی مسودہ گھر لے گیا اور رات کو ہی اسے پڑھنا شروع کر دیا۔
جوں جوں نہرو تقسیم کا مسودہ پڑھتا گیا اور کا رنگ فق ہوتا چلا گیا ۔ جب نہرو آخری صفحے پر پہنچا تو وہ تقریباً چیخ پڑا کہ یہ لارڈ مائونٹ بیٹن ہندوستان کی تقسیم کا کیاخوفناک منصوبہ بنا کر بیٹھا ہے۔
نہرو نے سوچا بھی نہ تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اس طرح کا منصوبہ بنا کر بیٹھا ہے جس کے مطابق وہ ہندوستان میں دو نہیں بلکہ درجن بھر آزاد ملک چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔
اس پلان کے تحت لارڈ مائونٹ بیٹن نے طے کیا ہوا کہ پاکستان کے علاوہ بنگال بھی آزاد ملک بنے گا۔ نہرو یہ سوچ کر ہی کانپ گیا کہ وہ بھارت جس کی آزادی کے لیے سب لڑتے رہے تھے اس کا اہم علاقہ ایک آزاد ملک بنے گا؟ بنگال جو ہندوستان کا دل تھا ہمیشہ کے لیے اس کے سینے میں ایک آزاد ملک بن کر پیوست رہے گا۔ بنگال کوکھونا وہ کیسے افورڈ کر سکتے تھے؟ کلکتہ ایک تاریخی ساحلی شہر اور اس کے کارخانے، ملیں، سٹیل ورکرز سب کچھ ہندوستان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر کشمیر، جہاں وہ پیدا ہوا تھا وہ اب آزاد ریاست کے طور پر ہندوستان کے ایک کونے میں جنم لے گا اور اس پر ہری سنگھ جیسا راجہ راج کرے گا جس سے وہ نفرت کرتا تھا۔ اور اس سے بڑھ کر لارڈ مائونٹ بیٹن کے پلان میں یہ بھی شامل تھا کہ ہندوستان کے دل میں حیدر آباد دکن کی شکل میں ایک آزاد مسلمان ریاست بنائی جائے گی۔ ان کے علاوہ اس پلان میں چند اور بھی شاہی ریاستیں شامل تھیں جنہیں لارڈ مائونٹ بیٹن پلان کے تحت آزادی ملنا تھی۔
نہرو کو سمجھ آ رہی تھی کہ انگریز جان بوجھ کر ہندوستان کو درجنوں نئے ملکوں میں بانٹ رہے تھے تاکہ وہ کبھی ایک طاقتور ملک کے طور پر نہ ابھر سکے ہمیشہ یہ چھوٹے موٹے ملک آپس میں لڑتے رہیں اور کمزور رہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان کو تین سو سال تک تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول پر چلایا تھا اور اب ہندوستان کو چھوڑنے سے پہلے کمزور کرکے جارہے تھے۔ اب انگریزوں کا نیا منصوبہ تھا بانٹو اور چھوڑ دو۔
نہرو نے اپنے ہاتھ میں مائونٹ بیٹن کا دیا ہوا مسودہ پکڑا اور اپنے قریبی معتمد خاص کرشنا مینن کے بیڈ روم میں گیا جو اس کے ساتھ شملہ گیا ہوا تھا۔ انتہائی غصے کی حالت میں نہرو نے وہ مسودہ اس کے بستر پر پھینکا اور بولا سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کو اپنے دوست نہرو کے اس سخت ردعمل کا اندازہ اگلی صبح ہوا جب اسے ایک خط ملا جو نہرو نے اسے لکھا تھا۔ اس خط کو پڑھ کر لارڈ مائونٹ بیٹن کو یوں لگا جیسے اس پر کسی نے بم دے مارا ہو۔ وہ یہ توقع رکھے پوری رات سکون سے سوتا رہا تھا کہ اس نے نہرو کو جو پلان پڑھنے کو دیا تھا وہ نہرو کو پسند آئے گا اور نہرو جا کر کانگریس کو بھی اس پلان پر قائل کر لے گا اور یوں وہ یعنی لارڈ مائونٹ بیٹن جسے لندن سے خصوصاً بھیجا گیا تھا کہ اس نے انیس سو اڑتالیس تک ہندوستان کو آزاد کرنے کا پلان منظور کرنا ہے وہ کام جلدی نمٹا لے گا اور دوبارہ سمندری پانیوں میں لوٹ جائے گا۔ وہ کام جو اسے بہت پسند تھا۔ جب مائونٹ بیٹن نے وہ خط پڑھنا شروع کیا تو اسے یوں لگا کہ اس نے پچھلے چھ ہفتوں میں اپنے تئیں بڑی محنت اور عرق ریزی سے جو پلان تیار کیا تھا اور ایک ڈھانچہ بنایا تھا نہرو نے ایک ہی ہلے میں اس کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اسے اپنی ساری محنت اکارت جاتی نظر آئی۔ نہرو نے انتہائی سخت الفاظ میں اس سارے پلان کو مسترد کر دیا تھا۔ نہرو نے لکھا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن کے اس پلان نے نہ صرف اسے خوفزدہ کر دیا بلکہ اسے یقین ہے کہ اگر وہ کانگریس کے ساتھ یہ شیئر کرے تو وہ اس پلان کو اس سے بھی زیادہ برے طریقے سے مسترد کر دے گی۔
جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہرو کا وہ خط ختم کیا تو اسے لگا کہ اس نے اب تک جو خود کو اور پوری دنیا کو یہ یقین دلایا ہوا تھا کہ اس کے پاس ہندوستان کی آزادی کا پلان ہے اور اگلے دس دنوں میں وہ سب کو اس پلان پر راضی کر لے گا، وہ سب غلط فہمی تھی۔ نہرو کے سنگین اعتراضات کے بعد مائونٹ بیٹن کو یوں لگا کہ جس پلان کو وہ دنیا کے سامنے لانا چاہتا تھا اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ مائونٹ بیٹن یہ پلان برطانوی وزیراعظم ایٹلی کو بھیج چکا تھا پوری کابینہ اس پلان پر اپنے اجلاس میں بحث کررہی تھی اور اس بارے میں مائونٹ بیٹن وزیراعظم کو بتا چکا تھا کہ وہ ہندوستانیوں کو اس پر راضی کر لے گا۔ اب اسے پتہ چلا کہ پورے ہندوستان کو چھوڑیں وہ تو محض کانگریس کو اس پلان پر راضی نہیں کرسکا تھا۔
تو کیا لارڈ مائونٹ بیٹن کو خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا کہ اس نے ہندوستان کی آزادی کا پلان بنایا، اسے لندن بھیج دیا اور نہرو کو کل رات اس کی کاپی دے کر رات کو سکون سے سو گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ اس کا خیال تھا کہ وہ جس کام کے لیے ہندوستان بھیجا گیا تھا وہ مشن پورا ہو جائے گا اور وہ دوبارہ اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹ جائے گا۔ وہ اب تاریخ میں وائسرائے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے جنگ عظیم دوم کے بعد مسائل میں پھنسے برطانیہ کو ہندوستان سے بڑے آرام اور عزت کے ساتھ نکال لیا تھا؟ اس کا نام تاریخ میں عزت سے لکھا جائے گا؟ تو کیا خود پر زیادہ اعتماد لارڈ مائونٹ بیٹن کو لے ڈوبا تھا؟
لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن ایک عام انسان نہ تھا جو نہرو کے اس سخت خط کے بعد شدید مایوسی کا شکار ہو جاتا اور کسی کیفے یا بار میں بیٹھ کر کڑھتا رہتا کہ اس کا چھ ہفتے کی محنت سے بنایا ہوا پلان مسترد ہو گیا ہے اور وہ اب برطانوی حکومت اور دنیا بھر کو کیا منہ دکھائے گا کیونکہ اس نے دس دن بعد یہی پلان سامنے لانا تھا جو مسترد ہو چکا تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے سب سے پہلے خود کو مبارک باد دی کہ ایک دفعہ پھر اس کا وجدان درست نکلا تھا۔ اس نے سوچا شکر ہے اس نے وہ مسودہ نہرو کو دے دیا کہ وہ پڑھ لے۔ اگر وہ یہ منصوبہ برطانوی حکومت سے منظوری کے بعد سامنے لاتا اور اس کو کانگریس مسترد کر دیتی تو یقینا اسے بہت پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا اور ایک نیا بحران پیدا ہو جاتا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے خود کو سنبھالا اور سوچنے لگ گیا کہ اب فوری طور پر اسے کیا کرنا چاہیے تاکہ جو نقصان ہو چکا تھا اس کا ازالہ کیا جا سکے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کو یہ تسلی تھی کہ اس بم شیل کے باوجود اس کی نہرو سے دوستی بچ جائے گی۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے فوراً ایک پیغام نہرو کو بھیجا کہ وہ فوری طور پر دلی واپس نہ جائے بلکہ ایک رات وہ مزید شملہ میں ٹھہر جائے۔ نہرو ایک رات مزید ٹھہرنے پر رضامند ہو گیا۔ طے ہوا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہرو اکٹھے بیٹھ کر اس پلان پر غور کریں گے اور نئے سرے سے پلان بنے گا اور ان خامیوں کو نکالا جائے گا جن پر نہرو کو اعتراض تھا۔ اس نئے پلان کے تحت ہندوستان کی تمام ریاستوں اور صوبوں کو ایک ہی آپشن دیا جائے گا۔ پاکستان یا ہندوستان۔
نہرو اور لارڈ مائونٹ بیٹن اس رات اکٹھے ہوئے۔ دونوں کے درمیان شملہ میں طے ہوا کہ بنگال آزاد نہیں ہوگا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ جناح کے پاس جو دو علاقے یا ریاستیں جا رہی ہیں وہ زیادہ دیر تک پاکستان میں نہیں رہ سکیں گی۔ کچھ عرصے بعد مائونٹ بیٹن نے اپنے دوست راج گوپال کو کہا تھا کہ مشرقی بنگال پچیس سال کے اندر اندر پاکستان سے الگ ہو جائے گا۔ انیس سو اکہتر کی جنگ نے مائونٹ بیٹن کی اس پیش گوئی کو درست ثابت کر دیا تھا۔
ایک دفعہ جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے طے کر لیا وہ اب نہرو کے پلان پر چلے گا تو انہوں نے ایک ایسے افسر کو اپنی سٹڈی میں بلایا جو اس پلان کو بیٹھ کر لکھے۔ اس کی ایسی کہانی تھی جس نے لارڈ مائونٹ بیٹن تک کو متاثر کیا تھا۔
وی پی مینن کون تھا؟ اس کے پاس نہ آکسفورڈ یا کیمبرج کی ڈگری تھی نہ ہی وہ انڈین سول سروس کا افسر تھا اور نہ ہی وہ سیاسی خاندان سے تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن جیسا بندہ اس سے متاثر ہوتا؟ اہم سوال یہ تھا کہ وی پی مینن کون تھا جو نئے وائسرائے ہند کا اعتماد جیت کر اب اس کے ساتھ بیٹھ کر شملہ میں ہندوستان کی تقسیم کا نیا پلان لکھ رہا تھا؟
وی پی مینن کی کہانی بہت مسحور کن ہے کہ کیسے ایک عام سا لڑکا وائسرائے ہند کا معتمد خاص بن گیا۔ یہ لڑکا جس عام سے خاندان میں پیدا ہوا وہاں بارہ بہن بھائی تھے۔ جب وہ تیرہ برس کا ہوا تو اسے اپنا سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ گھر کے حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔ اب اسے تیرہ سال کی عمر میں ہی کمانے پر لگ جانا تھا۔ وہ سکول چھوڑ کر کنسٹرکشن مزدور لگ گیا۔ وہاں کام نہ بنا تو کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے لگا۔ پھر ایک فیکٹری میں نوکری تلاش کر لی۔ پھر ریلوے سٹیشن پر مزدوری کرنے لگا۔ وہاں بھی بات نہ بنی تو اس نے کاٹن بروکر بننے کا فیصلہ کیا۔ وہاں ناکام ہوا تو وہ سکول میں استاد لگ گیا۔ ان دنوں ٹائپ رائٹرز ٹیکنالوجی عام ہو رہی تھی تو اس نے سوچا کیوں نہ وہ ٹائپ سیکھ لے کہ چند پیسے اس سے کما لے گا؛ تاہم وہ دس انگلیوں کی بجائے صرف دو انگلیوں سے ہی ٹائپ کرنا سیکھ سکا ۔ اور تو اور اس نے برسوں بعد شملہ میں وائسرائے کی سٹڈی میں بیٹھ کر ہندوستان کی تقسیم کا جو پلان ٹائپ کیا وہ بھی دو انگلیوں سے کیا تھا۔ اسے انڈین انتظامیہ شملہ میں کلرک کی نوکری ملنے کی وجہ بھی یہ دو انگلیاں ہی تھیں جن کی مدد سے وہ ٹائپ کرتا تھا۔
جب 1929ء میں اسے شملہ میں نوکری کا پروانہ ملا تھا تو وہ شملہ جانے کے لیے دہلی پہنچا۔ وہاں اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے پاس کرائے اور دیگر اخراجات کے جو پیسے تھے وہ راستے میں کسی نے چرا لیے ہیں۔ وہ اب خالی جیب کھڑا تھا۔ نہ وہ شملہ جا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے گھر واپس۔ نوجوان وی پی مینن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ اسی اثنا میں اس کی نظر ایک بزرگ سکھ پر پڑی۔ نوجوان مینن اس کے پاس گیا اور اپنی ساری کتھا اسے سنائی کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا تھا۔ شملہ میں اس کی نوکری کا سوال تھا۔ مینن نے سکھ بزرگ سے کہا کہ اگر وہ اسے پندرہ روپے قرضہ دے سکیں تو وہ شملہ جا کر تنخواہ سے واپس جس ایڈریس پر کہے گا وہاں بھجوا دے گا۔ اس بزرگ سکھ نے جیب سے پندرہ روپے نکالے اور مینن کو دے دیے۔ مینن نے ان سے ایڈریس پوچھا تو وہ سکھ بولا کہ نہیں تم میرے ساتھ ایک وعدہ کرو مرتے دم تک جب بھی کوئی ایماندار انسان تم سے مدد مانگے گا تم اس کی اسی طرح مدد کرو گے جیسے میں تمہاری کر رہا ہوں۔ یہ پیسے تم پر مرتے دم تک قرض ہیں جو تم نے لوٹاتے رہنا ہے۔
برسوں بعد جب وی پی مینن فوت ہوا تو اس سے چھ ہفتے پہلے اس کے بنگلور میں واقع گھر کے باہر ایک فقیر نے آواز لگائی، تو مینن نے اپنی بیٹی کو بلایا اور اسے کہا: میرا بٹوہ لائو۔ اپنے بٹوے سے اس نے پندرہ روپے نکالے اور بیٹی کو کہا: جائو فقیر کو دے آئو۔ وہ مرتے دم تک اپنا قرض واپس کرتا رہا تھا۔
ان پندرہ روپوں کی مدد سے شملہ پہنچ کر جس محنت اور ذہانت سے وی پی مینن نے نوکری میں عروج پایا وہ اپنی جگہ ایک ایسی کہانی اور ایسا واقعہ تھا جو اس سے پہلے کبھی سروس کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ جب ہندوستان اور پاکستان آزاد ہو رہے تھے اور انگریز یہاں سے بوریا بستر لپیٹ رہے تھے تو اس وقت وی پی مینن صرف اٹھارہ برس کی سروس کے بعد شملہ میں ریفارم کمشنر بن چکا تھا۔ یہ سب سے بڑا عہدہ تھا جس پر کسی انڈین کو لگایا گیا تھا۔ اس سے پہلے انگریز ہی اس عہدے کو سنبھالتے آئے تھے۔ اور وہ پہلا انڈین تھا جس نے نہ صرف لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعتماد جیت لیا تھا بلکہ بڑی حد تک وائسرائے ہند کی شفقت اور مہربانی بھی جیت چکا تھا۔
وہی وی پی مینن اس وقت وائسرائے کے پاس موجود تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے وی پی کو کہا کہ نہرو سے ملاقات کے بعد اب آج رات اسے اس سارے پلان کو دوبارہ لکھنا ہو گا جس کی بنیاد پر انڈیا کو آزادی ملے گی۔ وائسرائے نے اسے رات تک کا وقت دیا تھا جبکہ مینن اپنا کام سورج غروب ہونے سے پہلے مکمل کر چکا تھا۔ ایک تیرہ سال کے لڑکے نے جس نے سکول چھوڑ کر مزدوری شروع کی تھی اور اپنا سروس کیریئر اس نے ٹائپنگ سے شروع کیا تھا، چھ گھنٹے دفتر میں بیٹھ کر پورا پلان ڈرافٹ کیا تھا۔ اس کے سامنے ہمالیہ کی پہاڑیاں تھیں جن پر وہ وقفے وقفے سے نظریں ڈال لیتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ وہ ایک ایسا پلان ڈرافٹ کر رہا ہے جس نے دنیا کے نقشے کو بدل دینا ہے۔
جب سارا پلان سامنے آیا تو اس میں سے بنگال اور حیدر آباد دکن جیسی ریاستوں کو آزاد ملک بنانے کا پلان نکال دیا گیا تھا۔ طے پایا کہ ملک صرف دو بنیں گے۔ 565 ریاستوں اور راجوں کو ایک ہی آپشن دیا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کو جوائن کر لیں۔ پلان ڈرافٹ کرنے کے بعد وی پی مینن کا کام ختم نہیں ہوا تھا بلکہ دراصل شروع ہورہا تھا۔ نہرو، سردار پٹیل اور مینن اب لارڈ مائونٹ بیٹن کو ان ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن دراصل سردار پٹیل کے ساتھ کیے ہوئے اس وعدے یا ڈیل کو نبھا رہا تھا کہ اسے ہندوستان کی باسکٹ میں سب پھل چاہئیں تھے۔ (اس ڈیل پر پھر لکھوں گا)۔ مطلب پٹیل کو ساری ریاستیں ہندوستان میں چاہئے تھیں۔
بہت سارے راجوں کے لیے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کی دستاویزات پر دستخط کرنا قیامت سے کم نہ تھا۔ سنٹرل انڈیا کے ایک راجے کے سامنے جب یہ دستاویزات رکھی گئیں اور اس نے جونہی دستخط کیے اس کے کچھ دیر بعد اس کا دل کام کرنا چھوڑ گیا۔ دھول پور کے رانا نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا: آپ کے انگریز آبائواجداد اور ہمارے آبائواجداد کے درمیان 1765ء میں جو الائنس ہوا تھا وہ آج ختم ہو رہا ہے۔ ایک اور راجہ جس کی ساری زندگی گوروں کو ڈائمنڈ پیش کرتے گزری تھی، الحاق کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد وی پی مینن کے گلے لگ کر زاروقطار روتا رہا تھا۔ آٹھ راجوں نے اکٹھے پٹیالہ کے دربار ہال میں ایک عالی شان تقریب جس کا اہتمام سر بھوپندر سنگھ نے کیا تھا میں دستخط کیے۔ بعد میں ایک راجہ نے کہا: اس تقریب میں یوں لگتا تھا جیسے وہ سب شمشان گھاٹ آئے ہوئے ہیں۔
کچھ راجے مزاحمت کر رہے تھے۔ جوں جوں پندرہ اگست قریب آتی جا رہی تھی ان تینوں کا راجوں پر دبائو بھی بڑھ رہا تھا کہ وہ جلد فیصلہ کریں۔ جہاں کانگریس پارٹی موجود تھی ان ریاستوں میں سردار پٹیل نے اپنے ورکرز کو کہا کہ وہ مظاہرے شروع کریں تاکہ راجوں پر دبائو بڑھایا جائے۔ اوڑیسہ کے مہاراجہ کو ہجوم نے اپنے محل کے اندر محصور کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس وقت تک نہیں نکلنے دیا جائے گا جب تک وہ دستاویزات پر دستخط نہیں کرتا۔ ایک ریاست کے طاقتور وزیر اعظم کے منہ پر مظاہرین میں سے ایک نے چاقو مار دیا تھا۔ صدمے کے شکار وزیراعظم نے فوراً الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے۔ ان تمام حربوں کے باوجود چند ریاستیں ایسی تھیں جن کے راجے مہاراجے اور وزیر اعظم سردار پٹیل، لارڈ مائونٹ بیٹن اور وی پی مینن کا کھیل کھیلنے کو تیار نہیں تھے۔ ان میں سے ایک جودھ پور ریاست کا نوجوان راجہ بھی تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہی اس کے باپ کا انتقال ہوا تھا۔ نوجوان راجہ کو اپنی تمام تر انسانی کمزوریوں کے باوجود جلدی نہیں تھی۔ اس نے جیسل میر ریاست کے راجہ کے ساتھ مل کر ایک پلان بنایا کہ انہیں جلدی نہیں کرنی چاہیے اور آرام سے بھارت اور پاکستان میں سے اس کے ساتھ ملنا چاہیے جس میں ان کا زیادہ فائدہ ہو۔
ان دونوں نے ایک سیکرٹ پلان بنایا کہ انہیں پہلی ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کرنی چاہیے۔ ایک خفیہ پیغام جناح صاحب کو بھیجا گیا۔ جودھ پور کے راجہ نے دہلی میں ایک خفیہ ملاقات کا پلان بنایا۔
اب جودھ کا راجہ محمد علی جناح کے سامنے بیٹھا پوچھ رہا تھا کہ اگر جیسل میر اور جودھ پور ریاستیں پاکستان کے ساتھ مل جائیں تو انہیں بدلے میں کیا ملے گا؟
محمد علی جناح اور راجہ جودھ پور جب خفیہ معاملات طے کر رہے تھے تو انہیں علم نہ تھا کہ ان کی اس خفیہ ملاقات کی خبر وائسرائے تک پہنچ چکی ہے اور وی پی مینن اس راجے کو پکڑنے کیلئے وائسرائے ہائوس سے گاڑی لے کر نکل چکا ہے۔
وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن اور پٹیل کو اندازہ تھا کچھ راجے بات نہیں مان رہے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ محمد علی جناح سے رابطے میں تھے تاکہ بہتر ڈیل لے کر اپنا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ اس لیے وہ سب جناب جناح کے ملاقاتیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
ا گرچہ جودھ پور کے راجہ نے اپنے تئیں رازداری سے کام لیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ پتہ نہیں چلے گا وہ جناح سے مل رہا ہے لہٰذا وہ دونوں راجے جناح سے ملنے کے بعد کانگریس والوں کو چیک کریں گے کہ وہ اس سے بہتر کیا ڈیل دے سکتے تھے۔
اسی لیے دونوں راجوں نے قائداعظم سے پوچھا: اگر جیسل میر اور جودھ پور ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کریں تو انہیں کیا ملے گا؟ راجہ جودھ پور اس لیے بھی پاکستان کو جوائن کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا کہ اس نے کچھ شوق پال رکھے تھے جیسے جہاز اڑانا، جادو سیکھنا اور رقص دیکھنا۔ اسے خطرہ تھا کانگریس کی سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر اسے یہ شوق ہندوستان میں پورے نہیں کرنے دیں گے لہٰذا اسے لگ رہا تھا کہ پاکستان میں شامل ہونا بہتر رہے گا۔
قائد اعظم نے منہ سے کچھ نہیں کہا۔ اپنے قریب رکھی میز کی دراز سے ایک سفید کاغذ نکالا راجہ جودھ پور کے سامنے رکھ دیا اور بولے: اس پر جو شرائط لکھنی ہیں لکھ دو میں اس پر دستخط کر دوں گا۔ قائد اعظم کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ انہیں اپنی حریف پارٹی کانگریس کے خلاف دو ایسی ریاستیں مل رہی تھیں جن کے راجے خود ان سے رابطہ کر رہے تھے۔ وہ ہر شرط ماننے کو تیار ہو گئے تھے اور اسی لیے سفید کاغذ سامنے کر دیا کہ وہ جو چاہیں اس پر لکھ دیں۔
دونوں راجے توقع نہیں کر رہے تھے کہ انہیں ایسا بلینک چیک پیش کیا جائے گا۔ فوری طور پر ان کے ذہن میں کچھ نہ تھا کہ انہیں قائد اعظم سے کون سے مطالبے کرنے چاہئیں۔ انہوں نے سوچا کہ وہ واپس ہوٹل جا کر آرام سے ان شرائط پر غور کریں گے جو انہیں قائد اعظم سے منوانی چاہئیں۔ جودھ پور کا راجہ اپنے تئیں بڑا مطمئن ہو گیا کہ چلیں اس کی جیب میں ایک بلینک چیک تو آ گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ کانگریس کی لیڈرشپ سے کیا بارگین کر سکتے ہیں یا پھر انہیں پاکستان سے ہی سب مرضی کی شرائط منوا کر نئے ملک کو جوائن کر لینا چاہیے جہاں سب کچھ ان کی مرضی کا ہو گا اور ان کی موجودہ زندگی اور لائف سٹائل کو کوئی خطرات نہیں ہوں گے۔
یہ سب کچھ سوچ کر راجہ نے قائد اعظم سے کہا کہ اسے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے اور وہ پھر ان سے رابطہ کرے گا۔ قائد اعظم سے ہاتھ ملا کر وہ دونوں باہر نکلے اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اتنی دیر میں وی پی مینن ہوٹل پہنچ چکا تھا۔ مخبری ہو چکی تھی کہ دونوں راجے قائد اعظم سے مل رہے ہیں۔ وی پی مینن کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ وہ انہیں فوری طور پر وائسرائے ہائوس لے جائے۔
جونہی ایک راجہ ہوٹل میں داخل ہوا تو اس کی نظر وی پی مینن پر پڑی۔ مینن آگے بڑھا اور بولا: ایمرجیسی ہوگئی ہے وائسرائے ہند نے اسے فوراً اپنے گھر پر بلایا ہے۔ راجہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وائسرائے ہند اور وی پی مینن کو یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ وہ قائد اعظم سے مل آیا ہے لہٰذا اس نے سوچا وائسرائے ہند سے ملنے میں کیا ہرج ہے اور ویسے بھی کون وائسرائے ہند سے ملنے سے انکار کرسکتا تھا۔
راجہ کو لے کر وی پی مینن فوراً وائسرائے ہائوس کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں وائسرائے ہائوس پہنچے تو وی پی مینن نے راجہ کو ویٹنگ رومن میں بٹھایا اور خود لارڈ مائونٹ بیٹن کو ڈھونڈنے نکل گیا۔ وہ مختلف کمروں میں وائسرائے کو تلاش کرتا رہا لیکن وہ اسے کہیں نہ ملا۔ آخرکار اس نے وائسرائے ہند کو واش روم میں جا تلاش کیا جہاں وہ پانی کے ٹب میں لیٹا ہوا تھا۔ وی پی مینن کے کہنے پر وائسرائے نے کپڑے پہنے اور وہ نیچے ویٹنگ روم میں بیٹھے جودھ پور کے شہزادے کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وائسرائے نے گفتگو شروع کی اور بولا کہ آج اگر اس کا (راجہ کا) باپ زندہ ہوتا تو یقین کرو وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دیتا۔ وائسرائے کا اشارہ اس کی ضد کی طرف تھا کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا کہ اس نے کس کو جوائن کرنا ہے۔ وائسرائے نے نوجوان راجہ کو کہا کہ جودھپور ایک ہندو ریاست ہے اور وہ محض اپنے ذاتی مفادات محفوظ کرنے کے نام پر اپنی رعایا کو پاکستان کے ساتھ ملا رہا ہے؟ وائسرائے ہند نے اس عمل کو خود غرضانہ قرار دیا۔ وائسرائے کو علم تھا کہ یہ نوجوان راجہ اس وقت پوری ریاست اس لیے دائو پر لگانے پر تل گیا ہے کہ اسے ذاتی فائدہ چاہیے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر وائسرائے ہند نے نوجوان راجہ کو کہا کہ وہ فکر نہ کرے وہ (وائسرائے) اور وی پی مینن مل کر سردار پٹیل کو کہیں گے کہ وہ راجہ کے ساتھ اچھا رویہ رکھے اور تمہارے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔
یہ کہہ کر وائسرائے اٹھ کر چلا گیا۔ اس نے باقی کا کام وی پی مینن کے حوالے کر دیا تھا کہ وہ اب اس سے جو لکھت پڑھت کرانی ہے کرا لے۔ جب راجہ کے سامنے دستاویز رکھی گئی تو اس نے جیب سے ایک غیرمعمولی فونٹیں پین نکالا جو اس نے اپنی ایک چھوٹی سی جادوگر فیکٹری میں تیار کرایا تھا۔ جب راجہ اس کاغذ پر دستخط کر چکا تو اس نے اس فونٹین پین کو گھمایا اور اس کے اندر سے ایک چھوٹا سا پستول نکل آیا۔ نوجوان راجہ نے فوراً وہ پستول وی پی مینن پر تان لیا اور کہا: میں تمہاری دھمکیوں سے نہیں ڈرتا۔ تم مجھے ڈرا نہیں سکتے۔
شور شرابہ سن کر مائونٹ بیٹن فوراً نیچے اترا تو اس نے نوجوان راجہ کو فونٹین پین میں چھپا پستول وی پی مینن پر تانے ہوئے دیکھا۔ مائونٹ بیٹن جنگ عظیم دوم لڑ چکا تھا لہٰذا اس کے لیے یہ نظارہ خوفناک نہ تھا۔ اس نے راجہ سے وہ پستول چھین کر اپنے پاس رکھ لیا۔
مزے کی بات ہے کہ جب مائونٹ بیٹن لوٹ کر لندن گیا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک کلب ہے جس کا نام Magic Circle ہے۔ یہ ایک ستائیس سالہ جادوگر کے نام پر قائم کیا گیا تھا جو جوانی ہی میں انتقال کر گیا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اس کلب کا ممبر بن گیا۔ وہ خود بھی جادو سے محظوظ ہوتا تھا لہٰذا اس نے اس فونٹین پین میں چھپے پستول کو وہاں جادو کے طور پر استعمال کیا اور وہ میجک سرکل کا الیکشن جیب گیا۔ بعد میں مائونٹ بیٹن نے راجہ جودھ پور کا وہ پستول اس کلب کو دے دیا کہ وہ اپنے سرکل میوزیم میں رکھ دے؛ تاہم جب مائونٹ بیٹن کا 1979ء میں آئرلینڈ میں قتل ہوا تو وہ پستول نما فاونٹین پین اس کی فیملی کو دے دیا گیا۔ برسوں بعد دو ہزار تیرہ میں فیملی نے وہ تاریخی پین نیلام کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی لاگت سات ہزار ڈالر لگائی گئی۔
خیر تین دن بعد وی پی مینن نے باقاعدہ الحاق کی دستاویزات تیار کی اور راجہ جودھ پور کے محل گیا جس پر ایک اداس اور افسردہ راجہ نے دستخط کر دیے۔ جب ایک دفعہ دستخط ہو چکے تو راجہ نے سوچا: جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب وہ الحاق کو انجوائے کرے گا۔ نوجوان راجہ نے مینن کے ساتھ ایک پارٹی کرنے کا فیصلہ کیا۔ مینن وہاں رکنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ یہ راجہ کی فرمائش تھی کہ وہ الحاق کی خوشی میں پارٹی کرے گا۔
مینن کو خوشی تھی کہ اس نے ہندوستان کے لیے بڑا معرکہ مار لیا تھا۔ سردار پٹیل کو دینے کے لیے اس کے پاس تحفہ تھا۔ اس نے دو بڑی ہندو اکثریت والی ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے بچا لیا تھا۔ اس کے دہلی میں پراسرار سورس نے جناح اور جودھ پور کے راجہ کی خفیہ ملاقات کی مخبری کرکے ہندوستان پر احسان کیا تھا۔ اگرچہ وہ فوری طور پر دہلی روانہ ہونا چاہتا تھا لیکن نوجوان راجہ نے ضد کی کہ وہ فوراً واپس نہیں جا سکتا۔ پہلے جشن ہو گا۔ پرانا محاورہ ہے کہ راج ہٹ، بال ہٹ تے تریمت ہٹ۔ (جب شہزادہ، بچہ اور عورت کسی ضد پر اترے ہوں تو پوری کرنی پڑتی ہے) چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی وی پی مینن رک گیا تاکہ وہ جشن میں شریک ہو سکے۔ لیکن وی پی مینن کو اندازہ نہ تھا کہ جشن کے نام پر نوجوان راجہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہے۔
وی پی مینن کو جتنی جلدی دلی لوٹ جانے کی تھی راجہ جودھ پور اتنا ہی عیاشی کے موڈ میں تھا کہ ہندوستان سے الحاق کو بھرپور انداز میں منایا جائے اس لیے وی پی مینن نہیں جاسکتا تھا ۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا ۔اب نئی زندگی کا آغاز جشن سے کیا جائے۔ اتنی دیر میں راجہ نے ایک اور فرمائش کی کہ اب روسٹ گوشت پیش کیا جائے اور ساتھ ہی رقاصاوں کو حکم ہوا کہ وہ رقص پیش کریں۔ پھر حکم ہوا کہ کوئی جادوگر وہاں جادو سے مہمانوں کو محظوظ کرے۔ وی پی مینن گوشت نہیں کھاتا تھا اس کے مذہب میں گوشت کھانا حرام تھا۔ اب یہ بات وہ راجہ کو کیسے سمجھا سکتا تھا اور یوں وہ کام شروع ہوا جس کی وہ توقع نہیں کررہا تھا ۔ اصل ڈرائونا خواب اب شروع ہورہا تھا۔ راجہ کو اچانک لگا کہ موسیقی کی آواز بہت تیز ہے۔ اس نے غصے اور مدہوشی میں اپنی روایتی پگڑی سر سے اتار کر زمین پر پھینک دی۔ساتھ ہی راجہ نے حکم صادر کیا کہ بس بہت ہوچکا۔ پارٹی ختم۔ رقاصاوں کو حکم ہوا کہ وہ فوراً وہاں سے چلی جائیں اور اسی حالت میں راجہ نے اعلان کیا کہ وہ وی پی مینن کو خود اپنے پرائیویٹ جہاز پر دلی چھوڑ کر آئے گا۔ یہ سن کر وی پی مینن کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ اب اس حالت میں راجہ خود جہاز اڑائے گا ۔ وہی ہوا کہ راجہ کا حکم تھا۔ جیسے تیسے راجہ نے جہاز اڑایا۔ راستے میں اس نے کئی کرتب بھی دکھائے تاکہ وی پی مینن کو اپنی مہارت سے متاثر کرسکے۔ اس جہاز میں سوار تمام مسافروں کا جو حشر ہورہا تھا وہ بیان کرنے کے قابل نہیں کہ یہ مدہوش راجہ کیسے انہیں دلی تک لے جائے گا؟
آخرکار جہاز دلی اترا تو وی پی مینن کے ہاتھ اب تک کانپ رہے تھے جس میں اس نے الحاق کی دستاویزات تھام رکھی تھیں۔ وہ جہاز سے تقریباً گھٹنوں کے بل باہر نکلا اور اس نے وہ دستاویزات جا کر سردار پٹیل کو دیں ۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کا ایک اور وعدہ پورا ہوا کہ وہ پٹیل کو اس کی فروٹ ٹوکری میں سب پھل اکٹھے کر کے دے گا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کے لیے بڑا چیلنج کشمیر میں درپیش تھا ۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہ تھا کہ کشمیر کا معاملہ اس قدر ہاتھ سے نکل جائے گا کہ دو نئے ملک اس پر جنگ لڑیں گے۔لارڈ ماونٹ بیٹن اس بات پر قائل تھا کہ جب فارمولا یہ بنایا گیا تھا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی وہ علاقے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے تو کشمیر کو بھی پاکستان ساتھ جانا چاہیے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن اور سردار پٹیل اس پر قائل تھے کہ کشمیر کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں اور پھر وہاں سے دریا نکل کر نئے ملک جارہے ہیں اور اوپر سے اکثریت مسلمان ہیلہٰذا عقل اور سمجھ کا بھی یہی تقاضا تھا کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ جانا چاہیے لیکن اب اس معاملے میں ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا کہ کشمیر کا راجہ ہری سنگھ بار بار یاد دہانی کے باوجود فیصلہ نہیں کررہا تھا ۔ راجہ کی کوشش تھی کہ آخری وقت تک اس الحاق کو ٹالا جائے اور وہ ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہے۔ راجہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان دونوں سے ملنے کے موڈ میں نہیں تھا ۔
اب سوال یہ تھا کہ کشمیر جو مسلمان اکثریتی علاقہ تھا اور جس پر مغل حکومت کرتے رہے تھے وہ ایک سکھ راجے کے ہاتھ کیسے لگ گیا ؟ اس علاقے کی دلچسپ تاریخ ہے۔ جموں و کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور پر پہلی دفعہ 1846ء میں ابھرا۔ چودہویں صدی تک اس علاقے پر بدھ اور ہندو راجے مہاراجے حکمران تھے اس کے بعد ایک مسلمان حکمران نے ان کی جگہ لے لی اور وہ 1587ء تک اس پر حکمرانی کرتے رہے جب اکبر بادشاہ نے کشمیرپر حملہ کر کے اسے مغل ریاست میں شامل کر لیا۔ اگلے دو سو برسوں تک یہ علاقہ مغلوں کاگرمائی دارالخلافہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور آج بھی ہری پربت قلعہ شالیمار باغ نشاط کی شمل میں مغلوں کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔اس طرح چنار کے درختوں میں بھی مغلوں کے اثرات ملتے ہیں جو وہاں کشمیر میں ہر طرف کثرت سے ملتے ہیں۔ جب مغلوں کا زوال شروع ہورہا تھا تو 1752ء میں احمد شاہ ابدالی نے افغانستان سے آکر قبضہ کر لیا اور اگلے ساٹھ برس تک کشمیر پٹھانوں نے اپنے قبضے میں رکھا جس دوران مختلف گورنر تبدیل ہوتے رہے۔ 1819ء میں کشمیر کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے فتح کر لیا۔ یوں اگلے 27 برس تک سکھوں کی حکومت رہی۔ اٹھارہویں صدی کے پچاس سال گزرنے کے بعد جموں پر ڈوگرہ چیف راجپوت جس کا نام رنجیت دیو تھا وہ حکمرانی کرتا رہا ۔ اس کا انتقال 1780ء میں ہوا اور اس کی موت پر اس کے خاندان میں حکمرانی کے لیے لڑائی شروع ہوگئی ۔ اس پر سکھوں کو موقع ملا اور انہوں نے جموں اور دیگر پہاڑی علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ۔ رنجیت دیو کے تین پڑپوتوں گلاب سنگھ دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ نے جا کر رنجیت سنگھ کی ملازمت کر لی ۔ ان تینوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اتنی خدمت کی اور وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے جموں کا تخت گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا اور اس کو راجہ کا لقب بھی دے دیا ۔ بھمبر چیبال اور پونچھ کے علاقے دھیان سنگھ کو دئیے گئے اور رام گڑھ کے علاقوں کا راجہ سچیت سنگھ کو بنا دیا گیا۔ دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ بعد میں قتل ہوئے۔
جب رنجیت سنگھ کا 1839ء میں انتقال ہوا تو سکھوں کی ساری طاقت دھڑام سے نیچے آن گری۔ جب انگریزوں اور سکھوں کے درمیان پہلی جنگ کا خاتمہ ہوا تو 1846ء میں گلاب سنگھ انگریزوں اور سکھوں کے درمیان صلح کار کے طور پر سامنے آیا۔ ان مذاکرات میں سکھ مہاراجہ کو کہا گیا کہ وہ ہرجانے کے طورپر ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک کروڑ روپے ادا کرے اور ساتھ پنجاب میں بھی بڑے بڑے علاقے وہ کمپنی کو سرنڈر کرے۔ اب ایک کروڑ روپے نہیں تھے کہ وہ ہرجانہ ادا کرتے اس پر انہوں نے دریائے بیاس سے سندھ کا درمیانی علاقہ جس میں کشمیر اور جموں کے علاقے شامل تھے کمپنی کے حوالے کر دییلیکن گورنر جنرل لارڈ ہارڈنگ نے اعتراض کیا کہ ان تمام پہاڑی علاقوں پر قبضے سے برٹش حکومت پر کنٹرول اور چلانے کیلئے اخراجات بہت بڑھ جائیں گے اور نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ نئی فوجی لڑائیاں بھی شروع ہوسکتی تھیں۔گورنر جنرل کا خیال تھا کہ ہم نے ان پہاڑوں کا کیا کرنا ہے کیونکہ ہمیں وہاں سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس پر گلاب سنگھ آگے بڑھا اور اس نے انگریزوں کو پیشکش کی کہ وہ سب پیسے کمپنی کو ادا کرنے کو تیار ہے اس کے بدلے اسے کشمیر کا خودمختار حکمران بنا دیا جائے۔ اس پر گلاب سنگھ کے ساتھ امرتسر میں 16 مارچ 1846ء کو ایک معاہدہ کیا گیا ۔ اس معاہدے کے تحت گلاب سنگھ نے تسلیم کیا کہ وہ انگریزوں کا وفادار رہے گا اور ہر سال انگریز حکومت کو ٹوکن کے طور پر ایک گھوڑا بارہ کشمیری بکریاں جو اچھی نسل کی ہوں گی اور کشمیری شالوں کے تین جوڑے بھیجا کرے گا جس سے یہ پتا چلتا رہے گا کہ وہ انگریزوں کا وفادار ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ انتظامات بھی بدل لیے گئے اور طے ہوا کہ صرف دو کشمیری شالیں گوروں کو بھیجی جائیں گی اور ساتھ تین کشمیری رومال۔یوں امرتسر میں ہونے والے اس معاہدے کے بعد پہلی دفعہ کشمیر ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھرا جو ایک آزاد ریاست تھی۔ اس معاہدے کے تحت گلاب سنگھ کشمیر کا مہاراجہ قرار پایا اور اس کے پاس دریائے سندھ راوی کشمیر جموں لداخ اور گلگت کے علاقے آگئے تاہم گوروں نے کچھ پہاڑی علاقے اپنے پاس رکھ لیے جو دفاعی نقطہ نظر سے اہم تھے۔ ان علاقوں کی قیمت پچیس لاکھ لگائی گئی۔ گوروں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو کہا کہ وہ پچیس لاکھ روپے ان علاقوں کے کاٹ کر باقی 75لاکھ انہیں ادا کرے گا۔
تاہم جب گلاب سنگھ یہ سب معاہدے کر کے کشمیر واپس لوٹا تو اسے پتا چلا کہ اس کے پیچھے تو بغاوت ہوچکی تھی ۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ انگریزوں کو ایک کروڑ روپے ادا کر کے بھی مہاراجہ کا لقب اتنی جلدی نہیں ملنے والا ۔ اب گلاب سنگھ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ گلاب سنگھ کسی قیمت پر کشمیر کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا ۔ اس کے پاس آخری آپشن رہ گیا تھا جو اس نے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
گلاب سنگھ نے ایک کروڑ روپے میں انگریزوں کے ساتھ کشمیر کی ڈیل تو کر لی تھی لیکن اب اسے کشمیر میں بغاوت کا سامنا تھا۔ سکھوں کے نامزد کردہ گورنر نے اس کے لیے مسائل کھڑے کر دیے تھے۔ اس پر گلاب سنگھ کے پاس ایک ہی حل بچا تھا کہ وہ انگریزوں سے رابطہ کرے جنہیں اس نے پچھتر لاکھ روپے کی نقد ادائیگی کرنی تھی اور ان کی مدد سے پورے کشمیر کا قبضہ لے۔ انگریزوں کو اگر اپنے پچھتر لاکھ روپے نقد اور پچیس لاکھ روپے کی کشمیر کی پہاڑیاں چاہیے تھیں تو انہیں پورا اقتدار بھی لے کر دینا ہوگا۔
1846 میں گلاب سنگھ نے انگریز فوج کی مدد سے باغیوں کو شکست دے کر کشمیر پر اپنی حکمرانی قائم کرلی تھی۔ یوں دہلی پر گوروں کی حکومت اور کشمیر کے درمیان تعلقات کا آغاز 1849 میں ہوا۔ یہ تعلقات پنجاب حکومت کے ذریعے قائم ہوئے اور مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنا ایک ایجنٹ لاہور میں مقرر کر دیا تھا؛ تاہم انگریز حکومت نے سری نگر میں فوراً اپنا ایجنٹ مقرر نہیں کیا؛ البتہ چند برس بعد انگریزوں نے اپنا پہلا خصوصی نمائندہ سری نگر میں تعینات کر دیا۔ یہ نمائندہ بھی کشمیر میں صرف گرمیوں کے دنوں میں ٹھہرتا تھا۔
مہاراجہ گلاب سنگھ 1857 میں انتقال کر گیا اور اس کی جگہ اس کے بیٹے رنبیر سنگھ نے اقتدار سنبھال لیا؛ تاہم دہلی اور سری نگر کے درمیان تعلقات اس طرح چلتے رہے؛ تاہم 1877 میں دہلی سرکار نے ایک تبدیلی کی اور اپنے افسر خاص کو حکم دیا کہ وہ اب انڈین حکومت کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہے گا اور جو بھی وادی میں سیاسی ایشوز ہوں گے ان پر بریف کیا کرے گا۔ 1885 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ بھی انتقال کر گیا تو اس کی جگہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے لے لی اور افسر خاص کے عہدے کا نام بدل کر Resident in Kashmir کر دیا گیا جو اب مستقل سرینگر میں تعینات تھا۔ اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل مہاراجہ ہری سنگھ کو یہ گدی 1925 میں منتقل ہوئی۔ وہ جموں اور کشمیر کا حکمران تھا۔ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا تو اس وقت کشمیر بہت اہم جگہ پر واقع تھا۔ مشرق میں تبت تو شمال مشرق میں چین کا صوبہ سنکیانگ اور افغانستان، شمال میں گلگت۔ قریب ہی شمال میں افغانستان کا علاقہ واکان اور مغرب میں گلگت سے کاشغر تک کا روٹ تھا۔ اس سے چند میل پرے روس کا علاقہ ترکمانستان تھا۔
جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی جو بعد میں تقسیم کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ لداخ میں زیادہ بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ اگرچہ ریاست میں اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف یہ شکایات آرہی تھیں کہ حکومت اور فوج میں ہندوئوں کو زیادہ نوکریاں ملی ہوئی ہیں۔ ان ناانصافیوں کے ردعمل کے طور پر 1932 میں شیخ عبداللہ نے نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے۔ مہاراجہ کے خلاف کئی دفعہ احتجاج ہوا اور شیخ عبداللہ کو متعدد بار گرفتار بھی کیا گیا۔ شیخ عبداللہ نے 1946 میں مہاراجہ کی حکمرانی کے خلاف ایک تحریک شروع کی جس کا نام تھا: Quit Kashmir اس پر شیخ کو جیل میں ڈال دیا گیا؛ تاہم اس وقت تک شیخ عبداللہ وادی کے لوگوں کی بڑی تعداد کی ہمدردیاں لینے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
جب تین جون کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا اعلان کیا تو اس کے ذہن میں کشمیر کی ریاست کا مستقبل بھی تھا۔ ایک ایسی ریاست جو رقبے کے حساب سے ہندوستان کی چند بڑی ریاستوں میں سے ایک تھی اور اوپر سے اکثریتی آبادی مسلمان تھی لیکن اس کا حکمران ایک ہندو راجہ تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن مہاراجہ ہری سنگھ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ راجہ ہری سنگھ دراصل 1922 میں برطانیہ سے آئے پرنس آف ویلز کے دورے میں ان کا سٹاف افسر تھا۔ نوجوان لارڈ مائونٹ بیٹن اپنے کزن کے ہمراہ ہندوستان کے اس دورے پر تھا۔ اس نے کشمیر میں راجہ ہری سنگھ کے ساتھ پولو تک کھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے پرانی جان پہچان کے نام پر مہاراجہ نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے لگنے کے بعد دو تین دفعہ کشمیر کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ اب وقت آ گیا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن کشمیر کا دورہ کرے تاکہ اس ریاست کا معاملہ حل ہو کہ کشمیری کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں ہندوستان یا پاکستان۔ یوں جولائی 1947 میں لارڈ مائونٹ بیٹن سری نگر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ بیٹھا تھا تاکہ اسے سمجھا سکے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں کسی ایک کے ساتھ مل جائے۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملنا چاہیے کیونکہ اس کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ یہ وہ علاقہ تھا جس کے بارے چوہدری رحمت علی نے بات کی تھی تو کہا تھا کہ Pakistan میں K کشمیر کے لیے ہے۔ وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے یہ دلیل مان لی تھی کہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ جانا چاہیے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو بتایا کہ اس کی کانگریس راہنما سردار پٹیل سے بات ہوگئی تھی اور یہ فطری بات بھی تھی کہ کشمیر کے راجے کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہیے اور ہندوستان کی مستقبل کی حکومت راجہ کے اس فیصلے کو سراہے گی اور کوئی اعتراض نہیں کرے گی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے پریشان حال مہاراجہ کو بتایا کہ سری نگر آنے سے پہلے اس کی سردار پٹیل سے اس معاملے پر بڑی تفصیل سے بات ہوئی اور سردار پٹیل نے ضمانت دی تھی کہ اگر مہاراجہ ہندوستان کی بجائے پاکستان کے ساتھ مل جائے تو وہ اس فیصلے پر اعتراض نہیں کریں گے۔ ایک تو آبادی مسلمان تھی اور پھر جغرافیائی طور پر بھی اس ریاست کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہیے۔ راجہ کی آنکھوں میں پریشانی اور غیریقینی کی صورتحال دیکھ کر لارڈ مائونٹ بیٹن فوراً بولا: ہاں میری جناح سے بھی بات ہوئی ہے انہوں نے یہی گارنٹی دی ہے کہ اگر کشمیر کا راجہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرلے تو وہ اسے پوری عزت و احترام دیں گے چاہے وہ مسلمان ریاست کاہندومہاراجہ ہی ہے۔
مہاراجہ ہری سنگھ کو اب کچھ ذاتی خطرات لاحق ہوچکے تھے۔ جو اندیشے اس کے ذہن میں تھے ان سے لارڈ مائونٹ بیٹن لاعلم تھا۔ مہاراجہ کو پتا تھا کہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد اسے جلد یا بدیر یہ گدی چھوڑنی پڑے گی۔ نیشنل کانفرنس پہلے ہی اس کے خلاف تحریک شروع کرچکی تھی اور اس پر سنگین الزام تھا کہ وہ فوج اور حکومت میں مسلمانوں کو اکثریت میں ہوتے ہوئے نوکریاں نہیں دیتا۔ شیخ عبداللہ کشمیریوں کو بڑے پیمانے پر اس کے خلاف کرچکا تھا اور کشمیر چھوڑ دو کی تحریک چل رہی تھی۔ پاکستان سے خطرہ تھا کہ کچھ دنوں بعد اسے اٹھا کر پھینک دیا جائے گا۔ خطرہ ہندوستان سے بھی تھا کہ نہرو جیسا سوشلسٹ لیڈر جو اس سے نفرت کرتا تھا بھارت کے ساتھ الحاق کی شکل میں کب اسے برداشت کرے گا اور وہ اپنی ریاست کھو بیٹھے گا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کو اس وقت ایک طرف کھائی تو دوسری طرف دریا نظر آرہا تھا۔ ریاست بچانے کا کوئی طریقہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد مہاراجہ نے آخرکار اپنے ہونٹ کھولے۔ لارڈمائونٹ بیٹن بے چینی سے اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔ مہاراجہ بولا: میں کسی صورت پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کروں گا۔
مائونٹ بیٹن بولا: اگرچہ فیصلہ تم نے کرنا ہے لیکن میرا خیال ہے تم سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرو کیونکہ تمہاری ریاست کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ لیکن اگر تم پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کرنا چاہتے تو پھر دوسرا آپشن یہ ہے کہ تم ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلو۔ اگر تمہارا یہ فیصلہ ہے تو پھر میں ایک انفنٹری ڈویژن کشمیر بھیج دیتا ہوں تاکہ وہ تمہاری سرحدوں کی حفاظت کر سکے۔
مہاراجہ کا ذہن کسی اور طرف مصروف تھا۔ وہ کافی دیر تک لارڈ مائونٹ بیٹن کو دیکھتا رہا جیسے سوچ رہا ہو کہ کیا اسے یہ بات لارڈ مائونٹ بیٹن سے کرنی چاہیے اور اگر اس نے کر دی تو لارڈ مائونٹ بیٹن کا کیا ردعمل ہوگا۔ وہ کتنی حمایت کرے گا کیونکہ اس کی حمایت کے بغیر مہاراجہ اپنے اس پلان پر عمل نہیں کرسکتا تھا جو اس کے ذہن میں پل رہا تھا اور اب تک اس نے کسی سے شیئر نہیں کیا تھا۔
آخر مہاراجہ ہری سنگھ نے گلا صاف کیا اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے سامنے مدعا رکھ دیا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن مہاراجہ کی بات سن کر غصے سے سرخ ہو گیا اور بولا ہرگز نہیں یہ تو بالکل نہیں ہو سکتا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کے منہ سے انکار سن کر مہاراجہ کا رنگ فق ہوگیا جبکہ وائسرائے ہند مہاراجہ کی بات سن کر پہلے ہی لال پیلا ہورہا تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کو یہ توقع نہیں تھی کہ مہاراجہ ہری سنگھ کچھ اور منصوبے بنا کر بیٹھا ہے۔ اس لیے مہاراجہ کے منہ سے یہ سن کر ہی لارڈ مائونٹ بیٹن چڑ گیا جب ہری سنگھ بولا کہ دراصل وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ الحاق نہیں چاہتا وہ کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر رکھنا چاہتا ہے۔
لارڈ مائونٹ کو پہلی دفعہ یہ نہیں سننا پڑا تھا کہ راجے مہاراجے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے۔ سب کو خطرات لاحق ہو چکے تھے کہ ہندوستان یا پاکستان کی شکل میں ان کے راج ختم ہونے والے ہیں۔ تخت سے اتر کر خود رعایا بننا پڑے گا۔ وہ سب کسی نہ کسی طرح آزاد رہنا چاہتے تھے۔ شروع میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی یہی فارمولا پیش کیا تھا کہ ہندوستان میں دو کی بجائے درجن بھر ملک بنائے جائیں اور ریاستوں کو تین آپشن دیے جائیں۔ پہلا پلان یہی تھا: پاکستان، ہندوستان یا خود مختار ریاست۔ تاہم یہ نہرو تھا جس نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے اس پلان کو مسترد کر دیا کہ اس سے ہندوستان میں مسلسل جنگی کیفیت رہے گی۔ چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہر وقت حالت جنگ میں رہیں گی۔
اس لیے جب مہاراجہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ آزاد ریاست چاہتا ہے تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے فوراً کہا: یہ ممکن نہیں ہے۔ تم چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہو۔ کشمیر کا رقبہ بہت زیادہ لیکن اس کے مقابلے میں آبادی بہت کم ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ تمہارے اس رویے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جنم لے گی۔ تمہارے دو حریف ہمسائے اس کشمیر ایشو کی وجہ سے ہر وقت ایک دوسرے پر بندوقیں تانے کھڑے ہوں گے۔ تم دونوں ملکوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کی وجہ بنو گے۔ کشمیر میدان جنگ بن کر رہ جائے گا۔ اگر تم نے احتیاط سے کام نہ لیا تو نہ صرف تم اپنا اقتدار کھو بیٹھو گے بلکہ تمہاری جان بھی خطرے میں ہوگی۔
مہاراجہ کو یہ سب کچھ سن کر شدید مایوسی ہوئی۔ اس نے نفی میں سر کو جھٹکے دیے اور اس کے چہرے پر گہری اداسی چھا گئی۔ اس کے خواب چکنا چور ہوگئے تھے۔ اگرچہ وہ دہلی سے آئے اپنے مہمان کو ٹرائوٹ مچھلی کے شکار کیلئے دریا کے کنارے لے گیا لیکن اس نے سارا دن کوشش کی کہ مائونٹ بیٹن سے فاصلہ رکھے تاکہ وہ اسے دوبارہ ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک کا آپشن استعمال کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بلکہ مہاراجہ کی کوشش رہی کہ مائونٹ بیٹن سارا دن کشمیر کے دریا کے صاف ستھرے پانیوں میں ٹرائوٹ کا شکار ہی کرتا رہے۔
اگلے دو دن تک مائونٹ بیٹن مسلسل کوشش کرکے مہاراجہ کو سمجھاتا رہا کہ بہتر ہے وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لے۔ دو دن کی محنت کے بعد مائونٹ بیٹن کو احساس ہوا کہ اس کا پرانا دوست اپنی رائے میں تبدیلی لانے پر تیار ہو رہا ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو کہا: میں کل جب دہلی کے لیے روانہ ہوں گا تو صبح ناشتے پر الوداعی ملاقات ہونی چاہیے اور ملاقات میں دونوں کا سٹاف بھی موجود ہونا چاہیے تاکہ ایک ہی دفعہ کھل کر سب بات کر لی جائے اور پالیسی بنا لی جائے۔
ٹھیک ہے مہاراجہ بولا اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو کل صبح مل لیتے ہیں۔
اگلی صبح جب لارڈ مائونٹ بیٹن ناشتے پر انتظار کر رہا تھا تو اے ڈی سی آیا اور کہا: مہاراجہ صاحب کا معدہ خراب ہو گیا ہے اور ملاقات نہیں کر پائیں گے کیونکہ ڈاکٹر نے انہیں منع کر دیا ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کو اندازہ ہو گیا کہ یہ سب کہانی گھڑی گئی ہے اور مہاراجہ اس سے ملنا نہیں چاہتا۔ ڈاکٹر کا بہانہ بنا کر مہاراجہ نے ملاقات تو چھوڑیں، اسے رخصت کرنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ سری نگر چھوڑتے وقت مائونٹ بیٹن کو اندازہ ہوگیا تھا وہ اپنے پیچھے ایک ایسا مسئلہ چھوڑ کر جارہا ہے جو دو ملکوں کے درمیان ہمیشہ ایک جنگی ماحول پیدا کیے رکھے گا اور پوری دنیا اس سے متاثر ہوگی؛ تاہم مائونٹ بیٹن کو علم نہ تھا کہ مہاراجہ کس ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ مہاراجہ دراصل اس وقت اپنی بیوی اور بھائی کے ہاتھوں شدید دبائو کا سامنا کررہا تھا۔ اس کی بیوی اور بھائی جو وزیر کا درجہ رکھتے تھے اس پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کر لے جبکہ مہاراجہ کے وزیراعظم کا خیال تھا کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کر لینا چاہیے۔ اس کیفیت میں مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے جوتشی سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جوتشی نے مہاراجہ کو جو باتیں بتائیں اس کے بعد اس کے ذہن میں یہ بات پوری طرح بیٹھ گئی کہ اسے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے الحاق نہیں کرنا۔ اس نے کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر قائم رکھنا ہے۔ جوتشی کے بقول مہاراجہ کے ستاروں میں لکھا تھا کہ ہری سنگھ کا جھنڈا لاہور سے لداخ تک لہرائے گا۔
برٹش افسران جو آرمی اور پولیس میں تھے کا بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان سے الحاق بہتر آپشن ہوگا۔ یہ سب دیکھ کر مہاراجہ نے پہلے تو اپنے وزیراعظم کو ڈسمس کیا اور پھر برٹش آرمی اور پولیس افسران کو بھی سائیڈ پر کرنے کا عمل شروع کردیا۔ ان کی جگہ اس نے ڈوگرہ فورس کے نوجوانوں کو منگوا لیا۔ ہوا میں یہ سب تبدیلیاں دیکھ کر مسلمان افسران اور جوانوں نے کشمیر آرمی کو چھوڑنا شروع کردیا تھا۔ سب کو اندازہ ہونا شروع ہوگیا تھا کہ اس علاقے میں جلد یا بدیر جنگ ہو گی۔
اس اثنا میں لارڈ مائونٹ بیٹن دہلی پہنچ چکا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ ابھی تو اس کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ کشمیر مشن سے ناکامی کے بعد حالات و واقعات بڑی تیزی سے رونما ہونا شروع ہورہے تھے۔ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی پندرہ اگست کی تاریخ قریب آ رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں خطرناک رجحانات سامنے آرہے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی جناح صاحب اور نہرو تک کا خیال تھا کہ ہندوستان میں آزادی کے ساتھ ہی تمام لڑائی جھگڑے ختم ہوجائیں گے۔ خود مائونٹ بیٹن بھی یہی یقین کیے بیٹھا تھا کہ تقسیم کے اعلان کے بعد تشدد نہیں ہوگا۔ فسادات نہیں ہوں گے۔ بھلا ہندو مسلم یا سکھ فسادات کیوں ہوں گے کیونکہ جب ہندوستان تقسیم ہورہا تھا اور سب کو اپنا اپنا ملک مل رہا تھا جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکیں گے۔ صرف گاندھی جی اکیلے تھے جو بار بار کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ غلط سوچ رہے ہیں بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوگا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کو اس سنگین خطرے کا احساس اس وقت ہوا جب اسے لاہور سے ایک خوفناک اطلاع دی گئی۔ سی آئی ڈی پنجاب کی طرف سے وائسرائے کو بھیجی گئی یہ سیکرٹ انفارمیشن اتنی خوفناک تھی کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے فوری طور پر قائداعظم اور لیاقت علی خان کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ اب قائداعظم اور لیاقت علی خان وائسرائے کے سٹڈی روم میں حیران بیٹھے تھے کہ وائسرائے نے انہیں کیوں اتنی ایمرجنسی میں فوری طور پر بلا لیا ہے۔ سٹڈی میں ان دونوں کے علاوہ ایک افسر بھی موجود تھا جس کا تعارف لارڈ مائونٹ بیٹن نے جناح اور لیاقت علی خان سے یہ کہہ کر کرایا کہ جنٹلمن اس کا نام Savage ہے اور ان کا تعلق پنجاب سی آئی ڈی سے ہے۔ اس کے پاس ایک اطلاع ہے جو میں چاہتا ہوں آپ اس کے منہ سے سنیں۔
جوں جوں سی آئی ڈی کا افسر پوری کہانی سناتا گیا جناح صاحب اور لیاقت علی خان اس کو سنجیدہ لینے پر مجبور ہوگئے کیونکہ وہ جس ایجنسی سے تعلق رکھتا تھا وہ برٹش انڈیا کی سب سے معتبر انٹیلی جنس ایجنسی سمجھی جاتی تھی۔ اس کی اطلاع غلط ہو ہی نہیں سکی تھی۔ سی آئی ڈی افسر ٹھیک بات کر رہا تھا تاہم وہ تھوڑا سا نروس
تھا۔ وہ زندگی میں پہلی دفعہ وائسرائے ہند اور مسلمانوں کے دو لیڈروں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ وائسرائے کی سٹڈی میں مکمل خاموشی تھی۔ وائسرائے سے لے کر جناح اور لیاقت علی خان تک سب خاموش تھے۔ جب افسر نے بات ختم کر لی تو جناح، لیاقت علی خان اور مائونٹ بیٹن نے ایک دوسرے کی طرف بے یقینی سے دیکھا۔ انہیں لگا جیسے کسی نے ان پر بم پھینک دیا ہو۔
ان تینوں کو اندازہ نہ تھا کہ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے۔ پہلی دفعہ انہیں احساس ہوا کہ وہ سب سنگین خطرات میں گھر چکے ہیں۔ جناح اور لیاقت علی خان خاموش تھے لیکن مائونٹ بیٹن کا ذہن تیزی سے چل رہا تھا کہ اسے اس بربادی سے کیسے بچنا ہے جس کی خبر سی آئی ڈی کا افسر لاہور سے لایا تھا۔
لاہور سی آئی ڈی سے آئے افسر نے وائسرائے کی سٹڈی میں مکمل خاموشی میں جناح صاحب، لیاقت علی خان اور وائسرائے کو تفصیل بتانا شروع کی تھی۔
انٹیلی جنس کی دنیا میں اکثر بریک تھرو اچانک ہوتے ہیں جب کسی کو ویسے ہی شک پر پکڑ کر لاتے ہیں اور آپ کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اسے کیوں پکڑا تھا لیکن اندر کا انٹیلی جنس افسر یا پولیس مین آپ کو بتا رہا ہوتا ہے کہ اس بندے کو کچھ نہ کچھ پتا ہے۔ یہ اندر کا وجدان ہی ایسے بریک تھرو کا سبب بنتا ہے اور بڑے خفیہ پلان سامنے آ جاتے ہیں۔ نفسیاتی اور جسمانی تشدد کے دوران ہی یہ لوگ راز اگلتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ شاید انہیں اس لیے اٹھایا گیا کہ پولیس کو پتا چل چکا تھا لہٰذا اب چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ بعض تشدد اور دیگر حربوں سے بچنے کیلئے بارگین کے طور پر بھی ایسی اطلاعات دورانِ تفتیش از خود دے دیتے ہیں۔
لاہور سی آئی ڈی کے ہاتھ بھی کچھ ایسے ہی مشکوک لوگ لگے تھے جنہوں نے وہ سارا خفیہ پلان انہیں بتا دیا تھا۔ سی آئی ڈی نے لاہور کے پاگل خانے کے ایک ونگ میں جو استعمال نہیں ہوتا تھا اپنا ایک تفتیشی سینٹر بنایا ہوا تھا جہاں وہ مشکوک لوگوں سے تفتیش کرتے تھے۔ یہاں ہر قسم کے لوگ لائے جاتے تھے جن پر سی آئی ڈی کو شک ہوتا تھا کہ وہ برٹش سرکار کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ ان سب سے سب کچھ اگلوایا جاتا تھا۔ سی آئی ڈی نے ہر سیاسی جماعت اور ہر گروپ کے اندر اپنے بندے گھسائے ہوئے تھے جو انہیں ہر پل کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے اور یوں جس پر زیادہ شک ہوتا تھا وہ اسے اٹھا کر پاگل خانے کی عمارت میں لے آتے اور اس سے پھر باتیں اگلوانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ ان کی چیخوں کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا کیونکہ سب یہی سمجھتے تھے کہ کوئی پاگل چیخیں مار رہا ہو گا۔
جو خفیہ خبر سی آئی ڈی کا افسر سٹڈی میں بیٹھا سب کو بتا رہا تھا وہ بھی زیرتفتیش ملزمان سے اگلوائی گئی تھی۔ یہ خبر اتنی خفیہ اور حساس تھی کہ سی آئی ڈی کے اس نوجوان افسر کو جب لاہور سے دہلی بھیجا جا رہا تھا کہ وہ جا کر وائسرائے کو سب کچھ بتائے تو اسے سب کچھ زبانی یاد کرایا گیا تھا کسی دستاویز پر لکھ کر نہیں دیا گیا تھا تاکہ راستے میں کہیں ٹرین پر وہ دستاویزات کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔
اصل کہانی کچھ یوں کھل رہی تھی کہ سکھوں کے ایک تشدد پسند گروہ کے بھارت کے اندر سب سے زیادہ تشدد پسند گروپ آر ایس ایس سے تعلقات اور رابطوں کا انکشاف ہوا تھا (یہ وہی گروپ تھاجس کے ایک رکن نے بعد میں گاندھی کو قتل کیا تھا) سکھوں کے اس گروہ کا سربراہ ماسٹر تارا سنگھ تھا۔ تارا سنگھ نے لاہور میں سکھوں کے اس تشدد پسند گروہ کے خفیہ اجلاس میں اپنے حامیوں کو کہا تھا کہ وہ پورے بھارت کو خون میں نہلا دیں۔ ماسٹر تارا سنگھ جو ایک سکول استاد تھا یہ پلان بنائے بیٹھے تھا کہ وہ اس خطے میں لہو کی ہولی کھیلے گا۔ سکھوں کے اہم لوگ خون کی اس ہولی کیلئے روپیہ پیسہ اور دیگر وسائل فراہم کرنے کو تیار تھے تاکہ ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کی جائیں اور تقسیم کو روکا جائے۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں سکھوں کو چند ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ ان سکھوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا کہ ان میں سے اکثر کو بم بنانے اور انہیں استعمال کرنے کا طریقہ آتا تھا۔ سکھوں کے اس گروہ نے دہلی اور کراچی کے درمیان چلنے والی ان ریل گاڑیوں کو تباہ کرنا تھا جن میں نئی ریاست (پاکستان) کیلئے کام کرنے والے اہم لوگ اور ان کے ساتھ حصے میں ملنے والا سامان، روپیہ پیسہ اور دیگر دستاویزات ہونا تھیں۔ اپنے پلان پر عمل کیلئے ماسٹر تارا سنگھ پہلے ہی ایک انتظام کر چکا تھا۔ وہ دہلی سے کراچی روانہ ہونے والی ٹرین پر وائرلیس سیٹ اور ایک آپریٹر لگا چکا تھا جس نے ٹرین کی روانگی کی اطلاع انہیں فراہم کرنا تھی اور اس کا روٹ بتانا تھا تاکہ سکھوں کے مسلح جتھے کو پتا چل سکے اور سکھ ٹرین پر حملہ کر سکیں۔
اس پلان کے دوسرے حصے میں آر ایس ایس تنظیم کے ہندو ممبران کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ خود کو مسلمانوں کے روپ میں ڈھال کر کراچی پہنچیں اور وہاں چودہ اگست کا انتظار کریں۔ آر ایس ایس کے اس قاتل سکواڈ کو برٹش آرمی ملز کے ہینڈ گرینیڈ دیے گئے تھے۔ اس گروپ میں شامل ہندو شدت پسند ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے تاکہ اگر کوئی پکڑا جائے تو بھی پورا پلان کمپرومائز نہ ہو۔ اس خفیہ منصوبے کے تحت آر ایس ایس کے ان ممبران نے چودہ اگست کو کراچی میں شہر کی ان گلیوں کے اس روٹ پر موجود ہونا تھا جہاں سے محمد علی جناح نے پاکستان بننے کی خوشی میں اپنی رہائش گاہ سے دستور ساز اسمبلی تک ایک جلوس کی شکل میں گزرنا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سربیا کے اس نوجوان کی طرح کی کارروائی کی جائے جس نے پورے یورپ کو جنگ عظیم اول میں دھکیل دیا تھا جب اس نے ایک ڈیوک کو گولی مار دی تھی۔ یوں ایک ایسی جنگ شروع ہوئی جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے۔ وہی کچھ اب یہاں کراچی میں دہرایا جانا تھا۔ اس تنظیم کے ممبران نے قائد اعظم کی بگھی پر گرینیڈز سے حملہ کرکے قتل کرنا تھا۔ آر ایس ایس کا پلان تھا کہ جناح صاحب کے قتل کے بعد پورے ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان ایک خونخوار جنگ شروع ہو جائے۔ پورے ہندوستان میں فسادات پھیل جائیں ۔ اس طرح پوری جنگ میں ہندو فاتح بن کر ابھریں گے کیونکہ ان کی پورے ہندوستان میں آبادی مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی اور یوں جہاں ہندوستان کی تقسیم کا سارا منصوبہ ناکام ہو گا وہیں مسلمانوں کا بھی ہندوستان سے صفایا ہو جائے گا اور پھر ہندوستان پر صرف ہندو راج ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ چودہ اگست کو ہی محمد علی جناح کو قتل کیا جائے اور اس کیلئے آر ایس ایس اپنے لوگوں کو گرینیڈ دے کر مسلمانوں کے روپ میں کراچی بھیجنا شروع کر چکی تھی۔ کئی تو پہلے ہی پہنچ بھی چکے تھے۔ جناح صاحب خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہے تھے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ جب پاکستان کی آزادی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا تو انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ سی آئی ڈی افسر خوفناک منصوبے کی تفصیلات بتا کر خاموش ہوا تو لیاقت علی خان نے فوراً لارڈ مائونٹ بیٹن سے کہا کہ وہ سب کام چھوڑ کر سکھوں کے تمام لیڈروں کو گرفتار کر لیں۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے لیاقت علی خان کا یہ مطالبہ سنا تو اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ ان حالات میں کیا کرے۔
لارڈ مائونٹ بیٹن نے جناح صاحب اور لیاقت علی خان سے کہا کہ اگر وہ تمام سکھ لیڈروں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اسی وقت ہندوستان میں سول وار شروع ہو جائے گی اور یہی آر ایس ایس چاہتی ہے۔ جو کام وہ چودہ اگست والے دن کرانا چاہتے ہیں وہ آج ہی شروع ہو جائے گا۔ وائسرائے نے سی آئی ڈی کے نوجوان افسر کی طرف دیکھا اور پوچھا: جنٹلمین! تم بتائو اگر میں سکھوں کی قیادت کو گرفتار کر لیتا ہوں تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس افسر نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولا: اگر یہ کیا تو بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ سکھ لیڈرشپ اس وقت امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں موجود ہے۔ اگر ان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تو کوئی ہندو اور سکھ سپاہی ان احکامات پر عمل نہیں کرے گا۔ کوئی بھی گولڈن ٹیمپل کے اندر جا کر انہیں گرفتار نہیں کرے گا جبکہ مسلمان سپاہیوں کو گولڈن ٹیمپل بھیج کر انہیں گرفتار کرانے کا تو سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ سی آئی ڈی افسر بولا: سر معاف کیجیے گا لیکن ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے پلان کے بعد اب پورے پنجاب میں زیادہ قابل اعتماد پولیس افسران اور اہلکار نہیں بچے جو اس طرح کا ایکشن کر سکیں مجھے علم ہے کہ میں پروفیشنل بات نہیں کر رہا لیکن مجھے کوئی ایسا راستہ نظر نہیں آتا کہ ہم کسی ایسے حکم پر عمل کرائیں یا سکھ قیادت کو گولڈن ٹیمپل سے گرفتار کر سکیں۔
مائونٹ بیٹن ایک لمحے کے لیے سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر اس نے جناب جناح اور لیاقت علی خان سے کہا کہ اس کے پاس ایک اور پلان ہے۔ جونہی لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنا وہ پلان ان کے ساتھ شیئر کیا کہ وہ اب کیا کرنے لگا ہے تو لیاقت علی خان اپنی کرسی سے اچھل پڑے اور وائسرائے ہند کو تیزی سے کہا: آپ قائد اعظم کو قتل کرانا چاہتے ہیں؟
مائونٹ بیٹن نے جناح صاحب اور لیاقت علی خان کے ساتھ اپنا پورا پلان شیئر کیا کہ اب جبکہ سی آئی ڈی پنجاب کے پاس پکی انفارمیشن ہے کہ جناح صاحب کو کراچی میں چودہ اگست کو قتل کرنے کا پلان بن چکا ہے تو اس کو ناکام کیسے بنانا ہے۔ مائونٹ بیٹن کا خیال تھا کہ بہتر ہوگا وہ فوری طور پر پنجاب کے گورنر سر ایوین جینکنز سے سفارشات مانگیں کہ ان کے خیال میں اس سازش کو ناکام کیسے بنایا جا سکتا ہے اور ساتھ ساتھ ان دو عہدیداروں سے بھی مشورہ مانگیں جنہیں پہلے نامزد کر دیا گیا تھا کہ وہ پندرہ اگست کے بعد دونوں ملکوں کے معاملات کو دیکھیں گے۔
اس پر لیاقت علی خان اپنی کرسی سے اچھلے اور احتجاجی لہجے میں بولے: آپ قائد اعظم کو قتل کرنا چاہتے ہیں؟ لارڈ مائونٹ بیٹن بولا: مسٹر خان اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ میں جناح صاحب کو قتل کرانا چاہتا ہوں تو پھر اس کار میں مَیں بھی جناح صاحب کے ساتھ بیٹھ کر جائوں گا اور ان کے ساتھ میں بھی قتل ہونا پسند کروں گا لیکن میں ہندوستان کے ساٹھ لاکھ سکھوں کے لیڈروں کو فوری طور پر جیل میں نہیں ڈالوں گا جب تک مجھے ان دونوں گورنرز کی رائے نہیں مل جاتی یا وہ دونوں اس بات سے اتفاق نہیں کر لیتے کہ ہاں مجھے سکھوں کے لیڈروں کو جیل میں ڈال دینا چاہیے۔
وائسرائے کی سٹڈی میں گفتگو ختم ہو چکی تھی۔ وائسرائے نے جناح صاحب لیاقت علی خان اور سی آئی ڈی کے لاہور سے گئے افسر کو رخصت کر دیا تھا۔ سی آئی ڈی افسر اپنی سکیورٹی بارے خاصی احتیاط کر رہا تھا کیونکہ اسے یہی ہدایات دی گئی تھیں کہ کسی قیمت پر کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ وہ دہلی میں کیا کر رہا تھا لہٰذا اسی رات ٹرین سے وہ واپس لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔ سی آئی ڈی افسر کے پاس ایک بریف کیس تھا جو ٹشو پیپرز سے بھرا ہوا تھا تاکہ کوئی مسئلہ ہو تو دھوکا دیا جا سکے کہ اس میں تو کوئی اہم چیز نہیں تھی۔ جبکہ اس کے پاس مائونٹ بیٹن کا گورنر پنجاب کے نام لکھا ہوا ایک خط تھا جو اس افسر نے اپنے انڈرپینٹ میں چھپایا ہوا تھا۔ لاہور پہنچ کر وہ فوری گورنر سے ملنا چاہ رہا تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ اس وقت گورنر پنجاب لاہور میں فلیٹیز ہوٹل میں موجود ہیں۔ سی آئی ڈی افسر سیدھا وہیں پہنچا اور وائسرائے کا وہ خط گورنر پنجاب کے حوالے کیا۔ گورنر ایوین کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے بہتر پنجاب کے بارے میں اور کوئی انگریز نہیں جانتا تھا۔ گورنر پنجاب نے وہیں وائسرائے ہند کا خط پڑھا مایوسی کی حالت میں اپنے کندھے اچکائے اور ایک گہری سانس بھر کر بولا: لیکن ہم کر ہی کیا سکتے ہیں ہم انہیں کیسے روک سکتے ہیں؟
تیرہ اگست کا دن آ چکا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے کراچی جانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ جہاز دہلی ایئرپورٹ پر تیار کھڑا تھا۔ سی آئی ڈی نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو پھر بتایا کہ جناح صاحب کو قتل کرنے کے منصوبے میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن ایک افسر کے ساتھ جہاز کے پیچھے چلا گیا تاکہ کوئی اور گفتگو نہ سن سکے۔ افسر بولا: ساری انٹیلی جنس رپورٹس کنفرم کر رہی ہیں کہ پلان موجود ہے کل چودہ اگست جمعرات کی صبح ایک یا زیادہ بم اس اوپن کار پر پھینکے جانے کا منصوبہ ہے جس میں بیٹھ کر جناح صاحب نے کراچی کی سڑکوں سے گزرنا ہے۔ افسر نے بتایا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اب تک آر ایس ایس کے ان لوگوں کو ٹریس کرنے میں ناکام رہے تھے جنہیں کراچی جناح صاحب کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مائونٹ بیٹن کو پتا نہ چلا کہ کب اس کی بیوی بھی اسے جہاز کے ایک کونے میں ایک افسر سے باتیں کرتے دیکھ کر خاموشی سے پیچھے آ گئی ہے۔ مائونٹ بیٹن کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ لیڈی مائونٹ بیٹن نے اس افسر کے وہ آخری الفاظ سن لیے اور بولی: میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ مائونٹ بیٹن سختی سے بولا: ہرگز نہیں کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ہم دونوں ایک ساتھ بم سے اڑا دیے جائیں۔
میاں بیوی کی باتوں سے بے پروا سی آئی ڈی کا افسر مائونٹ بیٹن کو بریفنگ دیتا رہا۔ وہ بولا: ہماری جناح صاحب سے بات ہوئی ہے وہ ہر صورت کھلی کار میں ہی جانا چاہتے ہیں ہمارے پاس آپ دونوں کی حفاظت کے محدود طریقے ہیں اس تباہی سے بچنے کا ایک ہی حل ہے آپ کراچی پہنچ کر جناح صاحب کو قائل کریں کہ وہ کل کا جلوس کینسل کر دیں۔
مائونٹ بیٹن کراچی پہنچ کر جناح صاحب کو جلوس کی شکل میں جانے سے روکنے میں اسی طرح ناکام رہا جیسے وہ انہیں پاکستان بنانے سے نہیں روک سکا تھا۔ جناح صاحب اور لارڈ مائونٹ بیٹن ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کو جناح صاحب سے یہ شکایت تھی کہ وہ ضدی مزاج کے ہیں جس بات پر ڈٹ جاتے ہیں ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتے۔ جناح صاحب کے مقابلے میں کانگریس کی قیادت مائونٹ بیٹن کے خیال میں بہت لچک دکھاتی تھی۔ اب بھی کراچی پہنچ کر لارڈ مائونٹ بیٹن نے جناح صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ روانگی کا وقت آیا تو لارڈ مائونٹ بیٹن بھی ٹینس تھا۔ اسے علم نہیں تھا کہ وہ بھی جناح صاحب کے ساتھ بم سے اڑا تو نہیں دیا جائے گا۔ جناح صاحب کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے کراچی کی سڑکوں پر کھلی کار میں جانے سے انکار کر دیا اور اپنا پلان کینسل کر دیا یا پھر کار کو تیزی سے وہاں سے گزار کر لے جایا گیا جب لوگ ان کا ہر طرف انتظار کر رہے ہوں تو یہ بزدلی سمجھی جائے گی۔
اگر جناح صاحب اتنے ہی بزدل ہوتے تو ایک نئے ملک کا مطالبہ ہی نہ کرتے۔
یہ سب باتیں سن کر لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا کہ وہ بھی جناح صاحب کے ساتھ اسی اوپن کار میں بیٹھے گا اور کراچی کی انہی سڑکوں پر سے گزرے گا۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔جناح صاحب کے لیے اس نے خود کو بھی حملہ آوروں کے سامنے ایکسپوز کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جن کی ضد کو وہ ناپسند کرتا تھا۔
جناح صاحب اور مائونٹ بیٹن ایک ساتھ باہر نکلے تو ایک بلیک اوپن رولس رائس انہیں کراچی کی سڑکوں پر سے لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ایک لمحے کے لیے مائونٹ بیٹن نے لیٖٖڈی وائسرائے کو دیکھا جو دوسری گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس کی گاڑی کے ڈرائیور کو سخت ہدایات دی تھیں کہ وہ اس کی کار کے پیچھے جڑا رہے۔ جب لارڈ مائونٹ بیٹن گاڑی میں بیٹھ رہا تھا تو ایک لمحے کے لیے اسے اپنے خاندان کے تمام لوگوں کے انجام یاد آئے جو اسی طرح تشدد آمیز انداز میں مارے گئے تھے۔ تو کیا اس کا انجام بھی انہی جیسا ہونے والا تھا؟ حالات پھر خاندان کے ایک اور ممبر کو اس نازک لمحے پر لے ہی آئے تھے؟
اسے اپنے گریٹ انکل زار الیگزینڈ دوم یاد آئے جنہیں تیرہ فروری 1881 کو سینٹ پیٹرز برگ میں عوام کے ایک ہجوم نے مار ڈالا تھا۔ گرینڈ ڈیوک رشتہ دار یاد آیا جسے اسی انداز میں 1904 میں ایک تخریب کار نے بم سے اڑا دیا تھا۔ کزن اینا یاد آئی جو سپین اپنی شادی کے لیے جا رہی تھی کہ ایک ہجوم نے اس کی بگھی پر حملہ کر دیا تھا اور کوچوانوں کی لاشیں بگھی کے اندر اس کے شادی کے ڈریس پر آن گری تھیں اور ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا۔
تو کیا اس کی خاندانی تاریخ میں وہ سب کچھ آج دوبارہ ہونے والا تھا؟ آج اس شاہی خاندان کے وائسرائے کی قسمت میں بھی کراچی کی سڑکوں پر کسی آر ایس ایس کے کارکن کے ہاتھوں مارا جانا لکھا تھا؟
جونہی وہ گاڑی میں بیٹھے لارڈ مائونٹ بیٹن کی آنکھیں جناح صاحب سے جا ملیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن بولے کچھ نہیں۔ گاڑی چل پڑی تھی۔ ہر طرف انسان ہی انسان نظر آرہے تھے جن کے چہروں پر خوشی پھیلی ہوئی تھی۔ اس تین کلومیٹر سفر کو محفوظ بنانے کے لیے فوجی دستے وہاں تعینات کیے گیے تھے جن کی پشت مجمع کی طرف تھی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے سوچا اگر قاتل نے بم پھینکنے کے لیے باہر نکالا تو یہ فوجی دستے اسے کیسے روکیں گے کیونکہ مجمع کی طرف تو ان کی پشت تھی۔ وہ تو مجمع کو دیکھ ہی نہیں رہے تھے۔
جوں جوں دھیرے دھیرے اوپن گاڑی چل رہی تھی لارڈ مائونٹ لاشعوری طور پر مجمع کو ہی بڑی بے چینی سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس قاتل کے چہرے کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہو جس نے ابھی گرینیڈ سے جناح صاحب اور اس پر حملہ کرنا تھا۔
جب جناح صاحب اور وائسرائے ہند گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو انہیں اکتیس توپوں کی سلامی دی گئی جس کی گونج کراچی کی سڑکوں پر تا دیر سنی جاتی رہی۔ شہر کی سڑکوں پر ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ ہر چہرہ خوش اور پرجوش لگ رہا تھا۔ کوئی سڑک پر تھا کوئی گلی کی نکڑ پر کوئی کونے میں تو کوئی گھر کی بالکونی پر لٹکا ہوا تھا۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے جو اپنا ملک پا کر خوشی سے بے حال ہو رہے تھے۔ مائونٹ بیٹن ان سب چہروں کو غور سے دیکھتا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ انہی میں سے کسی کے ہاتھ میں وہ گرینیڈ ہے جو اس نے ان کی کار پر پھینکنا ہے۔ مائونٹ بیٹن سوچ رہا تھا کہ اس خوش باش اور نعرے لگاتے ہجوم کو کچھ علم نہیں ہے کہ جناح صاحب اور وہ کتنے بڑے خطرات مول لے کر اس وقت اس اوپن گاڑی میں سوار ہیں۔ جو اس وقت جناح اور لارڈ مائونٹ بیٹن پر بیت رہی تھی اس کا اندازہ ہجوم کبھی نہیں کر سکتا تھا جس کے اندر ان کا متوقع قاتل چھپا ہوا تھا اور کسی لمحے وہ آگے بڑھ کر ان پر بم مار سکتا تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن اور جناح ابھی تک چپ چاپ بیٹھے تھے۔ دونوں کے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ دونوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی تھیں۔ مائونٹ بیٹن کو یوں لگ رہا تھا کہ تین کلومیٹر کا سفر طے کرنے میں اسے جو تیس منٹ لگے تھے وہ دراصل چوبیس گھنٹوں پر محیط تھے۔ ان کی گاڑی کی رفتار بمشکل ہی اس بندے سے زیادہ ہو گی جو تیزی سے پیدل چلتا جا رہا ہو۔ اس روٹ کے ایک ایک انچ پر ہجوم کا قبضہ تھا۔ لوگ تو ٹیلی فون کے پولوں، لیمپ پوسٹوں تک سے لٹکے ہوئے تھے۔ کئی تو کھڑکیوں سے چمٹے ہوئے تھے اور ایک بڑی تعداد گھروں کی چھت پر موجود تھی۔ وہ سارا ہجوم جناح اور لارڈ مائونٹ بیٹن کو درپیش خطرات سے بے خبر نعرے لگانے میں مصروف تھا۔ پاکستان زندہ باد۔ جناح زندہ باد۔ مائونٹ بیٹن زندہ باد۔
کار میں سوار جناح اور لارڈ مائونٹ بیٹن کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی سرنگ میں سے گزر رہے ہوں جس کے چاروں طرف انسانوں کی دیواریں تھیں اور کسی وقت کوئی بھی بم ان کی کار پر اچھال دے گا۔ مجمع کو پرجوش اور نعرے لگاتے دیکھ کر جناح اور مائونٹ بیٹن کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے چہروں کو خوشگوار رکھنے کی کوشش کریں۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اس ٹینشن کے ماحول میں اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے سے رگڑ رہا تھا اور ساتھ ہی چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا جبکہ اندر ہی اندر وہ ان چہروں کو بھی پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہیں اسے سوجن زدہ آنکھیں نظر آئیں یا خوفزدہ چہرہ جس سے وہ اندازہ لگا سکے کہ وہ دیکھو یہ ہے وہ بندہ اور یہ جگہ ہے جہاں یہ سب کچھ ہونے والا ہے۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کو یہ سب کچھ سوچتے ہوئے یاد آیا کہ اس کے ساتھ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا تھا۔ جب 1921 میں وہ اپنے کزن پرنس آف ویلز کے ساتھ ہندوستان کے دورے پر آیا تھا تو اس وقت بھی سی آئی ڈی نے ایک سازش پکڑی تھی جب یہ پلان بنایا گیا تھا کہ کرائون پرنس کی کار پر بم پھینک دیا جائے جب وہ بھارت پور کی گلیوں میں سے گزر رہا ہو گا۔
یہی سوچتے ہوئے مائونٹ بیٹن ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اس ہجوم میں سے ایسا کون سا بندہ ہوسکتا ہے جس کے پاس وہ بم ہے جو اس نے جناح اور ان کی کار پر پھینکنا ہے؟ کیا وہ بندہ وہی تو نہیں جس کو دیکھ کر میں اپنا ہاتھ ہلا رہا ہوں؟ یا اس کے قریب جو کھڑا ہوا ہے وہ بندہ ہے جس نے بم مارنا ہے؟ مائونٹ بیٹن کو عجیب و غریب خیالات آرہے تھے۔ مائونٹ بیٹن کو بنگال کے گورنر کا وہ ملٹری سیکرٹری یاد آیا جس نے ایک قاتل کا بم پکڑ کر اسے واپس قاتل پر ہی پھینک دیا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے مائونٹ بیٹن کو خیال آیا کہ بم کو پکڑنا تو دور کی بات ہے وہ تو کرکٹ کی بال تک نہیں پکڑ سکتا تھا۔ اچانک اس کی سوچ کا رخ اپنی بیوی کی طرف مڑ گیا جو بالکل اس کی گاڑی کے پیچھے ایک اور گاڑی میں سوار ہوکر آرہی تھی؛ تاہم اس نے پیچھے مڑ کر اس کی گاڑی کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ نعرے لگاتے ہجوم کو ہی دیکھتا رہا کہ کہیں اسے کوئی خوفزدہ چہرہ نظر آئے جو سٹیل کا وہ خطرناک ٹکرا ان کی گاڑی کی طرف ہوا میں اچھال کر پھینکنے لگا ہو اور وہ چلا کر کہہ سکے کہ وہ رہا۔
جب یہ قافلہ وکٹوریہ روڈ پر واقع ہوٹل کے قریب پہنچنا تو ایک عمارت کی بالکونی میں کھڑے ایک نوجوان نے اپنے کوٹ کی جیب میں موجود اپنے آہنی ہتھیار پر انگلیاں سخت کر دیں اور وہ اس ہجوم کو دیکھنے لگ گیا جو زوروشور سے نعرے لگا رہا تھا۔ اس نے اپنے پستول کی سیفٹی کو ہٹایا۔ یہ وہی افسر Mr Savage تھا جس نے لاہور سے دہلی جا کر مائونٹ بیٹن کو اس سازش کی اطلاع دی تھی۔ قانوناً اس کے پاس یہ ہتھیار نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ کچھ دنوں بعد وہ واپس برطانیہ جا رہا تھا۔ اس کی پنجاب پولیس کے ساتھ سروس چوبیس گھنٹے پہلے ختم ہو چکی تھی۔
دوسری طرف گاڑی میں مائونٹ بیٹن اور جناح صاحب اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور اپنی پریشانیوں کو چھپانے کے لیے عوام کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے تاکہ کسی کو اندازہ نہ ہو کہ وہ اس وقت کس صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ دونوں اتنے دبائو کا شکار تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے سے بات تک نہیں کی۔ دونوں کے ہونٹ سلے ہوئے تھے لیکن وہ مجمع کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن خود کو سمجھانا شروع ہوگیا کہ یہ سب لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس نے تو ان سب کو آج کے دن آزادی دی ہے۔ وہ بھلا اسے کیوں قتل کرنا چاہیں گے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن پوری طرح اس بات پر قائل ہو کر ہی جناح کے ساتھ اوپن گاڑی میں بیٹھا تھا کہ اس کی موجودگی کی وجہ سے جناح صاحب قتل ہونے سے بچ جائیں گے۔ مائونٹ بیٹن کے خیال میں جو لوگ جناح کو قتل کرنا چاہتے تھے وہ ان کے ساتھ گاڑی میں اسے بیٹھا دیکھ کر قتل نہیں کریں گے۔ مائونٹ بیٹن نے جناح کے ساتھ گاڑی میں سفر کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ جناح کی جان بچائی جائے۔
انگریز افسر کی بالکونی کے نیچے سے جب جناح اور مائونٹ بیٹن کی گاڑی گزرنے لگی تو اس نے اپنے پستول پر گرفت مضبوط کر لی۔ جب تک رولز رائس وہاں سے گزر نہیںگئی وہ وہاں موجود رہا۔ وہ اپنے کمرے میں لوٹ گیا اور اس نے ایک گلاس میں سکاچ انڈیل لی۔
آگے ہندوئوں کا علاقہ آرہا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے سوچا یقینا اگر گاڑی پر بم سے حملہ ہوا تو یہیں سے ہوگا۔ اس علاقے کی تمام دکانیں ہندوئوں کی ملکیت تھیں اور وہ سب مسلمانوں کو نعرے لگاتے دیکھ کر سہمے ہوئے بھی تھے۔
کچھ بھی نہ ہوا۔ اچانک مائونٹ بیٹن نے اپنے سامنے گورنر ہائوس کا بڑا گیٹ دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے کسی بحری جہاز کے کپتان کو بڑے طوفان کے بعد ساحل سمندر کی روشنیاں نظر آگئی ہوں۔ مائونٹ بیٹن کی زندگی کا سب سے خوفناک اور اعصاب شکن سفر اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ جب گاڑی رکی تو جناح نے گہری سانس لی جیسے وہ بھی ریلیکس کررہے ہوں۔ انکے چہرے پرچھائی ہوئی سنجیدگی اور فکر کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی۔ جناح نے اپنا کمزور ہاتھ وائسرائے کے گھٹنے پر رکھ کر کہا: خدا کا شکر ہے میں آپ کو زندہ سلامت لے آیا ہوں۔
لارڈ مائونٹ بیٹن مسکرایا اور بولا: کیا کہا آپ نے جناح آپ مجھے زندہ سلامت لے آئے ہیں یا میں آپ کو زندہ سلامت گورنر ہائوس لے آیا ہوں۔
اب جناح اور مائونٹ بیٹن کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ سی آئی ڈی کے پاس اتنی پکی خبر تھی پھر ان پر حملہ کیوں نہیں کیا گیا تھا؟ آخری لمحے پر ایسا کیا ہوگیا تھا کہ ان کی گاڑی پر بم نہیں اچھالا گیا تھا۔ جس سوال کا جواب جناح اور مائونٹ بیٹن تلاش کررہے تھے اس کا جواب صرف اور صرف جالندھر میں سائیکلوں کی مرمت کرنے والے سکھ مستری پریتم سنگھ کے پاس تھا کہ جناح اور لارڈ مائونٹ بیٹن پر آخری لمحے حملہ کیوں نہیں کیا گیا تھا۔
یہ سب کے لیے حیرانی کی بات تھی کیونکہ سی آئی ڈی کی مخبری غلط نہیں ہوتی تھی اور اس معاملے کو ہائی لیول پر دیکھا جا رہا تھا۔ جناح صاحب کو قتل کرنے کی جو سازش آر ایس ایس نے تیار کی تھی اس کو وائسرائے ہند، گورنر پنجاب اور دیگر اہم عہدے دار مانٹیر کر رہے تھے۔
سی آئی ڈی اتنی بڑی غلطی نہیں کر سکتی تھی کہ اس کا مخبر اسے غلط مخبری کرے۔ اگرچہ اچھا ہوا کہ جناح کو قتل کرنے کا پلان ناکام ہو گیا تھا اور ہندوستان تباہی بربادی سے بچ گیا لیکن سوال یہ تھا کہ آخر ایسا کیا ہو گیا تھا۔ فوری طور پر کسی کے پاس اس کا جواب نہ تھا؛ تاہم بعد میں کی گئی تفتیش میں یہ راز کھلا اور راز کھولنے والا جالندھر میں ایک سائیکل مکینک تھا۔ اس مکینک کا نام پریتم سنگھ تھا۔ پریتم سنگھ اس وقت پکڑا گیا تھا جب پاکستان آنے والی ایک اہم ٹرین پر سکھوں کے حملے کے بعد گرفتاریاں کی گئی تھیں۔ پریتم نے اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ آر ایس ایس کا پلان پکا تھا۔ کراچی ان کے لوگ بھی پہنچائے گئے تھے؛ تاہم آر ایس ایس کا گینگ لیڈر جس نے حملے کا اشارہ کرنا تھا تاکہ دیگر لوگ جناح کی گاڑی پر بموں سے حملہ کر دیں، لیکن جب گاڑی قریب آئی تو وہ یہ جرات نہ کرسکا۔ طے یہ ہوا تھا کہ گینگ لیڈر پہلا بم پھینکے گا اور پھر سب اپنے اپنے بم جناح صاحب کی گاڑی پر مارنا شروع کریں گے۔ آر ایس ایس کے متوقع قاتل انتظار کرتے رہ گئے۔ وہ آخری لمحے پر بم پھینکنے کی ہمت نہ کرسکا۔ اتنی دیر میں کار ٹارگٹ سے نکل گئی اور یوں جناح اور مائونٹ بیٹن اس دن حملہ سے بچ گئے تھے۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کراچی سے واپس دہلی لوٹ چکا تھا۔ پاکستان کے بعد اب ہندوستان کے آزاد ہونے کی باری تھی۔ اس کے پاس آخری چند لمحے بچ گئے تھے۔ رات کے بارہ بجتے ہی وہ وائسرائے ہند کے ٹائٹل سے دست بردار ہو جائے گا۔ وائسرائے ہند کے طور پر وہ آخری دستاویزات پر دستخط کر چکا تھا۔ آخری ڈاک بھی جا چکی تھی۔ وقت آن پہنچا تھا جب وائسرائے ہند کی تمام مہریں کسی ڈبے میں بند کرکے رکھ دی جائیں جو دنیا کے طاقتور ترین سیاسی دفتر کی نشانی سمجھی جاتی تھیں۔ اپنی سٹڈی میں تنہا بیٹھے مائونٹ بیٹن کو کچھ دیر کے لیے عجیب سا سکون اور طاقت محسوس ہوئی میں اب بھی اس زمین پر سب سے طاقتور انسان ہوں۔ ابھی میرے پاس چند منٹ باقی ہیں۔ میں جو اس سلطنت کا سربراہ ہوں جس کے پاس دنیا کے کروڑوں انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔
انہی خیالات میں گم اسے ایچ جی ویلز کی کہانی یاد آئی The Man who could Do miracles۔ یہ ایک ایسے انسان کی کہانی تھی جس کو ایک دن کے لیے یہ طاقت مل گئی تھی کہ وہ کوئی بھی معجزہ کرسکتا تھا جو اس کا دل چاہے۔ مائونٹ بیٹن نے سوچا میرے پاس بھی چند منٹ بچ گئے ہیں اور میں اس دفتر میں موجود ہوں جس کا سربراہ کوئی بھی معجزہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ مائونٹ بیٹن نے سوچا میں بھی کوئی معجزہ کرسکتا ہوں ۔ لیکن کون سا معجزہ؟
اچانک مائونٹ بیٹن سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اوہ خدایا وہ آونچی آواز میں بولا یاد آیا مجھے پالن پور ریاست کی بیگم صاحبہ کو ہائی نس کا خطاب دینا تھا۔ خوش باش چہرے کے ساتھ مائونٹ بیٹن نے گھنٹی بجانا شروع کر دی تاکہ وہ خادم کو فوراً بلا سکے۔ دراصل مائونٹ بیٹن اور نواب پالن پور اس وقت دوست بن گئے تھے جب وہ انیس سو اکیس میں اپنے کزن پرنس ویلز کے ساتھ ہندوستان کے دورے پر آیا تھا۔ 1945 میں جب مائونٹ بیٹن جنگ عظیم دوم لڑ رہا تھا تو وہ نواب پالن پور کے پاس سپریم کمانڈر کی حیثیت سے دورہ کرنے گیا تھا۔ وہاں اس کی ملاقات نواب کی خوبصورت آسٹریلوی بیگم صاحبہ سے بھی ہوئی تھی۔ اس دورے میں نواب کا گورا ریذیڈنٹ مائونٹ بیٹن کے پاس نواب کی طرف سے ایک درخواست لے کر آیا تھا۔ اس گورے کا نام سر ولیم کرافٹ تھا۔ اس نے مائونٹ بیٹن کو بتایا کہ نواب آسٹریلوی خاتون سے شادی کرکے لے آیا ہے۔ وہ مسلمان ہوگئی ہے اور بہت سارے اچھے سوشل کام بھی کررہی ہے لیکن نواب بہت افسردہ ہے کیونکہ وائسرائے ہند بیگم صاحبہ کو ہائی نس کا لقب اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا کیونکہ وہ ہندوستانی نہیں۔
دہلی واپس پہنچ کر مائونٹ بیٹن نے وائسرائے ہند لارڈ ویول سے ملاقات کی اور اس سے درخواست کی کہ وہ نواب کی بیگم کو ہائی نس کا لقب اختیار کرنے کی اجازت دے۔ لیکن وائسرائے ہند نے انکار کر دیا تھا کہ اگر ایک کو اجازت دی گئی تو ہندوستانی راجوں مہاراجوں کا یورپی خواتین سے شادیوںکا راستہ کھل جائے گا اور یوں ہندوستان میں Princely States کا پورا نظریہ ہی ختم ہو کر رہ جائے گا۔اب تین برس بعد جب سلطنت برطانیہ کے ختم ہونے میں کچھ منٹ بچ گئے تھے تو مائونٹ بیٹن کو نواب پالن پور یاد آیا۔ جونہی سٹاف کے لوگ سٹڈی میں پہنچے تو مائونٹ بیٹن نے نواب کی بیگم صاحبہ کو ہائی نس کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ سٹاف میں سے ایک نے احتجاج کیا کہ آپ یہ کام نہیں کرسکتے۔ ہنستے ہوئے مائونٹ بیٹن نے کہا: کون کہتا ہے میں نہیں کرسکتا۔ میں وائسرائے ہند ہوں۔ نہیں؟
لارڈ مائونٹ بیٹن نے حکم دیا کہ فوراً جائیں وہ مخصوص دستاویز لائیں جس پر وائسرائے کا حکم لکھ کر یہ لقب یا خطاب عنایت کیا جاتا ہے۔ اس پر لکھ کر لائو نواب پالن پور کی بیگم کو ہائی نس کا لقب دیا جاتا ہے۔ جب یہ دستاویز تیار کرکے وائسرائے کی میز پر رکھی گئی رات کے 11.58 ہوچکے تھے۔ بارہ بجنے میں دو منٹ باقی تھی جس کے بعد وائسرائے ہند کا عہدہ ختم ہوجانا تھا۔ مائونٹ بیٹن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ اس نے قلم اٹھایا اور وائسرائے ہند کے طور پر اپنا آخری کام سرانجام دیا۔ جونہی بارہ بجے وائسرائے ہند کا عہدہ ختم ہوا اور یونین جیک جھنڈا نیچے اتار دیا گیا۔ چند دن بعد نواب کے ریذیڈنٹ افسر کی طرف سے مائونٹ بیٹن کو خط ملا جس میں لکھا تھا کہ نواب صاحب بہت شکر گزار ہیں اگر میں کبھی آپ کے کسی کام آسکا تو مجھے خوشی ہوگی۔
تین سال بعد 1950 میں مائونٹ بیٹن ایک دفعہ پھر اپنی پسندیدہ جاب سمندروں پر کررہا تھا۔ وہ نیوی کے تمام معاملات کا انچارج تھا جس میں ڈیوٹی فری اشیا، الکوحل، سگریٹ اور دیگر آئٹمز بھی شامل تھے جو نیوی افسران اور اہلکاروں کو ملتے تھے۔ برطانوی وزیراعظم ایٹلے کی حکومت کو پیسوں کی ضرورت پڑ گئی تو سوچا گیا کہ ٹیکس اکٹھا کیا جائے تو کلکٹر کسٹمز نے یہ عندیہ دیا کہ وہ یہ تمام مراعات ختم کر رہا ہے۔ نیوی کے تمام چھوٹے بڑے عہدیداروں نے پوری کوشش کرکے دیکھ لی لیکن کلکٹر نہ مانا اور وہ ڈٹا رہا کہ سب مراعات ختم ہوں گے۔ آخر مائونٹ بیٹن نے کہا کہ وہ خود جا کر کلکٹر سے بات کرے گا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن ایک دن کلکٹر کے دفتر پہنچ گیا۔ مائونٹ بیٹن اندر داخل ہوا تو حیران رہ گیا کہ وہ کلکٹر اور کوئی نہیں بلکہ ریاست پالن پور کا ریذیڈنٹ سر کرافٹ تھا جو اسے دیکھ کر اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا: آپ نے نواب کی بیگم صاحبہ کے لیے جو کچھ کیا تھا اس پر آپ کا شکریہ تک ادا نہیں ہوسکتا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن مسکرائے اور بولے: نہیں تمہارے پاس آج میرا شکریہ ادا کرنے کا موقع ہے۔ کلکٹر نے اسی وقت نیوی کی تمام مراعات بحال کر دیں۔
ادھر جس رات بھارت آزاد ہو رہا تھا تو مائونٹ بیٹن کے رائٹ ہینڈ مین وی پی مینن جس نے تقسیم کا پلان دوبارہ ڈرافٹ کیا تھا اپنے کمرے میں بیٹھا تھا جب اس کی ٹین ایجر بیٹی داخل ہوئی۔ باہر ہر طرف پٹاخے پھوڑے جانے لگے اور نعرے بلند ہوئے تو اس کی بیٹی خوشی سے چلائی کہ ہم آزاد ہو گئے ہیں لیکن اس کا باپ وی پی مینن کرسی پر خاموش بیٹھا رہا۔ اپنی بیٹی کو چیخیں مارتے دیکھ کر وی پی مینن جس نے آنے والے دنوں میں سردار پٹیل اور لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر کشمیر سمیت 565 ریاستوں کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں اہم کردار ادا کرنا تھا کے منہ سے بے ساختہ نکلا: ہمارا اصل ڈرائونا خواب تو اب شروع ہورہا ہے۔
وی پی مینن کے کہے ہوئے وہ الفاظ کہ اصل ڈرائونا خواب تو اب شروع ہو رہا ہے، اس کی بیٹی کو سنائی نہ دیئے۔ سنائی دے جاتے تو بھی چھوٹی بچی شاید ان کا مطلب نہ سمجھ سکتی کہ اس کا باپ، جس نے تین جون کو لارڈ مائونٹ بیٹن کا ہندوستان کی تقسیم کا پلان ڈرافٹ لکھا تھا، مستقبل کے کن خوابوں، خیالوں اور اندیشوں میں کھویا ہوا ہے۔
دوسری طرف سری نگر میں کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ وی پی مینن کے ان خدشات سے دور اپنے محل کے رنگے اور سجے دربار ہال میں موجود تھا۔ یہ موقع ہندوئوں کے اس سالانہ تہوار کا تھا جو اکتوبر کے چاند کے ساتھ ہی ان کی دیوی درگا کی نو دن کی جدوجہد کی یاد میں منایا جاتا تھا۔ درگا دیوی ہندوئوں کے لارڈ شیوا کی بیوی تھیں۔ ہری سنگھ کے آبائواجداد کی بھی یہ روایت تھی کہ وہ چوبیس اکتوبر کی شام ریاست کے تمام شرفا سے وفاداری کا حلف لیتے تھے۔ ایک ایک کرکے سب شرفا مہاراجہ کے تخت کی طرف بڑھتے اور شاہی ہاتھ میں ایک رومال میں بند سونے کا ٹکڑا رکھ دیتے تھے۔
مہاراجہ بہت خوش قسمت تھا کہ ہندوستان کی تین میں سے ایک ریاست اس کے پاس تھی جن کی بہت اہمیت تھی۔ باقی دو حیدرآباد اور جوناگڑھ کی ریاستیں تھیں۔ کشمیر بہت بڑی ریاست تھی اور اس کا رقبہ بہت وسیع تھا۔ جونا گڑھ ریاست اگرچہ ہندوستان کے وسط میں واقع تھی اور اس کی اکثریتی آبادی بھی ہندو تھی لیکن راجہ ہر قیمت پر پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتا تھا اور ہندوستان کی نئی حکومت کسی قیمت پر راجہ جوناگڑھ کو یہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھی۔
دوسری طرف اپنے پرانے دوست لارڈ مائونٹ بیٹن کے سری نگر میں دیے گئے مشورے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر مہاراجہ ہری سنگھ اب یہ پلان بنائے بیٹھا تھا کہ جو ریاست اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ایک کروڑ روپے (پچھتر لاکھ نقد اور پچیس لاکھ کے کچھ دفاعی لحاظ سے اہم کشمیری علاقے) ادا کرکے خریدی تھی، اسے اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہیں کرے گا۔
جب راجہ اپنی ریاست کے اہم شرفا سے وفاداری کا حلف لینے میں مصروف تھا، اسی وقت سری نگر سے پچاس کلومیٹر مشرق میں ایک مسلح گروہ دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ایک دفتر کے اندر گھس رہا تھا جو مشینوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک مسلح آدمی نے ایک کمرے کے اندر ڈائنامائٹ فٹ کیا اور اسے کچھ فاصلے سے آگ کی تیلی دکھا کر باہر بھاگ گیا اور چیخ کر دوسروں کو بھی خبردار کیا کہ وہ بھی دور بھاگ جائیں۔ چند سکینڈز کے بعد مہورا پاور سٹیشن کی عمارت زوردار دھماکے سے اڑ گئی۔ اس عمارت کے اڑنے کے ساتھ ہی پاکستانی سرحد سے لے کر لداخ اور چین کے پہاڑی علاقوں تک بجلی مکمل طور پر غائب ہوگئی۔ ہری سنگھ کے دربار ہال میں لگے سینکڑوں بلب بھی بجھ گئے۔ ہری سنگھ کا محل اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔ پورے سری نگر میں بجلی غائب ہوگئی۔ اس اچانک بجلی چلے جانے کا سب نے اثر لیا اور سب سے زیادہ وہاں موجود گورے سپاہیوں اور ریٹائرڈ افسران نے محسوس کیا جو ہندوستان چھوڑنے سے پہلے گرمیوں کے موسم میں چھٹیاں منانے کے لیے وہاں پہاڑی علاقوں میں موجود تھے۔ بجلی کے بلب بجھنا ان گوروں کے لیے ایک طرح کا شگون تھا کہ اب ان کے ہندوستان سے جانے کا وقت آ گیا ہے۔
چوبیس اکتوبر 1947 کی رات سینکڑوں قبائلی پٹھان ہری سنگھ کی ریاست میں داخل ہو رہے تھے تاکہ اس کے اس خواب کا توڑ کر سکیں کہ وہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی والی ریاست کو ایک آزاد ملک بنا کر اس کا حکمران بن کر رہے گا۔ مہاراجہ کی اپنی آرمی پہلے ہی اسے چھوڑ کر جا چکی تھی۔ بہت سارے فوجی آرمی سے بھاگ کر پہاڑیوں میں پناہ لیے بیٹھے تھے جبکہ مسلمان فوجی اہلکاروں نے ان پٹھانوں کو جوائن کر لیا تھا جو سری نگر کی طرف جارہے تھے۔ سوال یہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں پٹھان قبائلی علاقوں سے مسلح ہو کر کشمیر کیسے پہنچ گئے تھے، جس کا پتا مہاراجہ تک کو نہیں چلا تھا اور پھر انہیں وہاں بھیجنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی تھی؟
اس سارے قصے کے تانے بانے دو ماہ پہلے ہونے والے ایک واقعے سے ملتے تھے جب قائد اعظم نے چوبیس اگست کو اپنے گورے ملٹری سیکرٹری کرنل ولیم کو بلا کر کہا کہ وہ کچھ دن آرام کرنے کشمیر جانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف بگڑتی صحت، دوسری طرف ہندوستان کی تقسیم اور اوپر سے دن رات مذاکرات کے دبائو نے انہیں مزید کمزور کر دیا تھا۔ قائد اعظم اب کچھ آرام کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے کشمیر کو پسند کیا تھا۔ قائد اعظم نے اپنے ملٹری سیکرٹری کو کہا کہ وہ ستمبر کے دوسرے ہفتے میں ان کی کشمیر میں رہائش کا بندوبست کرے۔ قائداعظم کا کشمیر میں دو ہفتے آرام کرنے کا فیصلہ بالکل فطری تھا۔ قائد کے علاوہ پاکستان کی تمام آبادی بھی یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ ریاست کشمیر، جس کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی، پاکستان کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی لے سکتی تھی لہٰذا سب یہی سمجھے بیٹھے تھے کشمیر تو پاکستان کا ہے۔ اس لیے قائد اعظم نے اس سوچ کے ساتھ اپنے ملٹری سیکرٹری کو کشمیر بھیجا تھا کہ وہ جا کر ان کے لیے دو ہفتے کا بندوبست کرکے آئے۔
پانچ دن بعد قائد اعظم کا گورا ملٹری سیکرٹری واپس لوٹا اور اس نے جو بات بتائی اسے سن کر قائداعظم کو شدید جھٹکا لگا۔ سیکرٹری نے بتایا کہ ان کے قیام کے انتظامات تو ایک طرف، مہاراجہ ہری سنگھ تو انہیں وہاں ایک سیاح کے طور پر بھی قدم رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھا۔
قائد اعظم کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ حالات تو بالکل کسی اور سمت جا رہے ہیں۔ ان کے کشمیر کے بارے میں تمام خیالات اور اندازے غلط نکلے تھے۔ یہ توکہانی ہی کچھ اور نکلی تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا کیا جائے؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جائے یا پھر کچھ اور پلان کیا جائے۔ قائداعظم کو یوں لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔
اگلے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر حکومت پاکستان نے ایک خفیہ ایجنٹ کشمیر بھیجا تاکہ وہ ساری صورتحال کی رپورٹ حاصل کرکے واپس آئے اور اس کی روشنی میں مستقبل کی حکمت عملی بنائی جا سکے۔ جو بندہ اس کام کے لیے سری نگر بھیجا گیا تھا جب وہ رپورٹ واپس لے کر آیا تو سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ہری سنگھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا دور دور تک ارادہ نہیں تھا۔ یہ خفیہ اطلاع قائداعظم کے لیے ایک بم شیل سے کم نہ تھی کہ کشمیر ان کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔
یوں ستمبر کے وسط میں لیاقت علی خان نے ایک خفیہ اجلاس لاہور میں بلایا جس میں صرف چند اہم لوگ شریک تھے۔ اس خفیہ اجلاس میں طے کیا جانا تھا کہ مہاراجہ کو اس کے آزاد ریاست کے فیصلے سے کیسے روکا جائے کیونکہ کشمیر پر پاکستان کا حق بنتا تھا۔ پہلی تجویز یہ دی گئی کہ پاکستانی فوج کشمیر پر حملہ کر دے اور اس پر اپنا قبضہ جما لے؛ تاہم اس تجویز کو رد کر دیا گیا کہ موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد دو اور تجاویز پیش کی گئیں۔ ایک تجویز کرنل اکبر خان نے دی۔ وہ Sandhurst کالج کے گریجویٹ تھے۔ کرنل صاحب کا خیال تھا کہ بہتر ہے ہم کشمیر میں مسلمان آبادی کو پیسہ، اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کریں اور مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کو جنم دیا جائے۔ کرنل کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے کو چند ماہ لگیں گے لیکن اس کے نتائج پاکستان کے حق میں ہی نکلیں گے۔ سری نگر میں جب ہزاروں مسلح کشمیری اتریں گے تو راجہ کو وہاں سے بھاگنا ہی پڑے گا یا پھر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گا۔ لیکن اس آپشن کو بھی اجلاس کے شرکا نے مسترد کر دیا کہ اس میں بہت وقت درکار تھا اور خطرات بھی بہت تھے۔ پاکستان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔
اس پر ایک عہدے دار نے کہا: حکومت پاکستان بھی اپنی فوج نہیں بھیج سکتی، ہم کشمیریوں کو بھی پیسہ، اسلحہ اور گولہ بارود دے کر سری نگر پر لانچ نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی آپشن رہ جاتاہے۔ سب شرکا کی آنکھیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ جب وہ پلان اس خفیہ اجلاس میں شیئر کیا گیا تو اسے سن کر وزیراعظم لیاقت علی خان سمیت سب شرکا اچھل پڑے۔ جو منصوبہ بنایا گیا تھا اس پر ایک ہی بندہ عمل کرا سکتا تھا۔ اس کا نام خورشید خان تھا۔
لیکن یہ گمنام انسان خورشید خان تھا کون جو پاکستان کے لیے اچانک بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا؟
سوال یہ ہے کہ برٹش آرمی کے ایک ریٹائرڈ میجر خورشید انور کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟دراصل پندرہ اگست سے پہلے پاکستان اور بھارت دونوں یہ توقع کئے بیٹھے تھے کہ مہاراجہ کشمیر کا دماغ کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا اور وہ فیصلہ کر لے گا لیکن انہیں علم نہ تھا کہ مہاراجہ کچھ اور سوچ کر بیٹھا ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے پلان تیار کیا ہوا تھا کہ وہ پاکستان اور آزاد کشمیر ریاست کے درمیان ایک بفر زون پیدا کرے اور اس کام کے لیے اس نے ڈوگرا فورس اپنی مسلمان آبادی پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مسلمانوں کی آبادی کم ظاہر کی جائے اور اس کے پاس اپنی ریاست کے قائم کرنے کا جواز بن جائے۔ یوں پونچھ جو پاکستانی سرحد کے قریب علاقہ ہے اور جنوبی جموں کے علاقوں میں باقاعدہ فوج کے ذریعے مسلمان کی نسل کشی شروع کر دی گئی۔جموں سے مسلمانوں کی تمام آبادی جو پانچ لاکھ کے قریب تھی کو وہاں سے نکال دیا گیا جبکہ دو لاکھ تو مکمل طور پر غائب ہوگئے ۔ایک پلان کے تحت مہاراجہ کی فوج نے کشمیری مسلمانوں کو پاکستان میں دھکیلنا شروع کر دیا ؛ اگرچہ ہندوستان اس سے انکاری رہا کہ اس طرح کی تباہی کشمیری مسلمان پر لائی گئی لیکن یہ دعویٰ کیا گیا کہ دراصل بھارت ہی خفیہ طور پر ڈوگرا فوج کو اسلحہ فراہم کررہا تھا ۔
جب یہ سب رپورٹس آنا شروع ہوئیں کہ کیسے ڈوگرا فورس کشمیری مسلمانوں کو مار رہی ہیں تو اس وقت برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر سی بی ڈیوک جو لاہور میں تعینات تھے نے صورتحال کا پورا جائزہ لینے کے لیے کشمیر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے وہاں بیس ایسے گائوں دیکھے جو کشمیر کے اندر دریائے چناب کے کناروں پر جلائے گئے تھے اور مسجد بھی راکھ ہو چکی تھی ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہاں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانون کی نسل کشی شروع کی ہوئی تھی ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مہاجرین جن میں سے اکثریت کا تعلق جموں سے تھا سیالکوٹ کے علاقے میں جان بچانے کے لیے آنا شروع ہوگئے اور انہوں نے یہاں مقامی لوگوں کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی دردناک کہانیاں سنائیں۔ مہاراجہ کو احساس نہ تھا کہ وہ ان کشمیریوں کو مار بھگا کر دراصل تاریخ کے سخت ترین جنگجو پٹھانوں کو اپنی طرف بلا رہا ہے۔ برطانوی سفارت کار ڈیوک کا خیال تھا کہ مہاراجہ بہت خطرناک کھیل کھیل رہا ہے اس کی وجہ سے پاکستان کے علاقوں سے کشمیر کے اندر بڑی تعداد میں جنگجو اس کے لیے مسائل پیدا کر دیں گے۔ ڈیوک کا اندازہ بالکل درست تھا کیونکہ سکھوں اور ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتلِ عام کی خبروں پر قبائلی علاقوںمیں پہلے ہی بہت غصہ پایا جاتا تھا۔ ان سب کو لیڈ خورشید انور کر رہا تھا جو اس برطانوی ڈپلومیٹ کے بقول بہت بڑا ایڈونچرر اور لڑائی کا شوقین تھا۔ خورشید انور نے ان قبائلی پٹھانوں کو بتانا شروع کیا کہ اگر انہوں نے اپنے لاکھوں کشمیری مسلمان بھائیوں کی فوری مدد نہ کی تو ایک مسلمان ریاست بہت جلد ہندو مہاراجہ کے قبضے میں چلی جائے گی اور مہاراجہ ہری سنگھ بھارت کے ساتھ الحاق کا پلان بنا کر مسلمانوں کو مستقل غلام بنا لے گا۔ انہیں جہاد کرنا ہوگا ۔ یوں بڑی تعداد میں پٹھانوں نے اس لشکر کو جوائن کرنا شروع کردیا جو خورشید انور کی سربراہی میں کشمیر کی طرف روانہ ہورہا تھا ۔ قبائلی پٹھان جو زیادہ تر محسود اور آفریدی تھے نے اپنی رائفلوں کے ساتھ سفید کپڑے باندھ لیے کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں لوٹیں گے جب تک وہ پنجاب میں اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے مظالم کا بدلہ نہیں لے لیتے۔برطانوی عہدیداروں کا خیال تھا کہ سرحد حکومت ان قبائلیوں کو روکنے کے لیے کوششیں کررہی تھی لیکن اسے زیادہ کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ ڈیوک نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا کہ قبائلی علاقوں کے پٹھانوں کے لیے کشمیر ہمیشہ سے ایک مالدار علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے؛چنانچہ اگر مسلمانوں کے قتلِ عام کا بدلہ لینے کے ساتھ ان میں کشمیر کی لڑائی سے مال غنیمت جمع کرنے کا جوش بھی مل گیا تو صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی ۔
اس لشکر کے ارکان نے خفیہ طور پر بازاروں سے سامان خریدنا شروع کر دیا تاکہ وہ جنگ میں اپنے ساتھ لے جاسکیںتاہم پلان بنایا گیا کہ سامان بازار سے اس طرح خریدنا ہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ یوں بڑی تعداد میں گڑ اور چنے خریدے گئے ۔ یوں دھیرے دھیرے ان کے پاس اسلحہ اور کھانے پینے کی اشیا اکٹھی ہوگئیں۔ اتنی دیر میں پاکستانی افسران نے پٹرول چینی اور دیگر اشیا کی سپلائی کشمیر کو روک دی ۔ ہائی کمشنر نے اس کی ذمہ داری پنڈی کے ڈپٹی کمشنر عبدالحق پر ڈالی جو وزارت دفاع میں سروس کرنے والے ایک اور بھائی کے ساتھ مل کر کشمیر میں اپنی طرح کی جنگ شروع کر چکا تھا ۔
جب یہ قبائلی اکٹھے ہورہے تھے تو ٹیلی فون لائن پر ایک طرف سر جارج کنگھمن جو صوبہ سرحد کے گورنر تھے تو دوسری طرف پاکستان آرمی کے کمانڈ اِن چیف لیفٹیننٹ جنرل سر فرینک میسروی تھے۔ گورنر سرحد نے کمانڈر اِن چیف کو بتایا کہ یہاں صوبہ بھر میں عجیب و غریب اور پرسرار چیزیں ہورہی ہیںکئی دنوں سے قبائلی علاقوں سے ٹرکوں کے ٹرک پٹھانوں سے لدے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے پشاور سے گزر رہے ہیں لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ پٹھانوں کو بڑھکا رہا ہے اورپشاور شہر میں سب کو علم ہے کہ یہ قبائلی جنگجو کہاں جارہے ہیں۔ گورنر نے آرمی کمانڈر سے پوچھا کہ آپ کو ابھی بھی یقین ہے کہ حکومت پاکستان کشمیر میں ان قبائلیوں کو نہیں بھیج رہی اور اس کے خلاف ہے؟ گورنر سرحد کو علم نہ تھا کہ جب وہ آرمی کمانڈر کو فون کررہا تھا تو وہ اس وقت لندن جانے کے لیے اپنا سامان پیک کررہا تھا۔ آرمی کمانڈر لندن اس لیے جارہا تھا کہ وہ پاکستان کی نئی فوج کے لیے وہاں گولہ بارود اور دیگر ہتھیاروں کا آرڈر دے تاکہ جو ہتھیار بھارت نے روک لیے تھے ان کی جگہ وہ لے سکیں۔ جنرل نے گورنر کو بتایا کہ وہ کشمیر کے اندر قبائلیوں کے ایسے کسی بھی حملے کے خلاف ہیں اور وزیراعظم لیاقت علی خان نے انہیں پورا یقین دلایا ہے کہ حکومت پاکستان بھی ایسے کسی منصوبے کے خلاف ہے۔ اس پر گورنر سرحد نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر وہ فوری طور پر وزیراعظم لیاقت علی خان کو بتائے کہ قبائلی کشمیر کی طرف جنگ لڑنے جارہے ہیں۔ لندن جانے سے پہلے آرمی کمانڈر نے وزیراعظم لیاقت علی خان سے ملاقات کی اور وزیراعظم نے اسے یقین دلایا کہ حکومت پاکستان کا کوئی ارادہ نہیں کہ قبائلی کشمیر میں جنگ لڑیں۔ دوسری طرف برٹش افسران اس بات پر قائل تھے کہ سرحد حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ وہ پٹھانوں کو روک لے لیکن وہ ناکام ہورہی ہے۔ یوں جنرل لندن روانہ ہوگیا تاکہ وہ پاکستانی فوج کے لیے گولہ بارود خرید سکے۔
بیس اکتوبر کو اس وقت جنگ ناگزیر ہوگئی جب مہاراجہ کی فوج نے پاکستانی سرحد کے اندرچار گائوں پر حملہ کیا اور مارٹر گرینیڈ اور آٹومیٹک اسلحے سے فائرنگ کی۔ تقریبا ً1750 لوگ اس حملے میں مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ڈوگرا فورس کے پاکستانی سرحد کے اندر اس حملے کے دو دن بعد بائیس اکتوبر کی رات کی تاریکی میں ایک پرانی فورڈ جیپ دریائے جہلم کے پل سے سو گز دُور رک گئی۔ جیپ کے پیچھے ٹرکوں کی قطار لگی ہوئی تھی جن میں مسلح لوگ سوار تھے۔ رات کی تاریکی میں اگر کوئی آواز سنی جاسکتی تھی تو وہ نیچے دریائے جہلم کے پانی کی آواز تھی۔ جیپ میں سوار سیراب خان جو کمانڈ کررہا تھا کی عمر تئیس برس تھی ۔ اس نے پل کے پار دیکھا جہاں سے کشمیر شروع ہورہا تھا ۔ وہ دراصل یہاں رک کر ایک اشارے کا انتظار کررہا تھا۔نوجوان سیراب خان اپنی بے قراری پر قابو پانے کے لیے اپنی مونچھوں کو بار بار تائو دے رہا تھا ۔ اس کے اندر بے چینی بڑھ رہی تھی۔ رات گزرتی جارہی تھی لیکن ابھی تک اسے پل کی دوسری سائیڈ سے اشارہ نہیں ملا تھا ۔ اس نے آج رات ہی کشمیر میں داخل ہوکر جنگ شروع کرنی تھی۔ اس کے خدشات سانپ کی طرح پھن پھیلائے اس پر حملہ آور ہورہے تھے۔ کہیں آخری مرحلے پر گڑ بڑ تو نہیں ہوگئی ۔ یہ نہ ہو کہ وہ پل عبور کریں اور آگے ڈوگرا فورس کے جوان لشکر کا توپوں بندوقوں اور اسلحہ باردو سے لیس استقبال کریں ۔ کہیں ان کے ساتھ دھوکہ تو نہیں ہوگیا ؟
سیراب خان پل پر کھڑا دوسری طرف سے اشارہ ملنے کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ اسے یہ بتایا گیا تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج میں مسلمان افسران اور فوجیوں نے بغاوت کرنی ہے اور وہ وہاں واقع چوکی پر قبضہ کرکے انہیں سنگل دیں گے تو وہ پھر پل عبور کرکے کشمیر کے اندر آجائیں گے۔
رات کی تاریکی میں آخر وہ سگنل مل ہی گیا جس کا انتظار سیراب خان اور اس کے جنگجوئوں کو تھا۔ محاذ گرم ہونے کو تیار تھا۔ سیراب خان نے اپنی سٹیشن ویگن سٹارٹ کی اور اسے پل پر چڑھا دیا۔
کشمیر کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد سیراب خان کے جنگجو ایک چھوٹے سے شہر مظفر آباد میں بغیر کسی لڑائی کے داخل ہو چکے تھے۔ وہاں کسٹمز شیڈ میں کچھ سوئے جاگے اہلکاروں نے اس قافلے کو روکنے کی کوشش کی تاکہ ان کی تلاشی لی جا سکے۔ جونہی ان اہلکاروں کو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی اور ٹرک ہیں تو ان میں سے ایک فون کی طرف بھاگا لیکن پٹھانوں نے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑ لیا اور تاروں سے باندھ دیا۔ سیراب خان یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا کہ اس کی ایڈوانس ٹیم نے اہم مقصد حاصل کر لیا تھا۔ اب ان پٹھانوں کے سامنے ایک سو پینتیس میل کا سری نگر تک کا سارا راستہ اوپن تھا۔ اس طویل راستے میں اب انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا تھا۔ جونہی صبح کا اجالا پھیلے گا تو اس وقت تک ہزاروں پٹھان ہری سنگھ کے دارالحکومت سری نگر پہنچ کر قبضہ کر چکے ہوں گے۔ سیراب خان مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ محل پر قبضہ کرنے کے بعد خود ناشتے کی ٹرے لے کر مہاراجہ کی خواب گاہ میں جائے گا اور ناشتے کے ساتھ یہ خبر بھی بریک کرے گا کہ چند لمحے بعد پوری دنیا کو پتا چلنے والا ہے کہ اب کشمیر پاکستان کا ہے۔
انہیں سہانی سوچوں میں گم سیراب خان کا یہ سارا خواب اس وقت ٹوٹ گیا جب اس نے دیکھا کہ اس کے اکثر پٹھان ساتھی رات کی تاریکی میں مظفر آباد کے بازاروں کی طرف نکل گئے تھے، جہاں انہیں بتایا گیا تھا کہ ہندوئوں کی دکانیں تھیں۔ وہ اس وقت سری نگر جانے کو تیار نہیں تھے۔ ان سب کا خیال تھا کہ کشمیر فتح ہو چکا ہے، اب ان کا راستہ کس نے روکنا ہے۔ وہ آرام سے بازار میں کچھ مال غنیمت اکٹھا کرنے کے بعد کل دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ان جنگجوئوں نے دکانوں کے تالے توڑ کر جو قیمتی چیز ملی نکال لی۔ سیراب خان اکیلا تھا جو اس کھیل میں شریک نہ ہوا۔ اس کی آنکھیں سری نگر پر تھیں جبکہ اس کے ساتھی مظفر آباد میں دکانوں کے تالے توڑ رہے تھے۔ سیراب خان اور اس کے چند ساتھیوں نے یہ صورت حال دیکھ کر سب کو روکنے کی کوششیں کیں۔ ان کی منتیں کیں، ترلے ڈالے بلکہ انہیں ان کے کپڑوں سے پکڑ کر گھسیٹنے کی کوشش بھی کرتے رہے کہ وہ یہ کام چھوڑیں اور سری نگر کا رخ کریں۔ وقت بہت کم تھا، بند کرو یہ کام، ہم نے سری نگر جانا ہے۔ سیراب خان چلاتا رہا، انہیں ایسا کرنے سے روکتا رہا، لیکن اس کی بات سننے کو کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ لوٹ مار شروع ہو چکی تھی اور سیراب خان اکیلا کھڑا ہاتھ مل رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے سری نگر نکلا جا رہا ہے۔
اس رات سری نگر ان پٹھانوں کے ہاتھ نہیں لگنے والا تھا۔ اب انہیں ایک پاور سٹیشن تک پہنچنے کیلئے اگلے ستر میل کو اڑتالیس گھنٹوں میں کور کرنا تھا۔ وہ پاور سٹیشن جو پہلے ہی اڑایا جا چکا تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ کا محل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
مظفرآباد کے بازاروں سے فارغ ہونے کے بعد ان پٹھانوں نے سری نگر کا رخ کیا اور راستے میں آنے والے سب گائوں وہ فتح کرتے گئے بلکہ ان کے ساتھ وہ فوجی بھی شامل ہوگئے تھے جو مہاراجہ کی فوج کو چھوڑ چکے تھے؛ تاہم پچیس اکتوبر کو مہاراجہ کی آرمی نے ان جنگجوئوں کو بارہ مولہ میں روک لیا۔ وہاں بھی ایک خونریز جنگ ہوئی جس کے بعد بارہ مولہ کے لوگوں کا قتل عام ہوا۔ پھر قبائلی پٹھان کشمیری، مسلمان اور غیر مسلم کشمیریوں کے درمیان فرق نہ کر سکے۔ میجر خورشید انور نے جب ان سب کو مال غنیمت اکٹھا کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو اسی لمحے وہ اپنا اثر ان جنگجوئوں پر کھو بیٹھا۔ دو دن تک پٹھانوں کا جرگہ اس بات پر بحث کرتا رہا کہ وہ اپنے کمانڈر خورشید انور کو قتل کر دیں یا پھر اسے بدل دیں؟ یوں دو قیمتی دن اس پر ضائع کر گئے اور مہاراجہ کو وقت مل گیا کہ وہ اب کوئی نیا کرتب دکھائے تاکہ وہ پٹھانوں کے ہاتھوں موت اور سری نگر پر ان کے قبضے سے بچ جائے۔
پٹھانوں کے لشکر کے بارہ مولہ میں دو دن وقت ضائع کرنے، وہاں بازاروں اور گھروں سے مال غنیمت اکٹھا کرنے اور غیر مسلمانوں کو مارنے میں جو وقت ضائع کیا گیا تھا اس کے بعد اب اصل کھیل شروع ہو رہا تھا۔
ادھر سری نگر میں مہاراجہ کو ایک اور مشکل در پیش تھی۔ اسے یہ بتایا جا رہا تھا کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرتا ہے تو پھر لداخ، جموں اور کشمیر کے دیگر حصوں کے نان مسلم اس فیصلے کو پسند نہیں کریں گے جبکہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرتا ہے تو گلگت بلتستان اور کشمیر میں اکثریتی مسلمان اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے؛ تاہم ایک بات پاکستان کے حق میں جاتی تھی کہ کشمیر کے تمام راستے پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مہاراجہ کے پاس ایک اور بھی آپشن تھا کہ وہ کشمیر کے مختلف قوموں اور مذاہب کے نمائندوں کو بلا کر ان سے یہ سب آپشن شیئر کرکے مشورہ مانگ سکتا تھا۔ لیکن مہاراجہ اس وقت کسی اور ہی دنیا میں تھا۔ وہ جتنے بڑے خواب لے کر اپنے محل میں سو رہا تھا، اتنی وہ ان خوابوں کو حاصل کرنے کے لیے کوشش نہیں کر رہا تھا۔ اسے یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پاکستان یا بھارت اسے ہرگز ایک آزاد ملک نہیں رہنے دیں گے۔ ہندوستان کو پاور ٹرانسفر ہونے سے کچھ دن پہلے ہی مہاراجہ نے اپنے وزیراعظم کو برطرف کر دیا تھا، جس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ مہاراجہ کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا مشورہ دے رہا تھا۔ اس کی جگہ نیا وزیراعظم میجر جنرل جنک سنگھ کو لگا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر حکومت نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ stand still agreements پر مذاکرات کرنے کا اعلان کر دیا؛ تاہم بھارت جواب دینے سے پہلے اس معاہدے کے فوائد اور نقصانات پر غور کرنا چاہ رہا تھا۔ بھارت نے وقتی طور پر ریاست کو اکیلے چھوڑ دیا تھا۔ بھارت نے ابھی تک مہاراجہ کو نہیں کہا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لے۔ اگرچہ ریڈکلف ایوارڈ کے اعلان کے بعد اب کشمیر بھی بھارت کے ساتھ سڑک کے زریعے لنک ہو چکا تھا۔ بھارت سمجھ رہا تھا کہ وہاں مسلم آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے مہاراجہ اور ریاست کے لیے ابھی بہت مشکلات تھیں کہ وہ ہندوستان ساتھ الحاق کا سوچیں؛ تاہم ہندوستان سے مہاراجہ کی حکومت نے اس وقت پہلا بڑا رابطہ کیا جب راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر عبدالحق نے کشمیر کو پٹرول، چاول، چینی اور دیگر اشیا کی سپلائی روک دی اور بحران پیدا ہونا شروع ہوا۔ مہاراجہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے کہ اسے مجبور کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔ یوں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت نے پہلی دفعہ ہندوستان سے پانچ ہزار گیلن پٹرول کی درخواست کی تاکہ ان کا ٹرانسپورٹ سسٹم بالکل ہی نہ بیٹھ جائے۔ دوسری طرف مہاراجہ کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے اگست کے پہلے ہفتے میں اپنے وزیراعظم کو ہٹا کر جنرل جنک سنگھ کو وزیراعظم بنایا تھا تو اکتوبر میں اس نے جنک سنگھ کو بھی برطرف کر دیا اور اس کی جگہ مہر چند مہاجن کو وزیراعظم لگا دیا۔ مہر مہاجن دراصل ایک مشہور وکیل تھے اور متحدہ پنجاب کے جج بھی رہے تھے۔ بعد میں وہ مشرقی پنجاب کے پنجاب ہائی کورٹ کے بھی جج لگا دیے گئے تھے۔ وہ بعد ازاں چیف جسٹس کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
مہر مہاجن نے وزیراعظم بنتے ہی مہاراجہ ہری سنگھ کو ایک مشورہ دیا جسے سن کر ہری سنگھ کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اسے نئے چوائس پر فخر محسوس ہوا۔ وہ جس کام کے لیے مہر مہاجن کو لایا تھا وہ مہاجن نے شروع کر دیا۔ مہر مہاجن نے کاغذ قلم لیا اور غیرمعمولی خط لکھنے بیٹھ گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کو ہرگز یہ اندازہ نہ تھا جو خط اس کا نیا وزیر اعظم لکھ رہا تھا، اس سے کشمیر میں تباہی آنے والی تھی۔
وزیراعظم مہر مہاجن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو مشورہ دیا کہ انہیں پاکستان کے خلاف برطانوی وزیراعظم کو خط لکھ کر شکایت کرنی چاہیے۔ برطانوی وزیراعظم ایٹلے کو لکھے گئے اس خط میں مہر مہاجن نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ پہلا الزام یہ لگایا کہ پاکستان نے standstill agreement کی خلاف ورزی کی اور خوراک اور دیگر اہم اشیا کی سپلائی روک دی، جس سے کشمیر میں ان اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ دوسری یہ شکایت کی گئی کہ پاکستان کی طرف سے کشمیر کو گورداسپور سے لے کر گلگت تک حملے کا خطرہ ہے اور پونچھ کے علاقوں میں ایسی لڑائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ مہاجن نے لکھا کہ برطانوی وزیراعظم پاکستان کو ان کارروائیوں سے روکے اور اس کی قیادت کو کہے کہ وہ کشمیر کے ساتھ انصاف پر مبنی کام کرے۔ برطانوی وزیراعظم نے مہاراجہ کے وزیراعظم کے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا۔ اب انہوں نے براہ راست پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھارہ اکتوبر کو جموں و کشمیر کی ریاست نے ایک احتجاجی مراسلہ گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو لکھا۔ اس خط کے جواب میں قائداعظم نے لکھا کہ دراصل سپلائی میں پرابلم اس لیے آرہا تھا کہ مشرقی پنجاب میں ہونے والے فسادات اور ہنگاموں کی وجہ سے مواصلات میں بہت مسائل تھے، اور سب سے بڑھ کر کوئلے کی سپلائی معطل ہوگئی تھی۔ اس دوران پٹھان، جن میں آفریدی، وزیر، محسود، سواتی قبائل کے جنگجو اور پاکستانی فوج کے کچھ ریٹائرڈ یا چھٹی پر گئے ہوئے افراد شامل تھے، کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ ان پٹھانوں نے ڈومیل اور گڑھی پر قبضہ کیا؛ تاہم مہاراجہ کے لیے سب سے بڑا جھٹکا یہ تھا کہ اس کی ڈوگرا فورس میں جتنے مسلمان اہلکار اور سپاہی شامل تھے وہ چھوڑ چکے تھے۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کو گولی مار کر اس قافلے میں شمولیت اختیار کر لی تھی جو سری نگر کی طرف رواں دواں تھا۔ چند دن پہلے تک مہاراجہ ہری سنگھ اپنے لیفٹیننٹ جنرل نارائن سنگھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ اپنی بٹالین پر بھروسہ کر سکتا ہے، جس میں آدھی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ جنرل نے جواب دیا تھا کہ وہ ڈوگرا فورس سے زیادہ مسلمان اہلکاروں پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ وہ برسوں سے اس بٹالین کی کمانڈ کر رہا تھا لیکن اسے علم نہ تھا کہ بدلتے حالات میں جب جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی تھی اور دو تین لاکھ کشمیریوں کو اپنی زمین چھوڑنے پر مہاراجہ کی فورس مجبور کر رہی تھی، مسلمانوں کے اندر بھی بغاوت کے اثرات نمودار ہورہے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ اگر انہوں نے اس موقع پر کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کیا تو مسلمانوں کے لیے کشمیر میں ہمیشہ کے لیے جگہ تنگ ہوجائے گی اور وہ مہاراجہ کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ جب مہاراجہ کی فوج کے چیف آف سٹاف ایک بریگیڈیئر راجندر سنگھ کو پتا چلا کہ مہاراجہ کی فوج میں سے مسلمان اہلکار چھوڑ کر قبائلیوں کے لشکر کے ساتھ مل گئے ہیں تو اس نے مشکل سے ڈیڑھ سو سپاہی اکٹھے کیے اور انہیں روکنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے سب سے پہلے اڑی کا پل اڑایا اور دو دن تک قبائلی لشکر کو یہاں روکے رکھا؛ تاہم لشکر نے بہت جلد انہیں شکست دے کر سری نگر کی طرف مارچ جاری رکھا اور چوبیس اکتوبر کو سری نگر کو بجلی سپلائی کرنے والا پاور سٹیشن دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ سری نگر اب لشکر کے قدموں میں پڑا تھا۔ لشکر نے اعلان کر دیا کہ چھبیس اکتوبر کو وہ سری نگر میں داخل ہو کر مسجد میں اپنی فتح کا جشن منائیں گے۔ اب مہاراجہ اور اس کے وزیراعظم مہر مہاجن کو اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کا اقتدار ختم ہونے والا ہے۔ تخت تو چھوڑیں اب ان کی زندگیاں تک دائو پر لگ چکی تھیں۔ دونوں کی سب ترکیبیں ناکام ہوگئی تھیں۔ وہ کشمیر کو اب ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں منوا سکتے تھے۔ انہیں پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ یوں مہاراجہ اور مہر مہاجن نے بھارت کو مدد کی اپیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بائیس تاریخ کو لشکر نے کشمیر میں جنگ شروع کی تھی جبکہ دو دن بعد چوبیس اکتوبر کی صبح دہلی میں ہندوستانی حکومت کو مہاراجہ کی طرف سے ایک خط ملا جس میں فوراً مدد کی اپیل کی گئی تھی۔ ساتھ ہی پاکستان کے اس وقت کی انگریز ملٹری کمانڈر نے ہندوستان اور پاکستان کے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل Auchinleck کو اطلاع دی کہ کشمیر میں پاکستانی لشکر داخل ہوچکا ہے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ جب ہندوستان اور پاکستان تقسیم ہوئے تو ساتھ ہی انڈین آرمی، رائل انڈیں نیوی اور رائل انڈین فورس کو بھی دونوں ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس تقسیم کا کلیہ وہی بنایا گیا تھا کہ مسلمان افسران پاکستان آرمی میں جائیں جبکہ دیگر مذاہب کے ہندوستان فورسز کو جوائن کریں گے۔ یوں نیوی، آرمی اور ایئرفورس کے تین کمانڈرز پاکستان کے پاس تھے اور تین بھارت کے پاس۔ ان چھ کمانڈروں کے اوپر ایک سپریم کمانڈر تھا تاکہ وہ فوجی ہتھیاروں اور دیگر اشیا کی تقسیم کے پورے عمل کو یقینی بنائے۔ اس برٹش سپریم کمانڈر کو دونوں ملکوں کے چھ کمانڈرز ہر بات سے باخبر رکھتے تھے اور وہ سپریم کمانڈر آگے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو اطلاع کرتے تھے۔ یوں جب قبائلی لشکر کی خبر پھیلی تو پاکستان کے جی ایچ کیو سے یہ خبر سپریم کمانڈر کو دہلی بھیجی گئی۔ اس وقت پاکستان آرمی کے کمانڈر ایک برٹش افسر تھے۔ سپریم کمانڈر نے آگے سے یہ اطلاع بھارتی حکومت تک پہنچائی۔ یوں بھارتی حکومت کے پاس جہاں مہاراجہ ہری سنگھ کی مدد کی اپیل میز پر رکھی تھی کہ ہمیں بچائو اور ہمیں پاکستان ساتھ جانے سے بچائو، وہیں ان کے پاس سپریم کمانڈر کی طرف سے یہ اطلاع پہنچ گئی تھی کہ پاکستانی آرمی کے انگریز کمانڈر نے بھی لشکر کی تصدیق کی ہے۔ اب ہندوستانی حکومت، جسے قائم ہوئے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے، کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان حالات میں کیا کرے۔ ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ تھی کہ لارڈ مائونٹ بیٹن، جو اب ہندوستان کا گورنر جنرل تھا، شروع میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں تھا۔ مہاراجہ کو راضی کرنے کے لیے وہ تقسیم سے کچھ دن پہلے سری نگر میں تین راتیں بھی گزار آیا تھا، جس میں اس نے مہاراجہ کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی تھی کہ وہ پاکستان ساتھ الحاق کرلے، اسی میں پوری وادی اور خطے کا فائدہ تھا۔ مائونٹ بیٹن نے اسے سمجھایا تھا کہ کشمیر ایک land locked خطہ ہے اور اسے دنیا سے رابطے، میل جول اور کاروبار کے لیے جن راستوں کی ضرورت ہے، وہ سارے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ اب وہی ہو رہا تھا جس کا خدشہ مائونٹ بیٹن سری نگر میں مہاراجہ سے اپنی ملاقاتوں میں ظاہر کر چکا تھا۔ مہاراجہ نے اس کی بات نہ مان کر دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ وہی مہاراجہ جو لارڈ مائونٹ بیٹن کو سری نگر میں تین راتوں کے قیام کے بعد رخصت کرنے بھی نہیں آیا تھا، اب گڑگڑا کر مدد مانگ رہا تھا۔ مہاراجہ ہندوستانی حکومت سے اسلحہ اور گولہ بارود مانگ رہا تھا اور ساتھ ہی ہندوستان سے اپنے فوجی دستے بھیجنے کی اپیل بھی کررہا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے جس میں مہاراجہ کی اپیل اور سپریم کمانڈر کی بھیجی ہوئی اطلاع پر غور کیا جائے؛ تاہم لارڈ مائونٹ بیٹن اس بات پر اڑ گیا کہ اس وقت تک کوئی ایکشن نہ لیا جائے جب تک ہندوستانی حکومت کے پاس سری نگر کے حالات کی پوری خبر نہ ہو۔ اسے مہاراجہ ہری سنگھ پر اعتبار نہیں رہا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا: پہلے کسی کو سری نگر فوراً بھیجا جائے جو مکمل رپورٹ لائے۔ پھر ہی فیصلہ ہوگا کہ مہاراجہ کو فوج اور اسلحہ بھیجنا ہے یا نہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ جب پاکستانی لشکر سری نگر سے کچھ فاصلے پر پہنچ چکا تھا اور کس لمحے بھی سری نگر ان کے کنٹرول میں ہونا تھا، وہاں جانے پر کون راضی ہوتا جس کی رپورٹ پر سب کو اعتبار بھی ہو۔ ان حالات میں جب قبائلی لشکر کی دہشت ہر طرف پھیل چکی تھی اور مہاراجہ بھی ڈرا ہوا تھا کیونکہ لشکر سری نگر سے چند میل کے فاصلے پر تھا، وہاں جانے کا رسک کون لے سکتا تھا کیونکہ اس میں جان بھی جا سکتی تھی؟ مائونٹ بیٹن سمیت سب کی نظریں اجلاس میں بیٹھے ایک بندے کی طرف اٹھ گئیں کہ یہ خطرناک کام وہی کر سکتا تھا، جو چپ بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔
جب قبائلی لشکر کی اطلاع پاکستان سے دہلی بھیجی گئی تو پاکستان اور ہندوستان کے اُس وقت کے ملٹری کمانڈرز جو انگریز تھے، کو یہ فکر لاحق تھی کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو دونوں ملکوں کے فوجی افسران جو اکٹھے اکیڈمی میں تربیت لیتے رہے ہیں وہ بھی اس جنگ میں کود جائیں گے اور یہ سب کامریڈز ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہوں گے، لہٰذا اس خطرے کو ٹالنے کے لیے جب جنرل گریسی، جو لندن گئے ہوئے تھے، نے پاکستان آرمی کمانڈر کی عدم موجودگی میں یہ اطلاع دہلی ہیڈ کوارٹر بھیجی کہ انہیں انٹیلی جنس رپورٹ ملی ہے کہ پاکستان سے قبائلی لشکر کشمیر میں داخل ہوگیا ہے، تو ماونٹ بیٹن بھی پریشان ہو گیا۔ ماونٹ بیٹن اس وقت تھائی لینڈ کے وزیرخارجہ کو دیے گئے عشائیہ میں شرکت کے لیے تیار ہورہا تھا، جب اسے یہ خبر دی گئی۔
جب آخری مہمان بھی رخصت ہوگیا تو ماونٹ بیٹن نے وزیراعظم نہرو سے کہا کہ وہ ذرا رک جائیں، ضروری بات کرنی ہے۔ نہرو بھی یہ خبر سن کر ششدر رہ گیا۔ اس کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی برُی خبر نہیں ہوسکتی تھی۔ ماونٹ بیٹن کے سامنے ایک اور نہرو کھڑا تھا جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔ پرانا نہرو ایک نارمل اور شاندار دانشور تھا، جسے ماونٹ بیٹن پسند کرتا تھا۔ وہ یہ خبر سن کر اچانک کہیں غائب ہوگیا اور اس کی جگہ ایک جذباتی نہرو نے لے لی جو اپنی آواز میں جذبات کوقابو نہیں کرپایا تھا۔ ماونٹ بیٹن کو یوں لگا جیسے نہرو ابھی رو پڑے گا۔ نہرو نے ماونٹ بیٹن کو جذباتی بلیک میل کرنے کے لیے اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا جب انگلینڈ کی کوئین میری کے دور میں مسٹر ڈک ولنگٹن لندن اور Calasis کا مشترکہ مئیر تھا، لیکن فرانس سے جنگ میں انگلینڈ کو شکست ہوئی تو فرانس نے کلاسس پر قبضہ کر لیا۔ جب یہ خبر کوئین میری تک پہنچی تو وہ صدمے سے بولی: جب میں مروں گی تو میرے دل کو چیر کر دیکھنا، اس پر Calasis لکھا ہوا ہوگا۔
نہرو کے بعد ماونٹ بیٹن کی ملاقات فیلڈ مارشل سے ہوئی۔ سپریم کمانڈر نے گورنر جنرل کو بتایا کہ وہ فوری طور پر برٹش فوج کا ایک بریگیڈ سری نگر بھیجنا چاہتا ہے تاکہ وہ ان ریٹائرڈ برٹش افسران کو بچا کر واپس لا سکے جو اس وقت وہاں موجود تھے، اگر انہیں فوراً نہ نکالا گیا تو وہ بھی وہاں مارے جائیں گے۔ ماونٹ بیٹن نے کہا: جنرل آئی ایم سوری، میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ وہ اب ہندوستان، پاکستان میں برٹش آرمی کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتا تھا، خصوصاً جب وہ ان دونوں ملکوں کو آزادی دے چکا ہے۔ اگر کشمیر میں فوجی مداخلت کی ضرورت محسوس ہوئی تو پھر بھارتی فوج ہی مداخلت کرے گی، انگریز فوج دور رہے گی۔ فیلڈ مارشل نے احتجاج کیا اور ماونٹ بیٹن سے کہا: پھر ہمارے جو سینکڑوں ریٹائرڈ افسران اور ان کے خاندانوں کے لوگ مارے جائیں گے، ان سب کا خون آپ کے ہاتھوں پر ہو گا۔ اپنے فیلڈ مارشل کی یہ بات سن کر ماونٹ بیٹن کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ابھرے اور بولا: بالکل مجھے یہ ذمہ داری لینا ہوگی۔ میری ڈیوٹی بھی ایک طرح سے سزا ہے، لیکن میں ان چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب نہیں دے پائوں گا جو بعد میں مجھ سے پوچھے جائیں گے، اگر اس وقت انگریز فورس کو میں نے جنگ میں دھکیل دیا۔
اب ماونٹ بیٹن ہندوستانی قیادت کے ساتھ بیٹھا تمام ایشوز پر بات کررہا تھا۔ نہرو کے جذبات سے ماونٹ بیٹن کو اندازہ ہوچکاتھا کہ فوجی مداخلت ناگزیر ہے؛ تاہم ماونٹ بیٹن اس پر ڈٹا ہوا تھا کہ فوج بھیجنے سے پہلے ان کے پاس قانونی جواز پورے ہونے چاہئیں۔ اس لیے اس اجلاس میں ماونٹ بیٹن نے گورنر جنرل ہندوستان کے طور پر شرکا سے یہ بات منوا لی تھی کہ جب تک مہاراجہ ہندوستان کے ساتھ باقاعدہ طور پر الحاق کی دستاویزات پر دستخط نہیں کردیتا، وہ فوج نہیں بھیج سکتے۔ اگرچہ ماونٹ بیٹن کو یقین تھا کہ جیسے برطانیہ کے لیے ہندوستانیوں کی خواہشات کے برعکس ہندوستان میں رہنا مشکل ہوگیا تھا، ویسے ہی مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس کوئی بھی حل نہیں نکل سکے گا۔ یہی وجہ تھی کہ سات نومبر کو لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے کزن بادشاہ کو لکھا کہ میں اس بات پر قائل ہوں کہ جس آبادی میں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ہوں وہ یقینا پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے۔ اس لیے نہرو اور دیگر کی مخالفت کے باوجود ماونٹ بیٹن نے انہیں قائل کر لیا کہ الحاق کے بعد وہ فوج بھیج سکتے ہیں اور یہ الحاق مستقل نہیں ہوگا۔ یہ سب عارضی معاملات ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک وادی میں سکون اور استصوابِ رائے نہیں ہوجاتا کہ کشمیر کس کے ساتھ جائے گا۔
وی پی مینن دور بیٹھا ہوا تھا جب لارڈ ماونٹ بیٹن کی نظر اس پر پڑی۔ ماونٹ بیٹن ذاتی طور پر وی پی مینن کو پسند کرتا تھا۔ ماونٹ بیٹن نے کہا: مسٹر مینن آپ فوراً سری نگر جائیں اور وہاں سے پوری رپورٹ لے کر واپس آئیں، اس کے بعد ہی فیصلہ ہوگا کہ مہاراجہ کی درخواست پر کشمیر میں فوج بھیجی جائے یا نہیں۔ ماونٹ بیٹن نے وی پی مینن کو کہا کہ وہ مہاراجہ کو واضح طور پر بتائے کہ الحاق وقتی طور پر ہورہا ہے۔ کشمیر میں استصوابِ رائے ہوگا اور پھر فیصلہ ہوگا کہ کشمیری کس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ وی پی مینن کے ساتھ آرمی اور ایئر فورس کے افسران نے بھی جانا تھا۔ جب وی پی مینن دو افسران کے ساتھ سری نگر ائیرپورٹ سے نکلا تو اسے یوں لگا کہ وہ کسی قبرستان میں آگیا ہو۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ یوں لگ رہا تھا یہاں بڑی تباہی نازل ہونے والی ہے۔ ایئرپورٹ سے وی پی مینن اور اس کے ساتھی افسران سیدھے وزیراعظم مہر چند مہاجن کی رہائش گاہ کی طرف چل پڑے۔ سری نگر ائیرپورٹ سے وزیراعظم کے گھر تک کی سڑک اس وقت سنسان تھی۔ ہر اہم شاہراہ اورگلی کے کونے پر نیشنل کانفرنس کے رضاکار نظر آرہے تھے جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اور وہ ہر گزرنے والے بندے کو روک رہے تھے۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ سری نگر پولیس کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ وزیراعظم مہر چندمہاجن نے وی پی مینن کو گمبھیر صورتحال کے بارے میں بتایا اور اپیل کی کہ فوری طور پر بھارتی حکومت ان کی مدد کو آئے۔ اگرچہ مہاجن کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ ہرطرح کے حالات میں خود کو سنبھال کر رکھتے تھے؛ تاہم اس وقت وہ بری طرح ہلے ہوئے تھے۔ وہاں سے اُٹھ کر وی پی مینن مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی طرف چل پڑا۔
جب وی پی مینن مہاراجہ سے ملا تو اسے احساس ہوا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی حالت بہت بری ہے۔ جس طرح حالات نے پلٹا کھایا تھا اور اس کی فوج اور پولیس چھوڑ کر بھاگ گئی تھی اور سری نگر سے کچھ فاصلے پر پاکستانی لشکر موجود تھا، اس صورتحال میں وہ بری طرح سے ڈرا ہوا تھا۔ تنہائی اور بے بسی کا احساس مہاراجہ کی شخصیت پر دور سے پڑھا جا سکتا تھا۔ جس ریاست کی فوج بھاگ گئی ہو اور قبائلی لشکر بارہ مولا پہنچ چکا ہو اس کے مہاراجے کی یہی حالت ہونی چاہیے تھی جو اس وقت ہری سنگھ کی ہورہی تھی۔ مہاراجہ کا خیال تھا کہ اگر اسی رفتار سے لشکر آگے بڑھتا رہا تو زیادہ سے زیادہ ایک یا دو دن میں وہ سری نگر پہنچ جائیں گے۔ وی پی مینن نے محسوس کیا کہ مہاراجہ کبھی نہیں سوچ سکتا تھاکہ ایک قبائلی لشکر بھی اس کی ریاست کے اندر اتنی دور تک گھس سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس کی فوج اور پولیس اہلکار اسے یوں اکیلا چھوڑ کر بھگوڑے بن سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ خطرناک بات یہ تھی کہ سری نگر کا اس وقت ان علاقوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا جہاں قبائلی لشکر موجود تھا، لہٰذا کسی کو سری نگر میں کچھ پتہ نہ تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ مہاراجہ کو صرف ایک ہی امید تھی کہ بریگیڈیئر راجندر سنگھ اس سے یہ وعدہ کرکے گیا تھا کہ وہ بارہ مُولہ کے مقام پر لشکر کو روک لے گا اور مہاراجہ کو پتہ تھا کہ سنگھ مرتے دم تک لڑے گا۔ وی پی مینن کے ذہن میں فوری طور پر ایک ہی بات آئی کہ باقی کام ایک طرف اسے فوراً مہاراجہ کو سری نگر سے نکالنا ہوگا تاکہ لشکر کے قبضے کی صورت میں وہ اپنے خاندان سمیت نہ مارا جائے۔
پچیس اکتوبر کو ہفتے کے روز رات گئے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کرنے والوں میں ایک اور بندے کا اضافہ ہوا۔
پچھلے چند ماہ میں ڈیڑھ کروڑ مسلمان، ہندو اور سکھ پناہ کی تلاش میں گھر سے بے گھر ہوئے تھے۔ اب ان میں ایک اور مہاراجہ ہری سنگھ کا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ مہاراجہ کا قافلہ اس کی اپنی آرام دہ امریکن سٹیشن ویگن، جس میں وہ خود سوار تھا، کے علاوہ کئی ٹرکوں اور کاروں پر مشتمل تھا، جن میں مہاراجہ ہری سنگھ کا سامان لدا ہوا تھا۔ اس میں مہاراجہ کا سارا قیمتی سامان بھی موجود تھا جو اس کے محل سے ایمرجنسی میں نکال کر لاد دیا گیا تھا۔
مہاراجہ کو اندازہ نہ تھا کہ وہ آخری دفعہ اپنے محل کو دیکھ رہا ہے اور وہ اب یہاں کبھی نہیں لوٹ پائے گا۔ مہاراجہ کی اس انداز میں رخصتی پر ڈھول نہیں بجائے جا رہے تھے۔ ایک افسردگی اور خوف کا عالم تھا۔ وہ مہاراجہ جس نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو کشمیر میں کچھ دن آرام کی غرض سے گزارنے کی اجازت تک نہیں دی تھی، اب رات کے اندھیرے میں اپنی جان بچانے کے لیے پناہ کی تلاش میں اپنے محافظوں کے ہمراہ سٹیشن ویگن میں سہما بیٹھا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی منزل جموں تھی جہاں اسے پناہ ملنے کی امید تھی کیونکہ وہاں تک پاکستانی لشکر نہیں پہنچ سکتا تھا اور پھر جموں کی آبادی زیادہ تر ہندو تھی، جہاں وہ نسبتاً خود کو محفوظ پا سکتا تھا؛ تاہم مہاراجہ ہری سنگھ کے لیے یہ ہجرت ویسی نہیں تھی جیسی ہجرت کا ڈیڑھ کروڑ دیگر لوگوں کو سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ وہ کسی ریفیوجی کیمپ کی طرف نہیں جا رہا تھا بلکہ اس کا رخ جموں میں اپنے ایک اور محل کی طرف تھا جہاں وہ سردیوں کا موسم گزارتا تھا۔ جموں میں مہاراجہ کا محل وہی تھا، جہاں اس نے کبھی لندن سے آئے پرنس آف ویلز کا استقبال کیا تھا اور پرنس کے ساتھ اس وقت اس کا نوجوان کزن اور اے ڈی سی مائونٹ بیٹن بھی تھا، جہاں اس سے اکٹھے پولو کھیلتے ہوئے دوستی ہو گئی تھی۔
ہری سنگھ کی تمام چالاکیاں، حکمت عملی، سیاسی دائو پیچ اسے صرف تین ماہ ہی دے سکے تھے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ کشمیر کو پاکستان، ہندوستان کی طرح پر ایک آزاد ملک نہیں بنوا سکا تھا۔ مائونٹ بیٹن نے سردار پٹیل سے سیبوں کی پوری ٹوکری پیش کرنے کا جو وعدہ کیا تھا، اس ٹوکری سے ہری سنگھ بمشکل تین ماہ ہی باہر رہ سکا تھا۔ وہ آخری سیب بھی بھارت کی ٹوکری میں گرنے والا تھا۔
اس سے پہلے جب مہاراجہ ہری سنگھ سے وی پی مینن اس کے محل میں ملا تو اسے مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر سری نگر چھوڑ دے کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا۔ وی پی مینن نے مہاراجہ کو کہا کہ اس کا سری نگر کو چھوڑنا دو تین باتوں کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ پہلی یہ کہ قبائلی لشکر بارہ مولہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ پھر مہاراجہ اس وقت بے بسی کی حالت میں تھا۔ اس کی ریاستی پولیس اور فوج، دونوں اسے چھوڑ کر بھاگ گئی تھیں۔ اب اس کے پاس ان قبائلیوں سے لڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اگر بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ کشمیر میں اپنی نہ تو فوجیں بھیجے گی اور نہ ہی مہاراجہ اور اس کی ریاست کو بچانے کے لیے پاکستان سے جنگ لڑے گی تو پھر اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کے خاندان کے افراد اسی محل میں قبائلی لشکر کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ اس کے علاوہ قبائلی لشکر نے اس کے محل میں موجود تمام قیمتی اشیا بھی لوٹ لینا تھیں۔ ان حالات میں وی پی مینن نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر سری نگر سے نکل جائے اور اپنے ساتھ محل میں موجود تمام قیمتی سامان بھی لیتا جائے۔
اب سوال یہ تھا کہ مہاراجہ کہاں جائے؟ کیا وہ وی پی مینن کے جہاز میں بیٹھ کر دہلی جائے یا پھر اسے جموں جانا چاہیے جہاں وہ اپنے محل میں محفوظ ہو گا۔ وی پی مینن نے اسے کہا کہ جموں زیادہ محفوظ رہے گا، جہاں وہ اپنے ساتھ اپنی قیمتی اشیا اور اپنے خاندان کو افراد کو بھی لے جا سکتا تھا۔
مہاراجہ کا جب سامان لادا جا رہا تھا تو اسے علم نہ تھا کہ چند برس بعد اس کا محل ایک لگژری ہوٹل میں تبدیل ہو چکا ہو گا جہاں مہاراجہ ہری سنگھ کی بجائے دنیا بھر سے آئے امیر ٹورسٹ ان راہداریوں میں پھرا اور بالکونیوں میں بیٹھا کریں گے اور ناشتہ کیا کریں گے جہاں کبھی مہاراجہ کی مرضی کے بغیر پتا تک نہیں ہلتا تھا۔ ان بالکونیوں میں اب امریکن سیاح دیکھے جائیں گے جہاں کبھی مہاراجہ ہری سنگھ اپنے آرمی افسران کے ساتھ شامیں بسر کرتا تھا۔ وہی آرمی افسران جن کی وفاداریاں خزاں میں درختوں کے پتوں کی طرح حالات کے پہلے ہی تھپیڑے سے اڑ گئی تھیں۔
جب مہاراجہ کے ملازم اس کے قیمتی ڈائمنڈ، زمرد اور ہیرے جواہرت کے ڈبوں کو سمیٹ رہے تھے تو ہری سنگھ نے دو چیزوں کو خود تلاش کرنا شروع کر دیا جو وہ اپنے ساتھ رکھنا چاہ رہا تھا۔ وہ تھیں اس کی شاٹ گنیں جن کی نیلے اور سیاہ رنگ کی بیرل تھیں۔ یہ گنیں اس نے ورلڈ ڈک شوٹنگ ریکارڈ کے لیے استعمال کی تھیں۔ جونہی مہاراجہ نے ایک گن کے بیرل پر اپنا ہاتھ پھیرنا شروع کیا تو اس کے چہرے پر افسردگی ابھر آئی۔ وہ کچھ دیر تک کہیں گم اپنی اس شاٹ گن کی بیرل پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ آخر اس نے ان بندوقوں کو چمڑے کے کیس میں بند کر دیا اور اٹھا کر اپنے ساتھ باہر لے گیا جہاں امریکن سٹیشن ویگن اس کو جموں لے جانے کے لیے کھڑی تھی۔
اس سے پہلے جب وی پی مینن کو تسلی ہو گئی کہ مہاراجہ اسی رات سری نگر چھوڑ کر جموں کی طرف روانہ ہو جائے گا، تو وہ کچھ آرام کرنے کے لیے گیسٹ ہائوس چلا گیا تاکہ صبح ہوتے ہی دہلی روانہ ہو جائے؛ تاہم گیسٹ ہائوس جانے سے پہلے وی پی مینن نے کچھ دیگر اہم لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں جو اسے موجودہ صورتحال کے بارے بہت کچھ بتا سکتے تھے۔
وی پی مینن بستر پر سونے ہی والا تھا کہ گیسٹ ہائوس کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔ اس کی آواز میں خوف تھا۔ وہ بولا: شہر میں افواہیں پھیل رہی ہیںکہ قبائلی لشکر سری نگر میں داخل ہو چکا ہے لہٰذا ان سب کے لیے اس وقت شہر میں موجود رہنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ وی پی مینن کے پورے بدن میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ یہ یقین نہیں کرسکتا تھا کہ قبائلی لشکر اتنی جلدی سری نگر میں داخل ہوسکتا ہے؛ تاہم وی پی مینن کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ مہاراجہ کی بات پر یقین کرتا۔ مہاراجہ محل میں موجود سب گاڑیاں اپنے ساتھ لے جا چکا تھا؛ البتہ ایک پرانی جیپ وہاں موجود تھی۔ اس پرانی گاڑی میں مہاراجہ کے وزیراعظم مہر مہاجن اور جہاز کے عملے کے چھ سات ارکان نے خود کو بمشکل ٹھونسا اور ایئرپورٹ کی طرف بھگانا شروع کر دیا۔ جب وہ سب ہانپتے کانپتے ایئرپورٹ پہنچے تو وہاں لوگوں کا بہت بڑا ہجوم تھا جبکہ کل شام جب وہ ایئرپورٹ پر اترا تھا تو ہر طرف ویرانی تھی۔ وی پی مینن اپنے جہاز میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ ایک ہندو خاتون اس کی طرف دوڑی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا کہ وہ اس کی دو بیٹیوں کو دہلی لیتا جائے۔ اس کو خوف تھا کہ اس کی بیٹیاں اب سری نگر میں محفوظ نہیں ہیں۔ وی پی مینن نے اس کی بیٹیوں کو جہاز میں بٹھا لیا۔ جہاز کے پائلٹ نے وی پی مینن کو بتایا کہ انہوں نے جس ہوٹل میں ڈنر کیا تھا وہاں کسی ایک بھی بندے کو بات کرتے نہیں دیکھا۔ اگر کوئی آواز ابھر بھی رہی تھی تو وہ صرف سالن کی پلیٹوں میں چمچ ہلانے کی تھی۔ ہر طرف موت جیسی خاموشی تھی۔
چھبیس اکتوبر کی صبح ہوتے ہی وی پی مینن کا جہاز سری نگر ایئرپورٹ سے اڑ کر دہلی کی طرف روانہ ہو گیا جہاں مائونٹ بیٹن، نہرو اور سردار پٹیل اس کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔
دوسری طرف مہاراجہ ہری سنگھ کا جموں کی طرف سفر جاری تھا۔ جب مہاراجہ سترہ گھنٹوں کی مسافت کے بعد جموں اپنے محل پہنچا تو تھکاوٹ سے چور چور تھا۔ وہ فوراً اپنے بیڈروم سونے چلا گیا۔ سونے سے پہلے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور اسے کہا: سنو جنٹلمین، اگر وی پی مینن دہلی سے صبح تک لوٹ آئے تو جگا دینا، ورنہ نیند ہی میں مجھے گولی مار دینا۔
وی پی مینن سری نگر سے ایک طرح سے جان بچا کر فرار ہونے کے بعد اب دہلی پہنچ چکا تھا، جہاں سب اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اسے ایئرپورٹ سے سیدھا ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں لے جایا گیا، جہاں لارڈ مائونٹ بیٹن، نہرو، پٹیل اور کچھ فوجی افسران موجود تھے۔
وی پی مینن نے ساری صورت حال شرکا کے سامنے رکھی اور کہا: مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان کے ساتھ الحاق کیلئے تیارہے اور فوری طور پر فوجی مدد کا طلبگار بھی کیونکہ پاکستانی قبائلی لشکر سری نگر سے پینتیس کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ چکا ہے۔
وی پی مینن سے پوچھا گیا کہ اس کی اپنی کیا رائے ہے جبکہ وہ سری نگر کے حالات خود دیکھ کر آرہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے خیال میں فوری طور پر ہندوستان کو اپنی فوج سری نگر بھیج کر کشمیر کو بچانا چاہیے، ورنہ قبائلی لشکر، جو بارہ مولہ اور دیگر علاقوں میں قتل عام اور مال غنیمت اکٹھا کر رہا ہے، سری نگر کو تباہ کر دے گا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کچھ اور سوچ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر بعد بولا: میرے خیال میں کشمیر میں ان حالات میں فوجیں بھیجنا سمجھداری کی بات نہ ہوگی کیونکہ کشمیر کا نہ تو ہندوستان کے ساتھ الحاق ہے اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ، ایک لحاظ سے کشمیر ایک آزاد ملک یا آزاد ریاست ہے، اور وہاں فوجیں بھیجنا جارحیت کے مترادف ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ مہاراجہ نے ابھی تک لکھ کر کسی ملک کے ساتھ الحاق نہیں کیا ہے، اگر وی پی مینن کی یہ بات سچ ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ اس وقت ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کو تیار ہے تو پہلے اسے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے ہوں گے، اس کے بعد ہی قانونی طور پر جموں اور کشمیر ہندوستان کا حصہ بن سکیں گے، اس کے بعد ہی ہندوستانی فوج کشمیر بھیجنے پر غور ہو سکتا ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہرو اور پٹیل کو دیکھ کر مزید کہا: تاہم اس پر بھی کچھ شرائط ہوں گی، جب وادی میں سکون ہو جائے گا تو وہاں کشمیریوں کی مرضی معلوم کرنے کے لیے باقاعدہ استصواب رائے ہو گا اور کشمیری عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ مائونٹ بیٹن نے مزید کہا کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق اس شرط پر ہی قبول کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب انتظامات وقتی ہیں، لوگوں کی رائے کے بعد ہی فیصلہ ہوگا کہ کشمیر کس کا ہے۔
نہرو اور دیگر وزیروں نے فوری طور پر یہ بات مان لی۔ جونہی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ختم ہوا تو وی پی مینن کو فوراً ایئرپورٹ بھیجا گیا تاکہ وہ دوبارہ کشمیر جائے اور مہاراجہ کو یہ سب شرائط بتا کر اس سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا کے واپس لائے۔
وی پی مینن کے ساتھ کشمیر کا وزیراعظم مہر مہاجن بھی تھا۔ جب دونوں جموں میں مہاراجہ کے محل میں پہنچے تو وہاں حالات بہت برے تھے۔ سارا سامان بکھرا پڑا تھا جو مہاراجہ اپنے ساتھ سری نگر سے لایا تھا۔ مہاراجہ اس وقت گہری نیند میں تھا جب وی پی مینن وہاں پہنچا۔ مہاراجہ کو وی پی مینن نے نیند سے جگایا اور اسے سب باتیں بتائیں کہ ہندوستان کی حکومت کن شرائط پر اس کی الحاق کی درخواست قبول کرنے کو تیار ہے۔ وہ فوراً تحریری طور پر الحاق کے لیے تیار ہو گیا۔ اس نے گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کے نام ایک خط لکھا جس میں اس نے ریاست کی بری حالت کا ذکر کیا اور فوجی مدد کی درخواست دہرائی۔ مہاراجہ نے گورنر کو لکھا کہ اس کی خواہش ہے، وہ ایک نگران حکومت قائم کرے اور شیخ عبداللہ ریاست کے وزیر اعظم مہر مہاجن کے ساتھ مل کر صورتحال کو قابو میں لائیں۔ خط کے آخر میں مہاراجہ ہری سنگھ نے لکھا: اگر ہندوستان سری نگر کو بچانا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ فوری طور پر فوج بھیجی جائے۔ مہاراجہ نے اس الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے جو وی پی مینن دہلی سے اپنے ساتھ لایا تھا۔
یہ سارا عمل مکمل کرنے کے بعد جب وی پی مینن واپس دہلی جانے لگا تو مہاراجہ ہری سنگھ بولا: ایک بات بتائوں، رات جب سونے گیا تھا تو میں نے اپنے اے ڈی سی کو کہا تھا کہ اگر وی پی مینن واپس آ جائے تو اسے نیند سے نہ جگائیں کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ سب ٹھیک ہوگیا ہے، لیکن اگر وہ واپس نہ آئے تو اسے نیند ہی میں گولی مار دی جائے۔
الحاق کی دستاویز لے کر وی پی مینن فوری طور پر دہلی کے لیے روانہ ہو گیا، جہاں سردار پٹیل اس کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ پٹیل وہ خط لے کر فوراً دوبارہ ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں چلا گیا، جہاں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ فوج بھیجی جائے یا نہیں۔ اجلاس میں طویل بحث شروع ہو گئی کہ فوج بھیجنی چاہیے یا نہیں، کیونکہ ہندوستانی فوج کے جانے سے پاکستان بھی اپنی فوج بھیج سکتا تھا اور یوں ایک بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔ آخر طویل بحث مباحثہ کے بعد طے ہوا کہ پہلے مہاراجہ ہری سنگھ کی الحاق کی درخواست کو قبول کر لیا جائے۔
شیخ عبداللہ پہلے سے دہلی میں تھا اور وہ نئی ہندوستانی حکومت سے بار بار منت سماجت کر رہا تھا کہ فوری طور پر کشمیر میں فوجی بھیجیں؛ تاہم ہندوستانی حکومت کو پتا تھا کہ شیخ عبداللہ کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں کہ محض اس کے کہنے پر ہندوستانی فوج سری نگر بھیجی جائے۔ اوپر سے ہندوستانی قیادت کو یہ بھی علم تھا کہ کل کلاں کو پاکستان نے بھی شیخ عبداللہ کی اس درخواست کو کوئی وقعت نہیں دینی کیونکہ اس وقت اصل حکمران مہاراجہ تھا۔ اگرچہ یہ بات بھی زیر بحث تھی کہ شیخ عبداللہ کی طرح مہاراجہ بھی تو اپنی ریاست کھو چکا ہے اور اس وقت سری نگر پر کوئی حکومت یا اس کا حکمران موجود نہیں ہے، لہٰذا اخلاقی یا قانونی طور پر مہاراجہ کے ان حالات میں ہندوستان سے الحاق کرنے کے فیصلے پر بھی بہت سارے شکوک پیدا ہو سکتے تھے؛ تاہم اب بھی شیخ عبداللہ کی نسبت مہاراجہ کے پاس زیادہ اخلاقی اور قانونی جواز تھا کہ وہ الحاق کر لے۔
اب سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ مہاراجہ کی سب سے اہم درخواست کا کیا کیا جائے؟ وہ ہندوستان سے فوجی مدد مانگ رہا تھا۔ بڑی عجیب بات تھی کہ اسی مہاراجہ کو سمجھانے کے لیے دو ماہ پہلے لارڈ مائونٹ بیٹن سری نگر میں تین دن اس کے محل میں گزار کر آیا تھا۔ وہ مسلسل مہاراجہ کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگا رہا کہ پاکستان کو جوائن کر لے کیونکہ یہی اس کے لیے اچھا تھا، وہ قائد اعظم سے بات کرکے اسے بہتر پیکیج لے دے گا۔ کشمیر کو فطری طور پر پاکستان کے ساتھ ہی جانا چاہیے تھا، اور مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو اس حوالے سے دلیلیں دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو یہ تک بتا دیا تھا کہ وہ اگر پاکستان کے ساتھ الحاق کرتا ہے تو بقول وزیر داخلہ سردار پٹیل کے، ان کی حکومت اس پر اعتراض نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ سمجھ سکتی تھی کہ ایک تو کشمیر کی آبادی میں مسلمان زیادہ ہیں، دوسرے کشمیر کے تمام راستے پاکستان سے ہی ہو کر جاتے ہیں؛ تاہم مہاراجہ نے نہ صرف مائونٹ بیٹن کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا بلکہ جس صبح اس نے دہلی واپس لوٹنا تھا، مہاراجہ اسے رخصت کرنے تک نہیں آیا تھا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کے ذہن میں یقینا یہ بات ہوگی کہ وہی مہاراجہ جو اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا اور اسے رخصت کرنے بھی نہیں آیا تھا، اس وقت خود سری نگر سے دربدر ہوکر جموں میں اپنے محل میں لیٹا اس سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔
جب اجلاس میں فوج بھیجنے کی بات ہونے لگی تو بھارتی فوج کے سربراہ، نیوی اور ایئر چیف، سب نے کہا: ہندوستانی فوجیں کشمیر بھیجنے میں بہت سارے خطرات ہیں۔
اجلاس میں نہرو کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ ایک دانشور کی طرح گفتگو کر رہا تھا۔ وہ کشمیر کے معاملے کو فلسفیانہ رنگ دینے میں لگا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کشمیر کو روس، امریکہ اور اقوام متحدہ کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ سردار پٹیل یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس کا صبر جواب دے رہا تھا۔ آخر سردار پٹیل سب کے سامنے پھٹ پڑا اور بولا: جواہر لال، چھوڑو یہ سب بحث مباحثہ اور فلاسفی، یہ بتائو تم کشمیر چاہتے ہو یا نہیں؟
لارڈ مائونٹ بیٹن سمیت سب کی نظریں نہرو کی طرف اٹھ گئیں جو اس اچانک سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اجلاس میں موجود ہندوستان کا ڈی جی ملٹری آپریشن سام مانک شاہ اچانک چوکس ہو گیا کیونکہ نہرو کے جواب پر ہی سب کچھ منحصر تھا۔
نہرو گہری سوچ میں غرق تھا اور سب آنکھیں اس پر مرکوز تھیں۔ سردار پٹیل پھر زور سے بولا: جواہر لال تم کشمیر چاہتے ہو یا ہم پاکستان کو دے دیں؟
سب آنکھیں نہرو پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ سردار پٹیل کو کیا جواب دیتا ہے۔ نہرو کہیں اور کھویا ہوا تھا۔ نہرو کو اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی وہ باتیں یاد آئیں کہ جب دہلی سے میرٹھ تک بغاوت پھیل گئی تھی تو ہر طرف خون خرابہ ہو رہا تھا۔ پہلے انگریزوں کو مارا گیا تو بعد میں انگریزوں نے چن چن کر مسلمانوں اور ہندوئوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ دہلی سے جو لوگ جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، ان میں دہلی کے کوتوال گنگادھر کا خاندان بھی شامل تھا۔ کوتوال اور اس کی بیوی جیورانی (بعض کتابوں میں اندرانی) دریائے جمنا کے کنارے اپنے چار بچوں کے ساتھ جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ یہ فیملی کشمیر سے تعلق رکھتی تھی۔ کشمیری خود بھی خوبصورت اور ان کی آنکھیں بھی خوبصورت ہوتی ہیں، اس لیے جب فرنگیوں نے اس فیملی کو بھاگتے ہوئے پکڑا تو ان کی آنکھوں کی وجہ سے فرنگی یہ سمجھے کہ اس کانسٹیبل کی ایک بیٹی اصل میں کسی انگریز کی بیٹی ہے، جسے وہ اغوا کر کے لے جارہے ہیں، تاہم اس کوتوال گنگا دھر کے ایک بیٹے کو انگریزی آتی تھی، اس نے فرنگیوں کو بتایا کہ وہ کشمیری ہیں اور باقی کچھ راہگیروں نے بھی ان کی مدد کی، اس طرح اس گنگا دھر اور اس کے خاندان کی جان چھوٹی۔
چار سال بعد اس کشمیری کوتوال کی بیوی جیورانی نے ایک اور بیٹے کو جنم دیا، جس کا نام موتی لال رکھا گیا۔ بعد میں اسی موتی لال کا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جواہر لعل رکھا گیا۔ وہی جواہر لعل اب بھارت کا پہلا وزیر اعظم بنا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ وہ سردار پٹیل کو کیا جواب دے کہ اسے اپنے پرکھوں کا کشمیر چاہیے یا نہیں۔ نہرو کو یاد آیا کہ جب وہ بچہ تھا تو اس نے اپنے باپ موتی لال کا قلم چرا لیا تھا تو باپ نے اسے اتنا مارا تھا کہ کئی دن تک وہ چل نہیں سکا تھا۔ اس کا باپ اکثر اس پر تشدد کرتا تھا، جس کا اثر نہرو پر ساری عمر رہا۔ کشمیر کی ان یادوں میں گم نہرو سے سردار پٹیل نے اس کے دل کی بات پوچھ لی۔ سردار پٹیل نے پوچھا: نہرو تم کشمیر چاہتے ہو یا پاکستان کو دینا ہے۔ نہرو نے فوراً جواب دیا، بالکل مجھے کشمیر چاہیے۔ اس سے پہلے کہ نہرو کچھ اور کہتا، سردار پٹیل نے ڈی جی ملٹری آپریشن مانک شاہ کو کہا: سن لیا آپ نے۔ اجلاس سے اُٹھ کر پٹیل خود آل انڈیا ریڈیو گیا اور کہا کہ سب مسافر اور دوسرے جہاز فوری طور پر ہندوستانی فوج کو سری نگر اتارنے کے لیے میسر ہوں۔ اگلے روز سردار پٹیل نے تمام جہازوں میں ہندوستان فوج کے دستے خود اپنی نگرانی میں بھجوائے۔
بڑے دنوں بعد ماونٹ بیٹن کو احساس ہوا کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ سردار پٹیل یہ سب انتظام پہلے سے کر کے بیٹھا تھا۔ اسی شام ماونٹ بیٹن کی ملاقات آئن سٹیفن سے ہوئی تو وہ یہ جان کر حیران ہو گیا کہ ماونٹ بیٹن کا پورا جھکائو بھارت کی طرف ہو چکا ہے۔ ماونٹ بیٹن نے اسے بتایا: جناح تو ایبٹ آباد بیٹھے سری نگر فتح ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ فاتح کی طرح شہر میں داخل ہو سکیں، تاہم پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن نے کنفرم کیا کہ یہ غلط تھا، کیونکہ جناح نے اکتوبر کا مہینہ کراچی اور لاہور میں گزارا تھا۔ وہ ایبٹ آباد نہیں گئے تھے۔
یوں ستائیس اکتوبر کی صبح ہندوستان نے اپنی فوجیں جہازوں کے ذریعے سری نگر اتارنا شروع کر دیں۔ سری نگر ایئرپورٹ خالی پڑا تھا اور قبائلی لشکر قبضہ کرنے کی بجائے بارہ مولا اور دیگر علاقوں میں اپنی کارروائیوں میں مصروف ہو گیا تھا، بجائے اس کے وہ ایئرپورٹ پر قبضہ کرتے تاکہ ہندوستان اپنی فوجیں نہ اتار پائے۔ نہرو نے بعد میں اپنی بہن کو لکھا کہ اگر ہم ایک دن بھی دیر کر دیتے تو سری نگر لشکر کے ہاتھ میں ہوتا۔ جب جناح صاحب کو یہ اطلاع دی گئی کہ ہندوستانی فوجیں سری نگر اتر گئی ہیں تو انہوں نے پاکستانی فوج کو حکم دیا کہ وہ جنگ شروع کرے؛ تاہم قائد اعظم کو اپنے احکامات اس وقت واپس لینا پڑے جب انگریز کمانڈر Auchinleck نے دھمکی دی کہ اگر پاکستانی فوج کشمیر لڑنے گئی تو وہ تمام برٹش افسروں کو ہٹا لیں گے۔ اسی دن لیڈی لارڈ ماونٹ بیٹن لاہور آئیں تاکہ وہ مغربی پاکستان کے ریفیوجی کیمپوں کا دورہ کر سکیں۔ اگلی شام وہ پنڈی میں تھیں اور انہوں نے پاکستان آرمی کے ایکٹنگ کمانڈر ان چیف جنرل گریسی سے ملاقات کی۔ جنرل گریسی نے انہیں خبردار کیا کہ کسی لمحے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ جنرل گریسی نے ڈنر پر لیڈی ماونٹ بیٹن کو یہ تک کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے اسے گرفتار کرنا پڑے۔ اگلے دن لیڈی ماونٹ بیٹن سیالکوٹ گئی تاکہ ہندو کشمیری مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کر سکیں جو ہندوستان جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان مہاجرین نے بھی اپنی طرف سے مسلمانوں کی طرف سے کی گئی زیادتیوں کی کہانیاں بھی لیڈی ماونٹ بیٹن کو سنائیں۔ ایک کشمیری سکھ نے یہاں تک لیڈی ماونٹ بیٹن کو کہا کہ اس نے خود پاکستانی فوجی دستوں کو عام کپڑے پہنچے کشمیر میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔
یوں دہلی واپسی پر یہ سنی سنائی اطلاعات جب لیڈی ماونٹ بیٹن نے نہرو کو سنائیں تو نہرو کو اپنے بد ترین خدشات پورے ہوتے نظر آنے لگے، جبکہ پہلی دفعہ ماونٹ بیٹن اس اثر و رسوخ اور تعلق سے خوف زدہ ہوا جو نہرو اور اس کی بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ تھا۔ ان کی دوستی اور تعلقات کی کہانیاں دھیرے دھیرے پھیلنا شروع ہو چکی تھیں۔ ماونٹ بیٹن نے اپنی بیوی کو خبردار کیا کہ نہرو کشمیر کے بارے میں بہت جذباتی ہے، تاہم یہ بات دہلی میں پھیل رہی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ اس لیے بگڑ رہا ہے کیونکہ جناح اور نہرو ایک دوسرے کو ذاتی طور پر شدید نا پسند کرتے تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر ہر وقت شک ہی رہتا تھا۔ نہرو اس بات پر قائل تھا کہ جناح صاحب نے ہی قبائلی لشکر تیار کرا کے کشمیر بھیجا تھا جبکہ برٹش افسران، جو پوری صورت حال کو مانیٹر کر رہے تھے، کا کہنا تھا کہ جناح صاحب پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا، ہاں یہ ضرور تھا کہ پاکستانی حکومت نے کشمیر جانے والے راستے اور سپلائی کھول کر قبائلی لشکر کے راستے میں رکاوٹ بھی نہیں ڈالی تھی۔
بعد میں مورخین نے لکھا کہ حقیقت یہ تھی کہ اگر جناح صاحب روکنے کی کوشش کرتے تو بھی وہ لشکر کو نہیں روک سکتے تھے۔ اگر وہ پاکستان آرمی کو حکم دیتے کہ وہ قبائلی لشکر کو کشمیر جانے سے روکے تو پاکستان کے اندر ہی سول وار شروع ہو جانی تھی۔ پٹھان قبائل اور پاکستان آرمی ایک دوسرے سے لڑ پڑتے اور فائدہ افغانستان کو ہونا تھا جو موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی طرح پاکستانی قبائل کو ساتھ ملایا جائے، جبکہ یہ بھی ممکن تھا کہ روس بھی اس کھیل میں شریک ہو جاتا۔
تاہم دہلی میں ایک حلقہ یہ کہہ رہا تھا کہ بہتر ہوتا جناح خود ہی نہرو کو یہ اطلاع دیتے کہ قبائلی لشکر نکل پڑے ہیں اور وہ انہیں نہیں روک سکتے۔ چونکہ جناح صاحب نے یہ نہیں کیا تھا، لہٰذا نہرو یہ سمجھ بیٹھا کہ یقینا یہ جناح صاحب کی سازش تھی ورنہ وہ اسے خود اطلاع دیتے۔ دوسری طرف نہرو بھی اس معاملے میں ناکام رہا۔ اس نے بھی جناح صاحب کو یہ اطلاع نہیں دی تھی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد مانگی ہے اور وہ اپنی فوج سری نگر بھیج رہا ہے۔ یوں جناح اس بات پر قائل ہو گئے کہ نہرو بندوق کے زور پر کشمیر پر قبضہ کر رہا ہے۔ نہرو کی دلی خواہش کا سب کو پتا اس وقت چلا جب اس نے اٹھائیس اکتوبر کو اپنی بہن کو خط لکھا کہ شاید مجھے اس سے فرق نہ پڑے کہ کشمیر مکمل یا جزوی طور پر آزاد ریاست بن جائے، لیکن اسے پاکستان کا حصہ بننے دینے کا مطلب ایک اور ظلم ہو گا۔
ماونٹ بیٹن نے اس صورت حال کو سلجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ بہتر ہو گا نہرو، پٹیل، جناح اور لیاقت علی خان کی دہلی میں ملاقات کرائی جائے اور مل بیٹھ کر کشمیر کے معاملے کو حل کر لیا جائے؛ تاہم ماونٹ بیٹن کو اس وقت اپنی شکست کا احساس ہوا جب جناح صاحب نے دہلی آنے سے انکار کر دیا اور سردار پٹیل لاہور جانے پر راضی نہیں تھا۔ ہندوستان کا گورنر جنرل ماونٹ بیٹن پھنس گیا تھا۔ آخرکار قائد اعظم نے نہرو سے ملاقات کے لیے ایک شرط رکھ دی جو ماونٹ بیٹن نے مان لی، لیکن ساتھ ہی کہا: نہرو اور سردار پٹیل کو ہوا بھی نہیں لگنی چاہیے، ورنہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ لیکن ماونٹ بیٹن کو اندازہ نہ تھا کہ تمام تر احتیاط کے باوجود کھیل پھر بھی بگڑنے والا ہے۔
نہرو اور سردارپٹیل کو علم نہ تھا کہ جناح صاحب اور ماونٹ بیٹن کے درمیان کیسی سیکرٹ انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے۔ دراصل جب قائداعظم کو علم ہوا کہ بھارت نے اپنی فوجیں سری نگر میں اتار دی ہیں تو انہوں نے جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ پاکستانی افواج کشمیر بھیجیں۔ جنرل گریسی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک انہیں دہلی سے سپریم کمانڈر حکم نہیں دیں گے وہ فوج نہیں بھیجیں گے۔ جنرل گریسی نے قائداعظم کا یہ حکم دہلی میں سپریم کمانڈر تک بھی پہنچایا، جو خود پاکستان پہنچا اور قائد اعظم کو وضاحت دی۔ سپریم کمانڈر کا کہناتھا کہ اگر پاکستانی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو پاکستانی فوج میں موجود تمام برٹش افسران کو فوج چھوڑنی پڑے گی۔ اس پر قائداعظم نے حکم واپس لے لیا۔ قائداعظم نے کہا: پھر بہتر ہے نہرو اور لارڈ ماونٹ بیٹن لاہور آئیں اور اس معاملے پر بات کریں۔ سپریم کمانڈر نے دہلی جا کر لارڈ ماونٹ بیٹن کو جناح صاحب کا پیغام دیا۔ ماونٹ بیٹن جناح صاحب سے ملنے کو تیار ہوگیا، تاہم اس نے نہرو کو یہ بات نہیں بتائی کہ لاہور جانا دراصل قائداعظم کی شرط تھی۔ ماونٹ بیٹن کو اندازہ تھا کہ اگر یہ بات نکل گئی تو کابینہ نہرو کو لاہور نہیں جانے دے گی۔ طے ہوا کہ یکم نومبر کو لاہور میں جناح صاحب، نہرو اور لارڈ ماونٹ بیٹن کے کشمیر پر مذاکرات ہوں گے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کو اندازہ نہ تھا کہ اندر کھاتے کیا کھچڑی پک رہی تھی۔ وزیرداخلہ سردارپٹیل نہرو کے لاہور جا کر جناح صاحب سے مذاکرات کے خلاف تھا۔ پٹیل نے کہا: اگر بات کرنی بھی ہے توجناح صاحب دہلی تشریف لائیں، تاہم نہرو لاہور آنے کے حق میں تھا۔ نہرو اور سردارپٹیل کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلاف کا معاملہ آخر کار گاندھی جی تک جا پہنچا۔ کابینہ کے اندر بھی سردارپٹیل نے اس ملاقات کے خلاف خاصا ماحول بنا لیا تھا اور کابینہ کی اکثریت جناح نہرو ملاقات کے خلاف تھی۔ اب فیصلہ گاندھی جی نے کرنا تھا۔
رات گئے وی پی مینن کو برلہ ہاوس سے فون آیا کہ وہ فوراً گاندھی جی کے پاس پہنچیں۔ مینن پہنچا تو نہرو اور سردار پٹیل موجود تھے۔ وی پی مینن کو بھی نہرو کے لاہور جا کر جناح صاحب سے ملاقات پر اعتراض تھا۔ گاندھی جی نے وی پی مینن سے پوچھا :آپ کو نہرو کے لاہور جا کر جناح صاحب سے ملاقات پر اعتراض کیوں ہے؟ وی پی مینن کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی، کیونکہ وہی تھا جو مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویزات لایا تھا اور اس کی یہ بات بڑی مشہور ہوگئی تھی کہ ہم نے کشمیر لے لیا ہے اب ہم اسے ہمیشہ اپنے پاس ہی رکھیں گے۔ وی پی مینن نے گاندجی جی کو نہرو اور سردارپٹیل کی موجودگی میں بتایا کہ جب یہ بات مجھے گورنر جنرل ماونٹ بیٹن نے بتائی تھی میں نے اس وقت بھی اس ملاقات کی مخالفت کی تھی۔ مینن نے گاندھی جی سے اس مخالفت کی وجوہات بیان کیں۔ جب گاندھی، نہرو، سردارپٹیل اور وی پی مینن کے درمیان یہ بحث جاری تھی توسب نے نوٹ کیا کہ نہرو کی طبیعت بگڑ رہی تھی، اُسے شدید بخار ہورہا تھا۔ یوں اب یہ ناممکن لگ رہا تھا کہ نہرو لاہور جا سکے گا۔ جب یہ فیصلہ ماونٹ بیٹن تک پہنچا تو اس نے گہری سانس لی اور بولا: کسی حد تک یہ درست فیصلہ ہے، کیونکہ اگر نہرو جناح صاحب سے ملنے لاہور گیا تو کابینہ کے وزرااُ سے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ تاہم ماونٹ بیٹن نے کہا :پھر بہتر ہے میں خود لاہور جناح صاحب سے ملاقات کروں گا۔ ماونٹ بیٹن نے جناح صاحب کو اگلی صبح فون کیا اور بتایا کہ نہرو کی طبیعت خراب ہے، وہ اب اکیلا ہی لاہور آرہا ہے۔ نہرو کے اس دورہ لاہورکے کینسل ہونے پر پاکستان کو محسوس ہوا کہ یہ نیا کھیل اور سازش ہے، لہٰذا پاکستان نے سخت بیان جاری کر دیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا: نہرو کی بیماری ایک بہانہ ہے، ہندوستان، مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ ساتھ مل کر کشمیر پر سازش کررہے ہیں اور پاکستان کے دوستانہ انداز کو نظرانداز کررہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ بھارت دراصل جان بوجھ کر لشکر کا بہانہ کررہا ہے، ورنہ اس نے پہلے سے ہی فوجیں سری نگر بھیجنے اور کشمیر پر جارحیت کا پلان بنا رکھا تھا۔
اگرچہ معاملات بہت بگڑ چکے تھے اور نہرو جناح ملاقات کینسل ہونے سے کشمیر کے معاملے پر کسی بھی پیش رفت کا امکان کم ہو چکا تھا، تاہم ماونٹ بیٹن جناح صاحب سے ملنے لاہور آ گیا، لیکن جناح صاحب کو بھی پتہ تھا کہ فیصلہ کن طاقت نہرو اور سردارپٹیل کے پاس ہے۔ ماونٹ بیٹن کے پاس جناح صاحب کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرنے کی پاورز نہیں تھیں۔ یوں اس ملاقات سے کچھ نہ نکلا، بلکہ اس ملاقات کا یہ نقصان ہوا کہ پاکستانی گورنر جنرل اور ہندوستانی گورنر جنرل، جو پہلے ہی ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے، ان کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگئی۔ دونوں اس ملاقات کے بعد کمرے سے باہر نکلے تو ان کے ایک دوسر ے پر شکوک و شبہات مزید بڑھ چکے تھے۔ ماونٹ بیٹن یہ سوچے بیٹھا تھا کہ جناح صاحب دراصل قبائلی لشکر کو ساری ہدایات دے رہے تھے کہ کشمیر فتح کرنا ہے، جبکہ جناح صاحب کو یہ یقین تھا کہ ہندوستانی فوجوں کو براہ راست احکامات ماونٹ بیٹن ہی جاری کررہا ہے۔
اس ملاقات کے تین دن بعد پاکستان ٹائمز نے رپورٹ شائع کی، جس میں کہا گیا تھا کہ ماونٹ بیٹن دراصل کشمیر میں بھارتی فوجوں کے آپریشن کی کمانڈ کررہا ہے، جبکہ پاکستان میں تعینات دو سینئر برٹش سفارت کاروں کو یہ فکر تھی کہ ماونٹ بیٹن کے بارے میں جو تاثر پاکستان میں بن رہا ہے اس سے لوگوں میں برطانیہ کے خلاف جذبات ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان، جس کے قیام کو ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے، کے بڑے مسائل میں سب کو ماونٹ بیٹن کا ہاتھ نظر آنا شروع ہوگیا تھا، جیسے ریڈ کلف ایوارڈ کے اعلان میں پرسرار تاخیر، سکھ لیڈروں کو گرفتار نہ کرنا، جو تقسیم سے پہلے ہی پنجاب میں بہت بڑے پیمانے پر مشکلات پیدا کررہے تھے اور رہی سہی کسر کشمیر پر ہندوستان کے قبضے سے پوری ہوگئی۔ پاکستانی حکومت ماونٹ بیٹن کے اس رویے پر اتنی ڈسٹرب تھی کہ پاکستان کے پہلے وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے گریفٹی سمتھ کوبا قاعدہ طنزیہ طور پر مبارک باد دی کہ برطانیہ نے پاکستان پر پہلی فتح حاصل کر لی ہے۔ پاکستانیوں میں یہ احساس روز بروز بڑھ رہا تھا کہ برٹش حکومت کی ناک گورنر جنرل ماونٹ بیٹن کے ہاتھ میں ہے، جب وہ چاہے مروڑ دے، جبکہ ماونٹ بیٹن کی اپنی ناک نہرو کے ہاتھوں میں تھی اور نہرو کی ناک سردارپٹیل نے پکڑ رکھی تھی جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ رہی سہی کسر لیڈی ماونٹ بیٹن نے پوری کردی تھی، جو ہندوستان کے وزیراعظم نہرو اور اپنے خاوند ماونٹ بیٹن کے درمیان ایک بڑا لنک بن گئی تھی۔
دوسری طرف کشمیر میں لڑائی اب اُڑی تک پھیل چکی تھی۔ پانچ نومبر کو ایک سو بیس ٹرک پراسرار طور پر جموں شہر میں آئے۔ انہوں نے مقامی مسلمانوں کو بتایا کہ انہیں پاکستان کی سرحد کے قریب لے جا کر چھوڑ دیا جائے گا۔ پانچ ہزار کے قریب مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ان ٹرکوں میں بیٹھ گئے۔ ان مسلمانوں کو پتہ نہ چلا کہ کب وہ ٹرک پاکستانی سرحد کی طرف جانے کی بجائے جموں سے دور چلے گئے۔ ٹرکوں کو روک کر گارڈز باہر نکلے، مسلمان عورتوں، بچوں اور مردوں کو باہر نکالا اور مشین گنوں کے ساتھ سب کو بھون ڈالا، چند سو بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، باقی مارے گئے۔
دوسری طرف سکھ دستے، جو کشمیر میں لڑ رہے تھے وہ سست ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ خبریں پھیل رہی تھیں کہ انہوں نے بھی ایک آزاد سکھ ریاست کا مطالبہ شروع کردیا ہے، جس میں امرتسر، شملہ اور مشرقی پنجاب کے علاقے شامل ہوں۔ ہندوستان کی حکومت کو خبر پہنچی کہ اس پلان میں پٹیالہ کے مہاراجہ کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں لڑتے قبائلیوں میں سکھوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور وہ یہ طے کیے بیٹھے تھے کہ وہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خاتمے کے بعد سکھ ریاست پٹیالہ پر چڑھائی کریں گے اور کسی دن وہاں سے دہلی جا پہنچیں گے، جہاں کبھی پٹھانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ پٹھانوں کے ہندوستان پر حکومت کرنے کے پرانے خواب جاگ رہے تھے، یوں ہندوستان کی دو خطرناک لڑاکا قومیں ایک دفعہ پھر آمنے سامنے اور ایک دوسرے سے پرانے بدلے لینے کو تیار تھیں۔ سوا سو سال پہلے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور سے پٹھانوں اور سکھوں کے درمیان شروع ہونے والی جنگیں دوبارہ پوری قوت سے نمودار ہورہی تھیں۔ اس دفعہ کشمیر میدان جنگ بننے والا تھا۔
ایک طرف کشمیر میں پٹھان اور سکھ لڑائی کے لیے تیار ہو رہے تھے تو دوسری طرف دہلی میں وزیر اعظم نہرو کوشش کر رہا تھا کہ وہ برطانوی وزیر اعظم کو یہ تاثر دیتا رہے کہ اس کا کشمیر پر زبردستی قبضہ کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے۔
نہرو نے ایک تار برطانوی وزیر اعظم ایٹلے کو بھیجی جس میں کہا: اس مرحلے پر کشمیر کی مدد کرنے کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ میں ریاست پر اثر انداز ہو رہا ہوں تاکہ وہ بعد میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لے۔ لیکن نہرو کی ساکھ کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب اس تار کے اگلے روز ہی مہاراجہ ہری سنگھ نے مائونٹ بیٹن کو لکھا کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان کے ساتھ چاہتا ہے۔
چند عالمی مورخین میں اس بات پر بہت کنفیوژن ہے کہ ہندوستان نے فوج مہاراجہ کے الحاق سے پہلے بھیجی یا بعد میں؟ یہ بھی واضح نہیں کہ آیا الحاق کی دستاویزات کا وجود بھی تھا یا نہیں کیونکہ ہندوستان کے آرکائیو میں مہاراجہ کے دستخطوں سے اصلی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ اس پر بھی سوالات موجود ہیں کہ مہاراجہ نے الحاق کی دستاویزات پر کب دستخط کیے تھے، کیونکہ جب اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا تو وہ اپنی ریاست پر کنٹرول کھو چکا تھا۔ ان حالات میں جب وہ خود ایک ریفیوجی بن چکا تھا، تو کیا اس کے پاس واقعی اتھارٹی تھی کہ وہ الحاق کا اعلان یا دستخط کر سکتا؟
اس دوران پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے فوری طور پر برطانیہ تار بھیجی جس میں اس نے استدعا کی کہ برطانوی حکومت کسی صورت کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہ کرے، جب تک وہاں کشمیری یہ فیصلہ نہ کریں کہ وہ کس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس تار کے پہنچنے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ نہرو اور مائونٹ بیٹن نے کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو قبول کر لیا تھا اور کشمیر میں ہندوستانی فوجی دستے پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
اگرچہ یہ کہا جا رہا تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے کشمیری مسلمان پاکستان کی طرف لٹے پٹے جا رہے ہیں اور جس کے ردعمل کے طور پر قبائلی لشکر انہیں بچانے کیلئے داخل ہوا تھا؛ تاہم دہلی میں کسی کو علم نہ تھا کہ مہاراجہ کی فوج نسل کشی کررہی ہے، جس وجہ سے لشکر کشمیر میں بدلہ لینے پہنچ گیا ہے۔ دہلی میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پاکستانی حکومت قبائل کو استعمال کرکے قبضہ کرنا چاہ رہی ہے۔ لیکن نہرو کی مسلمانوں کی نسل کشی سے لاعلمی کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا تھا کیونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ نہرو عمر بھر برطانوی سامراج پر شدید تنقید کرتا رہا ہے کہ وہ ہندوستان میں princely states کا تحفظ کرکے راجوں، مہاراجوں، شہزادوںاور جاگیرداروں کا تحفظ کررہے ہیں۔ نہرو ان مہاراجوں کے شدید خلاف تھا۔ مہاراجہ نے تو کشمیر کی ریاست پر ڈنڈے اور طاقت سے حکمرانی کی تھی اور اس ریاست کی اکثریت اس مہاراجہ سے نفرت کرتی تھی۔ ہو سکتا ہے نہرو نے یہ جواز تراش لیا ہو کہ مہاراجہ کو چھوڑیں، اسکے دوست نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ نے بھی ہندوستان سے کشمیر میں فوجیں بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن حکومت پاکستان کے نزدیک شیخ عبداللہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
اس پس منظر میں جب گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کی موجودگی میں دہلی میں بحث ہورہی تھی کہ کشمیر میں فوج بھیجی جائے یا نہیں تو سردار پٹیل نہرو کی طویل تقریر سن کر چلایا تھا: جواہرلعل تم کشمیر چاہتے ہو یا ہم پاکستان کو دے دیں؟
تاہم نہرو اب بڑی تیزی سے اپنی کابینہ کے ارکان کی طرف سے دبائو اور خوف کا شکار ہورہا تھا کہ اگر کشمیر میں ہندوستان نے قبائلی لشکر کو نرم قسم کا جواب دیا تو پھر پورے ہندوستان میں اس کا اثر ہوگا اور کمیونل فسادات بھڑک پڑیں گے۔ لہٰذا بہتر ہوگاکہ وہ قبائلی لشکر کے مقابلے فوج کو سخت جواب کے لیے تیار کرے۔ لیکن مائونٹ بیٹن اس بات کے خلاف تھا کہ مسلم علاقوں میں ہندوستانی فوج بھیجی جائے، خصوصاً میرپور اور پونچھ میں۔ اگرچہ مائونٹ بیٹن مسلسل نہرو کو فوجی آپریشن کے حوالے سے گائیڈ کر رہا تھا، لیکن اب وہ نہرو کو لائن کراس کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ نہرو کو روکنے کے لیے مائونٹ بیٹن نے کہا: ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ فوج غلطیاں کرے گی، جس سے وہاں صورتحال بگڑ جائے گی۔ مسلم علاقوں میں دوست اور دشمن کی پہچان کرنا ہندوستانی فوج کے لیے مشکل ہوجائے گا اور وہ بہت سارے لوگ مار دیں گے، یوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو کشمکش تھی وہ مزید بڑھ جائے گی۔ مائونٹ بیٹن ہر قیمت پر ہندوستانی اور پاکستانی افواج کو ٹکرائو سے بچانا چاہتا تھا۔ مائونٹ بیٹن نے نہرو کو کہا: بہتر ہوگا وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے یہ معاملہ طے کرے۔
تاہم جب گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کی سخت ضرورت تھی کہ وہ ہندوستان میں موجود ہوتا تاکہ ہندوستانی فوج کو اس اہم موڑ پر مانٹیر کر سکتا، اسے اچانک لندن جانا پڑ گیا۔ اسے اپنے بھتیجے کی شادی پر اپنی بیگم ایڈونا کے ساتھ جانا تھا۔ پہلے یہ پلان تھا کہ وہ اپنے ساتھ نہرو کو بھی لندن لے جائے گا، جو اب اس مرحلے پر مشکل لگ رہا تھا۔ سردار پٹیل گورنر جنرل کا حوصلہ بڑھا رہا تھا کہ اسے کچھ دن چھٹی پر لندن جانا چاہیے؛ تاہم لیڈی مائونٹ بیٹن یہ سب پلان سن کر پریشان ہوئی کہ جب پورا ہندوستان اور پاکستان اس بری حالت میں تھے تو وہ کیسے لندن شادی پر جا سکتے تھے۔ اسے اس خیال سے بھی وحشت محسوس ہوئی کہ اسے لاکھوں پناہ گزینوں کے ریلیف کا کام چھوڑ کر لندن جانا پڑے گا۔ اس نے مائونٹ بیٹن کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مرحلے پر لندن کا دورہ کینسل کر دے؛ تاہم مائونٹ بیٹن کے سیکرٹری کا یہ خیال تھا کہ اگر یہ دورہ کینسل کیا گیا تو یہ شک ہوگا کہ ہندوستان اس وقت کسی بڑے بحران سے گزر رہا تھا اور لندن کو یہ تاثر دینا مناسب نہ ہوگا۔
اگر اس وقت ہندوستان میں کوئی کام کررہا تھا تو وہ لیڈی مائونٹ بیٹن تھی جو پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھی اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کررہی تھی حتیٰ کہ اس کی بڑی بیٹی نے شکایت کی کہ جب وہ ماں بن رہی تھی تو اس کے ماں باپ کے پاس اسے ملنے یا دیکھنے کا وقت نہ تھا۔ دوسری طرف لیڈی مائونٹ بیٹن اور مائونٹ بیٹن کے درمیان دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ دونوں کے درمیان لڑائیاں ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ میاں بیوی میں فاصلے بڑھ رہے تھے۔ آخر دس نومبر کو دونوں جہاز پر سوار لندن روانہ ہوگئے۔ لیڈی مائونٹ بیٹن لندن پہنچ کر بھی غصے سے بھری ہوئی تھیں اور یہ بات لندن کی سوشل محفلوں میں لوگوں نے واضح طور پر محسوس کی۔ جونہی مائونٹ بیٹن لندن روانہ ہوا نہرو نے فوری طور پر کشمیر جانے کا فیصلہ کیا۔ بارہ نومبر کو سری نگر میں خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا: ہم ہندوستانی اور کشمیری ہمیشہ اکٹھے رہیں گے۔
کشمیر سے واپسی پر نہرو نے برطانوی وزیراعظم کو لکھا کہ کیسے کشمیر میں کرسچین کانونٹ سکول، لائبریریاں اور ہسپتال تباہ کر دیے گئے۔ مسلمان عورتوں پر بھی ظلم کیے گئے۔ ان کے کانوں سے بالیاں تک نوچ لی گئی تھیں۔ مقصد یہ بتانا تھا کہ یہ سب پاکستان سے آئے قبائلی لشکر نے کیا۔ نہرو نے برطانوی وزیراعظم کو مزید لکھا: ان حالات میں کشمیر کے لوگ جو زیادہ تر مسلمان ہیں، اب ہندوستان سے اپیل کررہے ہیں کہ انہیں تحفظ دیا جائے۔
ادھر لندن اترتے ہی لیڈی مائونٹ بیٹن اپنے پرانے محبوب سے ملنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھیں۔ دوسری طرف مائونٹ بیٹن نے سوچا کہ چرچل سے ملاقات کر لی جائے۔ چرچل مائونٹ بیٹن کو پسند کرتا تھا اور جب وہ ہندوستان کو آزادی دینے کے بل کی مخالفت کررہا تھا تو اس وقت وزیراعظم ایٹلے نے مائونٹ بیٹن سے کہا تھا کہ وہ چرچل کو راضی کرے اور مائونٹ بیٹن نے حیران کن طور پر چرچل سے یہ تقریباً ناممکن بات منوا لی تھی۔
مائونٹ بیٹن کا خیال تھا، چرچل اسے شاباش دے گا، لیکن اسے پتا نہ تھا کہ چرچل غصے سے بھرا بیٹھا ہے۔ جونہی دونوں کا آمنا سامنا ہوا، تو وہ چلایا: مائونٹ بیٹن تم نے یہ کیا کردیا ہے۔ تم نے برطانیہ کو دھوکا دیا ہے۔ تم فوری طور پر ہندوستان کو چھوڑ دو۔ ہندوستان میں برطانوی بادشاہ کے نام پر برطانیہ کے غداروں کی حمایت کرنا بند کرو۔ یہ تم نے کشمیر پر کیا گھنائونا کھیل کھیلا ہے؟ مائونٹ بیٹن چرچل کے اپنے خلاف سنگین الزامات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔
ہندوستان کا گورنر جنرل مائونٹ بیٹن، جو خود کو ایک طرح سے چرچل کا لاڈلا سمجھتا تھا، کو اندازہ نہیں تھا کہ برطانیہ کا سب سے طاقتور سابق وزیر اعظم اسے اس طرح چارج شیٹ کر دے گا۔
لارڈ مائونٹ بیٹن کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے چرچل نے اسے پینے کو کچھ دیا، پھر سگار دیا اور ساتھ ہی ہندوستان کے گورنر جنرل پر حملے شروع کر دیے۔ چرچل نے بغیر لگی لپٹی کے کہا: مجھے ایک بات بتائو، تم نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا کہ برٹش ٹروپس کو کشمیر میں بھیجا جائے تاکہ وہ وہاں جا کر مسلمانوں کو کچل ڈالیں؟
چرچل بولتا رہا: مائونٹ بیٹن یہ تم نے دراصل ایک بڑا دھوکا کیا ہے۔ تمہیں علم نہیں تھا کہ نہرو اور گاندھی برطانیہ اور برطانویوں کے خلاف ہیں۔ وہ دونوں ہمارے دشمن ہیں۔ وہ ہمارے کبھی دوست نہیں رہے۔ ہندوستان میں ہمارے دوست تو مسلمان ہیں جبکہ تم نے برطانیہ کے دشمنوں کے ساتھ مل کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہندوستان کی پاکستان کے خلاف پہلی فتح کی بنیاد رکھ دی ہے۔
گورنر جنرل کے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ چرچل نے لفظ انڈیا نہیں بلکہ ہندوستان استعمال کیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چرچل کے ذہن میں ہندوستان کے حوالے سے مستقبل کا کیا نقشہ تھا۔ چرچل اتنے غصے میں تھا کہ اس نے مائونٹ بیٹن کو کہا: تم فوری طور پر ہندوستان چھوڑ دو، تم برطانوی ریاست کے ان “غداروں” کی جو مدد کر رہے ہو، اس کے لیے برطانیہ اور کنگ کے نام کو استعمال کرنا بند کر دو۔
مائونٹ بیٹن کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ چرچل یہ سلوک کرے گا۔ چرچل کو نظرآرہا تھا کہ وائسرائے نے جس طرح نہرو اور گاندھی کی مدد کی، وہ غلط ہے۔ اس سے پاکستان کمزور ہوگا اور مسلمان کمزور ہوں گے۔ چرچل کے خیال میں برطانیہ کے وائسرائے کو چاہیے تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا کیونکہ گاندھی اور نہرو کے برعکس مسلمانوں کو وہ اپنا اتحادی سمجھتا تھا۔ اس کے خیال میں وائسرائے نے کشمیر کے معاملے میں جو رول ادا کیا، وہ بہت غلط تھا اور مائونٹ بیٹن نے پاکستان کو پہلے دن سے ہی ہندوستان کے نیچے لگا دیا تھا۔ اس کے نزدیک جو فوج مائونٹ بیٹن نے کشمیر بھیجنے کی منظوری دی تھی، وہ بہت غلط فیصلہ تھا۔ واضح تھا کہ چرچل کیا چاہتا ہے۔ یہ کہ کشمیر پاکستان کے پاس جانا چاہیے، لیکن اس کے خیال میں مائونٹ بیٹن نے نہرو کے ساتھ مل کر کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ کرا دیا تھا۔
مائونٹ بیٹن، جو ایک شاہی شادی میں شرکت کیلئے لندن آیا تھا، کیلئے یہ دورہ جس نوٹ پر شروع ہوا، وہ خوش کن نہیں تھا۔ مائونٹ بیٹن اس شادی کے لیے جو تحفہ ہندوستان سے لایا تھا اس پر بھی بہت باتیں ہورہی تھیں۔ مائونٹ بیٹن اپنے ساتھ کپڑے کا وہ ٹکڑا لایا تھا، جو گاندھی نے اپنے چرخے پر خود بُنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ملکہ بہت خوش ہوگی لیکن جونہی اس نے وہ تحفہ پیش کیا اور کوئین میری نے وہ کھردرا کپڑا اپنے ہاتھ میں لیا تو چلائیں: مائونٹ بیٹن یہ تم کیا بیکار چیز اٹھا کر لے آئے ہو۔
ملکہ یہ سمجھیں کہ شاید مائونٹ بیٹن شہزادی الزبتھ کی شادی پر تحفے کے نام پر گاندھی کا لنگوٹ اٹھا لایا ہے۔
شادی کی تقریبات ختم ہوگئیں تو مائونٹ بیٹن چوبیس نومبر کو واپس ہندوستان کے لیے روانہ ہوا۔ مائونٹ بیٹن کی عدم موجودگی میں یہاں بہت کچھ ہوچکا تھا۔ لیاقت علی خان کا بیان آچکا تھا کہ پاکستان کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ لے جا سکتا ہے، جبکہ وزیراعظم نہرو نے الزام لگایا کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام نے ہی دراصل وہ قبائلی لشکر کشمیر بھیجا تھا جس کے بعد صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ ہندوستان کو اپنی فوجیں وہاں بھیجنا پڑیں۔ یہ خبریں بھی آرہی تھیں کہ خوست سے افغانوں کا ایک لشکر بھی کشمیر داخل ہوچکا ہے، جن کے پاس روسی ساخت کا اسلحہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے کانگریس کے اندر بہت سے لوگوں کو پریشان کر دیا تھا۔ کانگریس کے اس وقت کے صدر جے بی کرپلانی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری جنگ کے خطرے کے پیش نظر کانگریس کی صدارت چھوڑی دی۔ مائونٹ بیٹن جب واپس لوٹا اور اس نے یہ حالات دیکھے تو وہ کانپ کر رہ گیا۔ اس کی منظوری کے بغیر ہی ہندوستانی فوج نے کشمیر میں مسلح کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اب مائونٹ بیٹن کو ساری بات سمجھ آرہی تھی کہ کیوں وزیرداخلہ سردار پٹیل چاہتا تھا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے لندن چلا جائے۔ لندن جانے سے پہلے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ اس نے گورنر جنرل کی حیثیت سے یہ تک اجازت دے دی تھی کہ پونچھ اور میرپور کے علاقوں میں فوج چھائونی میں سٹیشن کرے تاکہ جو وہاں پہلے موجود ہیں، ان کی جگہ لے سکیں۔ جونہی مائونٹ بیٹن کو پتہ چلا کہ اس کی غیر موجودگی میں کچھ اور کھیل کھیلا گیا ہے تو اس نے فوری طور پر وزیراعظم نہرو کو لکھا کہ میری عدم موجودگی میں جس مقصد کے لیے پونچھ اور میرپور فوج بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی وہ مقصد اب اچانک بدل گیا ہے۔ فوج نے وہاں پُرتشدد کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اب ہندوستان کا مقصد یہ بن گیا ہے کہ اس فوج کی مدد سے وہ ان علاقوں میں جو چاہے منوا لے۔ مائونٹ بیٹن نے احتجاج کیا کہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس نے نہرو کو یاددہانی کرائی کہ یہ اخلاقی طور پر جائز نہیں کہ وہاں کے مسلمانوں کو فوج کی طاقت استعمال کرکے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے۔
اسی طرح لیڈی مائونٹ بیٹن لندن سے واپسی پر جہاز سے اتریں تو انہیں جو بریفنگ دی گئی، اس سے اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کے خدشات درست تھے۔ وہ جہاز سے سیدھی گاندھی اور امیت کور سے ملنے چلی گئی؛ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں تھا ان سے زیادہ وہ وزیراعظم نہرو سے ملنے کی طلبگار تھی۔ تقریباً ہر روز اس کی نہرو سے بات ضرور ہوتی تھی۔ سرکاری ہائوس کی ڈائریوں سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں دو دسمبر کو ڈنر پر ملے تھے، تین دسمبر کو نہرو کے گھر پر ملاقات ہوئی تو چار دسمبر کو لیڈی مائونٹ بیٹن کی رہائش گاہ پر نہرو اس سے ملنے گیا اوردونوں کے درمیان اس طرح کی ملاقاتیں پوری سردیاں جاری رہی تھیں۔ ایک دن نہرو کے گھرڈنر ہورہا تھاتو اگلے روز لیڈی مائونٹ بیٹن نہرو کو اپنے گھر بلا رہی تھی۔
دوسری طرف مائونٹ بیٹن اپنی محبوبہ کے ساتھ دہلی سے باہر جانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ یوں نومبر میں وہ مس یولا لیٹلیر کو ساتھ لے کر دہلی سے باہر چلا گیا۔ لیڈی مائونٹ بیٹن نہرو کی کمپنی میں بہت خوش رہتی تھی اور گھنٹوں اس سے باتیں چلتی تھیں۔ وہ نہرو میں اتنی گم ہوگئی تھی کہ لندن کے ان دوستوں کو بھی بھول گئی تھی جو اس کی دعوت پر اس سے ملنے ہندوستان آئے ہوئے تھے، بلکہ ایک دن لیڈی مائونٹ بیٹن کے منہ سے نکل گیا: مجھے لگتا ہے میں نے تو انہیں دیکھا تک نہیں۔ اگرچہ نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن کے درمیان یہ ملاقاتیں عام گپ شپ کے لیے نہیں بلکہ مختلف سنجیدہ ایشوز اور آئیڈیاز پر گفتگو کے لیے ہوتی تھیں، لیکن یہ اتنی بھی خشک ملاقاتیں نہیں تھیں۔ یہ آئیڈیاز اس طرح کے تھے جنہوں نے دونوں کو جذبات سے بھر دیا تھا۔
اس دوران نہرو نے سردیوں میں لکھنو جانے کا پلان بنایا جہاں سروجنی نائیڈو، یونائیڈ صوبوں کی گورنر تھی۔ نہرو کے آنے سے پہلے یہ افواہ پھیل گئی کہ نہرو دراصل اپنی پرانی گرل فرینڈ کی بیٹی پدما نائیڈو کو شادی کے لیے پروپوز کرنے آرہا ہے۔ پدما یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھی اور خود کو تیار کرنے لگی کہ جب ہندوستان کا وزیراعظم نہرو اسے شادی کے لیے پروپوز کرے گا تو وہ کیسے اسے قبول کرے گی۔ جب نہرو ان کے گھر پہنچا تو پدما کو یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ اس کے ساتھ لیڈی مائونٹ بیٹن بھی تھی۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جب نہرو اسے پروپوز کرنے آئے گا تو ساتھ ہندوستان کے گورنر جنرل کی بیوی کو بھی لائے گا، جس کے رومانس کے چرچے اب پھیلنا شروع ہوگئے تھے۔ صدمے اور غصے سے بھری پدما نے بھاگ کر خود کو کمرے میں بند کر لیا اور نہرو بے بسی سے کھڑا تھا جبکہ لیڈی مائونٹ بیٹن حیرانی سے دیکھ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ اسے ان دونوں کے درمیان جاری عشق کا پتہ نہ تھا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اپنی ایک گوری تو دوسری دیسی محبوبہ کے درمیان بے بسی سے ایک زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔
اب نہرو ایک اور بڑی مشکل میں پھنسا ہوا تھا۔ جب ہندوستان اور پاکستان اپنی پہلی جنگ کی طرف بڑھ رہے تھے، اسی وقت نہرو اپنی دو محبوبائوں کے درمیان پھنس چکا تھا۔
پدما کو پہلے سے پتا تھا کہ نہرو لیڈی ایڈونا سے پینگیں بڑھا رہا ہے لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا جب وہ تیار ہو کر بیٹھی ہو گی کہ نہرو اسے شادی کے لیے پروپوز کرنے آرہا ہے تو وہ گوری محبوبہ کو بھی ساتھ لے آئے گا۔ نہرو کو بھی اندازہ نہ تھا پدما یہ ردعمل دے گی اور لیڈی ایڈونا سے ملنے سے انکاری ہوکر خود کو کمرے میں بند کر لے گی۔
نہرو، اندرا اور پدما میں ایک بات مشترک تھی۔ تینوں نومبر میں پیدا ہوئے تھے۔ نہرو چودہ نومبر، اندرا انیس نومبر اور پدما سترہ نومبر۔ تینوں کا برج Scropio تھا، لہٰذا تینوں کی برتھ ڈیز ایک ہی ہفتے میں ہوتی تھیں۔ پدما نومبر شروع ہوتے ہی حیدرآباد سے دہلی آجاتی تھی تاکہ وہ اگلے بیس دن میں تین برتھ ڈیز منا سکے۔ اندرا کو پدما کا ان کے گھر ٹھہرنا برا لگتا تھا، لیکن وہ باپ نہرو کے آگے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
پدما دراصل سروجنی نائیڈو کی بڑی بیٹی تھی۔ سروجنی کمال سیاستدان خاتون تھیں۔ قد چھوٹا لیکن دل بہت بڑا تھا۔ عام لوگوں سے محبت سے پیش آتی تھیں۔ میٹھی چیزیں اور بہترین کھانے ان کی کمزوری تھی۔ ایک آزاد خیال خاتون جس کا دل عام انسانوں کے لیے محبت اور اخلاق سے بھرا ہوتا تھا۔ جب اس کی چھوٹی بہن کی اپنے خاوند سے علیحدگی ہو گئی تو سروجنی نائیڈو نے اپنے برادر ان لاء کا ساتھ دیا کہ اس کی بہن بہت زیادتی کرتی ہے۔ گاندھی جی کے اصرار پر سروجنی نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بھائی چٹو کے خلاف دہشت گردی کے الزام پر بیان دیا، جس پر اس کا باپ بھڑک اٹھا تھا کہ ایک بہن کیسے اپنے بھائی پر دہشت گردی کا الزام لگا سکتی ہے۔ اس کے باپ نے کہا کہ وہ آج سے اس کے لیے مر گئی۔ جب وہ بستر مرگ پر تھا تو سروجنی باپ سے آخری دفعہ ملنے گئی لیکن باپ نے انکار کر دیا، جس کا دکھ سروجنی کو مرتے دم تک رہا۔ سروجنی اور اس کی تین بیٹیوں پر حیدرآباد دکن کے نوابی کلچر کے اثرات زیادہ تھے، لہٰذا سروجنی اور اس کی بیٹیوں کا جھکائو ہمیشہ مسلمانوں کی طرف رہتا تھا۔ جب انیس سو چھیالیس میں نہرو کانگریس کا صدر بنا، تو گاندھی نے نہرو کو کہا کہ وہ سروجنی کو ورکنگ کمیٹی میں شامل مت کرے کیونکہ برطانوی حکومت کے ساتھ اہم مذاکرت شروع ہونے والے ہیں اور وہ اندر کی باتیں باہر بتا دے گی۔ کسی اور کو ممبر بنا لیا گیا۔ سروجنی کچھ عرصہ اس سلوک پر ناراض رہی۔
جب ہندوستان آزاد ہوا تو سروجنی نائیڈو کابینہ کا وزیر بننے کی پہلی چوائس پر پورا اترتی تھی؛ تاہم یہ سمجھا گیا کہ وہ اب بوڑھی ہورہی ہے لہٰذا بہتر ہوگا اسے یوپی کا گورنر بنا کر بھیج دیا جائے، اور وہ بہتر گورنر ثابت ہوئی۔ اگرچہ وہ زیادہ عرصہ گورنر نہ رہی کیونکہ وہ جلد ہی فوت ہوگئی تھی۔
ایک انسان کے طور پر وہ اتنی اچھی تھی کہ ایک دفعہ نہرو حیدرآباد گیا تو اس (نہرو) کے پرانے ذاتی ملازم ہری کا اتنا خیال رکھا کہ سب حیران رہ گئے۔ اپنے اے ڈی سی کے ساتھ وہ خود نہرو کے ذاتی ملازم ہری کے کمرے میں گئی۔ اس (سروجنی نائیدو) نے خود مٹھائی کا ٹوکرا اٹھایا ہوا تھا جبکہ اس کا اے ڈی سی پھل اٹھائے ہوئے تھا۔ اس نے مٹھائی اور پھل ہری کو دئیے۔ ایک بڑے کردار اور ظرف کی خاتون ہی یہ کام کرسکتی تھی۔ ایک اچھی ماں اور مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ سروجنی نائیڈو ایک شاعرہ بھی تھیں۔ اچھے حسن سلوک کی حامل اس خاتون کو بھارت کی بلبل کہا جاتا تھا۔
اب اسی سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدما نہرو کے ساتھ رومانس چلا رہی تھی۔ وہ اپنی ماں سے مختلف تھی۔ نہرو، پدما سے گیارہ برس بڑا تھا۔ وہ خود کو توپ چیز سمجھتی تھی اور اپنے لیے Black Princess کا لقب پسند کرتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ بہت خوبصورت ہے، کوئی اور لڑکی اس جیسی نہیں اور ہر مرد اس کی محبت میں گرفتار ہے۔ جوانی کے آغاز کے دنوں میں اس نے خود کو یقین دلایا ہوا تھا کہ نواب سالار جنگ اس کی محبت میں گرفتار ہے۔ اگر نواب صاحب کسی اور خاتون کی طرف نظر بھی ڈال لیتے تو وہ سخت ناراض ہو جاتی۔ آخر نواب صاحب نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو نواب کرتے ہیں۔ پدما نے ایک روٹین بنا لی تھی کہ وہ نہرو کے گھر الہ آباد میں ہوتی تھی اور بعد میں دہلی تو وہ اصرار کرکے نہرو کے ساتھ والا بیڈ روم لیتی تھی۔ اسے اپنی جسمانی ساخت پر بڑا فخر تھا اور کبھی کبھار جان بوجھ کر وہ اپنی ساڑھی کا اوپر والا پلو نیچے گرنے دیتی تھیں تاکہ دیکھنے والوں کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جائے۔ وہ اکثر اس طرح سانس اوپر نیچے کرتی رہتی تھی۔
نہرو کی بیٹی اندرا کو یہ سب باتیں پسند نہیں تھیں اور اس نے نہرو کے سیکرٹری کو کہا تھا کہ اسے اچھا نہیں لگتا، پدما اس کے باپ کے ساتھ ہر جگہ پائی جاتی ہے، اس کا کچھ حل نکالو۔ سیکرٹری نے اسے کہا: تم خود اپنے باپ نہرو کے ساتھ ری پبلک ڈے پر گاڑی میں نہ بیٹھ کر جایا کرو۔ تم اپنے لڑکوں راجیو اور سنجے کو نانا کے ساتھ گاڑی میں بھیجا کرو جبکہ گاڑی میں تم پدما کے ساتھ جایا کرو۔ پدما اندرا کے ساتھ بیٹھ کر جانے کو ناپسند کرتی تھی۔
انیس سو اڑتالیس کے الیکشن میں پدما حیدرآباد سے الیکشن جیت گئی۔ وہ سیدھی وہاں سے وزیراعظم ہائوس وارد ہوئی اور اس نے اپنے لیے ایک کمرے پر قبضہ کر لیا جو نہرو کے بیڈ روم کے ساتھ تھا۔ وہ مستقلاً وزیراعظم ہائوس میں رہنے پر مصر تھی؛ تاہم بہت جلد اس مسئلے کا حل نکالا گیا، جب اسے بتایا گیا کہ لیڈی مائونٹ بیٹن دورے پر آرہی ہیں۔ لیڈی مائونٹ بیٹن کے آنے سے چند روز پہلے وہ وہاں سے شفٹ ہوئی۔ لیڈی مائونٹ بیٹن کے آنے سے چند دن پہلے، پدما نے اندرا کو کہا کہ وہ اسے لیڈی مائونٹ بیٹن اور اس کے باپ نہرو کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کی کاپیاں دینا چاہتی ہے۔ پدما نے اندرا کو یہ بھی بتایا کہ وہ خودکشی کا سوچ رہی ہے۔ اندرا نے پریشان ہو کر نہرو کے سیکرٹری کو یہ بات بتائی۔ سیکرٹری نے اسے اپنے گائوں کا واقعہ سنایا: ایک عورت اپنے خاوند سے لڑ کر گھر سے یہ کہہ کر نکلی کہ وہ دریا میں کود کر جان دینے جا رہی ہے۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ وہ لوٹی اور چھتری لے کر دریا کی طرف بھاگ گئی۔ اس کا خاوند ہنستا رہا۔ وہ کچھ دیر بعد لوٹ آئی اور شکایت کی کہ اس نے روکا کیوں نہیں؟ خاوند بولا: جو دوسروں کو بتاتا پھرے کہ وہ خود کشی کرنے لگا ہے، وہ دراصل ایسا کرتا نہیں۔ یہ کہہ کر سیکرٹری نے مشوریہ دیا کہ اندرا بھی پدما کا حوصلہ بڑھائے کہ اچھا ہے وہ خودکشی کر لے۔
لیڈی مائونٹ بیٹن کو اندازہ ہو چکا تھا کہ نہرو کا پدما سے افیئر چل رہا ہے۔ ایک دن لیڈی ایڈونا نے پدما کو پیغام بھیجا کہ وہ اس سے ملنا چاہتی ہے۔ لیکن پدما نے، جو خود کو توپ چیز سمجھتی تھی، گورنر جنرل کی بیوی کو ملنے سے انکار کر دیا۔ جب لیڈی مائونٹ بیٹن لندن لوٹ گئیں تو پدما نے نہرو کے سیکرٹری کو کہا: یہ نہرو ایک عورت پر مطمئن ہونے والا بندہ نہیں ہے۔ سیکرٹری ہنس پڑا اور کہا: آپ کو اتنے برس لگ گئے یہ راز جاننے میں۔ ایک سال بعد پدما نے نہرو کے کمرے میں لیڈی ایڈونا کی دو پوٹریٹ تصویریں دیکھیں تو اسے غصہ آیا۔ اس نے نہرو کے بیڈ کے سامنے اپنی تصویر لگوائی جہاں سوتے وقت نہرو کی نظر پڑتی رہے۔ جونہی پدما دہلی سے گئی نہرو نے وہ تصویر اتروا دی۔
اس دوران جب گوندہ وزیرداخلہ بنا تو اس نے تجویز دی کہ اس کی جگہ پدما کو گورنر بنا کر بھیجا جائے تو بھارتی صدر اور دیگر نے بھی تجویز کو سپورٹ کیا اور آخر نہرو کو یہ آئیڈیا دیا گیا۔ اس پر نہرو کی بہن کرشنا نے نہرو کے سیکرٹری کو خط لکھا: تو میرے بھائی صاحب اس خاتون کو اس کی “خدمات” کا معاوضہ دے رہے ہیں۔
پدما ایک اچھی گورنر ثابت ہوئی اور دس سال مغربی بنگال کی گورنر رہی۔ وہ ہندو اور مسلمان میں فرق نہیں رکھتی تھی لہٰذا لوگ اسے پسند کرتے تھے اور وہ ہر مسئلے کا حل نکال لیتی تھیں۔ سب کہتے تھے: اگر ہندوستان میں کوئی پکا “لاٹ صاحب” تھا تو وہ پدما تھی۔ نہرو کی موت کے بعد پدما کا دل ٹوٹ گیا اور اس نے مغربی بنگال کی گورنرشپ چھوڑ دی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ نہرو کا کشمیر پر رویہ سخت ہوتا جارہا تھا۔ جب بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق کر لیا گیا تو نہرو یہ سوچ چکا تھا کہ اب کشمیر ہندوستان سے نہیں جائے گا؛چنانچہ نہرو کی کشمیر میں استصواب رائے میں دلچسپی کم ہوتی جارہی تھی۔ لیڈی ماونٹ بیٹن کے دوست رچرڈ سائمنڈ اور الیگزینڈر، جو ریلیف ورکرز تھے، نے کشمیر کا دورہ کیا اور واپسی پر رپورٹ وزیراعظم نہرو کو بھیجی۔ سائمنڈ نے لکھا کہ پونچھ کے لوگوں نے مہاراجہ کی فوج کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور بظاہر یہ بغاوت پاکستان سے قبائلی لشکر جانے سے پہلے ہوئی تھی۔ نہرو یہ رپورٹ پڑھ کر غصے میں آگیا کہ اگر ریکارڈ پر یہ بات آگئی کہ پونچھ کے علاقوں میں مقامی آبادی نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت کی تھی تو اس سے پاکستان کا موقف مضبوط ہوگا کہ قبائلی لشکر کے ارکان نے اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مدد کی اپیل کے جواب میں وہاں چڑھائی کی تھی۔ سائمنڈ نے اپنی رپورٹ میں وہ تجاویز بھی پیش کی تھیں جو انہیں وزیراعظم لیاقت علی خان نے دی تھیں کہ تمام نان کشمیری فوجی دستے واپس بلا کر وقتی طور پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے تعینات کر دیے جائیں، جب تک کہ وہاں استصواب رائے نہیں ہوجاتا۔ یہ تجویز پڑھ کر نہرو کا پارہ پھر چڑھ گیا اور اس نے اپنے سامنے پڑی میز پر مکا مار کر کہا :ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
نہرو کے اس رویے پر اب تنقید ہونا شروع ہو چکی تھی۔ برطانوی ہائی کمشنر جو کراچی میں تعینات تھے، کی طرف سے رپورٹ آئی، اس نے لکھا کہ ہم دو انتہائوں کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ ایک طرف انصاف کی بات ہے تو دوسری طرف ایک ایسے بندے کو مطمئن اور خوش کرنا مقصود ہے جو خود کشمیری پنڈت ہے، لیکن وہ حقائق سے آنکھیں چرائے بیٹھا ہے۔ ماونٹ بیٹن کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح نہرو اور لیاقت علی خان کے درمیان ملاقات کرائی جائے، کیونکہ اس میٹنگ سے پہلے لیاقت علی خان نے ایک ٹیلی گرام نہرو کو بھیجا، جسے پڑھ کر پھر نہرو کا پارہ چڑھ گیا تھا۔ اس ٹیلی گرام میں لیاقت علی خان نے شیخ عبداللہ کو غدار قرار دیا تھا۔ لیاقت علی خان نے کہا: بھارتی حکومت ریاست کی ساری مسلم آبادی کی نسل کشی کررہی ہے۔ ماونٹ بیٹن نے اس ماحول میں، جب نہرو اور لیاقت کے درمیان سخت باتوں اور ٹیلی گرام کا تبادلہ ہورہا تھا، ملاقات کا بندوبست کیا تاکہ وہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کریں۔ یہ نہرو اور لیاقت کی کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ دونوں وزیراعظم خاصی دیر تک اپنے اپنے نقطہ نظر سے بات کرتے رہے۔ پہلے نہرو تو بعد میں لیاقت علی خان نے پاکستان کی پوزیشن سے آگاہ کیا۔ لیاقت علی خان اگرچہ تھکے ہوئے تھے، پھر بھی انہوں نے اچھے نکات اٹھائے اور ایسی تجاویز پیش کیں جن پر نہرو نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر غور کرے گا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان کی مدد کے لیے چودھری محمد علی اور ہندوستان کی طرف سے وی پی مینن اور Ismay موجود تھے۔ ان تینوں نے ان تجاویز کو ایک ڈرافٹ کی شکل دی اور یہ طے ہوا کہ اگلے دو روز میں پھر انہی نکات کی بنیاد پر بات چیت آگے بڑھے گی۔ تجاویز کے مطابق: پاکستان اس قبائلی لشکر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا کہ وہ لڑائی بند کریں اور کشمیر سے لوٹ جائیں۔ ہندوستان بھی اپنی تمام فوجیں واپس بلا لے اور صرف اتنی تعداد میں فوجی وہاں رہنے چاہئیں جو لا اینڈ آرڈر کے لیے ضروری ہوں۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ اقوام متحدہ کو کہا جائے کہ وہ کمیشن کشمیر بھیجے جو کشمیر میں استصواب رائے کرائے۔ اس ملاقات کے بعد ماونٹ بیٹن کو پھر ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنا پڑی۔ سردار پٹیل اور بلدیو سنگھ کشمیر کے فرنٹ سے لوٹے تھے اور وہ خبریں لائے تھے جو نہرو کو پہلے بھی ذرائع سے مل رہی تھیں، جس سے کابینہ ارکان کے موقف میں مزید سختی پیدا ہوگئی۔ اجلاس میں استصوابِ رائے کے خلاف رائے بننا شروع ہوگئی تھی۔ کابینہ کے ارکان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بھی خلاف ہوگئے۔ سردار پٹیل نے تین باتیں بتائیں: پہلی، پاکستان نے بڑی تعداد میں قبائلی لشکر بھیجا ہوا تھا۔ دوسر، ا لیاقت علی خان نے دہلی سے واپس پاکستان جا کر مزید قبائلی لشکر بھیج دیے تھے اور تیسری بات یہ تھی کہ وادی میں لشکر کے جنگجو غیر مسلم کشمیریوں پر ظلم اور کشمیری لڑکیوں کو فروخت کررہے تھے۔ ماونٹ بیٹن اجلاس سے نکلا تو اس نے خفیہ پیغام لیاقت علی خان کو بھیجا کہ وہ فوری طور پر نہرو کو ٹیلی گرام کریں، کیونکہ صورتحال بگڑ رہی ہے۔ لیاقت علی خان نے فوراً نہرو کو ٹیلی گرام بھیجا کہ دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ جنگ بند کریں اور مذاکرات جاری رکھیں۔ نہرو نے فوراً جواب دیا اور ماونٹ بیٹن کے ساتھ وہ لاہور چلا گیا تاکہ ڈیفنس کونسل کے اجلاس میں شرکت کرسکے۔
کشمیر پر گفتگو اتنی طویل ہوگئی تھی کہ ماسوائے ڈنر بریک کے یہ اجلاس دوپہر سے لے کر رات گئے تک جاری رہا۔ سات گھنٹے تک یہ اجلاس چلا۔ اگرچہ یہ ملاقات دوستانہ ماحول میں جاری رہی لیکن اس ملاقات سے ماونٹ بیٹن قائل ہو گیا کہ یہ دونوں ملک کبھی بھی خود بیٹھ کر اس مسئلے کو حل نہیں کرسکیں گے۔ ماونٹ بیٹن کو جناح صاحب سے لاہور میں ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات یاد آئی جس سے ماونٹ بیٹن مطمئن ہوکر دہلی لوٹا تھا۔ دونوں نے لیاقت علی خان اور نہرو کی عدم موجودگی میں زیادہ کھل کر بات کی۔ جناح صاحب نے ماونٹ بیٹن کو شکایت کی تھی کہ ہندوستان نے بغیر بتائے کشمیر میں فوجیں اتار دی ہیں۔ ماونٹ بیٹن نے جواب دیا: نہرو نے جس اجلاس میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا اس سے نکل کر لیاقت علی خان کو ٹیلی گرام کر دیا تھا۔ اس پر جناح صاحب نے ماونٹ بیٹن کو بھی یاد دلایا کہ ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق قانونی اور اخلاقی طور پرجائر نہیں کیونکہ اس کی بنیاد خون خرابے اور فراڈ پر رکھی گئی تھی۔ ماونٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ زبردستی الحاق ہوا ہے تو اس کے ذمہ دار قبائلی ہیں، جنہوں نے وہاں تشدد شروع کر دیا تھا، جس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ قائد نے جواب دیا: غلط بات۔ تشدد اور خون خرابے کی شروعات تو ہندوستان نے اپنی فوجیں وہاں بھیج کر کی تھی، لیکن ماونٹ بیٹن پھر اپنی بات پر زور دیتا رہا کہ اصل فساد قبائلیوں کے وہاں جانے سے شروع ہوا۔ اس پر جناح صاحب کو ماونٹ بیٹن پر غصہ آیا اور وہ بولے “یہ تمہاری ناسمجھی اور بے عقلی ہے اور کچھ نہیں”۔
ماونٹ بیٹن نے جناح صاحب کو بتایا کہ اب کشمیر میں ہندوستانی افواج اپنا کنٹرول جما چکی ہیں۔ قبائلی لشکر اب سری نگر فتح نہیں کرسکے گا، اس پر جناح صاحب نے کہا: بہتر ہے دونوں ملک ایک ساتھ فوجیں واپس بلا لیں۔ ماونٹ بیٹن نے استصواب رائے کا معاملہ جناح کے ساتھ اٹھایا تو جناح صاحب کی شرط تھی کہ یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب کشمیر میں ہندوستانی فوجیں اور شیخ عبداللہ نہ ہوں، ورنہ عام کشمیری پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالتے وقت ڈرے گا۔ ماونٹ بیٹن نے اقوام متحدہ کے زیر اثر استصواب رائے کرانے کی تجویز دی تو قائد نے جواب دیا :یہ کام تو دونوں ملکوں کے گورنر جنرل خود کرسکتے ہیں، جس پر ماونٹ بیٹن نے کہا: ہوسکتا ہے پاکستان کا گورنر جنرل اتنا طاقتور ہو، لیکن وہ خود قانونی اور آئینی طور پر ہندوستان کی حکومت کے مشورے کا پابند ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں ہوگا۔ جناح صاحب ماونٹ بیٹن کو بتاتے رہے کہ بھارت کا مقصد تھا کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے؛ تاہم ماونٹ بیٹن نے اس کی نفی کی۔
ماونٹ بیٹن کا اصرار تھا کہ اس کے پاس اب وائسرائے ہند کی پاورز نہیں ہیں، وہ محض ایک آئینی گورنر جنرل تھا جبکہ جناح صاحب کا یہ شک یقین میں بدل رہا تھا کہ اس نے مہاراجہ سے الحاق کی دستاویزات لکھوانے اور فوجیں کشمیر بھجوانے میں کردار ادا کیا تھا، اور اسی نے پاکستان کے مفادات کا نقصان کیا تھا۔ اگرچہ ماونٹ بیٹن ان تمام باتوں سے انکاری تھا کیونکہ اس کے خیال میں تین جون کو ہندوستان کو تقسیم کرنے کے پلان کے اعلان کے بعد وہ دونوں ریاستوں میں اچھے تعلقات کے لیے اپنی کوششیں کررہا تھا۔ ماونٹ بیٹن کے سٹاف کا خیال تھا کہ جناح یہ بات نہیں سمجھ پارہے تھے کہ اگر ماونٹ بیٹن اس معاملے پر پوری طرح ناکام ہوجاتا تو اس کے کیرئیر پر داغ لگ جاتا۔ مائونٹ بیٹن کی قائداعظم سے ملاقات اور نہرو لیاقت اجلاس کے باوجود مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل رہا تھا۔ مائونٹ بیٹن سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ وہ اب کیا کرے۔ وہ کیسے اس سنگین مسئلے سے نکلے، جس نے ہندوستان اور پاکستان کو جنگ میں دھکیل دیا تھا۔
دہلی میں جو کچھ چل رہا تھا، اس کے بعد ماونٹ بیٹن نے سوچا وہ چند دن باہر گزار آئے۔ وہ لیڈی ماونٹ بیٹن کے ساتھ پہلے راجستھان اور پھر ممبئی گیا۔ چند دن بعد ماونٹ بیٹن دہلی لوٹا تو ایک اور بحران اس کا منتظر تھا۔ سردار پٹیل نے پاکستان کے پچپن کروڑ روپے روک لیے تھے۔ نہرو اور پٹیل کا کہنا تھا کہ اگر یہ پیسے جاری کر دیے گئے تو یہ کشمیر میں ان کی فوجوں کیخلاف استعمال ہوںگے۔ پاکستانی خزانے میں صرف دو کروڑ روپے بچے تھے اورنئی ریاست سخت مالی بحران کا شکار ہوچکی تھی۔ ماونٹ بیٹن نے21 اور 22 دسمبر کو رقم ریلیز کرانے کیلئے نہرو اور لیاقت علی خان کی ملاقات کرائی، لیکن حل نہ نکل سکا۔ ماونٹ بیٹن نے نہرو کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کو ریفر کر دیا جائے، لیکن ماونٹ بیٹن کو اس وقت جھٹکا لگا جب نہرو نے کہا کہ وہ تو سوچ رہا ہے کہ ہندوستانی فوج کو پاکستان کے ان علاقوں پر حملے کے لیے بھیج دے جہاں سے قبائلی لشکر آرہے ہیں۔ نہرو اور ماونٹ بیٹن کے درمیان جو خوشگوار تعلقات تھے، وہ اب دھیرے دھیرے بگڑنا شروع ہوچکے تھے۔ پچیس دسمبر کو ماونٹ بیٹن نے ایک طویل خط وزیراعظم نہرو کو لکھا کہ وہ جنگِ عظیم دوم لڑ چکا اور اس کے تجربے کے مطابق، جو کچھ اب کشمیر میں شروع ہورہا، اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اس کے خیال میں ہندوستان کے پاس چاہے فوجی برتری تھی، لیکن کشمیر میں گوریلا جنگ کا وہ مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ قبائلی لشکر مقامی کشمیریوں کے ساتھ مل کر ہندوستانی فوجوں کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ یہ گوریلا جنگ ہندوستانی ذرائع اور فوج پر برا اثر ڈالے گی۔ پاکستان کے اندر فوجیں بھیجنے پر ماونٹ بیٹن نے نہرو کو لکھا کہ اسے حیرت ہے کہ نہرو ایسا سوچ رہا تھا۔ گورنر جنرل نے پیش گوئی کہ اگر ایسا کیا گیا تو پاکستان، ہندوستان کے درمیان براہ راست جنگ چھڑ جائے گی اور اگر ہندوستان یہ سمجھ ہا ہے کہ ایسی جنگ جلد ختم ہوجائے گی اور اس کا نتیجہ ہندوستان کی جیت کی شکل میں نکلے گی تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ ماونٹ بیٹن نے بار بار ایک بات اس خط میں لکھی کہ بہتر ہوگا کہ نہرو اقوام متحدہ سے رجوع کرے اور جنگ ختم کردے۔ اگلے روز نہرو نے اس خط کا جواب دیا کہ یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی، کشمیر کے بعد یہ لشکر ریاست پٹیالہ میں داخل ہوگا، پھر مشرقی پنجاب اور وہاں سے یہ دہلی تک پہنچے گا، لہٰذا نہرو کا خیال تھا کہ لشکر کو کشمیر میں ہی شکست دی جائے، ورنہ وہ دہلی تک کو فتح کرسکتا ہے۔ دوسری طرف برطانوی وزیراعظم ایٹلے اپنے وائسرے ہند کے کام سے ناخوش تھا، بلکہ ایک مرحلے پر تو اس نے یہ دھمکی بھی دی کہ وہ ماونٹ بیٹن کو ہٹا دے گا، جس کا وائسرے نے برا منایا۔ اب جب اس نے خود کو گھرا ہوا پایا تو ماونٹ بیٹن نے وزیراعظم ایٹلے کو لکھا کہ وہ ہندوستان کا دورہ کرکے مدد کرے۔ ایٹلے نے ہندوستان آنے سے انکار کر دیا کہ اپنا گند خود صاف کرو۔ اس دوران وزیراعظم ایٹلے تک یہ خبر پہنچی کہ نہرو پاکستان کے اندر فوجیں بھیجنے کی بات کررہا ہے تو اس نے ماونٹ بیٹن کو سخت خط لکھا کہ کسی صورت بھی ہندوستانی فوج پاکستان کے اندر نہیں جانی چاہیے، چاہے اس اقدام کو وہ سیلف ڈیفنس کا نام ہی کیوں نہ دیں۔ ایٹلے نے لکھا: ہندوستانی قیادت اگر یہ سوچ رہی ہے کہ فوجی ایکشن پاکستان کے اندر بہت تیزی سے ہوگا اورفورا ًختم ہوگا تو وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ تاریخ میں جتنی بھی جنگیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں لڑی گئی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ قبائلیوں سے ڈیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ وزیراعظم ایٹلے کو احساس ہوا کہ اس نے ماونٹ بیٹن پر بھروسہ کر کے شاید غلطی کی ہے، کیونکہ اسے جس مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ ہندوستان کو بغیر لڑائی اور کشمکش کے آزادی دے گا، وہ مشن پورا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ اپنی جگہ، ہندوستان میں ہڑتال اور فسادات کی خبروں نے بھی ماونٹ بیٹن کا اچھا امیج نہیں چھوڑا تھا۔ اس لیے اب وزیراعظم ایٹلے نے لندن سے ہی ہندوستان کے گورنر جنرل کو ہدایات دینی شروع کر دی تھیں کہ اس نے کسی صورت ہندوستانی فوج پاکستان کے اندر نہیں جانے دینی۔ ایٹلے قائل تھا کہ اسے اب ان معاملات پر ماونٹ بیٹن کو ہدایات دینے کی ضرورت تھی۔ اس دوران بھارتی جہازوں نے کشمیر میں بم گرانے شروع کردیے تھے۔ مورخین آج تک اس پر بحث کررہے ہیں کہ ماونٹ بیٹن سے کہاں غلطی ہوئی؟بعض کا خیال ہے کہ ماونٹ بیٹن کی بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے کشمیر کو غلط بندے (نہرو) کے حوالے کر دیا تھا۔ مورخین کے نزدیک ماونٹ بیٹن یہ بھول گیا تھا کہ ہندوستان پاکستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی اوراس تقسیم کے درمیان ساڑھے پانچ سو سے زائد آزاد ریاستیں تھیں، ان کو ہندوستان یا پاکستان ایک کے ساتھ الحاق کرناتھا۔ جب معاملہ کشمیر کا آیا تھا تو آئینی اصول بڑا سادہ تھا، لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ مہاراجہ ہری سنگھ ہندو تھا جبکہ کشمیری عوام مسلمان تھے۔ اصولی طور پر کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہیے تھا، ہندو مہاراجہ مسلم آبادی والی ریاست نہیں چلا سکتا تھا، لیکن ماونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو اجازت دے دی کہ وہ اپنی مرضی کر لے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو نیوٹرل ریاست بنانے کا خواب دیکھا جو کہ ممکن نہیں تھا، یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسی جنگ شروع ہوئی، جو آج تک جاری ہے۔ ماونٹ بیٹن نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف برٹش آرمی بھیجنے کی منظوری دی تھی۔ نہرو ہر قیمت پر کشمیر چاہتا تھا، جبکہ چرچل ماونٹ بیٹن پر لندن میں چلایا کہ یہ تم نے کیا؟ آخرکار ماونٹ بیٹن کے مسلسل اصرار پر نہرو نے اپنی ضد ختم کردی اور واشنگٹن میں ہندوستان کے سفیر کو ہدایت دی کہ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اپیل کریں، پاکستان اور ہندوستان جنگ بندی کریں اور کشمیر میں استصواب رائے ہوگا۔ یوں آزادی کے صرف پانچ ماہ کے اندر ہی دو نئی ریاستوں نے ایک ایسی جنگ میں سینگ پھنسا لیے تھے، جو ستر سال بعد اس سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرچکی، جتنی تقسیم کے وقت تھی۔ ایک طرف کشمیر میں آگ لگی ہوئی تھی تو دوسری طرف حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ، جو پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی تھیں، پر سردار پٹیل اور نہرو نظر جمائے بیٹھے تھے۔ ان دونوں ریاستوں میں ایک نیا کھیل شروع ہورہا تھا، جو کشمیر سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ جونا گڑھ میں تو یہ کھیل اس وقت شدت اختیار کر گیا، جب ریاست کے نواب نے چپکے سے شاہنواز بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو کے والد) کو ہندوستان کی تقسیم سے کچھ عرصہ قبل کراچی سے بلا کر اپنی ریاست کا وزیراعظم مقرر کر دیا۔ یوں نواب جونا گڑھ اور وزیراعظم شاہنوار بھٹو اور ہندوستان کے وزیرداخلہ سردار پٹیل کے درمیان نئی جنگ شروع ہورہی تھی اور نظام آف حیدر آباد بھی اتنی آسانی سے اپنی ریاست سردار پٹیل کے حوالے کرنے کو تیار نہ تھے۔ ماونٹ بیٹن کے ہندوستان میں ڈیڑھ سالہ قیام میں دنیا بدل گئی تھی۔ جون 1948ء میں ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر لندن روانہ ہوتے وقت ماونٹ بیٹن جہاں کشمیر میں نہ ختم ہونے والی جنگ چھوڑ کر جارہا تھا۔
تنازعہ کشمیر کی جانب
دوسرا قدم:27 اکتوبر کا الحاق
جہاں ظلم ہوتا ہے وہاں مزاحمت بھی ہوتی ہے، چنانچہ 14اگست 1947ء سے کشمیری عوام کی مزاحمت جاری ہے۔ طویل اور صبرآزما .... کبھی سست اور مدھم پڑ جاتی ہے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک چنگاری پورے خطے میں آگ لگا دے گی۔ ان کی طویل جدوجہد میں کئی نشیب وفراز آئے، کبھی ان کی عاقبت ناادیش قیاد ت نے بھارتی حکمرانوں کی منافقانہ سیکولرازم کے ساتھ سودے بازی کرلی تو کبھی پاکستانی حکمرانوں نے نیم دلانہ اور بُزدلانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین اس وقت دھوکہ دیا جب دوچار ہاتھ لب بام پہنچنے کو رہ گئے تھے۔ اسی دوران بھی کشمیری حریت پسندوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا اور کبھی پوری وادی ان کی قربانیوں کے خون سے لالہ زار بن گئی اور کبھی ان کو قید و بند اور جلاوطنی سے دوچار ہونا پڑا۔ جہاں تک عالمی قوتوں کا تعلق ہے تو ان کی اوّلین ترجیح ہمیشہ بھارتی حکمران رہے۔ کشمیری عوام کبھی بھی کسی طاقت کے مفاد کے چوکھٹے میں فٹ نہیں بیٹھے۔ دیکھا جائے تو گزشتہ ایک ہزار سال سے جاری وساری ہندو مسلم تضاد پوری طرح اُبھر کر سامنے آیا اور یہ تضاد مسئلہ کشمیر کی صورت میں اب تک سامنے ہے۔
تنازعہ کشمیر کا تاریخی پس منظر تاریخ کا ایک ایسا طویل باب ہے جس کی ایک ایک سطر ظلم کی داستانوں کی عکاس ہے۔ یہ بات ہے 14اگست 1947ء کی، جب دُنیا کے اُفق پر پاکستان کے نام سے ایک آزاد ملک طلوع ہوتا ہے۔ برصغیر میں یوں تو بڑے بڑے تنازعات نے جنم لیا مگر ایک تنازع مسئلہ کشمیر جو سامراجی قوتوں کا شکار رہا، جب کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ قرار دیا گیا تو بھارت کو برطانوی حکمرانوں، لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ پورے ہندوں کی حمایت حاصل تھی۔ سامراجی سیاست میں عملاً قانون اور اخلاق کی کوئی گنجائش تک نہیں ہوتی۔
27 اکتوبر کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس کے پس منظر کی کہانی سازشوں سے بھری پڑی ہے جس کا یہاں مفصل بیان کرنا ممکن نہیں، مختصراً جب قبائلی لشکر کے کشمیر پر حملے کی اطلاع نئی دہلی پہنچی تو 25 اکتوبر کو ماونٹ بیٹن نے ایک ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ کشمیر میں مہاراجہ کی حکومت کو امداد کے لیے بلا تاخیر بھارتی فوج بھیجی جائے گی لیکن ماونٹ بیٹن کی تجویز کے مطابق اس فیصلہ پر یہ شرط عائد کی گئی کہ مہاراجہ پہلے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرے۔ جوزف کوربل کی رائے یہ ہے کہ ماونٹ بیٹن کا رویہ کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کی جانبداری پر مبنی تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ماونٹ بیٹن نے یہ مشورہ کیوں دیا تھا کہ ہندوستان کی فوجی امداد پر الحاق کی شرط عائد کی جائے؟ وہ کیسے یہ دلیل پیش کر سکتا تھا کہ کشمیر جو اس وقت تک تکنیکی طور پر آزاد ملک تھا، الحاق کی درخواست کیے بغیر قانوناً فوجی امداد طلب نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے لازمی طور پر یہ فرض کر لیا ہو گا کہ حکومت پاکستان ایسے الحاق کی قانونی حیثیت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی جو کشمیری عوام کی رائے معلوم کیے بغیر بروئے کار لایا جائے گا اور اسے یہ بھی ضرور پتہ ہو گا کہ اگر اس مسئلہ پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کی بنیاد الحاق کی قانونی حیثیت پر نہیں ہو گی بلکہ الحاق کی حقیقت پر ہو گی۔ جوزف کوربل کو اس سوال کا جواب بھی نہیں ملتا کہ اس موقع پر اقوام متحدہ یا حکومت پاکستان سے کیوں رابطہ قائم نہیں کیا گیا تھا۔
لارڈ برڈوڈ بھی حیران ہے کہ 24 یا 25اکتوبر کو نئی دہلی میں کسی نے وزیراعظم پاکستان سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اس بحران کو مشترکہ سیاست کاری کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی تھی؟ اگر نہرو کے لیے ازخود ایسا کرنا ممکن نہیں تھا تو کیا اس کے قریب کوئی بھی ایسا دوراندیش شخص نہیں تھا جو اسے ایسا کرنے کی ترغیب دیتا؟ برڈوڈ کے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ برطانوی سامراج نے پہلے سے ہی ریاست جموں وکشمیر کو ہندوستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں مقیم اعلیٰ برطانوی سول وفوجی حکام نے کشمیر میں پاکستان کی فوجی مداخلت کی مخالفت کی تھی جبکہ ہندوستان میں سارے اعلیٰ برطانوی سول وفوجی حکام نے ریاست میں ہندوستان کی فوجی مداخلت کی بھرپور تائید وحمایت کی تھی۔ سامراجی ریاست میں عملاً قانون اور اخلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
حکومت ہندوستان کی دفاعی کونسل کے فیصلے کے مطابق محکمہ ریاستی امور کا سیکرٹری وی۔ پی۔ مینن اسی دن یعنی 25 اکتوبر کو ہی خاص فوجی ہوائی جہاز کے ذریعے سری نگر پہنچ گیا۔ ہندوستان کی ہوائی اور بری فوج کے دو تین اعلیٰ حکام بھی اس کے ہمراہ تھے۔ مینن نے فوراً ہی مہاراجہ سے ملاقات کر کے اس سے الحاق کی درخواست پر دستخط کروا لیے اور پھر اسے مشورہ دیا کہ یہاں سے جموں چلے جاو کیونکہ قبائلی لشکر نے اسی دن سری نگر سے صرف 35 میل دور بارامولا پر قبضہ کر کے مہوڑہ کے اس پاور ہاوس کو نذرآتش کر دیا تھا جہاں سے ساری وادی کشمیر کو بجلی مہیا ہوتی تھی۔ اس کو خطرہ تھا کہ یہ لشکر کسی وقت بھی سری نگر پہنچ جائے گا۔
مینن نے الحاق کی جس درخواست پر دستخط کروائے تھے اس میں اس حقیقت کا خاص طور پر ذکر تھا کہ ریاست کشمیر کی سرحد سوویت یونین اور چین سے مشترکہ ہے۔ اگر میری حکومت کی فوری طور پر فوجی امداد نہ کی گئی تو یہ علاقہ آفریدی قبائلیوں کی کارروائیوں کے باعث تباہ وبرباد ہو جائے گا۔ مینن یہ درخواست لے کر 26 اکتوبر کو دہلی واپس ہوا تو مہاراجہ اسی رات نہایت سراسیمگی کے حالت میں جموں روانہ ہو گیا۔ ڈوگرہ فوج نے مہاراجہ کے فرار میں مدد کرنے کے لیے پٹرول کے سارے ذخائر پر قبضہ کرلیا تھا اور صرف ان لوگوں کو پٹرول مہیا کیا جاتا تھا جو مہاراجہ کے ہمراہ سری نگر سے بھاگ رہے تھے۔ مہاراجہ نے اپنے تمام مال واسباب اور زروجواہر لاریوں میں لدوائے اور جو سامان لاریوں کی قلت کے باعث ان میں سما نہ سکا، اسے تانگوں پر لدوا لیا۔ اس نے پونچھ پہنچنے تک راستے میں کئی جگہ رُک کر اپنی پولیس اور فوج کو یہ ہدایات جاری کیں کہ ریاست کے ڈوگرہ راج کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے جو مسلمان باشندہ جہاں کہیں بھی نظر آئے اسے بلادریغ قتل کردیا جائے۔ اس نے 26اکتوبر کو جموں پہنچ کر اپنی خاص نگرانی میں برہمنوں اور راجپوت ہندووں کو ہتھیار تقسیم کروائے۔
اسی دن نئی دہلی میں ماونٹ بیٹن کی زیرصدارت حکومت ہندوستان کی دفاعی کمیٹی کا دوسرا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں مہاراجہ کی جانب سے ارسال کردہ الحاق کی درخواست کو قبول کرنے اور اس کی حکومت کی فوری فوجی امداد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ماونٹ بیٹن نے اس ساری کارروائی کی بذات خود نگرانی کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ اس دن ماونٹ بیٹن کے جانبدارانہ رویے پر کوئی پردہ نہیں پڑا ہوا تھا۔ وہ کھلم کھلا پاکستان کے خلاف سرگرم عمل تھا۔ آئین سٹیفنز لکھتا ہے کہ مجھے لارڈ اور لیڈی ماونٹ بیٹن نے 26اکتوبر کی رات کو کھانے پر بلایا ہوا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دونوں کا رویہ ہند۔ پاک امور کے بارے میں بالکل ہی یک طرفہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بالکل ہندو نواز ہو گئے ہیں۔ اس رات گورنمنٹ ہاوس کی فضا تقریباً جنگ کی سی تھی اورپاکستان، مسلم لیگ اور جناح دُشمن تھی…. پٹھانوں کے حملے کی وجہ سے مہاراجہ کے ہندوستان کے ساتھ رسمی الحاق کی کارروائی مکمل کی جارہی تھی۔ جس کے بعد یہ ریاست اور اس کی مسلم اکثریت اب قانونی طور پر جناح کے پاس نہیں رہے گی۔ شرط صرف استصواب کی تھی۔ ہندوستانی افواج کو فوراً کشمیر بھیجنے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور اس سلسلے میں ضروری انتظامات کیے جارہے تھے۔
27اکتوبر کی صبح کو وی۔ پی۔ مینن رسمی الحاق نامے پر دستخط کروانے کے لیے جموں روانہ ہوا تو اس کے پاس مہاراجہ کے نام ماونٹ بیٹن کا ایک ذاتی خط بھی تھا۔ اس تاریخی خط میں لکھا تھا کہ الحاق کی درخواست اس شرط پر منظور کی جاتی ہے کہ جب کشمیر میں امن وامان بحال ہو جائے گا اور حملہ آوروں کو وہاں سے نکال دیا جائے گا تو اس کے بعد ریاست کے مستقبل کے بارے میں عوام سے استفسار کیا جائے گا۔ دریں اثناء آپ کی امداد کے لیے آج ہی ہندوستانی فوجیں بھیجی جارہی ہیں۔ میری حکومت کو یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا ہے کہ آپ نے شیخ عبداللہ کو عارضی حکومت بنانے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور جب وی۔ پی۔ مینن الحاق نامے پر دستخط کروانے کے لیے جموں پہنچا تو ہندوستانی فوج کی ایک سکھ بٹالین سری نگر کے ہوائی اڈے پر پہنچ چکی تھی۔ اس طرح پاکستان کشمیر کی بازی ہار چکا تھا۔
قبائلیوں کی اکثریت ابھی تک بارامولا میں لوٹ مار میں مصروف تھی اور ان کا جو ہراول دستہ سری نگر کی طرف پیش قدمی کررہا تھا، اسے سکھ بٹالین کی دو کمپنیوں نے شہر سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر روک کر پسپا کردیا۔ غیرتربیت یافتہ پنجابی رضاکاروں کا ایک جتھہ سری نگر ہوائی اڈے کے نزدیک پہنچا تو اسے سخت ہزیمت اُٹھانا پڑی کیونکہ ہندوستانی فوج نے اس وقت تک ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے دفاعی مورچے بنا لیے تھے۔ جو ایک ہزار رضاکار کٹھوعہ روڈ پر ناکہ بندی کے لیے بھیجے گئے تھے، وہ وہاں پہنچے ہی نہیں تھے۔ ان کی دیسی ساخت کی بندوقیں راستے میں ہی خراب ہو گئی تھیں۔
مینن اسی دن الحاق نامے پر مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے اس کے وزیراعظم مہرچند مہاجن کے علاوہ شیخ عبداللہ کے دستخط کروا کر واپس دہلی پہنچ گیا۔ اس کی جموں سے روانگی کے فوراً بعد شیخ عبداللہ کو ریاست کا چیف ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا اور شیخ نے 30اکتوبر کو مہاراجہ بہادر اور اس کی نسلوں کا وفادار رہنے کا حلف اُٹھانے کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ اس کا یہ عہدہ محض نمائشی تھا۔ حقیقی اقتدار بدستور مہاراجہ بہادر اور اس کے وزیراعظم مہرچند مہاجن کے پاس تھا۔ شیخ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فوراً فائز نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک ہندوستان کو یقین نہیں تھا کہ اس کی فوج وادی کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ وادی پر ہندوستانی فوج کے مکمل قبضہ سے پہلے شیخ کو ریاست کا اقتدار دینا مناسب نہیں تھا۔ شیخ عبداللہ اپنی قوم پرستی اور نہرو سے ذاتی دوستی کے باوجود مسلمان تھا اور سردار پٹیل کسی قوم پرست مسلمان کی وفاداری پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔
ہندوستان کی اس فوجی کارروائی کی تیاریوں کی اطلاع 26اکتوبر کی شام کو ہی پاکستان آرمی کے لاہور ایریا ہیڈکوارٹر میں پہنچ گئی تھی۔ انڈین چھاتہ بردار بریگیڈ کو اس کارروائی کے لیے جو حکم دیا گیا تھا وہ پورے کا پورا لاہور میں سُن لیا گیا تھا۔ یہ پیغام ڈیسائفر (Decipher) کر کے راولپنڈی میں پاکستان آرمی ہیڈکوارٹرز کو روانہ کیا گیا لیکن قائم مقام برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی، یہاں تک کہ قائداعظمؒ کو بھی اطلاع نہ دی گئی حالانکہ وہ اس دن لاہور میں تھے۔ اس کے برعکس نئی دہلی میں اعلیٰ برطانوی فوجی افسر ساری رات سرگرم عمل رہے۔ ہوائی جہازوں کے ذریعے ہندوستانی فوجوں کی نقل وحرکت کی نگرانی خود برطانوی کمانڈر جنرل ڈڈلے رسل (Dudley Russell) نے کی اور اس سلسلے میں اس قسم کا کوئی خطرہ محسوس نہ کیا گیا کہ ہندوستانی فوج کے برطانوی افسرپاکستانی فوج کے برطانوی افسروں کے خلاف صف آراء ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی، جو ان دنوں لندن گیا ہوا تھا، کے بیان کے مطابق ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا منصوبہ بڑے غوروخوض کے بعد کئی ہفتے پہلے تیار کیا گیا تھا۔
چونکہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ برطانوی افسروں کو اس منصوبے کا یقینا علم تھا اس لیے انہوں نے مجرمانہ غفلت اور غداری کا مظاہرہ کیا۔ 27اکتوبر کی شام کو جب کشمیر میں ہندوستان کے فوجی حملے کی اطلاع قائداعظمؒ کو دی گئی تو انہوں نے فوراً پنجاب کے گورنر سرفرانسس موڈی کی وساطت سے پاکستانی فوج کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل سرڈگلس گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ اس حکم کا خلاصہ یہ تھا کہ پہلے راولپنڈی، سری نگر روڈ کے درے پر قبضہ کرو اور پھر سری نگر، جموں روڈ پر درہ بانہال پر قبضہ کر کے ہندوستانی فوجوں کا سلسلہ مواصلات منقطع کردو لیکن گریسی نے اس حکم پر عمل کرنے کی بجائے نئی دہلی میں سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آکن لیک سے ہدایات لینے کے لیے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ قائم کیا حالانکہ سپریم کمانڈر کا پاکستانی آرمی پر کوئی آپریشنل کنٹرول نہیں تھا اور ہندوستان کے برطانوی کمانڈر انچیف نے کشمیر میں ہندوستانی فوجی مداخلت کے بارے میں ا س سے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔یہ جنرل گریسی وہی سامراجی درندہ تھا جس نے ستمبر 1947ء میں ہندچینی پر فرانسیسی سامراج کو دوبارہ مسلط کرنے کے لیے گورکھا اور جاپانی فوجیوں کے ذریعے ویت نامی عوام کا بے محابا خون بہایا تھا اور یہ وہی سامراجی سازشی تھا جس نے دسمبر 1949ء میں پاکستانی فوج کے ایک جونیئر جنرل محمد ایوب خان کو پہلے ایڈجوٹنٹ جنرل بنایا اور پھر ستمبر 1950ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان سے سفارش کر کے اسے کمانڈر انچیف مقرر کروایا تھا اور یہ وہی شخص تھا جس کے بارے میں اس کا ایوب خان لکھتا ہے کہ گریسی بڑے نیک آدمی تھے، وہ دوسروں کے جذبات کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت آزادی دے رکھی تھی۔بظاہر ایوب خان کے نزدیک پاکستانی عوام کے جذبات کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی کیونکہ جب گریسی نے پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم کے حکم کی تعمیل نہیں کی تھی تو اسے یہ خیال نہیں آیا تھا کہ پاکستانی عوام میں اس کی اس حکم عدولی کا کیا ردعمل ہوگا۔
فیلڈ مارشل آکن لیک اگلے دن یعنی 28اکتوبر کو علی الصبح لاہور پہنچا اور اس نے قائداعظمؒ سے ملاقات کر کے انہیں جنرل گریسی کو دیئے گئے حکم کو واپس لینے پر آمادہ کرلیا۔ آکن لیک کی دلیل یہ تھی کہ مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی جو کارروائی کی ہے اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اگر نواب جوناگڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ صحیح تھا تو مہاراجہ کشمیر کے اسی قسم کے فیصلے کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ الحاق کی کارروائی کے بعد ہندوستان کو کشمیر میں اپنی فوجیں بھیجنے کا حق حاصل ہے۔ اگر پاکستان نے اب ہندوستان کے اس ملحقہ علاقے میں کوئی فوجی کارروائی کی تو اس کے نتائج بے انتہا خطرناک ہوں گے چونکہ برطانوی فوجی حکام اس جنگ میں حصہ نہیں لیں گے اس لیے پاکستانی فوج کی حالت بہت پتلی ہو گی۔ آکن لیک نے تجویز پیش کی کہ اس تنازع کے پُرامن تصفیہ کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے گورنر جنرلوں، وزرائے اعظم، مہاراجہ کشمیر اور اس کے وزیراعظم کی ایک راونڈ ٹیبل کانفرنس ہونی چاہیے۔ جناح نے یہ تجویز منظور کرلی تو دونوں ممالک کے درمیان ہمہ گیر جنگ کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا۔
ہندوستانی مورخین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے کشمیر میں اس فوجی کارروائی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ اگر پاکستان کشمیر پر قبضہ کر لیتا تو کشمیری قوم پرستوں کی سیاسی موت واقع ہو جاتی۔مسلم لیگ پاکستان میں کسی حزب اختلاف کے وجود کو برداشت نہیں کرتی تھی۔ قبل ازیں ہندوستان کی قوم پرست قیادت نے صوبہ سرحد میں استصواب کی تجویز کو منظور کرلیا تھا حالانکہ 1946ء کے اوائل کے عام انتخابات میں اس صوبے کے عوام نے کانگریس کے حق میں ووٹ دیئے تھے اور 1947ء میں وہاں کانگریس کی حکومت قائم تھی لیکن برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان کو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ سرحد میں خان عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب جیسے قائدین تحریک آزادی سے توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ ان حالات میں حکومت ہندوستان کشمیر کے قوم پرستوں کی جبری بے دخلی کو برداشت نہیں کرسکتی تھی …. دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندوستان ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کی رائے عامہ کی خواہش کے مطابق کرنا چاہتا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی ہندوستان میں چار کروڑ مسلمان مقیم تھے اور اس بنا پر ہندوستان اس خطرناک اصول کو تسلیم نہیں کرسکتا تھا کہ یہ سارے مسلمان محض مذہب کی وجہ سے اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کریں گے۔ صوبہ سرحد کے برخلاف ریاست جموں وکشمیر کا علاقہ جغرافیائی طور پر ہندوستان سے متصل تھا اور اس کے ہندوستان کے ساتھ بہت سے معاشی اور ثقافتی روابط تھے لہٰذا تشدد کے ذریعے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ برصغیر میں کشمیر ایک ایسا علاقہ تھا جہاں ہندو، مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے ساتھ پُرامن طریقے سے زندگی بسر کررہے تھے۔ اگر قبائلیوں کو اس فرقہ وارانہ اتحاد واتفاق کو تباہ کرنے کی اجازت دی جاتی تو اس کا ہندوستان کے دوسرے علاقوں پر بہت بُرا اثر پڑتا۔ ہندو عصبیت بہت زور پکڑ جاتی اور اس بنا پر حکومت ہندوستان کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو جاتیں اور چوتھی وجہ یہ تھی کہ چونکہ حکومت ہندوستان قانونی طور پر حکومت برطانیہ کی وارث تھی اس طرح وہ ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے تک اس کے دفاع کی ذمہ دار تھی۔ کشمیر کا دفاع دراصل ہندوستان کا اپنا دفاع تھا۔ تقریباً 800 سال تک ہندوستان پر شمال کی جانب سے حملے ہوتے رہے تھے اور اس مرتبہ بھی قبائلی لیڈر کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد مشرقی پنجاب میں ریاست پٹیالہ کو برباد کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد وہ امرتسر پر قبضہ کر کے نئی دہلی پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
ااگر ہندوستانی مورخین کے اس موقف کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہندوستان کے نئے ارباب اقتدار نے برصغیر کی تقسیم کے متفقہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست کشمیر پر قبضہ کرنے کا پہلے سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہوا تھا۔ اگر قبائلی حملہ نہ کرتے اور تشدد کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کی جاتی تو ہندوستان کشمیر سے بے تعلق رہتا اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ برطانوی سامراج نے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے کانگرسی لیڈروں سے کوئی سازباز نہیں کر رکھی تھی۔ ہوڈسن کے اس بیان کو بھی صحیح تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے ممدوح ماونٹ بیٹن کی جانب سے کشمیر میں ہندوستانی فوجیں بھیجنے کے کام میں سرگرمی سے حصہ لینے کی ایک وجہ یہ تھی کہ سری نگر میں تقریباً 200 برطانوی باشندے رہتے تھے۔ اگر ہندوستان کی جانب سے فوراً فوجی مداخلت نہ کی جاتی تو ان سب کی جانیں خطرے میں پڑجاتیں۔ قبل ازیں قبائلی حملہ آور بارامولا میں بعض برطانوی باشندوں کو موت کے گھاٹ اُتار چکے تھے اور پھر اس سامراجی دلیل کی اس منطق کو بھی صحیح تصور کرنا پڑے گا کہ پاکستان کو تو کشمیر میں کسی بھی حالت میں کسی قسم کی مداخلت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا حالانکہ وہاں ہزاروں مسلمان مارے جاچکے تھے، ہزاروں مسلمانوں کو جبراً بے دخل کیا جاچکا تھا اور لاکھوں باشندوں کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی سیاسی دھاندلی اور فوجی غنڈہ گردی جائز اور ضروری تھی تاہم نامور برطانوی مورخ پروفیسر السٹیئر لیمب ان ساری وجوہ کو صحیح تسلیم نہیں کرتا۔ وہ لکھتا ہے کہ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ جواہر لال نہرو ریاست کشمیر کے مستقبل کو اپنی سیکولر عینک سے دیکھتا تھا اور وہ نظریہ پاکستان کو اپنے لادینی نظریہ سیاست کے لیے ایک چیلنج تصور کرتا تھا لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہندوستان میں ڈاکر شیاما پرشاد مکرجی کی قسم کے بہت سے ہندو لیڈر موجود تھے جو برصغیر کی تقسیم کو مذہبی جنگ کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہ اسلامی قوتوں کے خلاف ہندو مہاراجہ کی امداد کرنا اپنا مذہبی فرض سمجھتے تھے۔ ان کے علاوہ ہندوستان میں ایسے لیڈروں کی بھی کمی نہیں تھی جو کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے بارے میں انڈین سول سروس کے دیرینہ نقطہ نگاہ سے متفق تھے۔ ہندوستان کا محکمہ خارجہ برصغیر میں برطانوی راج کے آخری سالوں کے دوران بھی روس، جس نے اب کمیونزم کا لبادہ پہن لیا تھا، کی جانب سے بدستور خطرہ محسوس کرتا تھا۔ سراولف کیرو جیسے لوگوں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر برصغیر کے شمال مغربی علاقے میں بدامنی ہوئی تو روس کو مداخلت کا موقع مل جائے گا۔ وہ تاجکستان اور پامیر کی طرف سے یا سنکیانگ کی طرف سے دخل اندازی کرے گا۔ سنکیانگ میں اس صدی کے تیسرے عشرے کے دوران مقامی وار لارڈ شینگ زائی کی سرگرمیوں کی وجہ سے روسیوں کا اثرورسوخ خاص طور پر بہت بڑھ گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ برطانیہ نے 1935ء میں گلگت کا علاقہ پٹہ پر حاصل کرلیا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی کے بعد بھی ہندوستان کے محکمہ خارجہ کو روسیوں کی جانب سے بدستور تشویش لاحق تھی۔ اس محکمہ نے اسی تشویش کی بنیاد پر اقتدار کی منتقلی کے تقریباً دوماہ بعد اور مہاراجہ کشمیر کے الحاق سے ایک دن پہلے یعنی 25اکتوبر کو برطانوی حکومت کو جو تار بھیجا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ پٹھان قبائلیوں کے خلاف مہاراجہ کشمیر کی امداد ان وجوہ کی بنا پر کرنی چاہیے کہ کشمیر کی شمالی سرحدیں افغانستان، سوویت یونین اور چین سے ملتی ہیں۔ کشمیر کا تحفظ جو لازمی طور پر ریاست کے اندرونی امن وامان اور مستحکم حکومت کے وجود پر منحصر ہے، ہندوستان کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں کہ کشمیر کی جنوبی سرحد کا ایک حصہ ہندوستان سے ملتا ہے لہٰذا ہندوستان کے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ کشمیر کی امداد کی جائے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں تھی کہ چند ہفتے بعد جواہر لال نہرو نے خود بھی ان وجوہ کا اعا دہ کیا تھا۔
لیمب لکھتا ہے کہ کشمیر کے علاقے کی فوجی اہمیت کی بنیاد پر ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حق میں جو دلائل پیش کیے جارہے تھے وہ اس بنا پر اور بھی زیادہ معقول نظر آتے تھے کہ برصغیر کی تقسیم کے موقع پر بہت سے مبصرین پاکستان کے تصور کو قابل عمل نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ نوزائیدہ اسلامی ریاست لازمی طور پر منہدم ہو جائے گی اور اس کے نتیجہ میں جو انتشار پیدا ہو گا اگر اسے کشمیر اور فوجی اہمیت کے پہاڑی سرحدی علاقوں تک پھیلنے دیا گیا تو سوویت یونین کو دخل اندازی کی ایسی ترغیب ملے گی کہ وہ اپنے آپ کو اس پر عمل درآمد سے باز نہیں رکھ سکے گا۔پاکستان کے انہدام کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہو گیا تھا کہ بہت سے ہندوستانی سیاستدان نہ صرف اس کی اُمید کرتے تھے بلکہ وہ اس مقصد کے لیے عملی اقدامات پر بھی آمادہ تھے۔
فیلڈمارشل سرکلاڈ آکن لیک کا مشاہدہ یہی تھا لہٰذا اس نے 28ستمبر کو حکومت برطانیہ کو جو خفیہ رپورٹ بھیجی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ ہندوستانی کابینہ پاکستان کے مستحکم بنیادوں پر قیام کے سدباب کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ لیمب کی رائے یہ ہے کہ ہندوستانی زعما انہی وجوہ کی بنا پر شروع ہی سے ریاست کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے کوشاں تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے کچھ دیر پہلے کانگریس کا صدر اچاریہ کرپلانی کشمیر گیا تھا۔ پھر مشرقی پنجاب میں پٹیالہ اور کپورتھلہ کی ریاستوں کے حکمران سری نگر گئے تھے اور ان کی واپسی کے بعد ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔ آخر میں مہاتما گاندھی سری نگر پہنچا تھا اور اس کے دو روزہ دورے کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ کشمیر کے وزیراعظم پنڈت کاک کو برطرف کردیا گیا تھا کیونکہ اس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے سمجھوتے کے حق میں ہے۔ تقسیم کے چند ہفتے بعد ستمبر میں شیخ عبداللہ کو رہا کردیا گیا تھا کیونکہ ریاست میں وہی ایک سیاسی لیڈر تھا جس کی سرکردگی میں ہندوستان نواز حکومت بن سکتی تھی اور اس موقع پر پاکستان میں اس حقیقت کا نوٹس لیا گیا تھا کہ شیخ عبداللہ کے ساتھ کشمیر مسلم کانفرنس کے لیڈر چوہدری غلام عباس کو رہا نہیں کیا گیا اور یہ کہ شیخ عبداللہ نے اپنی رہائی کے فوراً بعد نئی دہلی کا دورہ کیا تھا …. بہت سے پاکستانیوں کو یقین تھا کہ برطانیہ نے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے کانگرسی لیڈروں سے سازباز کررکھی ہے اور اسی سازش کے تحت ضلع گورداسپور کا علاقہ ہندوستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ کوئی اتنا بڑا نہیں تھا لیکن اس سے ہندوستان کو ارضی راستے کے ذریعے کشمیر تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اگر پورا ضلع گورداسپور پاکستان کو مل جاتا تو ہندوستان کو پٹھانکوٹ نہ ملتا اور وہ مشرقی پنجاب اور جموں کی واحدرابطہ سڑک سے بھی محروم رہتا تاہم پروفیسر لیمب نے برصغیر کے بارے میں برطانوی سامراج کے عزائم پر سے پوری طرح پردہ نہیں اُٹھایا۔ اس نے یہ تو لکھا ہے کہ ہندوستان کا محکمہ خارجہ روس کے خطرے کے بارے میں انڈین سول سروس کے برطانوی سامراج کی رائے سے متاثر تھا لیکن یہ نہیں لکھا کہ برطانوی افسروں کی اس رائے کی بنیاد برطانوی سامراج کی خارجہ پالیسی پر تھی۔ ان دنوں اینگلو امریکی سامراج کی طرف سے سوویت یونین کے خلاف عالمی سردجنگ کا اعلان ہو چکا تھا اور سوویت یونین میں امریکی سفیر جارج کینن (George Cannon) نے سوویت یونین کا گھیراو کرنے کی جو اعلانیہ تجویز پیش کی تھی۔ اس پر بھی عملدرآمد شروع ہوچکا تھا لہٰذا کشمیر جیسے انتہائی فوجی اہمیت کے علاقے کو ایک ایسی نوزائیدہ پاکستانی ریاست کے سپرد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جس کا مستقبل بالکل غیریقینی تھا اور جسے ہندوستانی ارباب اقتدار نے ابتدا ہی میں تباہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ پروفیسر لیمب نے اس سلسلے میں برطانوی سامراج کی سازش پر پردہ ڈالنے کے لیے مزید لکھا ہے کہ ریڈکلف ایوارڈ کا کشمیر کے ایشو سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد بعض نہروں کے پانی کی تقسیم پر تھی۔ پروفیسر نے یہ بات لکھ کر نہ صرف ماونٹ بیٹن اور برطانوی حکومت کو کشمیر کے معاملے میں کانگرس کے ساتھ سازش کرنے کے الزام سے بری کرنے کی ناکام کوشش کی ہے بلکہ اس نے اپنے قارئین کے علم ودانش اور فہم وفراست کی بھی توہین کی ہے۔ ماونٹ بیٹن نے 3جون 1947ء کو ضلع گورداسپور کو ہندوستان کے حوالے کر دینے کا جو اشارتاً ذکر کیا تھا۔ اس میں نہروں کے پانی کی تقسیم کا کوئی حوالہ نہیں تھا اور اس کے بعد چار ماہ تک اچاریہ کرپلانی، ماونٹ بیٹن، گاندھی، پٹیل اور نہرو نے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے لیے جو موثر اقدامات کیے تھے ان کا نہروں کے پانی کی تقسیم سے کیا تعلق ہوسکتا تھا؟ مزیدبراں ہوڈسن، جوزف کوربل، لارڈ برڈوڈ اور حتیٰ کہ مہرچند مہاجن جیسے متعصب مورخین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر مسلمان اکثریت والا ضلع گورداسپور ہندوستان کو نہ ملتا تو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ان دنوں ریاست کشمیر کے صوبہ لداخ میں روس نواز سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں اور اس بنا پر بعد میں سنکیانگ کے چند ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں مقیم اس اخبار کے نامہ نگار رابرٹ ٹرمبل کی ارسال کردہ یہ رپورٹ ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے صرف دو دن بعد یعنی 29اکتوبر کو شائع ہوئی تھی۔
ہم نے دیکھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و استبداد کب سے اور کس طرح سے جاری ہے، اسی ظلم کو اہل عالم کی نظروں میں لانے کے لئے دنیا بھر میں پوری کشمیری قوم 27 اکتوبر کا دن یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ بھارت کا یہ غاضبانہ قبضہ72 برس گزر جانے کے بعد بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر اپنے اس ناجائز تسلط کو قائم رکھنے کے لئے بھارت اپنی افواج کے ذریعے مسلسل ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اب تک لاکھوں معصوم کشمیریوں کو تہہ تیغ کیا جاچکا ہے۔ مگر اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام اپنی لازوال جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اچھی بات ہے کہ مختلف کشمیری تنظیمیںاور پاکستانی قوم 27 اکتوبر اور دیگر کشمیر کے ایام کو جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔اس کے باوجود وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیری متحد ہو کر تحریک آزادی کے لئے مزید جوش وجذبے کے ساتھ کام کریں، اور اس ضمن میں پاکستان جو پہلے ہی ہر محاذ پر اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کیلئے کھڑا ہے، اور اس نے حال میں بھی اقوام متحدہ میں بھی کشمیر کیس بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے، اگر یہ کاوشیں اسی طرح جاری رہیں تو وہ دن دور نہیں جب کشمیری بھارتی تسلط سے نجات پا کر اپنی سرزمین پر اپنی مرضی سے زندگی گزار رہے ہوں گے۔
کشمیر کا تنازعہ –
1947 کے بعد سے آج تک
پاکستان 14 اگست 1947 ء کو آزاد ہوا تو 15اگست1947 کو امریکا نے پا کستان کے پہلے دارالحکومت کراچی میںاپنا سفارت خانہ کھولا جب کہ پاکستان 30 ستمبر1947 ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا اور پھر امریکا نے باقاعدہ طور پر پاکستا ن کو برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ 20 اکتوبر 1947ء کو تسلیم کیا، یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں کے بعد دنیا نئے انداز سے تشکیل پا رہی تھی، دوسری جنگ عظیم کا اختتام جاپان کے شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بموں کے استعمال کے بعد ہوا تھا۔
یہ تاریخ کا وہ دوراہا تھا جہاں پر ایک جانب 1917ء میں مارکسی اشتراکی نظریات پر سوویت یونین میں رونما ہونے والا انقلاب اب مشرقی یورپ کے ممالک تک پھیل چکا تھا اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک میں داخل ہو رہا تھا، دوسری جانب اب جابرانہ نوآبادیاتی نظام دنیا سے ختم ہو رہا تھا، پہلی جنگ عظیم میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی بنیاد پر تلخ حقائق کو تسلیم کرتے ہو ئے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اقوام متحدہ کا ادارہ اس کی جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا، سکیورٹی کونسل میں دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کو دنیا کے ہر فیصلے کو رد کرنے کا اختیار ویٹو دیا گیا تھا، اور در پردہ سیاسی نو آبادیات اور ملکوں کوآزادی دیتے وقت اِن بڑی قوتوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا سیاسی اقتصادی نظا م تشکیل دیا تھا۔
نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعات پیدا کئے گئے تھے اور قرضوں کے باعث یہ ترقی پذیر ممالک اِن بڑے ملکوں کے معاشی اقتصادی جال میں گرفتار ہو رہے تھے مگر دنیا کے 24فیصد رقبے اور دنیا کی 25فیصد آبادی پر مشتمل بشمول برصغیر برطانوی نوآبادیات کے لیے بھی جال تو یہی تھا لیکن فرانسیسی اطالوی ولندیز ی اور دیگر مغربی نوآبادتی قوتوں کے مقا بلے میں صورتحال مختلف تھی کہ پاکستان، بھارت سمیت ان میںسے بیشتر غلام ممالک مسلح جدوجہد کی بجائے سسٹیمیٹک طریقے یعنی ایک خاص انداز کے نظام کے تحت آزاد ہوئے تھے۔
جس میں انگریز دور ہی میں تشکیل پانے والی انتظا میہ ، پارلیمنٹ مقننہ، عدلیہ اور فوج شامل تھی خصوصاً پاکستان اور بھارت کی صورتحال تو بہت ہی دلچسپ تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے صرف ساڑھے تین مہینے بعد دسمبر 1945اور جنوری 1946ء میں 1935 کے قانونِ ہند کے تحت متحدہ ہند وستان کے آخری انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہوئے تھے یعنی ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں اور مرکزی اسمبلی کی نشستیں مسلمان اور ہندو آبادی کے تناسب سے طے کی گئیں تھیں، البتہ یہ ضرور تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ ہندو اور مسلم نشستوں پر اپنے اپنے ہندو اور مسلمان امیدوارکھڑی کر سکتی تھیں۔
یوں ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی30 کی30 مسلم نشستیں حاصل کیں اور صوبائی اسمبلیوں کی 90% مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اِن انتخابات کے بعد متحدہ ہندوستان میں عبوری حکومت قائم ہوئی جس کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جبکہ دیگر مرکزی وزرا کے علاوہ لیاقت علی خان وزیر خزانہ تھے اور وزریر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل تھے، نہرو کابینہ میں کوئی بھی وزیر خارجہ نہیں تھا، 3 جون 1947 ء کے اعلان آزادی کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ نے 18 جولائی 1947ء قانون آزادیِ ہند کے عنوان سے 1935 ء کے قانون ہند جو ایک آئین کی حیثیت رکھتا تھا اُس میں یہ ترمیم کی تھی، جس میں دیگر نکات کے علاوہ آزادی کے بعد ایک سال تک پاکستان اور بھارت پر کچھ شرائط عائدکی گئی تھیں۔
نمبر1۔14 اگست، 15 اگست1947 ء کے بعد سے ایک سال تک دونوں ملکوں کی حیثیت ڈومینین سٹیٹ کی ہوگی اور یہ دونوں ممالک 1935 ء کے قانونِ ہند کو فوری اور ضروری ترامیم کے ساتھ ایک سال تک نافذ العمل رکھیں گے، اور یہ ضروری یا فوری نوعیت کی ترامیم بھارت اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے بجائے دونوں ملکوںکے گورنر جنرل کریں گے۔
نمبر2 ۔دونوں ملک اگرچاہیں تو ایک سال بعد اپنا نیا آئین بنا لیں یا 1935 ء کے قانون کو ہی نافذالعمل رکھیں یا اس میں ضرورت کے مطابق ترامیم کرکے نافذالعمل رکھیں۔
بھارت نے آزادی کے بعد اپنا آئین بنا لیا۔ پاکستان کا پہلا پارلیمانی آئین 1956 ء میں بنا، یوں اُس وقت تک 1935 کے قانون کے مطابق برطانیہ کی بادشاہت علامتی طور پر ہماری سربراہ مملکت رہی، یعنی برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ہماری بھی آئینی سربراہ تھی۔ لیکن چونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فاتح ہونے کے با وجود برطانیہ بہت کمزور ہو چکا تھا اور بہت زیادہ اپنے اتحادی امریکا پر انحصار کر رہا تھا۔
اس لیے یہ موقع ایسا تھا کہ باوجود پہلے سال کی آئینی پابندی اور پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل فرینک میسوری اور جنرل ڈیگلس گریسی کی مخالفت کے قائد اعظم نے جنگ آزادیِ کشمیر میں کشمیری مجاہدین کے ساتھ افواج پاکستان اور قبائلی مجاہدین کے ساتھ بھرپور کاروائی کی اور آدھا کشمیر آزاد کر وا لیا۔ دوسری جانب نہرو نے بھی مسلمان نوابیں کی ریاستوں حیدر آباد دکن، جوناگڑھ اور بھوپال وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ برصغیر میں مغلیہ حکومت 1707 ء میں اورنگ زیب عالمگیر کے بعد زوال پذیر ہوئی اور بہت سی ریاستیں آزاد اور خود مختار ہو نے لگیں۔
البتہ یہ تمام ریاستیں علامتی طور پر ہی سہی مگر دہلی کے تخت پر بیٹھے مغل بادشاہ کو پورے ہندوستان کا بادشاہ تسلیم کرتی تھیں، اور یہ سلسلہ 1857 ء کی جنگ آزادی تک قائم رہا جس میں شکست کے بعد انگریزوں نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو تخت وتاج سے محروم کر کے رنگون میں قید کر دیا، مگر انگریزوں نے شروع ہی سے پرانے جاگیردارانہ نظام کو اپنی سیاسی ضروریات کے تحت تبدیل کر کے نافذ رکھا ، یوں تاج برطانیہ کی ہندوستان میں آزادی تک انگریز سرکار کی ماتحتی میں چھوٹی بڑی تقریباً 540 ریاستیں تھیں اور18 جولائی 1947 کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی 1935 کے قانون ہند کی ترامیم میں یہ بھی تھا کہ اِن ریاستوں کے راجے مہاراجے، خوانین اور نوابین برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے بعد اپنے عوام کی مرضی، ریاست کی سرحدی قربت وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے۔
حیدر آباد دکن اُس وقت دنیا کی سب سے امیر ریاست تھی، جس کے آخری حکمران نظام میرعثمان علی خان تھے جو اُس وقت دنیا کے سب سے امیر آدمی تھے، ریاست حیدر آباد 1724 ء میں قائم ہوئی تھی اور 1798 ء میں ریاست حیدرآباد نے انگریز ی اقتدار کو قبول کیا، اس ریاست کا رقبہ 215339 مربع کلومیٹر اور آبادی 1941 کی مردم شماری کے مطابق 16340000 نفوس پر مشتمل تھی اور یہاں مسلمانوں کا تناسب گیارہ فیصد سے زیادہ تھا، نظام حیدر آباد نے ریاست کو آزاد رکھنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بھارت نے آزادی کے فوراً بعد حیدرآباد پر میجر جنرل جے این چوہدری کی سربراہی میں ایک فوج بھیج کر قبضہ لیا۔
یہی جنرل جے این چوہدری اس کے بعد بھارتی فوج کے آرمی چیف ہوئے، ریاست بھوپال جس سے پاکستان کے عظیم سائنس دان ڈاکٹر قدیر خان کا تعلق ہے اس ریاست پر بھی 1948 میں بھارت نے بزور قوت قبضہ کیا، اس کے مسلمان نواب پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے اس کا رقبہ 17801 مربع کلومیٹر اور آبادی 1921کے مطابق 730000 تھی، البتہ آبادی کی اکثریت ہندو تھی، ایک اور بڑی ریاست جس کے نواب مسلمان تھے وہ جونا گڑھ کی تھی جس کا رقبہ 3337 مربع کلومیٹر اور آبادی1941 ء کے مطابق 465493 تھی لیکن اکثریت ہندو تھی اس کے نواب محمد مہتاب خان جی نے بھی پاکستان کے ساتھ الحا ق کا فیصلہ کیا تھا مگر 1948 ء ہی میں اس پر بھی بھارت نے بزور طاقت قبضہ کر لیا۔
14 اگست1947 ء تک انگریزی دورِ حکومت میں ریاست جموں وکشمیر کا مجموعی رقبہ 135942 مربع کلومیٹر تھا، جس میں صوبہ جموں کا رقبہ 19921 مربع کلومیٹر، صوبہ کشمیر کا رقبہ 13742 مربع کلومیٹر اور صوبہ لداخ کا رقبہ 102285 مربع کلومیٹر تھا اور1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی 4021616 تھی یہاں آبادی کی اکثریت نہ صرف مسلمان ہے بلکہ ریاست جموں و کشمیر کو دنیا سے ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستانی حدود سے آگے جاتے ہیں اور عوام کی اکثریت آج تک بھی پاکستان ہی کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، مگر انگریز ہند و گٹھ جوڑ پہلے ہی سے تھا۔
یہی وجہ تھی کہ پہلے مرحلے میں ریڈ کلف ایوارڈ میں پنجاب کی تقسیم میں مشرقی پنجاب کے اضلاع گروداسپور، فیروز پور اور زیرہ ناانصافی کرتے ہو ئے بھارت کو دے دئیے گئے اور پھر ہندوستان میں آزادی سے قبل پنڈت جواہر لال نہرو کی عبوری حکومت کے وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل اور ماسٹر تارا سنگھ کے مسلح جتھوں نے اِن مسلم اکثریت کے علاقوں میں قتل عام کرکے لاکھوں مسلمانوں کو پاکستانی علاقوں میں دھکیل دیا، اس سے ایک طرف تو مادھوپور، فیروز پور ہیڈ ورکس پر پانی کی تقسیم کے اعتبار سے قبضہ کر لیا گیا تو ساتھ ہی پٹھان کوٹ سے ایک مصنوعی زمینی راستہ جموں وکشمیر کو فراہم کردیا گیا، اور پھر آزادی کے فوراً بعد نہرو نے ڈرا دھمکا کر اور دباو ڈال کر ریاست جموں وکشمیر کے مہاراجہ ہر ی سنگھ سے مسلم اکثریت کی ریاست کا الحاق بھارت سے کرا لیا اور اس پر پاکستان کی جانب سے کشمیری حریت پسندوں کی حمایت کی گئی، اُس وقت بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن اور وزیر اعظم پنڈت نہرو تھے، جب کہ انگریز جنرل روب لاکہارت Rob Lockharat آرمی چیف جبکہ دیگر فوجی قیادت میں جنرل راے بوچرGen ray Bucher ،ائیر مارشل تھامس لیفٹیننٹ جنرل ڈولے رسل، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم کریپا، لیفٹیننٹ جنرل شری ناگیش اور بریگیڈیر محمد عثمان شامل تھے۔ اکتوبر 1947 ء میں بھارت نے کشمیر کی حکومت کی مدد کے پردے میں کشمیر پر تسلط قائم کرنے کے لیے اپنی فوج وہاں اُتار دی۔
پاکستان کی فوج کے سربراہ اُس وقت بھارتی فوج کے سربراہ کی طرح انگریز جنرل فرینک میسوری تھے، دوسرے انگریز جنرل ڈیگلس گریسی تھے، باقی اعلیٰ فوجی افسران میں میجر جنرل خورشید انور ،کرنل اسلم خان، کرنل اکبر خان،کرنل شیر خان اور میجر ولیم براون شامل تھے۔ واضح رہے کہ انگریز جنرل پاکستان کی جانب سے جنگ کے خلا ف تھے، مگر قائد اعظم کی اسٹرٹیجی زبردست تھی کہ کشمیری مجاہدین کے ساتھ پاکستانی قبائلی لشکر تھے، جنگ میں ریاست جموں وکشمیر گلگت، بلتستان کے جو علاقے آزاد ہو رہے تھے ان کے جوان بھی شامل ہو رہے تھے، مسلم لیگ نیشنل گارڈکے مسلح دستے تھے۔
سوات آرمی تھی، فرقان فورس، گلگت اسکاوٹس اور فرنٹیئر فورس کو شامل کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں مجاہدین، شہدا اور غازیوں نے شجاعت و بہادری کی داستانیں رقم کیں جو تا قیامت یاد رہیں گی ۔ انگریز نے کانگریس سے مل کر پہلے یہ کوشش کی تھی کہ بھارت کی طرح پاکستان کا گورنر جنرل بھی لارڈ ماونٹ بیٹن ہو مگر اِس کو قائد اعظم نے تسلیم نہیں کیا لیکن برطانوی حکومت نے دونوں ملکوں کی فوجوں کا ایک سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل کلاڈ آکن لیک کو بنایا تھا جس کا حکم ماننا دونوں ملکوں کے آرمی چیفس پر لازم تھا۔
قائداعظم نے بہت جرات کے ساتھ پہلی بھارت پاکستان جنگ لڑی، مسلمان فوجی افسران نے اُن کا حکم مانا، مجاہدین اور قبائلی لشکر نے بہت بہادری سے جنگ کی اور آزادکشمیر،گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کرا لیے، جنگ کے آغاز پر مہاراجہ کی ریاستی فوج نے خصوصاً جموں کے علاقے میں ایک سازش کے تحت مسلمان کشمیریوںکا قتل عام کروایا کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کا تناسب90% اور جموں میں 60% تھا۔ راجہ ہری سنگھ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو آزاد کشمیر کے علاقوں تک لے جائیں گے اس مقصد کے لیے بڑے فوجی ٹرک تیار کئے گئے جو جموں کے میدان میں جمع ہونے والے مسلمانوں کو وہاں سے سینکڑ وں کی تعداد میں روزانہ اٹھاتے اور چند میل دور جنگل میں چشمے کے قریب فائرنگ کرکے ہلاک کر دیتے جب بریگیڈ ئیر عثمان وہاں اچانک پہنچے تو یہ قتل عام اُنہوں نے دیکھ لیا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ اس جنگ میں وہ ہلاک ہوئے اور بھارتی حکومت نے اُنہیں وفات کے بعد دوسرا سب سے بڑا قومی فوجی ایوارڈ مہا ویر چکرا دیا۔
یہ پہلی پاک بھارت جنگ کشمیر پر 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری 1949 تک تقریباٍ ایک سال دو ماہ پندرہ دن جاری رہی اور پھر بھارتی وزیر اعظم نہرو کے اقوام متحدہ جانے اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق رائے شماری کروانے کی قرارداد کی منظوری اور مقبوضہ بھارتی جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان سیز فائر لائن طے ہونے پر یہ جنگ بند ہوئی۔ اس جنگ میںہی انگریز سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل کے حکم پر پاکستان میں انگریز جنرل فرینک میسوری کی جگہ انگر یزجنرل ڈگلس گریسی کو آرمی چیف بنا دیا گیا اور بھارت میں بھی آرمی چیف جنرل روب لاک ہارٹ کی جگہ دوسرے انگریز جنرل باوچر کو آرمی چیف مقرر کیا۔
سیزفائر لائن کے لیے اقوام متحدہ کا ثالثی کمیشن ،یو این کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیا گیا جس میں پاکستان کی جانب سے میجر جنرل ڈبلیو جے، کاو تھورن بھارت کی طرف سے لیفٹیننٹ جنرل شری ناگیش تھے اور اقوام متحدہ کے دو ممبران میں ہیرنانڈوسامپر اور ایم ڈیلووئی شامل تھے۔ معاہدہ انگریزی میں تحریر کیا گیا۔ اس معاہدے پر کراچی میں 27 جولائی 1949 کو دستخط ہوئے۔
جنگ بندی لائن کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی صورتحال یوں ہوئی کہ مقبوضہ جموں 19921 مربع کلو میٹر، بھارتی مقبوضہ کشمیر 11093 مربع کلومیٹر، بھارتی مقبوضہ لداخ15901 مربع کلو میٹر، پاکستان میں آزادکشمیر 6669 مربع کلو میٹر، گلگت بلتستان 47983 مربع کلو میٹر اور 1962 کی بھارت چین جنگ کے بعد چین کے پاس لداخ کا 14983 مربع کلو میٹر کا علاقہ آگیا جس میں بھارت چین جنگ کے فوراً بعد پاکستان کی جانب سے لداخ میں دیا گیا 3006 مربع کلو میٹر کا علاقہ بھی شامل ہے۔
اس علاقے پر چین کا دعویٰ بھی تھا اور پھر جب بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے چین سے تعلقات بہتر کرنے اور اس علاقے میں بھارت کے مقابل پاک چین تعاون کو زیادہ بہتر کرنے کے لیے اقدامات کئے اور یوں صدر ایوب خان نے لداخ میں یہ علاقہ چین کو دیا۔ افسوس ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ٹی بی کے مرض کے بہت بڑھ جانے کے سبب جولائی 1948 کے پہلے ہفتے میں شدید بیمار ہو کر زیارت آگئے جہاں گیارہ ستمبر 1948 ء کی صبح تک اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن گزارے، اس دوران وہ کشمیر کے لیے تڑپتے رہے، وہ چاہتے تھے کہ تیزرفتاری سے مسلح کاروائی کی جائے اور جلد سے جلد پورے کشمیر کو آزاد کر وا لیا جائے، اس میں اُن کی سیاسی بصیرت کا بڑا دخل تھا۔ 1948-49 تک اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی تعداد 59 تھی جن میں سے نوے فیصد اُس وقت تک بے اثر تھے۔
وہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے، دنیا کی نئی تشکیل میں وہ یہ جانتے تھے کہ فوری اور تیز رفتار جنگ سے پورا کشمیر آزاد ہو سکتا ہے، اگر وہ متحرک زندگی کے ساتھ صرف 5 جنوری 1949 ء تک زندہ رہ جاتے تو پورا کشمیر آزاد ہوتا، قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان عملی طور پر کابینہ میں مو جود دو اہم بیوروکریٹ ملک غلام محمد جو انگریز دورِ حکومت میں انڈین سول سروس میں ریلوے کے چارٹر اکاونٹ کے شعبے میں آئے تھے۔ 1946 ء کی نہرو کی عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی جانب سے لیاقت علی وزیر خزانہ ہوئے تو غلام محمد سیکرٹری خزانہ ہوئے اور آزادی کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ ہوگئے۔
اور اسکندر مرزا جو سی آئی ای۔ او ایس ایس۔او بی ای تھے سینڈہرسٹ ملٹری کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد فوج کے جنرل بھی ہوئے، پھر انڈین پولیٹیکل سروس میں آئے اور زیادہ عرصے تک پولیٹیکل ایجنٹ رہے، پاکستان کے پہلے سیکرٹری دفاع ہوئے، اس حیثیت میں انہوں نے پہلی پاک بھارت جنگ میں کردار ادا کیا، پھر مشرقی پاکستان کے گورنر ہوئے اور پھر ملک غلام محمد کے بعد گورنر جنرل ہوئے اور 1956 ء کے پارلیمانی آئین کے نفاذکے بعد ملک کے پہلے صدر ہوئے۔ اسکندر مرزا کے بیٹے ڈاکٹر ہمایوں مرزا نے اپنی کتاب فرام پلاسی ٹو پاکستان میں اپنے خاندانی شجرہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بنگال کے میر جعفر اُن کے جد امجد تھے اور ساتھ ہی انہوں نے مورخین پر تنقید کی ہے کہ مورخین نے میر جعفر کے کردار کو درست انداز میں پیش نہیں کیا۔ بہرحال اِن دونوں نے ا پنے اپنے طور پر پاکستان کو اور خصوصاً کشمیر کے مقصد کو بہت نقصان پہنچایا۔
1949 میں جنگ بندی کے بعد 3 مئی 1950 ء کو لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ کیا،کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر ٹرومین نے اُن سے ملا قات میں پاکستان میں روس کے خلا ف فوجی اڈا مانگا تو انہوں جواب دیا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کروایا ہے، اکتوبر 1951 ء میں لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔
اس کے بعدگورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا کر ملک غلام محمد خود گورنر جنرل ہو گئے اور پھر 1935 ء کے قانون کی شق کو استعمال کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برخاست کردیا، اس دوران ملک کا آئین نہ بن سکا اور جب 1956 ء میں آئین بنا تو اس کے بعد اسکندر مرزا نے اسے ناکام بنا نے کی سازش کی اور فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے 1958 ء میں مارشل لا نافذکر کے 1956 ء کے آئین کو منسوخ کردیا، اُس وقت تک ملک میں عام انتخابات نہ ہو نے کی وجہ سے ایک جانب تو ملک میں نمائندہ حکومت نہیں تھی تو دوسری جانب سیاسی بحران رہا۔
بوگرا فارمولہ کی بنیاد پر بعد میں جب 1956 ء کے آئین کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان کو برابری کے اصول کی بنیاد پر دو صوبے قرار دیا گیا تو یہ بحران مزید بڑھا۔1951 ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 7 کروڑ 50 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی4 کروڑ 20 لاکھ تھی اور مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ37 لاکھ تھی، اکسٹھ کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 9 کروڑ30 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی کی آبادی 5 کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ تھی۔ برابری کا یہ بوگرا فارمولہ شاید نیک نیتی پر مبنی تھاکیونکہ محمد علی بوگرا کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا مگر چونکہ آزادی سے قبل عام انتخابات 1945-46 کے موسم سرما میں ہوئے تھے اور یوں ملک کے پہلے عام انتخابات 1951 ء میں ہو جانے چاہیے تھے جو نہ ہو سکے۔
اس لیے بیوروکریسی اور سرکاری اہلکاروں نے اس نظام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ مغربی پاکستان کو چار کے بجائے ایک صوبہ بنا دینے سے ملازمتوں اور صوبائی حقوق کے لحاظ سے پنجاب کے خلاف سندھ ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو شکایات رہیں تو مشرقی پاکستان کو یہ شکایت تھی کہ آبادی کی اکثریت کے باوجود جمہوری، سیاسی، مالیاتی اورمعاشی حقوق کے مقابلے میںاُنہیں کم دیا جا رہا ہے۔ پھر دوسری جانب ہمارے حکمران چونکہ عوامی سطح پر مقبولیت کھو بیٹھے تھے اس لیے خارجی سطح پر انہیں جن مسائل کا سامنا تھا اس کے لیے 1958 تک اُن کا تمام تر انحصار بیوروکریسی پر رہا اور پاکستان سیٹو سینٹو جیسے معاہدوں کے تحت امریکا اور مغربی یورپ کے مفادات کا نگہبان بن گیا اور سابق سوویت یونین، چین، مشرقی یورپی ممالک یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سے اس کے تعلقات بہتر نہیں رہے۔
وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے دور میں پشاور کے نزدیک بڈ بیئر کے مقام پر سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کے لیے امریکا کو اڈہ بھی دے دیا گیا جہاں سے بہت زیادہ بلندی پراڑکر روس کی فضائی حدود میں جاسوسی کرنے والے U2 طیارے کو سوویت یونین نے مار گرا یا اور پاکستا ن کو ایوبی دور میں عالمی سطح پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ امریکا نواز خارجہ پالیسی اُس وقت پاکستان کی مجبوری بھی تھی اور وہ یہ تھی کہ پاکستان دوقومی نظریے پر قائم ہوا تھا اس لیے نظریاتی طور پر سوویت یونین پاکستان کے خلاف تھا۔ 1949 ء تک جب تک روس نے اپنا کامیاب ایٹمی تجربہ نہیں کیا تھا امریکا، برطانیہ کا رویہ روس کے خلاف بہت جارحانہ تھا مگر پھر بھی افغانستان کی حیثیت بفر زون کی رہی اور افغانستان کی سرحد سے سنٹرل ایشیا کی مسلم اکثریتی ریاستوں میں کو ئی در اندازی نہیں کی گئی لیکن سوویت یونین کے لیے نظریاتی طور پر پاکستان تاریخی اعتبار سے ایک خطرہ تھا۔
پھر 1962 ء تک انڈیا چین تعلقا ت بہت اچھے تھے اور بھارت اور چین میں ہندو چینی بھائی بھائی کا نعرہ گونجتا تھا، اس لیے پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے خارجہ پالیسی کو امریکا اور برطانیہ نواز بنانا پڑا جب کہ نہرو نے بھارت میں جمہوریت اور سیکولرازم کی بنیاد پرآئین بنا کر کوشش کی تھی کہ دنیا پر ایک متوازن بھارتی معاشرے کے تصور کو اجاگر کرے ۔
خارجی سطح پر بھارت نے غیر جانبدار ممالک کی تحریک کے تحت دنیا کے بیشتر ایسے ممالک جو کسی معاہدے کے تحت امریکا ، برطانیہ ، سوویت یونین یا ان کے کسی بلاک سے جڑے ہوئے نہیں تھے، اِن کو شامل کیا اور نہرو تقریباً اس کے عالمی سطح پر ہیرو قرار پائے جب کہ سوویت یونین سے اُن کے ذاتی تعلقات 1927 سے اس وقت سے تھے جب انہوں نے اپنے والد اور اُس وقت کے آل انڈیا کانگریس کے صدر موتی لال نہرو کے ساتھ سوویت یونین میں دس سالہ کیمونسٹ انقلاب کے جشن میں شرکت کی تھی۔
اسی طرح چین سے بھی تعلقات چینی رہنماوں سے اشتراکی انقلاب اور 1949 میں چین کی آزادی سے پہلے کے تھے، اسی طرح برطانیہ کا جھکاو 1947 میں ہندوستان کی تقسیم میں بھارت کی طرف تھا اور کشمیر کے مسئلے پر وہ باوجود 18 جولائی 1947 کے قانون ِآزادی تقسیمِ ہند کے بھارت کی طرفداری میں رہا، پھر جہاں تک تعلق امریکا کا ہے توبھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بہن کو امریکا میں سفیر تعینات کیا انہوں نے اپنی زندگی میں امریکا کے چار سرکاری دورے کئے ، پہلا دورہ سوویت یونین کے دورے سے پہلے 11 اکتوبر1949 ء کو کیا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی جنگ پر سیز فائر معاہدہ ہو چکا تھا۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں تھیں ، سویت یونین ایٹمی قوت بن چکا تھا اور پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ نہیں کیا تھا۔ نہرو نے امریکا کا دوسرا دورہ 16 دسمبر 1956 میںکیا، جب کچھ دن قبل وہ کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداللہ سے ساز باز کر چکے تھے اور ریاست کی حکومت اور انتخابات کی بنیاد پر دنیا کو یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں مقامی آبادی کو 35A کے تحت بھی تحفظ کے حقوق حاصل ہیں اور یہ سب جمہوری انداز پر ہے۔ یہ دورہ عالمی سیاست کے اعتبار سے بھی اہم تھا کہ مصر میں نہر سوئز کے مسئلے پر برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سے مصر کی جنگ سے نئی صورتحال میں بھارت کا کردار مصری رہنما جمال ناصر سے خصوصی دوستی کے لحاظ سے کیسا ہو گا؟ اسی طرح سوویت یونین اور چین کی دوستی جو اسٹالن کے دور تک بہتر تھی وہ 1953 میں اسٹالن کی وفات کے بعد باہمی اختلافات کا شکار ہو رہی تھی اور اِن دو بڑی کیمونسٹ قوتوں کے تضادات بڑھ رہے تھے۔
نہرو نے تیسرا امریکی دورہ 26 ستمبر 1960 کو اور چوتھا اور آخری دورہ امریکا 6 نومبر1961 کو کیا، یہ وہ دور تھا جب کیوبا میزائل بحران اور پھر چین بھارت تعلقات کشیدگی کی جانب جا رہے تھے، بھارت تبت کے مذہبی رہنما دلائی لامہ سے تعلقات استوار کر رہا تھا، 1962 ء میں لداخ پر بھارت چین کی جنگ ہوئی، یہ علاقے میں ایک تبدیلی تھی جو پاکستان کے حق میں اس لحاظ سے بہتر تھی کہ بھارت کا ہمسایہ اور دنیا کا ایک بڑا ملک بھارت سے دور ہو کر پاکستان کے نزدیک آرہا تھا، اس موقع پر چین کی جانب سے یہ پیغام بھی دیا گیا تھا کہ یہی وقت ہے کہ پاکستان بھارت سے جنگ کر کے کشمیر حاصل کر لے لیکن صدر ایوب خان نے ایسا نہیں کیا اس پر بعض حلقوں کی جانب سے بعد میں اُن پر شدید تنقید بھی ہوئی لیکن وہ نہ صرف ملک کے طاقتور صدر تھے بلکہ ملک کی تاریخ کے واحد فائیو اسٹار جنرل یعنی فیلڈ مارشل بھی تھے اور اُن کے پیش نظر اُس وقت کی تمام صورتحال تھی۔
امریکا نے انتباہ کر دیا تھا کہ چونکہ بھارت ایک غیر کیمونسٹ ملک ہے اور اُس کی جنگ کیمونسٹ چین کے ساتھ ہے اس لیے بھارت پر حملہ نہ کیا جائے، دوسری صورت میں بھارت سوویت یونین کا بھی قریبی دوست تھا اس لیے اس موقع پر روس، چین اور پاکستان کے خلاف بھارت کے حق میں آسکتا تھا اور امریکا کے لیے یہ بہت ہی بہتر پوزیشن ہوتی کہ چین اور سوویت یونین جیسے کیمو نسٹ ملک بھارت کے حوالے سے آپس میں جنگ میں الجھ جاتے، اس موقع پر پاکستان مکمل طور پر قربانی کا بکرا بن جاتا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کشمیر پر جو جنگ اکتوبر1947ء تا 5 جنوری 1949 ء ہوئی وہی موقع پاکستان کے لیے بہترین تھا۔
اس کا موازنہ اگر اسرائیل عرب پہلی جنگ 1948 ء سے کیا جائے تو اس جنگ میں اسرائیل بہتر پوزیشن میں تھا، جب کہ پہلی پاک بھارت جنگ جس میں 18 جولائی 1947 کے قانون ِ آزادیِ ہند کے مطابق دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کی حیثیت ڈومینین اسٹیٹ کی تھی اور دونوں ملکوں کا سپریم کمانڈر بھی ایک تھا مگر اس کے باوجود مجاہدین، قبائلیوں کے ساتھ کرنل اسلم خان، کرنل شیرخان ،کرنل اکبر خان اور میجر زمان کیانی نے پاکستانی فوج کے ہمراہ اہم ترین فتوحات حاصل کی تھیں اور بقول کرنل اکبرخان جو بعد میں میجر جنرل ہوئے، کہ وہ سری نگر اور پٹھان کوٹ کے قریب تھے اور ہوئی اڈاہ زد میں تھا مگر چونکہ قبا ئلی لشکر فوجی ڈسپلن سے ناآشنا تھا۔
اس لیے بھارتی فوج چوکنا ہو گئی ورنہ شائد اسی جنگ کے پہلے حملوں ہی میں مکمل جموں وکشمیر حاصل ہو جاتا۔ مگر یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اُس وقت جو رقبہ آزاد کروایا وہ اب تک آزاد ہے اور ہم اب بھی اس پو زیشن میں ہیں کہ اس رقبے سے بہت بہتر انداز کی جنگی اسٹر ٹیجی کے ساتھ بھارت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ 1960-61 میں عالمی بنک کے تعاون اور معاونت سے بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے مسئلے پر مذاکرات اختتام پر پہنچے تھے اور 1962 میں سندھ طاس معاہدہ حتمی صورت میں سامنے آیا اور دونوں ملکوں کے نمائندوں نے اس پر دستخط کردئیے۔
واضح رہے کہ آزادی اور قیام پاکستان کے فوراً بعد جب کشمیر کے مسئلہ پر پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی تو بھارت نے اُس وقت آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا تھا اور پاکستان آنے والے دریاوں کا پانی روک کر پاکستان جیسے نئے ملک کو ایک بنجر خطہ بنانے کا اعلان بھی کر دیا تھا جس پر پاکستان نے اُس وقت اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا اور اُس وقت سے اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے ادارے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرانے کی کوششوں میں مصرف تھے۔
اگر چہ اس پر پاکستان کے ماہرین کی رائے یہ تھی کہ اصول کے مطابق بھارتی علاقے خصوصاً بھارتی مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دریا ئے سندھ، جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں کو اس کے قدرتی بہاو کے مطابق پاکستانی علاقوں میں آنا چاہیے مگر ریلوے کے نظام کی طرح برصغیر میں انگریزوں نے اپنے عہد میں نہری نظام کو بہت معیاری بنایا تھا، ہیڈورکس بیراج اور ڈیمز تعمیر کئے تھے ویسے تو اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہے مگر اس کی تقسیم کے ہیڈ ورکس بھارت کو دے دیئے گئے تھے۔
اس لیے بہرحال دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا کو ئی پائیدار اور مستحکم نظام چاہیے تھا اور اس کے لیے سندھ طاس معاہدے پر بھی اسی سال دستخط ہوئے، اس معاہدے کی بنیاد پر تین مشرقی دریاوں راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر بھارت کے اختیار کو تسلیم کر لیا گیا اور تین مغربی دریا دریا سندھ ، جہلم اور چناب پاکستان کو دے دیئے گئے اور پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے لیے دو بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ضروری قرار دیا گیا، جس سال لداخ پر چین اور بھارت کی جنگ ہوئی اور چین نے بھارت سے ایک بڑاعلاقہ حاصل کر لیا، یوں پاکستان نے اُس وقت بھارت پر حملہ نہیں کیا۔
اس طرح نہ تو پاکستان نے امریکا جیسے حلیف کو ناراض کیا اور نہ ہی سوویت یونین جیسی مخالف کو فوراً مدمقابل آنے کا موقع فراہم کیا۔ پھر سندھ طاس معاہدے کے تحت خیبر پختونخوا کے علاقے میں تربیلا ڈیم اور جہلم کے نزدیک آزاد کشمیر کے شہر میر پور میں منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ ڈیم اُس وقت دنیا کے بڑے ڈیموں میں شمار ہوتے تھے۔ اس معاہدے سے پاکستان کو دو طرح کے فائدے ہوئے ایک یہ کہ آزاد کشمیر جو کہ اقوام متحدہ کے مطابق کشمیریوں کی آبادی کے لحاظ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے، وہاں بھارت نے یہ تسلیم کیا کہ اس علاقے میں پاکستان کو پانی کی سپلائی کے لیے ڈیم بنایا جا سکتا ہے اور پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ کشمیریوںکو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ رائے شماری کا حق دیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کی بنیاد پر فیصلہ ہو جائے گا اور یہ ثبوت ہے کہ آزاد کشمیر میں پاکستان کو پانی کی سپلائی کا تربیلا ڈیم قائم ہے۔
جس کے لیے آزاد کشمیر میں کشمیریوں نے اپنے شہر میر پور کی قربانی دی کیونکہ تربیلا ڈیم کی تعمیر سے میر پور کا شہر زیرِآب آگیا یعنی تربیلا ڈیم میں میر پور کا شہر ڈوب گیا، اور اس مقام سے ہٹ کر دوبارہ شہر تعمیر کرنا پڑا، دوسرا فائدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہوا کہ جس وقت اس ڈیم کی تعمیر جاری تھی اُس وقت دوسری جنگ ِعظیم کے بعد یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ میں بھی تعمیر نو کا عمل مکمل ہوگیا تھا اور اب وہاں تیز رفتار صنعتی اقتصادی ترقی کے لیے بڑی افرادی قوت کی ضرورت تھی اور جو کمپنی یہاں میرپور میں ڈیم کی تعمیر کر رہی تھی۔
اُس نے یہاں بے گھر ہونے والے لوگوں کوایک یہ بھی سہولت فراہم کی کہ اگر یہ برطانیہ میں روزگار کے لیے جانا چاہیں تو اِن کو وہاں بھیجا جائے گا، یوں اُس وقت آزادکشمیر خصوصاً میر پورکے علاقے سے ہزاروں کشمیری برطانیہ گئے اور پھر وہاں مستقل آباد ہو گئے جن کی تعداد اب وہاں تیسر ی نسل کے اعتبار سے ڈھائی لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔جو کشمیر ی تربیلا ڈیم کی تعمیر کے وقت برطانیہ گئے تھے۔اب اُن کی تیسری نسل بھی برطانیہ کی شہر ی ہے جن کے والدین بھی برطانیہ ہی میں پیدا ہوئے مگر حیرت کی بات ہے کہ وہ نہ صرف کشمیری ہیں بلکہ اُن کو اپنے کشمیر ی ہونے پر فخر بھی ہے، وہ تمام ہی خود اور اپنے بچوں کو سالانہ تعطیلات میں آزاد کشمیر بھیجتے ہیں اور یہاں موجود اساتذہ ، دانشور اور محقق اِن برطانوی نژاد کشمیری بچوں اور نوجوانوں کو کشمیر کے متعلق بتاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اِس وقت اِن کشمیریوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کئی برطانوی نژاد کشمیری برطانیہ کے ہاوس آف لارڈ اور ہاوس آف کامن میں موجود ہیں ، یوں برطانیہ سے یہ تمام لوگ کشمیر کے لیے بہت موثر انداز میں آواز بلند کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔
کشمیر میں ظلم و ستم
کی مکمل ٹائم لائن
1947 سے لے کر 2020 تک تاریخ وار حالات و واقعات پر ایک نظر
14-15 اگست 1947: برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اکتوبر 1947: کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو گئے۔
26 اکتوبر 1947: مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی ۔
27 اکتوبر 1947: بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تاکہ کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی ۔
یکم جنوری 1948: بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی ۔
5 فروری 1948: اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے ۔
یکم جنوری 1949: اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا ۔
26 جنوری 1950: بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی ۔
اکتوبر 1950: شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے ۔
30 مارچ 1951: اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا ۔
ستمبر 1951: کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے تمام 75 نشستیں بلا مقابلہ حاصل کر لیں۔
31 اکتوبر 1951: شیخ عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں دلائل دیئے۔
جولائی 1952: شیخ عبدااللہ نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت انڈیا کے زیرانتظام ریاست کو داخلی خودمختاری دی جائے گی۔
جولائی 1953: سائما پرشاد مکر جی نے 1952 سے کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے بارے میں جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کی تجویز دے دی۔
8 اگست 1953: شیخ عبدالاللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر کے بھارت میں قید کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔
17-20 اگست 1953: بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اپریل 1954 کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہو گئے ۔تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔
فروری 1954: کشمیر کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔
14 مئی 1954: آئینی حکم نامہ 1954 جس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا اسے لاگو کر دیا گیا جو دہلی معاہدے کومنسوخ کرتے ہوئے ریاست کو بھارتی عمل داری میں دیتے ہوئے تمام شہری آزادیوں کو ختم کرتا تھا۔
14 جنوری 1957: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر 1951 کی قرارداد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کسی طور بھی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہے۔
26 جنوری 1957: ریاستی اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔
9 اگست 1955: رائے شماری محاذ قائم کیا گیا جس نے شیخ عبداللہ کی رہائی اور اقوام ِ متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔
20 اکتوبر تا 20 نومبر 1962: لداخ میں بھارت اور چین کے مابین ایک سرحدی تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کر لی جس کے نتیجے میں لداخ کے ایک بڑے علاقے پر چین قابض ہو گیا۔
مارچ 1965: بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہو گئے ۔
23 اگست تا سمبر 1965: پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ چھڑ گئی جس نے 1949 کے فائر بندی معاہدے کو ختم کر دیا۔
10 جنوری 1966: بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے میں متفق ہو گئے ۔
3-16 دسمبر 1971: پاکستان اوربھارت میں جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا ۔
فروری 1972: محاذ برائے رائے شماری پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات نہیں لڑ سکتا۔
2 جولائی 1972: پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہو ا جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے ۔
13 نومبر 1974: شیخ عبداللہ کو رہا کر کے اسے بطور وزیر اعلی ٰ بحال کر دیا گیا ۔جبکہ اس کے نائب وزیر اعلیٰ نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر بھارت کاآئینی حصہ ہو گا اس طرح وہ 1953 میں اپنے خود مختاری کے دعوے سے پھر گئے ۔
23 مئی 1977: شیخ عبداللہ نے دھمکی دی کہ بھارت کے ساتھ الحاق اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک بھارت آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو داخلی خود مختاری نہیں دیتا ۔
8 ستمبر 1982: شیخ عبداللہ انتقال کر گئے جس کے بعد ان کے بیٹے فاروق عبداللہ نے قیادت سنبھال لی ۔
اپریل 1984: بھارت نے سیاچین گلیشئر پر قبضہ کر لیا ۔
جون 1984: بھارت کے تعینات کردہ گورنر اور ہندو قوم پرست رہنما جگموہن نے فاروق عبداللہ کو معطل کر کے نیشنل کانفرنس کے غلام محمد شاہ کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا جس سے کشمیر میں مظاہرے پھوٹ پڑے جس پر غلام محمد شاہ نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا ۔
7 مارچ 1986: جگموہن نے غلام محمد شاہ کو وزارت ِ اعلیٰ سے برخاست کرتے ہوئے خود اختیارات سنبھال لیے اور مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں پر پابندی لگا دی ۔
23 مارچ 1987: مسلم یونائیٹڈ فرنٹ جو کہ ایک مقبول جماعت تھی اس نے انتخابات میں حصہ لیا مگر کانگریس اور مسلم کانفرنس کا اتحاد جیت گیا جس پر دھاندلی کے الزامات لگے اور فاروق عبداللہ کی غیر مقبول حکومت کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے ۔
1989: بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح تحریک شروع ہو گئی جس کی قیادت مسلم یو نائیٹڈ فرنٹ کے ممبران کر رہے تھے سال کے ایک تہائی دنوں میں ہڑتالیں رہیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور ٹرن آوٹ صرف پانچ فیصد رہا ۔
1990: بغاوت جاری رہی ۔پاکستان سے بڑی تعداد میں مجاہدین وادی میں داخل ہو گئے ۔
20 جنوری 1990: جگموہن سنگھ کو گورنر تعینات کرنے کے اگلے روز بھارتی پیرا ملٹری ریزرو پولیس فورس نے گوکدل میں نہتے مظاہرین جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ان پر گولی چلا دی ا س قتل عام کے خلاف پورے کشمیر میں پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ۔
یکم مارچ 1990: سری نگر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے دفتر کے سامنے پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں نے مارچ کیا جنہوں نے کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کا مطالبہ کیا۔جس پر بھارتی فوج نے مظاہرین پر دو مقامات پر فائرنگ کر دی ۔ذکورا کراسنگ میں 26 اور تنگ پورہ بائی پاس پر 21 شہری مارے گئے ۔جس پر کشمیر میں 162،500 ہندو کمیونٹی کو نکال کر جموں میں پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔
30 مارچ 1990: جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما اشفاق وانی کے جنازے میں بہت بڑا اجتماع ہوا ۔
6 جنوری 1993: بھارتی بارڈر سیکورٹی پولیس نے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کا بدلہ لینے کے لیے سوپور میں 55 شہریوں کو ہلاک کر دیا۔
مارچ 1993: سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا ۔
1998: پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات
21 فروری 1999: بھارتی وزیر ا عظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف نے اعلان لاہور پر دستخط کئے جس کے تحت کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔
مئی جولائی 1999: پاکستان وبھارت کے درمیان کارگل جنگ چھڑ گئی ۔
2000: ایک دہائی سے جاری کشمیر میں عسکری تحریک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی جس میں پر امن اور غیر متشدد طریقے اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کئے گئے اگرچہ ان میں تعطل آتا رہا اور دونون ممالک کشمیر میں کسی تصفیہ پر متفق نہیں ہو سکے ۔
11 مارچ 2001: اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے دونوںممالک کو اعلانِ لاہور کے تحت آگے بڑھنے کا مشورہ دیا جس پر جولائی 2001 میں مشرف اور واجپائی کے درمیان آگرہ میں ملاقات ہوئی مگر کوئی اعلان جاری نہ ہو سکا ۔
اکتوبر 2001: کشمیر اسمبلی سری نگر پر حملے کے نتیجے میں 38 افراد ہلاک۔
دسمبر 2001: بھارتی پارلیمنٹ پر نئی دہلی میں حملہ ، لشکر طیبہ اور جیش محمد نے ذمہ داری قبول کی۔
2004-2007: مسئلہ کشمیر پر بیک چینل روابط کے ذریعے دونوں ممالک نے کشمیری قیادت کے ساتھ مزاکرات کئے
اپریل 2005: مظفر آباد سری نگر بس سروس شروع ہوئی ۔
مئی 2008: بھارتی حکومت اور جموں و کشمیر کی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جو جو کہ 1990 کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے مسلح پولیس نے مظاہرین پر فائر نگ کی اور کشمیر اور بھارت کو ملانے والی سڑک بلاک ہو کر رہ گئی۔
21 فروری 2009: بومائی میں بھارتی فوج نے دو عبادت گزاروں کو جان بوجھ کر گولی مار دی جس پر بومائی اور ملحقہ علاقوںمیں مظاہرے شروع ہو گئے جس پر کرفیو لگانا پڑا۔
29-30 مئی 2009: دو خواتین 22سالہ نیلوفرجان اور 17 سالہ عائشہ جان کو شوپیاں میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
جون 2009: کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جنہوں نے سینٹرل پولیس ریزرو فورس کو زیادتی اور قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جس پر شوپیاں میں کرفیو لگا دیا گیا۔
30 اپریل 2010: ماشیل سیکٹر میں بھارتی فوج نے تین عسریت پسندوں کو لائن آف کنٹرول کرا س کرنے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ مقابلہ فرضی تھا اور مرنے والے تینوں عام کشمیری تھے اور انہیں صرف اس لیے مارا گیا کہ ان کے قتل کے عوض وہ کیش انعام حاصل کر سکیں ۔
11 جون 2010: 17 سالہ ظفیل احمدمٹو جو سکول سے گھر آ رہا تھا اس وقت ہلاک ہو گیا جب آنسو گیس کا ایک شیل اس کے قریب آ کر سر پر مارا گیا ۔اس کے نتیجے میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے جس سے نمٹنے کے کئے کرفیو لگا کر سینکڑوں کشمیریوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
اگست 2011: وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ان 1200 نوجوانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جو کہ گزشتہ سال حکومت کے خلاف مظاہروں میں سیکورٹی فورسز پر پتھر پھینکنے میں ملوث تھے ۔بھارت کے ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن نے لائن آف کنٹرول کے قریب ایسی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی جہاں 2000 کے قریب نامعلوم لوگ دفنائے گئے تھے خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں وہ کارکن بھی شامل تھے جنہیں بھارتی فوجوں نے گرفتار کر رکھا تھا یا جنہیں غائب کر دیا گیا تھا۔1989 سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے تھے ۔
فروری 2013: کشمیری جیش محمد کے کارکن محمد افضل گرو جن پر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام تھا انہیں پھانسی دیئے جانے کے خلاف وادی میں مظاہرے ہوئے جن کے نتیجے میں دو افراد ہلاک کر دیئے گئے ۔
ستمبر 2013: پاکستان و بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تشدد کو کم کرنے پر اتفاق
اگست 2014: بھارت نے یہ کہہ کر پاکستان سے مذاکرات ختم کر دیئے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرت کئے تھے ۔
اکتوبر 2014: پاکستان اور بھارت میں سرحدوں پر کشیدگی ، دونوں طرف 18 ہلاکتوں کی تصدیق۔
مارچ 2015: تاریخ میں پہلی بار بی جے پی نے کشمیر میں مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور مفتی محمد سعید کو وزیراعلیٰ چنا گیا۔
ستمبر 2015: کشمیر میں مسلمانوں نے بڑے گوشت پر پابندی کے خلاف اپنی دوکانیں اور تجارتی مراکز بند کئے۔
اپریل 2016: محبوبہ مفتی اپنے باپ مفتی سعید کے بعد کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔
جولائی 2016: حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا۔
ا اگست 2016: وادی میں جاری 50 روزہ کرفیو میں نرمی کی گئی ۔ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں مظاہروں اور تشدد کی لہر کے نتیجے میں 68 شہری ہلاک اور 9000 لوگ زخمی ہوئے۔
ستمبر 2016: کشمیر میں ایک فوجی بیس پر حملے کے نتیجے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور بھارت میں دھمکیوں کا تبادلہ۔
نومبر 2016: لائن آف کنٹرول پر جھڑپ میں سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد آزاد کشمیر میں ایل او سی پر بڑی تعداد میں لوگوں کو محفوظ مامات پر منتقل کیا گیا۔
مئی 2017: حریت کمانڈر سبزار احمد بھٹ کی نماز جنازہ میں شمولیت کے لیے ہزاروں لوگوں نے کرفیو کو توڑ ڈالا۔
جولائی 2017: ہندو یاتریوں پر حملے کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہو گئے۔
14 فروری 2019: پلواما میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔
21 فروری 2019: بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔
26 فروری 2019: بھارت نے بالا کوٹ میں مجاہدین کے ایک کیمپ پر فضائی حملہ کیا اور کئی مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا۔
27 فروری 2019: پاکستان نے بھارت کے دو طیاروں کو مار گرایا اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔
5 اگست 2019: بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا جو کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا ۔اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔
16 اگست 2019: 1965 کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر یں ہونے والی نسل کشی
اور اقوام متحدہ کا کردار
جب اقوام متحدہ بنی تھی اسے دنیا میں انسانیت کی بہترین امید کہا جاتا تھا لیکن اب یہ آخری بد ترین سے بھی بد ترین امید کہلائی جا سکتی ہے۔مگر حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے بارے میں کہی جانے والی یہ بات بالکل درست محسوس ہوتی ہے کہ اگر جھگڑا کسی چھوٹے ملک اور بڑے ملک میں ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔ جھگڑا دو بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوامِ متحدہ غائب ہو جاتی ہے۔اور اگر جھگڑا دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو جھگڑے کا اصل سبب یعنی ایشو غائب ہو جاتا ہے!
ابرار احمد
کشمیر میں جینو سائیڈ پر اقوام متحد ہ کا کردار اور
سول سوسائٹی کے ذہن میں اٹھنے والے سوال
دنیا بھر کے میڈیا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کا انڈین ظلم و ستم پر مذمتی بیان! چہ معنی دارد؟
اقوام متحدہ کے حوالے سے تین سوال میرے ذہن میں کلبلا رہے ہیں اور میں حیران ہو رہا ہوں کہ یہ کیسی تنظیم ہے کہ جسے دنیا بھر کی کم و بیش 200 آزاد ریاستوں نے دنیا بھر میں امن و سکون قائم کرنے کا مینڈیٹ دے رکھا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے کہ جو انسانی حقوق اور انسان کی ترقی کا ذمہ دار ہے، یہ وہ ادارہ ہے کہ جو دو ملکوں کے درمیاں جنگ نہ ہونے کی ضمانت ہو نا چاہیئے تھا۔ اس ادارے کی طاقت دنیا بھر میں مسلمہ ہونی چاہیئے تھی۔ کہ جس کی بات، جس کا فیصلہ اور جس کا حکم دنیا کے کسی بھی ملک یا کسی بھی ریاست کے لئے حرف آخر ہونا چاہیئے تھا۔ مگر یہ کیا کہ اقوام متحدہ جیسا طاقتور اور جامع اختیارات رکھنے والا ادارہ بھارت جیسے نام نہاد سکیولر ملک کے آگے ممیا رہا ہے، گڑا گڑا رہا ہے اور دنیا کو بتا رہا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کو براہ راست اور اس کے شریک کار ذیلی اداروں یا این جی او کی وساطت سے بالواسطہ طور پر کشمیر میں جانے نہیں دے رہا! یہ کیا ظلم ہے۔ کیا کشمیر کے لوگ انسان نہیں ہیں! کیا کشمیر کا خطہ مریخ پر واقع ہے اور اقوام متحدہ کی جورسڈکشن میں نہیں آتا؟
مجھے پریشان کرنے والے سوال میرے ذہن کا فتور نہیں اور نہ ہی کسی طاقت یا طبقے نے اپنی لابنگ اور پروپیگنڈے کے ذریعے میرے ذہن میں ڈالے ہیں۔ بلکہ یہ سوالات اقوام متحدہ کی اپنی ہی رپورٹوں اور بیانات اور میٹنگس سے دنیا بھر کے میڈیا پر ریلیز کئے گئے ہیں۔ اور اس وقت بھی ورلڈ وائڈ ویب پر موجود ہیں۔ اپنے قارئین کی معلومات اور مطالعے کے لئیان کے لنک بھی اس مضمون کے فٹ نوٹ میں بھی د رج کر رہا ہوں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے انڈیا سے کہا ہے کہ انڈیا کشمیر میں بندشیں اور پرامن مظاہروں کے خلاف کارروائی روکے ۔
جی ہاں یہی میرا بھی سوال ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا وہ لوگ کسی بھی ملک کو اس قسم کی بات یونہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنے ملک کے عوام پر بندش،جس میں ہر قسم کی پابندیاں، جن میں سر فہرست انسانی حقوق کی پامالی، اطلاعات تک رسائی تو دور کی بات ہے اپنے جینے اور مرنے کی خبر تک اپنے خاندان، دوست احباب کو دینے کی اجازت نہ ہو، اپنے آس پاس کیا ہو رہا ہے اس کی خبر نہ ہو، گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ہو، جہاں کھانا پینا میسر نہ ہو، جہاں کسی بیماری تو کیا ایمرجنسی میں بھی علاج معالجے کی سہولت دستیاب نہ ہو، جہاں دن رات کرفیو لگا کر اسنانوں کو جانوروں کی طرح اپنے اپنے گھروں میں قید کر دیا گیا ہو ، ان کے فون، انٹرنیٹ سب بند ہوں، جہاں ایک عام آدمی کو اظہار رائے کی آزادی تو دور کی بات ہے وہاں پر ریاست کے چوتھے ستون میڈیا پر پابندی ہو، کڑی سینسر شپ ہو، کوئی رپورٹ نشر کرنے کی آزادی نہ ہو، اور وہاں پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کا یہ کہنا افسوسناک ہی نہیں انتہائی حیرت انگیز ہے کہ وہ کیوں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا۔ اسے جب ایسے حالات میں ایسی ریاستوں کے خلاف کارروائی کا مینڈیٹ دیا گیا ہے تو وہ اس مینڈیٹ یا اپنے اختیارات کو کیوں استعمال نہیں کر رہا۔ آیا کہ یہ اس کی کمزوری ہے یا اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی سازش پنپ رہی ہے۔ جس کے تانے بانے بھارتی سکیورٹی فورسز سے لے کر آر ایس ایس کے منظم قاتل گروہوں اور وہاں سے بی جے پی اور بھارتی وزیر اعظم مودی سے لے کر بھارت ، اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ تک جاتیہیں۔ یہ سوال میرے ذہن میںاس وقت پیدا ہوا کہ جب گذشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھارتی حکومت کو اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے میں ذرائع مواصلات کی بندش اور پر امن مظاہروں کے خلاف کارروائی روکنے کا کہا ہے۔انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے جاری تحریری بیان کے مطابق ادارے سے منسلک ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد بندشوں کے نفاذ کے باعث خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔یعنی اقوام متحدہ کے ان ماہرین کو بخوبی اندازہ ہے کہ بھارت کے اس غیر ذمہ دارانہ یا یوں کہیے کہ ظالمانہ اقدام کی شدت کا رد عمل ضرور ظاہر ہوگا۔ جس کے نتیجے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ آر ایس ایس کے غنڈون کو بھی فوجی وردی پہنا کر کشمیر کے مسلمانون کی نسل کشی کی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ان اہلکاروں کے بیان سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ بات انہوں نے صرف اپنی ایک فارمیلٹی پوری کرنیکے لئے کی ہے۔ ان کا بیان خانہ پری سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ پوری دنیا میں اس وقت سول سوسائٹی جس نہج پر سوچ رہی ہے، احتجاج کر رہی ہے اور مطالبہ کر رہی ہے اس کا سب سے اہم اور سب بڑا نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پیس ٹروپس فوری طور پر کشمیر میں بھجوائے جائیں۔ جو کشمیر جنت نظیر کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کے لئے کام کریں، اقوام متحدہ اپنا کردار نہایت ذمہ داری اور ایمانداری سے ادا کرتیہوئے کشمیر کے عوام کی امنگون کے مطابق اس کا فیصلہ کرے۔ اقوام متحدہ کو فوری طور پر یہ بین الاقوامی امن فوج یا پیش ٹروپس کو کشمیر میں اتار دینا چاہیئے۔ اور کشمیر میں جاری خون اور موت کے کھیل کو بند کرا دینا چاہیئے۔ اقوام متحدہ کے ان ماہرین کا یہ بیان ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے
https://twitter.com/UNGene
va/status/1164511136492
003329?ref_src=twsrc%5Etfw%
7Ctwcamp%5Etweete
mbed%7Ctwterm%5E11645111364920
03329&ref_url=https%3A%2F%2F
www.news18.com%2Fnews%2Findia%
2Fun-human-rights-experts-urge-india-to-
end-communication-shutdown-in-kashmir-2280479.html
جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر سے آنے والی خبروں کے مطابق رواں ماہ کی چار تاریخ سے جموں اور کشمیر میں مواصلات کا نظام تقریباً مکمل طور بند ہے اور انٹرنیٹ، موبائل، لینڈ لائن اور کیبل نیٹ ورک کی سروس بھی منقطع کر دی گئی ہے۔ ان کے بیان کی مزید توجیح کریں تو پتا چلتا ہے کہ کشمیر جو کہ بلند و بالا پہاڑوں میں گھری ایک خوبصورت وادی ہے سے اسے ایک ایسی دور دراز جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ جہاں کے رہائشی اپنی زندگی سے بیزر ہو چکے ہیں۔ ان کی زندگی ایک قید بن چکی ہے ۔ ان کو اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ اور مایوسی کے ساتھ ساتھ موت کے سائے ان کے سروں پر منڈلا رہیہیں۔اس موقع اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا یہ جملہ انسانی حقوق کے چارٹر کے سینے میں ایک تیر کی طرح لگتا ہے۔جب وہ کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کا انٹرنیٹ اور مواصلات کے نظام کو بغیر کسی وجہ کے بند کرنا ضرورت اور متناسبیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔اور یہ بندش جموں اور کشمیر کے لوگوں کو بغیر کسی جرم کہ اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔
جب کے اپنے بیان کے اگلے حصے میں وہ مانتیہیں کہ حکومت نے مختلف اوقات میں جموں اور کشمیر میں کرفیو بھی نافذ کر رکھا تھا اور بھاری تعداد میں فوجی دستے نقل و حرکت اور پرامن مظاہروں کو روکنے کے لیے کشمیر کی وادی میں بلا لیے تھے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم انڈیا کے حکام کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ پابندیاں غیرمتناسب ہیں۔ ساتھ ہی وادی سے آنے والی معلومات کے مطابق سیاسی رہنماوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مظاہرے کرنے والوں کی گرفتاریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے آنے والی خبروں سے سخت پریشان ہیں کہ سکیورٹی اہلکار رات میں گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ اور یہ گرفتاریاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتی ہیں اور حکام کی جانب سے ان الزامات کی باقاعدہ تفتیش کرنا ضروری ہے اور اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ان الزامات کے حوالے سے فکر مند ہیں جن کے مطابق کچھ گرفتار کیے گئے لوگوں کو کہا رکھا گیا ہے کچھ معلوم نہیں اور جبری گمشدگیوں کا بھی خدشہ ہے۔ اجتماعی گرفتاریوں اور ذرائع مواصلات کی بندش کے باعث ان میں بھی مزید اضافے کا خدشہ ہے۔انھوں نے مظاہرین کے خلاف حد سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا جس میں گولیوں کا استعمال بھی شامل ہے جس کے باعث ہلاکتوں کا امکان ہے۔اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ انڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کم سے کم کرے اور ہتھیاروں کے استعمال صرف اس وقت کیا جائے جب جانی نقصان کا خدشہ ہو۔
ان کے اس بیان پر سول سوسائٹی کا کیا رد عمل آتا ہے میں نہیں جانتا ! مگر مجھے اتنا پتا ہے کہ اس ایک بیان سے ہی اقوام متحدہ نے بھارت کے ظلم کو دیکھتے ہوئے، اس کی نوعیت اور سنگینی کو سمجھتے ہوئے اور جانتے بوجھتے کہ وہ کشمیر کے اصل باشندوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے ، ان کو ظلم و ستم سے دبانے اور ان کی نسل کشی کا جو ارادہ کرلیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کردار افسوسناک اور جانبدارانہ ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس کا کردار – بیانات کی حد تک کیوں؟
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے کشمیرکی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے کہا ہے کہ بھارت کشمیرکی حیثیت بدلنے سے گریز کرے۔ سیکریٹری جنرل نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایسے اقدام سے پرہیز کرے جس سے جموں اور کشمیر کی قانونی حیثیت متاثر ہوتی ہو۔ انھوں نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ مقبوضہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی ممکن ہے۔انتونیوگوتریس نے کہا کہ اقوام متحدہ بھارت اور پاکستان نے شملہ معاہدے میں طے کیا تھا کہ مسئلے کا حل پر امن طریقے سے اقوام متحدہ کے چارٹرکی روشنی ہی میں ممکن ہے۔ سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ویوجارک کے مطابق انھوں نے کہا کہ اس مسئلے پر ہمارا موقف اقوام متحدہ کا چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔ترجمان نے اس تاثرکی نفی کی کہ سیکریٹری جنرل دو پڑوسی جوہری ملکوں کے درمیان کشیدہ صورتحال کے خاتمے کے لیے مداخلت سے گریزکر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ تاثر بے بنیاد ہے، عالمی ادارے کو صورتحال کا بخوبی علم ہے اور حالات پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی فوج کی کارروائیوں، کرفیو اور وادی میں بھارتی فوج کی تعداد میں کئی گنا اضافے سے انسانی حقوق کی صورتحال اور خراب ہوگئی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہیں جس سے جموں وکشمیر کی حیثیت متاثر ہوتی ہو۔ ترجمان نے کہا کہ سیکریٹری جنرل کو پاکستانی وزیر خارجہ کا مکتوب مل گیا ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس خط کی 15 کاپیاں سلامتی کونسل کے اراکین کو بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
میرے ذہن میں دوسرا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ
کیا کشمیر فلسطین بن جائے گا؟
اسرائیل نے اپنی طاقت، پیسے اور بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کو بڑی ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اور فلسطینیوں کی کئی نسلیں آزادی کے جدو جہد اور خود مختاری کے حصول کی لڑائی لر رہی ہیں۔ مگر اقوام متحدہ نے سوائے زبانی جمع خرچ کے فلسطین کی آزادی کیلئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ 5 اگست کو بھارتی سیاسی پارٹی بی جے پی کے منہ پر کالک کی دیگ ملنے والے مودی نے جو سازش رچی ہے اس کی سیاہی بھارت کے منہ سے صدیوں تک کوئی صاف نہیں کرسکے گا۔ جب 1950 میں انڈیا کی پارلیمنٹ نے ملک کا آئین منظور کیا تو اس میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی درجہ دیا گیا۔اس دفعہ کے تحت انڈیا کی کسی بھی ریاست کا شہری کشمیر میں زمین یا دوسری جائیداد کا قانونی مالک نہیں بن سکتا۔ کشمیر میں سرکاری ملازمت کے لیے عرضی نہیں دے سکتا اور مقامی حکومت کی سکالرشپ کا مستحق نہیں ہوسکتا۔لیکن شہری حقوق کی مزید وضاحت چار سال بعد انڈین آئین میں دفعہ 35-A کے تحت کی گئی۔ اس میں واضح کیا گیا کہ کشمیریوں کو پورے انڈیا میں شہری حقوق حاصل ہونگے لیکن دیگر ریاستوں کے انڈین باشندوں کو کشمیر میں یہ حقوق نہیں ہوں گے۔ دفعہ 370 کے تحت کشمیر کے حکمران کو وزیراعظم کہلایا جانا تھا اور ریاست کے سربراہ کو صدر کا عہدہ ملنا تھا۔لیکن 1975 میں اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان تاریخی معاہدے کے بعد یہ عہدے باقی ریاستوں کی طرح وزیراعلیٰ اور گورنر کہلائے۔ تاہم شہریت کے خصوصی حقوق کو دفعہ 35-A کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔تین سال قبل جب انڈیا میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہوئی اور کشمیر میں بھی بی جے پی اقتدار کا حصہ بنی تو پورے ملک میں یہ بحث چھڑی کہ کشمیر کو انڈین وفاق میں مکمل طور پر ضم کرنے میں ہر بار 35-A ہی رکاوٹ ہے۔ آر ایس ایس کے قریب سمجھی جانے والی ایک رضاکار تنظیم وی دی سٹیزنز نے سپریم کورٹ میں اسی دفعہ کے خلاف درخواست دائر کی ہے جس پر سپریم کورٹ نے حمایتی ریمارکس کے بعد پانچ ججوں پر مشتمل خصوصی بینچ قائم کیا ہے۔ انڈین حکومت اور بھاجپا کی قیادت کی طرف سے بھی یہ اشارے مل رہے ہیں کہ پورا سسٹم اس منفرد نظام کا خاتمہ چاہتا ہے۔اسی وجہ سے کشمیر کے ہندنواز حلقے، سماجی اور تجارتی انجمنیں اور علیحدگی پسند قیادت آج کل مشترکہ مزاحمت کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے تو یہاں تک کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو کشمیر میں بھارتی ترنگا تھامنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حزب مخالف کے رہنما فاروق عبداللہ نے بھی خطرناک نتائج سے حکومت کو آگاہ کیا ہے۔سماجی سطح پر اس اقدام کی مزاحمت کرنے والے معروف وکیل ظفرشاہ کہتے ہیں اگر یہ دفعہ سپریم کورٹ نے خارج کر دی تو کشمیر کو فلسطین بننے سے کون روکے گا۔ بڑی بڑی صنعتی کمپنیاں یہاں مہنگے داموں زمینیں خریدیں گے، لوگ یہاں آباد ہوجائیں گے، اور کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار اقلیت میں بدل دیا جائے گا۔حریت کانفرنس کے رہنماوں سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے مشترکہ طور گذشتہ ہفتے دفعہ 35-A کے حق میں ہڑتال کی کال دی تو جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں کے ساتھ ساتھ وادی بھر میں عام زندگی معطل ہوگئی ۔ وزیراعلی بار بار یہ کہتی ہیں کہ انہیں وزیراعظم نریندر مودی نے یقین دلایا ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی، لیکن وزیراعظم کی طرف سے ابھی تک کوئی وضاحت نہیں ہوئی۔سینیئر صحافی مزمل جلیل کہتے ہیں: “یہ ایک پیچیدہ آئینی مسئلہ ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کرنے کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں، ظاہر ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی سیاسی ہی ہوگا۔
کیا اقوام متحدہ کو کشمیر میں کرفیو اور آبادی سے کئی گنا زیادہ تعینات شدہ فوج نظر نہیں آتی؟
اقوام متحدہ کی توجہ دلانے کے لئے علاقے میں جاری کشیدگی اور کشمیر میں معصول لوگون کے قتل عام کیلئے تعینات کی گئی فوج یعنی ملٹری ڈپلائے منٹ کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا خاص سیش بلایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس سے خطے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہے۔ان خلاف ورزیوں پر سیکورٹی کونسل کا ہی مینڈیٹ ہے کہ اس پر کوئی فیصلہ کرے یا کسی موقف کا اظہار کریاور دونوں فریقوں کو بلا کر ان کا موقف سنے۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی دیکھے کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالا جا سکتا ہے۔ سیکورٹی کونسل کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے مابین کشمیر کے مسئلے کی بات چیت کی رپورٹ سیکورٹی کونسل کو پیش کرے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھارت کا موقف تسلیم نہیں کر رہی۔اس وقت کشمیری عوام کو اپنا موقف اور دلائل دنیا بھر کے دارالحکومتوں کو پیش کرنے چاہئیں۔ کیونکہ برطانیہ، یورپی یونین، امریکہ، روس، چین اور دیگر ممالک کوئی بھی سیاسی پوزیشن لیتے وقت اپنے قانونی ماہرین سے مشورہ ضرور کرتے ہیں کہ اس میں کون سا فریق زیادہ حق بجانب ہے۔ اس طرح کسی ایک ملک کے حق میں سیاسی پوزیشن لے لی جاتی ہے۔
کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس- اونچی دوکان پھیکا پکوان!
ساری دنیا میں اس بات پر خوشی کی لہر دیکھنے میں آئی کہ چلو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر کے معصوم و مطلوم عوام پر کئے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف ایکشن لینے کا خیال آ ہی گیا۔ مگر اس اجلاس کا اختتام اتنا خوش آئندی یا با الفاظ دیگر اتنا مثبت نہیں تھا۔ اگر تفصیلات میں جائیں تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر خصوصی اجلاس رواں ہفتے منعقد ہوا۔ بندکمرہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک کے مندوبین اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں یو این ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس لوئٹے اوراقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکریٹری جنرل آسکر فرنانڈس نے بھی شرکاء کو بریفنگ دی۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ایک گھنٹہ دس منٹ جاری رہا۔ اجلاس کے بعداقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب کا باضابطہ بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کونسل اجلاس میں کشمیر کے معاملے پر تفصیلی بات ہوئی ہے۔ چینی مستقل مندوب نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ارکان کی جانب سے گہری تشویش کا اظہاربھی کیا۔چینی مندوب ژینگ جون نے کہا کہ بھارتی اقدام نے چین کی خود مختاری کو بھی چیلنج کیا ہے۔ سلامتی کونسل کے ارکان کو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تحفظات ہیں اور فریقین کو کسی بھی ایسے یکطرفہ اقدام سے گریز کرنا چاہیے، جو صورتحال کو مزید خراب کردیں۔ بھارت کی آئینی ترمیم نے کشمیر کی صورت حال تبدیل کی، جس سے خطے میں کشیدگی بڑھی، مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ چین کی خود مختاری کو چیلنج کیے جانے پر چین کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی کیاگیا۔ چینی مندوب نے اس بات پر زور دیاکہ پاکستان، چین اور بھارت آپس میں پڑوسی ہیں، پاکستان اور بھارت ترقی کے دوراہے پر کھڑے ہیں، پاکستان اور بھارت دونوں سے اپیل ہے کہ معاملے کا پُرامن حل تلاش کریں۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا خیر مقدم کیا۔ ملیحہ لودھی نے کہا کہ ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا پُرامن حل چاہتے ہیں، نہتے کشمیریوں کی آواز آج اعلیٰ ترین فورم پر سنی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے اس اجلاس سے انڈیا کے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ کشمیر انڈیا کا اندورنی معاملہ ہے۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہا کہ آج سکیورٹی کونسل میں کشمیر کی آواز گونجتی رہی۔ گزشتہ پچاس سال یہ پہلا موقع ہے کہ اکیلے جموں اور کشمیر کو سکیورٹی کونسل میں زیر بحث لایا گیا۔ یہاں کئی سوالات ہر ذی شعور کے ذہن میں زیرگردش ہیں کہ پاکستان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟یقینا کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان سامنے آیا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل کے تمام ممبران سے بات کی، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر جی فائیو ممالک کو اعتماد میں لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان خطے کی بہتری کے لیے قدم اٹھا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر 5 دہائیوں بعد سلامتی کونسل میں زیر بحث آیا۔ بھارت نے بہت کوشش کی کہ سلامتی کونسل کا اجلاس نہ ہوسکے۔ بھارت نے اجلاس روکنے کے لیے کئی رکاوٹیں کھڑی کیں، مگر اجلاس بلانے میں پاکستان کامیاب رہا۔ دریں اثناء دنیا بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے بھی جاری ہیں۔
سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں، جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کرتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں، لیکن ہوتا پھر وہی ہے، جو کونسل چاہتی ہے۔ قرارداد پاس کرنے کا طریقہ کار پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔ کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے، جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔ غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں، لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے، جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔ جب یہ ممالک ایک حل، ایک نقطے پر پہنچ جاتے ہیں، تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے، لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے، تاہم اس بات سے منہ نہیں موڑا جاسکتا، سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر خصوصی اجلاس کا منعقد ہونا بڑی کامیابی سے کم نہیں۔مقبوضہ کشمیر میں انسان بحرانی کیفیت میں ہیں، انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں، دنیا میں کوئی اس پر آواز نہیں اٹھا رہا، تاہم ہمسایہ ملک پاکستان 70 سال سے کشمیر کے مظلوم لوگوں کی آواز بلند کیے ہوئے ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں، بھارتی ریاست آسام میں بھی تمام مذاہب کے مہاجرین کو بھارتی شہریت دینے سے متعلق متنازعہ قانون سازی کے بعد چار ملین افراد کو غیر ملکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہندو قوم پرست حکومت بالخصوص آسام کی مسلم آبادی کو نشانہ بنا رہی ہے۔ آسام کے عوام بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ امید ہے کہ پاکستان اپنی سفارتی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا اورعالمی برادری کشمیری عوام کو ان کا حق دلوانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
اقوام متحدہ کے باب 6 اور باب 7
1948ء میں جب بھارت خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا، تو اقوام متحدہ نے پاکستان کے خلاف اس کی شکایت پر اپنے چارٹر کے باب سات کی بجائے، باب چھ کے تحت کارروائی کی تھی یعنی وہ مشہور قراردادیں منظور کی تھیں جن کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاکستان اور بھارت کو ریاست جموں و کشمیر سے اپنی اپنی فوجیں نکالنے اور کشمیری عوام کو ایک غیر جانبدار استصواب کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے کہا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب سات کے تحت اُسی صورت کارروائی کی جاتی ہے، جب ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے جبکہ باب چھ تنازعات کو پُر امن طور پر حل کرنے کیلئے مختلف طریقوں پر مبنی دفعات پر مشتمل ہے۔ ان دفعات میں براہ راست بات چیت، مصالحت اور ثالثی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے شروع ہی سے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازعہ کے طور پر تسلیم کیا ہے اور بھارت نے ان قراردادوں کو مان کر اقوام متحدہ کے موقف سے اتفاق کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون بلکہ عام قانون کے تحت کسی تنازعہ میں کوئی فریق یک طرفہ طور پر صورت حال تبدیل نہیں کر سکتا، اگر کرے گا تو قانون کی نظر میں اُسے غاصب اور جارح قرار دیا جائے گا۔ اس صورت میں غاصب قوت کے کسی اقدام کو قانون کے مطابق جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی
قراردادیں اور عالمی معاہدے
آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد اب کشمیر کو انڈیا میں ضم کردیا گیا ہے تو وہیں کئی قانونی سوالات نے بھی جنم لے لیا ہے۔ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے اعلان نے کشمیرکے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے اور دنیا بھر کی سول سائٹی بھارت کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں سیاسی ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔اس کے ساتھ جموں اور کشمیر کی موجودہ قانونی حیثیت پر بھی بہت سے سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں؟ دنیا بھر کے اکثر آئینی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے کشمیر کا دیرینہ مسئلہ مزید قانونی پیچیدگیاں اختیار کر لے گا۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کا انڈیا کے ساتھ الحاق خود مختاری کی جس شرط پر ہوا تھا وہ معاہدہ ہی تحلیل ہوگیا ہے، جس سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سنہ 1947 کی پوزیشن پر چلا گیا ہے۔
تقسیم کے فوراً بعد کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑی تو اقوام متحدہ نے ثالثی کرتے ہوئے سنہ 1948 میں تنارعہ کشمیر کے حل کے لئے دو قراردادیں منظور کیں جن میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اور یہ تجویز دی گئی کہ انھیں رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے۔اسی طرح اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے اپنی قرارداد میں پاکستان اور انڈیا دونوں سے اپنی اپنی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے جموں اور کشمیر کے متنازعہ علاقے کے الحاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔یاد رہے کہ انٹرنیشنل لا میں کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہی ہے۔بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا ہے کیونکہ ہر لحاظ سے آرٹیکل 370 ان سے وابسہ ہے۔ کیونکہ اس آرٹیکل کے مطابق کشمیر کاانتظام و انصرام اس طرح سے چلایا جا رہا تھا جس طرح سیکورٹی کونسل نے تجویز دی تھی۔ جب تک زمینی حقائق کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں کشمیر کی وہی خاص حیثیت برقرار رہے گی۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے
اقوام متحدہ کا کردار
مسئلہ کشمیر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انڈیا اور پاکستان کی۔ دونوں ممالک اس خطے پر مکمل کنٹرول کے لیے دو جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر لائن آف کنٹرول کے ساتھ بلا اشتعال فائرنگ کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔برصغیر کی تقسیم کے وقت تمام ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ملک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں، یا پھر آزاد رہنا چاہیں تو آزاد رہ سکتے ہیں۔زیادہ تر ریاستوں کے مہاراجاوں نے اپنی آبادی کی خواہشات کی بنا پر انڈیا یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا مگر کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی مسلمان اکثریتی ریاست کے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔مقامی آبادی کی جانب سے بغاوت اور پاکستان کے مسلح قبائلیوں کی جانب سے دراندازی ہونے پر مہاراجہ نے لارڈ ماونٹ بیٹن سے عسکری امداد کی اپیل کی جو کہ انھوں نیؤ یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ جب تک ریاست انڈیا سے الحاق کا فیصلہ نہیں کرتی، تب تک وہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اب متحدہ ہندوستان کے وائسرائے نہیں بلکہ انڈیا کے گورنر جنرل ہیں۔نتیجتاً مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947 کو اپنی ریاست کے انڈیا سے الحاق کی تحریری درخواست کی جو لارڈ ماونٹ بیٹن نے اگلے دن اس شرط کے ساتھ قبول کر لی کہ دراندازوں سے ریاست خالی ہونے پر ریاست کے مقدر کا فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔اس کے بعد جب انڈیا کی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو پاکستان کی فوج نے بھی کشمیر کے حصول کے لیے اپنی فوج یہاں داخل کردیں جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا جو کہ 1949 تک جاری رہی۔1949میں جنگ بندی کے بعد پاکستان اور انڈیا دونوں کے پاس کشمیر کا بالترتیب ایک تہائی اور دو تہائی حصے کا کنٹرول رہا اور سیز فائر لائن قائم ہوئی جسے بعد میں لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 21 اپریل 1948 کو ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اس مسئلے کے حل کے لیے تین مرحلہ وار نکات تجویز کیے گئے۔
- پاکستان اور انڈیا کشمیر سے اپنے تمام شہری واپس بلوائیں۔
- انڈیا کشمیر میں صرف اتنی فوج رکھے جو کہ امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو۔
- انڈیا اقوامِ متحدہ کا نامزد کردہ رائے شماری کمشنر تعینات کرے جو ریاست میں غیر جانبدار رائے شماری کروائے۔
- اقوامِ متحدہ کے اس پانچ رکنی کمیشن نے 1949 میں استصوابِ رائے کی شرط رکھ کر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے کیا تھا۔ کمیشن میں کولمبیا، چیکوسلواکیا، برما، آرجنٹینا اور بیلجیئم کے سفیر شامل تھے
دونوں ہی ممالک کو اس پر اعتراضات تھے جن کی وجہ سے اقوامِ متحدہ کا ایک نیا کمیشن قائم ہوا۔ دونوں ممالک نے اس کمیشن کی قرارداد منظور کی مگر یہ کمیشن بھی معاملے کو کسی نتیجے پر نہ پہنچا سکا اور یوں یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔بلاشبہ 13 اگست 1948 ء کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پہلے پاکستان اپنی فوجیں نکالے گا لیکن مت بھولیے کہ 14 مارچ 1950 ء کو اسی سلامتی کونسل نے قرارداد پاس کی تھی کہ اب دونوں ملک بیک وقت فوجوں کا انخلاء شروع کریں گے۔ 13 اگست 1948 ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ جب پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا تو یہاں کا انتظام لوکل اتھارٹیز سنبھالیں گی اور کمیشن ان کو سپروائز کرے گا۔ لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ بھارت کو یہاں ساری فوج رکھنے کی اجازت ہو گی۔ بلکہ قرار پایا کہ اس کے بعد بھارت بھی اپنی فوج کا بڑا حصہ “Bulk of its forces یہاں سے نکال لے گا اور اسے صرف اتنے فوجی رکھنے کی اجازت ہو گی جو امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے لوکل اتھارٹیز کی مدد کے لیے ضروری ہوں۔جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پلان مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروںکو نہ صرف مکمل غیر مسلح کر دیا جائے بلکہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے۔ یہ پاکستان کی جانب سے عائد کردہ الزام نہیں بلکہ اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ڈینجر ان کشمیر، کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں جوزف کاربل کون تھے؟ان کا تعلق چیکو سلواکیا سے تھا اور یہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئر مین تھے اور کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر سے فوج نکالنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مطابق جو ضروری فوج کشمیر میں رکھے گا اس کی تعداد اورتعیناتی کا مقام اقوام متحدہ کمیشن کو پیش کیا جائے۔ بھارت نے اس سے بھی انکار کر دیا۔اس پر کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر دیں جو ایک آربٹریٹر کے سامنے رکھا جائے اور وہ فیصلہ کر دے۔ اقوام متحدہ کی اپنی دستاویزات گواہ ہیں پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ بھارت کے اپنے نمائندے نے اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر بھارت کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔ ان کے الفاظ تھے:”a lack of goodwill on part of India معاملے کے حل کے لیے سلامتی کونسل نے سلامتی کونسل ہی کے صدر مک ناٹن پر مشتمل ایک یک رکنی کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے کہا کہ اب دونوں ممالک بیک وقت اپنی فوجیں نکالتے جائیں گے تا کہ کسی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی۔ بھارت نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔ یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ اس تجویز کو سلامتی کونسل 14 مارچ 1950 ء کو ایک قرارداد کی شکل میں منظور کر لیا۔ گویا اب اقوام متحدہ کی قرارداد یہ کہہ رہی ہے کہ دونوں ممالک بیک وقت فوجیں نکالنا شروع کریں گے۔اقوام متحدہ نے اوون ڈکسن کو جو آسٹریلیا کے چیف جسٹس رہے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا۔ انہوں نے فوج کے انخلاء کی بہت سی تجاویز دیں۔ پاکستان نے سب مان لیں، بھارتی وزیر اعظم نے ایک بھی نہ مانی۔ 1951 ء میں بھارت نے کہا ہمیں خطرہ ہے اس لیے ہم فوج نہیں نکالیں گے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم گورڈن منزیزنے مشترکہ فوج کی تجویز دی بھارت نے رد کر دی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقامی فورس بنانے کی بات کی بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم کامن ویلتھ کی فوج بھیج دیتے ہیں، بھارت نے یہ تجویز بھی رد کر دی۔معاملہ ایک بار سلامتی کونسل چلا گیا۔ 30 مارچ 1951 ء کو سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کو نیا نمائندہ مقرر کر کے کہا کہ تین ماہ میں فوج کشمیر سے نکالی جائے اور پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہو سکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ فرینک صاحب نے چھ تجاویز دیں بھارت نے تمام تجاویز رد کر دیں۔ خانہ پری کے لیے بھارت نے کہا وہ تو مقبوضہ کشمیر میں اکیس ہزار فوجی رکھے گا جب کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوج نکال لے، وہاں صرف چار ہزار مقامی اہلکار ہوں، ان میں سے بھی دو ہزار عام لوگ ہوں، ان کا آزاد کشمیر حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان میں سے بھی آدھے غیر مسلح ہوں۔ گراہم نے اس میں کچھ ردو بدل کیا، پاکستان نے کہا یہ ہے تو غلط لیکن ہم اس پر بھی راضی ہیں، بعد میںبھارت اس سے بھی مکر گیا۔ سلامتی کونسل کے صدر نے ایک بار پھر تجویز دی کہ ” آربٹریشن ” کروا لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو انخلاء کے معاملے میں کون سا ملک تعاون نہیں کر رہا۔ پاکستان اس پر بھی راضی ہو گیا، بھارت نے یہ تجویز بھی ردکر دی۔1965میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر ایک اور جنگ لڑی گئی جبکہ 1999 میں دونوں ممالک ایک مرتبہ پھر کشمیر پر کنٹرول کے لیے جنگ لڑتے نظر آئے۔سنہ 1989 کے بعد کشمیر میں شورش کا آغاز ہوگیا۔ سنہ 2003 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کا ایک معاہدہ ہوا اور ایل او سی کو ایک سرحد تسلیم کر لیا گیا۔مگر سنہ 2016 میں انڈین فوج کی جانب سے جب 22 برس کے علیحدگی پسند برہان وانی کو ہلاک کر دیا گیا تو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ برہان وانی کے واقعے کے بعد انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندی کی نئی مہم شروع ہوئی۔سرینگر سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر برہان وانی کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ جنازے کے بعد عوام کا سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں جس سے مزاحمت کا ایک نیا دور شروع ہو گیا اور صرف سال 2018 میں 500 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔
تاریخ پر ایک نظر-تنازع کشمیر پر
اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی تفصیل:
پاکستان اور بھارت کے 1947 میں قیام کے بعد تنازع کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں۔ لیکن، سات دہائیوں بعد بھی یہ تنازع حل نہ ہوسکا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تنازع کشمیر سے متعلق سب سے پہلی قرار داد جنوری 1948 میں منظور کی اور اب تک اس تنازع کے حل کے لیے ایک درجن سے زائد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک بار پھر تنازع کشمیر پر ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے جو کہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن چین کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔تنازع کشمیر پر سلامتی کونسل نے ماضی میں پاکستان اور بھارت کو کیا ہدایات دیں اور اس حوالے سے کب کب پیش رفت ہوئی اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 38:
سلامتی کونسل میں 17 جنوری 1948 کو منظور کی گئی 38ویں قرار داد میں کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کو ایسے بیانات دینے سے روکا گیا، جن سے حالات مزید کشیدہ ہوں۔قرار داد میں مزید کہا گیا کہ تنازع کشمیر سلامتی کونسل میں زیر غور ہے۔
قرار داد نمبر 39:
20 جنوری 1948 کو منظور کی گئی قرار داد میں تنازع کشمیر کے حل کے لیے تین رکنی کمیشن بنایا گیا۔کمیشن میں ایک رکن بھارت، ایک پاکستان اور ایک رکن دونوں کی باہمی رضا مندی سے منتخب کرنے کے لیے کہا گیا۔کمیشن کا کام سلامتی کونسل کو مشترکہ خط کے ذریعے خطے میں امن قائم کرنے کے لیے سفارشات دینا تھا۔یاد رہے کہ تنازع کشمیر سب سے پہلے بھارت سلامتی کونسل میں لے کر گیا تھا۔
قرار داد نمبر 47:
پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے بعد سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 39 کے تحت بنائے گئے خصوصی کمیشن کے اراکین کی تعداد بڑھا کر پانچ کردی۔ ارجنٹائن، بیلجیئم، کولمبیا، چیکو سلواکیہ اور امریکہ کے نمائندے بھی کمیشن میں شامل کیے گئے۔21 اپریل 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کمیشن کو ہدایات دی گئیں کہ وہ خطے میں جا کر دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کرائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے منعقد کرانے کے انتظامات کرے۔قرار داد میں تنازع کے حل کے لیے تین اقدامات کرنے کو کہا گیا تھا۔پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ان شہریوں کو جو کشمیر میں لڑنے گئے ہیں، واپس بلائے جب کہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج میں مرحلہ وار کمی کرے اور کشمیر میں اتنی فوج ہی رکھے جتنی امن و امان کے قیام کے لیے درکار ہے۔دونوں ممالک سے کہا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے۔
قرار داد نمبر 51:
3 جون 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں اقوام متحدہ کے کمیشن کو متنازع علاقوں میں جا کر سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کرانے کا کہا گیا۔قرار داد میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیر خارجہ کی طرف سے سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط کو بھی شامل کرنے کا کہا گیا۔
قرار داد نمبر 80:
اقوام متحدہ کے کمیشن اور نمائندہ جنرل مکنوٹن کی رپورٹس کے بعد سلامتی کونسل کی طرف سے دونوں ممالک کو جنگ بندی اور جموں و کشمیر کو فوج سے پاک علاقہ رکھنے کے معاہدے پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی۔14 مارچ 1950 کی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو اپنی فوجیں کنٹرول لائن تک پیچھے ہٹانے کے لیے کہا گیا۔ شمالی علاقہ جات کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام کیا گیا اور استصواب رائے کے انعقاد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے نمائندہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
قرار داد نمبر 91:
نمائندہ اقوام متحدہ سر اوون ڈکسن کی رپورٹ میں کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد میں حائل اختلافات بیان کیے گئے۔سلامتی کونسل کی طرف سے سر اوون ڈکسن کا استعفی منظور کرتے ہوئے ان کی متبادل کو تین ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا اور پاکستان اور بھارت کو اقوام متحدہ کے نمائندے سے تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی۔31 مارچ 1951 کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملٹری مبصرین کا گروپ جنگ بندی پر نظر رکھے گا۔
قرار داد نمبر 96:
10 نومبر 1951 کی قرار داد میں اقوام متحدہ کے نمائندے فرینگ گراہم کی رپورٹ پیش کی گئی اور انہوں نے سلامتی کونسل میں خطاب میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے، تنازع کشمیر کو باہمی رضا مندی سے حل کرنے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی میں استصواب رائے کے قیام پر رضا مند ہوگئے ہیں۔
قرار داد نمبر 98:
نمائندہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والے مذاکرات میں طے پایا کہ بھارت اور پاکستان ایک خاص تعداد میں کنٹرول لائن پر اپنی فوجیں تعینات رکھ سکیں گے۔23 دسمبر 1952 کو منظور ہونے والی قرار داد میں پاکستان کے لیے یہ تعداد 3000 سے 6000 مقرر کی گئی، جبکہ بھارت کے لیے یہ تعداد 12000 سے 18000 مقرر کی گئی۔
قرار داد نمبر 122:
24 جنوری 1957 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کہا گیا کہ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازع جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے مطابق جموں و کشمیر کا علاقہ متنازع ہے۔
قرار داد نمبر 123:
جموں و کشمیر میں حالات کشیدہ ہونے پر 21 فروری 1957 کو منظور ہونے والی قرار داد میں سلامتی کونسل نے صدر گنار جارنگ سے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازع کے حل کے لیے اپنی تجاویز دیں۔
قرارداد نمبر 126:
دو دسمبر 1957 کی قرار داد میں صدر سلامتی کونسل گنار جارنگ کی رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کو امن سے رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے نمائندہ اقوام متحدہ کو کہا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازع میں مزید پیشرفت کے لیے اقدامات تجویز کریں۔
قرارداد نمبر 209:
چار ستمبر 1965 کی قرار داد میں پاک بھارت کنٹرول لائن پر بگڑتی صورت حال پر بھارت اور پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کا کہا گیا۔ قرار داد میں دونوں ممالک کو اقوام متحدہ کے ملٹری مبصرین کے گروپ کے ساتھ تعاون کرنے اور سیکریٹری جنرل کو تین روز میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا۔
قرار داد نمبر 210:
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کے مطابق 6 ستمبر 1965 کو منظور کردہ قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو جنگ بندی اور اپنی فوجیں پانچ اگست 1965 والی پوزیشنز پر واپس بلانے کا کہا گیا۔ قرار داد میں تنازع کشمیر کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لینے کا بھی کہا گیا۔
قرار داد نمبر 211:
سلامتی کونسل کی طرف سے قرار داد نمبر 209 اور 210 میں جنگ بندی کی ہدایات دینے کے باوجود بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی نا ہونے پر 20 ستمبر 1965 کو ایک اور قرار داد کے ذریعے کہا گیا کہ 22 ستمبر کو سات بجے (جی ایم ٹی) تک جنگ بندی کی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشنز پر چلی جائیں۔
قرار داد نمبر 214:
27 ستمبر 1965 کو منظور ہونے والی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کی طرف سے جنگ بندی نا کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ فریقین جنگ بندی معاہدے پر عمل کریں۔
قرار داد نمبر 215:
پانچ نومبر 1965 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر عمل نا کرنے پر دونوں ممالک کے نمائندوں سے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کر کے فوجوں کی واپسی کا لائحہ عمل تشکیل دینے کا کہا گیا۔
قراد داد نمبر 307:
21 دسمبر 1971 کی قرار داد میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد سلامتی کونسل چاہتی ہے کہ فوجوں کی واپسی مکمل ہونے تک جموں و کشمیر میں مکمل جنگ بندی ہو۔
قرار داد نمبر 1172:
بھارت اور پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے تجربات کی مذمت کرتے ہوئے 6 جون 1998 کی قرار داد میں دونوں ممالک کو مزید تجربات نا کرنے کا کہا گیا۔قرار داد میں سلامتی کونسل کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر کو حل کرانے میں مدد کی بھی پیش کش کی گئی۔تنازع کشمیر سے متعلق مزید ایک اور قرار داد منظور ہوتی ہے یا پھر تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو دو طرفہ مذاکرات کا عمل دوبارہ سے شروع کرنے کا کہا جاتا ہے؟تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے بھارت کو کشمیر میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ہدایات بھی دی جا سکتی ہیں۔
مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔سلامتی کونسل کا اعلامیہ جاری
نیویارک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کرنے پر زور دیا ہے۔اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر ہونے والے سلامتی کونسل کے بند کمرہ مشاورتی اجلاس سے متعلق اپنی ویب سائیٹ پر جاری بیان میں کہا ہے کہ کشمیر کی غیر مستحکم صورتحال پر ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں 1965ء کے بعد پہلی بار مسئلہ کشمیر پر براہ راست غور کیا گیا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل نے بھارتی اقدام کے باعث خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ بیان میں 8 اگست کو اقوامتحدہ کے سیکٹری جنرل انتونیو گوتریس کے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بیان کا حوالہ بھی دیا گیا۔بیان میں چینی مندوب کی نیوز کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چینی مندوب نے پاکستان اور بھارت کو مزید کشیدگی بڑھانے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور بھارت ایسا کوئی قدم نہ اٹھا ئیں جو کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے۔اقوام متحدہ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستانی مندوب کی نیوز کانفرنس کا ذکر کیا گیا جس میں ملیحہ لودھی کا کہنا تھا اجلاس میں بھارتی موقف کی نفی ہوئی ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
بھارتی موقف مسترد: سلامتی کونسل کا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اظہار تشویش
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں بھارتی موقف کو مسترد کردیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکرٹری جنرل آسکر فرنانڈس، یو این ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس لوئٹے نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے میڈیا کو بتایا کہ سکیورٹی کونسل اجلاس میں کشمیر کے معاملے پر تفصیلی بات ہوئی۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ارکان نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے بھی کچھ دن پہلے بیان دیا کہ فریقین کو کسی بھی یکطرفہ اقدامات سے گریز کرنا چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر متنازعہ ہے۔ چین کو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔کشمیر کی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور دوطرفہ معاہدہ کے تحت حل ہونا چاہئے۔ سکیورٹی کونسل کے ارکان کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر میں یکطرفہ کارروائی سے باز رہنا چاہیے۔بھارتی اقدام نے چین کی خودمختاری کو بھی چیلنج کیا ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی سے خطے کی صورتحال بدل دی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں سے اپیل ہے کہ معاملے کا پرامن حل تلاش کریں۔ پاکستان کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر آج دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس سے بھارتی موقف کی نفی ہوئی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اسے عالمی تنازعہ قرار دیا گیا۔ اجلاس پاکستانی وزیر خارجہ کے خط پر طلب کیا گیا ۔ پاکستان نے یہ کوشش مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کیلئے کی ہے اور یہ مسئلے کے حل تک جاری رہے گی۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آواز سب سے بڑے بین الاقوامی فورم پر سنی گئی ہے۔ کشمیریوں کو قید کیا جاسکتا ہے ان کی آواز نہیں دبائی جاسکتی ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں پر ظلم و جبر کیا جارہا ہے۔ نہتے کشمیریوں کی آواز اعلیٰ ترین فورم پر سنی گئی ہے۔ ہم جموں و کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل چاہتے ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اجلاس میں ثابت ہوا کہ کشمیر عالمی تنازعہ ہے، کشمیریوں کی آواز ان کی سرزمین پر دبائی جارہی ہے۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت نے سیکورٹی کونسل کا اجلاس رکوانے کی بھرپور کوشش کی۔میں آج پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ مسئلہ کہ جسے بھارت نے مختلف حیلوں بہانوں سے دنیا کی۔ نظروں سے اوجھل رکھا آج بے نقاب ہو گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد وزارت خارجہ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے سیکورٹی کونسل کے اجلاس کے حوالے سے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں تھا کہ آج پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا۔13 اگست کو میرا خط صدر سیکورٹی کونسل اور تمام ممبران کو بھجوایا گیا۔خط دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان پر اجلاس میں گفتگو ہونی چاہیے۔1965 کے بعد پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں مسلہ کشمیر زیر بحث آیا۔میں سلامتی کونسل کے ممبران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔بھارت کے وزیر دفاع کا غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس پر وزارتِ خارجہ نے مشاورت کی ۔ہمارا ان کو ہما را جواب یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا یہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے پاکستان نے جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر کے حوالے سے ہمیشہ تحمل کی پالیسی اپنائے رکھی ہے اور رکھتا رہے گا۔ جب تک سیکورٹی کونسل کا اجلاس نہیں ہوا ہمیں خدشات رہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے ۔اس قدم کو سامنے رکھتے ہوئے آج انشاء اللہ ہم مزید بیٹھ کر مشاورت کریں گے اور اگلے لائحہ عمل سے آپ کو آگاہ کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عام پاکستانی ہم سے زیادہ سمجھدار ہے وہ پیغام دے چکا ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہے۔آج او آئی سی نے کہہ دیا ہے کہ بھارت سے کرفیو فی الفور اٹھایا جائے۔امہ کی نمائندگی کرنے والی او آئی سی نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک ہندوستان کا وزیر خارجہ کشمیر سے کرفیو نہیں ہٹاتا جارحیت کو ختم نہیں کرتا میں بطور وزیر خارجہ ان سے کوئی رابطہ نہیں کرونگا۔آر ایس ایس کی سوچ والوں سے بات چیت بے سود ہے۔آج اقوام متحدہ کی قراردادوں میں زندگی آ گئی ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق روس نے پاکستانی موقف کی حمایت کردی۔ اقوام متحدہ میں روس کے اول نائب مستقل مندوب دمتری پولیانسکی نے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ چارٹر، قراردادوں کے تحت حل کیا جائے۔ پاکستان اور بھارت شملہ معاہدے اور اعلامیہ لاہور کے تحت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ امید ہے مسئلہ کشمیر پر پاکستان بھارت اختلافات حل ہوں گے۔ چاہتے ہیں پاکستان بھارت مل کر مسائل کا سیاسی و سفارتی حل نکالیں۔ذرائع کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں 15اراکین ممالک کے مندوب شریک ہوئے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس تقریباً 90منٹ تک جاری رہا۔ سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن نے کشمیر میں بھارتی مظالم کی تحقیقات کی تجویز دی۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کا انعقاد پاکستان کی سفارتی محاذ پر بڑی کامیابی ہے اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑی، سلامتی کونسل کے 15 ارکان کی متفقہ رضا مندی سے پچاس سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب جموں و کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تبادلہ خیال ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ میں آخری بار 1965 میں جموں و کشمیر پر خصوصی گفتگو ہوئی تھی،اور 1965کے بعدمقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے انسانیت سوز وحشیانہ مظالم کے باوجود اقوام متحدہ میں کشمیری عوام کی آواز سنی نہیں جا رہی تھی۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تحریک پر ہندوستان کی مخالفت اور روکنے کی کوشش کی کے باوجودکشمیر کے معاملات پر اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کی متفقہ رضامندی سے سماعت ہو رہی ہے۔سلامتی کونسل نے کشمیرکے مسئلے پرغور کیلئے بھارت کے اس موقف اور پروپیگنڈے کوبھی مسترد کردیا کہ جموں و کشمیر بھارت کا ایک داخلی معاملہ ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس نے تنازعہ کی بین الاقوامی حیثیت کی ایک بار پھر تصدیق کر دی ہے۔ اجلاس میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ جموں و کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی جن قرار دادوں میں رائے شماری کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہ تمام قرار دادیںزندہ اور تنازعہ کشمیرکے حل میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔سلامتی کونسل میں ہونے والی بحث سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں او آئی سی، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سب سے اہم اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی تقویت دی ہے۔ تنازعہ کے پرامن حل کے لئے سلامتی کونسل میں اتفاق رائے پاکستان کے موقف کی واضح توثیق اور فتح ہے کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے جسے سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہئے نہ کہ یکطرفہ جبر کے ذریعے دبایا جائے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کی کارروائی جموں و کشمیر کے بھارت کے غیر قانونی منسلک ہونے کا جواب دینے کے لئے پاکستان کی سفارتی کوشش میں صرف پہلا قدم ہے۔ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہے گا اور اس وقت تک سفارتی محاذ پر بھارت کے جارحانہ عزائم کو بے نقاب کرتا رہے گا۔ جب تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کا منصفانہ حل نہ ہوجائے۔بھارت نے سلامتی کونسل کے اراکین سے رابطہ کرکے انہیں بتایا کہ کشمیر تنازع پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، یہ ان کا داخلی مسئلہ ہے۔واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ وادی میں مواصلاتی بندش سے اسے جیل میں تبدیل کردیا ہے، بھارت نے کشمیر کی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کردیا ہے جبکہ پاکستان اس تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یہ تنازعہ حل نہ کراسکی تو دنیا پاکستان اور بھارت کی جنگ سے ہونے والے اثرات کا سامنا کرے گی۔
بھارتی اقدام نے ہماری خود مختاری کو چیلنج کیا، چین
چین نے بھارتی جارحیت کے الف رد عمل کا اظہار کرتے ہوئینہ صرف ا سکی بھرپور مذمت کی ہے بلکہ کہا ہے کہ بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیرکی حیثیت تبدیل کی، لداخ سے متعلق بھارتی اقدام سے چین کو تشویش ہے، بھارتی اقدام نے چین کی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے۔ یاد رہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ختم ہوگیا۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 اراکین ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں تعینات چین کے مندوب کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کونسل اجلاس میں کشمیر کے معاملے پر تفصیلی بات ہوئی اور تمام ارکان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا، بھارت نے یک طرفہ طورپر کشمیر کی حیثیت تبدیل کی، لداخ سے متعلق بھارتی اقدام سے چین کو تشویش ہے، بھارتی اقدام نے چین کی خود مختاری کو چیلنج کیا ہے۔چینی مندوب کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے، تمام ارکان نے اتفاق کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیے۔مندوب نے کہا کہ چین بھی فریقین پر زور دیتا ہے وہ طاقت کے استعمال سے گریز کریں، مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان حل طلب مسئلہ ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور دو طرفہ معاہدہ کے تحت حل ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس:
کشمیر پر مشاورتی اجلاس کا مطلب کیا ہے؟
کئی دہائیوں میں پہلا موقع ہے جب سلامتی کونسل میں کسی بھی قسم کے اجلاس میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا تنازعہ ایجنڈے پر تھا۔واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل کو سلامتی کونسل کے صدر کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے استدعا کی تھی کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انڈین حکومت کے جارحانہ اقدامات پر نظر ڈالی جائے۔پاکستان اس سے پہلے بھی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو اسی موضوع پر دو خط لکھ چکا ہے۔ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر 1998 کے بعد پہلی بار بات چیت ہوئی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے جوہری تجربوں کے بعد اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1172 پر بحث ہوئی تھی۔
سکیورٹی کونسل کے اجلاس کا طریقہ کار
سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین پہلے بند کمرے میں اکٹھے ہونگے اور صلاح مشورہ کریں گے کہ اس معاملے میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔پہلے نتیجے پر بات ہوگی پھر بحث ہوگی۔ خفیہ طور پر پانچ ممالک مل کر صلاح مشورہ کرتے ہیں کہ نتیجہ کیا نکالنا ہے۔ اسی وجہ سے ہی اسے پانچ بڑی طاقتوں کی اجارہ داری کہا جاتا ہے۔اس اجلاس کے بعد بھی کونسل کے صدر کی طرف سے کوئی بیان سامنے آسکتا ہے جس میں دونوں ممالک کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں تحمل کا مظاہر کرتے ہوئے مذاکرات کریں اور کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔اگر اوپن ڈیبیٹ ہوتی ہے تو پھر قرارداد پر بحث شروع ہوگی جس میں اقوام متحدہ کے تمام 192 ممالک بھی حصہ لینے کے اہل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اجلاس ہفتہ کیا 20 دن تک بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔کونسل ابھی آوٹ کم پر بھی بات کرے گی۔ اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کونسل کے سامنے قرارداد کس شق کے تحت لائی جائے۔جنگی صورتحال کے خطرات کا تواتر سے جائزہ لینے کے لیے کونسل کوئی کمیشن بھی تشکیل دے سکتی ہے۔ اس سے قبل بھی جب مسئلہ کشمر پر دونوں ممالک کے درمیان جنگی خطرات بڑھ گئے تھے تو کونسل نے انڈیا پاکستان کمیشن بنا دیا تھا۔ بین الاقوامی مسئلے کے طور پر کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل غور کرتی رہتی ہے۔ لیکن ایکشن وہیں ہوتا ہے جہاں ایکشن لینا ہوتا ہے۔جیسے پیس اینڈ سکیورٹی کا مسئلہ بنا کر عراق کو تباہ کردیا گیا بعد میں معلوم ہوا نہ تو وہاں بڑے درجے پر تباہی کرنے والے ہتھیار تھے اور نہ ہی وہ پیس اور سکیورٹی کا مسئلہ نکلا۔اقوامِ متحدہ کے اس پانچ رکنی کمیشن نے 1949 میں استصوابِ رائے کی شرط رکھ کر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے کیا تھا۔ کمیشن میں کولمبیا، چیکوسلواکیا، برما، آرجنٹینا اور بیلجیئم کے سفیر شامل تھے
سلامتی کونسل نے کشمیر پر پہلے کیسے ایکشن لیا تھا
ماضی میں جب مہاراجہ کے دستخط سے انڈیا کے ساتھ الحاق سے متعلق (مبینہ طور پر) جعلی معاہدہ سامنے آیا تو کشمیر کی عوام بالکل اسی طرح اٹھ کھڑی ہوئی جس طرح اب احتجاج کر رہے ہیں۔ انڈیا نے صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں اور پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ چِھڑ گئی۔اس وقت کے انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اس معاملے کو سلامتی کونسل کے سامنے لے کر گئے۔ کونسل نے سب سے پہلے دونوں ممالک کو سیز فائر کا حکم دیتے ہوئے کشمیر سے فوجیں نکالنے کا کہا۔اس کے بعد چار سال تک استصوب رائے سے متعلق قراردادوں پر سلامتی کونسل میں بحث جاری رہی کہ کیسے اور کس طرح رائے شماری کرائی جائے۔ سلامتی کونسل کی مداخلت کے بعد انڈیا نے سری نگر سے فوجیں ہٹا دیں تھیں اور اب بھی کونسل اس قسم کا حکم دے سکتی ہے۔ انڈیا نے وعدے کے باوجود مکمل طور پر فوجیں نہیں ہٹائیں تھیں جس کی وجہ سے پاکستان نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں بھی فوج کو رکھا۔انڈیا بعد میں استصواب رائے کے وعدے سے بھی مکر گیا۔
سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔
قرارداد پاس کرنے کا طریقہ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے ۔
سلامتی کونسل نے کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے دونوں ممالک میں اپنے نمائندے بھی بھیج دیے تھے۔ یہ نمائندے اپنی رپورٹ کونسل کو بھیجتے رہتے ہیں۔ ہر سال کونسل ان قراردادوں پربغیر بحث کے رنیو کرتی رہتی ہے۔ عملدرآمد کے پہلو پر سلامتی کونسل کو محض ایک ڈبیٹنگ کلب ہی سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ دیکھی جائے تو نظر یہ آتا ہے کہ یہ ادارہ اب ایک رسمی کارروائی کے علاوہ کچھ نہیں اور انسانی حقوق پر بھی اب ملکی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔جب اقوام متحدہ بنی تھی اسے دنیا میں انسانیت کی بہترین امید کہا جاتا تھا لیکن اب یہ آخری بد ترین سے بھی بد ترین امید کہلائی جا سکتی ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے سامنے سینکڑوں قراردادیں پڑی ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔ کشمیر پر بھی قراردادیں یو این آرکائیو کا حصہ ہیں۔انڈیا نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے بجائے انکار کیا تو بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکے۔انڈیا نے 5 اگست کو سلامتی کونسل کے قراردادوں کو رد کر کے کشمیر کا جغرافیہ تبدیل کردیا لیکن ابھی تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے باوجود اس کے کہ آج تک کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔
حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستان کے لیے سلامتی کونسل کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان کو بھی مد نظر رکھا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے، سلامتی کونسل میں کوئی ہمارے لیے پھول کے ہار لے کرے نہیں کھڑا۔ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ ادارے اتنے آئئڈیل نہیں ہیں۔اس انسانی بحران میں جہاں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں دنیا میں کوئی اس پر آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔ انسانی حقوق پر سب سے زیادہ چیمپیئن بننے والی یورپین پارلیمنٹ کشمیر کے مسئلے پر مکمل خاموش ہے۔بالاکوٹ حملے کے بعد فرانس نے انڈیا کی حمایت میں بیان دیا تھا کہ اسے پلوامہ کے واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حق حاصل ہے۔ اُدھر امریکہ ہانک کانگ کے مسئلے کو ہوا دینے میں بھی مصروف ہے۔ اب وہ انڈیا کے حق میں واضح پوزیشن لیں گے۔فرانس تو خود لیبیا کی تباہی میں آگے آگے تھا تو یہاں کیسے انسانی حقوق کی بات سنی جاسکے گی۔ انڈیا اپنی طاقت اور سائز کے بل بوتے پر مغربی ممالک پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتا ہے۔ بڑی طاقتوں کے مفادات دیکھ کر مجھے لگتا نہیں ہے کہ اس معاملے پر پانچ ممالک متفق ہوسکیں گے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اس وقت ایک اوپن جیل` میں بدل دیا گیا ہے لیکن کوئی نہیں ہے جو اس بات پر کان دھرے۔ پاکستان کو ہر فورم پر یہ مسئلہ لے کر جانا چائیے اور کشمیر پر عالمی ضمیر کو جنجھوڑنا چایے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کا ضمیر کس حد تک جاگتا ہے۔
عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر اور بھارتی صوبہ آسام میں نسل کشی کا خطرہ ظاہر کیاہے۔
عالمی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق یہ وارننگ متعلقہ علاقوں میں نسل کشی کے سلسلے کی ابتدائی علامات کی صورت میں جاری کی جاتی ہے۔عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے اقوام متحدہ اوراس کے رکن ملکوں پر بھی زوردیاکہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کے لئے بھارت پردبائوڈالا جائے۔تنظیم نے بھارتی صوبہ آسام کی تشویشناک صورتحال پر بھی خدشہ ظاہر کیاہے جہاں لاکھوں بنگالی مسلمانوں کو شہریت کے حق سے محروم کیاجارہاہے۔آسام میں سترلاکھ سے زائدلوگوں کو جن میں اکثریت بنگالی مسلمانوں کی ہے ،بھارتی شہریت کاحق چھین کرانہیں غیرملکی باشندوں کے لئے بنائے گئے خصوصی حراستی مراکزمیں منتقل کیاجاسکتاہے۔
انڈیا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو انڈین آئین میں دیے جانے والے خصوصی درجے اور اختیارات کو ختم کر رہی ہے۔ انڈیا کے وزیرداخلہ امت شاہ نے پیر کو راجیہ سبھا یعنی انڈین پارلیمان کے ایوان بالا میں کشمیر کو نیم خودمختاری دینے والے آرٹیکل 370 ختم کرنے کی تجویز پیش کی جس پر صدرِ مملکت پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں۔انڈین آئین کا آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو دیگر انڈین ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ خودمختاری دیتا تھا اور یہ وہی شق ہے جس کی بنیاد پر یہ ریاست انڈیا کے ساتھ شامل ہوئی تھی۔ امت شاہ نے جو تجویز پارلیمان میں پیش کی اس کے مطابق جموں و کشمیر کی تنظیم نو کی جائے گی اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر اب مرکز کے زیر انتظام ریاست یا یونین ٹیریٹری ہو گی جن کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی اور وہاں لیفٹیننٹ گورنر تعینات کیا جائے گا جبکہ لداخ مرکز کے زیر انتظام ایسا علاقہ ہوگا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔انڈین وزیرِ داخلہ کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اعلان کے موقع پر راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور کشمیر میں بھی اس فیصلے پر سخت ردعمل کا آغاز شروع ہو گیا ہے۔ جس کو دبانے کے لئے اس فیصلے سے ایک روز پہلے ہی کشمیر میں بھاری تعداد میں فوج کے دستوں کی تیعناتی کے ساتھ ساتھ کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
کشمیریوں کا رد عمل
بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس اقدام سے قبل ہی چند دن سے کشمیر میں صورتِ حال کشیدہ ہے اور اس اعلان سے قبل انڈیا کے وادی میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کیے جا چکے ہیں۔وادی میں دفعہ 144 نافذ ہے جبکہ حکام نے نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی اور جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو ان کے گھروں میں نظربند کر دیا ہے۔دفعہ 144 کے تحت لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے اور وادی کے تمام تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ سری نگر سمیت پوری وادی کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اس اعلان سے قبل ہی قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈووال نے گذشتہ ہفتے خاموشی سے سرینگر کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے پولیس، فوج اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ سکیورٹی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔اور انہیں کسی بھی ممکنہ رد عمل کی صورت میں آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ واضح رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اچانک دس ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے ریاست میں یہ افواہیں گرم تھیں کہ مرکزی حکومت ریاست کو خصوصی درجہ دینے والی آئینی شق کو ختم کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اگر آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گر گئی تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں بس جائیں گے جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔یہ خدشہ صرف علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں بلکہ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاو میں پیش پیش ہیں۔
25۔ آرگنائزیشن آف اسلام کنٹریز(او آئی سی)
اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔او آئی سی نے ایک ٹویٹ میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال سمیت وہاں پیراملٹری فورسز کی تعیناتی اور انڈین فوج کی جانب سے شہریوں کو ممنوعہ کلسٹر بموں سے نشانہ بنائے جانے پر انتہائی تشویش ظاہر کی ہے۔
انڈین آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا۔اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت انڈین حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھی کشمیر بھارت کا حصہ تصور نہیں کیا جائے گا۔اس کی متنازعہ علاقے کی حیثیت اسی طرح برقرار رہے گی جس طرح یہ ماضی میں رہی ہے۔ اور اسے تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ بھارت سیکورٹی کونسل یا اقوام متحدہ کے دائرہ کار میں مداخلت کر رہا ہے۔کیونکہ بھارت نے کشمیری عوام کے بجائے اپنی ہٹ دھرمی اور بدمعاشی کو ترجیح دی ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کا مطلب کیا ہے؟
بھارت کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے مندرجہ ذیل تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔
- اس تبدیلی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔
- اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے بن جائیں گے جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہو گا اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔
- جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔
- آرٹیکل 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ مملکت تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
- اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلیٰ کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔
- لداخ کو بھی مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا ہے
- انڈیا کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جائیں گے۔ اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہو گا۔
- جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کی جگہ پانچ برس ہو جائے گی۔
- کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔
- وفاقی حکومت یا پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ جموں و کشمیر میں تعزیراتِ ہند کا نفاذ ہوگا یا پھر مقامی آر پی سی نافذ رہے گا۔
تقسیمِ برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے پہلے تو خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا تاہم بعدازاں مشروط طور پر انڈیا سے الحاق پر آمادگی ظاہر کی تھی۔اس صورتحال میں انڈیا کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔تاہم ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جس پر سنہ 1951 میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔انڈین آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ دراصل مرکز اور ریاستِ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا۔یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت انڈین حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ - آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تیر اور انھیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔
- انڈیا کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔
- اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔
- تاہم اب کسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔
- یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کر لیا گیا تھا۔
- کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔
- یہ خدشہ صرف کشمیر کے علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں بلکہ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاو میں پیش پیش رہے ہیں۔
35۔اے کی تاریخ
اس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد انڈیا کے پنجاب، ہریانہ اور دلی جبکہ پاکستان کے پنجاب اور سندھ سے لوگ کشمیر میں کاروبار کے سلسلے میں آتے تھے اور ان میں سے بیشتر یہاں آباد بھی ہوجاتے۔ 1927 میں جموں کے ہندو ڈوگروں نے اسُ وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو جموں کشمیر کے پشتینی باشندے اقلیت میں بدل جائیں گے اور ان کی روزی روٹی بھی ختم ہوجائے گی۔بعد ازاں کئی سال تک قانون سازی کی گئی اور حق باشندی کا قانون یا ‘سٹیٹ سبجیکٹ لا’ وجود میں آیا۔جموں میں نیشنل کانفرنس کے رہنما دیوندر سنگھ رانا کہتے ہیں: ‘دفعہ 35-A کو ختم کیا گیا تو جموں کے ڈوگروں کی شناخت ہی ختم ہوجائے گی۔ یہاں جموں کشمیر کی پولیس نہیں بلکہ پنجاب پولیس نظر آئے گی جو ڈوگروں پر ظلم کرے گی۔ نوجوانوں کے روزگار پر اثر پڑے گا، ہماری منفرد ثقافت کو بھارت سے آنے والے کروڑوں لوگ نگل لیں گے۔
شق 35 اے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت اور اس کی سماعت جلد ہی شروع ہونے والی ہے۔ حکمراں جماعت بی جے پی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ وہ دفعہ 35 اے اور 370 کو ختم کرے گی۔ ابھی حال میں وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ دفعہ 35 اے ایک عبوری انتظام ہے۔اس شق میں اِس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ کون کشمیر کا مستقل رہائشی ہے۔ صرف مستقل رہائشی ہی کشمیر میں آباد ہو سکتا ہے اور زمین خرید نے کا مجاز ہے۔ وادی کی جماعتوں کو خدشہ ہے کہ اس خصوصی دفعہ کو ختم کر کے مرکزی حکومت کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کئی سال سے ہورہی ہے اور اکثر اوقات سماعت موخر ہوجاتی ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی فرد یا جماعت آئین کی کسی شق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے تو حکومت ہند عدالت میں اس کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن نریندرمودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ بی جے پی بھی چاہتی ہے کہ جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ مکمل ادغام ہو، لہذا حکومت اس معاملے میں خاموش ہے اور عندیہ یہ دیا جارہا ہے کہ جو کچھ کرے گی سپریم کورٹ کرے گی۔ 6 اگست کو اس کیس کی سماعت تین میں سے ایک جج کی غیرحاضری کے باعث موخر ہوگئی تاہم اگلی سماعت کی تاریخ 27 اگست مقرر کی گئی ہے۔تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ یا تو ایک وسیع آئینی بینچ کا تعین کرکے اس معاملے پر دوبارہ غور کرے گی اور بعد ازاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ 35-A کو پارلیمنٹ میں بحث اور توثیق کے لیے ریفر کیا جائے۔ بی جے پی کے اعتراض کی بنیاد ہھی یہی ہے کہ اس آئینی دفعہ کو ‘چوردروازے’ سے آئین میں داخل کرایا گیا اور پارلیمنٹ میں اس پر نہ بحث ہوئی اور نہ اس کی توثیق ہوئی۔انڈین سپریم کورٹ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جائیداد سے متعلق خصوصی قانون کے حوالے سے ایک درخواست پر سماعت چل رہی ہے۔یہ قانون 35 اے کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے تحت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے باشندے ہی جائیداد کی ملکیت کا حق رکھتے ہیں اور وہی وہاں کی زمین کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کی تعریف متعین کرنے کا حق دینے والا قانون ہے۔ اس قانون کا نفاذ وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں اور لداخ کے خطوں پر بھی ہوتا ہے۔اس کے تحت ریاست کے سبھی مستقل شہریوں کو ایک مستقل شہری سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے جو انھیں کام کرنے اور سکالر شپ جیسی خاص سہولیات حاصل کرنے میں معاون ہوتا ہے۔لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس قانون کے تحت مستقل شہریوں کے پاس جائیداد خریدنے اور زمین کا مالکانہ حق رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔یہ قانون کشمیر میں 14 مئی سنہ 1954 کو منظور ہوا تھا۔ اس کے تحت قانون بننے کے وقت اور کشمیر میں کسی بھی وقت سے دس برس تک رہنے والوں کو مستقل شہری کہا جاتا ہے۔ریاست کی اسمبلی دو تہائی اکثریت کے ساتھ کشمیر کے مستقل شہری کی اس تعریف کو تبدیل بھی کر سکتی ہے۔کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 میں پہلی بار اس قانون کو منظور کیا تھا تاکہ شمالی پنجاب سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ رک سکے۔کشمیر کے بعض طاقتور ہندو خاندانوں نے ہی راجہ ہری سنگھ سے یہ قدم اٹھانے کی اپیل کی تھی۔ پاکستانی کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ حصوں میں یہ قانون اب بھی نافذ ہے۔انڈیا میں اس قانون کو موجودہ شکل میں سنہ 1954 میں تسلیم کیا گیا۔ یہ آئین کی دفعہ 370 کا ایک حصہ ہے جو کشمیر کو ایک خصوصی ریاست کا درجہ دیتا ہے۔آئین کا یہ جز ریاست کو ایک علحیدہ آئین، مختلف پرچم اور دیگر تمام معاملات میں آزاد رہنے کا حق دیتا ہے۔ لیکن خارجی امور، دفاع اور مواصلات کے معاملے انڈین حکومت کے پاس ہیں۔جب سنہ 1956 میں جموں کشمیر کے آئین کو تسلیم کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی دو برس پرانے مستقل شہریت والے قانون کو بھی تسلیم کر لیا گیا۔ یہ قانون کشمیر کی مخصوص علاقائی شناخت کی حفاظت کرتا ہے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اس کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ اس صورت حال میں کشمیریوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ ہندو قوم پرست گروپ ہندوں کو کشمیر میں آنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔کشمیریوں کے انڈیا کے ساتھ تعلقات تلخ رہے ہیں اور اسی وجہ سے کشمیریوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس قانون میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے، کیونکہ کشمیر میں سنہ 1989 سے انڈیا کے خلاف مسلح جد و جہد جاری ہے۔انڈیا کشمیر میں عدم استحکام کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ لیکن پاکستان ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتا رہا ہے۔ دونوں ہی ملک پورے کشمیر پر دعویٰ کرتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے پاس کشمیر کے مختلف حصوں کا کنٹرول ہے۔انڈیا کی سپریم کورٹ میں اس خصوصی قانون کے معاملے پر سماعت چل رہی ہے۔ ‘وی دی سٹیزن نام کی ایک تنظیم نے سنہ 2014 میں اس قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی۔کشمیر کی ریاستی حکومت نے عدالت میں اس قانون کا دفاع کیا ہے۔ لیکن ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے عدالت میں اس معاملے پر تفصیلی بحث کا مطالبہ کیا ہے۔سنہ 2014 میں مرکز میں حکومت بنانے سے پہلے بی جے پی کشمیر کے خصوصی درجے کو ہٹانے کے حق میں بیان دیتی رہی ہے۔ لیکن اب وبی جے پی جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت چلا رہی ہے اور پی ڈی پی کے قانون میں تبدیلی کے لے تیار ہونے کا امکان نہیں ہے۔آئین کے ماہر اے جی نورانی کہتے ہیں: ‘انڈین پارلیمنٹ کشمیریوں کے لیے قانون نہیں بنا سکتی۔ اس کا حق صرف ریاستی حکومت کے پاس ہے۔قانون کا دفاع کرنے والے فریقوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت ہند کشمیر کے خصوصی درجے کی حفاظت کے اپنے وعدے سے منحرف ہو جائے گی۔اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ یہ خصوصی قانون منسوخ ہونے کے بعد جموں و کشمیر میں باہر کے لوگوں کا آنا شروع ہو جائے گا جس سے ریاست کی علاقائی شناخت بدل کر رہ جائے گی۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کی منسوخی جموں اور لداخ کے لیے سنگین نتائج لے کر آئے گی۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انڈیا اور کشمیر کا جو نازک رشتہ ہے وہ ٹوٹ جائے گا۔
370 اور 35۔اے کا خاتمہ ۔میڈیا کی پیش گوئیاں
انٹرنیشنل میڈیا نے 2017 میں مودی کے ارادوں کو بے ناپب کر دیا تھا کہ وہ کشمیر میں اہنے مذموم اراوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے کشمیر کو انڈیا میں ضم کر سکتا ہے۔ یروشلم کے اعلان پر کشمیری برہم کے عنوان سے لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں کشمیر کے معروف صحافی ریاض مسرور جن کا تعلق بی بی سی اردو سروس سری نگر سے ہے نے 9 دسمبر 2017 کو لکھا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اچانک دس ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے ریاست میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ مرکزی حکومت ریاست کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
میڈیا میں رپورٹس کے مطابق گزشتہ دنوں قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار ڈوبال نے خاموشی سے سرینگر کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نیپولیس، فوج اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ سیکورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔ ان کے دورے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ان کے دورے کے فوراً بعد وادی میں دس ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے پہلے سے ہی موجود ان اندیشوں کو ہوا ملی ہے کہ حکومت کوئی بڑا قدم اٹھانے جا رہی ہے۔ ریاست کے بعض سینیئر پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ قدم امن و قانون کی صورتحال کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔اس دوران جموں و کشمیر پولیس نے سرینگرکے سبھی پانچوں سپرینٹنڈنٹ آف پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے اپنے علاقے کی سبھی مسجدوں کے اماموں اور ان کی انتظامیہ کے ارکان کی تفصیلات بھیجیں۔سری نگر کے ایس ایس پی حسیب مغل کے مطابق یہ حکم ‘معمول کا عمل’ ہے اور یہ پولیس کے ریکارڈ کو صحیح رکھنے کے لیے وفتآ فوقتآ کیا جاتا ہے۔ پولیس کے حکم نامے کے مطابق یہ تفصیلات اعلیٰ حکام کو بھیجی جائیں گی۔ریلوے پروٹکشن فورس کے ایک ڈویژنل کمشنر سے منسوب ایک خط جاری کیے جانے کی بھی خبر آئی ہے جس میں انھوں نے وادی میں ممکنہ ہنگامی حالات کے بارے میں الرٹ کیا ہے۔ اس مبینہ خط کو سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی ٹویٹ کیا تھا۔اس خط میں ریلوے کے پولیس اہلکاروں سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے کم ازکم چارمہینے کے لیے غلہ اور ایک ہفتے کے لیے پانی جمع کر لیں۔ لیکن اس خط کے جاری کیے جانے کے فوراً بعد ریلوے کی وزارت نے اس خط کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ متعلقہ اہلکار کو اس طرح کا خط جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ریلوے کے مقامی اہلکار نے بعد میں تردید کی کہ اس طرح کا کوئی خط ان کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔سینیئر پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اضافی فوج کا اقدام امن و قانون کی صورتحال کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔ایک مقامی خبر رساں ایجنسی نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ وادی میں دس ہزار اضافی فوج خفیہ ایجنسیوں کی اس اطلاع کے بعد تعینات کی گئی ہے کہ پاکستان میں واقع ایک شدت پسند تنظیم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کسی بڑے حملے کی تیاری کر رہی ہے۔شورش زدہ وادی میں کنفیوژن اور خوف کا عالم ہے۔ لوگ غیر یقینی صورتحال اور انجانے اندیشوں کی گرفت میں ہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان نہ آنے کے سبب صورتحال اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ بدھ سے جموں و کشمیر کا دو روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں۔ یہ عام انتخابات میں بی جے پی کی فتح اور امت شاہ کے بطور وزیرِ داخلہ انتخاب کے بعد ان کا پہلا دورہ کشمیر ہے۔اس دورے کے دوران وہ گورنر ستیہ پال ملک اور اعلیٰ سکیورٹی حکام کے ساتھ تبادلہ خیال تو کریں گے ہی لیکن یہ دورہ گورنر کے اُن اشاروں کے پس منظر میں ہو رہا ہے جو انھوں نے حالیہ دنوں علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں دیے تھے۔گورنر ملک نے دعوی کیا تھا کہ علیحدگی پسند گروپوں کے سیاسی اتحاد حریت کانفرنس کے رہنما مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ نئی دلّی اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے درمیان مذاکرات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی کی تمام کوششیں فریقین کی طرف سے شرائط پر آ کر رُک جاتی تھیں۔ علیحدگی پسندوں کا موقف ہے کہ انڈیا کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کرے، فوجی قوانین معطل کرے، قیدیوں کو رہا کرے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیری علیحدگی پسندوں کو بنیادی فریق تسلیم کرے۔تاہم انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ آئین ہند کے طے شدہ ضابطوں کے تحت بات چیت پر تیار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حریت کانفرنس کشمیر کو انڈیا کا اٹوٹ انگ تسلیم کرے اور اقوام متحدہ میں منظور شدہ قراردادوں پر عمل کے لیے اصرار نہ کرے جن کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیری خطوں میں رائے شماری کے ذریعہ آبادی کے سیاسی مستقبل کا تعین ہوگا۔مبصرین کہتے ہیں کہ اگر اس بار فریقین غیرمشروط مذاکرات پر آمادہ ہوئے تو حالات میں بہتری کی توقع ہے۔ صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں کہ اگر امت شاہ کا دورہ واقعی نئی دلی کے موقف میں تبدیلی کا مظہر ہے تو فریقین کو غیرمشروط بات چیت کرنی چاہیے۔مذاکرات کے بارے میں حکومت ہند نے ابھی سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔ وزیر داخلہ کی طرف سے سرینگر میں کوئی پریس کانفرنس طے نہیں ہے، تاہم انھیں یہاں بی جے پی کے مقامی کارکنوں سے خطاب کرنا ہے۔ سب کی نظریں اسی خطاب پر ہوں گی۔آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ نئی دلی اور اسلام آباد میں کسی نہ کسی سطح پر افہام و تفہیم کی باتیں ہورہی ہیں تاہم کشمیرکے زمینی حالات اس قدر غیریقینیت کا شکار ہیں کہ کچھ بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔
شملہ معاہدہ
بھارت نے شملہ معاہدے میں یہ طے کیا تھا کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے گا لیکن اب وہ اس پر تیار نظر نہیں آ رہا ہے۔دیگر ریاستوں کے برعکس، کشمیر کبھی انڈیا میں ضم ہی نہیں ہوا لیکن اب کشمیر 70 سال پیچھے چلا گیا ہے ۔370 کے خاتمے سے آج بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک کے ایجنڈے کی تشکیل ہوئی ہے جنھوں نے اپنے منشور میں بھی یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35- A کو ختم کردیں گے۔ بی جے پی کے لیے آرٹیکل 370 ایک رکاوٹ تھا۔ بے جے پی اور آر ایس ایس نے اکھنڈ بھارت کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آگ اور خون کا کھیل کھیلا۔اور اس کے پہلے قدم کے طور پر انھوں نے آئین کو ہی بدل ڈالا۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعداقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا کشمیر پر اجلاس پاکستان کی سفارتی فتح ہے۔ پاکستان نے کامیاب سفارتکاری سے مسئلہ کشمیر بین الا قوامی سطح پر اجاگر کر دیا ہے اور اب یہ دوبارہ عالمی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ لہذا سیکیو رٹی کونسل کا اجلاس ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اجلا س کے بعد چینی مندوب کی گفتگو پاکستانی موقف کی کھلی حمایت ہے۔ اقوام متحدہ کی نیوز ایجنسی نے بھی تصدیق کہ اجلاس کشمیر کے بارے میں تھا۔بھارت کا پہلا موقف تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کشمیر میں بھارتی اقدامات کی کوئی مذمت نہیں کی ہے۔ ان اقدامات کو واپس لینے کے لیے بھی نہیں کہا۔ یوں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ سیکیو رٹی کونسل نے بھارتی اقدامات کی توثیق کی ہے۔ سیکیورٹی کونسل نے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ختم کرنے اور نہ ہی گرفتار افراد کی رہائی کے لیے کہا ہے۔ اس تناظر بھارت ایک جانب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کو اپنی ناکامی مان رہا ہے لیکن اس اجلاس کے نتائج کو کامیابی قرار دے رہاہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں حل کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن اس ضمن میں بھارت کی چال بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ کے تحت حل کرنے پر اتفاق ہوا، دونوں اقوام متحدہ گئے اور وہاں سے قرادادوں کے ذریعے حل تجویز ہوا۔ تا ہم 1972ء میں شملہ معاہدہ کے تحت یہ طے کر لیا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سمیت تمام معاملات باہمی مذاکرات سے حل کریں گے۔ یوں جب نیا معاہدہ ہو جائے تو پرانا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ شملہ معاہدہ بھی رہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی عمل میں رہیں۔
شملہ معاہدہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک پاکستان اور بھار ت کی پارلیمنٹ کی توثیق سے عمل میں آیا تھا۔ لیکن اب جب بھارت کی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370اور 35 -Aکو ختم کرنے کے حو الے سے ترامیم منظور کر لی ہیں تو شملہ معاہدہ کی تجدید کا وقت آگیا ہے۔ شملہ معاہدہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ
That the two countries are resolved to settle their differences by peaceful means through bilateral negotiations or by any other peaceful means mutually agreed upon between them. Pending the final settlement of any of the problems between the two countries، neither side shall unilaterally alter the situation and both shall prevent the organization، assistance or encouragement of any acts detrimental to the maintenance of peaceful and harmonious relations;
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی پارلیمنٹ کے اقدامات شملہ معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ ایک طرفٖ بھارتی پارلیمنٹ نے شملہ معاہدہ کی توثیق کی ہوئی ہے۔ اب انھوں نے خود ہی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کر دی ہے۔ اس لیے اس کے بعد شملہ معاہدہ کو ختم کرنے کا واضح جواز موجود ہے۔ اسی طرح شملہ معاہدہ میں لکھا ہوا ہے۔
In Jammu and Kashmir، the line of control resulting from the cease-fire of December 17، 1971 shall be respected by both sides without prejudice to the recognized position of either side. Neither side shall seek to alter it unilaterally، irrespective of mutual differences and legal interpretations. Both sides further undertake to refrain from the threat or the use of force in violation of this Line.
بھارت کے حالیہ اقدامات بھی شملہ معاہدہ کی اس شق کی و اضع خلاف ورزی ہیں۔ اسی طرح روزانہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے گولہ باری بھی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ جب بھارت سیز فائر کا احترام ہی نہیں کر رہا تو کس بات کا شملہ معاہدہ۔ کیا ہم نے شملہ معاہدہ صرف بھارت کو اقوام متحدہ سے راہ فرار حاصل کرنے کے لیے جواز فراہم کرنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔
شملہ معاہدہ میں لکھا ہوا ہے کہ
That the pre-requisite for reconciliation، good neighbourliness and durable peace between them is a commitment by both the countries to peaceful co-existence، respect for each others territorial integrity and sovereignty and non-interference in each others internal affairs، on the basis of equality and mutual benefit;
کیا اس شق پر عمل ہوا ہے؟کیا شملہ معاہدہ کے بعد بھارت نے سیا چن پر پاکستانی علاقوں پر قبضہ نہیں کیا ہے؟ کیا سیاچن پر بھارت کی پیش قدمی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں تھی؟کیا بلوچستان میں بھارت نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی؟ کیا گزشتہ سال 15اگست کو مودی کی تقریر جس میں اس نے بلوچستان کی بات کی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ کیا شملہ معاہدہ سرکریک کا معاملہ حل کر سکا ہے؟ آپ دیکھیں شملہ معاہد ہ کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بھی تنازعہ حل نہیں ہو سکا ہے۔
عا لمی برا دری کی
ذمہ داری اور امن
حا ل ہی میں ہما ری حکو مت نے پاکستان کے اندر بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابلِ تردید شواہد اقوام متحدہ کو پیش کردیئے ہیں اور پاکستان پرامید ہے کہ ان شواہد کے بعد عالمی برادری بھارت پر دبائو ڈالے گی۔ حکومت کی یہ توقعات بجا ہیں، امن عالم کی خاطر عدم استحکام اور انتشار کی ان کوششوں کا عالمی برادری کو ضرور نوٹس لینا چاہیے، مگر واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ بھارت ہی کے معاملے میں دیکھ لیں کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے بڑھ کر مداخلت، عدم استحکام، انتشار اور دہشت گردی کا ثبوت کیا ہوگا۔ مگر اس کے با وجو د دنیا کے رویے میں نمایاں تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی۔ تا ہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پاکستان مایوس ہوکر بیٹھ جائے اور ننگی جارحیت کے یہ ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرنا روک دیئے جائیں، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی مداخلت اور جارحیت کے یہ ٹھوس شواہد مزید صراحت کے ساتھ پیش کیے جائیں اور ثابت کیا جائے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم اور اقدامات کس طرح دو ایٹمی قوتوں کے تصادم کا اندیشہ پیدا کر رہے ہیں اور اس خطے کے امن کو اس سے کس قدر خطرات درپیش ہیں۔ دنیا کے اس دُہرے معیار کا محاسبہ بھی کیا جانا چاہیے کہ جہاں پاکستان پر لگائے گئے بے بنیاد بھارتی الزامات کو بڑے شدو مد کے ساتھ اُٹھایا جاتا ہے لیکن بھارت جو اپنی جارحانہ پالیسی کے ذریعے جنوبی ایشیا کے لیے غیرمعمولی خطرات کا سبب بن رہا ہے دنیا اس سے چشم پوشی کی مرتکب ہے۔ بے شک اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھا رت پاکستان سے پا نچ گنا بڑا ملک ہے۔اسی لحا ظ سے اس کی دنیا کے د یگر مما لک کے سا تھ تجا رت زیا دہ ہے، تا ہم اگر اس وجہ سے اس کے جرا ئم کی پر دہ پو شی کی جا ئے تو عقلِ سلیم یہ سمجھنے سے قا صر ہے کہ پھر اقوا مِ متحد ہ کا ادارہ کس مر ض کی دوا ہے۔ اب جبکہ پوری دنیا انٹر نیٹ ٹیکنا لو جی کی بنا پر سمٹ کر ایک گلوبل گا ئو ں کی شکل اختیار کر چکی ہے،حیر ت کی بات ہے کہ فلسطین اور مقبو ضہ کشمیر کے مظلو مو ں کی چیخیں دنیا کے کا نو ں تک نہیں پہنچ ر ہیں۔ اقوا مِ عا لم سے یہ سوال پو چھنا بنتا ہے کہ آ خر کب تک دنیا میں جس کی لا ٹھی اس کی بھینس کا اصو ل نا فذ العمل رہے گا؟ کیا یہ سمجھ لیا جا ئے کہ انصا ف نا می چڑیا کا ہمارے کر ہِ ا ر ض سے کو ئی تعلق نہیں؟ پاکستان کی شکایات اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں سے جائز ہیں کہ بھارتی الزام تراشی کی رو میں بہنے کے بجائے اگر اقوا مِ متحد ہ جیسے اداروں اور تنظیموں نے بھارت کے اصل کردار کو عیاں کرنے والے ثبوتوں پر توجہ دی ہوتی اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں تو بھارت کی جانب سے عالمی اور علاقائی امن کو لاحق خطرات یقینا کم ہوتے۔ پاکستان کو عالمی اداروں کو ان ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے پرعزم اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ کام عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ، دانشور حلقوں، سیاسی رہنمائوں، عالمی امن کے لیے متحرک تنظیموں اور معاشی ترقی کے شراکت داروں کو ساتھ ملا کر کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی جارحیت کے باوجود اگر دنیا کو اپنی بات منوانے میں ہمیں کسی دشواری کا سامنا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری جانب سے اپنا موقف اس زوردار انداز سے بیان نہیں کیا جاتا، فی زمانہ جس کی اشد ضرورت ہے۔ کیا یہ بات حقیقت پہ مبنی نہیں کہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بیا ن دینے میں ہما را کو ئی ثا نی نہیں؟ ہر سا ل پانچ فر وری کو ہم مقبو ضہ کشمیر میں ہو نے وا لے مظا لم کی یا د تا زہ کر نے کے لئے چھٹی کر تے ہیں ، ریلیا ں نکالتے ہیں ، مقبو ضہ وا دی کو بھا رتی تسلط سے آ زا د کرانے کا نئے سر ے سے عہد کر تے ہیں ، مگر اس کے بعد؟؟؟اقوام متحدہ بے شک سب سے معتبر عالمی پلیٹ فارم ہے مگر اس پلیٹ فارم پر بیان کی گئی بہت سی باتیں عالمی توجہ حاصل نہیں کر پائیں، اس لیے مساوی پلیٹ فارمز کی سطح پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی جارحیت اور اس کے مضمرات کے حوالے سے پاکستان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ یہ عالمی رائے ساز حلقوں میں پاکستانی موقف کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں اور اگر پاکستان کی جانب سے یہ کوشش کامیابی کے ساتھ سرانجام دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا پر عیاں نہ ہو۔ ہماری جانب سے آج تک ایسی مربوط کوشش نظر نہیں آئی مگر بھارت کو اس ناکامی کا فائدہ حاصل ہوا ہے اور اس خلا میں بے بنیاد بھارتی الزامات اور پراپیگنڈے کو پھیلنے کا موقع ملا ہے۔ عالمی رائے ساز حلقوں میں بھارت کو بروقت روکنے کی ضرورت تھی اور ایسا نہ ہونے کے جو نتائج ہیں وہ بھی ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ چنانچہ اب ضروری ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے اور پاکستان اپنا موقف دنیا کے سامنے پوری تفصیل اور شواہد کے ساتھ پیش کرے۔ لائن آف کنٹرول پر آئے روز کی بھارتی جارحیت دوسرا اہم معاملہ ہے جس پر دنیا کو خبردار کرنا ضروری ہے۔ رواں سال بھارت لائن آف کنٹرول کی اڑھائی ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کر چکا ہے۔ ان واقعات پر عموماً بھارتی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا جاتا ہے، مگر ضروری ہے کہ متاثرہ علاقوں کی کوریج اور نقصان کی تفصیلات کو جاننے کے لیے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور غیرملکی سفارت کاروں کے دوروں کا بھی مناسب بندوبست کیا جائے۔ اس قسم کے دورے منعقد کیے جاتے ہیں مگر بھارت کا جارحانہ چہرہ عیاں کرنے کے لیے ایسے واقعات کی تفصیلات کو مزید عام کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا کو بھی اس کام کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جہاں بھارتی جارحیت، مداخلت اور دہشت گردی کے شواہد اور تفصیلات موجود ہوں۔ یہ معلومات کا دور ہے تو کیوں نہ اس معرکے کو اس کے اصل میدان میں لڑا جائے۔ سی پیک کے منصوبوں کو ہم پاکستان کے تابناک معاشی مستقبل کا سنگ میل سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس راستے کی بڑی بڑی رکاوٹیں کیا ہیں۔ چنانچہ ان رکاوٹوں سے نمٹنے کے لیے بھی اسی دم خم کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے جس عزم کے ساتھ ہم سی پیک کی ترقیاتی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ یقینا اس حوالے سے کام ہو بھی رہا ہے، بھارت کے ناپاک منصوبوں کا توڑ کیا جارہا ہے، مگر یہ شواہد دنیا تک پہنچنے چاہئیں۔ وزیراعظم صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ان ثبوتوں کے بعد دنیا خاموش نہیں رہ سکتی، بلاشبہ امن عالم کے لیے دنیا کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ مگر دنیا کو اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ایک شے ہو تی ہے جسے انگر یز ی میں فا لو اپ کہا جا تا ہے۔ بے شک ہم نے کا فی سے ز یا دہ ثبو ت فر اہم کر دیئے ہیں، مگر ضر ور ت اس امر کی ہے کہ ہم وقتاً فو وقتا ًدنیا کی تو جہ اس جا نب مبذول کر اتے رہیں ۔
اس کے ساتھ ہی بات بھی خوش ائند ہے کہ گذشتہ دنوں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر 6 امریکی سینیٹرز نے بھارت میں امریکی سفیر کینتھ جسٹر اور پاکستان میں امریکی ناظم الامور پال جونز کو خطوط لکھ دیے۔امریکی سینیٹرز نے خط میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خط لکھنے والے سینیٹرز میں الہان عمر، رال ایم گریجلوا، اینڈی لیون، جیمز مک گورن، ٹیڈ لیو، ڈونلڈ بیئر اور ایلن لواینتھل شامل ہیں۔سینیٹرز نے خط میں لکھا ہے کہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر میں مواصلاتی رابطے بند کر رکھے ہیں اور بھارتی حکومت کی یہ روش جمہوری اور انسانی حقوق دونوں کے منافی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو، اظہار رائے، اجتماعات اور نقل وحرکت پر بندشیں سب ناقابل قبول پابندیاں ہیں، جموں و کشمیر سے اصل حقائق اور خبریں باہر نہیں آنے دی جارہیں اور بڑی تعداد میں جبری گرفتاریوں، عصمت دری، سیاسی اور مقامی رہنماوں کی گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں۔سینیٹرز کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی جموں و کشمیر کی صورتحال پر الرٹ جاری کیے ہیں، جینوسائیڈ واچ کے کشمیر میں نسل کشی کے الرٹ پر ہمیں بھی گہری تشویش ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ اس ساری صورتحال سے پاکستان بھارت کے تعلقات مزید خراب ہونیکا خدشہ ہے، موجودہ خطرناک صورتحال پوری دنیا اور امریکا کیلئے بھی خطرہ ہیں، پاکستان بھارت دونوں ہمارے اہم اتحادی ہیں، آپ دونوں اپنے دائرہ اختیار کے مطابق کشمیر کے مسئلے میں ہر ممکن مدد کریں۔ امریکی سینیٹرز نے مطالبہ کیا کہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیاں اٹھانے، صحافیوں کی وادی میں رسائی، غیر قانونی حراست میں قید کشمیریوں کی رہائی، انسانی حقوق کی آزادانہ تحقیقات، پاکستان بھارت کے درمیان تناو کم کرانے اور کشمیریوں کو حق رائے دہی دلوانے کیلئے بھی بھارتی حکومت پردباو ڈالیں۔یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں 41 روز سے مسلسل لاک ڈاون جاری ہے جس کے باعث وادی میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں بچوں کے دودھ، ادویات اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہے، ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند ہیں۔
کشمیر کے ٹکڑے در ٹکڑے در ٹکڑے۔۔۔۔۔
اور کشمیر پر اپنا حق جتلانے والے فریقین
لہو لہو کشمیر کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ تاکہ آزادی کشمیر کیلئے جدو جہد کرنے والے افراد نہ سرف کمزور ہوں۔ بلکہ ڈیرھ اینٹ کی مسجد بنا کر آپس میں ہی برسر پیکار رہیں۔ مگر کیا اس طرح کشمیر کے ھصے بخرے کرنے سے کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو کمزور کیا جاسکتا ہے؟ نہیں ہرگرز نہیں۔۔۔۔۔! کشمیری اپنی حق کے لئے اب یا کبھی نہیں کے مرحلے پر آ گئے ہیں۔اور وہ دن دور نہیں جب وہ اپنی امنگوں کے مطابق کشمیر کو آزاد کرا سکین گے!
ابرار احمد
ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا (لداخ، گلگت و بلتستان) 85806 مربع میل پر مشتمل ہے ،یہ خطہ اپنی ابتداء سے انتظامی طور پر تین اکائیوں پر مشتمل رہا ہے ۔ ڈوگرہ دور میںکشمیر اول انتظامی اکائی رہی جموں دوسری انتظامی اکائی اورگلگت بلتستان و لداخ (تبتہا) تیسری انتظامی اکائی تھی ۔جبکہ ریاست کی تقسیم کے بعد 1947 سے کچھ جغرافیائی تبدیلیوں کے ساتھ انتظامی طور پر ریاست بدستور تین انتظامی اکائیوں میں منقسم ہے اور یہ تقسیم ریاست کے عوام کیلئے انتظامی سہولت کے اعتبار سے ہے۔ اگر ریاست کے ان برفانی علاقوں کو بھی شمار کیا جائے جو ناقابلِ رہائش ہیں اور چین کاحصہ ہیں تو ریاست کی موجودہ جغرافیائی تقسیم پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ (بھارت اور چین کی جنگ کے بعد 1962 میں اقصائے چن کا علاقہ باقاعدہ طور پر چین کے قبضے میں چلا گیا، جبکہ وادیء شکسگام کو 1965 میں پاکستان نے چین کو تحفے میں دے دیاتھا ۔
ریاست کی 1947 سے انتظامی تقسیم کا ایک مخصوص اور محدود سیاسی پس منظر ہے ۔مگر حقیقت میں ریاست جموں و کشمیر کوعمومی طور پر اختصار کی غرض سے اقصائے تبتہا نہیں لکھا جاتا۔ اقصائے تبتہا سے مراد لداخ، گلگت اور بلتستان کے تمام علاقے ہیں۔ ثقافتی، تاریخی، لسانی، اور جغرافیائی اعتبار سے کشمیر کئی ایک اکائیوں پر مشتمل ہے ۔میں اپنی بات کرنے سے قبل قارئین کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرواتی ہوں کہ مختلف ادوار میں ریاستوں کی سرحدیں گھٹتی بڑھتی بھی رہتی ہیں – ایک وقت تھا کہ سارا پوٹھوہار، چکوال، جہلم، خوشاب وغیرہ کوہ نمک سمیت جموں کا حصہ تھا – اسی طرح کشمیر میں بہت عرصے تک مری اور ہزارہ بھی شامل رہے ہیں – اسی طرح تاریخ کے مختلف ادوار میں چترال اور کوہستان کے علاقے بھی گلگت بلتستان کے انتظامی کنٹرول میں شامل رہے ہیں۔
مگر زیر نظر مضمون میں جن تاریخی اور ثقافتی اکائیوں کی بات ہو رہی ہے وہ 85806 مربع میل پر محیط ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا ہے اور یہ جغرافیائی سرحدیں جدید دنیا میں تمام عالمی طاقتوں اور اقوامِ متحدہ کی توجہ کا مرکز ہیں -اس ریاست کی ثقافتی اکائیاں جو تاریخی اعتبار سے انتظامی امور میں خودمختار رہی ہیں یا دوسری اکائیوں سے جدا رہی ہیں ان میں1 – جموں، 2 – پونچھ، – کارگل،4 – لہیہ، 5 – بلتستان، 6 – گلگت، 7 – کشمیر، 8 – ہنزہ، اور 9 – نگر شامل ہے۔یوں ہم دیکھتے ھیں کہ ریاست کی تین انتظامی اکائیاں کم از کم نو ذیلی اکائیوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں – اگر اور زیادہ گہرائی میں جائیں تو یہ جغرافیائی تقسیم لسانی اور مذہبی اعتبار سے اور زیادہ وسیع ہو جاتی ہے ۔اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ لسانی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے اتنی متنوع ریاست تین انتظامی اکائیوں میں کیسے ڈھلی، اسکا پس منظر کیا ہے؟ اور اسکی اہمیت کیا ہے؟
مختلف مذاہب رکھنے والے لوگ، جن کی زبانیں جدا ہیں، جن کی ثقافت ایک دوسرے سے الگ ہے اور جن کی تاریخ، تاریخی شخصیات، تاریخی ہیرو اور دشمن الگ الگ ہیں ، ان سب کو 1820 سے لے کر 1860 تک کے 40 سالوں میں مہاراجہ گلاب سنگھ اور مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے ایک مرکزی نظام کے تابع کیا اور ان سب کو باہم ملا کر ایک ملک تشکیل دیا جس کی سرحدوں کو برطانیہ، چین اور افغانستان سبھی نے تسلیم کیا۔
یہ ملک جس کے ہم باشندے ہیں، جس کی سرحدیں اور انتظامی اکائیاں تسلیم شدہ ہیں، جو مسلمہ طور پر متنازعہ ہے اور جس کے وجود کو پاکستان، بھارت اور چین سے علیحدہ اکائی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اس ملک کی تشکیل و تنظیم مختلف مراحل میں ہوئی۔ اور یہ سارے مراحل مختلف معاہدات اور جنگی فتوحات سے عبارت ہیں۔ مگر اس تشکیل میں سب سے زیادہ اہم کردار معاہدہ امرتسر کا ہے؛ یہ وہ معائدہ ہے جس کے تحت ریاست کشمیر اور ریاست جموں کو انتظامی اعتبار سے یکجا کیا گیا –
قصہ مختصر ڈوگرہ حکمرانوں نے 40 سال کی مسلسل سیاسی جدوجہد، جنگی معرکوں، سفارتی کاوشوں اور انتظامی معاملہ فہمی کی بنیاد پر اسے ایک ملک بنایا ۔جو جدید تاریخ میں کبھی اس طرح کا ایک ملک نہیں رہا تھا ۔ہزاروں سال پر پھیلی شکست و ریخت کی تاریخ کے اس سفر میں 1860 سے 1947 تک کا عرصہ ہی وہ دورانیہ ہے جب یہ خطہ ارضی اندرونی استحکام اور سیاسی ترویج سے ہم آہنگ ہوا –
پھر اس سیاسی شیرازے کو 1947 کے بعد ایک بار پھر بکھرنا پڑا اور اس دفع تقسیم ذرا مختلف ہوئی ۔
1۔ جموں کا ڈوگرہ ثقافتی علاقہ بشمول پونچھ شہر اور لداخ،2۔ کشمیر وادی بشمول چند کوہستانی علاقے،3۔ گلگت اور بلتستان اور4۔ آزادکشمیر جس میں میرپور، کوٹلی اور آدھا پونچھ شامل ہے۔ ان چار اکائیوں کی موجودہ تقسیم کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آزادکشمیر لسانی اور ثقافتی اعتبار سے تو جموں کا حصہ تھا مگر انتظامی اعتبار سے یہ جموں اور کشمیر دونوں پر مشتمل ہے۔ (مظفرآباد کا ضلع انتظامی اعتبار سے کشمیر کا حصہ تھا) ۔اسی طرح لداخ کا علاقہ 1947 سے قبل انتظامی اعتبار سے گلگت بلتستان کے ساتھ شامل تھا۔
1947 میں کشمیر کے لوگوں نے شیخ عبداللہ کی قیادت میں یہ موقف اختیار کیا کہ جموں کے ڈوگرے ان پر ناجائز طور پر قابض ہیں، وہ بیرونی حکمران ہیں اور کشمیر سے مذہبی اور لسانی اعتبار سے جدا ہونے کے باعث وہ کشمیر اور کشمیریوں کا استحصال کئے ہوئے ہیں ۔شیخ عبداللہ کا یہ فلسفہ اپنے ذاتی سیاسی مفاد کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا اور اسکے پیچھے برطانوی حکومت کی سازش تھی ۔ تاکہ برِصغیر کو تقسیم کرکے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کے لئے حیدرآباد دکن، جوناگڑھ اور مناوادر کے ساتھ ساتھ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبتہا کو بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک مستقل تنازعے کے ہتھیار کے طور استعمال کیا جا سکے۔
ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی بدقسمتی سے انگریزوں کی چال مہاراجہ کے ملک کو تقسیم کرنے میں کارگر رہی۔ شیخ عبداللہ کی کشمیر اور جموں کی انتظامی، سیاسی اور قومی یونین کے خلاف تحریک 1947 سے بہت پہلے کی چل رہی تھی۔ انگریزوں نے اس تحریک کو اپنے مقاصد کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور شیخ عبداللہ کے سیاسی مقاصد کی آڑ میں بھارت اور پاکستان کے مابین ایک مستقل تنازعہ کھڑا کر دیا گیا۔گلگت بلتستان اگر چہ شیخ عبداللہ کی اس تحریک میں شامل نہ تھا مگر مذہبی، لسانی اور تہذیبی اعتبار سے یہ علاقے بھی جموں سے الگ تھے ۔
اس پس منظر میں انگریزوں نے اپنے عالمی اقتصادی مفادات کے پیش نظر ہندوستان کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے کیلئے مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔چنانچہ مذہبی تقسیم کا یہ ریلا ریاست جموں کشمیر میں بھی داخل ہو گیا۔ انگریزوں نے برصغیر کی تقسیم کرکے بھارت اور پاکستان کے درمیان جموں و کشمیر کو ایک تنازعے کی شکل میں تشکیل دے دی اور خود کنارے ہو گئے۔ نیا ملک قائم ہو جانے کے بعد پاکستان سے کشمیریوں کی مدد کیلئے مسلح جتھے جموں و کشمیر پر جا پہنچے ۔ بھارت بھی ان علاقوں سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہ تھا اور یہ ساری پلاننگ بھارت اور پاکستان میں موجود فوجی اور سول انگریز افسران کی تھی ۔چنانچہ آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا اور جموں و کشمیر بھی تقسیم ہو کر رہ گیا – اس تقسیم کے لئے کشمیر وادی، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سبھی علاقوں سے انگریزوں کو ایسے لوگ مل گئے جن کو انہوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
اب اس تقسیم کے بعد1947 سے آزادکشمیر کے لوگ اپنی شناخت، اپنا وجود اور اپنے حقوق بھلا کر محض کشمیر کی آزادی کے شغل میں مصروف ہیں ۔
بھارت کے زیر قبضہ جموں اور کشمیر واضح طور پر مذہبی، ثقافتی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو چکے ہیں ۔پاکستان کے حصے میں جموں، گلگت بلتستان اور کشمیر بھی لسانی، ثقافتی اور تہذیبی بنیادوں پر تقسیم ہے ۔ اس پس منظر میں ریشہ دوانیوں کا انجام یہ ہے کہ:جموں مکمل طور پر کشمیر اور گلگت بلتستان سے کٹ چکا ہے ۔آج کشمیر ی جموںکشمیر اور گلگت بلتستان کو نظرانداز کر کے اپنی شناخت اور بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گلگت اور بلتستان مکمل طور پر کشمیر اور جموں کو فراموش کر کے اپنے مسائل میں الجھ گئے ہیں۔
آزادکشمیر کے لوگ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں ، یہ لوگ گلگت اور بلتستان کو اپنا حصہ قرار دیتے ہیں اور ڈوگرہ دور کی ریاست کو یکجا کرنے کے خواب دیکھتے ہیں ، مگر مذہبی اثرات کے حصار کے باوجود جموں سے کامل طور پر کٹے ہوئے ہیں ۔ بھارتی زیر قبضہ جموں اور کشمیر بھی ایک دوسرے سے دور کر دئیے گئے ہیں ۔اور آزادکشمیر قوانین سے لے کر تعلیمی نصاب تک اور سڑکوں سے لے کر منڈیوں تک آزادکشمیر ہر اعتبار سے پنجاب پر انحصار کرتا ہے ۔ان حالات میں آج گلگت بلتستان ، جموں ، آزادکشمیر کشمیر اور لداخ پانچ جداگانہ جغرافیائی اکائیاں بن گئی ہیں ۔ اقصائے چین اور شکسگام اس کے علاوہ ہے ۔یہ سب 85806 مربع میل کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی ایک گہری چال ہے ۔ جسے انگریزوں نے پلان کیا اور مقامی سیاسی رہنماوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
مگر المیہ یہ ہے کہ اس سازش اور اس چال کو ریاست جموں و کشمیر کے لوگ، آزادکشمیر والے، گلگت بلتستان والے، جموں والے اور کشمیر والے سمجھ نہیں پائے ۔اور نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کو انکی شناخت، ان کا کھویا ہوا وجود اور تاریخی مقام واپس دلا نے والا کوئی نہیں۔ میں جب جموں میں رہنے والے میرپور کے مہاجرین سے بات کرتی ہوں تو رات بھر جاگتی رہتی ہوں ۔ اپنی شناخت رفتہ رفتہ ختم ہوتے دیکھتی ہوں ۔میں دیکھ رہی ہوں کہ میرے وطن کے تمام سنجیدہ فکر لوگ ریاست کے وجود کو بچانا چاھتے ہیں ۔ مگر قابض قوتیں پریشان ہو کر میرے کام کو قابضین ریاست کی تقسیم اور تفریق کا کام قرار دیتی ہیں ۔
اگر کشمیر کی تاریخ کا جازئہ لیا جائے تو جموں کشمیر کا علاقہ 1947 تک دو لاکھ بائیس ہزار تین سو تریسِٹھ سکوئر کلومیٹر (222.363 sq. Km) پر مشتمل تھا۔جس میں سے ایک لاکھ ایک ہزار تین سو ستاسی سکوئر کلو میٹر. (101.387 sq km) رقبہ بھارت کے زیر تسلط ہے۔باقی ایک لاکھ بیس ہزار آٹھ سو انچاس سکوئر کلومیٹر (120.849 sq. Km.) رقبہ پاکستان و چین (اکساء چن کا علاقہ) کے زیر کنڑول ہے۔بھارت میں حال ہی میں اپنے زیر قبضہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا کے جس میں جموں لداخ اور وادی کشمیر شامل ہیں۔جبکہ پاکستان کے زیر کنڑول کشمیر کو بھی پاکستان نے دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا جس میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر شامل ہیں
گلگت بلتستان کے بارے میں آزاد کشمیر ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا کہ “ناردن ایریاز پاکستان کا نہیں کشمیر کا حصہ ہیں اور فوری طور پر اس کا کنڑول آزاد کشمیر کے حوالے کیا جائے. مگر پاکستان نے اس کے خلاف ٹیکنکل بنیادوں پر سپریم کورٹ آزاد کشمیر سے .فیصلہ لے لیا. اور یہ علاقہ کشمیر سے الگ کردیا گیا۔
اب جو “آزاد کشمیر ہے وہ صرف 13 ہزار کلومیٹر یعنی ہانچ ہزار مربع میل پر مشتمل ہے. جس کے ابتدائی طور پر پانچ اضلاع مظفر آباد کوٹلی میرپور, باغ اور پونچھ پر مشتمل تھا جس کے اضلاع کی تعداد بڑھا کر اب دس کردی گئی ہے.
گلگت بلتستان کے لوگوں کی اکثریت نے کبھی خود کو کشمیر سے منسلک نہیں کیا بلکہ وہ پاکستان کا پانچواں صوبہ بننے کے خواہاں ہے جبکہ کچھ بلتی اسے الگ ریاست “بلورستان بنانا چاہتے ہیں.
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر تین ریجنوں میں تقسیم ہے.
جس میں جموں کا رقبہ چھبیس ہزار دو سو ترانوے سکوئر کلومیٹر ہے (26.293 sq. Km) ہے.لداخ کا رقبہ چھیانوے ہزار سات سو ایک سکوئر کلومیٹر ہے۔(96.701 sq. Km)۔جبکہ مقبوضہ وادی کا کل رقبہ صرف پندرہ ہزار آٹھ سو ترپن سکوئر کلومیٹر ہے (15.853sq. Km.)۔لداخ کا علاقہ لیہ اور کرگل کے اضلاع پر مشتمل ہے۔جموں اودھّم پور، ڈوڈا، کٹوعہ، جموں , راجوری اور پونچھ پر مشتمل تھا جس میں چار نئے اضلاع بنا دہے گئے ہیں۔جبکہ وادی چھ اضلاع پر مشتمل تھی جس میں انت ناگ، پلوامہ، سرینگر، بارہ مولا، بڈگام اور کپوڑا شامل ہیں جبکہ اب اضلاع کی تعداد بڑھا کر دس کردی گئی ہے۔عملی طور پر کشمیر میں بغاوت انہی دس اضلاع میں ہیجبکہ جموں میں صرف دو علاقوں ڈوڈا اور کشٹ واڑ میں مسلح بغاوت ہے جبکہ باقی جگہ مسلم اقلیت میں بکھرے ہوئے ہیں
پوری مقبوضہ وادی میں مسلمان ان بڑے نسلی گروہوں میں تقسیم ہیں جن میں گوجر، ڈوگرز، , بکروال، درد، بلی، گادذ، لداخی، پوشواری قابل ذکر ہیں۔جبکہ اہم زبانوں میں کشمیری. ڈوگروی، گوجروی. دردی ،بلی شامل ہیں۔کشمیریوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ؛۔ گوجروں، بکروالوں درد، بلتی اور پوشواری لوگوں نے کشمیری بولنے والوں سے خود کو ہمیشہ ایک فاصلے پر رکھا ہے اور سیاسی طور پر بھی الگ سمجھتے ہیں خود کو.یعنی لداخ کے مسلم و بودھ اور جموں کے مسلم و ڈوگروں کی اکثریت ُخود کو کشمیری بولنے والے پنڈتوں اور مسلمانوں سے الگ سمجھتی ہے۔اس کے جواب میں کشمیری بولنے والے مسلم و پنڈت اپنی وادی کو ہی کشمیر سمجھتے ہیں اور باقیوں کو گوجر پہاڑی اور “پوہل کہتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ 1947-48 میں جب آزاد کشمیر میں وہ مہاجریم آئے جو کشمیری نہیں بول سکتے تھے تو مقامی آبادی نے ان کے بسائے جانے کی مخالفت کی کہ غیر کشمیریوں کی وجہ سے آبادی پر دباو پڑھنے سے کشمیری کلچر تباہ ہوجائے گا
اسی طرح مسئلہ کشمیر کی بات کی جائے تو اس تنازع میں پانچ بڑے فریق ہیں:
پہلا فریق:
ہندوستان و پاکستان
ان کے موقف سے کم و پیش ہر پاکستانی آگاہ ہے پاکستان کشمیر کی آزادی اور پھر اسے شہہ رگ قرار دے کر ممکنہ طور پر الحاق کی بات کرتا ہے جبکہ بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے.
دوسرا فریق:
مسئلہ کشمیر کا دوسرا بڑا فریق چین ہے جس کے قبضے میں اکسائی چن کا علاقہ ہے اور لداخ پر بھی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے. بظاہر یہ فریق خاموش نظر آتا ہے اور پاک بھارت تنازع میں پاکستان کا سفارتی سطح پر ساتھ دیتا ہے مگر یہ فریق اپنے نقطہ نظر سے پوری طرح متحرک ہے.. اور خاموش کردادر ادا کرتا ہے.
تیسرس فریق:
ہندوستان و پاکستان دونوں سے آزادی کے حامی کشمیری ہیں
جیسے مقبول بھٹ شہید کا یہ نعرہ تھا
اس پار بھی لیں گے آزادی اس پار بھی لیں گے آزادی
امان اللہ خان نے فلسطین کی قومی مزاحمتی تحریکوں کی طرز پر مقبول بھٹ سے مل کر نیشنل لبریشن فرنٹ کی داغ بیل ڈالی تھی جو بعدازاںJKLF کہلائی۔ یہ کشمیر کو خودمختار ریاست بنانا چاہتے ہیں. ماضی میں یہ مسلح جدوجہد بھی کرتت رہے مگر اب پرامن جدوجہد کے ذریعے آزادی کے خواہاں ہیں.اور نیشنل لبریشن فرنٹ وادی میں اب بھی اثر و رسوخ رکھتی ہیں
چوتھا فریق:
پر امن جدوجہد کے ذریعے آزادی کشمیر کے حامی عناصر
اس میں کل جماعتی حریت کانفرنس و دیگر تنظیمیں شامل ہیں.. سید علی شاہ گیلانی , میر واعظ عمر فاروق, شبیر شاہ بڑے لیڈران ہیں . یہ پر امن جدوجہد کے ذریعے کشمیر کی آزادی کے خواہاں ہیں اور پاکستان کے حمایتی اور اسے اہہم فریق سمجھتے ہیں. ان کی بڑی تعداد وادی میں موجود ہے.
پانچواں فریق:
جہاد کے ذریعے کشمیر کی آزادی کہ خواہاں مسلح تنظیمیں.
1989 کے بعد سے وادی میں منظم مسلح جدوجہد کا آغاذ ہوا. اور بیسویں صدی کے آخر اور 9/11 سے پہلے وادی میں سینکڑوں مسلح تنظیمیں برسرپیکار تھیں جن میں باری تعداد پاکستانی جہادی عناصر کی تھی جو ریکروٹ , مسلح ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرتی تھیں. 9/11 کے بعد ان کی کاروائیوں میں کمی واقع ہوئی اور مسلح تحریک دم توڑنے کے قریب تھی کہ برہان وانی نے اس میں نئی روح پھونک دی. ہر مسلح تنظیم کا اپنا منشور و ایجنڈا ہے مگر سب بھارت کے شکنجے سے آزادی پر متفق ہیں۔وادی میں برسر پیکار چند بڑی تنظیمیں یہ ہیں
حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، جیش محمد (ص)، البراق، العمر مجاہدین، متحدہ جہاد کونسل
جبکہ ماضی میں حرکت المجاہدین , حرکت الانصار , حرکت الاجہاد ااسلامی و دیگر بہت سی تنظیمیں فعال تھیں۔
اہم بات یہ کہ پچھلے کچھ سالوں میں وادی کشمیر میں ایک نیا فریق سامنے آیا ہے جو تیزی سے ابھر رہا ہے وہ ی القاعدہ و داعش کے حامی نوجوان ہیںاور اس کا پس منظر یہ ہے کہ کافی عرصے سے عالمی جہادی تنظیموں نے اپنی نظریں کشمیر پر مرکوز کر رکھی ہیں کیوں کہ وادی ستر سال سے آگ و خون کی لپیٹ میں ہے اور نوجوان جذبہ انتقام ؍جہاد سے سرشار ہیں . اس سے عالمی جہافی عناصر کو کشمیر سے نوجوان جہادیوں کی بڑی تعداد میر آسکتی ہے اور مستقبل میں یہ اسے پاکستان و بھارت کے خلاف کاروائیوں کے لئے بطور بیس کیمپ استعمال کرسکتے ہیں اسی لئے القاعدہ نے انصار غزوہ ہند کے نام سے ذیلی گروپ بنا کر کشمیر کے لئے اپنا امیر مقرر کیا اور داعش نے بھی اسے اپنا صوبہ قرار دیا..اس طرح دونوں تنظیمیں باضبطہ طور پر کشمیر میں اپنے وجود کا اعلان کرچکی ہیں۔یہ کشمیر میں اپنی ذہن کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور مقبوضہ خطے کے نوجوانوں کو اپنے اثر میں لانا چاہتے ہیں ان کا اثر و رسوخ بڑا تو مستقبل میں جہادی تنظیموں میں باہمی مسلح چپقلش کے ساتھ بڑے پیمانے پر خون ریزی کا امکان موجود ہے.
حال ہی میں کئی ایک نوجوانوں کے جنازے وادی میں داعش کے پرچموں کے سائے میں اٹھے ہیں. جبکہ مئی میں انکاونٹر میں جاں بحق ہونے والے کمانڈر ذاکر موسیٰ القاعدہ کا سربراہ اور آپریشنل کمانڈر تھا۔جبکہ افضل گورو جسے بھارت میں پھانسی ہوئی اس نے بھی آخر میں یہ نظریہ اپنا لیا تھا اور ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔اب جبکہ بھارے نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل 370 ختم کردیا ہے تو آنے والا منظر نہایت بھیانک نظر آتا ہے . کشمیریوں کو یقین تھا کہ بھارت ایسا کبھی نہیں کرے گا اسی لئے ابھی کشمیری صدمے کی کیفیت میں ہے مگر جلد ہی کشمیر کا آتش فشاں پھٹنے کو ہے جس کی آگ شاید برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی۔
وادی کشمیر – کے وسائل
اور آمدنی
پاکستان اور آزاد کشمیر گورنمنٹ کو چاہئے کہ آزاد کشمیر کے مسائل کی طرف توچہ دے، وگرنہ نوجوان نسل منفی ہو کر تخریب کاری کی راہ پر چل پڑے۔
ابرار احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کشمیر وہ مملکت ہے جس کی سرحدیں تیسری صدی قبل مسیح میں شمال میں کاشغر اور ختن تک اور مغرب میں کابل اور قندھار تک پھیلی ہوئی تھیں ،مہاراجہ للتا دت نے 650ء 732ء تک کشمیر پر حکمرانی کی ۔اس کے دور میں کشمیر مشرق میں قنوج تک ،مغرب میں پشاور تک ،شمال میں بخارا تک اور جنوب میں گندہارا تک پھیلا ہوا تھا ۔آٹھویں صدی عیسوی میں 720ء کشمیر میں راجہ چندراپیڈ کی حکمرانی تھی ۔مغل بادشاہ نے آٹھ بار کشمیر پر یلغار کی تب اسے 1586 ء میں کامیابی نصیب ہوئی ،فاتح محمود غزنوی نے 17 بار ہندستان پر حملے کیے اور ہر بار کامیاب رہا لیکن کشمیر پر غزنوی نے 2 بار حملے کیے اور دونوں بار ناکام رہا ۔ جموں کشمیر برصغیر کی وہ پہلی ریاست تھی جسے1930ء کی دہائی میں انتخاب کے ذریعہ قانون ساز اسمبلی چننے کااختیار ملا۔ آج کے دور میں کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ یہ رقبہ کے لحاظ سے دنیا کے 110 آزاد ممالک سے بڑی ہے اور آبادی کے لحاظ سے 135 ممالک اس سے چھوٹے ہیں ۔جغرافیائی لحاظ سے کشمیر کو ایک اہم مقام حاصل ہے یہ براعظم ایشیاء کے تقریباً مرکز میں واقع ہے ۔دنیا میں کئی ملک ایسے ہیں جو اپنے چند وسائل پر یا صرف ایک ذریعہ آمدن پر ترقی کی بہترین منزلیں طے کر کے خوشحالی کی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں آئس لینڈ ،مڈغاسکر ،ماریشس،،سعودی عرب، بہاماز،نمیبیا اور سوٹرز لینڈ جیسے بہت سے ایسے مثالی ملک ہیں جن کا ذریعہ آمدن چند وسائل پر ہے ان ممالک سمیت بیشتر ممالک ایسے ہیں جن کی بہ نسبت ریاست جموں و کشمیر کے پاس وسائل حد سے زائد ہیں لیکن اس خطہ کے وسائل کو ضائع کیا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ اس ریاست کو مختلف حصوں مں تقسیم کر دینا اور ان حصوں پر ایسے لوگوں کو حکمران مسلط کر دیا گیا ہے جو ریاست کے وسائل کو لوٹنے کے سوا کوئی اور کام نہیں کر رہے ۔ریاست کے پاس آبی وسائل ،معدنیات کے بیش بہا خزانے ،قدرت کی طرف سے کشمیر کو عطا ہونے والی جڑی بوٹیوں سمیت دیگر نعمتیں اور قدرتی وسائل وافر مقدار میں ہیں۔
کشمیر کے اقتصادی پہلو پر عدم توجہ
سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کشمیر پر جاری بھارتی تسلط اس علاقے کے سماجی، ثقافتی اور اقتصادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہا ہے. یہ بات بھی قابل بحث ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے بڑے پیمانے پرپیش کی گئی متعدد قراردادیں اس خطے کی سیاسی اور اسٹریٹجک جہتوں پر مبنی تھیں جبکہ کشمیری عوام کی سماجی اور اقتصادی پہلووں پر اور خود خطے کے استحقاق پر بہت کم زور دیا گیا۔
تاریخی تناظر میںپاکستان کو کشمیر کے اس حصے پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے یعنی آزاد جموں و کشمیر کے لئے اعلی ترقیاتی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔تنازعات کی حل کے لئے اس جامع نقطہ نظر میں، پاکستان آزاد جموں اور کشمیرکی تاریخ، محل وقوع، ثقافت، طرز زندگی، معیشت اور ثقافتی ورثے کے مختلف پہلووں کو یکجا کرسکتا ہے۔ جو اس کے علاوہ، تنازعے کے حل میں ایک سماجی اور اقتصادی نمونے کے امکانات ” کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی حوالے سے ثقافتی نسبت پر بھی زور دے ۔ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر پیرپنجال تک پھیلے ہوئے آزاد کشمیر کے دلکش ارضی خدوخال سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہوسکتے ہیں جو شاندار مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔کشمیر کو قدرت نے دلکش مناظر اور ثقافتی مقامات سے نوازاہے جن پر نہ صرف یہاں کی سیاحت کا دارومدار ہے بلکہ یہ کشمیریوں کے موقف کو مضبوط کرنے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔اگر رجائیت کا عنصر غالب رہے تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ یہاں اپنے ذیلی ادارے قائم کر کے آزاد جموں و کشمیر کے شاندار ، جنت نظیر مناظر اور اس وادی کے قدرتی حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کے ٹیلی ویژن پروڈکشن ہاوس آزاد جموں و کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور یہاں کے لوگوں کی ثقافت کی کھوج کے لئے مختلف پروگراموں کا آغاز کر سکتے ہیں۔ان اقدامات سے جہاں عالمی برادری کے سامنے اس دلکش وادی کی اچھی منظر کشی ہوگی وہیں کشمیر کے لوگوں کو بھی توجہ ملے گی۔ پروڈکشن ہاوسز میں ڈرامہ اور فلم کے شعبے میں مقامی آبادی کیلئے مواقع موجود ہیں۔قدرتی مناظر کے علاوہ آزاد کشمیر 74 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ افرادی قوت سے مالا مال ہے اور مالی سال 2017-18 میں ، آزاد کشمیر حکومت نے اس کے کل بجٹ کا 8 فیصد حصہ تعلیم کے لئے مختص کیا گیا ہے۔
پاکستان میں یونیورسٹیاں نجی کاروباری شعبے کے اشتراک عمل سے سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام تشکیل دے سکتی ہیں اس سے پاکستان کے دیگر حصوں سے لوگوں کو کشمیر میں زندگی اور یہاں کی ثقافت کو جاننے کا موقع ملے گا۔آزاد جموں کشمیرکی ثقافت میں دستکاریوں، زبانوں ، پکوانوں ، پہناووں، تہواروں اور رقص کا مسحورکن امتزاج پایا جاتا ہے ، جو اس کی ثقافت اورطرز بودوباش کو مزین کرتے ہیں. آزاد کشمیر کی دستکاری صنعت کو لوگوں کی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے استعمال کی جا سکتا ہے۔ کراچی کی کاروباری تنظیمیں یہاں کی ہینڈی کرافٹ انڈسٹری میں سرمایہ لگا کر کشمیر کے لوگوں کی مستحکم معاشی بہبود میں تعاون کر سکتی ہیں۔
آزاد کشمیر معدنیات کی دولت سے نوازا گیا ہے جن میں قیمتی پتھرکا فی اہم ہیں۔ ابھی تک دریافت ہوئے معدنی ذخائر لگ بھگ 157 ملین ٹن (70 ارب روپے) کے ہیں۔ جو ممکنہ طور پر موجود ذخائر کے اضافے سے 264 لاکھ ٹن تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان معدنیات میں یاقوت ،اور دوسرے قیمتی پتھر شامل ہیں۔معدنی وسائل کے یہ غیر معمولی ذخائر زرمبادلہ کی شرح میں اضافہ اور وادی میں ہنر مند افرادی قوت کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر کا بہت سارقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ جوعالمی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان اور بھارت سے اہل علم اور دانشور کشمیر کو اس نازک صورت حال سے نکالنے کی فوری ضرورت کے حوالے سے مشترکہ علمی منصوبے شروع کرکے اور امید افزاء موضوعات پر مبنی مواد مرتب کر کے ، اسے شائع کر کے عوام میں اجتماعی شعور کی بیداری کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بہتر مستقبل اور خوشحالی کے لئے لوگوں میں امید نو کی بیداری سے شائد ان کے جذبے اور خلوص کو عمل کے لئے تحریک دینا ممکن ہوگا ۔ یہ امید ہی ہے جو لوگوں کو روایتی سوچ کی حدوں سے کہیں آگے خیال کی بلندیوں پر لیجاتی ہے۔ اس طرح یہ خطہ تنازعہ سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کی راہ لے سکتا ہے اور یہ دونوں معاشروں اور ریاستوں کواس قدیم ترین تنازعہ کے پائیدار حل تلاش کرنے پر مجبور کے سکتا ہے۔کشمیر کے لئے سماجی و اقتصادی نمونے کی منصوبہ بندی پر مبنی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے، اگر پاکستان آزاد کشمیر میں ایک پائیدار ترقی کے ماڈل کی تعمیر کرتا ہے تو عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے اس کا اصولی موقف مضبوط ہو گا۔ جو عوام اور خطے کے جذبات کو عالمی سطح پر سماجی و اقتصادی تناظر میں پیش کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری کو کشمیر سے متعلق پوشیدہ حقائق اجاگر کرے۔ کشمیر ایک تہذیبی ورثہ کا حامل ہے، یہ ثقافتوں اور مذاہب کا مرکز ہے . بدھ مت سے لے کے ہندومت اور اسلام ، سرزمین کشمیر میں مختلف مذاھب کے اختلاط سے ایک دلکش سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے کشمیر کی اہمیت کی نسبت سے کشمیر کے سماجی اقتصادی نمونے کو اجاگر کرتے ہوئے ہماری مکمل توجہ خطے میں پائیدار ترقی اور امن کے لئے تنازعے کے حل پر مرکوز رہنی چاہئے۔
آزاد جموں کشمیر کے قدرتی وسائل پر ایک نظر
پانی اور بجلی
ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پر قدرت نے صرف پانی کی جو نعمت عطا کی ہے اگر اس نعمت کا ہی سہارا لیا جائے تو ریاست کو مختصر سے عرصہ میں اقتصادی طور پر بام عروج پر لے جایا جا سکتا ہے ۔کشمیر میں بلند ترین چوٹیوں کی تعداد 300 سے زائد ہے جن میں کے ۔ٹو ،نانگاپربت، گیشر بروم1 سے4، بروڈ پیک، دست غل سر، راکا پوشی، کارنکو و دیگر شامل ہیں ان کے علاوہ ریاست کشمیر میں گلیشیئرز کی تعداد 86 کے قریب ہے جن میں سیاچن گلیشئر، بلتورو گلیشئر، ہسپر گلیشئر، ریمو گلیشئر، بیافو گلیشئر، چوغا لنگما گلیشئر ودیگر شامل ہیں ۔ان چوٹیوں و گلیشئرز پر ہر سال موسم سرما میں برف جمع ہوتی ہے جو موسم گرما میں پگل کر ندی نالوں کے ذریعے دریاوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔کشمیر میں چھوٹے بڑے دریاوں کی تعداد بھی 45 کے قریب ہے جن میں دریائے سندھ، دریائے شیوک ، دریائے گلگت، دریائے نیلم (کشن گنگا) دریائے جہلم ، دریائے پونچھ ، دریائے چناب اور دریائے راوی شامل ہیں ۔ یہ پانی زمینوں کو زرخیز کرنے کے علاوہ ،بجلی پیدا کرنے کا بھی بڑا ذریعہ ہے یہاں پر ہائیڈرل الیکٹرک پاور کے کچھ مزید منصوبے بھی لگا کر اپنی ضرورت کو پوری کرنے کے بعد ہمسایہ ممالک کو بجلی کی فروخت کر کے بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے.بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اس وقت تک تقریبنا6500میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ھے..کوہالہ کے مقام پر زیر زمین ہائیڈل پراجیکٹ کا کام چین کے تعاون سے 950میگاواٹ کا پروجیکٹ مکمل ہو چکا ہے اور اسی طرح سیری بانڈی کے مقام پر بھی 920 میگاواٹ کا پروجیکٹ شروع ہو چکا ہے جو پانی کی اہمیت کی واضح مثال بھی ہے ۔منگلا ڈیم کی رائلٹی اربوں روپے سالانہ بنتی ہے لیکن ہمارے حکومتی نظام کی کمزوریوں اور سیاستدانوں کی نا اہلیوں کی وجہ سے کشمیری اس رائلٹی سے ہی نہیں بلکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بھی مثتثنی نہیں ہو پارہے۔
منگلا ڈیم (Mangla Dam) جموں و کشمیر کا دوسرا بڑا بند ہے۔ دنیا میں اس کا ساتواں نمبر ہے۔ یہ دریائے جہلم پر ضلع میر پور، جموں، جموں و کشمیر میں واقع ہے۔ دریائے جہلم کوہ ہمالیہ پیر پنجال کے دامن میں چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا دریائے جہلم سری نگر کے پاس سے گزرتا ہوا وولر جھیل میں گر جاتا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس کی گزر گاہ تنگ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کا مشاہدہ چکوٹھی میں لائن آف کنٹرول سیمظفر آباد اور کوہالہ تک کیا جا سکتا ہے۔ دریائے جہلم مظفر آباد میں دریائے نیلم میں شامل ہو جاتا ہے اوروادی کاغان میں کنہار دریا سے مل کر دیائے پونچھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے جہلم آزاد کشمیرکے ضلع میر پور کے مقام پر منگلا پہنچ کر میدانی علاقہ سے بہتا ہوپاکستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب کو بہتا ہوا تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے چناب سے مل جاتا ہے۔یہ مغربی پنجاب کیدریاوں میں سے اہم دریا ہے۔ یہ سارے دریا پنجند کے قریب دریائے سندھ میں مل جاتے ہیں۔ منگلا کے مقام پر ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کیا گیا ہے اور دریا کا پانی اس ڈیم میں آتا ہے۔ اس کو منگلا ڈیمکہتے ہیں۔ اس کا پانی آبپاشی اور بجلی پیدا کرنے کے کام آتا ہے۔ دریائے جہلم پاکستان میں جہلم، ملکوال اور خوشاب کے میدانی علاقوں سے بہتا ہوا ضلع جھنگ میں تریموںکے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے جہلم پر1967ء میں منگلا ڈیم بنایا گیا اور اس میں 5.9 ملین ایکڑ پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے، اسی دریا پر 1967ء میں رسول بیراج تعمیر کیا گیا ۔ دریائے جہلم سے دو نہریں نکالی گئی ہیں، لوئر جہلم کینال 1901ء میں ضلع گجرات کے مقام رسول سے نکالی گئی، اس کی مزید دو شاخوں کھارا در مشین سے ضلع جھنگ کا شمالی حصہ سیراب ہوتا ہے، اپر جہلم 1915ء میں تعمیر کی گئی، اس کا پانی منگلا سے دریائے چناب تک جاتا ہے
آزاد کشمیر میں بجلی کی سالانہ پیداوار اور اسکی مالیت کی تفصیل کچھ یوں ہے۔۔منگلا ڈیم 1400 میگاواٹ۔۔نیلم جہلم1100 نیو بونگ اسکیپ میرپور 84 میگاواٹ جاگراں ڈیم 30 میگاواٹ- کٹھائی ڈیم ہٹیاں بالا 5 میگاواٹکیل 2 میگاواٹ لیپہ ڈیم 3 میگاواٹ۔۔کل پیداوار 1523 میگاواٹ فی گھنٹہ ہے زیر تعمیر ڈیم۔۔کوہالہ ہائیڈور 1100 میگاواٹ-نیلم جہلم 969 میگاواٹ-پترند ہیڈرو پلانٹ مظفرآباد 147 میگاواٹ۔۔کوٹلی ہائیڈور 100 میگاواٹگل پور ہائیڈور 100 میگاواٹآٹھمقام ڈیم 350 میگاواٹ۔۔کروٹ ڈیم 640 میگاواٹکل 3469 میگاواٹ آزاد پتن ہاہیڈرو کا بھی سروئے ہو چُکا ہییہ کل پیداوار بنتی ہے 4932 میگاواٹ ان ڈیموں کی مدت تکمیل 2018 تا 2025 ہے یہ تمام اعداد و شمار پاک چین اکنامک کو اپرٹیو پلاننگ سے اخذ کیئے ہیں۔۔۔۔آزاد کشمیر میں موجودہ اور زیر تعمیر منصوبے 4932 میگاواٹ بجلی پیدا کرئیں گیآزاد کشمیر کے موجودہ اور زیر تکمیل منصوبے سال میں 2341674144000 روپے کی بجلی پیدا کرئیں گے یہ حساب واپڈا کی قیمت کے حساب سے لگایا گیا ہے واپڈا کے حساب سے بجلی کی سالانہ پیداواری مالیت 23 کھرب 41 ارب 67 کروڑ 41 لاکھ 44 ہزار روپے بنتی ہیاور آزاد کشمیر کا سالانہ بجٹ 2016 اور 2017 میں37 ارب تھا جو اب بڑھکر 94 ارب روپے سے کچھ زیادہ ہے۔
آئیے آزادکشمیر میں بجلی کی سالانہ پیداوار اور اس کی سالانہ مالیت کا اندازہ لگاتے ہیں کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم آزاد ہونگے تو کھائیں گے کیا؟ زندہ کیسے رہیں گے؟
نام نہاد آزاد کشمیر کے پانیوں اور زمین سے حاصل ہونے والی بجلی کی تفصیل یعنی ہم کیا پیدا کر رہے ہیں اور زیر تعمیر منصوبے کیا پیدا کریں گے؟
بجلی کی پیداوار میگاواٹ میں دی جا رہی ہے۔
منگلا ڈیم 1400
نیو بونگ اسکیپ میرپور 84
جاگراں ڈیم 30
کٹھائی ڈیم ہٹیاں 5
کنڈل شاہی نیلم 2
کیل 2
لیپا ڈیم 3
کل پیداوار 1523 میگاواٹ فی گھنٹہ
جبکہ آزاد کشمیر کی کل ضرورت 385 میگا واٹ ہے ۔
زیر تعمیر ڈیم
کوہالہ ہائیڈرو 1100
نیلم جہلم ….969 میگا واٹ
پترند ہیڈرو پلانٹ ..مظفر آباد 147
کوٹلی ہائیڈرو 100
گل پور ہائیڈرو …100
اٹھ مقام ڈیم 350
کروٹ ڈیم 640
کل … 3469 میگا واٹ
یہ کل پیداوار بنتی ہے 4932 میگاواٹ ۔
مدت تکمیل …2018 تا 2025
یہ تمام اعداد و شمار پاک چین اکنامک کو اپرٹیو پلاننگ سے اخذ کئیے گئے ہیں۔
تو آزادکشمیر میں موجود اور زیر تعمیر منصوبے 4932 میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے ۔
بجلی کی ایک یونٹ ایک کلو واٹ ہوتی ہے ۔ اور اس کا تخمینہ گھنٹوں کے حساب سے لگایا جاتا ہے ۔
اور میگا واٹ میں دس لاکھ کلو واٹ ہوتے ہیں ۔
بجلی کی پیداوار اور تصرف گھنٹوں کے حساب سے ہوتا ہے ۔
ایک کلو واٹ دس گھنٹوں میں صرف یا پیدا ہو گی ۔
گویا دن میں یونٹ کے حساب سے یہ 2.4 یونٹ بنیں گے ۔ کیونکہ بل یونٹ میں بنتا ہے ۔
آزادکشمیر کو 5 روپے 42 پیسے فی یونٹ کے حساب سے واپڈا بجلی فراہم کرتا ہے ۔
اب حساب کتاب دیکھتے ہیں ۔
پیداوار 4932 میگا واٹ فی دس گھنٹے ۔
یومیہ پیداوار کیا ہو گی یونٹ میں:
49322.4=11836.8
اور سال میں کتنے یونٹ بنیں گے؟ اب ان کو میگا واٹ میں تبدیل کریں ۔
11836.81000000
=1183680000
یہ بن گئے یونٹ ۔
اور ایک یونٹ کی قیمت اگر 5 روپے 42 پیسے ہو تو:
11836800005.42
=6415545600
گویا ایک دن میں ہم 6415545600 روپے کی بجلی پیدا کرتے ہیں ۔
تو سال میں پیداواری مالیت کیا ہو گی:
6415545600365
=2341674144000
تو گویا آزادکشمیر کے موجودہ اور زیر تکمیل منصوبے سال میں
2341674144000 روپے کی بجلی پیدا کریں گے ۔
یہ حساب واپڈا کی قیمت کے حساب سے لگایا گیا ہے ۔
ہم اگر آزاد اور خودمختار ہوں تو بھارت یا افغانستان کو اس قیمت سے کئی گنا مہنگی بجلی فروخت کر سکتے ہیں ۔
مگر اس کو چھوڑیں ۔
واپڈا کے حساب سے بجلی کی سالانہ پیداواری مالیت بنتی ہے:
23 کھرب 41 ارب 67 کروڑ 41 لاکھ 44 ہزار روپے ۔
اور آزادکشمیر کا سالانہ بجٹ 2016-17 میں 73 ارب 51 کروڑ روپے ہے ۔
گویا پاکستان کو صرف بجلی سے سالانہ 22 کھرب 68 ارب 17 کروڑ 41 لاکھ 44 ہزار روپے ہمارے بجٹ سے زائد ملتے ہیں ۔
معدنیات
یواین ڈی پی کی 2006 کی ایک رپورٹ کے مطابق روبی پتھر جسکی امریکی مارکیٹ میں قمیت 1500 ڈالر فی گرام تک ہے یہ ضلع مظفرہ اباد میں چار کروڑ گرام ذخائر 2006 میں دریافت ہوئے تھے جنکی مالیت 60ارب ڈالر بنتی ہے ڈڈیال میں چونے کے پتھر کے دس کروڑ ٹن زخائر دریافت کیے جا چکے ہیں جن پر سرمایہ کاری سے دوہزار ٹن سمنیٹ پیدا کیا جا سکتا ہے اسکے علاوہ نیلم کے علاقوں سے گرینائٹ ماربل کے69کروڑ 60لاکھ ٹن کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں ان تمام معدنیات کو قابل استعمال بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو بااختیار ہو کر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
ریاست کشمیر میں قدرت کی مہربانیاں مختلف قیمتی معدنیات کی صورت میں بھی موجود ہیں جن میں لوہا ، کوئلہ ، گریفائٹ ، سنگ مر مر، جپسم ، سوپ سٹون ، بکسائیٹ ، یاقوت، زمرد ، ایکوا میرین ، نیلم ، تانبہ ، سونا ،ابرق ، نکل ، سیسہ ، گندھک ، بوریکس ، ناراو، سنیگال ، اور دیگرقیمتی معدنیات بھاری تعداد میں موجود ہیں جن سے استفادہ حاصل کر کہ بھاری زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
آزاد کشمیر معدنیات کی دولت سے نوازا گیا ہے جن میں قیمتی پتھرکا فی اہم ہیں۔ ابھی تک دریافت ہوئے معدنی ذخائر لگ بھگ 157 ملین ٹن (70 ارب روپے) کے ہیں۔ جو ممکنہ طور پر موجود ذخائر کے اضافے سے 264 لاکھ ٹن تک پہنچ سکتے ہیں ۔ ان معدنیات میں یاقوت ،اور دوسرے قیمتی پتھر شامل ہیں۔معدنی وسائل کے یہ غیر معمولی ذخائر زرمبادلہ کی شرح میں اضافہ اور وادی میں ہنر مند افرادی قوت کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں
کارخانے اور انڈسٹریز
چین دنیا کا سب سے بڑا سوداگر بن چکا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میںآپ کو چین کی مصنوعات ملیں گی۔چین مستقبل کی سپر پاور بننے کے سفر پر بڑی مستقل مزاجی اور اپنے کامیاب خارجہ پالیسی کے تحت محو سفر ہے۔ سوئی میں دھاگہ ڈالنے والی مشین سے لیکرمہلک ترین ہتھیاروں تک میڈ ان چائنہ نظر آتا ہے۔ ہم اس بات سے لاعلم ہیں، چین کی معیشیت میں معدنیات کا بہت بڑا کردار ہے۔ معدنیات کسی بھی ملک کی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہم موجودہ دور میں جن بھی سہولیات سے لطفت اندوز ہو رہے ہیں وہ معدنیات کی بدولت ہیں۔
نیلم کو اللہ تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازہ ہے۔ ہمیں اپنی وادی کے اندر چھپے ہوئے خزانوں کا علم ہی نہیں ہے۔ ہم جتنا دماغ سیاست پہ لڑاتے ہیں اگر اس سے آدھا بھی وادی کے قدرتی ذخائر پر لگا دیں تو ہم نوکریوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ کر ان معدنیات کے زریعے خود کفیل ہو جائیں۔وادی نیلم میں آج تک بننے والی سبھی حکومتوں نے اپنے ووٹوں کے بعد اپنی کرسی بچانے اور جیب بھرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے بھی نیلم میں نہ تو کوئی کارخانہ لگایا ہے اور نہ ہی وادی کی معدنیات کی طرف توجہ دی ہے۔ نیلم کے %80 لوگ وادی سے باہر جا کر محنت مزدوری کر تے ہیں۔
اگر ہم نے آزاد کشمیر کے دیگر اضلاع کی طرح نیلم میں بھی کارخانے لگائے ہوتے تو وادی کے لوگوں کو کام کے لیے در در کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑتی۔وادی نیلم جنگلی جڑی بوٹیوں سے مالا مال ہے 32 سے زیادہ اقسام کی ادوایات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں وادی نیلم میں پائی جاتی ہیں۔ یہ جڑی بوٹیاں وادی نیلم میں پائی جانے والی تمام بیماریوں کے لیے بطور علاج بھی استعمال ہوتی ہیں۔ حکومت کی لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کے ان کی اپنی سرکاری دستاویزات میں موجود اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2015 کی سرکاری دستاویزات کے مطابق وادی نیلم میں روبی پتھر کا کل ذخیرہ 100ملین ٹن (گرام) تھا جبکہ سال 2018میں یہ ذخیرہ عرصہ چار سالوں میں 50% کم ہو کر50ملین ٹن (گرام) رہ گیا ہے۔
اس سے تو دو ہی باتیں عیاں ہوتیں ہیں:اول تو غیرقانونی طریقے سے روبی پتھر کا اتنا بڑا ذخیرہ سمگل ہوا۔ دوم حکومت معدنیات پر توجہ ہی نہیں دے رہی اس لیے اسکی اپنی دستاویزات کے مطابق اعداد و شمار میں اتنا بڑا تضاد موجود ہے۔نیلم میں تو کوئی کارخانہ نہیں لگا جس کے زریعے اتنی بڑی مقدار میں روبی نکال کر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کیا گیا ہو۔ کارخارنے تو غریبوں کے لیے لگتے حکمران تو غریب سے صرف ووٹ لیتے اور پھر پانچھ سال کے لیے ہل میں جوت دیتے۔ آزاد کشمیر صنعت معدنیاتی ترقی کارپوریشن نے چند اور آرگنائزیشنز کے تعاون سے 1973 میں کشمیر میں معدنیات پر کام شروع کیا۔اس منصوبے کا اولین مقصد ایسے ذخائر کا پتہ لگانا تھا جو اعلی میعار کے ہوں اور انہیں بیرون ملک فروخت کیا جا سکے۔روبی نما گوہر،ترمری، سپیسارٹین اور دیگر قیمتی پتھر دریافت کیے گئے۔ آزاد کشمیر صنعت معدنیاتی ترقی کارپوریشن کی کاوشوں سے قابل قدر معدنی دریافتیں سامنے آئیں جن میں گوہر، روبی اور دیگر بے شمار معدنی ذخائر ملے۔ اس منصوبے کے لیئے تکنیکی اور مالی امداد یو این ڈی پی، یورپین اکنامکس کونسل((EEC اور ورلڈ بینک کی جانب سے فراہم کی گئی۔ سی آر بیزلے (جو کہ ایک امریکی جیالوجیکل لبارٹری کا صدر ہے) کے مطابق کشمیر کا نیلم (پتھر) پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے اور اسکی منفرد خصوصیات کی وجہ سے اسے کشمیری نیلم کا نام دیا گیا ہے۔کبوتر کے خون کے رنگ کا کشمیری روبی برما کے روبی سے مشابہت رکھتا ہے۔ان معدنیات کے کے ذخائر 14500فٹ کی بلندی پر پائے جاتے ہیں جو پوری دنیا کے سب سے بلندی پر پائے جانے والے ذخائر ہیں۔
ضلع نیلم میں ناگ مالی کے مقام پر پایا جانے والا روبی مختلف رنگوں میں دستیاب ہے۔گلابی سرخ رنگ اور گہرے سرخ رنگ کا روبی زیادہ مشہور ہیں۔سی آر بیزلے کے مطابق ناگ مالی میں پایا جانے والا روبی نیلم کی شان ہے۔ سب سے زیادہ مانگ والا سرخ گوہر تو پتھروں کے شوقین افراد کے لیے دنیا بھر میں سب سے پسندیدہ ہے۔ مختلف رنگوں کے امتزاج والا، گلابی اور سبزرنگ کی لائنوں والا گوہر نایاب مانا جاتا ہے۔ یہ پتھر پوری دنیا میں اپنے مثال آپ ہے۔ نیلم میں یہ خزانہ ڈونگا ناڑ میں پایا جاتا ہے۔مورگانٹک پتھر اورپکھراج بھی ان علاقوں میں دریافت ہوا ہے۔ مختلف رنگوں میں پایا جانے والا ترمری پتھر اپنی انفرادیت کی وجہ سے دنیا میں نمایاں مقام کا حامل ہے اور کشمیری ترمری کے نام سے پہچانا جا تاہے۔ یہ پتھر ڈونگا ناڑ کے علاقے سے 17کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب پایا جاتا ہے۔ سبز، گلابی اور دیگر رنگوں کے امتزاج والا روبی اور پکھراج جانوئی میں 12000فٹ کی بلندی پر پایا جاتا ہے۔گارنیٹ کا پتھر جسے اصطلاح میں مداری گارنیٹ کے نام سے جا نا جا تا ہے،یہ گارنیٹ کی نسل کا سب سے قیمتی اور نایاب پتھر ہے۔ سپیسارٹن پتھر بھی وادی نیلم کا انمول خزانہ ہے۔ان نایاب پتھروں کے علاوہ نیلم میں گرینائیٹ، ماربل،سونے اور دیگر نایاب اور قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ نیلم میں روبی 100ملین ٹن، گرینائٹ500.00ملین ٹن،ماربل 34.00ملین ٹن موجود ہیں۔
وادی نیلم کی حکومتوں کی عدم توجہی کے سبب بے شمار ذخائر ابھی تک پوشید ہ ہیں۔دنیا کے بے شمار ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ملک میں موجود معدنیات کو سائنسی طریقوں سے نہ صرف دریافت کیا ہے بلکہ ان سے اپنے ممالک کو بام عروج تک پہنچا چکے ہیں۔ہم صرف ووٹ لینے کے ہر بار نیا سائنسی طریقہ استعمال کرتے ہیں اور ہمارا یہ سائنسی تجربہ کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ان ممالک میں آسٹریلیا، کینیڈا، فن لینڈ، سویڈن، امریکہ قابل ذکر ہیں۔ ان ممالک میں وسیع پیمانے پر معدنی صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ ان ممالک نے معدنیات کی صنعت کے لیے باضابطہ طور پر بورڈ تشکیل دیے رکھے ہیں۔ ہم نیلم میں عوام کو کلین بولڈ تو کرتے مگر بورڈ تک لگانا گوارا نہیں کرتے۔ بورڈ بنانا تو بڑی دور کی بات ہے ہم ووٹ لینے کے بعد منہ بھی نہیں لگاتے۔ متذکرہ بالا پانچھ ممالک معدنیات کی بدولت امریکہ کی تیار کر دہ ہیومن ڈولپمنٹ انڈکس کے مطابق سب سے اوپر ہیں۔معدنیات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ نے دنیا میں جہاں بھی اپنی کالونیاں بنائی تھیں وہاں ان کا ہدف معدنیات ہی ہوتی تھیں۔ انہوں نے مقبوضہ علاقوں کی معدنیات کو لوٹ کر اپنے ممالک کو ترقی یافتہ بنا لیا۔
ہمیں اللہ تعالی نے اتنے ذخائر اور معدنیات سے نوازہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ہم نے تو پورے نیلم میں ایک بھی کارخانہ لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ہم معدنیات نکال کر بھی کیا کریں گے؟ ہم ان کو خام مال کی صورت میں دیگر ممالک کو فروخت ہی کر سکتے اور صنعت معدنیاتی ترقی کارپوریشن کا ہدف بھی یہی ہے۔ آزاد کشمیر صنعت معدنیاتی ترقی کارپوریشن کے تخمینے کے مطابق معدنیات کو ذخیرہ 137.915 ملین ٹن سے کہیں زیادہ ہے۔حکومت کو چاہیے وہ نیلم ویلی کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ویلی میں دیگر اضلاع کی طرح کارخانے لگا کر وادی کے بے روزگار افراد کو روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر کے ماضی کے غلطیوں کا کفارہ ادا کرے۔
جنگلات
صرف ازاد کشمیر سے سالانہ پانچ لاکھ سے زیادہ درخت کاٹ لیے جاتے ہیں جنکی مالیت 53ارب 75کروڑ روپے بنتی ہے اسکے علاوہ موسمی حالات اورآگ سے 05 کروڑ پودئے ضائع ہو جاتے ہیں صرف اس لکڑی کی اسمگلنگ روک کر اگر فرنچیر بنانے کی فیکڑیاں لگای جاہیں تو ہزاروں نوکریاں پیدا کی جا سکتی ہیں اور اربوں ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر کا .642 فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ جوعالمی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہیکہ یہ جنگلاتی وسائل تجارتی مقاصد کے لئے کاربن کریڈٹ کے منبع کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔
جڑی بوٹیاں؍ادویات؍فارماسوٹیکلز انڈسٹری
اسی طرح قدرت نے کشمیر کو دیگر بہت سے نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں جن میں قیمتی جڑی بوٹیوں کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ،ان جڑی بوٹیوں بہل، اجمود ، اجوائن ، آلو بخارا ، آک ، اڑوسہ ، املتاس ، اندرجو ، ایرسہ ، پھگواڑی ، انار، انگور ، السی ، ارنڈ ، اسطوخودوس ، بالچھڑ ، بھنگ ، بہی دانہ ، بادام ، بابچی ، بچھناک ، بداری کند ، بیروزہ ، بنفشہ ، بادیان ، بھوج پتر ، برہمی بوٹی ،بید شک ، بیر ، پاڈھل ، پاپڑہ ، پتھر جٹ ، پودینہ ، تلسی ، تگر ، جمال کوٹہ ، چنبیلی ، زیرہ ، زعفران ، کھمبی و دیگر سینکڑوں جڑی بوٹیاں شامل ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔
سیاحت
جدید دنیا میں کسی بھی ملک کی معشیت میں سیاحت ایک بہت اہم رول ادا کرتی ہے آزاد کشمیر کے اندر یورپ سے بھی خوبصورت سیاحتی مقامات موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اگر دو یا تین انٹرنیشنل ایرپورٹس کی تعمیر کے علاوہ سڑکیں، پارکس چیر لفٹس، ہوٹلز،شاپنگ مال اور جدید ٹرانپسورٹ کی سہولیتں فراہم کی جائیں اس سے لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے
ریاست کشمیر میں جس کی خوبصورتی کے حوالے سے مغل شہنشاہ جہانگیر لکھتے ہیں کہ کشمیر ایک سدا بہار باغ ہے یوں کہہ لیجیے کہ ایک فولادی قلعہ ہے جس کو کوئی زوال نہیں ۔ کشمیر بادشاہوں کیلئے ایک عشرت افزاء گلشن ہے اور درویشوں کیلئے ایک دلکش خلوت سرائے ہے، جہاں خوشنما چمن اور اور دلکش آبشاریں بے شمار ہیں ۔ دریا اور چشمے حدوحساب سے باہر ہیں ،جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے سبزہ اور آب رواں ہی دکھائی دیتا ہے ،گلاب بنفشہ اور خود نرگس صحرا صحرا کھلتے ہیں ۔ مغل بادشاہوں کے علاوہ سرفرانسس ینگ ہسبنڈ ، نائیگل کیمرون ، دیوان جرمنی داس مصنف مہا راجہ، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال سمیت دیگر بہت سی تاریخی شخصیات نے ریاست کشمیر کی خوبصورتی کے حوالے سے کلمات کہے ہیں ۔ریاست کشمیر کی خوبصورتی اور سیاحوں کو کھینچنے کیلئے جھیلوں کا کردار بھی بہت اہم ہے ان جھیلوں میں سوپور اور بانڈی پورہ میں واقع ایشیاء کی سب سے بڑی جھیل وولر ، سری نگر میں ڈل جھیل ، سری نگر کے قریب ہی واقع نگین جھیل ، جھیل آنچار ، مانس بل جھیل ، پہلگام کے قریب شیش ناگ ، جھیل کونسر ، گنگا بل جھیل ، جھیل تارسر مارسر ، جھیل کرشن سروشن سر ، ال پتھر جھیل ، شیندور جھیل ، بورٹ جھیل ، کچورہ جھیل ، ست پارہ جھیل ، راما جھیل ، پنگانگ جھیل ، جھیل سرن جھیل اور وادئی نیلم میں رتی گلی جھیل شامل ہیں ۔اس کے علاوہ ریاست کشمیر میں مغل بادشاہوں نے باغات پر سخت توجہ دی انہوں نے باغات لگانے کے فن سے دنیا کو آگاہی دی ریاست کے مشہور باغات میں ڈل جھیل کے کنارے شالیمار باغ، ڈل جھیل کے جنوب میں نشاط باغ ، ڈل جھیل غربی طرف نسیم باغ اور چار چنار باغ لگوائے ۔ باغات کے علاوہ ریاست کشمیر میں مشہور چشمے بھی موجود ہیں جو ریاست کی خوبصورتی اور پانی کی ضرورت کو پورا کرنے میں اہم معاون ثابت ہو رہے ہیں ان باغات میں سری نگر کے قریب چشمہ شاہی ، چشمہ ویری ناگ ، اسلام آباد شہر کے قریب چشمہ اچھل بل ، انت ناگ میں بے شمار چشمے موجود ہیں ۔ چشمہ ماتنڈ ، چشمہ ککڑ ناگ ، بارہ مولہ میں چشمہ کھیر بھوانی ، ضلع پونچھ ہجیرہ کے قریب گرم پانی کا چشمہ (تتہ پانی ) کے علاوہ ڈل جھیل کے قریب 51 چشمے دریافت ہو چکے ہیں ۔ریاست کشمیر میں بہت سے اہم قابل دید خوبصورت ایسے مقامات موجود ہیں جن کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے وادی کشمیر میں گل مرگ ، سری نگر میں سونہ مرگ اورسری نگر سے 96 کلو میٹر دور پہل گام موجود ہے ۔قدیم مذہبی اور دھامرک مقامات بھی موجود ہیں جن میں سری امر ناتھ ، جموں شہر میں تری کوٹا ، چرار شریف ، وادی نیلم میں شاردہ، پونچھ میں تولی پیر، بنجوسہ، باغ میں گنگا چوٹی جیسے خوبصورت مقامات شامل ہیں۔ریاست میں اہم تاریخی مقامات اکھنور کا قلعہ سکردو،استور،اونتی پورہ،باغ سر(باغ اور قلعہ )،بج بہادر ،ترال ،توشہ میدان ،جموں اور چلاس شامل ہیں۔اس کے علاوہ کشمیر کے شمالی صوبہ لداخ کو عجائبات و طلسمات کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ،لداخ کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ اس کا موسم بھی طلسماتی قسم کا ہے لداخ کو فضا سے دیکھا جائے تو اس میں تین رنگ سفید پہاڑون پر برف ، بھورا رنگ زمین کا اور سیاہ رنگ گہری کھائیوں کانظر آتا ہے ۔لداخ میں جو عجائبات ہیں ان میں کارگل سے 80کلومیٹر دور گرگون میں ایک ہی نسل کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں جن کی رنگت سفید ہے ، ، لیہہ کے علاقہ میں مہاتما بدھ کے سونے کے مجسمے بنے ہوئے ہیں
ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر پیرپنجال تک پھیلے ہوئے آزاد کشمیر کے دلکش ارضی خدوخال سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہوسکتے ہیں جو شاندار مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں. کشمیر قدرتی اور ثقافتی مقامات سے نوازا گیا ہے جن پر نہ صرف یہاں کی سیاحت کا دارومدار ہے بلکہ یہ کشمیرکے بیانیہ کو مضبوط کرنے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔
فلم انڈسٹری اورپروڈکشن ہاوس
پاکستان کے ذرائع ابلاغ یہاں اپنے ذیلی ادارے قائم کر کے اگر آزاد جموں و کشمیر کے شاندار ، جنت نظیر مناظر پر کام کریں تو اس وادی کے قدرتی حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں. مزید برآں، پاکستان کے ٹیلی ویژن پروڈکشن ہاوس آزاد جموں و کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور یہاں کے لوگوں کی ثقافت کی کھوج کے لئے مختلف پروگراموں کا آغاز کر سکتے ہیں۔
ان اقدامات سے جہاں عالمی برادری کے سامنے اس دلکش وادی کی اچھی منظر کشی ہوگی وہیں کشمیر کے لوگوں کو بھی توجہ ملے گی۔ پروڈکش ہاوسز میں ڈرامہ اور فلم سازی کے کام میں مقامی آبادی کو مواقع ملنے چاہئیں۔
افرادی قوت اور زرمبادلہ
آزاد کشمیر کے اسی پرسنٹ لوگ اعلی تعیلم یافتہ ہیں جو باہر کے ممالک میں تمام چھوٹی بڑی پوسٹوں پر کام کرتے ہیں جو اصل سرمایہ ہیں کیونکہ دنیا میں اس وقت نالج اکنامی کا سکہ چل رہا ہے لہذا ان تربیت یافتہ ماہرین کو اپنی ریاست کے اندر نوکریاں دیکر اس سے حقیقی فائدہ لیا جا سکتا ہے جن سے اس وقت دوسرئے ممالک بہتر ماحول کی وجہ سے فائدہ اٹھا کر اپنے ممالک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر سال باہر کے ممالک سے سالانہ اربوں روپے کا زرمبادلہ بجھتے ہیں جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس کے لیے عوامی شعور اور اپنے وسائل کی سمجھ بنیادی شرط ہے جس کے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
زراعت
آزاد کشمیر میں لوگوں کی اکثریت پیشے کے لحاظ سے زمیندار ہے لیکن موجودہ وقت میں زراعت مکمل زوال پزیر ہے یہاں پر دال سبزیوں، پھلوں،زیتون اور مکی کے تیل، زعفران اور اسکے علاوہ ادویات میں استعمال ہونے والے پودوں کے علاوہ فش فارمنگ،پولٹری اور دودھ دینے والے جانوروں کے فارم حکومتی تعاون سے بنائے جا سکتے ہیں۔
کاروبار
عام پڑھنے لکھے لوگوں کو بجائے نوکریوں کی طرف بھاگنے کے کاروبار کی طرف توجہ دینی چاہیے مقامی لوگوں کو کاروبار دیاجانا چاہیے اس رجحان کو بڑھانے کے لیے حکومتی سرپرستی بہت ضروری ہوتی ہے۔
بیرونی تجارت
ریاست جموں و کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن تجارت کے لیے انتہای موزوں ہے ریاست کے پڑوس میں دنیا کی دو بڑی ریاستیں چین اور ہندوستان موجود ہیں جو دنیا کو انتہای سستا مال فروخت کرتے ہیں ان سے تجارتی تعلقات کی بدولت نہ صرف سستی اشیا مل سکتی ہیں بلکہ لاکھوں نوکریاں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں لیکن اسکے لیے بھی داخلی خودمختاری لے کر اس پر کام کرنا ہو گا۔
صنعت اور پیداوار
دنیا کا کوی بھی ملک اس مشینی اور صنعتی دور میں صنعتی پیداور کے بغیر اگے نہیں بڑھ سکتا ہے اسکے لیے زرعی اجناس جن میں مکی کا تیل زیتون کا تیل نکالنے والی صنعت،پھلوں سبزیوں کو محفوظ کرنے والی صنعیتں،شالوں کی صنعت،ادوایات بنانے کی صنعت، سمنیٹ سازی،چمڑا سازی، لیکڑی اور فرنیچر سازی اسکے علاوہ بھی چھوٹی بڑی مختلف صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔
تعمیراتی صنعت
جدید سائنسی بنیادوں پر بنیادی ڈھانچے کی تعمیرات اج کے دور میں صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہیں چین کی معشیت میں یہ صنعت پیداوار کے بعد سب سے زیادہ نوکریاں پیدا کر رہی ہے اسکے علاوہ خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ نوکریاں اسی صنعت کی پیدا کردہ ہوتی ہیں اس انڈسٹری سے دوسری ہزاروں قسم کی صنعتیں بھی چلتی ہیں جس سے روزگار بڑھتا ہے اس کے بغیر سیاحت اور ترقی اور نہ ہی اسکے بغیر حقیقی ازادی اور خود کفالت کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔
ان تمام وسائل سے حقیقی فائدہ تبھی اٹھایا جا سکتا ہے جب عوام باشعور ہو کر ماضی کی گمراہ کن تاریخی کہانیوں اور اندھی عقیدت سے نکل کر مخلص اور وژنری لیڈر شپ کا انتخاب کرے گی جو ریاست کی بنیادوں کو بااختیار کر کے اسکو جدید خطوط پر استوار کر سکے گی۔
تعلیم و ہنر
قدرتی مناظر کے علاوہ آزاد کشمیر 74 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ افرادی قوت سے مالا مال ہے اور مالی سال 2017-18 میں ، آزاد کشمیر حکومت نے اس کے کل بجٹ کا 8 فیصد حصہ تعلیم کے لئے مختص کیا ہے۔ بہترین شرح خواندگی سے لیس اس عظیم افرادی قوت کو کشمیر کا بیانیہ پیش کرنے کے لئے منظم کیا جا سکتا ہے
پاکستان میں یونیورسٹیاں نجی کاروباری شعبے کے اشتراک عمل سے سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام تشکیل دے سکتی ہیں اس سے آزاد کشمیر کے لوگوں میں بین الثقافتی تفہیم کو بڑھانے میں مدد ملے گی اور پاکستان کے دیگر حصوں سے لوگوں کو کشمیر میں زندگی اور یہاں کی ثقافت کو جاننے کا موقع ملے گا
آزاد جموں کشمیرکی ثقافت میں دستکاریوں، زبانوں ، پکوانوں ، پہناووں، تہواروں اور رقص کا مسحورکن امتزاج پایا جاتا ہے ، جو اس کی ثقافت اورطرز بودوباش کو مزین کرتے ہیں. آزاد کشمیر کی دستکاری صنعت کو لوگوں کی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر بنانیکے لئے استعمال کی جا سکتا ہے۔ کراچی کی کاروباری تنظیمیں یہاں کی ہینڈی کرافٹ انڈسٹری میں سرمایہ مختص کرکے کشمیر کے لوگوں کی مستحکم معاشی بہبود میں تعاون کر سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ، پاکستان اور بھارت سے اہل علم اور دانشور کشمیر کو اس نازک صورت حال سے نکالنے کی فوری ضرورت کے حوالے سے مشترکہ علمی منصوبے شروع کرکے اورمختلف النوع موضوعات پر مبنی مواد مرتب کر کے ، اسے شائع کر کے عوام میں اجتماعی شعور کی بیداری کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بہتر مستقبل اور خوشحالی کے لئے لوگوں میں امید نو کی بیداری سے شائد ان کے جذبے اور خلوص کو عمل کے لئے تحریک دینا ممکن ہوگا . یہ امید ہی ہے جو لوگوں کو روایتی سوچ کی حدوں سے کہیں آگے خیال کی بلندیوں پر لیجاتی ہے. کشمیر سے متعلق یوٹوپین ادب لوگوں میں ایک امید پیدا کرے گا کہ کس طرح یہ خطہ تنازعہ حل ہوتے ہی ترقی اور خوشحالی حاصل کر سکتا ہے اور یہ دونوں معاشروں اور ریاستوں کواس قدیم ترین تنازعہ کے پائیدار حل تلاش کرنے پر مجبور کے سکتا ہے
کشمیر کے لئے سماجی و اقتصادی نمونے کی منصوبہ بندی پر مبنی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے، اگر پاکستان آزاد کشمیر میں ایک پائیدار ترقی کے ماڈل کی تعمیر کرتا ہے تو عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے اس کا سے بیانیہ مضبوط ہو گا ۔ جو عوام اور خطے کے بیانیے کو عالمی سطح پر سماجی و اقتصادی تناظر میں پیش کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری کو کشمیر سے متعلق پوشیدہ حقائق باور کرائے۔کشمیر ایک تہذیبی ورثہ کا حامل ہے، یہ ثقافتوں اور مذاہب کا مرکز ہے . بدھ مت سے لے کے ہندومت اور اسلام ، سرزمین کشمیر میں مخنلف مذاھب کے اختلاط سے ایک دلکش سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے کشمیر کی اہمیت کی نسبت سے کشمیر کے سماجی اقتصادی نمونے کو اجاگر کرتے ہوئے ہماری مکمل توجہ خطے میں پائیدار ترقی اور امن کے لئے تنازعے کے حل پر مرکوز رہنی چاہئے۔
قدرتی وسائل اور ان کی تلاش و ترقی
آزاد کشمیر کے معدنی وسائل، زراعت و آبپاشی، آزاد کشمیر میں آئل اینڈ گیس کے ذخائر کی تلاش، گھریلو صنعت وحرفت، ایئر پورٹ کی تعمیر، آزاد کشمیر میں جنگلات کے تحفظ کے اقدامات، نہر کے ساتھ تجاوزات کا خاتمہ جیسے مسائل کشمیر کے موجودہ ھکمرانوں کی توجہ چاہتیہین۔آزاد کشمیر میں بھی آئل اور گیس کے ذخائر تلاش کیے جائیں تاکہ آزاد ریاست کے عوام معدنی وسائل سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ ریاست کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے لیے ریاستی ادارے ٹھوس و مثبت کردار ادا کریں۔ریاست کے قدرتی وسائل پر عوام کا حق ہے۔ کشمیر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ وقت کا تقاضا ہے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر آزاد کشمیر میں آئل اینڈ گیس کی تلاش کی خاطر متعلقہ اداروں کا اجلاس فوری بلائیں۔ گزشتہ70سال میں آئل اینڈ گیس کی تلاش پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ آزاد کشمیر میں جنگلات کے تحفظ اور آبادی کے بڑھتے ہوئے افراط زر کا تقاضا ہے کہ حکومت آزاد کشمیر اپنے قدرتی وسائل سے استفادہ حاصل کرے۔ ح کشمیر کو خوراک، زراعت و آبپاشی میں خود کفیل بنانے کے لیے حکومت عوام کو سہولیات مہیا کرے۔ آزاد کشمیر میں مناسب جگہون پر ائر پورٹ تعمیر کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی بھی خاص ضرورت ہے۔
آزاد جموں کشمیر کا خطہ ایک زرخیز اور معدنی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ اس خطے کے ان وسائل کو بروے کار لا کر کثیر زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو سیراب کرنے والے تمام دریا کشمیر سے ہی نکلتے ہیں۔ ہہی منگلا ڈیم جس کے حوالے لوگوں نے اپنے پرکھوں کی جائیداد اور قبرستان کر دیے، اس سے پیدا ہونے والی بجلی بھی پاکستان ہی کو روشن کرتی ہے اور بدلے میں ہمیں تربیلا کی بجلی دوگنی قیمت پر مہیا کی جاتی ہے۔ ہمارے جنگلات کی عمدہ ترین لکڑی پر بھی ہمارا حق نہیں ہے بلکہ یہ لکڑ پاکستان جاتی ہے اور پھر مہنگے داموں ھماری عوام کو فروخت کی جاتی ہے۔ میں اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہمارے معدنی ، آبی، اور جنگلات کے وسائل پر ہمارا حق نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟
آزاد کشمیر میں ترقیاتی کاموں کے طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے, کوٹلی کی سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں اور زرائع ابلاغ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا تا رہا ہے۔2005 میں جب آزاد کشمیر میں جب زلزلہ کی تباہ کاریوں نے ہزاروں انسانی جانوں کو نگل لیا تو بیرون ملک فلاحی اداروں نے پاکستان حکومت سے درخواست کی کہ انھیں فلاحی کام کرنے کے لیے اور مسلسل رابطہ کے لیے اس خطہ میں موبائل سروس فراہم کی جائے۔ تا کہ فلاح کے کام کو تیز کیا جا سکے۔ اس سے پہلے ایک متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے اس خطہ کو موبائل سروس سے اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات سے محروم رکھا گیا تھا۔ آج ہمارے ہاں موبائل سروس تو موجود ہے لیکن جہاں پوری دنیا 4جی سے مستفید ہو رہی ہے وہا ں آزاد کشمیر میں ایک واجبی سی انٹرنیٹ کی سہولت موبایل فون پر موجود ہے جو قسمت اچھی ہو تو کبھی کبھار کام کرنے لگتی ہے۔ موبائل فون کمپنی انٹرنیٹ چارجز تو کاٹ لیتی ہے مگر انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے سیقاصر ہے۔ اسی طرح کی ایک وائر لیس انٹر نیٹ سروس جو کہ ایوو کہلاتی ہے کوٹلی میں انٹرنیٹ سروس مہیا کرتی ہے۔ یہ ایک نہایت تھکی ہوئی سروس ہے جس کے سگنل شہر کے کچھ حصوں میں سرے سے آتے ہی نہیں ہیں۔
آج کی نوجوان نسل یہ سوال کرتی ہے کہ آزاد کشمیر کو متنازعہ علاقہ سمجھ کر اسے ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں دھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو دوسرے صوبوں اور ہمارے جیسے متنازعہ علاقوں کو خون چوس رہا ہے۔بلوچستان کی مثال بڑی واضح ہے، اس علاقے کے وسائل کو مفت میں استعمال کر کے بلوچستان کو انتہائی پس ماندہ رکھ کر نفرت کا بیج بویا گیا ہے نتیجتاَ بلوچی علیحدگی پسند تحریک اب کھل کر سامنے آ چکی ہیں ۔
آزاد کشمیر کے علاقوں میں اگر لوگوں کے حالات اچھے ہوئے ہیں تو وہ تارکینِ وطن ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ وگرنہ ہمارے علاقوں میں تو نہ کوئی فیکٹری ہے اور نہ ہی پڑہے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع۔ پاکستان اور آزاد کشمیر گورنمنٹ کو چاہئے کہ آزاد کشمیر کے مسائل کی طرف توچہ دے، وگرنہ نوجوان نسل منفی ہو کر تخریب کاری کی راہ پر چل پڑے۔
اے جے کے کونسل
پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر میںنافذ العمل عبوری آئین 1974ء میںچودہویںترمیم کے لئے مجوزہ ڈرافٹ تیار کر لیا گیاہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ مجوزہ ڈرافٹ پاکستان کی وفاقی حکومت کے وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میںتیار کیا گیا ہے جسے پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کی حکومت کو اسمبلی سے منظور کروانے کیلئے بھیجا گیا ہے.
دس صفحات پر مشتمل مذکورہ مجوزہ ڈرافٹ حال ہی میں سامنے آیا ہے۔جس میںمجموعی طور پر پندرہ بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے نہ صرف کشمیر کونسل کے قانون سازی کے اختیارات بحال کرنے کی ترامیم تجویز کی گئی ہیںبلکہ ساتھ ہی بھارتی زیر انتظام جموںکشمیر کیعلاقوں (جموں5 ، کشمیر5 اور لداخ2 )کیلئے 12 نشستیںمختص کرتے ہوئے کل نشستوںکی تعداد 65 کرنے کی تجویز دی گئی ہے. تاہم نئی شامل ہونے والی بارہ نشستوں پر بھارتی زیر انتظام جموںکشمیر کی آزادی تک انتخابات نہیںکروائے جائیںگے. اس کے علاوہ ججز کی تقرری کے طریقہ کار میںایک مرتبہ پھر ردو بدل کیا گیا ہے. انجمن سازی، یونین سازی اور سیاسی جماعتوں کے قیام سے متعلق شقوں میںبھی تبدیلیاںکی گئی ہیں. پاکستان مخالف نظریات رکھنے والی جماعتوں پر پابندی اور ہر جماعت کے فنڈنگ سورس کی تحقیقات کا طریقہ کار بھی تجویز کیا گیا ہے.
ذیل میںچودہویںترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ میںتجویز کی گئی ترامیم کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے:-
اس ایکٹ کو آزاد جموںو کشمیر عبوری دستور (چودہویں ترمیم) ایکٹ 2020 کہا جائیگا.اور یہ ایک ہی بار میںنافذ ہو جائیگا.
عبوری دستور 1974 کے آرٹیکل 04 کے ذیلی آرٹیکل 04 کے پیرا گراف 7 کو تبدیل کیا گیا ہے. جس کے مطابق:
انجمن کی آزادی:-
1). ریاست کے ہر باشندہ کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ پاکستان یا آزاد جموںو کشمیر (پاکستانی زیر انتظام کشمیر) کی خودمختاری اور سالمیت اور اخلاقیات و پبلک آرڈر کے مفاد میںقانون کی طرف سے عائد کردہ کسی بھی معقول پابندی کے تحت انجمن یا یونین تشکیل دے.
2).پاکستان اور آزاد جموںو کشمیر کی خودمختاری اور سالمیت کے مفاد میںقانون کی طرف سے عائد کردہ کسی بھی معقول پابندی پر عمل پیرا رہتے ہوئے ہراس سٹیٹ سبجیکٹ (باشندہ ریاست) کو کوئی سیاسی جماعت تشکیل دینے یا اسکا رکن بننے کا حق حاصل ہو گا جو سروس آف پاکستان یا آزاد جموں و کشمیر میں شامل نہ ہو. یہ قانون حکومت پاکستان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاکستان یا آزاد جموںو کشمیر کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف کام کرنے کی نشاندہی کر سکے گی. حکومت پاکستان اس طرح کے اعلان کے پندرہ دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کے پاس بھیجے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا.
3). آزاد جموں و کشمیر(پاکستانی زیر انتظام کشمیر) میںکسی بھی فرد یا سیاسی جماعت کو اجازت نہیںہو گی کہ وہ ریاست کے پاکستان سے الحاق کے نظریہ (نظریہ الحاق پاکستان) کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کرنے، متعصبانہ یا مضر سرگرمیوں میںحصہ لے.
4). ہر سیاسی جماعت قانون کے مطابق اپنے فنڈز کے ذرائع کا محاسبہ کرے گی.
ٰ(ب) پیرگراف 17 میں درج لفظ ریاست کو آزاد جموںو کشمیر سے تبدیل کیا جائے گا.
عبوری آئین کے آرٹیکل 19 کے ذیلی آرٹیکل (1) کو تبدیل کرتے ہوئے درج ذیل شق شامل کی گئی ہے:-
1). قانون ساز اسمبلی کو حاصل قانون سازی کے اختیارات بشمول تھرڈ شیڈول میںدرج کشمیر کونسل کی قانون سازی کی فہرست میں شامل معاملات میںحکومت کی ایگزیکٹو اتھارٹی کو توسیع کا اختیار ہوگا جسے درج ذیل طریقے سے استعمال کیا جائے گا:
(الف) شق نمبر 31 کی ذیل شق 4 میں بیان کردہ معاملات کے سلسلہ میں حکومت پاکستان کی ذمہ داریوںمیںمداخلت نہیںکرنی؛ اور
(ب) کونسل قانون سازی فہرست میںبیان کردہ معاملات کے سلسلہ میںبنائے گئے قوانین کی تعمیل کو یقینی بنایا جائے گا.
عبوری دستور کے آرٹیکل 21 کے سب آرٹیکل 8 کوتبدیل کر دیا گیا. جس کی جگہ درج ذیل سب آرٹیکل شامل کیا گیا:
(8) تیسرے شیڈول میں طے شدہ امور اور مضامین کے سلسلے میں کونسل کو قانون ساز اختیارات حاصل ہوں گے۔
آرٹیکل نمبر 21 کے سب آرٹیکل 8 کے بعد سب آرٹیکل 9، 10، 11 اور 12 کو شامل کیاجائے گا، جو درج ذیل ہونگے:
9). تیسرے شیڈول میںبیان کردہ مضامین اور معاملات کے سلسلہ میں ایگزیکٹو اتھارٹی کا استعمال حکومت عبوری آئین کی شق نمبر 19 کی ذیلی شق نمبر 01 کے مطابق کرے گی.
10)کونسل اپنے طریق کار اور اپنے کاروبار کو منظم کرنے کے لئے قواعد تشکیل دے سکتی ہے ، اور اس کی رکنیت میں خالی جگہ کے باوجود عمل کرنے کا اختیار رکھ سکتی ہے ، کونسل کی کوئی بھی کارروائی اس بنیاد پر باطل نہیں ہوگی کہ جو شخص ایسا کرنے کا اہل نہیں تھا وہ کارروائی میںشریک ہوا ، اس نے ووٹ دیا یا کسی اور طرح سے اس کارروائی میں حصہ لیا۔
11) کونسل چیئرمین کونسل کے بزنس کو باقاعدہ بنا سکتاہے، بزنس کیلئے کوئی بھی کام حکام یا ماتحت افسروں کو تفویض کر سکتا ہے.
12) وزیراعظم پاکستان کے الفاظ اس شق میںجہاںبھی پائے جاتے ہیں وہاں اس شخص کو تصور کیا جائے گا جو اس وقت پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے اختیارات استعمال کر رہا ہو.
عبوری آئین کے آرٹیکل نمبر 22 کے سب آرٹیکل 1 میں53 کی جگہ 65 لکھا جائیگا. اور شق ای کے بعد شق ایف بھی شامل کی جائیگی، جو درج ذیل ہوگی:
(ایف) ریاست جموں و کشمیر کے مندرجہ ذیل علاقوں سے 12 ممبران جو اس وقت انڈیا کے کنٹرول میںہیں:
i) وادی (کشمیر) سے پانچ
ii) جموں سے پانچ؛ اور
iii) لداخ سے دو
تاہم اس شق میں مذکور ممبران کا انتخاب نہیںہوگا یا وہ اسمبلی کی ممبرشپ کی گنتی میںشامل نہیںہونگے، اس وقت تک کہ جب ریاست جموںکشمیر کے ان حصوں سے بھارت کا قبضہ ختم نہیںہوتا اوروہاںکے لوگ اپنے نمائندوںکا خود انتخاب نہیںکرتے. یعنی یہ بارہ نشستیں قانون سازی کے عمل، صدر، وزیراعظم، سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے عہدے کیانتخاب کیلئے گنتی میں شمار نہیںکی جائیں گی.
سی). سب آرٹیکل چار میں60 کی جگہ 90 لکھا جائیگا. (یعنی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے ساٹھ ایام کی بجائے اب نوے ایام کے اندر الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائیگا)
عبوری دستور کے آرٹیکل 31 کے ذیلی آرٹیکل 2، 3 اور چار کو درج ذیل آرٹیکلز سے تبدیل کر دیا گیا ہے:-
2) اسمبلی کو خصوصی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی ایسے معاملے پرقوانین بنائے جو تھرڈ شیڈول میں شامل نہ ہو۔
3) کونسل کو خصوصی اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ تھرڈ شیڈول میں درج کسی بھی معاملے کے سلسلے میں قانون بنائے۔
4) کونسل اوراسمبلی کو درج ذیل معاملات سے متعلق قانون سازی کا اختیارنہیں ہوگا:
(الف) UNCIP قراردادوں کے تحت حکومت پاکستان کی ذمہ داریاں۔
(ب) آزاد جموں و کشمیر کا دفاع اور سلامتی۔
(ج) موجودہ سکے یا بل ، نوٹ یا دیگر کاغذی کرنسی کا اجرا؛ یا
(د) آزاد جموں و کشمیر کے بیرونی امور بشمول غیر ملکی تجارت اور غیر ملکی امداد۔
عبوری آئین کے آرٹیکل 34 کے بعد ایک نیا درج ذیل آرٹیکل 35 شامل کیا گیا ہے:-
35). کونسل کے ذریعے منظور کردہ بل کے لئے صدر کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہوگی اور کونسل کے چیئرمین کے ذریعہ اس کی توثیق ہونے پر وہ قانون بن جائے گا اور کونسل کا ایکٹ کہلائے گا۔
عبوری آئین کے آرٹیکل 41 میںترمیم کے بعد ایک نیا آرٹیکل 41-Aشامل کیا گیا جو درج ذیل ہے:-
41-اے). آزاد جموں وکشمیر کا جوڈیشل کمیشن ہوگا ، جو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کیلئے تجاویز تیار کرے گا۔
(2) سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لئے کمیشن درج ذیل ممبران پر مشتمل ہوگا:
(i) چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر (چیئرمین)
(ii) سپریم کورٹ سینئر ترین جج (ممبر)
(iii) سپریم کورٹ کا دوسرا سینئر ترین جج (ممبر)
(iv) وزیر برائے قانون آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر( ممبر)
(v) ایک سینئر وکیل جو ایک سال کی مدت کے لئے آزاد جموںو کشمیر بار کونسل کے ذریعہ نامزد ہوگا
3) ذیلی آرٹیکل (1) یا ذیلی آرٹیکل (2) میں شامل کسی بھی چیز کے باوجود صدر آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تقرری کرے گا۔
4) کمیشن اپنے طریقہ کار کو باقاعدہ بنانے کے قواعد وضع کرسکتا ہے۔
5) ہائیکورٹ کے ججوں کی تقرری کے لئے ، ذیلی آرٹیکل (2) میں کمیشن مندرجہ ذیل ممبران بھی شامل کرے گا:
(i) ہائی کورٹ کے چیف جسٹس(ممبر)
(ii) سینئر ترین جج ہائی کورٹ (ممبر)
بشرطیکہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لئے ، سب سے سینئر جج ذیلی آرٹیکل (5) کے سیریل نمبر (II) میں مذکور ہے ، کمیشن کا ممبر نہیں ہوگا۔
6) کمیشن کے ممبران اکثریتی رائے سے سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں جج کی ہر خالی جگہ کے لئے تین افراد کا پینل تیار کر کے وزیراعظم آزاد جموںو کشمیر کو ارسال کرینگے.
عبوری آئین کے آرٹیکل 42 کے ذیل آرٹیکل 4 کو تبدیل کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ آزاد جموںو کشمیر کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ہر جج کی تقرر صدر آزاد جموںو کشمیر وزیراعظم کے مشورے پر کرے گااور یہ کام آرٹیکل 41-اے کے مطابق سرانجام دیا جائے گا.(اس کے علاوہ ایڈہاک جج کی تقرری کیلئے بھی مخصوص وقت اور مقصد کی وضاحت پیشگی شامل کرنے کا اضافہ بھی کیا گیا ہے)
آرٹیکل 43 کے ذیلی آرٹیکل 2-اے کو بھی تبدیل کرتے ہوئے چیف جسٹس ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کے تقرر کا طریقہ کار بھی سپریم کورٹ کی طرز پر کرنے کی تجویز دی گئی ہے.
اسی طرحارٹیکل 43 کے ذیل آرٹیکل 3 میںترمیم کر کے ہائی کورٹ کے جج کیلئے دس کی بجائے 15 سال تجربہ بطور ہائی کورٹ لازمی قرار دیا گیا ہے. اسی طرحشق الف میں ایک نئے پیرا گراف کا اضافہ کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے جج کی قابلیت میںشامل کیا گیا ہے کہ اس کے کم از کم 25 سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے فیصلہ جات قومی جریدہ برائے قانون میںشامل ہونے چاہئیں. اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے جج کیلئے کم از کم عمر کی حد 50 سال بھی مقرر کی جانی تجویز کی گئی ہے.
ہائی کورٹ کے جج کی تقرری کیلئے 70 فیصد کوٹہ وکلاء کیلئے اور 30 فیصد جوڈیشل افسران کیلئے مختص کرنے کی بھی تجویز ہے.
عبوری دستور کے تھرڈ شیڈول کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو درج ذیل ہے:-
(نوٹ:تھرڈ شیڈول میںشامل معاملات پر قانون سازی کا اختیار کشمیر کونسل کو دیئے جانے کی تجویز ہے)
1.پوسٹ اور ٹیلی گراف ، بشمول ٹیلیفون ، وائرلیس ، براڈ کاسٹنگ اور دیگر جیسے مواصلات؛ پوسٹ آفس بچت بینک۔
.ایٹمی توانائی ، بشمول:
(a) جوہری توانائی کی پیداوار کے لئے ضروری معدنی وسائل؛
(ب) جوہری ایندھن کی پیداوار اور ایٹمی توانائی کی پیداوار اور استعمال۔ اور
(c) آئیونائزنگ تابکاری۔
.ہوائی جہاز اور ہوائی نیویگیشن؛ ایروڈوم کی فراہمی؛ ہوائی ٹریفک اور ایروڈروم کی تنظیم سازی۔
.ہوائی جہاز کی حفاظت کے لئے بیکنز اور دیگر دفعات۔
.مسافروں اور سامان کے ذریعے ہوائی جہاز۔
.کاپی رائٹ ، ایجادات ، ڈیزائنز ، ٹریڈ مارک اور تجارتی نشانات۔
.افیون کی برآمد اور فروخت۔
.اسٹیٹ بینک آف پاکستان؛ بینکنگ ، یعنی یہ کہنا ہے کہ ، آزاد جموں و کشمیر کی ملکیت یا ان کے زیر انتظام کارپوریشنوں کے علاوہ کارپوریشنوں کے ذریعہ بینکنگ کاروبار کا انعقاد اور صرف آزاد جموں و کشمیر میں ہی کاروبار جاری ہے۔
.انشورنس قانون ، سوائے آزاد جموں و کشمیر کے ذریعہ کئے گئے انشورنس کا احترام اور انشورنس کاروبار کے انعقاد کے ضوابط ۔
۔ اسٹاک ایکسچینجز اور فیوچر مارکیٹ اور اشیاء جن کا کاروبار آزاد جموں و کشمیر تک ہی محدود نہیں۔
.سائنسی اور تکنیکی تحقیق کی منصوبہ بندی اور کوآرڈینیشن سمیت معاشی ہم آہنگی کی منصوبہ بندی۔
.شاہراہیں جو آزاد جموں و کشمیر کے علاقے سے آگے جاتی ہیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ سڑکیں بھی جو اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہیں۔
.بیرونی امور؛ دیگر ممالک کے ساتھ تعلیمی اور ثقافتی معاہدے اور معاہدوں سمیت معاہدوں کا نفاذ بشمول پاکستان سے باہر کی حکومتوں میں مجرموں اور ملزموں کی حوالگی.
.زرمبادلہ؛ چیک ، بل کا تبادلہ ، وعدہ نوٹوں اور ایسے ہی دوسرے آلات۔
.لائبریریاں ، عجائب گھر اور ایسے ادارے جو حکومت پاکستان کے زیرانتظام ہیں یا مالی تعاون حاصل ہے۔
.حکومت پاکستان کی ایجنسیوں اور انسٹی ٹیوٹ کو مندرجہ ذیل مقاصد کے لئے ، یعنی تحقیق کے لئے ، پیشہ ورانہ یا تکنیکی تربیت کے لئے ، یا خصوصی مطالعات کے فروغ کے لئے۔
.آزاد جموں و کشمیر کے طلباء اور آزاد جموں و کشمیر میں غیر ملکی طلبا کے احترام کے طور پر تعلیم۔
.حکومت پاکستان کی تعریف کے مطابق کسٹم فرنٹیئرز میں درآمد اور برآمد۔
.بین الاقوامی معاہدے ، کنونشن ، معاہدے اور بین الاقوامی ثالثی۔
.جیولوجیکل سروے اور موسمیاتی تنظیموں سمیت سروے
.وزن اور اقدامات کے معیار کا قیام۔
.کسٹم کے فرائض ، بشمول ایکسپورٹ ڈیوٹی۔
.ریلوے۔
.معدنی تیل اور قدرتی گیس۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ مائعات اور مادے خطرناک طور پر جلانے کے قابل ہیں۔
.قومی منصوبہ بندی اور قومی معاشی ہم آہنگی ، بشمول سائنسی اور تکنیکی تحقیق کی منصوبہ بندی اور ہم آہنگی۔
.عوامی قرضوں کی نگرانی اور انتظام۔
.بوائلر
.مردم شماری۔
.سامان یا مسافروں پر ریلوے یا ہوائی جہاز سے ٹرمینل ٹیکس ، ان کے کرایوں اور مال برداروں پر ٹیکس۔
.آزاد جموں و کشمیر سے پاکستان یا پاکستان سے آزاد جموں و کشمیر میںبیماریوں ، انفیکشنز ، جانوروں، یا پودوں کے انفیکشنز کے پھیلاو کی روک تھام کیلئے اقدامات.
.میڈیکل اور دیگرشعبے بشمول پیشہ قانون.
.اس فہرست میں شامل کسی بھی معاملے کے حوالے سے قوانین کے خلاف جرائم۔
.اس فہرست میں شامل کسی بھی معاملے کے مقاصد کے لئے پوچھ گچھ اور اعدادوشمار
دوسری طرف حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا چودہویںترمیم کے ڈرافٹ کی منظوری کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے شدید دباو ہے. فاروق حیدر حکومت کا آئندہ سال بھی مذکورہ ترمیم کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے. تاہم وفاق کی جانب سے اس متعلق کوئی رد عمل سامنے نہیںآیا ہے. نہ ہی ڈرافٹ مرتب کرنے والے کے دستخط شامل ہیں اور نہ ہی اس ڈرافٹ پر کہیںیہ لکھا گیا ہے کہ یہ ڈرافٹ وفاق کی جانب سے تیار کیا گیا ہے یا پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کی حکومت کی طرف سے تیار کیا گیا ہے.
تاہم پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کی بار کونسل کے وائس چیئرمین چوہدری الیاس ایڈووکیٹ نے مذکورہ مجوزہ ڈرافٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عبوری آئین کو مکمل طور پرمفلوج کرنے سے تعبیر کیا ہے.
۔۔۔
آئینی ترامیم کا غیر مصدقہ مسودہ وائرل: پاکستانی کشمیر اور جی بی کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کی تجویز
آئین پاکستان میں ترمیم کے ایک غیر مصدقہ مجوزہ مسودہ کے پانچ صفحات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں، پاکستان کی وفاقی حکومت اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت نے مذکورہ مسودہ کی تردید یا تصدیق نہیں کی۔مذکورہ مسودہ کے پانچوں صفحات پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے پاکستان کے ساتھ تعلق کی وضاحت کے حوالے سے تجویز کردہ ترامیم سے متعلق ہیں۔
مبینہ مسودہ کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کے ذریعے کئے جانے سے قبل پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے دو صوبوں کی طرز پر رکھے جانے کی تجویز ہے،قومی اسمبلی میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی آٹھ اور گلگت بلتستان کی تین نشستیں مقرر کرنیکی تجویز ہے،جبکہ سینٹ میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی مشترکہ طور پر پانچ، پانچ نشستیں رکھنے کی تجویز ہے، جن کا انتخاب دونوں خطوں کی اسمبلیوں سے مشترکہ طو رپرکیا جائیگا۔ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین صدر پاکستان کے انتخاب کے لئے ووٹ دینے کے اہل ہونگے، آئین پاکستان کی تمام شقیں دونوں خطوں پر لاگوہونگی۔
غیر مصدقہ مسودہ کے وائرل ہونے
والے صفحات میں کیا ہے۔۔۔؟
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے آئین پاکستان میںترمیم کے مجوزہ مسودہ کے غیر مصدقہ صفحات میںمجموعی طور پر سات ترامیم تجویز کی گئی ہیں. یہ تمام ترامیم پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق ہیں.
آئین کے آرٹیکل ون(جمہوریہ اور اس کے علاقہ جات)کی دوسری شق کے بعد نئی شق شامل کرنے اور شق نمبر تین کو شق نمبر چار قرار دینے کی تجویز ہے۔ نئی شامل ہونے والی شق نمبر تین میں تجویز کیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی انتقال(حتمی حیثیت کا تعین) ریاست کے عوام کی خواہش کے مطابق کیا جائے گا، جس کا اظہار وہ اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔ یہ رائے شماری اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی قراردادوں کی روشنی میں کی جائیگی۔
دوسری ترمیم آرٹیکل چالیس کے بعد ایک نئے آرٹیکل کی شمولیت کی تجویز کی گئی ہے۔ آرٹیکل چالیس (الف) میں تجویز کیا گیا ہے کہ ریاست عالمی سطح پر تمام ضروری کوششیں کرے گی تاکہ ریاست جموں کشمیر حتمی انتقال کیلئے اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی قراردادوں کے مطابق آزاداور غیر جانبدار رائے شماری ہو سکے۔
تیسری ترمیم آرٹیکل 41میں تجویز کی گئی ہے جو صدر پاکستان کے انتخاب سے متعلق ہے۔آرٹیکل 41کی ذیلی شق کے پیرا (الف) اور (ب) کے ساتھ پیرا (ج) کا اضافہ بھی کیا جائے گا۔ پیرا (الف) اور (ب) کے مطابق صدر کا انتخاب دونوں ایوانوں کے ارکان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے ہوتا ہے۔ پیرا (ج) کی شمولیت کے تجویز کے بعد صدر کے انتخاب کیلئے آزاد جموں و کشمیر (پاکستانی زیر انتظام کشمیر)اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں کے اراکین بھی ووٹ دینے کے حق دار ہونگے۔یہ حق انہیں صدر پاکستان کی جانب سے دونوں اسمبلیوں کے اتفاق کے بعد جاری کئے گئے حکم کے بعد حاصل ہو سکے گا۔
چوتھی آئینی ترمیم آرٹیکل 51میں تجویز کی گئی ہے۔ آرٹیکل 51کی ذیلی شق 1 (جو وضاحت کرتی ہے کہ قومی اسمبلی میں خواتین اور غیر مسلموں کیلئے مخصوص نشستوں کے بشمول ارکان کی تین سو بیالیس نشستیں ہونگی) کے آخر میں یہ شامل کیا جائے گا کہآرٹیکل ون کی شق تین کے تحت ریاست جموں کشمیر کی حتمی شکل کے تعین کے التواء تک آزاد جموں و کشمیر کی 8اور گلگت بلتستان کی تین نشستیں مقرر ہونگی۔ جو صدر پاکستان کی جانب سے آرٹیکل257کی شق 2کے تحت جاری کئے گئے حکم کے ذریعے مقرر ہونگی
پانچویں ترمیم آرٹیکل59میں تجویز کی گئی ہے ،جو سینیٹ سے متعلق ہے۔ آرٹیکل انسٹھ کی شق 1کے آخر میں یہ شامل کیا جائے گا کہآرٹیکل ون کی شق تین کے تحت ریاست جموںو کشمیرکے حتمی انتقال کے التواء تک آزاد جموں و کشمیراور گلگت بلتستان کیلئے پانچ پانچ نشستیں بھی شامل کی جائینگی۔ جو صدر کی جانب سے آرٹیکل257کی شق 2کے تحت جاری کردہ فرمان کے تحت پر کی جائینگی ۔
چھٹی ترمیم آرٹیکل 257کی تبدیلی سے متعلق ہے،مجوزہ ڈرافٹ میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 257کو مکمل تبدیل کرتے ہوئے پانچ نئی شقیں تجویز کی گئی ہیں:
1)۔ جب ریاست جموں کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرینگے ، تب پاکستان اور ریاست کے درمیان تعلق کا تعین ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔
2)۔آئین کے آرٹیکل 1کی شق 3کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا حتمی انتقال (حتمی حیثیت کا تعین) ہوگا۔ اس کے باوجود اس آئین کی تمام شقیں بالترتیب آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان پرصدر کے فرمان تحت تمام مستثنیات اور ترمیمات ، اگر ہوں، کے تابع پر لاگو ہونگی۔ بشرطیکہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے اتفاق رائے کے علاوہ اس طرح کا کوئی حکم جاری نہ کیا جائے۔
3)۔ آئین کی ان شقوں ،جوان پر لاگو ہوتی ہیں کے نفاذ کے مقصد کے لئے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کوصوبوں کی طرح سمجھا جائے گا۔
4)۔ آزاد جموں و کشمیر میں اس کے اطلاق کے بعد جہاں بھی صوبہ، صوبائی اسمبلی، صوبائی گورنر، گورنر، وزیر اعلیٰ، صوبائی وزیر، سٹیزن آف پاکستانکے الفاظ استعمال ہوں انہیں آزاد جموں و کشمیر، قانون ساز اسمبلی آف آزاد جموں و کشمیر، حکومت آزاد جموں و کشمیر، صدر آزاد جموں و کشمیر، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، وزیر حکومت آزاد جموں و کشمیر، اور باشندہ ریاست جموں و کشمیر پڑھا جائے۔
5)۔ گلگت بلتستان پر اطلاق کے بعد جہاں بھی صوبہ، صوبائی حکومت، صوبائی وزیر، صوبائی اسمبلیکے الفاظ استعمال ہوں انہیں گلگت بلتستان، حکومت گلگت بلتستان، وزیر حکومت گلگت بلتستان، اور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی پڑھا جائے گا۔ اور سٹیزن آف پاکستان کے الفاظ کا مطلب ہو گا کہ پاکستان کے وہ شہری جن کے پاس گلگت بلتستان کا ڈومیسائل ہوگا۔
ساتویں ترمیم جدول دوم میں تجویز کی گئی ہے جو صدارتی انتخاب سے متعلق ہے۔ جدول دوم کے پیراگراف اٹھارہ کے ذیلی پیرا1کی شق (ب) کے اختتام پر درج ذیل شق شامل کی جائیگی:
آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہر ایک امیدوار کے حق میں ڈالے ہوئے ووٹوں کی تعداد کو اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے ، جس میں فی الوقت سب سے کم نشستیں ہوں ضرب دیا جائے گا ۔ اور قانون ساز اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں ووٹ ڈالے گئے ہوں چار مرتبہ تقسیم کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد کشمیر: سیاحت اور تاریخی ورثہ کا مرکز
سیاحوں کے لئے ہوٹلز، رہائشی مکانات ، لاگ کیبن ، گیسٹ ہاو سز، ٹورسٹ ہٹس ، لکڑی کے بنے گھر،کیمپنگ سائٹس سمیت دیگرکئی منصوبے بنائے جارہے ہیں۔سیاحوں کے لئے ہوٹلز، رہائشی مکانات ، لاگ کیبن ، گیسٹ ہاو سز، ٹورسٹ ہٹس ، لکڑی کے بنے گھر،کیمپنگ سائٹس سمیت دیگرکئی منصوبے بنائے جارہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاحوں کوجانے کے لئے وزارت داخلہ حکومت پاکستان سے پیشگی اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ جس کے بعد بین الاقوامی سیاحوں نے آزاد کشمیر کا رخ کیا، وہ مظفرآباد اور راولاکوٹ تک پہنچے۔
وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن نمبر 18/97/1973-PE-II ,21-3-2019 کے مطابق گلگت بلتستان میں پاک چین سرحد سے 10میل کے فاصلے تک ، آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے 5میل کے فاصلے تک اور سیاچن میں پاک بھارت ایکچوئل لائن آف کنٹرول سے 10میل کے فاصلے تک تمام غیر ملکیوں کو بغیر پیشگی اجازت نامہ جانے کی اجازت ہے۔اس سے قبل آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں سیاحت کے فروغ کیلئے نجی شعبے کو آزادکشمیر کے سیاحتی منصوبوں میں سرمایہ کاری اورمحکمہ سیاحت کی جانب سے نجی سرمایہ کاروں کو زمین یا بلڈنگ لیز پر منتقل کرنے کے بارے میں آرڈیننس منظور کیا گیا تھا اور وزیر سیاحت کی سربراہی میں ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی گئی، اسے سٹیٹ ٹورازم ایگزیکٹو کمیٹی کہا جائے گاجو آرڈیننس رولزاور سیاحتی پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔ اب بین الاقوامی سیاحوں کو ریاست پاکستان کی جانب سے اجازت نامہ جاری کرنے کے بعد جہاں مقامی حکومت کی ذمہ داریاں بڑھیں گی وہیں آزاد حکومت کو اس صنعت سے اچھا زر مبادلہ بھی حاصل ہو گا۔
آزاد کشمیر میں آمدنی کے سب سے زیادہ مواقع ہائیڈل پاور کے بعد سیاحت میں ہیں۔ ہائیڈل پاور کے حوالے سے آزاد حکومت اور ریاست کے پاس اختیارات نہیں ہیں جس کی وجہ سے آزاد حکومت اور آزاد کشمیر کے عوام اس صنعت سے مستفید نہیں ہوسکتے تاہم سیاحت آزاد کشمیر کیلئے ایسی صنعت ہے جس سے عام آدمی سے لیکر آزاد حکومت تک مستفید ہو سکتے ہیں۔ پانچ ہزار مربع میل کے اس علاقے میں سینکڑوں خوبصورت سیاحتی مقامات کے ساتھ ساتھ سینکڑوں تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ بھی موجود ہیں جو آزاد کشمیر میں سیاحت کے فروغ کا سبب بن سکتے ہیں۔
سیاحت بنیادی طور پر تفریح، فرحت بخشی،صحت افزائی، اطمینان بخشی یا قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے مقاصد کے لئے سفر کو کہتے ہیں۔اس سے مختلف ثقافتوں اور خطوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔سیاحت کی مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والی سیاحت، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کو دیکھنے جاتے ہیں،تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں اور ایڈونچر ٹورازم(مہم جوئیانہ سیاحت) جس میں مختلف دشوار گزار راستوں اور دریاوں وغیرہ کا سفر کیا جاتا ہے۔
آزادریاست جموںوکشمیرمیںقدرت کے بے شمار نظارے موجود ہیں،اس کے ساتھ ساتھ مختلف قلعے،تاریخی مقامات،آثار قدیمہ عمارتیں، وادیاں، دریا، جنگلات، جھیلوںسمیت بہت کچھ موجود ہے۔اسی طرح آزاد کشمیر میں تینوں اقسام کی سیاحت فروغ پاسکتی ہے۔
آزاد کشمیر آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثہ میں ممتاز مقام رکھتاہے۔ جہاں نامور حکمرانوں کے بنائے قلعہ جات طرز تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں تو وہیں مساجد ، مندر، گردوارے اور درگاہیں مذاہب کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کا آئینہ دار ہیں۔2008 میں آزاد حکومت نے 26 تاریخی مقامات کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیںسیاحتی مقام کا درجہ دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
ایک تحقیق کے مطابق آزاد کشمیر100سے زائد قدیم تاریخی مقامات ہیں۔ جن میں قلعے ، مذہبی عبادت گاہیں، باولیاںاور کئی تاریخی عمارات کی بڑی تعداد موجود ہے جو ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کا عکاس ہے تاہم آزاد حکومت کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی کے باعث آثار قدیمہ کی حفاظت نہ کی جا سکی۔ ان مقامات کو آزاد حکومت سیاحت کے مقاصد کیلئے استعمال کرے اور ان کی حفاظت کرے تو آزاد کشمیر کی سیاحت میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور اس سے بین الاقوامی سیاحوں کی آزاد کشمیر میں دلچسپی بھی بڑھے گی۔آزاد کشمیر میں تاریخی ورثہ ہمیشہ سے خطرات سے دوچار رہا تاہم اب آزاد حکومت کی جانب سے آثار قدیمہ کے حوالے سے دلچسپی دکھائی جا رہی ہے اور آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی میں آرکیالوجی کا شعبہ قائم کیا گیا ہے جس سے آثار قدیمہ کے حوالے سے تحقیق ہو سکے گی۔
آزاد کشمیر میں آثار قدیمہ کے حوالے سے سب سے زیادہ شہرت پانے والا مقام شاردہ ہے جو نیلم میں موجود ہے۔ یہ قبلاز مسیح سے تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ مقام آج بھی ہندو مت، بدھ مت اور شیو مت کے نزدیک مقدس جانا جاتا ہے۔ جب پاکستان کی جانب سے سکھوں کیلئے کرتار پور بارڈر کھولا گیا تو ہندوں کی جانب سے شاردہ کا رستہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا جو اس مقام کی اہمیت کا ایک ثبوت ہے۔محققین کے مطابق3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیا میں آنے والے برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس جگہ آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہیں جن کے نام پر شاردہ گاں آج بھی تابناک تاریخ اور اجڑے مقامات لیے موجود ہے۔یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔یہاں بڑے بڑے پتھروں کی 18سے28فٹ اونچی دیواروں کا بغیر چھت کا چبوترہ موجود ہے جو تہذیبوں کے مرکز کے طور پر مشہور ہے۔ہر سال ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیلم میں کشن گیتی غار بھی مشہور تاریخی مقام ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بڑی تعداد میں قلعے موجود ہیں جو یہاں کے حکمرانوں کی طرز حکمرانی اور فن تعمیر کے عکاس ہیں:
آزاد کشمیر میں موجود قلعوں میں
٭ قلعہ اور جھیل باغ سر( بھمبر کا ایک خوبصورت اور تاریخی مقام باغسرمیں واقع ہے۔ اس کی تعمیر مغلیہ دور میں ہوئی۔ یہ قلعہ ایک تاریخی روایت کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ جہانگیر جب دورہ کشمیر پر آیا تو واپسی میں وہ قلعہ باغ سر میں بیمار ہوا اور یہیں پر اس نے وفات پائی۔ اس کے جسد کو باغ سرسے لے جاکر لاہور میں دفن کیا گیاتھا۔ مغلوں کے بعد دیگر بادشاہ بھی قلعہ باغ سر میں رہے۔ قلعے کے دامن میں واقع باغ سر جھیل اس جگہ کے حسن کو دوبالا کرتی ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے)۔
٭ قلعہ رام کوٹ ضلع میر پور (قلعہ رام کوٹ آزادکشمیر کا منگلا جھیل میں گھرا ہوا ایک گمنام قلعہ جو ڈھنگروٹ کے قریب ہے۔ قلعہ رام کوٹ جہلم اور پونچھ دریاوں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر قائم ہے،جو تین اطراف سے دریاوں میں گھرا ہے۔ منفرد طرزِ تعمیر کی بنا پر رام کوٹ قلعہ کشمیر میں تعمیر کیے گئے باقی قلعوں سے کافی مختلف ہے۔ یہ قلعہ 900 سال قبل 1150 عیسوی میں گکھڑ دور میں سلطان راجن نے تعمیر کروایا اور اس کا نام قلعہ ترلو رکھاگیا۔ 1206 میں مسلم حکمران شہاب الدین غوری نے اسے فتح کیا۔ پھر سکھوں نے جب یہ علاقے فتح کئے تو1585 میں رانی منگو نے اس قلعے کی ایک بار پھر سے تزئین و آرائش کی اور نام بھی بدل ڈالا۔یہ قلعہ انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ کے زیرِ تسلط آیا۔ قلعہ ایک قدیم ہندو شیو مندر پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن اس کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اس بات میں شک کرنا مشکل ہے کہ اس کی آخری تعمیر سولہویں صدی میں ہوئی۔پانی کے تالابوں کے بارے میں مورخین یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں کہ آخر اس نسبتاً چھوٹے قلعے میں اتنے بڑے تالاب کیوں بنائے گئے ہیں۔ اس وقت قلعے کا زیادہ تر حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن ماضی کی شان و شوکت کی چند علامات اب بھی باقی ہیں۔)
٭ بارل قلعہ پلندری (پلندری سے بارہ میل جنوب کی طرف دو بڑے نالوں کی درمیان اونچی گھاٹی پر ایک عمر رسیدہ اور خستہ حال عمارت جو قلعہ بارل کے نام سے مشہور ہے، زمانے کی مسلسل بے اعتنائیوں کے باوجود اپنی مثال آپ ہے۔ یہ عمارت تقریباً پونے دو سو سال قبل تعمیر ہوئی۔ یہ قلعہ بارل کے وسط میں واقع ہے اور ایک سو برس تک ڈوگرہ حکومت کامقامی مرکز رہا ہے۔ اس کے مشرق میں کوہالہ، مغرب میں اٹکورہ، شمال میں پلندری اور جنوب میں سہنسہ و اقع ہیں۔ اس کا سنگ بنیاد 1837 میں مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور میں رکھا گیا۔ اسکے پتھر سہر نالہ (جو ڈیڑھ میل کی دوری پرہے)سے لائے گئے۔ علاوہ ازیں سرخی اور چونا پنیالی(جو پانچ میل کی دوری پر ہے)سے لایا گیا۔
قلعہ کی تعمیر میں جو پتھر استعمال ہوئے ہیں وہ مختلف سائز کے ہیں جن میں سب سے چھوٹا پتھر 47 انچ جبکہ سب سے بڑا 127 انچ کا ہے۔قلعے کی اندرونی دیواریں 22 انچ چوڑی ہیں جبکہ باہر کی دیوار 38 انچ چوڑی ہے جس میں بندوقوں اور ہلکی توپوں سے فائر کرنے کی جگہیں موجود ہیں۔ قلعے کی تکمیل 1839 میں ہوئی۔ ڈوگرہ سا مراج کے قدم اکھڑتے ہی وہی قتل گاہ خاص و عام بچوں کی ایک تربیت گاہ میں بدل گئی۔ 1947ء سے1957ء تک اس قلعے سے مڈل سکول کا کام لیا گیا کیونکہ سکول کیلئے کوئی دوسری عمارت موجود نہ تھی۔ یہ عمارت جو آج کل اپنی بے بسی اور کسمپرسی پر سرگر یہ کناں ہے دو ہالوں اور اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کے وسط میں ایک کنواں ہے جس کی گہرائی کافی زیادہ ہوا کرتی تھی لیکن وہ اب مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے۔)
٭باغ قلعہ( ضلع باغ میں واقع ہے اور باغ پولیس کے انتظام میں ہے)۔
٭ قلعہ کرجائی (یہ قلعہ کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ سے تقریباً 13 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔)
٭ بھرنڈ قلعہ سہنسہ(سہنسہ میں موجود اس قلعے سے پورے سہنسہ کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ قلعہ ڈوگرہ دور میں تعمیر ہوا )۔
٭ قلعہ منگلا میرپور( یہ قلعہ میرپور میں دریائے جہلم کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعہ کا نام بادشاہ پورس کی بیٹی منگلا دیوی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا)۔
٭لال قلعہ (ریڈ فورٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مظفر آباد شہر میں واقع ہے ۔ یہ قلعہ چک دور کے حکمرانوں نے تعمیر کروایا)۔
٭قلعہ گوجرا (اسے بلیک فورٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بھی مظفرآباد شہر میں واقع ہے)۔
٭برجان فورٹ(یہ قلعہ میرپور میں موجود ہے)۔
٭ تھروچی قلعہ( یہ قلعہ ضلع کوٹلی کے علاقے گلپور میں واقع ہے اور منگرالوں کے دور میں اس کی تعمیر ہوئی۔)
٭سوہلناں قلعہ ( یہ کوٹلی میں واقع ہے)۔
٭ایون قلعہ (یہ قلعہ دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ہے اور ڈوگرہ دور میں تعمیر کیا گیا)، اس کے علاوہ ٭چک قلعہ،اور٭آئن فورٹ بھی شامل ہیں ۔
تقسیم سے پہلے آزاد کشمیر کے علاقے میں غیر مسلموں کی آبادی 12 فیصد تھی اور ہندو اور سکھ پورے علاقے میں موجود تھے۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ ان کی کئی جاگیریں تھیں اور معاشی اعتبار سے بہت مضبوط تھے۔ اس کی معاشی حالت مضبوط ہونے کے باعث وہ پورے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے اور ان ان کی عبادت گاہیں (گردوارے اور مندر ) پھیلی ہوئی تھیں۔ اس لیے آزاد کشمیر میں آج بھی ان کی عبادت گاہیں موجود ہیں جو تاریخی ورثے کا حصہ ہیں۔
آزاد کشمیر میں گردوارے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
جن میں ٭علی بیگ گوردوارہ( یہ گوردوارہ بھمبر میں موجود ہے اور ابھی تاریخی سیاحتی مقام کے طور پر مشہور ہے۔٭دیری صاحب گردوارہ( یہ راولاکوٹ میں موجود ہے مقامی طور پر سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں) ، ٭ دھمنی گوردوارہ راولاکوٹ میں ہے اس کے علاوہ بھی پونچھ کے مختلف علاقوں میں مندر پائے جاتے ہیں جن کی نشان دہی اور تحقیق ہونا باقی ہے۔
اسی طرح مندر بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں ٭سیتا رام مندر( مدینہ مارکیٹ مظفرآباد میں موجود ہے)،٭ پرانا سیکرٹریٹ مندرمظفرآباد، ٭چناری مندر، اس کے ساتھ کوٹلی میں کئی مندر موجود ہیں جس طرح موجودہ وقت میں کوٹلی میں مساجد کثیر تعداد میں موجود ہیں کسی وقت یہاں مندروں کی تعداد درجنوں میں رہی ہے۔ کوٹلی میں دریائے پونچھ کے کنارے کئی مندر ہیں جو آج بھی صحیح سلامت ہیں جن میں٭بلیاں محلہ مندر کوٹلی، ٭ شیوا مندر(جمال پور کوٹلی۔ کوٹلی شہر کے محلہ جمال پور میں واقع ہے۔)٭ کوٹلی میں دریائے پونچھ کے کنارے تین مندر ہیں جن میں ایک چھوٹا اور دو بڑے مندر ہیں، ٭ کوٹلی شہر کے محلہ شاہی جامعہ مسجد میں ایک مندر زیر زمین ہے جو ابھی تک موجود ہے۔ یہ مندر گھروں کے درمیان میں موجود ہے ، اہل محلہ کی دیکھ بھال کے باعث یہ مندر اچھی حالت میں موجود ہے۔ ٭منڈھول مندر ،٭ دھیرہ مندر ،٭ سیری مندر، ٭بھانگانہ مندر ،٭ بھرنڈ مندر ، ٭کیانی بیان مندر اور ٭ مترانی مندر شامل ہیں۔
سکھ دور کی کئی باولیاں بھی موجود ہیں جو اس دور کے فن تعمیر اور تاریخ کا بڑا حوالہ ہیں۔ یادرے کہباولی پانی کے چشمے کو کہا جاتا ہے ۔ سکھوں کی باولیوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مخصوص طرز پر تعمیر کی گئیں ہیں جو اب بھی منفرد نظارہ رکھتی ہیں۔ آزاد کشمیر میں موجود ان باولیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے تاہم ان میں سے کئی باولیاں بہت مشہور ہیںجن میں٭رانی کی باولی تیتری نوٹ( یہ ضلع پونچھ میں لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے یہاں سے آج بھی اہل محلہ پانی بھرتے ہیں)، ٭رانی بلاس پوری کی باولی (رانی بلاس پوری کی باولی کے نام سے مشہور عمارت پلندری شہر کے قریب واقع ہے، پلندی شہر سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔)٭رانی کی باولی اور چھپر بھمبر،٭سیتا باولی بھمبر،٭برنا باولی ،٭ چڑھوئی باولی ،٭ سیری باولی ،٭ چوخ باولی ،٭ منڈھول بازار باولی،٭ رکھنتری باولی ،٭ شمس آباد باولی ،٭ آرارہ باولی ،٭ اپر کوئیاں باولی (راولاکوٹ کے نواحی علاقے کھائیگلہ کے قریب پائی جاتی ہے)، ٭خوشیانی بہک باولی (راولاکوٹ سے براستہ دھمنی تولی پیر جاتے ہوئے راستے میں ہے) ، ٭نالہ باولی ،٭ دحیرہ باغ باولی ،٭ بھگت کیر باولی ،٭ ناوان باولی،٭ طلب رام سنگھ باولی میرپور ،٭ ناوان ویل میرپور شامل ہیں۔
آزاد کشمیر کے تاریخی ورثے میں مغلوں کی یادیں بھی موجود ہیں جن میں مغل روڈ دونوں اطراف کشمیر میں مغلوں کی بہترین یادگار مانی جاتی ہے اس کے علاوہ ٭۔مغل مسجد بھمبر،٭ہاتھی گیٹ بھمبر ، ٭سرائے سعد آباد سماہنی ، ٭36۔مغل سرائے کوٹلی، ٭رانی باغ حویلی ، ٭نوری چھمب (آبشار) حویلی میں موجود ہیں ۔
کئی اولیائے کرام کے مزارات بھی موجود ہیں جو تقسیم سے قبل سے آج تک اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان درباروں میں ٭دربار سائیں سہیلی سرکار، ٭دربار پیرچناسی (مزار پیر شاہ حسین بخاری) ،٭ دربار کھڑی شریف میرپور، ٭دربار بابا شادی شہید ، ٭دربار مائی طوطی صاحبہ کوٹلی، ٭دربار سائیں میٹھا،٭ دربار کائیاں شریف ، ٭ دربار سالک آباد،٭ بابا شیر شاہ دربار کوٹلی،٭،دربار بابا شادی شہیدبھمبر، ٭دربار حاجی پیر ضلع حویلی(لائن آف کنٹرول کے پاس موجود ہے)، شامل ہیں۔
ان کے علاوہ کئی متفرق مقامات بھی ہیں جن میں ٭یادگار شہدائے منگ ہے ۔ یہاں ایک درخت ہے جس سے باندھ کر 1832ء میں سکھ حکمرانوں سے بغاوت کے جرم میں29 زندہ افراد کی چمڑیاں اتاری گئیں۔٭ڈاک بنگلہ ٹائیں ، ٹائیں ڈاک بنگلہ کے نام سے مشہور یہ ریسٹ ہاوس تاریخ پونچھ اور کشمیر میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ مہاراجہ ہری سنگھ اور برطانوی سرکار کے زیرِاستعمال رہا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ زمانے کے استبداد اوراربابِ اختیار کی روایتی بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہو کر اب تیزی سے کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔٭ قائد اعظم ٹورسٹ لاج ،برسالہ مظفرآباد،اس کی تعمیر ڈوگرہ میں ہوئی۔ اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ بانی پاکستان 25 جولائی 1944 کو یہاں رکے تھے جب وہ کشمیر کے دورے کے بعد سری نگر سے راولپنڈی جا رہے تھے۔٭کشن کور کی حویلی کھاوڑہ ،یہ حویلی مظفرآباد محض40کلو میٹر دور واقع ہے۔ڈنہ کچیلی گورنمنٹ کالج سے ملحق کشن کور کی تاریخی حویلی اور اس کے ساتھ پانی کی باولی ہے۔حویلی کی تعمیر مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور میں1916 میں ہوئی۔ ایک صدی کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود یہ عمارتیں اپنی پوری شان و شوکت سے کھڑی رہ کر گزرے حالات کا قصہ سنا رہی ہیں۔ 1947 سے یہ عمارت خالی پڑی ہے۔
کوٹلی کھوئی رٹہ میں کئی عجیب و غریب مقامات ہیں جو کسی تہذیب کا پتا دیتے ہیں ٭ وادی بناہ کی غاریں ، پریوں کے گھر کے نام سے مشہور یہ مقام کوٹلی میں ہے۔ ان غاروں کی دیواروں پر کشیدہ کاری موجود ہے جو کسی پرانی تہذیب کا پتا دیتے ہیں۔ اسی طرح قریب ہی ایک دوسری سرنگ بن گنگا سرنگ کھوئی رٹہ، موجود ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ سرنگ کھوئی رٹہ سے راجوری جانے کا مختصر راستہ تھا تاہم اب یہ سرنگ بند ہو چکی ہے۔ ٭ بارات کے پتھر، کھوئی رٹہ کے مقام پر موجود ان پتھروں سے کئی عجیب کہانیاں منسلک ہیں تاہم یہ مقام بھی ایک تاریخ رکھتا ہے اور تحقیق کرنے والوں کو دعوت دیتا ہے۔ ٭ منجواڑ کھوئی رٹی کے مقام پر کسی پرانی تہذیب کے آثار ملتے ہیں اس کے علاوہ ٭قدیم غاریں نزد دربار مائی طوطی،٭ اصحاب رڈا( سات قبریں) بھی مشہور ہیں تاہم اس بارے تحقیق ہونا ابھی باقی ہے۔
یہ آزاد کشمیر میں قدیم مذہبی، تاریخی اور ثقافتی مقامات کی تفصیل ہے جن کی مرمت کے بعد آزاد حکومت ان کو سیاحت کیلئے کھول سکتی ہے اور اربوں روپے کا زرمبادلہ حاصل کر سکتی ہے۔
آزاد کشمیر کے تاریخی مقامات کے حوالے سے ثقافتی ورثہ پر تحقیق کرنے والی پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ خان کہتی ہیں کہ آزادکشمیر حکومت نے تاریخی اور قدیم ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی انھیں سیاحت کیلئے استعمال کرنیکی کوئی پالیسی بنائی ہے۔ آزادکشمیر حکومت ابھی تک مظفرآباد میں موجود تاریخی مقامات کو زلزلہ کے بعد مرمت نہ کر سکی تو دیگر جگہوں کو کیسے درست کرے گی؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسی تاریخی اور مذہبی جگہوں کو سیاحت کے استعمال سے قبل محفوظ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور انھیں محفوظ کرنے کے کئی مراحل ہوتے ہیں۔ جن میں ابتدائی مرحلہ کسی جگہ کی نشاندہی (ڈاکیومنٹ) کرنا ہوتا ہے،پھر اس کی پروٹیکشن کا مرحلہ آتا ہے جس میں جگہ کی صفائی وغیرہ کرنا ہوتا ہے اور حفاظت کا بندوبست کیا جائے، پھر کنزرویشن شروع کی جاتی اور پھر اس کو اصل اور پرانی حالت میں لانے کے اقدامات کرنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سائٹ کی تاریخ پر مبنی تختی لگائی جاتی ہے اور اس کے بعد سیاحوں کیلئے کھولی جاتی ہے۔ آزادکشمیر حکومت زبانی طور پر سیاحت کا سال منا رہی ہے لیکن ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنا کر سیاحتی مقامات کیلئے استعمال کرنے کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔
مذہبی ، تاریخی اور ثقافتی سیاحت کے حوالے سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے ترجمان راجا وسیم نے بتایا ہے کہ ثقافتی ورثے کو سیاحتی مقامات میں تبدیل کرنے کیلئے حکومت نوٹیفیکیشن کرچکی ہے اور اس کے ساتھ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ میں آرکیالوجی ونگ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آرکیالوجیکل ایکسپرٹ رکھے گئے ہیں جو ان سائٹس پر کام کر کے ان کی تعمیر نو یا سیاحتی مقام بنانے کیلئے کام کر سکیں گے۔ اس سال بھی ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے کام نہ کرنے کے باعث ثقافتی سیاحت کیلئے مختص کئی فنڈز سرنڈر ہوئے ہیں جس پر وزیر اعظم آزاد کشمیر نے سخت نوٹس بھی لیا۔اب آرکیالوجیکل ونگ کے تحت ان سائٹس کی مرحلہ وار تعمیر نو کیلئے ایک کمپنی(جس کمپنی نے پاکستان کی کئی آرکیالوجیکل سائٹس کی تعمیر نو کی تھی) کی خدمات حاصل کی گئی ہیں تاکہ آزاد کشمیر میں مذہبی ثقافتی سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ اس کے ساتھ سیاحوں کی سہولیات کیلئے ہوٹلز، رہائشی مکانات ، لاگ کیبن ، گیسٹ ہا سز، ٹورسٹ ہٹس ، لکڑی کے بنے گھر،کیمپنگ سائٹس ،سیاحوں کے گروپ کے لیے رہائشی سہولیات ،ریسٹ ہاوسز، ریسٹورنٹس ،ٹینٹ اور دیگر منصوبے بنائے گئے ہیں جن پر کام جاری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پانچ ہزار مربع میل علاقے پر محیط آزادریاست جموں و کشمیر میں سیاحت کو ایک صنعت کا درجہ دینے کیلئے قدرتی حسن، مذہبی مقامات ، آثار قدیمہ اور ایڈونچر ٹورازم کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کرتے ہوئے حکومتی سرپرستی اور نجی شعبے کے اشتراک سے ڈیویلپ کیا جائے، تمام علاقوں تک آسان رسائی کیلئے سڑکوں کی بہتری اور پختگی کے علاوہ سیاحوں بالخصوص بین الاقوامی سیاحوں کو تمام تر جدید سہولیات کی فراہمی کیلئے ترجیحی اقدامات کئے جائیں اورپھر بین الاقوامی سیاحوں کا رجحان اس حسین و جمیل خطے کی جانب موڑنے کیلئے تمام تاریخی، قدرتی اور مذہبی مقامات کی عالمی برانڈنگ کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ اس شعبے کو باضابطہ صنعت کا درجہ دیکر نہ صرف اس خطے کی معیشت کو ترقی دی جا سکے بلکہ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے خوبصورت اور پر امن چہرے کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے اب تک
پیش کئے جانے والے فارمولے
گذشتہ سات دہائیوں مین مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے درجنوں فارمولے پیش کئے گئے۔ جس پر کبھی کسی فریق نے اعتراض کی مہر لگا دی ۔ اور یہ ممکنہ حل شاید آپ کے اقوام متحدہ کی ردی میں ملین یا کسی پکوڑے بیچنے والے کے پاس پرانے اخبار کے کسی ٹکڑے میں ! البتہ میری نظر میں تنازعہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے۔۔۔ کشمیریوں کو حق رائے دہی کے ذریعے انکی مرضی کے مطابق کشمیر کی آزادی۔۔۔
ابرار احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ کشمیر کا ممکنہ حل کیا ہوسکتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہو گا؟مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقوں یعنی کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت نے ستر سالوں سے اس مسئلہ کے اپنے حق میں حل ہونے کے کئی سنہرے مواقع ضائع کئے ہیں اس لئے اب اس مسئلہ کا وہی حل ہوگا جو تینوں کے لئے قابل قبول ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ جموں کشمیر کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہوسکتا۔ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی اور اس سے یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید کئی سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ تو کیا مذاکرات سے بھارت جموں کشمیر کو پاکستان کے حوالے کردے گا جسے وہ اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور جس پر اربوں ڈالر وہ خرچ کرتا ہے؟ اور کیا پاکستان مذاکرات کے نتیجہ میں کشمیر دستبردار ہوسکتا ہے؟ ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
کیاکشمیری ایک آزاد اور خود مختار ریاست حاصل کرسکتے ہیں جس کے لئے کیا بھارت اور پاکستان اپنی افواج کو ریاست سے نکال لیں گے؟ اس صورت میں کیا پاکستان چین کے ساتھ اپنا جغرافیائی تعلق ختم کرنا گوارا کرسکتا ہے اور کیا بھارت اپنی سرحدوں کو گرداسپور تک محدود کرنے کا سوچ سکتا ہے؟ تقسیم کشمیر بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس وقت ریاست منقسم ہونے کے باوجود یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ہے۔ ان تمام امکانات پر غور کرتے ہوئے کسی ممکنہ حل کی طرف سوچنے کی ضرورت ہے اور وہ ایسا حل ہونا چاہیے جو کشمیری عوام کی خواہشات کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کا مستقل وہی ممکن ہو گا جس میں تینوں فریقوں کی منشا شامل ہوگی۔ اگر کوئی ایک فریق بھی رضامند نہ ہوا تویہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکے گا، اس لئے جذباتی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو پہل کرنی چاہیے کیونکہ وہ ایک بڑا ملک اور اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ بھارت کو یہ جمہوری اصول ریاست جموں کشمیر پر بھی لاگو کرنا چاہیے۔ بھارت کو اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ کر یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ مسئلہ موجود ہے اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ بھارت کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کے زور پر کسی بھی قوم کو ہمیشہ کے لئے زیر قبضہ نہیں رکھا جاسکتا۔ کشمیر میں اب تیسری نسل ہے جو زیادہ شدت سے جدوجہد آزادی میں قربانیاں پیش کررہی ہے۔ یہ مسئلہ جوناگڑھ یا حیدرآباد کی طرح نہیں کہ بقول نہرو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہوسکا اور یہ مسئلہ پوری شدت سے موجود ہے جس کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دیتی ہے۔ بھارت کو اپنی عوام میں جذباتی فضا کم کرنی چاہیے تاکہ مسئلہ کشمیر کے کسی حل صورت میں اندرونی خلفشار اور دباو نہ ہو۔ اسی جذباتی فضا کو پاکستان میں بھی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔
یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان نے سرکاری طور پر کبھی بھی کشمیر کو اپنی شہ رگ نہیں قرار دیا اور پوری ریاست جموں کشمیر کو متنازعہ تسلیم کیا ہے۔ اس مسئلہ کے تیسرے فریق یعنی کشمیری قیادت کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ریاست سے اپنی افواج نکال لیں اور کشمیرکو کشمیری عوام کے حوالے کردیں۔ ستر سال کا عرصہ گزرنے کے بعد حالات بہت بدل چکے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قومی انا کی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں تاکہ جموں کشمیر کے عوام سکھ کے ساتھ جی سکیں اور اس کا فائدہ پاک بھارت کے عوام کو بھی پہنچے گا جن کی بہت بڑی تعداد غربت اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے پاکستان اور بھارت کے دفاعی اخراجات میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگی اور وہ رقم دونوں ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پر خرچ ہوگی۔ کشمیریوں سے کہیں زیادہ پاکستان اور بھارت کے عوام کو امن کی ضرورت ہے اور اگر برصغیر میں امن قائم ہوگیا تو یہ علاقہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ ہوگا۔ دونوں ممالک کو آپس میں لڑنے کی بجائے باہمی تعاون کی ضرور ت ہے جو تعلیم، صحت، تجارت، ثقافت، زراعت، صنعت و حرفت اور دوسرے کئی شعبہ جات میں کیا جاسکتا ہے۔ اس سنہرے دور میں اگر مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ پوری ریاست جموں کشمیر کو دس سے پندرہ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کے لئے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے اور دوران دونوں ممالک کا ریاست جموں کشمیر سے مشترکہ تعلق بھی قائم رہے۔ یہ مدت گزر جانے بعد ریاست جموں کشمیر کے عوام سے آزادانہ ریفرنڈم کے ذریعے پوچھ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ دونوں ممالک کے مشترکہ نظام کے تحت رہنا چاہتے یا پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا اپنی آزاد و خودمختار ریاست چاہتے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں اور ضرورت ہے کہ اب سنجیدگی کے ساتھ اس ضمن میں کوشش کی جائے۔ ٹرسٹی شپ کونسل اقوام متحدہ کے چھ مرکزی اداروں میں سے ایک ہے جو آرٹیکل 75 اور 76 کے تحت کام کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قواعدکے مطابق کسی بھی متنازعہ علاقہ کے لئے ٹرسٹی شپ کونسل تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک گیارہ ممالک یو این ٹرسٹی شپ میں رہے ہیں جن میں ناورو ،گھانا ، ٹوگو لینڈ،مغربی سامووا، ٹینگا نیکا، راوانڈا ارونڈی، برطانوی کیمرون، فرانسیسی کیمرون، نیو گنی، بحرالکاہل جزائر اعتماد علاقہ، اطالوی صومالی لینڈ شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے تحت بارہویں ٹرسٹی شپ ریاست جموں کشمیر کے لئے کیوں نہیں ہوسکتی؟ پاکستان ماضی میں ایسی تجاویز جنوری 1951 میں دولت مشترکہ کانفرنس اور 1965 میں پیش کرچکا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے مشرقی تیمورکے طرز کی تجویز پیش کی۔ اب بھارت کو بھی چاہیے کہ جرات مندانہ فیصلے کرے اور آگے بڑھے۔ بھارت کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کی دوستی کی پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی تجاویز پیش کرنے چاہیں اور آنے والے نسلوں کو جنگوں کی تباہی کے خطرات کی بجائے پر امن اور خوشحال مستقبل کی نوید دینی چاہیے۔
1947ء میں بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج کو بھیج کر قتل غارت کے بعد زبردستی اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ کشمیریوں نے کبھی بھی دل و دماغ سے بھارت کو قبول نہ کیا ہے۔ کشمیری چاہتے ہیں کہ بھارت کشمیر کو خالی کر دے اور وہ خود اپنی آزادانہ مرضی اور خواہش سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ بھارت نے شروع شروع میں کشمیریوں کے اس موقف سے اتفاق کیا تھا کہ ریاست میں یو این او کی نگرانی میں ہونے والی آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری میں کشمیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں گے۔ افسوس کہ اس بھارتی اتفاق کے باوجود آج تک کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام نہ کیا جا سکا ہے اس طرح مسئلہ کشمیر جوں کا توں سرد خانہ میں پڑا چلا جا رہا ہے۔ وقت کا یہ اہم ترین تقاضہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ کشمیری خود اپنی آزادانہ خواہش اور مرضی سے مسئلہ کشمیر کو حل کریں گے تو سرزمین پاکستان اور بھارت میں امن و خوشحالی کا ظہور ہو گا اور اس طرح یہ خطہ دنیا کا ایک انتہائی خوشحال علاقہ بن جائے گا، دونوں ملکوں سے غربت اور جہالت کا خاتہ ہو گا، دونوں ملک امن و آشتی کے ساتھ ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتے چلے جائینگے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اس دیرینہ ترین مسئلے کو آج ہی حل کر دیا جائے۔ اس لئے بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز آئے اور وہ پاکستان کے ساتھ گفت و شنید کا آغاز کرے۔ یہ بات چیت صرف اور صرف وقت گزارنے کیلئے ہرگز نہیں ہونی چاہئے بلکہ دونوں ممالک کو اسکے حل کی طرف انتہائی دیانتداری اور نیک نیتی سے آنا ہو گا۔ گہری سوچ کے بعد مَیں کشمیر کے جھگڑے کے حل کیلئے ایک تجویز پیش کرتا ہوں :
ریاست جموں و کشمیر میں تین مرحلہ جات میں رائے شماری کا اہتمام کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں ان علاقوں میں رائے شماری ہو گی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ خود اپنی آزاد مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنا الحاق کریں گے۔
دوسرے مرحلے میں جموں وغیرہ کے ہندو علاقوں میں رائے شماری کی جائیگی کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس ملک کیساتھ شامل ہونے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے ریاست کے اکثریتی مسلمان آبادیوں والے تمام کے تمام علاقے پاکستان کیساتھ شامل ہونے کا اعلان کرینگے۔ اس مرحلہ سے گزرنے کے بعد ہندو اور بُدھ مت علاقوں میں رائے شماری ہو گی اور اس طرح وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ملک کیساتھ وابستہ ہونے کا اعلان کرینگے۔ اس طرح ریاست جموں و کشمیر کا جھگڑا امن و آشتی سے حل ہو جائیگا۔
دنیا اب بہت آگے کی سوچ میں مصروف ہے آج کا یورپ معاشی میدان میں ایک ہوتا ہُوا نظر آتا ہے۔ یورپ کے 27 ملکوں میں صدیوں سے خوفناک خونی جنگیں ہوتی رہی ہیں، لاکھوں لوگوں کا قتل عام ان جنگوں میں ہوتا رہا ہے آج وہی یورپ ایک وحدت میں نتھی ہو چکا ہے اس خطے میں بھی حق و انصاف کی بنیاد پر یورپ کا عمل دہرایا جا سکتا ہے اگر جرمنی اور برطانیہ میں امن قائم ہو سکتا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی انصاف کی بنیادوں پر امن کا قیام ممکن نظر آتا ہے۔ یہ بات صرف اور صرف اس وقت ممکن ہو گی جب بھارت میں نازی جرمنی کی سوچ کا خاتمہ ہو گا۔ اس دور میں نازی جرمنی کی سوچ کا امکان کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔ کشمیریوں کو آزادی دے کر اور پاکستان کے ساتھ دوستی اور امن کا رشتہ قائم کر کے بھارت کو تجارتی میدانوں میں زیادہ معاشی اور تجارتی فوائد حاصل ہونگے۔ میری تجویز ہے کہ بھارتی رہنما بار بار یورپی ممالک کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ کس طرح یہ صدیوں پر محیط عرصے پر خوفناک جنگیں لڑنے والے ملک دوستی اور پیار کے رشتوں میں ایک ہو چکے ہیں۔ آج یورپ کے 27 ملک یورپین یونین کا نام اختیار کر چکے ہیں۔ بھارت والے یہ دیکھیں کہ کس طرح وہ انگریز اور جرمن جو پیدائشی طور پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے آج وہ رشتے دار بن کر ایک ہو چکے ہیں۔
برصغیر میں بھی یورپین یونین کی طرح سات ملکوں کی سارک بن چکی ہے۔ صد افسوس کہ سارک ناکامی کی طرف جا رہی ہے، آئیں ہم سب سارک کا رُخ ناکامی سے موڑ کر کامیابی کی طرف لے آتے ہیں شرط صرف اور صرف یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کر لیا جائے۔کشمیر کے جھگڑے کے ختم ہوتے ہی ہم انتہائی تیزی سے بھارت کے ساتھ دوستی کے راستے پر چل پڑیں گے، پرانی دشمنیاں ختم ہو جائیں گی، سوشل اور تجارتی راستے کھل جائیں گے، سرحدیں نرم پڑ جائیں گی۔ ہر طرف تجارت ہی تجارت کی بات ہو گی۔ اس طرح اس خطے سے جہالت، غربت، بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ خوشحالی پاکستان اور بھارت دونوں کا مقدر بن جائے گی۔ دنیا کے کروڑوں لوگ سیر و تفریح کیلئے اس خطے کا رُخ کیا کرینگے۔ بھارت کو پاکستان سے بے معنی مقصد دشمنی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہی ہو گا۔ بھارت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس بات کو سمجھ لے کہ پاکستان تاقیامت قائم و دائم رہنے کیلئے بنا ہے۔ اب سرزمین پاکستان ناقابل تسخیر بن چکی ہے۔ پاکستان اس وقت 25 کروڑ آبادی والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، کراچی، میرپور وغیرہ جدید ترین شہر بن چکے ہیں۔خوشحالی اور امن ہمارا مقدر بن چکا ہے۔
مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل اس کے تینوں فریقین کی رضامندی سے ہی ممکن ہے۔ ماضی و حال میں اس حوالے سے بہت سی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں جن میں 10 ایسی ہیں جن میں اس مسئلے کا ممکنہ حل پوشیدہ ہو سکتا ہے۔
1۔ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے
پاکستان مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری کا حامی ہے۔ ان قراردادوں کی رو سے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا انڈیا کا حصہ بننا چاہیں گے۔ پاکستان کو یقین ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت اس کے ساتھ رہنا چاہے گی۔
پاکستان اس دلیل کو رد کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں فرسودہ ہو چکی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی نئی قرارداد ہی ان قراردادوں میں ترمیم یا تنسیخ کر سکتی ہے۔ رائے شماری کی تجویز انڈیا کے لیے قطعی ناقابل قبول ہے جس کا خیال ہے کہ اگر کشمیر میں ریفرنڈم ہوا تو فیصلہ اس کے خلاف آئے گا۔
کشمیری عوام اقوام متحدہ کے زیراہتمام رائے شماری کی حمایت کرتے ہیں مگر ‘جے کے ایل ایف جیسے بعض گروہوں کا کہنا ہے کہ اس رائے شماری میں ‘آزادی کا آپشن بھی شامل ہونا چاہیے۔
2۔ موجودہ سرحدوں کو تسلیم کر لیا جائے
انڈیا کا موقف ہے کہ پورا جموں و کشمیر اس کا لازمی جزو ہے جس میں آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات بھی شامل ہیں۔ انڈیا نے متعدد بار اشارے دیے ہیں کہ وہ کشمیر کی جغرافیائی حالت جوں کی توں رکھنے اور لائن آف کنٹرول کو دونوں ملکوں میں سرحدی لکیر تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ شملہ کانفرنس میں بھی انڈیا کا یہی کہنا تھا اور اب بھی وہ صرف اسی حد تک جانے کی بات کرتا ہے۔
یہ آپشن پاکستان اور کنٹرول لائن کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
3۔ کشمیر کو مکمل آزادی دے دی جائے
کشمیر کی مکمل آزادی کو عموماً اس مسئلے کے حل کے لیے ‘تیسرا آپشن کہا جاتا ہے۔ کشمیری عوام خصوصاً وہاں کی شہری آبادی اس آپشن کی حامی ہے۔ کشمیر میں اس موقف کے حامیوں کی اکثریت ہے یا نہیں اس کا تعین اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کشمیری اپنی رائے دینے میں آزاد ہوں گے۔
اب تک پاکستان اور انڈیا دونوں اس آپشن کو مسترد کرتے چلے آئے ہیں۔
4۔ دریائے چناب کو سرحد بنایا جائے
اس فارمولے کی رو سے وادی کشمیر میں مسلمان اکثریتی علاقے اور جموں میں غالب مسلم آبادی والے تین اضلاع (پونچھ، راجوڑی اور ڈوڈا) جو کہ دریائے چناب کے دائیں کنارے پر واقع ہیں انہیں پاکستان میں شامل کر دیا جائے اور بقیہ کشمیر انڈیا کا حصہ ہو۔
1962 اور 1963 میں بھٹو اور انڈین وزیر خارجہ سورن سنگھ کے مذاکرات میں مسئلے کے اس حل پر بھی بات ہوئی تھی مگر انڈیا نے اس پر کوئی پیشرفت نہ کی۔چناب فارمولے میں پونچھ، راجواڑی اور ڈوڈا کو پاکستان کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے
بعدازاں 1999 میں سابق سیکرٹری خارجہ نیاز نائیک اور ان کے انڈین ہم منصب آر کے مشرا میں ہونے والی بات چیت میں بھی مسئلے کا یہ حل زیرغور آیا تھا۔ ان دونوں کو پاک انڈیا حکومتوں نے غیرسرکاری طور پر یہ ہدف سونپا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کا کوئی ممکنہ حل تلاش کریں جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ تاہم اس گفت و شنید کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔پاکستان اور کشمیریوں کے لیے یہ حل قابل قبول ہو سکتا ہے مگر موجودہ حالات میں انڈیا کی جانب سے اس کی قبولیت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
5۔ اوون ڈکسن کا منصوبہ
اوون ڈکسن ایک آسٹریلوی قانون دان تھے جنہیں اقوام متحدہ نے 1950 میں مسئلے کے حل کی راہیں تلاش کرنے کا کام سونپا تھا۔ خطے کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد ڈکسن نے بتایا کہ کون سے علاقوں میں پاکستان یا انڈیا میں شمولیت کے حوالے سے عوام کی ترجیح واضح نہیں ہے۔
ان میں وادی کشمیر اور موجودہ آزاد کشمیر کے علاقے شامل تھے جن کا مستقبل بات چیت اور لوگوں کی رائے لینے کے بعد طے کرنے کی تجویز دی گئی۔ جہاں تک بقیہ کشمیر کا تعلق ہے تو اوون ڈکسن نے قرار دیا کہ جموں اور لداخ کو انڈیا جبکہ شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک تجویز یہ ہے کہ وادی کشمیر کو خودمختار ریاست بنا کر پاکستان اور انڈیا دونوں کو اس تک آزادانہ رسائی دے دی جائے
پاکستان کے لیے مسئلے کا یہ حل قابل قبول ہو سکتا تھا مگر انڈیا نے پہلے تو اس پر کوئی واضح موقف اختیار نہ کیا اور بعدازاں اس تجویز کو سرے سے رد کر دیا۔
6۔ کشمیر سٹڈی گروپ کی تجویز
1998 میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری ارب پتی فاروق کاٹھواری نے ‘کشمیر سٹڈی گروپ’ کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کیا۔ اس تھنک ٹینک میں جنوبی ایشیا اور امریکہ کے ماہرین شامل تھے۔ اس گروپ نے ‘متحدہ خودمختار ریاست’ کے نام سے ایک نئی تجویز پیش کی۔
اس تجویز کی رو سے عالمی طاقتوں کی نگرانی میں ہونے والی ووٹنگ کے ذریعے وادی کشمیر کو ایک خودمختار ریاست بنایا جانا چاہیے۔ تجویز کے مطابق اس ریاست کو عالمی سطح پر الگ ملک کا درجہ حاصل نہیں ہو گا اور پاک انڈیا دونوں ممالک کو اس تک آزادانہ رسائی حاصل ہو گی۔ بعدازاں اس تجویز میں یہ بات بھی شامل کر لی گئی کہ آزاد کشمیر بھی اس خودمختار ریاست کا حصہ ہو گا۔
تاحال پاکستان اور انڈیا دونوں نے اس تجویز پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
7۔ وادی کشمیر اقوام متحدہ کے حوالے کی جائے
سیاسی امور کے ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ کی تجویز ہے کہ جموں اور لداخ انڈٰیا جبکہ شمالی علاقہ جات پاکستان کا حصہ رہیں۔ جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے تو اسے 10 برس کے لیے اقوام متحدہ کی تولیت میں دے دیا جائے جس کے بعد ریفرنڈم کے ذریعے یہ طے ہو کہ وادی کے لوگ پاکستان یا انڈیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا آزاد رہنے کو ترجیح دیں گے۔
تاحال پاکستان اور انڈیا دونوں نے اس طرح کی تجویز پر کوئی بات نہیں کی اور فی الحال ان کی جانب سے مسئلے کا یہ حل قبول کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
8۔ یوسف بُچ کا فارمولا
پاکستان سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار یوسف بُچ نے کچھ عرصہ قبل مسئلہ کشمیر کے حل کی دو مراحل پر مشتمل تجویز پیش کی تھی جسے خاصی شہرت ملی۔
یوسف بُچ کے مطابق پہلے مرحلے میں کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کر کے تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔ دوسرے مرحلے میں اقوام متحدہ غیرمنقسم ریاست جموں و کشمیر کو پانچ ڈویژنوں میں تقسیم کر کے ان میں الگ الگ انتخابات کرائے گی اور ہر ڈویژن کی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ یہ پانچوں اسمبلیاں الگ الگ طے کریں گی کہ آیا وہ پاکستان یا انڈیا کے ساتھ موجودہ حالت میں رہنا چاہتی ہیں یا انہیں دونوں ممالک کے ساتھ کسی اور طرز کا تعلق درکار ہے۔
یہ فارمولا قدرے پیچیدہ بھی ہے اور پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ملک نے بھی اس پر غور کا عندیہ نہیں دیا۔
9۔ یورپی مثالوں پر عمل کیا جائے
مسئلہ کشمیر کے حل کی یہ تجویز امریکی ماہر سیلگ ہیریسن نے دی ہے جس میں وہ اٹلی اور سابق یوگوسلاویہ کے درمیان خودمختار علاقے ٹریسٹے کی مثال پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں سلاو سے تعلق رکھنے والے لوگ اٹلی کی حکومت میں رہ رہے ہیں مگر انہیں اپنی ثقافت اور قومیت برقرار رکھنے نیز اٹلی اور سلوانیہ میں آنے جانے کی آزادی ہے۔
ہیریسن کی تجویز ہے کہ انڈیا وادی کشمیر کو خودمختار علاقے کے طور پر خصوصی درجہ دے جبکہ پاکستان کو آزادکشمیر میں بھی یہی کچھ کرنا چاہیے۔ اس طرح دونوں اطراف کے کشمیریوں کو برابر خوداختیاری مل جائے گی۔
ہیریسن فارمولے کی رو سے لائن آف کنٹرول کو نرم سرحد کی حیثیت حاصل ہو گی جس سے اطراف کے لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا آسان ہو جائے گا۔
اس ضمن میں بعض ماہرین اٹلی کے علاقے ٹیرول کے حوالے سے اٹلی اور آسٹریا کے مابین اسی جیسے انتظام کی مثال بھی دیتے ہیں۔ اس علاقے کی آبادی جرمن زبان بولتی ہے جو ناصرف بڑی حد تک خودمختار ہے بلکہ اسے آسٹریا اور اٹلی میں آنے جانے کی بھی پوری آزادی حاصل ہے۔ تاہم پاکستان، انڈیا یا کشمیریوں میں سے کسی نے بھی اس تجویز میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
10۔ سپین اور فرانس سے سبق سیکھیں
اینڈورا سپین اور فرانس کی سرحد پر ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ کشمیر کی طرح اینڈورا بھی کبھی شاہی ریاست تھی۔ صدیوں سے اس ریاست کی ملکیت پر فرانس اور سپین میں تنازع چلا آ رہا تھا۔1993 میں دونوں ممالک نے اینڈورا کو خودمختار علاقے کا خصوصی درجہ دے کر یہ مسئلہ حل کر لیا۔ پاکستان اور انڈیا بھی کشمیر کو ایسا ہی درجہ دے سکتے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی جانب سے مسئلے کے اس حل کی بابت کبھی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقین اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ اس سے پاکستان اور انڈیا کو پہنچنے والے براہ راست مادی نقصان کے علاوہ کئی دیگر مسائل بھی اس مسئلے سے جڑے ہیں جن میں سیاچن، کارگل اور وولر بیراج نمایاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر نے سندھ طاس معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور مستقبل میں ایسے مزید کئی مسائل ابھر سکتے ہیں۔کشمیری اس مسئلے میں بری طرح متاثر ہونے والا فریق ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں کشمیر میں 91 ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں ممالک باہم مفید اقتصادی تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں اور باہمی مخاصمت پر اٹھنے والے اخراجات کو عوامی فلاح کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ مزید براں پاکستان اور انڈیا کا جوہری طاقتیں ہونا اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیتا ہے۔دیکھا جائے تو کشمیر کے مسئلے کا صرف وہی حل ممکن ہے جس میں اس کے تینوں فریقین کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے خاص طور پر پاکستان اور انڈٰیا کو اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر ایک دوسرے کو جگہ دینا ہو گی۔
اکٹر مختیار ملغانی کی تجویز
ڈاکٹر مختیار ملغانی کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کی تین ہی صورتیں ہیں جو ممکن ہو سکتی ہیں، اور ان تینوں صورتوں کا ، کشمیر میں ریفرینڈم پر انحصار نہیں، یعنی کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کا موقع دیا جائے، یا نہ دیا جائے، ہر حال میں تنازعے کے حل کی صرف درج ذیل تین صورتیں ہیں جو اپنے اندر مخصوص پیچیدگیاں لئے ہوئے ہیں۔
پہلی صورت یہ کہ پوری وادی کسی ایک ملک، پاکستان یا ہندوستان، کے حوالے کر دی جائے، یا کشمیری عوام ریفرینڈم کے ذریعے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں۔ لیکن اس صورت میں کچھ مشکلات ہیں، سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ بھارت یا پاکستان میں سے کوئی ایک ملک بھی اس بات پر متفق نہیں ہوگا کہ پورا کشمیر دوسرے ملک کے حوالے کر دیا جائے، وہ کشمیر جس کیلئے گزشتہ بہتر سالوں سے خون بہایا جاتا رہا ہے، دوسرا کمزور پہلو یہ کہ اقوامِ متحدہ اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے، بے شمار ریزولوشنز کے باجود عملی طور پر کچھ نہ کیا جا سکا، یہاں ایک تیسرا پہلو ، چین کی خطے میں دلچسپی ہے، تقسیم سے قبل کی ریاستِ کشمیر کے کچھ علاقے اس وقت چین کے قبضے میں ہیں، اور چین نہ صرف یہ کہ ان علاقوں کو واپس نہ کرے گا، بلکہ اپنی معاشی و جغرافیائی خواہشِ وسعت میں ً ھل من مزید ً کا نعرہ لگاتا دکھائی دے گا۔
دوسری صورت، ایک آزاد اور خودمختار ریاستِ کشمیر۔
یعنی کہ اگر کشمیر کے لوگ کسی کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے، بلکہ ریفرینڈم کے ذریعے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں تینوں فریق، ہندوستان، پاکستان اور چین کھُل کر ایک دوسرے کے سامنے آئیں گے، کیونکہ ہر ملک کا مستقبل اور مفادات جزوی طور پر کشمیر سے جڑے ہیں، بلکہ ریاستِ کشمیر اس وقت معاشی اور دفاعی طور پر تین حصوں میں بٹی ہے ، آزاد ملک کی صورت میں تین مختلف ممالک کے پنجوں سے نکلنا ، بھاری خون ریزی کے بغیر ممکن نہ ہوگا، اس سے اگلا قدم، ایک نئے آزاد ملک میں مختلف مذہبی اور قومی دہشتگرد تنظیموں کے پنپنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ایسی صورت میں افغانستان میں موجود مختلف جہادی تنظیمیں اپنا اگلا ہیڈ کوارٹر کشمیر کو منتخب کر بیٹھیں، کشمیر کے علیحدہ ملک کا نعرہ ہندوستان کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا کہ ایسی صورت میں آسام اور ناگا ریاست کے مطالبات کے ساتھ ساتھ خالصتان کی تحریک کو بھی تقویت ملے گی۔
تیسری صورت، جغرافیائی حدود و شناخت کو مدنظر رکھتے ہوئے وادی کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے کچھ حصہ ہندوستان کو، اور کچھ پاکستان کے حوالے کر دیا جائے، (جس حصے پر چین قابض ہے، وہ حصہ اس کے پاس رہنے دیا جائے )،اس صورت میں خود کشمیری متفق نہ ہو پائیں گے، اگر ریفرینڈم کے ذریعے کچھ علاقے ہندوستان کے ساتھ اور کچھ پاکستان کے ساتھ الحاق پر اتفاق کر بھی لیتے ہیں تو بھی کشمیر کی چھاتی پر ایک لائن آف کنٹرول برقرار رہے گی، جو ہندوستان اور پاکستان کا بارڈر کہلائے گی، اسی مقام پر وہی جھڑپیں اور کشمکش جاری رہی گے جو آج ہے، اور مختلف تنظیمیں اپنی اپنی خدمات اسی تناظر میں پیش کرتی رہیں گی جیسا کہ آج ہو رہا ہے، ایسا بٹوارہ کوئی نتیجہ نہ دے پائے گا، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد، والے محاورے کے مصداق صورتحال وہی رہے گی۔
ان تینوں صورتوں میں سب سے خطرناک اور خونریز، دوسری صورت ہے، یعنی کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاستِ کشمیر، مگر مسئلے کا حقیقی حل بھی یہی ہے،
رواں صدی کے آخر تک دنیا کے نقشے پر ممالک کی تعداد لگ بھگ پانچ سو ہو جائے گی، اس وقت معاشی حالات اور قومی حساسیت جیسے عناصر کا تقاضا ہے کہ زیادہ مگر چھوٹے ممالک کا قیام عمل میں لایا جائے، اور کشمیر کے معاملے میں بھی حقیقی اور پائیدار ،مگر مشکل ترین حل یہی ہو گا کہ کشمیر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے سامنے آئے، باقی دو صورتیں حل نہیں، بلکہ صرف معاملے سے جان چھڑانے والی بات ہوگی، مگر اس خطرناک اور خونریز حل، جس کے بغیر چارہ نہیں، کیلئے ضروری ہے کہ تنازعے کو بین الاقوامی سطح پر اس حد تک اجاگر کیا جائے کہ دنیا کے بڑے ممالک اور انسانی حقوق پر کام کرتی تنظیمیں نہ صرف متوجہ ہوں بلکہ اقوام متحدہ کو مجبور کریں کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے وجود، نہ صرف وجود بلکہ اس کے استحکام کیلئے ہر ممکن کوشش اور مدد کی جائے، مگر اس کیلئے خطے میں چین کے معاشی اثرات کو کم کرنا، افغانستان میں ایک پرامن حکومت کا قیام، ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو شعور و تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی طویل جدوجہد درکار ہے، وگرنہ معاملہ موبیس کے رِبن , Moebius tape, کی مانند ایک ہی سطح اور دائرے میں گھومتا رہے گا۔
سابقہ صدر مشرف کا کشمیر کے لیے ایک فارمولا
پاکستان کے سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے استصواب رائے اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنائے جانے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے حل کے لیے ایک نیا حل پیش کردیا ہے۔ان کے مطابق پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر سات حصوں میں تقسیم کیا جا
سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو طے کرنا ہے کہ کونسے حصے دونوں ممالک کے پاس ہوں اور کونسے حصے کو خودمختاری دی جا سکتی ہے۔تجویز کے مطابق خودمختار حصے کو اقوام متحدہ کے زیرانتظام کیا جا سکتا ہے یا پھر یہ دونوں ممالک کے مشترکہ کنٹرول میں بھی رہ سکتا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی تجویز کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دو حصے ہیں جو ان کے مطابق آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر مشتمل ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے پانچ حصے ہیں جن میں وادی کشمیر بھی شامل ہے جو کہ خالصتاً کشمیری ہیں۔ دوسرا علاقہ جموں کا ہے جس کے دو حصے ہیں ایک مسلمانوں اور دوسرا ہندووں کا ہے۔ تیسرا لداخ، چوتھا دراز کارگل اور پانچواں لیہھ کا حصہ بھارت کے زیرانتظام ہے۔انہوں نے کہا کہ لداخ بدھ مت والوں کا ہے جبکہ کارگل شیعہ مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ہے۔ ان سات علاقوں میںسے بھارت اور پاکستان کو طے کرنا ہے کہ ان حصوں کی تقسیم مذہبی بنیاد پر ہونی چاہیے یا لسانی یا جغرافیائی بنیادوں پر۔سابقہ صدر نے بتایا کہ جب وہ نیویارک میں بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملے تھے اس وقت انہوں نے ان سے کہا تھا کہ استصواب رائے اور کنٹرول لائن کو سرحد بنانے کی باتیں چھوڑیں اور دیگر تجاویز پر غور کریں۔انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے ان سے تجاویز پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔ صدر مشرف نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی تجاویز پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔ان کے بقول دونوں ممالک مختلف امکانات پر کام کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تجاویز عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے بحث کی خاطر اب پیش کریں یا ان پر پیش رفت کے بعد۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ ان کی رائے ہے کہ ابھی سے تجاویز بحث کے لیے عوام کے سامنے لانی چاہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply